#صحافی
Explore tagged Tumblr posts
Text
چیمپئنز ٹرافی، محسن نقوی گزشتہ روز چپکے سے کہاں گئے تھے؟ سینئر صحافی کا تہلکہ خیز دعویٰ
کراچی (ویب ڈیسک) چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے دبئی میں آئی سی سی حکام سے ملاقات کر کے چیمپئنز ٹرافی کے حوالے سے پاکستان کا دبنگ مؤقف دہراتے ہوئے واضح کیا کہ ہمیں کوئی ہائبرڈ ماڈل قبول نہیں، اگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن ہے کہ تو سامنے رکھا جائے۔ نجی ٹی وی جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سیئنر اسپورٹس جرنلسٹ عبدالماجد بھٹی نے انکشاف کیا کہ چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے گزشتہ…
0 notes
Text
پیکاایکٹ ترمیمی بل کیخلاف ملک بھرمیں صحافی سراپااحتجاج
پی ایف یوجے کی کال پر صحافی برادری نےمتنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل کےخلاف کراچی، لاہور، اسلام آباد اور کوئٹہ سمیت ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے، صحافی رہنماؤں نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کومسترد کرتےہوئےاسےآزادی صحافت پر حملہ قرار دے دیا۔ متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل کیخلاف کراچی پریس کلب کےباہر نجی ٹی وی نیوز چینلز کے اہم عہدےداران، صحافیوں کی بڑی تعداد کےعلاوہ سول سوسائٹی، مزدور، وکلا اور سیاسی جماعتوں…
0 notes
Text
یوٹیوب پر ہتک عزت قانون لاگو ہوتا ہے، کوئی ریگولیٹری قانون موجود نہیں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ایف آئی کی جانب سے نوٹسز بھجوانے کے کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ میں شامل ہیں۔ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون روسٹرم پر آٸے۔ جہانگیر جدون نے کل کا حکمنامہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ حکومت سے پوچھا جائے کہ عامر میر کیس…

View On WordPress
0 notes
Text
صحافی جان محمد مہر کے قتل اور مرکزی ملزمان کی عدم گرفتاری کے خلاف بدین میں مظاہرہ
اردو ٹوڈے، بدین پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی ملگ گیر اپیل پر سکھر میں شہید کئے جانے والے شہید صحافی جان محمد مہر کے قتل اور مرکزی ملزمان کی عدم گرفتاری کے خلاف حیدرآباد یونین آف جرنلسٹ بدین یونٹ کے زیراہتمام بدین پریس کلب اور ایوان صحافت کی جانب سے بدین پریس کلب سے ایون صحافت تک ضلع بھر کے صحافیوں نے احتجاجی ریلی نکالی مظاہرہ کیا اور دھرنا دے کر احتجاج کیا . اس موقع پر احتجاجی شرکاء نے…

View On WordPress
0 notes
Text
سعادت حسن منٹو کے اقوال
سعادت حسن منٹو ایک ادیب، شاعر اور صحافی تھے، جنہوں نے اپنے ادبی کاموں کو سماجی اور سیاسی مسائل کے بارے میں بیداری پھیلانے کے لیے استعمال کیا۔ ان کی یوم پیدائش 11 مئ کی مناسبت سے ان کے کچھ اقوال ۔۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں میں اپنی آنکھیں بند کر بھی لو، مگر اپنے ضمیر کا کیا کروں؟
ہم عورت اُسی کو سمجھتے ہیں جو ہمارے گھر کی ہو۔ باقی ہمارے لئے کوئی عورت نہیں ہوتی، بس گوشت کی دکان ہوتی ہے اور ہم اس دکان کے باہر کھڑے کتوں کی طرح ہوتے ہیں، جن کی ہوس زدہ نظر ہمیشہ گوشت پر نکی رہتی ہے۔
مسجد میں دیوبندی ، شیعہ، سُنی ،وہابی سنیما میں ایک ذات۔
میرے جانے کے بعد میری لکھی ہوئی ہر بات کو سراہا جائے گا میرا نام لیا جائے گا مجھے یاد کیا جائے گا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
ہاتھ چھوڑ دینے والے کی اپنی اذیت ہے اور ہاتھ چھڑوا لینے والے کی اپنی کہانی ہے ، لیکن اس عمل میں محبت یتیم ہوجاتی ہے۔
میں ایسے عشق کا قائل نہیں جو مرد کی طرف سے شروع ہو۔
آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا صرف ایک دکان بچ گئی جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا، یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان موجود ہے۔
دنیا میں جتنی لعنیتیں ہیں، بھوک ان کی ماں ہے۔
ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔
بیٹی کا پہلا حق جو ہم کھا جاتے ہیں وہ اُس کے پیدا ہونے کی خوشی ہے۔
غلط کار انسان نہیں وہ حالات ہیں جن کے کھیتوں میں انسان غلطیاں پیدا کرتا ہے اور پھر ان کی فصلیں کاٹتا ہے۔
تم نے کبھی محبت کی ہو تو جانو محبت اُداسی کا دوسرا نام ہے۔
مرد بھی کیا عجیب شے ہے، بیوی میں طوائف جیسی ادائیں اور طوائف میں بیوی جیسی وفاداری تلاش کرتا ہے۔
بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اہنی ذات کے لئے وہ کام بھی کرتے ہیں، جو شیطان بھی کرنے سے گریز کرتا ہے۔
سچ بولنے والوں کو میٹھی باتیں کرنا نہیں آتیں۔
عشق ایک مرض ہے اور جب تک طول نہ پکڑے، مرض نہیں ہوتا محض ایک مذاق ہوتا ہے۔
میں اس کا ذمہ دار ہوں جو میں نے کہا ، لیکن اس کا ذمہ دار نہیں جو آپ نے سمجھا۔
مختص�� الفاظ میں زندگی کے متعلق صرف یہ کہا جاسکتا ہے، کہ یہ ایک آہ ہے جو واہ میں لپیٹ کر پیش کی گئی ہے۔
میں نے محبت میں عورت سے بڑا بے وقوف نہیں دیکھا، اکثر ایسے لوگوں کو اپنا سمجھ بیٹھی ہے جو خود اپنے بھی نہیں ہوتے ۔
لوگ اکثر اس چیز کو محبت کرتے ہیں جو حقیقت میں محبت کئے جانے کے قابل نہیں ہوتی۔
انسان کو مارنا کچھ نہیں ، لیکن اُس کی فطرت کو ہلاک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔
عشق جیومیٹری ہے نہ الجبرا۔ بس بکواس ہے۔ چونکہ اس بکواس ہے۔ اس لئے اس میں گرفتار ہونے والے کو بکواس ہی سے مدد لینی چاہئے۔
میرے شہر کے معززین کو میرے شہر کی طوائفوں سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا۔
کپڑوں کے بغیرآدمی حیوان معلوم ہوتا ہے۔
مذہبی محبوبہ، ان پڑھ بیوی اور دیہاتی دوست تینوں وفادار ہوتے ہیں۔
محبت تو جذبوں کی امانت ہے، فقط بستر کی سلوٹ زدہ چادر پر گزارے جانے والے چند بدبودار لمحے محبت نہیں کہلاتے ۔
چنگاری کو شعلوں میں تبدیل کردینا آسان ہے مگر چنگاری پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔
اگر آپ کی زندگی درد کے احساس کے بغیر گزری ہے تو شاید آپ ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔
یہ عیب مجھ میں شروع سے رہا ہے کہ مجھے جھوٹ بولنے کا سلیقہ نہیں۔
تم نے کبھی محبت کی ہو تو جانو محبت اُداسی کا دوسرا نام ہے ہر وقت آدمی کھویا کھویا سارہتا ہے اس لئے کہ اس کے دل ودماغ میں صرف خیال یار ہوتا ہے۔
مرد کے اعصاب پر عورت سوارنہ ہو تو کیا ہاتھی گھوڑے سوارہو؟
انسانوں سے حیوانوں کی دوستی اچھی میرے بھائی، انہیں کوئی ورغلا تو نہیں سکتا۔
جس طرح بعض بچے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں اور کمزور رہتے ہیں اس طرح وہ محبت بھی کمزور رہتی ہے جو وقت سے پہلے جنم لے۔
جسم داغا جاسکتا ہے لیکن روح نہیں داغی جاسکت۔
میرا کام تو آئینہ دکھانا ہے اگر آپ کا چہرہ گرد آلود اور بدنما ہے تو وہ ویسا ہی نظر آئیگا۔

4 notes
·
View notes
Text
’مغربی میڈیا غزہ میں اپنے صحافی ساتھیوں کو بھی کم تر سمجھ رہا ہے‘

عالمی میڈیا جیسے بی بی سی، سی این این، اسکائے نیوز اور یہاں تک کہ ترقی پسند اخبارات جیسے کہ برطانیہ کے گارجیئن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی ساکھ خراب ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں تقریباً 400 فوجیوں سمیت 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے آنے والے غیر متناسب ردعمل کے حوالے سے ان صحافتی اداروں کی ادارتی پالیسی بہت ناقص پائی گئی۔ حماس کے عسکریت پسند اسرائیل سے 250 کے قریب افراد کو یرغمالی بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسرائیلی جیلوں میں قید 8 ہزار فلسطینیوں میں سے کچھ کی رہائی کے لیے ان یرغمالیوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید ان فلسطینیوں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، ان میں ایک ہزار سے زائد قیدیوں پر کبھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ انہیں صرف ’انتظامی احکامات‘ کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہیں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ غزہ شہر اور غزہ کی پٹی کے دیگر شمالی حصوں پر اسرائیل کی مشتعل اور اندھی کارپٹ بمباری میں 14 ہزار فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں سے 60 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے تھے جبکہ امریکی قیادت میں مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی جانب سے کیے گئے قتل عام، یہاں تک کہ نسل کشی کی یہ کہہ کر حمایت کی ہے کہ وہ اپنے دفاع کے حق کا استعمال کررہا ہے۔
افسوسناک طور پر ان صحافتی اداروں میں سے بہت سی تنظیموں نے اپنی حکومتوں کے اس نظریے کی عکاسی کی جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازع کی ابتدا 7 اکتوبر 2023ء سے ہوئی نہ کہ 1948ء میں نکبہ سے کہ جب فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا۔ چونکہ ان کی اپنی حکومتیں قابض اسرائیل کے نقطہ نظر کی تائید کر رہی تھیں، اس لیے میڈیا اداروں نے بھی اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو لے لیجیے، ان اعداد و شمار کو ہمیشہ ’حماس کے زیرِ کنٹرول‘ محکمہ صحت سے منسوب کیا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے شکوک پیدا ہوں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر ہیومن رائٹس واچ اور غزہ میں کام کرنے والی چھوٹی تنظیموں تک سب ہی نے کہا کہ حماس کے اعداد و شمار ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن اعداد و شمار میں تبدیلی تو اسرائیل کی جانب سے کی گئی جس نے ��ماس کے ہاتھوں مارے جانے والے اسرائیلیوں کی ابتدائی تعداد کو 1400 سے کم کر کے 1200 کر دیا۔ تاہم میڈیا کی جانب سے ابتدائی اور نظر ثانی شدہ اعداد وشمار کو کسی سے منسوب کیے بغیر چلائے گئے اور صرف اس دن کا حوالہ دیا گیا جس دن یہ تبدیلی کی گئی۔

یہ تبدیلی اس لیے کی گئی کیونکہ اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ حماس نے جن کیبوتز پر حملہ کیا تھا ان میں سے کچھ جلی ہوئی لاشیں ملی تھیں جن کے بارے میں گمان تھا کہ یہ اسرائیلیوں کی تھیں لیکن بعد میں فرانزک ٹیسٹ اور تجزیوں سے یہ واضح ہوگیا کہ یہ لاشیں حماس کے جنگجوؤں کی ہیں۔ اس اعتراف کے باوجود عالمی میڈیا نے معتبر ویب سائٹس پر خبریں شائع کرنے کے لیے بہت کم کام کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی ریڈیو پر ایک عینی شاہد کی گواہی کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ان گھروں کو بھی نشانہ بنایا جہاں حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا یوں دھماکوں اور اس کے نتیجے میں بھڑک اٹھنے والی آگ میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی اپاچی (گن شپ) ہیلی کاپٹر پائلٹس کے بیانات کے حوالے سے بھی یہی رویہ برتا گیا۔ ان بیانات میں ایک ریزرو لیفٹیننٹ کرنل نے کہا تھا کہ وہ ’ہنیبل ڈائیریکٹوز‘ کی پیروی کررہے تھے ج�� کے تحت انہوں نے ہر اس گاڑی پر گولی چلائی جس پر انہیں یرغمالیوں کو لے جانے کا شبہ تھا۔ اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ کو صرف ان میں سے کچھ مثالوں کو گوگل کرنا ہو گا لیکن یقین کیجیے کہ مغرب کے مین اسٹریم ذرائع ابلاغ میں اس کا ذکر بہت کم ہوا ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی فوجیوں، عام شہریوں، بزرگ خواتین اور بچوں پر حملہ نہیں کیا، انہیں مارا نہیں یا یرغمال نہیں بنایا، حماس نے ایسا کیا ہے۔
آپ غزہ میں صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوریج کو بھی دیکھیں۔ نیویارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلن والش نے ایک ٹویٹ میں ہمارے غزہ کے ساتھیوں کو صحافت کے ’ٹائٹن‘ کہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو درپیش خطرے کو نظر انداز کیا اور غزہ میں جاری نسل کشی کی خبریں پہنچائیں۔ آپ نے الجزیرہ کے نامہ نگار کے خاندان کی ہلاکت کے بارے میں سنا یا پڑھا ہی ہو گا۔ لیکن میری طرح آپ کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے کم از کم 60 صحافیوں اور ان کے خاندانوں میں سے کچھ کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی علم ہو گا۔ یعنی کہ کچھ مغربی میڈیا ہاؤسز نے غزہ میں مارے جانے والے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کو بھی کم تر درجے کے انسان کے طور پر دیکھا۔ بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں ��ہری آبادی کو بے دریغ نشانہ بنانے اور خون میں لت پت بچوں کی تصاویر دنیا کے سامنے پہنچ رہی ہیں، نسل کشی کرنے والے انتہائی دائیں بازو کے نیتن یاہو کو حاصل مغربی ممالک کی اندھی حمایت بھی اب آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے۔
اسپین اور بیلجیئم کے وزرائےاعظم نے واضح طور پر کہا ہے کہ اب بہت ہو چکا۔ اسپین کے پیڈرو سانچیز نے ویلنسیا میں پیدا ہونے والی فلسطینی نژاد سیرت عابد ریگو کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ سیرت عابد ریگو نے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا کہ فلسطینیوں کو قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ پیڈرو سانچیز نے اسرائیل کے ردعمل کو ضرورت سے زیادہ قرار دیا ہے اور فلسطین کو تسلیم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ جن جماعتوں اور امیدواروں نے اسرائیل کو غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ دی ہے وہ اپنے ووٹرز کو گنوا رہے ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کی فتح کا فرق معمولی ہی تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اگر وہ اپنے ’جنگ بندی کے حامی‘ ووٹرز کے خدشات کو دور نہیں کرتے اور اگلے سال اس وقت تک ان ووٹرز کی حمایت واپس حاصل نہیں لیتے تو وہ شدید پریشانی میں پڑ جائیں گے۔
اسرائیل اور اس کے مغربی حامی چاہے وہ حکومت کے اندر ہوں یا باہر، میڈیا پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں۔ ایسے میں ایک معروضی ادارتی پالیسی چلانے کے بہت ہی ثابت قدم ایڈیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس انتہائی مسابقتی دور میں میڈیا کی ساکھ بچانے کے لیے غیرجانبداری انتہائی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا اب روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے اور اگرچہ ہم میں سے ہر ایک نے اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود منفی مواد کے بارے میں شکایت کی ہے لیکن دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان پلیٹ فارمز کے شکر گزار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید غزہ میں جاری نسل کشی کی پوری ہولناکی ان کے بغیر ابھر کر سامنے نہیں آسکتی تھی۔ بڑے صحافتی اداروں کی جانب سے اپنے فرائض سے غفلت برتی گئی سوائے چند مواقع کے جہاں باضمیر صحافیوں نے پابندیوں کو توڑ کر حقائق کی رپورٹنگ کی۔ اس کے باوجود یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تھے جنہوں نے اس رجحان کو بدلنے میں مدد کی۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو ہم روایتی میڈیا کو بھی خود کو بچانے کے لیے اسی راہ پر چلتے ہوئے دیکھیں گے۔
عباس ناصر یہ مضمون 26 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes
·
View notes
Text

ایس ڈی این نیوز ٹی وی چینل کی نمائندگی حاصل کرنے والے ہر صحافی کو چھ ماہ اچھی کارکردگی پر ادارے کی جانب سے 35, ہزارتک مہینے سیلری دی جاتی ہے/
SDN News TV channel has announced a limited-time representation. Educated male and female journalists from all over the world are welcome to contact us. Thank you.
Contact number 03284502537
1 note
·
View note
Text
پریس ریلیز
مارچ 18
*تحریک بائیکاٹ اپنی سیاست کو قومی سلامتی پر ترجیح دے رہی ہے: عظمٰی بخاری*
*پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سازشیں جاری ہیں،ایک جماعت سہولت کاری کا کردار اداکررہی ہے: عظمٰی بخاری*
*تحریک فساد کو اوورسیز گروپس نے ہائی جیک کر لیا ،ان کے کچھ رہنما بھارتی لابی کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں: عظمٰی بخاری*
*فتنہ خان وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی قومی سلامتی کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کرتا تھا: عظمٰی بخاری*
*تحریک انصاف کا دہشت گرد ونگ ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ہے: عظمٰی بخاری*
*افغان مہاجرین کو واپس جانا چاہیے کیونکہ پاکستان مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتا: عظمٰی بخاری*
لاہور() وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ تحریک بائیکاٹ اپنی سیاست کو قومی سلامتی سے زیادہ اہمیت دے رہی ہے۔پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سازشیں جاری ہیں اور پاکستان تحریک انصاف سہولت کاری کا کردار اداکررہی ہے۔تحریک فساد کو اوورسیز گروپس نے ہائی جیک کر لیا ہے،ان کے کچھ رہنما بھارتی لابی کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔فتنہ خان وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی قومی سلامتی کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کرتا تھا اور تحریک انصاف کا دہشت گرد ونگ ملکی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔افغان مہاجرین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کو واپس جانا چاہیے کیونکہ پاکستان مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پریس کلب ہمیشہ سے ان کا دوسرا گھر رہا ہے۔ صحافی برادری کے مسائل کا حل میری پہلی ترجیح ہے اور تنخواہوں کے مسائل سمیت دیگر معاملات پر کام جاری ہے۔ انہوں نے رمضان نگران پیکیج کے تحت 30 لاکھ مستحق افراد کو مالی امداد کی فراہمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صحافی برادری کو بھی اس میں شامل کیا جائے گا تاکہ وہ بھی اس سہولت سے مستفید ہو سکیں۔عظمیٰ بخاری نے ملکی سیاسی صورتحال اور قومی سلامتی کے امور پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر تمام سیاسی جماعتیں عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہیں۔ تاہم، کچھ عناصر اپنی سیاست کو قومی سلامتی سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں، جو ایک افسوسناک رویہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں قومی سلامتی کی کمیٹی کا اجلاس جاری ہے، لیکن ایک مخصوص جماعت نے بائیکاٹ کی سیاست کو اپنا معمول بنا لیا ہے۔ تحریک فساد ماضی میں بھی قومی اتفاق رائے کا حصہ نہیں بنی اور اب بھی وہی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ عظمیٰ بخاری نے افغانستان سے آئے مہاجرین کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں واپس جانا چاہیے کیونکہ پاکستان مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ دراصل پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے قومی ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جب وہ وزیراعظم تھے تو انہوں نے خود کو سب سے برتر سمجھا اور قومی سلامتی کے اجلاسوں میں شرکت سے گریز کیا۔ آج ملک میں دہشت گردی پھر سر اٹھا رہی ہے، اور ہمیں دوبارہ سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔وزیر اطلاعات پنجاب نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سطح پر لابنگ کی جا رہی ہے، اور کچھ مخصوص عناصر اس میں سہولت کار بن رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو اوورسیز گروپس نے ہائی جیک کر لیا ہے، اور اس کے کچھ رہنما بھارتی لابی کے ساتھ روابط رکھتے ہیں۔عظمیٰ بخاری نے کہا کہ نواز شریف ہر طرح کا مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں اور پاکستان کے مفاد کو ہمیشہ مقدم رکھتے ہیں۔ انہوں نے 9 مئی کے واقعات اور جعفر ایکسپریس پر ہونے والی سوشل میڈیا مہم کی شدید مذمت کی اور کہا کہ دہشت گردوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔��خر میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرحدوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے، اور چند فسادی عناصر کے سوا پوری قوم اپنے ملک کی حفاظت کے لیے متحد ہے۔ قومی سلامتی کے معاملات پر صرف وہی لوگ بات کر رہے ہیں جو ملک کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں، جبکہ محب وطن قیادت اور عوام پاکستان کی سلامتی کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔
0 notes
Text
عمران کی ’’مقبولیت‘‘ کا راز

پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ میں کبھی سرکاری بیانیہ کوعوامی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی تو اب کیسے حاصل ہو گی۔ عمران خان کی مقبولیت کو جو عروج آج حاصل ہے اُس کی ایک بہت بڑی وجہ عدم اعتماد کی تحریک سے لے کر آج تک کی مسلم لیگ (ن) اور مقتدرہ کی حکمت عملی ہے جس میں ایک مرکزی کردار سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں اور 2018ء سے 2021ء تک عمران حکومت کا گراف نیچے لانے کے مرکزی کردار سابق ISI چیف جنرل فیض حمید ہیں اور 9 مئی کی جب اصل کہانی کھلے گی تو امکان اسی بات کا ہے کہ کئی راز افشا ہو سکتے ہیں اندرون خانہ بھی اور بیرونی کرداروں کے بارے میں بھی۔ عمران کی مقبولیت کی ابتدا 30 اکتوبر 2011ء کو مینار پاکستان کے جلسے سے ہوتی ہے مگر اسکے سیاسی تقابل کا جائز ہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ جہاں اُس وقت کی مقتدرہ کے تعلقات شریف برادران سے کشیدہ ہو گئے تھے یا ہونا شروع ہوئے تھے مگر اس کی وجوہ خاص طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اور بھی تھیں۔ پہلے کے پی چلتے ہیں یہ سال 2002ء کی بات ہے جنرل پرویز مشرف نے اچانک عام انتخابات کا اعلان کر دیا اُس سے پہلے اپنی مقبولیت جانچنے کیلئے ریفرنڈم کروایا ۔
2002ء کا الیکشن پلان جنرل احتشام ضمیر مرحوم کے حصے میں آیا جس میں عمران خان کیلئے صرف ایک سیٹ کا فیصلہ ہوا۔ ان انتخابات میں نہ شریف میدان میں تھے نہ ہی بینظیر مگر مشرف کو سب سے بڑا چیلنج مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل سے تھا جسکی بڑی وجہ 9/11 کے بعد امریکہ کی قیادت میں اتحادیوں کا افغانستان پر حملہ تھا۔ ایم ایم اے نے امریکی مخالف بیانیہ بنایا اور مشرف پر امریکی نواز ہونے کا الزام لگایا جس سے انہیں عوامی پذیرائی اس حد تک ملی کہ وہ کے پی میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے۔ دیگر صوبوں، ماسوائے پنجاب، میں بھی خاصی کامیابی ملی اور ایم ایم اے سب سے مضبوط اپوزیشن کے طور پر سامنے آئی۔ عمران کو اپنے آبائی حلقے میانوالی سے کامیابی حاصل ہوئی جو پاکستان تحریک انصاف کی پہلی انتخابی کامیابی تھی۔ مجھے آج بھی یادہے 2002ء میں اپنی انتخابی مہم ختم کر کے جب وہ کراچی میں ڈاکٹر عارف علوی کے گھر آئے تو مجھ سمیت کئی صحافی وہاں موجود تھے عمران نے مجھ سے پوچھا ’’مظہر تمہاری کیا رائے ہے ہمیں کتنی سیٹیں ملیں گی ہماری مہم تو بہت اچھی رہی ہے‘‘۔

میں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں مگر میرا مشاہدہ ہے کہ زیادہ تر لوگ آپ کو دیکھنے آتے ہیں شاید اتنا ووٹ نہ پڑے آپکے امیدواروں کو۔ الیکشن کے بعد عمران کی سیاست میں ایک نیا موڑ آیا اور چونکہ وہ شکست کو کبھی تسلیم نہیں کرتے انہوں نے مہم جاری رکھی تو دوسری طرف ایم ایم اے کی کے پی حکومت ایک طرف جماعت اسلامی اور جے یو آئی میں اختلافات کا شکار ہو گئی تو دوسری طرف ان کی حکومتی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھنے لگے جس کا فائدہ خان کو ہوا۔ کرکٹ ملک کا مقبول ترین کھیل ہے اور اس نے بھی خان کو خاصا فائدہ پہنچایا۔ ایم ایم اے کا اتحاد ٹوٹ گیا جبکہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ قاضی حسین احمد مرحوم، نواز شریف اور عمران کے درمیان اتحاد تشکیل پا گیا۔ میاں صاحب کے علاوہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے مشرف کے انڈر الیکشن کا بائیکاٹ کیا جو ایک سیاسی تضاد تھا انکی سیاست کا کیونکہ 2002ء کے الیکشن میں دونوں حصہ لے چکے تھے۔
2008ء میں محترمہ بینظیر کی شہادت کے بعد ہونے والے الیکشن میں کے پی میں اے این پی اور پی پی پی کی اتحادی حکومت بنی جبکہ پنجاب میں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی۔ اس حوالے سے میدان میں پی ٹی آئی اور خاص طور پر عمران کو اپوزیشن کا رول اور پی ٹی آئی کو تیسری قوت یا تھرڈ آپشن کے طور پر پیش کرنے کا موقع مل گیا اور جب وہ 2013ء کے الیکشن میں گئے تو ان کو پہلی بڑی انتخابی کامیابی ملی تاہم انہیں حکومت کے پی میں ب��انے کیلئے جماعت اسلامی سے اتحاد کرنا پڑا۔ کے پی میں عمران نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا البتہ 2013ء الیکشن تک اُنکی جماعت میں دوسری جماعتوں سے لوگوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں اُس وقت کی مقتدرہ کے کچھ افسران کا رول نظر آتا ہے۔ اُس وقت نئی تاریخ رقم ہوئی جب 2018ء میں پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت ملی جو ایک ریکارڈ تھا اور یہ گراف آج تک برقرار ہے ۔ یہاں دوسری جماعتوں کی خراب کارکردگی، بیانیہ کی کمزوری اور نوجوانوں کا عمران کی جانب رجحان اور سابقہ فاٹا میں آپریشن کی مخالفت اُن کی مقبولیت کی بڑی وجوہات میں سے چند ہیں۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کی کامیابی کی بڑی وجہ پی پی پی کا پنجاب میں مکمل صفایا نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) فرینڈلی اپوزیشن اور عمران کا اینٹی شریف بیانیہ بنا جس نے پی پی پی کے ورکرز اور ووٹرز کو اپنی جانب راغب کیا۔ دوسری وجہ بے نظیر بھٹو کے بعد پارٹی میں مقبول رہنما کی کمی اور تیسری وجہ مسلم لیگ پر خاندان کی اجارہ داری کا مزید مضبوط ہونا۔ تاہم ایک بڑی وجہ نواز شریف کا 2013ء کے بعد پی ٹی آئی کے احتجاج کو طول دلوانا بھی ٹھہرا ورنہ چار حلقے کھولنے کے مطالبے کو بہتر انداز میں حل کیا جا سکتا تھا نتیجہ کے طور پر ماڈل ٹائون یا 126 دن کے دھرنے کی نوبت نہ آتی۔ اس حکمت عملی نے پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچایا۔ تاہم اس میں جنرل ظہیر الاسلام اور جنرل پاشا کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 2018 ء کے الیکشن میں عمران کو پہلے سے زیادہ نشستیں ملیں تاہم اب بھی وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھے جس کیلئے جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے کردار ادا کیا اور یہی عمران کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی اور وہ پھر باجوہ اور فیض کا احسان چکانے میں لگ گئے اور جب اُنکے باجوہ سے اختلاف بڑھے تو وہ کردار جو انہوں نے عمران کی حکومت بنانے میں ادا کیا تھا وہ حکومت گرانے میں ادا کیا اور خان باجوہ اور فیض کے درمیان پھنس کر رہ گئے۔
باجوہ، شریف اور زرداری کی سب سے بڑی غلطی عمران کو ہٹانا اور پھر حکومت کرنا ثابت ہوئی جس کی قیمت وہ آج تک ادا کر رہے ہیں۔ ان تین حضرات نے اور ان کی سیاست نے جو غلطیاں کیں اُس کی قیمت آج 8 فروری کا الیکشن ہے جس نے عمران کو عروج کی نئی منزل پر پہنچا دیا اور یاد رہے یہ الیکشن 9 مئی کے بعد ہوا، خان کی بے شمار سیاسی غلطیوں کے بعد۔ اس وقت بانی پی ٹی آئی دونوں بڑی جماعتوں اور خود مقتدرہ کے لیے ایک ایسی ’’کڑوی گولی‘‘ بن چکا ہے جو نگلی جا رہی ہے نہ اُگلی جا رہی ہے۔ عمران نہ اُس کی جماعت کوئی منظم تحریک چلا پائے 9 مئی اور 26 نومبر اِس کا ثبوت ہے مگر دوسری طرف کوئی بیانیہ ہی نہیں۔ اب خان کے پاس تو پھر ایک ٹرمپ کارڈ ہے دوسری طرف سناٹا ہے کیونکہ سزا دے کر بھی عمران کی مقبولیت بڑھ سکتی ہے کم نہ ہو گی۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
متنازع پیکا قانون کا مقصد جمہوریت کا گلا گھونٹنا ہے

صحافیوں نے سڑکوں پر احتجاج کیا، انسانی حقوق کی تنظیموں نے ممکنہ خطرناک نتائج کے حوالے سے خبردار کیا اور ڈیجیٹل رائٹس کے ماہرین نے بھی مخالفت میں آوازیں بلند کیں لیکن تمام کوششیں بے کار ثابت ہوئیں۔ اور اب صدر کے دستخط کے بعد پیکا ترامیم آئین کا حصہ بن چکی ہیں جو ہمارے ملک کی جمہوریت کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ جتنی عجلت میں یہ معاملہ نمٹایا گیا وہ انتہائی حیران کُن تھا۔ سول سوسائٹی نے مشاورت کرنے کی درخواست کی، عجلت کے بجائے بغور نظرثانی کرنے کی بات کی لیکن ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ اب اس سخت گیر قانون پر دستخط کی سیاہی خشک ہوچکی ہے اور اب یہ حتمی قانون لوگوں کو اظہار رائے کرنے سے خوفزدہ کررہا ہے۔ نئے قانون میں سیکشن 26 اے متعارف کروایا گیا ہے جس میں نام نہاد فیک نیوز (جس کی تعریف کی وضاحت نہیں کی گئی) پھیلانے والوں کو 3 سال سزا اور 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں ہو سکتی ہیں۔ لیکن جعلی خبر کی تعریف کیا ہے؟ کون فیصلہ کرے گا کہ کون سی معلومات لوگوں میں ’خوف، اضطراب یا بےامنی‘ کا باعث بنیں گی؟

تاریخ گواہی دیتی ہے کہ جب قوانین کی درست وضاحت نہ کی جائے تو ان کا منصفانہ انداز میں اطلاق نہیں ہوتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی جو آزادی صحافت کی علم بردار تھی، ایسی ترامیم کی حمایت کر کے اب وہ اس نظریے کے حامی بن چکی ہے جس کے تحت جمہوریت کو محفوظ بنانے کا بہترین راستہ اس کا گلا گھونٹ دینا ہے۔ وزیر اطلاعات عطا اللہ تاڑر نے جس طرح ’ورکنگ صحافیوں‘ اور ’اپنے فون نکالنے‘ والے شہریوں کے درمیان فرق کو بیان کیا، اس نے اس دور کی یاد تازہ کردی کہ جب گھڑسوار خبروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے تھے. وہ دور کہ جب خبروں کے تبادلے سست اور زیرِ کنٹرول ہوتے تھے۔ حکومت کا یہ دعویٰ کہ ان ترامیم کا مقصد شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے، مخلص نہیں لگتا۔ درحقیقت نئی نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی اور سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام نے ان کے اصل ارادے کو آشکار کیا ہے۔
حکومت پاکستان کے ڈیجیٹل ماحول پر ایسا کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے کہ جس کی ماضی میں ہمیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس قانون کا مقصد مخالف آوازوں کو دبانا نہیں بلکہ ان کا مکمل خاتمہ ہے۔ ایسی ترامیم منظور ہی نہیں ہونی چاہیے تھیں۔ حکومت کے پاس معنی خیر مذاکرات کا راستہ تھا منصفانہ اور شفاف طریقہ کار کے ذریعے میڈیا کے ضوابط کو مضبوط کرنے اور بنیادی حقوق کو پامال کیے بغیر غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کی راہ موجود تھی۔ مگر انہوں نے مذاکرات کے بجائے جبر کا راستہ چنا۔ پاکستانی صحافی، ڈیجیٹل کارکنان اور عام شہریوں کو ایسے مذموم قانون کے خلاف طویل جنگ لڑنے کی تیاری کرنی چاہیے جو انہیں خاموش کروانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عدالت عوامی حقوق و آزادی کے دفاع کرتے ہوئے قانون کا مقابلہ کریں گی؟ اس سوال کا جواب شاید ملک میں آزادی اظہار کے مستقبل کا تعین کرسکتا ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
بھارتی صحافی نے بھارتی کرکٹ ٹیم کے پاکستان نہ آنے سے متعلق بڑے انکشافات کر دیئے
ممبئی (ڈیلی پاکستان آن لائن )سپورٹس کے معروف بھارتی صحافی وکرانت گپتانے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کیلئے بھارتی ٹیم کے پاکستان نہ آنے کے حوالے سے بڑے انکشافات کر دیئے ہیں ۔ نجی ٹی وی جیونیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وکرانت گپتا نے کہا کہ میڈیا کے ذریعے ہی لڑائی لڑی جارہی تھی، اگر سمجھ رہے ہیں کہ آج منع کیا گیا ہے تو وہ غلط ہے، کسی بھی اسٹیج پر ایسا نہیں لگتا تھا کہ انڈیا جائے گاکیوں کہ یہ…
0 notes
Text
عمران خان سے ملنے آنیوالے برطانوی صحافی کا ویزامنسوخ
عمران خان سے ملنے کیلئے آنیوالےامریکی نژاد برطانوی صحافی چارلز گلاس کا وزارت داخلہ نے ویزامنسوخ کرکے واپس بھیج دیاگیا۔ امریکی صحافی چارلز گلاس کو اسلام آباد میں ایک گھر سے اٹھا کر ایئرپورٹ واپس بھیج دیا،چارلز گلاس نے وزیر داخلہ محسن نقوی کو بھیجی گئی ای میل میں بانی(پی ٹی آئی) سے ملاقات کی اجازت مانگی تھی۔ ذرائع کے مطابق چارلز گلاس نے وزیر داخلہ کو بتایا تھا کہ انہیں عدالتی اجازت کے باوجود…
0 notes
Text
خرید انواع دفترچه یادداشت
دفترچه یادداشت، ابزاری ساده اما بسیار کاربردی است که از دیرباز برای ثبت افکار، ایدهها، خاطرات، برنامهها و هر آنچه که ارزش به خاطر سپردن دارد، مورد استفاده قرار میگرفته است. با وجود پیشرفت تکنولوژی و ظهور ابزارهای دیجیتال، دفترچه یادداشت همچنان جایگاه ویژهای در زندگی افراد دارد و به عنوان یک همراه همیشگی، در مواقع مختلف به کمک ما میآید. در این مقاله به بررسی جامع دفترچه یادداشت، انواع آن، کاربردها و نکات مهم در خرید انواع دفتر یادداشت میپردازیم.
تاریخچه مختصری از دفترچه یادداشت:
��ستفاده از دفترچه برای یادداشتبرداری به دورانهای بسیار دور برمیگردد. انسانها از ابتدا برای ثبت اطلاعات مهم از روشهای مختلفی مانند نوشتن روی سنگ، چوب، پوست حیوانات و پاپیروس استفاده میکردند. با گذشت زمان و اختراع کاغذ، دفترچههای یادداشت به شکل امروزی رواج پیدا کردند و به ابزاری ضروری برای افراد مختلف تبدیل شدند.
انواع دفترچه یادداشت:
دفترچههای یادداشت بر اساس عوامل مختلفی مانند اندازه، نوع کاغذ، نوع جلد و نوع صحافی دستهبندی میشوند:
بر اساس اندازه:
جیبی: کوچک و قابل حمل، مناسب برای یادداشتهای کوتاه و سریع.
A6: اندازه کوچک و مناسب برای یادداشتهای روزانه و یادآوریها.
A5: اندازه متوسط و پرکاربرد، مناسب برای یادداشتهای طولانیتر و جزوهنویسی.
A4: اندازه بزرگ، مناسب برای طراحی، نقاشی و پروژههای بزرگ.
بر اساس نوع کاغذ:
کاغذ تحریر: رایجترین نوع کاغذ، مناسب برای نوشتن با خودکار و مداد.
کاغذ کاهی: ارزانتر، مناسب برای یادداشتهای موقت و پیشنویس.
کاغذ گلاسه: صاف و براق، مناسب برای طراحی و چاپ تصاویر.
کاغذ بدون اسید: مقاوم در برابر زرد شدن و پوسیدگی، مناسب برای نگهداری طولانی مدت اسناد و یادداشتها.
بر اساس نوع جلد:
جلد نرم (مقوایی): سبک و ارزان، مناسب برای استفاده روزمره.
جلد سخت (گالینگور یا جلد سخت): مقاوم و بادوام، مناسب برای نگهداری طولانی مدت.
جلد پلاستیکی: مقاوم در برابر رطوبت و پارگی، مناسب برای استفاده در شرایط آب و هوایی نامساعد.
جلد چرمی: لوکس و شیک، مناسب برای استفادههای خاص و هدیه دادن.
بر اساس نوع صحافی:
سیمی: ورق زدن آسان و قابلیت جدا کردن برگهها را دارد.
چسبی: ارزانتر است اما قابلیت جدا کردن برگهها را ندارد.
ته دوخت: بادوامترین نوع صحافی است.
کاربردهای دفترچه یادداشت:
دفترچه یادداشت کاربردهای بسیار متنوعی دارد که برخی از آنها عبارتند از:
ثبت افکار و ایدهها: دفترچه یادداشت فضایی مناسب برای ثبت ایدههای ناگهانی و افکاری است که به ذهن میرسند.
برنامهریزی و سازماندهی: میتوان از دفترچه یادداشت برای برنامهریزی روزانه، هفتگی و ماهانه، تعیین اهداف و پیگیری پیشرفت آنها استفاده کرد.
یادداشتبرداری در جلسات و کلاسها: دفترچه یادداشت ابزاری مفید برای یادداشت نکات مهم در جلسات، کلاسها و سخنرانیهاست.
نوشتن خاطرات و تجربیات: میتوان از دفترچه یادداشت برای ثبت خاطرات روزانه، سفرها و تجربیات شخصی استفاده کرد.
طراحی و نقاشی: دفترچه یادداشت میتواند به عنوان یک دفتر طراحی و نقاشی مورد استفاده قرار گیرد.
لیستبرداری: میتوان از دفترچه یادداشت برای تهیه لیست خرید، لیست کارها و سایر لیستهای مورد نیاز استفاده کرد.
تقویت حافظه و تمرکز: نوشتن مطالب در دفترچه یادداشت به تقویت حافظه و افزایش تمرکز کمک میکند.
کاهش استرس و اضطراب: نوشتن افکار و احساسات در دفترچه یادداشت میتواند به کاهش استرس و اضطراب کمک کند.
مزایای استفاده از دفترچه یادداشت:
دسترسی آسان و سریع: دفترچه یادداشت همیشه در دسترس است و نیازی به روشن کردن یا شارژ کردن ندارد.
حفظ حریم خصوصی: یادداشتهای شخصی شما در دفترچه یادداشت محفوظ میمانند و کسی به آنها دسترسی نخواهد داشت.
تقویت خلاقیت: نوشتن و طراحی در دفترچه یادداشت میتواند به تقویت خلاقیت و ایدهپردازی کمک کند.
کاهش وابستگی به تکنولوژی: استفاده از دفترچه یادداشت میتواند به کاهش وابستگی به ابزارهای دیجیتال کمک کند.
نکات مهم در انتخاب دفترچه یادداشت:
نوع استفاده: قبل از خرید، مشخص کنید که قصد دارید از دفترچه یادداشت برای چه منظوری استفاده کنید.
اندازه و ابعاد: اندازه دفترچه را با توجه به نیاز خود انتخاب کنید.
نوع کاغذ: نوع کاغذ را با توجه به نوع نوشتن و نوع خودکاری که استفاده میکنید، انتخاب کنید.
نوع جلد و صحافی: به کیفیت و دوام جلد و صحافی توجه کنید.
طرح و ظاهر: طرح و ظاهر دفترچه را بر اساس سلیقه خود انتخاب کنید.
قیمت: با توجه به بودجه خود، دفترچه مناسب را انتخاب کنید.
نتیجهگیری:
دفترچه یادداشت ابزاری ساده و در عین حال بسیار کاربردی است که میتواند در جنبههای مختلف زندگی به ما کمک کند. با انتخاب یک دفترچه یادداشت مناسب و استفاده صحیح از آن، میتوانیم از مزایای بیشمار آن بهرهمند شویم. چه برای ثبت ایدههای ناگهانی، چه برای برنامهریزی روزانه، چه برای نوشتن خاطرات و چه برای هر منظور دیگری، دفترچه یادداشت میتواند همراهی وفادار و مفید باشد.
0 notes
Text
خیرپور يونين آف جرنلسٹس کی جانب سے سينيئر صحافی جان محمد مہر کے قتل کی مذمت
اردو ٹوڈے، خیرپور پی ايف يو جے رہنماء صوفی محمد اسحاق سومرو، خیرپور یونین آف جرنلسٹس کے صدر سید اکبر عباس زیدی، شجاعت صدیقی ، علی بخش بروہی، اطہر صدیقی، بشیر راجپوت، مقبول شیخ، آغا شیر عالم، اسد علی ناریجو، ثاقب صدیقی، مہتاب باقری، اشرف مغل، عباس باقری، ارتضیٰ زیدی،اویس سومرو، اظہر ابڑو، اسلام الدین شیخ، رمضان آرائیں، اسد علی راجپر، اسلام الدین عباسی، غلام جعفر راجپر سمیت دیگر صحافیوں نے کا کہنا…

View On WordPress
0 notes
Text
چشمہ پہن لیا تھا صحافی سے مانگ کر
تب سے ہی آسماں کو زمیں کہہ رہا ہوں میں
مبشر میوء
1 note
·
View note
Text
0 notes