#جمہوریت
Explore tagged Tumblr posts
Text
میڈیا کی آزادی جمہوریت کا ایک ضروری جزو ہے: جرمن سفیر الفریڈ گریناس
( محمد انور عباس) پاکستان میں جرمن سفیر الفریڈ گریناس نے کہا ہے کہ میڈیا کی آزادی جمہوریت کا ایک ضروری جزو ہے ہاکستانی آئین کے آرٹیکل 19 اور یونیورسل ڈیکلئریشن کے آرٹیکل این 9 میڈیا کی آزادی سے متعلق ہی ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں میڈیا فریڈم اینڈ ڈیموکریسی چیلنجز اینڈ آپرٹیونیٹیز کے عنوان سے پینل ڈسکشن کا اہتمام کیا گیا جس میں جرمن سفیر الفریڈ گریناس, نیدرلینڈ سفارت خانہ کے ناظم الالمور…
0 notes
Text
مولانا نے ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ والا کام کیا ہے، گورنر کے پی
(24نیوز)گورنر خیبرپختونخوافیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ مولانا نے ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ والا کام کیا ہے، مولانا صاحب چن چن کر بدلے لےرہے ہیں�� گورنر فیصل کریم کنڈی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے مولانا صاحب کو سیاسی مسیحا بنایا ہوا ہے، پی ٹی آئی والے مولانا کی امامت میں نماز پڑھ رہے ہیں، پی ٹی آئی والوں کے موبائل بند ہیں تو پھر ان سے رابطہ کیسے ہوسکتا ہے؟ Source link
0 notes
Text
پارلیمان جمہوریت کا بنیادی جزو ہے، اسپیکر قومی اسمبلی
سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے عالمی یوم پارلیمنٹرین ازم کے موقع پر پیغام میں کہنا ہے کہ پارلیمان جمہوریت کا بنیادی جزو ہے۔ سپیکر سردار ایاز صادق کاکہنا تھا کہ پاکستان کی پارلیمان عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہے۔جمہوریت کی مضبوطی اور جمہوری اقدار کے فروغ کیلئے پارلیمان کی بالادستی ناگزیر ہے۔پاکستان بین الپارلیمانی یونین (آئی پی یو) کا سرگرم رکن ہے۔ سردار ایاز صادق نے کہا کہ جمہوری اقدار…
View On WordPress
0 notes
Text
شیخ حسینہ: بنگلہ دیش کی محافظ یا جمہوریت پر حملہ آور؟ | شیخ حسینہ
منجانب: الجزیرہ سے بات کریں۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم سیاسی مخالفین کے جبر اور روہنگیا پناہ گزینوں کے جاری بحران کے دعووں پر۔ بنگلہ دیش پر کوئی اور نہیں بلکہ اس کے بانی باپ کی بیٹی شیخ حسینہ کی حکومت ہے، جو 14 سال سے زیادہ عرصے سے اس عہدے پر ہیں۔ ایک بڑے کے بعد آگ 5 مارچ کو کاکس بازار میں روہنگیا پناہ گزین کیمپ کے ذریعے جلایا گیا، ہم پوچھتے ہیں کہ وہ 2017 سے مہاجرین کے بحران کی وجہ سے آنے والے…
View On WordPress
0 notes
Text
پاکستانی جمہوریت
پاکستانی جمہوریت پاکستانی جمہوریت! پاکستان کے آئین کے مطابق کسی بھی جمہوری حکومت کو معذول کرنے کے بعد 90 دن کے اندر اندر دوبارہ الیکشن کروانا لازمی ہے! عمران خان کی جائز حکومت پر فوجی شبخون مارنے کے بعد اب کوئی ڈیڑھ سال ہونے کو ہے الیکشن کا نام و نشان تک نہیں! اور اگر الیکشن ہو بھی جائیں تو سب کا سب جھوٹ اور مکروفریب پر مبنی ہو گا کیونکہ پاکستان میں سیاسی اعتبار سے کیا ہوگا اسکا تعین پہلے ہی سے…
View On WordPress
0 notes
Text
دبئی میں مذاکرات،مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ’ میثاق جمہوریت‘ پر متفق
وفاق میں حکمران اتحاد کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ’ میثاق معیشت‘ پر متفق ہو گئیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری عام انتخابات، ملک کے معاشی مسائل اور دیگر سیاسی معاملات پر بات چیت کے لیے دبئی میں موجود ہیں، دونوں پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت نے دبئی میں ملاقات کی اور عام انتخابات…
View On WordPress
0 notes
Text
عربوں کی قدیم روایات میں، مرد اپنی غیرت کی وجہ سے کبھی بھی اس گھوڑے کو فروخت نہیں کرتا تھا جس پر اس کی بیوی سواری کرتی تھی، بلکہ وہ اسے ذبح کر دیتا تھا تاکہ کوئی دوسرا مرد اس پر سوار نہ ہو۔
جب کسی عورت کو دفن کیا جاتا ہے، تو اس کے اہل خانہ قبر کے کنارے پر ہجوم کر لیتے ہیں اور پورا مقام اس طرح گھیر لیتے ہیں کہ کوئی غیر خاندان والا اس کے قریب نہ آسکے۔ وہ سب آوازیں بلند کرتے ہیں: “جنازہ ڈھانپ دو، قبر کو چھپا دو!.
یہ سب کچھ اس پر غیرت کی وجہ سے کرتے ہیں، حالانکہ وہ کفن میں لپٹی ہوئی ہوتی ہے۔
کیا تمہارے زندہ خواتین اس غیرت کے زیادہ حق دار نہیں ہیں؟
عورت کے لباس سے اس کے والد کی تربیت، اس کی ماں کی پاکیزگی، اس کے بھائی کی غیرت اور اس کے شوہر کی مردانگی کی جھلک نظر آتی ہے۔
ثقافت، آزادی اور جمہوریت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی قدروں، حیا، اور اخلاقیات کو چھوڑ دیں۔
اپنی بیٹیوں اور عورتوں کے ساتھ ﷲ کا خوف رکھو اور ان کی عزت کا خیال رکھو۔
7 notes
·
View notes
Text
وہ امریکہ اب نہیں رہا
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان صدارتی انتخاب ایک حقیقت کے سامنے بے بس تھا اور وہ ہے اکیسویں صدی میں امریکہ کی مسلسل ت��زلی۔ امریکہ نے اپنی قیادت، اعتماد، اخلاقی ساکھ اور اقتصادی برتری کھو دی ہے۔ 20 جنوری 2025 کو صدر ٹرمپ ایک ہی وقت میں امریکی گھمنڈ کے تازہ ترین علمبردار اور امریکی تنزلی کے جنازہ بردار کا حلف اٹھائیں گے۔ 1987 میں پال کینیڈی کی کتاب ’دی رائز اینڈ فال آف دی گریٹ پاورز‘ نے اس وقت تنازعہ کھڑا کیا جب اس نے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ یعنی طاقت سے زیادہ غیر معمولی پھیلاؤ کو امریکی زوال کی ممکنہ وجہ قرار دیا۔ اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی کا باعث جاپان تھا، جو اپنی نمایاں دولت، جدید ٹیکنالوجی اورمعاشی انتظام کے نئے طریقوں کے ساتھ امریکہ کو چیلنج کر رہا تھا۔ 1989 کا اہم سال افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے ساتھ شروع ہوا۔ فرانسیس فوکویاما نے اپنے مضمون ’دی اینڈ آف ہسٹری‘ میں لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کی تاریخ میں حتمی فتح کا اعلان کیا۔ دیوارِ برلن نومبر 1989 میں گری اور اس کے ساتھ ہی سوویت استبداد کا پردہ بھی گر گیا۔ امریکی فاتحین نے دعویٰ کیا کہ سوویت یونین نے ’اوور سٹریچ‘ کا شکار ہو کر شکست کھائی۔
سوویت یونین کی جانب سے 1990 میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد پر اتفاق اور صدام حسین کے کویت پ�� حملے نے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کو جنم دیا۔ 1991 کا سال عراق میں امریکہ کی فتح سے شروع ہوا اور سوویت یونین کی تحلیل پر ختم ہوا۔ 1991 سے 2001 کا عشرہ امریکہ کے ہائپر پاور ہونے کا دور تھا۔ سوویت یونین کے بکھرنے، چین کی کمزوری اور انٹرنیٹ کے کمرشل استعمال میں آنے سے امریکہ نے ’غیر معمولی عظمت‘ کا لطف اٹھایا جیسا کہ ایڈورڈ گِبن نے اپنی کتاب ’دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر‘ میں بیان کیا۔ امریکہ کے سامنے کوئی حریف نہیں تھا یوں لگتا تھا کہ 20ویں صدی کی طرح 21ویں صدی میں بھی امریکہ ہی مستقبل کی طاقت ہو گا۔ ستمبر 2001 کی ایک صبح، کئی سو سالوں سے موجود امریکی رجائیت اور اعتماد دہشت گردی کے سامنے ڈھیر ہو گئے اور ان کی جگہ تکبر اور تنگ نظر قومیت پرستی نے لے لی، جس کا اظہار امریکی ووٹروں نے ایک مرتبہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کر کے کیا ہے۔ 21ویں صدی کے پہلے عشرے میں دو جنگوں اور دو اقتصادی واقعات نے امریکی زوال کوتیز تر کیا۔
اس وقت کی واحد سُپر پاور نے افغانستان پرغیظ وغضب کے ساتھ اور عراق پر تکبر کے ساتھ حملہ کیا۔ امریکہ کو دونوں جنگوں میں شکست ہوئی۔ 2003 میں عراق پرامریکی حملہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے سوویت یونین پر حملے کے بعد جنگی حکمت عملی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ افغانستان میں امریکہ کی شکست دہائیوں پر محیط، کئی کھرب ڈالر کی فوجی، تکنیکی، سٹریٹیجک اور سیاسی تباہی تھی۔ عراق اور افغانستان نے پروفیسر کینیڈی کے نظریے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ کی تصدیق کر دی۔ 2000 میں چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت اور 2008 کے مالیاتی بحران نے امریکہ کو 9/11 سے زیادہ کمزور کیا۔ چین کی ڈبلیو ٹی او میں شمولیت نے امریکی صنعت کو کھوکھلا کر دیا۔ 2010 تک چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا۔ 2024 میں چینی معیشت جاپان، بھارت اور جرمنی کی مشترکہ معیشت سے بڑی ہو چکی ہے۔ 2008 کے مالیاتی بحران نے مغربی اقتصادی ترقی کو تقریباً دو دہائیوں کے لیے سست کر دیا اور نیولبرل جمہوریت اور اس کی اقتصادی شاخ، گلوبلائزیشن میں مغربی عوام کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا۔
جب مغربی جمہوریتوں کے ووٹر جمہوریت پر سوال اٹھا رہے تھے، چین ہر سال نہیں بلکہ ہر دہائی میں معاشی ترقی کے جھنڈے گاڑ رہا تھا۔ امریکہ اور مغرب نے اشتراکیت کے خلاف سرد جنگ اس لیے نہیں جیتی کہ ان کے نظریات بہتر تھے، بلکہ اس لیے جیتی کہ وہ دہائیوں تک کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں زیادہ دولت مند اور تکنیکی طور پر جدیدیت کے حامل تھے۔ چینی معاشی کارکردگی نے لبرل جمہوریت، اقتصادی ترقی اور تکنیکی جدت کے درمیان مغرب کا رشتہ کاٹ کر رکھ دیا ہے، کوئی تعجب نہیں کہ دنیا بھر میں ووٹر استبدادی عوامی قیادت کی طرف رجوع کر رہے ہیں، چاہے وہ انڈونیشیا ہو، بھارت ہو، ہنگری ہو، یا اب امریکہ ہو۔ امریکہ کی تنزلی کا آخری پہلو اخلاقی ہے جسے مورخ ایڈورڈ گِبن نے ’معاشرتی فضائل‘ کی کمی لکھا تھا۔ سیاہ فاموں کی غلامی سے لے کرعراق کی ابو غریب جیل میں انسانی حقوق کی پامالی تک، امریکی طرز عمل میں منافقت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ تاہم سرد جنگ کے دوران، جب تک سوویت یونین اور اس کے اتحادی اپنے شہریوں کی آزادیوں کو دباتے، ان کے اقتصادی حقوق چھینتے اور ان کی غریبی میں اضافہ کرتے رہے اور اس کے برعکس امریکہ ضرورت مند ممالک کی مدد کرتا رہا، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں کی اخلاقی ہولناکی کو نظرا نداز کیا جاتا رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے نئے بین الاقوامی اداروں کی تخلیق اور قیادت کی جو جنگ کو روکنے اور غریب ممالک کی مدد کے لیے بنائے گئے تھے۔ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، نیٹو اور ورلڈ بینک اس کی اہم مثالیں ہیں۔ ان اداروں کے فوائد پر بحث ہو سکتی ہے۔ جو چیز بحث سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ یہ ادارے امریکی اولیت کو مضبوط کرتے ہیں اور ساتھ ہی امریکہ کو دوسرے ملکوں کو اخلاقی بھاشن دینے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ اپنے حواری ملکوں کو کئی دہائیوں سے تحفظ فراہم کر رہا ہے، بین الاقوامی معاشی معاملات میں امریکہ نے ’قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام‘ کی تخلیق کی اور اس کا دفاع کیا۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کو ایک اخلاقی جنگ میں تبدیل کیا، جس میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے بیانیے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ امریکہ کی تنزلی صرف افغانستان اور عراق میں ہی نظر نہیں آتی بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس کی ابتدا 1971 میں سونے کے معیار کو زبردستی ترک کرنے سے ہوئی۔ 1973 میں اوپیک تیل کے بائیکاٹ سے اس تنزلی میں تیزی پیدا ہوئی جوکہ 1974 میں صدر نکسن کے استعفے اور 1975 میں ویت نام سے شرمناک انخلا سے تیز تر ہوئی۔
1970 کی دہائی میں امریکی تنزلی کا اثر امریکی شہروں میں واضح طور پر نظر آیا۔ معاشرتی طور پر 1995 میں اوکلاہوما پر بمباری، 2005 میں قطرینا طوفان اور کووڈ 19 کے دوران 12 لاکھ سے زیادہ امریکیوں کی ہلاکت نے اس تنزلی کو دنیا پر واضح کر دیا۔ آج دنیا کے مستقبل کا استعارہ امریکی شہر نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا کے شہر ہیں۔ امریکہ آج بھی دنیا میں فوجی اخراجات اور پوری دنیا میں فوجی طاقت کی موجودگی میں سب سے آگے ہے۔ امریکہ اپنے دفاع پر اگلے آٹھ ممالک سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ دفاعی اعتبار سے امریکہ اب بھی واحد سپر پاور ہے۔ امریکی معیشت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، جس کی موجودہ سب سے بڑی طاقت انٹرنیٹ پر مبنی ہے۔ ہالی وڈ اور مقبول ثقافت کی نرم طاقت ابھی تک پُراثر ہے۔ امریکی ڈالر دنیا کی غالب کرنسی ہے اور امریکی استعمار کو قائم رکھنے میں طاقتور ہتھیار ہے۔ امریکہ زوال پذیر ہو رہا ہے، لیکن روم کی سلطنت کی طرح اس کا انہدام ابھی نظر نہیں آ رہا لیکن امریکی قوم کی سخاوت، کشادگی اور روح کے وسیع پن کا انہدام ہو گیا ہے۔
امریکی سیاسی قیادت کا معیاراتنی تیزی سے گرا ہے جتنا کہ اس کی جمہوریت کا معیار، جس کی واضح مثال 6 جنوری 2021 کو امریکی کانگرس پر ہونے والا مسلح حملہ ہے۔ اکتوبر 2023 کے بعد امریکہ نے اپنی اخلاقی حیثیت کے آخری چیتھڑے بھی کھو دیے ہیں، جب اس نے وہ ہتھیار فراہم کیے جو غزہ میں 42 ہزار سے زائد بے گناہ، نہتے انسانوں اور بچوں کی جان لے چکے ہیں اور جب امریکہ نے انسانی حقوق کو ملیامیٹ کرنے والی نسل کشی، ظالمانہ بمباری، جبری بے دخلی اور سفاک قتل عام پر آنکھیں بند کر لیں۔ یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی صورت حال میں واپس جا رہا ہے، یعنی دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کے درمیان ایک طاقت، لیکن ہم نے پچھلی دہائیوں میں ایک کھلا، سخاوت سے بھرا اور خوش آمدید کہنے والا امریکہ بھی دیکھا ہے جو اپنی تمام خامیوں کے باوجود اپنے بنیادی جمہوری تصورات اور انسانی اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ امریکہ اب نہیں رہا۔
خرم دستگیر خان خرم دستگیر مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے خارجہ امور اور سابق وزیرِ دفاع رہ چکے ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes
·
View notes
Text
بلوچستان لبریشن چارٹر ایک دستاویز ہے جو آزاد بلوچستان کے مستقبل کے حوالے سے سیاسی، سماجی، اور جمہوری اصولوں کا خاکہ پیش کرتی ہے۔ یہ چارٹر آزادی، جمہوریت، اور انصاف کے اصولوں پر مبنی ہے اور مختلف زبانوں میں دستیاب ہے۔ اس میں عوامی رائے اور ترامیم کے لیے گنجائش موجود ہے، تاکہ یہ بلوچ عوام کے جمہوری حقوق کے تحفظ اور ایک خودمختار ریاست کے قیام کے لیے رہنما اصول بن سکے۔
مزید تفصیلات کے لیے لنک پر جائیں: [Balochistan Liberation Charter](https://balochistanliberationcharter.com/)
0 notes
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 20 November-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ: ۲۰؍ نومبر ۲۰۲۴ء
وقت: ۱۰:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ اسمبلی کے عام انتخابات کیلئے ریاست کے 288 حلقوں میں ر ائے دہی کا عمل جاری؛ سیاسی قائدین اور رہنمائوں کی جانب سے حقِ رائے دہی کی اد ائیگی۔
٭ ووٹر شناختی کارڈ سمیت دیگر 12 دستاو یزات میں سے کوئی ایک دستاویز بتاکر اپنی شناخت کی تصدیق کرکے رائے دہی کرنے کی اپیل۔
٭ ناندیڑ پارلیمانی نشست کے ضمنی انتخاب کیلئے بھی آج ر ائے دہی- ضلعے کے چھ اسمبلی حلقوں کے را ئے دہندگان کو ایک ہی مرکز پر دو بار ووٹ ڈالنے کے ذمہ داری۔
٭ امتناعی احکامات کی خلاف ورزی کے معاملے میں بی جے پی رہنما ونود تائوڑے کے خلاف مقدمہ درج ۔
اور۔۔۔٭ خواتین کے ایشیائی ہاکی چمپئن شپ میں جاپان کو شکست دے کر بھارت فائنل میں داخل - آج چین سے مقابلہ۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
ریاستی اسمبلی کی 288نشستوں سمیت ناندیڑ پارلیمانی نشست کے ضمنی انتخاب کیلئے ر ائے دہی کا عمل جاری ہے۔ ریاست میں نو کروڑ 70 لاکھ 25 ہزار 119 ر ائے دہندگان کیلئے ایک لاکھ 427 را ئے دہی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ شام چھ بجے تک ر ائے دہی کا عمل جار ی رہے گا۔
دریں اثنا‘ ریاستی گورنر سی پی رادھا کرشنن‘ چیف الیکشن آفیسر ایس چوکّ لنگم‘ چیف سیکریٹری سجاتا سَونِک‘ معروف کرکٹر بھارت رَتن سچن تنڈولکر نے ممبئی میں اپنے پولنگ مرکز پر جاکر ووٹ د یا۔
چھترپتی سمبھاجی نگر میں رائے دہی کا عمل بہتر طور پر جاری ہے۔ ضلع کلکٹر دلیپ سوامی نے و یب کاسٹنگ کے ذریعے ضلع کے ووٹنگ مراکز کا مشاہدہ کیا۔ پربھنی شہر میں سخت سردی میں را ئے دہی کا عمل ہورہا ہے ا ور ووٹروں کی لمبی لمبی قطاریں دکھائی دے رہی ہیں۔
ہنگولی شہر میں صبح سے ہی رائے دہی کیلئے عو ام کا بہتر ردّ عمل دکھائی دے رہا ہے۔
بارامتی اسمبلی حلقے کے مہایوتی کے اُمیدوار اجیت پوار نے کاٹے واڑی کے مرکز پر ووٹ د یا۔
عثمان آباد اسمبل ی حلقے کے مہاوِکاس آگھاڑی کے امید وار کیلاش گھاڑگے ا ور لا تور شہر حلقے سے مہاوِکاس آگھاڑی کے امیدو ار امیت دیشمکھ نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا۔
دریں اثنا‘ رائے دہی مراکز پر ر ائے دہندگان کی تصدیق کیلئے ووٹر شناختی کارڈ کے ساتھ 12 دیگر دستاویزات میں سے کوئی بھی ایک دستاویز قبول کیا جائے گا۔ ان دستاو یزات میں ڈرائیونگ لائسنس، پین کارڈ، آدھار کارڈ، پاسپورٹ، منریگا جاب کارڈ، بینک یا ڈاک محکمے کی تصویر والی پاس بک، ہیلتھ انشورنس اسمارٹ کارڈ، قومی آبادی رجسٹر کے تحت حاصل کردہ اسمارٹ کارڈ، خصوصی معذوری شناختی کارڈ وغیرہ دستاو یزات قابلِ قبول ہوں گے۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے تمام ر ائے دہند گان سے اپنی شناخت کی تصدیق کرکےر ائے دہی کر نے کی اپیل کی ہے۔ سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں وزیراعظم مودی نے کہا کہ جمہوریت کے اس جشن میں سبھی کو شرکت کرنی چاہیے۔
چیف انتخابی افسر ایس چو کّ لنگم نے ریاست کے سبھی ر ائے دہندگان سے کثیر تعداد میں اپنا حقِ ر ائے دہی ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات میں مجموعی طور پر چار ہزار 136 امیدوار انتخابی میدان میں ہیں۔ ان میں سے تین ہزار 771 مرد امیدواروں کے علاوہ، 363 خواتین اور تیسری جنس کے دو امید وار ہیں۔ پونے ضلعے میں سب سے زیادہ 303 امیدوار ، جبکہ سندھو دُرگ ضلعے میں سب سے کم 17 امیدوار مید ان میں ہیں۔
چھترپتی سمبھاجی نگر ضلعے کے نو اسمبلی حلقوں میں 183 امیدوار میدان میں ہیں، جبکہ جالنہ ضلعے کے پانچ اسمبلی حلقوں میں 109 امیدوار، بیڑ ضلع کے چھ اسمبلی حلقوں میں 139 امیدوار، پربھنی ضلعے کے چار اسمبلی حلقوں میں 58 امیدوار، ہنگولی ضلعے کے تین حلقوں میں 53 امیدوار میدان میں ہیں۔ اسی طرح لاتور ضلعے کے چھ انتخابی حلقوں میں 106 امیدوار، دھا را شیو ضلعے کے چار حلقوں میں 66 امیدوار اور ناندیڑ ضلعے کے نو اسمبلی حلقوں میں 165 امیدوار اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔
ناندیڑ پارلیمانی نشست کے ضمنی انتخاب میں ر ائے دہندگان 19 امیدواروں میں سے کسی ایک امیدو ار کو اپنا نمائندہ منتخب کریں گے۔ اس لوک سبھا حلقہ کے ناندیڑ شمال، ناندیڑ جنوب، بھوکر، نائیگاؤں، دیگلور اور مکھیڑ اسمبلی حلقوں کے ر ائے دہندگان دو بار ووٹ دے رہے ہیں۔ لوک سبھا ضمنی انتخاب کیلئے ووٹنگ مشین پر سفید اسٹیکر، جبکہ اسمبلی کے عام انتخابات کیلئے ووٹنگ مشین پر گلابی اسٹیکرز چسپاں کیے گئے ہیں۔ پولنگ مرکز پر رائے دہندگان اپنی شناخت کی تصدیق کے بعد پہلے لوک سبھا اور پھر اسمبلی کیلئے ووٹ دے رہے ہیں۔
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر سے نشر کی جارہی ہیں
***** ***** *****
مرکزی انتخابی کمیشن کے حکم کے مطابق ریاست میں اسمبلی انتخابات کیلئے 'خواتین پولنگ عملے کے ماتحت 426رائے دہی مر اکز قائم کیے گئے ہیں۔ ان تمام مراکز پر خواتین افسران و ملازمین انتخابی اُمور انجام دے رہی ہیں۔
***** ***** *****
رائے دہی کے عمل کی تکمیل کیلئے گزشتہ روز ہی پولنگ عملے اپنے اپنے پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ گئے ہیں۔ چھترپتی سمبھاجی نگر ضلعے میں تین ہزار 273 ر ائے دہی مر اکز پر پولنگ اُمور کی انجام دہی کیلئے 18 ہزار 178 افسران اور ملا زمین کو تعینات کیا گیا ہے۔
جالنہ ضلعے کے پانچ حلقوں میں جملہ ایک ہزار 775 پولنگ مراکز پر ر ائے دہی ہو رہی ہے‘ جبکہ بیڑ ضلعے کے چھ حلقوں میں دو ہزار 416 پولنگ اسٹیشنوں پر 11 ہزار 469 افسران و ملازمین کو الیکشن ڈیوٹی پر مامور کیا گیا ہے۔
ناندیڑ ضلع میں تین ہزار 88 پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ہیں اور پولنگ عملے کی نگرانی میں ان تمام مراکز پر صبح سات بجے سے ر ائے دہی شروع ہو چکی ہے۔
دھاراشیو ضلعے کے چار اسمبلی حلقوں میں 14 لاکھ چار ہزار ووٹر ایک ہزار 523 ر ائے دہی مراکز پر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات کے ضابطہ اخلاق کے دوران 15 اکتوبر سے گذشتہ کل تک ریاست بھر میں سی ویجل ایپ پر نو ہزار 293 شکایات موصول ہوئیں ہیں‘ جن میں سے نو ہزار 265 شکایات کا ازالہ کرنے کی اطلاع چیف الیکشن آفیسر دفتر نے دی ہے۔ اس دوران جملہ 673 کروڑ 22 لاکھ روپے ضبط کیے گئے ہیں۔
***** ***** *****
بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری ونود تائوڑے کے خلاف پال گھر ضلع کے نالاسوپارہ کے تُڑِنج پولس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ انتخابات کی تشہیری مہم ختم ہونے کے بعد قائدین و کارکنان کے انتخابی حلقے میں نہ رہنے کے امتناعی احکامات کی خلاف ورزی کرنے پرتاوڑے سمیت مہایوتی کے امیدوار راجن نائیک اور تقریباً 250 کارکنان پر مقدمہ درج کیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی ر ائے دہی سے قبل تشہیری مہم کے اختتام کے بعد صحافتی کانفرنس منعقد کرنے او ر ہوٹل کے کمروں کی تلاشی کے دو ر ان نقد رقم ملنے کے دو دیگر مقدمے بھی پولس نے درج کیے ہیں۔
دریں اثنا‘ بہوجن وکاس آگھاڑی پارٹی نے ونود تائوڑے پر نالاسوپارہ کی ایک ہوٹل میں پیسے تقسیم کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ تائوڑے سمیت بی جے پی نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن سے معاملے کی جانچ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
***** ***** *****
صحت و خاند انی بہبودمحکمے نے ریاست اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں کو موسم کی تبد یلی اور صحت پر اسکے اثرات کیلئے ضلع اور شہری سطح پر ضروری منصوبہ بندی کرنے کے احکامات دئیے ہیں۔ مرکزی صحت سیکریٹری پنیہ سلیلا شریواستو نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں کے چیف سیکریٹریوں کو اس سلسلے میں ایک مکتوب ارسال کیا ہے۔ جس میں فضائی آلودگی کا سامنا کرنے کے احکامات دئیے گئے ہیں۔ آلودگی سے ہونے والی بیماریوں اور اس کے مطابق طبّی پالیسیاں تبد یل کرنے جیسی ہدایات اس میں شامل ہیں۔
***** ***** *****
بہار کے راجگیر میں جاری خواتین کے ایشیائی چیمپئن شپ ٹو رنامنٹ کا فائنل مقابلہ آج بھارت اور چین کے درمیان ہوگا۔ شام پونے پانچ بجے سے میچ کا آغاز ہوگا۔ کل کھیلے گئے سیمی فائنل مقابلے میں بھارت نے جاپان کو دو۔ صفر سے جبکہ چین نے ملائیشیا کوتین ۔ ایک سے شکست دی تھی۔
***** ***** *****
پربھنی ضلعے کے چار اسمبلی حلقوں میں رائے دہی کے د وران کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو رو کنے او ر رائے دہندگان کو لبھانے جیسے غیر قانونی کاموں پر نظر رکھنے کیلئے پولس انتظامیہ کی جانب سے ڈرون پیٹرولنگ کی جارہی ہے۔ جن علاقوں میں پہنچنا ممکن نہ ہو‘ وہاں پر ڈرون پیٹرولنگ مؤـثر ثابت ہونے کی اطلاع پولس سپرنٹنڈنٹ نے د ی ہے۔
بیڑ ضلعے میں رائے دہی کا عمل پُرامن طریقے سے مکمل کرنے کیلئے ایک ہزار 209 رائے دہی مراکز پر منظر کشی کی جارہی ہے۔
جالنہ ضلعے کے پانچ اسمبلی حلقوں میں چار ہزار پولس ملازمین کو بندوبست پر تعینا ت کیا گیا ہے۔ چار حساس ر ائے دہی مراکز کیلئے سی اے پی ایف دستے تعینات کیے گئے ہیں۔ ویب کاسٹنگ او ر مائیکرو آبزرورس کے ذریعے نگرانی کرو ائی جارہی ہے۔
***** ***** *****
55و اں بھارتی بین ا لاقو امی فلم فیسٹیول یعنی IFFI کا آج سے گوا میں آغاز ہورہا ہے۔ اس فلم فیسٹیول میں 81 ممالک کی تقریباً 18 فلمیں دکھائی جائیں گی۔ آئندہ 28 نومبر تک یہ فیسٹیول جا ری رہے گا۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ اسمبلی کے عام انتخابات کیلئے ریاست کے 288 حلقوں میں ر ائے دہی کا عمل جاری؛ سیاسی قائدین اور رہنمائوں کی جانب سے حقِ رائے دہی کی اد ائیگی۔
٭ ووٹر شناختی کارڈ سمیت دیگر 12 دستاو یزات میں سے کوئی ایک دستاویز بتاکر اپنی شناخت کی تصدیق کرکے رائے دہی کرنے کی اپیل۔
٭ ناندیڑ پارلیمانی نشست کے ضمنی انتخاب کیلئے بھی آج ر ائے دہی- ضلعے کے چھ اسمبلی حلقوں کے را ئے دہندگان کو ایک ہی مرکز پر دو بار ووٹ ڈالنے کے ذمہ داری۔
٭ امتناعی احکامات کی خلاف ورزی کے معاملے میں بی جے پی رہنما ونود تائوڑے کے خلاف مقدمہ درج ۔
اور۔۔۔٭ خواتین کے ایشیائی ہاکی چمپئن شپ میں جاپان کو شکست دے کر بھارت فائنل میں داخل - آج چین سے مقابلہ۔
***** ***** *****
0 notes
Text
پریس ریلیز
اکتوبر 21
*ججز اور انکی فیملیز کی کردار کشی کرنے والے آج عدلیہ کے ہمدرد بن رہے ہیں: عظمیٰ بخاری*
*26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری پر جمہوریت پسند خوش جبکہ آمریت پسند سیخ پاہیں: عظمیٰ بخاری*
*تحریک فساداپنی گندی سیاست کےلئے کبھی طلباء کو اشتعال دلاتی ہے،کبھی وکلاء سے باہر نکلنے کی اپیلیں کرتی ہے: عظمیٰ بخاری*
لاہور () وزیر اطلاعات پن��اب عظمٰی بخاری نے کہا ہے کہ ججز اور انکی فیملیز کی کردار کشی کرنے والے آج عدلیہ کے ہمدرد بن رہے ہیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری پر جمہوریت پسند خوش ہیں جبکہ آمریت پسند سیخ پا ہو رہے ہیں۔ تحریک فساداپنی گندی سیاست کےلئے کبھی طلباء کو اشتعال دلاتی ہے توکبھی وکلاء سے باہر نکلنے کی اپیلیں کرتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بیرسٹر سیف کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج جمہوریت اور پارلیمنٹ کی جیت ہے۔ تحریک انصاف سیاسی جماعت نہیں بلکہ سیاسی یتیموں کا گروہ بن چکی ہے۔ پاکستان کے عوام اڈیالہ جیل کے قیدی اور اسکے چمچے کڑچھوں کا بھیانک روپ دیکھ چکے ہیں۔
پاکستان کے عوام باشعور ہیں اب اڈیالہ جیل کے مستقل رہائشی کے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ چیف جسٹس فائز عیسی کا نام عدلیہ کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ چیف جسٹس فائز عیسی نے تمام فیصلے آئین اور قانون کے مطابق کئے۔ انکا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہبازشریف اور انکی ٹیم بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ آئینی ترمیم کی منظوری کے سلسلے میں جس نے بھی رول ادا کیا وہ قابل ستائش ہیں۔پارلیمنٹ کی بالادستی میں ہی جمہوریت کی مضبوطی ہے۔جن کی قسمت میں رونا دھونا لکھا ہے وہ آئینی ترامیم اور قانون سازی میں رخنے ہی ڈال سکتے ہیں۔ گزشتہ روز اڈیالہ جیل کے قیدی کے لئے بھی بہت بڑا "سرپرائز ڈے" تھا۔
0 notes
Text
بیگم نصرت بھٹو جمہوریت کیلئے سب کچھ قربان کرنے کی علامت ہیں: بلاول بھٹو
(24نیوز)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بیگم نصرت بھٹو جمہوریت کیلئے سب کچھ قربان کرنے کی علامت ہیں۔ مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کی برسی پر اپنے پیغام میں بلاول بھٹو زرداری نے بیگم بھٹو کو ان کی 13 ویں برسی پر خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بیگم نصرت بھٹو کی جمہوریت، انصاف اور مساوات کی جدوجہد میں خدمات غیرمعمولی اور قربانیاں بے مثال ہیں،بیگم نصرت بھٹو کی جمہوریت…
0 notes
Text
پاکستانی جمہوریت میں غریب عوام حکمرانوں کو کیسے پال رہے ہیں؟
سینیئر صحافی جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ دنیا ترقی کرتی ہوئی کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن پاکستان میں آج بھی بادشاہت قائم ہے جہاں حکمرانوں نے عوام کی خدمت کرنے کی بجائے انہیں خود کو پالنے پر لگا رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے ٹیکسوں کے ذریعے عوام کا تیل نکالتے ہوئے اب تنخواہ دار طبقے پر عائد ٹیکس 35 فیصد سے بڑھا کر 70 فیصد کر دیا ہے، لیکن ساتھ میں حکومت کی جانب سے یہ ڈنھڈورا بھی پیٹا جا…
0 notes
Text
وزیر اعظم کو جمہوریت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے فن میں مہارت حاصل ہے: کھڑگے
0 notes
Text
معیشت اور جمہوریت کو بچانے کا چیلنج؟
پاکستان میں توقع یہی تھی کہ عام انتخابات کے انعقاد کے بعد ملکی حالات میں بہتری آجائے گی اور اس کے باعث معاشی مشکلات بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جائیں گی، اِس طرح پاکستان میں پُرامن باشعور جمہوریت پسند رحجان معاشرے میں فروغ پائے گا، جس کے باعث صنعتی و تجارتی شعبہ کی سرگرمیاں بھی مثبت سمت پر شروع ہو پائیں گی، مگر یہاں’’ اُلٹی ہو گئیں سب تدبریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘ اور ملکی تاریخ میں ایک بارپھر الیکشن تنازع ہو گئے، اس بار تو کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ ہارنے والے تو شور مچاتے ہی ہیں جتنے والے بھی اندر ہی اندر سے گھبرائے اور پریشان پریشان نظر آرہے ہیں، انتخابات کے بعد یہ سب کچھ نہ ہوتا تو پاکستان اور عوام کیلئے اچھا ہوتا، اس سے اندرون ملک تو ہمارے 25 کڑور سے زائد عوام پر یشان ہیں اور انہیں روز مرہ مہنگائی اور بے روزگاری نے کئی مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے، اصل پریشانی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور اُن کے خاندانوں کو ہے ، میں ابھی آسٹری��یا کے شہر سڈنی میں آٹھ دس ہفتے گزار کر آیا ہوں ، وہاں جمہوریت سے زیادہ ریاست کو عوام کو معاشی ریلیف اور Peace of Mind کی فکر ہے، وہاں ہر شخص روزگار کمانے میں مصروف ہے، وہاں ٹریفک اور روزمرہ زندگی میں مثالی ڈسپلن نظر آتا ہے،
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آسٹریلیا ہو یا نیوزی لینڈ یا دیگر کئی ترقی یافتہ مغربی ممالک وہاں پاکستان اور پاکستانیوں کے حوالے سے کوئی اچھی رائے نہیں رکھی جاتی بلکہ اس سے پاکستان کا امیج سنورنے کی بجائے بگڑتا جا رہا ہے، یہ بات ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے جس پر قومی اداروں کو ایک سوچ کے تحت کوئی کام کرنا ہو گا، ہمارے سیاسی نظام میں بڑھتی ہوئی ناہمواری ایک قومی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، قومی معاشی مسائل حل ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اندرون ملک تو عوام کی ایک بڑھتی تعداد جمہوریت ہی سے بیزار نظر آرہی ہے، جبکہ عالمی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کے معاشی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں، اب وہ بھی پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کو قومی وسائل کا ضیاع سمجھ رہے ہیں، اس سارے پس منظر میں پاکستان کے جمہوری نظام کو برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کے حوالے سے کئی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے جو ایک مثبت سوچ نہیں ہے اس سوچ کو دور کرنے کیلئے ہمارے سیاسی قائدین کو مل بیٹھ کر سیاسی کشیدگی اور مختلف اداروں پر نام لئے بغیر عدم اعتماد کے اظہار کے رحجان کو دور کرنا ہو گا،
دنیا بھر میں جمہوری نظام میں کئی جماعتیں ہوتی ہیں لیکن وہاں کی جمہوری سیاسی جماعتیں خود اپنے آپ کو ٹھیک کرنے پر فوکس کرتی ہیں، اگر دنیا بھر میں ایسا ہو سکتا ہے تو پھر پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا، اس وقت خدشہ یہ ہے کہ اگر وفاق اور صوبوں میں کوئی مستحکم حکومت نہ ہوئی تو سیاسی عدم استحکام بڑھے گا اور پاکستان کے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ نئے قرضوں کے حصول اور پرانے قرضوں کی ری شیڈولنگ کے پلان متاثر ہو سکتے ہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے ریاست اور عوام سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور پھر سرکاری اداروں کے دعوئوں کے برعکس خوفناک قسم کی مہنگائی کا سیلاب آئے گا، جس سے سب سے زیادہ جمہوریت متاثر ہو گی، اس لئے پاکستان کو بچانا ہے تو جمہوریت کو بچانا پڑے گا، چاہے اس کیلئے شراکت اقتدار کا فارمولا ہو یا مشاورت کا سلسلہ ہو، سب چیزوں پر اتفاق رائے ضروری ہے، اس سلسلے میں قومی سطح پر قومی اداروں اور سیاسی قائدین کو مل بیٹھ کر ��یک متوازن اصلاحاتی نظام وضع کرنا ہو گا اس سے پاکستان میں زوال پذیر حالات شاید بہتری کی طرف چلے جائیں، اس وقت ہم سب کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے کہ پاکستان کو ناکام ریاست بننے سے کیسے بچایا جائے۔
پاکستان الحمد للہ قدرتی وسائل سے مالا مال مثالی ملک ہے اس کے پاس 60 فیصد سے زائد یوتھ ہے، یہ اثاثہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس بھی نہیں ہے، لیکن وہاں اس کے باوجود قومی ترقی کو ذاتی مفادات اور کاروبار پر ترجیح دی جاتی ہے کاش یہ سب کچھ پاکستان میں بھی ہو جائے، اور قومی وسائل قوم پر ہی استعمال کرنے کے قوانین اور نظام بن جائے، پھر عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں ہو گی کہ جمہوریت ہے یا نہیں، عوام کو روٹی ، سیکورٹی اور ذہنی سکون چاہئے اور یہ سب کچھ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست کو یہ سمجھنا ہو گا۔
سکندر حمید لودھی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes