#قیادت
Explore tagged Tumblr posts
googlynewstv · 3 months ago
Text
عمران خان کی پی ٹی آئی قیادت کو سول نافرمانی کی تحریک جاری رکھنے کی ہدایت
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے سول نافرنی کی تحریک جاری رکھنےجبکہ پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر،سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا او سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کوعالمی امور پر بات کرنےکی ہدایات دےدی ہیں۔ ٹیلیفونک گفتگو کرتے ہوئےمرکزی سیکرٹری اطلاعات پی ٹی آئی شیخ وقاص اکرم نےکہا کہ بانی پی ٹی آئی نے سول نافرمانی کی کال جاری رکھنےکا حکم دیا ہے۔ شیخ وقاص اکرم کا کہنا ہےکہ عمران خان نے بیرسٹر گوہر، سلمان…
0 notes
topurdunews · 4 months ago
Text
فائنل کال کی ناکامی، پی ٹی آئی قیادت پشاور میں سر جوڑ کر بیٹھے گی
(طیب سیف)فائنل کال کی ناکامی اور سلمان اکرم راجہ کا استعفیٰ  پاکستان تحریک انصاف  نے  آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کر لیا،پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت پشاور میں سر جوڑ کر بیٹھے گی ۔ پی ٹی آئی کا اجلاس وزیر اعلیٰ ہاوس میں ہو گا ،اجلاس میں بیرسٹر گوہر ، عمر ایوب ،اسد قیصر ،علی امین گنڈا پور شرکت کریں گے۔ بشری بی بی بھی آج مانسہرہ سے پشاور پہنچ گئی ہیں،اجلاس میں آئندہ کا سیاسی لائحہ عمل ، ورکرز کو چارج کرنے…
0 notes
pinoytvlivenews · 5 months ago
Text
آسٹریلیا کا پاکستان کیخلاف ون ڈے سیریز کیلئے سکواڈ کا اعلان،ٹیم کی قیادت کون کریگا؟ جانیے
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان کے خلاف ون ڈے سیریز کیلئے آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا اعلان کر دیا گیا ہے۔  کرکٹ آسٹریلیا کے مطابق پیٹ کمنز ٹیم کی قیادت کریں گے، مچل مارش اور ٹریوس ہیڈ پیٹرنٹی چھٹیوں پر ہیں اس لیے ان کو زیر غور نہیں لایا گیا۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین ون ڈے میچز 4، 8 اور 10 نومبر کو کھیلے جائیں گے۔ تین ٹی20 میچز کے لیے ٹیم کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔   منتخب سکواڈ میں شین…
0 notes
emergingpakistan · 4 months ago
Text
وہ امریکہ اب نہیں رہا
Tumblr media
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان صدارتی انتخاب ایک حقیقت کے سامنے بے بس تھا اور وہ ہے اکیسویں صدی میں امریکہ کی مسلسل تنزلی۔ امریکہ نے اپنی قیادت، اعتماد، اخلاقی ساکھ اور اقتصادی برتری کھو دی ہے۔ 20 جنوری 2025 کو صدر ٹرمپ ایک ہی وقت میں امریکی گھمنڈ کے تازہ ترین علمبردار اور امریکی تنزلی کے جنازہ بردار کا حلف اٹھائیں گے۔ 1987 میں پال کینیڈی کی کتاب ’دی رائز اینڈ فال آف دی گریٹ پاورز‘ نے اس وقت تنازعہ کھڑا کیا جب اس نے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ یعنی طاقت سے زیادہ غیر معمولی پھیلاؤ کو امریکی زوال کی ممکنہ وجہ قرار دیا۔ اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی کا باعث جاپان تھا، جو اپنی نمایاں دولت، جدید ٹیکنالوجی اورمعاشی انتظام کے نئے طریقوں کے ساتھ امریکہ کو چیلنج کر رہا تھا۔ 1989 کا اہم سال افغانستان سے سوویت یونین کی واپ��ی کے ساتھ شروع ہوا۔ فرانسیس فوکویاما نے اپنے مضمو�� ’دی اینڈ آف ہسٹری‘ میں لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کی تاریخ میں حتمی فتح کا اعلان کیا۔  دیوارِ برلن نومبر 1989 میں گری اور اس کے ساتھ ہی سوویت استبداد کا پردہ بھی گر گیا۔ امریکی فاتحین نے دعویٰ کیا کہ سوویت یونین نے ’اوور سٹریچ‘ کا شکار ہو کر شکست کھائی۔
سوویت یونین کی جانب سے 1990 میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد پر اتفاق اور صدام حسین کے کویت پر حملے نے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کو جنم دیا۔ 1991 کا سال عراق میں امریکہ کی فتح سے شروع ہوا اور سوویت یونین کی تحلیل پر ختم ہوا۔ 1991 سے 2001 کا عشرہ امریکہ کے ہائپر پاور ہونے کا دور تھا۔ سوویت یونین کے بکھرنے، چین کی کمزوری اور انٹرنیٹ کے کمرشل استعمال میں آنے سے امریکہ نے ’غیر معمولی عظمت‘ کا لطف اٹھایا جیسا کہ ایڈورڈ گِبن نے اپنی کتاب ’دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر‘ میں بیان کیا۔ امریکہ کے سامنے کوئی حریف نہیں تھا یوں لگتا تھا کہ 20ویں صدی کی طرح 21ویں صدی میں بھی امریکہ ہی مستقبل کی طاقت ہو گا۔ ستمبر 2001 کی ایک صبح، کئی سو سالوں سے موجود امریکی رجائیت اور اعتماد دہشت گردی کے سامنے ڈھیر ہو گئے اور ان کی جگہ تکبر اور تنگ نظر قومیت پرستی نے لے لی، جس کا اظہار امریکی ووٹروں نے ایک مرتبہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کر کے کیا ہے۔ 21ویں صدی کے پہلے عشرے میں دو جنگوں اور دو اقتصادی واقعات نے امریکی زوال کوتیز تر کیا۔
Tumblr media
اس وقت کی واحد سُپر پاور نے افغانستان پرغیظ وغضب کے ساتھ اور عراق پر تکبر کے ساتھ حملہ کیا۔ امریکہ کو دونوں جنگوں میں شکست ہوئی۔ 2003 میں عراق پرامریکی حملہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے سوویت یونین پر حملے کے بعد جنگی حکمت عملی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ افغانستان میں امریکہ کی شکست دہائیوں پر محیط، کئی کھرب ڈالر کی فوجی، تکنیکی، سٹریٹیجک اور سیاسی تباہی تھی۔ عراق اور افغانستان نے پروفیسر کینیڈی کے نظریے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ کی تصدیق کر دی۔ 2000 میں چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت اور 2008 کے مالیاتی بحران نے امریکہ کو 9/11  سے زیادہ کمزور کیا۔ چین کی ڈبلیو ٹی او میں شمولیت نے امریکی صنعت کو کھوکھلا کر دیا۔ 2010 تک چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا۔ 2024 میں چینی معیشت جاپان، بھارت اور جرمنی کی مشترکہ معیشت سے بڑی ہو چکی ہے۔ 2008 کے مالیاتی بحران نے مغربی اقتصادی ترقی کو تقریباً دو دہائیوں کے لیے سست کر دیا اور نیولبرل جمہوریت اور اس کی اقتصادی شاخ، گلوبلائزیشن میں مغربی عوام کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا۔
