#پیپلز پارٹی
Explore tagged Tumblr posts
Text
مریم پنجاب میں پیپلز پارٹی کے کون سے مطالبات ماننے پر مجبور ہوئیں
پنجاب میں دو حکومتی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی میں تلخی محبت میں بدلتی دکھائی دیتی ہے۔ ماضی قریب میں پیپلز پارٹی رہنمائوں کی جانب سے توپوں کا رخ نون لیگی قیادت کی جانب کرنے کے بعد پی ٹی آئی حلقوں کی جانب سے دعوی کیا جا رہا تھا کہ پنجاب میں سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھو ٹنے والی ہے۔ تاہم مریم نواز کی پنجاب حکومت نے پیپلزپارٹی کے تمام مطالبات مانتے ہوئے عمرانڈوز کی خواہشات پر…
0 notes
Text
دادو سے نومنتخب رکن سندھ اسمبلی عبدالعزیز جونیجو انتقال کر گئے
دادو کے حلقہ پی ایس 80خیرپورناتھن شاہ سے نو منتخب ایم پی اے عبدالعزیز جونیجو انتقال کرگئے۔ مرحوم نومنتخب ایم پی اے کا تعلق پیپلزپارٹی سے تھا۔ عبدالعزیز جونیجو کراچی کے نجی اسپتال میں زیر علاج تھے۔عبدالعزیز جونیجو کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ عبدالعزیز جونیجو 8 فروری الیکشن میں پی ایس 80خیر پور ناتھن شاہ 52131 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔
View On WordPress
0 notes
Text
غوث بخش مہر نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی
اردو ٹوڈے، ویب ڈیسک رکن قومی اسمبلی غوث بخش مہر اور سابق ضلع ناظم عارف مہر جی ڈی اے کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سید ناصر شاہ اور شرجیل میمن کی موجودگی میں غوث بخش مہر نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ یہ بھی پڑھیے باڑہ بازار میں تھانے کے قریب دھماکہ، پولیس اہلکار شہید میونسپل کمیٹی بدین کا بجٹ پیش کردیا گیا چین میں انٹرنیٹ تہذیب کی ترقی اس…
View On WordPress
0 notes
Text
پیپلز پارٹی کا حکومت میں شامل ہونے سے انکار،متعدد وزارتیں لاوارث،کئی ڈویژنز وزراسے محروم
(ویب ڈیسک)پیپلز پارٹی کا حکومت میں شامل ہونے سے انکار،متعدد وزارتیں لاوارث،کئی ڈویژنز وزراسے محروم ہیں ۔ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق شہباز شریف کی حکومت میں پیپلز پارٹی شامل ہوئی اور نہ ہی کابینہ میں مزید توسیع ہوسکی، وفاقی کابینہ میں توسیع نہ ہونےکے باعث 8 ماہ بعد بھی متعدد وزارتیں اور ڈویژنز وفاقی وزرا کے بغیر چلائی جارہی ہیں۔ کابینہ ڈویژن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام 40 وفاقی وزارتوں اور ڈویژنز…
0 notes
Text
بلاول بھٹو پیپلز پارٹی اور پی پی پارلیمنٹیرینز کے مشترکہ اتحاد کے پارلیمانی لیڈر منتخب
(24نیوز)بلاول بھٹو زرداری کی زیرِ صدارت پی پی پی پی کا مشترکہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق بلاول بھٹو کو پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے مشترکہ اتحاد کا پارلیمانی لیڈر منتخب کیا گیا ہے۔ آصفہ بھٹو نے بلاول بھٹو کو مشترکہ اتحاد کا پارلیمانی لیڈر منتخب کرنے کی تجویز دی تھی۔ اعلامیے کے مطابق بلاول بھٹو نے مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں شہدائے…
0 notes
Text
پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا؟
9 مئی کو ہونے والی ہنگاموں کے ملکی سیاست پر فوری اور اہم نتائج سامنے آئے۔ 9 مئی کو ہونے والے پُرتشدد واقعات چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاری تصادم کی ایک کڑی تھے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا۔ پھر یہ جماعت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہو گئی کیونکہ اس کے زیادہ تر رہنماؤں اور سابق اراکینِ پارلیمنٹ نے منظم عمل کے تحت پارٹی سے استعفے دینا شروع کر دیے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ تمام منحرف اراکین نے ایک ہی اسکرپٹ دہرائی جس میں انہوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کی مذمت کی اور پارٹی کو اشتعال انگیزی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے پارٹی سے علحیدگی اختیار کی۔ حکمران اتحاد کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ وزرا نے خبردار کیا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے ’ماسٹر مائنڈ‘ ہونے کے الزام پر انہیں فوجی عدالت میں مقدمے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ ان کی جماعت پر پابندی بھی لگائی جاسکتی ہے۔ مشکل حالات کا شکار چیئرمین پی ٹی آئی جو اب متعدد عدالتی مقدمات کا بھی سامنا کررہے ہیں، انہوں نے سختی سے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
انہوں بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریوں اور جبری اقدمات کی مذمت کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے یہ دعویٰ کیا کہ پارٹی رہنماؤں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود اپنی سابقہ پوزیشن سے ڈرامائی انداز میں پیچھے ہٹتے ہوئے انہوں نے حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ تاہم، وزیراعظم شہباز شریف نے ان کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کے امکان کو ��سترد کر دیا ہے جنہیں انہوں نے ’انتشار پسند اور اشتعال پسند‘ قرار دیا جو ’سیاستانوں کا لبادہ اوڑھتے ہیں لیکن ریاستی تنصیبات پر حملہ کرتے ہیں‘۔ پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ نے سیاسی منظرنامے کو ایک نئی شکل دینا شروع کر دی ہے۔ اگرچہ سیاسی صف بندی ممکنہ طور پر اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ انتخابات کا حتمی اعلان نہیں ہو جاتا، لیکن اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتخابی صورت حال کیا ہو گی۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا؟ جہانگیر خان ترین کی جانب سے ایک ایسی پارٹی بنانے کی کوششیں جاری ہیں جو پی ٹی آئی چھوڑنے والے ’الیکٹ ایبلز‘ کو اپنی جانب متوجہ کرے اور ووٹرز کو ’تیسرا آپشن‘ مہیا کرے۔
تاہم جہانگیر ترین جیسے ایک ہوشیار سیاست دان اور متحرک کاروباری شخصیت کو اس طرح کا اہم کردار ادا کرنے کے لیے پہلے خود پر لگا نااہلی کا داغ ہٹانا ہو گا۔ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ وہ پارٹی کے قیام میں کس حد تک کامیاب ہوں گے جبکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر انہوں نے پی ٹی آئی کے سابق ارکان کو شمولیت پر آمادہ کر لیا تو کیا وہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کو بھی اپنے ساتھ لائیں گے۔ اس معاملے نے ملک کی انتخابی سیاست کو بہت زیادہ متحرک کر دیا ہے۔ پنجاب ایک ایسا میدانِ جنگ ہے جہاں سے جیتنے والی پارٹی ممکنہ طور پر وفاق میں حکومت بناتی ہے، اگر اس صوبے میں جماعتوں کے درمیان ووٹ بینک تقسیم ہو جاتا ہے تو مرکز میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اور ایک ایسی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جس میں کسی بھی پارٹی کے پاس واضح اکثریت نہیں ہو گی۔ کیا پی ٹی آئی کے ووٹرز یہ جانتے ہوئے بھی ووٹ ڈالنے آئیں گے کہ ان کی جماعت تتربتر ہو چکی ہے اور ان کے لیڈر کے خلاف قانونی مقدمات ہیں اس لیڈر کا اقتدار میں واپس آنے کا بہت کم امکان ہے؟ خاص طور پر اب جب نوجوان ووٹرز رائے دہندگان کا ایک بڑا حصہ ہیں تو اس صورتحال کا مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ پر گہرا اثر پڑے گا۔
اس بات کا امکان نہایت کم ہے کہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) جیسی دو روایتی پارٹیوں کی حمایت کرنے پر آمادہ ہوں، حالانکہ پی پی پی نے جنوبی پنجاب میں منحرف ووٹرز کو اپنی جانب راغب کیا ہے۔ آخر ان دونوں جماعتوں کو مسترد کرنے کے بعد ہی پی ٹی آئی کو لوگوں نے سپورٹ کرنا شروع کیا۔ کیا جہانگیر ترین کی نئی جماعت انہیں اپنی جانب راغب کر پائے گی؟ یہ بات بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں ووٹروں نے وفاداریاں تبدیل کرنے والے امیدواروں کو ووٹ دینے سے گریز کیا ہے۔ تو اگر پی ٹی آئی کا ووٹ تقسیم ہوتا ہے تو کیا اس سے روایتی جماعتوں میں سے کسی ایک کو فائدہ پہنچے گا؟ اس وقت بہت زیادہ غیر یقینی پائی جاتی ہے خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب حکومت کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ چونکہ پارلیمنٹ کی مدت 16 اگست کو ختم ہو رہی ہے اس لیے انتخابات میں تاخیر نہیں ہو سکتی، اس وجہ سے جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو گا تو انتخابی اعداد و شمار سیاسی صف بندیوں کا تعین کرنا شروع کر دیں گے اور انتخابی مقابلے کی نوعیت کے بارے میں تصویر واضح طور پر سامنے آئے گی۔
لیکن اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے پالیسی پروگرامز یا ملک کے مستقبل کے حوالے سے وژن طے کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ملک کو درپیش مسائل سے کیسے نمٹا جائے، اس حوالے سے کسی بھی سیاسی جماعت نے کوئی تجویز پیش نہیں کی ہے۔ سیاسی جماعتیں اقتدار کی کشمکش میں مصروف ہیں اور مستقبل کے لیے پالیسی منصوبے تیار کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کی کوشش میں نظر آرہی ہیں۔ یہ غیریقینی کی صورتحال ہماری ملک کی سیاست کے لازمی جز کی طرح ہو چکی ہے۔ البتہ جو چیز یقینی ہے وہ ہے ہماری معیشت کا عدم استحکام۔ تمام معاشی اشاریے بدستور خراب ہوتے جا رہے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کی حکومت میں ہماری معیشت تیزی سے زوال کی جانب جارہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ڈیفالٹ کے امکانات رد کرنے کے باوجود ملک اب بھی اپنے قرضوں پر ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بیل آؤٹ ملنے کے امکان بھی مبہم ہیں۔ وزیراعظم نے حال ہی میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے تعطل کا شکار پروگرام دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے بات کی۔
