#طنز ومزاح
Explore tagged Tumblr posts
gamekai · 2 years ago
Text
فرقت کاکوروی :داغ مفارقت کوکہاں تک نہ روئیے
رانا ثریا ؔ ظرافت نگاری ایک مشکل فن ہے ذرا سی لغزش سے ظرافت ابتذال تک پہنچ جاتی ہے ۔ فرقت کاکوروی ظرافت اور متانت میں توازن رکھنے کا خاصی سلیقہ تھا ۔ وہ نہ صرف شوخ طبع تھے بلکہ نکتہ فہم اور نکتہ سخن بھی تھے ان کی شہرت ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں تھی ۔ غرضِ فرقت صاحب بلاشبہ طنز ومزاح کے دریا کے عظیم شناور تھے ۔ وہ تحریر میںسادگی اور لوچ سے کام لیتے تھے۔ایک بیٹی کے لیے اپنے والد کے بارے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
nadiaumberlodhi · 2 years ago
Text
صفر کی توہین سلسلہ کلامیہ اور الحاد پرستی کے تناظر میں – ا شترا ک
صفر کی توہین سلسلہ کلامیہ اور الحاد پرستی کے تناظر میں – ا شترا ک
صفر کی توہین سلسلہ کلامیہ اور الحاد پرستی کے تناظر میں – ا شترا ک — Read on ishtiraak.com/index.php/2022/09/22/sifar-ki-tauheen/
View On WordPress
0 notes
urduclassic · 4 years ago
Text
مزاح نگاری کی پہچان، پروفیسر عنایت علی خان
پچاسی سالہ زندگی میں نصف صدی درس وتدریس میں گزاری۔ ان میں 25 سال مسلم کالج حیدر آباد میں تھے جو جئے سندھ والوں کا گڑھ تھا اور خاں صاحب کی ''جماعتی ‘‘ شناخت بھی ظاہر وباہر تھی‘ لیکن انہوں نے اپنی ''پیشہ ورانہ‘‘ اہلیت اور اپنے حسنِ عمل سے سخت ترین نظریاتی مخالفین میں بھی عزت واحترام پایا۔ کیڈٹ کالج پٹارومیں ان کے شاگرد مختلف سرکاری و غیرسرکاری اور سیاسی وغیر سیاسی شعبوں میں نمایاں مقام تک پہنچے۔ خان صاحب کے بقول ان ''نالائقوں‘‘ میں آصف زرداری بھی تھے۔ سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ابوظہبی میں ایک بڑے تعلیمی ادارے کے ایڈوائزر بھی رہے۔ عنایت علی خاں مزاح گو کی حیثیت سے زیادہ معروف و مقبول ہوئے۔ حالانکہ ان کا سنجیدہ کلام بھی فنی محاسن اور اثر آفرینی کے لحاظ سے کم نہیں۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
دور دیس جا بسنے والے بیٹے کے نام ''ایروگرام ‘‘ کسی بھی حساس دل کو تڑپا دینے وال�� طویل نظم ہے‘ جس کی آخری سطور : ہاں سنو بیٹے/تمہاری ماں نے کل/ آنکھوں میں آنسو روک کر/ اور کانپتے ہونٹوں سے مجھ سے یہ کہا تھا/سنوجی!/ اب جو میرے لعل کو لکھو/ تو یہ لکھنا/ کہ بیٹا/  تیرا بیٹا بھی خدا رکھے سیانا ہو/ تو توُ اس کو/ کہیں پردیس کو جانے نہ دینا/ اس کی ماں کے پاس ہی رکھنا۔ عنایت علی خاں اپنی شاعری کے زور پر ہندوستان ‘ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب اور ناروے سمیت کہاں کہاں ہوآئے۔ 2006 میں سرزمینِ حرمین میں ان کی پانچویں آمد تھی۔ جدہ میں مقیم ہندوستانی مسل��انوں کے ''خاکِ طیبہ ٹرسٹ ‘‘ کے زیراہتمام یہ ''پاک ‘ہند مشاعرہ ‘‘تھا ۔ اردو شعر و ادب کے فروغ کے لیے پاکستانیوں کا ''اردو مرکز‘‘ اور خاکِ طیبہ ٹرسٹ باہم حریف نہیں ‘ حلیف ہیں۔ عنایت علی خاں اردو مرکز کی دعوت پر چار بار جدہ آئے۔
ہُوا ہے جدّے میں جو اک مزاحیہ مشاعرہ ہم آ گئے خدا کے گھر مذاق ہی مذاق میں
اور اس موقع پر ہم نے بھی ''مذاق ہی مذاق ‘‘ میں ان سے ایک انٹرویو کر لیا۔ راجپوتانے میں ٹونک کے نام سے پٹھانوں کی ایک ریاست تھی۔ نومبر 1948 میں وہاں سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تو حیدر آباد کو ٹھکانہ بنایا۔ تب عنایت علی گیارہ ‘بارہ سال کے تھے۔ تعلیم بھی یہیں ہوئی ‘ پھر تدریس کا بیشتر عرصہ بھی یہیں گزرا۔ انجمن ترقی اردو کی طرف سے اشتہار آیا کہ ایم اے اردو میں ٹاپ کرنے والے کو طلائی تمغہ اور پانچ سو روپے انعام دیا جائے گا۔عنایت علی اس انعام کے مستحق ٹھہرے۔ تب پانچ سو بڑی چیز تھی۔ البتہ سونے کے تمغے کا معاملہ دلچسپ رہا۔ بیٹی کی شادی کا موقع آیا تو وہ یہ تمغہ لیے اپنے ایک دوست سنار کی دکان پر گئے۔ تب معلوم ہوا کہ گولڈ میڈل گولڈ کا تھوڑی ہوتا ہے‘ وہ تو اس پر صرف پانی ہوتا ہے۔ عنایت علی نے پوچھا: اب تک اس پر جو زکوٰۃ دیتا رہا ہوں ؟ اس نے کہا‘ اس کا ثواب الگ ہے۔
طبیعت موزوں ہو تو اس کا اظہار لڑکپن ہی میں ہونے لگتا ہے۔ فقروں اور مصرعوں کا معنی ومفہوم کچھ نہ ہو‘ لیکن ''تُک بندی‘‘ شروع ہو جاتی ہے‘عنایت علی بھی سکول کے زمانے سے ہی ''تُک بندی‘‘ کرنے لگے۔ حید رآباد کے مارکیٹ ایریا میں ایک صاحب جارہے تھے‘ پیچھے پیچھے بیگم صاحبہ تھیں‘ برقع اوڑھے ہوئے۔ میاں نے مڑ کر دیکھا‘ تو بیگم صاحبہ نے نقاب ڈال لی۔ کچھ دور جا کر دوبارہ ایسے ہی ہوا۔ تیسری بار ہوا تو میاں نے کہا‘ مجھ سے پردہ ہے تو مجھ سے کیا پردہ؟ برقع اتارا اور آگ لگا دی۔ اس پرعنایت علی نے کہا ؎ جلا ڈالا سرِ بازار برقع / ہے میری جان کا آزار برقع / لئے پھرتی کہاں ہر دم یہ خیمہ / یوں ہی تو کر دیا فی النّار برقع / ہیں جن بہنوں کے شوہر مُلا ٹائپ/ وہ پہنے پھرتی ہیں لاچار برقع۔
تب مجید لاہوری ایک اخبار میں ''حرف وحکایت‘‘ لکھتے تھے‘ عنایت علی نے یہ اشعار انہیں بھیج دیئے اور دلچسپ بات یہ کہ شائع بھی ہو گئے۔ اس وقت ادب پر ترقی پسندوں کا غلبہ تھا ‘ تو عنایت علی نے بھی ان ہی لوگوں کو پڑھا۔ تقسیم کے باعث گھریلو حالات بھی ایسے ہی تھے۔ تنگ دستی کا ماحول تھا؛ چنانچہ ابتدا میں وہی ترقی پسندانہ رنگ رہا‘ طبقاتی تقسیم کے حوالے سے کچھ نظمیں بھی لکھیں۔پھر اسلامی جمعیت طلبہ سے ہوتے ہوئے جماعت اسلامی میں پہنچے اور یہیں کے ہو لئے۔ ''مزاح کی تعریف اور اس کی حدود قیود ؟‘‘ ...عنایت علی خاں کے بقول ''ابتدا میں سنجیدہ شعرا نے عموماً اس کومنہ نہیں لگایا۔ اس صنف کا اعتبار غالب سے شروع ہوا کہ ان کے ہاں جو طنز و مزاح ہے‘ بڑی لطافت کے ساتھ ہے‘ پھر اکبر الٰہ آبادی نے اسے جس طرح استعمال کیا ‘ اس سے اس کا اعتبار بڑھا۔ 
اس میں گہرائی پیدا ہوئی اور یہ شرفا کے ہاں بھی سنایا جانے لگا۔ مزاح معاشرے کی بے اعتدالیوں کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ لوگ ہنس بھی دیں اور انہیں ان بے اعتدالیوں کا احساس بھی ہو۔عنایت علی خاں کے خیال میں اصلاح ِمعاشرہ کیلئے طنز ومزاح کا انداز شاید زیادہ موثر ہے۔ بسا اوقات آدمی کی طبیعت میں نصیحت کو براہِ راست قبول کرنے میں تکلف ہوتا ہے‘ کبھی برتری اور کم تری کا احساس بھی آجاتا ہے ۔ مزاح میں افادیت یہ ہے کہ سامع شوق میں سن لیتا ہے۔ پہلے ہنستا ہے‘ بعد میں سوچتا ہے‘‘۔ ''پاک وہند کی مزاحیہ شاعری کا تقابل‘‘؟ عنایت علی خاں کا کہنا تھا: ''ہندوستان میں مزاح کے زوال کی دو وجوہات ہیں۔ عربی اور فارسی الفاظ کی جامعیت شعر میں وزن پیدا کرتی ہے ( اب بدقسمتی سے خود اپنے ہاں پاکستان میں بھی فارسی اورعربی نہیں رہی)۔ 
ہندوستان میں شاعری ایک تو اظہار کے اس قرینے سے محروم ہوئی مزید یہ کہ اُدھر مزاح پیدا کرنے کے لیے چھچھو رے پن پر اتر آتے ہیں۔ مزاح گو فکری اعتبار سے پختہ نہ ہو تو پھکڑپن کے موضوعات ہی رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں مزاح کا معیار ہندوستان سے کہیں اعلیٰ ہے‘ ہمارے ہاں ضمیر جعفری ہیں۔ انور مسعود کو دیکھئے‘وہ ان عظیم مزاح گو شعرا میں بہت نمایاں ہیں جنہوں نے طنز ومزاح کا اعتبار اور معیار پیدا کیا‘‘۔ اس سوال پر کہ آپ کے خیال میں‘ ماضی قریب اور عصر ِحاضر میں اردو کے بڑے مزاح گو شعرا کو ن ہیں؟ عنایت علی خاں کا جواب تھا: سید محمد جعفری ‘ ظریف جبل پوری ‘ ظریف دہلوی ‘ راجہ مہدی علی خاں ‘ ضمیر جعفری‘ دلاور فگار‘ عبیر ابو ذری ‘ انور مسعود‘ مجذوب چشتی‘ ضیاء الحق قاسمی‘ انعام الحق جاوید‘ انور مسعود‘ خالد مسعود‘ اطہر شاہ جیدی‘ زاہد فخری۔ ابھرتے ہوئے لوگوں میں سعید آغا ‘م ش عالم‘ عاصی اختر ‘ معین اختر اور کچھ اور نوجوان بھی ہیں۔
''جماعت اسلامی اور اس کے لٹریچر کے آپ کی شاعری پر اثرات؟‘‘ عنایت علی خاں نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر جواب دیا : عربی کا ایک مقولہ ہے کہ برتن سے وہی کچھ ٹپکتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے۔ آپ غور کریں تو میری شاعری میں جماعت کی فکر ہی ملے گی۔ کراچی میں پٹھانوں اور مہاجروں کو لڑایا گیا تو ایک مشاعرے میں ‘ عنایت علی خاں نے قطعہ پڑھا ؎
خود ہی خنجر بدست ہوں ہر دم اور خود ہی لہولہان بھی ہوں
میری مشکل عجیب مشکل ہے میں مہاجر بھی ہوں‘ پٹھان بھی ہوں
رؤف طاہر
بشکریہ دنیا نیوز
1 note · View note
maqsoodyamani · 4 years ago
Text
علماء، دانشوران میں نقوش طنز ومزاح کتاب تقسیم کی گئی
علماء، دانشوران میں نقوش طنز ومزاح کتاب تقسیم کی گئی
علماء، دانشوران میں نقوش طنز ومزاح کتاب تقسیم کی گئی   حیدرآباد،29جون (پریس ریلیز)   واضح ہو کہ مشہور قلم کار اور ماہنامہ جام میر بلگرام شریف کے چیف ایڈیٹر، حضرت مولانا محمدقمرانجم قادری فیضی صاحب کی ترتیب کردہ کتاب”نقوش طنزومزاح” خانقاہ عالیہ واحدیہ طیبیہ بلگرام شریف میں علماء کرام، دانشوروں کو بطور تحفہ ہدیہ کیا گیا، معلوم ہونا چاہیئے کہ “نقوش طنزو مزاح” کتاب مشہور ومعروف مزاحیہ کالم نگار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 4 years ago
Text
سنیل شیٹھی اور اکشےکمار نے 21 سال بعد فلم ’ہیرا پھیری‘ کی یادیں تازہ کردی - اردو نیوز پیڈیا
سنیل شیٹھی اور اکشےکمار نے 21 سال بعد فلم ’ہیرا پھیری‘ کی یادیں تازہ کردی – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  ممبئی: بالی ووڈ اداکاروں نے 21 سال بعد مشہور زمانہ کامیڈی فلم  ’ہیرا پھیری‘ کی یادیں تازہ کردی۔ آج سے 21 سال قبل طنز ومزاح سے بھرپور فلم ’ ہیرا پھیری‘ نے کامیڈی فلموں کے لئے راہ ہموار کردی تھی۔ سنیل شیٹھی، اکشے کمار اور پریش راول کی کامیڈی نے دیکھنے والوں پر سحر طاری کردیا تھا جسے لوگ آج بھی یاد رکھے ہوئے ہیں اور آج سیکڑوں کامیڈی فلمیں ریلیز ہونے کے باوجود اس فلم کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
swstarone · 4 years ago
Photo
Tumblr media
“شارلی ایبدو پھر باز نہ آیا” پیغمبراسلام کی شان کو پھر نشانہ بنایا فرانس کے طنز ومزاح کے جریدے شارلی ایبدو نے پیغمبر اسلام کے وہ متنازعہ خاکے دوبارہ شائع کردیے ہیں جن کی وجہ سے اس کے دفتر پر پانچ سال پہلے حملہ ہوا تھا۔
0 notes
sportsclassic · 4 years ago
Text
میانداد بنگلور ٹیسٹ میں بار بار پوچھتے ’’تیرا روم نمبر کیا ہے‘‘، دلیپ دوشی
پاکستان کے سابق لیجینڈ کرکٹر اور سابق کپتان جاوید میاں داد فیلڈ میں ہمیشہ سے ہی ��پنے طنز ومزاح کے حوالے سے مشہور رہے ہیں۔ بھارتی اخبار کے مطابق فیلڈ میں کہے جانے والے ان کے الفاظ آف سائیڈ پر ان کے بیک فٹ پنچز جتنے ہی شاندار ہوتے تھے۔ انہی میں سے ان کا ایک مشہور جملہ تھا ’’تیرا روم نمبر کیا ہے‘‘ جو انہوں نے سابق بھارتی لیفٹ آرم اسپنر دلیپ دوشی سے کہے تھے۔ جاوید میاں داد اور دلیپ دوشی کے درمیان اس گفتگو کو کئی پاکستان اور بھارتی سابق کرکٹرز نے مختلف انداز سے پیش کیا جن میں سنیل گواسکر بھی شامل ہیں۔ 1983ء میں بنگلور میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں جاوید میاں داد اور دلیپ دوشی کے درمیان اس واقعے کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے دلیپ دوشی نے بھارتی اخبار سے گفتگو کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میاں داد ایک عظیم کرکٹر تھے، بنگلور ٹیسٹ میں بار بار مجھ سے پوچھتے ’’تیرا روم نمبر کیا ہے‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر جاوید میاں داد آن فیلڈ میں جارحانہ مزاج رکھتے تھے، وہ ایک عظیم بلے باز تھے، ان کا شمار دنیا کے ان بہترین کرکٹرز میں ہوتا تھا جنہیں میں نے باولنگ کی، میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں۔ وہ میرے اچھے دوست بھی ہیں، میدان سے باہر ہم دونوں اچھے دوستوں کی طرح ہوتے تھے لیکن میدان میں ان کا کردار یکسر مختلف ہوتا تھا۔ سابق اسپنر مرلی کارتھک سے انٹرویو کے دوران انہوں نے بتایا کہ جاوید میاں داد آف اسٹمپ پر کھیلنا پسند کرتے تھے۔ میں اسٹمپس کی جانب باولنگ کرتا تھا۔ میں جاوید میاں داد کو ان کے پسندیدہ شاٹس کھیلنے سے محدود رکھتا تھا اور اگر وہ اپنے پسندیدہ اسٹوکس کھیلتے تو انہیں رسک لینا پڑتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ بسا اوقات وہ جھنجھلا جاتے تھے تاہم ان کے پاس مخالف کی توجہ بٹانے کیلئے ایک ہی طریقہ رہ جاتا تھا کہ وہ اسے غصہ دلائیں اور وہ اس کام میں بہت ماہر تھے، وہ کرن مورے کیساتھ ایسا کر چکے تھے، وہ ڈینس لیلی کیساتھ بھی ایسا کرچکے تھے اور میرے ساتھ بھی کئی مرتبہ یہ طریقہ آزمایا۔ دلیپ دوشی نے بتایا کہ وہ قریب کھڑے فیلڈرز کو کچھ کہتے تھے کہ وہ یہ پیغام مجھ تک پہنچائیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
