#قیادت
Explore tagged Tumblr posts
Text
عمران خان کی پی ٹی آئی قیادت کو سول نافرمانی کی تحریک جاری رکھنے کی ہدایت
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے سول نافرنی کی تحریک جاری رکھنےجبکہ پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر،سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا او سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کوعالمی امور پر بات کرنےکی ہدایات دےدی ہیں۔ ٹیلیفونک گفتگو کرتے ہوئےمرکزی سیکرٹری اطلاعات پی ٹی آئی شیخ وقاص اکرم نےکہا کہ بانی پی ٹی آئی نے سول نافرمانی کی کال جاری رکھنےکا حکم دیا ہے۔ شیخ وقاص اکرم کا کہنا ہےکہ عمران خان نے بیرسٹر گوہر، سلمان…
0 notes
Text
فائنل کال کی ناکامی، پی ٹی آئی قیادت پشاور میں سر جوڑ کر بیٹھے گی
(طیب سیف)فائنل کال کی ناکامی اور سلمان اکرم راجہ کا استعفیٰ پاکستان تحریک انصاف نے آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کر لیا،پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت پشاور میں سر جوڑ کر بیٹھے گی ۔ پی ٹی آئی کا اجلاس وزیر اعلیٰ ہاوس میں ہو گا ،اجلاس میں بیرسٹر گوہر ، عمر ایوب ،اسد قیصر ،علی امین گنڈا پور شرکت کریں گے۔ بشری بی بی بھی آج مانسہرہ سے پشاور پہنچ گئی ہیں،اجلاس میں آئندہ کا سیاسی لائحہ عمل ، ورکرز کو چارج کرنے…
0 notes
Text
آسٹریلیا کا پاکستان کیخلاف ون ڈے سیریز کیلئے سکواڈ کا اعلان،ٹیم کی قیادت کون کریگا؟ جانیے
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان کے خلاف ون ڈے سیریز کیلئے آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ کرکٹ آسٹریلیا کے مطابق پیٹ کمنز ٹیم کی قیادت کریں گے، مچل مارش اور ٹریوس ہیڈ پیٹرنٹی چھٹیوں پر ہیں اس لیے ان کو زیر غور نہیں لایا گیا۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین ون ڈے میچز 4، 8 اور 10 نومبر کو کھیلے جائیں گے۔ تین ٹی20 میچز کے لیے ٹیم کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ منتخب سکواڈ میں شین…
0 notes
Text
وہ امریکہ اب نہیں رہا
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/598c94aecda24e0392aa8c71a22f4c15/6732f94ae2f3aca1-8e/s400x600/993f1418f8b637fa227c28002e3ffeea006bd091.jpg)
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان صدارتی انتخاب ایک حقیقت کے سامنے بے بس تھا اور وہ ہے اکیسویں صدی میں امریکہ کی مسلسل تنزلی۔ امریکہ نے اپنی قیادت، اعتماد، اخلاقی ساکھ اور اقتصادی برتری کھو دی ہے۔ 20 جنوری 2025 کو صدر ٹرمپ ایک ہی وقت میں امریکی گھمنڈ کے تازہ ترین علمبردار اور امریکی تنزلی کے جنازہ بردار کا حلف اٹھائیں گے۔ 1987 میں پال کینیڈی کی کتاب ’دی رائز اینڈ فال آف دی گریٹ پاورز‘ نے اس وقت تنازعہ کھڑا کیا جب اس نے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ یعنی طاقت سے زیادہ غیر معمولی پھیلاؤ کو امریکی زوال کی ممکنہ وجہ قرار دیا۔ اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی کا باعث جاپان تھا، جو اپنی نمایاں دولت، جدید ٹیکنالوجی اورمعاشی انتظام کے نئے طریقوں کے ساتھ امریکہ کو چیلنج کر رہا تھا۔ 1989 کا اہم سال افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے ساتھ شروع ہوا۔ فرانسیس فوکویاما نے اپنے مضمون ’دی اینڈ آف ہسٹری‘ میں لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کی تاریخ میں حتمی فتح کا اعلان کیا۔ دیوارِ برلن نومبر 1989 میں گری اور اس کے ساتھ ہی سوویت استبداد کا پردہ بھی گر گیا۔ امریکی فاتحین نے دعویٰ کیا کہ سوویت یونین نے ’اوور سٹریچ‘ کا شکار ہو کر شکست کھائی۔
سوویت یونین کی جانب سے 1990 میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد پر اتفاق اور صدام حسین کے کویت پر حملے نے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کو جنم دیا۔ 1991 کا سال عراق میں امریکہ کی فتح سے شروع ہوا اور سوویت یونین کی تحلیل پر ختم ہوا۔ 1991 سے 2001 کا عشرہ امریکہ کے ہائپر پاور ہونے کا دور تھا۔ سوویت یونین کے بکھرنے، چین کی کمزوری اور انٹرنیٹ کے کمرشل استعمال میں آنے سے امریکہ نے ’غیر معمولی عظمت‘ کا لطف اٹھایا جیسا کہ ایڈورڈ گِبن نے اپنی کتاب ’دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر‘ میں بیان کیا۔ امریکہ کے سامنے کوئی حریف نہیں تھا یوں لگتا تھا کہ 20ویں صدی کی طرح 21ویں صدی میں بھی امریکہ ہی مستقبل کی طاقت ہو گا۔ ستمبر 2001 کی ایک صبح، کئی سو سالوں سے موجود امریکی رجائیت اور اعتماد دہشت گردی کے سامنے ڈھیر ہو گئے اور ان کی جگہ تکبر اور تنگ نظر قومیت پرستی نے لے لی، جس کا اظہار امریکی ووٹروں نے ایک مرتبہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کر کے کیا ہے۔ 21ویں صدی کے پہلے عشرے میں دو جنگوں اور دو اقتصادی واقعات نے امریکی زوال کوتیز تر کیا۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/8ecbd45228198e97de2e919fb25ab961/6732f94ae2f3aca1-f6/s400x600/11a9b717838d38d40e55205af6234c596fd00112.jpg)
