#ریٹائرمنٹ
Explore tagged Tumblr posts
topurdunews · 11 days ago
Text
قومی کرکٹر عماد وسیم نے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی
کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن)قومی کرکٹر عماد وسیم نے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق عماد وسیم نے کہاہے کہ کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ اب انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لوں. ان کاکہناتھا کہ دنیا میں پاکستان کی نمائندگی کرنا میرے لئے اعزاز کی بات ہے.  گرین شرٹ پہنی تو وہ لمحات میرے لئے یادگاری رہیں گے.  Source link
0 notes
googlynewstv · 2 months ago
Text
جسٹس فائز عیسیٰ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یوتھیوں کے نشانے پر
بطور چیف جسٹس سوشل میڈیا پر یوتھیوں کی ہتک آمیز کمپینز کا سامنا کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مسلسل عمرانڈوز کے نشانے پر ہیں۔ پی ٹی آئی کارکنان نہ صرف سوشل میڈیا پر انھیں ہدف تنقید بنا رہے ہیں بلکہ لندن کے یوتھیوں نے قاضی فائز عیسی کو معروف تعلیمی ادارے مڈل ٹیمپل میں بطور بینچر شامل کئے جانے پر احتجاج کی کال بھی دے دی ہے۔ مبصرین کے مطابق اگرچہ قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے…
0 notes
emergingpakistan · 2 years ago
Text
پاکستان کا مستقبل امریکا یا چین؟
Tumblr media
پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک منصوبے کو 10 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری بلاشبہ دونوں ممالک کی دوستی اور دوطرفہ تعلقات کی بہترین مثال ہے۔ چین نے ایسے وقت میں پاکستان میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا جب پاکستان دہشت گردی اور شدید بدامنی سے دوچار تھا اور کوئی بھی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں تھا۔ چین کی جانب سے پاکستان میں ابتدائی 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری 62 ارب ڈالر تک ہو چکی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت اب تک 27 ارب ڈالر کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ سی پیک منصوبوں سے اب تک براہ راست 2 لاکھ پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع ملے اور چین کی مدد اور سرمایہ کاری سے 6 ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ کا حصہ بنی۔ سی پیک کو پاکستان کے مستقبل کے لیے اہم ترین منصوبہ ہے، لیکن منصوبے کے ابتدائی مرحلے میں انفرا اسٹرکچر اور توانائی کے پروجیکٹس کے بعد سی پیک کے دیگر منصوبے سست روی کا شکار ہیں۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں ملک کے چاروں صوبوں میں خصوصی اکنامک زونز کا قیام تھا جس کے بعد انڈسٹری اور دیگر پیداواری شعبوں میں چینی سرمایہ کاری میں بتدریج اضافہ کرنا تھا لیکن اب تک خصوصی اکنامک زونز قائم کرنے کے منصوبے مکمل نہیں کیے جا سکے۔
سی پیک منصوبوں میں سست روی کی ایک وجہ عالمی کورونا بحرا ن میں چین کی زیرو کووڈ پالیسی اور دوسری وجہ امریکا اور مغربی ممالک کا سی پیک منصوبوں پر دباؤ بھی ہو سکتا ہے۔ سی پیک منصوبوں کی ترجیحات اور رفتار پر تو تحفظات ہو سکتے ہیں لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے پیش نظر پاکستان کے پاس چینی سرمایہ کاری کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں۔ پاکستان کا معاشی مستقبل اور موجودہ معاشی مسائل کا حل اب سی پیک کے منصوبوں اور چینی سرمایہ کاری سے ہی وابستہ ہیں۔ گزشتہ ہفتے وزیر مملکت حنا ربانی کھر اور وزیراعظم شہبا�� شریف کی گفتگو پر مبنی لیک ہونے والے حساس ڈاکومنٹس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو اب چین یا امریکا میں سے کسی ایک کو اسٹرٹیجک پارٹنر چننا ہو گا۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات خصوصا مشرقی وسطی میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد اب چین عالمی سیاست کا محور بنتا نظر آرہا ہے۔
Tumblr media
پاکستان کو اب امریکا اور مغرب کو خوش رکھنے کی پالیسی ترک کر کے چین کے ساتھ حقیقی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرنا ہو گی چاہے اس کے لیے پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعلقات کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ چین کی طرف سے گوادر تا کاشغر 58 ارب ڈالر ریل منصوبے کی پیشکش کے بعد پاکستان کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ اس منصوبے سے نہ صرف پاک چین تعلقات کو اسٹرٹیجک سمت دے سکتا ہے بلکہ اس منصوبے کی بدولت پاکستان چین کو بذریعہ ریل گوادر تک رسائی دیکر اپنے لیے بھی بے پناہ معاشی فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان نے تاحال سی پیک کے سب سے مہنگے اور 1860 کلومیٹر طویل منصوبے کی پیشکش پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کیا پاکستان کے فیصلہ ساز امریکا کو ناراض کر کے چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو طویل مدتی اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں گے یا دونوں عالمی طاقتوں کو بیک وقت خوش رکھنے کی جزوقتی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے؟
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں اشرافیہ کے کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جن کے مفادات براہ راست امریکا اور مغربی ممالک سے وابستہ ہیں۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے بچے امریکا اور مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ ان افراد کی اکثریت کے پاس امریکا اور مغربی ممالک کی دہری شہریت ہے۔ ان کی عمر بھر کی جمع پونجی اور سرمایہ کاری امریکا اور مغربی ممالک میں ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک ہی اشرافیہ کے ان افراد کا ریٹائرمنٹ پلان ہیں۔ یہ لوگ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات کو قربان کر کے چین کے ساتھ طویل مدتی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرے ان کوخوف ہے کہیں روس، ایران اور چین کی طرح پاکستان بھی براہ راست امریکی پابندیوں کی زد میں نہ آجائے، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے ریٹائرمنٹ پلان برباد ہو جائیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہترین خارجہ پالیسی کا مطلب تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات اور معاشی ترقی کے نئے امکانات اور مواقع پیدا کرنا ہے۔ لیکن ماضی میں روس اور امریکا کی سرد جنگ کے تجربے کی روشنی میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ موجودہ عالمی حالات میں پاکستان کے لیے امریکا اور چین کو بیک وقت ساتھ لے کر چلنا ناممکن نظر آتا ہے۔ جلد یا بدیر پاکستان کو امریکا یا چین میں سے کسی ایک کے ساتھ تعلقات کی قربانی کا فیصلہ کرنا ہو گا تو کیوں نہ پاکستان مشرقی وسطیٰ میں چین کے بڑھتے کردار اور اثرورسوخ کو مدنظر رکھتے ہوئے چین کے ساتھ طویل مدتی شراکت داری قائم کرنے کا فیصلہ کرے یہ فیصلہ پاکستان کے لیے مشکل ضرور ہو گا لیکن عالمی حالات یہی بتا رہے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل اب چین کے مستقبل سے وابستہ ہے۔
ڈاکٹر مسرت امین    
بشکریہ ایکسپریس نیوز
3 notes · View notes
sunonews · 10 days ago
Text
0 notes
risingpakistan · 2 months ago
Text
جسٹس یحییٰ آفریدی کیلئے چیلنجز؟
Tumblr media