جب مغربی جمہوریتوں کے ووٹر جمہوریت پر سوال اٹھا رہے تھے، چین ہر سال نہیں بلکہ ہر دہائی میں معاشی ترقی کے جھنڈے گاڑ رہا تھا۔ امریکہ اور مغرب نے اشتراکیت کے خلاف سرد جنگ اس لیے نہیں جیتی کہ ان کے نظریات بہتر تھے، بلکہ اس لیے جیتی کہ وہ دہائیوں تک کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں زیادہ دولت مند اور تکنیکی طور پر جدیدیت کے حامل تھے۔ چینی معاشی کارکردگی نے لبرل جمہوریت، اقتصادی ترقی اور تکنیکی جدت کے درمیان مغرب کا رشتہ کاٹ کر رکھ دیا ہے، کوئی تعجب نہیں کہ دنیا بھر میں ووٹر استبدادی عوامی قیادت کی طرف رجوع کر رہے ہیں، چاہے وہ انڈونیشیا ہو، بھارت ہو، ہنگری ہو، یا اب امریکہ ہو۔ امریکہ کی تنزلی کا آخری پہلو اخلاقی ہے جسے مورخ ایڈورڈ گِبن نے ’معاشرتی فضائل‘ کی کمی لکھا تھا۔ سیاہ فاموں کی غلامی سے لے کرعراق کی ابو غریب جیل میں انسانی حقوق کی پامالی تک، امریکی طرز عمل میں منافقت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ تاہم سرد جنگ کے دوران، جب تک سوویت یونین اور اس کے اتحادی اپنے شہریوں کی آزادیوں کو دباتے، ان کے اقتصادی حقوق چھینتے اور ان کی غریبی میں اضافہ کرتے رہے اور اس کے برعکس امریکہ ضرورت مند ممالک کی مدد کرتا رہا، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں کی اخلاقی ہولناکی کو نظرا نداز کیا جاتا رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے نئے بین الاقوامی اداروں کی تخلیق اور قیادت کی جو جنگ کو روکنے اور غریب ممالک کی مدد کے لیے بنائے گئے تھے۔ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، نیٹو اور ورلڈ بینک اس کی اہم مثالیں ہیں۔ ان اداروں کے فوائد پر بحث ہو سکتی ہے۔ جو چیز بحث سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ یہ ادارے امریکی اولیت کو مضبوط کرتے ہیں اور ساتھ ہی امریکہ کو دوسرے ملکوں کو اخلاقی بھاشن دینے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ اپنے حواری ملکوں کو کئی دہائیوں سے تحفظ فراہم کر رہا ہے، بین الاقوامی معاشی معاملات میں امریکہ نے ’قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام‘ کی تخلیق کی اور اس کا دفاع کیا۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کو ایک اخلاقی جنگ میں تبدیل کیا، جس میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے بیانیے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ امریکہ کی تنزلی صرف افغانستان اور عراق میں ہی نظر نہیں آتی بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس کی ابتدا 1971 میں سونے کے معیار کو زبردستی ترک کرنے سے ہوئی۔ 1973 میں اوپیک تیل کے بائیکاٹ سے اس تنزلی میں تیزی پیدا ہوئی جوکہ 1974 میں صدر نکسن کے استعفے اور 1975 میں ویت نام سے ��رمناک انخلا سے تیز تر ہوئی۔
1970 کی دہائی میں امریکی تنزلی کا اثر امریکی شہروں میں واضح طور پر نظر آیا۔ معاشرتی طور پر 1995 میں اوکلاہوما پر بمباری، 2005 میں قطرینا طوفان اور کووڈ 19 کے دوران 12 لاکھ سے زیادہ امریکیوں کی ہلاکت نے اس تنزلی کو دنیا پر واضح کر دیا۔ آج دنیا کے مستقبل کا استعارہ امریکی شہر نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا کے شہر ہیں۔ امریکہ آج بھی دنیا میں فوجی اخراجات اور پوری دنیا میں فوجی طاقت کی موجودگی میں سب سے آگے ہے۔ امریکہ اپنے دفاع پر اگلے آٹھ ممالک سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ دفاعی اعتبار سے امریکہ اب بھی واحد سپر پاور ہے۔ امریکی معیشت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، جس کی موجودہ سب سے بڑی طاقت انٹرنیٹ پر مبنی ہے۔ ہالی وڈ اور مقبول ثقافت کی نرم طاقت ابھی تک پُراثر ہے۔ امریکی ڈالر دنیا کی غالب کرنسی ہے اور امریکی استعمار کو قائم رکھنے میں طاقتور ہتھیار ہے۔ امریکہ زوال پذیر ہو رہا ہے، لیکن روم کی سلطنت کی طرح اس کا انہدام ابھی نظر نہیں آ رہا لیکن امریکی قوم کی سخاوت، کشادگی اور روح کے وسیع پن کا انہدام ہو گیا ہے۔
امریکی سیاسی قیادت کا معیاراتنی تیزی سے گرا ہے جتنا کہ اس کی جمہوریت کا معیار، جس کی واضح مثال 6 جنوری 2021 کو امریکی کانگرس پر ہونے والا مسلح حملہ ہے۔ اکتوبر 2023 کے بعد امریکہ نے اپنی اخلاقی حیثیت کے آخری چیتھڑے بھی کھو دیے ہیں، جب اس نے وہ ہتھیار فراہم کیے جو غزہ میں 42 ہزار سے زائد بے گناہ، نہتے انسانوں اور بچوں کی جان لے چکے ہیں اور جب امریکہ نے انسانی حقوق کو ملیامیٹ کرنے والی نسل کشی، ظالمانہ بمباری، جبری بے دخلی اور سفاک قتل عام پر آنکھیں بند کر لیں۔ یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی صورت حال میں واپس جا رہا ہے، یعنی دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کے درمیان ایک طاقت، لیکن ہم نے پچھلی دہائیوں میں ایک کھلا، سخاوت سے بھرا اور خوش آمدید کہنے والا امریکہ بھی دیکھا ہے جو اپنی تمام خامیوں کے باوجود اپنے بنیادی جمہوری تصورات اور انسانی اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ امریکہ اب نہیں رہا۔
خرم دستگیر خان  خرم دستگیر ��سلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے خارجہ امور اور سابق وزیرِ دفاع رہ چکے ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes · View notes
my-urdu-soul · 8 months ago
Text
کسی سے کوئی شکوہ ہے نہ دل میں کوئی نفرت ہے
ملے ہو تم مجھے جب سے یہ دنیا خوبصورت ہے
ہماری بن نہیں سکتی کبھی شیخ و برہمن سے
گنہ وہ جس کو کہتے ہیں وہی اپنی عبادت ہے
کہاں موقع ملا مجھ کو تمہارے ساتھ رہنے کا
سفر میں مل گئے طرزی تو یہ سمجھا سعادت ہے
گلوں کو خار کہتے ہیں خلش کو شبنمی ٹھنڈک
اشارہ اور ہی کچھ ہے غزل کی یہ نزاکت ہے
تمہاری ہر ادا کو جانتا پہچانتا ہوں میں
خموشی ہے اگر لب پر تو یہ میری شرافت ہے
ہمارا کچھ نہیں دل تھا وہ کب کا دے دیا تجھ کو
ذہانت تھی بس اک دولت وہ بھی تیری امانت ہے
تمہارے حسن روز افزوں میں میرا بھی تو حصہ ہے
میرا حصہ مجھے دے دو، نہ دوگے تو خیانت ہے
یہ کیسی دوستی ہے دوستوں کو تشنہ رکھتے ہو
بڑھی جو تشنگی حد سے تو اعلانِ بغاوت ہے
جگر کا خون ہوتا ہے تو پھر اشعار بنتے ہیں
جگر سوزی و خوں ریزی میں ہی سچی حلاوت ہے
تمہارے مکر و سازش نے دکھایا ہے مجھے رستہ
ترے جور و ستم سے ہی میری دنیا سلامت ہے
جو نکلے خون کے قطرے چھلک کر میری آنکھوں سے
یہ خود کردہ گناہوں پر بہے اشکِ ندامت ہے
تو اپنی قدر کر ناداں تجھے نائب بنایا ہے
تری قسمت میں دنیا کی قیادت اور امامت ہے
سناتے ہیں میاں محمودؔ اب تو آپ بیتی ہی
بظاہر داستانِ غم بباطن اک حکایت ہے
- محمود عالم
2 notes · View notes
risingpakistan · 1 year ago
Text
’مغربی میڈیا غزہ میں اپنے صحافی ساتھیوں کو بھی کم تر سمجھ رہا ہے‘
Tumblr media