اس وقت کی واحد سُپر پاور نے افغانستان پرغیظ وغضب کے ساتھ اور عراق پر تکبر کے ساتھ حملہ کیا۔ امریکہ کو دونوں جنگوں میں شکست ہوئی۔ 2003 میں عراق پرامریکی حملہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے سوویت یونین پر حملے کے بعد جنگی حکمت عملی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ افغانستان میں امریکہ کی شکست دہائیوں پر محیط، کئی کھرب ڈالر کی فوجی، تکنیکی، سٹریٹیجک اور سیاسی تباہی تھی۔ عراق اور افغانستان نے پروفیسر کینیڈی کے نظریے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ کی تصدیق کر دی۔ 2000 میں چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت اور 2008 کے مالیاتی بحران نے امریکہ کو 9/11 سے زیادہ کمزور کیا۔ چین کی ڈبلیو ٹی او میں شمولیت نے امریکی صنعت کو کھوکھلا کر دیا۔ 2010 تک چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا۔ 2024 میں چینی معیشت جاپان، بھارت اور جرمنی کی مشترکہ معیشت سے بڑی ہو چکی ہے۔ 2008 کے مالیاتی بحران نے مغربی اقتصادی ترقی کو تقریباً دو دہائیوں کے لیے سست کر دیا اور نیولبرل جمہوریت اور اس کی اقتصادی شاخ، گلوبلائزیشن میں مغربی عوام کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا۔
جب مغربی جمہوریتوں کے ووٹر جمہوریت پر سوال اٹھا رہے تھے، چین ہر سال نہیں بلکہ ہر دہائی میں معاشی ترقی کے جھنڈے گاڑ رہا تھا۔ امریکہ اور مغرب نے اشتراکیت کے خلاف سرد جنگ اس لیے نہیں جیتی کہ ان کے نظریات بہتر تھے، بلکہ اس لیے جیتی کہ وہ دہائیوں تک کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں زیادہ دولت مند اور تکنیکی طور پر جدیدیت کے حامل تھے۔ چینی معاشی کارکردگی نے لبرل جمہوریت، اقتصادی ترقی اور تکنیکی جدت کے درمیان مغرب کا رشتہ کاٹ کر رکھ دیا ہے، کوئی تعجب نہیں کہ دنیا بھر میں ووٹر استبدادی عوامی قیادت کی طرف رجوع کر رہے ہیں، چاہے وہ انڈونیشیا ہو، بھارت ہو، ہنگری ہو، یا اب امریکہ ہو۔ امریکہ کی تنزلی کا آخری پہلو اخلاقی ہے جسے مورخ ایڈورڈ گِبن نے ’معاشرتی فضائل‘ کی کمی لکھا تھا۔ سیاہ فاموں کی غلامی سے لے کرعراق کی ابو غریب جیل میں انسانی حقوق کی پامالی تک، امریکی طرز عمل میں منافقت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ تاہم سرد جنگ کے دوران، جب تک سوویت یونین اور اس کے اتحادی اپنے شہریوں کی آزادیوں کو دباتے، ان کے اقتصادی حقوق چھینتے اور ان کی غریبی میں اضافہ کرتے رہے اور اس کے برعکس امریکہ ضرورت مند ممالک کی مدد کرتا رہا، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں کی اخلاقی ہولناکی کو نظرا نداز کیا جاتا رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے نئے بین الاقوامی اداروں کی تخلیق اور قیادت کی جو جنگ کو روکنے اور غریب ممالک کی مدد کے لیے بنائے گئے تھے۔ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، نیٹو اور ورلڈ بینک اس کی اہم مثالیں ہیں۔ ان اداروں کے فوائد پر بحث ہو سکتی ہے۔ جو چیز بحث سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ یہ ادارے امریکی اولیت کو مضبوط کرتے ہیں اور ساتھ ہی امریکہ کو دوسرے ملکوں کو اخلاقی بھاشن دینے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ اپنے حواری ملکوں کو کئی دہائیوں سے تحفظ فراہم کر رہا ہے، بین الاقوامی معاشی معاملات میں امریکہ نے ’قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام‘ کی تخلیق کی اور اس کا دفاع کیا۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کو ایک اخلاقی جنگ میں تبدیل کیا، جس میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے بیانیے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ امریکہ کی تنزلی صرف افغانستان اور عراق میں ہی نظر نہیں آتی بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس کی ابتدا 1971 میں سونے کے معیار کو زبردستی ترک کرنے سے ہوئی۔ 1973 میں اوپیک تیل کے بائیکاٹ سے اس تنزلی میں تیزی پیدا ہوئی جوکہ 1974 میں صدر نکسن کے استعفے اور 1975 میں ویت نام سے شرمناک انخلا سے تیز تر ہوئی۔
1970 کی دہائی میں امریکی تنزلی کا اثر امریکی شہروں میں واضح طور پر نظر آیا۔ معاشرتی طور پر 1995 میں اوکلاہوما پر بمباری، 2005 میں قطرینا طوفان اور کووڈ 19 کے دوران 12 لاکھ سے زیادہ امریکیوں کی ہلاکت نے اس تنزلی کو دنیا پر واضح کر دیا۔ آج دنیا کے مستقبل کا استعارہ امریکی شہر نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا کے شہر ہیں۔ امریکہ آج بھی دنیا میں فوجی اخراجات اور پوری دنیا میں فوجی طاقت کی موجودگی میں سب سے آگے ہے۔ امریکہ اپنے دفاع پر اگلے آٹھ ممالک سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ دفاعی اعتبار سے امریکہ اب بھی واحد سپر پاور ہے۔ امریکی معیشت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، جس کی موجودہ سب سے بڑی طاقت انٹرنیٹ پر مبنی ہے۔ ہالی وڈ اور مقبول ثقافت کی نرم طاقت ابھی تک پُراثر ہے۔ امریکی ڈالر دنیا کی غالب کرنسی ہے اور امریکی استعمار کو قائم رکھنے میں طاقتور ہتھیار ہے۔ امریکہ زوال پذیر ہو رہا ہے، لیکن روم کی سلطنت کی طرح اس کا انہدام ابھی نظر نہیں آ رہا لیکن امریکی قوم کی سخاوت، کشادگی اور روح کے وسیع پن کا انہدام ہو گیا ہے۔
امریکی سیاسی قیادت کا معیاراتنی تیزی سے گرا ہے جتنا کہ اس کی جمہوریت کا معیار، جس کی واضح مثال 6 جنوری 2021 کو امریکی کانگرس پر ہونے والا مسلح حملہ ہے۔ اکتوبر 2023 کے بعد امریکہ نے اپنی اخلاقی حیثیت کے آخری چیتھڑے بھی کھو دیے ہیں، جب اس نے وہ ہتھیار فراہم کیے جو غزہ میں 42 ہزار سے زائد بے گناہ، نہتے انسانوں اور بچوں کی جان لے چکے ہیں اور جب امریکہ نے انسانی حقوق کو ملیامیٹ کرنے والی نسل کشی، ظالمانہ بمباری، جبری بے دخلی اور سفاک قتل عام پر آنکھیں بند کر لیں۔ یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی صورت حال میں واپس جا رہا ہے، یعنی دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کے درمیان ایک طاقت، لیکن ہم نے پچھلی دہائیوں میں ایک کھلا، سخاوت سے بھرا اور خوش آمدید کہنے والا امریکہ بھی دیکھا ہے جو اپنی تمام خامیوں کے باوجود اپنے بنیادی جمہوری تصورات اور انسانی اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ امریکہ اب نہیں رہا۔
