#لیگی
Explore tagged Tumblr posts
Text
نواز شریف نے جنیوا جانے کی تیاری پکڑلی لیگی قیادت ایون فیلڈپہنچ گئی
(اسد ملک)سربراہ پاکستان مسلم لیگ (ن)نواز شریف آج لندن سے جنیوا روانہ ہونگے۔ نواز شریف کی جنیوا روانگی کے باعث برطانیہ کی لیگی قیادت ایون فیلڈ ہاوس پہنچ گئی ، زبیر گل ، شیخ عنصر ، احسن ڈار اور خرم بٹ ایون فیلڈ کے باہر موجود ہیں ، نواز شریف جنیوا میں وزیراعلی پنجاب مریم نواز سے ملاقات کریں گے ،مریم نواز جنیوا میں میڈیکل چیک اپ کروائیں گے ، نواز شریف 4روز جنیوا میں گزار کر لندن واپس آئیں…
0 notes
Text
مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف لیگی کارکنوں کا احتجاج
سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف ن لیگ کے کارکنوں کااحتجاج،ہائی وے بلاک کردی۔۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے سوہا کے قریب ایکسپریس وے بلاک کردی،ٹائر بھی نذرآتش کئے گئے۔کارکنوں کی جانب سے سپریم کورٹ کے خلاف نعرے بازی بھی کی گئی۔ واض�� رہے کہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ سنائے ہوئے مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کا فیصلہ دیا تھا ۔
0 notes
Text
عمران خان آکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلر شپ کی دوڑ سے باہر
(اسدعلی)��ٓکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے امیدواروں کی لسٹ سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان باہر ہوگئے۔ آکسفورڈ کی جانب سے چانسلر کے امیدواروں کی جاری کردہ لسٹ میں عمران خان کا نام موجود نہیں ہے، آکسفورڈ یونورسٹی نے عمران خان کے الیکشن کے کاغذات مسترد کرتے ہوئے 38امیدواروں کی لسٹ جاری کردی۔ن لیگی رہنما خرم بٹ کا دعویٰ کرتے ہوئے کہنا ہے کہ میری پٹیشن پر عمران خان…
0 notes
Text
حکومت کا پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا اعلان ، حکومت کا عمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری پر آرٹیکل 6 لگانے کا بھی فیصلہ“وفاقی حکومت تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے لیے کیس دائر کرے گی, پاکستان تحریک انصاف اور ملک ایک ساتھ نہیں چل سکتے، پی ٹی آئی پر پابندی لگانے جارہے ہیں۔”ن لیگی وزیر عطا تارڑ کا پریس کانفرنس میں اعلان
0 notes
Text
صحافی ہونا اتنا آسان بھی نہیں
کل (تین مئی) عالمی یوم صحافت تھا۔ اگر گزشتہ اور موجودہ سال کو ملا لیا جائے تو دو ہزار تئیس اور چوبیس صحافؤں کے لیے خونی ترین سال قرار پائیں گے۔ سب سے بڑی وجہ غزہ کا انسانی المیہ ہے۔ وہاں سات اکتوبر سے اب تک میڈیا سے وابستہ ایک سو چھبیس شہادتیں ہو چکی ہیں اور ان میں ایک سو پانچ عامل فلسطینی صحافی اور بلاگرز ہیں۔ جو زخمی ہوئے یا جنھیں علاقہ چھوڑنا پڑا ان کی تعداد الگ ہے۔ یونیسکو کے مطابق سات اکتوبر کے بعد کے صرف دس ہفتے کے اندر غزہ کی چالیس کلومیٹر طویل اور چھ تا بارہ کلومیٹر چوڑی پٹی میں اسرائیل نے میڈیا سے وابستہ جتنے لوگوں کو قتل کیا ان کی تعداد کسی بھی ملک میں کسی بھی ایک سال میں قتل ہونے والے میڈیائؤں سے زیادہ ہے۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک غزہ میں نسل کشی جاری رہے گی۔ اس اعتبار سے خدشہ ہے کہ سال دو ہزار چوبیس صحافیوں کی سلامتی کے اعتبار سے تاریخ کا سب سے خونی برس ثابت ہو سکتا ہے۔ رپورٹرز وڈآؤٹ بارڈرز ( ایم ایس ایف ) نے گزشتہ برس غزہ کے بحران سے پانچ ماہ پہلے ہی یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ دنیا کے ایک سو اسی میں سے صرف باون ممالک ایسے ہیں جہاں اظہارِ رائے کا حق اور صحافی محفوظ ہیں۔بالفاظِ دیگر ہر دس میں سے سات ملکوں میں آزادیِ اظہار اور صحافت کی حالت بری سے ابتر کی کیٹگریز میں شامل ہے اور اس کیٹگری میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔
اگر ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی بات کریں تو بھارت ایم ایس ایف کی انڈیکس ( دو ہزار تئیس) میں سات پوائنٹ نیچے چلا گیا ہے اور اب میڈیا کی ابتری کی عالمی رینکنگ میں ایک سو چون سے بھی نیچے ایک سو اکسٹھویں نمبر پر گر چکا ہے۔ جب کہ بنگلہ دیش میں ریاستی بیانیے کے متبادل اظہار کے لیے عدم برداشت کی فضا جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ تیزی سے سکڑ رہی ہے اور وہ عالمی رینکنگ میں بھارت سے بھی نیچے یعنی ایک سو سڑسٹھویں نمبر پر آ گیا ہے۔ بالخصوص گزشتہ برس نافذ ہونے والے سائبر سیکؤرٹی ایکٹ کے تحت مخالف آوازوں کا گلا گھونٹنے کے لیے حکومتی اداروں اور ایجنسؤں کو بھاری اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔ سری لنکا میں بھی صحافتی حالات مثالی نہیں۔ جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے تو بلاشبہ اس کی رینکنگ بہتر ہوئی ہے اور دو ہزار بائیس کے مقابلے میں سات پوائنٹس حاصل کر کے وہ آزادیِ صحافت کے اعتبار سے انڈیا اور بنگلہ دیش سے کہیں اوپر یعنی ایک سو پچاس ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ البتہ عارضی اطمینان یہ خبر سن کے ہرن ہو جاتا ہے کہ صحافؤں کے تحفظ کو درپیش خطرات کی رینکنگ میں پاکستان چوٹی کے بارہ ممالک کی فہرست میں گیارہویں پائدان پر ہے۔
ایک اور سرکردہ عالمی ادارے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ( سی پی جے ) کی صحافؤں کے قتل کے مجرموں کو کھلی چھوٹ کی فہرست میں پاکستان گیارہویں نمبر پر ہے۔ ہؤمن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق انیس سو ترانوے سے دو ہزار تئیس تک تین دہائؤں میں ستانوے پاکستانی صحافی اور کارکن مارے جا چکے ہیں۔ جب کہ دو ہزار گیارہ سے تئیس تک کے بارہ برس میں میڈیا اور سوشل میڈیا سے وابستہ ساڑھے تین ہزار سے زائد ارکان جبری گمشدگی یا اغوا کی وبائی لپیٹ میں آئے ہیں۔ ایک پاکستانی این جی او فریڈم نیٹ ورک کی تازہ رپورٹ کے مطابق مئی دو ہزار تئیس سے اپریل دو ہزار چوبیس کے دورانیے میں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے دباؤ کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھا ہے۔ اس عرصے میں چار صحافؤں کی شہادت ہوئی۔ لگ بھگ دو سو صحافؤں اور بلاگرز کو قانونی نوٹس جاری کر کے ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان میں سے بیسؤں کو اغوا اور قتل کی دھمکیاں موصول ہوئیں یا وہ تشدد کا شکار ہوئے۔ بہت سوں کو جے آئی ٹی میں طلب کیا گیا۔ مگر اکثر صحافؤں کو عدالتوں نے ضمانت دے دی یا ان کے خلاف داخل ہونے والی فردِ جرم مسترد کر دی۔
اس عرصے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو متعدد بار معطل کیا گیا۔ ٹویٹر ایکس پلیٹ فارم اٹھارہ فروری سے آج تک معطل ہے۔ رپورٹ میں دو مجوزہ قوانین ’’ ای سیفٹی بل ‘‘ اور ’’پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل ‘‘ پر تشویش ظاہر کی ہے۔ ان دونوں قانونی مسودوں کی شہباز شریف کی سابق حکومت نے جاتے جاتے منظوری دی تھی۔ اگر یہ بل قانونی شکل اختیار کرتے ہیں تو پھر سوشل میڈیا کی جکڑ بندی کے لیے علیحدہ اتھارٹیز قائم ہو گی۔ یہ اتھارٹیز ریاستی بیانیے کے متبادل آرا اور آوازوں کو خاموش کروانے کے لیے تادیبی کارروائی بھی کر سکیں گی۔ حالانکہ اس مقصد کے لیے پیکا ایکٹ پہلے سے نافذ ہے جو کسی غیر منتخب حکومت نے نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کی تیسری جمہوری حکومت کے دور میں نافذ کیا گیا۔ اور پھر اس قانون کی زد میں خود مسلم لیگی بھی آئے۔ حالیہ برسوں میں ایک اور عنصر بھی پابندیوں کے ہتھیار کے طور پر متعارف ہوا ہے۔ یعنی فون پر چینلز اور اخبارات کے سینئر ایڈیٹوریل اسٹاف کو زبانی ہدایات دی جاتی ہیں کہ کس سیاستداں کا نام نہیں لیا جائے گا۔ کون سا جلسہ میڈیا کوریج کے لیے حلال ہے اور کون سی ریلی کی رپورٹنگ حرام ہے۔ حتیٰ کہ عدالتی کارروائی کی بھی من و عن اشاعت کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
باقاعدہ سنسر کا تحریری حکم جاری کرنے کے بجائے زبانی ہدایات دینے کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کا مقصد یہ ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور ایسے کسی زبانی حکم کو کسی عدالت یا فورم پر چیلنج کرنے کے لیے کوئی ثبوت بھی نہ چھوڑا جائے۔ مگر میڈیا کے لیے یہ حالات نئے نہیں ہیں۔ ایک مستقل جدوجہد ہے جس کی شکلیں وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی ہیں۔ آزادیِ اظہار کی لڑائی ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ لہٰذا جہاں ہے اور جیسا ہے کی بنیاد پر عالمی یوم صحافت کی میڈیا کارکنوں کو مبارک باد۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکپسریس نیوز
0 notes
Link
0 notes
Text
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا ملک کو سیاسی عدم استحکام سے بچانے پر اتفاق، پاور شیئرنگ پر مذاکرات جاری
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کے درمیان ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کو حکومت میں شامل کرنے کی پیشکش کی جبکہ لیگی قیادت نے ایم کیوایم اور آزاد ارکان سے رابطوں کےمتعلق پیپلزپارٹی کو آگاہ کیا۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں لیگی وفد نے موقف اپناتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم مسلم لیگ ن کا ہوگا جس پر آصف زرداری نے کہا کہ بلاول کو پیپلز…
View On WordPress
0 notes
Text
سیاست میں گر رہنا ہے تو جئے جنرل کہنا ہے
سیاست میں آدھا کام سیاستدان کی عام آدمی سے رابطے کی صلاحیت اور محنت کرتی ہے اور باق کام اس پر لگی چھاپ سے ہو جاتا ہے۔ یعنی سیاستدان دائیں بازو کا ہے کہ بائیں کا، دبنگ ہے کہ موقع پرست، وعدہ نبھانے والا ہے یا وعدہ فراموش عوامی طاقت پر کامل یقین رکھتا ہے یا چور دروازے کو بھی مباح سمجھتا ہے۔ وقت آنے پر وفاداروں کے ساتھ کھڑا رہتا ہے یا ترغیب و تحریص و دباؤ کے سبب ان کی بلی چڑھانے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ اپنی بات پر اڑ جاتا ہے یا حالات و ذاتی و بقائی فائدہ دیکھ کے رنگ بدل لیتا ہے۔ سیدھی بات کرتا ہے یا خود کو ہر بار درست ثابت کرنے کے لیے ہٹ دھرمی کی جلیبی بیچنے کی کوشش کرتا ہے۔ سچائی کچھ بھی ہو مگر چھاپ اکثر سچائی کو دبا لیتی ہے۔ مثلاً جماعتِ اسلامی لاکھ کہتی رہے کہ اس کے ارکان دیگر جماعتوں کی نسبت زیادہ منظم، ایمان دار، متقی و پرہیز گار ہیں۔ مگر جب جماعت کے سیاسی کردار کی بات ہوتی ہے تو عموماً یہ سننے کو ملتا ہے کہ ارے چھوڑیے صاحب وہ تو ہر اہم دوراہے پر عسکری اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ثابت ہوئی ہے۔
جمعیت علما اسلام کے فضل الرحمان کے والدِ محترم مفتی محمود کی سیاست بے شک اصولی رہی ہو گی۔ خود فضل الرحمان نے بھی اپنی جوانی میں مارشل لا مخالف ایم آر ڈی جیسی جمہوریت پسند تحریکوں کا ساتھ دیا ہو گا۔ مگر آج مولانا کی تصویر یوں ہے کہ وہ عملی سیاست کے ماہر کھلاڑی ہیں۔ اعصابی تناؤ سے دور ہیں۔ اسی لیے بیک وقت پانچ گیندیں ہوا میں اچھال سکتے ہیں اور کبھی گرنے نہیں دیتے۔ لفافہ دیکھ کے خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں۔ کسی بھی فائدہ مند سودے بازی میں اپنے قریبی عزیز و اقارب کو بھی برابر کا حصہ دار بناتے ہیں۔ شکار اور شکاری کے ساتھ بیک وقت دوڑنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں اور بوقت ضرورت وضع داری و سہولت برقرار رکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے بھی کام آ جاتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی جب تک نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) تھی تب تک بائیں بازو کی ایک سرکردہ قوم پرست جماعت کہلاتی تھی۔ مگر جدید اے این پی ایک ایسی خاندانی جاگیر ہے جو عملیت پسند سیاست پر یقین رکھتی ہے۔
اس میں اگر کوئی نظریاتی مخلوق پائی جاتی ہے تو وہ اس کے پرانے سیاسی کارکن ہی ہیں۔ اگر پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ سے مخاصمت نہیں تو دشمنی بھی نہیں۔ پہلے وہ قومیتی مفاد کی حامی تھی۔ اب ’وسیع تر قومی مفاد‘ کی حامی ہے۔ خان عبدل ولی خان کی زندگی تک اس کی جڑیں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے خاصے بڑے رقبے میں پھیلی ہوئی تھیں۔ اب اس کے زیادہ تر اثرات ولی باغ سے پشاور تک ہیں۔ گویا یہ اپنی ہی عظمتِ رفتہ کی نشانی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف جب عوامی سطح پر متعارف کروائی گئی تو اسے عسکری اسٹیبلشمنٹ کی تازہ فخریہ پیش کش اور ملکی مسائل کے حل اور سیاسی گند کی صفائی کرنے والا الہ دین ٹائپ چراغ بتایا گیا مگر پونے چار برس کے اقتدار میں ہی یہ فخریہ پیش کش ایسا کمبل بن گئی جس سے اسٹیبلشمنٹ تو جان چھڑانا چاہ رہی ہے لیکن کمبل جان نہیں چھوڑ رہا۔ حالانکہ نو مئی کے بعد سے پی ٹی آئی کی کمبل کٹائی بھی لگاتار جاری ہے۔ الہ دین اندر ہے اور چراغ باہر اور وہ بھی بجھا بجھا سا۔ فی الحال اس پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کی چھاپ ہے۔
مگر پاکستان میں وقت اور چھاپ بدلتے دیر کہاں لگتی ہے۔ مثلاً جب پیپلز پارٹی وجود میں آئی تو وہ سرمایہ داری و جاگیر داری کے خلاف ’اینٹی اسسٹیٹس کو‘ جماعت کا رنگ لیے ابھری۔ اسی سانچے میں پارٹی ورکرز کو بھی ڈھالا گیا۔ یہ جماعت پاکستان کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا تاثر برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ مگر مشرف کے این آر او کو قبول کرنے کے بعد ایک نئی چھاپ چپکنی شروع ہو گئی کہ وہ والی پیپلز پارٹی عوامی امنگوں کی ترجمان تھی۔ یہ والی پیپلز پارٹی نہ بائیں کی رہی نہ دائیں بازو کی بلکہ دھنئے کا شربت پی ہوئی ایک ہومیوپیتھک جماعت ہے۔ اس کی قیادت ذاتی ’سٹیٹس کو‘ کا تحفظ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ علامتی طور پر ملک گیر مگر عملاً صوبائی ہے۔ جب تشکیل پائی تھی تو ڈرائنگ روم کی سیاست کو س��ک پر کھینچ لائی تھی۔ پچپن برس بعد وہ سیاست کو دوبارہ ڈرائنگ روم میں لے گئی ہے اور عام آدمی جو پہلے لیڈر کے بنگلے میں پاؤں پسارے بیٹھا رہتا تھا اب گیٹ کے باہر بٹھایا جاتا ہے۔ جو قربانیوں کا پارٹی سرمایہ تھا وہ بھی دو ہزار آٹھ تک کھلا کرا لیا گیا۔ اب عوام کو کچھ نیا دینے کو نہیں بچا۔
مسلم لیگ نواز آغاز سے ہی ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی ہے۔ اس کے اکثریتی شیئرز ایک ہی خاندان کے پاس ہیں۔ ابتدا میں یہ بھی اصلی مسلم لیگ کی ایک دور پار کی فرنچائز تھی مگر اس نے دیگر لیگی دھڑوں کے برعکس رفتہ رفتہ پنجاب کی حد تک عام آدمی کو متوجہ کر کے ایک مقبول جماعت بننے میں کامیابی حاصل کی۔ شروع میں اس پر ضیا نوازی کا سٹیکر لگا ہوا تھا اور اسے پیپلز پارٹی کو ’وختہ‘ ڈالنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ مگر تیسری بار اقتدار سے محرومی کے بعد اس کی قیادت نے کچھ عرصے کے لیے چی گویرا اور منڈیلا بننے کی کوشش کی۔ لیکن اب دوبارہ اس مصرعے کی قائل ہو گئی ہے کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے۔ سیاست میں گر رہنا ہے تو جئے جنرل کہنا ہے۔ پاکستان میں پچھلے چالیس برس میں کئی مد و جزر آئے مگر کوئی طوفان بھی نونی خاندان کا اندرونی اتحاد نہ توڑ سکا۔ پارٹی سٹرکچر بہت سادہ اور نظامِ شمسی کے اصول پر استوار ہے۔ ایک سورج اور اس کے گرد گھومتے گوجرانوالہ کے مریخ، سرگودھا کے عطارد، سیالکوٹ کے پلوٹو، گجرات کے نیپچون، فیصل آباد کے زحل اور لاہور کے زہرہ وغیر وغیرہ۔
بلوچستان میں جو سیاستدان اور جماعتیں آج بھی وفاق پرست ہیں۔ ان کا کردار سٹیپنی کا رہا ہے۔ جب اور جہاں جس گاڑی کے لیے ضرورت پڑی بارعائیت دستیاب ہو گئے۔ ایم کیو ایم کا بھی کچھ ایسا ہی احوال ہے۔ مندرجہ بالا تمام جماعتیں دراصل سیاسی قبائل ہیں۔ جب تک یہ قبائل خود کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ایک ایسی سیاسی جماعت کے جسم میں نہیں ڈھالتے جس میں نیا خون مسلسل بننا اور گردش میں رہنا چاہیے تب تک یہ طرح طرح کی متعدی بیماریوں کا شکار رہیں گے اور اسٹیبلشمنٹ ان کی اسی دلجمعی سے عیادت و علاج کرتی رہے گی۔ ایسے میں الیکشن سوائے ایک لاحاصل ورزش کے کچھ نہیں۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
لیگی ایم پی اے ثانیہ عاشق وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی تعینات
(راؤ دلشاد) لیگی ایم پی اے ثانیہ عاشق کو وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی تعینات کر دیا گیا۔ لیگی ایم پی اے ثانیہ عاشق جبین کو وزیر اعلٰی پنجاب مریم نواز کی کابینہ میں شامل کرلیا گیا، ثانیہ عاشق کو وزیر اعلیٰ کی معاون خصوصی تعینات کردیاگیا، ثانیہ عاشق 2018 کے عام انتخابات کے بعد بطور ینگسٹ ایم پی اے پنجاب اسمبلی کی رکن بنیں، ثانیہ عاشق وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کے ساتھ تقریبا ایک دہائی سے کام کر…
0 notes
Text
گنڈاپور کون سی چول مارنے کے بعد لیگی قیادت کے نشانے پر آیا؟
تحریک انصاف کے اسلام آباد جلسے میں ریاستی اداروں کو ہدف تنقید بنانے اور پنجاب پر یلغار کی دھمکیوں کے بعد عمرانڈو وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نون لیگی قیادت کے نشانے پر آ گئے، کسی رہنما نے گنڈا پور کو پاگل، بدتمیز اور جانور قرار دیا تو کسی نے جوابی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ گنڈاپور پنجاب پر حملہ کرنے کے خواب دیکھنا چھوڑ دے اگر اس نے کسی قسم کی شرپسندی کی کوشش کی تو اسے چھٹی کا دودھ یاد…
0 notes
Text
پیٹرن کو اگر غور سے اسٹڈی کریں تو تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب دہشتگردی کے واقعات بڑھ جائیں، تو سمجھ جائیں پاکستان عن قریب کسی بڑے آپریشن یا جنگ میں جانے والا ہے
ان معاملات کی پلاننگ کئی سال پہلے شروع ہوچکی تھی
عمران خان کی حکومت میں، پی ڈی ایم جماعتوں پر کریک ڈاؤن جاری تھا۔ کرپشن کیسز میں پکڑ دھکڑ جاری تھی۔ ان سے سیاسی اسپیس باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ چھین لی گئی تھی۔ انھیں بتایا جاتا تھا کہ عمران خان، جنرل فیض کے ساتھ مل کر اگلے دس سال کی پلاننگ کرچکا ہے
تحریک چلانے کے لیے پیپلز پارٹی اور ن لیگ تیار نہیں تھے تو فضل الرحمن کو ٹاسک دیا گیا کہ ان جماعتوں کو اکسائے۔
ن لیگ تو کافی حد تک تیار تھی البتہ پیپلز پارٹی زیادہ دلچسپی نہیں دکھا رہی تھی۔ انھیں پش کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے سرکردہ لوگوں پر کریک ڈاؤن شروع ہوگیا
بالآخر،
پی ڈی ایم جماعتیں عمران خان کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور مدد سے رجیم چینج پلان کے لیے تیار ہوگئیں
اسٹیبلشمنٹ نے یہ جال کیسے بنا اور ان کی لانگ ٹرم پلاننگ کیا تھی؟
جیسا کہ کہا کہ عمران خان کے دور حکومت میں، پی ڈی ایم سے ہر طرح کی اسپیس چھینی گئی اور انھیں مستقبل سے ڈرایا گیا
انھیں بھرپور پریشر میں لاکر، دو آپشنز دئیے گئے
1- یوں ہی اقتدار سے باہر بیٹھے، مار کھاتے رہو
2- ہمارا ساتھ دو، عمران خان کو نکالو اور اقتدار میں آجاؤ
لیکن،
اقتدار میں آکر، کسی بھی قسم کی چوں چرا کی قطعی اجازت نہیں ہوگی
ظاہر ہے، پی ڈی ایم نے آپشن 2 کا انتخاب کیا جو قدرتی بات تھی
اپنے دور حکومت میں، تحریک انصاف، پی ڈی ایم پر جاری کریک ڈاؤن کے حوالے سے یہ سمجھتی رہی کہ ریاست نیک نیتی سے کرپشن کے خلاف اقدامات کررہی ہے۔ اسی حماقت میں تحریک انصاف باجوہ کو قوم کا باپ قرار دیتی رہی۔ ان جانے میں اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کرتی رہی
تحریک انصاف کو اس بات کا بالکل بھی سیاسی شعور نہیں تھا کہ پاکستان کا اصل مسئلہ میاں صاحب یا زرداری کی کرپشن نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کا مکروہ کھیل ہے
جب کہ اسٹیبلشمنٹ، اپنا لانگ ٹرم کھیل کھیل رہی تھی
پی ڈی ایم نے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے مکمل سرنڈر کردیا اور رجیم چینج میں بھرپور رول ادا کیا۔ ن لیگ نے اگلے سیٹ اپ میں کلیدی رول کے عوض لیول پلیئنگ فیلڈ مانگ لی جو اسے ریاستی سرپرستی میں دی جارہی ہے
کسی نے یہ سوچا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کے بدلے، ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کو کیا دے کر آئی ہے؟
ن لیگی دانشور اور ان کے ہمدرد اس احمقانہ تھیوری پر دل و جان سے ایمان رکھتے ہیں کہ،
پاکستان تباہ ہوگیا تھا۔ معیشت کا برا حال تھا۔ جرنیلوں کے ہاتھ سے معاملات نکلتے جارہے تھے لہذا اسٹیبلشمنٹ میاں صاحب کے پاؤں پڑی اور کہا کہ ہم عمران خان پراجیکٹ کو رول بیک کررہے ہیں لہذا آپ ہمیں معاف کریں واپس آکر پاکستان "سنبھالیں"
لفظ سنبھالیں بہت اہم ہے
خیر،
اس بدمزہ لطیفے پر تو ہنسی بھی نہیں آتی
میں آپ کو دلیل سے بتاتا ہوں کہ اس لطیفہ نما تھیوری کی اصل اوقات کیا ہے
جیسا کہ اس تھیوری کا سینٹرل نکتہ یہ ہے کہ میاں صاحب، آپ پاکستان کو س��بھالیں
تو آئیے، کچھ زمینی حقائ�� دیکھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ، میاں صاحب کو پاکستان سنبھالنے واسطے تھمانے کے لیے کس قدر سنجیدہ ہے:
- ن لیگ کی حکومت نے، نادرا میں سویلین کی جگہ حاضر سروس افسر لگانے کی راہ ہموار کی
- ن لیگ کی حکومت نے قانون پاس کیا کہ ملک بھر میں سرکاری تعیناتیوں کے لیے ایجنسیوں کی کلئیرنس درکار ہوگی
- ن لیگ کی حکومت میں، قانون پاس کیا گیا کہ کسی کو بھی بناء وارنٹ کے گرفتار کیا جاسکتا ہے
- قانون پاس کرکے، نگراں حکومت کو آئین میں مخصوص کیے ڈومین سے بڑھ کر اختیارات تھما دئیے گئے (سب جانتے ہیں کہ نگراں حکومت کون لگاتا ہے)
- ان کی حکومت کے دوران، پنجاب میں سال بھر سے زیادہ ہوا، صوبائی نگراں حکومت لگی ہوئی ہے جن کی ناک کے نیچے استحکام پارٹی یعنی ق لیگ پارٹ 2 بنائی گئی تاکہ دس بارہ سیٹیں جیت کر، اگلے جمہوری سیٹ اپ کو "اوقات" میں رکھنے کے لیے بلیک میل کیا جاسکے۔ جمہوریت کے گلے پر یہ چھری ن لیگ نے اپنے ہاتھوں سے پھیری ہے
- میاں صاحب کو پاکستان واپسی پر "عام معافی" کے اعلانات کرنے پڑے۔ وہ ابھی تک عام انتخابات کے حوالے سے مکمل خاموش ہیں
- آہستہ آہستہ ہر ادارے میں حاضر سروس افسران بیٹھتے چلے جارہے ہیں اور میاں صاحبان اور ان کے ہمدردوں کی چوں بھی نہیں نکل رہی
یہ ہے "میاں صاحب واپس آئیں اور پاکستان سنبھالیں" کی اصل اوقات
پاکستان کون سنبھال رہا ہے اور روز بروز سنبھالتا چلا جارہا ہے، سب آپ کے سامنے ہے
اصل نکتے پر واپس آتے ہیں،
تو پی ڈی ایم کو اسپیس دینے لیے سب سے بڑی شرط ہی یہی تھی کہ آپ نے اقتدار انجوائے کرنا ہے، پر معاملات کے حوالے سے چوں بھی نہیں کرنی
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پی ڈی ایم جماعتیں، خاص کر ن لیگ چوں بھی نہیں کررہی
کہیں کہیں آپ مولانا فضل الرحمن اور پیپلز پارٹی سمیت چھوٹی جماعتوں جیسے متحدہ وغیرہ کو چوں کرتے دیکھیں گے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف اگلے سیٹ اپ میں، زیادہ سے زیادہ شئیر کے لیے بارگین کرنا ہے، اور بس۔۔۔۔۔۔۔
سویلین بالادستی کا وہ حشر کیا گیا ہے، کہ اب اسے سالوں کے لیے بھول جائیں
میں اس تمام صورتحال میں، تحریک انصاف کو بھی بری الزمہ نہیں سمجھتا۔ اپنے وقت میں انھوں نے بھی بھیانک غلطیاں کرتے ہوئے اس بلا کو قوت پہنچائی تھی
اب سوال یہ ہے کہ یہ سارا چکر چلا کر، تمام سیاسی قوتوں کو کھڈے لائن لگا کر، اسٹیبلشمنٹ کیا کرنا چاہتی ہے؟
اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ دکھاوے کے لیے جمہوری حکومت بن جائے، ایک کٹھ پُتلی وزیراعظم (جس کے لیے نواز شریف کو تیار کیا جارہا ہے) آکر بیٹھ جائے، اور پیچھے یہ اپنا گریٹ گیم کھیلتے رہیں
یہ گریٹ گیم کیا ہے؟
اس کے خدو خال ابھی پوری طرح واضح نہیں۔
لیکن،
ان کی تاریخ دیکھتے ہوئے، اور ماضی کے پیٹرن کو فالو کرتے ہوئے، میں دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان امریکی جنگ میں کودنے کے لیے ایک بار پھر پر تول رہا ہے
اس کھیل کے نتیجے میں جو آگ لگے گی، اسے بجھانے کی زمہ داری سول حکومت پر ڈالی جائے گی۔ جو کالک اس قوم کے حصے میں آئے گی، اس سے ��ول حکومت کا منہ کالا کیا جائے گا
بالکل ویسے ہی جیسے 2008 سے 2018 تک ہونے والے ڈرون حملوں کا گند پیپلز پارٹی اور ن لیگ پر ڈالا جاتا رہا
جیسا کہ پوسٹ کے شروع میں کہا کہ دہشتگردی کے سلسلے پوری توانائی سے شروع ہوچکے۔ مغربی بارڈر گرم ہونے لگا ہے۔ افغان حکومت کو سبق سکھانے کے لیے، 17 لاکھ مہاجرین کو پاکستان چھوڑنے کے لیے محض چند دنوں کی ڈیڈ لائن دی گئی
لہذا، جھاڑ پونچھ کر وہی پرانی گریٹ گیم نکالی گئی ہے جو ہم ستر کی دہائی سے کھیلتے آرہے ہیں
عمران خان کے ہوتے اس گریٹ گیم میں جانا بہت مشکل تھا۔ وہ کھلم کھلا اینٹی وار ہے۔ پی ڈی ایم کے ہوتے یہ خاص مشکل نہیں، خاص کر جب انھیں واضح طور پر شٹ اپ کال دے کر چپ کروا دیا گیا ہو
لہذا مجھے خدشہ ہے کہ پاکستان جلد افغان حکومت یعنی تال بان کے ساتھ وار میں جانے والا ہے
ایک دلچسپ امر کا ذکر کرتا چلوں
آپ 2019 سے 2021 تک دیکھ لیجیے۔ آپ کو بھارت کی ٹاپ لیڈرشپ پاکستان کے خلاف کھلم کھلا بیانات دیتی نظر آئے گی
مودی کا بیان کے گھر میں گھس کر ماریں گے
ان کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے بیانات جس میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے خلاف پے درپے بیانات مل جائیں گے
پھر 2022 اور اس کے بعد ایسا اچانک کیا ہوا کہ بھارتی لیڈرشپ پاکستان کو اب سیریس تھریٹ ہی نہیں سمجھتی
مودی کا کچھ ہی عرصے پہلے دیا بیان کہ پاکستان اب ہمارا فوکس نہیں۔ وہ خود ہی اپنی موت آپ مر رہا ہے
آپ کو کیا لگتا ہے کہ یکایک بھارت کے رویے میں ایسا بدلاؤ کیوں؟
کیا ہمارے ایف سولہ طیارے چرمرا گئے؟ یا ہمارے میزائلوں کو پھپوند لگ گئی؟ یا ایٹم بم کا تیل نکل گیا؟
میرے پاس اس بڑی تبدیلی کا کوئی واضح جواب نہیں لیکن ایک تھیوری سمجھ میں آتی ہے۔ یہ صحیح ہے یا غلط، اس کا جواب وقت دے گا
تھیوری یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک ساتھ مشرقی اور مغربی بارڈر کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ اگر یہ افغانستان والی بارڈر پر وار میں جارہے ہیں، تو انھیں مشرقی بارڈر ٹھنڈا چاہیے۔ کیونکہ پاکستان کے سب سے طویل بارڈرز ہی یہ دونوں ہیں
مجھے لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے، اندر کھاتے بھارت کو تسلی کروادی ہے کہ ہم آپ کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ کا اب ارادہ نہیں رکھتے۔ ہم آپ کے ساتھ تعلقات کو نارملائز کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ہم نواز شریف کو بھی واپس لارہے ہیں۔
پاکستان اب شاید غیر اعلانیہ طور پر، بھارت کو خطے کا چوکیدار یا بڑا بھائی بھی تسلیم کرلے گا۔ دکھاوے واسطے مشرقی بارڈرز پر ہلکی پھلکی پھلجڑیاں شاید چل جائیں لیکن اب ہم بھارت کے لیے بڑا خطرہ نہ بننے کی یقین دہانی کروا چکے ہیں
آپ نے حالیہ کچھ عرصے میں، پاکستان میں موجود کشمیر اور خالصتان تحریک کی اہم لیڈرشپ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنتے دیکھا ہوگا۔ ساتھ نواز شریف نے اپنے جلسے میں بھی بھارت سے دوستی کا خاص طور پر ذکر کیا ہے
یہ سب اسی پلان کا حصہ ہے
تاکہ،
پورے فوکس کے ساتھ، مغربی بارڈر پر وہی پرانا کھیل کھیلا جاسکے جس میں ایک طرف خون اور دوسری طرف ڈالرز ہوتے ہیں
پاکستان کے پاس اس بلا سے نبٹنے کا اب یہی آپشن بچا ہے کہ سیاسی جماعتیں، خواہ آپس میں جس قدر لڑیں مریں پر وہ سب مل کر، کسی بھی پرائی جنگ میں حصہ بننے سے انکار کردیں ورنہ بہت سے معصوموں کا (خاص کر پختونوں کا) پھر سے خون بہے گا
نواز شریف کٹھ پُتلی بن کر وزیراعظم نصب ہونے سے انکار کردے۔ تمام جماعتیں جمہوری و سیاسی طریقے سے الیکشنز میں حصہ لیں
کیا سیاسی جماعتیں اس میچیوریٹی کا مظاہرہ کرپائیں گی؟
شاید نہیں۔۔۔۔۔۔!!!!
.
0 notes
Text
سابقہ ن لیگی دور کی 3 ہزار اسکیمیں مکمل نہ ہونیکا انکشاف
ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں کابینہ ڈویژن سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا—(فوٹو: فائل) اسلام آباد: پی اے سی اجلاس میں سابقہ ن لیگی دور کی 3 ہزار اسکیمیں مکمل نہ ہونیکا انکشاف کیا گیا ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے کنوینر نواب شیر کی زیر صدارت اجلاس ہوا، اجلاس میں کابینہ ڈویژن سے متعلق سال 2017۔18 اور 2018۔19 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں مسلم لیگ ن کے سابقہ دور حکومت کی…
View On WordPress
0 notes
Link
0 notes
Text
عدالت میں پلستر اور پلیٹی لیٹس کا ذکر، پی ٹی آئی اور ن لیگی وکلا میں نوک جھونک
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں الیکشن کمیشن سے توشہ خانہ ریفرنس فیصلے کے بعد احتجاج کیس کی سماعت کے موقع پر پی ٹی آئی اور ن لیگی وکلا کے درمیان نوک جھونک ہوئی۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق توشہ خانہ ریفرنس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کیس کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں سماعت ہوئی جس میں پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل بابر اعوان جب کہ مقدمے کے مدعی اور ن لیگی رہنما محسن شاہ…
View On WordPress
0 notes
Text
پی ٹی آئی اور ن لیگ کے سیکڑوں کارکنان کیخلاف مقدمہ درج -
ملتان : الیکشن کمیشن کے دفتر میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے حوالے سے کوتوالی پولیس نے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق ملتان میں ضمنی انتخاب کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے موقع پر الیکشن کمیشن آفس میں پی ٹی آئی اور ن لیگی کارکنان کے درمیان تصادم ہوا، اس دوران دونوں جانب سے کارکنان نے پتھراؤ کیا۔ جھگڑا پی ٹی آئی امیدوار ملک عامر ڈوگر اور لیگی امیدوار طارق…
View On WordPress
0 notes