Tumgik
#ایون
apnibaattv · 2 years
Text
وزیراعظم شہباز شریف نے ایون فیلڈ کیس میں بریت پر مریم اور صفدر کو مبارکباد دی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ایون فیلڈ کیس میں بریت پر مریم اور صفدر کو مبارکباد دی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ایون فیلڈ کیس میں بریت پر مریم اور صفدر کو مبارکباد دی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ایون فیلڈ کیس میں مریم نواز کی بریت شریف خاندان کے سیاسی ظلم و ستم کی ایک بڑی سرزنش ہے۔ جمعرات کو وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزاؤں کو کالعدم قرار دینے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے وزیراعظم شہباز شریف…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت، مقدمہ کیا تھا؟
ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سنہ 2018 میں مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں تین افراد کو سزا سنائی تھی، جن میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر شامل تھے۔ اس کے علاوہ نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دینے کے لیے کارروائی شروع کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سنہ 2018 میں ایون فیلڈ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 8 months
Text
اچھا جج بشیر، بُرا جج بشیر
Tumblr media
احتساب عدالت کے جج بشیر نے نیب کے مقدمہ میں سال 2018 میں نواز شریف اور اُنکی بیٹی مریم نواز کو ایون فیلڈ کیس میں مجرم قرار دیتے ہوے دس سال اور سات سال کی قید بامشقت کی سزا دی۔ اُس موقع پر عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماوں اور ووٹروں، سپوٹروں نے خوشیاں منائیں، مٹھائیاں تقسیم کیں اور اسے انصاف اور احتساب کے نام پر سراہا اور اس فیصلہ کا ہر جگہ دفاع کیا۔ آج تقریباً کوئی پانچ چھ سال کے بعد اُسی احتساب عدالت کے اُسی جج بشیر نے اُسی نیب کے توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور اُنکی اہلیہ کو 14,14 سال کی قید بامشقت اور کوئی ڈیڑھ ارب کے جرمانے کی سزا سنا دی۔ آج تحریک انصاف جج بشیر کے فیصلہ کو انصاف کا قتل قرار دے رہی ہے جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مٹھائیاں تو نہیں بانٹیں لیکن دونوں سیاسی جماعتیں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف فیصلہ کو انصاف کی عملداری کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ یاد رہے کہ انہی جج بشیر کی اسی عدالت کے سامنے اسی نیب کا توشہ خانہ ریفرنس کا مقدمہ نواز شریف، آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف درج ہے۔ 
نواز، زرداری اور گیلانی کے خلاف نیب نے توشہ خانہ ریفرنس چند سال پہلے دائر کیا تھا۔ عمران خان اور اُنکی اہلیہ کے خلاف توشہ خانہ کا کیس چند ماہ پہلے جج بشیر کی عدالت کے سامنے دائر کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کا کیس چند ماہ پہلے دائر ہوا، اُس کا نیب نے خوب پیچھا کیا اور آج جج بشیر کی عدالت نےاس مقدمہ میں فیصلہ بھی سنا دیا۔ جو توشہ خانہ کیس جج بشیر کی عدالت کے سامنے بہت پہلے دائر کیا گیا تھا وہ کہاں گم ہے، اُسکے حوالے سے نیب کیوں سویا ہوا ہے اور اُس کیس میں جج بشیر کیوں روزانہ کی بنیاد پر مقدمہ نہیں چلا رہے۔ جج بشیر کو ایک فرد کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ یہ ایک ایسے نظام کا نام ہے جس نے احتساب کے نام پر گزشتہ 25 سال کے دوران ہماری سیاست، ہماری ریاست، ہمارے نظام احتساب اور عدالتی سسٹم کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کیا لیکن اسکے باوجود جاری و ساری ہے۔ جج بشیر نے ماضی میں جو فیصلہ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف دیا اُس میں اُنکی بریت ہو چکی۔ 
Tumblr media