خرم دستگیر خان خرم دستگیر ��سلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے خارجہ امور اور سابق وزیرِ دفاع رہ چکے ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes
·
View notes
Text
کسی سے کوئی شکوہ ہے نہ دل میں کوئی نفرت ہے
ملے ہو تم مجھے جب سے یہ دنیا خوبصورت ہے
ہماری بن نہیں سکتی کبھی شیخ و برہمن سے
گنہ وہ جس کو کہتے ہیں وہی اپنی عبادت ہے
کہاں موقع ملا مجھ کو تمہارے ساتھ رہنے کا
سفر میں مل گئے طرزی تو یہ سمجھا سعادت ہے
گلوں کو خار کہتے ہیں خلش کو شبنمی ٹھنڈک
اشارہ اور ہی کچھ ہے غزل کی یہ نزاکت ہے
تمہاری ہر ��دا کو جانتا پہچانتا ہوں میں
خموشی ہے اگر لب پر تو یہ میری شرافت ہے
ہمارا کچھ نہیں دل تھا وہ کب کا دے دیا تجھ کو
ذہانت تھی بس اک دولت وہ بھی تیری امانت ہے
تمہارے حسن روز افزوں میں میرا بھی تو حصہ ہے
میرا حصہ مجھے دے دو، نہ دوگے تو خیانت ہے
یہ کیسی دوستی ہے دوستوں کو تشنہ رکھتے ہو
بڑھی جو تشنگی حد سے تو اعلانِ بغاوت ہے
جگر کا خون ہوتا ہے تو پھر اشعار بنتے ہیں
جگر سوزی و خوں ریزی میں ہی سچی حلاوت ہے
تمہارے مکر و سازش نے دکھایا ہے مجھے رستہ
ترے جور و ستم سے ہی میری دنیا سلامت ہے
جو نکلے خون کے قطرے چھلک کر میری آنکھوں سے
یہ خود کردہ گناہوں پر بہے اشکِ ندامت ہے
تو اپنی قدر کر ناداں تجھے نائب بنایا ہے
تری قسمت میں دنیا کی قیادت اور امامت ہے
سناتے ہیں میاں محمودؔ اب تو آپ بیتی ہی
بظاہر داستانِ غم بباطن اک حکایت ہے
- محمود عالم
2 notes
·
View notes
Text
’مغربی میڈیا غزہ میں اپنے صحافی ساتھیوں کو بھی کم تر سمجھ رہا ہے‘
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/e127cc441479a6f6482d111f0f2de833/5ae35bd207ab427c-aa/s400x600/bf2a26089af25a7380e727a0b3c4607fccede34f.jpg)
عالمی میڈیا جیسے بی بی سی، سی این این، اسکائے نیوز اور یہاں تک کہ ترقی پسند اخبارات جیسے کہ برطانیہ کے گارجیئن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی ساکھ خراب ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں تقریباً 400 فوجیوں سمیت 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے آنے والے غیر متناسب ردعمل کے حوالے سے ان صحافتی اداروں کی ادارتی پالیسی بہت ناقص پائی گئی۔ حماس کے عسکریت پسند اسرائیل سے 250 کے قریب افراد کو یرغمالی بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسرائیلی جیلوں میں قید 8 ہزار فلسطینیوں میں سے کچھ کی رہائی کے لیے ان یرغمالیوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید ان فلسطینیوں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، ان میں ایک ہزار سے زائد قیدیوں پر کبھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ انہیں صرف ’انتظامی احکامات‘ کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہیں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ غزہ شہر اور غزہ کی پٹی کے دیگر شمالی حصوں پر اسرائیل کی مشتعل اور اندھی کارپٹ بمباری میں 14 ہزار فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں سے 60 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے تھے جبکہ امریکی قیادت میں مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی جانب سے کیے گئے قتل عام، یہاں تک کہ نسل کشی کی یہ کہہ کر حمایت کی ہے کہ وہ اپنے دفاع کے حق کا استعمال کررہا ہے۔
افسوسناک طور پر ان صحافتی اداروں میں سے بہت سی تنظیموں نے اپنی حکومتوں کے اس نظریے کی عکاسی کی جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازع کی ابتدا 7 اکتوبر 2023ء سے ہوئی نہ کہ 1948ء میں نکبہ سے کہ جب فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا۔ چونکہ ان کی اپنی حکومتیں قابض اسرائیل کے نقطہ نظر کی تائید کر رہی تھیں، اس لیے میڈیا اداروں نے بھی اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو لے لیجیے، ان اعداد و شمار کو ہمیشہ ’حماس کے زیرِ کنٹرول‘ محکمہ صحت سے منسوب کیا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے شکوک پیدا ہوں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر ہیومن رائٹس واچ اور غزہ میں کام کرنے والی چھوٹی تنظیموں تک سب ہی نے کہا کہ حماس کے اعداد و شمار ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن اعداد و شمار میں تبدیلی تو اسرائیل کی جانب سے کی گئی جس نے حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے اسرائیلیوں کی ابتدائی تعداد کو 1400 سے کم کر کے 1200 کر دیا۔ تاہم میڈیا کی جانب سے ابتدائی اور نظر ثانی شدہ اعداد وشمار کو کسی سے منسوب کیے بغیر چلائے گئے اور صرف اس دن کا حوالہ دیا گیا جس دن یہ تبدیلی کی گئی۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/4f495b21e6d60bf6f24f775f58b3a2bf/5ae35bd207ab427c-4c/s400x600/1c09d152a560fc836806ea1636c577e7c72cfa16.jpg)
