#ادھے
Explore tagged Tumblr posts
topurdunews · 2 months ago
Text
پنجاب بھر کے دفاتر میں آدھے عملے کو آن لائن کام پر منتقل کرنے کا حکم
(24 نیوز)سموگ نے پنجاب بھر میں معمول زندگی کو درہم برہم کردیا ،حکومت نےدفتروں کے50 فیصدعملے کو آن لائن کام پر منتقل کرنے کا حکم دیدیا،ڈی جی ماحولیات پنجاب ڈاکٹر عمران حامد نے تمام سیکریٹریز، سربراہان کوہدایت جاری کردیں۔ ڈی جی ماحولیات پنجاب ڈاکٹر عمران حامدکی جانب سےجاری مراسلے میں کہاگیا ہےکہ دفاتر میں صرف 50 فیصد اسٹاف کو بلایا جائے گا، 50فیصد اسٹاف گھروں سےکام کرنےکا پابند ہوگا، مختلف محکموں…
0 notes
queima-em-mim · 4 years ago
Text
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے--- 30سال پہلے صوابی سےلاپتہ ہونیوالا شخص اچانک گھرپہنچ گیا، گھر والوں کی خوشی زیادہ دیر قائم نہ رہی ، صرف آدھے گھنٹے بعد کیا کہہ کر دوبارہ کہاں چلا گیا؟ - -
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے— 30سال پہلے صوابی سےلاپتہ ہونیوالا شخص اچانک گھرپہنچ گیا، گھر والوں کی خوشی زیادہ دیر قائم نہ رہی ، صرف آدھے گھنٹے بعد کیا کہہ کر دوبارہ کہاں چلا گیا؟ – –
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) موضع ڈاگئی ضلع صوابی سے تیس سال قبل پُر اسرار طور پر لاپتہ ہونے والا شخص اچانک منگل کے روز اپنے گھر پہنچ گیا- گھر آمد پر والدین اور رشتہ دار خوشی سے جھوم اُٹھے اور ان کے مر جھائے ہوئے چہروں پر رونق آئی تاہم نصف گھنٹے قیام کے بعد دوبارہ واپس چلا گیا- بتایا گیا ہے کہ بیس سالہ اختراج خان سکنہ ڈاگئی اچانک گھر سے لاپتہ ہو چکا تھا جس کی وجہ سے ان کے والدین اور رشتہ دار…
View On WordPress
0 notes
45newshd · 5 years ago
Text
پاکستان کے آدھے پارلیمان کو دیوار سے لگا کر حکومت ملک کا مقدمہ کیسے لڑے گی؟حیرت انگیز دعویٰ کر دیا گیا
پاکستان کے آدھے پارلیمان کو دیوار سے لگا کر حکومت ملک کا مقدمہ کیسے لڑے گی؟حیرت انگیز دعویٰ کر دیا گیا
اسلام آباد (این این آئی) پاکستان پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمن نے وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے حوالے سے کہا ہے کہ حکومت پارلیمنٹ سے رائے لینے اور دوسری جماعتوں کی شراکت داری سے مستفید ہونے کیلئے قطعاً تیار نہیں ،پاکستان کے آدھے پارلیمان کو دیوار سے لگا کر حکومت ملک کا مقدمہ کیسے لڑے گی، امریکہ چاہے گا پاکستان سے امن عمل کے استحکام کی ضمانت لے۔ پاکستان کسی قسم کی ضمانت…
View On WordPress
0 notes
azharniaz · 3 years ago
Text
تاج بی بی بلقیس مکانی وفات 19 اپریل
تاج بی بی بلقیس مکانی وفات 19 اپریل
جگت گوسائیں یا بلقیس مکانی (پیدائش: 13 مئی 1573ء— وفات: 19 اپریل 1619ء) مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر کی بیوی اور مغل ہندوستان کی ملکہ تھی۔ جگت گوسائیں کا بیٹا شاہ جہاں تھا۔ جگت گوسائیں کی پیدائش 13 مئی 1573ء کو جودھ پور میں ہوئی۔ مغل تواریخ میں جگت گوسائیں کو عموماً جودھ پوری شاہزادی کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔جگت گوسائیں کا باپ راجہ ادھے سنگھ تھا جو موٹا راجا بھی کہلاتا تھا۔ ماں رانی من رنگ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
getlifehealthy · 5 years ago
Text
امریکہ میں کرونا وائرس کے مثبت معاملات کی تعداد ہوئی 100,000
Tumblr media
واشنگٹن: ریاستہائے متحدہ امریکہ میں اب کورونا وائرس کے 100،000 سے زیادہ تصدیق شدہ واقعات موجود ہیں ، جان ہاپکنز یونیورسٹی کے زیر نگرانی ایک ٹریکر نے جمعہ اس بات کی اطلاع دی ہے۔
مشرقی وقت کے مطابق شام 6 بجے تک 1،544 اموات سمیت 100،717 واقعات ہوئے ہیں۔
اب تک سب سے زیادہ مریض نیویارک میں ہے، پورے امریکہ کے ادھے مریض یہاں کے ہسپتالوں میں موجود ہیں۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ میں اس وقت تصدیق شدہ 15000 کے…
View On WordPress
0 notes
penslipsmagazine · 5 years ago
Photo
Tumblr media
چاچا قلی ۔۔۔ حمید رازی چاچا قلی ( حمید رازی ) اوہدی بدلی پشاور کیہہ ہوئی، مسئلیاں نے اوہدے چار چفیرے گھیرا پا لیا۔ اک مسئلہ بچیاں نوں سکول گھلنا تے اوہناں نوں واپس لیانا سی۔ اوہدے پنڈی ہوندیاں سرکاری گڈی اوہناں نوں چھڈ وی اوندی سی تے لے وی اوندی سی۔ بچے گڈی دے عادی ہو گئے سن۔ اوہنے سوچیا اوہناں لئی نکی موٹی گدی وی لینی پووےگی، تے ڈرایئور وی رکھنا پے گا جیہڑا اوہناں نوں سکولوں ڈھوندا رہوے۔ اوہدے دو منڈے اک سکول تے اک وکھرے سکول سی۔ ایہہ گل چنگی سی جے دوویں سکول اٹھ دس کلومیٹر دے کلاوے اچ سن۔ فیصل نوں ست دن دے اندر اوتھے رپورٹ کرنی سی۔ دو تن دن تے ایویں ای لنگھ گئے۔ چوتھے دیہاڑے اوہنے بنک چوں پیسے کڈھوائے، تھوڑے جیہے پرائز بانڈ سی اوہ ویچے ۔ اوہدی بیوی سہیلیاں دا منت ترلا کر کے کمیٹی دے پیسے پہلے لے لتے۔ اوہ شام نوں کسے بیلی کولوں سیکنڈ ہینڈ گڈی لے آیا۔ اک ادھے دن اندر محکمے توں ڈرایئور بھی لبھ گیا۔
0 notes
dailyswail · 5 years ago
Photo
Tumblr media
شہریت ترمیم بل تقسیم’ خوف اور عدم تحفظ کاسبب،بھارتی اپوزیشن نئی دہلی:بی جے ڈی' اے ائی اے ڈی ایم کے اور وائی ایس آر سی پی کی بل کوحمایت کے ساتھ سابق بی جے پی ساتھی شیو سینا نے کھل کر بل کی مخالفت نہیں کی ہے' مذکورہ برسراقتدار اتحاد 240ممبرز کے ایوان میں ادھے کی حمایت حاصل کرنے کے لئے پر امید ہے
0 notes
adhorikahani24 · 5 years ago
Photo
Tumblr media
ناول: چاند میری دسترس میں (قسط 4) http://bit.ly/2yfvJok
#چاند_میری_دسترس_میں #قسط نمبر 4 #از_قلم_انا_الیاس
چند دن سکون سے گزر گۓ۔ اس دن وہ چاروں واہب کی پھوپھو کی جانب افطاری کے لئے انوائيٹڈ تھے�� 
واہب ابھی ريسٹ کررہا تھا جب راديا کمرے ميں داخل ہوئ۔ 
“کس وقت نکلنا ہے" بيڈ پر نيم دراز موبائل پر گيم کھيلتے ہوۓ اس نے ايک نظر نماز کے سٹائل ميں دوپٹہ اوڑھے راديا کو ديکھا۔ جس کے ايک ہاتھ ميں قرآن تھا۔ 
“آنٹی کہہ رہی ہيں کہ بس آدھے گھنٹے تک تياری شروع کريں۔ پانچ تو بج جائيں گے۔ عصر پڑھ کر نکليں گے۔ اب بالکل افطاری کے ٹائم پر تو کسی کے گھر جاتے اچھا نہيں لگتا نا" اسکے دوسری جانب بيٹھ کر قرآن مجيد کو سرہانے کے اوپر رکھ کر کھولا اور آہستہ آواز ميں قرآت سے پڑھنے لگی۔ 
واہب کو اسکی دھيمی آواز ميں کی جانے والی قرآت اپنے سحر ميں جکڑنے لگی۔ 
سورہ رحمن پڑھ رہی تھی۔ ہر بار جب وہ 'فبائ الاءربکما تکذبان'پڑھتی واہب کی آنکھيں نم ہو جاتيں۔
يکدم موبائل ہاتھ سے رکھ کر اسکے گھٹنے کے پاس سر رکھ کر وہ ليٹ گيا۔ 
راديا يکدم اسکی اس حرکت پر خاموش ہوئ۔ پھر سر جھٹک کر پڑھتی رہی اور وہ خاموش اسکے قريب ليٹ کر اسکی ميٹھی آواز کا رس قطرہ قطرہ اپنے اندر اتارتا رہا۔ 
جس لمحے وہ قرآن مجيد بند کرکے اسے چوم کر آنکھوں سے لگا کر اٹھی۔ واہب کو لگا اسکا وجود خالی سا ہوگيا ہے۔ 
“پورے بيڈ پر ليٹنے کی کوئ اور جگہ نہيں ملی۔ ايک تو پہلے ہی ميں کنارے پر تھی اور پيچھے ہوتی تو گر پڑتی" راديا نے اپنی ناہموار ہونے والی سانس اور کچھ دير پہلے کی کيفيت سے پيچھا چھڑاتے ہوۓ کہا۔ 
“ابھی اللہ کا نام لے کر فارغ ہوئ ہو اور لڑنے کھڑی ہوگئ ہو" واہب نے سيدھا ہوتے شرارت سے بھرپور نظروں سے اسے ديکھتے ہوۓ شرم دلائ۔ 
وہ منہ بنا کر قرآن مجيد الماری ميں رکھتے ہوۓ اپنے کپڑے نکالنے لگی۔ 
“آپ ميری امی کو آنٹی کيوں کہتی ہو" واہب نے ايسے پوچھا جيسے بڑے پتے کی بات جان رہا ہو۔ 
“اسی لئے کہ يہ حق کچھ عرصے بعد کسی اور کو ملنے والا ہے اور ميں پرائ جگہوں اور رشتوں کو اپنا نہيں بناتی" اسکی بات پر واہب نے سر اونچا کرکے اسکی پشت کو ديکھا۔ وہ تو بھول گيا تھا کہ اس نے دوسری شادی کے لئے کسی اجازت نامے پر اس سے سائن کروائے ہيں۔ جب سے اسکی محبت کا ادراک ہوا تھا وہ تو سب کچھ فراموش کربيٹھا تھا۔ 
لب بھينچ کر اس نے نظريں واپس موبائل پر ٹکائيں۔ جبکہ راديا کپڑے بدلنے واش روم ميں جاچکی تھی۔
“يار اور کتنی دير لگانی ہے" واہب راديا کے کپڑے چينج کرنے کے فورا بعد خود بھی چينج کرکے باہر آگيا۔
“کتنی دير لگے گی تيار ہونے ميں" ڈارک مونگيا رنگ کی شلوار قميض ميں کف فولڈ کرکے 'اودھا' کی شيشی سے رولر اپنی گردن اور بازوؤں پر لگا کر شيشے ميں ديکھتے بال سيٹ کرتا ہوا راديا کی جانب مڑا جو ايک جانب کھڑی بال اسٹريٹ کررہی تھی۔ 
“بس پندرہ منٹ" اس نے ايک نظر ہلکی سی شيو ميں وجيہہ سے واہب کی جانب ديکھ کر فورا نظروں کا رخ بدل ليا۔ راديا کادل اسکی نظروں کے ساتھ دھڑکنے لگا تھا۔
“اوکے" وہ اپنی تياری کو بھرپور انداز ميں ديکھتا کمرے سے نکل گيا۔ 
اب پندرہ کی جگہ بيس منٹ ہوچکے تھے مگر راديا تھی کہ باہر ہی نہيں نکل رہی تھی۔ 
وہ جھنجھلايا ہوا کمرے ميں داخل ہوا۔ مگر شيشے کے سامنے آف وائٹ پرلز کی بالياں پہنتی سجی سنوری وائٹ اور گرين ہی کلر کے سوٹ ميں ملبوس راديا پر نظر پڑی تو نظروں نے پلٹنے سے انکار کر ديا۔ 
“بس آگئ۔۔ ميری جيولری نہيں مل رہی تھی۔ اسی ميں دير ہوگئ" وہ مصروف سے انداز ميں کمر تک آتے کھلے بالوں کو ايک جانب کرتی جلدی جلدی نازک سی ہيل والی سينڈل پاؤں ميں پہنتی بولی۔ 
تيزی سے آگے بڑھ کر کلچ اٹھايا۔ 
“افطاری پر جا رہی ہو کا کسی کی شادی پہ"واہب نے جان بوجھ کر اسکا راستہ روکا۔ 
تاکہ وہ نظر اٹھا کر واہب کو ديکھے۔ 
“اب اتنا بھی تيار نہيں ہوئ" وہ بمشکل اسکی گہری بولتی آنکھوں سے نظريں چرا کر بولی۔ 
دھڑکنوں ميں عجيب بے ربط سا شور بڑھ رہا تھا۔ 
“بال باندھو" نجانے کيوں اسے راديا کے کھلے بالوں سے الجھن ہوئ۔۔۔
محبوب کی زلف کا اسير ہونے سے ڈر رہا تھا۔ 
“ميری مرضی ۔۔۔اتنی محنت سے اسٹريٹ کئے ہيں۔ کوئ نہيں باندھ رہی" وہ ہٹ دھرمی سے اسکے دائيں سائيڈ سے نکلنے لگی۔ 
“بال باندھو۔۔۔" وہ پھر سے اپنی بات پر زور دے کر بولا۔ 
“چاہے کيچر ہی لگا لو۔۔ ليکن کھلے نہيں چھوڑو" وہ نہيں چاہتا تھا يہ خوبصورتی کسی اور کی نظروں ميں آۓ۔ وہ اکيلا ہی ان گھنيری زلفوں کا ستم سہنے کے لئے بہت تھا۔ 
راديا نے حيرت سے اسکے دھونس بھرے انداز ديکھے۔ 
“کيوں مانوں آپکی بات۔۔ نہيں بند کرتی" وہ بھی کمر پر ہاتھ رکھے لڑنے کو تيار ہوئ۔ 
“اسی لئے کہ ميرے نکاح ميں ہو" وہ آںکھيں اسکے چہرے پر گاڑھ کر بولا۔ 
“اچھا ۔۔۔۔۔جب دل کرے گا تو نکاح ميں شامل کرليں گے۔ اور جب دل کرے گا دو کوڑی کا کرديں گے۔۔اچھی زبردستی ہے" وہ ہاتھ ہلا کر کندھے اچکا کر بولی۔ 
“واپس آکر لڑ لينا ابھی بال باندھو۔۔ کوئ بات سمجھ ہی نہيں آتی" وہ کيسے کہہ ديتا تمہاری خوبصورتی صرف مجھ تک اپنے محرم تک محدود رہنی چاہئے۔ 
اسے اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوتے ديکھ کر راديا نے گھور کر اسے ديکھا۔ واپس مڑی غصے سے کيچر اٹھا کر بالوں ميں لگايا۔ 
واہب کے چہرے پر بڑی جاندار مسکراہٹ پھيلی۔ 
اس سے پہلے کمرے سے باہر نکلا۔ 
سيڑھياں اترتے موبائل پر کسی کو ميسج ٹائپ کررہا تھا۔ 
راديا دوپٹہ سر پر لينے لگی يکدم پاؤں مڑا۔ آگے چلتے واہب کا سہارا لينے کے لئے اس نے ہاتھ اسکے بازو پر رکھے۔ 
“کيا مسئلہ ہے يار" واہب کوئ آفيشل ميسج کررہا تھا۔ راديا کے اچانک خود کو ہاتھ لگانے پر چڑا۔ وہ ابھی بمشکل خود کو اسکے گھنيرے بالوں اور ساحر چہرے کے سحر سے بچا کر آيا تھا۔ اور وہ تھی کے پھر سے اس کا امتحان لينے پر تلی تھی۔ 
غصے ميں اسکے ہاتھ جھٹکنے پر وہ نہيں جانتا تھا کہ اگلے ہی پل کيا ہونے والا ہے۔ 
يکدم پيچھے سے راديا پھسلتی ہوئ اسکے پاس سے گرتی ہوئ تمام سيڑھياں گرتی ہی چلی گئ۔ 
يہ سب آناّّفاناّّ ہوا کہ واہب کو اسے سنبھالنے کا موقع ہی نہ ملا۔۔ 
نيچے گری اسکی دلدوز چيخيں اسکے حواس جھنجھوڑ کر رکھ گئيں۔ 
زيبا اور سميع دوڑ کر اسکے پاس آۓ جو چيخنے کے ساتھ ساتھ زور زور سے رو رہی تھی۔ 
واہب تيزی سے سيڑھياں اترتا اسکے قريب پہنچا۔۔ 
“اماں۔۔۔۔۔۔" وہ ماں کو پکار رہی تھی۔ ٹانگ تھامے وہ ادھر سے ادھے مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی۔ ماتھے پر بھی سيڑھی کا کوئ سرا لگا تھا جس کی وجہ سے وہاں گہرا کٹ پڑ چکا تھا اور خون رس رہا تھا۔ 
“گاڑی نکالو" سميع نے فورا واہب سے کہا۔ 
واہب نے اسے اٹھانا چاہا جب درد سے بے حال ہوتے ہوۓ بھی راديا نے اسکے ہاتھ جھٹکے سے خود سے دور ہٹاۓ۔ 
“ہاتھ مت لگائيں مجھے۔۔۔ اچھوت ہوں نا۔۔۔۔دھکا ديتے احساس نہيں تھا" آنسوؤں سے بھری آنکھوں ميں غصہ سموۓ وہ دھاڑی۔ زيبا اور سميع نے بے يقين نظروں سے اسے ديکھا۔
“تم نے دھکا ديا ہے" سميع اور زيبا نے افسوس اور حيرت سے اسے ديکھا۔ 
“ميں نے دھکا نہيں ديا۔۔"وہ بھی راديا کے الزام پر حيران ايک نظر اسے اور ايک نظر سميع اور زيبا کو ديکھ کر اپنی صفائ ميں بولا۔۔ 
“آہ۔۔۔۔۔ آۓ۔۔۔۔۔۔اماں" ايک بار پھر تکليف نے راديا کو گھيرا تو وہ پھر سے رونے اور چيخنے لگی۔ 
واہب نے اب کی بار کسی پر بھی غور کئے بغير تيزی سے اسے بازؤں ميں اٹھايا اور باہر کی جانب دوڑا۔ 
راديا اب تکليف سے اس قدر بے حال ہوچکی تھی کہ مزاحمت کرنے کی اس ميں ہمت نہيں تھی۔ 
پچھلی سيٹ پر احتياط سے اسے لٹاتے واہب ڈرائيونگ سيٹ کی جانب بڑھا۔ 
زيبا اور سميع بھی فورا گاڑی ميں بيٹھے۔ زيبا پيچھے ہی اسکے ساتھ بيٹھ کر اسکا سر اپنی گود ميں رکھتيں اسے سہلانے لگيں۔ 
جبکہ سميع بالکل خاموش واہب کے ساتھ اگلی سيٹ پر تھے۔ 
پاسپٹل پہنچتے ہی وہ اسی طرح اسے بازوؤں ميں اٹھاۓ ايمرجنسی ميں پہنچا۔ 
اسے کوئ پرواہ نہيں تھی کون اسے ديکھ رہا ہے اسے پرواہ تھی تو اسکی جو تکليف سے نڈھال ہورہی تھی۔ چہرے پر خون کی لکير اب سوکھ رہی تھی۔ 
فورا ايمرجنس الرٹ ہوئ۔ 
اسے باہر جانے کو کہا۔ 
واہب، زيبا اور سميع باہر کھڑے ڈاکٹرز کا انتظار کرنے لگے۔ سميع نے بہن کو فون کرکے آنے سے معذرت کر لی۔ فی الحال يہ نہيں بتايا کہ راديا سيڑھيوں سے گری ہے بس اتنا کہا کہ اسکی طبيعت نہيں ٹھيک۔ 
“شرم آتی ہے مجھے يہ سوچ کر کہ ميں نے اس جيسے جنگلی سے اسے بياہ ديا" فون بند کرکے سميع نے سرجھکاۓ کاريڈور کی ديوار کے ساتھ پشت ٹکا کر کھڑے واہب کو ايک نظر تنفر سے ديکھ کر کہا۔ 
اس نے سر اٹھايا۔ 
“آئ سوئير ميں نے اسے نہيں گرايا" ��ہ پھر سے اپنی بات دہرانے لگا۔ زيبا نے بس ايک تيزی چبھتی ہوئ نظر اس پر ڈالی بوليں کچھ نہيں سر پر دوپٹہ جماۓ وہ تسبيح کرنے ميں مصروف تھيں۔ 
تھوڑی دير بعد ڈاکٹر باہر آيا۔ 
وہ تينوں اسکے گرد کھڑے ہوگۓ۔ 
“بچی کيسے گری ہے۔ اسکی ٹانگ کی راڈ دو جگہ سے کريک ہوگئ ہے نئ ڈالنی پڑے گی۔ تکليف دہ مرحلہ ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ آپ کو بھی صبر سے کام لينا پڑے گا" واہب نے الجھ کر سميع اور زيبا کو ديکھا ۔۔
“بس سيڑھيوں سے اترتے اچانک پاؤں مڑ گيا تھا" زيبا نے نظريں چراتے ہوۓ کہا۔ 
“اوہ۔۔۔ خير اللہ بہتر کرے گا آپ لوگ دعا کريں" ڈاکٹر انہيں تسلی دلا کر اپنے روم کی جانب بڑھا۔
“کون سی راڈ" ڈاکٹر کے جانے کے بعد وہ ان سے مخاطب ہوا۔ 
“تمہيں اس سے کيا" زيبا نے خشمگيں نگاہوں سے اسے ديکھا۔ 
“کيون نہيں مجھےاس سے کچھ۔۔ بيوی ہے وہ ميری" وہ بے بس سا اپنی بات پر زور دے کر بولا۔ 
“کون سی بيوی ہاں۔۔۔۔ جسے تم نے بيوی نہيں مانا۔ اندھے نہيں ہيں ہم۔۔ تمہارا گريز ۔ تمہاری بيزاری سب نظر آتی ہے ہميں۔ يہی سوچا تھا کہ چلو شروعات ہے ابھی آہستہ آہستہ ٹھيک ہو جاؤ گے۔۔ ليکن نہيں۔، تم نے تو اسکی بڑی عمر کو اس کا جرم بنا ديا۔ نفرت کی اس انتہا تک پہنچ گۓ کہ اس معصوم کے ساتھ يہ سلوک کيا آج" سميع اسے بخشنے کو تيار نہيں تھے۔ 
“اسکی ہڈياں شروع سے مضبوط نہيں تھيں۔ خاص کردائيں ٹانگ کی ہڈياں کمزور تھيں اسی لئے چھوٹے ہوتے ہی ايک دو بار گرنے پر جب اسکی ٹانگ کی ہڈياں ٹوٹيں تو ڈاکٹرز نے راڈ لگا دئيے۔ اور کہاکہ يہ راڈز اب ساری زندگیی اسکی ٹانگ ميں لگيں گے۔ ذرا سا دھچکا يا ٹانگ کا مڑنا اسے عمر بھر کی معذوری کی طرف لے جاۓ گا۔ لہذا احتياط برتيں۔ يہی وجہ تھی اسکی دو بار منگنی ٹوٹنے کی۔سب يہی سمجھتے تھے کہ وہ معذور ہے حالانکہ صرف ہڈياں کمزور تھيں۔ اور ان کا علاج بھی راڈز کی صورت کرکے اس کمزوری کو کوور کر ليا گيا تھا 
مجھے جب شائستہ بھابھی نے بتايا مجھے بے حد تکليف پہنچی تبھی فيصلہ کرليا کہ اس نگينے کو اپنے گھر لے آؤں گی۔ کيا کسی کی ذرا سی کمزوری کو ہم اس کا گناہ بنا ديں۔ ہم کون ہوتے ہيں يہ سب کرنے والے۔ 
