#جمہوریت
Explore tagged Tumblr posts
topurdunews · 3 months ago
Text
میڈیا کی آزادی جمہوریت کا ایک ضروری جزو ہے: جرمن سفیر الفریڈ گریناس
( محمد انور عباس) پاکستان میں جرمن سفیر الفریڈ گریناس نے کہا ہے کہ میڈیا کی آزادی جمہوریت کا ایک ضروری جزو ہے ہاکستانی آئین کے آرٹیکل 19 اور یونیورسل ڈیکلئریشن کے آرٹیکل این 9 میڈیا کی آزادی سے متعلق ہی ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں میڈیا فریڈم اینڈ ڈیموکریسی چیلنجز اینڈ آپرٹیونیٹیز کے عنوان سے پینل ڈسکشن کا اہتمام کیا گیا جس میں جرمن سفیر الفریڈ گریناس, نیدرلینڈ سفارت خانہ کے ناظم الالمور…
0 notes
pinoytvlivenews · 4 months ago
Text
مولانا نے ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ والا کام کیا ہے، گورنر کے پی
(24نیوز)گورنر خیبرپختونخوافیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ مولانا نے ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ والا کام کیا ہے، مولانا صاحب چن چن کر بدلے لےرہے ہیں۔ گورنر فیصل کریم کنڈی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے مولانا صاحب کو سیاسی مسیحا بنایا ہوا ہے، پی ٹی آئی والے مولانا کی امامت میں نماز پڑھ رہے ہیں، پی ٹی آئی والوں کے موبائل بند ہیں تو پھر ان سے رابطہ کیسے ہوسکتا ہے؟ Source link
0 notes
googlynewstv · 7 months ago
Text
پارلیمان جمہوریت کا بنیادی جزو ہے، اسپیکر قومی اسمبلی
سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے عالمی یوم پارلیمنٹرین ازم کے موقع پر  پیغام میں کہنا ہے کہ پارلیمان جمہوریت کا بنیادی جزو ہے۔ سپیکر سردار ایاز صادق کاکہنا تھا کہ پاکستان کی پارلیمان عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہے۔جمہوریت کی مضبوطی اور جمہوری اقدار کے فروغ کیلئے پارلیمان کی بالادستی ناگزیر  ہے۔پاکستان بین الپارلیمانی یونین (آئی پی یو) کا سرگرم  رکن ہے۔ سردار ایاز صادق نے کہا کہ جمہوری اقدار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years ago
Text
شیخ حسینہ: بنگلہ دیش کی محافظ یا جمہوریت پر حملہ آور؟ | شیخ حسینہ
منجانب: الجزیرہ سے بات کریں۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم سیاسی مخالفین کے جبر اور روہنگیا پناہ گزینوں کے جاری بحران کے دعووں پر۔ بنگلہ دیش پر کوئی اور نہیں بلکہ اس کے بانی باپ کی بیٹی شیخ حسینہ کی حکومت ہے، جو 14 سال سے زیادہ عرصے سے اس عہدے پر ہیں۔ ایک بڑے کے بعد آگ 5 مارچ کو کاکس بازار میں روہنگیا پناہ گزین کیمپ کے ذریعے جلایا گیا، ہم پوچھتے ہیں کہ وہ 2017 سے مہاجرین کے بحران کی وجہ سے آنے والے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
peghamnetwork-blog · 1 year ago
Text
پاکستانی جمہوریت
پاکستانی جمہوریت پاکستانی جمہوریت! پاکستان کے آئین کے مطابق کسی بھی جمہوری حکومت کو معذول کرنے کے بعد 90 دن کے اندر اندر دوبارہ الیکشن کروانا لازمی ہے! عمران خان کی جائز حکومت پر فوجی شبخون مارنے کے بعد اب کوئی ڈیڑھ سال ہونے کو ہے الیکشن کا نام و نشان تک نہیں! اور اگر الیکشن ہو بھی جائیں تو سب کا سب جھوٹ اور مکروفریب پر مبنی ہو گا کیونکہ پاکستان میں سیاسی اعتبار سے کیا ہوگا اسکا تعین پہلے ہی سے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 2 years ago
Text
دبئی میں مذاکرات،مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ’ میثاق جمہوریت‘ پر متفق
وفاق میں حکمران اتحاد کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ’ میثاق معیشت‘ پر متفق ہو گئیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری عام انتخابات، ملک کے معاشی مسائل اور دیگر سیاسی معاملات پر بات چیت کے لیے دبئی میں موجود ہیں، دونوں پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت نے دبئی میں ملاقات کی اور عام انتخابات…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
taskeenedil · 3 months ago
Text
عربوں کی قدیم روایات میں، مرد اپنی غیرت کی وجہ سے کبھی بھی اس گھوڑے کو فروخت نہیں کرتا تھا جس پر اس کی بیوی سواری کرتی تھی، بلکہ وہ اسے ذبح کر دیتا تھا تاکہ کوئی دوسرا مرد اس پر سوار نہ ہو۔
جب کسی عورت کو دفن کیا جاتا ہے، تو اس کے اہل خانہ قبر کے کنارے پر ہجوم کر لیتے ہیں اور پورا مقام اس طرح گھیر لیتے ہیں کہ کوئی غیر خاندان والا اس کے قریب نہ آسکے۔ وہ سب آوازیں بلند کرتے ہیں: “جنازہ ڈھانپ دو، قبر کو چھپا دو!.
یہ سب کچھ اس پر غیرت کی وجہ سے کرتے ہیں، حالانکہ وہ کفن میں لپٹی ہوئی ہوتی ہے۔
کیا تمہارے زندہ خواتین اس غیرت کے زیادہ حق دار نہیں ہیں؟
عورت کے لباس سے اس کے والد کی تربیت، اس کی ماں کی پاکیزگی، اس کے بھائی کی غیرت اور اس کے شوہر کی مردانگی کی جھلک نظر آتی ہے۔
ثقافت، آزادی اور جمہوریت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی قدروں، حیا، اور اخلاقیات کو چھوڑ دیں۔
اپنی بیٹیوں اور عورتوں کے ساتھ ﷲ کا خوف رکھو اور ان کی عزت کا خیال رکھو۔
7 notes · View notes
emergingpakistan · 2 months ago
Text
وہ امریکہ اب نہیں رہا
Tumblr media
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان صدارتی انتخاب ایک حقیقت کے سامنے بے بس تھا اور وہ ہے اکیسویں صدی میں امریکہ کی مسلسل تنزلی۔ امریکہ نے اپنی قیادت، اعتماد، اخلاقی ساکھ اور اقتصادی برتری کھو دی ہے۔ 20 جنوری 2025 کو صدر ٹرمپ ایک ہی وقت میں امریکی گھمنڈ کے تازہ ترین علمبردار اور امریکی تنزلی کے جنازہ بردار کا حلف اٹھائیں گے۔ 1987 میں پال کینیڈی کی کتاب ’دی رائز اینڈ فال آف دی گریٹ پاورز‘ نے اس وقت تنازعہ کھڑا کیا جب اس نے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ یعنی طاقت سے زیادہ غیر معمولی پھیلاؤ کو امریکی زوال کی ممکنہ وجہ قرار دیا۔ اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی کا باعث جاپان تھا، جو اپنی نمایاں دولت، جدید ٹیکنالوجی اورمعاشی انتظام کے نئے طریقوں کے ساتھ امریکہ کو چیلنج کر رہا تھا۔ 1989 کا اہم سال افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے ساتھ شروع ہوا۔ فرانسیس فوکویاما نے اپنے مضمون ’دی اینڈ آف ہسٹری‘ میں لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کی تاریخ میں حتمی فتح کا اعلان کیا۔  دیوارِ برلن نومبر 1989 میں گری اور اس کے ساتھ ہی سوویت استبداد کا پردہ بھی گر گیا۔ امریکی فاتحین نے دعویٰ کیا کہ سوویت یونین نے ’اوور سٹریچ‘ کا شکار ہو کر شکست کھائی۔
سوویت یونین کی جانب سے 1990 میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد پر اتفاق اور صدام حسین کے کویت پر حملے نے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کو جنم دیا۔ 1991 کا سال عراق میں امریکہ کی فتح سے شروع ہوا اور سوویت یونین کی تحلیل پر ختم ہوا۔ 1991 سے 2001 کا عشرہ امریکہ کے ہائپر پاور ہونے کا دور تھا۔ سوویت یونین کے بکھرنے، چین کی کمزوری اور انٹرنیٹ کے کمرشل استعمال میں آنے سے امریکہ نے ’غیر معمولی عظمت‘ کا لطف اٹھایا جیسا کہ ایڈورڈ گِبن نے اپنی کتاب ’دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر‘ میں بیان کیا۔ امریکہ کے سامنے کوئی حریف نہیں تھا یوں لگتا تھا کہ 20ویں صدی کی طرح 21ویں صدی میں بھی امریکہ ہی مستقبل کی طاقت ہو گا۔ ستمبر 2001 کی ایک صبح، کئی سو سالوں سے موجود امریکی رجائیت اور اعتماد دہشت گردی کے سامنے ڈھیر ہو گئے اور ان کی جگہ تکبر اور تنگ نظر قومیت پرستی نے لے لی، جس کا اظہار امریکی ووٹروں نے ایک مرتبہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کر کے کیا ہے۔ 21ویں صدی کے پہلے عشرے میں دو جنگوں اور دو اقتصادی واقعات نے امریکی زوال کوتیز تر کیا۔
Tumblr media
اس وقت کی واحد سُپر پاور نے افغانستان پرغیظ وغضب کے ساتھ اور عراق پر تکبر کے ساتھ حملہ کیا۔ امریکہ کو دونوں جنگوں میں شکست ہوئی۔ 2003 میں عراق پرامریکی حملہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے سوویت یونین پر حملے کے بعد جنگی حکمت عملی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ افغانستان میں امریکہ کی شکست دہائیوں پر محیط، کئی کھرب ڈالر کی فوجی، تکنیکی، سٹریٹیجک اور سیاسی تباہی تھی۔ عراق اور افغانستان نے پروفیسر کینیڈی کے نظریے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ کی تصدیق کر دی۔ 2000 میں چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت اور 2008 کے مالیاتی بحران نے امریکہ کو 9/11  سے زیادہ کمزور کیا۔ چین کی ڈبلیو ٹی او میں شمولیت نے امریکی صنعت کو کھوکھلا کر دیا۔ 2010 تک چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا۔ 2024 میں چینی معیشت جاپان، بھارت اور جرمنی کی مشترکہ معیشت سے بڑی ہو چکی ہے۔ 2008 کے مالیاتی بحران نے مغربی اقتصادی ترقی کو تقریباً دو دہائیوں کے لیے سست کر دیا اور نیولبرل جمہوریت اور اس کی اقتصادی شاخ، گلوبلائزیشن میں مغربی عوام کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا۔
جب مغربی جمہوریتوں کے ووٹر جمہوریت پر سوال اٹھا رہے تھے، چین ہر سال نہیں بلکہ ہر دہائی میں معاشی ترقی کے جھنڈے گاڑ رہا تھا۔ امریکہ اور مغرب نے اشتراکیت کے خلاف سرد جنگ اس لیے نہیں جیتی کہ ان کے نظریات بہتر تھے، بلکہ اس لیے جیتی کہ وہ دہائیوں تک کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں زیادہ دولت مند اور تکنیکی طور پر جدیدیت کے حامل تھے۔ چینی معاشی کارکردگی نے لبرل جمہوریت، اقتصادی ترقی اور تکنیکی جدت کے درمیان مغرب کا رشتہ کاٹ کر رکھ دیا ہے، کوئی تعجب نہیں کہ دنیا بھر میں ووٹر استبدادی عوامی قیادت کی طرف رجوع کر رہے ہیں، چاہے وہ انڈونیشیا ہو، بھارت ہو، ہنگری ہو، یا اب امریکہ ہو۔ امریکہ کی تنزلی کا آخری پہلو اخلاقی ہے جسے مورخ ایڈورڈ گِبن نے ’معاشرتی فضائل‘ کی کمی لکھا تھا۔ سیاہ فاموں کی غلامی سے لے کرعراق کی ابو غریب جیل میں انسانی حقوق کی پامالی تک، امریکی طرز عمل میں منافقت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ تاہم سرد جنگ کے دوران، جب تک سوویت یونین اور اس کے اتحادی اپنے شہریوں کی آزادیوں کو دباتے، ان کے اقتصادی حقوق چھینتے اور ان کی غریبی میں اضافہ کرتے رہے اور اس کے برعکس امریکہ ضرورت مند ممالک کی مدد کرتا رہا، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں کی اخلاقی ہولناکی کو نظرا نداز کیا جاتا رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے نئے بین الاقوامی اداروں کی تخلیق اور قیادت کی جو جنگ کو روکنے اور غریب ممالک کی مدد کے لیے بنائے گئے تھے۔ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، نیٹو اور ورلڈ بینک اس کی اہم مثالیں ہیں۔ ان اداروں کے فوائد پر بحث ہو سکتی ہے۔ جو چیز بحث سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ یہ ادارے امریکی اولیت کو مضبوط کرتے ہیں اور ساتھ ہی امریکہ کو دوسرے ملکوں کو اخلاقی بھاشن دینے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ اپنے حواری ملکوں کو کئی دہائیوں سے تحفظ فراہم کر رہا ہے، بین الاقوامی معاشی معاملات میں امریکہ نے ’قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام‘ کی تخلیق کی اور اس کا دفاع کیا۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کو ایک اخلاقی جنگ میں تبدیل کیا، جس میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے بیانیے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ امریکہ کی تنزلی صرف افغانستان اور عراق میں ہی نظر نہیں آتی بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس کی ابتدا 1971 میں سونے کے معیار کو زبردستی ترک کرنے سے ہوئی۔ 1973 میں اوپیک تیل کے بائیکاٹ سے اس تنزلی میں تیزی پیدا ہوئی جوکہ 1974 میں صدر نکسن کے استعفے اور 1975 میں ویت نام سے شرمناک انخلا سے تیز تر ہوئی۔
1970 کی دہائی میں امریکی تنزلی کا اثر امریکی شہروں میں واضح طور پر نظر آیا۔ معاشرتی طور پر 1995 میں اوکلاہوما پر بمباری، 2005 میں قطرینا طوفان اور کووڈ 19 کے دوران 12 لاکھ سے زیادہ امریکیوں کی ہلاکت نے اس تنزلی کو دنیا پر واضح کر دیا۔ آج دنیا کے مستقبل کا استعارہ امریکی شہر نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا کے شہر ہیں۔ امریکہ آج بھی دنیا میں فوجی اخراجات اور پوری دنیا میں فوجی طاقت کی موجودگی میں سب سے آگے ہے۔ امریکہ اپنے دفاع پر اگلے آٹھ ممالک سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ دفاعی اعتبار سے امریکہ اب بھی واحد سپر پاور ہے۔ امریکی معیشت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، جس کی موجودہ سب سے بڑی طاقت انٹرنیٹ پر مبنی ہے۔ ہالی وڈ اور مقبول ثقافت کی نرم طاقت ابھی تک پُراثر ہے۔ امریکی ڈالر دنیا کی غالب کرنسی ہے اور امریکی استعمار کو قائم رکھنے میں طاقتور ہتھیار ہے۔ امریکہ زوال پذیر ہو رہا ہے، لیکن روم کی سلطنت کی طرح اس کا انہدام ابھی نظر نہیں آ رہا لیکن امریکی قوم کی سخاوت، کشادگی اور روح کے وسیع پن کا انہدام ہو گیا ہے۔
امریکی سیاسی قیادت کا معیاراتنی تیزی سے گرا ہے جتنا کہ اس کی جمہوریت کا معیار، جس کی واضح مثال 6 جنوری 2021 کو امریکی کانگرس پر ہونے والا مسلح حملہ ہے۔ اکتوبر 2023 کے بعد امریکہ نے اپنی اخلاقی حیثیت کے آخری چیتھڑے بھی کھو دیے ہیں، جب اس نے وہ ہتھیار فراہم کیے جو غزہ میں 42 ہزار سے زائد بے گناہ، نہتے انسانوں اور بچوں کی جان لے چکے ہیں اور جب امریکہ نے انسانی حقوق کو ملیامیٹ کرنے والی نسل کشی، ظالمانہ بمباری، جبری بے دخلی اور سفاک قتل عام پر آنکھیں بند کر لیں۔ یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی صورت حال میں واپس جا رہا ہے، یعنی دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کے درمیان ایک طاقت، لیکن ہم نے پچھلی دہائیوں میں ایک کھلا، سخاوت سے بھرا اور خوش آمدید کہنے والا امریکہ بھی دیکھا ہے جو اپنی تما�� خامیوں کے باوجود اپنے بنیادی جمہوری تصورات اور انسانی اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ امریکہ اب نہیں رہا۔
خرم دستگیر خان  خرم دستگیر مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے خارجہ امور اور سابق وزیرِ دفاع رہ چکے ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes · View notes
shiningpakistan · 13 days ago
Text
کیا واقعی ہم سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں؟
Tumblr media
ایک بنیادی نوعیت کا سوال اکثر اہل دانش یا فکری مباحث میں موجود رہتا ہے کہ کیا واقعی قومی سطح پر جو بیانیہ سیاسی عدم استحکام کا ہے، اس میں کس حد تک حقیقت ہے یا یہ محض ایک مفروضہ یا حقایق سے دور کا نقطہ نظر ہے۔ لوگ پہلے ہی اپنی اپنی سوچ اور فکر پر تقسیم ہیں یا کسی نقطہ نظر کی کھل کر حمایت یا مخالفت کرتے ہیں۔ بعض اوقات اس نقطہ نظر میں حقایق سے زیادہ جذباتیت کے عمل کو بھی غلبہ حاصل ہوتا ہے لیکن اس پہلو پر غوروفکر ہونا چاہیے کہ ہم کس حدتک سیاسی استحکام رکھتے ہیں۔ سیاسی استحکام سے مراد محض حکومت کا سیاسی، انتظامی، قانونی اور معاشی ڈھانچہ کی موجودگی ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کی ساکھ سے جڑے بنیادی نوعیت کے سوالات اور ریاست یا حکومت کے نظام کا سیاسی تسلسل اور شفافیت پر مبنی نظام ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب ریاست یا حکومت کا نظام کو ریاستی آئین، قوانین ، سیاسی اور جمہوری خطوط اور منصفانہ معاشی نظام پر چلایا جائے۔ اس لیے جب اس سوال پر غور کیا جاتا ہے کہ ہم بطور ریاست سیاسی استحکام رکھتے ہیں تو اس کا جواب ہمیں لاتعداد سوالات اور تحفظات کے طور پر ملتا ہے کیونکہ ہم نے سیاست اور جمہوریت کے نظام کو کبھی اپنی سیاسی اور ریاستی ترجیحات کا حصہ نہیں بنایا۔
ہم ایک ایسی ریاست کی حمایت کرتے ہیں جہا ں آئین وقانون کی حکمرانی یا اداروں کی بالادستی کے مقابلے میں افراد یا جماعتوں کی طاقت ہو۔ اسی طرح جب ہم اپنے سیاسی مخالفین یا متبادل نقطہ نظر یا آوازوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو بھی معاشرے میں انتشار کی سیاست کا غلبہ ہوتا ہے۔ یہ عمل سیاسی استحکام سے ریاستی نظام کو دور کرتا ہے اور ہمیں ایک ایسی ریاست کے نظام کی طرف بڑھاتا ہے جہاں سیاست اور جمہوریت کی کمزوری کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ آج پاکستان جہاں کھڑا ہے یا جو ہماری بطور ریاست کی عالمی درجہ بندی ہے، اس پر داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر سوالات موجود ہیں۔ حکومت کا بیانیہ سیاسی استحکام اور حزب اختلاف کا بیانیہ یقینی طور پر سیاسی عدم استحکام کی نشاندہی کرتا ہے۔ لیکن حکومت اور حزب اختلاف کے بیانیہ سے ہٹ کر اہل دانش یا علمی یا فکری بنیادوں پر تجزیہ کیا جائے تو یقینی طور پر ہمارے بہت سے معاملات یا طرز عمل قومی سطح پر سیاسی عدم استحکام کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ایک ایسی ریاست جو تیزی سے جمہوری اقدار سے دور ہورہی ہو جہاں سیاست وجمہوریت پر سوالات ہوں، وہاں سیاسی استحکا م کا بیانیہ کمزور نظر آتا ہے۔ 
Tumblr media
سیاست اور جمہوریت کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتو ں کا غلبہ یا سیاسی جماعتوں کے اپنے داخلی محاذ پر غیر جمہوری طرز عمل یا مفادات کی بنیاد پر سیاسی نظام کو چلانے کی کوشش ظاہر کرتی ہے کہ ہم جمہوریت اور سیاسی استحکام میں کہاں کھڑے ہیں۔ سیاسی استحکام کی بحث کو محض سیاست تک محدود کر کے اور سیاسی تنہائی میں دیکھنے کے بجائے اسے معیشت، سیکیورٹی ، گورننس اور آئین و قانون یا عوام کے مفادات کی بنیاد پر بھی پرکھنا چاہیے۔ آج جو ہمارے ریاستی نظام میں سیاسی عدم استحکام کی جڑیں گہری ہیں یا جو بلوچستان سمیت خیبرپختونخواہ کے حالات ہیں وہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاست کی رٹ کا پہلو بہت سی جگہوں پر کمزور ہے۔ لوگ ریاست اور حکومت کے معاملات پر تنقید بھی کر رہے ہیں اور ایک متبادل نظا م کی بات بھی کررہے ہیں اور ان سہولت کاروں کی نشاندہی بھی کررہے ہیں جو ملک میں گروہی اور انتشار کی سیاست کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں بلکہ ریاست کے نظام کو مزید کمزور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں مگر ہم ان متبادل آوازوں کو سننے کے لیے تیار نہیں۔ 
یوں خیبر پختونخوا کے انتشار زدہ ایریاز میں حکومت اور عوام کے درمیان مضبوط رشتہ کمزور اور بداعتمادی کا ماحول زیادہ غالب ہے۔ ہمارے سیاسی عدم استحکام کی وجہ قانون شکنی گروہوں اور ان کے سہولت کاروں پر گرفت نہ کر پانا ہے۔ اسی وجہ سے عمومی طور پر ہمارا سیاسی نظام مختلف نوعیت کی سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچرز یا سیاسی نظام میں تعطل کو پیدا کرتا ہے۔ ہم جمہوریت کے مقابلے میں ایک کنٹرولڈ یا ہابئرڈ جمہوری نظام کے حامی ہیں جہاں عدم مرکزیت کے بجائے مرکزیت کا نظام یا مخصوص طبقات کا کنٹرول ہو۔
سلمان عابد
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
dr-jan-baloch · 1 month ago
Text
Tumblr media
بلوچستان: چارٹر آف لبریشن کی ضرورت و اہمیت
حفیظ حسن آبادی
اس سے پہلے کہ چارٹر آف لبریشن کی ضرورت و اہمیت پر بات کی جائے لازم ہے کہ مختصراً اسکے بنیادی مقاصد پر ایک سرسری نظر دؤڑاکر ایک خلاصہ پیش کریں تاکہ قارئین شعوری طور پر اس بحث کا حصہ بنیں اور ہم کسی کج بحثی سے بچ سکیں کیونکہ ابھی تک ایسے محسوس ہورہا ہے اکثر مبصر سُنی سُنائی باتوں کو لیکر رائے قائم کرنے کی سعی میں لگے ہیں جو کہ ایک جاندار رویہ نہیں ہے اورخاصکر ایسے حالات میں جب بلوچ قوم بے پناہ قربانیاں دے رہی ہےتو بجا طور پر اندھی تقلید اور سیاسی بے راہ روی کی کوئی گنجائش نہیں ہربلوچ کو ہر معاملے میں شعوری طور بحث کا حصہ بنکر اپنےقومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے اپنا کردار ادا کرنا چایئے۔
چارٹر آف لبریشن کا خلاصہ
:حصہ اول بنیادی حقوق
بلوچ قوم کی سرزمین بلوچستان اُسکے مرضی کیخلاف استعماری سیاست کی نذر ہوکر تقسیم در تقسیم کا شکار ہوئی ہے اور بلوچ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غلام کیا گیا ہے ۔اگر یہ بات درست اور پوری دنیا مانتی ہے تو بلوچ قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قومی یگانگت کے لئے جد و جہد کرکے خود دنیا کے دیگر بے شمار گم شدہ قوموں کی صف میں شامل ہونے بچانے اپنی آزاد ریاست کے قیام کیلئے دنیا کے مروجہ قوانین کے مطابق جد و جہد کرے۔جوبلوچستان آزاد کی جائیگی وہاں مردو عورتوں کو برابری حاصل ہوگی او ر یہ ’’مساوات معاشرے کے تمام حلقوں میں سماجی، معاشی، تعلیمی، مع��شرتی، ثقافتی اور سیاسی شعبوں میں یکساں ہوگی‘‘ ۔ کوئی کسی سے نسلی یا کسی اور بنیاد پر اعلیٰ و ادنیٰ تصور نہیں ہوگا بلکہ ہر کے قدر و منزلت کا تعین اُسکا معاشرے میں مثبت عمل زاتی محنت و مشقت اور اُس سے معاشرے میں موجود مثبت تاثر اور نتیجے سے ہوگا ۔خیالات پر پہرے نہیں لگیں گے کسی بھی بحث کی گنجائش موجود ہے۔مذہبی آزادی کوریاست یقینی بنائے گی۔ مذہب کوریاست سے الگ کیا گیا ہے تاکہ دنیا کے پیش رفتہ اقوام و مما لک کی طرح لوگ زیادہ آزادی سے بلا خوف و خطر اپنے مذہبی عبادات و دیگر رسومات ادا کرسکیں ۔ اور مذہب کے مقدس نام کو کوئی اپنے گروہی و ذاتی مفادات کیلئے استعمال نہ کر سکے جس طرح پاکستان و ایران میں ہوا ہے جو دنیا میں اُنکے تنہائی اور مذہب کے بدنامی کا سبب بنا ہے۔اس ریاست میں بلاامتیاز سب کے زندہ رہنے کے حق کی گارنٹی ریاست کی پہلی ترجیع ہوگی
حصہ دوئم
جد و جہد کے جامع طریقے : یہ چونکہ قومی آزادی کی تحریک ہے اس لئے اسکے تقاضوں کے عین مطابق معاشرے کے تمام طبقوں کی شمولیت کو خیر مقدم کیا جائیگا اسمیں شامل ہونے کوئی نسلی،جنسی ، لسانی ،نظریاتی و مذہبی بندش نہیں ۔ اور دنیا کے مروجہ قوانین و انسانیت دوستی کے تقاضوں کے مطابق اگر کوئی بین القوامی قوت بھی مدد کی پیشکش کرے گا تو اُسے قبول کیا جائیگا تاکہ بلوچ قوم کم از کم نقصان سے اپنی آزاد ریاست بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکے۔ یہان دو چیزیں بہت لازم ہیں جو اس پوری تحریک کی بنیاد ہیں پہلہ یہ کہ یہ جد وجہد پوری طرح بین القوامی قوانین کے عین مطابق آگے لے جایا جائیگا دوسرا اس جہد میں شامل کوئی بھی قوت پاکستان یا ایران کے پارلیمانی سیاست کا حصہ نہیں بنے گا اور اسکے اس عمل کوچارٹر آف لبریشن ا ور اس جہد کے روح کے منافی سمجھا جائیگ۔ انسانی حقوق کےادارے طلباء تنظیمیں ٹریڈ یونینز غرض جد و جہد کے وہ تمام حربے استعمال کئے جاسکتے ہیں جو دنیا میں اپنی حفاظت کیلئے اپنائے گئے ہیں ۔
حصہ سوئم
سیاسی نظام کا جواز : اس پوری جد وجہدکا مقصد بلوچ قوم کو اپنے تقدیر کا مالک بنانا ہےجس کے لیئے لازم ہے کہ آزادی کے بعد لوگ اپنی حق رائے دہی میں مکمل آزاد ہوں ۔ملک میں ایسے انتخابات کرائے جائیں جن کی نگرانی اقوام متحدہ و دیگر بین القوامی غیر جانبدار ادارے و میڈیا کریں ۔ایسے شفاف طریقے سے آئے بغیر کسی بھی پارلیمنٹ کو ملک کے اختیارات ہاتھ میں رکھنے کا قانونی حق نہیں ۔لہذا اب پاکستان اور ایران کی زیر نگرانی میں منتخب نمائندوں کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ وہ قابض ریاست کے مفادات کی نگرانی کیلئے چُنے گئے ہیںگویا آزادی، انسانی حقوق، سماجی انصاف، یکساں مواقع کی فراہمی، اور معاشی قابلیت کے اصولوں پر چلنے والا ایک جمہوری سیاسی نظام ہی آزاد بلوچستان میں رائج کیا جائیگا۔
حصہ چہارم
بامعنی جمہوریت اور امن : ایک بامعنی جمہوریت کو یقینی بنانے لازم ہے کہ معاشرے کو ایک جمہوری ماحول فراہم ہو۔ آزاد میڈیا اور صحافت، خود مختار اور آزاد عدلیہ، آزاد اسمبلیاں اور ایسوسی ایشنز، معاشی مواقع میں برابری، موزوں تعلیم اور کثیر الجماعتی سیاست کو یقینی بنا کر ایک بامعنی جمہوری نظام نافذ ہوگی تاکہ معاشرہ، تہذیب، سیاست، قانون، اخلاقیات، زبان، معیشت اور ماحولیات ایک معاندانہ نوآبادیاتی قوّت کے شکنجے سے آزادی کے بعد اطمنان سے ترقی کرسکیں اور جمہوریت کے وہ تمام تقاضے پورے ہوں جنکے لئے قوم آج قربانیاں دے رہی ہے۔اس ضمن میں آزادی حاصل کرنے کے فوراً بعد قابض ریاستوں کے تحویل میں موجو د قیدیوں کی رہائی کو ممکن بنایا جائیگا ،بلوچستان کے تمام گمشدگاں کی بازیابی اور انکے خلاف جرائم میں ملوث عناصر و ریاستوں کو بین القوامی عدالت انصاف کے کٹہرے لانے یو این او کے زیر نگرانی کمیٹی بنائی جائیگی ۔
نئی آزاد ریاست کی تشکیل میں پہلے قدم کے طور پر بلوچستان سے قابض قوتوں کوغیر مشروط پر نکل جانے کا کہا جائیگا بعد میں بین القوامی قوتوں کی ثالثی میں سرحدوں کی حد بندی و حفاظت جیسے دیگر معاملات طے کئے جائیں گے۔نوزائیدہ ریاست میں سیاسی اور قانونی اداروں کے قیام کیلئے بین القوامی مدد کو خوش آمدید کہا جائیگا اور بلوچستان تمام بین القوامی میڈیا،انسانی حقوق کے تنظیموں اور امدادی ایجنسیوں کیلئے کھلا ہوگا اُنھیں کہیں بھی کوئی امر مانع نہیں ہوگا۔ آزادی کی مزاحمتی تحریکوں اور مسلح تصادم کے حوالے سے قابض ریاستوں کے متعلق چوتھے جنیوا کنونشن کی مکمل پابندی کی جائیگی۔
حصہ پنجم
آئینی قانون اور انصاف : عوامی جمہوریہِ بلوچستان ایک جدید سیکولر اور جمہوری آئین تیار کر کے اسے اپنائے گی جہاں اقتدار پر ناجائزقبضے کے تمام رستے مسدود کئے جائیں گے ۔ہرشہری کے آزادی اور انصاف کے فراہمی کو آسان و شفاف کیا جائیگا ہرشخص کو اپنے اوپر لگائے الزام کی صفائی میں دلائل و ثبوت پیش کرنے کا مکمل موقع دیا جائیگا اور وہ شخص اُس وقت تک مجرم نہیں کہلائے گا جب تک عدالت نے ثبوتوں کی بنیاد پر اُس کے خلاف ایسا فیصلہ نہیں دیا ہے ۔
کوئی کسی کی نجی زندگی ومعاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتا کوئی کسی کےجائیداد پر قبضہ نہیں کرسکتاکیونکہ قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گے کوئی کسی سے کسی لحاظ سےبھی برتر و بہتر نہیں مانا جائیگا اور قانون سب کو یکساں تحفظ فراہم کرے گی۔سولی پر چڑھا کر سزائے موت، تشدد یا کسی بھی دیگر قسم کے غیر انسانی اقدام کے ذریعے ظالمانہ انداز میں کسی فرد کو زندگی سے محروم کر نےکوانسانیت کی روح، بلوچ اخلاقی ضابطےاوراقدار کےسخت منافی تصور کیا جائیگا۔ہےاور وہ جمہوریہِ بلوچستان میں قطعی طور پر ممنوع ہوں گے۔
حصہ ششم
حق تلفی کے خلاف اور مساوی مواقع کے حق میں : آزاد اور جمہوری بلوچستان کرپشن کے خلاف ایک مضبوط اور بلا سمجھوتہ نقطہِ نظر رکھے گا اور اس کو ہر سطح پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے ہر کوشش کرے گا۔
اس مقصد کے حصول کیلئے کسی قومی یا مقامی حکومت کے سول ملازمین کا تقرر کھلے مقابلہ کے ذریعے میرٹ کے بنیاد پر کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ، سول ملازمین کو لازمی طور پر غیر سیاسی اور غیر جانبدار رہنا ہو گا۔ یہ چیز مختلف منتخب حکومتوں کے ساتھ غیر جانبداری کے ساتھ اور منصفانہ ذہن کے ساتھ کام کرنے کیلئے بجا ہے۔
بلوچستان میں تمام نسلی اور مذہبی اقلیّتوں کو اپنے عقائد پر عمل پیرا ہونے اور اپنی زبانوں اور روایات کو برقرار رکھنے اور ان کا تحفظ کرنے کیلئے آبادی کے باقی حصوں کی طرح بالکل ایک ہی پیمانے پر ایک جیسے حقوق حاصل ہوں گے۔ خاندانی تعلقات، اقرباء پروری یا طرف داری کے بجائے انفرادی میرٹ کے اصول پرسختی سےکاربندرہنے کو ممکن بنایا جائیگا۔
سولہ سال کی عمر تک تعلیم لازمی اور مفت ہو گی۔ طلباء کی جسمانی اور ذہنی نشوو نما و انکے عزت نفس کی خیالداری ریاست کی پہلی ترجیحات میں شامل ہوگی
حصہ ہفتم
مابعدِ حصولِ آزادی : عوامی جمہوریہِ بلوچستان ایک سول، کھلی رواداری اور جمہوری معاشرہ ہو گا،جہاں ریاست جمہوری اور نجی آزادیوں کا تحفظ کرے گی بشمول آزادانہ ، کثیر جماعتی انتخابات، احتجاج کرنے کا حق، اظہارِ خیال اور صحافت کی آزادی، جیسا کہ یو این کے انسانی حقوق پر عالمی اعلامیہ اور سول اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ میں ان کا احاطہ کیا گیا ہے۔ایک ایسا سیاسی نظام رائج کیا جائیگا جہاں ایک فرد ایک ووٹ کے اصول پر کئے گئے آزاد اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنایا جائیگا۔
بلوچستان کی قومی اسمبلی (بلوچستان ئے مزنین دیوان) بلوچ قوم کا اعلیٰ ترین جمہوری ادارہ ہو گا جو بلوچستان کے لوگوں کے جمہوری حقوق کو یقینی بنائے گا اور ان کا تحفظ کرے گا۔ یہ کسی قسم کے مطلق العنّان سیاسی نظام کے خلاف قلعے کا کردار ادا کرے گا۔ تمام ریاستی اہلکار اپنے اقدامات کیلئے بلوچستان قومی اسمبلی (بلوچستان ئے مزنین دیوان) کو اوربالآخر بلوچستان کے لوگوں کو جواب دہ ہوں گے۔
بلوچستان کی قومی فوج ، سرمچاروں کےمسلح بلوچ آزادی پسند تنظیموں مختلف گروہوں میں سے تیار کی جائے گی۔ بلوچستان کی قومی فوج منتخب شدہ سول سیاسی اتھارٹی کا ایک ماتحت ریاستی عضو ہو گا – بلوچستان کی قومی فوج کے دائرہِ کار اور منشور کی تعریف قومی اسمبلی، بلوچستان کے آئین اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ہوگا ۔ یہ فوج بلوچستان کی ریاست، عدلیہ، ��ول معاشرے اور میڈیا کی قریبی جانچ پڑتال کے تحت اور ان کو جواب دہ ہوگی۔اس فوج کا اوّلین فریضہ بلوچستان کی علاقائی سرحدوں کا تحفظ ہو گا۔ بلوچستان کی مسلح افواج کے اراکین کیلئے ملازمت میں رہتے ہوئے سیاسی، تجارتی یا کسی قسم کی دیگر ملازمت سے متعلقہ سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی ہو گی۔
جرائم کے رو ک تھام کیلئے بغیر لائسنس کے نجی اسلحہ اور کسی قسم کی نجی فوج رکھنا غیر قانونی ہو گا۔اور قبائلی رنجشوں کو ختم کرنے ریاست خصوصی توجہ دے گی تاکہ لوگ آپس کی دشمنیوں میں الجھ کر معاشرے کی تعمیر وترقی کی رفتار کو متاثر نہ کرسکیں۔
حصہ ھشتم
خود مختار ریاستِ بلوچستان : بلوچ جدوجہد آزادی کااصل مقصد بلوچ وطن کے منقسم علاقوں کو دوبارہ بلوچ وطن میں متحد کرکے ایک کامل بلوچ قومی ریاست کی آزاد حیثیت کو تسلم کرانا ہے۔
بیرونی جارحیت سے تحفظ، داخلی امن و امان کی برقرار ی، انصاف کی فراہمی، فلاحی خدمات کی فراہمی اور بیرونی تعلقات میں توازن ،از سرنو تمام شعبہ ہائ زندگی میں بنیادی ڈھانچوں کی تشکیل ریاست کی زمہ داری ہوگی ۔
بلوچستان کے تمام شہری بلوچستان کے کسی بھی حصّہ میں سفر کرنے، کسی کاروباری سرگرمی یا کام کے قیام کیلئے آزاد ہیں۔
بلوچستان میں موجود تمام قدرتی وسائل بلوچستان کے لوگوں کی ملکیت ہیں۔ ان وسائل کا نظم و نسق اور اختیار ریاستِ بلوچستان کے پاس ہو گا۔ ان کا استعمال بلوچستان میں رہنے والے لوگوں کی فلاح کیلئے ہو گا ۔ کسی دوسرے ملک یا قوم کو اپنے ذاتی فائدہ اور مفاد کیلئے ان وسائل کے استحصال کا حق نہیں ہوگا۔
بلوچستان سے نکالے گئے تمام قدرتی وسائل کی بلوچستان اور تمام دیگر اقوام کے مابین تجارت بین الاقوامی اور مقامی منڈی کی قیمتوں کے تحت ہو گی۔
حکومتِ بلوچستان سوشل سیکیورٹی کا ایک جامع نظام اور ایک فلاحی ریاست کا نظام متعارف کروانے کی ذمہ دار ہے۔جسکے تحت ریاست بچے ،بزرگ شہری ، معذور افراد ،کمزور اور بلانمائندہ گروہوں کےمعاشی ،سیاسی و سماجی تحفظ کا زمہ دارہوگا۔
بلوچستان کی آزاد ریاست اُن سابقہ قابض قوتوں سے معاوضہ کا تقاضا کرے گی جنہوں نے بلوچستان کو لوٹا ہے اور اس کے قدرتی وسائل کو چھینا ہے۔
ریاست بلوچستان ان لوگوں کے اوّلین اہلِ کنبہ کی معاونت کیلئے ایک فنڈ ��ائم کرے گی جنہوں نے ہماری مادر وطن کی آزادی کی قیمت اپنی جان دے کر ادا کی
حصہ نہم
سماج، معیشت اور ماحول : بلوچ زبانیں بلوچی اور براہوی بلوچستان کی قومی زبانیں ہوں گی۔ انگریزی ثانوی سرکاری زبان اور بین الاقوامی میدان میں رابطہ کاری کا ذریعہ ہو گا۔
بلوچستان ایک مخلوط معیشت کا کردار ادا کرے گا جہاں معیشت کے نجی، سرکاری اور رضاکار شعبہ جات ملک میں مروجہ قوانین کے اندر رہ کر فعال ہو ں گے۔
"ما چکیں بلوچانی" بلوچ جدوجہد آزادی کا ترانہ ہے۔ آزاد بلوچستان کے قومی ترانہ کو بلوچستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی یا بلوچستان کی قومی اسمبلی منتخب اور منظور کرے گی۔
بلوچ جدوجہد آزادی کا جھنڈا جو کہ بڑھتی ہوئی تعداد میں اپنایا جاتا رہا ہے تین حصّوں پر مشتمل ہے۔ مرفاع کے برابر میں ایک ستارے کے ساتھ ایک نیلے رنگ کا تکونا امتیازی نشان خصوصی علامت (یا چارج ) کے طور پر ہے ۔ تکونے امتیازی نشان سے لے کر پھریرے تک ، دو افقی پٹّیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ اوپر والی افقی پٹّی سرخ ہے اور نیچے والی افقی پٹّی سبزآزادی تک یہی جھنڈا ہوگا ۔آزاد بلوچستان کے قومی جھنڈے کا فیصلہ اور منظوری بلوچستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی یا بلوچستان کی قومی اسمبلی کرے گی۔
ہماری آزادی کی بحالی کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے والے ہماری آزادی کی جدوجہد کے جانثاروں کی قومی یاد منانے کا منتخب شدہ حتمی تاریخ 13 نومبر کو ہوگی۔ 1839 میں اس دن میر محراب خان اور ان کے کئی سپاہیوں نے سلطنتِ برطانیہ کی حملہ آور فوج کے خلاف بلوچستان کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔
آزادی حاصل کرنے کےفوراً بعد بلوچستان میں سے تمام جوہری سرگرمیوں کے خاتمے اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے فوری اقدام کیا جائے گا۔ بلوچستان میں، جوہری تجربات بلوچ عوام کی خواہشات کے برخلاف اور ان کی اجازت کے بغیر کئے گئے تھے۔ بلوچستان کے عوام اور ان علاقوں کی ماحولیات پران تجربات کے اثرات پر اقوامِ متحدہ سےایک غیر جانبدارانہ تفتیش وتحقیق کی درخواست کی جائے گی۔ وہ علاقےجو کہ تابکاری کے زہر یلے اثرات سے آلودہ ہوئے ہیں ان کو صاف کیا جائے گا اور ماحول کو پہنچنے والے نقصان اور ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں پر شعاعوں کے اثرات کا تعین کرنے کیلئے ایک غیر جانبدار سائنسی تحقیق کی جائے گی۔ بلوچ عوام کے خلاف اس جُرم کی ذمہ دار ریاست کو جواب دہ ٹھہرایا جائے گا اور بین الاقوامی نظامِ انصاف کے ذریعے انصاف ومعاوضہ کا تقاضا کیا جائے گا۔
حصّہ دھم
عبوری آئین : اس منشور کے نافذ ہو جانے کے بعد بلوچستان کے عبوری آئین کا مسودہ تیار کرنے کیلئے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔اس آئین میں بلوچ عوام کے وہ حقوق اور ذمہ داریاں شامل ہوں گی جن کا تصوّر اس منشور میں پیش کیا گیا ہے۔عبوری آئین ایک جدید جمہوری ریاست کے ترقی پسند عوامل اور بلوچستان کی انوکھی تاریخ، تہذیب، حالات اور ضروریات کو یکجا کرے گا۔
-----------------------------------------------------------------
یہ تھا چارٹر آف لبریشن کا مختصر خلاصہ جسے پڑھکر صاحب نظر لوگوں کے زہن میں یقیناً چند فطری اور اہم سوال اُٹھتے ہوں گے کہ ان باتوں میں سے کس بات سےاعتراض کرنے والوں کو اعتراض ہے ؟ اس میں شامل کونسا نکتہ ایساہے جو اس جد و جہدکے روکے منافی ہے؟ ۔اس میں کو نسی ایسی بات موجود ہے جو بلوچ نفسیات ،سیاسی ،سماجی و اقتصادی تقاضوں سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔کیا یہ وہی مطالبات و خواہشات نہیں ہیں جو قوم نے بارہا دہرائے ہیں جنہیں اس چارٹر کمیٹی نے صرف یکجا ہ و ترتیب دینے کی کوشش کی ہے ؟ ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جن جماعتوں یا لیڈروں کی طرف سے شعوری یا لاشعوری طور پر اس دستاویز کے خلاف ایک مہم چلائی جارہی ہے وہ بھی اس کے کسی ایک نکتہ سے بھی عدم اتفاق کا اظہار نہیں کرسکتے ۔ اور ہم یہ بات وثوق کے کیساتھ کہتے ہیں وہ جہاں بھی جائیں گے نئے بلوچستان بارے ان نکات سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں کہہ سکیں گے۔
تاہم اس دؤراں کچھ باتیں اس تواتر سے دہرائی گئیں کہ ہمیں اس سے پہلے بہت کچھ لکھنے کے باوجود پھر سے لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ بات کیا جاتا ہے کہ اس چارٹر نے قوم میں انتشار پیدا کیا ہے ؟ ہمیں یقین ہے کہ ایسا کہنے والوں کی اکثریت نے دوسروں کے سنے سُنائی باتوں کے زیر اثر ایسا تاثر قائم کیا ہے اگر وہ خوداِسے پڑھتے یقیناً ایسی بےمنطقی بات نہیں کرتے ۔مذکورہ دستاویز میں بلوچ قوم کی غلامی، اس سے نجات کی راہیں اور اسکے بعد اسکے تعمیر کے خدوخال ہیں۔ ایک دستاویز جسکی روح یہی ہے کہ بکھرے بلوچستان کو مشترکہ قوت سے یکجاہ کیا جائے اس سے انتشار کیسے پھیلایاجاسکتا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اگر انتشار پہلے سے ہمارے زہنوں میں موجود ہو تو وہ کسی نہ کسی بہانے خود کا اظہار کربیٹھتی ہے۔ یہ ایک ایسا دستاویز ہے جو دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی فورم میں بلا امتیاز کہ آپ کس پارٹی یا تنظیم سے ہیں بلوچ وطن کے تعمیر میں تمہاری وکالت کرتا ہے وہ کیسے تمہیں انتشار کی طرف لے جائیگا ؟
کچھ دوست کہتے ہیں اس کی ترتیب سے پہلے سب کو بلا کر سب سے مشورہ لینا چائیے تھا بعد میں اس کو بنانا تھا ۔بظاہر یہ ایک معصومانہ خواہش معلوم ہوتا ہے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ پاکستانی کمیٹی در کمیٹی اور معاملات سردخانوں میں ڈالنے کی ہماری کمزوری ہماری روحوں کے اندر بھی جاگزیں ہوچکی ہے ۔اور جو چیز ہمیں نہیں کرنا ہوتا ہے اسکے لئے ایسی راہیں بتاتے ہیں جن سے ہمیں سو فیصد یقین ہوتا ہے کہ اس ڈگر پر چل کر ضرور الجھا جائیگااور بات ہماری بد نیتی کے بجائے مدمقابل کے نااہلی پر ٹکے گی اور دنیا ہمارے رویے کے بجائے پیش کرنے والے کی نالائقی پر نالاں ہوگا۔
کیا یہ دوست نہیں جانتے کہ بلوچستان میں نواب اکبر خان بگٹی جیسا زیرک مدبر اور مدلل لیڈر شاہد صدیوں میں پیدا ہو جب آپ نے بھی کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے اِسی مذکورہ بالا فارمولے کے تحت سب کو بلایا قومی ضرورتوں اور وقت کے تقاضوں سے آگاہ کرتے ہوئے سنگل پارٹی بنانے کا تجویز رکھا اور اسکے لئے سب سے پہلے اپنی جماعت کےتحلیل و ضم ہونے کا پیش کش کیا لیکن جواب میں کسی نے کہاکہ لیڈر کون ہوگا؟ تو کسی نے کہا اسکی کوئی ضرورت نہیں آپ جو فیصلہ کریں گے ہم آپکے ساتھ ہیں اگر آپ پر ایک گولی چلے گی تو ہم دس گولیاں چلائیں گےلیکن یہی لوگ جب باہر نکلے توسب نے کہا نواب بگٹی پھنس گیا ہے اس لئے ہمارا سہارا لیکر اسلام آباد کو بلیک میل کرنا چاہتا ہے ۔بعد میں اپنے تماشائی بننے والی کردار اور غائبانہ نماز جنازہ کا ڈرامہ بازیوں سےاپنی بد نیتی ،منافقت و سیاسی مفت خوری کی خواہش ثابت کرگئے۔ سنگل پارٹی بنانے سے بہانہ بناکر بھاگنے والے شروع ہی سے ساتھ نہیں تھے بلکہ اُنکا مقصد صرف اور صرف نواب بگٹی و دیگر کی قربانیوں کو کیش کرنا تھا اس سے زیادہ کچھ نہیں۔یا دوسرے لفظوں میں اُنھوں نے اس بلوچی دیوان میں صرف اس لئے شرکت کی کہ لڑے بھی بگٹی ہارے بھی بگٹی لیکن اگر جیتے تو ہم کسی نہ کسی طرح شریک رہیں ۔
ایک بہت ہی حاجزانہ سوال ہے اگر نواب صاحب انکے جھوٹے وعدوں اور بعد میں دیکھیں گے جیسے باتوں کیلئے رُکتے تو آج بلوچ قومی تحریک آزادی اتنی منزل طے کرچکی ہوتی ؟یقیناً نہیں! ویسے بھی پوری دنیا میں ایسے کاموں کا طریقہ کار یہی ہوتاہے کہ جس کا آئیڈیا ہوتا ہے وہ اُسے ترتیب دے کر پیش کرتا ہے ��س پر بعد میں بحث مباحثہ ہوتا ہے اُسمیں کمی بیشی کی جاتی ہے ۔ہاں اگر ایسا دستاویز تیار ہوتا اور کسی کو اسمیں اضافہ یا کٹوتی کا اجازت نہیں ہوتا تب اُنھیں یہ سب کچھ کہنے کا حق تھا جو اب کہہ رہے ہیں۔کچھ لوگ تو اس حد تک زیادتی کرکے کہتے ہیں کہ منشور اُسکے بنانے والوں نےمقدس کتاب بنایا ہے ۔بات بالکل ایسی نہیں بات صرف اتنی ہے کہ جو چارٹر اس کمیٹی نے بنائی ہے اگر آپ اس سے متفق ہیں تو چلو اِسی کو روڈ میپ مان کر اسی کی روسے جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ بلوچستان کو اس منشور سے ہٹ کر کسی دوسرے شکل میں دیکھنا اور چلانا چاہتے ہیں وہ روڈ میپ ہمیں دے دیں ہم آپ کے روڈ میپ کو بھی دیکھیں گے ویسے بھی اسمیں دو نکات کے علاوہ باقی سب کچھ تبدیل کیا جاسکتا ہے اگرچارٹر بنانے والے اس دستاویز کو مقدس کتا ب کہتے یا سمجھتے تو وہ کسی کو اسمیں ردوبدل کی اجازت نہیں دیتے ۔
کچھ دوست کہتے ہیں بس یہ دستاویز متنازعہ ہوگیا اسکو چھوڑیں ، ہے نا جہالت کا شاھکار جملہ جب کوئی چیز قوم کے سامنے پہلی بار یکم مارچ کو پیش ہوا وہ ایک دوسال پہلے کیسے متنازعہ ہوا ؟ اُنکا ایسا کہنا خود اُنکے اپنے سابقہ دلیل کی منافی کرتا ہے کہ اِسے قوم سے منظور کرانے کی ضرورت تھی لو یہ دستاویز آپکی فرمائش پر قوم کے سامنے پیش خدمت ہے قوم باشعور ہے وہ خود اِسے پڑھے ،اپنی رائے قائم کرے اور ہم سب کی راہنمائی بھی کرے ۔اس منشور کا بلوچ قوم کے سامنے پیش کرنا اور انھیں مکمل بحث کا حصہ بنانے کی کوشش ایک ایسی نیک خواہش ہے کہ کوئی بھی لیڈر قوم کے پیچھے چھپ کر اپنی انا کی تسکین یا سماج میں جوابدہی سے بچنے اپنے کسی غیر سیاسی عمل کو عوامی و قومی نہ کہہ سکے۔اس سے پہلے اس پر اعتراض کرنے والوں کے سیاسی رویے کااحاطہ کریں پہلے یہ بات ضرور کہیں گےکہ چارٹر کےمخالفین کو ریشہ دوانیوں کا موقع چارٹر کمیٹی کے دو غیرضروری و غلط اقدامات نے دئیے۔ ان دو غلطیوں سے چارٹر مخالفین نے جہاں تک ممکن ہوا فاہدہ اُٹھایا اور ایک جاندار و سیاسی بحث کے بجائے کج بحثی میں ایک بیزاری کی کیفیت پیدا کی جو کسی حد تک مجموعی مایوسی کا سبب بھی بنا ۔ چارٹر کمیٹی کی پہلی غلطی یہ تھی کہ اُنھوں نے اِسے مختلف لوگوں کو پیش کیا جبکہ چارٹر کو کسی کو پیش کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں تھی خاصکر خان قلات اور اختر مینگل کو تو قطعناً پیش نہیں کرنا چائیے تھا ۔ خان قلات کو اس لئے نہیں کہ آپ ایک فرد ہیں اوراس کے لئے یہ دلیل دی جائے کہ وہ آزادی کی بات کرتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہت سے دیگر لوگ بھی ہیں جو آزادی کی بات کرتے ہیں جب آپ اُنکو یہ دستاویزپیش نہیں کرتے تو یہاں یہ رعایت کیوں ؟ ۔اختر مینگل کو اس لئے پیش نہیں کرنا چائیے تھا کیونکہ اُنھیں و چارٹر پیش کرنا ایک مصنوعی دباؤ کا نتیجہ تھا چارٹر گروپ کو دباؤ میں آئے بغیر اس جماعت بارے اپنے رویے کو ٹھیک ایسے رکھنا تھا جیسے دیگر تمام پاکستانی پارلیمانی سیاست کرنے والے جماعتوں کے بارے میں رکھتا ہے یہ پریشر گروپ پہلے اختر سے اتحاد کیلئے دباؤ بڑھا رہا تھا اب دیکھا کہ اختر کی براہ راست حمایت نا ممکن ہے تو یہ جاوید مینگل اور مہران مری کیساتھ اتحاد پر زور دے کر تمام صفوں میں بدنظمی پھیلانے مصروف ہے۔ اس پریشر گروپ کا مقصد اور کچھ نہیں صرف یہی ہے کہ اصل آزادی پسند لوگوں کے درمیان اُنکا کوئی ضرور موجود ہو تاکہ بہ وقت ضرورت حسب سابق تحریک کو اسلام آباد کی جھولی میں ڈالا جاسکے ۔ چارٹر کو انھیں پیش کرنے کے بجائے براہ راست شائع کرکے عوام کے سامنے ایسے پیش کرنا تھا جیسے اب کیا جاچکا اور اُس وقت بھی یہی دعوت دی جاتی کہ آپ جو بھی تجویز دیں گے اُنھیں چارٹر کمیٹی دیکھے گی بلکہ یہ کہ وہ آن دی ریکارڈ اپنے تجاویز میڈیا کے زریعے بھی شائع کرواسکتے ہیں۔ دوسری غلطی پہلے والے سے کئی زیادہ سنگین تھی کہ اِسے لیڈروں کو پیش کرنے کے بعد عوام کے سامنے لانے میں تاخیر ہوئی۔ جس سے جن بد نیت لوگوں کو آپ کے ساتھ آنا نہیں تھا اُنھوں نے عوام کے پیچھے چھپتے ہوئے اسکے خلاف تاویلیں تلاش کی کہ پوری قوم کا معاملہ ہے لہذا قوم کے سامنے پیش کرنے سے پہلے ہم کیسے اسکے بارے میں رائے دے سکتے ہیں جبکہ اُنکے قوم دوستی کا یہ عالم تھا کہ اُنھوں نےعام آدمی تو در کنار اُنکے سینئر تریں و تجربہ کار تریں مرکزی ممبران تک کو نہیں دکھایا گیا تھا۔ ڈیڑھ برس پہلے اُس وقت میری عیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نےچند بی آر پی اور بی این پی مینگل کے سینئر دوستوں سے چارٹر بارے فیڈ بیک کا کہا تو جواب میں سب نے یہی کہا کہ اُنھیں ابھی تک چارٹر پارٹی کی طرف سے نہیں ملاہے گو کہ اُس وقت ان جماعتوں کی قیادت کو یہ چارٹر ایک سال پہلے پیش کیا جاچکاتھا۔ اگر یہ دستاویز صرف اُن لیڈروں تک محدود رہی ہے اور اُنھوں نے اپنے سینئر ممبراں تک کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے تو ایسے لوگ کس بنیاد پر پوری قوم کی نمائندگی کا دعویٰ کرکے کسی دستاویز کے متنازعہ یا غیر متنازعہ ہونے کا کہہ سکتے ہیں۔
اگر ان سینئر دوستوں کو وقت پر چارٹر دیا جاتا اور اس پر تمام تر تعصبات سے پاک واقعی سیاسی بحث مباحثہ ہوتا اور اُس بحث مباحثہ کے نتیجے میں ایک رائے قائم کی جاتی تو یقیناً آج ایسے قدم اُٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی جس سے کسی جمہوری پارٹی میں ڈکٹیٹر شپ قائم ہونے کے تاثر سے پارٹی کی ساق کو ہمیشہ کیلئے نقصان پہنچتا ۔
اِسے ہماری اجتماعی بد نصیبی کہیئے کہ ہمارے اکثر دوست ابھی تک قبائلیت کے سوچ کی گرفت سے آزاد نہیں ہو سکے ہیں بات جمہوری سیاست کی کرتے ہیں لیکن مزاج و اقدامات شہنشاؤں جیسے ہیں ۔ بات گروہی سیاست سے نکلنے کی کرتے ہیں لیکن خود گروپوں سے نکل نہیں پاتے دوسروں کو سیاسی رویہ اپنا کر ہر بات اداروں کے تابع کرکے فیصلوں میں توازن لانے کی کہتے ہیں لیکن اپنے تمام فیصلے ذاتی ہوتے ہیں نہ کسی کو خاطر میں لاتے ہیں نہ کسی سے تبادلہ خیال کرتے ہیں، سب کو رائے دینے اور تعمیری تنقید کا کہتے ہیں لیکن ہر بات اور تنقید اُس وقت ناقابل برداشت ہوتی ہے جب بات اُنکے کوتائیوں کی طرف مڑ جائے ،بات اتحاد و اتفاق کی کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ہر اُس عمل کی طرفداری کرتے ہیں جس سے راستے کبھی ملنے نہ پائیں ۔
حرف آخر: بلوچ قوم نے بڑی مشکلوں سے یہ توجہ حاصل کیا ہے اس وقت اس کارواں کو اس پڑاؤ سے آگے لیجانا ہے لیکن تحریک کے’’ اجزائے ترکیبی‘‘ اُسکی موجودہ ضرورتوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں یہی وجہ ہے کہ کچھ غیر اہم ،غیر ضروری و مکمل طور پر سیاسی طالع آزما ؤں کی خاطر اصل قوتیں ��ٓپس میں گتھم گھتا ہیں اور ایک دوسرے پر سنگ باری کی جارہی ہے جسے کچھ لوگ صفائی کا عمل کہتے ہیں اور وہ ایک حد تک بجا بھی ہیں لیکن یہ صفائی کا عمل اگر حد سے زیادہ لمبا ہوگیا تو صفائی کے ساتھ چمڑی بھی اُترجائیگا ۔اسمیں طالع آزماؤں کا کچھ نہیں بگڑے گا اگر نقصان ہوگا تو سب سے پہلے قوم کا اس قومی تحریک کیساتھ ہوگا۔ آج بلوچ قومی تحریک کو حقیقی طور پر اداروں کی ضرورت ہے جو اُسکے ہر شعبے کو جدید سائنسی تقاضوں کے مطابق پیشہ ورانہ طور پر چلائیں اب اسکا پھیلاؤ بہت وسیع ہو چکا اِسے اس طرح’’ شوقیہ فنکاروں ‘‘سے چلایا نہیں جاسکتا پالیسی ساز اداروں اور موثر پروپگنڈہ مشنری کی ضرورت ہے۔چارٹر آف لبریشن تاحال واحد ایسا دستاویز ہے جس کو بنیاد بناکر تمام اصل آزادی پسند قوتیں اپنی اپنی صف بندیاں کرکےایک دوسرے کیساتھ مشترکہ جد وجہد کی راہیں تلاش کرسکتی ہیں ۔ اس دستاویز کو کسی ایک فرد سے منسوب کرکے ’’بغض معاویہ ‘‘ کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے وسیع النظری سے اسکا مطالعہ کرکے اِسے مکمل کیا جائے اگر کہیں کسی کو کوئی کمزوری یاخامی نظر آتی ہے ۔
بحث سمیٹتے ہوئے ایک بہت ہی تلخ حقیقت دوستوں کو بتاتا چلوں کہ دنیا آج بھی بلوچ کیساتھ ہمدردی ضرور رکھتا ہے لیکن اُسکےآزاد ریاست بنانے کے خواہشوں کی تکمیل کیلئے ابھی تک تذبذب کا شکار ہے ۔بلوچ کو اُسے قائل کرنے واقعی ایک چارٹر کی ضرورت ہے تاکہ اُسے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو کہ ہم جس بلوچستان کے بنانے کی حمایت کریں گے اُسکے چلانے والے کون لوگ ہوں گے اور انکے سیاسی ،معاشی و سماجی خیالات کیسے ہیں اور وہ خود اپنے تصورات سے کس حد تک مخلص ہیں اگر ہماری حالت یہی رہی کہ ایک جگہ پانچ آدمی ہوکر چھ جماعتوں میں تقسیم ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت ہماری بد اعمالیوں کی سزا سے ہمیں نہیں بچا سکتا۔ (ختم شُد)
0 notes
airnews-arngbad · 3 months ago
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 20 November-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ:  ۲۰؍ نومبر ۲۰۲۴ء؁
وقت: ۱۰:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
                پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
                ٭             اسمبلی کے عام انتخابات کیلئے ریاست کے 288 حلقوں میں ر ائے دہی کا عمل جاری؛ سیاسی قائدین اور رہنمائوں کی جانب سے حقِ رائے دہی کی اد ائیگی۔
                ٭             ووٹر شناختی کارڈ سمیت دیگر 12 دستاو یزات میں سے کوئی ایک دستاویز بتاکر اپنی شناخت کی تصدیق کرکے رائے دہی کرنے کی اپیل۔
                ٭               ناندیڑ پارلیمانی نشست کے ضمنی انتخاب کیلئے بھی آج ر ائے دہی- ضلعے کے چھ اسمبلی حلقوں کے را ئے دہندگان کو ایک ہی مرکز پر دو بار ووٹ ڈالنے کے ذمہ داری۔
                ٭               امتناعی احکامات کی خلاف ورزی کے معاملے میں بی جے پی رہنما ونود تائوڑے کے خلاف مقدمہ درج ۔
اور۔۔۔٭       خواتین کے ایشیائی ہاکی چمپئن شپ میں جاپان کو شکست دے کر بھارت فائنل میں داخل - آج چین سے مقابلہ۔
***** ***** *****
                اب خبریں تفصیل سے:
                ریاستی اسمبلی کی  288نشستوں سمیت ناندیڑ پارلیمانی نشست کے ضمنی انتخاب کیلئے ر ائے دہی کا عمل جاری ہے۔ ریاست میں نو کروڑ 70 لاکھ 25 ہزار 119 ر ائے دہندگان کیلئے ایک لاکھ 427 را ئے دہی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ شام چھ بجے تک ر ائے دہی کا عمل جار ی رہے گا۔
                دریں اثنا‘ ریاستی گورنر سی پی رادھا کرشنن‘ چیف الیکشن آفیسر ایس چوکّ لنگم‘ چیف سیکریٹری سجاتا سَونِک‘ معروف کرکٹر بھارت رَتن سچن تنڈولکر نے ممبئی میں اپنے پولنگ مرکز پر جاکر ووٹ د یا۔
                چھترپتی سمبھاجی نگر میں رائے دہی کا عمل بہتر طور پر جاری ہے۔ ضلع کلکٹر دلیپ سوامی نے و یب کاسٹنگ کے ذریعے ضلع کے ووٹنگ مراکز کا مشاہدہ کیا۔ پربھنی شہر میں سخت سردی میں را ئے دہی کا عمل ہورہا ہے ا ور ووٹروں کی لمبی لمبی قطاریں دکھائی دے رہی ہیں۔
                ہنگولی شہر میں صبح سے ہی رائے دہی کیلئے عو ام کا بہتر ردّ عمل دکھائی دے رہا ہے۔
                بارامتی اسمبلی حلقے کے مہایوتی کے اُمیدوار اجیت پوار نے کاٹے واڑی کے مرکز پر ووٹ د یا۔
                عثمان آباد اسمبل ی حلقے کے مہاوِکاس آگھاڑی کے امید وار کیلاش گھاڑگے ا ور لا تور شہر حلقے سے مہاوِکاس آگھاڑی کے امیدو ار امیت دیشمکھ نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا۔
                دریں اثنا‘ رائے دہی مراکز پر ر ائے دہندگان کی تصدیق کیلئے ووٹر شناختی کارڈ کے ساتھ 12 دیگر دستاویزات میں سے کوئی بھی ایک دستاویز قبول کیا جائے گا۔ ان دستاو یزات میں ڈرائیونگ لائسنس، پین کارڈ، آدھار کارڈ، پاسپورٹ، منریگا جاب کارڈ، بینک یا ڈاک محکمے کی تصویر والی پاس بک، ہیلتھ انشورنس اسمارٹ کارڈ، قومی آبادی رجسٹر کے تحت حاصل کردہ اسمارٹ کارڈ، خصوصی معذوری شناختی کارڈ وغیرہ دستاو یزات قابلِ قبول ہوں گے۔
                 وزیرِ اعظم نریندر مودی نے تمام ر ائے دہند گان سے اپنی شناخت کی تصدیق کرکےر ائے دہی کر نے کی اپیل کی ہے۔ سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں وزیراعظم مودی نے کہا کہ جمہوریت کے اس جشن میں سبھی کو شرکت کرنی چاہیے۔
                چیف انتخابی افسر ایس چو کّ لنگم نے ریاست کے سبھی ر ائے دہندگان سے کثیر تعداد میں اپنا حقِ ر ائے دہی ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔
***** ***** *****
                اسمبلی انتخابات میں مجموعی طور پر چار ہزار 136  امیدوار انتخابی میدان میں ہیں۔ ان میں سے تین ہزار 771 مرد امیدواروں کے علاوہ، 363 خواتین اور تیسری جنس کے دو امید وار ہیں۔ پونے ضلعے میں سب سے زیادہ 303  امیدوار ، جبکہ سندھو دُرگ ضلعے میں سب سے کم 17 امیدوار مید ان میں ہیں۔
                چھترپتی سمبھاجی نگر ضلعے کے نو اسمبلی حلقوں میں 183  امیدوار میدان میں ہیں، جبکہ جالنہ ضلعے کے پانچ اسمبلی حلقوں میں 109  امیدوار، بیڑ ضلع کے چھ اسمبلی حلقوں میں 139  امیدوار، پربھنی ضلعے کے چار اسمبلی حلقوں میں 58  امیدوار، ہنگولی ضلعے کے تین حلقوں میں 53  امیدوار میدان میں ہیں۔ اسی طرح لاتور ضلعے کے چھ انتخابی حلقوں میں 106 امیدوار، دھا را شیو ضلعے کے چار حلقوں میں 66   امیدوار اور ناندیڑ ضلعے کے نو اسمبلی حلقوں میں 165 امیدوار اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔
                ناندیڑ پارلیمانی نشست کے ضمنی انتخاب میں ر ائے دہندگان 19 امیدواروں میں سے کسی ایک امیدو ار کو اپنا نمائندہ منتخب کریں گے۔ اس لوک سبھا حلقہ کے ناندیڑ شمال، ناندیڑ جنوب، بھوکر، نائیگاؤں، دیگلور اور مکھیڑ اسمبلی حلقوں کے ر ائے دہندگان دو بار ووٹ دے رہے ہیں۔ لوک سبھا ضمنی انتخاب کیلئے ووٹنگ مشین پر سفید اسٹیکر، جبکہ اسمبلی کے عام انتخابات کیلئے ووٹنگ مشین پر گلابی اسٹیکرز چسپاں کیے گئے ہیں۔ پولنگ مرکز پر رائے دہندگان اپنی شناخت کی تصدیق کے بعد پہلے لوک سبھا اور پھر اسمبلی کیلئے ووٹ دے رہے ہیں۔
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر سے نشر کی جارہی ہیں
***** ***** *****
                مرکزی انتخابی کمیشن کے حکم کے مطابق ریاست میں اسمبلی انتخابات کیلئے 'خواتین پولنگ عملے کے ماتحت  426رائے دہی مر اکز قائم کیے گئے ہیں۔ ان تمام مراکز پر خواتین افسران و ملازمین انتخابی اُمور انجام دے رہی ہیں۔
***** ***** *****
                رائے دہی کے عمل کی تکمیل کیلئے گزشتہ روز ہی پولنگ عملے اپنے اپنے پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ گئے ہیں۔ چھترپتی سمبھاجی نگر ضلعے میں تین ہزار 273 ر ائے دہی مر اکز پر پولنگ اُمور کی انجام دہی کیلئے  18 ہزار 178  افسران اور ملا زمین کو تعینات کیا گیا ہے۔
                جالنہ ضلعے کے پانچ حلقوں میں جملہ ایک ہزار 775  پولنگ مراکز پر ر ائے دہی ہو رہی ہے‘ جبکہ بیڑ ضلعے کے چھ حلقوں میں دو ہزار 416 پولنگ اسٹیشنوں پر 11 ہزار  469   افسران و ملازمین کو الیکشن ڈیوٹی پر مامور کیا گیا ہے۔
                ناندیڑ ضلع میں تین ہزار 88  پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ہیں اور پولنگ عملے کی نگرانی میں ان تمام مراکز پر صبح سات بجے سے ر ائے دہی شروع ہو چکی ہے۔
                دھاراشیو ضلعے کے چار اسمبلی حلقوں میں 14 لاکھ چار ہزار ووٹر ایک ہزار 523 ر ائے دہی مراکز پر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔
***** ***** *****
                اسمبلی انتخابات کے ضابطہ اخلاق کے دوران 15 اکتوبر سے گذشتہ کل تک ریاست بھر میں سی ویجل ایپ پر نو ہزار 293 شکایات موصول ہوئیں ہیں‘ جن میں سے نو ہزار 265 شکایات کا ازالہ کرنے کی اطلاع چیف الیکشن آفیسر دفتر نے دی ہے۔ اس دوران جملہ 673 کروڑ 22 لاکھ روپے ضبط کیے گئے ہیں۔
***** ***** *****
                بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری ونود تائوڑے کے خلاف پال گھر ضلع کے نالاسوپارہ کے تُڑِنج پولس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ انتخابات کی تشہیری مہم ختم ہونے کے بعد قائدین و کارکنان کے انتخابی حلقے میں نہ رہنے کے امتناعی احکامات کی خلاف ورزی کرنے پرتاوڑے سمیت مہایوتی کے امیدوار راجن نائیک اور تقریباً   250 کارکنان پر مقدمہ درج کیا گیا۔
                اس کے ساتھ ہی ر ائے دہی سے قبل تشہیری مہم کے اختتام کے بعد صحافتی کانفرنس منعقد کرنے او ر ہوٹل کے کمروں کی تلاشی کے دو ر ان نقد رقم ملنے کے دو دیگر مقدمے بھی پولس نے درج کیے ہیں۔
                دریں اثنا‘ بہوجن وکاس آگھاڑی پارٹی نے ونود تائوڑے پر نالاسوپارہ کی ایک ہوٹل میں پیسے تقسیم کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ تائوڑے سمیت بی جے پی نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن سے معاملے کی جانچ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
***** ***** *****
                صحت و خاند انی بہبودمحکمے نے ریاست اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں کو موسم کی تبد یلی اور صحت پر اسکے اثرات کیلئے ضلع اور شہری سطح پر ضروری منصوبہ بندی کرنے کے احکامات دئیے ہیں۔ مرکزی صحت سیکریٹری پنیہ سلیلا شریواستو نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں کے چیف سیکریٹریوں کو اس سلسلے میں ایک مکتوب ارسال کیا ہے۔ جس میں فضائی آلودگی کا سامنا کرنے کے احکامات دئیے گئے ہیں۔ آلودگی سے ہونے والی بیماریوں اور اس کے مطابق طبّی پالیسیاں تبد یل کرنے جیسی ہدایات اس میں شامل ہیں۔
***** ***** *****
                بہار کے راجگیر میں جاری خواتین کے ایشیائی چیمپئن شپ ٹو رنامنٹ کا فائنل مقابلہ آج بھارت اور چین کے درمیان ہوگا۔ شام پونے پانچ بجے سے میچ کا آغاز ہوگا۔ کل کھیلے گئے سیمی فائنل مقابلے میں بھارت نے جاپان کو دو۔ صفر سے جبکہ چین نے ملائیشیا کوتین ۔ ایک سے شکست دی تھی۔
***** ***** *****
                پربھنی ضلعے کے چار اسمبلی حلقوں میں رائے دہی کے د وران کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو رو کنے او ر رائے دہندگان کو لبھانے جیسے غیر قانونی کاموں پر نظر رکھنے کیلئے پولس انتظامیہ کی جانب سے ڈرون پیٹرولنگ کی جارہی ہے۔ جن علاقوں میں پہنچنا ممکن ��ہ ہو‘ وہاں پر ڈرون پیٹرولنگ مؤـثر ثابت ہونے کی اطلاع پولس سپرنٹنڈنٹ نے د ی ہے۔
                بیڑ ضلعے میں رائے دہی کا عمل پُرامن طریقے سے مکمل کرنے کیلئے ایک ہزار 209 رائے دہی مراکز پر منظر کشی کی جارہی ہے۔
                جالنہ ضلعے کے پانچ اسمبلی حلقوں میں چار ہزار پولس ملازمین کو بندوبست پر تعینا ت کیا گیا ہے۔ چار حساس ر ائے دہی مراکز کیلئے سی اے پی ایف دستے تعینات کیے گئے ہیں۔ ویب کاسٹنگ او ر مائیکرو آبزرورس کے ذریعے نگرانی کرو ائی جارہی ہے۔
***** ***** *****
                 55و اں بھارتی بین ا لاقو امی فلم فیسٹیول یعنی IFFI کا آج سے گوا میں آغاز ہورہا ہے۔ اس فلم فیسٹیول میں 81 ممالک کی تقریباً 18 فلمیں دکھائی جائیں گی۔ آئندہ 28  نومبر تک یہ فیسٹیول جا ری رہے گا۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
                آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
                ٭             اسمبلی کے عام انتخابات کیلئے ریاست کے 288 حلقوں میں ر ائے دہی کا عمل جاری؛ سیاسی قائدین اور رہنمائوں کی جانب سے حقِ رائے دہی کی اد ائیگی۔
                ٭             ووٹر شناختی کارڈ سمیت دیگر 12 دستاو یزات میں سے کوئی ایک دستاویز بتاکر اپنی شناخت کی تصدیق کرکے رائے دہی کرنے کی اپیل۔
                ٭               ناندیڑ پارلیمانی نشست کے ضمنی انتخاب کیلئے بھی آج ر ائے دہی- ضلعے کے چھ اسمبلی حلقوں کے را ئے دہندگان کو ایک ہی مرکز پر دو بار ووٹ ڈالنے کے ذمہ داری۔
                ٭               امتناعی احکامات کی خلاف ورزی کے معاملے میں بی جے پی رہنما ونود تائوڑے کے خلاف مقدمہ درج ۔
اور۔۔۔٭       خواتین کے ایشیائی ہاکی چمپئن شپ میں جاپان کو شکست دے کر بھارت فائنل میں داخل - آج چین سے مقابلہ۔
***** ***** *****
0 notes
topurdunews · 3 months ago
Text
بیگم نصرت بھٹو جمہوریت کیلئے سب کچھ قربان کرنے کی علامت ہیں: بلاول بھٹو
(24نیوز)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بیگم نصرت بھٹو جمہوریت کیلئے سب کچھ قربان کرنے کی علامت ہیں۔ مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کی برسی پر اپنے پیغام میں بلاول بھٹو زرداری نے بیگم بھٹو کو ان کی 13 ویں برسی پر خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بیگم نصرت بھٹو کی جمہوریت، انصاف اور مساوات کی جدوجہد میں خدمات غیرمعمولی اور قربانیاں بے مثال ہیں،بیگم نصرت بھٹو کی جمہوریت…
0 notes
dpr-lahore-division · 4 months ago
Text
پریس ریلیز
اکتوبر 21
*ججز اور انکی فیملیز کی کردار کشی کرنے والے آج عدلیہ کے ہمدرد بن رہے ہیں: عظمیٰ بخاری*
*26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری پر جمہوریت پسند خوش جبکہ آمریت پسند سیخ پاہیں: عظمیٰ بخاری*
*تحریک فساداپنی گندی سیاست کےلئے کبھی طلباء کو اشتعال دلاتی ہے،کبھی وکلاء سے باہر نکلنے کی اپیلیں کرتی ہے: عظمیٰ بخاری*
لاہور () وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری نے کہا ہے کہ ججز اور انکی فیملیز کی کردار کشی کرنے والے آج عدلیہ کے ہمدرد بن رہے ہیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری پر جمہوریت پسند خوش ہیں جبکہ آمریت پسند سیخ پا ہو رہے ہیں۔ تحریک فساداپنی گندی سیاست کےلئے کبھی طلباء کو اشتعال دلاتی ہے توکبھی وکلاء سے باہر نکلنے کی اپیلیں کرتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بیرسٹر سیف کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج جمہوریت اور پارلیمنٹ کی جیت ہے۔ تحریک انصاف سیاسی جماعت نہیں بلکہ سیاسی یتیموں کا گروہ بن چکی ہے۔ پاکستان کے عوام اڈیالہ جیل کے قیدی اور اسکے چمچے کڑچھوں کا بھیانک روپ دیکھ چکے ہیں۔
پاکستان کے عوام باشعور ہیں اب اڈیالہ جیل کے مستقل رہائشی کے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ چیف جسٹس فائز عیسی کا نام عدلیہ کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ چیف جسٹس فائز عیسی نے تمام فیصلے آئین اور قانون کے مطابق کئے۔ انکا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہبازشریف اور انکی ٹیم بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ آئینی ترمیم کی منظوری کے سلسلے میں جس نے بھی رول ادا کیا وہ قابل ستائش ہیں۔پارلیمنٹ کی بالادستی میں ہی جمہوریت کی مضبوطی ہے۔جن کی قسمت میں رونا دھونا لکھا ہے وہ آئینی ترامیم اور قانون سازی میں رخنے ہی ڈال سکتے ہیں۔ گزشتہ روز اڈیالہ جیل کے قیدی کے لئے بھی بہت بڑا "سرپرائز ڈے" تھا۔
0 notes
googlynewstv · 7 months ago
Text
پاکستانی جمہوریت میں غریب عوام حکمرانوں کو کیسے پال رہے ہیں؟
سینیئر صحافی جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ دنیا ترقی کرتی ہوئی کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن پاکستان میں آج بھی بادشاہت قائم ہے جہاں حکمرانوں نے عوام کی خدمت کرنے کی بجائے انہیں خود کو پالنے پر لگا رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے ٹیکسوں کے ذریعے عوام کا تیل نکالتے ہوئے اب تنخواہ دار طبقے پر عائد ٹیکس 35 فیصد سے بڑھا کر 70 فیصد کر دیا ہے، لیکن ساتھ میں حکومت کی جانب سے یہ ڈنھڈورا بھی پیٹا جا…
0 notes
urduintl · 8 months ago
Text
0 notes
urdunewskanpur · 10 months ago
Text
وزیر اعظم کو جمہوریت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے فن میں مہارت حاصل ہے: کھڑگے
Tumblr media
0 notes