#دلچسپ
Explore tagged Tumblr posts
Text
پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستانی باولرز کی دھلائی کرنے والے میکسویل کا دلچسپ انکشاف
پرتھ(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان کے خلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں 19گیندوں پر 43رنز بنانے والے گلین میکسویل کو شاندار کارکردگی پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ میچ کے بعدمیکسویل نے انکشاف کیا کہ کچھ کھلاڑیوں نے میچ کے منسوخ ہونے کی توقع میں اپنے بیگز بھی پیک کر لیے تھے، اور جب میچ شروع ہوا تو تیار ہونے کے لیے جلدی کرنا پڑی۔انہوں نے کہا آج کھیل کر بہت مزہ آیا، ہمیں لگا تھا کہ ہم نے بورڈ پر…
0 notes
Text
واٹس ایپ کا اینڈرائیڈ کیلئے دلچسپ فیچر پر کام جاری
(ویب ڈیسک)واٹس ایپ ایک بار پھر دلچسپ نئے فیچر پر کام کر رہا ہے جو فی الحال صرف اینڈرائیڈ 2.24.21.31 اپ ڈیٹ پر واٹس ایپ بیٹا کے صارفین کے لیے دستیاب ہوگا۔ رپورٹس کے مطابق میٹا کے ماتحت انسٹنٹ میسجنگ ایپ واٹس ایپ کا نیا فیچر جو تیاری کے مراحل میں ہے جو صارفین کو ویب پر واٹس ایپ کی تصاویر سرچ کرنے کے قابل بنائے گا۔ واٹس ایپ تصاویر کی ویپ سرچ کا یہ نیا فیچر صارفین کو کسی دوسرے صارف کی جانب سے موصول…
0 notes
Text
youtube
#خطرناک سانپوں کا زہ�� نکالنے کی دلچسپ ویڈیو | How Venom is Extracted from Snakes | Facts in Urdu#Youtube
0 notes
Text
کسی کے روبرو بیٹھا رہا میں بـے زباں ہو کر
میری آنکھوں سے حسرت پھوٹ نکلی داستاں ہو کر
خدا حافظ کسی کے راز الفت کا خدا حافظ
خیال آتے ہی اب تو دل دھڑکتا ہـے فغاں ہو کر
پیا آب بقا اے خضر اب تاثیر بھی دیکھو
قیامت تک رہو پابند عمر جاوداں ہو کر
یکایک وہ مریض غم کی صورت کا بدل جانا
وہ رو دینا کسی نا مہرباں کا مہرباں ہو کر
کتاب دہر کا دلچسپ ٹکڑا ہـے میری ہستی
مجھے دیکھو کہ بیٹھا ہوں مجسم داستاں ہو کر
سنا ہـے اس طرف سے بھی جناب عشق گزریں گے
میری ہستی نہ اڑ جائے غبار کارواں ہو کر
حفیظؔ جالندھری
2 notes
·
View notes
Text
معروف ایکٹوسٹ محمد آفاق خان کون ہیں ؟ بلاگ پڑھیں
2 notes
·
View notes
Text
اب کے بیگم مری میکے سے جو واپس آئیں
ایک مرغی بھی بصد شوق وہاں سے لائیں
میں نے پوچھا کہ مری جان ارادہ کیا ہے
تن کے بولیں کہ مجھے آپ نے سمجھا کیا ہے
ذہن نے میرے بنائی ہے اک ایسی سکیم
دنگ ہوں سن کے جسے علم معیشت کے حکیم
آپ بازار سے انڈے تو ذرا دوڑ کے لائیں
تاکہ ہم جلد سے جلد آج ہی مرغی کو بٹھائیں
تین ہفتوں میں نکل آئیں گے چوزے سارے
تو سہی آپ کو پیار آئے وہ پیارے پیارے
چھ مہینے میں جواں ہو کے وہی مرغ بچے
نسل پھیلاتے چلے جائیں گے دھیرے دھیرے
دیکھ لیجے گا بہ تائید خدائے دانا
پولٹری بنے گا مرا مرغی خانہ
پولٹری فارم میں انڈوں کی تجارت ہوگی
دور عسرت اسی مرغی کی بدولت ہوگی
میں وہ عورت ہوں کہ حکمت مری مردوں کو چرائے
انہیں پیسوں سے خریدوں گی میں کچھ بھینسیں اور گائے
ڈیری فارم بنے گا وہ ترقی ہوگی
جوئے شیر آپ ہی انگنائی میں بہتی ہوگی
عقل کی بات بتاتی ہوں اچنبھا کیا ہے
دودھ سے آپ کو نہلاؤں گی سمجھا کیا ہے
بچے ترسیں گے نہ مکھن کے لئے گھی کے لئے
آپ دفتر میں نہ سر ماریں گے دفتر کے لئے
میرے خوابوں کے تصدق میں بشرط تعمیل
چند ہی سال میں ہو جائے گی دنیا تبدیل
سحر تدبیر کا تقدیر پہ چل جائے گا
جھونپڑا آپ کا کوٹھی میں بدل جائے گا
الغرض ہوتی رہی بات یہی تا سر شام
نو بجے رات کو سونے کا جو آیا ہنگام
سو گئیں رکھ کے حفاظت سے اسے زیر پلنگ
خواب میں آتی رہی نشۂ دولت کی ترنگ
سن رہی تھی کوئی بلی بھی ہماری باتیں
پیاری بیگم کی وہ دلچسپ وہ پیاری باتیں
رات آدھی بھی نہیں گزری تھی کہ اک شور مچا
چیخ مرغی کی سنی نیند سے میں چونک پڑا
آنکھ ملتا ہوا اٹھا تو یہ نقشہ پایا
اس بچاری کو صحنچی میں تڑپتا پایا
دانت بلی نے گڑائے تھے جو گردن کے قریب
مر گئی چند ہی لمحوں میں پھڑک کر وہ غریب
صبح کے وقت غرض گھر کا یہ نقشہ دیکھا
چہرہ بیگم کا کسی سوچ میں لٹکا دیکھا
روٹی بچوں نے جو مانگی تو دو ہتھڑ مارا
اسے گھونسہ اسے چانٹا اسے تھپڑ مارا
2 notes
·
View notes
Text
چاندنی چھٹکی ہوئی ہو تو غزل ہوتی ہے
جل پری پاس کھڑی ہو تو غزل ہوتی ہے
دل نشیں کوئی نظارہ کوئی دل کش منظر
بات دلچسپ کوئی ہو تو غزل ہوتی ہے
یا کسی درد میں ڈوبی ہوئی آواز نحیف
یا کوئی چیخ سنی ہو تو غزل ہوتی ہے
شاعری نام ہے احساس کے لو پانے کا
آگ سی دل میں دبی ہو تو غزل ہوتی ہے
درمیاں آپ کے میرے کوئی حائل ہو جائے
کوئی دیوار کھڑی ہو تو غزل ہوتی ہے
کوئی جدت کوئی ندرت کوئی پاکیزہ خیال
ہاں کوئی بات نئی ہو تو غزل ہوتی ہے
پہلے شاعر کو ملے ذہن رسا قلب گداز
پھر وہ لفظوں کا دھنی ہو تو غزل ہوتی ہے
عام حالات میں ہوتی نہیں اے تاجؔ غزل
کچھ نہ کچھ درد سری ہو تو غزل ہوتی ہے
(ریاست علی تاج)
6 notes
·
View notes
Text
چاند پر جانے کی وڈیو جعلی تھی
ایک اخباری کے مطابق :جو کہ امریکہ اور یورپ کے 12 دسمبر کے اخبارات میں چھپی ہے۔ خبر کا لنک بھی دے رہا ہوں۔
http://www.express.co.uk/news/science/626119/MOON-LANDINGS-FAKE-Shock-video-Stanley-Kubrick-admit-historic-event-HOAX-NASA
خبر کا خلاصہ کچھ یوں ہے
ہالی ووڈ کے معروف فلم ڈائریکٹر سٹینلے کبرک نے ایک ویڈیو میں تسلیم کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے چاند پر مشن بھیجنے کا دعویٰ جعلی اور جھوٹ پر مبنی تھا اور میں ہی وہ شخص ہوں جس نے اس جھوٹ کو فلم بند کیا تھا ۔اس رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ایک خفیہ ویڈیو ریلیز کی گئی ہے جس میں ہالی ووڈ کے آنجہانی ہدایتکار سٹینلے کبرک نے تسلیم کیا ہے کہ 1969ء میں چاند پر کوئی مشن نہیں گیا تھا بلکہ انہوں نے اس کی فلم بندی کی تھی۔ ہالی ووڈ کے ہدایتکار کی اس خفیہ ویڈیو کو 15 سال قبل فلم بند کیا گیا تھا۔ ان کی ویڈیو بنانے والے رپورٹر نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس ویڈیو کو ان کی وفات کے 15 سال بعد افشاء کرے گا۔ اس کے چند ہی دن بعد سٹینلے کبرک کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس خفیہ ویڈیو میں انہوں نے تسلیم کیا کہ چاند کی تسخیر پر اٹھائے جانے والے تمام سوالات درست ہیں یہ سب کچھ امریکی خلائی ادارے ناسا اور امریکی حکومت کی ایماء پر کیا گیا تھا۔اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو اس تمام معاملے کا علم تھا۔سٹینلے کبرک کا کہنا تھا کہ وہ امریکی عوام سے معذرت خواہ ہیں کیونکہ انہوں نے ان سے دھوکہ دہی کی ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے امریکی حکومت اور ناسا کے کہنے پر مصنوعی چاند پر فلم بندی کی تھی میں اس فراڈ پر امریکی عوام کے سامنے شرمسار ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو یہ تھا اس وڈیو بنانے والا اصل کریکٹر جو اعتراف کرگیا کہ یہ سب کچھ جعلی تھا۔ اس سے پہلے میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اس کے بارے میں بتا چکا ہوں کہ اس وڈیو بنانے کی وجوہات اصل میں کیا تھیں۔ اور کچھ اس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات بھی بتا چکا ہوں۔ یہ پوسٹ میں دوبارہ آپ کی دلچسپی اور علم میں اضافے کے لئے پیش کررہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند پر انسانی قدم کے ڈرامے کی وجوہات اور اعتراضات
چند دن پہلے میں نے "چاند پر قدم کا ڈرامہ" نامی آرٹیکل اس دلچسپ معلومات پیج پر پوسٹ کیا تھا ۔ جس پر کچھ دوستوں نے اعتراضات کئے تھے کہ "یہ سب بکواس ہے چاند پر قدم ایک حقیقت ہے"۔یا۔"خود تو کچھ کر نہیں سکتے اور دوسروں پر اعتراضات کرتے ہیں"۔ وغیرہ وغیرہ ۔اور بہت سارے دوست تو میری بات سے متفق بھی تھے۔ تو ان معترضین سے عرض یہ ہے کہ چاند پر قدم کا ڈرامہ کہنے والے پاکستان نہیں بلکہ خود امریکی اور یورپ کے ماہرین ہیں۔کیونکہ ہمارے پاس تو اتنی ٹیکنالوجی اور وسائل نہیں کہ ہم حقیقتِ حال جان سکیں۔ جن کے پاس تمام وسائل ہیں ان لوگوں نے ہی اس نظریے پر اعتراضات اٹھائے ہیں کہ یہ ایک باقاعدہ ڈرامہ تھا جو امریکہ اور روس کی سرد جنگ کے درمیان امریکہ نے روس پر برتری حاصل کرنے کے لئے گڑھا تھا۔ آئیے ان اعتراضات پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ذہن میں رہے یہ اعتراضات کوئی پاکستانی نہیں کررہا بلکہ امریکی کررہے ہیں۔جن کو میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کو دوستوں سے شئیر کررہا ہوں۔
1969 میں امریکی خلانورد نیل آرمسٹرانگ نے گرد سے اٹی ہوئی جس سرزمین پر قدم رکھا تھا، کیا وہ چاند کی سطح تھی یا یہ ہالی وڈ کے کسی سٹوڈیو میں تخلیق کیا گیا ایک تصور تھا؟ بہت سے لوگوں کی نظر میں یہ حقیقت آج بھی افسانہ ہے۔��یونکہ کچھ ہی سالوں میں خود امریکہ میں اس بات پر شک و شبہ ظاہر کیا جانے لگا کہ کیا واقعی انسان چاند پر اترا تھا؟
15 فروری 2001 کو Fox TV Network سے نشر ہونے والے ایک ایسے ہی پروگرام کا نام تھا
Conspiracy Theory: Did We Land on the Moon?
اس پروگرام میں بھی ماہرین نے بہت سے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اسی طرح یوٹیوب پر بھی یہ دو ڈاکیومینٹری دیکھنے والوں کے ذہن میں اس بارے ابہام پیدا کرنے کے لئے کافی موثر ہیں۔
Did man really go to the moon
Did We Ever Land On The Moon
پہلے اس ڈرامے کی وجوہات پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔کہ آخر کیا وجہ تھی کہ امریکہ نے اتنا بڑا(تقریباکامیاب) ڈرامہ بنایا۔
سرد جنگ کے دوران امریکہ کو شدید خطرہ تھا کہ نہ صرف اس کے علاقے روسی ایٹمی ہتھیاروں کی زد میں ہیں بلکہ سرد جنگ کی وجہ سے شروع ہونے والی خلائی دوڑ میں بھی انہیں مات ہونے والی ہے۔ کیونکہ روس کی سپیس ٹیکنالوجی امریکہ سے بہت بہتر تھی۔ جنگ ویتنام میں ناکامی کی وجہ سے امریکیوں کا مورال بہت نچلی سطح تک آ چکا تھا۔
پہلا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجنے کے معاملے میں روس کو سبقت حاصل ہو چکی تھی جب اس نے 4 اکتوبر 1957 کو Sputnik 1 کو کامیابی کے ساتھ زمین کے مدار میں بھیجا۔ روس 1959 میں بغیر انسان والے خلائی جہاز چاند تک پہنچا چکا تھا۔ 12 اپریل 1961 کو روسی خلا نورد یوری گگارین نے 108 منٹ خلا میں زمیں کے گرد چکر کاٹ کر خلا میں جانے والے پہلے انسان کا اعزاز حاصل کیا۔ 23 دن بعد امریکی خلا نورد Alan Shepard خلا میں گیا مگر وہ مدار تک نہیں پہنچ سکا۔ ان حالات میں قوم کا مورال بڑھانے کے لیئے صدر کینڈی نے 25 مئی 1961 میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم اس دہائی میں چاند پر اتر کہ بخیریت واپس آئیں گے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دہائی کے اختتام پر بھی اسے پورا کرنا امریکہ کے لئے ممکن نہ تھا اس لیئے عزت بچانے اور برتری جتانے کے لیئے جھوٹ کا سہارا لینا پڑا۔ امریکہ کے ایک راکٹ ساز ادارے میں کام کرنے والے شخصBill Kaysing کے مطابق اس وقت انسان بردار خلائی جہاز کے چاند سے بہ سلامت واپسی کے امکانات صرف 0.017% تھے۔ اس نے اپولو مشن کے اختتام کے صرف دو سال بعد یعنی 1974 میں ایک کتاب شائع کی جسکا نام تھا
We Never Went to the Moon:
America's Thirty Billion Dollar Swindle
3 اپریل 1966 کو روسی خلائ جہاز Luna 10 نے چاند کے مدار میں مصنوعی سیارہ چھوڑ کر امریکیوں پر مزید برتری ثابت کر دی۔ اب امریکہ کے لئے ناگزیر ہوگیا تھا کہ کچھ بڑا کیا جائے تاکہ ہمارا مورال بلند ہو۔
21 دسمبر 1968 میں NASA نے Apollo 8 کے ذریعے تین خلا نورد چاند کے مدار میں بھیجے جو چاند کی سطح پر نہیں اترے۔ غالباً یہNASA کا پہلا جھوٹ تھا اور جب کسی نے اس پر شک نہیں کیا تو امریکہ نے پوری دنیا کو بے وقوف بناتے ہوئے انسان کے چاند پر اترنے کا یہ ڈرامہ رچایا اورہالی وڈ کے ایک اسٹوڈیو میں جعلی فلمیں بنا کر دنیا کو دکھا دیں۔ اپولو 11 جو 16جولائی 1969 کو روانہ ہوا تھا درحقیقت آٹھ دن زمین کے مدار میں گردش کر کے واپس آ گیا۔
1994 میں Andrew Chaikin کی چھپنے والی ایک کتاب A Man on the Moon میں بتایا گیا ہے کہ ایسا ایک ڈرامہ رچانے کی بازگشت دسمبر 1968 میں بھی سنی گئی تھی۔
اب ان اعتراضات کی جانب آتے ہیں جو سائنسدانوں نے اٹھائے ہیں۔
1- ناقدین ناسا کے سائنسدانوں کے عظیم شاہکار اپالو گیارہ کو ہالی وڈ کے ڈائریکٹروں کی شاندار تخلیق سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سفر اور چاند پر انسانی قدم کو متنازعہ ماننے والوں کی نظر میں ناسا کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں کئی نقائص ہیں، جن سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے چالیس سال قبل انسان سچ مچ چاند پر نہیں پہنچا تھا۔
2۔اس سفر کی حقیقت سے انکار کرنے والوں کا خیال ہے کہ تصاویر میں خلانوردوں کے سائے مختلف سائز کے ہیں اور چاند کی سطح پر اندھیرا دکھایا گیا ہے۔
3۔ ان افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ چاند کی سطح پر لی گئی ان تصاویر میں آسمان تو نمایاں ہے مگر وہاں کوئی ایک بھی ستارہ دکھائی نہیں دے رہا حالانکہ ہوا کی غیر موجودگی اور آلودگی سے پاک اس فضا میں آسمان پر ستاروں کی تعداد زیادہ بھی دکھائی دینی چاہئے تھی اور انہیں چمکنا بھی زیادہ چاہئے تھا۔
4۔ ان لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ناسا کی ویڈیو میں خلانورد جب امریکی پرچم چاند کی سطح پر گاڑ دیتے ہیں تو وہ لہراتا ہے جب کہ چاند پر ہوا کی غیر موجودگی میں ایسا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
5۔چاند کی تسخیر کو نہ ماننے والے ایک نکتہ یہ بھی اٹھاتے ہیں کہ اس ویڈیو میں ایک خلانورد جب زمین پر گرتا ہے تو اسے دوتین مرتبہ اٹھنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ چاند پر کم کشش ثقل کی وجہ سے ایسا ہونا خود ایک تعجب کی بات ہے۔
6۔زمین کے بہت نزدیک خلائی مداروں میں جانے کے لیئے انسان سے پہلے جانوروں کو بھیجا گیا تھا اور پوری تسلی ہونے کے بعد انسان مدار میں گئے لیکن حیرت کی بات ہے کہ چاند جیسی دور دراز جگہ تک پہنچنے کے لئے پہلے جانوروں کو نہیں بھیجا گیا اور انسانوں نے براہ راست یہ خطرہ مول لیا۔
7۔ کچھ لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر انسان چاند پر پہنچ چکا تھا تو اب تک تو وہاں مستقل قیام گاہ بن چکی ہوتی مگر معاملہ برعکس ہے اور چاند پر جانے کا سلسلہ عرصہ دراز سے کسی معقول وجہ کے بغیر بند پڑا ہے۔ اگر 1969 میں انسان چاند پر اتر سکتا ہے تو اب ٹیکنالوجی کی اتنی ترقی کے بعد اسے مریخ پر ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے۔ ناسا کے مطابق دسمبر 1972 میں اپولو 17 چاند پر جانے والا آخری انسان بردار خلائی جہاز تھا۔ یعنی 1972 سے یہ سلسلہ بالکل بند ہے ۔
8۔ چاند پر انسان کی پہلی چہل قدمی کی فلم کا سگنل دنیا تک ترسیل کے بعد
slow scan television -SSTV
فارمیٹ پر اینالوگ Analog ٹیپ پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ان ٹیپ پر ٹیلی میٹری کا ڈاٹا بھی ریکارڈ تھا۔ عام گھریلو TV اس فارمیٹ پر کام نہیں کرتے اسلیئے 1969 میں اس سگنل کو نہایت بھونڈے طریقے سے عام TV پر دیکھے جانے کے قابل بنایا گیا تھا۔ اب ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ایسے سگنل کو صاف ستھری اور عام TV پر دیکھنے کے قابل تصویروں میں بدل دے۔ جب ناسا سےSSTV کے اصلی ٹیپ مانگے گئے تو پتہ چلا کہ وہ ٹیپ دوبارہ استعمال میں لانے کے لئے مٹائے جا چکے ہیں یعنی اس ٹیپ پر ہم نے کوئی اور وڈیو ریکارڈ کردی ہے۔ اورناسا آج تک اصلی ٹیپ پیش نہیں کر سکا ہے۔
9۔ اسی طرح چاند پر جانے اور وہاں استعمال ہونے والی مشینوں کے بلیو پرنٹ اور تفصیلی ڈرائنگز بھی غائب ہیں۔
ان لوگوں کا اصرار رہا ہے کہ ان تمام نکات کی موجودگی میں چاند کو مسخر ماننا ناممکن ہے اور یہ تمام تصاویر اور ویڈیوز ہالی وڈ کے کسی بڑے اسٹوڈیو کا شاخسانہ ہیں۔تو یہ کچھ اعتراضات تھے جن کے تسلی بخش جوابات دیتے ہوئے ناسا ہمیشہ سے کتراتا رہا ہے۔ جو اس نے جوابات دیئے بھی ہیں وہ بھی نامکمل اور غیرشعوری ہیں۔
#fakemoonlanding
#معلومات #عالمی_معلومات #دنیا_بھر_کی_معلومات #جہان_کی_تازہ_معلومات #دنیا_کی_تحریریں #عالمی_خبریں #دنیا_کی_تاریخ #جغرافیائی_معلومات #دنیا_بھر_کے_سفر_کی_کہانیاں #عالمی_تجارت #عالمی_سیاست #تاریخ #اردو #اردو_معلومات #اردوادب
#Infotainment #information #History #WorldHistory #GlobalIssues #SocialTopics #WorldPolitics #Geopolitics #InternationalRelations #CulturalHeritage #WorldCulture #GlobalLeadership #CurrentAffairs #WorldEconomy #Urdu
بہرحال ہر انسان کے سوچنے کا انداز مختلف ہوتا ہےمیرے موقف سے ہر ایک کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
#urdu shayari#urdu poetry#urdu#urdu shairi#urdupoetry#urdu quote#urdu poem#urduadab#poetry#urdu adab#urdu sher#urdu poems#urdu literature#urduposts#urdualfaz#urdushayri#urdushayari#اردو شعر#اردو غزل#اردو شاعری#اردو#اردو ادب#اردو زبان#اردو خبریں#حقیقت#realislam#reality
2 notes
·
View notes
Text
ایک فلسفہ کتابوں میں ہے اور ایک فلسفہ عملی زندگی میں ہے ۔ دلچسپ امر ہے یہ کہ عملی زندگی لمحہ بہ لمحہ بدلتا رہتا ہے تب اس کا فلسفہ تروتازہ رہتا ہے لیکن کتابی فلسفہ اور نظریہ اپنے عملی شکل کے انتظار میں بوڑھا ہو جاتا ہے اور اس دوران انتہائی رجعت پسند ، سخت دقیق اور غیر متغیر ہوتا ہے.
A philosophy is in books and a philosophy is in practical life. Interesting thing is that practical life changes moment by moment then its philosophy remains fresh but book philosophy and theory grows old in waiting for its practical form and Duran is highly retroactive, strictly precise and consistent.
4 notes
·
View notes
Text
وقفےسے ملا کرو محبت بھڑتی ہے
قدر کھو دیتا ہے نہ ہر روز کا آنا جانا
اور بڑی دلچسپ ہوتی ہیں
بےترتیب ملاقاتیں
0 notes
Text
یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹ کا پہلا دن:
جونیئرز کی آزمائش اور سینیئرز کی
شرارتیں ۔

یونیورسٹی کا پہلا دن ہمیشہ ایک یادگار تجربہ ہوتا ہے، جسے اکثر ہم زندگی کے اہم موڑ میں شمار کرتے ہیں۔ یہ دن ایک نئی دنیا کے دروازے کو کھولنے کی طرح ہوتا ہے، جہاں نئی جگہ، نئے لوگ، اور نئی امیدیں آپ کا استقبال کرتی ہیں۔ لیکن جب بات جونیئرز کی ہو، تو ان کا پہلا دن کچھ خاص آزمائشوں اور سینیئرز کی شرارتوں سے بھرا ہوتا ہے۔ یہ وہ دن ہوتا ہے جب آپ کی یونیورسٹی کی زندگی کی پہلی پرت کھلتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک دنیائے عجیب و غریب کا آغاز ہوتا ہے۔
یونیورسٹی میں قدم رکھتے ہی ۔

جیسے ہی آپ یونیورسٹی کے احاطے میں قدم رکھتے ہیں، ایک عجیب سا کیفییت محسوس ہوتی ہے۔ آپ نے اسکول اور کالج کی زندگی کو پیچھے چھوڑا ہے، اور اب آپ ایک ایسے نئے ماحول میں ہیں جہاں سب کچھ نیا اور غیر متوقع ہے۔ نئے دوست بنانے کی امیدیں، سیکھنے کا جوش، اور کیریئر کے حوالے سے نئے خواب سب آپ کے دماغ میں گردش کرتے ہیں۔ مگر اس تمام جوش کے ساتھ، پہلا دن کچھ خوف اور الجھن کا سامنا بھی کراتا ہے۔
جونیئرز کی آزمائش ۔
یونیورسٹی کا پہلا دن جونیئرز کے لیے بالکل ایک امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ ہالز میں گھومنا، مختلف محکموں میں جانا، اور خود کو ن��ے ماحول میں ڈھالنا ایک پیچیدہ عمل ہوتا ہے۔ پھر اگر آپ کا تعلق کسی بڑی یونیورسٹی سے ہو، جہاں سینکڑوں نئے لوگ آپ کے ساتھ ایک ہی دن میں داخل ہو رہے ہوں، تو اور بھی زیادہ الجھن کا سامنا ہوتا ہے۔
ایک اور بات جو جونیئرز کے لیے نئی ہوتی ہے، وہ ہوتی ہے یونیورسٹی کی روایات اور ان کے ساتھ جڑنے والی آزمائشیں۔ اس دن، سینئرز کی نظروں میں آپ ایک نیا چہرہ ہوتے ہیں، اور آپ کے لیے یہ دن کچھ نہ کچھ خاص چیلنجز لے کر آتا ہے۔ بعض اوقات آپ کو ان کی طرف سے ہلکے پھلکے مذاق کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، جو آپ کی شخصیت کا امتحان لیتا ہے۔
سینیئرز کی شرارتیں ۔
یونیورسٹی میں نئے آنے والے جونیئرز کو خوش آمدید کہنے کا ایک اپنا ہی مزہ ہوتا ہے، خاص طور پر سینئرز کے لیے۔ وہ جونیئرز کو چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگا کر، یا ان سے ہلکے پھلکے مذاق کر کے ایک طرح سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ کبھی آپ سے کینٹین میں کچھ چیز منگوائی جاتی ہے، تو کبھی آپ کو گروپ فوٹو کے لیے بلا لیا جاتا ہے، اور کبھی آپ کو بس یونہی بیزار کرنے کے لیے مختلف چیلنجز دے دیے جاتے ہیں۔ یہ شرارتیں، جو بظاہر مذاق لگتی ہیں، دراصل آپ کی یونیورسٹی کی دنیا کا حصہ بننے کا ایک انداز ہوتا ہے۔
سینیئرز کے لیے یہ ایک طریقہ ہوتا ہے تاکہ نئے جونیئرز میں یونیورسٹی کی روایات اور تعلقات کا آغاز ہو سکے۔ لیکن بعض اوقات یہ شرارتیں حد سے بڑھ بھی سکتی ہیں، اور پھر جونیئرز کے لیے اس کا سامنا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تاہم، یہ شرارتیں عام طور پر محض تفریح کے لیے ہوتی ہیں، اور جلد ہی سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے۔
یونیورسٹی کی پہلی کلاس اور پروفیسرز ۔
یونیورسٹی کا پہلا دن صرف سینئرز کی شرارتوں اور جونیئرز کی آزمائشوں تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ اس دن آپ کو اپنی پہلی کلاس میں بھی داخل ہونا ہوتا ہے۔ پروفیسرز سے ملاقات ہوتی ہے، اور آپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اب آپ واقعی بڑے ہو گئے ہیں۔ کلاس روم میں داخل ہوتے وقت، ایک عجیب سی سنجیدگی اور پروفیشنلزم کا ماحول ہوتا ہے، لیکن جونیئرز کے لیے یہ سب نیا ہوتا ہے، اور کچھ وقت لگتا ہے جب وہ اس ماحول کے عادی ہو پاتے ہیں۔
دوستی کا آغاز ۔
یونیورسٹی کا پہلا دن کئی اہم تعلقات اور دوستیوں کی ابتدا بھی ہوتا ہے۔ جب آپ ہالز میں اکیلے گھوم رہے ہوتے ہیں یا کسی نئے گروپ کا حصہ بن رہے ہوتے ہیں، تو اس دوران آپ کو اپنی نوعیت کے لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے۔ آپ کے ساتھ ہی جتنے بھی لوگ نئے آئے ہوتے ہیں، وہ سب بھی کسی نہ کسی طرح نئے تجربات کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اسی دوران دوست بننا آسان ہوتا ہے، کیونکہ آپ سب کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے: ایک دوسرے کا ساتھ دینا اور نئے ماحول میں خود کو ڈھالنا۔
یونیورسٹی کا پہلا دن واقعی ایک یادگار تجربہ ہوتا ہے، جہاں آپ جونیئرز کی آزمائشوں سے گزرتے ہیں اور سینیئرز کی شرارتوں کا سامنا کرتے ہیں، لیکن ان سب میں ایک اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی کی نئی اور دلچسپ شروعات کر رہے ہیں۔ یہ دن آپ کی شخصیت کو نکھارنے، آپ کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنے، اور نئے تعلقات بنانے کا موقع ��راہم کرتا ہے۔ اگرچہ یہ دن کبھی کبھار تھوڑا الجھا ہوا یا ڈراونا لگ سکتا ہے، لیکن یہ یقینی طور پر آپ کی یونیورسٹی کی زندگی کی سب سے بہترین یادوں میں سے ایک بن جاتا ہے۔
تحریر : فاطمہ نسیم
تاریخ : 12 دسمبر 2024
0 notes
Text
مریم کا سموگ پر خط لکھنے کا بیان بھارتی وزیر اعلیٰ پنجاب کا دلچسپ ردعمل آگیا
نئی دہلی (ویب ڈیسک) وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی جانب سے سموگ کے معاملے پر بھارت کو خط لکھنے کا عندیہ دیے جانے پر بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے ردعمل دے دیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں پنجاب کی وزیر اعلیٰ کہتی ہیں کہ میں خط لکھوں گی کہ آپ کا دھواں لاہور آتا ہے۔بھگونت مان نے کہا کہ دوسری جانب دہلی والے کہتے ہیں کہ…
0 notes
Text
اسرائیل میں قدیم مصری تعویذ دریافت
ایک 12 سالہ لڑکی نےاسرائیل میں فیملی کےساتھ سفر کے دوران 3500 سال قدیم مصری تعویذ دریافت کرلی۔ اسرائیل کےنوادرات کی اتھارٹی نےایک پریس ریلیز میں کہا کہ ڈیفنی فلشٹینرنامی لڑکی اسرائیل کےہاشارون میں تل قنا کے آثار قدیمہ کےمقام کےقریب اپنےخاندان کےساتھ پیدل سفر پر تھی کہ تبھی اسےیہ تعویذ ملی۔ ڈیفنی نےبتایا کہ میں نیچے زمین کی طرف دیکھ رہی تھی تاکہ ہموارکنکریاں تلاش کروں کہ اچانک میں نے ایک دلچسپ…
0 notes
Text
نعمتوں کی ناقدری
رب العالمین کا فرمان ہے کہ ’’قتل الانسان ما اکفرہ‘‘ ترجمہ: ’’اللہ کی مار انسان پر، کیسا ناشکرا ہے‘‘ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں بے شمار نعمتوں کے مالک ہیں اور اکثر نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سوں کے تو ہم لائق ہی نہیں ہیں، لیکن انسان میں بہت بڑی کمزوری پائی جاتی ہے جسے ’’ناشکری‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے انسان بہت سی حاصل شدہ نعمتوں کی طرف بھی توجہ نہیں کرتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان حاصل شدہ نعمتوں میں بہت سی ایسی ہیں جن کے لیے انسان اپنی زندگی کے ایک دور تک ہمیشہ آرزو مند رہتا ہے، گڑگڑا کر دعائیں کرتا ہے، خیالات، سوچ، فکر، امنگ، چاہت اور احساس سب اس نعمت کے حصول کے گرد گھومتے تھے۔ جان بوجھ کر ایسا سوچتا تھا کہ اس نعمت کے حاصل ہونے کے بعد کا منظر کیسا ہو گا، وہ کیسا وقت ہو گا اور لوگ نجانے کیا کچھ کہیں گے، بس زندگی کا نقشہ ہی بدل جائے گا، پھر بس کچھ چاہنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔ کاش یہ ہو جائے، کاش یہ مل جائے، کاش یہ اب مل ہی جائے۔
لیکن پھر وہ وقت زندگی میں آہی جاتا ہے اور دیر سویر وہ نعمت مل ہی جاتی ہے اور اس ناشکرے کمزور انسان کی خواہش، تمنا، آرزو پوری ہو جاتی ہے۔ قدرت بھی یہ منظر دیکھنے کو آجاتی ہے کہ دیکھیں اب اس کا ردعمل کیا آتا ہے، اب یقیناً یہ چین و سکون اور اطمینان سے رہ رہا ہو گا، اب تو یہ شکر کے گیت گاتا ہو گا لیکن انسان قرآنی گواہی کو سچا ثابت کرتے ہوئے اس موقع پر پھر سے افسردہ، حیران و پریشان خیالوں میں غرق ہوتا نظر آتا ہے۔ اور اسے جھنجھوڑ کر جب پوچھا جاتا ہے تو وہ کسی اور نعمت کے حاصل کرنے کی تمنا میں مگن ہو کر اپنی اصلیت دکھا دیتا ہے۔ سورۃ عادیات میں رب کا فرمان ہے ’’ان الانسان لربہ لکنود‘‘ ترجمہ: ’’ بے شک انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے‘‘۔ اس آیت کی تفسیر میں لفظ ’’کنود‘‘‘ سے مراد یہی انسان ہے جو حاصل نعمتوں کو بھول جاتا ہے اور لاحاصل نعمتوں کی یاد میں زندگی گزارتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ کسی ناقدرے کو کتنا ہی قیمتی تحفہ کیوں نہ دیا جائے وہ اس کی نظر میں بے قیمت ہی رہتا ہے۔ بالکل یہی رویہ انسان کا ہے۔ یہ رب کی بہت سی نعمتوں کے لائق ہی نہیں ہے، لیکن رب العالمین اپنے فضل کی بارش کرتا رہتا ہے۔ اگر یہ انسان قدردان ہوتا تو فضلِ الٰہی کے ایک ایک لمحے کے بدل اپنا سب کچھ وار دیتا۔ یہ اس کی ناشکری طبیعت ہی ہے جو اسے فضل عظیم کرنے والی ذات کی قدر سے روکے ہوئے ہے۔ حاصل کی ناقدری اور لاحاصل کی تمنا انسان کو بہت بڑے دھوکے میں ڈال دیتی ہے۔ وہ غوروفکر کرنا گوارا نہیں کرتا کہ اس کے پاس اس وقت کیا کچھ نعمتیں موجود ہیں، وہ اپنی پرستش میں ایسا گم ہے کہ اسے کوئی اور نظر نہیں آتا۔ ذرا شکر کی آنکھ کھلے تو یہ دیکھے کتنے لوگ بے اولاد ہیں لیکن یہ صاحب اولاد ہے۔ کتنے بے روزگار ہیں لیکن یہ برسر روزگار ہے۔ کتنے بے گھر ہیں لیکن یہ ایک چھت تلے زندگی گزار رہا ہے۔ کتنے معذور ہیں اور یہ دنیا کے پیچھے دوڑ دوڑ کر تھکتا نہیں۔ کتنے ایسے ہیں جو آنکھ، بال، دل، گردہ، گلا، مثانہ، معدہ، کینسر اور کئی خطرناک اور لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن یہ صحت کی دولت لیے گھوم پھر رہا ہے۔
کتنے ایسے ہیں کہ مرچکے لیکن یہ اب تک قیمتی سانسوں کا مالک ہے اور اب بھی شکر کر کے اپنے لیے کیا سے کیا نہیں کر سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی صحبت، اپنی سوچ اور اپنے رویے کا ازسرنو جائزہ لیں اور ذرا سوچیں کہ کیا کچھ ہے میرے پاس جو بہت سوں کے پاس نہیں ہے۔ اگر انسان اس تجربے سے کامیاب گزرا تو زندگی کا مزہ ہی دوبالا ہو جائے اور بہت سے لایعنی مسائل اس تحریر کے مکمل پڑھنے سے پہلے ہی دم توڑ دیں گے۔
مولانا عبدالمتین
0 notes
Text
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد امریکا کیسا ہو گا؟
امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی جماعت ریپبلکن پارٹی کی شاندار کامیابی کے بعد اب امریکا کیسا ہو گا؟ یہ سوال امریکا سمیت دنیا بھر میں گردش کر رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نے امریکی اور بین القوامی سیاسی منظر نامے میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں عوام کی بڑی تعداد نے ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ طرزِ سیاست اور تبدیل شدہ امریکی پالیسیوں کو واپس لانے کی خواہش ظاہر کی۔
صدارتی الیکشن جیتنے والے ٹرمپ سے متعلق دلچسپ حقیقت امریکا میں ووٹرز کی اکثریت معاشی مسائل، امیگریشن قوانین کی سختی اور امریکی حکومت میں ڈرامائی تبدیلیاں چاہتی تھی، جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے منشور میں جگہ دی اور پھر کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ اس کامیابی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسی حکومت کی تشکیل کا ارادہ رکھتے ہیں جو ان کے مخالفین پر کڑی نظر رکھے، بڑے پیمانے پر تارکینِ وطن کو نکالے اور امریکی اتحادیوں کے لیے سخت پالیسی بنائے۔ مذکورہ اقدامات کے ذریعے ٹرمپ ایک مضبوط امریکی قوم کا جو نظریہ پیش کر رہے تھے وہ نوجوان ووٹرز میں مقبول ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی حکومت میں کوئی روایتی رکاوٹ نہیں ہو گی کیونکہ انہوں نے پہلے سے ہی اپنی ایڈمنسٹریشن میں وفادار افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کرنے کا عندیہ دیا ہے جو ان کے ہر حکم کو نافذ العمل کریں گے۔ اب صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکی سیاست کے مستقبل پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں اور یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ وہ اپنی پالیسیوں پر کس حد تک عمل کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
صدارتی انتخابات کے نتائج کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے 295 الیکٹورل ووٹس کے ساتھ برتری حاصل کی ہے جبکہ کملا ہیرس کو صرف 226 الیکٹورل ووٹس ملے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی اہم ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 270 الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے ہوتے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی نے سینیٹ کی 52 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور ڈیموکریٹس پارٹی 43 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی، یوں اب ریپبلکن پارٹی کو سینیٹ میں اکثریت حاصل ہے۔ ایوان نمائندگان کانگریس میں ریپبلکن پارٹی نے 222 نشستیں حاصل کیں جبکہ ڈیموکریٹس پارٹی کو 213 نشستوں پرکامیابی ملی یعنی ریپبلکن پارٹی کو معمولی برتری حاصل ہے۔ ریاستی سطح پر گورنرز کی تعداد دیکھیں تو ریپبلکن پارٹی کے 27 امیدوار بطور گورنر منتخب ہوئے جبکہ ڈیموکریٹس پارٹی کے 23 امیدوار کامیاب ہوئے۔
جب ریپبلکن پارٹی نے ایوانِ نمائندگان کانگریس میں اکثریت حاصل کر لی ہے تو قانون سازی میں ان کا غلبہ متوقع ہے اور سینیٹ میں بھی ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اس لیے ڈیموکریٹس پارٹی کے لیے کسی بھی بل کی منظوری میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح گورنرز کی تعداد میں بھی ریپبلکن پارٹی کی برتری برقرار ہے، لیکن ڈیموکریٹس پارٹی نے واشنگٹن، ڈیلاویئر اور نارتھ کیرولائنا جیسی اہم ریاستوں میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور گورنرز ریاستوں کی سطح پر اہم فی��لوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جن میں تعلیم، صحت اور گن کنٹرول جیسے موضوعات شامل ہیں تو یہ ترتیب ڈونلڈ ٹرمپ کے آئندہ ایجنڈے پر اثر ڈال سکتی ہے۔ حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد امریکی عوام کو ریپبلکن پارٹی کی حکمتِ عملی سے جو توقعات ہیں ان میں معاشی اصلاحات، امیگریشن کنٹرول اور امریکا کی عالمی پوزیشن کو دوبارہ مضبوط کرنا شامل ہیں۔
کانگریس اور سینٹ میں اکثریت ہونے کی وجہ سے ریپبلکن پارٹی کو اپنے قوانین اور پالیسیز نافذ کرنے میں ڈیموکریٹس پارٹی کی مخالفت کا سامنا کم کرنا پڑے گا۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں امریکی عوام ٹیکس میں چھوٹ، قومی سلامتی میں سختی اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ محتاط رویہ اختیار کیے جانے کی توقع کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ڈیموکریٹس پارٹی شکست کے بعد اب ایک چیلنجنگ پوزیشن میں آ گئی ہے جہاں انہیں ایوان میں اپنے ایجنڈے کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی زبردست حکمتِ عملی اپنانی ہو گی کیونکہ وہ مستقبل میں اپوزیشن کی حیثیت سے کام کریں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر بعض اقدامات کو روکنے کے لیے مختلف فورمز پر اپنی آواز بھی بلند کریں۔ حالیہ صدارتی انتخابات امریکی سیاسی نظام کے مستقبل کو ایک نئی سمت کی طرف لے گئے ہیں اور عوام کے لیے یہ تبدیلی کئی اہم معاملات پر اثر انداز ہو گی۔
ٹرمپ کی پالیسیاں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کا مرکز سب سے پہلے امریکا ہے اور ان کی معاشی پالیسی امریکا میں کاروبار اور ملازمتوں کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس کٹوتیاں اور تجارتی معاہدوں میں ترامیم ہیں جن کا مقصد ملک کی معیشت کو مضبوط بنانا ہے۔
ٹرمپ کی خارجہ پالیسی ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں نیٹو اور عالمی اداروں میں امریکی اخراجات پر نظر، چین کے ساتھ تجارتی جنگ، ایران پر دباؤ ڈالنا اور مشرق وسطیٰ میں امریکا کی موجودگی کو کم کرنا ہے۔ وہ امیگریشن پالیسی میں سرحدی حفاظت اور غیر قانونی امیگریشن روکنے کے لیے سخت اقدامات اور دیوار کی تعمیر پر زور بھی دیتے ہیں۔
ماحولیاتی پالیسی ماحولیاتی پالیسی میں ڈونلڈ ٹرمپ صنعتی ترقی کے لیے ماحولیاتی پابندیوں کو کم کر کے اور پیرس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرناچاہیں گے، یہ تمام پالیسیاں بقول ان کے امریکی معیشت، سماج، اور دفاع کو مستحکم بنانے کے لیے ہیں۔
ٹرمپ کے مسلمانوں کے بارے میں خیالات ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات کی روشنی میں یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ مسلمان کاروباری افراد اور نوجوانوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔
ٹرمپ سپریم کورٹ پر کیسے اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت دہائیوں تک سپریم کورٹ میں قدامت پسند اکثریت کو یقینی بنا سکتی ہے، ویسے وہ اپنے پہلے پچھلے دورِ اقتدار میں 3 سپریم کورٹ کے ججز تعینات کر چکے ہیں جبکہ اب اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں انہیں مزید 2 ججز نامزد کرنے کا بھی موقع مل سکتا ہے جس سے ایک ایسی سپریم کورٹ تشکیل پائے گی جس میں ان کے تعینات کردہ ججز کی اکثریت دہائیوں تک قائم رہے گی۔ یہ فیصلہ کن نتیجہ عدالت کو انتخابی تنازعات میں الجھنے سے محفوظ رکھے گا اور اس سے امیگریشن جیسے اہم معاملات کے مقدمات کی نوعیت بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس وقت امریکی سپریم کورٹ میں 2 معمر ترین ججز موجود ہیں جن میں 76 سالہ جسٹس کلیرنس تھامس اور دوسرے 74 سالہ جسٹس سیموئل الیٹو ہیں گو کہ امریکا میں ججز کی تعیناتی تاحیات ہوتی ہے لیکن یہ دونوں اپنی عمر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ریٹائر بھی ہو سکتے ہیں۔ یوں ڈونلڈ ٹرمپ کو اگر 2 نئے ججز تعینات کرنے کا موقع ملا تو وہ ایسے ججز نامزد کریں گے جو جسٹس کلیرنس تھامس اور جسٹس سیموئل الیٹو سے تقریباً 3 دہائیاں کم عمر ہوں اور اس طرح سپریم کورٹ پر طویل عرصے تک قدامت پسندانہ ججز کا غلبہ یقینی ہو گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
"چیلنجز ہی زندگی کو دلچسپ بناتے ہیں، اور ان پر قابو پانا ہی زندگی کو بامقصد بناتا ہے۔"
یہ قول اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ زندگی کی رنگینی اور معنی چیلنجز اور مشکلات کا سامنا کرنے اور انہیں عبور کرنے میں ہے۔ جب ہم مشکلات کو پار کرتے ہیں تو ہماری زندگی کو ایک نیا مقصد، تجربہ اور کامیابی کا احساس ملتا ہے۔ یہ مشکلات ہی ہمیں مضبوط، باہمت اور قابل بناتی ہیں، اور یہی سفر ہماری زندگی کو معنی اور اہمیت بخشتا ہے۔
1 note
·
View note