یہ تبدیلی اس لیے کی گئی کیونکہ اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ حماس نے جن کیبوتز پر حملہ کیا تھا ان میں سے کچھ جلی ہوئی لاشیں ملی تھیں جن کے بارے میں گمان تھا کہ یہ اسرائیلیوں کی تھیں لیکن بعد میں فرانزک ٹیسٹ اور تجزیوں سے یہ واضح ہوگیا کہ یہ لاشیں حماس کے جنگجوؤں کی ہیں۔ اس اعتراف کے باوجود عالمی میڈیا نے معتبر ویب سائٹس پر خبریں شائع کرنے کے لیے بہت کم کام کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی ریڈیو پر ایک عینی شاہد کی گواہی کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ان گھروں کو بھی نشانہ بنایا جہاں حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا یوں دھماکوں اور اس کے نتیجے میں بھڑک اٹھنے والی آگ میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی اپاچی (گن شپ) ہیلی کاپٹر پائلٹس کے بیانات کے حوالے سے بھی یہی رویہ برتا گیا۔ ان بیانات میں ایک ریزرو لیفٹیننٹ کرنل نے کہا تھا کہ وہ ’ہنیبل ڈائیریکٹوز‘ کی پیروی کررہے تھے جس کے تحت انہوں نے ہر اس گاڑی پر گولی چلائی جس پر انہیں یرغمالیوں کو لے جانے کا شبہ تھا۔ اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ کو صرف ان میں سے کچھ مثالوں کو گوگل کرنا ہو گا لیکن یقین کیجیے کہ مغرب کے مین اسٹریم ذرائع ابلاغ میں اس کا ذکر بہت کم ہوا ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی فوجیوں، عام شہریوں، بزرگ خواتین اور بچوں پر حملہ نہیں کیا، انہیں مارا نہیں یا یرغمال نہیں بنایا، حماس نے ایسا کیا ہے۔
آپ غزہ میں صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوریج کو بھی دیکھیں۔ نیویارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلن والش نے ایک ٹویٹ میں ہمارے غزہ کے ساتھیوں کو صحافت کے ’ٹائٹن‘ کہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو درپیش خطرے کو نظر انداز کیا اور غزہ میں جاری نسل کشی کی خبریں پہنچائیں۔ آپ نے الجزیرہ کے نامہ نگار کے خاندان کی ہلاکت کے بارے میں سنا یا پڑھا ہی ہو گا۔ لیکن میری طرح آپ کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے کم از کم 60 صحافیوں اور ان کے خاندانوں میں سے کچھ کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی علم ہو گا۔ یعنی کہ کچھ مغربی میڈیا ہاؤسز نے غزہ میں مارے جانے والے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کو بھی کم تر درجے کے انسان کے طور پر دیکھا۔ بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہری آبادی کو بے دریغ نشانہ بنانے اور خون میں لت پت بچوں کی تصاویر دنیا کے سامنے پہنچ رہی ہیں، نسل کشی کرنے والے انتہائی دائیں بازو کے نیتن یاہو کو حاصل مغربی ممالک کی اندھی حمایت بھی اب آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے۔
اسپین اور بیلجیئم کے وزرائےاعظم نے واضح طور پر کہا ہے کہ اب بہت ہو چکا۔ اسپین کے پیڈرو سانچیز نے ویلنسیا میں پیدا ہونے والی فلسطینی نژاد سیرت عابد ریگو کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ سیرت عابد ریگو نے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا کہ فلسطینیوں کو قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ پیڈرو سانچیز نے اسرائیل کے ردعمل کو ضرورت سے زیادہ قرار دیا ہے اور فلسطین کو تسلیم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ جن جماعتوں اور امیدواروں نے اسرائیل کو غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ دی ہے وہ اپنے ووٹرز کو گنوا رہے ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کی فتح کا فرق معمولی ہی تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اگر وہ اپنے ’جنگ بندی کے حامی‘ ووٹرز کے خدشات کو دور نہیں کرتے اور اگلے سال اس وقت تک ان ووٹرز کی حمایت واپس حاصل نہیں لیتے تو وہ شدید پریشانی میں پڑ جائیں گے۔
اسرائیل اور اس کے مغربی حامی چاہے وہ حکومت کے اندر ہوں یا باہر، میڈیا پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں۔ ایسے میں ایک معروضی ادارتی پالیسی چلانے کے بہت ہی ثابت قدم ایڈیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس انتہائی مسابقتی دور میں میڈیا کی ساکھ بچانے کے لیے غیرجانبداری انتہائی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا اب روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے اور اگرچہ ہم میں سے ہر ایک نے اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود منفی مواد کے بارے میں شکایت کی ہے لیکن دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان پلیٹ فارمز کے شکر گزار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید غزہ میں جاری نسل کشی کی پوری ہولناکی ان کے بغیر ابھر کر سامنے نہیں آسکتی تھی۔ بڑے صحافتی اداروں کی جانب سے اپنے فرائض سے غفلت برتی گئی سوائے چند مواقع کے جہاں باضمیر صحافیوں نے پابندیوں کو توڑ کر حقائق کی رپورٹنگ کی۔ اس کے باوجود یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تھے جنہوں نے اس رجحان کو بدلنے میں مدد کی۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو ہم روایتی میڈیا کو بھی خود کو بچانے کے لیے اسی راہ پر چلتے ہوئے دیکھیں گے۔
عباس ناصر یہ مضمون 26 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes
·
View notes
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر ننکانہ صاحب
ننکانہ صاحب:16 فروری
ننکانہ صاحب:معاون خصوصی وزیر اعلی پنجاب عشر و زکوۃ پنجاب راشد اقبال کا دورہ ننکانہ صاحب
ننکانہ صاحب:ننکانہ آمد پر لیگی ورکرز نے معاون خصوصی کا پرتپاک استقبال کیا
ننکانہ صاحب:ڈپٹی کمشنر آفس پہنچنے پر ڈی سی ننکانہ محمد تسلیم اختر راو نے صوبائی معاون خصوصی کا استقبال کیا
ننکانہ صاحب:ڈپٹی کمشنر نے معاون خصوصی راشد اقبال کو ضلع میں جاری ترقیاتی منصوبوں بارے بریفنگ دی
ننکانہ صاحب:ڈسٹرکٹ زکوۃ آفیسر مس حرا سمیت دیگر افسران بھی موجود تھے
ننکانہ صاحب:معاون خصوصی راشد اقبال نے گوردوارہ جنم استھان کا بھی دورہ کیا
