#Pakistan Education
Explore tagged Tumblr posts
Text
اعلیٰ تعلیم خطرے میں
وطن عزیز میں اعلیٰ تعلیم کا مستقبل ایک بار پھر خطرے کی زد میں ہے۔ ٹیکنالوجی کے پھیلائو کے اس دور میں جب دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور ترقی کی خواہش رکھنے والے ممالک اعلیٰ تعلیم کے میدان میں سرمایہ کاری بڑھا کر بہتر امکانات و نتائج پر خاص توجہ دے رہے ہیں، یہ بات کسی طور مناسب نہیں کہ رواں مالی سال 2024-25ء کے جاری بجٹ میں بڑی کٹوتی کر کے ایک طرف اسے 65 ارب روپے سے گھٹا کر 25 ارب روپے کی نچلی سطح پر رکھ دیا گیا۔ دوسری جانب اسے صرف وفاقی جامعات تک محدود کر دیا گیا۔ اس حوالے سے وزارت خزانہ کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو خط بھی لکھ دیا گیا ہے جس نے ملک کی 160 سے زائد سرکاری جامعات کیلئے 126 ارب روپے کی درخواست کر رکھی تھی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ایک اور گھائو یہ لگا کہ منصوبہ بندی کمیشن نے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا ترقیاتی بجٹ 59 ارب روپے سے کم کر کے 21 ارب روپے کر دیا ہے۔
اعلیٰ تعلیم کے ادارے علم و آگہی کے ایسے جزیرے ہیں جہاں سے مختلف شعبوں میں فارغ التحصیل ہونیوالے نوجوان معیشت، صنعت، طب، زراعت اور کارپوریٹ سیکٹر سمیت ہر شعبے کو نئے رجحانات سے آشکارا کرتے اور ترقی و امکانات کے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ ان اداروں کے اعلیٰ تعلیمی معیار اور تحقیقی کام پر سمجھوتے سے گریز کرتے ہوئے انہیں مالی اعتبار سے پیروں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں اشرافیہ کیلئے بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے سارے مواقع دستیاب ہیں، کم وسائل کے حامل لائق نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور خود ملکی ترقی وخوشحالی کیلئے اندرون ملک قائم اعلیٰ تعلیم کے ادارے غنیمت ہیں جن کے تعلیمی و تحقیق معیار اور ترقیاتی ضروریات سے کسی طور صرف نظر نہیں کیا جانا چاہئے۔ دوسری طرف ہمیں دوست ملکوں سے تعلیمی نظام سمیت کئی شعبوں میں اصلاح و بہتری کیلئے معاونت کے حصول میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
کیا تحریک انصاف کو اس کے وکیلوں نے مروایا؟
تحریک انصاف کے کارکنان اور مداح ا��ر عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو سخت سست کہہ کر اپنا کتھارسس فرما چکے ہوں تو انہیں اس سوال پر بھی غور فرما لینا چاہیے کہ ان کی جماعت کو اس حال تک پہنچانے میں خود ان کے وکیلوں نے کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان کے وکیلوں نے بھی وہی غلطی کی ہو جو بھٹو مرحوم کے وکیلوں نے کی تھی ؟ بھٹو صاحب کے وکیلوں سے یہ بنیادی غلطی ہوئی کہ وہ اس مقدمے کو اس سنجیدگی سے لے ہی نہ سکے جس سے لینا چاہیے تھا۔ بھٹو کیس کی فائل پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ مقدمہ اس سے بہت بہتر انداز سے لڑا جا سکتا تھا۔ ان کے وکیل اسی غلط فہمی میں رہے کہ بھٹو کی مقبولیت کے سیلاب کے آ گے ان قانونی موشگافیوں کی کیا حیثیت ہے، وہ ان سب کو بہا لے جائے گی۔ ان کے اندازے کی یہ غلطی ان کے موکل کے لیے بہت مہلک ثابت ہوئی۔ یہی غلطی عمران خان کے وکیلوں سے ہوئی۔ انہوں نے الیکشن کمیشن اور الیکشن ایکٹ وغیرہ کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ وہ فارن فنڈنگ کیس ہو یا انٹرا پارٹی الیکشن کا، ان کے خیال میں اس سب کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور ان کے لاشعور میں کہیں یہ تھا کہ عمران خان کی مقبولیت اس سب کو بہا کر لے جائے گی۔ اندازے کی یہ غلطی تحریک انصاف کو بہت مہنگی پڑی۔
سیاست مقبولیت اور تاثر کی بنیاد پر چلتی لیکن قانون تکنیکی بنیادوں پر آگے بڑھتا ہے۔ یہ کام وکیل کا ہے کہ وہ اپنے موکل کی مقدمے کی تکنیکی بنیادوں کا تحفظ کرے۔ تحریک انصاف کے وکیل یہ کام نہیں کر سکے۔ کوئی جلسے کرنے لگ گیا، کسی نے سوشل میڈیا اکائونٹ بنا کر ویڈیوز اپ لوڈ کرنا شروع کر دیں۔ عمران خان کے ساتھ وکیلوں نے وہی کیا جو ان کے یوٹیوبرز نے کیا۔ شہرت کے حصول اور سوشل میڈیا کی رونقوں میں اصل کام کو توجہ نہ دی جا سکی۔ جماعت اسلامی کے سوا شاید ہی کوئی ایسی جماعت ہو جہاں انٹرا پارٹی الیکشن قانون کی روح کے مطابق ہوتے ہیں۔ یہاں سیاسی جماعت ہو یا مذہبی، ہر جانب موروثیت ہے۔ ایسے میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات بھی قانون کے مطابق نہیں ہو سکے تو ا س میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ البتہ ایک فرق نمایاں ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کی قانونی ٹیم سب کچھ کے باوجود اپنا فائل ورک مکمل رکھتی ہے۔ تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ انتخابی قوانین ناقص اور نامعتبر ہیں۔
یہاں انتخابی اخراجات کی حد سے لے کر انٹرا پارٹی الیکشن تک سب کی حیثیت اقوال زریں کی ہے۔ سیاسی جماعت ان پر عمل نہ بھی کر سکے تو ان کی قانونی ٹیم اپنا فائل ورک مکمل کر لیتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قانونی ٹیم اس سلسلے میں فائل ورک مکمل نہیں کر سکی۔ اس کے پاس کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ یو ٹیوبرز کا معاملہ تو قابل فہم ہے لیکن قانونی ٹیم کا کام اپنی پارٹی کا قانونی تحفظ ہوتا ہے، ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا پر داد شجاعت دینا نہیں ہوتا۔ یہ عذر کمزور ہے کہ الیکشن کمیشن اور عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر فیصلہ دیا۔ قانون نام ہی تکنیکی بنیادوں کا ہے۔ اگر حلقہ انتخاب سے محروم وکلا اپنی وکالت کی خدمات کی وجہ سے کسی پارٹی میں معتبر ہونا چاہتے ہوں یا ٹکٹ لے کر اقتدار کے ایوانوں میں گھسنا چاہتے ہوں تو پھر کم از کم دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ اس پارٹی کو ان تکنیکی قانونی نکات کے بارے میں آگاہ اور تیار رکھا جائے جو اس کے لے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہوں۔
انٹرا پارٹی میں الیکشن میں کچھ بے ضابطگیاں رہ گئی تھیں تو یہ قانونی ٹیم کی ذمہ داری تھی کہ ان کا لیگل کور بروقت تیار کرتی۔ حیران کن طور پر تحریک انصاف کی قانونی ٹیم نے یہ نکتہ اٹھایا ہی نہیں کہ ہمارا الیکشن ٹھیک ہوا ہے اور الیکشن کمیشن بلاوجہ اسے غلط قرار دے رہا ہے۔ ان کا بنیادی نکتہ پشاور ہائی کورٹ میں بھی یہ نہیں تھا۔ انہوں نے یہ کہا کہ الیکشن کمیشن کو ہمارا انٹرا پارٹی الیکشن دیکھنے اور جانچنے کا اختیار نہیں۔ یہ دلیل سپریم کورٹ کیسے مان لیتی؟ کبھی کہا گیا الیکشن کمیشن تو فیصلہ دینے والا ادارہ ہے وہ اپیل کیسے کر سکتا ہے ؟ کیا اب ہائی کورٹ بھی فیصلہ دے کر اپیلیں کرے گی؟ یہ دلیل شاید اس لیے دی گئی کہ جو لوگ لائیو دیکھ رہے ہیں وہ مرحبا مرحبا کہنے لگیں اور یوٹیوبرز اس پر سماں باندھ دیں۔ لیکن قانون کی دنیا سے منسلک لوگ خوب جانتے ہیں کہ یہ دلیل خود تحریک انصاف کے ساتھ مذاق سے کم نہیں تھی۔ کیونکہ الیکشن کمیشن بنیادی طور پر انتظامی ادارہ ہے۔ اسے کچھ اختیارات ضرور ہیں کہ وہ بعض معاملات میں فیصلہ کر سکتا ہے لیکن اسے ہائی کورٹ سے نہیں ملایا جا سکتا۔
الیکشن کمیشن اس وقت سے انہیں الیکشن کا کہہ رہا ہے جب یہ اقتدار میں تھے لیکن یہ اسے نظر انداز کرتے رہے۔ کیوں؟ کیا قانونی پیچیدگی کے سامنے قانونی ٹیم کی یہ پالیسی تھی؟ کیا تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کو معلوم نہیں تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن سے پہلے پارٹی کے آئین میں تبدیلی کا قانونی طریقہ کار کیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں ایکٹورل کالج بدلا جا رہا تھا جب پارٹی عہدیداران کی قانونی مدت ختم ہو چکی تھی تو کیا اس عمل کی کوئی قانونی توجیح سوچی گئی تھی؟ سوچی گئی تھی تو جب الیکشن کمیشن نے یہی اعتراض اٹھا دیا تو اس کا جواب کیوں نہ دیا گیا؟ پارٹی کا آئین بدلا جائے تو الیکشن قوانین کے تحت پارٹی عہدیداران کی پاس کردہ ریزولیوشن ان کے نام اور دستخطوں سے الیکشن کمیشن کو جمع کرانی ہوتی ہے۔ پارٹی ک�� قانونی ٹیم نے یہ پہلو کیوں نظر انداز ہونے دیا؟ جب الیکشن کمیشن نے اعتراض اٹھایا تو کیا یہ مناسب نہ تھا کہ الیکشن کمیشن کے اختیار کو چیلنج کرنے کی بجائے فائل ورک مکمل کرنے پر توجہ دی جاتی؟ کیا یہ درست نہیں کہ الیکشن کمیشن بار بار یہ دستاویزات مانگتا رہا لیکن اسے پیش نہیں کی جا سکیں؟
اکبر ایس بابر سالوں سے تحریک انصاف کے معاملات پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ان کے پارٹی سے اخراج کی آج تک کوئی دستاویز عدالت میں نہیں دی جا سکی۔ بس اتنا کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ پارٹی کے رکن نہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ساتھ ہی عدالت میں کہا گیا کہ وہ پانچ بجے تک آ جاتے تو ہم انہیں انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی دے دیتے۔ سوال یہ ہے کہ وہ پارٹی کے رکن ہی نہیں تو پانچ بجے تک پہنچ جانے پر پارٹی انہیں کاغذات نامزدگی کیسے دے دیتی اور کیوں دے دیتی۔ حال یہ ہے کہ تحریک انصاف نظریاتی کو انہوں نے پلان بی کے طور پر رکھا ہوا تھا حالانکہ تحریک انصاف نظریاتی ان کی شدید مخالف ہے اور پچھلے الیکشن میں اسی مخالفت پر وہ میدان میں اتری تھی؟
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے
آصف محمود
بشکریہ روزنامہ ۹۲ نیوز
#Imran Khan#Pakistan#Pakistan Education#Pakistan Politics#Pakistan Tehreek-e-Insaf#Politics#PTI#World
0 notes
Text
پاکستان کی ترقی : اعلیٰ تعلیم
پاکستان کو آج بیشمار مسائل کا سامنا ہے جن میں حکمرانی کا ناقص نظام، مناسب طویل مدتی منصوبہ بندی کا فقدان، آبادی میں بے قابو اضافہ، انتہائی ناقص تعلیمی نظام، مناسب صنعتکاری کا فقدان، روزگار کے مواقع میں کمی، بدعنوان قیادت اور انصاف کی عدم فراہمی شامل ہیں۔ اسکا نتیجہ ایک دیوالیہ ملک ہے جسکو پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے ناقابل برداشت شرح سود پر نئے قرضے لینا پڑ رہے ہیں۔ پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں پالیسی کی بڑی غلطیوں میں سے ایک طویل مدتی منصوبہ بندی کا مسلسل فقدان ہے۔ پائیدار اقتصادی حکمت عملیوں پر اکثر قلیل مدتی سیاسی تحفظات کو فوقیت حاصل رہی ہے۔ اس کم نظری کے نتیجے میں متعدد Adhoc پالیسیاں وجود میں آتی ہیں اور سنہرے مواقع ضائع ہوتے ہیں۔ علم پر مبنی معیشت کی طرف منتقلی کے واضح طویل مدتی نظریے کے بغیر، ہم نے مخصوص سماجی و اقتصادی ترقی کے اہداف حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کی ہے۔ اس غلطی کو دور کرنے کیلئے، ہمیں اسکی سماجی و اقتصادی ترقی کی پالیسیوں میں طویل المدتی منصوبہ بندی کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے جس کا بنیادی ہدف جدید ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت حاصل کرنا ہو۔ اس میں واضح، قابل پیمائش اہداف اور مقاصد کا تعین، جامع حکمت عملی تیار کرنا اور سیاسی تبدیلیوں کے دوران پالیسی کے تسلسل کو یقینی بنانا شامل ہونا چاہئے۔ ایسا کرنے سے پاکستان معاشی ترقی کیلئے مزید مستحکم اور پائیدار راہ ہموار کر سکتا ہے۔
ہماری سماجی و اقتصادی ترقی کی پالیسیوں میں نااہل انتظامیہ ایک مستقل رکاوٹ رہی ہے۔ بدعنوانی، افسر شاہی کی نااہلی اور کمزور اداروں نے موثر پالیسی کے نفاذ اور وسائل کی تقسیم میں رکاوٹیں ڈالی ہیں، جس سے ملک کی اقتصادی ترقی کو نقصان پہنچا ہے۔ اسکے علاوہ اعلیٰ پیمانے پربدعنوانی کی بدنامی نے عالمی سطح پر ہماری ساکھ کو کافی نقصان پہنچایا ہے، جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں اور امداد دینے والوں کیلئے پاکستان اپنی ساکھ کھو چکا ہے، ناقص انتظامیہ کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے ہمیں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے جو شفافیت، احتساب اور اداروں کو مضبوط بنانے پر مرکوز ہوں۔ اس میں خود مختار انسداد بدعنوانی ایجنسیوں کے ذریعے بدعنوانی کا مقابلہ کرنے کی کوششیں شامل ہوں، نوکر شاہی کے عمل کو ہموار کرنا اور سرکاری ملازمین کیلئے صلاحیت سازی میں سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ مزید برآں، قانون کی بالادستی کو برقرار رکھنے اور شہریوں اور کاروباری اداروں کی انصاف تک رسائی کو یقینی بنانے کیلئے قانونی اصلاحات ضروری ہیں۔ آبادی میں بے قابو اضافے نے ہمارے مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ ہمیں آبادی پر قابو پانے کے موثر اقدامات کرنے چاہئیں اور خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
پاکستان کا ناقص تعلیمی نظام ایک بڑی خرابی ہے جو سماجی و اقتصادی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ تعلیمی نظام نے کم شرح خواندگی، فرسودہ نصاب اور ناکافی سرمایہ کاری کے ساتھ جدوجہد کی ہے، جس سے اقتصادی ترقی محدود ہو گئی ہے۔ اس لیے ہمیں فوری طور پر سماجی و اقتصادی ترقی کے بنیادی محرک کے طور پر تعلیم کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی بنیادی ڈھانچےمیں سرمایہ کاری میں اضافہ، اساتذہ کی تربیت ، معیار کو بہتر بنانا اور روزگار کی ضروریات کے مطابق نصاب کو جدید بنانا ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی ہم ایک ایسی ہنر مند اور باشعور افرادی قوت پیدا کر پائیں گے جو معاشی ترقی کو آگے بڑھا سکے۔ اس کی ایک بہترین مثال پاک آسٹرین جامعہ برائے اطلاقی سائنس و انجینئرنگ ہے جو میری نگرانی میں ہری پور ہزارہ میں قائم کی گئی جس کی فنڈنگ کے پی حکومت کی طرف سے فراہم کی جا رہی ہے۔ یہ کاروبا ر کو فروغ دینے کیلئے ایک ’’انٹرپرینیورئل جامعہ‘‘ ہے جسکی کارکردگی کا اندازہ صرف پی ایچ ڈی حاصل کنندگان کی تعداد، تحقیقی اشاعتوں یا دیگر تعلیمی معیارات کی تعداد سے نہیں بلکہ اسکے فیکلٹی اور طلباء کی پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی پر پڑنے والے اثرات سے لگایا جائے گا۔
یہ جامعہ تین آسٹرین، ایک جرمن اور پانچ چینی جامعات کے ساتھ قریبی شراکت داری میں قائم کی گئی ہے، جن میں سے ہر ایک نے جامعہ کے ایک حصے کو ترقی دینے کا مکمل ذمہ لیا ہے۔ اس میں تمام طلباء کیلئے ڈگری کا اہل ہونے سے پہلے اعلیٰ کارکردگی کے ساتھ کم از کم 500 گھنٹے صنعت میں کام کر نا لازمی ہے۔ اگرچہ یہ ��امعہ صرف 3 سال پرانی ہے لیکن اس کے ٹیکنالوجی پارک میں تجارتی ترقی کے مختلف مراحل میں دس مصنوعات تیار کی جارہی ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور جامعہ میری نگرانی میں سیالکوٹ کے قریب سمبڑیال میں وفاقی حکومتوں کے فنڈز سے بنائی جا رہی ہے۔ اگر سندھ حکومت مقامی صنعت سے منسلک ایسی ’’انٹرپرینیورل جامعہ‘‘ میں دلچسپی ظاہر کرے تو غیر ملکی تعاون سے سندھ میں بھی ایسی ہی جامعہ جلد قائم کی جاسکتی ہے۔ تحقیق اور ترقی، جدت طرازی اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنے سے متحرک اور متنوع معیشت کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ مزید برآں، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے (SMEs) نئی صنعتوں کی ترقی کی حوصلہ افزائی ، نئی صنعتیں اور ملازمتیں پیدا کر سکتے ہیں۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں (SOEs) نے ہماری حکومت کے وسائل کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنے ہیں۔
لہٰذا ناکارہ سرکاری اداروں کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے، ہمیں ان اداروں کے نظم و نسق میں جامع اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔ بدعنوانی اس ملک میں ہمیشہ سے ایک اہم مسئلہ رہا ہے، جو ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کو نقصان پہنچا رہا ہے، اداروں پر عوامی اعتماد کو ختم کر رہا ہے اور ترقی میں رکاوٹ کا سبب ہے۔ اسکا انتہائی مربوط تانا بانا ہے جس کی جڑیں سیاست اور افسر شاہی سے لیکر قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور کاروبار تک معاشرے کے مختلف شعبوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ 230 ملین افراد کی آبادی میں 30 سال سے کم عمر آبادی 67 فیصد ہے، اگر ہم اس حقیقی دولت میں سرمایہ کاری کریں تو پاکستان کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ملک کے بہترین ماہرین اقتصادیات، سائنسدانوں اور انجینئرز کو اپنے وفاقی اور صوبائی وزراء اور سیکرٹریز کے طور پر مقرر کرنا چاہیے جو علم پر مبنی معیشت کی طرف منتقلی کی اہمیت اور راستے کو سمجھتے ہوں۔ آگے بڑھنے کا راستہ صرف تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، جدت طرازی، اور صنعت کاری میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری میں مضمر ہے۔ تاہم، یہ صرف ایک ایماندار، پربصیرت، اور تکنیکی طور پر قابل حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
اسکالرشپ نہیں ملی؟ ہمت نہ ہاریئے
ہر سال بہت بڑی تعداد میں طالب علم اسکالرشپس کےلیے اپلائی کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو اسکالرشپ مل جاتی ہے اور اکثریت کو نہیں ملتی۔ اس بار بھی بہت سے نتائج آگئے ہیں اور میرے اردگرد بہت سارے دوست پریشان ہیں۔ یہ تحریر ان سب کے نام ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جتنے لوگ بھی اپلائی کرتے ہیں، سب کو اسکالرشپ نہیں مل سکتی۔ کچھ ہی لوگوں کو ملے گی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ دوڑ لگاتے ہیں تو جیتتا کوئی ایک ہی ہے لیکن پھر بھی بارہ پندرہ لوگ دوڑ لگاتے ہیں۔ اس ڈر سے رک نہیں جاتے کہ ہم ہار جائیں گے۔ اور جو ایک مرتبہ نہیں جیت پاتے، وہ اگلی مرتبہ اپنی خامیوں کو دور کر کے دوبارہ دوڑ لگاتے ہیں اور کئی مرتبہ ہوا کہ پھر وہ جیت بھی گئے، اس لیے آپ کا عزم آپ کا حوصلہ ٹوٹنے نہ پائے کہ اسکالرشپ نہیں ملی۔ بس اس بار نہیں ملی، کیا معلوم اگلی باری آپ کی ہو۔ لہٰذا محنت اور کوشش جاری رکھیے۔ ہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ کیوں نہیں ہوئی؟ کہاں پر کمی رہ گئی تھی؟ اس کےلیے لازمی ہے کہ جس اسکالرشپ کے لیے اپلائی کریں پہلے لازمی اس اسکالرشپ کے پرانے ونرز سے بات کریں۔
اسکالرشپس کی گائیڈ لائنز پڑھیں، اور پھر جو بھی ضروری باتیں ہیں ان کے مطابق اپنی درخواست دوبارہ سے ترتیب دیں۔ بغیر سوچے سمجھے مناسب منصوبہ بندی کے بغیر ایسے اپلائی کیے جانا بھی مناسب نہیں ہے۔ مثال کے طور پر چین میں جو سائنس کے طالب علم اچھی یونیورسٹیز میں اپلائی کرتے ہیں، وہاں ریسرچ پیپرز کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ کے پاس نہیں ہیں تو متبادل میں آپ نے کیا تیاری کی ہے؟ کہیں اگر IELTS چاہیے تو صرف پاسنگ بینڈز ہیں آپ کے یا بہت اچھے بینڈز ہیں؟ آپ نے ساری تیاری بہت اچھی کی ہے، پھر بھی ممکن ہے کہ رہ جائیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ قابلیت میں کوئی کمی تھی۔ ہوسکتا ہے یونیورسٹی والوں نے محض diversity کے لیے آپ کو چھوڑ دیا ہو۔ لہٰذا خود پر بھروسہ ہر گز نہ ختم ہونے دیجئے۔ یقین کیجیے کہ ساری دنیا آپ کو ہرانا چاہے تو بھی آپ نہیں ہار سکتے لیکن جس دن آپ خود سے ہار گئے، اور آپ نے خود ہی یہ سوچ لیا کہ آپ ایک ناکام انسان ہیں تو ساری دنیا کے انسان مل کر بھی آپ کو کامیاب نہیں کر سکتے۔ اور جب آپ خود سے ہار جائیں گے تو کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ لہٰذا اپنی ہمت و حوصلہ جمع رکھیے اور دوبارہ سے پھر کوشش کیجئے۔
ایک اور بات یہ کہ سوشل میڈیا کی کہانیوں پر زیادہ یقین نہ کیا کیجئے۔ یہاں لوگ صرف اپنی جیت کی خوشیاں مناتے ہیں لیکن یہ ہرگز نہیں بتاتے کہ وہ کتنی مرتبہ ناکام بھی ہوئے ہیں۔ بہت ہی کم خوش نصیب ہوں گے جن کا پہلی مرتبہ ہی داخلہ ہوجائے۔ 90 فیصد سے زیادہ لوگوں کو ایک مرتبہ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ مسترد کیا جاچکا ہوتا ہے، پھر کہیں جا کر داخلہ ہوتا ہے۔ میرا ایک دوست بی ایس میں گولڈ میڈلسٹ ہے، برطانیہ سے اس نے امتیازی پوزیشن کے ساتھ ایم ایس کیا (ایسی یونیورسٹی سے جو ٹاپ 50 میں ہے) اس کے باوجود پچھلے دنوں وہ بتا رہا تھا کہ تقریباً 10 جگہ سے ریجکٹ ہوچکا ہے۔ اس کا پروفائل بہترین ہے۔ ایک جاننے والی طالب علم جو 2 بچوں کی ماں بھی ہیں اور خود ہی کما بھی رہی ہیں، تین سال سے کوششیں کر رہی تھیں اور سچی بات یہ ہے کہ وہ اتنے برے حالات میں کوشش کر رہی تھیں کہ میرے پاس تو انہیں حوصلہ دینے کے الفاظ نہیں ہوتے تھے۔ ان کا انتخاب اس مرتبہ ہوا۔ بتانا یہ تھا کہ ہم سارے لوگ ہی گرتے پڑتے یہاں تک آئے ہیں اور اگر آپ کو بھی کوئی ٹھوکر لگ گئی ہے تو پریشان نہیں ہونا۔ بس اٹھیے اور پہلے سے بہتر تیاری سے پھر کوشش کیجئے۔
بہت سے لوگ تو بس اس فکر میں ہوتے ہیں کہ کہیں gap نہ آجائے۔ گیپ آ بھی گیا تو کیا ہو گا؟ میرے ایف ایس سی سے بی ایس میں داخل ہونے میں ایک سال کا گیپ ہے، اسی طرح بی ایس کے بعد ایم ایس میں داخل ہونے میں ایک سال کا گیپ ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ الٹا مجھے فائدہ ہی ہوا۔ گیپ کئی مرتبہ تو جان بوجھ کر لے لینا چاہیے، تاکہ آپ ایک سال میں اپنا پروفائل زیادہ بہتر بناسکیں۔ جو کچھ کمیاں رہ گئی تھیں انہیں دور کرسکیں۔ کسی جگہ کوئی ساف ویئر استعمال ہوتے ہیں، وہ سیکھیے۔ انگلش صحیح نہیں ہے، اسے بہتر بنائیے۔ کسی مضمون کی تیار میں مشکل ہے تو آن لائن کورسز کیجئے۔ اپنے لیے ایک سے زیادہ آپشن رکھیے، کم از کم تین تو ہونے چاہئیں۔ شاید ایک جگہ نہ ہوا تو دوسری جگہ ہو جائے۔ اگر گنجائش ہو تو پاکستان میں بھی کسی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیجئے تاکہ آپ کو وقت ضائع کرنے کا زیادہ خوف نہ ہو۔ اسی طرح اگر مالی مسائل ہیں تو کہیں چھوٹی موٹی نوکری کر لیجئے جس سے تھوڑا بہت خرچہ نکلتا رہے اور گھر والے باتیں نہ سنائیں۔
خیر ساری کہانی کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ جنگ آپ کی ہے اور آپ نے ہی لڑنی ہے، لہٰذا خود پر بھروسہ رکھیے۔ خود سے نہ ہاریں۔ بار بار کوشش کیجئے، لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھریں اور اپنے آپ کو مسلسل بہتر بنانے کی کوشش میں لگے رہیں۔ آج کا دن آپ کے لیے اگر برا ہے تو شاید کل کا دن اچھا ہو۔ بس اتنا سا انتظار کرنا ہے۔
کامران امین
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
Does this löök familiar? Clear your calendar, grab your popcorn and buckle up. 🤔
#pay attention#educate yourselves#educate yourself#knowledge is power#reeducate yourself#reeducate yourselves#think about it#think for yourselves#think for yourself#do your homework#do some research#do your own research#ask yourself questions#question everything#news#world news#election fraud#voter fraud#pakistan
29 notes
·
View notes
Text
F. Dilek Yurdakul's Photo Project
Kalash Schools' Co-Education: In Pakistan, which is normally an Islamic Republic, there is no co-education in public schools. Boys and girls receive Islamic education in separate classrooms and schools.
The Kalash, who live within the borders of Pakistan and neighboring Afghanistan, have not assimilated despite the conservative geography they live in and do not believe in the three major religions. Their schools are still co-educational.
Gender diversity and unity are nothing to fear. On the contrary, according to most experts, it is not advisable to segregate children by gender from an early age. A project from Kalash schools, where children are not segregated by gender, identity, and religion but are educated equally and together. (x)
#education#schools#pakistan#co-education#photos#photograpy#children rights#gender#identity#religion#eauality#good project#dilek yurdakul#f dilek yurdakul#kalash people#diversity
29 notes
·
View notes
Text
गरीब, मेलै ठेलै जाईयो, मेले बड़ा मिलाप ।
पत्थर पानी पूजते, कोई साधु संत मिल जात ।।
#SatlokAshramSojat #सत्य_भक्ति_सन्देश #SaintRampalJiQuotes #SaintRampalJi
#santrampalji is trueguru#kabir is supreme god#sant rampalji maharaj app#kabir is real god#india#america#right way of worship#kabirgod#australia#supremegod#russian#tumbler#trueknowledge#ukraine#artists on tumblr#new delhi#realgod is kabir#punjab#pakistan#education#england#true#youtube#viral#varanasi
10 notes
·
View notes
Text
#free palestine#palestine#from the river to the sea palestine will be free#free gaza#gaza#india#pakistan#haiti#free haiti#iran#venezuela#news update#genocide#this is a genocide#education is important#israel is a terrorist state#israel is an apartheid state#settler colonialism#keep talking about palestine#the west bank#keep protesting#media#free yemen#free west bank#the un#evil#al jazeera
5 notes
·
View notes
Text
#poetry#ali gohar jatoi#aligoharjatoi#photoshop#adobe#authors#books & libraries#branding#character design#data science#design#digital illustration#sindhi people#sindh#river#pakistan#public figure#historical people#$#personality#education
2 notes
·
View notes
Text
Which Degree to Pursue After Intermediate in 2024? A Guide for Students in Karachi
Choosing a degree after completing your intermediate education is a critical decision that can shape your career and future. With numerous options available, it’s essential to consider your interests, career goals, and the evolving job market. If you're in Karachi, you have access to several prestigious universities that offer a wide range of programs. This guide will help you navigate through your options and highlight some of the best universities in Karachi, including DHA Suffa University.
1. Engineering
Engineering remains a popular choice for many students due to its diverse specializations and promising career prospects. Common fields include Civil, Mechanical, Electrical, and Software Engineering.
Top Universities in Karachi for Engineering:
DHA Suffa University: Its top university in Karachi and Known for its modern campus and industry-focused programs.
NED University of Engineering and Technology: One of the oldest and most reputable engineering universities in Pakistan.
Sir Syed University of Engineering and Technology: Offers a wide range of engineering disciplines.
2. Business Administration
A degree in Business Administration (BBA) opens doors to various industries, from finance to marketing to human resources.
Top Universities in Karachi for Business Administration:
Institute of Business Administration (IBA): Renowned for its rigorous curriculum and strong alumni network.
LUMS: Though not in Karachi, it’s worth considering for its exceptional business programs.
DHA Suffa University: Offers a comprehensive BBA program with strong industry linkages.
3. Computer Science and IT
With the digital revolution, degrees in Computer Science and Information Technology are in high demand. These fields offer careers in software development, data science, cybersecurity, and more.
Top Universities in Karachi for Computer Science:
FAST-NUCES: Known for its strong emphasis on computer science and technology.
Karachi Institute of Economics and Technology (KIET): Offers specialized programs in IT and software engineering.
DHA Suffa University: Provides a state-of-the-art computer science program with hands-on learning opportunities.
4. Medicine and Health Sciences
For those inclined towards the medical field, degrees in Medicine, Dentistry, Pharmacy, and Allied Health Sciences are excellent choices.
Top Universities in Karachi for Medicine and Health Sciences:
Aga Khan University: Offers world-class medical education and research facilities.
Dow University of Health Sciences: A leading institution for medical and health sciences education.
DHA Suffa University: While primarily known for engineering and business, it is expanding its health sciences programs.
5. Social Sciences and Humanities
Degrees in Social Sciences and Humanities, including Psychology, Sociology, and International Relations, are ideal for students interested in understanding human behavior and societal issues.
Top Universities in Karachi for Social Sciences and Humanities:
University of Karachi: Offers a broad range of programs in social sciences and humanities.
Habib University: Known for its liberal arts education and interdisciplinary approach.
DHA Suffa University: Offers programs in social sciences that are integrated with modern teaching methodologies.
3 notes
·
View notes
Text
Countries that have the most Nuclear Weapons
Russia 6,257 Weapons
United States 5,550 Weapons
China 350 Weapons
France 290 Weapons
United Kingdom 225 Weapons
Pakistan 165 Weapons
India 156 Weapons
Israel 90 Weapons
North Korea 50 Weapons
#ww2 germany#wwii germany#wwii#ww2#germany#russia#north korea#usa#china#france#uk#united kingdom#pakistan#india#israel#history#world history#education#learning#intresting
2 notes
·
View notes
Text
اعلیٰ تعلیمی ادارے تباہی کے دہانے پر
پاکستان میں متوسط طبقہ کے لیے مہنگائی کے بعد اب تعلیم کا حصول بھی بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ پاکستانی طلبہ کی اکثریت جنھیں سرکاری تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر تھے، اب پہلے جیسے نہیں رہے اور حالات مزید تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم سے متعلق ایک عرصے سے کوئی واضح اور مستقل تعلیمی پالیسی نظر نہیں آ رہی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملکی سیاسی منظر نامے کے تبدیل ہوتے ہی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اہم عہدیدار بھی تبدیل ہوتے ہیں اور اس تبدیلی کے ساتھ ہی تعلیمی پالیسیاں بھی تبدیل ہونے لگتی ہیں۔ حال ہی کی ایک خبر کے مطابق ایک سابق وزیراعظم کی قریبی عزیزہ اعلیٰ تعلیمی ادارے کے اہم ترین عہدے سے فارغ۔ ظاہر ہے جس ملک میں تعلیمی پالیسیاں بھی کسی کرکٹ میچ کی صورتحال کی طرح تبدیل ہوں وہاں تعلیمی معیار کیونکر عالمی سطح کا ہو سکتا ہے؟ غیر ملکی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل جب ملکی تعلیمی پالیسیوں میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں تو انھیں اس ملک اور اس کے طلبہ کی ��روریات اور حالات کا ق��عی علم اور احساس نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ تعلیمی پالیسیوں کو مرتب کرتے وقت متعلقہ ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘سے مشورہ لیتے ہیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تقریباً دو دہائیوں سے یہی طے نہ ہو سکا کہ جامعات میں آنرز اور ماسٹر کی ڈگریاں ہی اس ملک کے طلبہ کے مستقبل کا ضامن ہیں یا ’ بی ایس‘ کی؟
یہی کچھ حال کالجز اور پرائیویٹ اداروں کی ڈگریوں کے معاملات کا ہے، بات صرف یہی تک محدود نہیں ہے بلکہ حساس ترین اور اہم بات یہ ہے کہ اب سرکاری اعلیٰ تعلیمی اداروں کو کسی صنعتی ادارے یا فیکٹری کی طرح چلانے کا راستہ اختیار کر لیا گیا ہے اور تعلیمی اداروں کو پروڈکشن تیار کرنے یعنی مال کمانے والے ادارے کے طور پر چلانے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے اور جامعات کی خودمختاری کو ختم کرتے ہوئے یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ جامعات کا کام صرف پیسہ کمانا ہے فنڈز طلب کرنا نہیں۔ با الفاظ دیگر حکمرانوں کی جانب سے تعلیمی فنڈز فراہم کرنے کے بجائے ہاتھ کھڑے کر لیے گئے ہیں کہ جامعات کے اخراجات کے لیے حکومت کی طرف مت دیکھو، خود بندوبست کرو۔ سوال یہ ہے کہ جامعات تعلیم فراہم کرنے کا ادارہ ہوتی ہیں یا کسی فیکٹری کی طرح مال تیار کر کے، اسے فروخت کر کے پیسہ کماتی ہیں؟ حالیہ ایک خبر کے مطابق سندھ کے سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے اجلاس میں جامعات سے کہا گیا کہ وہ اپنے اخراجات کو کم کریں اور ریسورس جنریشن کے دیگر ذرایع تلاش کیے جائیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ جامعات میں ملازمین کی ضرورت سے زائد تعداد جامعات کے وسائل پر بوجھ ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ تمام سرکاری اداروں میں تقرریاں سیاسی دباؤ کے تحت ہوتی ہیں جو ظاہر ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے ہی ہوتا ہے تو اس کو ختم کرنا بھی حکومت کی ہی ذمے داری بنتی ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ آیندہ تقرریاں بغیر پنشن کی بنیاد پر دی جائیں۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ ایک استاد کو گھر چلانے کے لیے مناسب مشاہرہ اور مراعات جو دیگر سرکاری اداروں کے ملازمین کو بھی دی جاتی ہیں، اس سے محروم کر دیں گے تو اس سے ایک اچھی کارکردگی کی توقع کیسے رکھیں گے؟ کیا ایک استاد مہنگائی کے اس دور میں اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے دیگر جگہوں پر کام نہیں کرے گا؟ ایسے میں وہ طلبہ کوزیادہ وقت نہیں دے سکے گا اور نہ توجہ۔ اس ملک میں ایک طبقے کو تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مراعات دی جائیں اور ایک استاد جو پوری قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرتا ہے اس سے پنشن کا حق بھی چھین لیا جائے؟ بات یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں بھی جامعات کے اساتذہ کو وہ حقوق نہیں مل رہے جو قانونی طور پر ان کا حق ہے، مثلاًبیشتر جامعات میں پنشن بند ہے، کچھ میں تنخواہیں پوری نہیں مل رہی ہیں اور اساتذہ پروموشن کے بغیر ریٹائر ہو رہے ہیں۔
ملک کی سب سے بڑی جامعہ کراچی ہی میں تین اساتذہ بغیر پروموشن کے ریٹائر ہو گئے، پروموشن ان کا حق تھا وہ اس معیار پر بھی پورے اتر تے تھے اور عدالت کی طرف سے اس ضمن میں ہدایات بھی تھیں، تب بھی ان اساتذہ کو پروموشن جو ان کا حق تھا نہیں مل سکا اور اب پنشن بھی نہیں مل رہی۔ اب پنشن کے بغیر تقرری کی بات کی جا رہی ہے جب کہ جامعات کے اساتذہ کو تو اس وقت بھی پروموشن کا حق حاصل نہیں کیونکہ عرف عام میں ہم جب پروموشن کا لفظ استعمال کرتے ہیں توعملاً اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر جامعہ نئی تقرری کا اشتہار دیتی ہے تو یہاں پہلے سے مستقل بنیادوں پر کام کرنے والا ایک استاد دوبارہ سے ایک نئے امیدوار کی حیثیت سے درخواست جمع کرائے اور اس تمام مراحل سے گزرے جس سے ایک باہر سے آکر درخواست دینے والا امیدوار گزرے۔ گویا جامعات کا کوئی استاد اگر زندگی میں بھی نئی آسامی (پوسٹ یا عہدے) کے لیے درخواست جمع نہیں کرائے گا تو ایسے ہی ریٹائر ہو جائے گا، اس کا کوئی پروموشن نہیں ہو گا خواہ اس کی بیس، پچیس سال کی سروس ہو۔ دوسری طرف ایک عام سرکاری ملازم کو پانچ سال بعد سنیارٹی کے پرموشن بھی ملتا ہے اور آفیسر گریڈ کے ملازم کو گاڑی، ڈرائیور بھی جب کہ جامعہ کے گریڈ انیس اور بیس کے پروفیسر کو نہیں ملتا۔
یہ صورتحال اعلیٰ سرکاری تعلیمی اداروں کو بہت تیزی کے ساتھ تباہی کی طرف لے جا رہی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان اس ملک کے مڈل کلاس طبقے کو ہو رہا ہے۔ جامعات ان حالات میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مسلسل فیسوں میں اضافہ کر رہی ہیں جو ظاہر ہے کہ مڈل کلاس طبقے کے لیے مشکلات کا باعث ہے۔ پہلے ہی اس ملک میں سرکاری اسکولوں کی تباہی ہو چکی ہے جس کی وجہ سے وہ خاندان جو پرائیویٹ اسکولوں کی فیس ادا نہیں کر سکتے، ان کی ایک بڑی تعداد مدرسوں کا رخ کر رہی ہے جہاں وہ مڈل یا میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد دوبارہ سرکاری تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں تاکہ انھیں کوئی اچھا ذریعہ معاش مل سکے۔ اب بہت سے دینی مدارس نے بی بی اے، ایم بی اے اور میڈیا سائنسز میں بھی ڈگری کورسسز شروع کر دیے ہیں اور مڈل کلاس کی ایک تعداد اس طرف بھی جا رہی ہے، لیکن ایسے اداروں کی تعداد زیادہ نہیں ہے چنانچہ اگر ریاست کی طرف سے تعلیمی معاملات اور پالیسیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ مڈل کلاس پر آیندہ اعلیٰ تعلیم کے دروازے تقریباً بند ہو جائیں گے جو ملکی ترقی اور مستقبل کے لیے بھی ایک خطرناک مرحلہ ہو گا۔
ڈاکٹر نوید اقبال انصاری
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Photo
March 8, 2023: An Afghan refugee takes part in a rally to mark International Women's Day, in Islamabad, Pakistan. The Taliban have banned girls’ education beyond sixth grade and barred women from public spaces, including parks and gyms. [Anjum Naveed/AP Photo]
#religion#islam#protest#women#people#women's rights#education#international women's day#taliban#pakistan#divinum-pacis
20 notes
·
View notes
Text
بڑھتی بے روزگاری اور بنو قابل پروگرام
پاکستان میں غربت کی شرح بلند ہے، 40 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ بے روزگاری ایک اور اہم معاشی چیلنج ہے، تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ملازمتیں تلاش کرنے سے قاصر ہے۔ بدعنوانی پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان کوچیلنجز پر قابو پانے کیلئے بدعنوانی سے نمٹنا ہو گا۔ پاکستان کے 25 کروڑ عوام نے دیکھ لیا ہے کہ کیسے انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ لوگ مہنگائی بے روزگاری اور دیگر معاشی مجبوریوں کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشیاں کر رہے ہیں لیکن ہمارے قومی ادارے نااہلی اور بے حسی کا شکار ہیں۔ اب تو حال یہ ہے کہ حکومتی کارکردگی سے لوگوں میں دن بدن مایوسی پھیلتی جا رہی ہے۔ پلڈاٹ کے مطابق پاکستان کی گزشتہ 15ویں قومی اسمبلی کے 5 سال کے دوران قومی اسمبلی کے ایک دن کا اوسطاً خرچہ 6 کروڑ 65 لاکھ اور اجلاس کے ایک گھنٹے کا اوسطاً خرچہ 2 کروڑ 42 لاکھ روپے رہا جبکہ ارکان کی حاضری 61 فیصد رہی۔ غریب قوم ایسے شاہانہ اخراجات کو برداشت نہیں کرسکتی۔
رواں سال ہمارے قومی اداروں کا کل خسارہ 500 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے اربوں روپے کے خسارے کا شکار ان اداروں میں پاکستان ریلوے، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن، پاکستان اسٹیل مل اور بجلی بنانے والی کمپنیاں سرِفہرست ہیں، جنھیں فعال رکھنے کے لیے حکومت پاکستان کو ہر سال اربوں روپے قومی خزانے سے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ طرفہ تما شا یہ ہے کہ پی آئی اے میں 7 ہزارافسران تنخواہوں اور دیگر مراعات کے نام پر ادارے کوبے دردی سے لو ٹ رہے ہیں۔ اس مایوس کن منظرنامے میں جماعت اسلامی اور الخدمت فاونڈیشن ملک میں امید کے چراغ روشن کر رہی ہے۔ یہ کام کراچی میں حافظ نعیم الرحمن نے الخدمت کیساتھ ملکر بڑی کامیابی سے کیا اور ہزاروں نوجوانوں کو آئی ٹی کی ٹریننگ دیکر انھیں باعزت روزگار فراہم کیا۔ اب الخدمت فاونڈیشن لاہور اور ملک کے دیگر شہروں میں بڑی تعداد میں نوجوان طلبا و طالبات کو مفت آئی ٹی کورسز کرواکے عظیم کارنامہ سرانجام دے رہی ہے۔
اسی تنا ظر میں گزشتہ دنوں الخدمت فاؤنڈیشن نے’’ بنوقابل پاکستان‘‘ پروگرام کے تحت کراچی کے بعد لاہور میں بھی نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ بنوقابل پروگرام اپنی نوعیت کو منفرد پروگرام ہے جس میں کراچی اور لاہور میں اب تک لاکھوں بچے رجسٹریشن کروا چکے ہیں۔ کراچی میں 10 ہزار بچے کورسز مکمل کر چکے ہیں جبکہ 15 ہزار کی تربیت کا عمل جاری ہے۔ اس موقع پر امیر جماعت اسلامی لاہور ضیاء الدین انصاری، ملک کے نامور آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، دانشور اور صحافی حضرات سمیت ہزاروں طلباء و طالبات نے شرکت کی۔ اس موقع پر ضیاء الدین انصاری کا کہنا تھا کہ لاہور کے لاکھوں نوجوان اپنے بہتر مستقبل کیلئے نوکریوں کی تلاش میں ہیں۔ ہم لاہور کو آئی ٹی سٹی بنائیں گے۔ المیہ یہ ہے کہ آئی ٹی کے میدان میں بھارت اور بنگلہ دیش ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ حکمرانوں نے ہمیشہ نوجوانوں کے مسائل کو نظر انداز کیا ہے۔ جب تک نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں دکھانے کے مواقع نہیں فراہم کئے جائینگے اس وقت تک پاکستان اس شعبہ میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔
الحمدللہ پاکستان کے نوجوان با صلاحیت ہیں اور الخدمت فاونڈیشن ان نوجوانوں کو یہ مواقع فراہم کر رہی ہے، 171 اضلاع میں اس تنظیم کا وسیع نیٹ ورک موجود ہے پاکستان کی کل آبادی کا 60 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے مگر وہی سب سے زیادہ اِس وقت پریشان ہے۔ اس تقریب میں جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم، اذکر اللہ مجاہد، اکرام الحق سبحانی خصوصی طور پر شریک ہوئے۔ الخدمت فاونڈیشن کے پلیٹ فارم سے شہر کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو آئی ٹی کی مہارت کی تربیت اور تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کریں گے۔ اس انتہائی اہم پروگرام بنو قابل پاکستان کے ذریعے نوجوان چھ ماہ میں آئی ٹی کورسز میں مہارت حاصل کر کے باعزت طریقے سے روزگار کمانا شروع کر سکیں گے۔ آئی ٹی کورسز کیلئے امیدواروں کو منتخب کرنے کیلئے قابلیت جانچنے کے ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا جس میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ اس پروگرام کے تحت نوجوانوں کو ای کامرس، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، سائبر سیکورٹی، گرافک اینڈ موشن ڈیزائن اور دیگر مہارتوں پر مبنی کورسز کروائے جا رہے ہیں۔
کوشش ہے کہ شہر کے قابل نوجوانوں کو ایسا بنا دیا جائے کہ نہ صرف وہ اپنی فیملی کو غربت کے اندھے کنویں سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں بلکہ وطنِ عزیز کے لئے زرمبادلہ کما کر قومی خدمت بھی سرانجام دیں۔ اس پروگرام میں نوجوان خواب لے کر آئے ہیں اور ان خوابوں کی تعبیر کیلئےہر ممکن کام کیا جائے گا، بنو قابل لاہور سے یقیناً مایوسی کا شکار نوجوان نہ صرف اپنے خاندانوں کیلئے بلکہ ملک و قوم کیلئے سود مند ثابت ہوں گے۔ اس موقع پر شریک ہزاروں نوجوانوں نےاس عزم کا اظہار کیا کہ وہ بنو قابل پاکستان پروگرام کے ذریعے اپنے لیے باعزت وسائل کمانے کے قابل ہو سکیں گے۔
محمد فاروق چوہان
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
پاکستان کا معاشی مستقبل کیسے محفوظ بنایا جاسکتا ہے؟
کافی شورشرابے کے ��عد گزشتہ ہفتے حکومتِ پاکستان نے ’معاشی بحالی کے منصوبے‘ کا اعلان کیا جس کا مقصد ’معیشت کے اہم شعبوں میں اپنے غیر استعمال شدہ وسائل کو بروئے کار لا کر‘ دوست ممالک کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنا ہے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل نامی نئی باڈی بھی تشکیل دی گئی ہے۔ سنگین معاشی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کسی بھی قدم کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے لیکن اس کے لیے اہم ہے کہ حکومت کی خواہش مندانہ سوچ سے آگے بڑھ کر عملی طور پر یہ سنجیدہ اقدامات لیے جائیں۔ کوئی ایسی پالیسی جو ملک کے معاشی بحران اور عوامی مالیات کی بگڑتی ہوئی حالت کو پس پشت ڈالے، حقیقت سے دور بھاگنے کے مترادف ہو گی۔ اس حوالے سے مجموعی اقتصادی ماحول سے ہٹ کر اٹھائے گئے اقدامات غیرموثر ثابت ہوں گے۔ پاکستان کے معاشی بحران کی جڑیں دائمی مالیاتی خسارے سے جڑی ہیں جو اس کے ادائیگیوں کے توازن کے مستقل مسائل، بلند افراط زر اور معاشی عدم استحکام کا ذمہ دار ہے۔ اس کے لیے ساختی مسائل کو حل کرنے اور پائیدار ترقی کے لیے ایک جامع منصوبے کی ضرورت ہے جو زیادہ بجٹ یا ادائیگیوں کے توازن کے خسارے، بڑھتے ہوئے قرضوں اور غیر ملکی زرمبادلہ کے بحران کے چکر کو ختم کرسکے۔ ان مسائل کی وجہ سے ہم بار بار آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ کو مسئلے کے حل کے طور پر دیکھتے ہیں۔
جب تک ساختی مسائل کو حل نہیں کیا جاتا تب تک ملک میں شرحِ نمو کمزور، بچت اور سرمایہ کاری کم، خسارہ زیادہ رہے گا ساتھ ہی بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے جال سے ہمارا ملک آزاد نہیں ہو سکے گا۔ صرف معاشی اور سیاسی استحکام کے ماحول میں ہی ملک میں سرمایہ کاری کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ یہ ماحول اعتماد کی فضا قائم کرتا ہے۔ غیر یقینی صورتحال سرمایہ کاری کے امکانات کو کمزور کرتی ہے اور یوں سرمایہ کار تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک لبرل کاروباری ریگولیٹری فریم ورک اور حکومتوں کی طرف سے پالیسی کے تسلسل کے وعدے ہی سرمایہ کاری کے لیے مثبت ماحول کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اگر کھیل کے ضابطوں کو بار بار تبدیل کیا جاتا ہے تو کوئی بھی طویل مدتی سرمایہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔ مزید یہ کہ سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے سرمایہ کاروں یکساں مواقع دینا ضروری ہے۔ حالیہ پالیسی میں اس حوالے سے کچھ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے سہولت کاری میں ہمیں ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑا۔ پاکستان کے پائیدار معاشی بحالی کے امکانات کا تعین سیاسی اور اقتصادی عوامل کریں گے۔ درحقیقت اس حوالے سے سب سے اہم شرط معاشی نہیں ہے۔
یہ شرط ملک کی قیادت کا معیار ہے اور یہ کہ کیا وہ بہتر انداز میں حکومت کرتے ہیں، ایک ایسی حکومت جو ساختی اصلاحات کی اہمیت کو سمجھتی ہو اور اس حوالے سے اقدامات کرنے کا حوصلہ اور صلاحیت رکھتی ہو۔ ایسی اصلاحات جو قلیل مدت میں تو بہت سخت لیکن طویل مدت میں پائیدار اور منافع بخش ہوں۔ پاکستان کے معاشی بحرانوں کی ایک وجہ حکومتی بحران بھی ہیں۔ اصلاحات مخالف حکمران اشرافیہ تقریباً ہمیشہ ہی سنگین معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے آسان راستے تلاش کرتی ہے۔ پاکستان شدید معاشی بحران کا سامنا کرنے والا واحد ملک نہیں ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک جیسے جنوب مشرقی ایشیا، لاطینی امریکا کے ممالک اور ہمارے ہمسایہ ممالک کو اسی طرح کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ان بحرانوں سے پہلے سے زیادہ مضبوط بن کر نکلے۔ ان ممالک نے بحرانوں کو مواقع میں تبدیل کیا، سخت ساختی اصلاحات کی گئیں اور مالیاتی پالیسی اور دیگر اصلاحاتی اقدامات کا آغاز کیا گیا۔ یہ سب ان حکومتوں نے کیا جو اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ اگر آگے بڑھنا ہے تو طویل مدتی عزم اور مستقل پالیسی پر عمل درآمد ضروری ہے۔
اس حوالے سے قیادت کا کردار اہم ہے۔ لیکن اسی طرح پیشہ ورانہ افراد کی ایک قابل اور باشعور ٹیم بھی اہم ہے جو بحرانوں سے نمٹنے اور ملک کی پائیدار اقتصادی بحالی اور ترقی کی طرف منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے اصلاحات کی تشکیل اور نفاذ میں حکومت کی مدد کرسکتی ہو۔ عام طور پر اس بات پر اتفاق کیا جاتا ہے کہ معاشی میدان میں کامیابی حاصل کرنے والے ممالک میں اصلاحات کے عمل کی تشکیل اور نگرانی کرنے والے پیشہ ورانہ افراد کا معیار انتہائی اہم تھا۔ ایک بار پھر کہوں گی کہ قیادت اہم ہے۔ قائدین ہی صحیح ٹیم کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر اسے ایک راستے پر رہنے اور ڈیلیور کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ادارہ جاتی طاقت بھی اہم ہے۔ اس سے طے ہوتا ہے کہ پالیسی اقدامات اور اصلاحات کو کس حد تک لاگو کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی سول سروس کے معیار اور صلاحیت میں آنے والی گراوٹ اور اس کی مسلسل عمومی نوعیت اب پالیسی کے نفاذ میں اہم رکاوٹوں میں شامل ہیں۔ عالمی بینک کے تعاون سے ہونے والے ایک اہم تحقیق، ’گروتھ رپورٹ‘ نے دنیا بھر کے ممالک کے تجربات کا جائزہ لیا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ معاشی طور پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے انہوں نے کیا کیا۔ رپورٹ کو ورلڈ بینک کے قائم کردہ کمیشن آن گروتھ اینڈ ڈویلپمنٹ نے مرتب کیا۔
اس رپورٹ کی تیاری میں معراف افراد شامل تھے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق عالمی جنوب (گلوبل ساؤتھ) سے تھا۔ یہ رپورٹ 2008ء میں شائع ہوئی لیکن کے باوجود اس کے نتائج آج بھی درست ہیں۔ سب سے زیادہ سبق آموز ان خصوصیات کی شناخت ہے جو ان تمام ممالک میں یکساں ہیں جنہوں نے ترقی کی کامیاب حکمت عملیوں پر عمل کیا ہے۔ انہوں نے میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنایا، بچت اور سرمایہ کاری کی بلند شرحیں برقرار رکھیں، منڈیوں کو وسائل مختص کرنے کی اجازت دی اور عالمی معیشت کا مکمل فائدہ اٹھایا۔ سب سے اہم ��ات یہ ہے کہ ان سب ممالک میں قابل بھروسہ اور باصلاحیت حکومتیں تھیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ رپورٹ پالیسی سازوں کی اس سوچ کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کامیاب ترقی دہائیوں پر محیط وابستگی اور حال اور مستقبل کے درمیان ایک بنیادی سودے پر مشتمل ہے۔ اس طرح کی سودے بازی میں، فوری اور اہم دونوں عوامل پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلاشبہ فوری طور پر مالیاتی بحران اور اس سے پائیدار بنیادوں پر نمٹنے کے لیے جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔ لیکن مستقبل کے ساتھ سودے بازی میں ایسے مسائل سے نمٹنا بھی شامل ہے جو معاشی ترقی اور ملک کے مستقبل کے لیے فائدہ مند ہوں۔
ان میں سب سے اہم چیز تعلیم کی دستیابی اور معیار ہے۔ مضبوط تعلیمی بنیاد کے بغیر معاشی ترقی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ایک تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت وہ ہوتی ہے جو معاشی ترقی کی کامیابی یا ناکامی میں فرق کرے۔ اس کے لیے ہمیں طویل مدتی پالیسی فیصلوں کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود یکے بعد دیگرے وفاقی حکومتوں نے 18ویں آئینی ترمیم کا بہانہ بنا کر تعلیم کے نظام سے ہاتھ اٹھا لیے ہیں جس نے تعلیم (اعلیٰ تعلیم کے علاوہ) کو صوبوں کے حوالے کر دیا تھا۔ جبکہ صوبائی حکومتوں نے اس پر بہت کم توجہ دی۔ کئی دہائیوں تک تعلیم کو نظر انداز اور اس پر کم اخراجات کی وجہ سے پاکستان میں 2 کروڑ 28 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ جس کے ساتھ ہی پاکستان نے دنیا میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی دوسری سب سے زیادہ تعداد رکھنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ پاکستان کے ڈیموگرافک پروفائل اور نوجوانوں کی تعداد کے پیش نظر اس کے سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تعلیم کے پیمانے اور معیار کو بہتر نہیں کیا جاتا ہے تب تک تعلیم یا ہنر سے محروم نوجوان، بے روزگاری، مایوس مستقبل اور غربت کی زندگی کا سامنا کریں گے۔ پاکستان کے بہتر معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے اس سے کہیں زیادہ واضح ہے اور ہمیشہ واضح کیا جاتا رہے گا۔ لیکن قیادت کا غربت کے خاتمے اور ملک کی سیاسی اشرافیہ کی جانب سے اصلاحات کے عزم کا فقدان بامعنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا اور یہ اب بھی رکاوٹ ہے۔
ملیحہ لودھی
یہ مضمون 26 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
At least 55 people are dead and 135 more are injured in a suspected suicide bombing at a political rally in northwest Pakistan.
Details and more video:👇
#pay attention#educate yourselves#educate yourself#knowledge is power#reeducate yourself#reeducate yourselves#think for yourselves#think about it#think for yourself#do your homework#ask yourself questions#question everything#world news#news#pakistan
21 notes
·
View notes