عالمی میڈیا جیسے بی بی سی، سی این این، اسکائے نیوز اور یہاں تک کہ ترقی پسند اخبارات جیسے کہ برطانیہ کے گارجیئن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی ساکھ خراب ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں تقریباً 400 فوجیوں سمیت 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے آنے والے غیر متناسب ردعمل کے حوالے سے ان صحافتی اداروں کی ادارتی پالیسی بہت ناقص پائی گئی۔ حماس کے عسکریت پسند اسرائیل سے 250 کے قریب افراد کو یرغمالی بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسرائیلی جیلوں میں قید 8 ہزار فلسطینیوں میں سے کچھ کی رہائی کے لیے ان یرغمالیوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید ان فلسطینیوں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، ان میں ایک ہزار سے زائد قیدیوں پر کبھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ انہیں صرف ’انتظامی احکامات‘ کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہیں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ غزہ شہر اور غزہ کی پٹی کے دیگر شمالی حصوں پر اسرائیل کی مشتعل اور اندھی کارپٹ بمباری میں 14 ہزار فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں سے 60 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے تھے جبکہ امریکی قیادت میں مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی جانب سے کیے گئے قتل عام، یہاں تک کہ نسل کشی کی یہ کہہ کر حمایت کی ہے کہ وہ اپنے دفاع کے حق کا استعمال کررہا ہے۔
افسوسناک طور پر ان صحافتی اداروں میں سے بہت سی تنظیموں نے اپنی حکومتوں کے اس نظریے کی عکاسی کی جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازع کی ابتدا 7 اکتوبر 2023ء سے ہوئی نہ کہ 1948ء میں نکبہ سے کہ جب فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا۔ چونکہ ان کی اپنی حکومتیں قابض اسرائیل کے نقطہ نظر کی تائید کر رہی تھیں، اس لیے میڈیا اداروں نے بھی اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو لے لیجیے، ان اعداد و شمار کو ہمیشہ ’حماس کے زیرِ کنٹرول‘ محکمہ صحت سے منسوب کیا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے شکوک پیدا ہوں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر ہیومن رائٹس واچ اور غزہ میں کام کرنے والی چھوٹی تنظیموں تک سب ہی نے کہا کہ حماس کے اعداد و شمار ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن اعداد و شمار میں تبدیلی تو اسرائیل کی جانب سے کی گئی جس نے حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے اسرائیلیوں کی ابتدائی تعداد کو 1400 سے کم کر کے 1200 کر دیا۔ تاہم میڈیا کی جانب سے ابتدائی اور نظر ثانی شدہ اعداد وشمار کو کسی سے منسوب کیے بغیر چلائے گئے اور صرف اس دن کا حوالہ دیا گیا جس دن یہ تبدیلی کی گئی۔
Tumblr media
یہ تبدیلی اس لیے کی گئی کیونکہ اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ حماس نے جن کیبوتز پر حملہ کیا تھا ان میں سے کچھ جلی ہوئی لاشیں ملی تھیں جن کے بارے میں گمان تھا کہ یہ اسرائیلیوں کی تھیں لیکن بعد میں فرانزک ٹیسٹ اور تجزیوں سے یہ واضح ہوگیا کہ یہ لاشیں حماس کے جنگجوؤں کی ہیں۔ اس اعتراف کے باوجود عالمی میڈیا نے معتبر ویب سائٹس پر خبریں شائع کرنے کے لیے بہت کم کام کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی ریڈیو پر ایک عینی شاہد کی گواہی کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ان گھروں کو بھی نشانہ بنایا جہاں حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا یوں دھماکوں اور اس کے نتیجے میں بھڑک اٹھنے والی آگ میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی اپاچی (گن شپ) ہیلی کاپٹر پائلٹس کے بیانات کے حوالے سے بھی یہی رویہ برتا گیا۔ ان بیانات میں ایک ریزرو لیفٹیننٹ کرنل نے کہا تھا کہ وہ ’ہنیبل ڈائیریکٹوز‘ کی پیروی کررہے تھے جس کے تحت انہوں نے ہر ا�� گاڑی پر گولی چلائی جس پر انہیں یرغمالیوں کو لے جانے کا شبہ تھا۔ اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ کو صرف ان میں سے کچھ مثالوں کو گوگل کرنا ہو گا لیکن یقین کیجیے کہ مغرب کے مین اسٹریم ذرائع ابلاغ میں اس کا ذکر بہت کم ہوا ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی فوجیوں، عام شہریوں، بزرگ خواتین اور بچوں پر حملہ نہیں کیا، انہیں مارا نہیں یا یرغمال نہیں بنایا، حماس نے ایسا کیا ہے۔
آپ غزہ میں صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوریج کو بھی دیکھیں۔ نیویارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلن والش نے ایک ٹویٹ میں ہمارے غزہ کے ساتھیوں کو صحافت کے ’ٹائٹن‘ کہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو درپیش خطرے کو نظر انداز کیا اور غزہ میں جاری نسل کشی کی خبریں پہنچائیں۔ آپ نے الجزیرہ کے نامہ نگار کے خاندان کی ہلاکت کے بارے میں سنا یا پڑھا ہی ہو گا۔ لیکن میری طرح آپ کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے کم از کم 60 صحافیوں اور ان کے خاندانوں میں سے کچھ کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی علم ہو گا۔ یعنی کہ کچھ مغربی میڈیا ہاؤسز نے غزہ میں مارے جانے والے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کو بھی کم تر درجے کے انسان کے طور پر دیکھا۔ بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہری آبادی کو بے دریغ نشانہ بنانے اور خون میں لت پت بچوں کی تصاویر دنیا کے سامنے پہنچ رہی ہیں، نسل کشی کرنے والے انتہائی دائیں بازو کے نیتن یاہو کو حاصل مغربی ممالک کی اندھی حمایت بھی اب آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے۔
اسپین اور بیلجیئم کے وزرائےاعظم نے واضح طور پر کہا ہے کہ اب بہت ہو چکا۔ اسپین کے پیڈرو سانچیز نے ویلنسیا میں پیدا ہونے والی فلسطینی نژاد سیرت عابد ریگو کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ سیرت عابد ریگو نے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا کہ فلسطینیوں کو قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ پیڈرو سانچیز نے اسرائیل کے ردعمل کو ضرورت سے زیادہ قرار دیا ہے اور فلسطین کو تسلیم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ جن جماعتوں اور امیدواروں نے اسرائیل کو غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ دی ہے وہ اپنے ووٹرز کو گنوا رہے ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کی فتح کا فرق معمولی ہی تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اگر وہ اپنے ’جنگ بندی کے حامی‘ ووٹرز کے خدشات کو دور نہیں کرتے اور اگلے سال اس وقت تک ان ووٹرز کی حمایت واپس حاصل نہیں لیتے تو وہ شدید پریشانی میں پڑ جائیں گے۔
اسرائیل اور اس کے مغربی حامی چاہے وہ حکومت کے اندر ہوں یا باہر، میڈیا پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں۔ ایسے میں ایک معروضی ادارتی پالیسی چلانے کے بہت ہی ثابت قدم ایڈیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس انتہائی مسابقتی دور میں میڈیا کی ساکھ بچانے کے لیے غیرجانبداری انتہائی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا اب روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے اور اگرچہ ہم میں سے ہر ایک نے اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود منفی مواد کے بارے میں شکایت کی ہے لیکن دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان پلیٹ فارمز کے شکر گزار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید غزہ میں جاری نسل کشی کی پوری ہولناکی ان کے بغیر ابھر کر سامنے نہیں آسکتی تھی۔ بڑے صحافتی اداروں کی جانب سے اپنے فرائض سے غفلت برتی گئی سوائے چند مواقع کے جہاں باضمیر صحافیوں نے پابندیوں کو توڑ کر حقائق کی رپورٹنگ کی۔ اس کے باوجود یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تھے جنہوں نے اس رجحان کو بدلنے میں مدد کی۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو ہم روایتی میڈیا کو بھی خود کو بچانے کے لیے اسی راہ پر چلتے ہوئے دیکھیں گے۔
عباس ناصر   یہ مضمون 26 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes · View notes
lahore-division-updates · 4 days ago
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس ، محکمہ تعلقات عامہ ، حکومت پنجاب ، شیخوپورہ
ہینڈ آؤٹ نمبر : 10729
23 مارچ : وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف ، چیف سیکرٹری پنجاب ، کمشنر لاہور اور ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ کی خصوصی ہدایت پر ضلعی انتظامیہ کے زیر اہتمام یوم پاکستان کے سلسلہ میں تقاریب اور ریلیوں کا انعقاد کیا گیا ۔ ضلع کونسل ہال میں پرچم کشائی کی مرکزی تقریب اور ریلی کا اہتمام کیا گیا ۔ ڈپٹی کمشنر شاہد عمران مارتھ کی ہدایت پر تمام تحصیلوں کے اسسٹنٹ کمشنرز نے پرچم کشائی اور ریلیوں کی قیادت کی ۔ پولیس اور ریسکیو 1122 کے چاک و چوبند دستوں نے سلامی پیش کی تقریب میں سائرن بجا کر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی ۔ شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اور ملکی سالمیت و خوشحالی کیلئے دعائیں کی گئی ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ شاہد عمران مارتھ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 23 مارچ کا اہم اور یادگار دن تحریک پاکستان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ آزادی بڑی نعمت ہے نوجوان نسل کو بزرگوں کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیے۔ یوم پاکستان علامہ اقبال کے عظیم خواب ، قائد اعظم محمد علی جناح کے مصمم ارادے اور برصغیر کے مسلمانوں کی لازوال قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ ہم عہد کرتے ہیں ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ شاہد عمران مارتھ مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قومی یکجہتی، باہمی محبت، اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دیکر وطن عزیز کو عظیم سے عظیم تر بنائیں گے۔ آزاد قومیں اپنی ثقافت اور نظریے کو زندہ رکھتی ہیں۔ پرچم کشائی کی تقریب کے بعد ریلی کا انعقاد کیا گیا ریلی ضلع کونسل ہال سے شروع ہو کر یادگار چوک پہنچ کر اختتام پذیر ہوئی ریلی میں شرکا اور طلباء نے سبز ہلالی پرچم اٹھا رکھے تھے پاک فوج اور پاکستان کے حق میں فلک شگاف نعرے لگائے گئےریلی کے اختتام پر ملک پاکستان کی سلامتی کے لیے دعائیں کی گئی
۔۔۔۔۔۔۔
0 notes
hauntedqueenking · 8 days ago
Link
[ad_1] قومی سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کرلیا، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کرسنایا، پارلیمانی کمیٹی نے دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کی مذمت کی اور سیکیورٹی فورسز کی بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کو سراہا۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس پونے 6 گھٹنے جاری رہنے کے بعد ختم ہوگیا، اجلاس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کی جبکہ وزیراعظم شہباز شریف، عسکری قیادت اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان نے اجلاس میں شرکت کی۔ قومی سلامتی کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس میں آرمی چیف نے پچاس منٹ بریفنگ دی جبکہ ڈی جی ملٹری آپریشنز نے بھی اجلاس کو آگاہی دی۔ اجلاس میں بلاول بھٹو، اراکین کابینہ، وزرائے اعلیٰ، گورنرز بھی موجود تھے۔ اپوزیشن ارکان اور وزیرداخلہ محسن نقوی اجلاس سے غیر حاضر رہے۔ اجلاس کا اعلامیہ جاری قومی سلامتی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کا اعلامیہ جا ری کردیا گیا، وزیراعظم شہبازشریف نے اعلامیہ پڑھ کرسنایا جبکہ پارلیمانی کمیٹی نے اعلامیے کی متفقہ طورپرمنظوری دے دی۔ اعلامیے میں بتایا گیا کہ ملکی سلامتی کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس آج اسلام آباد میں منعقد ہوا، آج کے اس اجلاس میں قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی نے دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کی واضح الفاظ میں مذمت کی اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ گہری یکجہتی کا اظہار کیا۔ اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے انسداد دہشت گردی آپریشنز کے انعقاد میں سیکیورٹی فورسز و قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کو سراہتے ہوئے دہشت گردی کو اس کی تمام شکلوں میں ختم کرنے کے لیے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا۔ کمیٹی نے ریاست کی پوری طاقت کے ساتھ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اسٹریٹجک اور ایک متفقہ سیاسی عزم پر زور دیتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے لیے قومی اتفاق کی ضرورت پر زور دیا جبکہ کمیٹی نے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے، لاجسٹک سپورٹ کے انسداد اور دہشت گردی و جرائم کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان اور عزم استحکام کی حکمت عملی پر فوری عمل درآمد پر زور دیا۔ کمیٹی نے پروپیگنڈا پھیلانے، اپنے پیروکاروں کو بھرتی کرنے اور حملوں کو مربوط کرنے کے لیے دہشت گرد گروپوں کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس کی روک تھام کیلئے اقدامات پر زور دیا۔ کمیٹی نے دہشت گردوں کے ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے سدباب کے لیے طریقہ کار وضح کرنے پر بھی زور دیا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کمیٹی نے ان کی قربانیوں اور ملکی دفاع کے عزم کا اعتراف کیا اور کہا کہ قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج، پولیس، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ کمیٹی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دشمن قوتوں کے ساتھ ملی بھگت سے کام کرنے والے کسی بھی ادارے، فرد یا گروہ کو پاکستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کمیٹی نے حزب اختلاف کے بعض اراکین کی عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اعادہ کیا کہ اس بارے میں مشاورت کا عمل جاری رہے گا۔ اجلاس میں کیا ہوا؟ اجلاس کا آغازتلاوت کلام پاک سے کیا گیا ۔ تلاوت کلام پاک کے بعد قومی ترانہ بجایا گیا۔ اسپیکر ایازصادق نے قومی سلامتی کے شرکا کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس ملکی مجموعی سیکورٹی صورت حال کے حوالے سے ہے، اجلاس کے شرکا سلامتی صورتحال پر اپنی تجاویز بھی دیں۔ اجلاس میں پہلے عسکری قیادت کی طرف سے بریفنگ دی گئی، بریفنگ کے بعد پارلیمنٹیرینز کے سوالات کے جواب بھی دیے گئے۔ عسکری حکام کی طرف سے اجلاس کو تفصیلی بریفنگ ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں عسکری حکام کی طرف سے اجلاس کو تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ بریفنگ میں ملک میں جاری انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنزکی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا، فتنہ الخوارج کے خلاف جاری کارروائیوں کے بارے میں بتایا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عسکری حکام نے فتنہ الخوارج کی قیادت کی افغانستان میں موجودگی پربریفنگ دی اور افغانستان سے ہونیوالی دہشت گرد کارروایئوں پربھی اجلاس کو بتایا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عسکری حکام نے ضم شدہ اضلاع کی سیکیورٹی صورتحال پر بھی تفصیلی بریفنگ دی اور بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے محرکات سے آگاہ کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق عسکری حکام نے کالعدم جماعت کو ملنے والی غیر ملکی سپورٹ کے بارے میں بتایا، عسکری حکام کی بریفنگ جاری ہے، ڈی جی ایم او کے بعد آرمی چیف نے پچاس منٹ بریفنگ دی۔ پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں نمازظہرکے 15 منٹ کے وقفے کے بعد پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا۔ پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس جاری ہے، اجلاس میں سوال و جواب کا سیشن چل رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلی کے پی علی امین گنڈا پور نے بات کی ہے، وزیردفاع خواجہ آصف نے بھی خطاب کیا۔ وزیراعظم شہبازشریف کااجلاس سے خطاب قبل ازیں، وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پوری قوم ایک ہے، ملک میں دہشت گردی کو ہر صورت شکست دیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، سیاسی قیادت قومی سلامتی کے معاملہ پر ایک ہے۔ عسکری قیادت کا شکر گزار ہوں۔ وزیراعظم نے خاص طور پر آرمی چیف کا شکریہ ادا کیا اور مجموعی ملکی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک کی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے، ملک میں امن و امان و سلامتی کو یقینی بنایا جائے گا، دہشت گردی کی پاکستان کی سرزمین پر کوئی جگہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ دہشتگردی ملک کیلئے ناسور بن چکی ہے، دہشتگردی کا حل پارلیمنٹ نے نکالنا ہے، دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ہم آخری حد تک جائینگے، ملک کو دہشتگردی سے پاک کرینگے، شہداء کی قربانیوں کوفراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ڈی جی ملٹری آپریشن کی بریفنگ، وزیرداخلہ و اپوزیشن لیڈرکی غیر حاضری قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن رہنما شریک نہیں ہوئے، وزیر داخلہ محسن نقوی بھی اجلاس سے غیر حاضر رہے۔ اجلاس میں چیئرمین پی ٹی آئی گوہر علی، اسد قیصر، زرتاج گل، صاحبزادہ حامد رضا اورعامرڈوگر بھی غیرحاضر تھے۔ ثنا اللہ مستی خیل، علی محمد خان اور زبیرخان، اپوزیشن لیڈر سینیٹ شبلی فراز اورسینیٹرعلی ظفر، سینیٹر محمد ہمایوں مہمند اورسینیٹرعون عباس کے علاوہ علامہ راجہ ناصرعباس، محمود خان اچکزئی اور اختر مینگل بھی غیرحاضر رہے۔ اجلاس میں کون کون شریک ہوا؟ اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے علاوہ ڈی جی ایم آئی سمیت دیگر عسکری حکام، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ملٹری آپریشن شریک ہوئے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو، مشیر وزیراعظم رانا ثنا اللہ، وزیردفاع خواجہ آصف، امیرمقام، وزیراعظم آزاد کشمیر اورگورنر پنجاب، وفاقی وزراء محمد اورنگزیب ،طارق فضل ورعلیم خان شریک تھے۔ وزیراعلی پنجاب مریم نواز، وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی، فیصل واوڈا، چیرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی، وفاقی وزیراحسن اقبال ، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور، گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی، گورنر سندھ کامران ٹیسوری بھی شریک رہے۔ اجلاس کے لیے قومی اسمبلی ہال کو چیمبر بنانے کی قرارداد منظور خیال رہے کہ گذشتہ روزاجلاس کے لیے قومی اسمبلی ہال کو چیمبر بنانے کی قرارداد منظور کی گئی تھی، قرارداد طارق فضل چوہدری نے پیش کی۔ ترجمان قومی اسمبلی کے مطابق اجلاس رمضان کے تقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے شیڈول میں تبدیلی کے بعد آج منعقد ہوا۔ غیرمتعلقہ افراد کو سیاست سونپ دی گئی، جن کا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں، خواجہ آصف فیصل کریم کنڈی نے خیبرپختونخوا میں گورنر راج کو مسترد کردیا سیکیورٹی کے سخت انتظامات اس موقع پر پارلیمنٹ ہاؤس اور اس کے اطراف میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔ اجلاس کے دوران کسی ��یر متعلقہ فرد کو پارلیمنٹ ہاؤس میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ مزید برآں، اجلاس کے دوران پارلیمنٹ ہال میں ��وبائل فون لے جانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ سیکیورٹی اداروں کو ہائی الرٹ کیا گیا تاکہ اجلاس کے دوران کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچا جا سکے۔ [ad_2] Source link
0 notes
pakistantime · 9 days ago
Text
عمران کی ’’مقبولیت‘‘ کا راز
Tumblr media
پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ میں کبھی سرکاری بیانیہ کوعوامی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی تو اب کیسے حاصل ہو گی۔ عمران خان کی مقبولیت کو جو عروج آج حاصل ہے اُس کی ایک بہت بڑی وجہ عدم اعتماد کی تحریک سے لے کر آج تک کی مسلم لیگ (ن) اور مقتدرہ کی حکمت عملی ہے جس میں ایک مرکزی کردار سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں اور 2018ء سے 2021ء تک عمران حکومت کا گراف نیچے لانے کے مرکزی کردار سابق ISI چیف جنرل فیض حمید ہیں اور 9 مئی کی جب اصل کہانی کھلے گی تو امکان اسی بات کا ہے کہ کئی راز افشا ہو سکتے ہیں اندرون خانہ بھی اور بیرونی کرداروں کے بارے میں بھی۔ عمران کی مقبولیت کی ابتدا 30 اکتوبر 2011ء کو مینار پاکستان کے جلسے سے ہوتی ہے مگر اسکے سیاسی تقابل کا جائز ہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ جہاں اُس وقت کی مقتدرہ کے تعلقات شریف برادران سے کشیدہ ہو گئے تھے یا ہونا شروع ہوئے تھے مگر اس کی وجوہ خاص طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اور بھی تھیں۔ پہلے کے پی چلتے ہیں یہ سال 2002ء کی بات ہے جنرل پرویز مشرف نے اچانک عام انتخابات کا اعلان کر دیا اُس سے پہلے اپنی مقبولیت جانچنے کیلئے ریفرنڈم کروایا ۔ 
2002ء کا الیکشن پلان جنرل احتشام ضمیر مرحوم کے حصے میں آیا جس میں عمران خان کیلئے صرف ایک سیٹ کا فیصلہ ہوا۔ ان انتخابات میں نہ شریف میدان میں تھے نہ ہی بینظیر مگر مشرف کو سب سے بڑا چیلنج مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل سے تھا جسکی بڑی وجہ 9/11 کے بعد امریکہ کی قیادت میں اتحادیوں کا افغانستان پر حملہ تھا۔ ایم ایم اے نے امریکی مخالف بیانیہ بنایا اور مشرف پر امریکی نواز ہونے کا الزام لگایا جس سے انہیں عوامی پذیرائی اس حد تک ملی کہ وہ کے پی میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے۔ دیگر صوبوں، ماسوائے پنجاب، میں بھی خاصی کامیابی ملی اور ایم ایم اے سب سے مضبوط اپوزیشن کے طور پر سامنے آئی۔ عمران کو اپنے آبائی حلقے میانوالی سے کامیابی حاصل ہوئی جو پاکستان تحریک انصاف کی پہلی انتخابی کامیابی تھی۔ مجھے آج بھی یادہے 2002ء میں اپنی انتخابی مہم ختم کر کے جب وہ کراچی میں ڈاکٹر عارف علوی کے گھر آئے تو مجھ سمیت کئی صحافی وہاں موجود تھے عمران نے مجھ سے پوچھا ’’مظہر تمہاری کیا رائے ہے ہمیں کتنی سیٹیں ملیں گی ہماری مہم تو بہت اچھی رہی ہے‘‘۔
Tumblr media
میں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں مگر میرا مشاہدہ ہے کہ زیادہ تر لوگ آپ کو دیکھنے آتے ہیں شاید اتنا ووٹ نہ پڑے آپکے امیدواروں کو۔ الیکشن کے بعد عمران کی سیاست میں ایک نیا موڑ آیا اور چونکہ وہ شکست کو کبھی تسلیم نہیں کرتے انہوں نے مہم جاری رکھی تو دوسری طرف ایم ایم اے کی کے پی حکومت ایک طرف جماعت اسلامی اور جے یو آئی میں اختلافات کا شکار ہو گئی تو دوسری طرف ان کی حکومتی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھنے لگے جس کا فائدہ خان کو ہوا۔ کرکٹ ملک کا مقبول ترین کھیل ہے اور اس نے بھی خان کو خاصا فائدہ پہنچایا۔ ایم ایم اے کا اتحاد ٹوٹ گیا جبکہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ قاضی حسین احمد مرحوم، نواز شریف اور عمران کے درمیان اتحاد تشکیل پا گیا۔ میاں صاحب کے علاوہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے مشرف کے انڈر الیکشن کا بائیکاٹ کیا جو ایک سیاسی تضاد تھا انکی سیاست کا کیونکہ 2002ء کے الیکشن میں دونوں حصہ لے چکے تھے۔ 
2008ء میں محترمہ بینظیر کی شہادت کے بعد ہونے والے الیکشن میں کے پی میں اے این پی اور پی پی پی کی اتحادی حکومت بنی جبکہ پنجاب میں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی۔ اس حوالے سے میدان میں پی ٹی آئی اور خاص طور پر عمران کو اپوزیشن کا رول اور پی ٹی آئی کو تیسری قوت یا تھرڈ آپشن کے طور پر پیش کرنے کا موقع مل گیا اور جب وہ 2013ء کے الیکشن میں گئے تو ان کو پہلی بڑی انتخابی کامیابی ملی تاہم انہیں حکومت کے پی میں بنانے کیلئے جماعت اسلامی سے اتحاد کرنا پڑا۔ کے پی میں عمران نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا البتہ 2013ء الیکشن تک اُنکی جماعت میں دوسری جماعتوں سے لوگوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں اُس وقت کی مقتدرہ کے کچھ افسران کا رول نظر آتا ہے۔ اُس وقت نئی تاریخ رقم ہوئی جب 2018ء میں پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت ملی جو ایک ریکارڈ تھا اور یہ گراف آج تک برقرار ہے ۔ یہاں دوسری جماعتوں کی خراب کارکردگی، بیانیہ کی کمزوری اور نوجوانوں کا عمران کی جانب رجحان اور سابقہ فاٹا میں آپریشن کی مخالفت اُن کی مقبولیت کی بڑی وجوہات میں سے چند ہیں۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کی کامیابی کی بڑی وجہ پی پی پی کا پنجاب میں مکمل صفایا نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) فرینڈلی اپوزیشن اور عمران کا اینٹی شریف بیانیہ بنا جس نے پی پی پی کے ورکرز اور ووٹرز کو اپنی جانب راغب کیا۔ دوسری وجہ بے نظیر بھٹو کے بعد پارٹی میں مقبول رہنما کی کمی اور تیسری وجہ مسلم لیگ پر خاندان کی اجارہ داری کا مزید مضبوط ہونا۔ تاہم ایک بڑی وجہ نواز شریف کا 2013ء کے بعد پی ٹی آئی کے احتجاج کو طول دلوانا بھی ٹھہرا ورنہ چار حلقے کھولنے کے مطالبے کو بہتر انداز میں حل کیا جا سکتا تھا نتیجہ کے طور پر ماڈل ٹائون یا 126 دن کے دھرنے کی نوبت نہ آتی۔ اس حکمت عملی نے پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچایا۔ تاہم اس میں ��نرل ظہیر الاسلام اور جنرل پاشا کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 2018 ء کے الیکشن میں عمران کو پہلے سے زیادہ نشستیں ملیں تاہم اب بھی وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھے جس کیلئے جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے کردار ادا کیا اور یہی عمران کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی اور وہ پھر باجوہ اور فیض کا احسان چکانے میں لگ گئے اور جب اُنکے باجوہ سے اختلاف بڑھے تو وہ کردار جو انہوں نے عمران کی حکومت بنانے میں ادا کیا تھا وہ حکومت گرانے میں ادا کیا اور خان باجوہ اور فیض کے درمیان پھنس کر رہ گئے۔
باجوہ، شریف اور زرداری کی سب سے بڑی غلطی عمران کو ہٹانا اور پھر حکومت کرنا ثابت ہوئی جس کی قیمت وہ آج تک ادا کر رہے ہیں۔ ان تین حضرات نے اور ان کی سیاست نے جو غلطیاں کیں اُس کی قیمت آج 8 فروری کا الیکشن ہے جس نے عمران کو عروج کی نئی منزل پر پہنچا دیا اور یاد رہے یہ الیکشن 9 مئی کے بعد ہوا، خان کی بے شمار سیاسی غلطیوں کے بعد۔ اس وقت بانی پی ٹی آئی دونوں بڑی جماعتوں اور خود مقتدرہ کے لیے ایک ایسی ’’کڑوی گولی‘‘ بن چکا ہے جو نگلی جا رہی ہے نہ اُگلی جا رہی ہے۔ عمران نہ اُس کی جماعت کوئی منظم تحریک چلا پائے 9 مئی اور 26 نومبر اِس کا ثبوت ہے مگر دوسری طرف کوئی بیانیہ ہی نہیں۔ اب خان کے پاس تو پھر ایک ٹرمپ کارڈ ہے دوسری طرف سناٹا ہے کیونکہ سزا دے کر بھی عمران کی مقبولیت بڑھ سکتی ہے کم نہ ہو گی۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
googlynewstv · 4 months ago
Text
پی ٹی آئی قیادت نے عمران کی ڈو آر ڈائی کال کی مخالفت کیوں کی؟
تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے بانی چیئرمین عمران خان کی اس خواہش کو سختی سے رد کر دیا ہے کہ انکی رہائی کے لیے اسلام اباد میں ایک ڈو اور ڈائی، یعنی مارو یا مر جاو طرز کی احتجاج کی کال دی جائے جسے دھرنے میں تبدیل کر دیا جائے۔ تاہم پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے ایسے کسی منصوبے کی سختی سے مخالفت کی جا رہی ہے اور کپتان کو سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پچھلے دو ماہ میں پی ٹی آئی کی چار…
0 notes
topurdunews · 4 months ago
Text
پی ٹی آئی کور کمیٹی ارکان نے احتجاج سے فرار قیادت کیخلاف بڑا اعلان کردیا
(طیب سیف) پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے احتجاج کے بعد پارٹی کے کور کمیٹی کا اہم اجلاس جاری ہے، اجلاس میں ارکان کور کمیٹی نے سیاسی و احتجاجی کمیٹیوں کے خلاف وائٹ پیپر لانے کا مطالبہ کر دیا۔  ذرائع پی ٹی آئی کے مطابق اجلاس میں احتجاجی کمیٹی کی ناقص حکمت عملی پر ارکان کور کمیٹی پھٹ پڑے،ورکرز کو بے یارو مددگار چھوڑنے پر ارکان کور کمیٹی نے سیاسی و احتجاجی کمیٹیوں کے خلاف وائٹ پیپر لانے کا مطالبہ…
0 notes
mnaasilveira · 21 days ago
Link
0 notes
emergingpakistan · 2 years ago
Text
آرمی چیف کی توجہ کے لیے
Tumblr media
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا اپنی تقریروں میں اسلامی حوالے دینا بہت اچھا لگتا ہے۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان کا صدر ہو، وزیراعظم ہو، جرنیل ہوں، وزیر، مشیر، گورنر، وزرائے اعلی، ممبران پارلیمنٹ یا اعلی عہدوں پر فائز سرکاری افسران، ان سب کیلئے لازم ہونا چاہئے کہ اُن کا اسلام سے متعلق علم عام پاکستانیوں سے زیادہ ہو۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے فیصلے، ہمارے قوانین ، ہماری پالیسیاں سب اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہوں۔ ہماری موجودہ صورتحال بہت خراب ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم تو ہو گیا، اسلامی آئین بھی دے دیا گیا، بار بار اسلام کا نام بھی لیا گیا لیکن ہمارے قوانین، ہماری پالیسیاں دیکھیں، ہمارا ماحول، ہمارا میڈیا، ہماری معیشت، ہماری پارلیمنٹ، ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں پر نظر ڈالیں تو پتا چلے گا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش آج تک نہیں ہوئی، جس کے نتیجے میں ہم ایک Confused قوم بن چکے ہیں۔ نام اسلام کا لیتے ہیں جبکہ نقالی مغربی کلچر کی کر رہے ہیں۔ ہمارے آئین کی تو منشاء ہے کہ پارلیمنٹ کے مسلمان ممبران باعمل مسلمان ہوں، اسلامی تعلیمات کے بارے میں کافی علم رکھتے ہوں اور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہ جانے جاتے ہوں۔
یہ بھی تمام ممبران کیلئے لازم ہے کہ وہ پاکستان کے اسلامی نظریے کا دفاع کرتے ہوں۔ حقیقت میں کیسے کیسے لوگ پارلیمنٹ میں آتے ہیں یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ آئین کی اسلامی شقوں کی کھلے عام خلاف ورزی ہوتی ہے لیکن کوئی بولتا نہیں۔ ہمارے کئی اراکینِ پارلیمنٹ پاکستان کے اسلامی نظریےکی مخالفت کرتے ہیں، کئی سیکولر پاکستان کی بات کرتے ہیں لیکن آئین کی منشاء کے خلاف جانے کے باوجود اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اس ماحول میں ایک حافظ قرآن جنرل کا آرمی چیف بننا اور اُن کی طرف سے اپنی ہر تقریر میں اسلامی تعلیمات کا بڑے فخر سے حوالہ دینا بہت خوش آئند ہے، جس کی ہم سب کو حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ میری آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے گزارش ہے کہ وہ پاک فوج میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کیلئے اقدامات کریں۔ اس سلسلے میں، میں سابق نیول چیف ��یڈمرل ظفر محمود عباسی کی مثال دوں گا جنہوں نے اپنے تین سالہ دور میں پاکستان نیوی میں ایسا انقلاب برپا کیا جو نہ صرف قابلِ تحسین بلکہ قابلِ تقلید بھی ہے۔ 
Tumblr media
ایڈمرل عباسی کی ہدایت پر پاک بحریہ اور بحریہ فائونڈیشن کے تحت چلنے والے تمام اسکولوں میں قرآن حکیم کو فہم کے ساتھ لازمی طور پر پڑھایا جا نے لگا، جس کیلئے پرانے اساتذہ کی تربیت کی گئی اور نئے استاد بھی بھرتی کئے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ بحریہ کے رہائشی علاقوں میں قرآن سینٹرز کھولے گئے جہاں بچوں، بڑوں اور بوڑھوں، سب کو قرآن حکیم کی فہم کے ساتھ تعلیم ، اسلامی اقدار کے فروغ اور مغرب کی ذہنی غلامی سے چھٹکارے پر زور اور تربیت دینے کے اقدامات کیے گئے۔ اسلامی لباس اور اسلامی شعائر کو اپنانے پر زور دیا گیا اور طلبہ کو بالخصوص علامہ اقبال کے فکری انقلاب سے روشناس کروانے کیلئے بھی کام کیا گیا۔ پاک بحریہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ Religious Motivation Officers بھرتی کئے گئے۔ اِن افسران نے بہترین دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے اور نیول اکیڈمی کے تربیت یافتہ ہیں۔ اِن Religious Motivation Officers کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ نیول افسران اور ماتحت اہلکاروں کی اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے حوالے سے حوصلہ افزائی کریں۔ 
اِن افسران کو نیوی کے جہازوں میں بھی افسران اور ماتحت اہلکاروں کی اسلامی اصولوں کے مطابق تعلیم و تربیت کیلئے بھیجا گیا۔ اِن افسران کی یہ بھی ذمہ داری لگائی گئی کہ خطبہ جمعہ دیں اور دورِ حاضر کے ایشوز پر دسترس رکھتے ہوئے عوام کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رہنمائی کریں۔ سابق نیول چیف کے دور میں بحریہ کے تحت چلنے والی تمام مساجد کی بہترین انداز میں تزین و آرائش بھی کی گئی جبکہ خطیبوں اور ائمہ مساجد کی تعداد ماضی کے مقابلے میں دگنا کر دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نیول اکیڈمی کے کیڈٹس کیلئے عربی زبان کی تعلیم کو لازم کر دیا گیا ہے۔ خواتین کو پردہ کرنے کی ترغیب دینے، اُن کیلئے خصوصاً پڑھاتے وقت اعضائے ستر کو چھپا کر رکھنے، جبکہ مردوں کو نگاہوں کی حفاظت کرنے اور شائستگی اپنانے کی بھی ہدایات جاری کی گئیں۔ پروموشن کیلئے پاک بحریہ کے افسران کے کردار کو اہمیت دی جانے لگی یعنی اگر کوئی افسر چاہے کتنا ہی قابل اور لائق کیوں نہ ہو اگر باکردار نہ ہو تو اُسے ترقی نہیں دی جاتی۔ امید ہے کہ موجودہ نیول چیف کے دور میں بھی یہ پالیسیاں پاکستان نیوی میں جاری و ساری رہیں گی۔ میں ماضی میں اپنے کالمز کے ��ریعے یہ گزارش پاک فوج اور ائیرفورس کی اعلیٰ قیادت سے بھی کر چکا ہوں کہ پاکستان نیوی کی طرح اُنہیں بھی یہ اقدامات اپنی اپنی فورس میں کرنے چاہئیں۔ اس سلسلے میں آرمی چیف سے امید اس لیے زیادہ ہے کیوں کہ وہ خود اسلامی تعلیمات کی اہمیت کو کسی عام فرد سے بہت زیادہ سمجھتے ہیں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
dr-jan-baloch · 25 days ago
Text
Tumblr media
"وہ (امریکہ، نیٹو) جس جنگ کو شروع کرکے یہ اُمید لگائے
بیٹھے تھے کہ روس کے اندر بغاوت ہوگی پوتن کا خاتمہ ہوگا اور کوئی کمزور قیادت آئے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہونے والا بلکہ وہاں اگر کچھ ہوگا تووہ توڑ بھوڑ،داخلی انتشار سمیت سب کچھ روس مخالف کیمپ میں ہوگا اور یہ بھی بعید نہیں کہ نئی صف بندیوں میں روس اپنی تاریخ کے معتبر تریں مقام پر پہنچ کر اپنا اثرو رسوخ ناقابل یقین حد تک دنیا
میں بڑھائے"
حفیظ حسن آبادی کے مضمون" یوکرائن میں روس کے پاس جیت کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں "سے
اقتباس تاریخ اشاعت 10 جولائی 2022
1 note · View note
hulkthor88 · 1 month ago
Text
ہوٹل بکنگ کا مستقبل یہاں ہے - cheQin.ai کے ساتھ ہموار بچت کا تجربہ کریں۔
ہوٹلوں کی بکنگ کا ایک بہتر طریقہ پیش کر رہا ہے۔
بہترین ہوٹل ڈیل تلاش کرنا اتنا آسان کبھی نہیں رہا۔ cheQin.ai طاقت کو اپنے ہاتھوں میں منتقل کرکے مسافروں کے رہائش بک کرنے کے طریقے کو تبدیل کرتا ہے ۔ ڈسکاؤنٹ کے لیے متعدد پلیٹ فارمز کو اسکور کرنے کے بجائے، ہوٹلوں کی بولی دیکھیں تاکہ آپ کو سب سے زیادہ مسابقتی نرخ پیش کیے جا سکیں — فوری طور پر۔
Tumblr media
cheQin.ai
ہوٹل بکنگ میں cheQin.ai کیوں نمایاں ہے؟
روایتی ہوٹل بکنگ پلیٹ فارم مقررہ قیمتیں لگاتے ہیں، جس سے مسافروں کو محدود انتخاب ہوتے ہیں۔ cheQin.ai ایک متحرک، ریئل ٹائم بِڈنگ ماڈل کو فروغ دے کر اس عمل کی نئی تعریف کرتا ہے جہاں ہوٹل آپ کے قیام کو جیتنے کے لیے قیمتوں کو ایڈجسٹ کرتے ہیں۔
1. بہترین نرخوں کے لیے ریئل ٹائم بولی لگانا
اپنی منزل، سفر کی تاریخیں اور ترجیحات درج کریں۔
ہوٹل آپ کی بکنگ کو محفوظ بنانے کے لیے ریئل ٹائم میں بولی لگاتے ہیں۔
پانچ بہترین سودے فوری طور پر حاصل کریں اور ان کا موازنہ کریں ۔
2. قیمت کی 100% شفافیت
کوئی پوشیدہ چارجز، کوئی غیر متوقع مارک اپ نہیں۔
تیسری پارٹی کی بکنگ فیس کو ختم کرتے ہوئے براہ راست ہوٹلوں سے بک کریں ۔
محفوظ خصوصی سودے جو کہیں اور دستیاب نہیں ہیں۔
3. AI سے چلنے والی اسمارٹ پرسنلائزیشن
آپ کی ترجیحات اور بکنگ کی سرگزشت کی بنیاد پر موزوں ہوٹل کی سفارشات ۔
بار بار آنے والے مسافر وقت کے ساتھ ساتھ بہتر اور بہتر پیشکشوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
چاہے آپ عیش و آرام، بوتیک قیام، یا بجٹ میں رہائش تلاش کریں، cheQin.ai آپ کے لیے نتائج کو اپنی مرضی کے مطابق بناتا ہے۔
یہ کیسے کام کرتا ہے: ایک پریشانی سے پاک بکنگ کا عمل
cheQin.ai کے ساتھ ، اپنے مثالی قیام کی بکنگ آسان اور فائدہ مند ہے:
اپنے سفر کی تفصیلات درج کریں — اپنی منزل، چیک ان کی تاریخیں، اور ضروری سہولیات کا انتخاب کریں۔
ہوٹلوں کی ریئل ٹائم میں بولی — قیمتیں متحرک طور پر گرتی ہیں کیونکہ ہوٹل آپ کی بکنگ کو محفوظ بنانے کے لیے مقابلہ کرتے ہیں۔
فوری طور پر بہترین ڈیل کا انتخاب کریں — سرفہرست پانچ پیشکشوں کا موازنہ کریں اور سیکنڈوں میں اپنی ریزرویشن کی تصدیق کریں۔
ہر قسم کے مسافروں کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
چاہے آپ تفریح، کاروبار یا ایڈونچر کے لیے سفر کر رہے ہوں، cheQin.ai آپ کی ضروریات کے لیے بہترین ہوٹل ڈیلز تیار کرتا ہے۔
بزنس ٹریولرز: کارپوریٹ ریٹس کے بغیر پریمیم تک رسائی حاصل کریں ۔
لگژری کے متلاشی: ناقابل شکست قیمتوں پر فائیو اسٹار رہائش کا تجربہ کریں ۔
بجٹ مسافر: آرام پر سمجھوتہ کیے بغیر سستی ہوٹلوں کو محفوظ بنائیں ۔
فیملیز اور گروپس: انتہائی مسابقتی نرخوں پر کشادہ رہائش تلاش کریں ۔
youtube
cheQin.ai
ہوٹلوں کا فائدہ بھی — ایک جیت کا ماڈل
خالی کمروں کی وجہ سے ہوٹلوں کو اکثر آمدنی کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ cheQin.ai مسافروں کو بہترین قیمتیں حاصل کرنے کو یقینی بناتے ہوئے ہوٹلوں کے قبضے اور آمدنی کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے ایک جدید طریقہ متعارف کرایا ہے ۔
ہوٹل cheQin.ai کے ساتھ شراکت کیوں کرتے ہیں:
قبضے کی شرحوں کو فروغ دیں — مسابقتی قیمتوں کے ذریعے مزید کمرے فروخت کریں۔
آمدنی کی صلاحیت میں اضافہ کریں — بکنگ کو راغب کرنے کے لیے متحرک طور پر قیمتوں کو ایڈجسٹ کریں۔
فریق ثالث کی فیسوں کو کم کریں — زیادہ منافع کے ساتھ مزید برا�� راست بکنگ بنائیں ۔
مسافر cheQin.ai کا انتخاب کیوں کر رہے ہیں۔
لائیو پرائس ایڈجسٹمنٹس — ہوٹل ریئل ٹائم میں فعال طور پر شرحیں کم کرتے ہیں ۔
فوری بچت کی ضمانت — بہترین دستیاب شرح آسانی سے حاصل کریں۔
100% قیمت کی شفافیت — کوئی تعجب نہیں، صرف زبردست سودے۔
AI سے چلنے والی کارکردگی — سمارٹ، کیوریٹڈ آفرز کے ساتھ لامتناہی تلاش سے گریز کریں ۔
cheQin.ai: ہوٹل ریزرویشن کے اگلے دور کی قیادت
سنگاپور، ہندوستان، متحدہ عرب امارات، یورپ اور اس سے باہر پھیلتے ہوئے ، cheQin.ai مہمان نوازی کی صنعت کو نئی شکل دے رہا ہے۔ ایک شفاف، متحرک، اور کسٹمر کے پہلے نقطہ نظر کے ساتھ ، ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مسافر اپنے قیام کے لیے دوبارہ کبھی زیادہ ادائیگی نہ کریں۔
ہوٹل آپ کو بہترین سودا دینے کے لیے مقابلہ کر سکتے ہیں تو مقررہ قیمتوں کو کیوں طے کریں ؟
ہوٹل بکنگ کے مستقبل کو غیر مقفل کریں — آج ہی cheQin.ai کے ساتھ اسمارٹ بچت کا تجربہ کریں!
0 notes
lahore-division-updates · 4 days ago
Text
23مارچ یوم پاکستان ۔کمشنر لاہور زید بن مقصود کا پیغام
23مارچ پاکستان کی تاریخ کا ایک سنہرا دن ہے۔جو عزم کی مینارہ ہے۔کمشنر لاہورزید بن مقصود
23 مارچ 1940 کو صدق دل سے ایک عزم کیا گیا ۔اگلے سات سالوں میں پاکستان حاصل ہو گیا۔کمشنر لاہور
قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں قرارداد لاہور پر عمل کیصورت میں ہمارا عظیم وطن معرض وجود میں آیا۔کمشنر لاہور
وژنری قائد اور باشعور عوام کے عزم کو کوئی نہیں توڑ سکتا۔منزل مل کر رہتی ہے۔کمشنر لاہور
ہمارے آباو اجداد نے لاکھوں قربانیوں سے یہ وطن حاصل کیا۔اس کی حفاظت و ترقی ہماری ذمہ داری ہے۔کمشنر لاہور
0 notes