#لٹیروں
Explore tagged Tumblr posts
Text
سائبر اور فون کال فراڈ؛ محتاط رہیے
پاکستان میں جہاں لوگ ڈکیتی کی وارداتوں سے پریشان ہیں، وہیں سائبر کرائمز میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان دنوں ایک نئے قسم کے فراڈ سے لٹیروں نے کئی لوگوں کو اپنی رقم سے محروم کر دیا۔ اس نئی طرز کے فراڈ میں ملوث افراد واردات کے لیے عام شہریوں کو کال کرتے ہیں۔ انتہائی تشویشناک بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس عوام کا ڈیٹا بھی موجود ہوتا ہے جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان کا ریکی کا نظام بہت منظم ہے یا پھر ان افراد کی موبائل ریکارڈز تک رسائی ہے۔ ٹیلی فونک فراڈ میں ملوث نوسرباز اکثر اپنے آپ کو پولیس افسر ظاہر کرتے ہیں۔ یہ کسی بھی شخص کو کال ملا کر اسے اس کے نام سے پکارتے ہیں اور بعد ازاں اسے یہ بتاتے ہیں کہ ’’آپ کے خاندان کا کوئی فرد ہمارے قبضے میں ہے، ہم تھانے سے بات کر��ہے ہیں‘‘۔ یہ گروہ اس قدر پلاننگ سے کام کرتا ہے کہ جس شخص کے متعلق یہ بتارہے ہوتے ہیں یہ افراد کال پر اس کی آواز بھی سناتے ہیں، جس میں وہ رو رو کر خود کو بچانے کی درخواست کر رہا ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جسے کال کی جاتی ہے اس کے اعصاب پر مکمل طور پر قابو پانے کے بعد اس سے پیسوں کو مطالبہ کیا جاتا ہے اور اسے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر مقدمہ درج نہیں کرانا چاہتے تو پیسوں کا انتظام کرو ورنہ یا تو اسے مار دیا جائے گا یا اس کیس میں حوالات میں ڈال دیا جائے گا۔
اس فراڈ میں ملوث افراد شہریوں سے ان کی حیثیت کے مطابق لاکھوں روپے تک بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں بھی کئی افراد اس فراڈ کا شکار ہو چکے ہیں۔ انجان کال کا یہ طریقہ واردات اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ متاثرہ شخص کو سوچنے سمجھنے کا وقت ہی نہیں ملتا اور اس سے اچھی خاصی رقم بٹور لی جاتی ہے۔ بین الاقوامی ادارے کی تحقیق کے مطابق ایف آئی اے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے فراڈ میں ملوث اس گروہ میں سے اکثر افراد کا تعلق حافظ آباد، فیصل آباد، سرگودھا اور لاہور سے ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق فون کالز سے کیے جانے فراڈ کے کیسوں کی تعداد اب ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔ واضح رہے کہ سائبر کرائم ونگ میں اب فائیننشل فراڈ کے کیسوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے کیس جعلی سم اور جعلی اکاؤنٹس کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں، جن کی بدولت یہ گروہ شہریوں کا ریکارڈ باآسانی حاصل کر لیتے ہیں۔ سائبر کرائم نے ٹیلی کام کمپینوں کے عملے کے ایسے کئی افراد کو گرفتار بھی کیا ہے جو ڈیٹا فراہم کرنے میں ملوث ہیں۔
یہ فراڈیئے کال کرتے ہوئے وی پی این ایپلی کیشن سے اپنی کالر لوکیشن تبدیل کر لیتے ہیں جس کے باعث ان کے مقام کا معلوم کرنا کسی حد تک مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ اسمارٹ فون کے بجائے سادہ فون کا استعمال کرتے ہیں اور واردات کے بعد اسے ضائع کر دیا جاتا ہے۔ یہ لوگ ایک ہی دن میں سیکڑوں نمبرز پر کال کرتے ہیں جبکہ ان کی کامیابی کی شرح 8 سے دس فیصد ہے۔ ٹیلی فون کال سے فراڈ کرنے والے کئی افراد جنھیں ایف آئی اے نے گرفتار بھی کیا اور انہیں سزائیں بھی ہوئی ہیں۔ صرف گزشتہ سال 500 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا لیکن اس کے باوجود ان وارداتوں میں کمی نہیں آرہی۔ یقینی طور پر اس فراڈ میں ملوث افراد کا تعلق بھی آئی ٹی کے شعبوں سے ہو گا۔ ملک میں بے روزگاری کی وجہ سے جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے۔ حکومتی سطح پر نوجوانوں کو تکنیکی تعلیم تو دی جارہی ہے لیکن ملازمت کے مواقعے موجود نہیں، جس کے نتائج اسی طرح نکلیں گے۔ جہاں حکومت اور ادارے ان افراد کو گرفتار کر کے کڑی سے کڑی سزا دیں، وہیں اس بات کی بھی کوشش کریں کہ آئی ٹی اور ہیکنگ کے ماہر نوجوانوں کو ملازمت کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے تاکہ وہ کسی منفی سرگرمی میں شامل نہ ہوں۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ عام شہری اس فراڈ سے کیسے بچیں؟ شہریوں کو اس طرح کے فراڈ سے بچنے کےلیے خود بھی محتاط رہنا ہو گا۔ شہریوں کو چاہیے کہ فون کال پر کسی بھی قسم کی ذاتی معلومات فراہم نہ کریں اور اگر کسی کے اغوا یا گرفتاری کے متعلق کوئی کال آئے تو سب سے پہلے اس شخص سے رابطہ کریں اور تصدیق کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کریں۔ یہ افراد ایسے سافٹ ویئرز کا استعمال بھی کرتے ہیں جس سے نمبر بظاہر یو اے این لگتا ہے۔ اس حوالے سے بینک انتظامیہ کئی بار ہدایات جاری کر چکی ہیں کہ بینک کسی قسم کی ذاتی معلومات ٹیلی فون پر نہیں لیتا۔ شہریوں کو اس بات کو ذہن نشین کرنا ہو گا۔ آج کے اس جدید دور میں بھی معصوم لوگ ٹی وی چینلز کے گیم شو کے نام پر لٹ رہے ہیں، عوام کو اب احتیاط سے کام لینا ہو گا ورنہ مشکل حالات میں مزید پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
شہریار شوکت
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
پیرس: بہترین لباس پہنے 2 مردوں اور ایک خاتون نے جیولرز کی دکان لوٹ لی
فیشن کی دنیا کے مرکز پیرس میں بہترین لباس پہنے دو مرد ایئک اور ایک خاتون ایک جیولر سے لاکھوں یوروز کا سامان لوٹ کر لے گئے۔ تینوں کے پاس سائلنسر لگی ہینڈ گن تھی اور وہ دوپہر کے کھانے کے وقت شہر کے اوپیرا سے چند گز کے فاصلے پر ایک فیشن ہاؤس کو لوٹ کر چلتے بنے۔ سامان لوٹنے کے بعد ان لٹیروں نے عملے کو زمین پر لیٹنے کو کہا اور بھاگ گئے، لوٹے گئے سامان کی مالیت 10 سے 15 ملین یوروز بتائی جاتی ہے، لٹیروں…
View On WordPress
0 notes
Text
https://youtu.be/RvCmamM5OWU
قائداعظم اور رفقاء کی پاکستان سے والہانہ محبت۔
اپنا سب کچھ ملک پر لٹانے والے قائداعظم کے ساتھی۔
آج کے جاگیردار، وڈیروں لٹیروں کی داستان۔
تفصیلی تجزیہ ویلاگ میں۔
0 notes
Text
شہری سے 23 لاکھ روپے کی ڈکیتی، سی سی ٹی وی فوٹیج Robbery of 23 lakh rupees karachi
کراچی: شہر قائد میں ڈاکو راج زور پکڑ گیا ہے، سندھی مسلم سوسائٹی میں ایک شہری سے 23 لاکھ روپے لوٹ لیے گئے، جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج اے آر وائی نیوز نے حاصل کر لی۔ پولیس رپورٹ کے مطابق کراچی کے علاقے سندھی مسلم سوسائٹی میں نجی کمپنی کے ملازمین بینک سے رقم لے کر نکلے تھے، تعاقب کرتے لٹیروں نے ان سے رقم سے بھرا بیگ چھینا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں 2 مسلح لٹیروں کو کمپنی ملازمین کو لوٹتے ہوئے واضح دیکھا…
View On WordPress
0 notes
Text
کراچی میں ہوٹلوں پر بیٹھے شہری لٹیروں کا نشانہ بننے لگے
کراچی میں لوٹ مار کی وارداتیں عام ہوگئیں لٹیروں میں ہوٹل پر بیٹھے شہریوں کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ اے آر وائ�� نیوز کے مطابق ایک ہفتے کے دوران کراچی میں تیسرے ہوٹل پر لوٹ مار کی واردات ہوئی، شاہراہ فیصل تھانے کی حدود گلستان جوہر میں مسلح افراد 7 افراد سے موبائل، گھڑیاں اور نقدی چھین کر فرار ہوگئے۔ گزشتہ روز بہادر آباد میں برگر کی دکان پر لوٹ مار کی واردات کی گئی تھی، ابو الحسن اصفہانی روڈ پر…
View On WordPress
0 notes
Photo
کراچی میں لٹیروں نے سکول کے بچوں کو بھی نہ چھوڑا، انتہائی افسوسناک واقعہ کراچی (این این آئی) اسٹریٹ کرمنلز نے اسلحے کے زور پر رکشہ ڈرائیور سے نقد رقم، موبائل فون دیگر قیمتی سامان لوٹ لیاکراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں موٹر سائیکل سوار مسلح ملزمان نے بچوں کو اسکول سے لانے والے رکشے میں لوٹ مار کی۔ڈاکوؤں نے رکشہ ڈرائیور کو لوٹنے کے بعد بچوں کی تلاشی بھی لی۔
0 notes
Text
لوگ آج بھی لوٹتے ہیں بس انداز مختلف ہیں
کوئ اصلح کے زور پر لوٹتا ہے
کوئ لہجے سے لوٹ لیتاہے
کوئ ترچھی نگاہوں سے لوٹتا ہے
کوئ خا موشی سے لوٹ لیتا ہے
کوئ آج بھی دھیمے لہجے سے دل پر وار کرتا ہے
کوئ آج بھی اچھے رویے سے لوگوں کے دل جیتتا ہے
پر افسوس لٹنے والا لٹا دیتا ہے
اب چاہے وہ مہنگا سامان ہو یا دل جیسی سلطنت
بچیں آجکل کے ان لٹیروں سے
ازقلم سہیل حسن رضا
10-8-2020
3 notes
·
View notes
Text
ہمیں خبر ھے لٹیروں کے سب ٹھکانوں کی۔۔۔
شریک جرم نہ ھوتے تو مخبری کرتے ۔۔۔
2 notes
·
View notes
Text
ہم نے ہر دکھ کو محبت کا تسلسل سمجھا
ہم کوئی تم تھے جو دنیا سے شکایت کرتے
ہم نے سوکھی ہوئی شاخوں پہ لہو چھڑکا تھا
پھول اگر اب بھی نہ کھلتے تو خساره کرتے
ہم اگر چپ ہیں تو اس کو بهی غنیمت جانو
ہم اگر صبر نہ کرتے تو قیامت کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑ دیا
ہم اگر محبت نہ کرتے تو حکومت کرتے
4 notes
·
View notes
Text
کیا پاکستان کو واقعی چڑیا گھر کی ضرورت ہے؟
اب تو ہم اس قابل بھی نہیں رہے کہ نام سوچ سمجھ کے رکھیں اور رکھ بھی لیں تو پھر اس نام کی لاج رکھنا ہی سیکھ لیں۔ لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طرح میں بھی دو نور جہاؤں کو جانتا ہوں۔ ایک وہ جس نے براستہ قلبِ جہانگیر مغل سلطنت کو مٹھی میں دبائے رکھا۔ دوسری وہ جو موسیقی کی قلم رو پر راج کرتے ہوئے ملکہِ ترنم کہلائی۔ ایک کو بادشاہِ وقت نے ہتھیلی کا چھالا بنا کے رکھا اور دوسری کو عوام نے سر آنکھوں پر بٹھائے رکھا۔ اس تاریخی نام کا قرض مشعلِ جہالت کے علمبرداروں نے یوں اتارا کہ پہلے تو تنزانیہ سے دو دو برس کے چار ہاتھیوں کو ان کی ماؤں سے جدا کر کے یا قتل کر کے پابہ زنجیر خرید کے کراچی پہنچایا گیا۔ پھر ان کے نام رکھے گئے سونو، ملکہ، مدھوبالا اور نور جہاں۔ اصلی نور جہاں کے ہوتے اگر کسی ہتھنی کا نام ملکہ کے نام پر رکھنے کے بارے میں کوئی سوچتا بھی تو ایسے شخص کو اسی ہتھنی کے پاؤں تلے رکھ دیا جاتا۔ چلیں جی کوئی بات نہیں، عام آدمی کے من و رنجن کے لیے ان ہاتھی بچوں کے بھاری بھرکم نام رکھ لیے گئے۔ مگر پھر اناڑی بابوؤں اور خانہ ساز مہاوتوں نے ان ہاتھیوں کے ساتھ وہ کیا جو لٹیروں نے شاہدرہ باغ میں نورجہاں کی قبر کے ساتھ بھی نہیں کیا ہو گا۔
چاروں کے ساتھ کیسا سلوک ہوا، فرداً فرداً بتانے کا موقع نہیں۔ بس موت و زندگی کی کش مکش میں مبتلا نور جہاں کی سرکاری تیمارداری کے معیار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس ریاست کی گورنننس انتظامی لوکیمیا کے کس مرحلے سے گذر رہی ہے۔ کراچی زو میں مقید نورجہاں پچھلے چار ماہ سے ناقابلِ برداشت اعصابی کھچاؤ اور اندرونی زخموں کے رسنے کے سبب لمحہ بہ لمحہ مر رہی ہے۔ شوق کے مارے یہ ہاتھی لے تو آئے مگر ان کی معیاری خوراک، کھلی فضا اور بیماری کی صورت میں مقامی سطح پر خوراک و علاج معالجے کا کوئی نظام نہ بنا پائے۔ چنانچہ جانوروں کی فلاح و بہبود سے متعلق عالمی تنظیم ’فور پا‘ کی ایک طبی ٹیم نے ہفتہ بھر نور جہاں کا تفصیلی معائنہ کیا، جتنا آپریشن ممکن تھا کیا گیا۔ نورجہاں کے لیے ہائی پریشر واٹر تھراپی تجویز کی گئی مگر زو میں اتنا پانی ہی نہیں کہ تھراپی ہو سکے۔ اس کے لیے ابلے چاولوں میں دوائیں ملا کے دینے کی ہدایت کی گئی مگر زو میں پکانے کی کوئی مستقل سہولت ہی نہیں۔ نورجہاں کے لیے ضروری دواؤں کا کچھ زخیرہ تو طبی ٹیم اپنے ساتھ لائی مگر ٹیم کے جانے کے بعد زو انتظامیہ کے بقول ان دواؤں کو خریدنے کا بجٹ نہیں۔
ٹیم نے جاتے جاتے نصیحت کی کہ اگلے تین ہفتے تک نور جہاں کو مسلسل دیکھ بھال کی ضرورت ہے ورنہ یہ مر سکتی ہے۔ سرکاری رویہ یہ ہے کہ مر بھی گئی تو کیا ہوا اور کوئی ہتھنی پکڑ لائیں گے۔ اسلام آباد زو میں پابہ زنجیر ہاتھی کاون خوش قسمت تھا کہ بین الاقوامی سطح پر شور مچانے کے سبب بچ نکلا اور زندہ سلامت پرائے خرچے پر نومبر 2020 میں کمبوڈیا کی کھلی پناہ گاہ میں پہنچا دیا گیا۔ مگر نور جہاں تو اس قابل بھی نہیں کہ اسے بین الاقوامی طبی ٹیم کے مشورے کی روشنی میں زو کی گھٹن سے نکال کے چند کلومیٹر پرے سفاری پارک کی نسبتاً کھلی فضا میں منتقل کیا جا سکے۔ نور جہاں کا حال دیکھ دیکھ کے اس کی ساتھی ہتھنی مدھوبالا ویسی ہی اعصابی کیفیت سے گذر رہی ہے جس کیفیت سے اصلی مدھو بالا آخری دنوں میں گذر رہی تھی۔ نور جہاں اور مدھوبالا کو نارمل حالات میں کم از کم 20 برس اور جینا چاہیے۔ مگر وہ جن لال بھجکڑوں کی اذیتی قید میں ہیں ان کے ہوتے اگلے 20 دن بھی 20 برس کے برابر ہیں۔
چڑیا گھر کے انتظامی ذمہ دار بلدیہ کراچی کے ناظم سے جب نور جہاں کی کیفیت کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ گھبرانا نہیں ہے۔ ہم طبی ٹیم کے مشوروں کی روشنی میں اس کی پوری دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ آخر جب ٹیم نور جہاں کی سرجری کر رہی تھی تو اسے کھڑا رکھنے کے لیے جو کرین استعمال کی گئی وہ بھی تو بلدیہ کراچی نے ہی فراہم کی تھی۔ یہ بلدیہ کراچی کے ناظم کا کوئی انفرادی رویہ نہیں بلکہ قومی رویہ ہے۔ گھبرانا نہیں ہے۔ ملکی معاشی حالت گھمبیر ضرور ہے مگر قابو میں ہے۔ انشااللہ اسحاق ڈار کی کوششوں کے باوجود ہم جلد بحران سے نکل آئیں گے۔ گھبرانا نہیں ہے۔ ملکی دفاع محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ دہشت گردی اچانک یوں بڑھ گئی ہے کیونکہ دہشت گرد ہماری موثر حکمتِ عملی سے بوکھلا گئے ہیں۔ گھبرانا نہیں ہے۔ اسلام آباد پولیس نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کو فول پروف سیکورٹی دے گی۔ گھبرانا نہیں ہے۔ بلوچستان کے حالات تیزی سے معمول پر آ رہے ہیں۔
اور انھی ارسطووں اور افلاطونوں کے دفتر سے چند ہفتے بعد یہ بیان بھی متوقع ہے کہ ’ہم نے تو نور جہاں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مگر پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اس کی دیکھ بھال کے دوران ہونے والی غفلتوں کی چھان بین کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ کمیٹی کی سفارشات پر پورا پورا عمل کیا جائے گا۔‘ سفید ہاتھی پالنے کی ماہر ریاست اگر ایک اصلی ہاتھی تک نہ سنبھال پائے تو آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ کو سنبھال لے گی؟ ویسے یونہی ایک بات ذہن میں آئی کیا پاکستان کو واقعی الگ سے کسی چڑیا گھر کی ضرورت ہے؟
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
مافیا جیت گیا یا عمران خان
کورونا نے نظام زندگی یکسر بدل دیا ہے، بہت سی حکومتوں اور افراد نے زندگی گزارنے کے اصول ہی بدل ڈالے ہیں۔ الغرض کچھ نے سبق سیکھ لیا ہے، کچھ سیکھنے کے مرا��ل سے گزر رہے ہیں اور کچھ اب بھی اختیارات، منافقت، ناجائز منافع خوری اور ظلم و بربربیت کی دوڑ میں سبقت لے جانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ یہی طبقہ ’’مافیا‘‘ کہلاتا ہے، اس مافیا کو زیادہ سے زیادہ مال بنانے کی لت لگ گئی ہے، اور یہ لت شاید قبر میں جا کر ہی ختم ہو! بقول شاعر
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشاں ہونا
پٹرول سستا ہوا، تو شارٹ کر دیا گیا، پھر یکمشت 25 روپے مہنگا ہوا تو ٹینکر کے ٹینکر سڑکوں پر دوڑنے لگے۔ حکومت نے ادویات سستی کرنے کے لیے کمپنیوں کو نوٹسز جاری کیے تو ادویات مارکیٹ سے غائب ، پھر جب قیمتیں بڑھا دی گئیں تو انھی میڈیکل اسٹورز پر ادویات کے ڈھیر لگے نظر آئے۔ چینی مہنگی ہونے کا نوٹس لیا گیا، مگر زائد قیمت چینی پر ہی اکتفا کر کے چینی مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے، آٹا و گندم مہنگی ہوئی، نتیجے میں مہنگی قیمتوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا، پھر حکومت نے چکن کے ریٹ فکس کرنے کی کوشش کی ، تو 200 والا چکن 300 میں سیل ہونے لگا۔
یہی حالات پیپر، بجلی، گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کے ساتھ ہوئے۔ سوشل میڈیا کو دیکھ لیجیے، آپ کو ہر شخص اس حوالے سے ڈسکس کرتا نظر آئے گا کہ کیا پاکستان میں ’’مافیا‘‘ کے پنجے اس قدر مضبوط ہو گئے ہیں کہ کوئی حکومت بھی ان سے نمٹنے سے قاصر ہے۔ جب کہ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ مافیا کا پیچھا چھوڑ دوں تو آج ہی سب اچھا ہو جائے گا۔ خان صاحب ! یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب آپ نے شوگر مافیا، ادویات مافیا، بلڈر مافیا ، پٹرولیم مافیا ، گندم مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا اور دیگر مافیا ز کو آج تک سزا نہیں دی تو کوئی کیسے سمجھے کہ آپ ان مافیاز کو ’’نتھ ‘‘ ڈالنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔ بات تو اُس وقت سمجھ آئے کہ چند ایک بڑے لٹیروں سے آپ نے اربوں روپے ریکور کر لیے ہیں جب کہ چند ایک کے خلاف آپ ثبوت اکٹھے کر رہے ہیں۔ لیکن فی الحال تو یہی لگ رہا ہے کہ جیسے مافیا چاہتا ہے اس ملک میں ویسا ہی سب کچھ ہو رہا ہے۔
میں نے ابھی پچھلے دنوں پٹرول بحران پر کالم لکھا تھا، اُس میں میں نے لکھا تھا کہ اگر حکومت پٹرول بحران پر قابو پانے میں ناکام رہی تو اس کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑے گا، خیر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، لہٰذا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ عوام مہنگا تیل نہیں خریدیں گے، بلکہ مسئلہ یہ ہے اگر حکومت واقعی دباؤ میں آکر ایسے فیصلے مسلط کرے گی تو عوامی ردعمل آنا فطری بات ہے۔ اور پھر یہ سوال اُٹھنا کہ حکومت کی رٹ کہاں ہے؟ یقینی ہو گا ۔ میرے خیال میں حکومت قائم کر لینا اصل کمال نہیں بلکہ اصل چیز حکومتی رٹ کا قیام ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پھر ان کے دفاع میں عجیب و غریب تاویلیں پیش بھی کرتی ہے کہ یہ تمام فیصلے عوام کے وسیع تر مفاد میں کیے گئے ہیں۔ سوال اب یہ ہے کہ کیا ان مافیاز اور حکومت میں سے کون جیت رہا ہے اور کون ہار رہا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہم اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑا لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ فی الوقت بجلی کی بے وقت کی لوڈ شیڈنگ ، بجلی کے بڑھتے ہوئے بلز، ڈاکٹروں کی بڑھتی فیسیں، اسپتالوں کے مہنگے بلز، تعلیمی اداروں کی فیسیں، صاف پینے کے پانی کی سپلائی، سڑک کی صفائی اور استرکاری، امن وامان کے قیام، الغرض تمام سرکاری ادارے جو سرکار کے نام پر عوام سے رشوت لے کر کام کرتے ہیں سبھی سانپ کی طرح پھن پھیلائے عوام کو ڈسنے کے لیے تیار ہیں۔
لگ تو یوں رہا ہے کہ جیسے حکومت تو آئی لیکن آتے ہی سب بھول گئی۔ کرپشن کے خلاف اقدامات تو اُٹھائے گئے مگر ریکور کچھ نہ ہوا۔ اُلٹا اربوں روپے سیکیورٹی اور پیشیوں کی مد میں خرچ کر دیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت اپنے مقاصد سے ہٹ گئی ۔ شاعر نے کیا خوب ان حالات کی تشریح کی ہے کہ
عجیب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں لگا کے زخم، نمک سے مساج کرتے ہیں
بہرکیف جب تک حکومت کی رٹ بحال نہیں ہوتی آپ کچھ بھی کرنے سے قاصر رہیں گے، حد تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت، گیس، آٹا اور دیگر لوازمات میں سبسڈی دے کر بھی نان بائیوں کو کنٹرول کرنے سے قاصر رہی۔ انھوں نے جب چاہا زائد قیمتیں وصول کرنا شروع کر دیں۔
اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ لیکن کوالٹی کنٹرول اور پرائس کنٹرول کے ادارے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اور سب کچھ اچھا ہے کی گردان کرتے رہے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ اس حوالے سے ادارے موجود نہیں ہیں اس وقت سی سی پی یعنی مسابقتی کمیشن آف پاکستان اس معاملہ میں غیر فعال ہو گیا ۔ یہ وہ سرکاری ادارہ ہے جس کی سربراہی کے لیے آئے دن مختلف نام منظر عام پر آتے رہتے ہیں اور جو اسٹیٹ بینک کے بعد دوسرے نمبر پر معاشی کنٹرول کا ادارہ بنتا ہے۔ افسوس کہ کوئی کچھ نہیں کرتا۔ ہمیں یاد ہے کہ جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو اُن کی جانب سے یہ اکثر سننے میں آتا تھا کہ یہ سب مافیاز ہیں جن کے خلاف میں حکومت میں آنے کے بعد کارروائی کروں گا لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان اپنے ماضی کے بیانیے سے ہٹتے نظر آرہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان پر آٹا، چینی اور پٹرول بحران کے بعد یہ الزام لگنا شروع ہو گیا تھا کہ ان کی اپنی کابینہ میں مافیا بیٹھا ہوا ہے، جس پر انھوں نے مافیا کے لفظ کو تھوڑا فینسی کرتے ہوئے ان کے لیے ’’ایلیٹ کارٹل ‘‘ کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، یعنی اس سے مراد وہ کاروباری حضرات ہیں جو اپنا اکٹھ کر کے ملک میں کسی چیز کی قلت پیدا کر دیتے ہیں۔ منافع خوروں کا چہرہ تب عیاں ہوتا ہے جب حکومت کسی بھی چیز کی قیمتوں میں کمی کرتی ہے اور فورا بعد اس چیز کی قلت پیدا کر دی جاتی ہے۔ الغرض کہنا تو نہیں چاہیے لیکن آج ایک بار پھر یہی کہوں گا کہ عمران خان صاحب آپ اس ��وام کے لیے آخری اُمید ہیں، اگر اس بار اُمید ٹوٹتی ہے تو یقین مانیں کچھ باقی نہیں رہے گا۔ ہر بحران کے بعد کہا جاتا ہے کہ مافیا جیت گیا ، کپتان ہار گیا۔ یہ بات عمران خان کی نااہلی کو بھی واضح کرتی ہے۔ لہٰذا ان تمام بحرانوں سے چھٹکارہ پانے کا صرف یہی حل ہے کہ آپ کسی ایک بحران کو پکڑ لیں، اُسے حل کریں، عوام کے سامنے نمونہ بنا کر پیش کریں، اُس کے بعد دوسرا بحران پکڑیں اُسے حل کریں، پھر حل ہونے والے بحرانوں کے آگے بند باندھ دیں۔ اسی طرح تمام مسائل کو حل کرنے میں عوام بھی آپ کے ساتھ ہوں گے اور اس طرح یقینا آپ جیت بھی جائیں گے!
علی احمد ڈھلوں
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
youtube
قائداعظم اور رفقاء کی پاکستان سے والہانہ محبت۔
اپنا سب کچھ ملک پر لٹانے والے قائداعظم کے ساتھی۔
آج کے جاگیردار، وڈیروں لٹیروں کی داستان۔
تفصیلی تجزیہ ویلاگ میں۔
0 notes
Text
لٹیروں نے ہوٹل پر بیٹھے شہریوں کو لوٹ لیا men robbed at hotel in Karachi
کراچی: شہر قائد میں لٹیروں نے چائے کے ہوٹلوں کو لوٹ مار کے لیے آسان ہدف بنا لیا ہے، ایک اور واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آ گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ابو الحسن اصفہانی روڈ پر اسٹریٹ کرائم کی واردات کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 3 لٹیروں نے چائے کے ہوٹل پر بیٹھے ہوئے 7 شہریوں سے لوٹ مار کی۔ فوٹیج کے مطابق لٹیروں نے اطمینان کے ساتھ شہریوں سے موبائل فون اور نقدی چھینی، 2 خوف زدہ شہریوں نے خود…
View On WordPress
0 notes
Photo
لٹیروں کو وزیراعظم عمران خان اپنی سیاسی موت کا فرشتہ دکھائی دیتے ہیں،ن لیگ کو فردوس عاشق اعوان نے آئینہ دکھا دیا اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ترجمان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ مریم اورنگزیب صاحبہ لٹیروں کو وزیراعظم عمران خان اپنی سیاسی موت کا فرشتہ دکھائی دیتے ہیں۔
#آئینہ#اپنی#اعوان#خان#دکھا#دکھائی#دیا#دیتے#سیاسی#عاشق#عمران#فردوس#فرشتہ#کا#کو#لٹیروں#لیگ#موت#نے#ہیںن#وزیراعظم
0 notes
Text
لٹیروں سے خود انکے اپنے گھر محفوظ نہیں رہتے
لٹیروں سے خود انکے اپنے گھر محفوظ نہیں رہتے
لٹیروں سے خود انکے اپنے گھر محفوظ نہیں رہتے ازقلم: نقاش نائطی +966562677707 سیاست دان، عموما عوامی ووٹوں کا استحصال کر، اقتدار حاصل کرتے ہوئے، ملکی ریسورسز کو لوٹا کرتے ہیں۔ دیش پر سابقہ پینسٹھ سالوں سے حکومت کررہی کانگریس سرکار نے بھی، اپنے طور دیش کو خوب لوٹا تھا اور بیرون ملک بنکوں میں کانگریس سیاست دانوں کا بہت بڑا سرمایہ محفوظ رکھا ہوا تھا۔ اسی کالے دھن کو وطن واپس لانے ہوئے، ہر دیش واسیوں…
View On WordPress
0 notes
Photo
”ان رپورٹوں کے مطالعے کے باوجود لٹیروں کی وکالت کرنے والے قبیلے کو سمجھنا میرے لئے یقیناً مضحکہ خیز حد تک باعث تعجب ہے۔” عمران خان 🇵🇰🇵🇰 #PMIK : UD Digital Team
1 note
·
View note