یحییٰ آفریدی پاکستان کے نئے چیف جسٹس بن گئے۔ اُنکے ماضی اور اُنکی شہرت کے بارے میں سب جانتے ہیں لیکن اُن کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے جس کا نتیجہ تین سال کے بعد نکلے گا جب وہ ریٹائر ہونگے اور جس کی بنیاد پر اُنہیں یاد رکھا جائے گا، اُن کے پاس ہونے یا فیل ہونے کا فیصلہ ہو گا۔ ججوں نے سیاست بہت کر لی، آزادی اور ’نہ جھکنے والے، نہ ڈرنے والے‘ سچے یا جھوٹے تاثر کے تمغے بھی کچھ نے اپنے سینوں پر سجا لیے اور کچھ یہ تمغے سجانے کیلئے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے فیصلوں میں شیکسپیئرن انگریزی لکھنے، انگریزی ناولوں کا ذکر کرنے اور یہ تاثر دینے کہ میرے جیسا کوئی نہیں کا مقابلہ بھی دیکھ چکے۔ اب خدارا اپنا بنیادی کام بھی کر لیں۔ نئے چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ عدلیہ کو اپنے اصل کام یعنی عوام کو جلد اور سستا انصاف دینے پر بھی لگا دیں۔ اب ٹی وی چینل کے ٹِکرز اور بریکنگ نیوز کو بھول کر اس ملک کے عوام کو انصاف دیں۔ لاکھوں مقدمات جو عدالتوں میں سالہا سال اور دہائیوں سے پڑے ہیں اُن کا فیصلہ کریں۔ لوگ جو کورٹ کچہری کا نام سن کر ڈرتے ہیں اُن کا پاکستان کے عدالتی نظام پر اعتماد بحال کریں۔ 
ہمیں سیاسی جج نہیں چاہئے، ہمیں وہ جج چاہیے جو عوام کو جلد انصاف دے۔ یہ وہ اصل چیلنج ہے جس کا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو سامنا ہے۔ پاکستان کی عدلیہ پر کسی کو اعتماد نہیں۔ اگر ایک طرف عوام اپنے عدالتی نظام سے ��ہت مایوس ہیں تو دوسری طرف دنیا بھر میں بھی ہماری عدلیہ آخری نمبروں پر آتی ہے۔ چند روز قبل رول آف لا کی رپورٹ برائے سال 2024ء میں 142 ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 129واں رہا۔ جس کا مطلب ہے کہ ہمارا حال بہت ہی بُرا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے جس طرح ہماری اعلیٰ عدلیہ خصوصاً سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج ایک دوسرے کو اپنے عدالتی فیصلوں اور خطوط کے ذریعے نشانہ بنا رہے ہیں اُس کی وجہ سے عدالت ِعظمیٰ اور اس کے ججز کے احترام میں بہت کمی ہوئی ہے۔ اس نے ججوں اور اعلیٰ عدلیہ پر لوگوں کو جگ ہنسائی کا موقع فراہم کیا ہے۔ یعنی جج خود اپنے آپ کا اور عدلیہ کے مذاق کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ایسے خط (جن کو فوری طور پر میڈیا کو لیک کیا جاتا ہے) لکھنے کا رواج سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے شروع اور اب تو اتنا رواج پا چکا ہے کہ آئے روز ایک جج دوسرے جج کی پوری دنیا کے سامنے ایسی تیسی کر رہا ہوتا ہے۔ 
Tumblr media
قاضی فائز عیسٰی کی ریٹائرمنٹ کے روز جسٹس منصور علی شاہ نے جو خط لکھا اور اُس میں جس قسم کی زبان استعمال ہوئی اُسے پڑھ کر افسوس بھی ہوا۔ اس خط میں جسٹس منصور نے قاضی فائز عیسٰی کی ایسی تیسی کی جس پر بہت سے لوگ خوش ہوئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے اس بات پر حیران بھی ہوئے کہ جسٹس منصور نے یہ کیا خط لکھا، کیسی زبان استعمال کی اور کس موقع پر ایسا کیا۔ کسی کیلئے اس خط نے اگر فائز عیسیٰ کو ایکسپوزکیا تو دوسروں کیلئے ایسا کرنے سے جسٹس منصور خود ایکسپوز ہو گئے۔ بہت اچھا ہو کہ نئے چیف جسٹس اعلیٰ عدلیہ میں اس رجحان کے خاتمے کیلئے کوئی اقدام اُٹھائیں اور ایسے خطوط کو لکھ کر اُنہیں میڈیا کو لیک کرنے پر فوری پابندی لگائیں۔ آپس کے اختلافات کو بند کمرے میں آپس میں بیٹھ کر حل کریں بجائے اس کے کہ دنیا بھر کے سامنے اپنا ہی تماشہ بنواتے رہیں۔ کچھ عرصہ سے ہماری اعلیٰ عدلیہ خصوصاً سپریم کورٹ بہت بُری طرح سے تقسیم ہے۔ جج سیاست دانوں سے زیادہ سیاسی بن چکے ہیں۔ 
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا یہ بھی چیلنج ہو گا کہ وہ کس طرح ججوں کو سیاست سے پاک کرتے ہیں۔ جس نے سیاست کرنی ہے وہ جج کے عہدے سے استعفیٰ دے اور کھل کر سیاست کر لے۔ جج ہو اور اُسے دیکھ کر ہی پتا چل جائے کہ یہ کس سیاسی جماعت کے حق میں اور کس سیاسی جماعت کے خلاف فیصلہ کرے گا تو پھر ایسے ججوں کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ آیا وہ اپنے کام اور اپنے حلف سے انصاف کر رہے ہیں کہ نہیں۔ ایسے جج اگر اپنی سیاست نہیں چھوڑتے تو اُن کیلئے عدلیہ کی بجائے باقاعدہ سیاست کے میدان کا راستہ ہموار کرنے کا طریقہ کار بھی نئے چیف جسٹس کو سوچنا چاہیے تاکہ ہماری عدالتوں میں منصفوں کی جگہ کوئی سیاستدان نہ بیٹھا ہو۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
shiningpakistan · 4 months ago
Text
’عدلیہ وکٹری کے نشان والے ہجوم کے نرغے میں‘
Tumblr media
سنا ہے کوئی زمانہ تھا جب کوئی سینیئر قانون دان جج کی کرسی پر بیٹھتے ہی دنیا تیاگ دیتا تھا۔ اپنا سماجی حقہ پانی خود ہی بند کر لی��ا۔ شادی، بیاہ، سالگرہ، برسی، جنازے اور سیمیناروں میں جانا حرام کر لیتا۔ سوائے گھر والوں، قریبی عزیزوں یا دو چار پرانے دوستوں کے کسی دور پرے کے رشتہ دار یا واقف کار سے ملنا گناہ سمجھتا۔ سنا ہے مائی لارڈ کی کسی بھی وکیل سے صرف کمرہِ عدالت میں ہی ملاقات ممکن تھی۔ ججز چیمبرز میں پیش کار، رجسٹرار یا نائب قاصد کے سوا تیسرا شخص داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ جسے بھی کچھ کہنا سننا یا درخواست دینا مقصود ہو اس کے لیے عدالتی سیکرٹیریٹ کا نظام آج کی طرح کل بھی تھا۔ جج کا رابطہ اسی نظام کے توسط سے سرکار اور عوام سے رہتا تھا۔ جج کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ خود نہیں بولتا اس کے فیصلے بولتے ہیں۔ آج جب ہم اس طرح کے قصے سنتے ہیں تو یہ کوئی افسانہ یا سوشل ناول کا کوئی باب معلوم ہوتے ہیں۔ ہمارے باپ دادا نے ایسے جج ضرور دیکھے ہوں گے۔ ہم نے تو نہیں دیکھے۔
ہم نے تو عزت مآب کو ہر طرح کی تقریبات، کانفرنسوں، صحت افزا مقامات اور سب سے زیادہ ٹی وی چینلز کی پٹیوں میں دیکھا ہے۔ بھلا ہو میڈیائی کیمرے کے سحر کا کہ عدالتی کارروائی لائیو براڈ کاسٹ ہونے لگی۔ وکلا کو آستین چڑھاتے منھ سے تھوک نکالتے مائی لارڈ سے بدتمیزی کی سوشل میڈیا ویڈیوز دیکھی ہیں۔ لیک ہونے والی خفیہ ٹیپس سنی ہیں۔ خفیہ فلمیں افشا ہوتی دیکھی ہیں۔ توہینِ عدالت کو ایک پامال روایت بنتے دیکھا ہے۔ پلاٹوں اور بے نامی کاروبار سے لگنے والی چھوت کی بیماری دیکھی ہے، بے باک اور اصول پسند ججوں کا گھیراؤ اور کردار کشی کی مہم دیکھی ہے۔ اپنی اپنی پسند کے فیصلوں پر موکلوں کی جانب سے قصیدہ خوانی اور ناپسندیدہ فیصلوں پر جج کی ذات پر رکیک اور گھٹیا حملے دیکھے ہیں۔ نامعلوم سایوں کو ججوں، ان کے اہلِ خانہ اور جاننے والوں کو ہراساں کرتے سنا ہے اور ان کی نجی زندگی میں براہ راست مداخلت کی داستانیں خود ان ججوں کی زبانی سنی ہیں۔
Tumblr media
عدالتوں کے اکثر فیصلے یقیناً آج بھی منصفانہ اور معیاری ہوتے ہیں۔ مگر اس مطالبے کا کیا کیا جائے کہ میرا مقدمہ فلاں کے بجائے فلاں جج سنے۔ ان سر��وشیوں سے کیسے کان بند کریں کہ بس اس جج کو ریٹائر ہونے دو۔ اس کے بعد آنے والا معاملات سیدھے کر دے گا۔ کئی وکلا اور پیش کاروں کو پسندیدہ فیصلوں کے لیے دلالی کا دعوی کرتے سنا ہے۔ عمارت ایک دن میں نہیں گرتی۔ نہ ہی ایک ضرب سے گرتی ہے۔ مگر ہر ضرب اسے کمزور ضرور کرتی چلی جاتی ہے۔ بھلا کون سی ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے برسراقتدار آ کر ججوں کو طرح طرح کی ترغیبات اور بعد از ریٹائرمنٹ پیش کشوں سے رجھانے کی کوشش نہ کی ہو۔ عدلیہ کے احترام کی تسبیح پڑھتے پڑھتے ہجوم اکھٹا کر کے انصاف کے ایوان پر چڑھ دوڑنے اور عدلیہ کو ’ساڈے تے پرائے‘ میں تقسیم کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔ کون سی سرکار ہے جس نے عدلیہ کے ناپسندیدہ فیصلوں پر بھی بلا چون و چرا مکمل عمل کیا ہو۔ بلکہ ناپسندیدہ فیصلوں کو مسخ کرنے کے لیے آئین کو موم کی ناک بنا کر استعمال نہ کیا ہو۔
آخر ایسا کیا ہوا کہ اس زمین پر انصاف کی مقدس نشست پر بیٹھنے والی جس ہستی کو عام آدمی واقعی خدا کا نائب سمجھتا تھا۔ اب وہی آدمی شاید ہی کسی جج کو رول ماڈل سمجھتا ہو۔ سوچیے ایسے کروڑوں انسانوں کی تنہائی کا کیا عالم ہو گا جنھیں زمین پر انصاف کی آخری امید جج میں نظر آتی تھی اور اب اس کی پتھرائی ہوئی آنکھ صرف آسمان کی جانب ہی مرکوز ہے۔ عمارت ایک ضرب سے منہدم نہیں ہوتی۔ خود ججوں نے انصاف کے مندر کے ساتھ کیا کیا؟ پہلی کاری ضرب اندر سے جسٹس منیر کے نظریہِ ضرورت نے لگائی۔ اس نظریے نے آئینی حرام کو بیک قلم حلال قرار دے دیا۔ یہ نظریہ آج ستر برس بعد بھی شکل بدل بدل کے آئین کو بھوت کی طرح ڈراتا رہتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ عدلیہ کے حلق میں آج بھی کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ نہ اُگلتے بنے نہ نگلتے بنے۔ کسی آمر کے کرسی پر متمکن ہوتے ہوئے کسی عدالت نے مارشل لا کو بالائے آئین شب خون قرار نہیں دیا گیا۔ یحییٰ خان اور پرویز مشرف کو بھی معزولی کے بعد غاصب ڈکلیئر کیا گیا۔ بلکہ ہر طالع آزما کو آئین سے کھلواڑ کا انعام عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اٹھا کے دیا گیا۔ 
غیر منظورِ نظر سیاسی حکومتوں کا باہم مل کے ہانکا کیا گیا اور منظورِ نظر کے سات گناہ بھی درگذر ہو گئے۔ اب یہ کوئی خبر نہیں کہ عدلیہ نے اپنی پنشنوں اور تنخواہوں میں ازخود کتنا اضافہ کر لیا۔ کتنے جج باقی ہیں جنھیں حاصل سرکاری مراعات و وسائل کا اہلِ خانہ استعمال نہیں کرتے۔ بہت عرصے سے یہ خبر بھی تو نہیں آئی کہ کسی جج نے یہ مراعات لینے سے صاف انکار کر دیا۔ زیریں سے اعلیٰ عدالتوں میں روزانہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے مگر مقدمات کا انبار ہے کہ سال بہ سال بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس انبار کے سبب جنتا کے عدم اعتماد کا بوجھ بھی پہاڑ ہوتا جا رہا ہے۔ جب سب نے ریاستی استحکام کے نام پر عدم استحکام کے ہتھوڑوں سے اپنے ہی اداروں کو ضرب در ضرب کمزور کرنا شروع کر دیا تو پھر ہجوم بھی دلیر ہوتا چلا گیا۔ پارلیمنٹ بانجھ ہوئی تو فیصلے سڑک پر ہونے لگے۔ حتیٰ کہ غضب ناک ہجوم کے دباؤ کی تپش اعلیٰ عدالتوں کے کمروں میں محسوس ہو رہی ہے۔ 
اب تک ججوں کے فیصلوں پر جج ہی نظرثانی کرتے آئے ہیں۔ مگر یہ چلن بھی دیکھنا پڑ گیا ہے کہ اب ہجوم کے سرخیل ابھی اور اسی وقت فیصلے پر نظرِ ثانی کی دھمکی آمیز درخواست کرتے ہیں اور لجلجاتے کمرہِ عدالت میں اندر کے شور سے زیادہ باہر کھڑے ہجوم کے نعرے سنائی دیتے ہیں۔ مگر عدالت بھی خلا میں تو سماعت نہیں کرتی۔ عدالت کے پیچھے جب ریاست اور سماج کھڑا ہوتا ہے تو اس کے فیصلوں کا معیار ہی کچھ اور ہوتا ہے اور جب ریاست اور سماج بھی عدلیہ کو بے توقیری کی جانب دھکیلنے پر سڑک سے ہاتھ ملانے پر تل جائیں تو پھر عدالت اور جرگے میں تمیز کہاں رہتی ہے۔ ہم نے مسلسل ساڑھے سات دہائیوں تک زوال کو عروج تک پہنچانے کے لیے خوب محنت کی اور اب اس محنت کا ثمر ادارہ جاتی انہدام کی شکل میں اپنے سامنے دیکھ کر خود ہی وکٹری کا نشان بھی بنا رہے ہیں۔
خدا بچائے کس طرف مرا وطن چلا ہے یہ ابھی تو کچھ نہیں ہوا ابھی تو ابتدا ہے یہ ( حمایت علی شاعر )
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
urduchronicle · 11 months ago
Text
عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈز سکینڈل کی سماعت کرنے والے جج محمد بشیر نے چھٹی کی درخواست دے دی
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایک مرتبہ پھر چھٹیوں کی درخواست دے دی۔ ذرائع  کا کہنا ہے،جج بشیر نے صحت کو وجہ بتاتے ہوئے اپنی ریٹائرمنٹ تک رخصت کی درخواست جمع کرائی۔ رخصت کی درخواست میں جج محمد بشیر نے کہا کہ کام کی نوعیت اور دباؤ کی وجہ سے جج بشیر کو ہائپر ٹینشن کا سامنا ہے۔ گزشتہ دس سے پندرہ روز کے اندر انہوں نے دوسری مرتبہ رخصت کی درخواست جمع کرائی ہے۔گزشتہ ہفتے بھی جج بشیر نے چھٹیوں کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistantime · 1 year ago
Text
ایف بی آر اور غریب
Tumblr media
عجب تیری سیاست عجب تیرا نظام جاگیرداروں ، مل مالکان کو سلام جبکہ غریبوں کا کردیا ہے تو نے جینا حرام، ہماری ریاست کا کچھ یہ ہی حال ہے، ریاست کے پارلیمان میں بیٹھے ہوئے ہر شخص کا غریب سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا عمران خان کا سچ سے رہا ہے۔ پارلیمان میں بیٹھے ہوئے لوگ ہوں یا اسلام آباد میں بیٹھا بابو، یہ تمام لوگ عوام کے پیسے پر عیاشیاں کر رہے ہیں، ان کی اولادیں بھی عوام کے پیسے پر دنیا بھر گھومتی ہیں، میرے اور آپ کے بچوں کا علاج پاکستان میں مفت نہیں ہو سکتا مگر ہمارے سیاسی لوگوں اور ان کی اولادوں کے علاج کے لیے بیرون ملک میں بھی انسانی ہمدردی کے نام پر گرانٹس جاری کر دی جاتی ہیں۔ لیکن ہمارے پالیسی سازوں کا اگر ٹیکس چیک کیا جائے تو ان کے سر شرم سے جھکیں نہ جھکیں ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں کہ یہ ہیں ہمارے پالیسی ساز جو ہر حوالے سے ٹیکس چوری میں کسی سے کم نہیں ہیں مگر وہ کوئی ایسا موقع نہیں چھوڑتے جس سے عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنے میں کمی ہو۔ ایسے میں ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سینئر سٹیزن کو بھی نہیں بخشتے۔ 
Tumblr media
حال ہی میں حکومت نے بہبود سرٹیفکیٹ ، شہداء فیملی اکاؤنٹ اور پنشنرز بینیفٹ اکاؤنٹ کی آمدنی پر پانچ فیصد انکم ٹیکس عائد کر دیا ہے، جو سال 2023ء سے لاگو ہو گا، یعنی شہداء کو بھی ٹیکس دینا ہو گا، جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل پر قربان کر دیا ہم نے انھیں بھی نہ بخشا، بنیادی طور پر، اس طرح کی اسکیمیں شہداء کے اہل خانہ کو مالی فوائد فراہم کرنے کے لئے متعارف کروائی گئی تھیں، جنہوں نے قوم اور شہریوں کے لئے اپنی زندگی قربان کر دیں یا پھر وہ سینئر سٹیزن جو تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ایک حصے کے طور پرانکم ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتا رہے ہیں اور جب ان کے پاس آمدنی کا باقاعدہ ذریعہ ہوتا تھا تو قوم کی ترقی میں حصہ ڈالتے تھے ٹیکس کی صورت میں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی جمع پونجی کو ایسی اسکیموں میں اس لئے لگاتے ہیں کہ بڑھاپا آسانی سے کٹ جائے۔ یہ کلاس اب اس طرح کی اسکیموں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر مکمل طور پر انحصار کرتا ہے،
آرام دہ اور پرسکون زندگی گزارنے کے لیے اس طبقے میں مزید وسائل کی ضرورت ہے مگر ہونا تو چاہے تھا کہ ان کی بچت اسکیموں میں ٹیکس کی شرح صفر رہتی لیکن حکومت نے ان کو بھی نہ بخشا، ٹیکس لگانے سے ان اسکیموں پر منافع کے مارجن میں اضافے کے بعد اکاؤنٹ ہولڈرز کی قلیل زندگی کی خوشی ختم ہو جائے گی فیڈرل بورڈ آف ریونیوپالیسی ونگ کو انسانی بنیادوں پر اس آمرانہ پالیسی کو ختم کرنا چاہئے۔ کیا ایف بی آر مل مالکان، جاگیرداروں یا سرمایہ کاروں سے ٹیکس وصول کرتا ہے ؟ کیا ایف بی آر خود اپنا کام ٹھیک کر رہا ہے، ایف بی آر جیسے ادارے کا تو ملک سے فوری خاتمہ ہونا چاہیے کیوں کہ سندھ میں 2011 میں قائم ہونے والا ایس آر بی ایف بی آر سے 1000 فیصد بہتر کارکردگی دکھا رہا ہے۔ نگراں وزیر اعظم اور کابینہ سے گزارش ہے کہ بچت اسکیموں میں غریبوں کو پہنچنے والے فائدے پر دوبارہ سوچ بچار کیا جائے۔ اور پرانے نظام میں واپس آنا چاہئے جہاں اس طرح کی آمدنی سے غربت کا خاتمہ اور ساتھ لوگوں کے وسائل میں اضافہ ہورہا تھا. اور اس آمدنی پر ٹیکس مسلط کر کے یہ چھوٹے پیمانے پر سرمایہ کاروں پر بہت زیادہ بوجھ ثابت ہو رہا ہے۔ موجودہ شرح ٹیکس پر 5 ملین روپے کی سرمایہ کاری پرنئی نافذ شدہ پالیسی کے تحت قابل اطلاق انکم ٹیکس 41 ہزار روپے ہو گا، جبکہ، پرانےنظام کے تحت یہ 11 ہزارروپے ہوتا تھا۔ حکومت سے گزارش ہے کہ بچت اسکیموں میں بیواؤں، سینئر سٹیزن اور شہداء کی فیملیز کی سرمایہ کاری کو تحفظ دے اور فی الفور ٹیکس کی مکمل چھوٹ کا اعلان کرے۔
محمد خان ابڑو
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistanpolitics · 2 years ago
Text
ہمیں اپنی سوچ بدلنا ہو گی
Tumblr media
قارئین آج ایک ایسے ملک کے آرمی چیف کا ذکر کررہا ہوں جس نے اپنے ملک میں مثال قائم کر دی۔ پولینڈ کے سابق آرمی چیف آج کل بے گھر ہیں ریٹائرمنٹ کے بعد چند سال کرائے کے گھر میں زندگی بسر کی، اب کرایہ ادا کرنے کے پیسے نہیں ایک گارڈن میں خیمہ لگا لیا جب حکومت وقت کو خبر پہنچی تو وزیر اطلاعات نے سرکاری اعلان جاری کیا اگر کوئی شہری سابق آرمی چیف کی کفالت کرنا چاہتا ہے تو رابطہ کر سکتا ہے۔ ہال میں بیٹھے رائٹر نے حیرانی سے پوچھا اس نے وطن کیلئے قربانیاں دیں تو کیا حکومت وقت اس کی کفالت نہیں کر سکتی ؟ حکومت کر سکتی ہے لیکن ریٹائرڈ آرمی چیف کہتے ہیں میں حکومت کی کوئی امداد نہیں لینا چاہتا تاکہ نئی جنریشن کو میرے بارے میں ابہام پیدا نہیں ہو کہ سابق چیف ریٹائرمنٹ کے بعد عوام کی ٹیکس منی سے خرچہ لیتا تھا، یہ ان ملکوں کی ترقی کا راز ہے۔ اب میں اپنے ملک پاکستان کی طرف آتا ہوں۔ اس وقت دنیا میں 207 کے لگ بھگ ممالک ہیں ان میں سے ایک ملک ایسا بھی ہے جو روس سے کم از کم 10 گنا چھوٹا ہے لیکن اس کا نہری نظام روس کے نہری نظام سے 3 گنا بڑا ہے۔ یہ ملک دنیا میں مٹر کی پیدا وار کے لحاظ سے دوسرے خوبانی، کپاس اور گنے کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھے پیاز اور دودھ کی پروڈکشن کے لحاظ سے 5ویں، کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے چھٹے، آم کی پیداوار کے لحاظ سے ساتویں، چاول کی پیداوار کے لحاظ سے آٹھویں، گندم کی پیداوار کے لحاظ سے نویں اور مالٹے ، کینو کی پیداوار کے لحاظ سے دسویں نمبر پر ہے۔ دوستو یہ ملک مجموعی زرعی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں پچیس ویں نمبر پر ہے۔ اس کی صرف گندم کی پیداوار پورے براعظم جنوبی افریقہ کی پیداوار سے زیادہ اور براعظم جنوبی امریکہ کی پیداوار کے تقریباََ برابر ہے۔
یہ ملک دنیا میں صنعتی پیداوار کے لحاظ سے 55ویں، کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے چوتھے اور تانبے کے ذخائر کے اعتبار سے ساتویں نمبرپر ہے۔ سی این جی کی بات کریں ہم تو سی این جی کے استعمال میں پہلے نمبر پر ہیں اس ملک کے گیس کے ذخائر ایشیا میں چھٹے نمبر پر ہیں اور یہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے۔جس کا نام پاکستان ہے۔ جس کے 4 صوبے ہیں اور 2 سمندر ہیں۔ ہر صوبہ اپنی جگہ قدرتی دولت سے مالا مال ہے، کون سی سبزی، کون سا اناج ہے جو ہمارے ملک میں پیدا نہیں ہوتا، یعنی فار ایسٹ ، خلیج اور یورپ میں کوئی ایک ملک تمام اناج نہیں پیدا کر سکتا۔ یعنی اگر چاول پیدا کر رہا ہے تو گیہوں پیدا نہیں کر سکتا جو گیہوں پیدا کر رہا ہے وہ مکئی ، جوار نہیں پیدا کر سکتا۔ جو مکئی پیدا کر رہا ہے وہ دالیں پیدا نہیں کر سکتا ۔ یہی حال سبزیوں اور پھلوں کا ہے، مگر ہمارا ملک خدا کے فضل سے ہر پھل تمام سبزیاں اور اناج پیدا کر رہا ہے ۔ اس ملک کو اللہ تعالیٰ نے قحط سے بھی محفوظ رکھا ہے۔ کیونکہ تمام اناج الگ الگ موسم میں بوئے جاتے ہیں اور الگ الگ موسم میں کاٹے جاتے ہیں۔ لہٰذا اگر ایک فصل خراب ہو تو اس کی جگہ دوسری فصل لے لیتی ہے۔ 
Tumblr media
ہر چیز ہماری ضرورت سے زیادہ پیدا ہو رہی ہے ۔ بلکہ اس کو صحیح طریقے سے محفوظ رکھنے کے طریقۂ کار اور ذرائع دستیاب نہ ہونے کے باعث یہ فاضل پھل، سبزیاں اور اناج سڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے چوتھے صوبے بلوچستان میں قیمتی پتھر ، کوئلہ ، پیٹرول اور گیس کے ذخائر وافر مقدار میں قدرت نے ہمیں دیئے ہیں تاکہ پاکستان کسی بھی ملک کا دستِ نگر نہ ہو۔ بلوچستان کی بندرگاہ خلیجی ملکوں سے رابطہ کے علاوہ سمندری پیداوار میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بہترین جھینگے اور مچھلیاں تو اپنا جواب نہیں رکھتیں۔ اس صوبے میں پیٹرول کے بھاری ذخائر ہیں مگر ہم نے ابھی تک صحیح منصوبہ بندی نہیں کی۔ ہماری اسی سر زمین سے پیٹرول گزر کر ایران جارہا ہے۔ اسی طرح گیس کے بھی ذخائر وافر مقدار میں ہیں مگر ہمیں ان کی قدر نہیں ہے۔ کراچی کی بندرگاہ ، یورپ اور فارایسٹ کے درمیان رابطہ کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ پورے ملک کیلئے تجارتی گزرگاہ ہے اور پاکستان کی معیشت میں 65 سے 70 فیصد اخراجات کا بوجھ برداشت کرت�� ہے۔ 
الغرض اس ملک کی جتنی تعریف کی جائےکم ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ یہ ملک نااہلوں، بے ایمانوں، ملک فروشوں اوربدعنوانوں کی پیداوار میں غالباً پہلے نمبر پر ہے، جہاں میں اور آپ رہتے ہیں، دوستو یہاں کے لوگ کسی نیک، ایماندار اور صالح قیادت کو منتخب کرنے کے بجائے بار بار کرپٹ اور دھوکہ باز سیاستدانوں کو ہی ووٹ ڈالتے ہیں۔ یہاں گزشتہ 40 سال سے مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن لوگ بھوکے رہ کر بھی انہی کرپٹ خاندانوں، سیاستدانوں اور ان کی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں اس میں میں بھی شامل ہوں، ملک کو تباہ کرنے میں میں بھی برابر کا شریک ہوں۔ اللہ تعالیٰ مجھےاور ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور اہل، دیانتدار قیادت منتخب کرنے کی توفیق دے آمین۔ دوستو یہ میرا پیغام اپنے لئے، میرے ساتھ جڑے لوگوں کیلئے بلکہ پورے پاکستان کیلئے ہے۔ اگر آپ ملک کو بدلنا چاہتے ہیں تو آپ کو پہلے اپنے اندر تبدیلی لانا پڑے گی، اللہ پاک نے ہمیں نعمتوں سے نوازا ہے ہمیں پوری دنیا پر حکمرانی کرنی چاہئے تھی لیکن آج ہم صرف ذلیل و خوار ہو رہے ہیں کس وجہ سے میری وجہ سے اور ہم سب کی وجہ سے، ہمیں اپنی سوچ بدلنا ہو گی اور اگرہم سوچ بدلیں گے تو ہم ایماندار اور صالح قیادت منتخب کر سکیں گے۔ تب جا کر پاکستان کی تقدیر بدلے گی۔
خلیل احمد نینی تا ل والا
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
forgottengenius · 2 years ago
Text
ڈاکٹر عبدالقدیر خان
Tumblr media
ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے آخری چند برس بظاہر ایک خاموشی، بدگمانی، فرسٹریشن، مایوسی اور ناقدری کے احساس کے آئینہ دار ہیں اور یہ احساس کچھ ایساغلط، بے جا یا فرضی بھی نہیں لیکن جو لوگ اُن کے قریب یا اُن سے رابطے میں رہے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود وہ کبھی ربِ کریم کی رحمت سے مایوس اور اُس کے بندوں کی محبت سے محروم نہیں ہوئے۔ دراصل اُن کا کام ہی اتنا بڑا، غیر معمولی اور شاندار تھا کہ اُس نے دنیا بھر کے حاکم سیاسی طبقوں اور اپنے تکبر میں ڈوبے ہوئے ہمسایہ ملک کے جارحانہ عزائم کو ایک ایسا شدید اور غیر متوقع جھٹکا دیا کہ تب سے اب تک ہر دو قوتیں غصے اور انتقام کی آگ میں جل تو رہی ہیں لیکن پاکستان کو حربی قوت کے زور پر اپنے قابو یا رعب میں رکھنا اب اُن کے لیے ممکن نہیں رہا، سو اَب سرمایہ بنیاد معیشتیں جہاں ہمیں معاشی طور پر کمزور اور اپنا تابعدار رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں وہاں بھارت یہ کام سازش، بد امنی اور تخریبی کارروائیوں کے ذریعے کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
ڈاکٹر قدیر خان بھی شائد بہت سے دیگر ہنرمند اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل پاکستانی تارکینِ وطن کی طرح ایک بظاہر کامیاب آسودہ اورمتمول زندگی گزار کر وہیں کہیں کسی مغربی سرزمین میں آسودہ خاک ہو جاتے مگر دو باتوں (و یقینا تقدیر کا مدعا بھی تھیں) نے ایسا نہیں ہونے دیا، ایک تو اُن کی وہ طبیعت، افتاد و طبع اور اپنے اختیار کردہ ملک پاکستان اس کی حفاظت اور ترقی سے محبت تھی اور دوسری 1974 میں بھارت کی طرف سے کیے گئے وہ ایٹمی دھماکے جن کے متوقع اثرات کی سنگینی نے ہالینڈ کی کسی سائنس لیبارٹری میں کام کرتی ہوئی ایک خوبصورت اور محبِ وطن رُوح کو بے چین کر دیا جسے دنیا ایک عام سے سائنس کے طالب علم کے طور پر جانتی تھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے بنیادی طور پر ایک نیوکلیئر سائنس دان نہ ہونے کے باوجود بھی اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے خود رابطہ کیا اور انھیں بتایا کہ ہم جوابی طور پر اور اپنی مدافعت اور حفاظت کے لیے کس طرح سے ایسی جوہری قابلیت حاصل کرسکتے ہیں۔ 
Tumblr media
اب یہاں داد بھٹو مرحوم کے لیے بھی بنتی ہے کہ انھوں نے نہ صرف اس معاملے کی سنگینی، جواب کی ضرورت اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صلاحیت اور خلوص کو سمجھا بلکہ عملی طور پر اس مشن کے آغاز کے لیے نہ صرف ڈاکٹر صاحب کو وہاں سے بلوایا بلکہ انھیں اور ان کی ٹیم کو ایسے وسائل بھی مستقل طور پر مہیا کیے جن کی فراہمی اُن حالات میں ناممکن حد تک مشکل تھی اور پھر ڈاکٹر صاحب ہی کے بیان کے مطابق جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحق خان نے بھی نہ صرف اس پالیسی کو جاری رکھا بلکہ ہر طرح کے دباؤ کو سہتے ہوئے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ا��ر ڈاکٹر اے کیو خان لیبارٹری کے کام کو اوّلین ترجیح دی۔ اب 28 مئی 1998 کے جوابی دھماکوں کے فیصلے اور عمل کے درمیان کیا کچھ ہُوا اس کی تفصیل میں جائے بغیر اور بھارت کے فطری ردعمل کی کیفیات اور تفصیلات میں اُلجھے بغیر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس کے فوراً بعد ایک طرف تو ڈاکٹر صاحب کی طرف سے دھماکے کے کریڈٹ کے ضمن میں سیاستدانوں کے رویے پر ناراضی کا اظہار سامنے آیا اور دوسری طرف بڑی عالمی قوتوں کی طرف سے حیرت اور بے یقینی کے فوری تاثر کے بعد اس کی مخالفت میں بیانات آنے شروع ہو گئے۔
9/11 کے پس منظر اور ڈاکٹر صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان دونوں باتوں نے ایک نیا اور بے حد تکلیف دہ رُخ اختیار کر لیا جس کے نتیجے میں جنرل مشرف کے زمانے میں ڈاکٹر صاحب کو امریکا کے بے حد اصرار کے باوجود اس کے حوالے تو نہیں کیا گیا مگر طرح طرح کے الزامات، معافی ناموں اور نقل و حرکت پر پابندیوں کی وجہ سے انھیں کئی برس ایک طرح کی نظر بندی میں رہنا پڑا جو یقیناً ایک ایسے شخص کے لیے جو محسنِ پاکستان بھی کہلاتا ہو اور جس نے اپنی ساری زندگی اپنی قوم کو محفوظ اور باوقار رکھنے میں صَر ف کر دی ہو ایک بہت تکلیف دہ صورتِ حال تھی۔ ذاتی طور پر مجھے اُن سے ملنے اور اُن سے بات چیت کرنے کے مواقعے دونوں طرح کے حالات میں حاصل رہے ہیں کہ میری اُن سے پہلی بالمشافہ ملاقات ایٹمی دھماکے سے کچھ عرصہ قبل ہوئی تھی اور پھر یہ سلسلہ وقفوں سے ہی سہی مگر کبھی منقطع نہیں ہوا کہ وہ سائنس دان تو بڑے تھے ہی شعر و ادب سے بھی اُن کی واقفیت نہ صرف بہت گہری اور عمدہ تھی بلکہ عام میل جول میں وہ بے حد دلچسپ، خوش دل، خوش مذاق اور Down to Earth انسان تھے اور پھر آخر ی عمر میں انھوں نے کالم نگاری کے ذریعے اپنے مطالعے ، مشاہدے ، تجزیے ، ادبی ذوق اور اپنی فہم کا جو مرقعّ ہمارے سامنے پیش کیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے وہ بہت سادہ، سچے، مخلص اور قدرے جذباتی مزاج کے حامل تھے۔
اب جہاں تک اُن کی سادگی، سچائی اور خلوص کا تعلق ہے وہ تو بیشتر سائنس دانوں کی مشترکہ خوبی رہی ہے مگر زندگی، فنونِ لطیفہ سے محبت اور جذباتیت وہ اوصاف ہیں جو یقیناً اپنی برادری سے انھیں ممیز اور ممتاز کرتے ہیں بلاشبہ وہ کچھ عمائدینِ سلطنت اور اُن کے حواریوں سے نالاں تھے مگر اُن میں سے بھی کسی کی نیکی توجہ یا اچھے کام کی تحسین میں وہ بخل سے کام نہیں لیتے تھے انھیں احسان فراموشی سے چِڑ تھی چنانچہ اس حوالے سے وہ بعض اوقات بہت سخت باتیں بھی کر جاتے تھے لیکن جہاں تک پاکستانی عوام اور عام انسانی ضمیر کا تعلق ہے۔ اُس کے لیے میں نے کبھی اُن کے منہ سے کوئی شکایتی لفظ نہیں سُنا۔ چند برس قبل ایک محفل میں اُن کے کچھ احباب نے بتایا کہ وہ آج کل ایک عوامی اسپتال کے قیام کے لیے بھی بہت محنت اور سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں کہ خیر کے کاموں کے لیے وہ ہمہ وقت مستعد رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد ایک ملاقات کے دوران انھوں نے مجھ سے اپنے اس اسپتال کے لیے اُسی طرح کا ایک ترانہ نما گیت لکھنے کی فرمائش کی جسے میں اس سے قبل ’’الخدمت ‘‘ اور ’’اخوت‘‘ کے لیے لکھ چکا تھا مجھے خوشی ہے کہ مجھے اس کی تعمیل کا موقع ملا اور مزید خوشی اس بات کی ہے کہ انھوں نے اسے پسند بھی کیا۔
اُن کی نماز جنازہ اور تدفین کے مناظر اور خبریں دیکھنے اور حکومتِ وقت کی طرف سے اُنہیں قومی اعزاز اور احترام کے ساتھ دفنانے کے اعلانات سننے اور ان پر عمل کی مختلف صورتیں دیکھنے اور عوام کا جوش و خروش اور ہر طرح کے میڈیا پر اُن کے لیے دعاؤں اور کلماتِ خیر کا ہجوم دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ اُن کی رُوح پر سے اُس ناقدری اور احسان فراموشی کے گِلوں کا بوجھ اُتر گیا ہو گا جسے انھیں اپنی عمر کے آخری برسوں میں اُٹھانا پڑا اور بلاشبہ عوام کی یہ محبت اُن تمام سرکاری اعزازت پر بھاری ہے جو انھیں بار بار ملے کہ یہ محبت مستقل اور پائیدار ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد گہری اور مضبوط بھی ہے اور مجھ سمیت وہ لوگ بہت خوش قسمت ہیں جنھیں اُن سے ملنے، باتیں کرنے اور سیکھنے کا موقع ملا ہے۔
امجد اسلام امجد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
topurdunews · 1 month ago
Text
ریٹائرمنٹ کی افواہوں پر قومی کرکٹ ٹیم کے مڈل آرڈر بیٹر حارث سہیل کا ردعمل آگیا
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) قومی کرکٹ ٹیم کے مڈل آرڈر بیٹر حارث سہیل نے ریٹائرمنٹ سے متعلق افواہوں  کو بےبنیاد قرار دے دیا۔  سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں حارث سہیل نے کہا کہ میں نے ریٹائرمنٹ کا کوئی فیصلہ نہیں کیا اور نہ ہی میرا ایسا کوئی ارادہ ہے، میری پوری توجہ اس کھیل کو جاری رکھنے پر ہے جو مجھے پسند ہے۔ دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کا بھی کہنا ہے کہ حارث سہیل کی ریٹائرمنٹ کے…
0 notes
googlynewstv · 5 months ago
Text
ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز دراصل عمران دور میں آئی