تمہيں اس سے دلچسپی ہی نہيں تھی تو تمہيں کيا بتاتے اور پھر جس طرح تم اس رشتے سے ہتھے سے اکھڑ رہے تھے عين ممکن تھا تمہيں بتا ديتے تو تم اسی بات کو جواز بنا کر اس سے شادی سے انکار کرليتے۔ 
مگر مجھے کيا پتہ تھا کہ اس بچی کے ساتھ ايسی ناقدری ميرے ہی گھر ميں ہوگی" زيبا نے روتے ہوۓ اس پر سب راز افشاں کئے۔ 
‘اوہ خدايا' سر تھامے بينچ پر بيٹھے اسے اپنی ہر زيادتی اور اسکی خاموشی ياد آئ۔ تو يہ وجہ تھی اسکی ہر الٹی سيدھی بکواس کو برداشت کرنے کی۔ اف وہ لڑکی اسکے لفظوں کے کون کون سے وار نہيں سہہ گئ۔ 
اسے شديد ندامت نے آگھيرا۔ 
کاش وہ اسے تھام ليتا۔۔ کاش وہ اپنے حواسوں ميں رہتا۔ ايک سيکنڈ کو موبائل چھوڑ کر اسکی جانب ديکھ ليتا۔ 
‘يقینا اسکا پاؤں مڑا ہوگا اور ساتھ ہی راڈ بھی کريک ہونے کی وجہ سے وہ توازن برقرار نہيں رکھ پائ ہوگی۔ اسی لئے اس نے مجھے تھاما ہوگا' سر ہاتھوں پر گراۓ اسے وہ ايک ايک لمحہ ياد آيا۔ اس کا بس نہيں چل رہا تھا وقت کو پیچھے موڑ لے۔ اسکی دلدوز چيخيں اب بھی اسکے کانوں ميں سنائ دے رہی تھيں۔ 
يکدم وہ وہاں سے اٹھ کر ڈاکٹر کے روم مين گيا۔ 
اس سے ڈيٹيل ميں اسکی کنڈيشن کے متعلق بات کی۔ 
“جتنا پيسہ چاہئيے ميں دوں گا۔ مگر اسے معذوری سے بچا ليں۔" وہ آج اس لڑکی کے لئے گڑگڑا رہا تھا جسے وہ اپنی بيوی ماننے سے انکاری تھا۔ جس سے تعلق توڑنے کا بہانا ڈھوںڈتا تھا۔ 
آج دل اسکی تکليف پر رو رہا تھا۔۔۔ کرلا رہا تھا۔
ڈاکٹر کے روم سے باہر آکر وہ سيدھا سامنے بينچ پر بيٹھی زيبا کے پاس آيا۔ 
“آئ سوئير ماں ميں نے اسے دھکا نہيں ديا تھا" واہب نے ايک آخری کوشش کی اپنی ��فائ دينے کی۔ 
“تھاما بھی تو نہيں تھا" دل سے کہيں آواز آئ۔ 
“چلو ميں مان ليتی ہوں کہ تم نے ايسی حرکت نہيں کی۔ ليکن آخر وہ تمہارے ساتھ ہی سيڑھياں اتر رہی تھی اگر وہ لڑکھڑائ تھی تو کيا تم سنبھال نہيں سکتے تھے۔" ماں تھيں کيسے نہ اصل بات کی تہہ تک پہنچتيں۔ 
وہ نادم سا خاموش ہوگيا۔
دو دن ہوگۓ تھے انہيں ہاسپٹل مين ڈاکٹرز نے اسی دن نئ راڈ ڈال دی تھی۔ راديا کے گھر والوں کو بھی بتا ديا تھا۔ ايک رات اسکی امی رہيں اور ايک رات زيبا۔ 
تيسرے دن ڈاکٹرز نے ڈسچارج کا کہا۔ 
“مجھے امی کے ساتھ جانا ہے" راديا نے ماں کو ديکھتے ہوۓ کہا۔ وہ مسلسل دو دن واہب کو نظر انداز کرتی رہی۔ حالانکہ وہ سارا وقت وہيں ہوتا تھا۔ 
مگر وہ ايسے شو کرتی جيسے وہ اسکے آس پاس کہيں ہے ہی نہيں۔ سب نے اسکی يہ سردمہری نوٹ کرلی تھی۔ 
“ديکھيں آپ کو جہاں بھی بچی کو لے کر جانا ہے بس يہ ياد رکھئيے گا کہ بيس دن تک اسے وہاں سے کہيں اور موو نہيں کرنا۔" ڈاکٹر اس وقت ڈسچارج شيٹ تيار کررہا تھا جب اس نے يہ بحث ديکھی۔ 
“آنٹی ہم اسے گھر لے جاتے ہيں کوئ ايشو نہيں ہے۔ ويسے بھی آپ لوگوں کا عمرے کا پلين ہے۔ اسے خراب مت کريں۔ يہ سعادت بار بار نہيں ملتی۔ راديا آرام سے گھر پر ہی رہے گی" واہب نے سنجيدگی سے شائستہ سے کہا۔ 
راديا کے علاوہ انکی دو ہی بيٹياں تھيں۔ فرح کی تو شادی ہوچکی تھی اب ساميہ ہی رہ گئ تھی وہ فی الحال پڑھ رہی تھی۔ شائستہ۔۔۔وہاج اور ساميہ کی دو دن بعد عمرہ کی فلائٹ تھی۔ 
راديا نے ايک خفا سی نگاہ ماں پر ڈالی جو واہب کی بات مان گئ تھيں۔ 
وہ منہ پھلاۓ گھر آئ۔ 
“ايسا کرتے ہيں يہ نيچے والے ہمارے کمرے ميں تم لوگ رہ لو ميں اور تمہارے ابو گيسٹ روم ميں شفٹ ہوجاتے ہيں" زيبا نے گھر پہنچتے ہی کہا۔ 
“نہيں امی آپ اور ابو تنگ ہوں گے۔ کوئ مسئلہ نہيں ميں اور راديا گيسٹ روم ميں شفٹ ہو جاتے ہيں۔"واہب نے انہيں فورا منع کيا۔ 
کام والی کو اپنے کمرے ميں بھيجا تاکہ وہ انکے کپڑے گيسٹ روم والی الماری ميں شفٹ کردے۔ 
راديا کو احتياط سے بيڈ پر بٹھايا۔ فی الحال اسے ٹانگ کو موڑنے سے منع کيا گيا تھا۔ 
راديا مسلسل خاموش تھی۔ اسکے چہرے پر ناگواری صاف پڑھی جاسکتی تھی۔ 
زيبا اور سميع کے ساتھ وہ نارمل تھی مگر واہب کو مخاطب تک نہيں کررہی تھی۔ نہ اسکی جانب ديکھ رہی تھی۔ 
واہب نے اسے حق بجانب سمجھا جو کچھ وہ اسکے ساتھ کر چکا تھا اسکے بدلے راديا کا رويہ اسے اپنے ساتھ بالکل ٹھيک لگا۔
رات ميں سونے کا وقت آيا تو تب بھی واہب نے زيبا کو اس کمرے ميں سونے سے منع کرديا۔ 
“آپ آرام سے ريسٹ کريں روزہ بھی رکھنا ہوگا صبح۔۔ بے آرام رہيں گی تو بی پی شوٹ کرجاۓ گا۔ ميں ہوں نا يہاں" واہب کے اصرار پر راديا کا دل کيا اسے بہروپيے کا دماغ ٹھکانے لگادے۔ وہ کيوں اب مہربان ہو رہی تھا۔ اب جب اسے ضرورت نہيں تھی۔ نہ اسکی نہ اس تعلق کی ۔ يہ آخری دھچکا بہت شديد لگا تھا۔ 
کيا تھا اگر وہ انسانيت کے ہی ناطے اسے اس دن تھام ليتا مگر جس طرح اس نے راديا کا ہاتھ جھٹکا۔ وہ جھٹکنا اسکے دل پر گھونسے کی طرح لگا تھا۔ 
اس چوٹ کی درد اب کبھی نہيں جانے والی تھی۔ 
“ديکھ لو بيٹا۔۔ تمہيں تنگی ہوگی۔۔" زيبا نے راديا کا خطرناک حد تک سنجيدہ چہرہ دیکھ کر کہا۔ 
وہ تو ماں باپ تھے انہوں نے واہب کو معاف کرديا تھا مگر وہ جس نے نجانے کيا کيا سہا تھا وہ کيسے معاف کرتی۔ 
“ميں نے فی الحال کچھ دن کا آف لے ليا ہے جو کوئ کام ہوگا وہ ميں گھر پر ليٹ ٹاپ پر کر لوں گا۔باقی ابو سنبھال ليں گے" اس نے رسانيت سے کہا۔ 
“اچھا چلو۔ کوئ مسئلہ ہو تو ہميں جگا دینا" وہ بادل نخواستہ وہاں سے اٹھيں۔ 
“زرينہ سے کہيں يہاں ليٹے۔۔" زيبا کے جاتے جيسے ہی واہب نے دروازہ بند کيا۔ راديا کی سپاٹ آواز سنائ دی۔ 
“ميں ہوں نا آپکے پاس" اس نے جیسے تسلی دلائ۔ 
“آپ ہين اسی لئے پريشانی ہے۔۔ رات کو اٹھ کر گر بھی گئ بيڈ سے تو آپ کيوں اٹھائيں گے" وہ زہر خند لہجے ميں بولی۔ واہب نے بڑے سکون سے اس کا يہ لہجہ برداشت کيا۔ 
کسی قسم کا ری ايکشن نہ ديکھ کر راديا حیران ہوئ۔ 
بڑے آرام سے اسکی دوائياں چيک کرکے اس نے نائٹ بلب آن کيا۔ لائٹ آف کرکے۔ اسکی جانب بڑھا وہ سانس روکے اسے اپنی جانب بڑھتا ہوا ديکھ رہی تھی۔ 
جھک کر اسے شانوں سے تھام کر آگے کيا۔ راديا کو لگا ايک سنسنی سی پورے جسم ميں پھيل گئ ہو۔ جو تين تکيے اسکے پيچھے ٹيک لگانے کے لئے رکھے تھے ان ميں سے دو ہٹاۓ۔ 
پھر اسے بازوؤں آگے کيا کيونکہ اس نے ابھی ٹانگ پر زيادہ زور نہيں دينا تھا۔ 
پھر دوبارہ سے اسے بيڈ پر اس طرح بٹھايا کہ وہ کمر سيدھی کرتی تو آرام سے ليٹ جاتی۔ 
راديا اسکے وجيہہ چہرے کو حيرت بھری نظروں سے ديکھ رہی تھی۔ نہ کوئ ناگواری تھی نہ کوئ بيزاری۔ 
ايسے جيسے محبتيں ٹپک رہی تھيں۔ وہ گم سم اسکی ايک ايک حرکت نوٹ کررہی تھی۔ اسے دوبارہ کندھوں سے تھام کر لٹايا۔ 
اسکی حيرت بھری نظروں ميں دیکھتے ايک جاندار مسکراہٹ اسکے چہرے پر پھيلی۔ 
پھر سيدھے ہوکر اسکی ٹانگوں پر کپڑا ديا۔
“کيوں کر رہے ہيں آپ یہ۔۔۔۔" آخر حیرت کو الفاظ ملے۔ 
“ميرا فرض ہے" بڑے آرام سے جواب ديا گيا ۔
“ميری کمزوری تو ويسے بھی اب آپکی نظروں ميں آگئ ہے ۔۔اب تو راستہ صاف ہے۔۔ اسے بہانہ بنا کر مجھے زندگی سے نکال ديں اور کسی اور کا ہاتھ تھام ليں۔" وہ اسکے قريب تکيہ رکھ کر ليٹا۔ ايک ہاتھ سر کے نيچے رکھے بڑی فرصت سے اسکی زبان کے تير سہہ رہا تھا۔۔
“وہ خير ميں لے ہی آؤں گا کسی کو زندگی ميں ۔۔۔۔ليکن آپ کو نہيں نکالنا۔۔ اگر نکال ديا تو لڑوں گا کس سے" شرارتی مسکراہٹ ہونٹوں ميں دباۓ وہ اسے پھر سے چڑا رہا تھا۔ 
“ہونہہ۔۔۔" راديا کو جب جواب سمجھ نہيں آيا تو غصے سے منہ دوسری جانب موڑ ليا۔ 
“ذہن پر اتنا بوجھ مت ڈاليں سوجائيں" تکيے پر سر رکھتے اسکا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ ميں تھاما۔ راديا نے جھٹکنا چاہا تو اور بھی مضبوطی سے تھاما۔ 
“ہاتھ ہٹائيں۔۔۔ کيوں پکڑا ہے" وہ دبے دبے انداز ميں چيخی۔ 
“اسی لئے کہ رات کو جب آپ ہلکی سی بھی جنبش کريں تو ميری آنکھ کھل جاۓ" محبت سے گندھا لہجہ راديا کے زخموں پر جيسے نمک بن کر لگا اور تکليف بڑھا گيا۔ 
“اتنی زحمت کی ضرورت نہيں تھی۔۔ اسی لئے کہا تھا زرينہ کو يہيں رکنے ديں" وہ سرد اور خشک لہجے ميں بولی۔ 
“کچھ دن کے لئے مجھے زرينہ سمجھ لو۔۔ اور اب خاموش ہو کر سوجاؤ۔۔پتہ نہيں کيسی نيند کی دوائ ڈاکٹر نے دی ہے لگتا ہے آپکی نيند اڑ گئ ہے" بڑبڑاتے ساتھ ہی وہ پھر سے آنکھيں بند کرکے ليٹ گيا۔ 
خاموشی چھائ تو راديا کو بھی نيند نے جکڑ ليا۔
___________________________
رات ميں کسی پل اس کا گلا خشک ہوا ايسے جيسے کانٹے چبھنے لگ گۓ ہوں۔ آنکھ کھول کر دائيں جانب سوئے واہب کی طرف ديکھا۔ اس کا ہاتھ ابھی اسکے ہاتھ ميں تھا۔ 
مگر گرفت اتنی مضبوط نہيں تھی۔ 
اس کا احسان لينے کی بجاۓ اس نے سوچا خود اٹھ کر پاس پڑے جگ سے پانی پی لے۔ ابھی ہاتھ آہستہ سے اسکے ہاتھ کے نيچے سے نکال ہی رہی تھی کہ واہب نے پٹ سے آنکھيں کھوليں۔ 
سرعت سے اٹھ بيٹھا۔ راديا نے کوفت سے اسے ديکھا۔ 
“کيا ہوا۔۔ کيا چاہئيے" تيزی سے اٹھ کر بيٹھا۔
“پانی لينا ہے ميں لے ليتی ہوں يہاں ہی تو پڑا ہے" اس کا بيزار سا لہجہ نظر انداز کرتے واہب اٹھا۔ 
اسکی سائيڈ پر آکر اسے اٹھنے ميں مدد دی۔ 
پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگايا جب راديا نے ناگواری سےاس کا ہاتھ جھٹک کر پيچھے کيا۔ 
“ٹانگ خراب ہے ہاتھ سلامت ہيں۔ ميں خود پی سکتی ہوں" راديا کی بات پر اس نے خاموشی سے گلاس اسکے ہاتھ ميں پکڑايا۔ پانی پی کر وہ واپس ليٹ گئ۔ 
“کيوں اتنے اچھے بن رہے ہيں۔۔ اب کون سا ڈرامہ رہ گيا ہے جو پلے کرنا باقی ہے" وہ الجھتی جارہی تھی۔ اسکی کسی تلخ بات پر وہ غصہ ہی نہيں ہورہا تھا۔ آخر ان چند دنوں ميں ايسی کيا کايا پلٹ ہوگئ تھی کہ وہ سب بھول گيا تھا۔ يہ بھی کہ وہ ايک ان چاہے رشتے کے سبب اسکے گھر۔۔ اسکے پاس موجود ہے۔ 
“صرف اتنی غرض ہے کہ شايد ميرے ايسا کرنے سے آپکی کوئ دعا مجھے لگے اور ميرے وہ کام جو سب الٹے ہوگۓ تھے سيدھے ہو جائيں" پرشوق نگاہوں سے اس کا الجھا بکھرا روپ ديکھا۔ 
“دعا تو کبھی نہيں نکلے گی اب" وہ تلخ لہجے ميں بولی۔ 
“لگی شرط" واہب نے يکدم اسکے سامنے اپنی چوڑی ہتھيلی پھيلائ۔ 
“مجھے ايسی بے ہودہ حرکتيں کرنے کا کوئ شوق نہيں" چہرہ موڑ کر وہ سپاٹ لہجے ميں بولی۔ 
اسی لمحے کمرے کا دروازہ بجا۔ 
واہب اٹھ کر بيٹھا۔ 
“آجائيں" زيبا نے اسکی اجازت ملتے ہی قدم اندر رکھے۔ 
“کيسی ہو بيٹا" محبت سے راديا کے قريب آتے اسکے ماتھے پر پيار کيا۔ 
“بہتر ہوں" اس نے ہلکی سی مسکراہٹ سجا کر جواب ديا۔ 
واہب نے حسرت سے اسکی مسکراہٹ ديکھی۔ 
“بيٹا روزہ رکھنا ہے؟" اب ان کا رخ واہب کی جانب تھا۔ 
“جی جی کيوں نہيں۔۔" کہتے ساتھ ہی وہ واش روم منہ ہاتھ دھونے چل پڑا۔ 
“ميں نے بھی رکھنا ہے" اس نے ضد کی۔ 
“بيٹا ويسے تو کوئ مسئلہ نہيں۔۔ليکن دوائياں لينی ہوں گی تمہيں تو" وہ ہچکچائيں۔ 
“آنٹی ميں نے اور کرنا ہی کيا ہے سارا دن تو بس يہيں بيٹھے رہنا ہے کون سا کوئ کام کرنا ہے کہ روزہ لگے گا" اس نے پھر سے کہا۔ 
واہب باہر آکر انکی تکرار سن رہا تھا۔ 
“اوکے آج کا رکھ کر ديکھ لو۔۔ اگر صحيح رہا تو جاری رکھ لينا" واہب نے مسئلہ کا حل نکالا۔ 
“ڈاکٹر سے نہيں پوچھا نا بيٹا" زيبا نے پھر سے کہا۔ 
“آپ سحری تيار کروائيں ميں ڈاکٹر سے ابھی کال کرکے پوچھ ليتا ہون۔ وہ بھی تو اس وقت سحری کے لئے اٹھے ہوں گے نا" اس نے موبائل پکڑتے ہوۓ ايک اور حل نکالا۔ 
راديا نے چور نظروں سے اسکی چوڑی پشت ديکھی۔ 
پھر ڈاکٹر کی اجازت ملتے ہی واہب اس کی اور اپنی سحری کمرے ميں ہی لے آيا۔ بيڈ پر زرينہ نے سب سليقے سے رکھا۔ 
واہب نے اسکی پليٹ ميں سالن نکالا۔۔روٹی اسے تھمائ۔۔
سحری کرنے کے بعد راديا نے وضو کرنے کی بھی ضد کی۔ 
��ميں بيٹھ کر تو نماز پڑھ سکتی ہوں نا" اسکی بات پر واہب نے اثبات ميں سر ہلاتے اسے سہارا دے کر کھڑا کيا۔ آہستہ آہستہ اسے چلاتے واش روم تک لے کر گيا۔ 
اس کی کمر کے گرد بازو باندھتے اسے وضو کرنے کا اشارہ کيا۔ راديان نے بازوؤں تک سب وضو آرام سے کرليا۔ اب پاؤں دھونے کی باری تھی۔ 
“باہر چلو ميں ايک باؤل مين پانا لاتا ہوں ہاتھوں پر لگا کر ہلکا سا مسح کرلينا" واہب کی بات پر اس نے ہولے سے سر ہلايا۔ واہب نے دوبارہ اسکے کندھوں کو تھام کر ہولے ہولے چلاتے بيڈ کے قريب لايا پھر بٹھاکر اسکی ٹانگ آہستہ سے تھام کر اوپر رکھی۔ 
ايا باؤل ميں پانی لايا راديا نے مسح کرکے دوپٹہ نماز کے انداز ميں باندھا اور بيٹھ کر نماز ادا کی۔ 
واہب بھی اتنی دير ميں نماز سے فارغ ہوا۔ 
“مجھے قرآن پکڑا ديں گے؟" ايک اور خواہش۔۔ 
واہب سر ہلاتے باہر گيا۔ واپسی پر اسکے ہاتھ ميں قرآن تھا۔ 
راديا کو پکڑايا۔ اور خود دوسری جانب جاکر ليٹ گيا۔ 
راديا زير لب قرآن پڑھ رہی تھی۔ 
“سنو" يکدم واہب نے اسے پکارا۔ راديا نے سواليہ نظروں سے اسکی جانب ديکھا۔ 
“اونچی آواز ميں قرآت کرو" اسکی فرمائش پر راديا نے لب بھينچے۔ وہی دن پھر سے ياد آيا۔ 
ٹھنڈی سانس لے کر اونچی آواز ميں پڑھنے لگی۔ 
واہب نے سر اسکے قريب اسی انداز ميں رکھا۔ 
اسکی آواز کی مٹھاس اس کے اندر گھلتی جارہی تھی۔
____________________________
وہ تيزی سے ری کور کررہی تھی۔ بوتيک کا کام اسکی اسسٹنٹ سنبھال رہی تھی۔ ايک آدھ دن بعد زيبا چکر لگا ليتی تھيں۔ وہ سب اسے ہتھيلی کا چھالا بناۓ ہوۓ تھے۔ 
باقی سب کی محبتوں پر تو اسے شک نہيں تھا ليکن واہب کا خيال رکھنا اور يوں اسے اہميت دینا اسکے اندر آگ لگا ديتا تھا۔ 
اپنی کم مائيگی کا ايک ايک لمحہ ياد آتا تھا۔ 
اسکے لفظوں سے دئيے جانے والے زخم ابھی ہرے ہی تھے۔
سارا دن اسکے پاس ہی کمرے ميں رہتے وہ آفس کا کام کرتا رہتا۔ اور اس دوران اس کا ايک ايک کام خود کرتا۔ 
آخری عشرہ بھی اختتام کو تھا۔ جب اس دن وہ مارکيٹ گيا اور واپسی پر راديا کے لئے ڈھيروں شاپنگ کرکے لايا۔ 
رات ميں جس وقت وہ اسے چيزيں دکھا رہا تھا اس کا دل کيا سب کچھ اٹھا کر گھر سے باہر پھينک دے۔۔ وہ کيوں يہ سب عنايتيں کررہا تھا۔ اب کيا مقصد تھا اس کا۔ 
“بس کريں۔۔۔ اتنے اچھے بننے کی ضرورت نہيں۔۔ آپ کا اصل روپ ديکھ چکی ہوں تو پھر اب يہ اچھائ کا ماسک پہن کر کيا ثابت کررہے ہيں۔۔ ہاں" وہ غصے ميں بھڑکتی ہوئ سب چيزيں ہاتھ مار کر بيڈ سے گرا چکی تھی۔ 
“اگر آپ کی يادداشت کھو چکی ہے تو بتاتی چلوں کہ آپ سے عمر ميں پانچ سال بڑی ہوں ميں۔۔ايک ان چاہی بيوی۔۔۔مجھ سے تو نفرت تھی آپ کو ۔۔ پھر يہ نوازشيں کيوں۔۔
۔ بے فکر رہيں کسی کو آپکے بارے ميں کچھ نہيں بتاؤں گی۔۔ جب دوسری شادی کا کہيں گے آپ کا ساتھ دوں گی۔ مگر يہ سب کرکے ميری اذيتوں ميں اضافہ مت کريں۔۔۔۔ پليز" وہ بے اختيار ہو کررو پڑی۔ 
“اگر ميں اپنے کئے کی معافی مانگوں کيا پھر بھی يقين نہيں آۓ گا" واہب ايک ايک چيز اٹھا کر سامنے پڑے صوفے پر رکھ کر اسکی جانب آيا۔ اسکے قريب نيچے بيٹھتے ہوۓ بولا۔ 
“کيوں ۔۔ کيوں چاہئيے معافی۔ آپ درست تھے۔۔ اور آپ درست ہيں۔۔ مجھے اپنے ماں باپ کی مجبورياں نظر نہ آتيں تو کبھی ايسا ابنارمل رشتہ نہ جوڑتی۔۔ ہر لمحہ ہر لمحہ آپ نے مجھے يہ احساس دلايا کہ ميں کوئ عمر رسيدہ عورت آپکے پلے بندھ گئ ہوں۔۔۔ مجھے اب آپکی معافی سے کوئ سروکار نہيں۔۔ 
ہمدردی کررہے ہيں نا۔۔ معذور ہوں مگر اتنی نہيں کہ اپنا بوجھ خود نہ اٹھا سکوں گی۔ بس اپنے ٹھيک ہونے کا انتظار کررہی ہوں جيسے ہی چلنے پھرنے لگی۔ آپ کی زندگی سے چلی جاؤں گی" اس کا ايک ايک لفظ واہب کو تکليف سے دوچار کررہا تھا۔ 
“يہ ہمدردی نہيں ہے بے وقوف" وہ ہولے سے مسکرايا۔ 
“اوہ۔۔بس کريں۔۔ محبت کے جھوٹے ڈھونگ مت رچائيں۔ صرف اسی لئے کہ ميں آپکی شخصيت سے متاثر ہوکر آپکے عشق ميں گرفتار نہيں ہوئ۔ آپ سے رحم کی بھيک نہيں مانگی۔۔۔ تو اس سب کا بدلہ يوں لے رہے ہيں۔ مجھ سے فلرٹ کرکے۔۔۔”
“ آنسو بے دردی سے صاف کرتی وہ بدگمانيوں کی انتہا پر تھی۔ 
“ہمارے معاشرے کا الميہ يہ ہے کہ بڑی عمر کی عورت سے شادی نہيں کرنی۔ ہاں فلرٹ جائز ہے۔ 
نجانے کتنی لڑکياں مجبوريوں کی آڑ ميں گھروں ميں بيٹھی ہيں۔ مگر لڑکوں نے ناجائز تعلقات تو بنا لينے ہيں مگر کسی بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کرکے اسے عزت نہيں دينی۔ 
اگر يہ ايسا ہی گناہ کا کام ہوتا تو ہمارے اسلام ميں ۔۔ ہمارے آخری پيارے نبی اپنی پہلی ہی شادی ايک بڑی عمر کی عورت کے ساتھ نہ کرتے۔ دس سال ۔۔۔پندرہ سال۔۔ حتی کے بيس بيس سال چھوٹی لڑکيوں سے شادی کرتے ہوۓ آپ جيسے لڑکوں کو شرم نہيں آتی ۔ مگر بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کرتے غيرت جاگ پڑتی ہے۔ ناانصافی لگتی ہے۔ 
چار شاديوں کے لئے تو آپ مردوں کو دين ياد آجاتا ہے کيونکہ وہاں اپنی غرض شامل ہوتی ہے۔ 
ہاں ليکن بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کرتے وقت اسے گناہ تصور کيا جاتا ہے ايسے جيسے وہ اچھوت ہو۔
آپ نے بھی مجھے اچھوت سمجھا۔ شروع دن سے بس يہی باور کروايا۔ ميری عمر بڑی ہے۔۔ ميری عمر بڑی ہے
کيا سوچ کر اب آپ محبت کے دعوے کررہے ہيں۔مطلب بھی جانتے ہين محبت کا۔۔ احساس۔۔ پيار۔۔۔ ايک دوسرے کو سمجھنا۔ ايک دوسرے کے لئے قربانی۔ آپ تو ميرا ہاتھ نہيں تھام سکتے مجھے سہارا نہيں دے سکتے۔ 
ہا۔۔۔ محبت کريں گے مجھ سے"جب وہ بولے پر آئ تو اگلے پچھلے تمام حساب چکا دئيے۔ واہب نے اسے ايک پل کو بھی نہيں ٹوکا۔ 
جتنی نفرت اسے دی تھی اسکے حساب سے تو يہ کچھ بھی نہيں تھا۔
“ہاں ميں جانتا ہوں مجھ سے يہ سب غلطياں سرزد ہوئيں۔ وہ شايد ردعمل تھا۔ 
کوئ بھی ميری بات سمجھنے کو تيار نہيں تھا۔ اور پھر لوگوں کی رشتہ داروں کی چہ مگوئياں۔ ہماری شادی پر بہت سے لوگوں کو مين نے يہ کہتے سناکہ' زيبا بھابھی اور سميع بھائ کو اتنی کيا جلدی تھی واہب کی شادی کی۔ اچھے بھلے لڑکے کی پانچ سال بڑی سے شادی کردی' تو کوئ يہ کہہ رہا تھا کہ' شہاب کا کيا دھونے کی خاطر بيچارے واہب کو پھنسا دیا’ 
خود سوچو ہم ايک معاشرے ميں رہتے ہيں جہاں ہر سوچ اور ذہن رکھنے والے لوگ موجود ہيں۔ اور لوگوں کی باتيں اتنی کاٹ دار ہوتی ہيں کہ وہ اچھے بھلے انسان کا دماغ خراب کرديں۔ 
ميں پہلے ہی الجھا ہوا تھا اس پر لوگوں کی باتيں۔ 
بس ميں وہ سب کرگيا جو مجھے نہيں کرنا چاہئيے تھا۔ 
مگر آپ اگر تھوڑا سا مجھے سمجھ ليتی شايد حالات بہتر ہوتے۔ 
آپ کا دل شکن رويہ ميری ہر بات پر پورا مقابلہ۔۔" اسکی بات ختم نہيں ہوئ تھی کہ راديا کچھ کہنے کے لئے منہ کھولنے لگی۔
“پليز پوری بات سن لو" واہب نے اسے روکا۔ 
“ميں آپ کو قصوروار نہيں کہہ رہا کيونکہ شروع ميں نے کيا تھا۔ ظاہر ہے آپ کو اپنا بھرم رکھنے کے لئے اتنا تو کرنا ہی تھا۔ 
بہرحال جو بھی ہوا ميں اپنے کئے پر بے حد نادم ہوں۔ بس اتنی خواہش ہے کہ مجھے معاف کردو۔ 
آپکا ہاتھ جھٹکنے کا کفارہ تو ساری عمر دينا ہوگا۔ 
مگر آپ اب ميرا بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک کر بدلہ لے رہی ہو" واہب اسے اپنے رويے کی ايک ايک وجہ بتاتا چلا گيا۔ 
“نہيں واہب ميں اتنی آسانی سے وہ سب نہيں بھول سکتی۔ بنا کسی قصور کے آپ نے اتنا کچھ کہہ ديا۔۔مجھے عجيب نفرت ہونے لگ گئ ہے خود سے" وہ کھوۓ ہوۓ لہجے ميں بولی۔ 
“اچھا بتاؤ کيا کروں کہ آپ ان سب باتوں کو بھول جاؤ" واہب نے ہتھيار پھينکتے ہوۓ مصالحت بھرا لہجہ اپناتے ہوۓ کہا۔ 
“مجھے اپنی زندگی سے جانے ديں" راديا کی بات پر وہ سن رہ گيا۔ 
“اور کتنی اذيت دوگی" کيا کچھ نہيں تھا اس بے بس لہجے ميں۔ 
“جب تک ميری اذيت کم نہيں ہوتی" وہ گود ميں رکھے ہاتھوں کی جانب دیکھتے کھردرے لہجے ميں بولی۔ 
واہب نے لب بھينچے۔ اس کے پاس سے اٹھ کر کھڑا ہوا۔ 
چند لمحے اسکے جھکے سر کو دیکھتا رہا۔ 
پھر جھک کر اسکی پيشانی پر محبت کی مہر ثبت کر کے پيچھے ہٹ گيا۔ 
راديا نے نفرت سے ماتھا رگڑا۔ 
جيسے اس کا لمس مٹانے کی کوشش کررہی ہو۔ 
واہب نے تکليف سے يہ منظر دیکھا۔ 
خاموشی سے گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل گيا۔ 
راديا اب خود کافی ہل جل ليتی تھی۔ 
گردن موڑ کر اسے باہر جاتا ديکھا۔ 
پھر خاموشی سے آگے ہوئ اور تکيے پر سر رکھ کر ليٹ گئ۔ دل کی بھڑاس تو نکال ��کی تھی مگر نيند پھر بھی آنکھوں سے کوسوں دور تھی
______________________________
وہ بے مقصد سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہا۔ ايک ہاتھ اسٹيرنگ پر تھا تو دوسرا بالوں ميں پھير رہا تھا
راديا کا ايک ايک لفظ سچ تھا۔ واقعی اس معاشرے ميں ہم نے ايک نہايت جائز رشتے کو گناہ بنا ديا ہے۔ 
جہاں کوئ لڑکا بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کرے۔ نہ صرف لڑکے کو باتيں سنائ جاتی ہيں۔ ب
بلکہ لڑکی کو سب سے زيادہ تضحيک کا نشانہ بنايا جاتا ہے۔ بار بار يہ جتايا جاتا ہے کہ'اپنی عمر ديکھے اور يہ لچھن’ 
‘ہو ہاۓ۔۔چھوٹے لڑکے سے شادی کرلی اتنا بھی کيا بے شرمی۔’ 
‘اس کو ديکھو اسکی جوانی ہی ختم نہيں ہورہی اپنے سے چھوٹے سے شادی کرڈالی۔' اور نجانے کتنے ہی ايسے زہر ميں ڈوبے الفاظ استعمال کئے جاتے ہيں۔ 
ايک لڑکا اور لڑکی چاہے جس بھی عمر کے ہوں وہ ناجائز تعلق قائم کرليں۔ ہميں وہ گوارا ہے مگر کيا جائز رشتے ميں بندھ جائيں تو اسے ہم ناجائز بنانے پر تل جاتے ہيں۔ 
واہب کو اپنا آپ بالکل خالی محسوس ہورہا تھا۔ 
پڑھا لکھا ہو کر بھی اس نے کتنی گھٹيا حرکت کی تھی۔ 
وہ جب جب اسکے ساتھ کھڑی ہوتی اسے ماں کے الفاظ ياد آتے۔' تم اس سے بڑے لگتے ہو وہ چھوٹی ہی لگتی ہے' وہ اتنی نازک سی تھی کہ واہب کو کئ بار ماں کی کہی يہ بات سچ لگی۔ 
اور اگر وہ اتنی کامنی سی نہ بھی ہوتی تو بھی کيا۔ 
بہت سی لڑکياں شادی کے بعد اتنی بے ڈول ہوجاتی ہيں کہ مياں سے بڑی لگتی ہيں۔ چاہے دس سال چھوٹی ہوں۔ 
‘افف ميں نے کيوں اتنی جلدبازی اور بے وقوفی کا ثبوت دیا تھا' اسے رہ رہ کر خود پر غصہ آرہا تھا۔ 
کيسے وہ اسکے دل سے اپنے الفاظ کو کھرچ ڈالے۔
صحيح کہتے ہيں 'زبان سے نکلے الفاظ اور کمان سے نکلا تير کبھی واپس نہيں آتے' بس پچھتاوا رہ جاتا ہے۔ 
اور وہ پل پل اب اس پچھتاوے کی آگ ميں جھلس رہا تھا۔
There’s a time of day
When the night it seems like it’s never gonna fall
But I find a way
Yeah I’ll fight and if I can’t walk you know I’ll crawl
When I close my eyes
Well I’m back to where I wish I was for now
Going back in time
And I stay as long as my mind will allow
So tell me once, tell me twice
Tell me three times, tell me four
Tell me what ya want to do
Tell me what you need
Tell me what you seem to dream the most
Cause I’ll be anything for you
Well I don’t know why
But time can’t seem to temper my regret
Sometimes I lie
To myself and say I’ve learned how to forget
Well it seems to me
That you couldn’t help yourself but to deceive
And I came to see
That the way I’ve learned to live is justly
I’m running circles
I’m outta my mind
I lost my grip
On this thing called time
I’m gone
It’s gone
I’m empty still
But I’ll keep moving
I always will
I’m gone
وہ پل پل اس آگ ميں جھلس رہا تھا کہ کاش وہ وقت کو پيچھے لے آتا۔۔ کاش وہ اپنے اور راديا کے رشتے کو يوں بگاڑنے کی بجاۓ کچھ وقت دے ديتا۔ 
مگر اب لگتا تھا کچھ نہيں بچا۔ وہ تو واپس پلٹنے کو تيار ہی نہيں تھی۔
_____
0 notes
iloveurdu · 7 years ago
Text
کدی تے پیکے جا نی بیگم
کدی تے پیکے جا نی بیگم آوے سُکھ دا ساہ نی بیگم کٹھیاں رہ رہ اَک گئے آں ہن لاگے بہ بہ تھک گئے آں ہن ٹینڈے وانگوں پک گئے آں ہن تے پر وی نکو نک گئے آں ہن ہن تے سینے ٹھنڈ پا نی بیگم کدی تے پیکے جا نی بیگم اِکو چھپڑ دے وچ تر کے کی لبا اے شادی کر کے جندڑی لنگ چلی مر مر کے ادھے رہ گئے آں ڈر ڈر کے مل گئی اے بڑی سزا نی بیگم کدی تے پیکے جا نی بیگم تے کی کی رنگ ��خا دتے نی سجن یار چھڈا دتے نی پشلے پیار پُلا دتے نی بیگن تک کھوا دتے نی ترس کوئی ہن کھا نی بیگم کدی تے پیکے جا نی بیگم تے شام منان نوں دل کردا اے سغرٹ پان نوں دل کردا اے باروں کھان نوں دل کردا اے تازے نان نوں دل کردا اے کردے پُورے چا نی بیگم کدی تے پیکے جا نی بیگم تے اپنی مرضی آیے جایے مُنڈیاں ورگے کپڑے پایے راتاں نوں سُکھ رات بنایے کُج دن اسی وی عید منایے بدلے ذرا ہوا نی بیگم کدی تے پیکے جا نی بیگم
1 note · View note
cleopatrarps · 6 years ago
Text
کیا محمد بن سلمان پاک بھارت کشیدگی کم کروا سکتے ہیں؟
Tumblr media
واشنگٹن — 
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے دورہ پاکستان کے دوران 20 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری منصوبوں کا اعلان کرنے کے بعد آج دو روزہ دورے پر بھارت پہنچ چکے ہیں، جہاں دونوں ملکوں کے مابین کئی ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط متوقع ہیں۔
سعودی ولی عہد کا پاکستان اور بھارت کا دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب پلوامہ خودکش حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی عروج پر ہے اور الفاظ کی جنگ جاری ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے حملے کی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی ہے۔ لیکن، ساتھ ہی پاکستان کے خلاف کارروائی کی صورت میں جوابی حملے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ دوسری جانب، بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کا محور ہے اور تحقیقات میں عمران خان کی پیشکش بے معنی ہے۔
کیا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان اور بھارت کے مابین اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں، ایک معروف بھارتی دفائی تجزیہ کار، ادھے بھاسکر کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب اسوقت پاکستان کے خلاف بھارت کی تمام سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر ہیں اور سوشل میڈیا پر بھارتی عوام بھی غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں، محمد بن سلمان کا بھارتی عہدیداروں کے ساتھ اس موضوع پر بات کرنے کا کوئی زیادہ اثر نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت چاہے گی کہ شہزادہ محمد بن سلمان بھارت کی سرمین پر اس واقعے کی مذمت کریں اور پاکستان سے دہشتگردوں کی معاونت نہ کرنے کا مطالبہ کریں۔
ایک سوال کے جواب میں، ادھے بھاسکر کا کہنا تھا کہ کشمیر پر بھارت کا ایک مضبوط موقف ہے اور وہ کسی تیسری پارٹی کی مداخلت قبول نہیں کرتا۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ نوبت فوجی کارروائی تک نہیں آئے گی، کیونکہ، بقول انکے، جنگ کے نتائج کیا نکلیں گے، اس سے دونوں ممالک بخوبی آگاہ ہیں۔
بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر، جاوید حسن کہتے ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان دیکھ چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ایک نازک مرحلے سے گزر رہے ہیں اور وہ دورہٴ بھارت کے دوران اپنے طور پر اس کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن، وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہں، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ’آرگنائیزیشن آف اسلامک کانفرنس‘ میں مسئلہٴ کشمیر پر پاکستان اور سعودی عرب کا موقف ایک ہے۔ اسل��ے وہ بھارت میں پاکستان کے خلاف کھبی کوئی مذمتی بیان نہیں دیں گے۔
��وسری طرف سعودی عرب سے ایک سینئر صحافی، امیر محمد خان کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب سعودی عرب بھارت اور پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو۔ انکا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں صرف محمد بن سلمان کو نہیں بلکہ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی قوتوں کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ، بقول انکے، سوشل میڈیا کے اس دور میں دونوں حکومتوں پر دباؤ پڑنے کی صورت میں حالات کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں۔
سعودی عرب کے خارجہ امور کے وزیر، عادل الجبیر نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ وہ بھارت کے دورے کے دوران، بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش کرینگے۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کو ایک جیسے مسائل درپیش ہیں جن میں دہشتگردی بھی شامل ہے۔ انکا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی خواہش ہے کہ دونوں ملک بات چیت کے ذریعے باہمی مسائل کا حل نکالیں اور پرامن پڑوسیوں کی طرح رہیں۔
The post کیا محمد بن سلمان پاک بھارت کشیدگی کم کروا سکتے ہیں؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2IDaepR via Today Urdu News
0 notes
jebandepourtoipetite · 6 years ago
Text
کیا محمد بن سلمان پاک بھارت کشیدگی کم کروا سکتے ہیں؟
Tumblr media
واشنگٹن — 
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے دورہ پاکستان کے دوران 20 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری منصوبوں کا اعلان کرنے کے بعد آج دو روزہ دورے پر بھارت پہنچ چکے ہیں، جہاں دونوں ملکوں کے مابین کئی ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط متوقع ہیں۔
سعودی ولی عہد کا پاکستان اور بھارت کا دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب پلوامہ خودکش حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی عروج پر ہے اور الفاظ کی جنگ جاری ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے حملے کی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی ہے۔ لیکن، ساتھ ہی پاکستان کے خلاف کارروائی کی صورت میں جوابی حملے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ دوسری جانب، بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کا محور ہے اور تحقیقات میں عمران خان کی پیشکش بے معنی ہے۔
کیا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان اور بھارت کے مابین اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں، ایک معروف بھارتی دفائی تجزیہ کار، ادھے بھاسکر کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب اسوقت پاکستان کے خلاف بھارت کی تمام سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر ہیں اور سوشل میڈیا پر بھارتی عوام بھی غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں، محمد بن سلمان کا بھارتی عہدیداروں کے ساتھ اس موضوع پر بات کرنے کا کوئی زیادہ اثر نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت چاہے گی کہ شہزادہ محمد بن سلمان بھارت کی سرمین پر اس واقعے کی مذمت کریں اور پاکستان سے دہشتگردوں کی معاونت نہ کرنے کا مطالبہ کریں۔
ایک سوال کے جواب میں، ادھے بھاسکر کا کہنا تھا کہ کشمیر پر بھارت کا ایک مضبوط موقف ہے اور وہ کسی تیسری پارٹی کی مداخلت قبول نہیں کرتا۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ نوبت فوجی کارروائی تک نہیں آئے گی، کیونکہ، بقول انکے، جنگ کے نتائج کیا نکلیں گے، اس سے دونوں ممالک بخوبی آگاہ ہیں۔
بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر، جاوید حسن کہتے ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان دیکھ چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ایک نازک مرحلے سے گزر رہے ہیں اور وہ دورہٴ بھارت کے دوران اپنے طور پر اس کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن، وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہں، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ’آرگنائیزیشن آف اسلامک کانفرنس‘ میں مسئلہٴ کشمیر پر پاکستان اور سعودی عرب کا موقف ایک ہے۔ اسلئے وہ بھارت میں پاکستان کے خلاف کھبی کوئی مذمتی بیان نہیں دیں گے۔
دوسری طرف سعودی عرب سے ایک سینئر صحافی، امیر محمد خان کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب سعودی عرب بھارت اور پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو۔ انکا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں صرف محمد بن سلمان کو نہیں بلکہ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی قوتوں کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ، بقول انکے، سوشل میڈیا کے اس دور میں دونوں حکومتوں پر دباؤ پڑنے کی صورت میں حالات کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں۔
سعودی عرب کے خارجہ امور کے وزیر، عادل الجبیر نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ وہ بھارت کے دورے کے دوران، بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش کرینگے۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کو ایک جیسے مسائل درپیش ہیں جن میں دہشتگردی بھی شامل ہے۔ انکا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی خواہش ہے کہ دونوں ملک بات چیت کے ذریعے باہمی مسائل کا حل نکالیں اور پرامن پڑوسیوں کی طرح رہیں۔
The post کیا محمد بن سلمان پاک بھارت کشیدگی کم کروا سکتے ہیں؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2IDaepR via
0 notes
indy-guardiadossonhos · 6 years ago
Text
کیا محمد بن سلمان پاک بھارت کشیدگی کم کروا سکتے ہیں؟
Tumblr media
واشنگٹن — 
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے دورہ پاکستان کے دوران 20 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری منصوبوں کا اعلان کرنے کے بعد آج دو روزہ دورے پر بھارت پہنچ چکے ہیں، جہاں دونوں ملکوں کے مابین کئی ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط متوقع ہیں۔
سعودی ولی عہد کا پاکستان اور بھارت کا دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب پلوامہ خودکش حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی عروج پر ہے اور الفاظ کی جنگ جاری ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے حملے کی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی ہے۔ لیکن، ساتھ ہی پاکستان کے خلاف کارروائی کی صورت میں جوابی حملے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ دوسری جانب، بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کا محور ہے اور تحقیقات میں عمران خان کی پیشکش بے معنی ہے۔
کیا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان اور بھارت کے مابین اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں، ایک معروف بھارتی دفائی تجزیہ کار، ادھے بھاسکر کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب اسوقت پاکستان کے خلاف بھارت کی تمام سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر ہیں اور سوشل میڈیا پر بھارتی عوام بھی غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں، محمد بن سلمان کا بھارتی عہدیداروں کے ساتھ اس موضوع پر بات کرنے کا کوئی زیادہ اثر نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت چاہے گی کہ شہزادہ محمد بن سلمان بھارت کی سرمین پر اس واقعے کی مذمت کریں اور پاکستان سے دہشتگردوں کی معاونت نہ کرنے کا مطالبہ کریں۔
ایک سوال کے جواب میں، ادھے بھاسکر کا کہنا تھا کہ کشمیر پر بھارت کا ایک مضبوط موقف ہے اور وہ کسی تیسری پارٹی کی مداخلت قبول نہیں کرتا۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ نوبت فوجی کارروائی تک نہیں آئے گی، کیونکہ، بقول انکے، جنگ کے نتائج کیا نکلیں گے، اس سے دونوں ممالک بخوبی آگاہ ہیں۔
بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر، جاوید حسن کہتے ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان دیکھ چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ایک نازک مرحلے سے گزر رہے ہیں اور وہ دورہٴ بھارت کے دوران اپنے طور پر اس کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن، وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہں، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ’آرگنائیزیشن آف اسلامک کانفرنس‘ میں مسئلہٴ کشمیر پر پاکستان اور سعودی عرب کا موقف ایک ہے۔ اسلئے وہ بھارت میں پاکستان کے خلاف کھبی کوئی مذمتی بیان نہیں دیں گے۔
دوسری طرف سعودی عرب سے ایک سینئر صحافی، امیر محمد خان کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب سعودی عرب بھارت اور پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو۔ انکا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں صرف محمد بن سلمان کو نہیں بلکہ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی قوتوں کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ، بقول انکے، سوشل میڈیا کے اس دور میں دونوں حکومتوں پر دباؤ پڑنے کی صورت میں حالات کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں۔
سعودی عرب کے خارجہ امور کے وزیر، عادل الجبیر نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ وہ بھارت کے دورے کے دوران، بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش کرینگے۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کو ایک جیسے مسائل درپیش ہیں جن میں دہشتگردی بھی شامل ہے۔ انکا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی خواہش ہے کہ دونوں ملک بات چیت کے ذریعے باہمی مسائل کا حل نکالیں اور پرامن پڑوسیوں کی طرح رہیں۔
The post کیا محمد بن سلمان پاک بھارت کشیدگی کم کروا سکتے ہیں؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2IDaepR via Urdu News
0 notes
azharniaz · 4 years ago
Text
تاج بی بی بلقیس مکانی وفات 19 اپریل
تاج بی بی بلقیس مکانی وفات 19 اپریل
جگت گوسائیں یا بلقیس مکانی (پیدائش: 13 مئی 1573ء— وفات: 19 اپریل 1619ء) مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر کی بیوی اور مغل ہندوستان کی ملکہ تھی۔ جگت گوسائیں کا بیٹا شاہ جہاں تھا۔ جگت گوسائیں کی پیدائش 13 مئی 1573ء کو جودھ پور میں ہوئی۔ مغل تواریخ میں جگت گوسائیں کو عموماً جودھ پوری شاہزادی کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔جگت گوسائیں کا باپ راجہ ادھے سنگھ تھا جو موٹا راجا بھی کہلاتا تھا۔ ماں رانی من رنگ…
View On WordPress
0 notes
newestbalance · 6 years ago
Text
کیا محمد بن سلمان پاک بھارت کشیدگی کم کروا سکتے ہیں؟
Tumblr media
واشنگٹن — 
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے دورہ پاکستان کے دوران 20 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری منصوبوں کا اعلان کرنے کے بعد آج دو روزہ دورے پر بھارت پہنچ چکے ہیں، جہاں دونوں ملکوں کے مابین کئی ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط متوقع ہیں۔
سعودی ولی عہد کا پاکستان اور بھارت کا دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب پلوامہ خودکش حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی عروج پر ہے اور الفاظ کی جنگ جاری ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے حملے کی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی ہے۔ لیکن، ساتھ ہی پاکستان کے خلاف کارروائی کی صورت میں جوابی حملے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ دوسری جانب، بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کا محور ہے اور تحقیقات میں عمران خان کی پیشکش بے معنی ہے۔
کیا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان اور بھارت کے مابین اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں، ایک معروف بھارتی دفائی تجزیہ کار، ادھے بھاسکر کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب اسوقت پاکستان کے خلاف بھارت کی تمام سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر ہیں اور سوشل میڈیا پر بھارتی عوام بھی غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں، محمد بن سلمان کا بھارتی عہدیداروں کے ساتھ اس موضوع پر بات کرنے کا کوئی زیادہ اثر نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت چاہے گی کہ شہزادہ محمد بن سلمان بھارت کی سرمین پر اس واقعے کی مذمت کریں اور پاکستان سے دہشتگردوں کی معاونت نہ کرنے کا مطالبہ کریں۔
ایک سوال کے جواب میں، ادھے بھاسکر کا کہنا تھا کہ کشمیر پر بھارت کا ایک مضبوط موقف ہے اور وہ کسی تیسری پارٹی کی مداخلت قبول نہیں کرتا۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ نوبت فوجی کارروائی تک نہیں آئے گی، کیونکہ، بقول انکے، جنگ کے نتائج کیا نکلیں گے، اس سے دونوں ممالک بخوبی آگاہ ہیں۔
بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر، جاوید حسن کہتے ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان دیکھ چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ایک نازک مرحلے سے گزر رہے ہیں اور وہ دورہٴ بھارت کے دوران اپنے طور پر اس کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن، وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہں، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ’آرگنائیزیشن آف اسلامک کانفرنس‘ میں مسئلہٴ کشمیر پر پاکستان اور سعودی عرب کا موقف ایک ہے۔ اسلئے وہ بھارت میں پاکستان کے خلاف کھبی کوئی مذمتی بیان نہیں دیں گے۔
دوسری طرف سعودی عرب سے ایک سینئر صحافی، امیر محمد خان کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب سعودی عرب بھارت اور پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو۔ انکا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں صرف محمد بن سلمان کو نہیں بلکہ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی قوتوں کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ، بقول انکے، سوشل میڈیا کے اس دور میں دونوں حکومتوں پر دباؤ پڑنے کی صورت میں حالات کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں۔
سعودی عرب کے خارجہ امور کے وزیر، عادل الجبیر نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ وہ بھارت کے دورے کے دوران، بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش کرینگے۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کو ایک جیسے مسائل درپیش ہیں جن میں دہشتگردی بھی شامل ہے۔ انکا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی خواہش ہے کہ دونوں ملک بات چیت کے ذریعے باہمی مسائل کا حل نکالیں اور پرامن پڑوسیوں کی طرح رہیں۔
The post کیا محمد بن سلمان پاک بھارت کشیدگی کم کروا سکتے ہیں؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2IDaepR via Urdu News
0 notes
thebestmealintown · 6 years ago
Text
کیا محمد بن سلمان پاک بھارت کشیدگی کم کروا سکتے ہیں؟
Tumblr media
واشنگٹن — 
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے دورہ پاکستان کے دوران 20 ارب ڈالر کے سرمایہ کاری منصوبوں کا اعلان کرنے کے بعد آج دو روزہ دورے پر بھارت پہنچ چکے ہیں، جہاں دونوں ملکوں کے مابین کئی ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط متوقع ہیں۔
سعودی ولی عہد کا پاکستان اور بھارت کا دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب پلوامہ خودکش حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی عروج پر ہے اور الفاظ کی جنگ جاری ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے حملے کی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی ہے۔ لیکن، ساتھ ہی پاکستان کے خلاف کارروائی کی صورت میں جوابی حملے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ دوسری جانب، بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کا محور ہے اور تحقیقات میں عمران خان کی پیشکش بے معنی ہے۔
کیا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان اور بھارت کے مابین اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں، ایک معروف بھارتی دفائی تجزیہ کار، ادھے بھاسکر کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب اسوقت پاکستان کے خلاف بھارت کی تمام سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر ہیں اور سوشل میڈیا پر بھارتی عوام بھی غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں، محمد بن سلمان کا بھارتی عہدیداروں کے ساتھ اس موضوع پر بات کرنے کا کوئی زیادہ اثر نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت چاہے گی کہ شہزادہ محمد بن سلمان بھارت کی سرمین پر اس واقعے کی مذمت کریں اور پاکستان سے دہشتگردوں کی معاونت نہ کرنے کا مطالبہ کریں۔
ایک سوال کے جواب میں، ادھے بھاسکر کا کہنا تھا کہ کشمیر پر بھارت کا ایک مضبوط موقف ہے اور وہ کسی تیسری پارٹی کی مداخلت قبول نہیں کرتا۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ نوبت فوجی کارروائی تک نہیں آئے گی، کیونکہ، بقول انکے، جنگ کے نتائج کیا نکلیں گے، اس سے دونوں ممالک بخوبی آگاہ ہیں۔
بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر، جاوید حسن کہتے ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان دیکھ چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ایک نازک مرحلے سے گزر رہے ہیں اور وہ دورہٴ بھارت کے دوران اپنے طور پر اس کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن، وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہں، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ’آرگنائیزیشن آف اسلامک کانفرنس‘ میں مسئلہٴ کشمیر پر پاکستان اور سعودی عرب کا موقف ایک ہے۔ اسلئے وہ بھارت میں پاکستان کے خلاف کھبی کوئی مذمتی بیان نہیں دیں گے۔
دوسری طرف سعودی عرب سے ایک سینئر صحافی، امیر محمد خان کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب سعودی عرب بھارت اور پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو۔ انکا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں صرف محمد بن سلمان کو نہیں بلکہ اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی قوتوں کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ، بقول انکے، سوشل میڈیا کے اس دور میں دونوں حکومتوں پر دباؤ پڑنے کی صورت میں حالات کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں۔
سعودی عرب کے خارجہ امور کے وزیر، عادل الجبیر نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ وہ بھارت کے دورے کے دوران، بھارت اور پاکستان کے مابین کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش کرینگے۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کو ایک جیسے مسائل درپیش ہیں جن میں دہشتگردی بھی شامل ہے۔ انکا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی خواہش ہے کہ دونوں ملک بات چیت کے ذریعے باہمی مسائل کا حل نکالیں اور پرامن پڑوسیوں کی طرح رہیں۔
The post کیا محمد بن سلمان پاک بھارت کشیدگی کم کروا سکتے ہیں؟ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2IDaepR via India Pakistan News
0 notes
gcn-news · 4 years ago
Text
پشاور بی آر ٹی: کارخانو مارکیٹ سے چمکنی کا سفر ایک گھنٹے میں
پشاور کا بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کتنا ہی متنازع منصوبہ کیوں نہ ہو  لیکن یہ بھی ایک سچ ہے کہ یہ ایک اچھی سہولت ہے جو کہ ترقی پذیر ممالک اور معاشروں کے عوام کی زندگی میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ انہیں ذہنی آسودگی بھی فراہم کرتا ہے۔ پچھلے دو سال سے پاکستان کے عوام اس منصوبے کے حوالے سے ایک ہی سوال پوچھتے آرہے ہیں کہ یہ منصوبہ کب مکمل ہوگا۔ انڈپینڈنٹ اردو نے ایک ویڈیو رپورٹ کے ذریعے بی آر ٹی کو دکھایا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادھے سے زیادہ کام مکمل ہو گیا ہے اور بہت جلد یہ بسیں مسافروں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچاتی ہوئی نظر آئیں گی۔ بی آر ٹی میں کُل 220 ایئر کنڈیشنڈ چھوٹی بڑی بسیں ہیں۔ اس کا رستہ شاہراہ حیات آباد کارخانو مارکیٹ سے چمکنی تک بنا ہوا ہے  جس کے درمیان 31 سٹاپ آتے ہیں، لہذا پہلی منزل سے آخری منزل تک کا فاصلہ ایک گھنٹے میں طے ہوگا۔ بی آر ٹی منصوبے کا انتظام و انصرام سنبھالنے والے ادارے ٹرانس پشاور کے اشفاق رؤف کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ  کوریڈور پر ایک اور  سروس بھی چلے گی جو بی آر ٹی ایکسپریس روٹ ہوگی۔ ان کے بقول :’یہ Read the full article
0 notes