dailyshahbaz · 5 years ago
Photo
Tumblr media
شہر لاہور تری رونقیں قائم آباد منظر جاوید ایک میٹنگ کے سلسلے میں لاھور سے اسلام آباد روانہ ہوئے تو فون کیا کہ میں بھی کل اسلام آباد آجاؤں اور پھر کل وہاں سے اکھٹے لاہور چلیں گے جہاں میری دو کتابوں کی طباعت کا مسئلہ در پیش ہے جس کی ذمہ داری میں نے اس پر ڈال دی ہے بلکہ میری لا پرواہی کو مد نظر رکھتے ہوئے خود یہ ذمہ داری لی ہے۔ سو دوسرے دن میں حسب پروگرام مقررہ وقت پر پشاور سے اسلام آباد پہنچا تو موصوف نے لاپرواہی سے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ لاہور تو آج نہیں بلکہ کل ہی جانا ہے آج تو صرف آوارہ گردی میں ساتھ دینے کے لئیے تمہیں بلایا ہے۔سو ہم دونوں مارکیٹوں میں گھومتے اور ریستورانوں میں گھستے رات گئے تک اس عمر میں بھی آواراہ گردی کرتے رہے۔ اس لئے جب رات گئے پنجاب ہاؤس میں اپنے کمرے پہنچے تو تقریباً کھڑے کھڑے سو گئے تھے۔صبح ابھی ناشتہ لگ ہی رہا تھا کہ نفیس اور متحرک کرنل جعفر مقررہ وقت سے بھی چند سیکنڈ پہلے پہنچ کر خاموشی کے ساتھ سمجھا گئے کہ وقت کی پابندی کیسے اور کیا ہوتی ہے۔تھوڑی دیر بعد لاہور کی طرف نکلے تو ایک مدت بعد موٹروے کی بجائے جی ٹی روڈ ہمارا روٹ تھا کیونکہ پنڈی، وزیرآباد اور گوجرانوالہ میں قائم انڈسٹریل سٹیٹس کے وزٹ اور وہاں بریفنگز بھی منظر جاوید کے شیڈول میں شامل تھے۔ چونکہ وہ ابھی ابھی اس محکمے کے صوبائی سربراہ کا چارج لے چکے ہیں اور اسے جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ کام کے حوالے سے بیوروکریٹ کم اور مزدور زیادہ لگتے ہیں۔اس لئے لاہور پہنچتے پہنچتے سارا دن ہی راستے میں کٹا سو ایک شاعر تو یہی لکھے گا کہ فصیل شہر کے پاس پہنچے تو شام ڈھل چکی تھی۔جعفر بھائی کو کینٹ میں اس کے گھر اتارا اور ان کے ننھے بیٹے کی توتلی باتوں کا لطف اٹھا کر منظر جاوید اور میں (جی او آر) اس کے گھر چلے گئے کہ یہی ایک مدت سے میرا ٹھکانہ ہے۔لاھور پہنچنے سے پہلے ہی عباس تابش بھائی لنچ اور عطا الحق قاسمی صاحب ڈنر کا حکم صادر کر چکے تھے۔میری خوہش تھی کہ ظفر اقبال صاحب کی بیمار پرسی کروں اور آفتاب اقبال سے بھی مکالمہ ہو۔ ڈاکٹر خورشید رضوی ابھی ابھی لندن سے پہنچے تھے اور حفیظ اللہ نیازی صاحب کو دوسرے دن آنا تھا کیونکہ وہ میانوالی میں تھے۔ وجاھت مسعود صاحب اور عدنان کاکڑ سے بھی ملنے کا پروگرام تھا۔ کوئٹہ کے دانشور دوست فتح اللہ پشتون سے بلوچستان کی صورتحال کو جاننا تھا اور احمد رحیم سے جدید انگریزی ادب بارے،صفدر حسین (الحمد والے)اور یار دیرینہ ڈاکٹر نذر عابد کی وساطت سے امجد طفیل سے بھی ملنا تھا۔ الحمرا اور نیشنل کالج آف آرٹس جانا بھی شیڈول میں تھے خواہشات میں سے تو ایک یہ بھی تھی کہ سبطین ٹیپو (منظر جاوید کے چھوٹے بھائی)کو لے کر کرکٹ میچ بھی دیکھ آؤں لیکن کچھ خواہشات مکمل ہوئیں اور کچھ دل کے ارماں بن کر آنسوں میں بہہ گئے کیونکہ وقت کا قحط پڑ گیا تھا۔دوپہر سے ذرا پہلے عباس تابش بھائی کے سلیقے سے سجے خوبصورت گھر پہنچے تو وہ بیٹی کو پڑھانے میں مصروف تھے۔آتے ہی وہی کھلا ڈھلا انداز اور بے تکلف گفتگو۔جو لوگ انہیں قریب سے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ ان کی گفتگو میں بھی ان کی دلآویز شاعری کی طرح مختلف شیڈز ہوتے ہیں۔ ادب شاعری، سیاست، تاریخ اور طنز ومزاح سے مزین گفتگو آپ کو گویا فوراً ”کیچ“ کر لیتا ہے تبھی تو پہلے ان کے گھر اور بعد میں ایک خوبصورت ریستوران میں ہم لگ بھگ چار سے پانچ گھنٹے اکھٹے رہے اور وقت کا احساس تک نہیں ہوا۔شام کو ایک اعلیٰ درجے کے ہوٹل میں پہنچ کر ہم ابھی بیٹھے ہی تھے کہ استاد گرامی عطا الحق قاسمی صاحب نیلے رنگ کا دلکش سوٹ اور ملٹی کلرز کی خوبصورت ٹائی پہنے لابی میں داخل ہوئے ”ان حالات“ میں بھی ہمیشہ کی طرح ہشاش ��شاش اور تروتازہ بلکہ شرارتی۔ہم ٹیبل کے گرد بیٹھے تو حسب توقع ایک خطرناک لطیفے سے گفتگو کا دروازہ چوپٹ کھول دیا میرے دل نے چاہا کہ انہی کے لازوال جملے کو استعمال میں لا کر گھٹنے کی تکلیف کا پوچھوں کہ اے مام دینا اب تمھارے پاؤں کا درد جگر کیسا ہے لیکن تہذیب، استاد شاگرد کے رشتے اور قاسمی صاحب کے مقام نے مزاحیہ ادب کے اس توانا جملے کے بر وقت استعمال سے محروم ہی رکھا سو پوچھا سر تکلیف میں کچھ کمی ہوئی ہے؟جواب حسب معمول خوش امیدی اور تشکر سے لبریز ہی تھا۔ لگ بھگ تین گھنٹے تک " وہ کہے اور سنا کرے کوئی" والی کیفیت رہی،کبھی ہم ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوتے تو کبھی اداس کر دیتے، رات گئے ہم انہیں گاڑی تک چھوڑ نے آئے اور وہ رخصت ہوئے تو میں نے اپنے دوست سے کہا کہ ساٹھ سال کی کالم نگاری، ڈیڑھ درجن سے زائد کتابیں، بے شمار اور یادگار ٹی وی ڈرامے اور پوری دنیا کا سفر۔۔ دوست نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا کہ نام ایسے مفت میں تو نہیں بنتا ناں، مسلسل مصروفیت دوڑ دھوپ اور شدید دباؤ کی وجہ سے مجھے کچھ دنوں سے اپنے ساتھ ہمدردی سی ہونے لگی تھی یعنی خود ترحمی کا شکار ہو گیا تھا لیکن میرے دوست کے اس جملے نے پھر سے حوصلہ اور توانائی فراہم کردی اور امید اور اعتماد کی طرف موڑ دیا۔اگلی صبح منظر جاوید کے گوگل مزاج لاھوری ڈرائیور کو میں صرف جگہ کا نام بتاتا اور وہ مجھے لے کر میری مطلوبہ جگہ پر پل بھر میں پہنچا آ تا۔کچھ کام مکمل ہوئے اور کچھ ”صحبت باقی“ کی نذر ہوئے کیونکہ شام سے پہلے پہلے اس شہر بے مثال کو الوداعی ہاتھ ہلانا ہی تھا۔ اس لئے جب گاڑی نے موٹروے پر پشاور کا رخ کیا اور لاھور پیچھے رہ گیا تو میں نے زیر لب اسی لاھور کے ناصر کاظمی کا شعر پڑھا شہر لاھور تری رونقیں قائم آباد تری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی ہم کو
0 notes
shiningpakistan · 6 years ago
Text
بالاکوٹ حملے کی اجازت سے متعلق جاہلانہ بیان، مودی کی خوب جگ ہنسائی
مودی نے ایک بار پھر طنز ومزاح کا سامان پیدا کر دیا۔ بھارتی پردھان منتری نے ایئرفورس کو بادلوں اور بارش کی وجہ سے بالاکوٹ حملے کی اجازت دی۔ یہ کہنا ہی تھا کہ سوشل میڈیا کے جغادری مودی کے پیچھے ہی پڑ گئے۔ ایسے لتے لیے کہ بی جے پی کو ان کے انٹرویو کی ٹویٹ ہٹانا ہی پڑی۔ ماہرین کے مطابق ریڈار ہرموسم میں کام کرتا ہے۔ ریڈار سے بچنے کیلئے چوکیدار کا نسخہ سامنے آ گیا، انٹرویو میں مودی کے جاہلانہ بیان پر جگ ہنسائی ہونے لگی۔ بھارت میں انٹائر کلاؤڈ کور یعنی پوری طرح بادل کے پردے میں "ٹرینڈ" کرنے لگا، دلچسپ تصاویر لگا کر سوشل میڈیا صارفین نے خوب مذاق اڑایا۔
ایک شخص نے غالب کے انداز میں لکھا "جملہ ہی پھینکتا رہا پانچ سال کی سرکار میں، سوچا تھا کلاؤڈی ہے موسم، نہیں آؤں گا راڈار میں"۔ ایک اور صارف نے لکھا "سنو سڑک سے چلتے ہیں، ان کے ریڈار کو لگے گا بس آ رہی ہے"۔ اسید اویسی نے ٹویٹ کیا "سر آپ تو غضب کے ایکسپرٹ ہیں، چوکیدار ہٹا دیجیے اور ایئر چیف مارشل اور پردھان لکھیے"۔ عمر عبداللہ نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی ریڈار بادلوں میں داخل نہیں ہو سکتا۔ یہ فوجی حکمت عملی کی بہت ہی اہم معلومات ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے رہنما سیتا رام نے لکھا مودی کے الفاظ شرمناک ہیں، ماہرین کے مطابق ریڈار ہر موسم میں کام کرتا ہے، بادلوں کی چادر کے پرے کی چیزوں کا بھی پتہ چلا لیتا ہے۔
 بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
nowpakistan · 5 years ago
Text
ہر دل عزیز فنکار معین اختر کی 9ویں برس
کروڑوں دلوں پر راج کرنے والے صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکار معین اختر کی آج 9ویں برسی منائی جارہی ہے۔
لیجنڈ اداکار معین اختر کو فن کی اکیڈمی کہا جاتا تھاکیونکہ فلم ہو یا ٹی وی یا پھراسٹیج ڈرامہ انہوں نے ہر شعبے میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا، معین اختر کے طنز ومزاح سے بھرپور جملوں نے تہذیب کا ایک نیا پہلو متعارف کروایا۔
معین اختر 24 دسمبر 1950ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، زندگی کی پہلی…
View On WordPress
0 notes
nadiaumberlodhi · 3 years ago
Text
سیمیں خان درانی
آہ سیمیں خان درانی——-ہمارے معاشرے کاسب سے بڑا المیہ اس کی منافقت ہے – مغربی معاشرے میں منافقت نہیں ہے اس لیے ان کے مسائل ہمارے مسائل جیسے نہیں ہیں -کہنے کو تو پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن یہاں اسلامی نظام کی جگہ انگریز کا بنایا ہوا عدالتی نظام رائج ہے -اور جمہوریت کی جگہ سول مارشل لاء نے لے رکھی ہے – اس معاشرے میں کسی عورت کا عورت ہونا ایک بڑا جرم ہے – اور اگر عورت لکھاری ہے تو پھر تو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
daleelpk-blog · 5 years ago
Text
جھوٹوں کی دنیا - فواد فیاض
عنوان دیکھ کر آپ حیرت میں ڈوب گئے ہوگئے کہ کاروباری دنیا اور انسانوں کی دنیا وغیرہ کا نام تو سنا تھا لیکن یہ جھوٹوں کی دنیا کا نام پہلی مرتبہ سن رہے ہیں، جی ہاں میری مراد اپریل فول منانے والوں کے بارے میں ہے ۔ اپریل کا مہینہ آتے ہی نہ جانے کیوں میرے اک دوست کے والد گرامی میرے دل و دماغ میں گردش کرنے لگتے ہیں، کسی نے یکم اپریل کو اپریل فول کی تہوار مناتے ہوئے ان سے کال کر کے یہ کہا تھا کہ "آپ کا بیٹا دبئی میں مر گیا ہے" بس یہ آواز سنتے ہی اس کی سانس بند ہوگئی اور وہ اس فانی دنیا سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئے ۔کیا اسلامی تہواریں کم تھیں کہ یہ بے وقوف بنانے والی رسم بھی مسلمان منانا شروع ہوگئے.! آپ کو علم ہے کہ اپریل فول دنیا بھر میں ہر سال یکم اپریل کو منایا جاتا ہے۔اگر ہم اس کو حقیقت کے آئینے میں دیکھیں تو یہ اپریل کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ "Aprilis" سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے پھولوں یا کلیوں کا کھلنا ۔اگر تاریخ کے آئینے میں اس تہوار کو دیکھا جائے تو اس حوالے سے بہت تاریخی واقعات کتابوں میں موجود ہیں ۔معروف ویب سائٹ Wikipedia کے مطابق 16 صدی تک یورپ اور ایران والوں کا کلینڈر ایک جیسا تھا ۔دونوں ریاستوں میں ہر نیا سال یکم اپریل کو شروع ہوتا تھا لیکن 1564 میں فرانس کے بادشاہ نے یورپ کے کیلنڈر کو تبدیل کرکے نیا سال یکم جنوری سے لاگو کردیا حالانکہ ایران میں آج بھی نیا سال یکم اپریل سے شروع ہوتا ہے ۔ اب جب فرانس میں کلینڈر کو تبدیل کردیا گیا تو پھر چند لوگ یکم اپریل کو ہی نیا سال مناتے جس پر ملک کے واسیوں نے ان کا مذاق اڑانا شروع کیا اور اسی وجہ سے یکم اپریل کو اپریل فول کہا جانے لگا ۔دوسرا واقعہ جو اس اپریل فول سے جڑا ہوا ہے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی گرفتاری ہے (معاذ اللہ) ۔انسائیکلو پیڈیا (Larouse) کے مطابق جب یہودیوں نے جب یہودیوں حضرت عیسی علیہ السلام کو گرفتار کرکے (معاذ اللہ) رومیوں کی عدالت میں پیش کیا تو یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کا مذاق اڑانا شروع کر دیا تو مورخین کے مطابق وہ بھی یکم اپریل کا ہی دن تھا جس کو لے کر آج اپریل فول منایا جاتا ہے ۔ تیسرا واقعہ جو اپریل فول سے جڑا ہوا ہے وہ انسائیکلوپیڈیا آف بر ٹانیکا نے کافی تفصیل سے بیان کیا ہے کہ یورپ میں جب اکیس مارچ سے موسم میں تبدیلیاں آنا شروع ہو جاتیں اور موسم قدرے بہتر ہوجاتا کیونکہ یورپ میں 10 مہینے سال کے یا بادل چھائے رہتے ہیں یا بارش برستی ہے اور مئی اور اپریل میں سورج نکل آتا ہے جس طرح Shakespeare نے اپنی محبوبہ کے بال اور آنکھوں کو مئی کے شوخ دن سے تعبیر کیا ہے تو بقول یورپین کے قدرت موسم میں تبدیلیاں لا رہی ہے اور ہمارے ساتھ مذاق کر رہی ہے ۔اور اپریل فول کے حوالے سے آخری واقعہ جس جو زیادہ تر صیح مانا جاتا ہے اس کو تاریخ دان ہیرالڈ نے کافی اچھے طریقے سے لکھا ہے بقول ان کے جب عیسائیوں نے دوبارہ سپین پر قبضہ جمالیا اور وہاں کے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے تو زیادہ تر مسلمان ہجرت کرکے وہاں سے چلے گئے ۔ لیکن پھر بھی سینکڑوں کی تعداد میں وہاں رہے تو کچھ مہنیوں کے لیے سپین کے بادشاہ نے ان کو کچھ نہ کہا اور پرامن رہنے دیا اب چند مہینے بعد سپین کے بادشاہ نے اعلان کیا کہ جو مسلمان بھی افریقی ممالک جانا چاہے وہ سمندر پار کر کے جاسکتا ہے اب تو مسلمانوں کا اعتماد حکمرانوں پر بحال ہوچکا تھا تمام مسلمان کشتیوں میں بیٹھ گئے لیکن جیسے ہی کشتیاں سمندر کے وسط تک پہنچ گئی ان کو ڈبو دیا گیا ۔۔۔ اور عیسائی لوگ مذاق بناتے رہے کہ دیکھو ہم نے مسلمان کو کیسے بے وقوف بنایا اور اسی واقعے کو لے کر آج تک لوگ اپریل فول مناتے آرہے ہیں ۔ اپریل فول سرکاری طور پر کوئی ملک نہیں مانتا لیکن بعض لوگ اس کو آج بھی تہوار مناتے ہیں اور بطور تہوار مناتے آرہے ہیں ۔ تو یہ سارا پس منظر جو میں نے بیان کیا تو یہ سب ہمارے مذہبی عقائد کے خلاف ہیں اور ویسے بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے صرف دو تہواروں کو مقرر کیا ہے ایک عیدالفطر دوسرا عید الحضیٰ باقی تہواروں کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں اور دوسرا یہ تہوار سرے سے ہی دھوکہ دہی اور جھوٹ پہ مبنی ہے اور اسلام نے تو جھوٹ کو سارے گناہوں کا جڑ مقرر کیا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے " میرا امتی ہر گناہ کر سکتا ہے ایک جھوٹ نہیں بول نہیں سکتا اور دوسرا دھوکہ نہیں دے سکتا "پتہ نہیں آج ہم اپریل فول منا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟ مجھے ایک ڈرامہ یاد آرہا ہے جو بہت عرصہ پہلے پی ٹی وی پر اپریل فول کی مناسبت سے چلا تھا جس میں ایک محترمہ آفس میں موجود اپنے شوہر کو اپریل فول پر فول بنانے کی خاطر فون کر دیتی ہے جب شوہر فون اٹھاتا ہے تو محترمہ کہتی ہے " صاحب جلدی گھر آجائے آپ کی امی بیمار ہوگئی ہیں ان کی طبیعت ٹھیک نہیں اور ان کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑے گا ۔" صاحب بے چارا اپنے ہوش وحواس کھو دیتا ہے اور تیز رفتاری کی وجہ سے ٹکر کھاتا ہے جس کی وجہ سے شدید چوٹیں لگتی ہے اور محترم ہسپتال جا پہنچتا ہے ۔ تو میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اپریل فول منا کر نہ صرف ہم اپنے مذہب کی توہین کر رہے ہیں بلکہ اپنے کلچر کا ستیاناس کر رہے ہیں کیونکہ یہ تہوار نہ ہمارے دین میں ہے اور نہ ہی ہمارے کلچر میں اگر اب آپ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہو تو اپنے دین پر عمل کرو ارشاد باری تعالیٰ ہے "اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور سچ بولنے والوں کا ساتھ دو "( القرآن) حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام سے مختلف مواقع پر طنز ومزاح کرتے تھے لیکن کبھی سچ کا دامن نہ چھوڑا خضرت ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ ایک دن صحابہ کرام رض نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے رسول ص آپ ص تو ہمارے ساتھ دل لگی فرماتے ہیں ؟ آپ ص نے ارشاد فرمایا "میں دل لگی ضرور کرتا ہوں مگر سچ اور حق بات کے سوا کچھ بولتا نہیں "(ترمذی شریف) جھوٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کوئی شخص جب بولتا ہے تو فرشتے اس جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے میل دور چلے جاتے ہیں اور یہ سارا تہوار تو جھوٹ پہ کھڑا ہے تو ہم کیسے یہ منا لیں ۔ بقول نواب رانا ارسلان ہر کسی کو یہ بتاؤ صداقت کا راستہ دکھاؤ یہ کیسا ہے تماشہ اپریل فول ایسے کسی کو نہ آزماؤ چراغ الفت جلاؤ محبت کے گیت سناؤ تم اس جھوٹ سے نہ اپنوں کو ستاؤ سچائی کو دل سے لگا لو جھوٹ کو تم مٹاو خدا کو نہ کرو ناراض نہ اپریل فول مناؤ کسی کا مذاق نہ اڑاؤ ایسا تماشہ نہ دکھاؤ اس فول کو ہٹاؤ سچائی کے دیئے جلاؤ Read the full article
0 notes
maqsoodyamani · 4 years ago
Text
سمجھدار کرونا ہوا ایک سال کا کرونا وائرس سازش یا وبا:شک کے گھیرے
سمجھدار کرونا ہوا ایک سال کا کرونا وائرس سازش یا وبا:شک کے گھیرے
سمجھدار کرونا ہوا ایک سال کا کرونا وائرس سازش یا وبا:شک کے گھیرے (طنز ومزاح) تحریر:سید فاروق احمد سید علی 9823913213 [email protected]   محترم قارئین کرام‘آج سازشی کرونا وائرس کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ آج اس کا برتھ ڈے ہیں۔۔یہ وائرس اب شانا ہونے کے ساتھ ساتھ ہی بہت سمجھداربھی ہوگیا۔۔اس کی اب بھی مالداروں اور بڑے گھرانوں سے بنتی ہے اور جب پیدا ہوا تب بھی بڑے گھرانوں مالداروںاور حکومت چلانے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cidnewspk · 4 years ago
Text
’مِیم‘ جرنلزم - ایکسپریس اردو
’مِیم‘ جرنلزم – ایکسپریس اردو
خبروں میں طنز ومزاح کا بگھار لگائے ایک نئی طرح کی ’صحافت‘
جب سے ہم نے اکیسویں صدی میں قدم رکھا ہے، حالات اس قدر برق رفتاری سے تبدیل ہو رہے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔
زندگی اور وقت کی یہ تیز رفتاری ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ بہت سی اہم باتیں منظر عام سے غائب ہو رہی ہیں۔ جیسا کہ خبروں کی بہتات کے باعث ایسا لگتا ہے کہ شاید لوگوں کی ہر لمحے سامنے آتی ہوئی اِن خبروں سے دل چسپی ذرا…
View On WordPress
0 notes
khouj-blog1 · 6 years ago
Text
معین اختر کو مداحوں سے بچھڑے 8 برس بیت گئے
New Post has been published on https://khouj.com/entertainment/126963/
معین اختر کو مداحوں سے بچھڑے 8 برس بیت گئے
 کروڑوں دلوں پر راج کرنے والے صدارتی تمغہ یافتہ اداکار معین اختر کو اس جہان فانی سے کوچ کیے 8 برس بیت گئے۔
معین اختر 24 دسمبر 1950ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، زندگی کی پہلی پرفارمنس شیکسپئیر کے ناول سے ماخوذ اسٹیج ڈرامے ’دی مرچنٹ آف وینس‘ میں محض 13 برس کی عمر میں دی جبکہ فنی کیرئیر کی باقاعدہ شروعات پاکستان کے پہلے یوم دفاع پر 1966ء میں کی۔
ہمہ جہت فنکار معین اختر کو اپنے جداگانہ کردارنگاری کی بناء پر فن کی اکیڈمی کہا جاتا تھا، انہیں دیا جانے والا یہ لقب کچھ غلط بھی نہیں تھا ، کیونکہ معین اختر نے ریڈیو، ٹی وی ڈرامہ، اسٹیج ، فلم سمیت فنون لطیفہ کے ہر شعبے میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا جبکہ گلوکاری بھی کی۔ ہم عصر اداکاروں کے مطابق معین اختر محض اداکار نہیں بلکہ ایک دور کا نام تھا، فن اداکاری کے ساتھ ساتھ معین اختر کا ایک تعارف ٹی وی میزبان بھی تھا۔
معین اختر نے طنز و مزاح سے بھرپور جملوں میں تہذیب کا ایک نیا پہلو متعارف کروایا، فنکارانہ خدمات کے اعتراف میں معین اختر کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
معین اختر کے معروف ٹی وی ڈراموں اور پروگرام میں روزی، انتظار فرمائیے، بندر روڈ سے کیماڑی، آنگ�� ٹیڑھا، اسٹوڈیو ڈھائی، اسٹوڈیو پونے تین، یس سر نوسر، عید ٹرین اور کئی مشہور اسٹیج ڈرامے آج بھی لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہیں، ایک نجی چینل کے لیے ان کے طنز ومزاح سے بھرپور ٹی وی شوز کی 400 اقساط کا نشر ہونا بھی ایک منفرد ریکارڈ ہے۔
معین اختر 22 اپریل سن 2011ء کو حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے تھے، ساتھی فنکاروں کے مطابق پاکستان کی ثقافت کو ڈراموں اور شوز کے ذریعے جس طرح سے معین اختر نے متعارف کروایا دوسرا شادد ہی یہ کام اس خوبی سے کرسکے۔
0 notes
unnnews-blog · 7 years ago
Photo
Tumblr media
ملکہ برطانیہ کی شادی کی 70ویں سالگرہ اسلام آباد(یو این این)ملکہ برطانیہ اور شہزادہ فلپ آج اپنی شادی کی 70ویں سالگرہ منارہے ہیں، 91سالہ ملکہ الزبتھ دوئم آج بھی تندرست ہیں ،دونوں کے دوست بھی مشترک ہیں اور دونوں ہی خوشگوار موڈ میں رہتے ہیں ، کئی دہائیوں سے اس جوڑے کی زندگی کامیاب طریقے سے گزر رہی ہے۔برطانوی جوڑے نے ایک ساتھ کئی ممالک کا دورہ بھی کیا ہے ، دونوں کی کامیاب زندگی کا راز یہ بھی ہے کہ وہ ایک اکثر اوقات ایک دوسرے سے طنز ومزاح بھی کرتے ہیں اور ان کی زندگی کا بیشتر حصہ ایک ساتھ ہی گزرا ہے۔
0 notes