#اسلام آباد کی کالم نگار
Explore tagged Tumblr posts
Text
تجزیہ کاروں نے بلدیاتی انتخابات کی طرح 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں بھی جماعت اسلامی کو عوامی سطح پر کراچی کی سب سے مقبول جماعت قرار دیا ہے۔الیکشن 2024 کے حوالے سے جیو نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں پاکستان کے نامور صحافی، تجزیہ کاروں اور اینکر پرسنز حامد میر، شاہزیب خانزادہ، شہزاد اقبال، سہیل ورائچ اور ارشاد بھٹی نے جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمان کی حالیہ کارکردگی اور سیاسی سرگرمیوں کو سراہا ہے۔خصوصی الیکشن ٹرانسمیشن میں گفتگو کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ پلس کنسلٹنٹ کے حالیہ سروے میں جماعت اسلامی بہت سے حلقوں میں اوپر جا رہی ہے جس کی ایک وجہ حالیہ ��ارش اور سوشل میڈیا پر ان کے حق میں چلنے والی مہم ہے۔جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ کے میزبان شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات کے بعد ہونے والے سروے کے مطابق کراچی کی عوام کی اولین ترجیح جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمان کو منتخب کرنا تھا نہ کہ پی ٹی ائی یا کسی اور سیاسی جماعت کو جبکہ 2018 کے الیکشن میں پی ٹی ائی نے کراچی سے بہت سیٹیں نکالی تھیں۔سینئر تجزیہ کار اور کالم نگار مظہر عباس نے کہا کہ کراچی میں ہونے والی حالیہ بارش کا فائدہ جماعت اسلامی کو ہوگا اور جماعت اسلامی نے دو تین سال پہلے اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے کراچی پر مرکوز کی ہے۔مظہر عباس کا مزید کہنا تھا کہ اس وجہ سے جماعت اسلامی کی سیاست پر بہت سے سوالات بھی اٹھے تھے، جماعت اسلامی سے اور بھی بہت سے نامور لوگ الیکشن لڑ رہے ہیں لیکن جماعت اسلامی کی پوری سیاست اس وقت حافظ نعیم الرحمان کے گرد گھوم رہی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ حافظ نعیم الرحمان کراچی سے قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں، ایک نارتھ ناظم آباد جو ان کا اپنا حلقہ ہے جبکہ دوسرا اونگی ٹاؤن کا حلقہ ہے اور حافظ نعیم الرحمان کے مطابق ان کی جماعت نے بہاریوں کے ایشوز کو بہت زیادہ اجاگر کیا ہے اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ اورنگی ٹاؤن سے زیادہ ووٹ حاصل کریں۔تجزیہ کار ارشاد بھٹی کا کہنا تھا دھونس اور دھاندلی سے حافظ نعیم الرحمان کو میئر کراچی بننے سے روکا گیا اور مرتضیٰ وہاب کو اقلیت میں ہونے کے باوجود میئر منتخب کروا دیا گیا، الیکشن کمیشن اسلام اباد کے الیکشن نہ کروا سکا اور نہ ہی سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کو روک سکا۔سینئر تجزیہ کار سہیل ورائچ کا گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے اپنے تجربات سے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے، پہلے جماعت اسلامی کی مہم میں نہ تو امیر کا نام ہوتا تھا نہ ہی اس کی تصویر ہوتی تھی، انہوں نے تبدیلی یہ کی ہے کہ بجائے مرکزی لیڈر شپ کے مقامی رہنماؤں اور امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم میں اجاگر کیا، اسی لیے آپ کو گوادر میں ہدایت الرحمان یا پھر کراچی میں حافظ نعیم الرحمان کے نام اور تصویریں نظر ائیں گی، ان کی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی یہی ہے کہ جو ’سن آف سوائل‘ ہے اسے سامنے لایا جائے۔سہیل وڑائچ کا مزید کہنا تھا کہ جہاں بھی جماعت اسلامی کا کوئی امیدوار کھڑا ہوگا اس کی عوام میں ساکھ بہت اچھی ہوگی کیونکہ لوگ اسے مقامی طور پر جانتے ہوں گے۔
جماعت اسلامی کراچی کی سب سے مقبول جماعت بن کر سامنے آئی ہے: تجزیہ کار
View On WordPress
0 notes
Text
صفر کی توہین سلسلہ کلامیہ اور الحاد پرستی کے تناظر میں – ا شترا ک
صفر کی توہین سلسلہ کلامیہ اور الحاد پرستی کے تناظر میں – ا شترا ک
صفر کی توہین سلسلہ کلامیہ اور الحاد پرستی کے تناظر میں – ا شترا ک — Read on ishtiraak.com/index.php/2022/09/22/sifar-ki-tauheen/
View On WordPress
#feministwriter womanday nadiaumberlodhi#Khabrain Manchester newspaper#Nadia umber Lodhi editor#Parveen Shakir poetess by Nadia Umber Lodhi poetess#مضامین#نادیہ عنبر لودھی کی شاعری اور نثر#کلاسیکی ادب#اردو شاعرات#اسلام آباد کی کالم نگار#طنز ومزاح
0 notes
Text
ادریس صاحب جا چکے ہیں
اگر کسی پچھتر سالہ شخص کے ستاون برس صحافت میں گزرے ہوں تو اس کے سوا کیا کہا جائے کہ وہ پیدا ہی صحافت کے لیے ہوا تھا۔ سنہ 1962 میں ایوب خان سے سنہ 2019 میں عمران خان تک قسم ہا قسم کے گیارہ ادوار میں اپنی صحافت جینے والے ادریس بختیار۔ چونکہ وہ چھ عشرے پہلے اس پروفیشن میں آئے لہذا صحافت کو صحافت سمجھتے رہنے کی ضد کے ہی تادمِ مرگ اسیر رہے اور بمشکل ایک گھر بنا پائے۔ اب سے پندرہ بیس برس پہلے صحافت میں آئے ہوتے تو شائد ایک آدھ فارم ہاؤس، بلٹ پروف گاڑی اور محافظوں کے ہمراہ ان کیمرہ بریفنگز کے عادی ہو چکے ہوتے۔
ادریس صاحب نے خبر کے کوچے میں اٹھارہ برس کی عمر میں حیدرآباد سے نکلنے والے انگریزی اخبار انڈس ٹائمز کے ذریعے اپنی طویل اننگز کا آغاز کیا۔ انھوں نے چار برس خبر رساں ایجنسی پی پی آئی، ایک برس عرب نیوز جدہ، چار برس روزنامہ جسارت، بتیس برس ڈان گروپ (اسٹار و ہیرلڈ)، پندرہ برس بی بی سی، سات برس جیو نیوز (سربراہ ایڈیٹوریل کمیٹی ) میں گزار دیے۔ تقریباً تین ماہ قبل جیو نے انھیں اچانک سبکدوش کر دیا اور کل 29 مئی کو ادریس صاحب نے زندگی سے استعفی دے دیا۔ اس بیچ ادریس صاحب لگ بھگ 18 برس دی ٹیلی گراف کلکتہ کے پاکستان میں نامہ نگار بھی رہے اور روزنامہ جنگ میں کالم نگاری بھی کی۔ تین برس پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (دستور) کے صدر بھی رہے۔
ادریس صاحب سے پہلے مرحوم اقبال جعفری اور پھر ظفر عباس (موجودہ ایڈیٹر روزنامہ ڈان) کراچی میں بی بی سی کے نامہ نگار تھے۔ جب سنہ 1992 میں ظفر عباس بی بی سی اسلام آباد بیورو منتقل ہو گئے تو ادریس صاحب نے ان کی جگہ سنبھالی۔ سن بانوے سے پچانوے تک کراچی آپریشن کے سبب ہر دن روزِ قیامت تھا۔ کسی دن ڈیڑھ سو، کبھی سو، کبھی پچاس بوری بند یا کھلی لاشیں شہر کے کونوں کھدروں سے ملتی تھیں۔ جس روز لاشوں کی تعداد صرف آٹھ سے دس ہوتی وہ دن غیر معمولی طور پر پرامن سمجھا جاتا۔ ان حالات میں کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر حقائق کی صداقت پر سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے رپورٹنگ کرنا اور پھر زندہ بھی رہنا اور کسی بھی فریق کی جانب سے متعصب یا جانبدار رپورٹنگ کا طعنہ بھی نہ ملنا۔ ایسے تھے ادریس صاحب۔
ادریس صاحب نظریاتی اعتبار سے جماعتِ اسلامی کے قریب تھے۔ مگر ان کے ساتھیوں اور دوستوں میں بائیں بازو والے بھی بہت تھے۔ جب وہ لکھتے یا رپورٹنگ کرتے تو ان کے ذاتی نظریے کا چھینٹا بھی اس رپورٹ میں ڈھونڈنا محال تھا۔ آنکھ بند کر کے کہا جا سکتا ہے کہ ادریس صاحب اس صحافتی قبیلے کی آخری گنی چنی صف میں تھے جنھوں نے خبری حقائق کو اپنی پسند ناپسند اور خواہش سے کبھی آلودہ نہیں ہونے دیا۔ میں نے ادریس صاحب کو پہلی بار اکتالیس برس قبل دیکھا۔ گھنے بالوں اور سیاہ مونچھوں والا ویسپا سوار بذلہ سنج مسکراتا ہوا چین سموکر صحافی جو کچھ عرصے کراچی یونیورسٹی کے علامہ اقبال ہاسٹل میں بھی قیام پذیر رہا۔ اس زمانے میں ادریس صاحب روزنامہ جسارت کے چیف رپورٹر تھے۔
جب بھی میرے جیسے ہوسٹلے لمڈے جو نئے نئے صحافی ہونے کے مغالطے میں ارسطوئی بگھارنے کی کوشش کرتے تو ادریس صاحب جزبز ہونے کے بجائے مسکراتے رہتے اور پوری بقراطی سننے کے بعد کہتے ’آپ جیسوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ آپ انگور بننے سے پہلے منقیٰ بننے کے چکر میں ہیں۔‘ ادریس صاحب نے کبھی اپنے تجربات نئے صحافیوں کو منتقل کرنے اور سکھانے میں بخل سے کام نہیں لیا۔ جب میں انیس سو اٹھانوے میں بی بی سی اردو کے گشتی نامہ نگار کے طور پر پاکستان میں کام کرنے لگا تو کمپیوٹر ٹائپنگ اور کمپیوٹر ایڈیٹنگ کے ٹھنٹھنے سے بھی واقف نہیں تھا۔ یہ ادریس صاحب تھے جنہوں نے کہا پریشان مت ہو، چند دنوں میں سب سیکھ جاؤ گے۔ اور پھر انھوں نے چند دنوں میں مجھے اردو ٹائپنگ اور ایڈیٹنگ کا ماہر بنا دیا۔
یہی نہیں بلکہ انٹرنیٹ کا پروفیشنل استعمال کیسے ہوتا ہے اور اس کے ذریعے خبر اور صوتی رپورٹ کیسے بھیجی جاتی ہے۔ یہ سب ادریس صاحب نے ہی انگلی پکڑ کے سکھایا اور میرے جیسوں کی تعداد انگلیوں پر نہیں درجنوں میں ہے۔ ادریس صاحب کے آخری چند برس بیماریوں سے لڑتے گزرے مگر وہ ان بیماریوں کو دوا سے زیادہ مصروفیت کے ٹانک کی مدد سے جھیلتے رہے۔ پر کب تک؟ فی الحال میں بالکل بلینک ہوں۔ ادریس صاحب کی رحلت میرے لیے اس وقت ایک خبر جیسی ہے۔ شاید یقین آنے میں کچھ دن لگیں کہ یہ محض روزمرہ خبر نہیں بلکہ ایک ایسے دور کی سچائی ہے جس میں صحافت اوڑھنے، بچھانے اور سوچنے والوں کی تعداد تبرک ہو کر رہ گئی ہے۔
یہی سب کچھ تھا جس دم وہ یہاں تھا چلے جانے پے اس کے جانے کیا نئیں
( جون ایلیا )
وسعت اللہ خان بشکریہ بی بی سی اردو
1 note
·
View note
Text
پی ٹی آئی کی تقریب میں سینئر صحافی ایاز امیر کی عمران خان پر تنقید
پی ٹی آئی کی تقریب میں سینئر صحافی ایاز امیر کی عمران خان پر تنقید
اسلام آباد: کالم نگار ایاز امیر نے جمعہ کو پارٹی کی جانب سے منعقدہ تقریب میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پر سخت تنقید کی۔ سینئر صحافی نے عمران خان کے ساتھ تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے انہیں ملک کو درپیش بیماریوں کا جزوی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا۔ پی ٹی آئی چیئرمین پر تنقید کرتے ہوئے صحافی نے کہا کہ لوگوں کو بتایا گیا کہ کپتان نے اپنے کرکٹ کے دنوں میں ٹیم میں انقلاب برپا کیا اور کیا نہیں۔ “آپ نے ملک کو…
View On WordPress
0 notes
Text
کرکٹ بجا…… مگر یہ سیاپا کیوں؟
کرکٹ بجا…… مگر یہ سیاپا کیوں؟
میں نے گزشتہ دو کالم پاکستان کو درپیش مسائل کے بارے میں لکھے تھے۔ پہلا کالم تو عمومی قسم کے داخلی اور خارجی مسائل کے بارے میں تھا جبکہ دوسرا کالم میں نے ملک میں بڑھتی ہوئی شدید مہنگائی پر لکھا تھا۔ آج کا کالم لکھتے ہوئے میرے سامنے نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے اچانک یکطرفہ طور پر دورہ منسوخ کرکے واپس چلے جانے اور اس کے فورا بعد برطانوی کرکٹ ٹیم کے پاکستان کا دورہ نہ کرنے کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ اپنے ٹی۔وی چینلز، اخبارات اور سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے آج کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لئے سب سے سنگین مسائل یہی ہیں۔ پہلا یہ کہ عین وقت پر نیوزی لینڈ کی ٹیم کے کان میں کیا پھونکا گیا کہ اس نے ایک چارٹر طیارہ منگوایا اور پاکستان سے اس طرح فرار ہوگئی جیسے یہاں کوئی شدید زلزلہ آنے والا ہے۔ دوسرا یہ کہ برطانوی کرکٹ کونسل نے کیوں پاکستان کا طے شدہ دورہ منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ بلا شبہ یہ دونوں واقعات، جو ایک دوسرے سے جڑے ہیں، ہمارے لئے تشویش کا باعث ہیں۔ اس تشویش کا سبب یہ نہیں کہ کچھ لوگ یہ میچ دیکھنے کی سعادت سے محروم رہے یا پی۔ٹی۔وی اور کسی دوسرے ادارے کو کروڑوں کا نقصان ہو گیا، اس لئے کہ ان دونوں واقعات کا براہ راست منفی اثر ملک کی ساکھ پر پڑا ہے جو دنیا میں پہلے ہی بہت نیچے جا چکی ہے۔
یہ آج سے کوئی گیارہ سال پہلے مارچ 2009 کا ذکر ہے جب لاہور میں، قذافی اسٹیڈیم کے قریب اس بس کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جو سری لنکن کرکٹ ٹیم کو لے کے جا رہی تھی۔ گھات میں بیٹھے بارہ دہشت گردوں نے اچانک بس پر فائرنگ شروع کر دی جس سے چھ سری لنکن کھلاڑی زخمی ہو گئے۔ چھ پاکستانی پولیس مین اور دو عام شہری اس فائرنگ سے شہید ہو گئے۔ وہ دن اور آج کا دن، دنیا بھر کے کھلاڑی سہمے ہوئے ہیں۔ ہم انہیں کسی نہ کسی طرح یہاں لانے کے سو سو جتن کرتے ہیں۔ لالچ دیتے ہیں۔ منت سماجت کرتے ہیں۔ کبھی ہماری یہ کوشش جزوی طور پر کامیاب ہو جاتی ہے اور کبھی اس سب کچھ کے باوجود کوئی اپنی جان خطرے میں ڈالنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ بارہ سال سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اس کے اثرات پتہ نہیں کہاں کہاں پڑے لیکن ہماری کرکٹ ٹیم کی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ وہ اس سطح سے بہت نیچے آگئی ہے جہاں پندرہ بیس سال پہلے کھڑی تھی۔
اب ایک اور پہلو پر نظر ڈالئے۔ جب ہماری بھرپور منت سماجت کے بعد کوئی ٹیم پاکستان آنے پر آمادہ ہو جاتی ہے تو ہم اسے معمول کی کاروائی سمجھنے کے بجائے اس طرح خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں جیسے کوئی بہت بڑی عالمی کامیابی حاصل کر لی گئی ہے۔ اب یہاں حال یہ ہوتا ہے کہ باہر کی ٹیم اور ساتھ آئے پندرہ بیس افراد کی سیکیورٹی کے لئے ہمیں جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ دو دن پہلے ہی اس ہوٹل کو محاصرے میں لے لیا جاتا ہے جہاں باہر کی ٹیم کو ٹھہرانا ہوتا ہے۔ اس ہوٹل کو جانے والی سڑکیں یا تو بند کر دی جاتی ہیں یا اس طرح ناکے لگا دئیے جاتے ہیں کہ ٹریفک کی لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں اور شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ بچے اسکولوں کو نہیں جا سکتے۔ مریض ہسپتالوں کو نہیں پہنچ سکتے اور ملازمین کے لئے اپنے دفتروں کو آنا جانا محال ہو جاتا ہے۔ کھیل کے میدان میں جا کر لطف اندوز ہونے والے تماشائی جتنے بھی ہوں، وہ شہر ایک طرح کے عذاب کا شکار ہو جاتا ہے۔ جہاں لاکھوں شہریوں کی روز مرہ زندگی اور لوگوں کا کاروبار متاثر ہوتا ہے۔ آج ہی میں نے ایک معروف کالم نگار کا کالم پڑھا کہ نیوزی لینڈ کے دورے کے وقت اسلام آباد اور راولپنڈی ک�� کیا حال تھا۔ راولپنڈی سٹیڈیم روڈ پر سینکڑوں دکانیں، ہوٹل، ریستوران اور دیگر تجارتی مراکز بند کر دئیے گئے۔ میچ سے دو دن پہلے ہی وہاں کر فیو کی کیفیت پیدا کر دی گئی۔ سب سے بڑی تجارتی شاہراہ، مری روڈ کا بھی یہی حال ہوا جہاں سینکڑوں بڑی دکانیں ہیں اور راولپنڈی کا سب سے بڑا بے نظیر بھٹو شہید ہسپتال بھی ہے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم تو کسی نا معلوم سیکیورٹی تھریٹ کا بہانہ بنا کر چلی گئی لیکن راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں پر جو کچھ گزری وہ انہیں دیر تک یا درہے گا۔ مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ راولپنڈی کے تمام بڑے کلینکس بھی بند رہے کیوں کہ ڈاکٹرز اور مریضوں کے لئے گھروں سے نکلنا مشکل بنا دیا گیا تھا۔ کیا فائدہ ایسی تفریح کا؟ دنیا میں بڑے بڑے سٹیڈیم ہیں۔ ان میں فٹ بال، کرکٹ یا ہاکی کے میچ ہوتے ہیں تو باہر چاروں طرف کی سڑکیں کھلی ہوتی ہیں اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ سٹیڈیم میں کوئی میچ ہو رہا ہے۔ یہاں ہمارے وزیر داخلہ نے نہایت فخر سے بتا یا ہے کہ ہم نے نیوزی لینڈ کی فوج سے بھی زیادہ سیکیورٹی اہلکار تعینات کئے تھے۔
ایک اور قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ ہمارے مختلف وزراء دونوں ٹیموں، خاص طور پر نیوزی لینڈ کی ٹیم کو اس طرح نشانہ بنائے ہوئے ہیں کہ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے تعلقات کا بھی خیال نہیں رکھا جا رہا۔ اس صورتحال پر آخر اتنا برہم ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ نیوزی لینڈ کی ٹیم نے، یا حکومت نے جو کچھ بھی کیا اچھا نہیں کیا۔ اسباب کچھ بھی ہوں، اس سے پاکستان کی سبکی ہوئی ہے۔ اگر کوئی سنگین قسم کی دھمکی تھی بھی تو حکومت پاکستان اور ہماری متعلقہ سیکیورٹی ایجنسیوں کو ساری تفصیلات سے آگاہ کرنا چاہیے تھا۔ بار بار کے مطالبے کے باوجود نیوزی لینڈ ہمیں اس تھریٹ کی تفصیلات اور نوعیت سے آگاہ نہیں کر رہا۔ اب ہمارے وزراء نے کہا ہے کہ یہ ایک سازش تھی جس کے پیچھے بھارت کا ہاتھ تھا اور اسی نے یہ جھوٹا تھریٹ الرٹ نیوزی لینڈ تک پہنچایا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارت ہمارا جانا پہنچانا دشمن ہے۔ وہ ہمیں دنیا بھر میں ملامت اور رسوائی کا نشانہ بنانے کے لئے سرگرم رہتا ہے۔ اس کی سفارت کاری ہم سے کہیں زیادہ موثر ہے۔ لہذا اگر ایک دشمن نے یہ سب کچھ کیا بھی تو اس کا شکوہ کیسا؟ دوسری بات یہ کہ اگر نیوزی لینڈ اور برطانیہ یہاں کھیلنے نہیں آرہے تو ہم مرے کیوں جا رہے ہیں؟ صبح و شام سیاپا کیوں ڈالا ہو ا ہے؟ اپنے آپ کو اتنا ہلکا کیوں سمجھ رہے ہیں؟ احساس کمتری میں کیوں مبتلا ہیں؟ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے حال پر کیوں غور نہیں کر رہے؟ کیا بھارت کا دورہ کرنے والی کسی ٹیم کو ہم ایک جعلی سیکیورٹی تھریٹ بھیج کر وہاں سے نکال سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ ایسا صرف پاکستان کے حوالے سے ہو سکتا ہے۔ سب باتیں چھوڑ کر ہمارے لئے یہ سوال اہم ہونا چاہیے کہ آخر ہم میں ایسی کیا خرابی ہے کہ لوگ یہاں آنے سے ڈرتے ہیں اور ہمارے بارے میں کسی جھوٹے تھریٹ الرٹ کو بھی کیوں درست مان لیا جاتا ہے؟
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : 315458908831110, xfbml : true, version : "v2.12" ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/ur_PK/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, "script", "facebook-jssdk")); Source link
0 notes
Text
صحافی و کالم نگار شہزاد حسین بھٹی کے والد کی وفات پرتعزیت کا سلسلہ جاری
صحافی و کالم نگار شہزاد حسین بھٹی کے والد کی وفات پرتعزیت کا سلسلہ جاری
اسلام آباد /19 مارچ 2021پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے سیکرٹر ی انفارمشن پنجاب،سینئر صحافی وکالم نگار شہزادحسین بھٹی کے والد مشتاق حسین اٹک شہر میں انتقال کر گئے۔ مشتاق حسین بھٹی سابق ہیڈماسٹر اختر حسین بھٹی،پروفیسر ریاض حسین بھٹی، عطرت حسنین بھٹی کے بھائی،میجرلورز فورس کے چیف پیٹرن و سٹی ہیڈ میجر گروپ محمد اکرم خان کے برادرنسبتی،سابق ڈی ای او سکینڈری راجہ مختار احمد کے کنزن، پروفیسر اعتراز…
View On WordPress
0 notes
Text
اگر عمران خان ”سلیکٹڈ” ہیں تو یہ جائزہ لینا ضروری تھا کہ ”سلیکٹر” ابھی اس کو تبدیل کرنا چاہتے بھی ہیں یا نہیں؟ پی ڈی ایم کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ سامنے آ گئی
اگر عمران خان ”سلیکٹڈ” ہیں تو یہ جائزہ لینا ضروری تھا کہ ”سلیکٹر” ابھی اس کو تبدیل کرنا چاہتے بھی ہیں یا نہیں؟ پی ڈی ایم کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ سامنے آ گئی اسلام آباد (گلوبل کرنٹ نیوز) پی ڈی ایم کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ اس کی انتہائی ناقص حکمتِ عملی تھی، کسی بھی لڑائی سے پہلے اپنے مدِمقابل کی طاقت اور کمزوری کو جانے بغیر میدان میں اترنا ہی ناکامی کی علامت ہوتا ہے، پھر اپنی طاقت اور کمزوری کا اندازہ لگایا جاتا ہے، اس اتحاد میں ان دونوں چیزوں کی کمی نظر آئی۔ موجودہ ملکی و سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کالم نگار مظہر عباس نے اپنے حالیہ کالم میں کہا کہ اب اگر عمران خان ”سلیکٹڈ” ہیں تو یہ جائزہ لینا ضروری تھا کہ ”سلیکٹر” ابھی اس کو تبدیل کرنا چاہتے بھی ہیں یا نہیں، اب میاں صاحب تو ایمپائر کی مرضی سے میدان میں اترتے تھے اور پھر ایمپائر سے ہی لڑنے لگتے تھے۔ خان صاحب نے ان سے یہی سبق سیکھا کہ جس کی مرضی اور حمایت سے آئے ہیں،بس اس سے لڑائی نہیں لڑنی۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی ناکامی کی دوسری بڑی وجہ مسلم لیگ (ن) کے قائد کا بیرون ملک جانا اور پھر وہیں کا ہوکر رہ جانابھی ہے، بدقسمتی سے تین بار کے وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے یہ پہلی بار نہیں کیا، ماضی میں ان کے سعودی عرب جانے سے پارٹی ٹوٹ گئی تھی اور ان کے اس عمل نے آمر کو طاقتور بنا دیا، بعد میں جاوید ہاشمی جیسے لوگوں کو طویل قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ پنجاب کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود ان کو اندازہ ہونا چاہئے کہ یہاں کے لوگ ’’ووٹ‘‘ تک تو ساتھ دیتے ہیں، تحریکوں کا حصہ کم بنتے ہیں، مسلم لیگ (ن) جس طرح کھڑی ہے اور ووٹ بینک اب تک ساتھ ہے اسے غنیمت جانے مگر پی ڈی ایم کی ناکامی کے اثرات چند ماہ بعد ان پر بھی نمودار Read the full article
0 notes
Text
اسامہ ستی: کیا مشرف دور کی اصلاحات 2021 میں اس ہلاکت کی وجہ بنیں؟ - BBC News اردو
اسامہ ستی: کیا مشرف دور کی اصلاحات 2021 میں اس ہلاکت کی وجہ بنیں؟ – BBC News اردو
فاروق عادل مصنف، کالم نگار 3 گھنٹے قبل ،تصویر کا ذریعہFacebook ،تصویر کا کیپشن اسامہ ستی کو جنوری 2021 کے اوائل میں اسلام آباد میں پولیس نے ہلاک کر دیا تھا پاکستان کے دو مختلف شہروں میں گذشتہ دو ہفتوں کے دوران دو افراد پولیس کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں جس کے نتیجے میں پولیس کے بے قابو ہونے کا تاثر مزید گہرا ہوا ہے اور قومی سطح پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے جس کے اثرات حکومت پر بھی…
View On WordPress
0 notes
Text
۱۲ربیع الاول ولادت محمد مصطفی
مرا پیمبر عظیم تر ہےکمالِ خلاق ذات اُس کیجمالِ ہستی حیات اُس کیبشر نہیں عظمتِ بشر ہےمرا پیمبر عظیم تر ہے وہ شرحِ احکام حق تعالیٰوہ خود ہی قانون خود حوالہوہ خود ہی قرآن خود ہی قاریوہ آپ مہتاب آپ ہالہوہ عکس بھی اور آئینہ بھیوہ نقطہ بھی خط بھی دائرہ بھیوہ خود نظارہ ہے خود نظر ہےمرا پیمبر عظیم تر ہے شعور لایا کتاب لایاوہ حشر تک کا نصاب لایادیا بھی کامل نظام اس نےاور آپ ہی انقلاب لایاوہ علم کی اور…
View On WordPress
#Nadia umber Lodhi editor#nadia umber lodhi poetry#مضامین#نادیہ عنبر لودھی کی شاعری اور نثر#اردو شاعرات#اسلام آباد کی کالم نگار
0 notes
Text
افغانستان کا ثبوت ہے کہ بنیاد پرستی ایک اہم چیلنج ہے ، پی ایم مودی نے ایس سی او سمٹ میں کہا - دی پرنٹ
افغانستان کا ثبوت ہے کہ بنیاد پرستی ایک اہم چیلنج ہے ، پی ایم مودی نے ایس سی او سمٹ میں کہا - دی پرنٹ
وزیر اعظم نریندر مودی 11 ستمبر 2021 کو احمد آباد میں ورچوئل کانفرنسنگ کے ذریعے ایک اجتماع سے خطاب کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی فائل فوٹو
متن کا سائز: A- A+۔
نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے جنگ زدہ ملک پر طالبان کے قبضے کا ذکر کرتے ہوئے جمعہ کو کہا کہ افغانستان میں ہونے والی پیش رفت نے “بنیاد پرستی کے چیلنجوں کو بڑھا دیا ہے”۔
دوشنبے ، تاجکستان میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ، وزیر اعظم نے رکن ممالک کو انسداد دہشت گردی کے طریقہ کار کو فعال اور تعینات کرنے کی تلقین کی جو ایس سی او علاقائی انسداد دہشت گردی کے ڈھانچے (RATS) کے تحت وضع کیے گئے ہیں۔
اس خطے (جنوبی اور وسطی ایشیا) میں سب سے بڑے چیلنج امن ، سلامتی اور اعتماد کی کمی سے جڑے ہوئے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی ہے۔ مودی نے کہا کہ افغانستان کی حالیہ پیش رفت نے اسے مزید واضح کر دیا ہے۔
بنیاد پرست قوتوں کے خلاف ٹھوس نیٹ ورک لانے کے لیے ایس سی او کو آگے بڑھاتے ہوئے مودی نے کہا کہ گروپنگ کے RATS میکانزم کو مزید فعال اور مضبوط کیا جانا چاہیے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ بنیاد پرستی سے لڑنا صرف خطے میں امن اور باہمی اعتماد کے لیے ضروری نہیں ہے بلکہ مستقبل کی نسل کے لیے بھی اس کی ضرورت ہے۔ .
انہوں نے کہا کہ بنیاد پرستی نے خطے کی اقتصادی صلاحیت پر منفی اثر ڈالا ہے یہاں تک کہ بہت سے شعبوں جیسے انٹرا ایس سی او تجارت ممکنہ طور پر کم رہی ہے۔
اجلاس کی صدارت تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے کی۔
‘ترقی پسند ثقافتوں کے لیے وسطی ایشیا کی بنیادی بنیاد’
اپنی تقریر میں ، پی ایم مودی نے تاجکوں کو بھی “بھائی اور بہن” کہا۔ یہ اس حقیقت کی روشنی میں اہمیت کا حامل ہے کہ طالبان کی نئی حکومت پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ایک جامع حکومت نہیں رکھتی ، تاجکوں ، ازبکوں اور ہزاروں کو بڑے کردار دیتی ہے۔
اسلام کی صوفی ازم کا اظہار کرتے ہوئے مودی نے کہا ، “اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ وسطی ایشیائی خطہ اعتدال پسند اور ترقی پسند ثقافتوں اور اقدار کی بنیادی بنیاد ہے۔”
انہوں نے مزید کہا ، “اس طرح ، تصوف نہ صرف اس خطے میں پروان چڑھا ہے بلکہ یہ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔”
مودی نے کہا کہ ہندوستان اور ایس سی او کے دیگر رکن ممالک – چین ، روس ، قازقستان ، کرغیزستان ، پاکستان ، تاجکستان اور ازبکستان – اسلام کی “اعتدال پسند ، روادار اور جامع” شکل کی روایت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وسطی ایشیائی خطے کو ترقی پذیر ہندوستانی مارکیٹ سے براہ راست جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اس پہلو میں انہوں نے ایران میں چابہار پروجیکٹ یا بین الاقوامی شمال جنوبی کوریڈور جیسے منصوبوں کو فروغ دینے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔
“رابطہ یک طرفہ نہیں ہو سکتا۔ باہمی اعتماد ، مشاورتی نقطہ نظر اور شراکت دارانہ فطرت مضبوط کنیکٹیویٹی کی تعمیر میں ہونی چاہیے۔
(ترمیم نیہا مہاجن)
یہ بھی پڑھیں: بھارت کا کہنا ہے کہ ‘تہذیبوں کے تصادم’ پر یقین نہیں رکھتا لیکن چین کو لداخ تنازع کو ختم کرنا چاہیے۔
ہمارے چینلز کو سبسکرائب کریں۔ یوٹیوب & ٹیلی گرام۔
نیوز میڈیا کیوں بحران میں ہے اور آپ اسے کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں۔
بھارت کو آزاد ، منصفانہ ، غیر ہائفنیٹڈ اور سوالیہ صحافت کی مزید ضرورت ہے کیونکہ اسے متعدد بحرانوں کا سامنا ہے۔
لیکن نیوز میڈیا اپنے ہی بحران میں ہے۔ سفاکانہ برطرفیاں اور تنخواہوں میں کٹوتی ہوئی ہے۔ بہترین صحافت سکڑ رہی ہے ، خام پرائم ٹائم تماشے کے سامنے۔
دی پرنٹ کے پاس بہترین نوجوان رپورٹرز ، کالم نگار اور ایڈیٹرز ہیں جو اس کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس معیار کی پائیدار صحافت کو آپ جیسے ذہین اور سوچنے والے لوگوں کو اس کی قیمت ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ چاہے آپ ہندوستان میں رہیں یا بیرون ملک ، آپ یہ کر سکتے ہیں۔ یہاں.
ہماری صحافت کو سپورٹ کریں۔
!function(f,b,e,v,n,t,s)
if(f.fbq)return;n=f.fbq=function()n.callMethod?
n.callMethod.apply(n,arguments):n.queue.push(arguments);
if(!f._fbq)f._fbq=n;n.push=n;n.loaded=!0;n.version='2.0';
n.queue=[];t=b.createElement(e);t.async=!0;
t.src=v;s=b.getElementsByTagName(e)[0];
s.parentNode.insertBefore(t,s)(window,document,'script',
'https://connect.facebook.net/en_US/fbevents.js');
fbq('init', '1985006141711121');
fbq('track', 'PageView');
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : '885510301622193', cookie : true, xfbml : true, version : 'v2.12' );
FB.AppEvents.logPageView();
;
(function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/en_US/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, 'script', 'facebook-jssdk'));
$(document).ready(function() $(".entry-category a:contains('ThePrint Hindi')").parent().css("display", "none"); $(".td-tags li a:contains('Bloomberg wire')").parent().css("display", "none"); $(".td-tags li a:contains('ANI wire')").parent().css("display", "none"); $(".td-tags li a:contains('PTI wire')").parent().css("display", "none"); $(".td-tags li a:contains('Featured')").parent().css("display", "none"); $(".td-tags li a:contains('SG NI Archive')").parent().css("display", "none"); $(".td-module-meta-info a:contains('Sponsored')").css("pointer-events", "none"); );
$(document).ready(function() if($("body").hasClass("category-defence")) $("head").prepend(''); );
$(document).ready(function() if($('article').hasClass("category-50-word-edit")) $('meta[name=atdlayout]').attr('content', '50word'); );
$(document).ready(function() if($('article').hasClass("category-my543")) $("body").addClass("my543"); );
$(document).ready(function() $('#comments').hide(); $('#contentsWrapper').on('click', '#view_comment', function() $(this).toggleClass("display"); $(this).next('#comments').slideToggle(); ); );
$(document).ready(function() if ( $("#comments .td-comments-title-wrap").length > 0) $('#view_comment').show(); else $('#view_comment').hide(); );
/*Sticky sidebar without infinite scroll**/
$(function() if($('body').is('.post-template-default')) $(window).on('scroll', function() var conetntDivPos = $('.content .td-ss-main-content').offset().top; var scrollPos = $(window).scrollTop(); if(scrollPos >= conetntDivPos - 100) $('.content .td-pb-span4.td-main-sidebar').removeClass('absolute'); $('.content .td-pb-span4 .td-ss-main-sidebar').addClass('fixed') else $('.content .td-pb-span4 .td-ss-main-sidebar').removeClass('fixed'); ); );
/*for Font resize*/ var cookie = "fontsize";
var getFontSize = function()
var changeFontSize = function(direction) var newSize = Math.min(24, Math.max(16, getFontSize()+direction)) $.cookie(cookie, newSize, expires: 30, path: "https://theprint.in/", domain : ''); updateFontSize(newSize) var updateFontSize = function(fontsize) var style = $('#font_size_style') if(!style.length) style = $('
') $(document.body).append(style) style.text(".td-post-content p font-size: "+fontsize+"px; line-height: "+(fontsize + 6)+"px;") <p>var initFontSize = function() var fontsize = getFontSize() console.log(fontsize) updateFontSize(fontsize) <p>$(document).ready(initFontSize); <p>$('#td-outer-wrap').on( "click", "#up", function() changeFontSize(1) ); <p>$('#td-outer-wrap').on( "click", "#down", function() changeFontSize(-1) ); <p>function openNav() document.getElementById("myNav").style.width = "100%"; <p>function closeNav() document.getElementById("myNav").style.width = "0%"; <p>jQuery(document).ready(function($) <p>$(".overlay-content li").click(function (a) !b.hasClass("td-element-after") && !b.hasClass("td-link-element-after") ); ); <p> <a href="https://theprint.in/diplomacy/afghanistan-proof-that-radicalisation-a-key-challenge-pm-modi-says-at-sco-summit/734903/">Source link
0 notes
Text
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں کیوں ہے؟
میرے ایک سینئر کالم نگار دوست کی پہچان ہی شدتِ احساس ہے۔ میں جانتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کے ''جرمِ ضعیفی‘‘ پر بہت دل گرفتہ ہیں۔ اسی دل گرفتگی کے ردعمل کے طور پر شاید وہ اپنی قوم سے پوچھتے ہیں کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں کیوں ہے؟ اس سوال کا میں جواب ضرور دوں گا مگر پ��لے ذرا یہ سمجھ لیجئے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات ''امن معاہدہ‘‘ ہے کیا ؟ متحدہ عرب امارات کی اسرائیل کے ساتھ کوئی سرحد نہیں ملتی نہ ہی اس کا اسرائیل کے ساتھ براہِ راست کوئی سرحدی‘ جغرافیائی یا تجارتی جھگڑا ہے۔ تو پھر متحدہ عرب امارت کو اسرائیل کے ساتھ ''امن معاہدہ‘‘ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ انور قرقاش نے کہا ہے کہ ہمارے اسرائیل کے ساتھ تعلقات نارمل ہو جائیں گے۔
سوال یہ ہے کہ آپ کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ''ابنارمل‘‘ کب تھے؟ اگر یہ کہا جائے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان دو ریاستی فارمولے کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کرنا چاہتی ہے تو یہ بتایا جائے کہ اُن کے ذمے یہ مشن لگایا کس نے ہے؟ یہ مشن نہ فلسطین کے صدر محمود عباس نے متحدہ عرب امارات کے ذمہ لگایا ہے نہ ہی غزہ کی حکمران تنظیم حماس نے لگایا ہے اور نہ ہی یہ مشن اس کے سپرد عرب لیگ نے کیا ہے۔ محمود عباس فلسطینیوں میں اپنے لقب ابو مازن کے نام سے زیادہ جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ اگرچہ فلسطینیوں کی ایک بہت بڑی تعداد اُن کی ''صلح جویانہ‘‘ پالیسیوں کی بنا پر انہیں زیادہ پسند نہیں کرتی اور انہیں ایک مغرب نواز لیڈر سمجھتی ہے‘ مگر مغرب میں وہ ایک مدبر و معتدل فلسطینی لیڈر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔
تاہم یہی ابو مازن امریکہ و برطانیہ کی انصاف کش دوغلی پالیسیوں سے اب بہت دل برداشتہ ہیں۔ چند ماہ پہلے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ کھول دیا تو فلسطینی صدر نے اس پر شدید تنقید کی تھی۔ اور اب اسی محمود عباس نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے معاہدے کو بدترین غداری قرار دیا ہے۔ 1986ء تک فلسطینی الفتح سے بڑی حد تک مایوس ہو چکے تھے اور بے مقصد مذاکرات سے ناامید ہو چکے تھے۔ اس وقت 1987ء میں شیخ احمد یاسین نے عبدالعزیز الرنتیسی کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کی قیادت کے لیے ''حماس‘‘ نامی تنظیم قائم کر لی۔ حماس کا مطلب ہے جوش و جذبہ۔ حماس کے دو شعبے ہیں‘ ایک رفاہ و فلاح اور دوسرا جہاد۔ چشمِ فلک نے ایسا فلاحی کام فلسطین میں پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ علی الصباح ضرورت مند خاندان گھر کا دروازہ کھولتے ہیں تو دہلیز پر مہینہ کا راشن‘ بچوں کا کتابوں سمیت بستہ اور ضرورت کی دیگر اشیا رکھی ہوتی ہیں۔
سنہ 2006ء کے انتخابات میں حماس کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی۔ جون 2007ء میں محمود عباس نے غیرجمہوری طریقے سے حماس سے اپنے رستے الگ کر لیے۔ اب محمود عباس کا دارالحکومت مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں ہے جبکہ حماس غزہ میں برسرِ اقتدار ہے۔ اسی حماس نے بھی متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین ہونے والے ''امن معاہدے‘‘ کو فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے عربوں‘ فلسطینیوں اور عالمِ اسلام ک�� جذبات کو یکسر نظرانداز کر کے یہ معاہدہ کیوں کیا؟ تیل کی دولت سے مالا مال بادشاہتوں کے بارے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دلی جذبات کا اظہار کر چکے ہیں کہ اگر وہ انہیں دفاعی سپورٹ نہ دیں تو وہ دو ہفتے بھی نہیں نکال سکتے۔ اس لیے یہ معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ نے تین چار مقاصد کی خاطر متحدہ عرب امارات کے ولی عہد کے ذریعے کروایا ہے۔
امریکہ میں صدارتی انتخابات سر پر کھڑے ہیں۔ وہاں کے انتہائی بااثر یہودیوں سے نوٹ اور ووٹ لینے کے لیے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم میں امریکی سفارت خانہ کھولا اور اب ایک اور دولت مند عرب ملک کو فلسطینیوں کی مدد سے دست بردار کروا کے اسرائیل کے ساتھ ''امن معاہدے‘‘ کی مجبوریوں کے حوالے کر دیا ہے۔ اس معاہدے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے اتحاد سے ایران پر دبائو بڑھایا جائے گا اور عرب و عجم میں افتراق پیدا کر کے اسرائیل کے مقابلے میں مسلمانوں کو کمزور کیا جائے گا۔ گزشتہ برس وائٹ ہائوس میں ایک ملاقات کے دوران جب بائی دا وے کشمیر کا ذکر آگیا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایسے ہی اپنے مہمان کو خوش کرنے کے لیے کہہ دیا کہ وہ کشمیر پر ثالثی کروانے کو تیار ہیں۔
یہ سن کر ہمارے وزیراعظم اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے اسلام آباد پہنچ کر کہا کہ مجھے تو یوں لگ رہا ہے جیسے میں ورلڈ کپ جیت کر آ رہا ہوں۔ 80 لاکھ کشمیریوں کو محصور کر کے بھارت ایک سال سے اُن پر بدترین مظالم توڑ رہا ہے مگر ثالثی کروانے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالی سے مودی کو روکا اور نہ ہی ''ورلڈ کپ‘‘ جیتنے والوں نے مڑ کر کشمیریوں کی خبر لی۔ جناب عمران خان نے اپنے امریکی دوست سے اب تک یہ نہیں پوچھا کہ آپ نے نریندر مودی کی ساری غیر انسانی اور ظالمانہ کارروائیوں پرخاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے؟ اب یہی بات متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زاید النہیان کہہ رہے ہیں کہ اس معاہدے سے اسرائیل مغربی کنارے کو صیہونی ریاست میں ضم نہیں کرے گا۔
تاہم اُسی روز اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اماراتی ولی عہد کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مغربی کنارے کو ضم کرنے کا پروگرام اسی طرح ٹیبل پر موجود ہے۔ وقتی طور پر چند روز کے لیے اسے مؤخر کیا جا سکتا ہے مگر وہ ''اپنی زمین‘‘ پر ملکیت کے حقوق سے کبھی دست بردار نہ ہوں گے کیونکہ مغربی کنارا یہودیوں کا تاریخی مسکن ہے۔ اسے کہتے ہیں آگ لینے آئی اور گھر کی مالکن بن بیٹھی۔ اسرائیل کے اپنے اندر امن بھی ہے‘ خوش حالی بھی ہے اور خود احتسابی بھی‘ جبکہ آس پاس کے اکثر عرب ملکوں کو اسرائیلی سازشوں نے یا تو مکمل تباہی سے دوچار کر دیا ہے یا انہیں باہمی آویزشوں میں الجھا دیا ہے۔ ذرا عراق‘ شام‘ لبنان اور پھر تھوڑا دور لیبیا کا حشر دیکھئے۔ سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے خلاف متعدد سرد وگرم محاذوں پر برسر پیکار ہیں‘ جبکہ سعودی عرب اور یم�� کے درمیان محدود جنگ جاری ہے۔
اس معاہدے کے بعد بھی اسرائیل غزہ پر ب��باری کر رہا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ اسرائیلی وزیر خارجہ کے ساتھ براہِ راست ٹیلی فونی رابطے بحال کر رہے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ ہمارے عرب بھائی مسلمانوں کی قیادت کے دعویدار ہیں اور قیادت کا یہ حق کسی دوسرے کو دینے پر آمادہ بھی نہیں مگر فلسطین و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کو ظالموں کے سپرد کر دینے میں کوئی خفت بھی محسوس نہیں کرتے۔ جہاں تک میرے سینئر کالم نگار دوست کے سوال کا تعلق ہے کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں کیوں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اہل ِپاکستان کو دوقومی نظریہ کی بنا پر اچھی طرح معلوم ہے کہ امت ِمسلمہ رنگ و نسل یا زبان و جغرافیائی حدود سے نہیں عقیدے سے بنتی ہے اور اس عقیدے کا تقاضا ہے کہ مسلمان دنیا کے کسی کونے میں بستا ہو اس کا دکھ درد مشترک ہوتا ہے۔
علامہ اقبال بہت بیمار تھے مگر اس کے باوجود 20 جولائی 1937ء کو رائل کمیشن برائے فلسطین کی طرف سے دی گئی تقسیم ِفلسطین کی تجویز کو انہوں نے یکسر مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس کیخلاف شدید احتجاج کرینگے چاہے اس کیلئے انہیں جیل ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ اسی طرح اُن دنوں قائداعظم نے فرمایا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اسے کسی صورت تسلیم نہیں کر سکتے۔ جس ''دردِ جگر‘‘ نے ہمارے قائدین کو مضطرب و پریشان کر رکھا تھا وہی دردِ جگر ساری پاکستانی قوم کیلئے سرمایۂ افتخار ہے۔
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
Text
اسامہ ستی اور وقاص گجر: کیا مشرف دور کی اصلاحات 2021 میں ان ہلاکتوں کی وجہ بنیں؟
اسامہ ستی اور وقاص گجر: کیا مشرف دور کی اصلاحات 2021 میں ان ہلاکتوں کی وجہ بنیں؟
فاروق عادل مصنف، کالم نگار 17 منٹ قبل ،Facebook ،تصویر کا کیپشن اسامہ ستی کو جنوری 2021 کے اوائل میں اسلام آباد میں پولیس نے ہلاک کر دیا تھا پاکستان کے دو مختلف شہروں میں گذشتہ دو ہفتوں کے دوران دو افراد پولیس کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں جس کے نتیجے میں پولیس کے بے قابو ہونے کا تاثر مزید گہرا ہوا ہے اور قومی سطح پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے جس کے اثرات حکومت پر بھی دکھائی دیتے…
View On WordPress
0 notes
Text
چوہدری کا بیٹا اورکماد کی فصل میں چوریوں سے عاجز کسان : ارشاد بھٹی نے چوروں لٹیروں کے حوالے سے عمران خان کی حالت ایک لطیفے میں بیان کردی - UGN
چوہدری کا بیٹا اورکماد کی فصل میں چوریوں سے عاجز کسان : ارشاد بھٹی نے چوروں لٹیروں کے حوالے سے عمران خان کی حالت ایک لطیفے میں بیان کردی – UGN
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) یہاں مجھے اپنا شانا دوست (ن) یاد آرہا، وہی دوست جس کا کہنا پاکستانی بیوروکریسی میں اکثریت ا یسی کہ نوکری کے دوران، رشوت، غرور، نخرے، زیادتیاں اور ریٹائرمنٹ کے بعد تسبیح، ٹوپی، تبلیغ اور مسجد کی پہلی صف، جو جگت باز ایسا کہ ممکنہ سسر نے جب پوچھا۔ نامور کالم نگار ارشاد بھٹی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔بیٹا تمہاری انگریزی کیسی ہے-تو بولا، انکل ایک فیصل آبادی…
View On WordPress
#gold urdu news#UGN#urdu news#urdu news pakistan#urdu news paper#urdu news paper pakistan#ارشاد#اورکماد#ایک#بھٹی#بیان#بیٹا#چوروں#چوریوں#چوہدری#حالت#حوالے#خان#سے#عاجز#عمران#فصل#کا#کردی#کسان#کی#کے#لٹیروں#لطیفے#میں
0 notes
Text
افسانہ اختری
اختری نے گھر کا کام ختم کیا اور سفید تکیہ پوش پر رنگ برنگے چھوٹے چھوٹے پھول کاڑ ھنے لگی – اس کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے ۔ اسے یہ کام جلدی مکمل کرنا تھا – اختری یتیم تھی اس کا بچپن بہت کسمپرسی کے عالم میں گزرا تھا -باپ اس کی پیدائش کے چند ماہ بعد ہی چل بسا تھا۔ ایک بڑ ی بہن تھی اور ایک ماں -ماں محنت مزدوری کر کے ان دونوں بہنوں کو پال رہی تھی -اکثر گھر میں کھانے کے لیے صرف روٹی ہوتی جب وہ ماں سے…
View On WordPress
#nadiaumberlodhi fiction urduafsana#Nadia umber Lodhi editor#معاصر ادب#نادیہ عنبر لودھی کی شاعری اور نثر#اسلام آباد کی کالم نگار
0 notes
Photo
میرے بیٹے کو نشانہ اس لئے بنایا جارہا ہے کیونکہ۔۔ حفیظ اللہ نیازی نے سانحہ پی آئی سی میں ٹارگٹ کئے جانے کی 2وجوہات بتا دیں اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف کالم نگار حفیظ اللہ نیازی کا کہنا ہے کہ حسان نیازی کو وزیراعظم کا بھانجا اور میرا بیٹا ہونے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔نجی ٹی وی پروگرام میں حفیظ اللہ نیازی سے سوال کیا گیا کہ ہسپتال حملے میں آپ کے صاحبزادے حسان نیازی کی شرکت نظر آ رہی ہے۔آپ کے صاحبزادے نے اس پر معذرت کر لی ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔آپ اس معاملے پر کیا کہنا چاہیں گے؟۔جس پر حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ ہسپتال پر وکلاء کے حملے کو کوئی درست قرار نہیں
0 notes
Photo
12 ستمبر تاریخ کے آئینے میں 1398ء افغانستان کے فرغانہ کے امیر تیمور لنگ نے اپنے 92 کمانڈروں کے ساتھ اٹک میں دریائے سندھ پار کر کے ہندوستان پر حملہ کیا۔ 1609ء ہنری ہڈسن نے ہڈسن ندی کی دریافت کی۔ 1624ء لندن میں دنیا کی پہلی آبدوز کا تجربہ کیا۔ 1683ء جنگ ویانا کا دوسرا اور فیصلہ کن دن، عثمانیوں کو شکست ہوئی۔ 1786ء لارڈ چارلس کارنوالس نے ہندوستان کے تیسرے گورنر جنرل اور کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالا۔ ( وہ 12 ستمبر 1786ء تا 28 اکتوبر 1793ء اور دوسری بار 30 جولائی 1805 تا 5 اکتوبر 1805ء اس عہدے پر رہے) 1846ء سوئٹزرلینڈ وفاقی ملک بنا۔ 1857ء وسطی امریکہ میں کیپ رومین کے ساحل پر زبردست طوفان میں 423 افراد ہلاک ہوئے۔ 1890ء ہرارے، روڈیسیا، کا قیام 1910ء دنیا کی اولین خاتون پولیس افسر ایلس اسٹینس ویلس نے لاس اینجلس میں اپنا عہدہ سنبھالا۔ 1934ء لتھوانیا، استونیا اور لاتیویا نے بالسٹک معاہدہ پر دستخط کئے۔ 1935ء امریکی شہری ہاورڈ ہیوز نے اپنے ڈیزائن کئے ہوئے طیارہ کو 21،567 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنا پہلا ریکارڈ بنایا۔ 1940ء فرانس میں 17 ہزار برس پرانی پینٹنگ سے آراستہ لیس کواکس گپھا کو دریافت کیا گیا۔ 1947ء بھارتی حکمرانوں اور کشمیر کے مہاراجہ کے درمیان الحاقِ کشمیر پر خفیہ سازش تیار ہوئی۔ 1948ء محمد علی جناح کی وفات کے اگلے ہی دن، ریاست حیدرآباد پر بھارتی فوج نے یلغار کر دی اور حیدرآباد کو بھارت میں زبردستی انضمام کرایا۔ 1956ء چوہدری محمد علی وزارت عظمیٰ پاکستان سے مستعفی ہو گئے اور حسین شہید سہروردی نے وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ حسین شہید سہروردی حسین شہید سہروردی 8 ستمبر 1893ءکو بنگال کے شہر مدنا پور میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل وہ سیاست میں ایک نمایاں مقام حاصل کرچکے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 1949ءمیں انہوں نے جناح عوامی لیگ کی بنیاد ڈالی جو بعد میں عوامی لیگ کے نام سے معروف ہوئی۔ 1950ءکی دہائی میں شروع شروع میں وہ قائد حزب اختلاف کے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1956ءمیں جب پاکستان کا آئین منظور ہوا تو وہ ان چند افراد میں شامل تھے جنہوں نے بعض اصولوں کی بنیاد پر اس آئین پر دستخط نہیں کیے تھے لیکن بعد از��ں وہ اسی آئین کے تحت 12ستمبر 1956ء کو ملک کے وزیر اعظم مقرر کیے گئے اور انہوں نے اس آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا۔ 1958ءمیں جب ایوب خان نے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تو سہروردی تن تنہا حزب اختلاف کی آواز بن گئے۔ حکومت نے ایبڈو کے کالے قانون کے تحت انہیں سیاسی طور پر نااہل قرار دی��ے کا مقدمہ چلایا مگر انہوں نے عدالت میں اپنے اوپر لگائے گئے ہر الزام کا بھرپور دفاع کیا اور حکومت کو اپنی فصاحت‘ بلاغت اور ذہانت و قابلیت سے زچ کیے رکھا۔ حکومت نے سہروردی کو ایبڈو کے قانون کے تحت سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دے دیا لیکن سہروردی نے اس چیلنج کو قبول کیا اور سیاسی طور پر مسلسل متحرک رہے۔ انہوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان‘ دونوں صوبوں کے طوفانی دورے کیے اور عوام کو مارشل لاءحکام کے عزائم سے آگاہ کیا۔ انہوں نے ایوب آمریت کے خلاف یہ جنگ تن تنہا لڑی۔ انہیں اس کا دکھ نہیں تھا کہ حکومت ان پر حملے کرکے ان سے ایبڈو کی پابندیاں منوانا چاہتی ہے بلکہ وہ دل گرفتہ اس بات سے تھے کہ سیاست دانوں کی اکثریت نے سیاسی جنگ میں ان کا ساتھ دینے سے پہلو تہی کرلیا تھا۔ 1963ءکے اوائل میں ان پر دل کا دورہ پڑا۔ وہ علاج کروانے کے لیے یورپ گئے اور پھر آرام کرنے کی غرض سے بیروت کے ایک ہوٹل میں مقیم تھے۔ 5 دسمبر 1963ءکو نصف شب کے قریب ان کی حالت اچانک خراب ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ انہیں کوئی طبی امداد پہنچائی جاسکتی وہ حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوٹل ہی میں دم توڑ گئے۔ سہروردی کی میت وطن واپس لائی گئی جہاں 8 دسمبر 1963ءکو انہیں شیر بنگال مولوی فضل الحق کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ 1959ء سوویت یونین نے چاند پر لونک دوم راکٹ بھیجا۔ 1965ء پاک بھارت جنگ میں افواج پاکستان نے چونڈہ (پسرور) کے محاذ پر ٹینکوں کا بڑا حملہ پسپا کر دیا دشمن کے ایک سو ستاسی ٹینک تباہ کر دیئے۔ 1966ء بھارتی تیراک مہر سین نے تیراکی کا ریکارڈ قائم کیا۔ 1968ء البانیہ خود کو وارسا معاہدہ سے الگ ہو گیا۔ 1974ء ایتھوپیا کے حکمراں ہیل سیلاسی کا فوج کے ہاتھوں تختہ پلٹا گیا۔ 1980ء ترکی میں فوجی حکومت نافذ ہوئی۔ 1984ء ایتھوپیا میں شوشلسٹ ری پبلک قائم ہوئی۔ 1990ء مشرقی اور مغربی جرمنی اور دوسری عالمی جنگ کے اتحادی ملکوں نے جرمنی کے اقتدار اعلیٰ اور اس کے بین الاقوامی درجہ کی بحالی کے لئے معاہدہ پر دستخط کئے۔ 1992ء مارک لی اور ان کی بیوی جان ڈیوس پہلے خلائی مسافر جوڑا بنے۔ 1999ء انڈونیشیا نے اقوام متحدہ کی امن بردار فوج کو تشدد کو روکنے میں مدد کے لئے مشرقی تیمور میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ 2002ء امریکہ نے اقوام متحدہ کی تعلیم، سائنس اور ثقافت سے متعلق تنظیم (یونیسکو) میں 17 سال بعد واپسی کرنے کا اعلان کیا۔ 2005ء اسرائیل نے غازہ پٹی سے سبھی فوجیوں کو ہٹانے کا کام شروع کیا۔ *ولادت* 1897ء آئرین جولیٹ کیوری، نوبل انعام یافتہ فرانسیسی کیمیا دان اور طبیعیات دان (وفات: 1956ء) 1913ء جیسی اوونز، امریکی کھلاڑی (وفات: 1980ء) 1914ء رئیس امروہوی پاکستانی شاعر اور ماہرِ نفسیات ( 12 ستمبر 1914ء اردو کے ��امور شاعر اور ادیب رئیس امروہوی کی تاریخ پیدائش ہے۔ رئیس امروہوی کا اصل نام سید محمد مہدی تھا اور وہ امروہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد علامہ سید شفیق حسن ایلیا بھی ایک خوش گو شاعر اور عالم انسان تھے۔ رئیس امروہوی کی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا۔ قیام پاکستان سے قبل وہ امروہہ اور مراد آباد سے نکلنے والے کئی رسالوں سے وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور روزنامہ جنگ کراچی سے بطور قطعہ نگار اور کالم نگار وابستہ ہوگئے، اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی تا عمر جاری رہی۔ رئیس امروہوی کے شعری مجموعوں میں الف، پس غبار، حکایت نے، لالہ صحرا، ملبوس بہار، آثار اور قطعات کے چار مجموعے شامل ہیں جبکہ نفسیات اور مابعدالطبیعات کے موضوعات پر ان کی نثری تصانیف کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہے۔ 22 ستمبر 1988ء کو رئیس امروہوی ایک نامعلوم قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔رئیس امروہوی کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ 1924ء ممتاز شیریں اردو نقاد، افسانہ نگار بمقام ہندو پور، برطانوی ہندوستانں ٭ اردو کی نامور نقاد‘ افسانہ نگار اور مترجم محترمہ ممتاز شیریں 12 ستمبر 1924ء کو ہندو پور (آندھراپردیش) میں پیدا ہوئی تھیں۔ ممتاز شیریں کے افسانوی مجموعوں میں اپنی نگریا‘ حدیث دیگراں اور میگھ ملہار شامل ہیں جب کہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے معیار اور منٹو نہ نوری نہ ناری کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ انہوں نے 1947ء کے فسادات کے موضوع پر لکھے گئے اردو کے نمائندہ افسانوں کا ایک انتخاب ظلمت نیم روز کے نام سے اور جان اسٹین بک کے مشہور دی پرل کا اردو ترجمہ درشہوار کے نام سے کیا تھا۔ وہ اردو کا معروف ادبی جریدہ نیا دور بھی شائع کرتی رہی تھیں۔ محترمہ ممتاز شیریں نے 11 مارچ 1973ء کو اسلام آباد میں وفات پائی اور اسلام آبادکے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئیں۔ 1948ء میکس واکر، آسٹریلوی کرکٹر اور ماہر تعمیرات 1949ء صابر ظفر، شاعر بمقام کہوٹہ، راولپنڈی 1956ء برائن روبساون، اسکاٹسی گلوکار، گیت نگار اور گٹارساز 1981ء جینیفر ہڈسن، امریکی گلوکارہ و اداکارہ *وفات 1965ء میجر راجہ عزیز بھٹی شہید (نشان حیدر)6 -اگست 1923ء کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد راجہ عبداللہ بھٹی اپنی ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یہ گھرانہ واپس لادیاں گجرات چلا آیا جو ان کا آبائی گائوں تھا۔ راجہ عزیز بھٹی قیام پاکستان کے بعد 21 جنوری 1948ء کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شامل ہوئے۔ 1950ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے ریگولر کورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں انہیں شہید ملت خان لیاقت علی خان نے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ شمشیر اعزازی اور نارمن گولڈ میڈل کے اعزاز سے نوازا پھر انہوں نے پنجاب رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور 1956ء میں ترقی کرتے کرتے میجر بن گئے۔ 6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کررہے تھے۔ اس کمپنی کے دو پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھے۔ میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کنارے پر متعین پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ان حالات میں جب کہ دشمن تابڑ توڑ حملے کررہا تھا اور اسے توپ خانے اور ٹینکوں کی پوری پوری امداد حاصل تھی۔ میجر عزیز بھٹی اور ان کے جوانوں نے آہنی عزم کے ساتھ لڑائی جاری رکھی اور اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے۔ 9 اور 10 ستمبر کی درمیانی رات کو دشمن نے اس سارے سیکٹر میں بھرپور حملے کے لیے اپنی ایک پوری بٹالین جھونک دی۔ میجر عزیز بھٹی کو اس صورتحال میں نہر کے اپنی طرف کے کنارے پر لوٹ آنے کا حکم دیا گیا مگر جب وہ لڑ بھڑ کر راستہ بناتے ہوئے نہر کے کنارے پہنچے تو دشمن اس مقام پر قبضہ کرچکا تھا تو انہوں نے ایک انتہائی سنگین حملے کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کو اس علاقے سے نکال باہر کیا اور پھر اس وقت تک دشمن کی زد میں کھڑے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ گئیں۔انہوں نے نہر کے اس کنارے پر کمپنی کو نئے سرے سے دفاع کے لیے منظم کیا۔ دشمن اپنے چھوٹے ہتھیاروں‘ ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ آگ برسا رہا تھا مگر راجہ عزیز بھٹی نہ صرف اس کے شدید دبائو کا سامنا کرتے رہے بلکہ اس کے حملے کا تابڑ توڑ جواب بھی دیتے رہے۔ اسی دوران دشمن کے ایک ٹینک کا گولہ ان پر آن لگا جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ اس دن 12 ستمبر 1965ء کی تاریخ تھی۔ 26 ستمبر 1965ء کو صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان نے پاک فوج کے 94 افسروں اور فوجیوں کو جنگ ستمبر میں بہادری کے نمایاں کارنامے انجام دینے پر مختلف تمغوں اور اعزازات سے نوازا۔ ان اعزازات میں سب سے بڑا تمغہ نشان حیدر تھا جو میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کو عطا کیا گیاتھا۔ راجہ عزیز بھٹی شہید یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے تیسرے سپوت تھے۔ 12 ستمبر 1986ء کو قائداعظم محمد علی جناح کے ڈرائیور اور پاکستان کے ممتاز فلمی اداکار محمد حنیف آزاد کراچی میں وفات پاگئے۔ محمد حنیف آزاد کا اصل نام محمد حنیف قریشی تھا اور وہ 16 اکتوبر 1916ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ 1935ء سے 1940ء تک انہوں نے قائداعظم کے ڈرائیور کے فرائض انجام دیئے۔ ان کے اس زمانے کے واقعات سعادت حسن منٹو نے میرا صاحب کے نام سے تحریر کئے تھے جو ان کے خاکوں کے مجموعے گنجے فرشتے میں شامل ہے۔ محمد حنیف آزاد نے جن فلموں میں کام کیا تھا ان میں پنّا، حق دار، ہیر رانجھا، انار کلی، سچائی، کندن، دو آنسو، دوپٹہ، گلنار اور قاتل کے نام سرفہرست تھے۔ 1981ء یوگینیو مونٹیل، نوبل انعام یافتہ اطالوی شاعر، مضمون نگار اور مترجم (پیدائش: 1896ء) 2009ء نارمن بورلاگ، نوبل انعام یافتہ زرعی سائنسدان (پیدائش: 1914ء) پاکستان کے مشہور کریکٹر ایکٹر کمال ایرانی کی تاریخ پیدائش 5 اگست 1932ءہے۔ کمال ایرانی کا اصل نام سید کمال الدین صفوی تھا اور وہ کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ سے اپنی فلمی زندگی کا آغاز کیا اور مجموعی طور پر 244 فلموں میں کام کیا۔ کمال ایرانی کی یادگار فلموں میں جاگ اٹھا انسان، جھک گیا آسمان، زرقا، مٹھی بھر چاول اور امرائوجان ادا کے نام سرفہرست ہیں۔ ان کی آخری فلم سندھی زبان میں بننے والی فلم ’’میران جمالی‘‘ تھی جو ان کی وفات کے چند ماہ بعد 9 مارچ 1990ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ 12 ستمبر 1989ء کو کمال ایرانی وفات پاگئے۔
0 notes