نیب اور عدلیہ کی آنکھیں نواز شریف کے حوالے سے بالکل بدل چکیں اور اب عمران خان جس نظام احتساب کو ماضی میں احتساب کے نام پر انصاف کا نام دیتے تھے، خوشی مناتے تھے، دوسروں کو مٹھائیاں کھلاتے تھے اُن کو آج سود سمیت وہی نظام 14 سال قید بامشقت واپس لوٹا رہا ہے اور آج وہ کہہ رہے ہیں کہ اُن کے ساتھ نانصافی ہو گئی اور احتساب کے نام پر اُن کو سیاسی وجہ پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ن لیگ کی طرف سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کے بعد پریس کانفرنس کی گئی اوراس فیصلے کو Justify کیا گیا۔ یاد رہے کہ جج بشیر کی طرف سے نیب کے توشہ خانہ کیس میں فیصلہ کو سراہنے والی ن لیگ نے اپنے حالیہ الیکشن منشور میں اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد نیب کے ادارہ کو ختم کر دے گی، جس سے نیب کی عدالتیں بھی ختم ہو جائیں گی کیوں کہ ن لیگ یہ سمجھتی ہے کہ نیب کے ادارے نے کبھی احتساب کیا ہی نہیں بلکہ احتساب کے نام پر سیاسی انجینئرنگ کی، غلط طریقہ سے سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو جیلوں میں ڈالا، اُن کو خلاف جھوٹے سچے مقدمات میں سزائیں دیں۔ 
وہ نیب جو بُرا تھا اور جسے ختم کیا جانا چاہیے اُس کے عمران خان کے خلاف فیصلے پر ن لیگ مطمئن کیوں ہے؟ دوسری طرف اس فیصلہ کے بعد عمران خان کی بہن علیمہ خان نے پاکستان کے عدالتی نظام پر سوالاٹ اُٹھا دیے۔ علیمہ خان اور ان کے بھائی نے یہی سوالات ماضی میں کیوں نہیں اُٹھائے جب اُن کے سیاسی مخالفین کو احتساب کے نام پر نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ایسا نہیں کہ ہمارے حکمران اور سیاستدان کرپشن ، بدعنوانی یا غیر قانونی عمل میں شریک نہیں ہوتے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارا نظام احتساب اور نظام عدل ایک آنکھ سے دیکھنے کا عادی بن چکا ہے۔ اُن کو ایک آنکھ سے جو دکھایا جاتا ہے وہ وہی کچھ دیکھتے ہیں اور جب اُن کی ایک آنکھ بند کر کے دوسری آنکھ کھولنے کو کہا جاتا ہے تو وہ دوسری آنکھ سے بالکل اُس کے برعکس دیکھنا شروع کر دیتے ہیں جو کچھ اُنہیں پہلے دکھایا جاتا ہے۔ ہماری سیاست، نواز شریف اورعمران خان کا جرم یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے اس ناقص نظام کے ہاتھوں ڈسے جانے پر خوشی مناتے ہیں اور جب خود ڈسے جاتے ہیں تو ناانصافی کا رونا روتے ہیں۔ سیاستدانوں کی یہ ناکامی رہی کہ وہ اس ملک کو ایک با اعتبار، آزاد اور انصاف پسند احتساب کا نظام دینے میں ناکام رہے۔ وہ کبھی اقتدار اور کبھی سزا اور جیل کی قید کاٹنے کے دائرہ کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ نیب اورجج بشیر والا نظام احتساب اپنی جگہ قائم ہے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
hinahasan · 10 months
Text
bhainse teri ass mein keede bc
ایون فیلڈ کے بعد العزیزیہ میں بریت، کیا نواز شریف الیکشن لڑنے کے اہل ہوگئے ہیں؟تفصیلات: https://t.co/OUMfDglh6l#Pakistan #NawazSharif #PMLN #UrduNews pic.twitter.com/4H4HMcbEtd— Urdu News (@UrduNewsCom) December 12, 2023
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 11 months
Text
یہ اکیسویں صدی کے حکمران ہیں
Tumblr media
ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کا رنگون میں بڑی کسمپرسی میں انتقال ہوا۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ 1858 میں جو ہوا، اس کی وجوہات بھی تھیں، ہندوستان کی جو حالت اس وقت تھی، وہ اکیسویں صدی کے پاکستان میں کوئی خاص مختلف نہیں۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے دو تہائی اکثریت سے بننے والے وزیر اعظم نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا، مگر منتخب وزیر اعظم کو ایک جھوٹے طیارہ اغوا کیس میں عمر قید کی سزا دلانے کے بعد ان کے خاندان سمیت ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب جلا وطن کر دیا۔ یہ جلاوطنی نہ ہوتی تو نواز شریف کا حشر سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو جیسا ہونے کا واضح امکان تھا۔ اس جلاوطنی نے نہ صرف جان بچائی بلکہ وہ تیسری بار وزیر اعظم بھی بنے۔ بھٹو کو جنرل ضیا دور میں جو پھانسی ہوئی، اس سے بھٹو صاحب ڈیل کر کے بچ سکتے تھے مگر ان کی ضد برقرار رہی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں دو بار وزیر اعظم رہنے والی بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے باپ کی طرح ضد کی اور معاہدے کے برعکس وہ بھی اکتوبر 2007 میں جنرل پرویز مشرف کے منع کرنے کے باوجود وطن واپس آئیں اور سوا دو ماہ بعد ہی راولپنڈی کے جلسے کے بعد واپس جاتے ہوئے شہید کر دی گئی تھیں۔
بھٹو کو پھانسی، نواز شریف کی جلا وطنی اور بے نظیر بھٹو کی شہادت فوجی صدور کے دور میں ہوئی جب کہ 1986 میں بے نظیر بھٹو جونیجو حکومت میں شاندار استقبال کرا کر آئی تھیں اور دو سال بعد ہی وزیر اعظم بنی تھیں جب کہ نواز شریف کے لیے 2008 میں واپسی کی راہ جنرل پرویز مشرف نے مجبوری میں ہموار کی تھی اور بعد میں وہ صدارت چھوڑ کر خود جلاوطن ہو گئے تھے اور انھی کے دور میں بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری بھی طویل قید کاٹ کر جلاوطن ہوئے تھے اور جنرل پرویز کی جگہ آصف زرداری صدر مملکت اور 2013 میں نواز شریف بھی تیسری بار وزیر اعظم بنے اور اب چار سال بعد وہ بھی اقتدار کے لیے 21 اکتوبر کو خود پاکستان آ رہے ہیں۔ ڈھائی سو سال قبل انگریز دور میں آخری حکمران ہند کو جبری طور پر جلاوطن کیا گیا مگر بے کسی کی موت کے بعد رنگون میں دفن ہوئے مگر پاکستان میں ملک توڑنے کے ذمے دار جنرل یحییٰ اور ذوالفقار علی بھٹو یہیں دفن ہیں اور دو وزرائے اعظم کو جلاوطن کرنے والے جنرل پرویز مشرف کو بھی دبئی میں فوت ہونے کے بعد اپنے ملک ہی میں دفن ہونے کا موقعہ ملا۔ 
Tumblr media
یہ موقع سابق صدر اسکندر مرزا کو جنرل ایوب دور میں نہیں ملا تھا اور وہ بھی بہادر شاہ ظفر کی طرح دیار غیر میں دفن ہیں اور پاکستان کے تمام حکمران اپنے ملک ہی میں دفن ہیں، کیونکہ یہ 1858 کے انگریز کا دور نہیں، بیسویں صدی کے پاکستانی حکمرانوں کا دور ہے اور اسکندر مرزا کی قسمت میں اپنے ملک کی مٹی میں دفن ہونا نہیں تھا۔ 1985 کے جنرل ضیا سے 2008 تک جنرل پرویز کے دور تک فوت ہونے والے تمام پاکستانی حکمران دفن ہیں اور کسی نے بھی بہادر شاہ ظفر جیسی بے کسی کی موت دیکھی نہ ہی وہ جلاوطنی میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ تمام فوت ہونے والے پاکستانی حکمرانوں کو وطن کی مٹی نصیب ہوئی اور جو بھی حکمران جلاوطن ہوئے انھوں نے دبئی، سعودی عرب اور لندن میں جلاوطنی کی زندگی شاندار طور پر وہاں بنائی گئی اپنی قیمتی جائیدادوں میں گزاری۔ دبئی ہو یا لندن بے نظیر بھٹو،آصف زرداری، نواز شریف فیملی کی اپنی مہنگی جائیدادیں ہیں جہاں انھیں بہترین رہائشی سہولیات میسر ہیں مگر ان پر الزامات ہیں کہ انھوں نے اپنے دور حکمرانی میں اپنی مبینہ کرپشن سے جائیدادیں بنائی ہیں۔ 
نواز شریف پر لندن میں ایون فیلڈ بنانے پر اب بھی کیس چل رہا ہے مگر اس کی ملکیت کا ان کے خلاف ثبوت نہیں اور بے نظیر بھٹو کے سرے محل کا بھی اب تذکرہ نہیں ہوتا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ملک میں حکمران رہنے والے امیروں کی ملک سے باہر اربوں کی جائیدادیں ہیں جو ملک میں اہم عہدوں پر تعینات رہے جن میں ملک کے ہر محکمے کے اعلیٰ ترین افسران شامل ہیں جنھوں نے غیر ملکی شہریت بھی لے رکھی ہے۔ شریف اور زرداری خاندان ملک سے باہر بھی رہتے ہیں اور حکمرانی کرنے پاکستان آتے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اکیسویں صدی کے حکمرانوں کے باعث وہی حالات ہیں جو 1858 میں ہندوستان میں بہادر شاہ ظفر کی حکومت میں رہے۔ عوام کے مینڈیٹ کا کسی کو احساس نہیں۔ حکمرانوں نے ملک کو لوٹ لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنائیں جب کہ 1858 میں اس کا تصور نہیں تھا۔ آج برما کے شہروں میں بہادر شاہ ظفر کی نسلیں بھیک مانگتی پھرتی ہیں جب کہ اکیسویں صدی کے پاکستانی حکمرانوں کی اولادیں شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ اب اکیسویں صدی ہے۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
urdudottoday · 1 year
Text
صحافی جان محمد مہر کے قتل اور مرکزی ملزمان کی عدم گرفتاری کے خلاف  بدین میں مظاہرہ
اردو ٹوڈے، بدین پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی  ملگ گیر اپیل پر سکھر میں شہید کئے جانے والے شہید صحافی جان محمد مہر کے قتل اور مرکزی ملزمان کی عدم گرفتاری کے خلاف حیدرآباد یونین آف جرنلسٹ بدین یونٹ کے زیراہتمام بدین پریس کلب اور ایوان صحافت کی جانب سے بدین پریس کلب سے ایون صحافت تک ضلع بھر کے صحافیوں نے احتجاجی ریلی نکالی مظاہرہ کیا اور دھرنا دے کر احتجاج کیا .  اس موقع پر احتجاجی شرکاء نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
ملک کی بدلتی صورتحال
قارئین میں اسرائیل کے ایک سابق وزیر اعظم ایہود اونمرت کا قصہ بتاتا ہوں۔ وہ اسرائیل کا وزیراعظم تھا، اس نے 7 سال فوج میں ملازمت کی پھر وزیر کے عہدے پر کام کرتا رہا۔ القدس کا میونسپل صدر رہا، نائب وزیر اعظم بھی رہا اور پھر وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوا ۔2009 میں انکشاف ہوا کہ جب یہ میونسپل کا صدر تھا تو اس نے رشوت لی تھی، جس پر 11 سال یعنی 2016 تک کورٹ میں مقدمہ چلتا رہا حتیٰ کہ اس کا رشوت لینا ثابت ہو گیا اور کورٹ نے اس کو 7 سال کی سزا دے دی۔ جب جرم ثابت ہو گیا تو کسی اسرائیلی نے یہ نہیں کہا کہ یہ فوجی تھا یا ہمارا وزیر اعظم رہا اور اس نے ملک کی بہت خدمت کی تھی، بلکہ وہ قوم کے نزدیک صرف ایک رشوت خور اور لٹیرا تھا۔ یہ سبب ہے ان کی کامیابیوں کا اور ہماری ناکامیوں کا کیونکہ کہ ہم ایسے لیڈروں کے جنہوں نے ہمیں لوٹا، گن گاتے ہیں اور ان کے سروں پر تاج پہناتے ہیں۔
اس وقت حکومت اور پی ٹی آئی میں کشمکش جاری ہے، عدالتیں روزانہ کی بنیاد پر فیصلے دے رہی ہیں۔ لاہور کی عدلیہ کچھ اور فیصلے دے رہی ہے اور اسلام آباد کی عدلیہ کچھ اور۔ اس وقت سب کے گناہ معاف ہو رہے ہیں۔ کوئی پنجاب پر قابض ہے توکوئی اسلام آبا د پر۔ انتظامیہ بھی خاموش ہے، فوج بھی خاموشی سے دیکھ رہی ہے ۔ پاکستان کا کیا ہو گا ؟ صوبے اپنے اپنے مطلب کی باتیں کر رہے ہیں، تمام وہ افراد جن کو سزائیں دی گئی تھیں اب ان کو آہستہ آہستہ بری کیا جا رہا ہے۔ ہر صبح ایک نئی بریت کا اعلان ہوتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے عوام لااینڈ آرڈر، مہنگائی اور سیلاب سے پریشان ہیں، اس وقت یہ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ یہ ملک کون چلا رہا ہے اور کب تک اس طرح چلتا رہے گا ؟ کل تک جو چل نہیں سکتے تھے اور پاکستان میں جن کا علاج نہیں ہو سکتا تھا وہ نیب کے جاتے ہی سوٹ پہن کر باہر آگئے اور اسمبلی سے حلف اٹھا کر وزیر خزانہ بنا دئیے گئے۔
اب ایک اور بیمار صرف نواز شریف صاحب رہ گئے ہیں اور ان کو لینے ان کی صاحبزادی مریم نواز پہنچ چکی ہیں اور اب لگتا ہے وہ بھی صحت مند ہو جائیں گے ۔ یہ بھی افواہیں سننے میں آرہی ہیں کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ فروخت کرنے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ اللہ خیر کرے۔ ڈالر کیوں نیچے آرہا ہے یہ آج تک سمجھ نہیں آیا اور یہ پہلے کیوں اوپر جا رہا تھا اس کی بھی سمجھ نہیں آئی، نواز شریف صاحب کی ہی حکومت تھی اس وقت مفتاح اسماعیل صاحب وزارتِ خزانہ چلا رہے تھے اور اب بھی نواز شریف صاحب کی حکومت ہے اور ان کے سمدھی اسحاق ڈار صاحب وزارتِ خزانہ چلا رہے ہیں، فرق صاف ظاہر ہے۔ یہاں میں قارئین کو بتاتا چلوں کہ باہر کے ملک میں ایک  شخص پر سائیکل چوری کا الزام لگا اور کیس چلتا رہا اور آخر میں جب اس کو جج کے سامنے پیش کیا گیا تو جج نے کہا کہ استغاثہ تمہارے خلاف سائیکل کی چوری کا ثبوت فراہم نہیں کر سکا لہٰذا ہم تمہیں باعزت بری کرتے ہیں، ملزم نے جواب دیا جج صاحب تو کیا میں وہ سائیکل استعمال کر سکتا ہوں؟ 
جج نے ہڑبڑا کر کہا کہ یہ جا کر اس کے مالک سے پوچھو، ایسے ہی کچھ ایون فیلڈ میں ہوا۔ ماشاء اللہ برسوں سے ایون فیلڈ میں نوازشریف کی فیملی رہتی تھی اور اچانک پتہ چلا کہ یہ تو منی لانڈرنگ کا پیسہ تھا۔ نیب نے ثابت کیا اور ایک عدالت نے سزا بھی دی مگر دوسری عدالت نے بری کر دیا ۔ پہلے انہوں نے کہا تھا کہ میری تو کوئی پراپرٹی نہیں ہے پھر اچانک اتنی بڑی پراپرٹی نکل آئی یہ بھی کمال کی بات ہے ۔ نواز شریف نے بھی اسمبلی میں بھی یہی بیان دیا کہ الحمدللہ ہماری کوئی پراپرٹی نہیں ہے، پھر کہا کہ یہ میرے بچوں کی ہے اور وہ اب پاکستانی نہیں ہیں، طرح طرح کے بہانے تراشتے رہے قطری خط بھی آیا مگر پھر بھی سزا ہوئی اب نواز شریف کو واپس لا نے کیلئے میرا خیال ہے فیصل واوڈا کیس کی طرح ان کا کیس بھی ایسے ہی سنا جائے گا اور شاید وہی فیصلہ ہو کہ ایک آدمی کو کیسے ہمیشہ کے لئے نااہل قرار دیاجا سکتا ہے۔ اتفاق کی بات ہے وہ بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا۔
حکومت نے اب اراکینِ پارلیمنٹ کی گرفتاریاں روکنے سے متعلق اہم بل سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرا دیا ہے۔ سینیٹ میں ارکان پارلیمنٹ کی گرفتاری کو مشکل ترین بنانے کا بل سینیٹر میاں رضاربانی نے پیش کیا جو مسٹر کلین سمجھے جاتے ہیں ۔ مجوزہ بل میں ارکان پارلیمنٹ کی قتل سمیت کسی بھی الزام میں گرفتاری انتہائی مشکل بنائی جارہی ہے، کسی رکن اسمبلی یا سینیٹ کو اجلاس سے 8 دن قبل گرفتار نہیں کیا جاسکے گا، پارلیمنٹ کے احاطے سے اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جائے گا، عدالتی کارروائی بھی کسی سیشن کے دوران نہیں کی جاسکے گی۔ بل میں مزید کہا گیا ہے کہ اجلاس سے 15 روز قبل اور 15 روز بعد تک کے پروڈکشن آررڈز جاری کرنا ہوں گے۔ سبحان اللہ کیسی منطق نکالی گئی ہے خیال رہے کہ چیف جسٹس خود نیب اور دیگر ترامیم پر برہمی کا اظہار کر چکے ہیں مگر ہمارے سیاستدان باز ہی نہیں آرہے۔
خلیل احمد نینی تا ل والا
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
’سابقہ ڈپٹی وزیرِاعظم تو اب حقیقی وزیرِاعظم کی طرح کام کرتے نظر آرہے ہیں‘
آج کل ملک کے بڑے سیاسی دفاتر میں ہونے والی گفتگو کی آڈیو لیک ہونے کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے جس نے ہماری ملکی سیاست میں تیزی سے نمایاں ہوتے جھوٹ اور فریب کی قلعی کھول دی ہے۔ ان آڈیو لیکس کا وقت بھی بہت غیر معمولی ہے۔ اس بات کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں کہ یہ کام کس کا ہے۔ یہ جرم کی ایسی پُراسرار کہانی ہے جہاں مجرم کی سب کو تلاش ہے۔  وزیرِاعظم کے دفتر میں ہونے والی بگنگ اور اس کا یوں سامنے آجانا ہمارے سیکیورٹی نظام پر کئی سوالات اٹھاتا ہے۔ کیبل گیٹ کہلایا جانے والا یہ معاملہ بحران کا شکار ریاست کی طرف اشارہ ہے۔ یہ معاملہ ہمارے ملکی نظام کی اصلیت سب کے سامنے لے آیا ہے اور اس نے ملک کو افراتفری کا شکار کر دیا ہے۔ ان آڈیو لیکس میں جو کچھ بھی سامنے آیا ہے، اس نے قومی سیاست کے اسٹیج پر ایک نئے تماشے کا اضافہ کر دیا ہے۔ یہ تماشہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے ہے اور عام آدمی کو اقتدار کے اس بے ہودہ کھیل میں پیادے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
اب تک جو کچھ بھی سامنے آیا ہے وہ صرف شروعات ہے، کھیل ابھی جاری ہے، اس لیے مزید حیران کن معلومات سامنے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ موجودہ اور نہ سابق وزیرِاعظم ان لیک آڈیوز میں ہونے والی گفتگو سے انکاری ہیں۔ اقتدار کے حصول کی کشمکش میں مصروف مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) دونوں ان آڈیو لیکس کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان آڈیو لیکس میں وزیرِاعظم شہباز شریف کی اپنی بھتیجی مریم نواز سے پالیسی معاملات پر ہونے والی بات چیت اور اس کے بعد کابینہ اراکین سے ہونے والی گفتگو بھی شامل ہے۔ بہرحال ان لیکس سے اس معاملے پر ضرور روشنی پڑتی ہے کہ شریف خاندان میں سیاسی گرفت کس کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن زیادہ سنسنی خیز آڈیو تو سابق وزیرِاعظم عمران خان، ان کے پرنسپل سیکریٹری اور وزرا کے درمیان ہونے والی گفتگو پر مبنی ہے جس میں سائفر کے مسئلے پر بھی بات چیت کی گئی۔ عمران خان نے انہیں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے لیے کی گئی مبیّنہ بیرونی سازش کے ثبوت کے طور پر وہ سائفر پیش کیا تھا۔
درحقیقت ان تمام لیک ہونے والی گفتگو سے اس دعوے کو تقویت ملتی ہے کہ سابق پاکستانی سفیر کے واشنگٹن سے بھیجے گئے سائفر میں رد وبدل کیا گیا اور عوامی حمایت کو متحرک کرنے کے لیے ایک سازشی بیانیہ تشکیل دیا گیا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کس طرح اقتدار کی جنگ جیتنے کے لیے ملکی مفادات کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان سازشی بیانیوں اور قوم پرست بیانات نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے مگر اس کے باوجود ان کے ذریعے عمران خان اپنے حامیوں کو جوش دلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ اب حکومت سائفر اسکینڈل کو سابق وزیرِاعظم کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق، وفاقی کابینہ نے آڈیو لیکس کی مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور ساتھ ہی حکومت سائفر کے حوالے سے عمران خان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے پر غور کر رہی ہے جبکہ سائفر کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ وزیرِاعظم ہاؤس سے غائب ہو چکا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سفارتی سائفر کی ’گمشدہ‘ کاپی حاصل کرنے کے لیے عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ پر چھاپہ مارنے کا مطالبہ بھی کیا اور پی ٹی آئی کے چیئرمین کو گرفتار نہ کرنے کی وجہ سے اپنی ہی جماعت کی حکومت پر برہمی کا اظہار بھی کیا۔ اس طرح کا کوئی بھی اقدام سیاسی حالات کو بھڑکا سکتا ہے اور ایک ایسی صورتحال کو جنم دے سکتا ہے جس کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ محدود اختیارات والی یہ کمزور اور مخلوط اتحادی حکومت ایسی کسی سیاسی مہم جوئی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ درحقیقت مسلم لیگ (ن) کے اندر شدید ہوتی ہوئی اقتدار کی جدوجہد نے کیبل گیٹ کی اہمیت کو کم کر دیا ہے۔ دو اہم پیشرفت جن میں اسحٰق ڈار کی واپسی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے مریم نواز کی ایون فیلڈ کیس میں بریت شامل ہیں، ان دونوں نے پارٹی اور حکومت کی طاقت کی حرکیات کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ 
مریم کی بریت کے ساتھ ہی ان کی حکومتی اور پارلیمانی مناصب سنبھالنے کی اہلیت بحال ہو گئی ہے اور اب وہ اگلے انتخابات میں حصہ لے سکتی ہیں۔ اس طرح شریف خاندان میں قوت کا توازن بھی یقینی طور پر تبدیل ہو گا۔ اسحٰق ڈار کی کابینہ کے ایک اہم عہدے پر تقرری کے ساتھ ہی ملک کی معاشی پالیسیاں اب ’معاشی زار‘ کے ہاتھوں میں چلی گئی ہیں جس نے ظاہری طور پر وزیرِاعظم شہباز شریف کی حیثیت کو کم کر دیا ہے۔ اسحٰق ڈار جنہیں سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی طرف سے مکمل حمایت حاصل ہے، وہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت میں گزشتہ 6 ماہ سے چلی آرہی معاشی اور مالیاتی پالیسیوں میں تبدیلی لارہے ہیں۔ اسحٰق ڈار نے پچھلے ہفتے اگلے 15 دن کے لیے تمام پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریباً 5 فیصد کمی کی تھی۔ اس عمل سے بنیادی طور پر انہوں نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے طے شدہ ماہانہ قیمتیں بڑھانے کی پالیسی کی نفی کی ہے جس کے تحت ہر ماہ لیوی عائد کر کے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جانا تھا۔ 
اپنے اس اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈال سکتے جو پہلے ہی تباہ کن سیلاب سے نمٹنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ شاید اس عوامی اقدام سے حکمران جماعت کو اپنے سیاسی نقصان کا ازالہ کرنے میں کچھ مدد مل جائے مگر یہ فیصلہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو خطرے میں ڈال سکتا ہے اور معاشی بحران کو مزید سنگین بنا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے نمائندے نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ پاکستانی حکام نے جو پالیسی وعدے کیے ہیں انہیں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی پاکستان کے موجودہ معاشی حالات کو مزید پیچیدہ کر سکتی ہے۔ متوقع طور پر وزیرِ خزانہ اور معاشی پالیسی کی تبدیلی نے حکمران جماعت کی صفوں میں ایک نئے تنازعے کو جنم دے دیا ہے۔ سابق وزیرِ خزانہ کی جانب سے لیے گئے سخت فیصلوں جنہیں وزیرِاعظم اور کابینہ کی منظوری حاصل تھی، اس نے ملک کو ڈیفالٹ کی حالت سے نکلنے میں مدد کی۔ مگر اسحٰق ڈار کے فیصلے من مانے لگ رہے ہیں جنہیں مفتاح اسمٰعیل نے ’لاپروائی‘ قرار دیا ہے۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ یہ پالیسی آخر ہے کس کی؟ لندن میں بیٹھے بڑے شریف صاحب کی یا ملک کے چیف ایگزیکٹو چھوٹے شریف صاحب کی؟ اسحٰق ڈار جو مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت میں ڈپٹی وزیرِاعظم کے طور پر کام کرتے نظر آئے اس بار حقیقی وزیرِاعظم کے طور پر کام کر رہے ہیں جو صرف لندن میں بیٹھے بڑے شریف صاحب کو جوابدہ ہیں۔ گزشتہ ہفتے مریم نواز کے ساتھ اسحٰق ڈار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کے چچا کی حکومت کو جس طرح آڑے ہاتھوں لیا اس کے بعد تو اب سب کچھ واضح ہو گیا ہے۔ مفتاح اسمٰعیل نے بہت تلخ انداز میں کہا کہ ’یہ ملک ایک فیصد اشرافیہ کے کنٹرول میں ہے‘۔ یہ سب خاندانی مفادات اور طاقت کا کھیل ہے۔ ملک کے طویل المدتی مفادات کے بارے میں کوئی نہیں سوچ رہا۔ یہ صرف کیبل گیٹ کے بے نقاب کردہ جھوٹ اور فریب کی کہانی نہیں بلکہ اقتدار کے حصول کی کوشش بھی ہے۔ وہ ملک جو متعدد بحرانوں کا شکار ہے اس کے لیے یہ ایک ناقابلِ برداشت صورتحال ہے۔
زاہد حسین 
یہ مضمون 5 اکتوبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
حسین نواز نے مریم نواز کی بریت کو انصاف کی فتح قرار دیدیا
حسین نواز نے مریم نواز کی بریت کو انصاف کی فتح قرار دیدیا
اسلام آباد (آواز نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن)کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے بڑے صاحبزادے حسین نواز نے بہن مریم نواز کی ایوان فیلڈ فلیٹس ریفرنس میں بریت کو انصاف کی فتح قرار دیدیا ہے۔ ایک انٹرویومیں حسین نواز نے کہا کہ ایون فیلڈ فلیٹس ریفرنس میں مریم نواز کی بریت انصاف کی فتح ہے، اس کیس میں دادا میاں شریف کے اثاثے نواز شریف سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ ثابت کرتا ہے کہ کس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ کیس میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو بری کر دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ کیس میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو بری کر دیا۔
اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کی ایک بڑی قانونی فتح میں، اسلام آباد ہائی کورٹ (IHC) نے جمعرات کو پارٹی کی نائب صدر مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس میں بری کردیا۔ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سزا کے خلاف ان کی درخواست پر سماعت کی۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے ان پر اپنے والد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو اس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
نواز شریف ایون فیلڈ ریفرنس میں بری، اللہ نے سرخرو کیا، سابق وزیراعظم
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو بری کر دیا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے آج سابق وزیرِ اعظم کی جانب سے دائر کی جانے والی اس اپیل کی سماعت کی۔ دوسری جانب نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل واپس لے لی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کی اپیل واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دی ہے۔ اسلام…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 8 months
Text
عمران خان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں
Tumblr media
دو دن میں دو فیصلے۔ پہلے ’ریاستی راز افشا کرنے پر‘ 10 سال کی سزا اور پھر ’بدعنوانی‘ پر 14 سال کی سزا۔ پہلے ان کے قریب ترین ساتھی اور اب ان کی شریک حیات کو بھی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا ہے لیکن سابق وزیراعظم عمران خان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔ ریاست اپنی دشمنی ظاہر کرنے میں کس حد تک جائے گی؟ 8 فروری کے انتخابات تک مزید ’سرپرائز‘ آسکتے ہیں۔ فی الحال ہم صرف بیٹھ کر تماشہ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح حقائق، ضابطہ کار، قوانین اور ادارے ان لوگوں کی مرضی کے سامنے جھکتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک وہ نہ چاہیں کوئی بھی منتخب رہنما آزادی کا حق نہیں رکھتا۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران تحفے کے طور پر ملنے والے زیورات کے سیٹ کی قیمت کم بتانے پر سزا سنائی گئی ہے۔ یہ فیصلہ احتساب عدالت کے جج کے ذریعے سنایا گیا ہے جنہوں نے گزشتہ عام انتخابات سے چند روز قبل ایون فیلڈ ریفرنس میں 2024ء کے انتخابات کی دوڑ میں سب سے آگے نظر آنے والے رہنما کو سزا سنائی تھی۔ 
Tumblr media
اس فیصلے کو گزشتہ سال نومبر میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان کی سزا کا فیصلہ بھی زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہے گا۔ اتفاق سے یا شاید جانتے بوجھتے ہوئے ان ہی جج صاحب کو اسی طرح کے ایک اور کیس کی سماعت کرنی ہے جو توشہ خانہ سے حاصل کی گئی اشیا سے متعلق ہے۔ اس مقدمے میں متعدد گاڑیاں شامل ہیں جو مبینہ طور پر نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری نے توشہ خانہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے پاس رکھی تھیں۔ تاہم، یہ دیکھتے ہوئے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران جج کی توجہ اور توانائیاں عمران خان اور ان کی شریک حیات کو ’احتساب‘ برانڈ کا انصاف فراہم کرنے کے لیے وقف کر دی گئی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس زیر التوا دیگر معاملات کے لیے بہت کم وقت بچا ہے۔ وہ 11 سال نیب کی احتساب عدالتوں میں رہنے کے بعد مارچ میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ احتساب عدالتوں کے زیادہ تر جج تین سال کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں۔ 
اپنی توسیعی مدت کے دوران انہوں نے 4 سابق وزرائے اعظم کے مقدمات کا فیصلہ کیا ہے، یہ سبھی اس وقت ان کے سامنے لائے گئے جب ان کو دی گئی چھوٹ اپنے اختتام کو پہنچی۔ یہاں کچھ ذکر نیب کا بھی کر لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ادارہ صرف طاقتوروں کی خواہشات کی بنیاد پر سیاسی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ہے۔ سیاست دان کو ملی چھوٹ ختم ہونے پر نیب اس پر پِل پڑتا ہے اور ہدف بنائے گئے سیاست دانوں کے خلاف ہر طرح کے ’بدعنوانی‘ کے مقدمات قائم کرکے انہیں قانونی چارہ جوئی میں پھنسا دیتا ہے۔ بعض اوقات، ضابطے کی پروا کیے بغیر کمزور شواہد کی بنیاد پر قانونی کارروائی کے ذریعے ایک یا دو سزائیں سنادی جاتی ہیں۔ حیرت کی بات نہیں کہ زیادہ تر مقدمات اور سزائیں چند سالوں میں ہی ختم ہو جاتی ہیں اور جن پر کبھی سنگین بددیانتی کا الزام لگایا جاتا ہے وہ آخرکار سیاسی شہید بن کر واپس آجاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جس نے دھیرے دھیرے احتساب کے خیال کو کسی بھی قانونی جواز سے محروم کر دیا ہے۔ اس تازہ ترین سزا سے بھی یہ لگتا ہے کہ کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
omega-news · 2 years
Text
بیٹی اور داماد کی بریت پر باپ اور چچا خوشی سے نہال ہو گئے ۔ جاتی امرا میں جشن کا سما ں پیدا ہو گیا ۔مسلم لیگ ن کے دفاتر میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو بیٹی مریم نواز نے سب سے پہلے بتایا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں انہیں انصاف مل گیا ہے ۔ نواز شریف یہ سن کر خوشی سے پھولے نہ سمائے اور بیٹی کو مبارکباد دی ۔ نواز شریف نے مسلم لیگ ن کے دیگر قائدئن سے بھی گفتگو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
ikarachitimes · 2 years
Text
ایون فیلڈ ریفرنس میں 7 سال کی سزا کالعدم قرار، مریم نواز بری، مریم نواز پبلک آفس ہولڈر نہیں تھیں اس لیے ان پر اثاثوں کا کیس نہیں بنتا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا https://t.co/J868GzSgOH
ایون فیلڈ ریفرنس میں 7 سال کی سزا کالعدم قرار، مریم نواز بری، مریم نواز پبلک آفس ہولڈر نہیں تھیں اس لیے ان پر اثاثوں کا کیس نہیں بنتا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا https://t.co/J868GzSgOH
— Karachi_Times (@Karachi_Times) Sep 29, 2022
from Twitter https://twitter.com/Karachi_Times
0 notes
pakrevenue · 2 years
Text
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کو بری کر دیا۔ . . . #heartattack #MaryamNawaz #AhadRazaMir #AudioLeaks #Pakistan https://t.co/q7sJ0whTm5
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کو بری کر دیا۔ . . . #heartattack #MaryamNawaz #AhadRazaMir #AudioLeaks #Pakistan https://t.co/q7sJ0whTm5
— Pak Revenue (@PakRevenue) Sep 29, 2022
from Twitter https://twitter.com/PakRevenue September 29, 2022 at 03:34PM via PakRevenue
0 notes
45newshd · 5 years
Photo
Tumblr media
ہاتھ میں کوٹ اٹھائے نواز شریف خود چل کر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس آئے لندن پہنچنے پر سابق وزیراعظم کی ویڈیو سامنے آ گئی اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) نواز شریف کی لندن پہنچنے کے بعد ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں داخلے کی ویڈیو سامنے آ گئی ۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں داخلے کے وقت ہاتھ میں کوٹ اٹھایا
0 notes