#صحافی
Explore tagged Tumblr posts
Text
چیمپئنز ٹرافی، محسن نقوی گزشتہ روز چپکے سے کہاں گئے تھے؟ سینئر صحافی کا تہلکہ خیز دعویٰ
کراچی (ویب ڈیسک) چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے دبئی میں آئی سی سی حکام سے ملاقات کر کے چیمپئنز ٹرافی کے حوالے سے پاکستان کا دبنگ مؤقف دہراتے ہوئے واضح کیا کہ ہمیں کوئی ہائبرڈ ماڈل قبول نہیں، اگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن ہے کہ تو سامنے رکھا جائے۔ نجی ٹی وی جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سیئنر اسپورٹس جرنلسٹ عبدالماجد بھٹی نے انکشاف کیا کہ چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے گزشتہ…
0 notes
Text
عمران خان سے ملنے آنیوالے برطانوی صحافی کا ویزامنسوخ
عمران خان سے ملنے کیلئے آنیوالےامریکی نژاد برطانوی صحافی چارلز گلاس کا وزارت داخلہ نے ویزامنسوخ کرکے واپس بھیج دیاگیا۔ امریکی صحافی چارلز گلاس کو اسلام آباد میں ایک گھر سے اٹھا کر ایئرپورٹ واپس بھیج دیا،چارلز گلاس نے وزیر داخلہ محسن نقوی کو بھیجی گئی ای میل میں بانی(پی ٹی آئی) سے ملاقات کی اجازت مانگی تھی۔ ذرائع کے مطابق چارلز گلاس نے وزیر داخلہ کو بتایا تھا کہ انہیں عدالتی اجازت کے باوجود…
0 notes
Text
یوٹیوب پر ہتک عزت قانون لاگو ہوتا ہے، کوئی ریگولیٹری قانون موجود نہیں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ایف آئی کی جانب سے نوٹسز بھجوانے کے کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ میں شامل ہیں۔ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون روسٹرم پر آٸے۔ جہانگیر جدون نے کل کا حکمنامہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ حکومت سے پوچھا جائے کہ عامر میر کیس…
View On WordPress
0 notes
Text
صحافی جان محمد مہر کے قتل اور مرکزی ملزمان کی عدم گرفتاری کے خلاف بدین میں مظاہرہ
اردو ٹوڈے، بدین پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی ملگ گیر اپیل پر سکھر میں شہید کئے جانے والے شہید صحافی جان محمد مہر کے قتل اور مرکزی ملزمان کی عدم گرفتاری کے خلاف حیدرآباد یونین آف جرنلسٹ بدین یونٹ کے زیراہتمام بدین پریس کلب اور ایوان صحافت کی جانب سے بدین پریس کلب سے ایون صحافت تک ضلع بھر کے صحافیوں نے احتجاجی ریلی نکالی مظاہرہ کیا اور دھرنا دے کر احتجاج کیا . اس موقع پر احتجاجی شرکاء نے…
View On WordPress
0 notes
Text
سعادت حسن منٹو کے اقوال
سعادت حسن منٹو ایک ادیب، شاعر اور صحافی تھے، جنہوں نے اپنے ادبی کاموں کو سماجی اور سیاسی مسائل کے بارے میں بیداری پھیلانے کے لیے استعمال کیا۔ ان کی یوم پیدائش 11 مئ کی مناسبت سے ان کے کچھ اقوال ۔۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں میں اپنی آنکھیں بند کر بھی لو، مگر اپنے ضمیر کا کیا کروں؟
ہم عورت اُسی کو سمجھتے ہیں جو ہمارے گھر کی ہو۔ باقی ہمارے لئے کوئی عورت نہیں ہوتی، بس گوشت کی دکان ہوتی ہے اور ہم اس دکان کے باہر کھڑے کتوں کی طرح ہوتے ہیں، جن کی ہوس زدہ نظر ہمیشہ گوشت پر نکی رہتی ہے۔
مسجد میں دیوبندی ، شیعہ، سُنی ،وہابی سنیما میں ایک ذات۔
میرے جانے کے بعد میری لکھی ہوئی ہر بات کو سراہا جائے گا میرا نام لیا جائے گا مجھے یاد کیا جائے گا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
ہاتھ چھوڑ دینے والے کی اپنی اذیت ہے اور ہاتھ چھڑوا لینے والے کی اپنی کہانی ہے ، لیکن اس عمل میں محبت یتیم ہوجاتی ہے۔
میں ایسے عشق کا قائل نہیں جو مرد کی طرف سے شروع ہو۔
آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا صرف ایک دکان بچ گئی جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا، یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان موجود ہے۔
دنیا میں جتنی لعنیتیں ہیں، بھوک ان کی ماں ہے۔
ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔
بیٹی کا پہلا حق جو ہم کھا جاتے ہیں وہ اُس کے پیدا ہونے کی خوشی ہے۔
غلط کار انسان نہیں وہ حالات ہیں جن کے کھیتوں میں انسان غلطیاں پیدا کرتا ہے اور پھر ان کی فصلیں کاٹتا ہے۔
تم نے کبھی محبت کی ہو تو جانو محبت اُداسی کا دوسرا نام ہے۔
مرد بھی کیا عجیب شے ہے، بیوی میں طوائف جیسی ادائیں اور طوائف میں بیوی جیسی وفاداری تلاش کرتا ہے۔
بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اہنی ذات کے لئے وہ کام بھی کرتے ہیں، جو شیطان بھی کرنے سے گریز کرتا ہے۔
سچ بولنے والوں کو میٹھی باتیں کرنا نہیں آتیں۔
عشق ایک مرض ہے اور جب تک طول نہ پکڑے، مرض نہیں ہوتا محض ایک مذاق ہوتا ہے۔
میں اس کا ذمہ دار ہوں جو میں نے کہا ، لیکن اس کا ذمہ دار نہیں جو آپ نے سمجھا۔
مختصر الفاظ میں زندگی کے متعلق صرف یہ کہا جاسکتا ہے، کہ یہ ایک آہ ہے جو واہ میں لپیٹ کر پیش کی گئی ہے۔
میں نے محبت میں عورت سے بڑا بے وقوف نہیں دیکھا، اکثر ایسے لوگوں کو اپن�� سمجھ بیٹھی ہے جو خود اپنے بھی نہیں ہوتے ۔
لوگ اکثر اس چیز کو محبت کرتے ہیں جو حقیقت میں محبت کئے جانے کے قابل نہیں ہوتی۔
انسان کو مارنا کچھ نہیں ، لیکن اُس کی فطرت کو ہلاک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔
عشق جیومیٹری ہے نہ الجبرا۔ بس بکواس ہے۔ چونکہ اس بکواس ہے۔ اس لئے اس میں گرفتار ہونے والے کو بکواس ہی سے مدد لینی چاہئے۔
میرے شہر کے معززین کو میرے شہر کی طوائفوں سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا۔
کپڑوں کے بغیرآدمی حیوان معلوم ہوتا ہے۔
مذہبی محبوبہ، ان پڑھ بیوی اور دیہاتی دوست تینوں وفادار ہوتے ہیں۔
محبت تو جذبوں کی امانت ہے، فقط بستر کی سلوٹ زدہ چادر پر گزارے جانے والے چند بدبودار لمحے محبت نہیں کہلاتے ۔
چنگاری کو شعلوں میں تبدیل کردینا آسان ہے مگر چنگاری پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔
اگر آپ کی زندگی درد کے احساس کے بغیر گزری ہے تو شاید آپ ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔
یہ عیب مجھ میں شروع سے رہا ہے کہ مجھے جھوٹ بولنے کا سلیقہ نہیں۔
تم نے کبھی محبت کی ہو تو جانو محبت اُداسی کا دوسرا نام ہے ہر وقت آدمی کھویا کھویا سارہتا ہے اس لئے کہ اس کے دل ودماغ میں صرف خیال یار ہوتا ہے۔
مرد کے اعصاب پر عورت سوارنہ ہو تو کیا ہاتھی گھوڑے سوارہو؟
انسانوں سے حیوانوں کی دوستی اچھی میرے بھائی، انہیں کوئی ورغلا تو نہیں سکتا۔
جس طرح بعض بچے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں اور کمزور رہتے ہیں اس طرح وہ محبت بھی کمزور رہتی ہے جو وقت سے پہلے جنم لے۔
جسم داغا جاسکتا ہے لیکن روح نہیں داغی جاسکت۔
میرا کام تو آئینہ دکھانا ہے اگر آپ کا چہرہ گرد آلود اور بدنما ہے تو وہ ویسا ہی نظر آئیگا۔
4 notes
·
View notes
Text
’مغربی میڈیا غزہ میں اپنے صحافی ساتھیوں کو بھی کم تر سمجھ رہا ہے‘
عالمی میڈیا جیسے بی بی سی، سی این این، اسکائے نیوز اور یہاں تک کہ ترقی پسند اخبارات جیسے کہ برطانیہ کے گارجیئن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی ساکھ خراب ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ ماہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں تقریباً 400 فوجیوں سمیت 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے آنے والے غیر متناسب ردعمل کے حوالے سے ان صحافتی اداروں کی ادارتی پالیسی بہت ناقص پائی گئی۔ حماس کے عسکریت پسند اسرائیل سے 250 کے قریب افراد کو یرغمالی بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسرائیلی جیلوں میں قید 8 ہزار فلسطینیوں میں سے کچھ کی رہائی کے لیے ان یرغمالیوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید ان فلسطینیوں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، ان میں ایک ہزار سے زائد قیدیوں پر کبھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ انہیں صرف ’انتظامی احکامات‘ کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہیں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ غزہ شہر اور غزہ کی پٹی کے دیگر شمالی حصوں پر اسرائیل کی مشتعل اور اندھی کارپٹ بمباری میں 14 ہزار فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں سے 60 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے تھے جبکہ امریکی قیادت میں مغربی طاقتوں نے اسرائیل کی جانب سے کیے گئے قتل عام، یہاں تک کہ نسل کشی کی یہ کہہ کر حمایت کی ہے کہ وہ اپنے دفاع کے حق کا استعمال کررہا ہے۔
افسوسناک طور پر ان صحافتی اداروں میں سے بہت سی تنظیموں نے اپنی حکومتوں کے اس نظریے کی عکاسی کی جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازع کی ابتدا 7 اکتوبر 2023ء سے ہوئی نہ کہ 1948ء میں نکبہ سے کہ جب فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا۔ چونکہ ان کی اپنی حکومتیں قابض اسرائیل کے نقطہ نظر کی تائید کر رہی تھیں، اس لیے میڈیا اداروں نے بھی اسرائیلی پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو لے لیجیے، ان اعداد و شمار کو ہمیشہ ’حماس کے زیرِ کنٹرول‘ محکمہ صحت سے منسوب کیا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے شکوک پیدا ہوں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر ہیومن رائٹس واچ اور غزہ میں کام کرنے والی چھوٹی تنظیموں تک سب ہی نے کہا کہ حماس کے اعداد و شمار ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن اعداد و شمار میں تبدیلی تو اسرائیل کی جانب سے کی گئی جس نے حماس کے ہاتھوں مارے جانے والے اسرائیلیوں کی ابتدائی تعداد کو 1400 سے کم کر کے 1200 کر دیا۔ تاہم میڈیا کی جانب سے ابتدائی اور نظر ثانی شدہ اعداد وشمار کو کسی سے منسوب کیے بغیر چلائے گئے اور ��رف اس دن کا حوالہ دیا گیا جس دن یہ تبدیلی کی گئی۔
یہ تبدیلی اس لیے کی گئی کیونکہ اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ حماس نے جن کیبوتز پر حملہ کیا تھا ان میں سے کچھ جلی ہوئی لاشیں ملی تھیں جن کے بارے میں گمان تھا کہ یہ اسرائیلیوں کی تھیں لیکن بعد میں فرانزک ٹیسٹ اور تجزیوں سے یہ واضح ہوگیا کہ یہ لاشیں حماس کے جنگجوؤں کی ہیں۔ اس اعتراف کے باوجود عالمی میڈیا نے معتبر ویب سائٹس پر خبریں شائع کرنے کے لیے بہت کم کام کیا، حتیٰ کہ اسرائیلی ریڈیو پر ایک عینی شاہد کی گواہی کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ اسرائیلی ٹینکوں نے ان گھروں کو بھی نشانہ بنایا جہاں حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا تھا یوں دھماکوں اور اس کے نتیجے میں بھڑک اٹھنے والی آگ میں کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی اپاچی (گن شپ) ہیلی کاپٹر پائلٹس کے بیانات کے حوالے سے بھی یہی رویہ برتا گیا۔ ان بیانات میں ایک ریزرو لیفٹیننٹ کرنل نے کہا تھا کہ وہ ’ہنیبل ڈائیریکٹوز‘ کی پیروی کررہے تھے جس کے تحت انہوں نے ہر اس گاڑی پر گولی چلائی جس پر انہیں یرغمالیوں کو لے جانے کا شبہ تھا۔ اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ کو صرف ان ��یں سے کچھ مثالوں کو گوگل کرنا ہو گا لیکن یقین کیجیے کہ مغرب کے مین اسٹریم ذرائع ابلاغ میں اس کا ذکر بہت کم ہوا ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی فوجیوں، عام شہریوں، بزرگ خواتین اور بچوں پر حملہ نہیں کیا، انہیں مارا نہیں یا یرغمال نہیں بنایا، حماس نے ایسا کیا ہے۔
آپ غزہ میں صحافیوں اور ان کے خاندانوں کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوریج کو بھی دیکھیں۔ نیویارک ٹائمز کے صحافی ڈیکلن والش نے ایک ٹویٹ میں ہمارے غزہ کے ساتھیوں کو صحافت کے ’ٹائٹن‘ کہا ہے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو درپیش خطرے کو نظر انداز کیا اور غزہ میں جاری نسل کشی کی خبریں پہنچائیں۔ آپ نے الجزیرہ کے نامہ نگار کے خاندان کی ہلاکت کے بارے میں سنا یا پڑھا ہی ہو گا۔ لیکن میری طرح آپ کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے کم از کم 60 صحافیوں اور ان کے خاندانوں میں سے کچھ کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی علم ہو گا۔ یعنی کہ کچھ مغربی میڈیا ہاؤسز نے غزہ میں مارے جانے والے اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کو بھی کم تر درجے کے انسان کے طور پر دیکھا۔ بہادر صحافیوں کی بے لوث رپورٹنگ کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہری آبادی کو بے دریغ نشانہ بنانے اور خون میں لت پت بچوں کی تصاویر دنیا کے سامنے پہنچ رہی ہیں، نسل کشی کرنے والے انتہائی دائیں بازو کے نیتن یاہو کو حاصل مغربی ممالک کی اندھی حمایت بھی اب آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے۔
اسپین اور بیلجیئم کے وزرائےاعظم نے واضح طور پر کہا ہے کہ اب بہت ہو چکا۔ اسپین کے پیڈرو سانچیز نے ویلنسیا میں پیدا ہونے والی فلسطینی نژاد سیرت عابد ریگو کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ سیرت عابد ریگو نے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا کہ فلسطینیوں کو قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ پیڈرو سانچیز نے اسرائیل کے ردعمل کو ضرورت سے زیادہ قرار دیا ہے اور فلسطین کو تسلیم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ جن جماعتوں اور امیدواروں نے اسرائیل کو غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ دی ہے وہ اپنے ووٹرز کو گنوا رہے ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کی فتح کا فرق معمولی ہی تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے اگر وہ اپنے ’جنگ بندی کے حامی‘ ووٹرز کے خدشات کو دور نہیں کرتے اور اگلے سال اس وقت تک ان ووٹرز کی حمایت واپس حاصل نہیں لیتے تو وہ شدید پریشانی میں پڑ جائیں گے۔
اسرائیل اور اس کے مغربی حامی چاہے وہ حکومت کے اندر ہوں یا باہر، میڈیا پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں۔ ایسے میں ایک معروضی ادارتی پالیسی چلانے کے بہت ہی ثابت قدم ایڈیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس انتہائی مسابقتی دور میں میڈیا کی ساکھ بچانے کے لیے غیرجانبداری انتہائی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا اب روایتی میڈیا کی جگہ لے رہا ہے اور اگرچہ ہم میں سے ہر ایک نے اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود منفی مواد کے بارے میں شکایت کی ہے لیکن دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان پلیٹ فارمز کے شکر گزار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید غزہ میں جاری نسل کشی کی پوری ہولناکی ان کے بغیر ابھر کر سامنے نہیں آسکتی تھی۔ بڑے صحافتی اداروں کی جانب سے اپنے فرائض سے غفلت برتی گئی سوائے چند مواقع کے جہاں باضمیر صحافیوں نے پابندیوں کو توڑ کر حقائق کی رپورٹنگ کی۔ اس کے باوجود یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تھے جنہوں نے اس رجحان کو بدلنے میں مدد کی۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو ہم روایتی میڈیا کو بھی خود کو بچانے کے لیے اسی راہ پر چلتے ہوئے دیکھیں گے۔
عباس ناصر یہ مضمون 26 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes
·
View notes
Text
خرید انواع دفترچه یادداشت
دفترچه یادداشت، ابزاری ساده اما بسیار کاربردی است که از دیرباز برای ثبت افکار، ایدهها، خاطرات، برنامهها و هر آنچه که ارزش به خاطر سپردن دارد، مورد استفاده قرار میگرفته است. با وجود پیشرفت تکنولوژی و ظهور ابزارهای دیجیتال، دفترچه یادداشت همچنان جایگاه ویژهای در زندگی افراد دارد و به عنوان یک همراه همیشگی، در مواقع مختلف به کمک ما میآید. در این مقاله به بررسی جامع دفترچه یادداشت، انواع آن، کاربردها و نکات مهم در خرید انواع دفتر یادداشت میپردازیم.
تاریخچه مختصری از دفترچه یادداشت:
استفاده از دفترچه برای یادداشتبرداری به دورانهای بسیار دور برمیگردد. انسانها از ابتدا برای ثبت اطلاعات مهم از روشهای مختلفی مانند نوشتن روی سنگ، چوب، پوست ��یوانات و پاپیروس استفاده میکردند. با گذشت زمان و اختراع کاغذ، دفترچههای یادداشت به شکل امروزی رواج پیدا کردند و به ابزاری ضروری برای افراد مختلف تبدیل شدند.
انواع دفترچه یادداشت:
دفترچههای یادداشت بر اساس عوامل مختلفی مانند اندازه، نوع کاغذ، نوع جلد و نوع صحافی دستهبندی میشوند:
بر اساس اندازه:
جیبی: کوچک و قابل حمل، مناسب برای یادداشتهای کوتاه و سریع.
A6: اندازه کوچک و مناسب برای یادداشتهای روزانه و یادآوریها.
A5: اندازه متوسط و پرکاربرد، مناسب برای یادداشتهای طولانیتر و جزوهنویسی.
A4: اندازه بزرگ، مناسب برای طراحی، نقاشی و پروژههای بزرگ.
بر اساس نوع کاغذ:
کاغذ تحریر: رایجترین نوع کاغذ، مناسب برای نوشتن با خودکار و مداد.
کاغذ کاهی: ارزانتر، مناسب برای یادداشتهای موقت و پیشنویس.
کاغذ گلاسه: صاف و براق، مناسب برای طراحی و چاپ تصاویر.
کاغذ بدون اسید: مقاوم در برابر زرد شدن و پوسیدگی، مناسب برای نگهداری طولانی مدت اسناد و یادداشتها.
بر اساس نوع جلد:
جلد نرم (مقوایی): سبک و ارزان، مناسب برای استفاده روزمره.
جلد سخت (گالینگور یا جلد سخت): مقاوم و بادوام، مناسب برای نگهداری طولانی مدت.
جلد پلاستیکی: مقاوم در برابر رطوبت و پارگی، مناسب برای استفاده در شرایط آب و هوایی نامساعد.
جلد چرمی: لوکس و شیک، مناسب برای استفادههای خاص و هدیه دادن.
بر اساس نوع صحافی:
سیمی: ورق زدن آسان و قابلیت جدا کردن برگهها را دارد.
چسبی: ارزانتر است اما قابلیت جدا کردن برگهها را ندارد.
ته دوخت: بادوامترین نوع صحافی است.
کاربردهای دفترچه یادداشت:
دفترچه یادداشت کاربردهای بسیار متنوعی دارد که برخی از آنها عبارتند از:
ثبت افکار و ایدهها: دفترچه یادداشت فضایی مناسب برای ثبت ایدههای ناگهانی و افکاری است که به ذهن میرسند.
برنامهریزی و سازماندهی: میتوان از دفترچه یادداشت برای برنامهریزی روزانه، هفتگی و ماهانه، تعیین اهداف و پیگیری پیشرفت آنها استفاده کرد.
یادداشتبرداری در جلسات و کلاسها: دفترچه یادداشت ابزاری مفید برای یادداشت نکات مهم در جلسات، کلاسها و سخنرانیهاست.
نوشتن خاطرات و تجربیات: میتوان از دفترچه یادداشت برای ثبت خاطرات روزانه، سفرها و تجربیات شخصی استفاده کرد.
طراحی و نقاشی: دفترچه یادداشت میتواند به عنوان یک دفتر طراحی و نقاشی مورد استفاده قرار گیرد.
لیستبرداری: میتوان از دفترچه یادداشت برای تهیه لیست خرید، لیست کارها و سایر لیستهای مورد نیاز استفاده کرد.
تقویت حافظه و تمرکز: نوشتن مطالب در دفترچه یادداشت به تقویت حافظه و افزایش تمرکز کمک میکند.
کاهش استرس و اضطراب: نوشتن افکار و احساسات در دفترچه یادداشت میتواند به کاهش استرس و اضطراب کمک کند.
مزایای استفاده از دفترچه یادداشت:
دسترسی آسان و سریع: دفترچه یادداشت همیشه در دسترس است و نیازی به روشن کردن یا شارژ کردن ندارد.
حفظ حریم خصوصی: یادداشتهای شخصی شما در دفترچه یادداشت محفوظ میمانند و کسی به آنها دسترسی نخواهد داشت.
تقویت خلاقیت: نوشتن و طراحی در دفترچه یادداشت میتواند به تقویت خلاقیت و ایدهپردازی کمک کند.
کاهش وابستگی به تکنولوژی: استفاده از دفترچه یادداشت میتواند به کاهش وابستگی به ابزارهای دیجیتال کمک کند.
نکات مهم در انتخاب دفترچه یادداشت:
نوع استفاده: قبل از خرید، مشخص کنید که قصد دارید از دفترچه یادداشت برای چه منظوری استفاده کنید.
اندازه و ابعاد: اندازه دفترچه را با توجه به نیاز خود انتخاب کنید.
نوع کاغذ: نوع کاغذ را با توجه به نوع نوشتن و نوع خودکاری که استفاده میکنید، انتخاب کنید.
نوع جلد و صحافی: به کیفیت و دوام جلد و صحافی توجه کنید.
طرح و ظاهر: طرح و ظاهر دفترچه را بر اساس سلیقه خود انتخاب کنید.
قیمت: با توجه به بودجه خود، دفترچه مناسب را انتخاب کنید.
نتیجهگیری:
دفترچه یادداشت ابزاری ساده و در عین حال بسیار کاربردی است که میتواند در جنبههای مختلف زندگی به ما کمک کند. با انتخاب یک دفترچه یادداشت مناسب و استفاده صحیح از آن، میتوانیم از مزایای بیشمار آن بهرهمند شویم. چه برای ثبت ایدههای ناگهانی، چه برای برنامهریزی روزانه، چه برای نوشتن خاطرات و چه برای هر منظور دیگری، دفترچه یادداشت میتواند همراهی وفادار و مفید باشد.
0 notes
Text
0 notes
Text
۔ مقبوضہ بلوچستان کے ضلع نصیر آباد میں صحافی غفار نہال رڈ اور اسکے بھائی کو انصاف نہ ملنے اور قابض پنجابی دہشتگرد ریاست کے حمایت یافتہ علاقائی وڈیرہ اور انتظامیہ کے خلاف خواتین اور بچے کوہٹہ کی جانب پیدل ننگے پاوں مارچ کررہے ہیں۔
یہ قابض پنجابی ریاست اور اسکے پالے ہوئے لوگ ہر بلوچ پر ظلم کررہے ہیں اس کالونیل پنجابی دہشتگرد ریاست نے بلوچ کی زندگی عزاب کردی ہے
#ReleaseAllBalochMissingPersons
#StopBalochGenocide
#OccupiedBalochistan
#BalochistanIsNotPakistan
#pakistanaterroristcountry
0 notes
Text
, وہاب علی کی ہلاکت کن حالات میں ہوئیمیں مسافر ہوں اور راستہ کُھلنے کا انتظار کر رہا ہوں
قطر سے لوٹنے والے وہاب علی کی ہلاکت پر کرم میں احتجاج جاری: ’میں مسافر ہوں اور راستہ کُھلنے کا انتظار کر رہا ہوں‘ مضمون کی تفصیل مصنف, محمد زبیر خان عہدہ, صحافی 42 منٹ قبل ’میرے بھائی معصوم اور بے ضرر انسان تھے۔ اُن کا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ وہ ہر ایک کی مدد کرتے تھے۔ قطر میں جس کمپنی میں وہ کام کرتے تھے وہاں ضلع کرم کے بہت سے لوگ کام کرتے تھے۔ میرے بھائی تو بس اپنے علاقے میں جا کر رشتہ…
View On WordPress
0 notes
Text
پریس ریلیز
31 اکتوبر 2024ء
*عظمیٰ بخاری نے ڈیمارکیشن لیٹر صحافی کالونی ایف بلاک کے متاثرہ الاٹیوں کے حوالے کر دیئے*
*صحافیوں کے فلاح کے لئےکام کر کے بہت خوشی ہوتی ہے: عظمٰی بخاری*
*میرے لئے رپورٹرز اور کیمرہ مینز برابر ہیں، میں نے کمرہ میںنز کے لئے پلاٹس کی بڑی بہت جنگ لڑی: عظمٰی بخاری*
صحافیوں کے لئے مخصوص گرانٹ کو کئی گنا بڑھا دیا گیا، گرانٹ کے لئے پہلے سے موجود تمام درخواستوں کو منظور کر کے بھیج دیا ہے: عظمٰی بخاری
اللہ کرے پنجاب کا خزانہ اتنا مضبوط ہو کہ میں صحافیوں کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کر سکوں: عظمٰی بخاری
عظمی بخاری ہمارے لئے وزیر نہیں، بہن کی طرح ہیں،ان کا رویہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں ہمیشہ ایک جیسا ہی رہا ہے: ارشد انصاری
لاہور () وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری نے کہا ہے کہ صحافی کالونی کے ایف بلاک کے متاثرہ الاٹیوں کے ڈیمارکیشن لیٹر ان کے حوالے کر دیئے ہیں،مجھےصحافیوں کے فلاح کے لئے کام کر کے بہت خوشی ہوتی ہے۔میرے لئے تمام رپورٹرز اور کیمرہ مینز برابر ہیں، میں نے کمرہ میںنز کے لئے پلاٹس کی بڑی جنگ لڑی یے۔ صحافیوں کے لئے مخصوص گرانٹ کو کئی گنا بڑھا دیا گیا ہے، گرانٹ کے لئے پہلے سے موجود تمام درخواستوں کو منظور کر کے بھیج دیا ہے۔ اللہ کرے پنجاب کا خزانہ اتنا مضبوط ہو کہ میں صحافیوں کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کر سکوں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور پریس کلب میں "میٹ دی پریس" میں بطور مہمان خصوصی کیا۔ انہوں نے کہا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ میری لیڈر مریم نواز ہیں۔ میری وزیراعلٰی صحافیوں کی فلاح کے لئے ہر بات پر فورا مان جاتی ہیں۔ وزیراعلی پنجاب خود آ کر صحافیوں کیلئے پریس کلب میں 5 کروڑ کا چیک دینا چاہتی تھیں مگر وہ جلد صحوفیوں کو پلاٹس تقسیم کرنے آئیں گی۔ جلد ہی اس نئی سکیم کے لئے درخواستیں مانگ لی جائیں گی، جن میں ڈی جی پی آر، ریڈیو پاکستان ، پی ٹی وی اور اے پی پی کے ملازمین کا کوٹا بھی ہوگا۔ مریم نواز بطور وزیراعلٰی بہت زیادہ کام کر رہی ہیں۔ ایک سال سے کم عرصے میں 80 مختلف منصوبوں پر کام شروع ہو چکا ہے۔ جو کام حکومتیں پانچ پانچ سالوں میں نہیں کر پاتیں وہ ہم چند مہینوں میں کر رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ لاہور پریس کلب کے باہر ہم سخت موسم میں احتجاج کیا کرتے تھے تو میں سوچتی تھی کہ مجھے جب بھی موقع ملا میں صحافیوں کے لئے کچھ کروں گی۔ مجھے آج موقع ملا ہے کہ میں لوگوں کے لئے کچھ کر سکوں۔ میں آج ایف بلاک کی ڈیمارکیشن کا لیٹر ساتھ لے کر آئی ہوں۔ کئی وزیر یہ کام بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود نہیں کر سکے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ آج ملک میں مخالفین کا طرہ امتیاز ہے کہ وہ ہر معاملے پر سیاست کر رہے ہیں۔حکومتوں کو فساد نہیں بلکہ کام کرنے چاہئیں۔ میری وزیراعلٰی کام اور خدمت پر یقین رکھتی ہیں۔حکومت پنجاب کسانوں کے لئے بہت سے اقدامات کر چکی ہے۔کسانوں کو تمام زرعی آلات پر سبسڈی اور غریب کسانوں کو کرائے پر زرعی آلات دیئے جائیں گے۔ ایک وقت تھا جب لاہور پریس کلب کے باہر مفت ادویات بند ہونے پر مریض اور لواحقین احتجاج کیا کرتے تھے، مگر اب سب کو ان کی دہلیز پر مفت ادویات مل رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ارشد انصاری نے وزیراعلی کی طرف سے دی گئی پانچ کروڑ روپے گرانٹ میں سے سولر سسٹم لگا کر گرانٹ کا صحیح استعمال کیا ہے۔ میری تجویز ہے کہ اس کلب کو فیملی کلب بنایا جائے جس کے لئے کلچر ڈیپارٹمنٹ سے کوئی مدد درکار ہے تو میں حاضر ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلٰی نے خواتین کے لئے سکوٹیز کی سکیم کا اعلان کر رکھا ہے، صحافی خواتین کے لئے وزیراعلٰی سے سکوٹیز کا اعلان جلد کرواؤں گی۔ فیز ٹو کے لئے جب درخواستیں آئیں گی تو ان کی میرٹ پر سکروٹنی کرینگے۔ پریس کلب کے جن اراکین کی فہرست ہمارے پاس آ چکی ہے ان کو دوبارہ درخواستیں دینے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ میری خواہش ہے کہ جب ہماری حکومت پانچ سال پورے کر کے جائے تو ہر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر پر صحافیوں کی اپنی کالونی ہونی ہو۔ انہوں نے کہا کہ میں ویج بورڈ ایوارڈ پر عملدرآمد کے حق میں ہوں اور میں اس پر ہمیشہ بات بھی کرتی ہوں۔میں مالکان سے درخواست کروں گی کہ میڈیا ورکرز کی کم از کم تنخواہ لازمی دی جائے اور تنخواہیں تاخیر کر کے میڈیا ورکرز کیساتھ زیادتی نہ کریں۔ اس موقع پر لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری کا کہنا تھا کہ عظمٰی بخاری ہمارے لئے وزیر نہیں ہیں بلکہ بہن کی طرح ہیں،یہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں ان کا رویہ ہمیشہ ایک جیسا ہی رہا ہے۔ کلب اور صحافیوں کے کسی بھی مسئلے اور حقوق کے لئے ان کی کاوشوں کی مثال نہیں ملتی۔ یہ بہترین صحافی دوست وزیر ہیں۔ ہم وزیراعلٰی مریم نواز کے بھی انتہائی مشکور ہیں جنہوں نے لاہور پریس کلب کو 5 کروڑ روپے کی گرانٹ دی۔ انہوں نے کہا کہ ایک سازش کے تحت عظمٰی بخاری پر صحافیوں کو دھمکی دینے کا غلط الزام لگایا گیا۔
عظمٰی بخاری نے بطور وزیر جو کام کیا ہے وہ قابل تعریف ہیں۔اس موقع پر سیکریٹری اطلاعات سید طاہر رضا ہمدانی بھی موجود تھے۔
0 notes
Text
بھارتی صحافی نے بھارتی کرکٹ ٹیم کے پاکستان نہ آنے سے متعلق بڑے انکشافات کر دیئے
ممبئی (ڈیلی پاکستان آن لائن )سپورٹس کے معروف بھارتی صحافی وکرانت گپتانے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کیلئے بھارتی ٹیم کے پاکستان نہ آنے کے حوالے سے بڑے انکشافات کر دیئے ہیں ۔ نجی ٹی وی جیونیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وکرانت گپتا نے کہا کہ میڈیا کے ذریعے ہی لڑائی لڑی جارہی تھی، اگر سمجھ رہے ہیں کہ آج منع کیا گیا ہے تو وہ غلط ہے، کسی بھی اسٹیج پر ایسا نہیں لگتا تھا کہ انڈیا جائے گاکیوں کہ یہ…
0 notes
Text
صحافی ارشد شریف کے قتل کے منصوبہ سازوں کی تلاش دوبارہ شروع
وفاقی حکومت نے صحافی ارشد شریف کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے اور حقائق عوام کے سامنے لانے کیلئے کمر کس لی ہے۔ایک طرف کیپنا کی عدالت نے ارشد شریف کے قتل کیس میں اپنے ادارے کو مورد الزام ٹھہرا کر پاکستانی صحافی کو انصاف پہنچانے کی کوشش کی ہے وہیں دوسری جانب صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لئے بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ��یم نے تعطل کی شکار تحقیقات دوبارہ شروع کردی ہیں اور پاکستان میں درج کئے گئے…
0 notes
Text
معروف شاعر جون ایلیا کا یومِ پیدائش
:جون ایلیا جون ایلیا 14 دسمبر 1931ء کو امروہہ، اتر پردیش کے ایک نامور خاندان میں پیدا ہوئے۔وہ برصغیر میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستانی شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم تھے۔ وہ اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے سراہے جات�� تھے۔ وہ معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی تھے۔ جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلیٰ مہارت حاصل تھی۔ جون ایک ادبی رسالے انشاء…
0 notes
Text
خیرپور يونين آف جرنلسٹس کی جانب سے سينيئر صحافی جان محمد مہر کے قتل کی مذمت
اردو ٹوڈے، خیرپور پی ايف يو جے رہنماء صوفی محمد اسحاق سو��رو، خیرپور یونین آف جرنلسٹس کے صدر سید اکبر عباس زیدی، شجاعت صدیقی ، علی بخش بروہی، اطہر صدیقی، بشیر راجپوت، مقبول شیخ، آغا شیر عالم، اسد علی ناریجو، ثاقب صدیقی، مہتاب باقری، اشرف مغل، عباس باقری، ارتضیٰ زیدی،اویس سومرو، اظہر ابڑو، اسلام الدین شیخ، رمضان آرائیں، اسد علی راجپر، اسلام الدین عباسی، غلام جعفر راجپر سمیت دیگر صحافیوں نے کا کہنا…
View On WordPress
0 notes
Text
کاتالوگ ها به چه روش هایی صحافی می شوند؟
کاتالوگها به روشهای مختلفی صحافی میشوند که هر کدام ویژگیها و مزایای خاص خود را دارند. در زیر به برخی از این روشها اشاره میشود:
صحافی چسبی (Perfect Binding): در این روش، صفحات با استفاده از چسب به یکدیگر متصل میشوند. این نوع صحافی کاتالوگ معمولاً برای کاتالوگهای با جلد نرم مناسب است و ظاهری حرفهای و زیبا به کاتالوگ میبخشد.
صحافی فنری (Wire-O Binding): در این روش، صفحات با استفاده از حلقههای فلزی یا پلاستیکی به هم متصل میشوند. این نوع صحافی کاتالوگ امکان باز شدن کامل صفحات را فراهم میکند و برای کاتالوگهایی که نیاز به ورق زدن مکرر دارند، مناسب است.
صحافی سوزنی (Saddle Stitching): در این روش، صفحات به صورت دولا تا شده و با سوزن و نخ به هم دوخته میشوند. این روش برای کاتالوگهای کمحجم و سبک بسیار مناسب است.
صحافی جلد سخت (Case Binding): این نوع صحافی کاتالوگ برای کاتالوگهای با کیفیت بالا و ماندگاری طولانی استفاده میشود. صفحات در داخل یک جلد سخت قرار میگیرند و این روش به کاتالوگ ظاهری لوکس و مقاوم میدهد.
صحافی لبهچسبی (Side Stitching): در این روش، صفحات از کنار با استفاده از سوزن و نخ به هم متصل میشوند. این نوع صحافی کاتالوگ معمولاً برای کاتالوگهای با صفحات ضخیم و سنگین استفاده میشود.
هر یک از این روشها بسته به نوع کاتالوگ، نیازهای مشتری و بودجه میتواند انتخاب شود. انتخاب صحیح روش صحافی کاتالوگ میتواند تأثیر زیادی بر روی جذابیت و کارایی کاتالوگ داشته باشد.
0 notes