تاہم آئی ایم ایف نے تب تک اسٹاف لیول معاہدہ نہ کرنے کا کہا جب تک پاکستان اس مالی سال (جو 30 جون کو ختم ہو رہا ہے) کے اختتام تک اپنے کرنٹ اکاؤنٹ میں 6 بلین ڈالر کے خلا کو پُر کرنے کے لیے فنانسنگ کا بندوبست نہیں کر تا۔ ملک کے ذخائر تقریباً 4 ارب ڈالرز تک آگئے ہیں جو درآمدات پر عائد پابندیوں کے باوجود ایک ماہ سے بھی کم کی درآمدات کے لیے ہی پورے ہو سکتے ہیں۔ حکومت نے پاکستان میں ادائیگیوں کے توازن کے بدترین بحران کو ختم کرنے کے لیے درآمدی کنٹرولز لگانے جیسے وقتی اقدامات کے ذریعے معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے اقتصادی صورتحال پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ حالیہ مالی سال کے لیے سرکاری طور پر تخمینہ شدہ جی ڈی پی کی شرح نمو گزشتہ مالی سال کے 6 فیصد کے مقابلے میں 0.3 فیصد ہے۔ لیکن اس مایوس کن تعداد پر بھی سب کو یقین نہیں ہے۔ صنعتی شعبہ بھی 3 فیصد تک س��ڑ گیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے کاروبار بند ہو رہے ہیں، لوگوں کی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں اور اشیا کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔
گزشتہ سال آنے والے تباہ کُن سیلاب کے نتیجے میں ملک میں زرعی شعبے پر شدید اثرات مرتب ہوئے اور پیداوار میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ درآمدات پر پابندیوں اور خام مال کی قلت کے باعث ملک کی برآمدات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری جانب افراطِ زر بلند ترین شرح کو چھو رہی ہے جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اب ’ریلیف بجٹ‘ پیش کرنے جارہی ہے جس میں عوام کے مفاد میں اقدامات لیے جانے کی توقع کی جارہی ہے۔ اس سے ملک میں معاشی بحران کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو گی۔ سیاست کو معیشت پر فوقیت دینے کی وجہ سے ہمارے ملک کی صورتحال زوال کی جانب جارہی ہے۔ ملک کا مستقبل سیاسی غیریقینی اور معاشی بحران کی صورتحال سے گھرا ہوا ہے جسے حل کرنے کے لیے ساختی اصلاحات اور فیصلہ کُن اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے پاس ایسی کوئی قیادت ہے جو ان تمام حالات کو سمجھتی ہو اور ملک کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینے کے قابل ہو۔
ملیحہ لودھی
یہ مضمون 6 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
9 notes
·
View notes
Text
youtube
*حیدرآباد:*
*اہم پریس کانفرنس*
*شرجیل اور فیصل کنڈی*
شرجیل انعام میمن اور فیصل کریم کنڈی کی میڈیا سے اہم گفتگو
بلاول بھٹو تاریخ کے سب سے بڑے جلسے سے خطاب کرنے آ رہے ہیں ،شرجیل میمن
سب کو گرفتار کریں گے
کراچی ، حیدرآباد بڑا فیصلہ
اسٹیل ملز کو چلایا جائے گا
مریم حکومت سندھ سرکار کے نشانے پر
پیپلز پارٹی دن رات عوام کو ریلیف دینے کی کوششوں میں مصروف ہے ، شرجیل انعام
0 notes
Text
سپریم کورٹ نے غلطی کی اصلاح کر کے اچھا کیا
آخرکار سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس کا فیصلہ کر دیا اور اس کیس کے متعلقہ اپنے سابقہ دو فیصلوں کے تمام متنازع پیراگراف حدف کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تسلیم کیا کہ اُن سے غلطی ہوئی، اُنہوں نے کہا کہ غلطی کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے، غلطی ہو تو اصلاح بھی ہونی چاہئے۔ اور یوں اپنے پہلے دو سابقہ فیصلوں کی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے وہ فیصلہ کیا جو پاکستان کے مسلمانوں کیلئے نہ صرف قابل قبول ہے بلکہ اس فیصلے نے پاکستان کو ایک ایسے شر اور فتنے سے بچا لیا ہے جس سے مبارک ثانی کیس کے پچھلے فیصلوں سے شدید خطرات پیدا ہو گئے تھے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر وہاں موجود مذہبی رہنمائوں اور علماء کرام کی طرف سے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا گیا۔ فیصلہ آتے ہی سپریم کورٹ کے باہر مظاہرین واپس چلے گئے اور فیصلے کی خوشی میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ اس فیصلے کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے ایک مخصوص چھوٹے سے طبقے کی طرف سے چیف جسٹس کو کوسا جانے لگا اور یہ تاثر دیا گیا جیسے چیف جسٹس نے یہ فیصلہ مذہبی حلقوں کے دبائو پر دیا۔
مبارک ثانی کیس کے اس فیصلہ سے نالاں طبقے کا مسئلہ سب اچھی طرح سمجھتے ہیں، یہ وہ طبقہ ہے جو قادیانیت کے حوالے سے طے شدہ معاملات کو دوبارہ کھولنا چاہتا ہے۔ یہ کہنا اور تاثر دینا کہ جیسے مبارک ثانی کیس کے سابقہ دو فیصلوں سے صرف مذہبی حلقوں کو اعتراض تھا قطعی درست نہیں۔ مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے پہلے دو متنازع فیصلوں کو نہ صرف تمام مکاتب فکر کے علماء کی طرف سے متفقہ طور پر رد کیا گیا بلکہ قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں چاہے اُنکا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ان فیصلوں کو نہیں مانتے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان فیصلوں کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر کے اُنہیں ختم کروایا جائے۔ چاہے پیپلزپارٹی ہو، ن لیگ، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، ایم کیو ایم یا کوئی اور سب اس معاملہ میں قومی اسمبلی میں ایک تھے۔ اگر کسی کو کوئی شک ہو تو قومی اسمبلی میں اس معاملہ پر کی گئی تقریروں کو سن لے، جو فیصلہ قومی اسمبلی کی کمیٹی نے اتفاق رائے سے کیا وہ پڑھ لے۔
پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل کی تقریر کو ہی سن لیں تو سمجھ آ جائے گی کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں پیپلز پارٹی جیسی سیکولر سیاسی جماعت اور ٹی ایل پی کے درمیان بھی کوئی فرق نہیں۔ جو اس معاملہ کو صرف مذہبی حلقوں سے جوڑتے ہیں وہ وکلاء کی مختلف تنظیموں اور بار کونسلز کے مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے سابقہ دو فیصلوں کے حوالے سے جاری بیانات بھی پڑھ لیں۔ قادیانیت کے حوالے سے اگر ایک طرف علماء کرام کا اتفاق رائے ہمیشہ رہا تو آئین پاکستان میں بھی سیاستدانوں کی طرف سے پوری قوم کی نمائندگی کرتے ہوے اسی اتفاق رائے کا اظہار ماضی میں بھی ہوا اور اب بھی ہوا۔ گویا مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ نے جو پہلے دو فیصلے کیے وہ پاکستان کے تمام مسلمانوں کیلئے تکلیف کا بھی باعث تھے اور ناقابل قبول بھی تھے۔ اگر سپریم کورٹ اور چیف جسٹس نے اپنی غلطی تسلیم کی اور جو غلط فیصلہ ہوا اُسے درست کیا تو اس پر اعتراض نہیں بلکہ اس عمل کی تحسین ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے 6 فروری 2024 اور 24 جولائی 2024 کے سابق فیصلوں میں تصحیح کرتے ہوئے معترضہ پیراگراف حذف کر دیے ہیں، عدالت نے قرار دیا ہے کہ ان حذف شدہ پیراگرافوں کو مستقبل میں عدالتی نظیر کے طور پر کسی بھی عدالت میں پیش یا استعمال نہیں کیا جا سکے گا، جبکہ ٹرائل کورٹ ان پیراگراف سے متاثر ہوئے بغیر ملزم مبارک ثانی کیخلاف توہین مذہب کے مقدمہ کا فیصلہ قانون کے مطابق کرے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Link
0 notes
Text
بجٹ کے بعد پیپلز پارٹی کا شہباز کابینہ میں واپسی کا امکان
وزیراعظم شہباز شریف اور نون لیگ کے کئی سینیئر رہنما پیپلز پارٹی کو وفاقی کابینہ کا حصہ بننے کی دعوت دے چکے ہیں، تاہم پیپلز پارٹی نے اس حوالے سے اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔وفاقی بجٹ پیش کیے جانے کے موقع پر حکومتی اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بجٹ پر تنقید کی گئی تھی لیکن اب بجٹ کے بعد پیپلز پارٹی کی کابینہ میں شمولیت کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے، جس کا حتمی فیصلہ پیپلز…
youtube
View On WordPress
#Budget#latest news in urdu#Minister#Pakistan#pakistan news in urdu#urdu news#بجٹ#پارٹی#پیپلز#شہباز#کابینہ#Youtube
0 notes
Text
مضبوط اتحادی حکومت بنے تو ٹھیک ورنہ اپوزیشن میں بیٹھا جائے، پیپلز پارٹی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اہم فیصلے
پاکستان پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے بلاول کو وزیراعظم کی بجائے اپوزیشن لیڈر بنانے کی تجویزدے دی، سینئر لیڈر شپ کا کہا ہے کہ مضبوط اتحادی حکومت بنتی ہے تو بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنایا جائے، کمزور اتحادی حکومت کے بجائے اپوزیشن لیڈر بہتر ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہوا۔پارٹی…
View On WordPress
0 notes
Text
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے میثاق مفاہمت کی حمایت کرتے ہوئے عدالتی اور الیکشن اصلاحات کا مطالبہ کردیا ہے۔
ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ میں محمود اچکزئی کے گھر پر چھاپے کی مذمت کرتا ہوں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی وجہ سے صدارتی الیکشن کو بلاوجہ متنازع کیا جارہا ہے، بلاول بھٹو نے محمود اچکزئی کے گھر پر مبینہ چھاپے کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل بھی کردی۔
بعد ازاں سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ میں اپنے خاندان کی تیسری نسل کا نمائندہ ہوں جو اس ایوان میں دوسری بار منتخب ہوا ہوں، اس عمارت کا جو بنیادی پتھر ہے وہ ذوالفقار علی بھٹو نے لگایا تھا، یہ قومی اسمبلی کسی ایک کی نہیں سب کی ہے، قومی اسمبلی کا ایوان ہم سب کا ہے، قومی اسمبلی کو مضبوط بنانا عوام کو مضبوط بنانا ہے، جب ہم قومی اسمبلی کو کمزور کرتے سہیں تو وفاق، جمہوریت کو کمزور کرتے ہیں، ہمیں اس نظام کو کمزور نہیں مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہے، تمام ارکان سے درخواست ہے کہ ایسےفیصلے کریں جس سےقومی اسمبلی مضبوط ہو۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم اس جمہوری ادارے کو طاقتور بنائیں گے، ایسے فیصلے لیں گے جس سے نوجوانوں کا مستقبل بہتر ہو، آئندہ آنے والے ہمیں دعائیں دیں کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے لیے اچھے فیصلے کیے، ایسا نہ ہو آئندہ آنے والے ہمیں گالیاں دیں کہ قومی اسمبلی کےساتھ کیا کیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ یہ ایوان تمام اداروں کی ماں ہے، عوام ہماری طرف دیکھ رہے ہیں کہ ہم انہیں مشکلات سے نکالیں گے۔
بلاول بھٹو نے درخواست کی کہ احتجاج کے نام پر ایک دوسرے کو گالیاں نہ دی جائیں اور قومی اسمبلی میں تمام تقریریں سرکاری ٹی وی پر لائیو دکھائی جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے کارکنوں اور امیدواروں پر حملے کیے گئے ہیں، ہمیں ایسا نظام بنانا چاہیے کہ کارکنوں کو جان قربان نہ کرنی پڑے۔
بلاول بھٹو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ایوان میں کہا کہ اس ایوان میں کسی ایک جماعت کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے، عوام نےایسا مینڈیٹ دیا کہ تمام جماعتوں کو مل بیٹھ کر فیصلے کرنے ہوں گے، عوام نے الیکشن مین بتایا کہ وہ ہماری آپس کی لڑائی سے تنگ آگئے ہیں، اب ہمیں آپس میں بات کرنی ہوگی، عوام نے ہمیں گالیاں دینے نہیں بلکہ مسائل کے حل کے لیے ووٹ دیا ہے۔
سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سیاست کا ضابطہ اخلاق بنالیں گے تو 90 فیصد مسائل ختم ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ شہباز شریف کو وزیراعظم نہیں مانتے تو ان کی پالیسی پر آپ تنقید نہیں کرسکتے ہیں، وزیراعظم نے جو نکات کل اٹھائے ان پر عمل کرکے بحران سےنکل سکتے ہیں، ہم آپ کو دعوت دے رہے ہیں کہ پاکستان اور عوام کو معاشی مشکل سے نکالیں۔
بلاول بھٹو نے بتایا کہ ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے مگر آمدن میں اضافہ نہیں ہورہا ہے، ،ملک میں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کا سونامی ہے، ہم سالانہ ایک ہزار 500 ارب امیروں کو سبسڈی میں دے دیتے ہیں، غیر ضروری وزارتیں اور امیروں کو سبسڈی دینا بند کرنا ہوگی، امیروں سے سبسڈی کو ختم کرکے غریب عوام کو ریلیف دینا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ میثاق معیشت پر کوئی ایک جماعت فیصلے نہیں کرسکتی ہے، شہباز شریف موقع دے رہے ہیں کہ آئیں مل کر عوام کو معاشی بحران سے نکالیں، وزیراعظم کی پالیسی میں آپ کا مؤقف شامل ہوگا تو بہتر پالیسی بن سکے گی۔
سابق وزیر خارجہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں عدالتی اور الیکشن سے متعلق اصلاحات کرنے ہوں گے، عدالتی، الیکشن ریفارمز پر اپوزیشن بھی ہمارا ساتھ دے، اگر ہم نے مل کر یہ اصلاحات کرلیں گے تو کوئی جمہوریت کو کمزور نہیں کرسکتا، ہم چاہتے ہیں کہ ایسا الیکشن ہو جہاں وزیراعظم کے مینڈیٹ پر کوئی شکوک نہ ہو، ہم چاہتے ہیں شہباز شریف جیتیں یا قیدی نمبر 804 الیکشن جیتے لیکن کوئی انگلی نہ اٹھاسکے۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ میں ملک کا وزیرخارجہ ہوں، جانتا ہوں سائفر کیا ہوتا ہے، اس سائفر کی ہر کاپی کاؤنٹ ہوتی ہے صرف ایک کاپی ہم گن نہیں سکے وہ وزیر اعظم کے آفس میں تھی، خان صاحب نے خود مانا کہ انہوں نے ایک خفیہ دستاویز کھو دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جلسے میں ایسے لہرانے کی بات نہیں تھی، یہ آڈیو لیک کی بھی بات نہیں ہے، میرے نزدیک مسئلہ یہاں شروع ہوتا کہ جب خان صاحب کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اگلے دن گرفتاری کے بعد وہ سائفر ایک غیر ملکی جریدے میں چھپ جاتا ہے تو اگر آپ عوام کو بے وقوف سجھتے ہیں تو آپ غلط ہیں، ہم جانتے ہیں کہ جان بوجھ کے کسی نے اس سائفر کو سیاست کے لیے انٹرنیشنل جریدے میں چھپوایا تاکہ کیسز کو متنازع بنایا جائے، جب آپ خفیہ دستاویز کو پبلک کرتے ہیں تو قومی سلامتی داؤ پر لگتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی آئین کی خلاف وزری کرتا ہے تو اس کے سزا دلوانی چاہیے، اگر یہ ہم سے جمہوریت کی بات کریں گے تو میں کہوں گا کہ آپ ہوتے کون ہیں یہ بات کرنے والے، میں اس شخص کا نواسا ہوں جس نے تختہ دار پر ہوتے ہوئے بھی اصولوں کا سودا نہیں کیا، یہ جو لوگ یہاں ہیں جو احتجاج کر رہے ہیں، جن کو 6 مہینے سے جمہوریت یاد آرہی ہے تو اگر انہیں لیکچر دینا ہے تو ایک دوسرے کو دیں ہمیں نا دیں، یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب پر جھوٹا الزام لگائیں اور ہم جواب نا دیں، لیکن میں ان کے جھوٹ کاپردہ فاش کروں گا۔
بلاول بھٹو نے بتایا کہ میں اس قسم کی حرکتوں سے خود مایوس نہیں ہوتا مگر پاکستانی عوام اس قسم کی حرکتوں کو پسند نہیں کرتے، اگر یہ کوئی غیر جمہوری کام کریں گے تو میں ان کے خلاف کھڑا ہوجاؤں گا، یہ ہمارا فرض ہے کہ سب سے پہلے اپنا فرض ادا کریں نا کہ دوسروں پر تنقید شروع کردیں۔
سابق وزیر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے حوالے سے علی امین گنڈاپور نے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے کہ اس انکوائری کے مطابق ملزمان کو سزا اور بے قصور کو رہا کردینا چاہیے، تو یہ مجھے یقین دہانی کروائیں کہ ہم جو جوڈیشل کمیشن بنوائیں گے تو اس کا فیصلہ ماننا پڑے گا، یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شہدا کے میموریل پر حملہ کرے اور ہم اسے بھول جائیں،ہم وزیر اعظم سے درخواست کرتے ہیں کہ ایک جوڈیشل کمیشن بنائیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے آپ درخواست کریں کے وہ اس کمیشن کے سربراہ بن کے مئی 9 کے بارے میں تحقیقات کروائیں اور ملزمان کو سزا دلوائیں۔
اس دوران سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے بلاول کی تقریر پر احتجاج اور شورشرابہ شروع کردیا، بلاول بھٹو نے کہا کہ میری باتیں حذف کردیں، مجھے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے تھیں۔
اِس پر اسپیکر ایاز صادق کا کہنا تھا کہ یہ بلاول بھٹو زرداری کا بڑا پن ہے، بعدازاں نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری ایوان سے روانہ ہوگئے۔
0 notes
Text
بلاول بھٹو پیپلز پارٹی اور پی پی پارلیمنٹیرینز کے مشترکہ اتحاد کے پارلیمانی لیڈر منتخب
(24نیوز)بلاول بھٹو زرداری کی زیرِ صدارت پی پی پی پی کا مشترکہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق بلاول بھٹو کو پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے مشترکہ اتحاد کا پارلیمانی لیڈر منتخب کیا گیا ہے۔ آصفہ بھٹو نے بلاول بھٹو کو مشترکہ اتحاد کا پارلیمانی لیڈر منتخب کرنے کی تجویز دی تھی۔ اعلامیے کے مطابق بلاول بھٹو نے مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں شہدائے…
0 notes
Text
آئینی ترامیم کیلئے کتنے ووٹ درکار اور حکومت کے پاس کتنے ووٹ ہیں ؟
(24 نیوز )قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کے حوالے سے نمبر گیم سامنے آگیا ہے۔ آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو 224 ووٹ درکار ہیں، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اتحادیوں کے پاس 215 ووٹ موجود ہیں،اگر جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ایف) کے 8 ارکان ترمیم کی حمایت کریں تو تعداد 223 تک جا پہنچے گی،جے یو آئی ارکان کی حمایت کے بعد بھی حکومت کو آئینی ترمیم کے لیے مزید ایک ووٹ درکار…
View On WordPress
0 notes
Text
کرپشن کے ذمے دار صرف سیاستدان ہی کیوں؟
کرپشن، ملک لوٹنے اور غیر آئینی اقدامات کی حمایت کے جتنے الزامات سیاستدانوں پر لگے اتنے الزامات ملک کی بیوروکریسی اور دیگر اداروں پر نہیں لگے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ خود بدنام ہو کر دوسروں کو اشرافیہ بنانے والے بھی خود سیاستدان ہی ہیں۔ 1973ء کے آئین کے تحت ملک میں پہلی حکومت پیپلز پارٹی کی بنی تھی جس کے سربراہ کے اپنے غیر جمہوری اقدامات کے باعث ملک میں 1977 میں مارشل لا لگا اور جنرل ضیا نے جنرل ایوب کی طویل حکومت کا ریکارڈ توڑ کر اگست 1988 تک سب سے طویل حکومت کی تھی جس کے دوران 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں محمد خان جونیجو کی سیاسی حکومت بھی قائم ہوئی تھی جو ایک اچھی حکومت تھی جس کے وزیر اعظم پر کرپشن، غیر جمہوری اقدامات، من مانیوں کے الزامات نہیں لگے تھے بلکہ انھوں نے ملک سے مارشل لا ختم کرایا تھا جس کے بعد جنرل ضیا نے 1988 میں ان کی حکومت ضرور ختم کی تھی مگر جونیجو حکومت پر کرپشن کا کوئی بھی الزام نہیں تھا بلکہ وزیر اعظم جونیجو نے کرپشن کے باعث اپنا ایک وزیر بھی برطرف کیا تھا۔
جنرل ضیا الحق کی شہادت کے بعد 1988 میں بے نظیر بھٹو پھر نواز شریف، پھر بے نظیر بھٹو پھر 1997 میں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت والی حکومت قائم ہوئی تھی جو 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے برطرف کی تھی۔ 1988 سے 1999 تک بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی چاروں حکومتیں کرپشن کے الزامات پر برطرف ہوئیں اور دونوں وزرائے اعظم نے اپنی اپنی حکومت میں ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگائے، مقدمات بنائے، ایک دوسرے کی حکومتوں کی برطرفی کا خیر مقدم اور غیر آئینی اقدامات کی حمایت کرتے رہے تھے۔ جنرل پرویز بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دونوں ہی کو کرپٹ قرار دیتے تھے حالانکہ جنرل پرویز کے ہاتھوں نواز حکومت کی برطرفی کا بے نظیر بھٹو نے خیر مقدم کر کے جنرل پرویز کی حمایت کی تھی مگر بعد میں دونوں کو جنرل پرویز نے جلا وطن ہونے پر مجبور کیا اور دونوں کی سیاست ختم کرنے کے دعوے کیے اور دونوں کی پارٹیاں توڑ کر مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنوائی تھی جس نے 5 سال حکومت کی جس میں تین وزیر اعظم رہے مگر (ق) لیگ کی حکومت پر کرپشن کے اتنے الزامات نہیں لگے جتنے پی پی اور (ن) لیگ کی حکومت پر لگے۔
دونوں حکومتوں پر کرپشن، ملک لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے کے الزامات تھے ان الزامات میں سرے محل اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹس بھی شامل تھے جن کی دونوں تردید کرتے رہے۔ نواز شریف اور زرداری فیملی پر کرپشن کے سنگین الزامات عمران خان نے لگائے مگر دونوں نے عمران خان پر ہتک عزت کا کیس تک نہیں کیا۔ عمران حکومت میں سی پیک کے سربراہ پر کرپشن کے الزامات لگے مگر وزیر اعظم عمران خان نے انھیں خود ہی ایمانداری کا سرٹیفکیٹ دے دیا اور نیب کو ان کے خلاف کارروائی نہیں کرنے دی۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی حکومتوں میں اعلیٰ بیوروکریٹس پر الزامات سامنے آئے مگر تینوں حکومتوں میں انھیں اپنی اپنی حکومتوں میں تحفظ دیا گیا اور اپنے اپنے حامی ان اعلیٰ عہدیداروں کی سرپرستی کی گئی۔ عمران خان واحد وزیر اعظم تھے جنھیں بعض ججز کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ملک میں پہلی بار ایک سیاستدان عمران خان کو صادق و امین قرار دیا جن پر اپنی حکومت میں کرپشن، القادر ٹرسٹ اور توشہ خانہ لوٹنے کے الزامات لگے اور اب قید ہیں۔ ملک میں پہلی بار پارلیمنٹ میں بعض ججز پر الزامات لگائے گئے ہیں کہ انھیں سیاستدانوں کو گاڈ فادر، سسلین مافیا اور پراکسی قرار دیا گیا۔ دو وزیر اعظم برطرف ایک کو پھانسی غلط طور دی جسے اب سپریم کورٹ نے بھی غلط قرار دیا ہے۔ کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات سیاستدانوں پر لگے وہی قید ہوئے۔
انھوں نے ناحق سیاسی سزائیں بھگتیں مگر بیورو کریسی کے وہ افراد محفوظ رہے جن پر الزامات تھے مگر انھیں محفوظ رکھنے کے ذمے دار بھی سیاستدان ہی تھے جنھوں نے اپنے اپنے من پسندوں کے خلاف کارروائی نہیں ہونے دی۔ کرپشن و دیگر الزامات کی ذمے داری ہمیشہ ہی سیاستدانوں پر رہی اور سیاسی سرپرستی اور اثر و رسوخ کے باعث اعلیٰ بیورو کریٹس ملک سے باہر جائیدادیں بنا کر اپنا مستقبل اس لیے بہتر اور محفوظ بناتے رہے کہ ریٹائر ہو کر انھوں نے فیملیز سمیت ملک سے باہر ہی رہنا ہے وہ سیاستدان نہیں ہیں کہ بعد میں انھیں سیاست کرنی ہو، جو چند سیاست میں آئے ناکام رہے اور سیاسی لوگ ہی سیاست کر رہے ہیں۔
محمد سعید آرائیں
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
کراچی بورڈ کا تعلیمی بحران
کیا کراچی بورڈ سے انٹر سائنس اول کا امتحان دینے والے طلبہ کے لیے پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں کے دروازے بند ہو جائیں گے؟ پہلے یہ سوال اخبارات کے صفحات پر نظر آیا اور پھر کراچی پریس کلب کے سامنے طلبہ اور ان کے والدین نے احتجاج کرتے ہوئے اٹھایا۔ اس سال بھی حسب روایت انٹرمیڈیٹ سال اول کے نتائج بہت دیر سے آئے۔ انٹر سائنس پری میڈیکل کا نتیجہ 36 فیصد رہا۔ انٹر سائنس پری انجنیئرنگ کا نتیجہ 34 فیصد کے قریب رہا۔ انجنیئرنگ اور میڈیکل کی تعلیم کے اداروں میں انٹرمیڈیٹ سال دوئم کے نتائج دیر سے آنے کی بناء پر وقت پر سیشن شروع کرنے کے لیے سال اول کے نتائج کی بنیاد پر مشروط داخلے دیے۔ پیشہ وارانہ اداروں میں داخلہ ٹیسٹ دینے کے لیے 60 فیصد سے زائد نمبر حاصل کرنا ضروری ہے، اگرچہ کراچی بورڈ کے نتائج کے مطابق دونوں فیکلٹیز کا نتیجہ 64 فیصد اور 60 فیصد ��ہا۔ اس بناء پر کراچی بورڈ سے پاس ہونے والی اکثریت میڈیکل اور انجنیئرنگ کے اداروں میں ناصرف داخلوں سے محروم ہو جائے گی بلکہ چین، روس، یورپی ممالک، امریکا اور کینیڈا کی یونیورسٹیوں میں کم اوسط نمبر ہونے کی وجہ سے داخلوں سے محروم بھی ہو جائے گی۔
کراچی پریس کلب پر ہونے والے مظاہروں میں طلبہ کے علاوہ طالبات کی بڑی تعداد بھی شریک ہو رہی ہے۔ ا�� احتجاجی طلبہ کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر طلبہ نے میٹرک کے امتحانات میں 80 سے 90 فیصد نمبر حاصل کیے مگر اب ان میں سے کئی طلبہ کو تین تین پرچوں میں فیل کر دیا گیا۔ اس مظاہرے میں شریک بعض طلبا و طالبات اتنے جذباتی تھے کہ وہ اس بات کا بلا روک ٹوک اظہارکر رہے تھے کہ ان کا مستقبل تباہ ہو گیا تو وہ اس بناء پر ان کے پاس خودکشی کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہو گا۔ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سراج میمن نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پری میڈیکل میں داخلے کے لیے کم از کم 60 فیصد نمبر لازمی ہوتے ہیں، اگر نتائج داخلہ کے کم از کم نمبروں سے کم ہیں تو اس کے اثرات میڈیکل کے تعلیمی اداروں کے داخلوں پر پڑیں گے۔ ایک سائنس کالج کے پرنسپل نے کہا کہ عام خیال یہ ہے کہ طالب علم سائنس کے بنیادی مضامین میں انتہائی کم نمبروں سے پاس ہوتے ہیں۔ وہ سال دوئم میں اتنے زیادہ نمبر حاصل نہیں کر پائے کہ 60 فیصد یا اس سے زیادہ کا ہدف حاصل کریں۔
اس صورت میں طلبہ سال اول کے مضامین کا دوبارہ امتحان دیتے ہیں، اگر پھر سال اول کا نتیجہ کم ہی رہا تو وہ اعلیٰ تعلیم سے یقینی طور پر محروم رہیں گے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں سائنس کی تعلیم کے کچھ کالجوں کا معیار ہمیشہ بلند رہا ہے۔ ان کالجوں میں پی ای سی ایچ ایس کالج، سرسید کالج ، گورنمنٹ کالج ایس آر مجید، سینٹ لارنس کالج، آدم جی کالج، ڈی جے سائنس کالج، اسلامیہ سائنس کالج، گورنمنٹ سائنس کالج، کینٹ اور پی ای سی ایچ ایس فاؤنڈیشن شامل ہیں۔ بہت سے تعلیمی بورڈز میں برسوں سے ایڈہاک بنیادوں پر تقرریوں سے کام لیا جا رہا ہے جس سے تعلیمی بورڈز کی مجموعی کارکردگی متاثر ہو رہی تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی آئینی مدت کے آخری دنوں میں کچھ بورڈز کے چیئرمین، سیکریٹریز اور ناظم امتحانات کے تقرر کیے تھے۔ ان تقرریوں کے بارے میں یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا تھا کہ یہ تقرریوں کا عمل شفاف طریقہ سے نہیں ہو رہا۔
سندھ ہائی کورٹ نے بورڈز کے بعض چیئرمین کے تقرر کو غیر قانونی قرار دیا مگر ان حکومتوں ��ے ان تقرریوں پر غور و خوص کیا اور کسی ذہین افسر نے یہ تجویز پیش کی کہ ڈویژنل کمشنروں کو تمام بورڈز کے چیئرمین کا چارج دیدیا جائے تو اب ڈویژنل کمشنر بورڈز کے نگراں بن گئے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا کہ جس کی صرف مذمت ہی ممکن ہے۔ پھر یہ رپورٹیں بھی شایع ہوئیں کہ کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ کے سیکریٹری اور ناظم امتحانات کے عہدے خالی پڑے ہیں۔ بعض رپورٹروں نے اپنی رپورٹس میں سارا معاملہ ڈویژنل کمشنر کا بورڈ کا چیئرمین بننے سے منسلک کر دیا، یہ بات حقیقت سے بالکل خلاف ہے۔ تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ امتحانات میں بورڈ کے چیئرمین کا امتحانات میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ اردو یونیورسٹی کے سینئر استاد پروفیسر اصغر علی کا کہنا ہے کہ امتحانات کے انعقاد اور اس کے نتائج کا سارا کام ناظم امتحانات کرتا ہے۔ کنٹرولر امتحانات اور ان کا ذیلی عملہ ہی ممتحن کا تقرر، امتحانی پرچہ کی تیاری اور امتحانی کاپیوں کی جانچ کی نگرانی اور امتحانی نتائج کے اجراء کا ذمے دار ہوتا ہے اس بناء پر کمشنر پر اس کی ذمے داری عائد نہیں ہوتی مگر ماہرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ کمشنر کے پاس بے تحاشا ذمے داریاں ہیں۔
ان کے بجائے امتحانی کاموں کا برسوں تک فریضہ انجام دینے والے سینئر اساتذہ میں سے کسی استاد کو یہ ذمے داری سونپ دینی چاہیے۔ سینئر اساتذہ کا کہنا ہے کہ امتحانی کاپیوں کی جانچ کا کام کالجوں کے اساتذہ کرتے ہیں۔ اساتذہ کو امتحانی کاپیاں فراہم کرنے سے قبل کاپیوں پر خفیہ کوڈ تحریر کیا جاتا ہے۔ پہلے امتحانی کاپیوں کی جانچ پڑتال کے لیے سینٹر بنائے جاتے تھے مگر اساتذہ کو اب گھروں پر کاپیاں چیک کرنے کے لیے دی جاتی ہیں۔ ایک سینئر پرنسپل کا مشاہدہ ہے کہ نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ کا معیار انتہائی پست ہے اور ان میں کاپیوں کی جانچ پڑتال کی اہلیت ہی نہیں ہے۔ اس معاملے کا گہرا تعلق کالجوں کی تعلیم سے مختلف ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ اساتذہ باقاعدہ کلاس لینے کلاس رومز میں نہیں آتے، وہ طلبہ کو کوچنگ سینٹروں میں بلاتے ہیں جہاں لاکھوں روپے فیس کے وصول کیے جاتے ہیں۔ کالجوں میں طلبہ کی سو فیصد حاضری پر سختی سے عملدرآمد ہو گا، تو امتحانات میں بہتر نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔
بعض عناصر اس مسئلے کو لسانی شکل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی کے طلبہ کے ساتھ طے شدہ منصوبے کے تحت زیادتی ہوئی ہے۔ دو سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس مسئلے کو انتخابی مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ کراچی بورڈ نے اس مسئلے پر تحقیقات کے لیے کور کمیٹی تشکیل دی ہے اس کی اہلیت پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس مسئلے کا حل ایک شفاف تحقیقات میں مضمر ہے۔ سندھ کے نگران وزیر اعلیٰ کو چاہیے کہ وہ سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج پر مشتمل ایک اعلیٰ تحقیقاتی کمیشن کے قیام کے لیے گورنر کو تجویز پیش کرے جس میں ریٹائرڈ پرنسپل اور سینئر اساتذہ کو شامل کیا جائے۔ یہ کمیشن اگر محسوس کرے تو دوسرے بورڈ کی کاپیوں کی جانچ پڑتال کے بارے میں بھی تحقیقات کرے۔ سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ اپنے انتخابی منشور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید آلات کے ذریعے امتحانات کے انعقاد کا وعدہ کریں۔ اس مسئلے کو تعلیمی مسئلہ ہی رہنا چاہیے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes