#مارکیٹ
Explore tagged Tumblr posts
topurdunews · 10 days ago
Text
ڈالر سستا ہو گیا اسٹاک مارکیٹ میں دوسرے روز بھی مندی
(24نیوز)پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں دوسرے روز بھی مندی کا رجحان رہا جبکہ ڈالر کی قیمت میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ کاروبار کے آغاز پر اسٹاک مارکیٹ کے 100 انڈیکس میں 47 پوائنٹس کی کمی ریکارڈ کی گئی جس سے انڈیکس 93 ہزار 177 پوائنٹس پر ٹریڈ کرتے دیکھا گیا۔ خیال رہے دو دن قبل اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین 94 ہزار کی سطح پر پہنچ گئی تھی جس کے بعد انڈیکس تنزلی کا شکار ہوا۔ یہ بھی پڑھیں: مختلف علاقوں میں…
0 notes
pinoytvlivenews · 1 month ago
Text
انٹر بینک میں ڈالر کا راج اوپن مارکیٹ میں روپے نے درگت بنا دی
(اشرف خان)معاشی استحکام کیلئے حکومتی اقدامات کا اثر یا کچھ اور ؟ انٹر بینک میں ڈالر کی قدر میں معمولی اضافہ ہو جبکہ اوپن مارکیٹ میں روپے نے ڈالرسمیت دیگر کرنسیوں کی درگت بنا ڈالی ۔ اسٹیٹ بینک  کے مطابق انٹر بینک میں ڈالر 2 پیسے مہنگا ہونے کے بعد 277.64 روپے سے بڑھ کر 277.66روپے پر بند ہوا ، دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر 10 پیسے سستا ہوکر 279.35 روپے کا ہوگیا ،یورو 38  پیسے کمی سے 304.30…
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
ہفتہ وار مہنگائی میں 28 فیصد اضافہ،آٹا، ، چاول، چینی، مرغی کے گوشت کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئیں
پاکستان میں سالانہ بنیادوں پر ہفتہ وار مہنگائی میں 28 اعشاریہ نوفیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق موجودہ ہفتے کے مقابلے میں گزشتہ سال جولائی کے مہینے کے مقابلے میں خوردنی اشیا کی قیمتوں میں یہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ادارے کے مطابق زیر جائزہ ہفتے میں جولائی کے مہینے کے گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں بھی مہنگائی کی شرح میں 0.33 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اعداد و شمار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 1 month ago
Text
 سٹاک مارکیٹ میں انڈیکس87 ہزار پوائنٹس کی حد عبورکرگیا
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ایس ای-100 انڈیکس 602 پوائنٹس بڑھ کر تاریخ میں پہلی بار87 ہزار کی نفسیاتی حد عبورکر گیا۔ کے ایس ای-100 انڈیکس727 پوائنٹس یا 0.84 فیصداضافے کےبعد87 ہزا 194 پر پہنچ گیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد مسلسل دوسرے کاروباری روز اسٹاک ایکسچینج میں زبردست اضافے کا رجحان برقرار رہا تھا اور کے ایس ای-100 انڈیکس643 پوائنٹس یا0.75 فیصد اضافے کے بعد86…
0 notes
forgottengenius · 10 months ago
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
Tumblr media
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی ت��ز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔ 
Tumblr media
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طر�� جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔ 
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes · View notes
risingpakistan · 6 days ago
Text
زرعی ٹیکس
Tumblr media
ساحرلدھیانوی نے کہا تھا زمیں نے کیا اِسی کارن اناج اگلا تھا؟ کہ نسل ِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے
چمن کو اس لئے مالی نے خوں سے سینچا تھا؟ کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
لگتا ہے یہی صورتحال پیدا ہونے والی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق زرعی ٹیکس کی وصولی کا کام شروع ہو جائے گا۔ پنجاب اسمبلی نے زرعی ٹیکس کا بل منظور کر لیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر  نے اس کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ٹیکس پاکستان کے زرعی شعبہ کیلئے معاشی تباہی سے کم نہیں کیونکہ پاکستان ان زرعی ملکوں میں سے ہے جہاں کسان مسلسل بدحالی کا شکار ہیں۔ جہاں اکثر اوقات گندم باہر سے منگوا نی پڑ جاتی ہے۔ زراعت پہلے ہی تباہ تھی زرعی ٹیکس لگا کر اسے مزید تباہ کر دیا گیا ہے۔‘‘ پاکستان کسان اتحاد کے سربراہ کا کہنا ہے کہ زرعی ٹیکس کیخلاف ملک گیر احتجاج کا پلان ترتیب دے رہے ہیں۔  زراعت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، کچھ ممالک نے ایسی پالیسیاں اپنائی ہیں جو اس شعبے کو براہ راست ٹیکس سے مستثنیٰ کرتی ہیں، جن کا مقصد ترقی کو تیز کرنا، کسانوں کا تحفظ کرنا اور زرعی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ جیسے ہندوستان جہاں 1961 کے انکم ٹیکس ایکٹ کے تحت زراعت وفاقی انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔ 
یہ استثنیٰ تاریخی اور اقتصادی تحفظات پر مبنی ہے، جو ہندوستانی معیشت میں زراعت کی اہم شراکت کو تسلیم کرتا ہے۔ اگرچہ آئین کے تحت ریاستی حکومتوں کے پاس زرعی ٹیکس لگانے کا اختیار موجود ہے، لیکن زیادہ تر ریاستیں سیاسی اور عملی وجوہات کی بنا پر پر زرعی ٹیکس نہیں لگاتیں۔ ایک بار ہندوستان میں زرعی ٹیکس لگانے کی کوشش کی گئی تھی مگر اتنا خوفناک احتجاج ہوا تھا کہ حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑ گیا تھا۔ پاکستان میں زرعی ٹیکس اُس وقت تک نہیں لگایا جانا چاہئے تھا جب تک کسان کو اس قابل نہ کیا جاتا کہ وہ زرعی ٹیکس ادا کر سکے۔ اس زرعی ٹیکس سے یقیناً کھانے پینے کی اشیا اور مہنگی ہونگی۔ پہلے ہی پاکستان میں مہنگائی اپنے پورے عروج پر ہے۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے احتجاج میں کسان بھی شریک ہونے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ، جو اپنے جدید زرعی شعبے کیلئے جانا جاتا ہے، وہاں بھی زرعی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں بلکہ زرعی سرمایہ کاری، پائیداری کے منصوبوں اور اختراعات کیلئے اہم چھوٹ اور مراعات دی جاتی ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور قطر جیسے ممالک بھی زرعی ٹیکس عائد نہیں کرتے۔ 
Tumblr media
یہ قومیں خوراک کی حفاظت پر توجہ مرکوز کرتی ہیں اور سبسڈی اور مراعات کے ذریعے کاشتکاری کے طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ کینیا، برما وغیرہ میں بھی زرعی ٹیکس نہیں ہے۔ وہ ممالک جو اپنے کسانوں کو بہت زیادہ سہولیات فراہم کرتے ہیں وہ ضرور ٹیکس لگاتے ہیں مگر دنیا بھرمیں سب سے کم شرح زرعی ٹیکس کی ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، جہاں اکثر کسان غیر مستحکم منڈیوں، غیر متوقع موسم، اور وسائل تک محدود رسائی کا سامنا کرتے ہیں۔ ٹیکس کی چھوٹ انہیں اپنی کاشتکاری کی سرگرمیوں میں دوبارہ سرمایہ کاری کرنے کیلئے مزید آمدنی برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ بہت سی حکومتیں خوراک کی پیداوار اور خود کفالت کو ترجیح دیتی ہیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ کسانوں پر ٹیکسوں کا زیادہ بوجھ نہ پڑے جس سے زرعی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔ ان ممالک میں جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ زرعی کام کرتا ہے، وہاں ٹیکس کی چھوٹ دیہی حلقوں کی معاش بہتر بنانے کا ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ 
ٹیکس میں چھوٹ کسانوں کو کاشتکاری کے جدید طریقوں کو اپنانے، انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے اور پائیدار تکنیکوں کو اپنانے کی ترغیب دے سکتی ہے۔زرعی ٹیکس کی چھوٹ پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ حکومتیں ممکنہ ٹیکس ریونیو کو چھوڑ دیتی ہیں جسے عوامی خدمات کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ممالک میں، مالدار زمیندار یا بڑے زرعی ادارے ان چھوٹوں سے غیر متناسب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ٹیکس کی چھوٹ پر حد سے زیادہ انحصار بعض اوقات ناکارہ ہونے یا آمدنی کے تنوع کی حوصلہ شکنی کا باعث بن سکتا ہے۔ وہ ممالک جو زراعت کو ٹیکس سے مستثنیٰ رکھتے ہیں ان کا مقصد کاشتکاری کی سرگرمیوں کو فروغ دینا، خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانا اور دیہی معاش کی حمایت کرنا ہے۔ اگرچہ یہ پالیسیاں نیک نیتی پر مبنی ہیں، لیکن ان کی تاثیر کا انحصار مناسب نفاذ اور متعلقہ چیلنجوں سے نمٹنے پر ہے۔ اپنے زرعی شعبوں کو ترقی دینے کی کوشش کرنے والی قوموں کیلئے، وسیع تر اقتصادی مقاصد کے ساتھ ٹیکس مراعات میں توازن رکھنا بہت ضروری ہے مگر پاکستان میں زرعی ٹیکس صرف آئی ایم ایف کے دبائو میں لگایا گیا ہے۔ 
اگر حکومت سمجھتی ہے کہ یہ ٹیکس لگانا اس کی مجبوری تھی تو پھر اسے کسانوں کوفری مارکیٹ دینی چاہئے، انہیں بجلی اور ڈیزل کم قیمت پر ملنا چاہئے، کھاد، بیج اور کیڑے مار ادویات پر بھی سبسڈی فراہم کی جائے۔ باہر سے ہر قسم کے بیجوں کی درآمد پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔
منصور آفاق
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduweb · 17 days ago
Text
سولر پینلز کی قیمتوں سے متعلق اہم خبر آگئی
سولر پینلز کی قیمتوں سے متعلق اہم خبر آگئی، مارکیٹ میں کمپنیوں نے آن گرڈ سولر سسٹمز کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ ہائبرڈ سسٹم کا انتخاب کرنے والے صارفین کو بیٹریز کے لیے اضافی اخراجات بھی ادا کرنا ہوں گے۔ سولر سسٹمز کی نئی قیمتیں 5 کلوواٹ کے سولر سسٹم کی قیمت میں 1 لاکھ روپے کا اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد اس کی نئی قیمت 7 لاکھ 50 ہزار روپے ہوگئی ہے۔ 7 کلوواٹ کے سولر سسٹم کی قیمت میں ڈیڑھ لاکھ روپے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
dpr-lahore-division · 1 month ago
Text
Tumblr media
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب
لاہور، فون نمبر:99201390
ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آر او ٹو سی ایم
ہینڈ آؤٹ نمبر 1095
پنجاب میں پرائس کنٹرول کیلئے نیا ادارہ قائم،وزیر اعلیٰ مریم نوازنے عالمی معیار کے مطابق نئے پرائس کنٹرول میکنزم کی منظوری دے دی
وزیر اعلی مریم نواز کا امپورٹڈ پام آئل پر انحصار کم کرنے کیلئے سن فلاور،سویابین اور کینولا کی کاشت بڑھانے کیلئے ضروری اقدامات کا حکم
مارکیٹ کے نرخ میں استحکام کیلئے فور کاسٹ بلیٹن جاری،ایس ایم یو کے تحت پرائس کنٹرول کیلئے آرٹیفیشل انٹیلی جنس استعمال کرنے کا فیصلہ
پنجاب میں ایگری مانیٹرنگ فنڈ کے قیام کا بھی اصولی فیصلہ،PAMRA کے بورڈ اور مارکیٹ کمیٹی چیئرمین کی نامزدگی جلد کرنیکی ہدایت
کاشتکاروں کو براہ راست خریدار سے منسلک کرنے کیلئے اقدامات پر غور،ہر شہر میں ٹماٹر،پیاز اور دیگر ضروریات پوری کرنے کیلئے مقامی کاشت بڑھانے پر زور
عام آدمی، کاشتکاروں اور تاجروں کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائیگا،ایس ایم یو میں قابلیت کے مطابق صرف میرٹ پر افسر تعینات کئے جائیں: مریم نواز
گندم اور آٹا کے نرخ کے اتار چڑھاؤ اور مارکیٹ ڈائنامکس پر کڑی نظر رکھی جائے،کاشتکار اور عوام کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کئے جائیں گے
وزیر اعلیٰ مریم نواز کی زیر صدارت پرائس کنٹرول یقینی بنانے کیلئے نئے ادارے کاپہلا اجلاس، اجناس کی پیداوار، دستیابی اور نرخ مقرر کرنیکی تجاویز پر غور
لاہور18- اکتوبر:……وزیراعلی پنجاب مریم نوازشریف کے ویژن کے مطابق عوام کو مہنگا ئی سے نجات دلانے کے وعدے کی تک��یل کی طرف اہم پیشرفت کرتے ہوئے صوبے میں پرائس کنٹرول یقینی بنا نے کے لئے نیا ادارہ قائم کر دیا گیا- وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی زیر صدارت خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں پرائس کنٹرول یقینی بنانے کے میکنزم اوردیگر امور کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے چھ ماہ میں سپیشل مانیٹرنگ یونٹ کو مکمل فعال کرنے کی ہدایت کی اورعالمی معیار کے مطابق نئے پرائس کنٹرول میکنزم کی منظوری دے دی- اجلاس میں گندم اور دیگر اجناس کی پیداوار، دستیابی اور دیگر امور کے تحت نرخ مقرر کرنے کی تجاویز پر غورکیا گیا- وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے اجلاس میں امپورٹڈ پام آئل پر انحصار کم کرنے کے لئے سن فلاور، سویابین اور کینولا کی کاشت بڑھانے کیلئے ضروری اقدامات کا حکم دیا اور ہر شہر میں ٹماٹر، پیاز اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے لئے مقامی کاشت بڑھانے پر زور دیا گیا- مارکیٹ کے نرخ میں استحکام کے لئے فور کاسٹ بلیٹن جاری کرنے اورایس ایم یو کے تحت پرائس کنٹرول کیلئے آرٹیفیشل انٹیلی جنس استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا-اجلاس میں پنجاب میں ایگری مانیٹرنگ فنڈ کے قیام کا بھی اصولی فیصلہ اور کاشتکاروں کو براہ راست خریدار سے منسلک کرنے کے لئے اقدامات پر غور کیا گیا-منڈیوں میں کاروبار کرنے والوں کو رجسٹر کرنے کی تجویز کا جائزہ لیاگیا- PAMRA کے بورڈ اور مارکیٹ کمیٹی چیئرمین کی نامزدگی جلد کرنے کی ہدایت کی گئی-وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی زیر صدارت خصوصی اجلاس میں پرائس کنٹرول میکنزم پر تفصیلی بریفنگ دی گئی- بریفنگ کے دوران بتایا گیاکہ گھی اور خوردنی تیل کے نرخ میں اضافے کا سبب عالمی مارکیٹ میں پام آئل کے نرخ میں اضافہ ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے گندم اور دیگر اجناس کی فصل کی پیداوار کا پیشگی تعین کیا جائیگا۔ گندم خریداری نہ ہونے سے ملکی معیشت اور عوام کیلئے مثبت اثرات سامنے آئے۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے اجلاس میں ہدایت کی کہ گندم اور آٹا کے نرخ کے اتار چڑھاؤ اور مارکیٹ ڈائنامکس پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ایس ایم یو میں قابلیت کے مطابق صرف اور صرف میرٹ پر افسر تعینات کئے جائیں۔وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے مز ید کہا کہ عام آدمی کے ساتھ ساتھ کاشتکاروں اور تاجروں کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔ کاشتکار اور عوام کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کئے جائیں گے۔ سینئر منسٹر مریم اورنگزیب، وزیر اطلاعات وثقافت عظمی زاہد بخاری، چیئرمین ٹاسک فورس سلمی بٹ، ایم پی اے ثانیہ عاشق جبیں، چیف سیکرٹری،پرنسپل سیکرٹری، سیکرٹریز اور دیگر حکام نے شرکت کی-
0 notes
meta-bloggerz · 5 months ago
Text
سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی، تاریخ کی نئی بلند ترین 80 ہزار کی حد عبور
کراچی: (دنیا نیوز) کاروباری ہفتے کے تیسرے روز کاروبار کے آغاز پر پاکستان سٹاک مارکیٹ میں مثبت رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے، آج پھر پاکستان سٹاک ایکس چینج میں 80 ہزار کی حد عبور ہو گئی ہے۔ آج کاروبار کے آغاز پر پاکستان سٹاک مارکیٹ کے 100 انڈیکس میں 680 پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد 100 انڈیکس 80 ہزار 233 پوائنٹس کی سطح پر بند ہوا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز کاروباری ہفتے کے دوسرے روز ٹریڈنگ کے…
0 notes
topurdunews · 15 days ago
Text
اسٹاک مارکیٹ بلند ترین سطح پرڈالر بھی سستا ہو گیا
(24نیوز)پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مسلسل تیزی کا رجحان برقرار جبکہ ڈالر کو بھی بڑا جھٹکا لگ گیا۔ کاروباری ہفتے کے پانچویں روز اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کا مثبت آغاز ہوا ،پی ایس ای ہنڈریڈ انڈیکس پہلی بار 93 ہزار کی سطح عبور کرگیا،ہنڈریڈ انڈیکس میں 480 پوائنٹس کا اضافہ ہو گیا،انڈیکس میں مجموعی طور پر 0.52 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ گزشتہ روز بھی کاروبار کا اختتام مثبت زون میں ہوا تھا ، جس کے باعث…
0 notes
pinoytvlivenews · 1 month ago
Text
سندھ حکومت کا کاشتکاروں کو گندم کا بیج مارکیٹ سے کم قیمت پر دینے کا فیصلہ
(ویب ڈیسک)سندھ حکومت نے کاشتکاروں کو اعلی کوالٹی کا گندم کابیج مارکیٹ سے کم قیمت پر دینے کا فیصلہ کرلیا۔ ‎ محکمہ زراعت سندھ نے اعلی کوالٹی کاگندم کابیج مارکیٹ سے 300روپے کم قیمت پر دینے کا فیصلہ کرلیا، سندھ سیڈ کارپوریشن نے کاشتکاروں کےلئے اعلی کوالٹی کے گندم کے بیج بیسک کی قیمت7ہزار روپے مقرر کردی۔ ایم ڈی سندھ سیڈ کارپوریشن کا کہنا ہے کہ ہاریوں کےلئے سرٹی فائیڈسیڈگندم کے بیج کی قیمت6ہزار روپے…
0 notes
urduchronicle · 10 months ago
Text
راولپنڈی : مغل سرائے مارکیٹ میں آتشزدگی سے 12 دکانیں مکمل جل گئیں، متعدد کو جزوی نقصان
راولپنڈی کی مغل سرائے مارکیٹ میں آتشزدگی کے باعث ریڈی میڈ گارمنٹس،آرٹیفیشل جیولری اور گھڑیوں کی بارہ سے زائد دوکانیں مکمل جل گئیں جبکہ متعدد کو جزوی نقصان پہنچا۔ ترجمان ریسکیو کے مطابق ممکنہ طور پر گراونڈ فلور پرشارٹ سرکٹ کے باعث اگ تیزی سے پھیلی اورفرسٹ اورسیکنڈ فلور کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مارکیٹ کے چوکیدارکے نہ ہونے کے باعث واقعے کی اطلاع تاخیر سے ہو سکی تاہم ریسکیو فائر بریگیڈ  موقع پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 2 months ago
Text
انٹربینک اوراوپن مارکیٹ میں ڈالرکی قیمت میں معمولی کمی
کاروباری ہفتے کے اختتام پر انٹراور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں معمولی کمی آئی۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق انٹربینک میں ڈالر 28 پیسے سستا ہوا ۔ڈالر 278.44 روپے سے کم ہوکر 278.16 روپے پر بند ہوا۔اوپن مارکیٹ میں ڈالر 10 پیسے سستا ہوا ۔ڈالر 280 روپے 75 پیسے پر بند ہوا۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے اختتام پر ہنڈرڈانڈیکس 315 پوائنٹس کے اضافے سے 79 ہزار 333 پوائنٹس پر…
0 notes
today-gold-rate-in-pakistan · 5 months ago
Text
Today, the Gold Price in Pakistan
  Per Tola 24k Gold
    Rs.241,000
10 Grams 24k  Gold
    Rs. 206,680
1 Gram 24k Gold
  Rs.20,668
Today, the gold price in Pakistan is 241,000 for 1 tola/12 grams of gold.10 grams will be available for PKR 206,680. Here on Goldratepk.com, you can find the best rates of gold regarding their basic units of 1 tola/ 12 grams, 10 grams, and 1 gram. Goldratepk.com also provides rates of gold in international units of an ounce by the global market and local Pakistan rates derived set by the Srafa market. You may find all other related information below.
آج پاکستان میں سونے کی قیمت 1 تولہ/12 گرام سونے کی قیمت 241000 ہے۔ 10 گرام 680,PKR206 میں دستیاب ہوگا۔ یہاں Goldratepk.com پر، آپ سونے کے 1 تولہ/12 گرام، 10 گرام، اور 1 گرام کی بنیادی اکائیوں کے حوالے سے بہترین نرخ تلاش کر سکتے ہیں۔ Goldratepk.com بین الاقوامی میں سونے کے نرخ بھی فراہم کرتا ہے بین الاقوامی مارکیٹ کے حساب سے اونس کی اکائیاں اور صرافان مارکیٹ کے ذریعہ اخذ کردہ مقرر کردہ مقامی پاکستانی نرخ۔ آپ کو درج ذیل میں دیگر تمام متعلقہ معلومات مل سکتی ہیں۔
1 note · View note
apnabannu · 6 months ago
Text
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024: کیا امریکہ دوسری بڑی کرکٹ مارکیٹ بن سکتا ہے؟
http://dlvr.it/T7kPCS
0 notes
urduintl · 6 months ago
Text
0 notes