ننکانہ صاحب:گوردوارہ پہنچنے پر لیگی رہنما سردار سرجیت سنگھ کنول و دیگر نے صوبائی معاون خصوصی کا استقبال کیا
ننکانہ صاحب:معاون خصوصی وزیر اعلی پنجاب کو گوردوارہ جات اور سکھوں کی تاریخ بارے بریفنگ دی گی
ننکانہ صاحب:وزیر اعلی مریم نواز کی قیادت میں پنجاب ترقی کی نئی منازل طے کر رہا ہے۔معاون خصوصی راشد اقبال
ننکانہ صاحب:پاکستان کی عوام نے مسلم لیگ ن کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا۔صوبائی معاون خصوصی راشد اقبال
ننکانہ صاحب:ضلع ننکانہ صاحب میں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے۔راشد اقبال
ننکانہ صاحب:وزیر اعلی پنجاب عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہیں۔صوبائی معاون خصوصی
ننکانہ صاحب:پچھلی حکومت نے پنجاب کی عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری کے سوا کچھ نہیں دیا۔راشد اقبال
ننکانہ صاحب:پی ٹی آئی دور میں کرپشن کا بازار گرم رہا ، پی ٹی آئی کے لیڈرز نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔راشد اقبال
0 notes
Text
ہوٹل بکنگ کا مستقبل یہاں ہے - cheQin.ai کے ساتھ ہموار بچت کا تجربہ کریں۔
ہوٹلوں کی بکنگ کا ایک بہتر طریقہ پیش کر رہا ہے۔
بہترین ہوٹل ڈیل تلاش کرنا اتنا آسان کبھی نہیں رہا۔ cheQin.ai طاقت کو اپنے ہاتھوں میں منتقل کرکے مسافروں کے رہائش بک کرنے کے طریقے کو تبدیل کرتا ہے ۔ ڈسکاؤنٹ کے لیے متعدد پلیٹ فارمز کو اسکور کرنے کے بجائے، ہوٹلوں کی بولی دیکھیں تاکہ آپ کو سب سے زیادہ مسابقتی نرخ پیش کیے جا سکیں — فوری طور پر۔
cheQin.ai
ہوٹل بکنگ میں cheQin.ai کیوں نمایاں ہے؟
روایتی ہوٹل بکنگ پلیٹ فارم مقررہ قیمتیں لگاتے ہیں، جس سے مسافروں کو محدود انتخاب ہوتے ہیں۔ cheQin.ai ایک متحرک، ریئل ٹائم بِڈنگ ماڈل کو فروغ دے کر اس عمل کی نئی تعریف کرتا ہے جہاں ہوٹل آپ کے قیام کو جیتنے کے لیے قیمتوں کو ایڈجسٹ کرتے ہیں۔
1. بہترین نرخوں کے لیے ریئل ٹائم بولی لگانا
اپنی منزل، سفر کی تاریخیں اور ترجیحات درج کریں۔
ہوٹل آپ کی بکنگ کو محفوظ بنانے کے لیے ریئل ٹائم میں بولی لگاتے ہیں۔
پانچ بہترین سودے فوری طور پر حاصل کریں اور ان کا موازنہ کریں ۔
2. قیمت کی 100% شفافیت
کوئی پوشیدہ چارجز، کوئی غیر متوقع مارک اپ نہیں۔
تیسری پارٹی کی بکنگ فیس کو ختم کرتے ہوئے براہ راست ہوٹلوں سے بک کریں ۔
محفوظ خصوصی سودے جو کہیں اور دستیاب نہیں ہیں۔
3. AI سے چلنے والی اسمارٹ پرسنلائزیشن
آپ کی ترجیحات اور بکنگ کی سرگزشت کی بنیاد پر موزوں ہوٹل کی سفارشات ۔
بار بار آنے والے مسافر وقت کے ساتھ ساتھ بہتر اور بہتر پیشکشوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
چاہے آپ عیش و آرام، بوتیک قیام، یا بجٹ میں رہائش تلاش کریں، cheQin.ai آپ کے لیے نتائج کو اپنی مرضی کے مطابق بناتا ہے۔
یہ کیسے کام کرتا ہے: ایک پریشانی سے پاک بکنگ کا عمل
cheQin.ai کے ساتھ ، اپنے مثالی قیام کی بکنگ آسان اور فائدہ مند ہے:
اپنے سفر کی تفصیلات درج کریں — اپنی منزل، چیک ان کی تاریخیں، اور ضروری سہولیات کا انتخاب کریں۔
ہوٹلوں کی ریئل ٹائم میں بولی — قیمتیں متحرک طور پر گرتی ہیں کیونکہ ہوٹل آپ کی بکنگ کو محفوظ بنانے کے لیے مقابلہ کرتے ہیں۔
فوری طور پر بہترین ڈیل کا انتخاب کریں — سرفہرست پانچ پیشکشوں کا موازنہ کریں اور سیکنڈوں میں اپنی ریزرویشن کی تصدیق کریں۔
ہر قسم کے مسافروں کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
چاہے آپ تفریح، کاروبار یا ایڈونچر کے لیے سفر کر رہے ہوں، cheQin.ai آپ کی ضروریات کے لیے بہترین ہوٹل ڈیلز تیار کرتا ہے۔
بزنس ٹریولرز: کارپوریٹ ریٹس کے بغیر پریمیم تک رسائی حاصل کریں ۔
لگژری کے متلاشی: ناقابل شکست قیمتوں پر فائیو اسٹار رہائش کا تجربہ کریں ۔
بجٹ مسافر: آرام پر سمجھوتہ کیے بغیر سستی ہوٹلوں کو محفوظ بنائیں ۔
فیملیز اور گروپس: انتہائی مسابقتی نرخوں پر کشادہ رہائش تلاش کریں ۔
youtube
cheQin.ai
ہوٹلوں کا فائدہ بھی — ایک جیت کا ماڈل
خالی کمروں کی وجہ سے ہوٹلوں کو اکثر آمدنی کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ cheQin.ai مسافروں کو بہترین قیمتیں حاصل کرنے کو یقینی بناتے ہوئے ہوٹلوں کے قبضے اور آمدنی کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے ایک جدید طریقہ متعارف کرایا ہے ۔
ہوٹل cheQin.ai کے ساتھ شراکت کیوں کرتے ہیں:
قبضے کی شرحوں کو فروغ دیں — مسابقتی قیمتوں کے ذریعے مزید کمرے فروخت کریں۔
آمدنی کی صلاحیت میں اضافہ کریں — بکنگ کو راغب کرنے کے لیے متحرک طور پر قیمتوں کو ایڈجسٹ کریں۔
فریق ثالث کی فیسوں کو کم کریں — زیادہ منافع کے ساتھ مزید براہ راست بکنگ بنائیں ۔
مسافر cheQin.ai کا انتخاب کیوں کر رہے ہیں۔
لائیو پرائس ایڈجسٹمنٹس — ہوٹل ریئل ٹائم میں فعال طور پر شرحیں کم کرتے ہیں ۔
فوری بچت کی ضمانت — بہترین دستیاب شرح آسانی سے حاصل کریں۔
100% قیمت کی شفافیت — کوئی تعجب نہیں، صرف زبردست سودے۔
AI سے چلنے والی کارکردگی — سمارٹ، کیوریٹڈ آفرز کے ساتھ لامتناہی تلاش سے گریز کریں ۔
cheQin.ai: ہوٹل ریزرویشن کے اگلے دور کی قیادت
سنگاپور، ہندوستان، متحدہ عرب امارات، یورپ اور اس سے باہر پھیلتے ہوئے ، cheQin.ai مہمان نوازی کی صنعت کو نئی شکل دے رہا ہے۔ ایک شفاف، متحرک، اور کسٹمر کے پہلے نقطہ نظر کے ساتھ ، ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مسافر اپنے قیام کے لیے دوبارہ کبھی زیادہ ادائیگی نہ کریں۔
ہوٹل آپ کو بہترین سودا دینے کے لیے مقابلہ کر سکتے ہیں تو مقررہ قیمتوں کو کیوں طے کریں ؟
ہوٹل بکنگ کے مستقبل کو غیر مقفل کریں — آج ہی cheQin.ai کے ساتھ اسمارٹ بچت کا تجربہ کریں!
#cheqinai#travel#wonderlust#uae#explore#CheapHotelDealsDubai#TopHotelBookingAppUAE#SmartTravelUAE#BestHotelBargainsDubai#BusinessTravelUAE#EventHotelsDubai#AffordableStaysUAE#DubaiHotelBookingApp#LowestPriceHotelsUAE#CHEQINAIUAEDeals#BudgetHotelBookingsUAE#UAEHotelBargains#AIHotelDiscountsUAE#InstantHotelDealsUAE#BestHotelPlatformUAE#CorporateTravelUAE#HotelBookingMiddleEast#DubaiHotelSavings#LuxuryHotelsDubai#TravelDealsUAE#BusinessHotelsDubai#UAEStaycation#VisitDubai#UAEStayDeals#Youtube
0 notes
Text
او نیگیٹو (O-) بلڈ گروپ نایاب اور خاص مانا جاتا ہے کیونکہ یہ یونیورسل ڈونر ہوتا ہے، یعنی O- خون رکھنے والا فرد کسی بھی بلڈ گروپ والے شخص کو خون دے سکتا ہے۔ تاہم، O- والے صرف اپنے ہی بلڈ گروپ سے خون لے سکتے ہیں، جو اسے مزید نایاب بنا دیتا ہے۔
او نیگیٹو بلڈ گروپ کی خاص باتیں:
یونیورسل ڈونر: O- خون کسی بھی بلڈ گروپ کے فرد کو دیا جا سکتا ہے، خاص طور پر ایمرجنسی اور زچگی کے کیسز میں یہ بہت قیمتی ہوتا ہے۔
نایابی: دنیا میں صرف تقریباً 7-9% لوگوں کا بلڈ گروپ O- ہوتا ہے، جبکہ کچھ ممالک میں یہ شرح مزید کم ہو سکتی ہے۔
RH نیگیٹو: چونکہ اس میں Rh فیکٹر نہیں ہوتا، اس لیے O- بلڈ گروپ رکھنے والوں کو صرف O- ہی خون دیا جا سکتا ہے، جو کہ ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔
او نیگیٹو بلڈ گروپ رکھنے والے لوگوں کی شخصیت:
یہ کوئی سائنسی اصول تو نہیں، لیکن کچھ تحقیق اور مشاہدات کے مطابق O- بلڈ گروپ رکھنے والے افراد کے بارے میں یہ باتیں کہی جاتی ہیں:
1. خوددار اور آزاد مزاج:
یہ لوگ اپنی عزت نفس پر سمجھوتہ نہیں کرتے اور عام طور پر خودمختار ہوتے ہیں۔
انہیں کسی کے سہارے پر رہنا پسند نہیں، بلکہ اپنے بل بوتے پر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
2. لیڈرشپ کوالٹیز:
اکثر O- بلڈ گروپ والے لوگ قدرتی طور پر لیڈر شپ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ان کے اندر فیصلہ سازی کی بہترین صلاحیت ہوتی ہے اور وہ پریشر میں بھی بہتر کام کر سکتے ہیں۔
3. سخت گیر مگر حساس:
باہر سے سخت نظر آ سکتے ہیں، لیکن اندر سے جذباتی اور حساس ہوتے ہیں۔
اگرچہ یہ آسانی سے کسی پر بھروسہ نہیں کرتے، لیکن جن سے وفاداری کرتے ہیں، ان کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوتے ہیں۔
4. تیز دماغ اور تجزیہ کار:
ان کا دماغ تیزی سے کام کرتا ہے، اور یہ چیزوں کا تجزیہ کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔
عام طور پر حقیقت پسند ہوتے ہیں اور جذباتی باتوں سے زیادہ عملی سوچ رکھتے ہیں۔
5. خطرہ مول لینے والے:
یہ لوگ رسک لینے سے گھبراتے نہیں اور چیلنجز کو قبول کرنے کا رجحان رکھتے ہیں۔
اکثر O- والے لوگ کاروبار، تحقیق، یا ایڈونچر جیسے فیلڈز میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
نتیجہ:
او نیگیٹو بلڈ گروپ رکھنے والے لوگ نایاب ہوتے ہیں، اور ان کی شخصیت بھی اکثر منفرد دیکھی جاتی ہے۔ وہ عام طور پر خودمختار، مضبوط اعصاب والے، اور قیادت کی صلاحیت رکھنے والے ہوتے ہیں۔ لیکن، چونکہ یہ صرف مشاہدات پر مبنی باتیں ہیں، اس لیے ہر فرد کی شخصیت مختلف ہو سکتی ہے۔
✍🏻 تحریر : فاطمہ رائیٹس
📆 تاریخ : 11 فروری 2024
© 2025 فاطمہ رائیٹس. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
0 notes
Text
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤکے وفد کاسفرٹونک - ایک رپورٹ
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے وفد کا سفر ٹونک ایک رپورٹ ندوۃ العلماء کے ایک اہم فیصلہ کے نتیجہ میں تخصص فی الحدیث کے طلباء عزیز کاایک وفد ٹونک آیاجس کی قیادت وامارت استاد حدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء حضرت مولاناشیخ ابوسحبان روح القدس فرمارہے تھے ۔ ٹونک کے سفر کابنیادی مقصد تومولاناابوالکلام آزاد عربک اینڈپرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں طلباء کوقدیم ترین مخطوطات کی زیارت اور بنیادی معلومات دیناتھا…
0 notes
Text
پی ٹی آئی قیادت نے عمران کی ڈو آر ڈائی کال کی مخالفت کیوں کی؟
تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے بانی چیئرمین عمران خان کی اس خواہش کو سختی سے رد کر دیا ہے کہ انکی رہائی کے لیے اسلام اباد میں ایک ڈو اور ڈائی، یعنی مارو یا مر جاو طرز کی احتجاج کی کال دی جائے جسے دھرنے میں تبدیل کر دیا جائے۔ تاہم پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے ایسے کسی منصوبے کی سختی سے مخالفت کی جا رہی ہے اور کپتان کو سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پچھلے دو ماہ میں پی ٹی آئی کی چار…
0 notes
Text
پی ٹی آئی کور کمیٹی ارکان نے احتجاج سے فرار قیادت کیخلاف بڑا اعلان کردیا
(طیب سیف) پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے احتجاج کے بعد پارٹی کے کور کمیٹی کا اہم اجلاس جاری ہے، اجلاس میں ارکان کور کمیٹی نے سیاسی و احتجاجی کمیٹیوں کے خلاف وائٹ پیپر لانے کا مطالبہ کر دیا۔ ذرائع پی ٹی آئی کے مطابق اجلاس میں احتجاجی کمیٹی کی ناقص حکمت عملی پر ارکان کور کمیٹی پھٹ پڑے،ورکرز کو بے یارو مددگار چھوڑنے پر ارکان کور کمیٹی نے سیاسی و احتجاجی کمیٹیوں کے خلاف وائٹ پیپر لانے کا مطالبہ…
0 notes
Text
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/dfe100c49270ec6a168d573bd637b8d3/3edf2e5439a681d2-51/s540x810/dc0db8c7dd9b071d878b763a41e26b86c27707d3.jpg)
مقبوضہ بلوچستان میں قابض پنجابی ریاستی دہشتگرد فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے قائم دنیا کی طویل ترین اور پرامن احتجاجی کیمپ کو تنظیم کے وائس چیرمین ماما قدیر کی قیادت میں پریس کلب کے سامنے 5703 دن مکمل ہوگئے۔
#EndEnforcedDisappearances
#ReleaseAllBalochMissingPersons
#StopBalochGenocide
#OccupiedBalochistan
#BalochistanIsNotPakistan
#pakistanaterroristcountry
0 notes
Text
آرمی چیف کی توجہ کے لیے
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/4d2bf91a4956ddda49d0944cb3cc14cf/c7ccd1058bdb1c54-5e/s400x600/2765d72655bc10caf1b53c6f6eec62fd92914c0a.jpg)
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا اپنی تقریروں میں اسلامی حوالے دینا بہت اچھا لگتا ہے۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان کا صدر ہو، وزیراعظم ہو، جرنیل ہوں، وزیر، مشیر، گورنر، وزرائے اعلی، ممبران پارلیمنٹ یا اعلی عہدوں پر فائز سرکاری افسران، ان سب کیلئے لازم ہونا چاہئے کہ اُن کا اسلام سے متعلق علم عام پاکستانیوں سے زیادہ ہو۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے فیصلے، ہمارے قوانین ، ہماری پالیسیاں سب اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہوں۔ ہماری موجودہ صورتحال بہت خراب ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم تو ہو گیا، اسلامی آئین بھی دے دیا گیا، بار بار اسلام کا نام بھی لیا گیا لیکن ہمارے قوانین، ہماری پالیسیاں دیکھیں، ہمارا ماحول، ہمارا میڈیا، ہماری معیشت، ہماری پارلیمنٹ، ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں پر نظر ڈالیں تو پتا چلے گا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش آج تک نہیں ہوئی، جس کے نتیجے میں ہم ایک Confused قوم بن چکے ہیں۔ نام اسلام کا لیتے ہیں جبکہ نقالی مغربی کلچر کی کر رہے ہیں۔ ہمارے آئین کی تو منشاء ہے کہ پارلیمنٹ کے مسلمان ممبران باعمل مسلمان ہوں، اسلامی تعلیمات کے بارے میں کافی علم رکھتے ہوں اور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہ جانے جاتے ہوں۔
یہ بھی تمام ممبران کیلئے لازم ہے کہ وہ پاکستان کے اسلامی نظریے کا دفاع کرتے ہوں۔ حقیقت میں کیسے کیسے لوگ پارلیمنٹ میں آتے ہیں یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ آئین کی اسلامی شقوں کی کھلے عام خلاف ورزی ہوتی ہے لیکن کوئی بولتا نہیں۔ ہمارے کئی اراکینِ پارلیمنٹ پاکستان کے اسلامی نظریےکی مخالفت کرتے ہیں، کئی سیکولر پاکستان کی بات کرتے ہیں لیکن آئین کی منشاء کے خلاف جانے کے باوجود اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اس ماحول میں ایک حافظ قرآن جنرل کا آرمی چیف بننا اور اُن کی طرف سے اپنی ہر تقریر میں اسلامی تعلیمات کا بڑے فخر سے حوالہ دینا بہت ��وش آئند ہے، جس کی ہم سب کو حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ میری آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے گزارش ہے کہ وہ پاک فوج میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کیلئے اقدامات کریں۔ اس سلسلے میں، میں سابق نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی کی مثال دوں گا جنہوں نے اپنے تین سالہ دور میں پاکستان نیوی میں ایسا انقلاب برپا کیا جو نہ صرف قابلِ تحسین بلکہ قابلِ تقلید بھی ہے۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/0b09878e6c80398257a581c53f8f0e81/c7ccd1058bdb1c54-0a/s400x600/facf3ed5203fba5be4b25b683d0b507d2bcfc22f.jpg)
ایڈمرل عباسی کی ہدایت پر پاک بحریہ اور بحریہ فائونڈیشن کے تحت چلنے والے تمام اسکولوں میں قرآن حکیم کو فہم کے ساتھ لازمی طور پر پڑھایا جا نے لگا، جس کیلئے پرانے اساتذہ کی تربیت کی گئی اور نئے استاد بھی بھرتی کئے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ بحریہ کے رہائشی علاقوں میں قرآن سینٹرز کھولے گئے جہاں بچوں، بڑوں اور بوڑھوں، سب کو قرآن حکیم کی فہم کے ساتھ تعلیم ، اسلامی اقدار کے فروغ اور مغرب کی ذہنی غلامی سے چھٹکارے پر زور اور تربیت دینے کے اقدامات کیے گئے۔ اسلامی لباس اور اسلامی شعائر کو اپنانے پر زور دیا گیا اور طلبہ کو بالخصوص علامہ اقبال کے فکری انقلاب سے روشناس کروانے کیلئے بھی کام کیا گیا۔ پاک بحریہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ Religious Motivation Officers بھرتی کئے گئے۔ اِن افسران نے بہترین دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے اور نیول اکیڈمی کے تربیت یافتہ ہیں۔ اِن Religious Motivation Officers کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ نیول افسران اور ماتحت اہلکاروں کی اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے حوالے سے حوصلہ افزائی کریں۔
اِن افسران کو نیوی کے جہازوں میں بھی افسران اور ماتحت اہلکاروں کی اسلامی اصولوں کے مطابق تعلیم و تربیت کیلئے بھیجا گیا۔ اِن افسران کی یہ بھی ذمہ داری لگائی گئی کہ خطبہ جمعہ دیں اور دورِ حاضر کے ایشوز پر دسترس رکھتے ہوئے عوام کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رہنمائی کریں۔ سابق نیول چیف کے دور میں بحریہ کے تحت چلنے والی تمام مساجد کی بہترین انداز میں تزین و آرائش بھی کی گئی جبکہ خطیبوں اور ائمہ مساجد کی تعداد ماضی کے مقابلے میں دگنا کر دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نیول اکیڈمی کے کیڈٹس کیلئے عربی زبان کی تعلیم کو لازم کر دیا گیا ہے۔ خواتین کو پردہ کرنے کی ترغیب دینے، اُن کیلئے خصوصاً پڑھاتے وقت اعضائے ستر کو چھپا کر رکھنے، جبکہ مردوں کو نگاہوں کی حفاظت کرنے اور شائستگی اپنانے کی بھی ہدایات جاری کی گئیں۔ پروموشن کیلئے پاک بحریہ ک�� افسران کے کردار کو اہمیت دی جانے لگی یعنی اگر کوئی افسر چاہے کتنا ہی قابل اور لائق کیوں نہ ہو اگر باکردار نہ ہو تو اُسے ترقی نہیں دی جاتی۔ امید ہے کہ موجودہ نیول چیف کے دور میں بھی یہ پالیسیاں پاکستان نیوی میں جاری و ساری رہیں گی۔ میں ماضی میں اپنے کالمز کے ذریعے یہ گزارش پاک فوج اور ائیرفورس کی اعلیٰ قیادت سے بھی کر چکا ہوں کہ پاکستان نیوی کی طرح اُنہیں بھی یہ اقدامات اپنی اپنی فورس میں کرنے چاہئیں۔ اس سلسلے میں آرمی چیف سے امید اس لیے زیادہ ہے کیوں کہ وہ خود اسلامی تعلیمات کی اہمیت کو کسی عام فرد سے بہت زیادہ سمجھتے ہیں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
0 notes
Text
نان فائلرز کو فائلرز بنانے کا چیلنج
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/b09ea1f806bd4b58087745c0e8ee08c7/279b74afc93ec9bd-32/s400x600/e0bd032562ca118ffc28ee24f5b8a553d59a0f0d.jpg)
