#آئی پی ایل 2019
Explore tagged Tumblr posts
wkpedias · 4 years ago
Photo
Tumblr media
Franchises want full IPL and no tinkering, if it happens: KKR CEO Venky Mysore | Cricket News کولکتہ: اس کے لئے کورونا وائرس سے متاثرہ کیلنڈر میں جگہ بنانے کے لئے آئی پی ایل فارمیٹ میں کوئی "ٹنکرنگ" قابل قبول نہیں ہوگی۔ کولکتہ نائٹ رائیڈرز سی ای او وینک Mی میسور ، جنہوں نے جمعرات کو زور دے کر کہا کہ تمام فرنچائزز چاہتے ہیں کہ اس تقریب کو اپنی مکمل شکل میں رکھا جائے۔ …
0 notes
emergingpakistan · 5 years ago
Text
کورونا وائرس : کیا ہجوم وبا کا مقابلہ کر سکتا ہے؟
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہیں۔ آج کی دنیا میں آبادی بھی ان وسائل میں شامل ہے جو ترقی کی بنیاد بنتے ہیں۔ اس کی مثال اس وقت چین کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ جس نے گزشتہ ستر برس میں اپنی آبادی کو ترقی کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ چین نے اپنے لوگوں کی تربیت کی، انہیں ایک ہجوم سے قوم بنایا اور اس قوم نے ترقی کے ایسے ایسے کارنامے رقم کیے کہ آج کا چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور سب سے بڑا زرمبادلہ کا حامل ملک ہے۔ چین میں رواں برس غربت کا مکمل خاتمہ ہونے کو ہے۔ ان سب سے بڑھ کر چین کو اپنے قیام کے بعد جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا، وہ کورونا وائرس کی وبا ہے۔ چین نے نہ صرف اس وبا پر خود قابو پایا بلکہ آج اس لڑائی میں دنیا کی مدد بھی کر رہا ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوا؟
میں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں مقیم ہوں۔ یہ دسمبر 2019 کے آخری ہفتے کی بات ہے جب کورونا وائرس کی وبا منظر عام پر آئی۔ یہ کہاں سے شروع ہوئی؟ چینی حکومت نے اس کو روکنے کےلیے کیا اقدامات اختیار کیے؟ یہ تفصیلات آپ سب جانتے ہیں۔ چینی قوم نے وبا کے دوران اپنے نظام کی اطاعت کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں کہ بڑی بڑی جمہوریتیں اور نام نہاد مہذب معاشرے بھی چینی قوم کے معترف ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف میرے وطن میں ہر سنجیدہ مسئلے کی طرح وبا بھی ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ چینی قوم نے ووہان شہر سے لے کر پورے ملک میں آبادیوں کے قرنطینہ تک، ہر پابندی کو اپنے لیے فائدہ مند سمجھا اور حکومت کی جانب سے جاری کی جانے والی ہر ہدایت پر من وعن عمل کیا۔ ڈیڑھ ارب کی آبادی میں کوئی پریشانی کی لہر نہیں دوڑی۔ اجتماعات پر پابندیاں لگیں، جگہ جگہ لوگوں کا جسمانی درجہ حرارت اور شناخت چیک کی گئی۔ 
کہیں کسی نے اپنی ہتک محسوس نہیں کی۔ اس دوران ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے واقعات بھی سامنے نہیں آئے۔ اسکول بند ہوئے تو کروڑوں طلبا نے انٹرنیٹ پر تعلیم کا متبادل تلاش کر لیا۔ پارک بند ہوئے تو گھروں میں ورزش کو معمول بنا لیا۔ یہ ہے قوم۔ آج چین ایک قوم کی صورت میں اس وبا کو شکست دینے کے قریب ہے۔ اب کچھ ذکر کرتے ہیں اپنے وطن عزیز کا، جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں۔ ہر کوئی اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے۔ پاکستانی حکومت نے تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا کیا سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہو گیا۔ ہر شخص اپنے اپنے انداز میں ردعمل کا اظہار کر رہا ہے۔ بہت سے لوگوں نے حکومت کی طرف سے جاری حکم نامے پر طنز و مزاح شروع کر دیا ہے۔ ایسی ایسی ویڈیوز پوسٹ ہورہی ہیں جن کو دیکھ کر شرم آتی ہے۔ 
کہیں کورونا زندہ باد کے نعرے لگائے جارہے ہیں تو کہیں کہا جارہا ہے کہ تعلیمی ادارے ایسے بند کر دیے ہیں جیسے وائرس چائنا سے پاکستان تعلیم حاصل کرنے آرہا ہے۔ کہیں کوئی کہہ رہا ہے چھٹیوں کے اعلان کے بعد بچے محفوظ مقام نانی اماں کے گھر شفٹ ہونے کےلیے تیار ہیں۔ کوئی راگنی سنا رہا ہے کہ تعلیمی ادارے بند، بازار اور دفتر کھلے، کیا وہاں کورونا نہیں پھیل سکتا؟ کوئی حکومت کو کوس رہا ہے کہ چھٹیوں کا اعلان کیوں کیاِ؟ جتنے منہ اتنی باتیں۔ ایک طرف حکومتی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وہ کووڈ-19 کے تناظر میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کرتی ہے تو دوسری طرف انتظامیہ کی سنجیدگی دیکھیں قرنطینہ مراکز پکنک پوائنٹ بنے ہوئے ہیں۔ نان، پکوڑے، دہے بھلے اور پان سگریٹ تک کے اسٹال لگا دیے گئے ہیں۔ ہمیں اب میچور ہونا ہو گا اور غیر سنجیدہ رویوں کو ترک کرنا ہو گا۔ 
صرف حکومت تنہا اس وبا کی روک تھام کےلیے کچھ نہیں کر سکتی۔ ہمیں بطور قوم اجتماعی شعور کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ یہ وائرس اللہ کا عذاب ہے، جو شامت اعمال کی صورت ساری دنیا پر مسلط ہو چکا ہے۔ لاکھوں افراد کو متاثر کر چکا ہے۔ کئی زندگیوں کو نگل چکا ہے۔ ہزاروں گھروں کو ویران کر چکا ہے۔ دنیا بھر کی معیشت پر اس کے نہایت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس کریش ہو چکی ہیں۔ ایئرپورٹس، شاپنگ مال اور عبادت گاہیں ویران ہو گئی ہیں۔ الحمدللہ پاکستان اب بھی اللہ کے فضل و کرم سے کورونا وائرس کووڈ-19 کے لحاظ سے محفوظ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ یہاں پر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی شرح سب سے کم ہے۔ پاکستان میں احتیاطی تدابیر کی فضا اس لیے قائم کی جارہی ہے تاکہ کسی بھی ناگہانی صورت حال سے بچا جاسکے۔ عالمی ادارہ صحت نے کووڈ-19 کو عالمی وبا قرار دے دیا ہے۔ 
��اکستان میں کچھ کیسز رپورٹ ہونے کے بعد بھی ہم نے بطور قوم سنجیدہ رویے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پی ایس ایل میچز ہو رہے تھے، بڑے بڑے اجتماعات جاری تھے۔ غیر ملکی میڈیا کی نظر میں بھی یہ سب کچھ آرہا تھا۔ ایسے میں اگر خدانخواستہ یہ مرض پھیل جاتا ہے تو پاکستان کو ایک غیر سنجیدہ اور غیر ذمے دار ملک قرار دے دیا جانا تھا۔ اس لیے وبا پر قابو پانے کےلیے حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کو سراہنے کی ضرورت ہے، نہ کہ طنزومزاح سے کام لیا جائے۔ ہمیں سنجیدگی سے ان ہدایات پر عمل کرنا ہو گا۔ ہم نے اپنی تاریخ میں بہت سے سانحات دیکھے ہیں۔ ہر حادثے کے بعد ہم کچھ دیر کےلیے قوم ضرور بنتے ہیں اور پھر اس کے بعد ہجوم بن جاتے ہیں۔ ہمارے پاس دین کی ہدایت موجود ہے، قران کی رہنمائی موجود ہے اور اللہ کی رحمت کا بے شمار نزول ہے۔ آئیے کسی نئے حادثے کے انتظار کے بغیر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور تفرقے میں پڑے بغیر ایک قوم کی صورت اس وبا سمیت ہر چیلنج کا مقابلہ کیجئے۔
شاہدہ زبیر
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
classyfoxdestiny · 3 years ago
Text
ایک ریکارڈ توڑ پی ایس ایل ایڈیشن | کھیل #کھیل
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d8%a7%db%8c%da%a9-%d8%b1%db%8c%da%a9%d8%a7%d8%b1%da%88-%d8%aa%d9%88%da%91-%d9%be%db%8c-%d8%a7%db%8c%d8%b3-%d8%a7%db%8c%d9%84-%d8%a7%db%8c%da%88%db%8c%d8%b4%d9%86-%da%a9%da%be%db%8c%d9%84/
ایک ریکارڈ توڑ پی ایس ایل ایڈیشن | کھیل
ایفبالآخر، لاہور قلندرز کا خواب ساتویں کوشش میں پورا ہوا کیونکہ شاہین شاہ آفریدی کی زیرقیادت ہوم سائیڈ نے گزشتہ ہفتے قذافی اسٹیڈیم میں پورے گھر کے سامنے PSL-7 کی ٹرافی اٹھائی۔
ملتان سلطانز کا پی ایس ایل ٹائٹل کا کامیابی سے دفاع کرنے والی پہلی ٹیم بننے کا خواب 42 رنز کی شکست سے چکنا چور ہوگیا۔
اسلام آباد یونائیٹڈ اور پشاور زلمی پلے آف کے لیے کوالیفائی کرنے والی دو دیگر ٹیمیں تھیں لیکن ایلیمینیٹر راؤنڈ میں اپنے میچ ہار گئیں۔ کنگز اور گلیڈی ایٹرز پہلے راؤنڈ میں ہی باہر ہو گئے تھے۔
لاہور کی جیت کے بعد اب تمام چھ ٹیمیں کم از کم ایک بار لیگ جیت چکی ہیں۔ صرف اسلام آباد یونائیٹڈ نے دو بار ٹائٹل جیتا ہے۔
اسلام آباد یونائیٹڈ نے 2016 اور 2018 میں، پشاور زلمی نے 2017 میں، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے 2019 میں، کراچی کنگز نے 2020 میں اور سلطانز نے گزشتہ سال (2021)۔
جب لاہور قلندرز کی انتظامیہ نے شاہین شاہ آفریدی کو پی ایس ایل کے ساتویں ایڈیشن کے لیے کپتان مقرر کیا تو تجربہ کار آل راؤنڈر شاہد آفریدی نے شاہین کو مشورہ دیا کہ وہ کپتانی قبول کرنے سے پہلے ایک یا دو سال انتظار کریں تاکہ وہ اپنی باؤلنگ پر توجہ دے سکیں۔
لیکن شاہین نے نہ صرف چیلنج قبول کیا بلکہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا پہلا ٹائٹل جیت کر شاہد آفریدی کو غلط ثابت کر دیا۔
شاہین سے پہلے سات کھلاڑی لاہور قلندرز کی قیادت کرچکے ہیں – 2016 میں اظہر علی اور ڈی جے براوو، 2017 میں برینڈن میک کولم، 2018 میں سہیل اختر، 2019 میں محمد حفیظ، اے بی ڈی ویلیئرز اور فخر زمان اور 2021 میں سہیل اختر، لیکن یہ شاہین آفریدی تھے۔ جس نے لاہور کو پی ایس ایل کا پہلا ٹائٹل دلایا۔
شاہین 21 سال کی عمر میں – T20 لیگ کا ٹائٹل جیتنے والے سب سے کم عمر کپتان بن گئے۔ شاہین نے 26 سال کی عمر میں 2013 میں انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) فرنچائز ممبئی انڈینز کو ٹائٹل جیتنے والے بھارتی اسٹار بلے باز روہت شرما کا ریکارڈ توڑ دیا۔
ساتواں سیزن شروع ہونے سے پہلے، شاہین نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی، جو کرکٹ سرکٹ پر ایک اور فاسٹ باؤلنگ کپتان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور نوجوان کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے۔
قلندرز پی ایس ایل کے پانچویں سیزن کا فائنل ہار گئی۔ وہ پہلے چار سیزن میں آخری اور چھٹے ایڈیشن میں پانچویں نمبر پر رہے۔
فائنل میں شکست کے باوجود ملتان سلطان کو 35 لاکھ روپے کے نقد انعام کے ساتھ “اسپرٹ آف کرکٹ ایوارڈ” ملا۔
لاہور قلندرز کے اوپنر اور ’’بیٹسمین آف دی ٹورنامنٹ‘‘ فخر زمان 13 میچوں میں 45.23 کی اوسط اور 152.72 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ ایک سو سات نصف سنچریوں کی مدد سے 588 رنز کے ساتھ PSL-7 کے سب سے کامیاب بلے باز رہے۔
ملتان کے شان مسعود (478) اور پشاور کے شعیب ملک (401) دوسرے دو بلے باز تھے جنہوں نے 400 رنز کا ہندسہ عبور کیا۔
محمد رضوان کے لیے یہ بہترین ٹورنامنٹ تھا۔ وہ نہ صرف 546 رنز کے ساتھ ٹورنامنٹ کے دوسرے کامیاب ترین بلے باز رہے – فخر کے بعد واحد بلے باز جس نے لیگ میں 500 سے زیادہ رنز بنائے تھے – بلکہ “PSL 2022 کے بہترین کھلاڑی اور بہترین وکٹ کیپر” کا ایوارڈ بھی 3 روپے کے نقد انعام کے ساتھ حاصل کیا۔ .5 ملین ہر ایک 12 میچوں میں اس نے اسٹمپ کے پیچھے نو بلے باز بنائے۔
رضوان ایک مصروف کھلاڑی ہے۔ اس نے اس سیزن میں ملتان سلطانز کے لیے 12 میں سے 10 میچ جیتے ہیں۔ ان کی ٹیم نے لگاتار دو فائنل کھیلے۔ یہ لگاتار دوسرا سیزن تھا جب انہوں نے 500 سے زیادہ رنز بنائے۔
سال کے شروع میں، رضوان کو پی سی بی ایوارڈز 2021 کے حصے کے طور پر “سب سے قیمتی کرکٹر” کے ساتھ ساتھ T20I کرکٹر بھی قرار دیا گیا تھا۔
محمد رضوان کو ایچ بی ایل پاکستان سپر لیگ سیزن سات کی ٹیم کا کپتان بھی نامزد کیا گیا تھا جسے کمنٹری ٹیم کے معزز اراکین نے منتخب کیا تھا۔
باؤلنگ کے حوالے سے لاہور کے کپتان شاہین شاہ آفریدی نے 13 میچوں میں 20 وکٹیں حاصل کیں، جبکہ شاداب خان (اسلام آباد) 19 وکٹوں کے ساتھ ان سے پیچھے ہیں۔
اسلام آباد کے کپتان شاداب خان کو PSL 2022 کا سب سے قیمتی کھلاڑی (MVP) قرار دیا گیا – انہوں نے 162.42 کے ہائی اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ 19 وکٹیں حاصل کیں اور 268 رنز بنائے۔ پی ایس ایل کی تاریخ میں کسی نے بھی ایک سیزن میں 250 رنز نہیں بنائے اور نہ ہی 15 سے زیادہ وکٹیں لیں۔
شاداب نے صرف 9 میچوں میں صرف 10.89 کی عمدہ اوسط اور 6.46 کے اکانومی ریٹ کے ساتھ اپنی 19 وکٹیں لیں۔ ان کی شاندار کارکردگی پر شاداب کو “ٹورنامنٹ کے بہترین باؤلر” کا ایوارڈ ملا۔ کلائی اسپنر کے پاس سیزن میں دو فور فیر اور ایک فائیو فیر تھے۔
ملتان کے ��ل راؤنڈر خوشدل شاہ نے 25.50 کی اوسط سے 153 رنز بنائے اور 13.93 کی اوسط سے 16 وکٹیں لیں۔ خوشدل نے پی ایس ایل 2022 کے “بہترین آل راؤنڈر اور بہترین فیلڈر” کے ایوارڈز بھی حاصل کیے اور ہر ایوارڈ کے لیے 3.5 ملین روپے بھی ملے۔
41 سالہ محمد حفیظ نے ثابت کر دیا کہ وہ کھیل کے مختصر ترین فارمیٹ میں اب بھی میچ ونر ہیں۔ فائنل میں، پہلے انہوں نے 46 گیندوں پر 69 رنز بنائے اور پھر فارم میں موجود اوپنر محمد رضوان (14) اور عامر عظمت (6) کی اہم وکٹیں لے کر دفاعی چیمپئن کو 19.3 اوورز میں 138 رنز پر آؤٹ کر دیا۔
. Source link
0 notes
breakpoints · 3 years ago
Text
ٹی 20 ورلڈ کپ: پاکستان کا تجربہ کار کھلاڑیوں کے مجموعے سے بھارت سے مقابلہ
ٹی 20 ورلڈ کپ: پاکستان کا تجربہ کار کھلاڑیوں کے مجموعے سے بھارت سے مقابلہ
سرفراز (ایل) اور شاداب خان (سنٹر) آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ 2019 کے میچ کے دوران بابر اعظم کے ساتھ جشن منا رہے ہیں۔ تصویر: اے ایف پی پاکستان کرکٹ ٹیم مینجمنٹ نے ٹی 20 ورلڈ کپ کے اپنے بقیہ میچوں میں جانے کا فیصلہ کیا ہے ، بشمول بھارت کے خلاف ہائی آکٹین ​​مقابلہ ، سینئر اور تجربہ کار کھلاڑیوں کے امتزاج کے ساتھ۔ ایک رپورٹ کے مطابق۔ جیو نیوز۔، ذرائع نے کہا: “جب تک فٹنس کے مسائل نہ بڑھیں ، وہی مجموعہ جو…
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 3 years ago
Text
سپریم کورٹ کی سرزنش کے بعد پنجاب میں 2013 کے قانون کے تحت بلدیاتی حکومتیں بحال
سپریم کورٹ کی سرزنش کے بعد پنجاب میں 2013 کے قانون کے تحت بلدیاتی حکومتیں بحال
پنجاب میں عثمان بزدار حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل میں ہچکچاتے ہوئے بلدیاتی حکومتوں کو بحال کردیا، جو فیصلے پر نظرثانی کی اس کی دائر کردہ درخواستوں کے نتائج سے مشروط ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی پنجاب حکومت نے اقتدار میں آنے کے فورا بعد مئی 2019 میں پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ (پی ایل جی اے) 2013 کے تحت قائم کردہ بلدیاتی اداروں کو تحلیل کر دیا تھا۔ تاہم اب بدیاتی حکومتوں کے سابق…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 4 years ago
Text
پاکستان ریلوے کا ایم ایل ون منصوبہ
پاکستان ریلوے کے بارے میں ہم جنرل ایوب کے دور سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ ریلوے کو ڈبل ٹریک بنا کر جلد ہی جدید کیا جائے گا گو کہ برطانیہ سرکار نے پورے برصغیر میں ریلوے کا جال بچھا دیا تھا اور اس طرح 1860-61 میں کوٹری تا کراچی کیماڑی تک ریلوے لائن بچھا دی تھی، اور کراچی تا لودھراں اسٹیشن تک بھی ڈبل ٹریک کر دیا گیا تھا پھر ایوب حکومت نے خانیوال تا لاہور الیکٹرک ٹرین بھی چلا دی تھی، جو کئی برس تک چلتی رہی بعدازاں جو بھی حکومتیں آئیں ریلوے کو ترقی دینے کا منصوبہ بناتی رہیں اور اس طرح پچھلے 20 برسوں میں ریلوے ڈبل ٹریک لودھراں سے ساہیوال تک ڈبل ٹریک مکمل ہو گیا اور اب اسے ساہیوال تک لاہور راولپنڈی اور پشاور کینٹ تک لے جانا تھا مگر ایسا ابھی تک یعنی اگست 2020 تک یہ منصوبہ نامکمل ہے، اس پر کتنے ارب روپیہ خرچ ہوا، کتنی کرپشن ہوئی کوئی پتا ہی نہ چل سکا۔ اب پی ٹی آئی حکومت اور اس سے قبل نواز شریف کی حکومت میں چین سے معاہدے کے تحت سی پیک کا منصوبہ طے کیا گیا جس میں ریلوے میں ��یم ایل ون کو بھی شامل کر کے کراچی تا پشاور تک ڈبل ٹریک کرنا بھی شامل ہو گیا تھا، سو اب کام چل پڑے گا۔ اس سلسلے میں قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی (ایکنک) نے کراچی تا پشاور تک ریلوے لائن منصوبہ ایم ایل ون سمیت 1252 ارب روپے مالیت کے چار میگا منصوبوں کی منظوری دے دی ہے یہ منصوبہ سی پیک کا حصہ ہو گا جس کی لاگت 11 کھرب پاکستانی روپے ہو گی۔ جب کہ کراچی تا پشاور میل لائن کو اپ گریڈ کرنا ہو گا اس کی لاگت 6 ارب 80 کروڑ 67 لاکھ 83 ہزار ڈالر ہو گی یعنی پاکستانی روپیہ 1137 ارب ہو گا جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ یہ سی پیک کا حصہ ہو گا۔ اس منصوبے میں حویلیاں کے قریب ڈرائی پورٹ بھی بنایا جائے گا۔ یہ منصوبہ تین مراحل میں مکمل کیا جائے گا جس کے تحت ریل گاڑیوں کی رفتار 105-110 سے بڑھ کر 165 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو جائے گی اس طرح یک طرفہ یا ایک سمت سے یومیہ 34 ٹرینوں کے بجائے 137 تا 171 ٹرینیں یومیہ چلنا شروع ہو جائیں گی۔ جب کہ معاہدے کے تحت کراچی تا پشاور 2655 کلومیٹر ٹریک یا پٹری کو اپ گریڈ کیا جائے گا اس سلسلے میں وزارت ریلوے اور 7 ڈویژن کے اعلیٰ حکام اور انجینئرز بھی چین کے انجینئرنگ مشینوں کے ساتھ اپنا بھی حصہ ڈالیں گے۔
یہ سات ڈویژن کیا ہیں یہ میں آپ کو بتاتا ہوں۔ (1)۔ کراچی ڈویژن ٹنڈو آدم تک۔ (2)۔ سکھر ڈویژن خانپور تک۔ (3)۔ ملتان ڈویژن ساہیوال تک۔ (4)۔ لاہور ڈویژن لالہ موسیٰ تک۔ (5)۔ راولپنڈی ڈویژن اٹک تک اور (6)۔ پشاور ڈویژن لنڈی ک��تل تک میل لائن پر موجود ہے جس کی اپ گریڈیشن ہو گی جب کہ 7 واں ڈویژن کوئٹہ بلوچستان کا حصہ ہے جس کا اس میں ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ یہ منصوبہ ایکنک نے 29 اگست 2019 کو اس کی منظوری دی تھی اور اب 5 اگست 2020 کو ایک اہم اجلاس جس کی صدارت مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کی اس کی منظوری دے دی جب کہ اس سے قبل سی پیک کا سربراہ ریلوے کے انتہائی ایماندار افسر اشفاق خٹک صاحب تھے جنھیں وزیر ریلوے شیخ رشید نے فارغ کر دیا تھا اور اب نئے سرے سے اس کا باقاعدہ چیئرمین عاصم سلیم باجوہ ہیں جو یہ کام مکمل کروائیں گے جب کہ دوسری جانب وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر بھی ریلوے کے انفرااسٹرکچر میں بہتری لائیں گے اور ریلوے کا قدیم ترین والٹن ٹریننگ اسکول کو بھی نئے سرے سے اپ گریڈ کیا جائے گا جب کہ دوسرے اور تیسرے پروگرام میں ریلوے سگنل سسٹم، ریلوے پھاٹکوں (گیٹ) کا خاتمہ ریلوے لائنوں کے ساتھ باڑ لگانا بھی شامل ہے۔ امید ہے کہ ریلوے ترقی کی طرف جائے گی اور اپنے 5 سالہ منصوبے کم ازکم مدت میں پورا کر کے ریلوے کو بھی ترقی اور تیز رفتار ٹرینوں کی صف میں شامل کرے گی ویسے تو ہمارے ریلوے وزیر شیخ رشید احمد کہہ رہے ہیں کہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا منصوبہ ہو گا جس کی رقم 11 کھرب روپے کی لاگت سے کثیر رقم خرچ کر کے بنایا جا رہا ہے انھوں نے نوید دی ہے کہ انشاء اللہ یہ منصوبہ ہم 2023 کے آخر تک مکمل کر لیں گے جس کے تحت مسافروں کو کراچی تا لاہور، راولپنڈی تا پشاور تک گھنٹوں میں پہنچایا جائے گا۔ اس سلسلے میں جلد ہی انٹرنیشنل ٹینڈر جاری کر دیے جائیں گے جو بھی کمپنیاں اس میں حصہ لینا چاہیں وہ چین کی کمپنی کا حصہ بن کر اس میں شامل ہو سکتی ہیں اور مل کر ایم ایل ون کو کامیاب بنائیں۔ جس کے تحت خودکار سگنل سسٹم ریلوے گیٹ انڈرپاسز کا خاتمہ اور تیز رفتار ٹرینیں پاکستان ریلوے کے ٹریک پر دوڑیں گی۔
مسافروں کی سہولت کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں گے اور انٹرنیشنل بنیادوں پر ٹرینوں کو چلایا جائے گا اس بارے میں وزیر ریلوے نے یہ بھی اعلان کر دیا ہے کہ کراچی سے حیدرآباد کا سفر 1 گھنٹے میں جب کہ ملتان تا لاہور 2 گھنٹے میں، لاہور تا راولپنڈی 2 گھنٹے تیس منٹ میں اور کراچی تا لاہور 7 گھنٹے میں جب کہ کراچی تا راولپنڈی 10 گھنٹے میں لوگ اپنی اپنی منزلوں پر پہنچ سکیں گے یہ بڑی خوش خبری ہے۔ ساتھ ہی 160 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار۔ تمام پھاٹکوں کا خاتمہ، تمام حادثات کا خاتمہ، تیز رفتار فریٹ (مال گاڑی) مضبوط ملکی معیشت کے لیے کارآمد۔ 1872 کلومیٹر کراچی تا پشاور 12 گھنٹے میں نیا ٹریک نئی سہولیات ٹریک کے دونوں اطراف پر کنکریٹ فینسنگ اور ٹریک کی طرف لوگوں کی آمد و رفت بند ہو گی۔ سوائے پل یا برج کے ذریعے آنا اور جانا شامل ہو گا جب کہ روزگار کے مواقع ڈیڑھ سے دو لاکھ ملازمین کو روزگار اچھی مراعات کے ساتھ دیا جائے گا۔ بڑے اچھے اقدامات ہیں ہم اپنی زندگی میں ریلوے کو تیز رفتار دیکھنا چاہتے ہیں، امید ہے ہم اس میں کامیاب ہوں گے۔ ریل چلتی رہے گی زندگی گزرتی رہے گی رونق لگی رہے گی۔
منظور رضی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
wkpedias · 4 years ago
Text
Chinese sponsorship in IPL helping Indian economy, not another way round: Dhumal | Cricket News
Chinese sponsorship in IPL helping Indian economy, not another way round: Dhumal | Cricket News
آئی پی ایل ٹرافی (ایل) اور بی سی سی آئی کے خزانچی ارون دھومل
نئی دہلی: بی سی سی آئی اگلے چکر کے لئے اپنی کفالت پالیسی پر نظرثانی کرنے کے لئے کھلا ہے لیکن اس کا موجودہ کے ساتھ وابستگی ختم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے آئی پی ایل بورڈ کے خزانچی کے طور پر چینی کمپنی سے آنے والی رقم ہندوستانی مقصد میں مدد دے رہی ہے اور نہ کہ دوسرے راستے میں ارون دھومل جمعہ کو کہا.
رواں ہفتے کے شروع میں وادی…
View On WordPress
0 notes
swstarone · 4 years ago
Photo
Tumblr media
انڈیا کے لیے دفاعی ساز و سامان کے شعبے میں ’خود انحصاری‘ کا حصول کتنا مشکل ہے؟ سروج سنگھنمائندہ بی بی سی، دہلی2 گھنٹے قبل،TWITTER/RAJNATHSINGH،تصویر کا کیپشنانڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھانڈیا کی مرکزی حکومت نے دفاعی شعبے میں ’آتم نربھر انڈیا‘ یعنی ’خود کفیل انڈیا‘ کا نیا نعرہ بلند کیا ہے جس کے تحت ملک کی وزارتِ دفاع نے 101 اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔ان اشیا میں آرٹلری گنز، اسالٹ رائفلز، ٹرانسپورٹ ایئر کرافٹ، ریڈار اور دیگر دفاعی ساز و سامان شامل ہے۔ان اشیا کی ملک سے باہر درآمد پر پابندی کا اعلان کرتے ہوئے انڈیا کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ اس پابندی کو دسمبر 2020 سے دسمبر 2025 کے درمیان مرحلہ وار انداز میں نافذ کیا جائے گا۔ وزارت دفاع کے مطابق اس فیصلے سے ملکی صنعت کو فروغ ملے گا۔وزیر دفاع نے کہا کہ ان اشیا کی فہرست وزارت دفاع نے تمام متعلقہ فریقین سے مشاورت کے بعد تیار کی ہے جن میں فوجی، نجی اور سرکاری شعبے کی صنعتیں بھی شامل ہیں اور اس کا مقصد یہ ہے کہ مستقبل میں جنگی ساز و سامان کی تیاریوں کے سلسلے میں انڈیا کی صلاحیتوں کا جائزہ لیا جا سکے۔انڈیا کے دفاعی اخراجاتحال ہی میں سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کی سالانہ رپورٹ بھی سامنے آئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق انڈیا فوجی شعبے میں سب سے زیادہ خرچ کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ اس فہرست میں امریکہ پہلے جبکہ چین دوسرے نمبر پر ہے۔رپورٹ کے مطابق انڈیا نے سنہ 2019 میں دفاعی شعبے میں 71 ارب ڈالر خرچ کیے جو سنہ 2018 کے مقابلے میں 6.9 فیصد زیادہ ہیں۔سنہ 2019 میں چین نے دفاع کی مد میں 261 ارب ڈالر جبکہ امریکہ نے 732 ارب ڈالر خرچ کیے۔ انڈیا فوجی مصنوعات کی سب سے زیادہ خریداری روس سے کرتا رہا ہے اور اس کے بعد امریکہ، اسرائیل اور فرانس کا نمبر آتا ہے۔،،تصویر کا کیپشنسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق انڈیا فوجی شعبے میں سب سے زیادہ خرچ کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہےرپورٹ کے مطابق انڈیا کے دفاعی اخراجات میں اس لیے بھی اضافہ ہوا ہے کیونکہ پاکستان اور چین کی سرحدوں پر صورتحال کشیدہ ہے۔لیکن کیا وزارت دفاع کے نئے اعلان کے بعد اگلے پانچ برسوں میں یہ تصویر بدل جائے گی؟ کیا انڈیا کا دفاعی شعبے میں خود کفیل ہونے کا خواب اگلے پانچ سالوں میں پورا ہو جائے گا؟ اس بارے میں ملک کے دفاعی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کی آرا مختلف ہیں۔اس وقت کس حد تک دفاعی شعبہ خود کفیل ہےدفاعی امور کے ماہر راہل بیدی کا کہنا ہے کہ راج ناتھ سنگھ کے بیان میں کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ نئی بوتل میں پرانی شراب والی بات ہے۔انھوں نے کہا کہ سنہ 2013 میں دفاعی خریداری کے طریقہ کار میں بھی یہی بات کہی گئی تھی اور آج بھی انڈیا میں جو دفاعی ساز و سامان تیار کیا جا رہا ہے اس میں استعمال ہونے والے کئی پرزے بیرون ملک سے ہی بن کر آتے ہیں۔ بہت سارے دفاعی آلات جو انڈیا میں تیار ہو رہے ہیں وہ لائسنس کی بنیاد پر تیار کیے جاتے ہیں۔لائسنس کی بنیاد پر بنائے جانے کا مطلب یہ ہے کہ فوجی ساز و سامان تیار کرنے کا لائسنس غیر ملکی کمپنی کے پاس ہے اور اس غیر ملکی کمپنی نے انڈیا کے ساتھ معاہدہ کیا ہے جس کی وجہ سے وہ یہ مصنوعات انڈیا میں بنانے کے قابل ہوتی ہیں۔وزارت دفاع کے نئے حکم میں ابھی تک کوئی واضح حوالہ نہیں مل سکا ہے کہ آیا لائسنس کی بنیاد پر بنائے جانے والے سامان کو بھی ’دفاعی شعبے میں خود انحصاری‘ سمجھا جائے گا؟راہل بیدی کا کہنا ہے کہ جب تک غیر ملکی کمپنیاں دفاعی سودوں میں اس حد تک مداخلت کرتی ہیں تب تک دفاعی سامان میں خود انحصاری حاصل کرنے کا نعرہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔،EPA،تصویر کا کیپشنسنہ 2019 میں انڈیا نے دفاعی شعبے میں 71 ارب ڈالر خرچ کیے جو سنہ 2018 کے مقابلے میں 6.9 فیصد زیادہ ہیںلائٹ کامبیٹ طیارےلائٹ کامبیٹ ایئر کرافٹ کا انجن اور بہت سارے دوسرے پرزے انڈیا بیرون ممالک سے برآمد کرتا ہے اور پھر انھیں جوڑ کر یہ طیارے انڈیا میں تیار ہوتے ہیں۔ کیا دفاعی سازوسامان میں ’خود انحصاری‘ کے نئے نعرے کا مطلب یہ ہو گا کہ لڑاکا طیاروں کے انجن مکمل طور پر انڈیا میں بننا شروع ہو جائیں گے؟ یا انجن کو انڈین لائٹ جنگی طیارہ سمجھا جائے گا چاہے وہ غیر ملکی ہی کیوں نہ ہو؟ اس کی وضاحت انڈین حکام کے بیانات یا احکامات سے نہیں ہو سکی ہے۔راہل بیدی کا کہنا ہے کہ انڈیا میں لائٹ کامبیٹ ایئر کرافٹ سنہ 1983 میں بننا شروع ہوئے تھے۔ ’37 برسوں میں اس کا بنیادی ماڈل مارک 1 ہی ہم انڈیا میں بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مارک اے اس کا فائٹر (جنگی) ماڈل ہو گا جس کا پروٹو ٹائپ ابھی تک انڈیا میں تیار نہیں ہوا ہے۔ اسے بنانے میں چار سے پانچ سال لگیں گے۔‘وزارت دفاع کی جانب سے جن 101 اشیا پر درآمدی پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں لائٹ کامبیٹ طیارے بھی شامل ہیں جنھیں اب دیسی ساختہ یا مقامی طور پر تیار کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ابھی اس طیارے کو بنانے کے لیے بیرون ممالک سے پچاس فیصد سامان لیا جاتا ہے تو مستقبل میں اس کو کم کرنے اور انڈیا میں چیزیں بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس طیارے کا انجن اور اس میں استعمال ہونے والے ہتھیار سب باہر کے ہیں۔اسی طرح کی کہانی لائٹ کامبیٹ ہیلی کاپٹر کی بھی ہے۔ اس کا انجن فرانس سے آتا ہے اور انڈیا ایروناٹکس لمیٹڈ میں یہ دوسرے پرزوں کے ساتھ اسمبل کیا جاتا ہے۔،راہل بیدی کا کہنا ہے کہ دفاعی شعبے میں خود انحصاری کے لیے انڈیا کو ڈیزائن اور ڈیویلیپمنٹ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہو گی۔راہل نے بلٹ پروف جیکٹ کی ایک مثال دے کر کہا کہ ’انڈیا میں 1990 کی دہائی سے اسے بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘فی الحال اترپردیش کے کانپور میں ایک نجی کمپنی میں یہ بنائی جاتی ہے۔ لیکن اس جیکٹ کو بنانے کے لیے ’کیولر‘ نامی چیز استعمال ہوتی ہے اور آج تک وہ بیرونی ممالک سے منگوائی جا رہی ہے۔دو سال قبل ملک میں اس کی پیداوار شروع ہوئی ہے لیکن پھر بھی ملک میں اتنی تعداد میں یہ نہیں بنتا کہ ہم انڈیا کو بلٹ پروف جیکٹ میں خود کفیل کہہ سکیں۔،TWITTER/RAJNATH SINGHانڈیا نے اسالٹ رائفل بھی بنانے کی کوشش کی۔ راہل بیدی کہتے ہیں کہ انڈیا نے سنہ 1990 کی دہائی میں ایک دیسی اسالٹ رائفل ’انساس‘ بنائی تھی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی۔سنہ 2010-2011 میں فوج نے کہا تھا کہ یہ رائفل عملی طور پر موثر نہیں ہے۔ انڈین فوج نے یہ کہتے ہوئے انساس رائفل کو مسترد کر دیا کہ اسے چلانے میں بہت سی دقتیں درپیش ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم اس کے بدلے میں ایک دوسری رائفل چاہتے ہیں۔ اس وقت سے نئی رائفل کے بارے میں آٹھ، نو سالوں سے صرف بات چیت جاری ہے۔پھر سنہ 2019 میں اتر پردیش کے امیٹھی میں اسالٹ رائفل بنانے کی فیکٹری شروع ہوئی۔ اس میں روس کے ساتھ شراکت کی بات کی گئی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی خود اس کا افتتاح کرنے گئے تھے۔ یہ لائسنس پر مبنی معاہدہ بھی ہے لیکن پھر بھی روس کے ساتھ معاہدہ مکمل نہیں ہوا جس کی وجہ سے یہ کام رُکا ہوا ہے۔کورونا کی وجہ سے بھی کچھ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ در حقیقت دفاعی شعبے میں خود انحصاری کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔نجی کمپنیاں دفاعی شعبے میں پیچھے کیوں ہیں؟انڈیا میں سنہ 2001 تک دفاعی شعبے پر ڈی آر ڈی او اور آرڈیننس فیکٹری جیسی سرکاری کمپنیوں کا غلبہ رہا مگر اُس کے بعد حکومت نے نجی کمپنیوں کو کام کرنے کی اجازت دی۔لیکن آج تک دفاعی سودوں میں ان کا حصہ آٹھ سے دس فیصد سے زیادہ نہیں بڑھا ہے۔ ایل اینڈ ٹی، مہندرا اور بھارت فورج جیسی کچھ کپنیاں دفاعی ساز و سامان کی صنعت میں آگے آ رہی ہیں۔دفاعی شعبے کی بڑی سرکاری کمپنیوں میں بھی صرف چند ہی نام ہیں جیسے انڈیا ایروناٹکس لمیٹڈ، انڈیا الیکٹرانکس لمیٹڈ، بھارت ڈائنامکس اور بی ای ایم ایل۔واضح ہے کہ گذشتہ 20 برسوں میں اس صورتحال میں زیادہ بہتری نہیں آئی ہے اور سوال یہ ہے کہ انڈین کمپنیاں دفاعی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں محسوس کرتی ہیں؟اس کے متعلق بی بی سی نے اونیش پٹنائک سے بات کی۔ اونیش سوسائٹی آف انڈین ڈیفنس مینوفیکچرز کے رکن ہیں۔ یہ ادارہ کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری سے وابستہ ہے۔اونیش کے مطابق ’ڈیفنس ایک ایسا شعبہ ہے جہاں سرمایہ کاری کرنے پر منافع حاصل کرنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اسے چھوٹے بجٹ سے شروع نہیں کیا جا سکتا اس لیے کمپنیوں کو زیادہ سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ انڈیا میں اس شعبے میں سرمایہ کاری کے بعد بھی ریٹرن (منافع وصولی) کی ضمانت نہیں۔‘انھوں نے کہا کہ فارن کمپنیاں ہم سے بہتر سازوسامان بناتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم ان سے مقابلہ میں پیچھے رہ گئے۔ ’بیرون ملک دفاع کے شعبے میں جن کا نام ہے اور جو قابل اعتبار ہیں وہ 70، 80 برسوں سے اس شعبے میں مصروف عمل ہیں۔ انڈین کمپنیاں ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ان مصنوعات کا فروخت بہت کم ہے اور ایسے آلات نہ تو جلدی سے خراب ہوتے ہیں اور نہ ہی انھیں بہت جلد تبدیل کیا جاتا ہے۔‘اوونیش کا خیال ہے حکومت کے نئے فیصلے سے سرمایہ کاروں کو حوصلہ ملے گا۔ مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ اگلے پانچ سات سالوں میں تقریبا 52 ہزار کروڑ کا دفاعی ساز و سامان صرف انڈین کمپنیوں سے خریدے جائیں گے۔ لہذا کمپنیاں یقینی طور پر سرمایہ کاری کے لیے آگے آئیں گی۔،لیکن کیا انڈیا کی مصنوعات عالمی معیار کی ہو سکیں گی؟غزالہ وہاب فورس میگزین کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر ہیں۔ ’فورس‘ دفاعی امور سے متعلق ایک ماہانہ رسالہ ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے غزالہ کا کہنا ہے کہ ’انڈیا میں کئی برسوں سے دفاعی ساز و سامان کے لائسنس تیار ہو رہے ہیں لیکن دفاع کے میدان میں خود انحصاری کے لیے مرکزی حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ ان آلات کی تحقیق اور ڈیزائن بھی انڈیا میں تیار ہو۔ انھوں نے کہا کہ یہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔’کسی بھی چیز کی قابلیت کا تجربہ صرف اس وقت ہوتا ہے کہ کون اسے خرید رہا ہے۔ اگر میں کچھ بناؤں اور میرے گھر والے خرید لیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ لیکن اگر میں اپنی مصنوعات کو بازار میں فروخت کرنے کے قابل ہوں تو یہ ایک قابل قدر چیز ہے۔‘انھوں نے مزید کہا ’یہی بات انڈیا میں تیار کردہ دفاعی سازوسامان پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ انڈیا جو بھی دفاعی ساز و سامان تیار کر رہا ہے اسے برآمد کرنے کے قابل ہے کہ نہیں۔ یہ سب سے بڑا امتحان ہو گا کہ بیرونی ممالک ہماری مصنوعات میں کتنی دلچسپی لے رہے ہیں یا خرید رہے ہیں۔‘غزالہ نے مثال دیتے ہوئے انڈیا میں تیار ارجن ٹینک کا ذکر کیا۔ انڈین فوج اس ٹینک کے وزن کی وجہ سے اس کو استعمال نہیں کرنا چاہتی تھی۔ لیکن آخر کار انڈین فوج نے اسے خریدا۔ ’تیجس‘ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، اگرچہ انڈین ایئر فورس نے تیجس کو خریدا لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اس کے جدید ورژن کا انتظار کریں گے۔تیجس بننے میں کتنا عرصہ لگا یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور یہ ٹیکنالوجی بیرون ممالک میں کہیں بھی استعمال نہیں ہو رہی ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ اس وقت انڈیا میں دفاع سے متعلق ایسی کوئی چیز نہیں بنتی جسے یہاں پوری طرح سے تیار کیا جا رہا ہو، ہاں یہ ضرور ہے کہ انڈیا بڑی دفاعی کمپنیوں کی سپلائی چین کا ایک حصہ ہے۔مثال کے طور پر بوئنگ کمپنی غیر ملکی ہے لیکن اس کے بہت سے حصے انڈیا میں بنتے ہیں جو انڈیا بیرون ملک فروخت کر سکتا ہے۔ پھر یہ ان ممالک میں اسمبل ہوتا ہے۔ انڈیا کی دفاعی ساز و سامان برآمد کرنے کی فہرست بھی ایسی ہی ہے۔راہل بیدی نے دنیا کے دوسرے ممالک میں انڈیا میں تیار دفاعی اشیا کی مانگ پر دو مثالیں پیش کیں۔سنہ 2009 کی بات ہے جب انڈیا نے آٹھ ’دھروو‘ ہیلی کاپٹر ایکواڈور کو بیچے تھے۔ ان میں سے چار گر کر تباہ ہو گئے اور ایکواڈور نے باقی کے چار ہیلی کاپٹر انڈیا کو واپس لوٹا دیے اور اس حوالے سے کیا گیا معاہدہ منسوخ کر دیا۔اسی طرح اناسس رائفل کے ساتھ بھی لگ بھگ یہی کچھ ہوا، یہ رائفل انڈیا نے پڑوسی ملک نیپال کو فروخت کی تھی۔اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دفاعی شعبے کی کمپنیوں کو مختلف پہچان بنانے کی ضرورت ہے جس میں کمپنیوں کو وقت اور رقم دونوں خرچ کرنا پڑتا ہے اور یہ راستہ اتنا آسان نہیں ہے۔ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
emergingpakistan · 5 years ago
Text
پاکستان میں آپ کس طرح کورونا وائرس کا ٹیسٹ کروا سکتے ہیں
دسمبر 2019 سے دنیا بھر میں پھیلنے والے نوول کورونا وائرس نے اب تک لاکھوں افراد کو متاثر و ہلاک کر دیا ہے جبکہ ممالک اپنی ٹیسٹنگ کی سہولت کو بڑھا رہے ہیں تاکہ لوگوں میں وائرس کا معلوم ہو سکے اور اس پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جاسکیں۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان یومیہ 14 ہزار ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا 20 ہزار ٹیسٹ یومیہ تک استعداد بڑھانے کا ارادہ ہے۔ ایک طرف صوبہ خیبرپختونخوا نجی لیبارٹریز کو ٹیسٹ کرنے کی اجازت دے رہا ہے تاکہ صلاحیت کو بڑھایا جا سکے تو دوسری طرف سندھ حکومت نے کریانے اور سبزیوں کی دکانوں میں لوگوں کی بغیر کسی ترتیب کے ٹیسٹنگ کی ہدایت کی ہے۔ شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے افراد اس بات پر ہی زور دیتے ہیں کہ کووڈ 19 کے خلاف جنگ صرف ٹیسٹنگ کی صلاحیت کو بڑھا کر، متاثرہ افراد کو آئیسولیٹ کر کے اور ہیلتھ کیئر اسٹاف کو مکمل حفاظتی سامان فراہم کر کے ہی جیتی جاسکتی ہے۔ اسی حوالے سے عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر تیدروس اڈہانوم کہتے ہیں کہ 'ہمارے پاس تمام ممالک کے لیے ایک پیغام ہے، ٹیسٹ، ٹیسٹ اور ٹیسٹ'۔
کس طرح چیک کروایا جاسکتا ہے؟ ایسے لوگ جنہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہیں کچھ علامات ہیں، ان کے لیے ڈان نے صحت حکام سے رابطہ کیا تاکہ وہ طریقہ معلوم ہو سکے جس کے ذریعے مفت میں وائرس کا ٹیسٹ کروایا جاسکتا ہے۔
آپ کو کیا جاننے کی ضرورت ہے کسی مریض کو شبہ ہے کہ اسے کورونا وائرس کی علامات ہیں تو اسے حکومتی سطح پر نامزد سرکاری یا نجی ہسپتال جانا چاہیے، قومی ادارہ صحت کے عہدیدار ڈاکٹر ممتاز علی خان کے مطابق ملک بھر میں تمام ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتالز اور ٹیرٹری کیئر ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے نمونے لینے کی سہولت موجود ہے۔ قومی ادارہ صحت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر میجر جنرل عامر اکرام کے مطابق ہسپتال میں ڈاکٹر مریض کی علامات کو دیکھے گا کہ آیا اسے کورونا وائرس ہے یا نہیں۔ اس دوران مریض سے ان کی ٹریول ہسٹری (سفری تاریخ) سمیت یا ایسے لوگوں کے ساتھ قریبی رابطے سے متعلق سوالات کیے جائیں گے۔
اگر ڈاکٹر کو کورونا وائرس کا شبہ نہ ہوا تو وہ مریض کو واپس بھیج دیں گے۔ ڈاکٹر اکرام کے مطابق اگر ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے کہ مریض کو علامات ہیں تو پھر اس کے نمونے لے کر متعلقہ مقامات میں سے ایک جگہ بھیجیں گے جہاں ٹیسٹنگ کی سہولیات دستیاب ہوں، یہ ٹیسٹنگ بالکل مفت کی جائے گی۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں حکومت کی دیگر سہولیاتی مراکز میں بھی بالکل مفت ٹیسٹ کیا جارہا ہے تاہم کچھ نجی لیبز بھی وائرس کی ٹیسٹنگ فراہم کر رہی ہیں۔
ٹیسٹ کہاں سے کروایا جاسکتا ہے سندھ ایڈوانس ڈائگنوسٹک سینٹر کراچی آغا خان یونورسٹی ہسپتال کراچی چغتائی لیب کراچی ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسر، اوجھا- کراچی ڈاکٹر رتھ فاؤ سول ہسپتال- کراچی ضیاالدین ہسپتال کراچی انڈس ہسپتال کراچی پی این ایس شفا کراچی ایس آئی یو ٹی کراچی ڈرائیو تھرو ٹیسٹنگ فیسیلٹی کراچی گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز خیرپور لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز حیدرآباد
پنجاب پروونش�� پبلک ہیلتھ ریفرنس لیب (پی پی ایچ آر ایل) پی ایچ ایس ڈی شوکت خانم کینسر ہسپتال لاہور پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ لاہور نشتر ہسپتال ملتان چغتائی ٹیسٹنگ لیب انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ لاہور الائیڈ ہستپال فیصل آباد سول ہسپتال بہاولپور
خیبرپختونخوا خیبرمیڈیکل یونیورسٹی پشاور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور ایوب ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد سیدو ٹیچنگ ہسپتال سوات مفتی محمود میموریل ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ اسمٰعیل خان رحمٰن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ پشاور نارتھ ویٹ جنرل ہسپتال پشاور انور لیب پشاور بلوچستان فاطمہ جناح ہسپتال کوئٹہ
اسلام آباد نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ آزاد جموں و کشمیر عباس انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز مظفرآباد شیخ خلیفہ بن زاید النہیان ہسپتال (سی ایم ایچ) راولاکوٹ ڈویژن ہیڈکوارٹرز ہسپتال میرپور
گلگت بلتستان علاقے میں موجود تمام ضلعی ہسپتالوں میں نمونے لینے کی سہولت دستیاب ہے جس کے بعد ان نمونوں کو گلگت یا اسکردوں میں ٹیسٹنگ کے لیے بھیجا جاتا ہے ان تمام سہولیات کے علاوہ شہری اپنے قریبی عوامی صحت کے مراکز یا ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال میں اسکرینگ کروا سکتے ہیں۔
ٹیسٹ مثبت آنے کی صورت میں کیا کریں؟ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں کو دی گئی ہدایات میں کہا گیا ہے کہ جس مریض میں معمولی علامات ظاہر ہوں تو اسے گھروں میں آئیسولیٹ کیا جائے جبکہ صرف ان مریضوں کو ہسپتالوں میں طبی امداد فراہم کی جائے گی جنہیں اس کی ضرورت ہو گی۔ وفاقی وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پیز) کے مطابق ایسے مریضوں کو گھروں میں آئسیولیٹ کرنے سے 'بیماری کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی اور نظام صحت پر دباؤ کم پڑے گا'۔ 
ان ہدایات میں مریضوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ دیگر لوگوں سے رابطوں کو محدود رکھیں اور اگر ضرورت کے تحت باہر جانا پڑے تو 6 فٹ کا فاصلہ برقرار رکھیں۔ ساتھ ہی یہ بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ مریض تمام ضروری احتیاطی تدابیر کو اپنائیں اور جس جگہ کو وہ چھوئیں اسے صاف اور جراثیم سے پاک کر دیں۔  تاہم مریضوں کو یہ بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ اگر حالت بگڑتی ہے تو انہیں فوری طور پر ہسپتال جانا چاہیے۔ اس کے بارے میں سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کہتی ہیں کہ آپ اس بیماری کو چھپا نہیں سکتے، جتنی جلدی آپ اس میں مدد لیں گے اتنی ہی جلدی محفوظ ہوں گے۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years ago
Text
دنیش کارتک نے ہندوستانی کھلاڑی کا نام دیا جو "ایک مکمل انکشاف" ہوا ہے #فیچرکالمز
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d8%af%d9%86%db%8c%d8%b4-%da%a9%d8%a7%d8%b1%d8%aa%da%a9-%d9%86%db%92-%db%81%d9%86%d8%af%d9%88%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86%db%8c-%da%a9%da%be%d9%84%d8%a7%da%91%db%8c-%da%a9%d8%a7-%d9%86%d8%a7%d9%85-2/
دنیش کارتک نے ہندوستانی کھلاڑی کا نام دیا جو "ایک مکمل انکشاف" ہوا ہے
Tumblr media Tumblr media
دنیش کارتک کی فائل فوٹو
تجربہ کار ہندوستانی وکٹ کیپر بلے باز دنیش کارتک نے نوجوان ہندوستانی کرکٹرز وینکٹیش ایر، سوریہ کمار یادیو اور ہرشل پٹیل کی تعریف کی۔ ہرشل پٹیل کو “مکمل انکشاف�� قرار دیتے ہوئے کارتک، جو آخری بار انگلینڈ میں 2019 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں ہندوستان کے لیے کھیلے تھے، نے کہا کہ میڈیم پیسر دیکھنے میں اچھا ہے۔ پٹیل نے ویسٹ انڈیز کے خلاف تین میچوں کی T20I سیریز کے لیے ہندوستانی ٹیم میں واپسی کی، جسے ہندوستان نے 3-0 سے جیتا تھا۔ دائیں ہاتھ کے تیز گیند باز جنہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف تین میچوں میں پانچ وکٹیں حاصل کیں، خاص طور پر ڈیتھ اوورز میں اپنی باؤلنگ سے متاثر ہوئے۔
کارتک نے دی کے تازہ ترین ایپی سوڈ میں کہا، “ہرشل پٹیل کو دیکھنا بہت اچھا ہے – اس نے ایک مکمل انکشاف کیا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں، آنے والے لڑکے اپنے مواقع کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ رہے ہیں اور یہ ہمیشہ ایک اچھی علامت ہے،” کارتک نے دی کے تازہ ترین ایپی سوڈ میں کہا۔ آئی سی سی کا جائزہ.
ہرشل، جسے RCB نے آئی پی ایل 2022 کی نیلامی میں 10.75 کروڑ روپے میں خریدا تھا، سری لنکا کے خلاف T20I سیریز میں اچھا کام جاری رکھنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے لکھنؤ میں سیریز کے افتتاحی میچ میں صرف دو اوور پھینکے۔
سوریہ کمار یادو اور وینکٹیش ائیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے کارتک نے کہا: “نئے آنے والے لوگ واقعی اپنی جگہ پر پہنچ گئے ہیں۔ سوریہ کمار یادو، وینکٹیش آئر۔”
ہندوستان کو T20I رینکنگ میں ٹاپ پر برقرار رکھنے کے لیے سری لنکا کے خلاف ایک اور کلین سویپ کی ضرورت ہوگی۔
ترقی دی گئی۔
“کون دنیا کا نمبر 1 نہیں بننا چاہتا چاہے وہ کچھ عرصے کے لیے ہی کیوں نہ ہو؟” کارتک نے کہا۔ “کیونکہ دوسری ٹیمیں میچ کھیلیں گی اور پھر ہندوستان آئی پی ایل کے بعد مزید میچ کھیلتا ہے تاکہ اس میں تبدیلی آسکے۔ لیکن اس لمحے کے لیے، یہ جان کر کہ ٹیم انڈیا دنیا کی نمبر 1 ٹی 20 ٹیم ہے، میرے خیال میں یہ بہت اچھا احساس ہے۔ “
کارتک نے مزید کہا، “میرے خیال میں یہ کھلاڑیوں کا معیار ہے۔ جب آپ وقت کے ساتھ اچھی ٹیموں کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو وہ ہمیشہ اس حقیقت کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ بینچ کی طاقت بہت اہم ہونا ضروری ہے، اور ہندوستان کے پاس بڑی بینچ کی طاقت ہے،” کارتک نے مزید کہا۔
اس مضمون میں جن موضوعات کا ذکر کیا گیا ہے۔
. Source link
0 notes
breakpoints · 3 years ago
Text
شائقین متحدہ عرب امارات میں آئی پی ایل کی بحالی کے لیے واپس آئیں گے۔
شائقین متحدہ عرب امارات میں آئی پی ایل کی بحالی کے لیے واپس آئیں گے۔
دبئی: انڈین پریمیئر لیگ 2019 کے ایڈیشن کے بعد پہلی بار شائقین کا خیرمقدم کرے گی جب اتوار کو متحدہ عرب امارات میں ٹوئنٹی 20 اسٹرواگنزا دوبارہ شروع ہوگا۔ پانچ مرتبہ کی چیمپئن ممبئی انڈینز کا مقابلہ اتوار کو دبئی میں مہندرا سنگھ دھونی کی چنئی سپر کنگز سے ہوگا ، دنیا کی امیر ترین ٹی 20 لیگ کو بھارت میں کورونا وائرس وبائی امراض کے درمیان درمیان میں روکنے کے چار ماہ بعد۔ آئی پی ایل ک�� ایک بیان میں کہا…
View On WordPress
0 notes
qaumisafeer · 5 years ago
Text
رپورٹ: 2019 میں دہشت گردی کے واقعات میں 30 فیصد کمی آئی۔
رپورٹ: 2019 میں دہشت گردی کے واقعات میں 30 فیصد کمی آئی۔
اسلام آباد: تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) سال 2019 میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں نمایاں رہے اور انہوں نے بالترتیب 82 اور 27 دہشت گردانہ حملے کیے جن میں سے چند نہایت اہم نوعیت کے تھے۔
Tumblr media
پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پپز) کی سالانہ رپورٹ برائے سیکیورٹی کے مطابق گزشتہ سال کے دوران داعش کی جانب سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی دیکھی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ…
View On WordPress
0 notes
gcn-news · 4 years ago
Text
کمر کی انجری ...حسن علی کیلئے کرکٹ بورڈ کا بڑا اعلان
Tumblr media
لاہور(جی سی این رپورٹ)پاکستانی فاسٹ بولر حسن علی نے کمر کی انجری سے چھٹکارے کے لیے ترتیب دیے گئے ورچوئل ری ہیب سیشن کی طرف مثبت رویہ اختیار کیا ہے، طبی ماہرین کے مطابق حسن علی کو سرجری کی ضرورت نہیں اور وہ توقعات سے قبل ہی مسابقتی کرکٹ میں واپسی کرسکتے ہیں۔ حسن علی نے گذشتہ ہفتے 2 گھنٹوں پر محیط آن لائن ری ہیب سیشن میں شرکت کی، اس سیشن کی نگرانی لاہور کے معروف نیوروسرجن آصف بشیر، آسٹریلیا میں مقیم ممتاز اسپائنل تھراپسٹ پروفیسر پیٹر او سولیون اور پی سی بی کی میڈیکل ٹیم نے کی۔ پینل کے مطابق اس سیشن کے نتائج حوصلہ افزاء رہے ہیں اور وہ آئندہ 5 ہفتے حسن علی میں بہتری کے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد اگلا کوئی بھی قدم اٹھانے کا فیصلہ کریں گے۔ پی سی بی شعبہ میڈیکل کے سربراہ ڈاکٹر سہیل سلیم نے کہا کہ ایک سال سے بھی کم عرصے میں ایک ہی حصے سے دو مرتبہ انجریز کا شکار ہونا کوئی معمولی بات نہیں، نتیجتاً ہم نے چند بہترین اور تجربہ کار ماہرین سے مشاورت کی۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی آن لائن ری ہیب سیشن کے بعد ماہرین کی آراء جان کر خوشی ہوئی ہے کہ حسن علی میں انجری کی علامتی واپسی کے کوئی اثرات ظاہر نہیں ہوئے تاہم یہ ری ہیب پروگرام کے ابتدائی ایام ہیں اور ہم اس ضمن میں مشترکہ طور پر مستقبل سے متعلق کسی بھی فیصلے سے قبل آئندہ پانچ ہفتے فاسٹ بولر میں بہتری کے اثرات کا جائزہ لیتے رہیں گے۔ اس دوران پاکستان کرکٹ بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ وہ کرکٹ میں واپسی تک حسن علی کی مالی معاونت جاری رکھے گا، پی سی بی کی جانب سے یہ فیصلہ انجری کے سبب حسن علی کے سینٹرل کنٹریکٹ سے محروم رہ جانے کےباعث کیا گیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان کا کہنا ہے کہ حسن علی ہمارا اثاثہ اور آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2017 کے ہیرو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب حسن علی کو ہماری ضرورت ہے اور وہ ہماری طرف دیکھ بھی رہے ہیں تو ان حالات میں ان کی مدد کرنا پی سی بی کی ذمہ داری ہے۔ اپریل کے آخر میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے میڈیکل پینل کی جانب سے حسن علی کی کمر کے نچلے حصے میں شدید دباؤ کی تشخیص کی گئی تھی۔ اس سے قبل حسن علی نے ستمبر 2019 میں تکلیف کی شکایت کی تھی جس کے سبب دورہ آسٹریلیا کے لیے ان کا نام واپس لے لیا گیا تھا۔ پھر قائد اعظم ٹرافی کے دوران درد محسوس کرنے کے بعد مکمل صحتیاب ہوکر انہوں نے ایچ بی ایل پی ایس ایل 2020 میں شرکت کی تاہم کووِڈ 19 کے سبب لیگ 15 مارچ کو ملتوی کردی گئی۔ حسن علی نے اپنا انٹرنیشنل ڈیبیو اگست 2016 میں کیا اور وہ اب تک 9 ٹیسٹ، 53 ایک روزہ اور 30 ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں. Read the full article
0 notes
urdunewspost · 4 years ago
Text
دھونی نے اگلے سال انڈین پریمیر لیگ کھیلنا جاری رکھیں گے
دھونی نے اگلے سال انڈین پریمیر لیگ کھیلنا جاری رکھیں گے
[ad_1]
Tumblr media
7 مئی ، 2019 کو لی گئی اس فائل فوٹو میں ، چنئی کے ایم اے چدمبرم اسٹیڈیم میں چنئی سپر کنگز اور ممبئی انڈینز کے مابین 2019 انڈین پریمیر لیگ (آئی پی ایل) کے پہلے کوالیفائر ٹوئنٹی 20 کرکٹ میچ کے دوران چنئی سپر کنگز کرکٹ ٹیم کے کپتان مہندر سنگھ دھونی شاٹ کھیل رہے ہیں۔ . – اے ایف پی
دبئی: بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مہیندر سنگھ دھونی نے اتوار کے روز اگلے سال کے انڈین پریمیر لیگ (آئی پی ایل)…
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 5 years ago
Text
کیا ناجائز طور پر کمائے گئے اربوں روپوں کی واپسی ممکن ہو سکے گی؟
پاکستان میں چینی اور گندم کے بحران کے بعد ان دنوں بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں کا اسکینڈل زبان زد عام ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ان کمپنیوں سے یہ رقم واپس لے سکے گی؟ اقتدار کے ایوانوں میں گردش کرنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان کی حکومت نے بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں (آئی پی پیز) کے اسکینڈل میں ملوث گروپوں اور شخصیات کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی کابینہ کی منظوری کے ساتھ ایک اعلٰی سطحی تحقیقاتی کمیشن بھی بنایا جا رہا ہے جو ان نجی پاور کمپنیوں کا فرانزک آڈٹ کر کے نوے دنوں میں اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سال 2019 میں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئرمین محمد علی کی سربراہی میں وفاقی حکومت نے نو رکنی ایک کمیٹی قائم کی تھی تاکہ انڈیپینڈینٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کی طرف سے ملنے والی بجلی کے مہنگا ہونے کی وجوہات کا تعین کیا جا سکے۔
اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں نے غیر قانونی طرز عمل اپناتے ہوئے اپنے منصوبوں کی ��اگت سے بھی کئی گنا زیادہ منافع کمایا اور ان کو طے شدہ شرح سے بھی زیادہ ادائیگیاں کی جاتی رہیں۔ رپورٹ نے نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کی غیرمنصفانہ شرائط کی بھی نشاندہی کی۔ اس رپورٹ میں سامنے آنے والے حقائق کے بعد حکومت بجلی خریدنے کے معاہدوں کے حوالے سے نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں پر نظر ثانی چاہتی ہے۔ دوسری صورت میں حکومت کو یہ سفارش کی گئی ہے کہ 2002ء کی پالیسی کے تحت بننے والے پاور پلانٹس کو ریٹائر کر دیا جائے، آئی پی پیز کو ڈالر کی بجائے پاکستانی روپے میں ادائیگیاں کی جائیں اور ان کے پاور پلانٹس میں استعمال ہونے والے فیول کی مقدار کے درست تعین کے لیے تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ ایک اور سفارش میں کہا گیا ہے کہ نجی پاور پلانٹس کو گارینٹڈ پرچیز کے بجائے صرف خریدی جانے والی بجلی کی ہی ادائیگی کی جائے۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز اقتصادی ماہر ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ حکومت آئی پی پیز سے یہ پیسے واپس لینے میں کامیاب ہو سکے گی۔ ان کے بقول جب یہ معاہدے کیے گئے تو ملک میں بجلی کی شدید قلت تھی اور حکومت کی بارگیننگ کی صلاحیت بھی کمزور تھی۔ اس طرح کی صورتحال میں کمیشن لینے، پیسے لے کر نوازنے اور معاہدے میں غیر منصفانہ شرائط شامل کروانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر بنگالی کے مطابق ایسا اس ملک میں پچھلے ستر سالوں سے ہو رہا ہے اور یہ سب کچھ صرف پاور سیکٹر تک ہی محدود نہیں ہے: ''گوادر کے منصوبے کے فائنل ہونے کے بہت بعد ہمیں پتہ چلا تھا کہ اس میں حکومت پاکستان کا آمدن میں حصہ نو فی صد ہے۔ اسی طرح ملک کو جو کمرشل لون ملتے ہیں ان کی کہانیاں بھی ہم سب جانتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر قیصر بنگالی مزید کہتے ہیں، ''اگر آپ ساورن گارنٹی دے کر بھی بیس سال بعد معاہدے دوبارہ کھول لیتے ہیں تو پھر یہاں سرمایہ کاری کون کرنے آئے گا۔ ان معاہدوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ اس لیے مجھے خدشہ ہے کہ حکومت کو کسی ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے جسی صورتحال کا سامنا اسے ریکوڈک اور ترک کمپنی کے ساتھ معاہدوں سے روگردانی کی صورت میں کرنا پڑی تھی۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ چونکہ گندم اور چینی کے اسکینڈل میں خود حکومتی شخصیات کے نام آئے تھے اس لیے پاور سیکٹر اسکینڈل میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے لوگوں کو دھر کر حکومت حساب برابر کرنا چاہتی ہے۔‘‘ ڈاکٹر قیصربنگالی کہتے ہیں کہ حکومت اگر چاہتی ہے کہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں تو پھر اسے ہر غیر ملکی حکومت، غیر ملکی ایجنسی یا غیر ملکی کمپنی کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کو خفیہ نہیں رکھنا چاہیے اور اس کی منظوری سینیٹ کی متعلقہ کمیٹیوں سے لی جانا چاہیے اور اس عمل کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہونا چاہیے۔
پاکستان کے ایک اور ماہر معیشت شاہد حسن صدیقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ پاور سیکٹر کی رپورٹ میں سامنے آنے والے حقائق بڑی حد تک درست ہیں اور اس سیکٹر میں نجی پاور کمپنیوں نے غیر قانونی طور پر بہت ناجائز منافع کمایا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ حکومت نجی پاور کمپنیوں کے احتساب میں سنجیدہ نہیں ہے اور ��ہ ہتھیایا گیا عوامی پیسہ کبھی واپس نہیں لے سکے گی: ''اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو اس میں قانونی پیچیدگیاں بہت ہیں دوسرے اس سکینڈل میں کچھ ایسی شخصیات بھی شامل ہیں جو حکومت یا حکومتی پارٹی کا حصہ ہیں۔ حکومت پہلے ان کے نام ای سی ایل میں ڈالے اور ان کے خلاف کارروائی کرے تو پھر ہی عوام کو یقین آئے گا کہ حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ ہے۔‘‘ پاکستان میں بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان میں حکومت لائن لاسز کنٹرول کرنے اور بجلی کے واجبات کی وصولی میں ناکام ہو چکی ہے۔ اس لیے اربوں روپے کے نقصانات کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے نجی پاور سیکٹر کی طرف توجہ کر لی گئی ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو  
0 notes
wkpedias · 4 years ago
Text
Full fledged women's IPL will help unearth new talent, feels Jemimah Rodrigues | Cricket News
Full fledged women’s IPL will help unearth new talent, feels Jemimah Rodrigues | Cricket News
نئی دہلی: ینگ انڈیا کی بیٹسمین جیمیماہ روڈریگس ایک مکمل خواتین کی بات پر یقین رکھتے ہیں انڈین پریمیر لیگ (آئی پی ایل) غیر مہارت سے پرتیبھا جیسے فرق کر سکتا ہے شفالی ورما جس سے قومی ٹیم عالمی سطح پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ 
آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسے ممالک نے کھیل کو ترقی دینے کے لئے خواتین کے لئے ٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا اور 19 سالہ راڈریگز کا خیال ہے کہ اگر خواتین کی آئی پی…
View On WordPress
0 notes