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی والے سوشل میڈیا پر ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز پر سیاست چمکا رہے ہیں تاکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نشانہ بنایا جا سکے، لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ دراصل یہ تجویز پہلی مرتبہ عمران خان کے دور حکومت میں پیش کی گئی تھی۔ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں انصار عباسی بتاتے ہیں کہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق عمران خان کے دور میں وزیر اعظم آفس نے ج��ن…
0 notes
emergingpakistan · 1 year ago
Text
ریاستیں بھی خود کشی کرتی ہیں
Tumblr media
اسرائیل جس راہ پر گامزن ہے اس کے خود اسرائیل کی بقا کے لیے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اسرائیلی فیصلہ ساز اور تجزیہ کار اس بابت کیا کہتے ہیں ؟ آج ان ہی کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اسرائیل میں ایک انتہا پسند مذہبی لابی صاف صاف کہتی ہے کہ دریاِ اردن سے بحیرہ روم تک کی جس زمین کا وعدہ ہم سے خدا نے ہزاروں برس پہلے کیا اس زمین میں کسی بھی غیر یہودی کا وجود گوارا نہیں۔ اس لابی کا صیہونیوں سے واحد اختلاف یہ ہے کہ صیہونی ایک بین الاقوامی سرحد کے اندر جدید سیکولر قومی اسرائیلی ریاست چاہتے ہیں جب کہ مذہبی لابی سرحدوں سے بالا وہ تمام خطہ چاہتی ہے جس کا آسمانی وعدہ کیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ صیہونیت میں بھی دایاں اور بایاں بازو پیدا ہو گیا۔ کسی زمانے میں بائیں بازو کی لیبر پارٹی ہی سیکولر صیہونیت کی علمبردار تھا اور انیس سو اڑتالیس سے انیس سو ستتر تک مسلسل اسی کی حکومت رہی۔ مگر انیس سو ستتر میں لیخود پارٹی پہلی بار اقتدار میں آئی اور برطانوی نوآبادیاتی ریکارڈ کے مطابق سابق دھشت گرد مینہم بیگن اور ان کے دھشت گرد ساتھی ایتزاک شمیر یکے بعد دیگرے وزیرِ اعظم بنے۔ان کے بعد ایریل شییرون اور بنجمن نیتن یاہو کا دور آتا ہے۔
لیخود بھی صیہونی نظریے کو اسرائیل کی بنیاد کے طور پر مانتے ہیں مگر بائیں بازو کے برعکس ان کا جھکاؤ انتہائی دائیں بازو کے متشدد گروہوں کی جانب زیادہ ہے۔ اس کی مثال موجودہ حکومت ہے جو خود اسرائیلی تجزیہ کاروں کے نزدیک پچھتر برس میں برسرِ اقتدار سب سے انتہا پسند مذہبی و سیاسی مخلوط حکومت ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق مقبوضہ علاقوں کی زمینی ہیت میں کوئی بھی رد و بدل غیرقانونی ہے۔ تاہم مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کے عمل کو روکنے کے بارے میں سوچنا کسی بھی اسرائیلی حکومت کے لیے خودکشی کے برابر ہے۔ خود اسرائیلیوں کی اکثریت کا جھکاؤ ��ھی مشرقی یورپ سے یہودیوں کی مسلسل آمد کے سبب وقت کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے بجائے دائیں بازو کی جانب ہوتا چلا گیا۔ اس کا ایک ثبوت انیس سو پچانوے میں لیبر وزیرِ اعظم ایتزاک رابین کا ایک یہودی انتہاپسند کے ہاتھوں قتل ہے۔ کیونکہ قاتل فلسطینیوں سے امن سمجھوتہ کرنے والے رابین کو قوم کا غدار سمجھتا تھا۔ لیخود اور دیگر مذہبی جماعتیں اور اسرائیلی آباد کار تنظیمیں بھی قائل ہیں کہ فلسطینیوں کو ایک انچ زمین بھی واپس کرنا غداری ہے۔ بلکہ فلسطینیوں نے اس زمین پر قبضہ کر رکھا ہے جو دراصل ہماری ملکیت ہے۔
Tumblr media
اس پس منظر میں مٹھی بھر اسرائیلی صاحب الرائے خبردار کرتے رہتے ہیں کہ اپنے ہی سحر میں مبتلا ہو کے آنکھیں بند کیے توسیع پسندی اور مسلسل جابرانہ پالیسیوں پر چلتے چلتے ایک دن اسرائیل اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ گہری کھائی میں جا گرے گا۔عربوں کے پاس تو زمین چھننے کے باوجود آس پاس رہنے کی جگہ ہو گی مگر اسرائیلی یہاں سے کہاں جائیں گے ؟ اسرائیلی بحریہ کے ایک سابق کمانڈر انچیف اور انیس سو پچانوے تا دو ہزار داخلی سلامتی کے ذمے دار ادارے شن بیت کے سربراہ ایمی عائلون ریٹائرمنٹ کے بعد سے موجودہ اسرائیلی پالیسیوں کے سرکردہ ناقدوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے اکتوبر دو ہزار انیس میں شکاگو میں امریکی یہودیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ ہم اسرائیل کے اندر ایک ایسے ماحول میں رہتے ہیں جو اردگرد کے معروضی حالات کو شفاف انداز میں دیکھنے سے قاصر ہے۔ فاصلے سے چیزیں زیادہ واضح نظر آتی ہیں۔ لہٰذا آپ (امریکی یہودی) پر بطور اسرائیل کے مخلص حمائیتیوں کے یہ ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اسرائیلی قیادت کو برابر ان خطرات سے آگاہ کرتے رہیں جو آپ یہاں بیٹھ کے بہتر طور پر دیکھ سکتے ہیں۔
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اگر اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو آنکھیں بند کر کے آگے بڑھاتی رہی اور ایک آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی تو کبھی دشمنی و مخاصمت سے چھٹکارا ملے گا اور نہ ہی اسرائیل کو سکون نصیب ہو گا۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اسرائیل انھی پالیسیوں کے بوجھ سے زمیں بوس ہو جائے گا۔ ایک نسلی و مقامی گروہ ( فلسطینی ) کو مسلسل دبا کے رکھنا اسرائیلی بقا اور اس کی جمہوریت کے لیے سنگین ترین خطرہ ہے۔ یہ پالیسی نہ صرف ہمیں علاقائی و بین الاقوامی طور پر بتدریج تنہا کر دے گی بلکہ عالمی سطح پر یہود دشمنی کو مزید بڑھائے گی۔ ہم نے اب تک بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ مثلاً متعدد عرب ممالک بشمول پی ایل او ہمارا وجود تسلیم کر چکے ہیں اور عرب لیگ کے دیگر ارکان بھی ہمیں انیس سو سڑسٹھ سے پہلے کی سرحدوں کے اندر تسلیم کرنے پر تیار ہیں۔ ہم نے انیس سو اناسی میں مصر سے اور انیس سو چورانوے میں اردن سے امن سمجھوتہ کیا۔ فلسطینی اتھارٹی ہم سے مکمل تعاون کر رہی ہے۔
مگر ہم ہیں کہ مسلسل مقبوضہ علاقوں میں آبادکار بستیاں بڑھائے چلے جا رہے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا رویہ اور سخت ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اگر ہم نے جلد راستہ نہ بدلا تو آگے اندھیرا ہے اور وقت تیزی سے گذر رہا ہے ‘‘۔ سرکردہ اسرائیلی مصنف اور صحافی آری شاویت کے بقول ’’ صرف انسان ہی نہیں بعض اوقات ریاستیں بھی خودکشی کر لیتی ہیں۔ بطور اسرائیلی بچپن سے مجھے خوف کی گھٹی پلائی گئی۔ یعنی اگر ہم نے آنکھیں کھلی نہ رکھیں تو ہمارے وحشی ہمسائے تکا بوٹی کر دیں گے اور آگے بس سمندر ہے وغیرہ وغیرہ۔ جوں جوں وقت گذرتا گیا امن سمجھوتوں کے باوجود خوف کم ہونے کے بجائے بڑھتا گیا۔ ہمیں اپنی تعداد ہمیشہ کم لگی اور ہم اسے بڑھاتے چلے گئے۔ اگر ہم نے اب بھی کچھ دیر تھم کر تنقیدی جائزہ لینے کا آخری موقع بھی گنوا دیا تو دو ہزار پچیس تک مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادکاروں کی تعداد ساڑھے سات لاکھ ہو جائے گی۔ پھر یہ ممکن ہی نہ ہو گا کہ اتنی زمین بچ جائے جس پر ایک قابلِ عمل فلسطینی ریاست بن سکے۔ پھر ہماری بقا کی دو ہی صورتیں ہوں گی۔ یا تو ہم ایک خالص اپارتھائیڈ ریاست بن جائیں اور جمہوریت کو الوداع کہہ دیں یا پھر ایک دو قومی ریاست بن جائیں۔
دوسری صورت میں ایک وقت ایسا آئے گا کہ اسرائیل میں عرب اکثریت میں ہوں گے اور پھر ہمیں وہی جمہوریت بری طرح کاٹے گی جس کو آج ہم اپنے سینے کا تمغہ بنائے پھرتے ہیں۔ یہ وقت آنے سے بہتر ہے کہ ابھی ہم دو قومی ریاست کا فارمولا دل سے مان لیں۔ جب دونوں ممالک کی اقتصادیات آپس میں جڑیں گی تو پشتینی دشمنی کا زہر بھی کم ہوتا چلا جائے گا۔ باقی سب راستے تباہی کی طرف جاتے ہیں ‘‘۔ سابق اسرائیلی وزیرِ خارجہ آنجہانی ابا ایبان کا مقولہ ہے ’’اسرائیل نے کبھی بھی موقع ہاتھ سے جانے کا موقع ضایع نہیں کیا‘‘۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
sunonews · 13 days ago
Text
0 notes
risingpakistan · 1 year ago
Text
سرکاری ملازمین کی پنشن پر حملہ
Tumblr media
نگراں حکومتوں نے اپنی حدود سے تجاوزکرنا شروع کر دیا۔ اب حکومت سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر ملنے والی پنشن کو کم کرنے کا فیصلہ کرنے پر آمادہ ہے۔ روزنامہ ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کی ادائیگی کے بل کا بڑھتا ہوا بوجھ کم کرنے کے لیے پنشن اسکیم 2023 میں اہم ترامیم کا فیصلہ کیا ہے مگر مسلح افواج کو اس تجویز سے مبرا قرار دیا گیا ہے۔ ماہرین نے جو تجاویز تیار کی ہیں، ان کے مطابق ریٹائرڈ ملازمین کی وفات کے بعد پنشن کی مدت 10 سال تک مقرر کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، تاہم وفات پانے والے ملازم کا کوئی بچہ معذور ہو گا تو اس صورت میں غیر معینہ مدت کے لیے پنشن ملے گی۔ پنشن اصلاحات کے لیے تیار کی جانے والی سمری میں یہ تجویز بھی ہے کہ شہداء کی فیملی پنشن کی میعاد 20 سال مقرر کی جائے۔ ملازمین کی ریٹائرمنٹ ان کی پنشن کا تعین آخری 36 ماہ کی تنخواہ رقم کے 70 فیصد کی بنیاد پر ہو گی۔ ریٹائرڈ ملازمین کے لیے ایک اور بری تجویز یہ ہے کہ پنشن میں اضافہ میں سالانہ اضافہ کی رقم ایک رکھی جائے گی۔ پنشن میں افراطِ زر کی شرح سے اضافہ ہو گا، مگر یہ اضافہ 10 فیصد تک ہو گا۔ یہ شرح اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک حکومت پنشن قواعد پر نظرثانی نہیں کرتی۔ 
اسی طرح سرکاری ملازمین 25 سال کی ملازمت پر ریٹائرمنٹ لیتے ہیں تو ریٹائرمنٹ کی عمر تک 3 فیصد سالانہ جرمانہ وصول کیا جائے گا۔ طے کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق خام پنشن کا زیادہ سے زیادہ 25 فیصد تک کمیوٹ کرا سکیں گے، اس وقت یہ شرح 35 فیصد ہے۔ چند سال قبل پنشن میں 30 سال سے زیادہ ملازمت پر سالانہ 3 فی صد اضافہ کیا جاتا تھا جو کہ 10 فیصد تک تھا۔ پنشن میں کمی کے بارے میں تیار ہونے والی تجاویز سرکاری ملازمین کا ریٹائرمنٹ کے بعد مستقبل تاریک کر دیں گی۔ سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے موجودہ قواعد و ضوابط کے تحت اس وقت ریٹائر ہونے والے ملازم کی آخری تنخواہ پر 65 فیصد یا کمیوٹیشن کا 35 فیصد ادا کیا جاتا ہے، اگر نئے فارمولہ پرعملدرآمد ہوا تو ریٹائرڈ ملازم کی پنشن میں 35 فیصد تک کمی ہو گی۔ پنشن کے اضافہ کو افراطِ زرکی شرح سے منسلک تو کیا گیا ہے مگر یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ پنشن میں سالانہ اضافہ 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہو گا۔
Tumblr media
گزشتہ دو برسوں میں افراطِ زرکی شرح تین ہندسوں تک بڑھی ہے اور اسی ماہ افراطِ زرکی شرح 34 فیصد کے قریب ہے، یوں اگر پنشن میں 10 فیصد اضافہ ہوا تو یہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مقابلہ میں انتہائی کم ہو گا۔ پنشن کے بارے میں اس سمری میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ملازم کی وفات کے بعد بیوہ کو صرف 10 سال تک پنشن ملے گی، اگر ملازم کا کوئی معذور بچہ ہو تو پنشن ساری زندگی ملے گی، اگر بیوہ کے انتقال کے بعد غیر شادی شدہ، طلاق یافتہ یا بیوہ لڑکی ہو تو پنشن ان کے نام منتقل ہو جائے گی۔ سرکاری آڈیٹرز کا کہنا ہے کہ یہ شق غلط استعمال ہوتی ہے، اگر خاندان میں بعض کیسوں میں 40 سے 50 سال تک پنشن دی جاتی ہے۔ یہ صورتحال تشویش ناک تو ہے مگر چند افراد کی بدعنوانی کی سزا بیوہ کو دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہر صورت میں بیوہ کو تمام عمر پنشن ملنی چاہیے۔ ایک اور افسوس ناک تجویز یہ بھی ہے کہ سرکاری ملازمت کے دوران شہید ہونے والے ملازمین کے لواحقین کو صرف 10 سال تک پنشن ملے گی۔ اس تجویزسے سرکاری ملازمین خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں میں قربانی کا جذبہ کم ہو جائے گا۔
وفاق اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں نے دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں، اساتذہ اور دیگر عملہ کے لیے خصوصی پیکیج دینے کا فیصلہ کیا تھا مگر سندھ میں ایسے کسی پیکیج کا اعلان نہیں ہوا، اگر حکومت ہر شہید ہونے والے سرکاری ملازم کے لواحقین کو خصوصی پیکیج دیتی ہے تو پھر 10 سال کی پابندی درست ہے۔ دوسری صورت میں یہ شق سرکاری ملازمین بالخصوص پولیس فورس میں مایوسی پھیلانے کا باعث ہو گی۔ موجودہ قوانین کے تحت 25 سال تک ملازمت کرنے والا شخص ریٹائرمنٹ کے تمام فوائد حاصل کرتا ہے مگر نئی تجویز کے تحت ریٹائرمنٹ کی عمر تک کے حساب سے 3 فیصد سالانہ جرمانہ اس کی پنشن سے حذف کیا جائے گا۔ ادھر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین میں سب سے زیادہ مراعات عدالتی شعبے کو حاصل ہیں۔ عدالت�� شعبہ کے ��عد پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس PAS جس میں خاص طور پر ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ شامل ہے کو مراعات حاصل ہیں۔ پی اے ایس کے افسران کو کئی ایسے الاؤنس اور خصوصی الاؤنس ملتے ہیں جو دیگر سرکاری ملازمین کو حاصل نہیں ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے بورڈ آف ریونیو کے سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے افسران کے الاؤنس بحال کر دیے ہیں مگر اس سرکلر میں تحریر کیا گیا ہے کہ فیلڈ افسران کو اپنا خیال کچھ رکھنا ہو گا۔ ان رپورٹوں کے جائزہ سے واضح ہوتا ہے کہ عدلیہ اور ڈی ایم جی کے علاوہ باقی سرکاری ملازمین کو بہت کم مراعات حاصل ہیں۔ عجیب بات ہے کہ کراچی میں سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے افسروں کو جو الاؤنس ملتے ہیں وہ الاؤنس سیکریٹریٹ سے چند میٹر پر قائم حکومت سندھ کے ملازمین کو حاصل نہیں ہیں۔ سرکاری ملازمین کی اکثریت کو مکمل میڈیکل کوریج حاصل نہیں ہے۔ سرکاری ملازمت کے لیے بروقت پنشن کا حصول ایک اور درد ناک باب کھولنے کے مترادف ہے۔ ریٹائر ہونے والے ملازم کو پہلے اپنے محکمہ میں سفارش یا کمیشن دے کر فائل کو آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ اس کے اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفاتر کے معاملات اور زیادہ گھمبیر ہوجاتے ہیں۔
سرکاری ملازمت کی ایک کشش تو اختیارات کا حصول ہوتا ہے تو دوسری ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن، جی پی فنڈ اور گریجویٹی کی رقم ملنے کی ہوتی ہے، مگر اختیارات کا معاملہ پولیس اور چند دیگر وزارتوں تک محدود ہے۔ پنجاب میں اساتذہ اور دیگر ملازمین نے تعلیمی اداروں کو نجی تحویل میں دینے اور پنشن کی کمی کے خلاف تحریک شروع کی۔ پنجاب کے ہر ضلع کے سیکڑوں اساتذہ اور دیگر ملازمین کو اپنے حق کے لیے احتجاج کرنا پڑا اور ان کی گرفتاریاں ہوئیں، انھیں جیلوں میں بند کیا گیا۔ اس بات کا امکان ہے کہ یہ تحریک وفاق اور دیگر صوبوں تک پھیل جائے گی۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ غریبوں پر ٹیکس کم ہونا چاہیے۔ زیادہ بوجھ امیر پر ہونا چاہیے مگر غریب سرکاری ملازمین سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ نیو لبرل ازم کے فلسفہ کا اطلاق صرف سرکاری ملازمین پر ہونے جا رہا ہے۔ یورپی ممالک میں ہر شہری کو پنشن ملتی ہے۔ بھارت کی حکومت نے 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے ہر شہری کو پنشن کے نیٹ ورک میں شامل ہونے کا منصوبہ شروع کیا ہے، مگر پاکستان میں یہ مراعات کم کی جا رہی ہیں، یہ معاملہ نگراں حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ اس کو منتخب حکومت پر چھوڑ دینا چاہیے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
shiningpakistan · 2 years ago
Text
اعلیٰ تعلیمی ادارے تباہی کے دہانے پر
Tumblr media
پاکستان میں متوسط طبقہ کے لیے مہنگائی کے بعد اب تعلیم کا حصول بھی بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ پاکستانی طلبہ کی اکثریت جنھیں سرکاری تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر تھے، اب پہلے جیسے نہیں رہے اور حالات مزید تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم سے متعلق ایک عرصے سے کوئی واضح اور مستقل تعلیمی پالیسی نظر نہیں آ رہی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملکی سیاسی منظر نامے کے تبدیل ہوتے ہی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اہم عہدیدار بھی تبدیل ہوتے ہیں اور اس تبدیلی کے ساتھ ہی تعلیمی پالیسیاں بھی تبدیل ہونے لگتی ہیں۔ حال ہی کی ایک خبر کے مطابق ایک سابق وزیراعظم کی قریبی عزیزہ اعلیٰ تعلیمی ادارے کے اہم ترین عہدے سے فارغ۔ ظاہر ہے جس ملک میں تعلیمی پالیسیاں بھی کسی کرکٹ میچ کی صورتحال کی طرح تبدیل ہوں وہاں تعلیمی معیار کیونکر عالمی سطح کا ہو سکتا ہے؟ غیر ملکی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل جب ملکی تعلیمی پالیسیوں میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں تو انھیں اس ملک اور اس کے طلبہ کی ضروریات اور حالات کا قطعی علم اور احساس نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ تعلیمی پالیسیوں کو مرتب کرتے وقت متعلقہ ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘سے مشورہ لیتے ہیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تقریباً دو دہائیوں سے یہی طے نہ ہو سکا کہ جامعات میں آنرز اور ماسٹر کی ڈگریاں ہی اس ملک کے طلبہ کے مستقبل کا ضامن ہیں یا ’ بی ایس‘ کی؟
یہی کچھ حال کالجز اور پرائیویٹ اداروں کی ڈگریوں کے معاملات کا ہے، بات صرف یہی تک محدود نہیں ہے بلکہ حساس ترین اور اہم بات یہ ہے کہ اب سرکاری اعلیٰ تعلیمی اداروں کو کسی صنعتی ادارے یا فیکٹری کی طرح چلانے کا راستہ اختیار کر لیا گیا ہے اور تعلیمی اداروں کو پروڈکشن تیار کرنے یعنی مال کمانے والے ادارے کے طور پر چلانے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے اور جامعات کی خودمختاری کو ختم کرتے ہوئے یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ جامعات کا کام صرف پیسہ کمانا ہے فنڈز طلب کرنا نہیں۔ با الفاظ دیگر حکمرانوں کی جانب سے تعلیمی فنڈز فراہم کرنے کے بجائے ہاتھ کھڑے کر لیے گئے ہیں کہ جامعات کے اخراجات کے لیے حکومت کی طرف مت دیکھو، خود بندوبست کرو۔ سوال یہ ہے کہ جامعات تعلیم فراہم کرنے کا ادارہ ہوتی ہیں یا کسی فیکٹری کی طرح مال تیار کر کے، اسے فروخت کر کے پیسہ کماتی ہیں؟ حالیہ ایک خبر کے مطابق سندھ کے سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے اجلاس میں جامعات سے کہا گیا کہ وہ اپنے اخراجات کو کم کریں اور ریسورس جنریشن کے دیگر ذرایع تلاش کیے جائیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ جامعات میں ملازمین کی ضرورت سے زائد تعداد جامعات کے وسائل پر بوجھ ہے۔
Tumblr media
حقیقت تو یہ ہے کہ تمام سرکاری اداروں میں تقرریاں سیاسی دباؤ کے تحت ہوتی ہیں جو ظاہر ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے ہی ہوتا ہے تو اس کو ختم کرنا بھی حکومت کی ہی ذمے داری بنتی ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ آیندہ تقرریاں بغیر پنشن کی بنیاد پر دی جائیں۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ ایک استاد کو گھر چلانے کے لیے مناسب مشاہرہ اور مراعات جو دیگر سرکاری اداروں کے ملازمین کو بھی دی جاتی ہیں، اس سے محروم کر دیں گے تو اس سے ایک اچھی کارکردگی کی توقع کیسے رکھیں گے؟ کیا ایک استاد مہنگائی کے اس دور میں اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے دیگر جگہوں پر کام نہیں کرے گا؟ ایسے میں وہ طلبہ کوزیادہ وقت نہیں دے سکے گا اور نہ توجہ۔ اس ملک میں ایک طبقے کو تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مراعات دی جا��یں اور ایک استاد جو پوری قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرتا ہے اس سے پنشن کا حق بھی چھین لیا جائے؟ بات یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں بھی جامعات کے اساتذہ کو وہ حقوق نہیں مل رہے جو قانونی طور پر ان کا حق ہے، مثلاًبیشتر جامعات میں پنشن بند ہے، کچھ میں تنخواہیں پوری نہیں مل رہی ہیں اور اساتذہ پروموشن کے بغیر ریٹائر ہو رہے ہیں۔ 
ملک کی سب سے بڑی جامعہ ک��اچی ہی میں تین اساتذہ بغیر پروموشن کے ریٹائر ہو گئے، پروموشن ان کا حق تھا وہ اس معیار پر بھی پورے اتر تے تھے اور عدالت کی طرف سے اس ضمن میں ہدایات بھی تھیں، تب بھی ان اساتذہ کو پروموشن جو ان کا حق تھا نہیں مل سکا اور اب پنشن بھی نہیں مل رہی۔ اب پنشن کے بغیر تقرری کی بات کی جا رہی ہے جب کہ جامعات کے اساتذہ کو تو اس وقت بھی پروموشن کا حق حاصل نہیں کیونکہ عرف عام میں ہم جب پروموشن کا لفظ استعمال کرتے ہیں توعملاً اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر جامعہ نئی تقرری کا اشتہار دیتی ہے تو یہاں پہلے سے مستقل بنیادوں پر کام کرنے والا ایک استاد دوبارہ سے ایک نئے امیدوار کی حیثیت سے درخواست جمع کرائے اور اس تمام مراحل سے گزرے جس سے ایک باہر سے آکر درخواست دینے والا امیدوار گزرے۔ گویا جامعات کا کوئی استاد اگر زندگی میں بھی نئی آسامی (پوسٹ یا عہدے) کے لیے درخواست جمع نہیں کرائے گا تو ایسے ہی ریٹائر ہو جائے گا، اس کا کوئی پروموشن نہیں ہو گا خواہ اس کی بیس، پچیس سال کی سروس ہو۔ دوسری طرف ایک عام سرکاری ملازم کو پانچ سال بعد سنیارٹی کے پرموشن بھی ملتا ہے اور آفیسر گریڈ کے ملازم کو گاڑی، ڈرائیور بھی جب کہ جامعہ کے گریڈ انیس اور بیس کے پروفیسر کو نہیں ملتا۔
یہ صورتحال اعلیٰ سرکاری تعلیمی اداروں کو بہت تیزی کے ساتھ تباہی کی طرف لے جا رہی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان اس ملک کے مڈل کلاس طبقے کو ہو رہا ہے۔ جامعات ان حالات میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مسلسل فیسوں میں اضافہ کر رہی ہیں جو ظاہر ہے کہ مڈل کلاس طبقے کے لیے مشکلات کا باعث ہے۔ پہلے ہی اس ملک میں سرکاری اسکولوں کی تباہی ہو چکی ہے جس کی وجہ سے وہ خاندان جو پرائیویٹ اسکولوں کی فیس ادا نہیں کر سکتے، ان کی ایک بڑی تعداد مدرسوں کا رخ کر رہی ہے جہاں وہ مڈل یا میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد دوبارہ سرکاری تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں تاکہ انھیں کوئی اچھا ذریعہ معاش مل سکے۔ اب بہت سے دینی مدارس نے بی بی اے، ایم بی اے اور میڈیا سائنسز میں بھی ڈگری کورسسز شروع کر دیے ہیں اور مڈل کلاس کی ایک تعداد اس طرف بھی جا رہی ہے، لیکن ایسے اداروں کی تعداد زیادہ نہیں ہے چنانچہ اگر ریاست کی طرف سے تعلیمی معاملات اور پالیسیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ مڈل کلاس پر آیندہ اعلیٰ تعلیم کے دروازے تقریباً بند ہو جائیں گے جو ملکی ترقی اور مستقبل کے لیے بھی ایک خطرناک مرحلہ ہو گا۔
ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes