#Nawaz Sharif
Explore tagged Tumblr posts
Text
5 notes
·
View notes
Text
Explore the Legacy of Mian Muhammad Sharif
Curious about the life of Mian Muhammad Sharif? From humble beginnings to a respected businessman, he played a key role in shaping the Sharif family's legacy in Pakistan. Check out this insightful biography on Siyasisawaal to learn about his journey, achievements, and lasting influence. Perfect for history enthusiasts and those interested in influential figures!
1 note
·
View note
Text
نواز شریف کا نوحہ
بہت عرصے کے بعد نواز شریف پارلیمنٹ میں بولے۔ وہ بولے کم اور اپنے دل کا غم دو اشعار سُنا کر بیان کیا فرمایا کہ عدلیہ نے ہمیں اتنے دُکھ دیے ہیں کہ یہ شعر سُن لیں: ناز و انداز سے کہتے کہ جینا ہو گا زہر بھی دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہو گا
جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں اور جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جینا ہو گا
26ویں آئینی ترمیم پاس ہو رہی تھی۔ عدلیہ کے یا تو پر کاٹے جا رہے تھے یا اُسے آئین کے دائرے میں لایا جا رہا تھا لیکن یہ حکومت اور اُس کے اتحادیوں کی جیت کا دن تھا۔ مہینوں کی تگ و دو کے بعد، مذاکرات کے ذریعے یا دھمکیوں کے راستے یا کچھ دو، کچھ لو کی پالیسی اختیار کر کے یا دو، چار ارکان کو خرید کر یا غائب کر کے حکومت نے اپنے اعداد پورے کر لیے تھے۔ حکومت کے لیے خوشی کا دن تھا ایسے میں حکومت کے روحانی باپ اپنے ماضی کے زخم کیوں کُرید رہے تھے۔ شعر وزن میں ہیں یا نہیں، حسبِ حال ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو ادبی نقاد اور سیاسی مبصرین کر سکتے ہیں۔ عام دیکھنے والوں کو تو پرانی اُردو فلموں کے وہ سین یاد آ گئے جب ایک گھر میں بارات پہنچتی ہے، ڈولی اٹھنے والی ہوتی ہے اور دلہن کا ناکام عاشق ایک اُداس دُھن میں گانا گانے لگتا ہے۔
تین بار مُلک کے وزیر اعظم سے ناکام عاشق کا سفر نواز شریف نے عوام کی آنکھوں کے سامنے طے کیا ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ نے بنایا پھر نکالا، پھر عوام نے بنایا مشرف نے نکالا پھر عوام نے بنایا عدلیہ نے نکالا، تو ظاہر ہے عدلیہ کو زہر دینے اور پھر جینے مرنے کے طعنے بنتے ہیں لیکن جس مُلک میں وہ چاہتے ہیں کہ عوام اُن کے غم کو سمجھیں اُسی مُلک میں اُن کے چھوٹے بھائی وزیراعظم ہیں، اُن کے سمدھی نائب وزیر اعظم ہیں، اُن کی بیٹی مُلک کے سب سے بڑے صوبے کی طاقتور وزیراعلیٰ ہیں پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ دلدار نہیں۔ اُن کا غم اُس بزرگ کا غم لگتا ہے جو چار شادیوں اور چودہ بچوں کے بعد پوتے پوتیوں سے شکوہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ مُجھے سچا پیار نہیں ملا۔ نواز شریف اور عمران خان: کرکٹ سے سیاست اور رفاقت سے عداوت تک کا سفر 7 فروری 2024 عمران خان اور نواز شریف: دونوں کی وہ مماثلت جو مٹ نہیں سکتی! 13 اپريل 2022 ’نواز شریف کو کوئی نہیں ہنسا سکتا‘ 19 مئ 2024 ایرانی مہمان اور ادب نواز شہباز شریف 24 اپريل 2024
پرانے بادشاہوں کو ہٹانے کے دو ہی طریقے تھے یا تختہِ دار یا قید خانہ، یا کبھی کبھی رحم دل بادشاہ اپنے سے پہلے والے بادشاہ کو مقدس مقامات کی زیارت کے لیے بھیج دیا کرتے تھے۔ پاکستان بادشاہت نہیں۔ پاکستان کے موجودہ حکمران نواز شریف کو اپنا اصلی باپ بھی مانتے ہیں، سیاسی بھی، روحانی بھی۔ اپنی جلاوطنی کے دنوں میں نواز شریف مقدس مقامات میں خوب عبادات کر چُکے ہیں۔ جب چاہیں پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر عوام کے ساتھ اپنا وژن، اپنے غم بھی بیان کر سکتے ہیں۔ جب دل کرے کسی منصوبے کے افتتاح کے لیے فیتہ کاٹنے یا اپنی بیٹی کا راج دیکھنے کے لیے بھی پہنچ سکتے ہیں۔ اب کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اُس مُلک کے دورے پر نکلیں جس نے اُنھیں تین بار وزیراعظم مُنتخب کیا، قید بھی کیا، دل بھی توڑا جلاوطن بھی کیا لیکن بالاخر اُن کو روحانی حکمران مان لیا۔ چونکہ اُن کے پاس فی الحال کوئی سرکاری عہدہ نہیں تو وہ جس سے چاہیں مل سکتے ہیں۔
ان کا غم تو ہم سُنتے آئے ہیں، وہ اور کچھ نہیں تو اپنی رعایا کا غم سُننے ہی نکل پڑیں، کبھی کسی بلوچ خاندان کے احتجاجی کیمپ میں جا کر بیٹھ جائیں، کبھی جا کر ماہ رنگ بلوچ کو تسلّی دیں کہ ریاست نے میرے ساتھ بھی ظلم کیا تھا، میں نے اپنے لیے انصاف کی جنگ لڑی، اب میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ کبھی منظور پشتین کو مشورہ دیں کہ ہاں کبھی کبھی عسکری اداروں کے خلاف سخت زبان بولنی پڑتی ہے لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کے اُن کے ساتھ آنکھ مچولی میں دو قدم آگے کیسے رہا جاتا ہے۔ لیکن ہم سب جاتنے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ عدلیہ کے ساتھ بھی جنگ کا ایک ہی مقصد تھا کہ جج اُن کے بھائی اور بچوں کے ساتھ نہ کر سکیں جو اُن کے ساتھ کیا۔ نواز شریف شاید پاکستان کی تاریخ کے سب سے خوش قسمت سیاستدان ہیں لیکن وہ یہ خوش قسمتی عوام کے ساتھ بانٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ عوام کے ساتھ وہ صرف اپنا غم بانٹنا چاہتے ہیں اور اُداس دُھنوں میں اپنے مرنے اور جینے کا گیت گانا چاہتے ہیں۔
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
Nawaz Sharif: Jaishankar’s Visit Opens Path for India-Pak Relations
Nawaz Sharif praises Jaishankar's visit as a positive start, urging India and Pakistan to move forward, signaling hopes for improved diplomatic relations.
#India-Pakistan dialogue#Nawaz Sharif on peace#Jaishankar visit to Pakistan#diplomatic efforts#improving India-Pak ties#Nawaz Sharif#Jaishankar#India-Pakistan#diplomacy
0 notes
Text
India and Pakistan Should Bury Past: Nawaz Sharif
Lahore: India and Pakistan should “bury” the past and look at the future to live like good neighbours, former Pakistan Prime Minister Nawaz Sharif said on Thursday, in remarks seen as an attempt to reach out to New Delhi following Indian foreign minister S Jaishankar’s trip to Islamabad this week. In an interaction with a group of Indian journalists, the three-time prime minister and president of…
View On WordPress
0 notes
Text
Pakistan’s Path Forward: Restoring the Founders’ Vision Through the Role of the Army
A I Khalil 4th Sept.2024 Pakistan has long been identified as an Islamic state, shaped by historical events often perceived as controversial. However, this Islamic identity was not at the heart of its formation. The partition of India was driven by the deteriorating relations between Hindus and Muslims in a united India. This growing rift […]Pakistan’s Path Forward: Restoring the Founders’ Vision…
#Bloggers#blogs#country#Defence#Dubai#Europe#facebook#Government#Islamabad#Journalism#Journalists#Karachi#Lahore#Linkedin#Media#middle-east#middleast#Nawaz sharif#News#NEWSPAPERS#Pakistan#PAKISTANI#People#politics#Publication#saudiarabia#uae#UK#UN#usa
0 notes
Video
youtube
Bhasha Dam. Who Tried to Stop it & Who Made? Imran Khan vs Nawaz Shareef...
0 notes
Text
America Responds: Whose Government Does Pakistan Prefer - Imran Khan, Bilawal, or Nawaz?
America Responds: Whose Government Does Pakistan Prefer – Imran Khan, Bilawal, or Nawaz? America Responds: Whose Government Does Pakistan Prefer – Imran Khan, Bilawal, or Nawaz? In response to questions regarding Pakistan’s political landscape and preference for leadership, the United States has offered insights into its observations and assessments of the situation. The query regarding which…
View On WordPress
#Bilawal Bhutto#diplomatic relations#government#Imran Khan#leadership#Nawaz Sharif#Pakistan#politics#regional stability.#United States
0 notes
Text
Who will be elect of pakistani prime minister in 2024
آپ کے ووٹ کا صحیح حقدار ؟
Choose for Vote Pulling in pakistan
0 notes
Text
نواز شریف کی واپسی
30 سال سے بھی زائد عرصے قبل، اقتدار سے اپنی پہلی بے دخلی کے بعد سے نواز شریف کی جب بھی وطن واپسی ہوئی ہے، ان میں ان کی تازہ ترین واپسی کے امکانات سب سے کم تھے۔ حالانکہ اس مرحلے پر یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن 8 فروری کے انتخابات کے بعد نواز شریف کے اگلی حکومت بنانے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اگر وہ خود وزیر اعظم نہیں بھی بنتے تو بھی امکانات یہی ہیں کہ جو بھی یہ عہدہ سنبھالے گا اسے ان کی آشیرباد حاصل ہو گی۔ کئی مہینوں سے حالات رفتہ رفتہ ان کے حق میں تبدیل ہو رہے ہیں لیکن آنے والے ہفتوں میں اس میں تیزی نظر آئے گی۔ اس کا آغاز تقریباً پانچ سال کی جلاوطنی کے بعد ان کی پاکستان واپسی کی تاریخ کے اعلان سے ہوا۔ اس کے بعد لاہور میں ان کی واپسی اور پہلی ریلی کا دن آیا، جس میں انہوں نے مہنگائی اور بے روزگاری سے تباہ حال ملک کو ترقی دینے کے لیے سب سے زیادہ موزوں وزیر اعظم کے طور پر خود کو پیش کیا۔ اس کے بعد پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم، انتخابی دوڑ میں شامل دیگر پارٹیوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ، اور آنے والے انتخابی مقابلے کے لیے تیاری کا مختصر وقفہ آیا۔ پھر جب سپریم کورٹ نے ان کے مرکزی حریف، پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان چھین لیا تو انتخابات ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں آخری شکوک و شبہات بھی دور ہوگئے اور انتخابی مہم شروع ہو گئی۔
ان کی انتخابی مہم کی تقاریر سنیں تو آپ کو ایک حکمت عملی نظر آئے گی۔ وہ اپنے جلسوں میں دو کام کر رہے ہیں۔ پہلا کام ووٹروں کے ساتھ جڑنا اور دوسرا ان معروف افراد یا خاندانوں پر توجہ دینا جو دیہی یا نیم شہری حلقوں کو چلاتے ہیں جن پر نواز شریف نے اب تک اپنی مہم کو مرکوز کیا ہوا ہے۔ نواز شریف ووٹرز سے اس قسم کے سوالات پوچھ رہے ہیں کہ ’2017ء میں جب میں نے اقتدار چھوڑا تو ایک روٹی کتنے کی تھی؟ بجلی کا ایک یونٹ کتنے کا تھا؟ آپ ایک کلو چینی کتنے میں خریدتے تھے؟ یوریا کھاد کا ایک تھیلے کتنے کا تھا؟‘ مصنوعات کی یہ فہرست شہری یا دیہی حلقوں کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے اور ہر کی چیز کی ماضی کی قیمت پوچھنے کے بعد وہ حاضرین سے معلوم کرتے ہیں کہ وہ آج اس کی کتنی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ پھر وہ پوچھتے ہیں کہ ’تمہارے ساتھ یہ کس نے کیا؟‘، ’یہ ظلم کس نے کیا؟‘ ’تم جا کر اس سے پوچھو، جس نے بھی یہ کیا کہ اس نے تمہارے ساتھ ایسا کیوں کیا؟‘ یہ ایک مکروہ پیغام ہے۔ 2017ء سے اب تک ملک میں مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اس کی وجوہات پر بحث کی جاسکتی ہے، میں پہلے بھی متعدد بار اس پر اپنے خیالات لکھ چکا ہوں۔ انتخابی مہم کے مقاصد کے لیے ان وجوہات کو جاننا ضروری نہیں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ��ے کہ یہ ہوا ہے۔ 2017ء کو نقطہ آغاز بنا کر وہ اس حقیقت پر پردہ ڈال سکتے ہیں کہ اس مہنگائی میں بڑا اضافہ اس دور میں ہوا جب شہباز شریف وزیراعظم تھے۔ بیانیے کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم کی ایک تقریب میں کہا کہ ’میں نے آپ کو بہت یاد کیا، میں طویل عرصے تک آپ سے دور رہا اور مجھے وہ سب دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے جو آپ کو میرے دور رہتے ہوئے بھگتنا پڑا‘۔ ان کی مہم کا پیغام اس مشکل کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ہے جس سے ووٹر سب سے زیادہ متاثر ہیں یعنی اخراجات پورے کرنے میں دشواری۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹے سے صنعتی شہر حافظ آباد میں جہاں محنت کش طبقے کی ایک تعداد رہتی ہے نواز شریف نے جلسے میں موجود لوگوں سے کہا کہ ’اگر مجھے 2017ء میں نہ ہٹایا جاتا تو آج حافظ آباد میں بے روزگاری نہ ہوتی!‘۔
سیالکوٹ میں انہوں نے عمران خان کے دور میں 2020ء میں ٹریفک کے لیے کھولی جانے والی موجودہ موٹروے میں موجود تمام خامیوں کی نشاندہی کرنے کے بعد اس شہر کو لاہور سے ملانے والی ایک نئی موٹر وے بنانے کا وعدہ کیا۔ مانسہرہ میں، انہوں نے سی پیک ایم ایل ون منصوبے کے تحت ریل روڈ کی بحالی مکمل ہونے کے بعد ایک ریلوے اسٹاپ کا وعدہ کیا، ایم ایل ون 8 ارب ڈالر سے زائد کا منصوبہ ہے۔ وہاڑی میں انہوں نے یہ کہہ کر ایک میڈیکل کالج بنانے کا اعلان کیا کہ تہمینہ دولتانہ نے اپنے حلقے کے لیے اس کا تقاضا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ٹھیک ہے، ہم تمہیں میڈیکل کالج دیں گے، لیکن پہلے ووٹ حاصل کرو اور جیتو‘۔ یہ بات ہمیں ان کی حکمت عملی کے دوسرے نکتے پر لے آتی ہے یعنی اس طاقت کا فائدہ اٹھانا جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ان کے ہاتھ آنے والی ہے اور پھر اس کا استعمال پنجاب کے بااثر افراد اور خاندانوں کو راغب کرنے کے لیے کرنا اور اس صوبے کے غالب سیاسی خاندانوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوبارہ استوار کرنا۔ دیہی اور چھوٹے شہروں کے حلقوں میں سیاسی خاندان اہم ہوتے ہیں۔
نواز شریف یہ بات کسی اور سے بہتر جانتے ہیں اور انہیں اور ان کے ساتھیوں کو اس بات کا تفصیلی علم ہے کہ کون، کہاں کتنی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اب یہ پیغام دے رہے ہیں لوگ اب ان کی ٹرین میں سوار ہو جائیں۔ ان کے منشور میں بڑے بڑے معاشی وعدے کیے گئے ہیں، جیسے جی ڈی پی کی شرح نمو کو 6 فیصد ت�� بحال کرنا، گردشی قرضے کو ختم کرنا، وغیرہ۔ تاہم، ابھی کے لیے، انہوں نے خود کو انتخابی مہم کے وعدوں، ووٹروں اور سیاسی خاندانوں کے ساتھ جڑنے اور ان کی زندگیوں کو درپیش معاشی مسائل کے حل کا وعدہ کرنے میں مصروف رکھا ہوا ہے۔ آگے انتخابات ہوں گے، اس کے بعد نئی پارلیمنٹ کا اجلاس طلب ہو گا، صدر کی جانب سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کو اپنی اکثریت بنانے کی دعوت دی جائے گی، قائد ایوان کا انتخاب ہو گا اور وفاقی کابینہ کی تقرری ہو گی۔ نواز شریف کی جلاوطنی سے واپسی کی خبر آنے سے کابینہ کی تقرری تک نو ماہ کے قریب کا عرصہ گزر چکا ہو گا۔ عمران خان کی پریشانیاں کئی گنا بڑھ جائیں گی اور وہ مقدمات، سزاؤں، اپیلوں، نااہلی، انحراف، گرفتاریوں، لیکس وغیرہ کے تلے دب جائیں گی۔
آہستہ آہستہ ہوا کا رخ بدل رہا ہے۔ نواز شریف واپس آچکے ہیں اور اب اقتدار میں اپنی پوزیشن مضبوط کریں گے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ اتنے وسائل تلاش کرپائیں گے کہ وہ اپنے وعدوں کا نصف بھی پورا کرسکیں؟ ترقی اور نمو کی بحالی پر ان کی توجہ کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کے ساتھ ان کی وابستگی کچھ پیچیدہ ہو جائے گی۔ نواز شریف شاید واپس آگئے ہوں، لیکن ترقی اور روزگار کے ساتھ شاید ایسا نہ ہو۔
خرم حسین
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
نواز شریف کہاں ہیں؟
نواز شریف نے اپنی آخری سیاسی اننگ بغیر کھیلے ہی ختم کر دی۔ ایک ایسا شخص جو چار دہائیوں تک وطن عزیز کی سیاست پر چھایا رہا۔ ان کی سیاست کا یوں اختتام کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ اگرچہ وہ آمریت کی نرسری میں پلے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایک مزاحمتی سیاست دان کا روپ اختیار کیا جس کی وجہ سے انہوں نے بے مثال مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے'' میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا '' کا نعرہ لگایا اور قوم کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ ان کا سیاسی کیریئر ہر قسم کے اتار چڑھاؤ سے عبارت ہے۔ انہوں نے ایٹمی دھماکے کر کے خود کو محسن پاکستان کے طور پر پیش کیا تو دوسری طرف اٹل بہاری واجپائی کو لاہور میں بلایا اور جب دوبارہ موقع ملا تو نریندر مودی کو اپنی گھریلو تقریبات میں مدعو کیا اور وہ بھی سفارتی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لاہور آئے اور شریف فیملی کے ساتھ وقت گزارا۔ ان کی زندگی ایک طرح سے مختلف تضادات سے عبارت تھی۔ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ہی اپنے اقتدار کو طول دیا۔ عوامی طاقت اور مقتدرہ کی اشیرباد سے وہ جب بھی اقتدار میں آئے ان کے اقتدار کا خاتمہ غیر فطری انداز میں ہوا۔ وہ اپنی نوعیت کے واحد حکمراں ہیں جو بذات خود اپنی کوئی بھی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ پاکستان کے واحد حکمراں تھے جو وطن عزیز کے چاروں صوبوں میں یکساں مقبول تھے۔ انہوں نے اپنے عروج کے دنوں میں ملک کے تمام علاقوں میں بھرپور عوامی جلسے کیے۔ ہر صوبے کے سیاست دانوں کے ساتھ قریبی روابط رکھے۔ انہوں نے پاکستان کی ترقی میں بھی اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے تشکیل دیے ہوئے ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ آصف علی ��رداری کے شروع کیے ہوئے سی پیک کو عملی شکل دی۔ پاکستان میں انفراسٹرکچر کا جال بچھایا لیکن پانامہ کا ڈنگ لگنے کے بعد ان کے اقتدار کو وہ زوال آیا کہ جو عروج کی طرح بے مثال تھا۔ جلاوطنی میاں نواز شریف کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی۔ انہوں نے مشرف کے ساتھ معاہدہ کر کے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے رکھی تاہم 2018 کے بعد کی جلاوطنی اس لحاظ سے منفرد تھی کہ لندن میں قیام کے دوران عوام کا ہجوم انکے گھر کے باہر رہتا جسکے باعث وہ لندن میں بھی محصور ہی رہے۔ اس دوران پاکستان کی سیاست میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا یہاں تک کہ ''رجیم چینج'' کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم کر دی گئی۔
یہی وہ وقت تھا جب ایک طرف عمران خان کا عروج شروع ہوا اور میاں نواز شریف کا بتدریج زوال۔ پی ڈی ایم نے میاں شہباز شریف کی سربراہی میں جو حکومت قائم کی اس نے نہ صرف مسلم لیگ کو نقصان پہنچایا بلکہ میاں نواز شریف جیسے مدبر سیاستدان کی شہرت کو بھی داغدار کر دیا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ وہ نواز شریف جو مقتدرہ سے لڑائی کر کے عوام کی آنکھوں کا تارا تھا، ''ووٹ کو عزت دو'' کے نعرے نے کراچی سے لے کر خیبر تک بیداری کی ایک لہر پیدا کر دی تھی، ان کو اپنے اس نظریے سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر بھی خاموشی اختیار کرنا پڑی۔ انہوں نے ایک طرف مقتدرہ سے ہاتھ ملایا تو دوسری طرف عوام نے بھی انہیں اپنے دل سے اتار دیا۔ 2024 کے انتخابات ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ اس میں تحریک انصاف کی مشکیں کسی گئیں۔عمران خان کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اس کی جماعت کا انتخابی نشان چھین لیا گیا اور مسلم لیگ کو کھلی چھٹی دی گئی۔
میاں نواز شریف شاید نوشتہ دیوار پڑھ چکے تھے اس لیے انہوں نے ان انتخابات میں وہ روایتی سرگرمی نہ دکھائی جو ان کا خاصہ تھی اور جن جلسوں سے خطاب کیا وہ بھی بے رغبتی کے عالم میں تھا جس کے نتائج انہیں آٹھ فروری کو دیکھنا پڑے۔ لیکن اس سارے اہتمام کے باوجود عمران خان کا جادو ایک مرتبہ پھر نصف النہار پہنچ گیا۔ اور اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک پر چار دہائیوں سے حکومت کرنے والا شخص ایک گھر میں بند ہے تو دوسری طرف قیدی نمبر 804 پورے ملک پر حکومت کر رہا ہے۔ کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ کے الزامات نے انتخابات کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں ملا دی ہے۔ مسلم لیگ ن کو جس انداز میں فتح دلوائی گئی اور نشستیں جس طرح گھٹائی اور بڑھائی گئیں اسنے انتخابات کی شفافیت کو تو مشکوک بنایا ہی ہے میاں نواز شریف اور مسلم لیگ کی شناخت کو بھی گہری زک پہنچائی ہے۔ اس حالیہ فتح سے تو بہتر تھا کہ میاں نواز شریف لندن میں ہی قیام پذیر رہتے کم از کم ان کا بھرم ہی برقرار رہتا۔ میری دانست میں میاں نواز شریف اس خطے کے سب سے تجربہ کار رہنما ہیں۔
اپنی سیاست کا اس انداز میں اختتام کرنے کے بجائے خواجہ سعد رفیق کی طرح دل بڑا کر کے اپنی شکست تسلیم کرنی چاہیے اور جنہیں عوام نے مینڈیٹ دیا ہے انکا حق تسلیم کرنا چاہیے۔ انہیں چپ کا روزہ توڑ کر تحمل اور بردباری سے فیصلے کرنے چاہئیں۔ انتقام کی سیاست کو دفن کر کے سیاست اور اقتدار سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہیے۔ ہماری قوم کو بھی اپنے رہنماؤں کو باعزت طریقے سے رخصت کرنے کی روایت ڈالنی چاہیے۔ جس انداز میں نواز شریف کو خدا حافظ کہا جا رہا ہے وہ ہرگز مناسب نہیں۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Nawaz Sharif#Nawaz Sharif Politics#Pakistan#Pakistan elections#Pakistan Politics#PML-N#Politics#World
0 notes
Text
آؤ نیا وزیراعظم ـ ’سلیکٹ‘ کریں
سب سے پہلے تو پوری قوم کو نیا سال مبارک ہو، شکر کریں سال 2023 کو توسیع نہیں دی گئی۔ اب سنا ہے نئے سال میں کچھ ’’الیکشن و لیکشن‘‘ ہونے جا رہا ہے۔ سلیکشن کمیٹی خاصی محترک ہے بہت سے بلامقابلہ جیت نہیں پا رہے تو دوسروں کو بلا مقابلہ ہرایا جا رہا ہے۔ کوئی جیت کر بھی ہارتا نظر آ رہا ہے اور کوئی ہار کر بھی جیتتا۔ اب یہ بھی کیا حسن ِاتفاق ہے کہ صرف ایک پارٹی کی پوری اے ٹیم کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے گئے کیا کپتان کیا نائب کپتان، کیا پارٹی کا صدر یا قریب ترین ساتھی۔ اب دیکھتے ہیں کہ ان فیصلوں کیخلاف اپیلوں پر کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ دیکھتے ہیں پاکستان کی ’’بدقسمتی‘‘ کس کے ہاتھ آتی ہے، لگتا کچھ یوں ہے کوئی نیا پروجیکٹ تیار نہیں ہو پا رہا تو عبوری دور کیلئے پرانے پروجیکٹ کو ہی آزمانے کی تیاری آخری مرحلوں میں ہے، یہ نہ ہو پایا تو کہیں ’’فیکٹری کو سیل نہ کرنا پڑ جائے۔‘‘ آپ کسی محفل میں چلے جائیں، سوال بہت سادہ سا پوچھا جاتا ہے ’’کیا الیکشن واقعی ہو رہے ہیں۔ نظر نہیں آ رہا کہ پی ٹی آئی کو آنے دیا جائے گا۔ کپتان کا کیا بنے گا۔‘‘ زیادہ تر سوالات ہم جیسے صحافیوں سے ہی کیے جاتے ہیں سادہ سا جواب تو یہ دیتا ہوں جب تک الیکشن ملتوی نہ ہوں سمجھ لیں ہو رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے، چیف جسٹس کہہ رہے ہیں، آرمی چیف نے بھی کہہ دیا ہے، اب بھی اگر ایسا نہیں ہوتا تو تمام نئے پرانے پروجیکٹ بند ہونے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ بہرحال ابھی تک تو کچھ الیکشن ولیکشن ہو رہا ہے کچھ ویسا ہی جیساکہ ہوتا آیا ہے البتہ اس بار ذرا مشکل پیش آ رہی ہے کیونکہ پرانے پروجیکٹ کو چند سال میں اتنا نقصان پہنچا کہ لوگ اب اسے قبول کرنےکو مشکل سے ہی تیار ہوںگے اب اگر سرکار آپ نے فیصلہ کر ہی لیا ہے کسی کو لانے کا یا کسی کو نہ آنے ��ینے کا تو کیسا ووٹ اور کیسی اس کی عزت۔ یہ سال تو ان کیلئے بھی مشکل ترین سال رہا جنہوں نے اپنی پوری سیاسی زندگی راولپنڈی میں اور پنڈی کی طرف دیکھتے ہوئے گزار دی انہیں بھی چلے پر بیٹھنا پڑ گیا اور وہ گجرات کے چوہدری جو جنرل ضیاء سے لے کر جنرل مشرف تک کے ہمنوا رہے پہلے خود تقسیم ہوئے پھر نہ جانے ایک گھر سے مٹھائی کھا کر نکلے تو اس گھر اور شخص کو ہمراہ لیا جو انکے بیٹے کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ جو کبھی گجرات سے الیکشن ��ہیں ہارا آج اس کے بھی کاغذات مسترد ہو گئے۔ دیکھیں اپیل کا کیا بنتا ہے۔ دوستو یہ ہے سال 2023 کے سیاسی منظر نامہ کا مختصر جائزہ۔
یقین جانیں اس سب کی ضرورت نہ پڑتی اگر پی ڈی ایم تین چار بڑی غلطیاں نہ کرتی۔ پہلی مارچ 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک کا لانا۔ دوسری تحریک کے منظور ہونے کے بعد شہباز شریف یا کسی بھی شریف کو وزیر اعظم بنانا (اس سے سب سے زیادہ نقصان خود میاں صاحب کو ہوا)۔ تیسری اور سب سے بڑی غلطی سابق وزیر اعظم عمران خان کو ہٹا کر فوراً الیکشن نہ کرانا، اس سب کے باوجود اگر اگست 2023 میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نومبر میں ہی الیکشن ہو جاتے تب بھی یہ ساکھ تو شہباز صاحب کے حق میں جاتی کے وقت پر الیکشن ہو گئے۔ میاں صاحب اس بات کو ماننے پر تیار ہوں یا نہیں آج کا پنجاب 90 کے پنجاب سے مختلف ہے، ویسے بھی اس صوبہ کے مزاج میں غصہ بھی ہے اور وہ بہادر کے ساتھ کھڑا بھی ہوتا ہے اسی لیے ذوالفقار علیٰ بھٹو پھانسی لگنے کے بعد بھی زندہ ہے اور جنرل ضیاء نت نئے پروجیکٹ لانے کے بعد بھی اس کی مقبولیت ختم نہ کر سکے، انکے دو پروجیکٹ تھے محمد خان جونیجو دوسرے، شریف برادران۔ ایک کو اس لیے لایا گیا کہ سندھ کا احساس محرومی کم کیا جائے مگر اس نے تو پہلی تقریر میں ہی کہہ دیا کہ ’’جمہوریت اور مارشل لا ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘‘۔
دوسرے میاں صاحب تھے جنہیں بھٹو اور پی پی پی کا زور توڑنے کیلئے لایا گیا مگر پھر جنرل حمید گل مرحوم ان سے بھی ناراض ہو گئے کیونکہ وہ لاڈلے پن سے باہر آنا چاہتے تھے اور پھر عمران خان پہ کام شروع ہوا اور اب وہ بھی گلے پڑ گیا ہے۔ ماشاء اللہ کپتان سے بھی کمال غلطیاں ہوئیں۔ 2013 سے 2022 تک جنرل ظہیر سے جنرل پاشا تک اور جنرل باجوہ سے جنرل فیض تک وہ انکے ساتھ جڑے رہے اور پھر آخر میں ان ہی میں سے ایک جنرل باجوہ جن کی مدت ملازمت میں توسیع اور پھر مزید توسیع کیلئے سب دربار میں حاضر تھے، ہی کے ہاتھوں جو کچھ ہوا وہ مارچ اور اپریل 2022 کی کہانی ہے۔ خان صاحب کی تاریخی غلطیوں میں ان پر سیاسی معاملات میں اعتماد کرنا، پرانا پنجاب عثمان بزدار کے حوالے کرنا ، دوسری جماعتوں سے آئے ہوئے لوگوں کو اپنی کور کمیٹی کا حصہ بنانا، سیاسی مخالفین سے بات نہ کرنا، پنجاب اور کے پی کی حکومتیں ختم کر کے اپنی فیلڈ مخالفین کے حوالے کر دینا۔ ان غلطیوں کے باوجود آج بھی عمران اپنے سیاسی مخالفین سے آگے نظر آتا ہے جسکی بڑی وجہ پی ڈی ایم کی 18 ماہ کی کارکردگی اور مظلومیت کارڈ ہے۔
اب آپ سارے کاغذات مسترد بھی کر دیں، نااہل اور سزا برقرار بھی رکھیں، ایک ٹیم کو میچ سے ہی باہر کر دیں۔ لاتعداد پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس یا انٹرویو کروا دیں یقین جانیں یہ وہی سیاسی غلطیاں ہیں جو 1956 سے ہماری حکمراں اشرافیہ کرتی آ رہی ہے۔ بہتر ہوتا اگر عمران کو اپنی مدت پوری کرنے دی جاتی اور جیسا کہ پی ڈی ایم اور پی پی پی کے دوستوں کا خدشہ تھا وہ جنرل فیض کو آرمی چیف بنا بھی دیتا، کوئی صدارتی نظام سے بھی آتا تو کیا جمہوری جدوجہد ختم ہو جاتی یہ صرف خدشات کی بنیاد پر ہونے والی کارروائی کا نتیجہ ہے کہ آج تمام تر اقدامات کے باوجود خان کی مقبولیت کا گراف بدستور اوپر ہے۔ آخر میں طاقتور لوگوں سے بس ایک گزارش ہے کہ پروجیکٹ بنانا ختم کرنا پھر نیا پروجیکٹ تیار کرنا پھر اسے ہٹا کر کوئی اور یا پرانا کچھ تکنیکی مرمت کے بعد دوبارہ لانچ کرنا، جماعتیں بنانا توڑنا، حکومتیں گرانا اور توڑنا چھوڑ دیں۔ غلطیاں کرنی ہی ہیں تو نئے سال میں نئی غلطیاں کریں پاکستان آگے بڑھ جائیگا ورنہ تاریخ کبھی ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Nawaz Sharif#Pakistan#Pakistan establishment#Pakistan Politics#PDM#Politics#PTI#Shahbaz Sharif#Word
0 notes
Text
Pakistan Economy Crisis: पाकिस्तान की बर्बादी के लिए भारत जिम्मेदार नहीं: नवाज़ शरीफ़
लाहौर: पाकिस्तान के पूर्व प्रधानमंत्री नवाज शरीफ (Nawaz Sharif) ने मंगलवार को कहा कि न तो भारत और न ही अमेरिका की वजह से पाकिस्तान नकदी संकट (Pakistan Economy Crisis) से जूझ रहा है। बल्कि पाकिस्तान की जनता ने अपने पैरों पर कुल्हाड़ी मारी है।शरीफ ने देश में बढ़ रहे सभी संकटों के लिए शक्तिशाली सैन्य प्रतिष्ठान को जिम्मेदार ठहराया है। पाकिस्तान मुस्लिम लीग-नवाज (Pakistan Muslim League – N) के टिकट के…
View On WordPress
#Nawaz Sharif#Pakistan crisis#Pakistan Economy Crisis#Pakistan Muslim League#नवाज शरीफ#पाकिस्तान मुस्लिम लीग
0 notes
Photo
(via Pakistan High Court Acquits Former PM Nawaz Sharif in Graft Case)
In a significant legal development, the Islamabad High Court in Pakistan has overturned a graft conviction against former three-time Prime Minister Nawaz Sharif.
0 notes