پاکستان اس وقت جن معاشی مسائل کا سامنا کر رہا ہے اس کی بنیادی وجہ ریاست کے وسائل کی کمی اور اخراجات میں مسلسل اضافہ ہے۔ اسی بنیادی خرابی کے سبب ہر حکومت کو مالی خسارہ پورا کرنے کیلئے دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے بلند شرح سود اور سخت شرائط پر قرضے لینا پڑتے ہیں جس کا خمیازہ پھر عام آدمی کو مہنگائی اور معاشی بدحالی کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل طبقات بھی ٹیکس کی شرح میں مسلسل اضافے اور ٹیکس در ٹیکس ادائیگیوں کے باعث مالی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ عام آدمی کیلئے بھی ہر چیز کی خریداری پر بھاری سیلز ٹیکس کی ادائیگی لازمی ہے۔ ایسے میں افسوسناک امر یہ ہے کہ اب بھی ملک میں بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں ٹیکس دینے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وہ طبقہ جس پر ٹیکس قوانین لازمی طور پر لاگو ہونے چاہئیں انہیں بھی نان فائلر کے نام پر ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کی سہولت موجود ہے۔ اس وقت پاکستان کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کے حوالے سے جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں غیر دستاویزی معیشت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سے ایک طرف حکومت کی ٹیکس مشینری کی بدانتظامی ظاہر ہوتی ہے جسکی وجہ سے بہت سے کاروباری افراد غیر رسمی معیشت کا حصہ رہتے ہوئے ٹیکس کی ادائیگی سے بچ جاتے ہیں۔
اس حوالے سے لوگوں میں حکومت کی ٹیکس مشینری پر عدم اعتماد بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس نیٹ کا حصہ بنیں گے تو انہیں ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کے عملے کی طرف سے بلا جواز تنگ کرنے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس پالیسیوں میں متواتر تبدیلیاں اور غیر واضح ٹیکس قوانین بھی ٹیکس دہندگان کیلئے سمجھ بوجھ اور تعمیل کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث ہیں۔ ٹیکس نیٹ میں توسیع کیلئے اس خامی کو ٹیکس میکانزم اور قوانین بہتر بنا کر دور کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام بنیادی طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے تحت کام کرتا ہے۔ تاہم اس محکمے کو بھی عملے کی مبینہ نااہلیوں، بدعنوانیوں اور ناکافی وسائل کے باعث مسائل کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں ٹیکس وصولیوں میں اضافے اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کے حوالے سے ایک اور اہم فیکٹر سیاسی قیادت یا حکومت کا عزم ہے کیونکہ زراعت، پراپرٹی اور ریٹیل سیکٹر اپنے سیاسی اثرورسوخ کے باعث ہی طویل عرصے سے عملی طور پر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ ان طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے جب بھی حکومت کی طرف سے کوئی پالیسی بنائی جاتی ہے تو اسے اندر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخر میں یہ کوشش سیاسی سمجھوتوں کی نذر ہو جاتی ہے۔
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/52ecebbdc90e390e012c7f3b8d228875/279b74afc93ec9bd-1f/s400x600/ce0f22971ed741d54a57aa4050b86a6a433f9494.jpg)
ان وجوہات کی بنا پر اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت کو بھی یہ واضح نظر آنا شروع ہو گیا ہے کہ اگر اس نے اب بھی ان مسائل کو حل کرنے کیلئے ٹیکس اصلاحات نہ کیں اور نان فائلر کو فائلر بنانے کی پالیسی پر عمل نہ کیا تو اس کیلئے موجودہ معاشی استحکام کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں حال ہی میں حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی میں یہ بل پیش کیا گیا ہے کہ نان فائلر افراد پر کاروں، جائیدادوں کی خریداری اور بینک اکاؤنٹس کھولنے پر پابندی عائد کی جائے۔ اسی طرح حکومت نے ٹیکس دہندگان کے خفیہ ڈیٹا کو کمرشل بینکوں اور نجی طور پر رکھے گئے ٹیکس آڈیٹرز کے ساتھ شیئر کرنےکیلئے بھی پارلیمنٹ سے منظوری مانگی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نان فائلرز کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے اور سیلز ٹیکس رجیم میں رجسٹرڈ نہ ہونیوالے افراد کے کاروبار اور جائیدادیں ضبط کرنے کے اختیارات بھی مانگے گئے ہیں۔ اس بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ نان فائلرز کو اپنے بینک کھاتوں سے ایک خاص حد سے زیادہ رقم نکالنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
مجوزہ بل میں جہاں کچھ اچھی چیزیں شامل ہیں وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت نے ماضی میں کئے گئے اپنے ہی اعلانات کے برعکس نان فائلر کیٹیگری کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا ہے۔ اس سلسلے میں انکم ٹیکس آرڈیننس کے 10ویں شیڈول کو حذف کرنے کی ضرورت ہے جو نان فائلرز کیلئے زیادہ شرح کی ادائیگی کرکے فائلر بننے سے بچنے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایف بی آر کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد نان فائلرز میں سے نومبر تک صرف 56 لاکھ افراد نے اپنے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروائے ہیں۔ دیگر نان فائلرز ٹیکس نظام کی عدم فعالیت اور کمزوری یا حکومت کی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے تاحال ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ دوسری طرف ایف بی آر کو گزشتہ پانچ ماہ میں 340 ارب روپے کے ٹیکس شارٹ فال کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے اندیشہ ہے کہ حکومت ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا کرنے کیلئے پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود افراد پر کوئی نیا ٹیکس لگا سکتی ہے یا پہلے سے نافذ شدہ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر سکتی ہے۔
حالانکہ رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ٹیکس محصولات کا ہدف پہلے ہی 13 ہزار ارب روپے رکھا گیا ہے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے حکومت ٹیکس دہندگان پر نئے ٹیکس لگانے کے علاوہ براہ راست ٹیکسوں میں 48 فیصد اور بالواسطہ ٹیکسوں میں 35 فیصد اضافہ کر چکی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ حکومت ایسے کسی بھی اقدام سے باز رہے جس کے باعث ��ہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل افراد پر مالی بوجھ ناقابل برداشت ہو جائے اور وہ بھی فرار کے راستے ڈھونڈنے شروع کر دیں۔
چوہدری سلامت علی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes