#ردعمل
Explore tagged Tumblr posts
topurdunews · 2 months ago
Text
ہنٹربائیڈن کی معافی پر نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ  کا ردعمل بھی آ گیا
واشنگٹن(ڈیلی پاکستان آن لائن)امریکی صدر جوبائیڈن کےبیٹے ہنٹربائیڈن کی معافی پر نومنتخب صدر ڈونلڈٹرمپ کا ردعمل بھی آگیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے ہنٹربائیڈن کی معافی کو انصاف کا غلط استعمال قرار دیدیا۔ ٹرمپ کے ترجمان سٹیون چیونگ نے بیان میں کہا ہے کہ ڈیموکریٹ کے زیرکنٹرول محکمہ انصاف جسٹس سسٹم کو نشانہ بنانے کا مجرم ہے،انصاف کا نظام درست  کرکے تمام امریکیوں کیلئے بحال کیا جانا چاہئے…
0 notes
apnibaattv · 2 years ago
Text
گیری لائنکر کے ساتھ 'یکجہتی': بی بی سی نے پیش کنندہ کو ہٹانے پر ردعمل | پناہ گزینوں کی خبریں۔
بی بی سی نے انگلینڈ کے سابق فٹ بال کپتان کو لے لیا ہے۔ گیری لائنکر آف دی ایئرحکومتی عہدیداروں کی جانب سے برطانیہ کے پبلک براڈکاسٹر سے ان کی پناہ کے متلاشیوں کی پالیسی پر “کشتیوں کو روکنے” پر لائنکر کی تنقید پر کارروائی کرنے کے بعد، اس سے اس کا فلیگ شپ میچ آف دی ڈے پروگرام پیش کرنے سے پیچھے ہٹنے کو کہا۔ اس ہفتے برطانیہ ایک نئے قانون کی تفصیلات کا اعلان کیا۔ یہ پناہ کے متلاشیوں کو، جو چینل کے اس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 28 days ago
Text
وزیر دفاع خواجہ آصف کا افغانستان کےقائم مقام وزیرخارجہ کےبیان پرسخت ردعمل،تمام الزامات مسترد کردیے
وزیر دفاع خواجہ آصف نے افغانستان کےقائم مقام وزیرخارجہ کےبیان پرسخت ردعمل دیتے ہوئے تمام الزامات مسترد کردیے کہا یہ  پاکستان پرملبہ ڈالنےکی کوشش ہیں۔ مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما خواجہ آصف نے کہا یواین مانیٹرنگ ٹیم کی رپورٹ کےمطابق افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی، القاعدہ، داعش سمیت دو درجن سےزائد دہشت گرد گروپ آپریٹ کررہےہیں جبکہ افغانستان 2024 میں داعش کی بھرتیوں اور سہولت کاری کا مرکز بھی  رہا…
0 notes
urdu-poetry-lover · 6 months ago
Text
کبھی کبھار تمہاری خواہش ہوتی ہے کہ تم سمجھو نہیں، کہ تم باریک بینی سے مشاہدہ نہ کرو، کہ چیزوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، کہ تم خاموش رہو بغیر کوئی ردعمل ظاہر کیے۔
اکثر اوقات، لاعلمی نقصان کو کم کر دیتی ہے۔
6 notes · View notes
0rdinarythoughts · 2 years ago
Text
کسی بھی چیز کو خود پر سوار نہ کریں ۔ آپ کی وجہ سے لوگ کچھ نہیں کرتے۔ لوگ جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں وہ ان کی اپنی حقیقت، ان کے اپنے خواب کا ردعمل ہے۔ جب آپ دوسروں کی رائے سے محفوظ رہتے ہیں،
Don't put anything on yourself.People don't do anything because of you.What people say and do is a reaction to their own reality, their own dream.When you are safe from the opinions of others,
تو آپ غیر ضروری مصائب کا شکار نہیں ہوں گے۔
So you won't suffer unnecessary misery.
~ Don Miguel Ruiz
(Book: Four Agreements)
14 notes · View notes
risingpakistan · 1 year ago
Text
’مغربی میڈیا غزہ میں اپنے صحافی ساتھیوں کو بھی کم تر سمجھ رہا ہے‘
Tumblr media
عالمی میڈیا جیسے بی بی سی، سی این این، اسکائے نیوز اور یہاں تک کہ ترقی پسند اخبارات جیسے کہ برطانیہ کے گارجیئن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی ساکھ خراب ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں تقریباً 400 فوجیوں سمیت 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے آنے والے غیر متناسب ردعمل کے حوالے سے ان صحافتی اداروں کی ادارتی پالیسی بہت ناقص پائی گئی۔ حماس کے عسکریت پسند اسرائیل سے 250 کے قریب افراد کو یرغمالی بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسرائیلی جیلوں میں قید 8 ہزار فلسطینیوں میں سے کچھ کی رہائی کے لیے ان یرغمالیوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید ان فلسطینیوں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، ان میں ایک ہزار سے زائد قیدیوں پر کبھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ انہیں صرف ’انتظامی احکامات‘ کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہیں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ غزہ شہر اور غزہ کی پٹی کے دیگر شمالی حصوں پر اسرائیل کی مشتعل اور اندھی کارپٹ بمباری میں 14 ہزار فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں سے 60 فیصد سے زیادہ خوات��ن اور بچے تھے جبکہ امریکی قیادت میں مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی جانب سے کیے گئے قتل عام، یہاں تک کہ نسل کشی کی یہ کہہ کر حمایت کی ہے کہ وہ اپنے دفاع کے حق کا استعمال کررہا ہے۔
افسوسناک طور پر ان صحافتی اداروں میں سے بہت سی تنظیموں نے اپنی حکومتوں کے اس نظریے کی عکاسی کی جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازع کی ابتدا 7 اکتوبر 2023ء سے ہوئی نہ کہ 1948ء میں نکبہ سے کہ جب فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا۔ چونکہ ان کی اپنی حکومتیں قابض اسرائیل کے نقطہ نظر کی تائید کر رہی تھیں، اس لیے میڈیا اداروں نے بھی اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو لے لیجیے، ان اعداد و شمار کو ہمیشہ ’حماس کے زیرِ کنٹرول‘ محکمہ صحت سے منسوب کیا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے شکوک پیدا ہوں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر ہیومن رائٹس واچ اور غزہ میں کام کرنے والی چھوٹی تنظیموں تک سب ہی نے کہا کہ حماس کے اعداد و شمار ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن اعداد و شمار میں تبدیلی تو اسرائیل کی جانب سے کی گئی جس نے حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے اسرائیلیوں کی ابتدائی تعداد کو 1400 سے کم کر کے 1200 کر دیا۔ تاہم میڈیا کی جانب سے ابتدائی اور نظر ثانی شدہ اعداد وشمار کو کسی سے منسوب کیے بغیر چلائے گئے اور صرف اس دن کا حوالہ دیا گیا جس دن یہ تبدیلی کی گئی۔
Tumblr media
یہ تبدیلی اس لیے کی گئی کیونکہ اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ حماس نے جن کیبوتز پر حملہ کیا تھا ان میں سے کچھ جلی ہوئی لاشیں ملی تھیں جن کے بارے میں گمان تھا کہ یہ اسرائیلیوں کی تھیں لیکن بعد میں فرانزک ٹیسٹ اور تجزیوں سے یہ واضح ہوگیا کہ یہ لاشیں حماس کے جنگجوؤں کی ہیں۔ اس اعتراف کے باوجود عالمی میڈیا نے معتبر ویب سائٹس پر خبریں شائع کرنے کے لیے بہت کم کام کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی ریڈیو پر ایک عینی شاہد کی گواہی کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ان گھروں کو بھی نشانہ بنایا جہاں حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا یوں دھماکوں اور اس کے نتیجے میں بھڑک اٹھنے والی آگ میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی اپاچی (گن شپ) ہیلی کاپٹر پائلٹس کے بیانات کے حوالے سے بھی یہی رویہ برتا گیا۔ ان بیانات میں ایک ریزرو لیفٹیننٹ کرنل نے کہا تھا کہ وہ ’ہنیبل ڈائیریکٹوز‘ کی پیروی کررہے تھے جس کے تحت انہوں نے ہر اس گاڑی پر گولی چلائی جس پر انہیں یرغمالیوں کو لے جانے کا شبہ تھا۔ اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ کو صرف ان میں سے کچھ مثالوں کو گوگل کرنا ہو گا لیکن یقین کیجیے کہ مغرب کے مین اسٹریم ذرائع ابلاغ میں اس کا ذکر بہت کم ہوا ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی فوجیوں، عام شہریوں، بزرگ خواتین اور بچوں پر حملہ نہیں کیا، انہیں مارا نہیں یا یرغمال نہیں بنایا، حماس نے ایسا کیا ہے۔
آپ غزہ میں صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوریج کو بھی دیکھیں۔ نیویارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلن والش نے ایک ٹویٹ میں ہمارے غزہ کے ساتھیوں کو صحافت کے ’ٹائٹن‘ کہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو درپیش خطرے کو نظر انداز کیا اور غزہ میں جاری نسل کشی کی خبریں پہنچائیں۔ آپ نے الجزیرہ کے نامہ نگار کے خاندان کی ہلاکت کے بارے میں سنا یا پڑھا ہی ہو گا۔ لیکن میری طرح آپ کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے کم از کم 60 صحافیوں اور ان کے خاندانوں میں سے کچھ کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی علم ہو گا۔ یعنی کہ کچھ مغربی میڈیا ہاؤسز نے غزہ میں مارے جانے والے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کو بھی کم تر درجے کے انسان کے طور پر دیکھا۔ بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہری آبادی کو بے دریغ نشانہ بنانے اور خون میں لت پت بچوں کی تصاویر دنیا کے سامنے پہنچ رہی ہیں، نسل کشی کرنے والے انتہائی دائیں بازو کے نیتن یاہو کو حاصل مغربی ممالک کی اندھی حمایت بھی اب آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے۔
اسپین اور بیلجیئم کے وزرائےاعظم نے واضح طور پر کہا ہے کہ اب بہت ہو چکا۔ اسپین کے پیڈرو سانچیز نے ویلنسیا میں پیدا ہونے والی فلسطینی نژاد سیرت عابد ریگو کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ سیرت عابد ریگو نے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا کہ فلسطینیوں کو قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ پیڈرو سانچیز نے اسرائیل کے ردعمل کو ضرورت سے زیادہ قرار دیا ہے اور فلسطین کو تسلیم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ جن جماعتوں اور امیدواروں نے اسرائیل کو غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ دی ہے وہ اپنے ووٹرز کو گنوا رہے ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کی فتح کا فرق معمولی ہی تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اگر وہ اپنے ’جنگ بندی کے حامی‘ ووٹرز کے خدشات کو دور نہیں کرتے اور اگلے سال اس وقت تک ان ووٹرز کی حمایت واپس حاصل نہیں لیتے تو وہ شدید پریشانی میں پڑ جائیں گے۔
اسرائیل اور اس کے مغربی حامی چاہے وہ حکومت کے اندر ہوں یا باہر، میڈیا پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں۔ ایسے میں ایک معروضی ادارتی پالیسی چلانے کے بہت ہی ثابت قدم ایڈیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس انتہائی مسابقتی دور میں میڈیا کی ساکھ بچانے کے لیے غیرجانبداری انتہائی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا اب روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے اور اگرچہ ہم میں سے ہر ایک نے اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود منفی مواد کے بارے میں شکایت کی ہے لیکن دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان پلیٹ فارمز کے شکر گزار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید غزہ میں جاری نسل کشی کی پوری ہولناکی ان کے بغیر ابھر کر سامنے نہیں آسکتی تھی۔ بڑے صحافتی اداروں کی جانب سے اپنے فرائض سے غفلت برتی گئی سوائے ��ند مواقع کے جہاں باضمیر صحافیوں نے پابندیوں کو توڑ کر حقائق کی رپورٹنگ کی۔ اس کے باوجود یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تھے جنہوں نے اس رجحان کو بدلنے میں مدد کی۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو ہم روایتی میڈیا کو بھی خود کو بچانے کے لیے اسی راہ پر چلتے ہوئے دیکھیں گے۔
عباس ناصر   یہ مضمون 26 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes · View notes
emergingpakistan · 2 years ago
Text
پاکستان کا مستقبل امریکا یا چین؟
Tumblr media
پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک منصوبے کو 10 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری بلاشبہ دونوں ممالک کی دوستی اور دوطرفہ تعلقات کی بہترین مثال ہے۔ چین نے ایسے وقت میں پاکستان میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا جب پاکستان دہشت گردی اور شدید بدامنی سے دوچار تھا اور کوئی بھی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں تھا۔ چین کی جانب سے پاکستان میں ابتدائی 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری 62 ارب ڈالر تک ہو چکی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت اب تک 27 ارب ڈالر کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ سی پیک منصوبوں سے اب تک براہ راست 2 لاکھ پاکستانیوں ��و روزگار کے مواقع ملے اور چین کی مدد اور سرمایہ کاری سے 6 ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ کا حصہ بنی۔ سی پیک کو پاکستان کے مستقبل کے لیے اہم ترین منصوبہ ہے، لیکن منصوبے کے ابتدائی مرحلے میں انفرا اسٹرکچر اور توانائی کے پروجیکٹس کے بعد سی پیک کے دیگر منصوبے سست روی کا شکار ہیں۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں ملک کے چاروں صوبوں میں خصوصی اکنامک زونز کا قیام تھا جس کے بعد انڈسٹری اور دیگر پیداواری شعبوں میں چینی سرمایہ کاری میں بتدریج اضافہ کرنا تھا لیکن اب تک خصوصی اکنامک زونز قائم کرنے کے منصوبے مکمل نہیں کیے جا سکے۔
سی پیک منصوبوں میں سست روی کی ایک وجہ عالمی کورونا بحرا ن میں چین کی زیرو کووڈ پالیسی اور دوسری وجہ امریکا اور مغربی ممالک کا سی پیک منصوبوں پر دباؤ بھی ہو سکتا ہے۔ سی پیک منصوبوں کی ترجیحات اور رفتار پر تو تحفظات ہو سکتے ہیں لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے پیش نظر پاکستان کے پاس چینی سرمایہ کاری کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں۔ پاکستان کا معاشی مستقبل اور موجودہ معاشی مسائل کا حل اب سی پیک کے منصوبوں اور چینی سرمایہ کاری سے ہی وابستہ ہیں۔ گزشتہ ہفتے وزیر مملکت حنا ربانی کھر اور وزیراعظم شہباز شریف کی گفتگو پر مبنی لیک ہونے والے حساس ڈاکومنٹس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو اب چین یا امریکا میں سے کسی ایک کو اسٹرٹیجک پارٹنر چننا ہو گا۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات خصوصا مشرقی وسطی میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد اب چین عالمی سیاست کا محور بنتا نظر آرہا ہے۔
Tumblr media
پاکستان کو اب امریکا اور مغرب کو خوش رکھنے کی پالیسی ترک کر کے چین کے ساتھ حقیقی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرنا ہو گی چاہے اس کے لیے پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعلقات کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ چین کی طرف سے گوادر تا کاشغر 58 ارب ڈالر ریل منصوبے کی پیشکش کے بعد پاکستان کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ اس منصوبے سے نہ صرف پاک چین تعلقات کو اسٹرٹیجک سمت دے سکتا ہے بلکہ اس منصوبے کی بدولت پاکستان چین کو بذریعہ ریل گوادر تک رسائی دیکر اپنے لیے بھی بے پناہ معاشی فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان نے تاحال سی پیک کے سب سے مہنگے اور 1860 کلومیٹر طویل منصوبے کی پیشکش پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کیا پاکستان کے فیصلہ ساز امریکا کو ناراض کر کے چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو طویل مدتی اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں گے یا دونوں عالمی طاقتوں کو بیک وقت خوش رکھنے کی جزوقتی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے؟
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں اشرافیہ کے کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جن کے مفادات براہ راست امریکا اور مغربی ممالک سے وابستہ ہیں۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے بچے امریکا اور مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ ان افراد کی اکثریت کے پاس امریکا اور مغربی ممالک کی دہری شہریت ہے۔ ان کی عمر بھر کی جمع پونجی اور سرمایہ کاری امریکا اور مغربی ممالک میں ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک ہی اشرافیہ کے ان افراد کا ریٹائرمنٹ پلان ہیں۔ یہ لوگ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات کو قربان کر کے چین کے ساتھ طویل مدتی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرے ان کوخوف ہے کہیں روس، ایران اور چین کی طرح پاکستان بھی براہ راست امریکی پابندیوں کی زد میں نہ آجائے، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے ریٹائرمنٹ پلان برباد ہو جائیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہترین خارجہ پالیسی کا مطلب تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات اور معاشی ترقی کے نئے امکانات اور مواقع پیدا کرنا ہے۔ لیکن ماضی میں روس اور امریکا کی سرد جنگ کے تجربے کی روشنی میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ موجودہ عالمی حالات میں پاکستان کے لیے امریکا اور چین کو بیک وقت ساتھ لے کر چلنا ناممکن نظر آتا ہے۔ جلد یا بدیر پاکستان کو امریکا یا چین میں سے کسی ایک کے ساتھ تعلقات کی قربانی کا فیصلہ کرنا ہو گا تو کیوں نہ پاکستان مشرقی وسطیٰ میں چین کے بڑھتے کردار اور اثرورسوخ کو مدنظر رکھتے ہوئے چین کے ساتھ طویل مدتی شراکت داری قائم کرنے کا فیصلہ کرے یہ فیصلہ پاکستان کے لیے مشکل ضرور ہو گا لیکن عالمی حالات یہی بتا رہے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل اب چین کے مستقبل سے وابستہ ہے۔
ڈاکٹر مسرت امین    
بشکریہ ایکسپریس نیوز
3 notes · View notes
winyourlife · 17 days ago
Text
پرسکون زندگی گذارنے کے گُر
Tumblr media
زندگی کسی کی بھی پرسکون نہیں ہوتی، کیونکہ ہر کسی کے راستے میں بہت سی مشکلات اور چیلنجز ہوتے ہیں جن سے روزانہ کی بنیاد پر نمٹنا پڑتا ہے۔ درحقیقت زندگی کو آسان اور پرسکون بنانا پڑتا ہے جس کےلیے تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مشکلات کم نہیں ہوتیں بلکہ ہم ان سے نمٹنے کا طریقہ سیکھ لیتے ہیں اور اپنے آپ کو اس قابل بنا لیتے ہیں کہ پریشانیوں اور مصائب کا سامنا کر سکیں۔ زندگی کو آسان بنانے کےلیے چند گُر ایسے ہیں جو اگر آپ سیکھ لیں تو زندگی میں کسی حد تک خوشگواری کی کیفیت پیدا کی جاسکتی ہے۔
رویوں میں لچک پیدا کیجیے جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے ہمارے خیالات اور نظریات پختہ ہونے لگتے ہیں۔ ہم اپنی باتوں پر ڈٹ جاتے ہیں اور بہت کم کسی دوسرے کی سنتے ہیں۔ ہم دوسروں کو تو تبدیل کرنا چاہتے ہیں لیکن خود اپنی سوچ اور رائے ان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اس رویے سے ہمارے وقار میں کمی آتی ہے۔ زندگی بدلتی رہتی ہے، حالات اور واقعات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے، وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں نئی مہارتیں اور نئی چیزیں سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ساتھ ہی اپنے رویوں کو تبدیل کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔
Tumblr media
اچھا سامع بنیے ہم ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ معلوم ہے اور لوگوں کو ہماری قابلیت کا لازمی علم ہونا چاہیے۔ جبکہ ایسا نہیں ہوتا کیونکہ علم اور مہارت مختلف نوعیت کی ہوتی ہے اور ہمیں اس حقیققت کو قبول کرنا چاہیے۔ ہمیں دوسروں کے علم سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ایسا صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب ہم اچھے سامع ہوں۔ لوگوں کی باتوں کو سنیں۔ ہم بہت سی باتیں محض جواب دینے کے لیے سنتے ہیں ان کو سمجھنے کےلیے نہیں سنتے۔ فوری جواب دینے یا ردعمل سے ہمارا دوسروں پر زیادہ اچھا تاثر نہیں پڑتا۔
دوسروں کو نہ جانچنا یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے۔ ہم دنیا میں طرح طرح کے لوگوں سے ملتے ہیں جن کی عادات مختلف ہوتی ہیں اور ماحول بھی الگ ہوتا ہے۔ تعلیم و تربیت کا فرق بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ کسی کی اچھی بات سے متاثر ہو کر اس پر رشک کرنا یا کسی کی غلطی پر اس کو مکمل ہی غلط سمجھ لینا دانش مندی نہیں۔ جو لوگ دوسروں کو جج کرتے ہیں اور اس کے بعد ان سے تعلقات قائم کرتے ہیں، کوئی بھی ان کا قدردان نہیں ہوتا۔ لوگوں کا اعتماد جیتنے کےلیے ضروری ہے کہ آپ انھیں عزت دیں۔ زندگی میں سمجھوتہ کریں۔ کسی کو عقل کل اور بالکل غلط نہ سمجھیں۔ اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنا پر لوگوں سے ان کی فطرت اور عادت کے مطابق تعلقات قائم کریں۔
دل میں میل نہ رکھنا انسانی فطرت ہے کہ ہم لوگوں کی غلط باتوں سے دل برداشتہ ہوتے ہیں اور ہمیں ان کے رویے تکلیف پہنچاتے ہیں لیکن زندگی گزارنے کےلیے بہت سی تکلیف دہ باتوں کو بھلانا پڑتا ہے تاکہ لوگوں کے ساتھ افہام و تفہیم کے ساتھ بات چیت آگے بڑھائی جاسکے۔ دوسروں کو معاف کرنا زندگی میں ہمارے اپنے سکون کے لیے بہت ضروری ہے۔
بے جا تنقید نہ کرنا یہ ایک ایسی خوبی ہے جو آپ کو بہت جلد ممتاز بنا دیتی ہے۔ دنیا میں ہر شخص بندے کو تعریف چاہیے، تنقید سے ہر کوئی گھبراتا ہے اور خاص طور پر بے جا تنقید کرنے والے کو کوئی پسند نہیں کرتا لیکن تعمیری تنقید ہمیشہ بہت کام بھی آتی ہے اور لوگ اس کا خیر مقدم بھی کرتے ہیں۔
اپنی غلطی پر معذرت خواہ ہونا دوسروں کو معاف کرنا تو اہم ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ اپنی غلطی پر معذرت خواہ ہونا ایک اچھے انسان ہونے کی دلیل ہے۔ تاہم ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ آپ ہر وقت معذرت خواہانہ انداز نہ اپنائیں اور صرف اپنی غلطی ہر ہی معافی مانگیں۔
دوسروں کو توجہ دینا انسان کا ہر رشتہ توجہ اور وقت مانگتا ہے۔ اگر رشتوں کو وقت نہ دیا جائے اور اہمیت کا احساس نہ دلایا جائے تو اچھے تعلقات کبھی قائم نہیں رہ سکتے۔ جو لوگ خود سے وابستہ رشتوں کی قدر کرتے ہیں، انھیں اہمیت دیتے اور ان کا خیال کرتے ہیں وہ پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔
اپنی صحت کا خیال رکھنا آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پرسکون زندگی اور صحت مند جسم کا گہرا تعلق ہے۔ جو شخص اپنی صحت کا خیال نہیں رکھ سکتا وہ کسی دوسرے شخص کا خیال بھی نہیں رکھ سکتا۔ تندرستی ہزار نعمت ہے لہٰذا ہر کسی کو اپنی صحت کا ہر ممکن خیال رکھنا چاہیے۔ پرسکون زندگی کا معیار اور تصور ہر کسی کےلیے مختلف ہوسکتا ہے، لیکن مندرجہ بالا تمام خصوصیات کا ہونا ایک مطمئن زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔
راضیہ سید 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
dpr-lahore-division · 30 days ago
Text
پریس ریلیز
جنوری 10
*مریم نواز جانوروں کے ساتھ سیاسی بونوں اور سیاسی نیم پاگلوں کا بھی علاج کرینگی: عظمیٰ بخاری*
*جو کارکردگی سے مقابلہ نہیں کرسکتے وہ زبان درازی میں مقابلہ کرنا چاہتے ہیں: عظمیٰ بخاری*
*اچنبھے کی بات ہے کہ جعلی پیری مریدی کا کاروبار چلانے والوں کے بچے بھی مریم نواز کو طعنے دینگے: عظمیٰ بخاری*
لاہور () وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ مریم نواز جانوروں کے ساتھ سیاسی بونوں اور سیاسی نیم پاگلوں کا بھی علاج کرینگی۔ جو کارکردگی سے مقابلہ نہیں کرسکتے وہ زبان درازی میں مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔اچنبھے کی بات ہے کہ جعلی پیری مریدی کا کاروبار چلانے والوں کے بچے بھی مریم نواز کو طعنے دینگے۔ پنجاب گڈگورننس ،میرٹ اور کارکردگی میں تمام صوبوں سے لیڈ کررہا ہے۔ مریم نواز پنجاب کا پیسہ پنجاب کے عوام پر خرچ کررہی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بیرسٹر سیف کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ مریم نواز پنجاب کا پیسہ وفاق پر چڑھائی کے لیے خرچ نہیں کررہی۔ مریم نواز کی چند ماہ کی کارکردگی باقی صوبوں کے لیے مثال ہے۔ وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ پنجاب میں کام ہورہا ہے اور نظر بھی آرہا ہے۔مریم نواز کی کارکردگی سے حسد وہ کررہے جو کئی سالوں سے حکومتوں میں بیٹھے ہیں۔ایک جماعت ایک صوبے میں 16سال سے دوسری 12سال سے اقتدار میں ہے مریم نواز صوبے کے وسائل سے لوگوں کو سکالرشپ،گرین ٹریکٹر،لائیوسٹاک کارڈ دے رہی۔ان دونوں سے کارکردگی پوچھیں تو مظلومیت کارڈ اور ذاتیات کارڈ کھیلنا شروع کردیتے۔ نوازشریف کے ویژن اور انکی لیڈرشپ میں پاکستان آگے بڑھ رہا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ شہبازشریف اور مریم نواز کی انتھک محنت سے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں آئی ہیں۔ مشکل وقت گزر چکا اب ترقی اور خوشحالی کا دور شروع ہورہا۔
0 notes
discoverislam · 2 months ago
Text
نعمتوں کی ناقدری
Tumblr media
رب العالمین کا فرمان ہے کہ ’’قتل الانسان ما اکفرہ‘‘ ترجمہ: ’’اللہ کی مار انسان پر، کیسا ناشکرا ہے‘‘ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں بے شمار نعمتوں کے مالک ہیں اور اکثر نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سوں کے تو ہم لائق ہی نہیں ہیں، لیکن انسان میں بہت بڑی کمزوری پائی جاتی ہے جسے ’’ناشکری‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے انسان بہت سی حاصل شدہ نعمتوں کی طرف بھی توجہ نہیں کرتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان حاصل شدہ نعمتوں میں بہت سی ایسی ہیں جن کے لیے انسان اپنی زندگی کے ایک دور تک ہمیشہ آرزو مند رہتا ہے، گڑگڑا کر دعائیں کرتا ہے، خیالات، سوچ، فکر، امنگ، چاہت اور احساس سب اس نعمت کے حصول کے گرد گھومتے تھے۔ جان بوجھ کر ایسا سوچتا تھا کہ اس نعمت کے حاصل ہونے کے بعد کا منظر کیسا ہو گا، وہ کیسا وقت ہو گا اور لوگ نجانے کیا کچھ کہیں گے، بس زندگی کا نقشہ ہی بدل جائے گا، پھر بس کچھ چاہنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔ کاش یہ ہو جائے، کاش یہ مل جائے، کاش یہ اب مل ہی جائے۔
لیکن پھر وہ وقت زندگی میں آہی جاتا ہے اور دیر سویر وہ نعمت مل ہی جاتی ہے اور اس ناشکرے کمزور انسان کی خواہش، تمنا، آرزو پوری ہو جاتی ہے۔ قدرت بھی یہ منظر دیکھنے کو آجاتی ہے کہ دیکھیں اب اس کا ردعمل کیا آتا ہے، اب یقیناً یہ چین و سکون اور اطمینان سے رہ رہا ہو گا، اب تو یہ شکر کے گیت گاتا ہو گا لیکن انسان قرآنی گواہی کو سچا ثابت کرتے ہوئے اس موقع پر پھر سے افسردہ، حیران و پریشان خیالوں میں غرق ہوتا نظر آتا ہے۔ اور اسے جھنجھوڑ کر جب پوچھا جاتا ہے تو وہ کسی اور نعمت کے حاصل کرنے کی تمنا میں مگن ہو کر اپنی اصلیت دکھا دیتا ہے۔ سورۃ عادیات میں رب کا فرمان ہے ’’ان الانسان لربہ لکنود‘‘ ترجمہ: ’’ بے شک انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے‘‘۔ اس آیت کی تفسیر میں لفظ ’’کنود‘‘‘ سے مراد یہی انسان ہے جو حاصل نعمتوں کو بھول جاتا ہے اور لاحاصل نعمتوں کی یاد میں زندگی گزارتا ہے۔
Tumblr media
یہ حقیقت ہے کہ کسی ناقدرے کو کتنا ہی قیمتی تحفہ کیوں نہ دیا جائے وہ اس کی نظر میں بے قیمت ہی رہتا ہے۔ بالکل یہی رویہ انسان کا ہے۔ یہ رب کی بہت سی نعمتوں کے لائق ہی نہیں ہے، لیکن رب العالمین اپنے فضل کی بارش کرتا رہتا ہے۔ اگر یہ انسان قدردان ہوتا تو فضلِ الٰہی کے ایک ایک لمحے کے بدل اپنا سب کچھ وار دیتا۔ یہ اس کی ناشکری طبیعت ہی ہے جو اسے فضل عظیم کرنے والی ذات کی قدر سے روکے ہوئے ہے۔ حاصل کی ناقدری اور لاحاصل کی تمنا انسان کو بہت بڑے دھوکے میں ڈال دیتی ہے۔ وہ غوروفکر کرنا گوارا نہیں کرتا کہ اس کے پاس اس وقت کیا کچھ نعمتیں موجود ہیں، وہ اپنی پرستش میں ایسا گم ہے کہ اسے کوئی اور نظر نہیں آتا۔ ذرا شکر کی آنکھ کھلے تو یہ دیکھے کتنے لوگ بے اولاد ہیں لیکن یہ صاحب اولاد ہے۔ کتنے بے روزگار ہیں لیکن یہ برسر روزگار ہے۔ کتنے بے گھر ہیں لیکن یہ ایک چھت تلے زندگی گزار رہا ہے۔ کتنے معذور ہیں اور یہ دنیا کے پیچھے دوڑ دوڑ کر تھکتا نہیں۔ کتنے ایسے ہیں جو آنکھ، بال، دل، گردہ، گلا، مثانہ، معدہ، کینسر اور کئی خطرناک اور لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن یہ صحت کی دولت لیے گھوم پھر رہا ہے۔ 
کتنے ایسے ہیں کہ مرچکے لیکن یہ اب تک قیمتی سانسوں کا مالک ہے اور اب بھی شکر کر کے اپنے لیے کیا سے کیا نہیں کر سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی صحبت، اپنی سوچ اور اپنے رویے کا ازسرنو جائزہ لیں اور ذرا سوچیں کہ کیا کچھ ہے میرے پاس جو بہت سوں کے پاس نہیں ہے۔ اگر انسان اس تجربے سے کامیاب گزرا تو زندگی کا مزہ ہی دوبالا ہو جائے اور بہت سے لایعنی مسائل اس تحریر کے مکمل پڑھنے سے پہلے ہی دم توڑ دیں گے۔
مولانا عبدالمتین  
0 notes
hassanriyazzsblog · 3 months ago
Text
𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑵𝒂𝒂𝒎 𝒔𝒆, 𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑾𝒂𝒔'𝒕𝒆.
🌹🌹 𝗨𝗡𝗜𝗟𝗔𝗧𝗘𝗥𝗔𝗟 𝗧𝗢𝗟𝗘𝗥𝗔𝗡𝗖𝗘:
♦️"𝘼 𝙟𝙤𝙪𝙧𝙣𝙚𝙮 𝙩𝙤𝙬𝙖𝙧𝙙𝙨 𝙚𝙭𝙘𝙚𝙡𝙡𝙚𝙣𝙘𝙚".♦️
✨ 𝗦𝗲𝘁 𝘆𝗼𝘂𝗿 𝘀𝘁𝗮𝗻𝗱𝗮𝗿𝗱 𝗶𝗻 𝘁𝗵𝗲 𝗿𝗲𝗮𝗹𝗺 𝗼𝗳
𝗹𝗼𝘃𝗲 ❗
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹𝟭𝟬𝟬 𝗣𝗥𝗜𝗡𝗖𝗜𝗣𝗟𝗘𝗦 𝗙𝗢𝗥
𝗣𝗨𝗥𝗣𝗢𝗦𝗘𝗙𝗨𝗟 𝗟𝗜𝗩𝗜𝗡𝗚. 🔹
(ENGLISH/اردو/हिंदी)
8️⃣8️⃣ 𝗢𝗙 1️⃣0️⃣0️⃣
💠 𝗨𝗡𝗜𝗟𝗔𝗧𝗘𝗥𝗔𝗟 𝗧𝗢𝗟𝗘𝗥𝗔𝗡𝗖𝗘:
𝗧𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺ﷺ 𝘀𝗮𝗶𝗱, “𝗙𝗼𝗿𝗴𝗶𝘃𝗲 𝘁𝗵𝗲 𝗼𝗻𝗲 𝘄𝗵𝗼 𝘄𝗿𝗼𝗻𝗴𝘀 𝘆𝗼𝘂.”
(Musnad Ahmad, Hadith No. 17452)
● This is a teaching of great wisdom.
● Oppression can end only with forgiveness. Retaliation and counter oppression can never bring oppression to an end.
● This saying of the Prophet of Islam is a teaching based on result-oriented action.
● If a person commits an act of oppression, the oppressed should first think that his response should be to alleviate rather than increase his oppression.
● By thinking in this manner, the oppressed will find that forgiving the oppressor is the greatest form of revenge.
● Without doubt, forgetting the oppression of the oppressor is the easiest way to end oppression.
● Forgiving the oppressor is not an act of cowardice, rather it pertains to high moral principles.
● One should forgive an oppressor as a matter of principle and not out of helplessness.
🌹🌹And Our ( Apni ) Journey Continues...
-------------------------------------------------------
؏ منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر
8️⃣8️⃣ یکطرفہ ��واداری:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کر دو۔
(مسند احمد، حدیث نمبر 17452)
● یہ بڑی حکمت کی تعلیم ہے۔
● ظلم معافی سے ہی ختم ہو سکتا ہے۔
● انتقام اور جبر کا مقابلہ ظلم کو کبھی ختم نہیں کر سکتا۔
● پیغمبر اسلامﷺ کا یہ قول نتیجہ خیز عمل پر مبنی تعلیم ہے۔
● اگر کوئی شخص ظلم کا ارتکاب کرتا ہے تو مظلوم کو پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ اس کا ردعمل اس کے ظلم کو بڑھانے کے بجائے کم کرنے کے لیے ہونا چاہیے۔
● اس انداز میں سوچنے سے مظلوم کو پتہ چلے گا کہ ظالم کو معاف کرنا انتقام کی سب سے بڑی شکل ہے۔
● بلا شبہ ظالم کے ظلم کو بھول جانا ظلم کو ختم کرنے کا سب سے آسان طریقہ ہے۔
● ظالم کو معاف کرنا بزدلی نہیں ہے، بلکہ یہ اعلیٰ اخلاقی اصولوں سے متعلق ہے۔
● ظالم کو اصولی طور پر معاف کرنا چاہیے نہ کہ بے بسی سے۔
🌹🌹اور ہمارا سفر جاری ہے...
-----------------------------------------------------
8️⃣8️⃣ एकतरफा सहिष्णुता:
पैगम्बरे इस्लामﷺ ने कहा, “जो तुम्हारे साथ गलत करे उसे माफ कर दो।”
(मुसनद अहमद, हदीस नंबर 17452)
● यह बहुत बुद्धिमत्तापूर्ण शिक्षा है।
● अत्याचार केवल क्षमा से ही समाप्त हो सकता है। प्रतिशोध और दमन का प्रतिकार कभी भी अत्याचार को समाप्त नहीं कर सकता।
● इस्लाम के पैगम्बरﷺ का यह कथन परिणामोन्मुखी कार्य पर आधारित शिक्षा है।
● यदि कोई व्यक्ति उत्पीड़न का कार्य करता है, तो उत्पीड़ित व्यक्ति को सबसे पहले यह सोचना चाहिए कि उसकी प्रतिक्रिया उत्पी���़न को बढ़ाने की नहीं, बल्कि उसे कम करने की होनी चाहिए।
● इस प्रकार सोचने पर, उत्पीड़ित व्यक्ति को पता चलेगा कि उत्पीड़क को क्षमा करना बदला लेने का सबसे बड़ा रूप है।
● निस्संदेह, उत्पीड़क के उत्पीडन को भूल जाना ही उत्पीडन को समाप्त करने का सबसे आसान तरीका है।
● अत्याचारी को क्षमा करना कायरता नहीं है, बल्कि यह उच्च नैतिक सिद्धांतों से संबंधित है।
● किसी अत्याचारी को सिद्धांत के आधार पर क्षमा करना चाहिए, न कि मजबूरी के कारण।
🌹🌹और हमारा सफर जारी है...
0 notes
topurdunews · 3 months ago
Text
ریٹائرمنٹ کی افواہوں پر قومی کرکٹ ٹیم کے مڈل آرڈر بیٹر حارث سہیل کا ردعمل آگیا
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) قومی کرکٹ ٹیم کے مڈل آرڈر بیٹر حارث سہیل نے ریٹائرمنٹ سے متعلق افواہوں  کو بےبنیاد قرار دے دیا۔  سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں حارث سہیل نے کہا کہ میں نے ریٹائرمنٹ کا کوئی فیصلہ نہیں کیا اور نہ ہی میرا ایسا کوئی ارادہ ہے، میری پوری توجہ اس کھیل کو جاری رکھنے پر ہے جو مجھے پسند ہے۔ دوسری جانب پاکستان کرکٹ بو��ڈ (پی سی بی) کا بھی کہنا ہے کہ حارث سہیل کی ریٹائرمنٹ کے…
0 notes
urduweb · 3 months ago
Text
صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی جیت! بائیڈن حکومت کی فلسطین اور ایران پر پالیسی کملا ہیرس کو لے ڈوبی
یہ سب اس وقت ایک بڑی سیاسی بحث کا حصہ بن چکا ہے، اور کملا ہیرس کو اب ان پالیسیوں کے خمیازے کا سامنا ہے۔ اگرچہ بائیڈن حکومت نے فلسطین اور ایران کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کی کوشش کی، لیکن ا��ریکی عوام کا ردعمل اور عالمی سطح پر ان پالیسیوں کی مخالفت کملا ہیرس کی انتخابی مہم کو مزید مشکل بنا گیا۔ آخرکار، کملا ہیرس کی انتخابی ناکامی ایک گہرے سیاسی پیغام کا اشارہ ہے کہ امریکی عوام کا ردعمل…
0 notes
googlynewstv · 4 days ago
Text
ٹرمپ کا غزہ پرقبضے کا بیان،حکومت واضح موقف اپنائے،فضل الرحمان
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم نہیں کرتے اور غزہ کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ واضح مؤقف اپنائے۔ جے یو آئی  کے امیر فضل الرحمان کا ٹرمپ کے بیان کے ردعمل میں کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور  اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ملاقات کے دوران غزہ کے بارے میں ہرزہ سرائی پر امت مسلمہ سراپا احتجاج…
0 notes
mnaasilveira · 3 months ago
Link
0 notes
0rdinarythoughts · 2 years ago
Text
Tumblr media Tumblr media
خاموشی اک ردعمل ہے .یہ انسان کے قربت والوں کے ناروا رویوں کا نتیجہ ہے انسان جسمانی اذیت کا درد سہہ لیتا ہے لیکن جب روح گھائل ہو جائے تو خاموشیوں کا راج شروع ہو جاتا ہے
Silence is a reaction This is the result of the unlawful behavior of those close to man. Man bears the pain of physical torture, but when the soul is injured, the rule of silence begins.
Shah Jahan Afridi
16 notes · View notes