#پارلیمان
Explore tagged Tumblr posts
Text
پارلیمان کا قانون سازی کا اختیار آئین میں حدود کے تابع ہے، سپریم کورٹ
پارلیمان کا قانون سازی کا اختیار آئین میں دی گئی حدود کے تابع ہے،سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر تحریری فیصلہ جاری کر دیا، ٹیکس مقدمہ میں 41 صفحات کا فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔ سپریم کورٹ کے جاری کردہ تحریری فیصلے کے مطابق پارلیمان کا قانون سازی کا اختیار آئین میں دی گئی حدود کے تابع ہے، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو آرٹیکل 142 قانون سازی کو اختیار دیتا ہے،…
0 notes
Text
نگران حکومت کی ضرروت ہی کیا ہے؟
انتخابات دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن نگران حکومتوں کے نام پر غیر منتخب لوگوں کو اقتدار میں لا بٹھانے کی یہ رسم صرف پاکستان میں ہے۔ سوال یہ ہے اس بندوبست کی افادیت کیا ہے اور نگران حکومتوں کے انتخاب، اہلیت، اختیارات اور کارکردگی کے حوالے سے کوئی قوانین اور ضابطے موجود ہیں یا نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ جہاں غیر منتخب نگران حکومتوں کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں وہاں تو معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ نبٹا لیے جاتے ہیں اور ہمارے ملک میں نگران حکومتوں کے ہوتے ہوئے بھی انتخابات متنازع ہو جاتے ہیں؟ نگران حکومت کے نام پر عارضی ہی سہی، ایک پورا حکومتی بندوبست قائم کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بندوبست کے بارے میں تفصیلی قانون سازی آج تک نہیں ہو سکی۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 اور آئین کے آرٹیکل 224 میں کچھ بنیادیں باتیں لکھ دی گئی ہیں لیکن وہ ناکافی اور مبہم ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ایک رکن پارلیمان کی اہلیت کے لیے تو ایک کڑا معیار مقرر کیا گیا ہے لیکن نگران حکومت کی اہلیت کے لیے کوئی اصول طے نہیں کیا گیا؟ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کوئی نام تجویز کر دیں تو اس نام کی اہلیت کو پرکھنے کے لیے کوئی قانون اور ضابطہ تو ہونا چاہیے، وہ کہاں ہے؟
یہی معاملہ نگران کابینہ کا ہے۔ آئین کا آرٹیکل A 224 (1) صرف یہ بتاتا ہے کہ نگران کابینہ کا انتخاب نگران وزیر اعظم اور نگران وزرائے اعلی کی ایڈوائس پر ہو گا لیکن یہ کہیں نہیں بتایا کہ نگران کابینہ کے لیے اہلیت کا پیمانہ کیا ہو گا۔ ایک جمہوری معاشرے میں ایسا صوابدیدی اختیار حیران کن ہے۔ دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے اختیارات کا دائرہ کار کیا ہے؟َ وہ کون سے کام کر سکتی ہے اور کون سے کام نہیں کر سکتی؟ اس کی مراعات کیا ہوں گی؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کس کو جواب دہ ہو گی؟ حیران کن بات یہ ہے کہ ان سولات کا تفصیلی جواب نہ آئین میں موجود ہے نہ ہی الیکشن ایکٹ میں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 میں کچھ وضاحت ہے لیکن ناکافی ہے۔ نگران حکومت کا مینڈیٹ دو جمع دو چار کی طرح تحریری طور پر موجود ہونا چاہیے۔ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ نگران حکومت کی کوئی حزب اختلاف نہیں ہوتی اور اسے کسی صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے وزراء کسی ایوان کو جواب دہ نہیں ہوتے۔ ان سے کسی فورم پر سوال نہیں ہوتا۔ نگران حکومتوں کے دورانیے میں، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں تو موجود نہیں ہوتیں لیکن سینیٹ جیسا ادارہ تو موجود ہوتا ہے، سوال یہ ہے اس دورانیے میں سینیٹ کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا؟
ہم نے ساری دنیا سے نرالا، نگران حکومتوں کا تصور اپنایا ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ اس نامعتبر بندوبست نے ہمیں کیا دیا اور ہمیں اس پر اصرار کیوں ہے؟ نگران حکومت کے قیام کا واحد بنیادی مقصد انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت ہے۔ سوال یہ ہے اس کے لیے غیر منتخب لوگوں کو حکومت سونپنے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت سرکاری محکموں اور وزارتوں کی صورت چلتی ہے، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ انتخابات کے لیے نگران حکومت بنانے کی بجائے حکومتی مشینری کو الیکشن کمیشن ہی کے ماتحت کر دیا جائے؟ جب آئین نے آرٹیکل 220 میں تمام اتھارٹیز کو چاہے وہ وفاقی ہوں یا صوبائی، یہ حکم دے رکھا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے کی مدد کریں گے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے جس کے لیے غیر منتخب حکومت مسلط کی جائے؟ معمول کے کام چلانا بلا شبہ ضروری ہیں تا کہ ریاستی امور معطل نہ ہو جائیں لیکن اس کی متعدد شکلیں اور بھی ہو سکتی ہیں اور اس کے لیے غیر منتخب لوگووں کی حکومت بنانا ضروری نہیں۔
سینیٹ کی شکل میں جو واحد منتخب ادارہ اس دورانیے میں موجود ہوتا ہے، اسے عضو معطل کیوں بنا دیا گیا ہے۔ کم از کم اتنا تو ہو سکتا ہے کہ غیر منتخب نگران حکومت کو سینٹ کے سامنے جواب دہ قرار دیا۔ ہمارے اہل سیاست کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ کتنی محنت سے خود ہی خود کو بددیانت، ناقابل بھروسہ اور خائن ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ اگر منتخب حکومت ہی کو نگران حکومت کی ذمہ داری دی گئی تو وہ لازمی بد دیانتی اور خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھاندلی کریں گے؟ قانونی اورآئینی طور پر سارے اراکین پارلیمان سچے، نیک، پارسا، دیانت دار، امین اور سمجھ دار ہیں اور ان میں کوئی بھی فاسق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ عام انتخابات کے لیے اس کی دیانت اور امانت داری کا یقین کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ نگران حکومت کا تصور جمہوری حکومت نے نہیں دیا تھا۔ جمہوری حکومتیں البتہ اسے سرمایہ سمجھ کر گلے سے لگائے ہوئے ہں اور انہیں احساس ہی نہیں یہ اصل میں ان کے اخلاقی وجود پر عدم اعتماد ہےا ور ایک فرد جرم ہے۔ نگران حکومت کے موجودہ غیر منتخب ڈھانچے کے ہوتے ہوئے ہماری سیاست کے اخلاقی وجود کو کسی دشمن کی حاجت نہیں۔ یہ الگ بات کہ انہیں اس حادثے کی کوئی خبر ہی نہیں۔
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes
·
View notes
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 18 November-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ: ۱۸؍ نومبر ۲۰۲۴ء
وقت: ۱۰:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ ریاست میں اسمبلی انتخابات کی تشہیری مہم آج ختم ہو گی-رائے دہی کے عمل کیلئےانتظامیہ پوری طرح تیار۔
٭ الزام تر اشی اور نکتہ چینی کے ساتھ انتخابی تشہیری مہم عروج پر - ر ائے دہند گان سے راست ملاقاتوں کو امیدواروں کی ترجیح۔
٭ فلمساز و ہدایت کا ر آشوتوش گواریکر IFFI کے بین الاقو امی انتخابی بورڈ کے چیئرمین منتخب۔
اور۔۔۔٭ خواتین کے ایشیا کپ ہاکی ٹورنامنٹ میں جاپان کو شکست دے کر بھارت کی سیمی فائنل میں رسائی۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
ریاست میں اسمبلی کے عام انتخابات کی تشہیری مہم آج ختم ہو جائے گی۔ آئندہ بدھ 20 نومبر کورائے دہی ہوگی ‘ جس میں 363 خواتین امیدواروں سمیت مجموعی طور پر چار ہزار 136 امیدواروں کی قسمت الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں بندہو جائے گی۔ گڈچرولی ضلعےکے اہیری حلقے کے انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنوں پر ر ائے دہی عملے کو ووٹنگ مشینوں اور دیگر سامان کے ساتھ کل بذریعہ ہیلی کاپٹر روانہ کیا گیا۔ اسمبلی کے عام انتخابات کے ساتھ ہی ناندیڑ لوک سبھا کے ضمنی انتخاب کی تیاریاں بھی مکمل کر لی گئی ہیں اور تمام ر ائے دہندگان سے اپنا حقِ ر ائے دہی ادا کرنے کی اپیل ریاستی انتخابی افسر ایس چوکّ لنگم نے کی ہے۔
***** ***** *****
انتخابات کی تشہیری مہم کے اختتام کی مناسبت سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور امیدواروں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات ا ور نکتہ چینی میں شدت آتی دکھائی دے رہی ہے۔
کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھرگے نے کل ناگپور کے قریب عمریڈ میں انتخابی تشہیر ی اجتماع سے خطاب کیا۔ انہوں نے حزبِ اختلاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پنڈت جواہر لال نہرو اور بابا صاحب امبیڈکر جیسے رہنمائوں نے جمہوریت کے تحفظ کیلئے اپنی زندگیاں قربان کیں، لیکن بی جے پی نے ملک کو تقسیم کرنے کا کام کیا۔
کانگریس پارٹی کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے کل گڈچرولی میں تشہیری جلسے سے خطاب کیا۔ انہوں نے مہایوتی حکومت پر اپنے دورِ اقتدار میں مہاراشٹر کی صنعتیں گجرات میں منتقل کرنے کا الزام عائد کیا۔ بعد ازاں‘پرینکا گاندھی نے ناگپور میں کانگریس امیدوار وکاس ٹھاکرے کی تشہیر کیلئے ایک روڈ شو میں بھی حصہ لیا۔
مہاوِکاس آگھاڑی کا اختتامی تشہیری جلسۂ عام کل ممبئی میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے شیوسینا ادھو بالا صاحب ٹھاکرے پارٹی کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نےریاست میں مہا وکاس آگھاڑی حکومت برسرِ اقتدار آنے پرسویابین کو سات ہزار رو پئے نرخ د ینے تک چین سے نہ بیٹھنے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے انتخابی منشور میں کسانوں کے قرضہ جات معاف کرنے سمیت دیگر وعدوں کو بھی دہرایا ۔ اس جلسۂ عام میں کانگریس رہنما ورشا گائیکواڑ، رُکنِ پارلیمان سنجے رائوت بھی موجود تھے۔
***** ***** *****
مرکزی وزیر شیوراج سنگھ چوہان نے کل ناگپور میں ایک صحافتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یقین ظاہر کیا کہ مرکزی حکومت کی رہنمائی میں ریاست میں مہایوتی حکومت کے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے رائے دہندگان مہایوتی کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
***** ***** *****
گوا کے وزیر اعلیٰ پرمود ساونت نے کل آکولہ میں، جبکہ آندھرا پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ پون کلیان نے چندر پور ضلع کے بلار پور میں اور مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی موہن یادو نے چھترپتی سمبھاجی نگر میں کل ر ائے دہندگان سے ملاقاتیں کیں۔
اسی طرح وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کل نندوربار ضلعے کے دھڑگاؤں اور دھولیہ ضلعے کے ساکری حلقہ کے دہی ویل میں تشہیری مہم میں حصہ لیا۔ بی جے پی قائد اور نائب وزیر اعلیٰ دیویندر پھڑنویس نے کل ناگپور جنوبی حلقے میں روڈ شو کیا، جبکہ دوپہر کو چاندوڑ میں ایک انتخابی اجتماع میں بھی شرکت کی۔
***** ***** *****
بہوجن سماج پارٹی کی قومی صدر اور اتر پردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی کل پونے میں انتخابی تشہیر میں شریک ہوئیں۔ انھوں نے یقین دلایا کہ بی ایس پی اپنے بل بوتے پر حکومت میں آنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن مناسب نشستیں حاصل نہ ہونے پر وہ حکومت سازی کی اہل پارٹی کی حمایت کرکے حکومت میں شامل ہو کر عوام کو انصاف دلائے گی۔
***** ***** *****
تشہیری مہم کی مہلت ختم ہونے سے قبل سبھی امیدو ار عوام سے راست ملاقاتوں‘ تشہیری جلسوں اور روڈ شوز سمیت ریلیوں کے علاوہ گھر گھر جاکر رائے دہندگان سے ملاقاتیں کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
جالنہ ضلعے کے بھوکردن حلقے سے بی جے پی و مہایوتی کے امیدوار سنتوش دانوے نے کل والسا وڈالا، ڈون گاؤں، نیو ڈُنگا‘ پوکھری ا ور بوٹ کھیڑا میں تشہیری ریلی نکال کر عو ام سے ملاقاتیں کیں۔ جالنہ حلقہ انتخاب سے مہاوِکاس آگھاڑی کے امیدوار کیلاش گورنٹیال کی حمایت میں کل جالنہ شہر کے مختلف علاقوں میں تشہیری ریلیاں نکالی گئیں۔ جبکہ سابق مرکزی وزیرِ مملکت راؤ صاحب دانوے نے کل جالنہ میں مہایوتی امیدوار ارجن کھوتکر کیلئے ایک تشہیری ریلی میں حصہ لیا۔ گھن ساونگی اسمبلی حلقہ سے راشٹروادی کانگریس مہاوکاس اگھاڑی کے امیدوار راجیش ٹوپے نے کل اپنے انتخابی حلقے کے نالے واڑی، شاہ گڑھ، والکیشور، انتروالی سراٹی سمیت مختلف دیہاتوں کا تشہیری دورہ کیا اور رائے دہند گان سے بات چیت کی۔
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر سے نشر کی جارہی ہیں
***** ***** *****
ریاستی زرعی پید اوارویلیو کمیشن کے صدر پاشا پٹیل نے کہا ہے کہ مہاراشٹر میں برسرِ اقتدار رہتے ہوئے سویابین کو ملک میں سب سے زیادہ پانچ ہزار روپے فی کوئنٹل کے ضمانتی نرخ دئیے گئےہیںاور فصل کی نمی کی شرط 12 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کردی گئی ہے۔ وہ گزشتہ روز ناگپور میں ایک اطلاعی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ پاشا پٹیل نے کانگریس رہنما‘ رندیپ سُرجے والا کی جانب سے سویابین کے ضمانتی نرخ کے بارے میں دی گئی معلومات کو بھی غلط قرار دیا۔
***** ***** *****
ہد ایت کار اور فلمساز آشوتوش گواریکر کو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا 2024یعنی IFFI کے بین الاقو امی انتخابی بورڈ کا چیئرمین منتخب کیا گیا ہے۔ اس تقرری پر گواریکر نےخوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدلتے وقت کے ساتھ تیار ہونے والی فلمیں دیکھنے کیلئے اس فلم فیسٹیول سے بہتر دوسرا کوئی موقع نہیں ہے۔ یہ فیسٹیول 20 نومبرسے 28 نومبر کے درمیان گوا میں منعقد ہوگا۔
***** ***** *****
خواتین کے ایشیائی کپ ہاکی ٹورنامنٹ میں کل بھارت نے جاپان کو تین ۔صفر سے شکست دے کر اپنی جیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ بہار کے راجگیر میں یہ مقابلہ کھیلا گیا۔ بھارت کی نونیت کور اور دیپیکا کماری نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ اس ٹورنامنٹ میں منگل کو ��یمی فائنل مقا بلے میں بھارت کا مقابلہ پھر ایک بار جاپان سے ہوگا۔
***** ***** *****
دوردرشن سماچار کے سابق ڈائریکٹر جنرل ایس ایم خان کل نئی دہلی میں انتقال کرگئے، وہ 67 برس کے تھے۔ انہوں نے سابق صدر ِ جمہوریہ بھارت رتن ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے پریس سکریٹری کے طور پر بھی خدمات انجام دی تھیں۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات میں رائے دہی فیصد بڑھانے کیلئے کئی بیداری مہمیں چلائی جارہی ہیں۔
پربھنی ضلع کلکٹر دفتر او ر ر ائے دہندگان بیداری شعبہ ا ور پربھنی سائیکل تنظیم کی جانب سے کل شہر میں سائیکل ریلی نکالی گئی۔ اس سے پہلے ضلع کلکٹر رگھوناتھ گائوڑے نے سبھی شرکا‘ کو ووٹ د ینے کا حلف دلا یا۔ بعد ازاں سائیکل سو ارو ں کو اسنادات دیکر ان کی ستائش کی گئی۔ اس ریلی میں آٹھ سال سے لیکر ساٹھ سال تک کے سائیکل سوارو ں نے شرکت کی۔
دھاراشیو میں قومی خدمت اسکیم اور ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھو اڑہ یونیورسٹی کے ذ یلی مرکز کے شعبۂ ڈرامہ کی جانب سے شہر میں رائے دہی کے پیغام پر مبنی ڈرامہ پیش کرکے بیداری پید ا کی گئی۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات کی تشہیری مہم ختم ہونے کے بعد 72 گھنٹوں میں امن و قانون کی صورتحال برقرار رکھنے سے متعلق کل چھترپتی سمبھاجی نگر میں ضلع کلکٹر دلیپ سوامی کی موجودگی میں ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس دور ان رائے دہی سے قبل کے 72 گھنٹوں کے دو ر ان گاڑیوں کی جانچ‘ مخفی طور پر کی جانے والی تشہیر‘ رائے دہندگان کو لبھانے کی کوششوں سے متعلق انتخابی مشنریوں کو چوکنا رہنے کی ہدا یا ت د ی گئیں۔
ناند یڑ ضلعے میں بھی ہر طرف سخت بندوبست کیا گیا ہے ا ور ضلع کلکٹر ابھیجیت رائوت نے عوام سے کثیر تعداد میں رائے دہی کرنے کی اپیل کی ہے۔
***** ***** *****
چھترپتی سمبھاجی نگر ضلع کے اورنگ آباد مغربی اسمبلی حلقے میں 404 بزرگ شہریوں ا ور معذور افراد نے گھر سے رائے دہی کی۔ اس حلقے میں 95 فیصد معمر شہریوں نے گھر سے ووٹنگ کی ہے‘ جبکہ اورنگ آباد مشرقی حلقے میں 176 افراد نے گھر سے رائے دہی کا حق ادا کیا ‘ اس انتخابی حلقے میں گھر سے 96 فیصد رائے دہی ہوچکی ہے۔
***** ***** *****
ہنگولی ضلعے کے بسمت تعلقے کے چکھلی پھاٹے پر بیٹھک نگرانی دستے نے ا یک ٹراویلس بس سے تقریباً 90 لاکھ روپئے نقد رقم ضبط کی۔ یہ بس ممبئی سے ناندیڑ کی جانب جارہی تھی۔
***** ***** *****
ناند یڑ ضلع کے کنوٹ‘ پانگر پاڑ‘ حد گائوں کے چو رمبا‘ بھوکر کے پاکی تانڈا‘ دیگلور کے رام تیرتھ اور مکھیڑ کے کولے گائوں کے رائے دہی مراکز کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ ان مقامات پر مرکزی ریزرو دستے کے ملازمین کو بندوبست پر مامور کیا گیا ہے۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ ریاست میں اسمبلی انتخابات کی تشہیری مہم آج ختم ہو گی-رائے دہی کے عمل کیلئےانتظامیہ پوری طرح تیار۔
٭ الزام تر اشی اور نکتہ چینی کے ساتھ انتخابی تشہیری مہم عروج پر - ر ائے دہند گان سے راست ملاقاتوں کو امیدواروں کی ترجیح۔
٭ فلمساز و ہدایت کا ر آشوتوش گواریکر IFFI کے بین الاقو امی انتخابی بورڈ کے چیئرمین منتخب۔
اور۔۔۔٭ خواتین کے ایشیا کپ ہاکی ٹورنامنٹ میں جاپان کو شکست دے کر بھارت کی سیمی فائنل میں رسائی۔
***** ***** *****
0 notes
Text
پی ٹی آئی کا پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کا حصہ نہ بننےکا فیصلہ
(24 نیوز) پاکستان تحریک انصاف نے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے الگ رہنے کا اعلان کر دیا۔ رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کے اجلاس کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم پر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے اراکین کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لانے کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں ووٹ دینے والے اراکین پارلیمان کی بنیادی جماعتی رکنیت کی منسوخی سمیت ان کے خلاف حتمی تادیبی…
0 notes
Text
راہل گاندھی نے پارلیمان میں اپنی پہلی تقریر میں پیغمبر اسلام کا ذکر اور قرآنی آیت کا حوالہ کیوں دیا؟
http://dlvr.it/T95XYK
0 notes
Text
متنازع ترین انتخابات کے حیران کن نتائج
آٹھ فروری کو پاکستان کے ’متنازع ترین‘ ��نتخابات کے بعد نتائج تقریباً مکمل ہو چکے ہیں، جس کے بعد پاکستانیوں کی اکثریت نے سکون کا سانس لیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ گذشتہ کئی مہینوں سے قید اور سینکڑوں مقدمات میں الزامات کا سامنا کرنے والے پاکستان کے ’مقبول ترین‘ رہنما عمران خان سٹیبلشمنٹ کے خلاف سیاسی لڑائی جتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ پارلیمان سے باہر سیاسی تنازعات اور کڑوا ترین وقت اب ممکنہ طور پر ماضی کا حصہ ہے۔ کچھ مخصوص نتائج کو چھوڑ کر عمومی نتائج کے بعد سیاسی مفاہمت کا امکان بڑھ گیا ہے۔ انتخابات کے بہت سے حیران کن نتائج میں سے تین قابل ذکر ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستان مسلم لیگ ن، جس کی قیادت نے 2018 میں شکست کھانے کے بعد دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا سہارا لیا، نتائج کے بعد کافی مایوسی کا شکار ہے۔ مسلم لیگ ن اور اس کے قائد نواز شریف کلین سویپ کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کی جماعت نے قومی اسمبلی میں 70 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جب کہ پاکسان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 100 کے قریب سیٹوں پر کامیابی سمیٹی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے طور پر حکومت نہیں بنا سکتی۔
صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنانے کا امکان ہے جہاں پی ٹی آئی ان سے چند سیٹیں ہی پیچھے ہے، اس لیے مسلم لیگ ن کی صفوں میں مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ جہاں پورا شریف خاندان، کم از کم چھ، اپنی اپنی نشستیں جیت چکا ہے، وہیں مسلم لیگ ن کے کئی بڑے رہنما بشمول تجربہ کار وزرا جیسے خرم دستگیر اور رانا ثنا اللہ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ درحقیقت پنجاب کے بڑے شہروں بشمول گوجرانوالہ، فیصل آباد اور شیخوپورہ سے مسلم لیگ ن سے منسوب گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ کی شناخت فی الحال مٹ چکی ہے۔ دوسرا یہ کہ عمران خان کی عدم موجودگی میں پی ٹی آئی سے انتخابات میں اچھی کارکردگی کی توقع نہیں تھی، اس لیے نہیں کہ اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی بلکہ اس لیے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے فوجی تنصیبات پر دھاوا بولنے کے بعد مبینہ طور پر طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اعلیٰ کمان اس کی شکست کی خواہاں تھی۔ بہت سے لوگوں کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کا نام مٹانے کے لیے ہر ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں گے۔
انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان ’بلے‘ سے محروم کر دیا گیا اور پی ٹی آئی کی چھتری تلے الیکشن لڑنے کی کوشش کرنے والے آزاد ارکان کے خلاف ریاستی طاقت، قید و بند، ہراسانی، ٹارگٹڈ حملے، وکٹمائزیشن اور قانون نافذ کرنے والی فورسز کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ عوامی عزم اور جرات، جو پی ٹی آئی کے لیے ڈالے گئے ووٹوں سے ظاہر ہوتی ہے، کے برعکس قابل اعتراض عدالتی فیصلے اور ان کے رہنما کی سزا اور قید و بند سے توڑنے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان نے تقریباً 66 سال سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عوامی طاقت ہی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبوں کو ناکام بنا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر عدلیہ نے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور انتخابات کے دوران پارٹی کو مؤثر طریقے سے انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا جیسا کہ لاکھوں پاکستانی ووٹرز کے لیے پی ٹی آئی کے سینکڑوں قومی اور صوبائی امیدواروں کے انفرادی انتخابی نشان یاد رکھنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس کے باوجود عوام نے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مایوس نہیں کیا۔
انتخابی نتائج کا اعلان تقریباً مکمل ہو گیا اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 97 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی دوڑ میں آگے ہیں اور مسلم لیگ ن 71 اور پی پی پی 54 نشستوں کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ تاریخ ساز نتائج میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے ان انتخابات میں کلین سویپ کیا ہے ملک کے دوسرے سرے یعنی کراچی میں بھی پی ٹی آئی نے کئی نشستیں حاصل کی ہیں۔ تیسرا یہ کہ پی ٹی آئی کے سابق بڑے رہنما، جنہوں نے عمران خان ان سے راہیں جدا کر لی تھیں، کو انتخابات میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ماضی میں عمران خان کے اہم معتمد اور حامی جہانگیر ترین اور ان کے سابق وزیر اعلیٰ اور وزیر دفاع پرویز خٹک دونوں ہی جیتنے میں ناکام رہے ہیں۔ باغی رہنماؤں نے عمران خان کی بظاہر ڈوبتی ہوئی کشتی سے اترنے کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ پرویز خٹک کی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے خٹک خاندان کے تمام سات ارکان ہار گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے لیے اب بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ کئی سیٹوں سے اس کے امیدواروں نے نتائج کو چیلنج کر رکھا ہے۔ انتخابی نتائج شیئر کے طریقہ کار پر اس کے ارکان سوال اٹھا رہے ہیں۔ کچھ اس معاملے کو عدالتوں میں لے گئے ہیں۔ اگلی حکومت میں پی ٹی آئی کے کردار کے ساتھ ساتھ قانونی لڑائیاں بھی زور پکڑیں گی۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ اب بھی مشکل وقت ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے بہت سے اہم معاملات پر مسائل حل طلب ہیں، بشمول اس کے کہ نو مئی کی کہانی کو کیسے ختم کیا جائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان، پارٹی اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے بہترین راستے کے بارے میں سوچیں۔
نسیم زہرہ
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
#Imran Khan#Pakistan#Pakistan Election 2024#Pakistan establishment#Pakistan Politics#Politics#PTI#World
0 notes
Text
پی آئی اے کی نجکاری
خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے ملک کے معاشی مسائل کا یقینی طور پر ایک بنیادی سبب ہیں۔ پاکستان اسٹیل مل اور پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز ان میں سرفہرست ہیں۔ پچھلی صدی میں جب سوشلزم کی تحریک اپنے عروج پر تھی، پاکستان میں بھی تمام نجی کاروبار، صنعتوں، کارخانوں اور بینکوں کو قومیانے کا تجربہ کیا گیا لیکن اس کے نتائج نہایت تلخ رہے لہٰذا ڈی نیشنلائزیشن کا عمل ناگزیر ہوگیا چنانچہ تمام بینک اور بیشتر دوسرے ادار�� ان کے مالکان کو واپس کیے گئے ۔ یوں ان اداروں کے حالات میں بہتری آئی اور معاشی بحالی کا سفر ازسرنو شروع ہوا۔ تاہم سرکاری تحویل میں چلنے والے جن اداروں کی نجکاری نہیں ہو سکی ان میں سے بیشتر خسارے میں ہیں اور عوام کے ٹیکسوں اور بیرونی قرضوں کا ایک بڑا حصہ برسوں سے ان کا نقصان پورا کرنے پر خرچ ہو رہا ہے۔ ان اداروں کی نجکاری پچھلی کئی حکومتوں کے ایجنڈے میں شامل رہی لیکن عوامی اور سیاسی سطح پر منفی ردعمل کے خوف سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ تاہم پی ڈی ایم کی حکومت کے فیصلے کے مطابق نگراں حکومت خسارے میں چلنے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کو فروخت کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔
نگراں وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد نے رائٹرز سے گفتگو میں انکشاف کیا ہے کہ اس ضمن میں 98 فیصد کام ہو چکا ہے اور بقیہ دو فیصد کاموں کی منظوری کابینہ سے لی جانی ہے۔ وزیر نجکاری کے مطابق ٹرانزیکشن ایڈوائزر ارنسٹ اینڈ ینگ کی طرف سے تیار کردہ پلان کو نگراں حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کابینہ یہ فیصلہ بھی کرے گی کہ پی آئی اے کو بذریعہ ٹینڈر بیچنا ہے یا بین الحکومتی معاہدے کے ذریعے جبکہ نجکاری کے عمل سے قریب دو ذرائع کے مطابق ارنسٹ اینڈ ینگ کی 1100 صفحات کی رپورٹ کے تحت ایئر لائن کے قرضوں کو ایک علیحدہ ادارے کو دینے کے بعد خریداروں کو مکمل انتظامی کنٹرول کے ساتھ 51 فیصد حصص کی پیشکش بھی کی جائے گی۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال جون تک پی آئی اے پر 785 ارب روپے کے واجبات تھے اور 713 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔ پاکستان نے سنگین معاشی بحران کے پیش نظر گزشتہ سال جون میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ تین ارب ڈالر کے بیل آؤٹ معاہدہ کرتے ہوئے خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا تھا۔
پی ڈی ایم حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ آئی ایم ایف معاہدے پر دستخط کے چند ہفتے بعد ہی کرلیا تھا۔ بعد ازاں 8 اگست کو منصب سنبھالنے والی نگراں حکومت کو سبکدوش ہونے والی پارلیمان نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ بجٹ کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کا اختیار دیا تھا۔ فی الحقیقت خسارے میں چلنے والے تمام سرکاری اداروں کی نجکاری معاشی بحران سے نکلنے کیلئے ناگزیر ہے۔ نیشنلائزیشن کا تجربہ تقریباً دنیا بھرمیں ناکام ہو چکا ہے کیونکہ سرکاری تحویل میں چلنے والے اداروں میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں، مالی بدعنوانیاں، اقربا پروری، کام چوری اور دیگر خرابیاں بہت آسانی سے راستہ بنا لیتی ہیں۔ اس لیے حکومتیں اپنے دائرہ کار کو قانون سازی، فراہمی انصاف، قیام امن و امان ، نفاذ قانون، خارجہ امور اور نظام مالیات وخزانہ جسے بنیادی معاملات تک محدود رکھتی ہیں جس کے باعث کاروبار مملکت چلانے کیلئے مختصر کابینہ بھی کافی ہوتی ہے اورغیرضروری سرکاری اخراجات سے نجات مل جاتی ہے جبکہ معاشی ترقی کیلئے نجی شعبے کو محفوظ سرمایہ کاری کی تمام منصفانہ سہولتیں دے کر کام کرنے کے بھرپور مواقع مہیا کیے جاتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں بھی اس طریق کار کو اپنایا جائے اور وقتی سیاسی مفادات کیلئے نجکاری کے عمل کی مخالفت نہ کی جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
عمران خان نے سائفر کیس میں کئی باتوں کا اعتراف کیا، عدالت کے پاس سزا کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا، اعظم نذیر تارڑ
مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ عمران خان نے سائفر کیس میں کئی باتوں کا اعتراف کیا، عدالت کے پاس سزا دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ملک بھر میں انتخابی ماحول جاری ہے،عدالتی معاملات بھی ہائی لائٹڈ ہیں،مختلف حلقوں کے مطالبے پر جے آئی ٹی بنائی گئی، آئین عدلیہ کے بارے میں بڑا واضح ہے،پارلیمان سپریم…
View On WordPress
0 notes
Text
ایف بی آر اور غریب
عجب تیری سیاست عجب تیرا نظام جاگیرداروں ، مل مالکان کو سلام جبکہ غریبوں کا کردیا ہے تو نے جینا حرام، ہماری ریاست کا کچھ یہ ہی حال ہے، ریاست کے پارلیمان میں بیٹھے ہوئے ہر شخص کا غریب سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا عمران خان کا سچ سے رہا ہے۔ پارلیمان میں بیٹھے ہوئے لوگ ہوں یا اسلام آباد میں بیٹھا بابو، یہ تمام لوگ عوام کے پیسے پر عیاشیاں کر رہے ہیں، ان کی اولادیں بھی عوام کے پیسے پر دنیا بھر گھومتی ہیں، میرے اور آپ کے بچوں کا علاج پاکستان میں مفت نہیں ہو سکتا مگر ہمارے سیاسی لوگوں اور ان کی اولادوں کے علاج کے لیے بیرون ملک میں بھی انسانی ہمدردی کے نام پر گرانٹس جاری کر دی جاتی ہیں۔ لیکن ہمارے پالیسی سازوں کا اگر ٹیکس چیک کیا جائے ��و ان کے سر شرم سے جھکیں نہ جھکیں ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں کہ یہ ہیں ہمارے پالیسی ساز جو ہر حوالے سے ٹیکس چوری میں کسی سے کم نہیں ہیں مگر وہ کوئی ایسا موقع نہیں چھوڑتے جس سے عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنے میں کمی ہو۔ ایسے میں ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سینئر سٹیزن کو بھی نہیں بخشتے۔
حال ہی میں حکومت نے بہبود سرٹیفکیٹ ، شہداء فیملی اکاؤنٹ اور پنشنرز بینیفٹ اکاؤنٹ کی آمدنی پر پانچ فیصد انکم ٹیکس عائد کر دیا ہے، جو سال 2023ء سے لاگو ہو گا، یعنی شہداء کو بھی ٹیکس دینا ہو گا، جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل پر قربان کر دیا ہم نے انھیں بھی نہ بخشا، بنیادی طور پر، اس طرح کی اسکیمیں شہداء کے اہل خانہ کو مالی فوائد فراہم کرنے کے لئے متعارف کروائی گئی تھیں، جنہوں نے قوم اور شہریوں کے لئے اپنی زندگی قربان کر دیں یا پھر وہ سینئر سٹیزن جو تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ایک حصے کے طور پرانکم ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتا رہے ہیں اور جب ان کے پاس آمدنی کا باقاعدہ ذریعہ ہوتا تھا تو قوم کی ترقی میں حصہ ڈالتے تھے ٹیکس کی صورت میں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی جمع پونجی کو ایسی اسکیموں میں اس لئے لگاتے ہیں کہ بڑھاپا آسانی سے کٹ جائے۔ یہ کلاس اب اس طرح کی اسکیموں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر مکمل طور پر انحصار کرتا ہے،
آرام دہ اور پرسکون زندگی گزارنے کے لیے اس طبقے میں مزید وسائل کی ضرورت ہے مگر ہونا تو چاہے تھا کہ ان کی بچت اسکیموں میں ٹیکس کی شرح صفر رہتی لیکن حکومت نے ان کو بھی نہ بخشا، ٹیکس لگانے سے ان اسکیموں پر منافع کے مارجن میں اضافے کے بعد اکاؤنٹ ہولڈرز کی قلیل زندگی کی خوشی ختم ہو جائے گی فیڈرل بورڈ آف ریونیوپالیسی ونگ کو انسانی بنیادوں پر اس آمرانہ پالیسی کو ختم کرنا چاہئے۔ کیا ایف بی آر مل مالکان، جاگیرداروں یا سرمایہ کاروں سے ٹیکس وصول کرتا ہے ؟ کیا ایف بی آر خود اپنا کام ٹھیک کر رہا ہے، ایف بی آر جیسے ادارے کا تو ملک سے فوری خاتمہ ہونا چاہیے کیوں کہ سندھ میں 2011 میں قائم ہونے والا ایس آر بی ایف بی آر سے 1000 فیصد بہتر کارکردگی دکھا رہا ہے۔ نگراں وزیر اعظم اور کابینہ سے گزارش ہے کہ بچت اسکیموں میں غریبوں کو پہنچنے والے فائدے پر دوبارہ سوچ بچار کیا جائے۔ اور پرانے نظام میں واپس آنا چاہئے جہاں اس طرح کی آمدنی سے غربت کا خاتمہ اور ساتھ لوگوں کے وسائل میں اضافہ ہورہا تھا. اور اس آمدنی پر ٹیکس مسلط کر کے یہ چھوٹے پیمانے پر سرمایہ کاروں پر بہت زیادہ بوجھ ثابت ہو رہا ہے۔ موجودہ شرح ٹیکس پر 5 ملین روپے کی سرمایہ کاری پرنئی نافذ شدہ پالیسی کے تحت قابل اطلاق انکم ٹیکس 41 ہزار روپے ہو گا، جبکہ، پرانےنظام کے تحت یہ 11 ہزارروپے ہوتا تھا۔ حکومت سے گزارش ہے کہ بچت اسکیموں میں بیواؤں، سینئر سٹیزن اور شہداء کی فیملیز کی سرمایہ کاری کو تحفظ دے اور فی الفور ٹیکس کی مکمل چھوٹ کا اعلان کرے۔
محمد خان ابڑو
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
سرمایہ کاری بورڈ، آسان کاروبار بل متعارف کرانے کا فیصلہ
بل چھوٹے کاروباری مالکان کا تحفظ یقینی بنائے گا، ایڈیشنل سیکریٹری عنبرین افتخار۔ فوٹو: فائل اسلام آباد: سرمایہ کاری بورڈ نے ملک میں چھوٹے کاروباری مالکان کے تحفظ اور چھوٹے کاروبار کوفروغ دینے کے لیے آسان کاروبار بل متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسٹیک ہولڈرز کی تجاویز کو شامل کرنے کے بعد رواں ماہ کے آخر تک پارلیمان میں پیش کیا جائے گا، آسان کاروبار بل بارے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت میں تمام اسٹیک…
View On WordPress
0 notes
Text
پارلیمان جمہوریت کا بنیادی جزو ہے، اسپیکر قومی اسمبلی
سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے عالمی یوم پارلیمنٹرین ازم کے موقع پر پیغام میں کہنا ہے کہ پارلیمان جمہوریت کا بنیادی جزو ہے۔ سپیکر سردار ایاز صادق کاکہنا تھا کہ پاکستان کی پارلیمان عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہے۔جمہوریت کی مضبوطی اور جمہوری اقدار کے فروغ کیلئے پارلیمان کی بالادستی ناگزیر ہے۔پاکستان بین الپارلیمانی یونین (آئی پی یو) کا سرگرم رکن ہے۔ سردار ایاز صادق نے کہا کہ جمہوری اقدار…
View On WordPress
0 notes
Text
قومی اسمبلی کا ایک دن قوم کو کتنے میں پڑتا ہے؟
نئی قومی اسمبلی وجود میں آ چکی ہے۔ اس کے پہلے اجلاس کا ماحول دیکھا تو کرامزن کے ناول کا وہ چرواہا یاد آ گیا جو آتش فشاں پر بیٹھ کر بانسری بجا رہا تھا۔ میں نے سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا کہ قومی اسمبلی کے ماحول سے لطف اندوز ہونے والوں کو کیا یہ معلوم ہے کہ قومی اسمبلی کا ایک دن قوم کو قریب آٹھ سو لاکھ میں پڑتا ہے؟ کچھ نے حیرت کا اظہار کیا، بعض نے اپنے تئیں تصحیح فرمانے کی کوشش کی کہ شاید یہ رقم آٹھ لاکھ ہے جو غلطی سے آٹھ سو لاکھ لکھ دی گئی ہے۔ قومی اسمبلی ایک سال میں قریب 135 دن اجلاس منعقد کرتی ہے۔ 2017 کے اسمبلی بجٹ کے مطابق پارلیمان کے ایک دن کے اجلاس کا اوسط خرچ ڈھائی کروڑ روپے سے زیادہ تھا۔ اس دوران کئی بار تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کیے گئے۔ پوچھنے والا تو کوئی تھا نہیں کہ پارلیمان خود ہی فیصلہ ساز تھی اور اپنی مراعات کے فیصلے خود ہی کرتی تھی۔ ساتھ ہی مہنگائی بھی بڑھ رہی تھی اور اوسط اخراجات برھتے ہی جا رہے تھے۔ چند سال تک میں اس مشق سے جڑا رہا اور مراعات و معاوضے میں اضافے اور مہنگائی کی شرح کے حساب سے تخمینہ لگاتا رہا کہ بات اب کہاں تک پہنچی ہے۔
قریب 2020 میں تنگ آ کر اور تھک کر جب میں نے یہ سلسلہ منقطع کر دیا کیونکہ متعلقہ وزارتوں سے تازہ ترین معلومات اکٹھے کرتے رہنا ایک بلاوجہ کی مشقت تھی اور اس سے بہتر تھا کہ جنگل میں جا کر کسی چرواہے سے بانسری سن لی جائے۔ جس وقت یہ سلسلہ منقطع کیا اس وقت تک محتاط ترین اندازے کے مطابق یہ اخراجات دگنے ہو چکے تھے۔ اس کے بعد مہنگائی کا وہ طوفان آیا کہ الامان۔ اخراجات، مہنگائی اور افراط زر کی شرح کے مطابق اگر جمع تقسیم کی جائے اور انتہائی محتاط جمع تقسیم کی جائے تو اس وقت قومی اسمبلی کا ایک دن کا اجلاس قوم کو قریب آٹھ سو لاکھ میں پڑتا ہے۔ نہ جھکنے والے ، نہ بکنے والے ، عوام کے خیر خواہ ، کردار کے غازیوں اور بے داغ ماضیوں میں سے کوئی ایوان میں سوال کر دے کہ اسمبلی کے آخری مالی سال کے بجٹ کے مطابق تازہ ترین اعدادو شمار کیا ہیں اور مہنگائی کی اس لہر میں قومی اسمبلی کے ایک دن کا اجلاس اوسطا قوم کو کتنے میں پڑتا ہے تو جواب سن کر شاید بہت ساروں کو دن میں وہ تارے بھی نظر آ جائیں جو آج تک ماہرین فلکیات بھی نہیں دیکھ سکے۔
سوال البتہ اخراجات کا نہیں ہے۔ پارلیمان چلانی ہے تو اخراجات تو اٹھیں گے۔احساس کیا جائے تو اخراجات کم ضرور ہو سکتے ہیں لیکن پھر بھی ہوں گے تو سہی۔ اس لیے سوال اخراجات کا نہیں بلکہ کارکردگی کا ہے۔ چارجڈ ماحول میں ایک آدھ اجلاس تلخی اور اودھم کی نذر ہو جائے تو یہ ایک فطری سی بات ہے۔ لیکن اگر یہ مشق مسلسل جاری رہنے لگے تو پھر یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ عالم یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس کی دفعہ 5 کے مطابق صرف ایک چوتھائی اراکین بھی موجود ہوں تو کورم پورا تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم اکثر یہ خبر پڑھتے ہیں کہ کورم ٹوٹ گیا اور اجلاس ملتوی ہو گیا۔ گزشتہ سے پیوستہ سابقہ اسمبلی کے 74 فیصد اجلاس کا عالم یہ تھا کہ ان میں حاضری ایک چوتھائی سے بھی کم تھی۔ اس اسمبلی میں پارلیمانی لیڈروں میں سب سے کم حاضریاں عمران خان کی تھیں تو اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا تھا کہ وہ اس اسمبلی کو دھاندلی کی پیداوار سمجھتے ہیں لیکن اب جس اسمبلی نے انہیں وزیر اعظم بنایا تو اس میں ان کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ پہلے 34 اجلاسوں میں وہ صرف چھ اجلاسوں میں موجود تھے۔
اسمبلی کے رولز آف بزنس کے تحت ارکان کو باقاعدہ چھٹی کی درخواست دینا ہوتی ہے لیکن ریکارڈ گواہ ہے کہ اس تردد میں اراکین اسمبلی تو کیا، خود سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بھی نہیں پڑتے۔ ہر محکمے کی چھٹیوں کا کوئی ضابطہ اور تادیب ہے لیکن اراکین پارلیمان سے کوئی سوال نہیں ہو سکتا کہ عالی جاہ آپ کو لوگوں نے منتخب کیا ہے تو اب ایوان میں آ کر اپنی ذمہ داری تو ادا کیجیے۔ یہ خود ہی قانون ساز ہیں اس لیے انہوں نے یہ عظیم الشان قانون بنا رکھا ہے کہ جو رکن اسمبلی مسلسل 40 اجلاسوں میں نہیں آئے گا اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔ غور فرمائیے مسلسل چالیس اجلاس کی شرط کیسی سفاک ہنر کاری ہے۔ غریب قوم کا یہ حق تو ہے کہ وہ اپنی پارلیمان سے سنجیدگی کی توقع رکھے۔ بنیادی تنخواہ، اس کے علاوہ اعزازیہ، سمپچوری الاؤنس ، آفس مینٹیننس الاؤنس الگ سے ، ٹیلی فون الاؤنس ، اسکے ساتھ ایک عدد ایڈ ہاک ریلیف الائونس، لاکھوں روپے کے سفری واؤچرز، حلقہ انتخاب کے نزدیک ترین ایئر پورٹ سے اسلام آباد کے لیے بزنس کلاس کے 25 ریٹرن ٹکٹ، اس کے علاوہ الگ سے کنوینس الاؤنس، ڈیلی الاؤنس کے ہزاروں الگ سے، اور پھر پارلیمانی لاجز کے باوجود ہاؤسنگ الاؤنس۔
یہی نہیں بلکہ موجودہ اور سابق تمام ارکان قومی اسمبلی اور ان کے اہل خانہ تاحیات 22 ویں گریڈ کے افسر کے برابر میڈیکل سہولت کے حقدار ہیں۔ تمام موجودہ اور سابق اراکین قومی اسمبلی کی اہلیہ اور شوہر تاحیات بلیو پاسپورٹ رکھنے کے بھی مجاز ہیں۔ سپیکر صاحبان نے جاتے جاتے خود کے لیے جو مراعات منظور کیں وہ داستان ہوش ربا اس سب سے الگ ہے۔ مسئلہ پارلیمان کے اخراجات ہی کا نہیں، مسئلہ کارکردگی کا بھی ہے۔ کارکردگی اگر اطمینان بخش ہو تو یہ اخراجات بھی گوارا کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ہماری پارلیمان کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔ حتیٰ کہ یہاں اب جو طرز گفتگو اختیار کیا جاتا ہے وہ بھی لمحہ فکریہ ہے۔ وہ زمانے بیت گئے جب نا مناسب گفتگو کو غیر پارلیمانی کہا جاتا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ گالم گلوچ اور غیر معیاری خطابات فرمائے جاتے ہیں اور خواتین پر جوتے اچھالے جاتے ہیں۔ پارلیمان کو کسی کارپوریٹ میٹنگ جیسا تو یقینا نہیں بنایا جا سکتا اور اس میں عوامی رنگ بہر حال غالب ہی رہتا ہے لیکن رویے اگر ایک معیار سے گر جائیں تو پھر یہ تکلیف دہ صورت حال بن جاتی ہے۔ پارلیمان اسی بحران سے دوچار ہو چکی ہے۔
سوال اٹھایا جائے تو اراکین پارلیمان جواب آں غزل سناتے ہیں کہ فلاں اور فلاں کے اخراجات بھی تو ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ یہ فلاں اور فلاں کے اخراجات کو بھی ایک حد میں پارلیمان نے ہی رکھنا ہے۔ پارلیمان اگر اپنے اخلاقی وجود کا تحفظ کرے تو پھر وہ اس ذمہ داری کو بھی نبھا سکتی ہے لیکن وہ اگر یہاں بے نیازی کرے تو پھر وہ فلاں اور فلاں کے اخراجات پر سوال نہیں اٹھا سکتی۔ ہمیں اس وقت معاشی مسائل کا حل چاہیے۔ صرف عوام کی رگوں سے بجلی گیس کے بلوں کے نام پر لہو نچوڑ لینا کوئی حکمت نہیں۔ کب تک اور کتنا نچوڑیں گے؟ اصل چیز معاشی بحالی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمان کا ماحول بہتر ہو اور یہاں سنگین موضوعات پوری معنویت سے زیر بحث آئیں۔
آصف محمود
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز
0 notes
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 12 November-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ: ۲۱/ نومبر ۴۲۰۲ء
وقت: ۰۱:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور کانگریس قائد راہل گاندھی کے آج ریاست کے مختلف مقامات پر تشہیری اجتماعات۔
٭ رائے دہندگان میں بیداری پیدا کرنے کیلئے ”سویپ“ پروگرام کے تحت ریاست بھر میں چتررَتھ روانہ؛ ووٹنگ کے فیصد میں اضافے کیلئے مختلف اقدامات۔
٭ کارتِکی ا��کادشی کے سلسلے میں پنڈھرپور میں مرکزی سرکاری پوجا کا انعقاد۔
اور۔۔۔٭ خواتین کے ایشیائی ہاکی چمپئن شپ میں بھارت کی افتتاحی مقابلے میں ملیشیاء کے خلاف چار- صفر سے فتح۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
بی جے پی کے رہنماء‘ وزیرِ اعظم نریندرمودی آج ریاست کے چیمبور‘ شولاپور اور پونہ میں ہونے والے تشہیری جلسوں سے خطاب کریں گے۔ مرکزی وزیرِ داخلہ اور بی جے پی رہنماء امیت شاہ آج ممبئی میں پارٹی کے دو انتخابی جلسوں میں شرکت کریں گے‘ جبکہ کانگریس رہنماء راہل گاندھی چکھلی اور گوندیا اسمبلی حلقوں میں پارٹی امیدواروں کی انتخابی تشہیر کیلئے ہونے والے جلسوں سے خطاب کریں گے۔
***** ***** *****
انتخابی تشہیر کیلئے شیوسینا رہنماء وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کل چھترپتی سمبھاجی نگر ضلع کے کنڑ حلقہئ انتخاب سے مہایوتی کی امیدوار سنجنا جادھو اور ویجاپور میں مہایوتی کے امیدوار رمیش بورنارے کی حمایت میں تشہیری مہم میں حصہ لیا۔ ویجاپور کے جلسہئ عام میں وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ لوک سبھا انتخابات میں شیوسینا نے اپنی طاقت دکھادی ہے اور اسمبلی انتخابات میں بھی ریکارڈ کامیابی حاصل کرنے کا اعتماد انھوں نے ظاہر کیا۔ انھو ں نے کہا کہ اُن کی شیوسینا نے لوک سبھا انتخابات میں مخالف محاذ سے دو لاکھ سات ہزار ووٹ زیادہ حاصل کیے تھے اور اب اسمبلی میں نئے ریکارڈ قائم کریں گے۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات کے حوالے سے چھترپتی سمبھاجی نگر میں کل بی جے پی کی جانب سے اخباری کانفرنس منعقد کی گئی‘ جس میں رُکنِ پارلیمان ڈاکٹر بھاگوت کراڑ اور اورنگ آباد مشرق حلقے کے امیدوار اتل ساوے نے مہایوتی کے دورِ اقتدار میں شہر میں کیے گئے ترقیاتی کاموں کی تفصیلات پیش کیں۔ بھاگوت کراڑ نے بتایا کہ 14 تاریخ کو وزیرِ اعظم نریندر مودی چکل تھانہ میں ایک انتخابی جلسے میں شرکت کریں گے۔ اورنگ آباد وسط حلقے کے مہایوتی کے امیدوار پردیپ جیسوال کی تشہیر کیلئے کل نکالی گئی پدیاترا میں فلمی اداکار گووندا نے شرکت کی۔ اورنگ آباد مغرب حلقہئ انتخاب میں مہاوِکاس آگھاڑی کے امیدوار راجو شندے نے کل ویدانت نگر‘ کبیر نگر‘ ایکناتھ نگر، حمال واڑی‘ بالانگر اور راہل نگر میں پدیاترا نکالی۔
***** ***** *****
شیوسینا اُدّھو باڑا صاحب ٹھاکرے پارٹی کے سربراہ اُدّھو ٹھاکرے نے کل ایوت محل ضلع کے وانی میں انتخابی اجتماع سے خطاب کیا۔ اپنی تقریر میں انھوں نے سابقہ پنشن اسکیم اور عام مفت تعلیم کے اپنے وعدوں کا اعادہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ خواتین کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے ریاست میں ہر جگہ ایک علیحدہ پولس اسٹیشن قائم کیا جائیگا‘ جس میں ایک خاتون پولس افسر اور خاتون پولس کانسٹیبل ہوں گے۔ کسانوں کو نقصان سے بچانے کیلئے پانچ اشیائے ضروریہ گندم‘ چاول، شکر، تیل اور دالوں کی قیمتیں پانچ برسوں کیلئے مستحکم رکھی جائیں گی۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کی مفت تعلیم کے خطوط پر مہاراشٹر میں پیدا ہونے والے لڑکوں کو بھی مفت تعلیم دی جائیگی۔
***** ***** *****
دھاراشیو میں تلجاپور حلقہئ انتخاب کے مہایوتی کے امیدوار رانا جگجیت سنگھ پاٹل نے کل ایک اخباری کانفرنس میں مہایوتی حکومت کی جانب سے چلائی جارہی مختلف اسکیموں کی تفصیلات پیش کیں۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات کیلئے مہاراشٹر او بی سی سینا نے شیوسینا کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ اس تنظیم کے سربراہ شرد بھوور نے کل ممبئی میں منعقدہ ایک اطلاعی کانفرنس میں یہ اعلان کیا۔
***** ***** *****
مرکزی مواصلات بیورو کی جانب سے ریاست کے 14 اضلاع میں کل سے رائے دہندگان بیداری مہم کا آغاز کیا گیا۔ رائے دہندگان کو اپنے حق کا استعمال کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے شہر اور دیہی علاقوں میں آئندہ 10 دِنوں تک یہ تشہیری رتھ گردش کریں گے۔ چھترپتی سمبھاجی نگر میں ضلع کلکٹر دلیپ سوامی کے ہاتھوں سبز جھنڈی دکھاکر اس طرح کا ایک رَتھ روانہ کیا گیا۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ رائے دہی کا فیصد 75 سے 80 فیصد تک بڑھانے کیلئے یہ چتررَتھ معاون ثابت ہوگا اور ایک بھی ووٹر اپنے حقِ رائے دہی کے استعمال سے محروم نہ رہے اس کیلئے یہ مہم چلائی گئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ضلع میں اور بالخصوص شہر میں رائے دہی کا تناسب قابلِ تشویش ہے۔ بھارتی شہری کی حیثیت سے ہر ایک کو اس بات کی تشویش ہونا چاہیے کہ رائے دہی کا تناسب اسی طرح کم ہوتا رہا تو جمہوریت کیلئے خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔
***** ***** *****
انتخابات میں خواتین رائے دہندگان کے تناسب میں اضافے کیلئے لاتور کے ضلع کلکٹر اور ضلع انتخابی افسر دفتر‘ سویپ اور دَیانند کالج کے اشتراک سے منعقدہ ایک خصوصی پروگرام میں خواتین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ”اس کی آواز اور اس کی رائے قیمتی ہے“ اس عنوان سے منعقدہ پروگرام میں ضلع کلکٹر ورشا ٹھاکر گھوگے نے خواتین سے بات چیت کی۔ پروگرام میں موجود خواتین نے رائے دہی بیداری کا حلف بھی لیا۔
***** ***** *****
سامعین! اسمبلی انتخابات کے حوالے سے پروگرام ”آڑھاوا وِدھان سبھا متدار سنگھاچا“ روزانہ شام سات بجکر دس منٹ پر آکاشوانی سے نشر کیا جارہا ہے۔ اس پروگرام میں آج پونا ضلع کے حلقہئ انتخاب کا جائزہ آپ سماعت کرسکیں گے۔
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر سے نشر کی جارہی ہیں۔
***** ***** *****
کارتکی ایکادشی آج منائی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں پنڈھرپور میں شری وِٹھل رُکمنی کی سرکاری مہاپوجا ڈویژنل کمشنر ڈاکٹر چندر کانت پُل کُنڈوار کے ہاتھوں کی گئی۔ ہر سال یہ سرکاری مہا پوجا ریاست کے نائب وزیرِ اعلیٰ کے ہاتھوں کی جاتی ہے۔ تاہم اس برس انتخابی ضابطہئ اخلاق کے پیشِ نظر یہ پوجا انتظامی افسران نے انجام دی۔ اس موقع پر شولاپور کے ضلع کلکٹر کمار آشیرواد‘ شولاپور ضلع پریشد کے سی ای او کلدیپ جنگم موجود تھے۔ کارتکی ایکادشی کے سلسلے میں پیٹھن میں درشن کیلئے جانے والے زائرین کیلئے ایس ٹی کارپوریشن نے مختلف ڈپو سے اضافی بسیں چلانے کا اہتمام کیا ہے۔
***** ***** *****
چھترپتی سمبھاجی نگر ضلع میں پیٹھن اسمبلی حلقے کیلئے گھر سے رائے دہی کے پروگرام کا آغازہوگیا ہے۔ اس کے پہلے دِن کل 900 افراد نے اپنے ووٹ ڈالے۔ ضلع میں کُل 27 ہزار 964 معذوروں اور 577‘ 85 برس سے زائد عمر کے بزرگوں نے گھر ہی سے ووٹ ڈالنے کے متبادل کیلئے اندراج کروایا ہے۔
ناندیڑ لوک سبھا ضمنی انتخاب اور اسمبلی عام انتخاب کیلئے گھر سے ووٹ ڈالنے کے مرحلے کا کل آغاز ہوا۔
ہنگولی ضلع کے بسمت‘ کلمنوری اور ہنگولی حلقوں میں کل 1700 ملازمین نے بذریعہئ ڈاک اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا۔
***** ***** *****
لاتور میں انتخابی کمیشن کے فلائنگ اسکواڈ نے کل ضلع پریشد کے داخلی دروازے سے قریب 25 لاکھ روپئے نقد رقم ضبط کرلی۔ انتخابی ریٹرننگ افسر روہنی نرہے- وِروڑے کی رہنمائی میں یہ کارروائی انجام دی گئی۔
ہنگولی میں واشم روڈ پر واقع پیپلز بینک کے احاطے سے ٹووہیلر پر بیگ میں ساڑھے 14 لاکھ روپئے لیکر جانے والے دو افراد کو مقامی کرائم برانچ کے دستے نے حراست میں لے لیا۔
***** ***** *****
خواتین کے ایشیائی ہاکی چمپئن شپ میں کل بھارت نے اپنے افتتاحی میچ میں ملیشیاء کو چار- صفر سے شکست دے دی۔ دوسرے میچوں میں چین نے تھائی لینڈ کو 15 صفر سے شکست دی اور جنوبی کوریا اور جاپان کے مابین مقابلہ دو- دو گول سے برابر رہا۔ بہار کے نالندہ کے راج گیر میں یہ ٹورنامنٹ کھیلا جارہا ہے۔ کل بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کے ہاتھوں چمپئن شپ کے باقاعدہ افتتاح کا پروگرام منعقد ہوا۔
***** ***** *****
جموں یونیورسٹی میں جاری کُل ہند انٹریونیورسٹی تلوار بازی مقابلوں میں چھترپتی سمبھاجی نگر کی ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کے ابھئے شندے سیبر انفرادی زمرے میں طلائی تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اسی زمرے میں نکھل واگھ نے نقرئی تمغہ جیتا۔ ایپّی زمرے میں یونیورسٹی کے انیل دیوکر‘ مہیش کورڈے‘ یش واگھ‘ آشیش ڈانگرے‘ اور فائل زمرے میں گورو گوٹے‘ شاکر سیّد‘ رِتوک شندے اور سیّم نروڑے کی کھیلو انڈیا انٹریونیورسٹی مقابلے 2025 کیلئے انتخاب عمل میں آیا ہے۔
***** ***** *****
گرونانک جینتی کے سلسلے میں جنوب وسطی ریلوے نے حضور صاحب ناندیڑ تا بیدر کے درمیان مکمل طور پر نان ریزرویشن خصوصی ٹرین چلانے کا اہتمام کیا ہے۔ ناندیڑ تا بیدر یہ گاڑی 14 نومبر کو ناندیڑ سے صبح ساڑھے آٹھ بجے روانہ ہوکر پربھنی‘ پرلی، لاتور‘ اودگیر‘ بھالکی کے راستے دوپہر چار بجے بیدر پہنچے گی۔ واپسی کے سفر میں یہ گاڑی بیدر سے 16 نومبر کو دوپہر ڈھائی بجے روانہ ہوکر شب ساڑھے گیارہ بجے ناندیڑ پہنچے گی۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور کانگریس قائد راہل گاندھی کے آج ریاست کے مختلف مقامات پر تشہیری اجتماعات۔
٭ رائے دہندگان میں بیداری پیدا کرنے کیلئے ”سویپ“ پروگرام کے تحت ریاست بھر میں چتررَتھ روانہ؛ ووٹنگ کے فیصد میں اضافے کیلئے مختلف اقدامات۔
٭ کارتِکی ایکادشی کے سلسلے میں پنڈھرپور میں مرکزی سرکاری پوجا کا انعقاد۔
اور۔۔۔٭ خواتین کے ایشیائی ہاکی چمپئن شپ میں بھارت کی افتتاحی مقابلے میں ملیشیاء کے خلاف چار- صفر سے فتح۔
***** ***** *****
0 notes
Text
آئینی ترمیم پر ووٹنگ کا عملپی ٹی آئی نے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا
(24نیوز)پی ٹی آئی نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں (سینیٹ اور قومی اسمبلی) میں آئینی ترمیم پر ووٹنگ کے عمل کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کا چیئرمین بیرسٹر گوہر کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں کمیٹی نے نہایت غیرشفاف اور متنازعہ ترین انداز میں دستور میں ترمیم کے عمل کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا،اعلامیے کے مطابق پی ٹی آئی سینیٹ اور قومی اسمبلی دونوں ایوانوں میں آئینی…
0 notes
Text
راہل گاندھی نے پارلیمان میں اپنی پہلی تقریر میں پیغمبر اسلام کا ذکر اور قرآنی آیت کا حوالہ کیوں دیا؟
http://dlvr.it/T93XhD
0 notes
Text
نئے چیف جسٹس سے قوم کی توقعات
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال ریٹائر ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس منصب جلیلہ پر فائز ہوتے ہی ان سے قوم نےبہت سی توقعات وابستہ کر لی ہیں کیونکہ ان کی شہرت ایک ایسے جج کی ہے جو نہ صرف آئین کی پاسداری کرتے ہیں بلکہ آئین کی بنیادی روح کو بھی سمجھتے ہیں اور ان پر کوئی اثر انداز بھی نہیں ہو سکتا۔ بحیثیت قوم ہمارا عظیم المیہ یہ رہا کہ ہماری عدلیہ کی تاریخ قابل فخر نہیں رہی، جس کی وجہ سے ہم عظیم بحرانوں کا شکار ہیں ۔ چیف جسٹس (ر) عمر عطا بندیال کا دور ختم ہو گیا ہے۔ بدقسمتی سے ان کے دور میں بھی ہماری عدلیہ کے ناقابل فخر کردار کا عمومی تاثر نہ صرف یہ کہ ختم یا کم نہیں ہوا بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے فیصلوں سے جتنا اختلاف ان کے ساتھ بینچز میں شامل جج صاحبان نے کیا ، شاید اتنا اختلاف کسی اور چیف جسٹس کے فیصلوں پرنہیں ہوا ۔ ان کی سربراہی میں قائم کردہ ایک بینچ کے اکثریتی فیصلے پر تو ایک جج صاحب نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ تک لکھ دیا کہ’’ اس فیصلے سے آئین کو ازسر نو تحریر کیا گیا ہے۔ ‘‘اختلافی نوٹ کا یہ جملہ عدلیہ کی آئینی حدود سے تجاوز کرنے کی ایک تاریخی چارج شیٹ ہے۔
چیف جسٹس (ر) عمر عطا بندیال نے جاتے جاتے اپنی سربراہی میں قائم کردہ تین رکنی بینچ کا دو ایک کی اکثریت سے جو آخری فیصلہ سنایا ہے، جس میں قومی احتساب آرڈی ننس یعنی نیب آرڈی ننس میں پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، اس فیصلے سے نہ صرف بینچ کے ایک رکن جسٹس منصور علی شاہ نے اختلاف کیا بلکہ اپنا ایک ایسا اختلافی نوٹ لکھا ہے، جس میں عدلیہ کے کردار کے حوالے سے بنیادی مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ ’’ اس کیس میں بنیادی سوال نیب آرڈی ننس میں ترامیم کا نہیں بلکہ پارلیمان کی بالادستی کا ہے۔‘‘ اس اختلافی نوٹ میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے پارلیمان کے اختیارات استعمال کئے ہیں۔ ہماری عدلیہ کا یہی بنیادی مسئلہ ہے۔ اس نے نہ صرف مقننہ ( پارلیمنٹ ) اور انتظامیہ (ایگزیکٹو) کے اختیارات میں مداخلت کی اور جوڈیشل ایکٹیوزم سے اس مداخلت میں اضافہ کیا بلکہ اسٹیبلشمنٹ خصوصاً فوجی آمروں کی آئین شکنی کو بھی درست قرار دیا۔
عدلیہ پر نہ صرف یہ الزام ہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق پولیٹیکل انجینئرنگ کیلئے راستہ ہموار کیا بلکہ بعض جج صاحبان نے خود بھی پولیٹیکل انجینئرنگ بھی کی۔ عمر عطا بندیال ، ثاقب نثار ، آصف سعید کھوسہ ، گلزار احمد اور افتخار چوہدری پر یہ الزامات بہت زیادہ ہیں ۔ اس وقت پاکستان دہشت گردی ، کرپشن اور معاشی بحران کا شکار ہے ۔ دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف جنگ اور معاشی بحران پر قابو پانے کی کوششیں قابل تعریف ہیں لیکن اس جنگ اور ان کی کوششوں میں ہر ادارے کی اپنی آئینی حدود ہیں ، جو خطرناک حد تک پار کر لی گئی ہیں۔ یہ صورت حال حقیقی جمہوریت ، قانون، آئین کی عمل داری اور معاشی استحکام کیلئے خطرناک ہے ۔ اگر ادارے اپنی آئینی حدود میں کام نہیں کریں گے تو حالات مزید بگڑ تے جائیں گے ۔ ملک میں نہ جمہوریت جڑ پکڑ سکے گی، نہ امن قائم ہو سکے گا ، نہ معیشت ٹھیک ہو گی اور نہ احتس��ب کا مضبوط نظام قائم ہوپائے گا۔ اس صورت حال میں پاکستان کی عدلیہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خود سمیت دیگر اداروں کو آئینی حدود سے باہر نہ نکلنے دے۔
مقننہ اور سویلین انتظامیہ کے اختیارات میں تجاوز کر کے انہیں مفلوج کر دیا گیا ہے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ اس صورت حال سے نکلنے کیلئے ’’ ہیرو‘‘ یا ’’ نجات دہندہ ‘‘ کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس ناجائز خواہش پر مبنی کردار کی تمنا ہی ازخود آئینی اور ریاستی ڈھانچے کو منہدم کر رہی ہے ۔ ریاست پاکستان میں طاقت کا ایک مرکز نہیں رہا، جس کی مضبوط بنیاد عوام کے آزادانہ جمہوری فیصلے ہوتے ہیں بلکہ طاقت کے کئی مراکز بن گئے ہیں ، جو انتشار کا باعث ہیں۔ احتساب کا نظام صرف پولیٹیکل انجینئرنگ کا ہتھیار بن کر رہ گیا ہے اور بعض طاقتور حلقے احتساب سے بالاتر ہیں۔ اب پاکستان کو کسی ’’ ہیرو ‘‘ یا ’’ نجات دہندہ ‘‘ کی ضرورت نہیں ۔ مہذب اور جمہوری معاشروں کی طرح ایسے لوگوں کی ضرورت ہے ، جو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کے قائل ہوں ۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ذمہ داروں کو مقننہ اور انتظامیہ کی حدود میں مداخلت سے روکنا ہی آج کی عدلیہ اور خصوصاً نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اس چیلنج سے کیسے بنرد آزما ہوتے ہیں ۔ سب سے پہلے انہیں اپنے ’’ ہاوس کو آرڈر میں لانا ہو گا ‘‘ یعنی اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا تاکہ جج صاحبان میں گروہ بندی کا وہ تاثر ختم ہو ، جو عمر عطا بندیال کے دور میں پیدا ہوا ۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کے مطابق یا خود عدلیہ کی سوچ کے مطابق سب مسائل کو حل کرنے کا زعم اگر کسی میں ہے تو اسے ختم کرنا ہو گا۔ پاکستان میں مقننہ اور سول انتظامیہ کو مضبوط بنانا ہو گا۔ احتساب کا سیاسی انتقام یا پولیٹیکل انجینئرنگ والا نظام ختم کر کے جمہوری اداروں کے ذریعے احتساب کا مضبوط نظام قائم کرنا ہو گا۔ اس کیلئے نیب آرڈی ننس کو درست کرنے کی پارلیمان کی دانش سے اتفاق کرنا ہو گا کیونکہ یہ آرڈی ننس نہ صرف پروڈا ، ایبڈو اور پوڈا جیسے سیاہ قوانین کا چربہ اور تسلسل ہے بلکہ انہی سیاہ قوانین کے پس پردہ مذموم مقاصد اور بدنیتی کا ورثہ ہے۔ اگر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں ادارے اپنی آئینی حدود میں واپس آجاتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کی بڑی کامیابی ہو گی بلکہ عدلیہ کی ساکھ اور اس کا اعتبار بحال کرنے میں مددگاربھی ملے گی۔ قوم کو نئے چیف جسٹس سے یہی توقعات ہیں۔
نفیس صدیقی
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Chief Justice Pakistan#Justice Qazi Faiz Essa#Pakistan#Pakistan Judiciary#Pakistan Supreme Court#World
0 notes