#poetry baba bulleh shah
Explore tagged Tumblr posts
takhayyul · 2 years ago
Text
persian sufi poetry is fire yes but have u read punjabi sufi poetry bc baba farid and bulleh shah were spitting fr
#**
11 notes · View notes
shayarigateway · 7 months ago
Text
dailymotion
Baba Bulleh Shah Poetry| Bulle Shah | ਬਾਬਾ ਬੁੱਲੇ ਸ਼ਾਹ | بلھے شاہ | बाबा बुलेह शाह | Urdu Poetry | Urdu Shayari | punjabi Shayari | Punjabi Poetry | Urdu Poetry With Ibn e Ata
1 note · View note
sufianajasmeet · 10 months ago
Video
youtube
Baba Bulleh Shah Poetry 2024 || Best Punjabi Kalam 2024 | Bulleh Shah Sh...
0 notes
Text
Pind Di Awaz: Addressing Regional Variations in Punjabi Music
Tumblr media
Punjab, the heartland of Punjabi culture, is an exceedingly diverse and incredibly rich place. Its music is as diverse as its surroundings, which range from the verdant fields of Majha to the desolate plains of Malwa and the peaceful highlands of Doaba. Let’s take a musical journey to discover the various regional styles of Punjabi music, each with a unique flavor.
Majha: The Innermost of Bhangra
Majha, the central region of Punjab, is often considered the birthplace of Bhangra, the iconic Punjabi dance form. The high-intensity beats, contagious rhythms, and lyrics that capture the populace’s ebullience define Majha’s music. Majha’s music is characterized by the sounds of the dhol and tumbi. Bhangra is more than simply a dance in Majha; it’s a way of life. Songs like “Mundiyaan To Bach Ke” and “Balle Balle” perfectly capture the essence of this area. People are always on their feet dancing to the rhythm of life to the music, which is full of festivals, frequently focused on the harvest season.
Malwa: The Folk Soul
Punjab’s southern region, Malwa, offers a distinctive musical experience. The music in this area is more folk-oriented and is steeped in local legends and traditions.
Malwa’s music features traditional instruments like the sarangi and algoza prominently. Songs like “Challa” and “Sade Dil Te Chhuriyan Chaliyan” capture the region’s frugality and rusticity. Malwa’s music is a calming salve that perfectly encapsulates rural Punjabi life.
Doaba: Sufism and the West
The music of the Doaba region, which is tucked away in the Shivalik range’s foothills, is heavily influenced by Sufism. The fervent poetry of renowned Sufi saints like Baba Sheikh Farid and Bulleh Shah finds a musical home here. The profoundly spiritual and transcendent qawwalis and compositions move the soul.
The harmonium and tabla are among the instruments used in Doaba’s music to provide a dreamy and meditative environment. Songs like “Jugni” and “Ni Main Kamli Aan” take listeners on a journey of spiritual connection and introspection.
A synergistic blend of Majha, Malwa and Doaba
The beauty of Punjabi music rests in its ability to smoothly incorporate these regional variances, despite the fact that each region has its own distinct musical identity. Punjabi artists frequently draw inspiration from the deep spirituality of Doaba, the folk knowledge of Malwa, and the rich traditions of Majha in order to produce works that really reflect the diversity of the state.
Additionally,the development of Punjabi music has been aided by Punjabi populations in Canada, the United Kingdom, and other countries, who have infused it with international influences while keeping its provincial roots.
Conclusion: The Symphony of Punjab
A musical tapestry that celebrates life, love, and spirituality is made possible by the passionate beats of Majha, the folk soul of Malwa, and the spiritual profundity of Doaba.
Punjabi music’s regional variances reveal not only a musical voyage but also a cultural odyssey as we investigate them. It serves as a reminder that music is as varied, lively, and always changing as the country from which it originates. Take some time the next time you hear a Punjabi song to enjoy the local flavor that makes it a symphony of Punjab and a monument to the beauty of musical diversity across cultures.
0 notes
komal01 · 3 years ago
Text
Hasi, Sharaab, Aansu, Tasveer.
Tasveer, Aansu, Sharaab, Hasi.
- Laughter, Alcohol, Tears, Memories. Memories, Tears, Alcohol, Laughter.
130 notes · View notes
like-a-flowing-river · 3 years ago
Text
ਸਾਨੂੰ ਤੇ ਮਿਲਣ ਦੀ ਆਸ ਰਹਿੰਦੀ ਆ ਹਰ ਵੇਲੇ
ਜੇ ਯਾਰ ਹੀ ਭੁੱਲ ਜਾਵੇ ਤਾ ਕੀ ਕਰੀਏ ।
4 notes · View notes
chandtarasblog · 5 years ago
Text
Tumblr media
66 notes · View notes
sbd17 · 4 years ago
Text
Tumblr media
Feeling some sort of way❤️
Tumblr media
25 notes · View notes
naatsworld-blog · 8 years ago
Photo
Tumblr media
We have created a special tutorial for all those who love to listen Kalam of Baba Bulleh Shah. There is a great collection for you in that tutorial.
1 note · View note
finita--la--commedia · 6 years ago
Quote
You have learnt so much And read a thousand books. Have you ever read your Self ? You have gone to mosque and temple. Have you ever visited your soul ?
Baba Bulleh Shah (1680–1757), from “Look into Yourself” in “Islamic Mystical Poetry. Sufi Verse from the Mystics to Rumi”, translated by Mahmood Jamal
983 notes · View notes
dear-zed · 4 years ago
Text
فرید
یار فرید�� !! اوتھے کی وسنا
جتھے یار نظر نہ آوے …
6 notes · View notes
sufianajasmeet · 10 months ago
Video
youtube
Baba Bulleh Shah Poetry 2024 || Best Punjabi Kalam 2024 | Bulleh Shah Sh...
0 notes
komal01 · 5 years ago
Text
Paise de nashe, te nashe de pyar chu; Assi yaaraan de dushman, te dushman de yaar!
117 notes · View notes
risingpakistan · 3 years ago
Text
بابا بُلّھے شاہ
اربوں کھربوں سال سے بنی اس دنیا میں وقت کی لہریں یوں ہی گزرتی رہی ہیں اور گزرتی جائیں گی۔ انسان بھی آتے ہیں اور لہروں کی طرح گزر جاتے ہیں لیکن ہمیشہ وہ انسان دنیا اور دلوں میں گھر بناتے ہیں جو اس دنیا میں کچھ کر جاتے ہیں۔ وہ چلے بھی جائیں لیکن دنیا انہیں ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔کبھی لفظوں میں کبھی یادوں میں اور کبھی مزاروں کی شکل میں، اور بزرگ برصغیر پاک و ہند میں بے شمار صوفی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے برصغیر کی اس سرزمین میں اسلام پھیلانے کیلئے آخری سانس تک بے شمار کوششیں کیں۔ وہ ساری کوششیں چاہے ان کی زندگی میں پوری نہ ہو سکیں لیکن ان کی تعلیمات اور کردار روشن ستاروں کی طرح اس دنیا میں قائم رہے۔ ان کی قبروں پر آج بھی لوگوں کا ہجوم رہتا ہے اور انہیں ایصال ثواب کرتا ہے۔ ان صوفیاء کرام نے جہالت ختم کرنے کیلئے اس سرزمین پر بے شمار کوششیں کیں، مشکلات برداشت کیں اور قربانیاں دیں جو لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔
انہی ناموں میں ایک نام حضرت ب��با بلھے شاہ کا ہے۔ قصور شہر کا نام اور بابا بلھے شاہ کا نام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں جہاں قصور کا نام لیا جائے وہاں بابا بلھے شاہ کا نام بھی ساتھ ہی لیا جاتا ہے۔ کچھ دن پہلے ہمارا قصور جانے کا اتفاق ہوا، دل میں بہت شوق تھا کہ بابا بلھے شاہ کا مزار دیکھیں۔ لاہور سے 28 کلومیٹر دور قصور کا چھوٹا سا شہر ہے۔ قصور پہنچ کر چار پانچ کلومیٹر دائیں جانب ایک چھوٹا سا پسماندہ گاوں ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے جتنا کہ بابا بلھے شاہ کے زمانے میں ہو گا۔ آج بھی سائیڈوں پر بنے ہوئے بنوں پر لوگ بے کار بیٹھے رہتے ہیں۔ کچے پکے راستوں اور کھیتوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ہم مزار شریف کے پاس پہنچے۔ مزار کے آس پاس ایک چھوٹا سا شہر آباد ہے جہاں زیادہ مچھلی اور فالودے کی دکانیں موجود ہیں۔ کار پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے کچی جگہوں کو پار کرتے ہوئے ہم نے مزار کا رخ کیا۔ ان کچی جگہوں پر زیادہ قبریں ہی بنی ہوئیں تھیں۔
ایک لمبی قطار کے ساتھ چلتے ہوئے ہم مزار کے احاطے میں داخل ہوئے۔ وہاں سے وضو کیا اور مزار کے اندر کا رخ کیا۔ بے شمار رش اور چاہنے والے روزانہ سیکڑوں کے حساب سے حاضری دینے آتے جاتے رہتے ہیں۔ مزار کے ایک طرف ایک کمرہ تعمیر ہے جہاں ہر وقت قوالی کا انتظام ہے جو موسیقی بابا بلھے شاہ کی زندگی کا حصہ تھی۔ وہ آج بھی وہاں پر اسی طرز پر چلتی رہتی ہے۔ نہ کر بندیا میری میری نہ تیری نہ میری تو ایں خاک دی ڈھیری
کوٹھیاں بنگلے سب ٹر جانے جدوں لیکھاں نے اکھ پھیری
پنجابی صوفی شاعر بابا بلھے شاہ کو بخاری سید بھی کہتے ہیں۔ ان کا نام عبداللہ شاہ تھا، ان کے والد کا نام شاہ محمد درویش تھا جو مسجد کے امام تھے۔ بابا بلھے شاہ کی پیدائش اوچ شریف میں ہوئی۔ ان کے والد بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے تھے۔ بابا بلھے شاہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ قرآن، حدیث اور منطق کی تعلیم قصور سے حاصل کی۔ گلستان استاد بھی پڑھی۔ دنیا کے علم حاصل کر کے بھی ان کا دل مطمئن نہ ہوا۔ بابا بلھے شاہ حافظ غلام مرتضیٰ کے شاگرد بن گئے اور ان سے عربی، فارسی اور تصوف کی تعلیم بھی حاصل کی۔ وارث شاہ نے بھی حافظ غلام مرتضیٰ سے تعلیم حاصل کی۔ 
حافظ غلام مرتضیٰ کہا کرتے تھے۔ مجھے دو ایسے عجیب شاگرد ملے ہیں ایک بلھے شاہ ہے جو تصوف کی تعلیم حاصل کرے اس نے ایک ہاتھ میں سارنگی پکڑ لی اور دوسرا وارث شاہ جو عالم دین بن کر تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہیرا رانجھے کے گیت گانے لگا۔ بابا بلھے شاہ اپنی شاعری میں نہ صرف مذہبی ضابطوں پر تنقید کرتے بلکہ ترک دنیا کو بھی بھرپور انداز میں مذمت کرتے اور محض علم جمع کرنے کو وبال جان قرار دیتے ہیں۔ علم بغیر عمل کے بے کار ہے۔ بابا بلھے شاہ کے دور میں مغلیہ سلطنت داخلی اور خارجی مسائل کا شکار تھی، معاشرہ تباہی کے دہانے پر کھڑا تھا، انسان بے بس ہو چکا تھا۔ لوگ ایک خدا کی عبادت کرنے کی بجائے توہمات میں الجھے ہوئے تھے لیکن بابا بلھے شاہ کو اللہ کی طرف سے یہ خوبی عطا تھی کہ وہ انسان کو تصویر کا دوسرا رخ سمجھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ انہوں نے انسانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اے ابن آدم تو کچھ بھی نہیں تیری کوئی شناخت نہیں تو مٹی کی ڈھیری ہے بس وہ ایک درویش آدمی تھے۔
 یہ درویشی صفت ساری عمر ان کے ساتھ رہی۔ بابا بلھے شاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور کے چشم دید گواہ ہیں۔ اس لیے مفتی ان کے خلاف تھے۔ انہیں کافر کہہ رہے تھے۔ مغل سکھوں کا قتل عام کر رہے تھے اور سکھ مغلوں کو مار رہے تھے۔ بلھے شاہ نے صوفیانہ شاعری کے ذریعے اورنگ زیب عالمگیر کی حکمرانی کو چیلنج کیا۔ مفتیوں نے فتوے دیئے کہ ان کی شاعری کافرانہ ہے اس لیے ان کو ملک بدر کر دیا جائے۔ بلھے شاہ کا انسانیت سے بھرپور کلام اپنے جوبن پر تھا۔ اس وقت بلھے شاہ قصور کو خیرباد کہہ کر لاہور آ گئے۔ عوام کو محبت اور انسانیت کا درس دینا شروع کیا۔ ایسے شخص کو کیسے ریاست اور اس کے حلقے بے باکی سے زندہ رہنے دیتے۔ یہ سچ کی ریاستوں کے ٹھیکیداروں کیلئے خطرناک تھا۔ اس لیے لوگوں کو یہ سمجھ آ رہا تھا کہ یہ درویش مختلف بات کر رہا ہے۔ مفتیوں کو چیلنج کر رہا ہے، عشق ان کی طاقت تھی۔ ان کو مارنا مشکل تھا۔ 
بابا بلھے شاہ کا انتقال 1757 عیسوی میں قصور میں ہوا اور یہیں دفن ہوئے۔ ان کے عقیدت مند آج بھی ان کے مزار پر ہر سال ان کی صوفیانہ شاعری گا کر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ مزار کے احاطے میں ایک طرف شیشے کے کیس میں بابا بلھے شاہ کا عمامہ شریف اور ستار بھی موجود ہے۔ ایک حصے میں ان کے کلام کو گا کر سنایا جاتا ہے اور لوگ بڑے اشتیاق سے سنتے ہیں۔ سارا دن لوگوں کے ہجوم آتے جاتے رہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کیلئے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی وہ اس دنیا کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں وہ کبھی بھی نہیں مرتے۔ قصوری میتھی ایک خاص سوغات ہے جو ان کے مزار پر لوگ کثرت سے خریدتے ہیں۔ ہم نے بھی فاتحہ خوانی کی اور سارا دن قصور میں گزارا اور یہ دن ہماری زندگی کا ایک بہت اہم اور یادگار دن تھا کہ ہم نے ایک صوفی شاعر کے مزار پر حاضری دی۔
روبینہ شاہین
بشکریہ روزنامہ جسارت
0 notes
wayofislam-blog1 · 7 years ago
Link
2 notes · View notes
finita--la--commedia · 6 years ago
Quote
From first to last, I searched myself. None other did I succeed in knowing. Not some great thinker am I. Who is standing in my shoes, alone ?
Baba Bulleh Shah (1680–1757), from “Bulleh, Who Knows Who I am ?” in “Islamic Mystical Poetry. Sufi Verse from the Mystics to Rumi”, translated by Mahmood Jamal
108 notes · View notes