#کھانے میں استعمال
Explore tagged Tumblr posts
googlynewstv · 3 months ago
Text
کھانے میں استعمال ہونیوالی ”ہلدی“صحت کیلئے بھی فائدہ مند قرار
ماہرین صحت نے کھانے میں استعمال ہونیوالی ”ہلدی“کو صحت کیلئے بھی فائدہ مند قرار دیدیا۔ ماہرین نے بتایا کہ ہلدی، جو عام طور پر کھانوں میں استعمال ہوتی ہے، اپنی طبی خصوصیات کی وجہ سے بھی بہت مشہور ہے۔ اس میں کرکیومِن نامی مرکب پایا جاتا ہے، جو اس کے زیادہ تر فائدوں کا ذمہ دار ہے۔ہلدی میں موجود کرکیومِن ایک طاقتور اینٹی انفلامیٹری خصوصیات رکھتا ہے، جو جسم میں سوزش کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔…
0 notes
urdu-poetry-lover · 9 months ago
Text
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
مکیش امبانی کے بیٹے کی شادی
مارک ذکربرگ اور ایلون مسک کی شرکت اور قدرت کی ادھوری ادھوری تصویر۔۔
سعدیہ قریشی کے قلم سے۔
،،تصویر ادھوری رہتی ہے !
سعدیہ قریشی
رب کائنات نے زندگی کو ایسا ڈیزائن کیا ہے کہ تمام تر کامرانیوں اور کامیابیوں کے باوجود زندگی کی تصویر ادھوری رہتی ہے
کہیں نہ کہیں اس میں موجود کمی اور کجی کی ٹیڑھ ہمیں چھبتی ضرور ہے ۔
مارچ کے آغاز میں بھارت میں دنیا کی مہنگی ترین پری ویڈنگ تقریبات نے پوری دنیا میں ایک تہلکہ مچادیا۔
پاکستان کے سوشل میڈیا پر بھی اس کا کافی چرچا رہا۔
بہت سی پوسٹیں ایسی نظر سے گزریں کہ ہمارے نوجوان آہیں بھرتے دکھائی دیے کہیں لکھا تھا بندہ اتنا امیر تو ہو کہ مارک زکر برگ اور ایلون مسک کو شادی پر بلاسکے ۔
یہ پری ویڈنگ تقریبات مکیش امبانی کے چھوٹے بیٹے اننت امبانی کی تھیں۔
مکیش امبانی ایشیا کے امیر ترین کاروباری اور دنیا کے امیر ترین لوگوں میں گیارویں نمبر پر ہیں وہ ریلائنس گروپ کے بانی اور چیئرمین ہیں.
پری ویڈنگ تقریبات کے لیے امبانی خاندان نے گجرات کے شہر جام نگر کو اربوں روپے لگا کر مہمانوں کے لیے سجایا۔
اس تقریب میں مہمانوں کو ڈھائی ہزار ڈشز ناشتے ،ظہرانے ۔شام۔کی چائے عشائیے اور مڈںائٹ ڈنر کے طور پر پیش کی گئیں
بھارت کے درجنوں اعلی درجے کے باورچی اور شیف جام نگر میں مہمانوں کے لیے کھانا بلانے کے لیے بنانے کے لیے بلائے گئےتین دنوں میں ایک ڈش کو دوسری دفعہ دہرایا نہیں گیا۔
تقریب میں تقریبا 50 ہزار لوگوں کے کھانے کا بندوبست کیا گیا۔
فلم انڈسٹری کے تمام سپر سٹار تقریب میں ناچتے دکھائی دئیے۔
فیس بک کے بانی مارک زکربرگ اور ٹوئٹر خرید کر ایکس کی بنیاد رکھنے ایلون مسک اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ شریک ہوئے ٹرمپ کی بیٹی ایونکا ٹرمپ نے بھی خصوصی مہمان کی حیثیت سے شرکت کی ۔
مہمانوں کو لانے اور لے جانے کے لیے چارٹر طیارے، مرسیڈیز کاریں اور لگزری گاڑیاں استعمال کی گئیں۔
2018 میں بھی مکیش امبانی نے اپنی بیٹی ایشا کی شادی پر اربوں ڈالرز خرچ کر کے پوری دنیا میں مہنگی شادی کا ایک ریکارڈ قائم کیا تھا ۔
اس شادی میں مہمانوں کو دعوت ناموں کے ساتھ سونے کی مالائیں بھی پیش کی گئی تھیں اور تمام مہمانوں کو شرکت کے لیے ان کو بھاری معاوضے دیے گئے تھے۔
ا خیال یہی ہے کہ اس تقریب میں بھی خاص مہمانوں شرکت کے لیے ریلائنس گروپ کی طرف سے ادائیگی کی گئی ہے ۔
دنیا بھر سے نامور گلیمرس شخصیات کی موجودگی کی چکاچوند کے باوجود اس تقریب کا مرکز نگاہ دولہا اننت امبانی اور دولہن رادھیکا مرچنٹ تھے ۔تقریب کے تین دن باقاعدہ طور پر ایک تھیم کے تحت منائے گئے ۔دولہا دلہن سے لے کر تمام لوگوں کے کپڑے اسی تھیم کے مطابق تھے تھیم کے مطابق تقریب کا کروڑوں روپے کا ڈیکور کیا گیا۔
تقریب کے دولہا اننت مبانی اس وجہ سے بھی خبروں کا موضوع رہے کہ وہ ایک خطرناک بیماری کا شکار ہیں۔ جس میں وزن بے تحاشہ بڑھ جاتا ہے۔ان کے ساتھ ان کی دھان پان سی خوبصورت دلہن دیکھنے والوں کو حیران کرتی
اننت امبانی کو شدید قسم کا دمے کا مرض لاحق ہے جس کا علاج عام دوائیوں سے ممکن نہیں ۔سو علاج کے لیے اسے سٹیرائیڈز دئیے جاتے رہے ہیں ۔ان میں سٹیرائیڈز کی ایک قسم کارٹیکو سٹیرائیڈز تھی سٹرائیڈز کی یہ قسم وزن بڑھنے کا سبب بنتی ہے ۔
اس سے انسان کی بھوک بے تحاشہ بڑھ جاتی ہے اتنی کہ وہ ہاتھی کی طرح کئی افراد کا کھانا اپنے پیٹ میں انڈیلنے لگتا ہے ۔
ایک طرف بھوک بڑھتی ہے تو دوسری طرف مریض کا میٹابولزم کچھوے کی طرح سست رفتار یوجاتا ۔میٹابلزم انسانی جسم کا وہ نظام ہے جس سے خوراک ہضم ہوتی ہے اور توانائی جسم کا حصہ بنتی ہے۔میٹابولزم اچھا ہو تو چربی توانائی میں تبدیل ہوتی ہے ۔
کارٹیکو سٹیرائڈز جسم کے نظام انہضام کو درہم برہم کردیتا ہے جسم کے اندر چربی جمع ہونے لگتی ہے اور جسم کئی طرح کی دوسری بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔
مسلز پروٹین نہیں بنتی جس کے نتیجے میں جسم بے تحاشہ موٹا ہونے لگتا ہے
کورٹیکو سٹیرائڈز کے مزید برے اثرات یہ ہیں کہ جسم میں پانی جمع ہونے لگتا ہے جسے ڈاکٹری اصطلاح میں واٹر ریٹینشن کہتے ہیں اس واٹر اٹینشن کی وجہ سے بھی جسم موٹا ہونے لگتا ہے ۔
اسے قدرت کی ستم ظریفی کہیے کہ کھربوں ڈالر کے اثاثوں کے مالک مکیش امبانی کا لاڈلا اور چھوٹا بیٹا ایک ایسی بیماری کا شکار ہے جس کے علاج کے لیے سٹیرائڈز کی تباہی کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا
۔اننت امبانی اپنی زندگی کے اوائل برسوں سے ہی اس بیماری کا شکار ہے اس کا اربوں کھربوں پتی باپ اپنے بیٹے کے بہلاوے کے لیے اپنے دولت پانی کی طرح بہاتا ہے۔
اس کے بیٹے کو ہاتھیوں سے لگاؤ ہوا تو مکیش امبانی نے ایکڑوں پر پھیلا ہوا ہاتھیوں کا ایک سفاری پارک بنادیا ۔اس سفاری پارک میں بیمار ہاتھیوں کے اسپتال ،تفریح گاہوں ،سپا اور مالش کا انتظام ہے ۔خشک میوہ جات سے بھرے ہوئے سینکڑوں لڈو روزانہ ہاتھیوں کو کھلا دیے جاتے ہیں۔
یہ صرف مکیش امبانی کے اپنے بیمار بیٹے کے ساتھ لاڈ کی ایک جھلک ہے۔
مگر وہ اپنی ��مام تر دولت کے باوجود اپنے بیٹے کے لیے مکمل صحت سے بھرا ایک دن نہیں خرید سکا۔
اننت امبانی نے تقریب میں ہزاروں مہمانوں کے سامنے اپنے دل کی بات کرتے ہوئے کہا کہ میری زندگی پھولوں کی سیج نہیں رہی بلکہ میں نے کانٹوں کے راستوں پر چل کر زندگی گزاری ہے
اس کا اشارہ اپنی خوفناک بیماری کی طرف تھا اس نے کہا کہ میں بچپن ہی سے ایک ایسی بیماری کا شکار تھا جس میں میری والدین نے میرا بہت ساتھ دیا۔
جب اننت امبانی یہ باتیں کر رہا تھا تو کیمرے نے ایشیا کے سب سے امیر ترین شخص مکیش امبانی کے چہرے کو زوم کیا اس کے گہرے سانولے رنگ میں ڈوبے
خدو خال تکلیف سے پگھل رہے تھے اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے
تکلیف اور بے بسی کے آنسو کہ وہ کھربوں ڈالر کے اثاثوں کے باوجود اپنے بیٹے کے لیے مکم�� صحت سے بھرا ہوا ایک دن نہیں خرید سکا۔
رب نے دنیا ایسی ہی بنائی ہے کہ تصویر ادھوری رہتی ہے ۔اسی ادھورے پن میں ہمیں اس ذات کا عکس دکھائی دیتا ہے جو مکمل ہے!
سو آئیں مکیش امبانی کی دولت پر رشک کرنے کی بجائے اپنی زندگی کی ادھوری تصویر پر اپنے رب کا شکر ادا کریں کیونکہ تصویر تو اس کی زندگی کی بھی مکمل نہیں!
(بشکریہ کالم 92 نیوز سعدیہ قریشی)
منقول
4 notes · View notes
pakistantime · 1 year ago
Text
آئیں اسرائیل سے بدلہ لیں
Tumblr media
اسلامی ممالک کی حکومتوں اور حکمرانوں نے دہشت گرد اور ظالم سرائیل کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بڑا مایوس کیا۔ تاہم اس کے باوجود ہم مسلمان اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں، بہنوں اور بچوں کے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم اور اسرائیل کی طرف سے اُن کی نسل کشی کا بدلہ لے سکتے ہیں بلکہ ان شاء اللہ ضرور لیں گے۔ بے بس محسوس کرنے کی بجائے سب یہودی اور اسرائیلی مصنوعات اور اُن کی فرنچائیزز کا بائیکاٹ کریں۔ جس جس شے پر اسرائیل کا نام لکھا ہے، کھانے پینے اور استعمال کی جن جن اشیاء کا تعلق اس ظالم صہیونی ریاست اور یہودی کمپنیوں سے ہے، اُن کو خریدنا بند کر دیں۔ یہ بائیکاٹ دنیا بھر میں شروع ہو چکا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بائیکاٹ کو مستقل کیا جائے۔ یہ بائیکاٹ چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں کا نہیں ہونا چاہیے۔ بہت اچھا ہوتا کہ اسلامی دنیا کے حکمران کم از کم اپنے اپنے ممالک میں اس بائیکاٹ کا ریاستی سطح پر اعلان کرتے لیکن اتنا بھی مسلم امہ کے حکمران نہ کر سکے۔ بہرحال مسلمان (بلکہ بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی) دنیا بھر میں اس بائیکاٹ میں شامل ہو رہے ہیں۔ 
Tumblr media
پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کے حق میں مہم چلائی جا رہی ہے۔ اسرائیلی مصنوعات، اشیاء، مشروبات اور فرنچائیزز سے خریداری میں کافی کمی آ چکی ہے۔ ان اشیاء کو بیچنے کیلئے متعلقہ کمپنیاں رعایتی آفرز دے رہی ہیں، قیمتیں گرائی جا رہی ہیں لیکن بائیکاٹ کی کمپین جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقہ اورتاجر تنظیمیں بھی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اس بائیکاٹ کے متعلق یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ ایسے تو ان پاکستانیوں کا، جو اسرائیلی مصنوعات فروخت کر رہے ہیں یا اُنہوں نے اسرائیلی فرنچائیزز کو یہاں خریدا ہوا ہے، کاروبار تباہ ہو رہا ہے۔ اس متعلق محترم مفتی تقی عثمانی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں بہت اہم بات کی۔ تقی صاحب کا کہنا تھا کہ بہت سارے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کچھ مسلمانوں نے یہودی اور امریکی مصنوعات کی خریدوفروخت کیلئے ان سے فرنچائیزز خرید رکھی ہیں جس کی وجہ سے آمدنی کا پانچ فیصد ان کمپنی مالکان کو جاتا ہے جو کہ یہودی و امریکی ہیں یا پھر کسی اور طریقہ سے اسرائیل کےحامی ہیں تو اگر کاروبار بند ہوتا ہے تو مسلمانوں کا کاروبار بھی بند ہوتا ہے۔
مفتی تقی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ فتوے کا سوال نہیں بلکہ اس مسئلہ کا تعلق غیرت ایمانی سے ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا ایک مسلمان کی غیرت یہ برداشت کرتی ہے کہ اس کی آمدنی کا ایک فیصد حصہ بھی مسلم امہ کے دشمنوں کو جائے اور خاص طور پر اس وقت جب امت مسلمہ حالت جنگ میں ہو اور ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا جا رہا ہو۔ مفتی صاحب نے کہا کہ یہ بات مسلمان کی ایمانی غیرت کے خلاف ہےکہ اس کی آمدنی سے کسی بھی طرح امت مسلمہ کے دشمنوں کو فائدہ پہنچے۔ اُنہوں نے ایک مثال سے اس مسئلہ کو مزید واضح کیا کہ کیا آپ ایسے آدمی کو اپنی آمدنی کا ایک فیصد بھی دینا گوارا کریں گے جو آپ کے والد کو قتل کرنے کی سازش کر رہا ہو۔ مفتی صاحب نے زور دیا کہ غیرت ایمانی کا تقاضہ ہے کہ ان مصنوعات اور فرنچائیزز کا مکمل بائیکاٹ کر کے اپنا کاروبار شروع کیا جائے۔ اسرائیلی و یہودی مصنوعات اور فرنچائیزز کے منافع سے خریدا گیا اسلحہ مظلوم فلسطینیوں کو شہید کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے، چھوٹے چھوے بچوں، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، کو بھی بے دردی سے مارا جا رہا ہے جس پر دنیا بھر کے لوگوں کا دل دکھا ہوا ہے۔ 
ایک عام مسلمان اسرائیل سے لڑ نہیں سکتا لیکن اُس کا کاروبار اور اُس کی معیشت کو بائیکاٹ کے ذریعے زبردست ٹھیس پہنچا کر بدلہ ضرور لے سکتا ہے۔ بائیکاٹ کا یہ سارا عمل پر امن ہونا چاہیے۔ میری تمام پاکستانیوں اور یہ کالم پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ اسرائیل سے بدلہ لینے میں بائیکاٹ کی اس مہم کو آگے بڑھائیں، اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں لیکن ہر حال میں پرامن رہیں اور کسی طور پر بھی پرتشدد نہ ہوں۔
 انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
risingpakistan · 6 days ago
Text
زرعی ٹیکس
Tumblr media
ساحرلدھیانوی نے کہا تھا زمیں نے کیا اِسی کارن اناج اگلا تھا؟ کہ نسل ِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے
چمن کو اس لئے مالی نے خوں سے سینچا تھا؟ کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
لگتا ہے یہی صورتحال پیدا ہونے والی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق زرعی ٹیکس کی وصولی کا کام شروع ہو جائے گا۔ پنجاب اسمبلی نے زرعی ٹیکس کا بل منظور کر لیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر  نے اس کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ٹیکس پاکستان کے زرعی شعبہ کیلئے معاشی تباہی سے کم نہیں کیونکہ پاکستان ان زرعی ملکوں میں سے ہے جہاں کسان مسلسل بدحالی کا شکار ہیں۔ جہاں اکثر اوقات گندم باہر سے منگوا نی پڑ جاتی ہے۔ زراعت پہلے ہی تباہ تھی زرعی ٹیکس لگا کر اسے مزید تباہ کر دیا گیا ہے۔‘‘ پاکستان کسان اتحاد کے سربراہ کا کہنا ہے کہ زرعی ٹیکس کیخلاف ملک گیر احتجاج کا پلان ترتیب دے رہے ہیں۔  زراعت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، کچھ ممالک نے ایسی پالیسیاں اپنائی ہیں جو اس شعبے کو براہ راست ٹیکس سے مستثنیٰ کرتی ہیں، جن کا مقصد ترقی کو تیز کرنا، کسانوں کا تحفظ کرنا اور زرعی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ جیسے ہندوستان جہاں 1961 کے انکم ٹیکس ایکٹ کے تحت زراعت وفاقی انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔ 
یہ استثنیٰ تاریخی اور اقتصادی تحفظات پر مبنی ہے، جو ہندوستانی معیشت میں زراعت کی اہم شراکت کو تسلیم کرتا ہے۔ اگرچہ آئین کے تحت ریاستی حکومتوں کے پاس زرعی ٹیکس لگانے کا اختیار موجود ہے، لیکن زیادہ تر ریاستیں سیاسی اور عملی وجوہات کی بنا پر پر زرعی ٹیکس نہیں لگاتیں۔ ایک بار ہندوستان میں زرعی ٹیکس لگانے کی کوشش کی گئی تھی مگر اتنا خوفناک احتجاج ہوا تھا کہ حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑ گیا تھا۔ پاکستان میں زرعی ٹیکس اُس وقت تک نہیں لگایا جانا چاہئے تھا جب تک کسان کو اس قابل نہ کیا جاتا کہ وہ زرعی ٹیکس ادا کر سکے۔ اس زرعی ٹیکس سے یقیناً کھانے پینے کی اشیا اور مہنگی ہونگی۔ پہلے ہی پاکستان میں مہنگائی اپنے پورے عروج پر ہے۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے احتجاج میں کسان بھی شریک ہونے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ، جو اپنے جدید زرعی شعبے کیلئے جانا جاتا ہے، وہاں بھی زرعی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں بلکہ زرعی سرمایہ کاری، پائیداری کے منصوبوں اور اختراعات کیلئے اہم چھوٹ اور مراعات دی جاتی ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور قطر جیسے ممالک بھی زرعی ٹیکس عائد نہیں کرتے۔ 
Tumblr media
یہ قومیں خوراک کی حفاظت پر توجہ مرکوز کرتی ہیں اور سبسڈی اور مراعات کے ذریعے کاشتکاری کے طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ کینیا، برما وغیرہ میں بھی زرعی ٹیکس نہیں ہے۔ وہ ممالک جو اپنے کسانوں کو بہت زیادہ سہولیات فراہم کرتے ہیں وہ ضرور ٹیکس لگاتے ہیں مگر دنیا بھرمیں سب سے کم شرح زرعی ٹیکس کی ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، جہاں اکثر کسان غیر مستحکم منڈیوں، غیر متوقع موسم، اور وسائل تک محدود رسائی کا سامنا کرتے ہیں۔ ٹیکس کی چھوٹ انہیں اپنی کاشتکاری کی سرگرمیوں میں دوبارہ سرمایہ کاری کرنے کیلئے مزید آمدنی برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ بہت سی حکومتیں خوراک کی پیداوار اور خود کفالت کو ترجیح دیتی ہیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ کسانوں پر ٹیکسوں کا زیادہ بوجھ نہ پڑے جس سے زرعی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔ ان ممالک میں جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ زرعی کام کرتا ہے، وہاں ٹیکس کی چھوٹ دیہی حلقوں کی معاش بہتر بنانے کا ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ 
ٹیکس میں چھوٹ کسانوں کو کاشتکاری کے جدید طریقوں کو اپنانے، انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے اور پائیدار تکنیکوں کو اپنانے کی ترغیب دے سکتی ہے۔زرعی ٹیکس کی چھوٹ پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ حکومتیں ممکنہ ٹیکس ریونیو کو چھوڑ دیتی ہیں جسے عوامی خدمات کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ممالک میں، مالدار زمیندار یا بڑے زرعی ادارے ان چھوٹوں سے غیر متناسب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ٹیکس کی چھوٹ پر حد سے زیادہ انحصار بعض اوقات ناکارہ ہونے یا آمدنی کے تنوع کی حوصلہ شکنی کا باعث بن سکتا ہے۔ وہ ممالک جو زراعت کو ٹیکس سے مستثنیٰ رکھتے ہیں ان کا مقصد کاشتکاری کی سرگرمیوں کو فروغ دینا، خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانا اور دیہی معاش کی حمایت کرنا ہے۔ اگرچہ یہ پالیسیاں نیک نیتی پر مبنی ہیں، لیکن ان کی تاثیر کا انحصار مناسب نفاذ اور متعلقہ چیلنجوں سے نمٹنے پر ہے۔ اپنے زرعی شعبوں کو ترقی دینے کی کوشش کرنے والی قوموں کیلئے، وسیع تر اقتصادی مقاصد کے ساتھ ٹیکس مراعات میں توازن رکھنا بہت ضروری ہے مگر پاکستان میں زرعی ٹیکس صرف آئی ایم ایف کے دبائو میں لگایا گیا ہے۔ 
اگر حکومت سمجھتی ہے کہ یہ ٹیکس لگانا اس کی مجبوری تھی تو پھر اسے کسانوں کوفری مارکیٹ دینی چاہئے، انہیں بجلی اور ڈیزل کم قیمت پر ملنا چاہئے، کھاد، بیج اور کیڑے مار ادویات پر بھی سبسڈی فراہم کی جائے۔ باہر سے ہر قسم کے بیجوں کی درآمد پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔
منصور آفاق
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pinoytvlivenews · 1 month ago
Text
میٹا نے کمپنی کی پرچی پر راشن خریدنے والے ملازمین کے ساتھ کیا کیا؟ حیران کن انکشاف
سکرامنٹو (ویب ڈیسک) فیس بک کی پیرنٹ کمپنی میٹا نے فوڈ واؤچرز کے غلط استعمال پر 24 ملازمین کو برطرف کردیا ہے۔ یہ ملازمین کمپنی کی طرف سے کھانے پینے کے لیے دیے جانے والے واؤچرز سے چائے کی پٹی، ڈیٹرجنٹ پاؤڈر اور دیگر چھوٹی موٹی اشیا خریدتے پائے گئے تھے۔ ادارے کی میل کریڈٹ پالیسی کے تحت دفتر کی حدود میں کھانے پینے کے لیے 25 ڈالر کے واؤچر دیے جاتے ہیں۔ فائنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق بعض ملازمین…
0 notes
topurdunews · 1 month ago
Text
کیاافطار میں کھجور ذیابطس کے مریض کیلئے خطرناک ہے؟
(ویب ڈیسک)ذیابیطس ایک ایسی بیماری ہے جس میں میٹھا کھانا نقصان دہ ہے، لیکن یہاں اہم بات یہ ہے کہ کس قسم کا میٹھا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق  پھلوں یا سبزیوں میں پائے جانے والے قدرتی میٹھے چینی سے مختلف صحت کے اثرات رکھتے ہیں۔ کھجور کھانے سے بلڈ شوگر لیول میں فوری اضافہ نہیں ہوتا کیونکہ اس پھل میں پایا جانے والا فائبر نامی ایک اور غذائیت خون میں شوگر کی سطح کو مستحکم رکھنے میں مدد کرتا…
0 notes
asliahlesunnet · 1 month ago
Photo
Tumblr media
محض خوشبو سونگھنے اورناک میں دوائی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا سوال ۴۲۱: روزہ دار کے خوشبو سونگھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :روزہ دار کے لیے خوشبو سونگھنے میں کوئی حرج نہیں، خوشبو خواہ تیل کی صورت میں ہو یا بخور کی صورت میں۔ اگر بخور کی صورت میں ہو تو اس کے دھوئیں کو نہ سونگھیں کیونکہ دھوئیں میں ذرات ہوتے ہیں، جو پیٹ تک پہنچ جاتے ہیں، جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ پانی اور اس کے مشابہ دیگر چیزوں کے پیٹ میں پہنچ جانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ناک میں کھینچے بغیر محض خوشبو کے سونگھنے میں کوئی حرج نہیں۔ سوال ۴۲۲: خوشبو کا دھواں سونگھنے اور ناک میں دوائی کا قطرہ ڈالنے میں یہ فرق کیوں ہے کہ پہلی صورت میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور دوسری صورت میں روزہ نہیں ٹوٹتا؟ جواب :دونوں میں فرق یہ ہے کہ خوشبو کے دھوئیں کو ناک سے کھینچا ہے، وہ گویا اسے قصد وارادے سے اپنے پیٹ میں داخل کر رہا ہے لیکن جو دوائی کا قطرہ ناک میں ڈالتا ہے اس سے اس کا قصد اسے پیٹ تک پہنچانا نہیں، اس کا مقصد صرف ناک کے نتھنے میں دوائی کا قطرہ ڈالنا ہے۔ سوال ۴۲۳: روزہ دار کے لیے ناک، آنکھ اور کان میں دوائی کا قطرہ ڈالنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :ناک میں ڈالے جانے والا قطرہ اگر معدہ تک پہنچ جائے، تو اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ حدیث حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا: ((بَالِغْ فِی الْاِسْتِنْشَاقِ اِلاَّ اَنْ تَکُوْنَ صَائِم��ا))( سنن ابی داود، الطہارۃ، باب فی الاستنثار، ح: ۱۴۲ وسنن النسائی الطہارۃ، باب المبالغۃ فی الاسستنشاق، ح: ۸۷۔) ’’ناک میں پانی چڑھانے میں خوب مبالغے سے کام لو اِلاَّ یہ کہ تم روزہ دار ہو۔‘‘ لہٰذا روزہ دار کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ناک میں ایسا قطرہ ڈالے جو اس کے معدے تک پہنچ جائے اور ناک میں ڈالے جانے والا دوائی کا جو قطرہ معدے تک نہ پہنچے، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ آنکھ میں ڈالنے والے قطرے، سرمہ لگانے اور کان میں ڈالے جانے والے قطرے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ اس کے بارے میں کوئی نص نہیں ہے اور نہ یہ منصوص علیہ کے معنی میں ہے۔ آنکھ کھانے پینے کا راستہ نہیں ہے، اسی طرح کان بھی جسم کے دیگر مساموں کی طرح ہے۔ اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص پاؤں کی اندرونی جانب کوئی چیز لگائے اور وہ اپنے گلے میں اس کا ذائقہ محسوس کرے، تو اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ یہ بھی کھانے پینے کا راستہ نہیں ہے، لہٰذا جو شخص آنکھ میں سرمہ ڈال لے یا آنکھ میں دوائی کا قطرہ ڈال لے یا کان میں قطرہ ڈال لے تو اس سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا خواہ وہ اس کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے۔ اسی طرح اگر کوئی انسان علاج کے لیے یا بغیر علاج کے تیل استعمال کرے، تو اس کے روزے کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اسی طرح اگر کوئی دمہ کا بیمار ہو اور وہ سانس میں آسانی کے لیے ان ہیلر استعمال کر لے، تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ اس سے دوائی کے اجزا معدے تک نہیں پہنچتے، لہٰذا وہ کھانے یا پینے والا شمار نہیں ہوگا۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۳۸۸، ۳۸۹ ) #FAI00342 ID: FAI00342 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
dpr-lahore-division · 7 months ago
Text
Please see Attachment
بہ تسلیمات نظامت اعلی تعلقات عامہ پنجاب
لاہور،فون نمبر 99201390
عظمی زبیر/آصف
ہینڈ آؤٹ نمبر1067
لاہور،18 اپریل:وزیراعلی پنجاب مریم نوازشریف نے 22 اپریل کو’’ارتھ ڈے“2024 کے موقع پر اہم ماحول دوست اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔پنجاب بھرمیں ڈویژن اور ضلع کی سطح پر ”ارتھ ڈے“منایاجائے گااور ’پلاسٹک کو ناں‘(No to Plastic)مہم کا آغاز ہوگا۔اس حوالے سے 5 جون سے پنجاب بھر میں پلاسٹک تھیلوں کے استعمال پر پابندی کی وزیراعلی پنجاب نے منظوری دے دی ہے۔
ان خیالات کا اظہار سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے وزیراعلی پنجاب کے ماحول دوست وژن کے تحت اقدامات پر عمل درآمدکے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ مہم کا مقصدپلاسٹک سے ہونے والی جان لیوا بیماریوں اور ماحولیاتی آلودگی سے متعلق عوام کو آگاہ کرنا ہے۔ سینئروزیر نے ہدایت کی کہ پولیتھین بیگز کی تیاری، ترسیل اور استعمال پر مکمل پابندی یقینی بنائی جائے کیونکہ پلاسٹک بیگز کو تلف کرنے اور آگ لگانے سے ماحول کو سنگین نقصان پہنچتا ہے اور سانس کی تکلیف اور دیگر جان لیوا بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سربراہان اپنے اداروں اورڈپٹی کمشنرز اپنے اپنے اضلاع میں پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی یقینی بنائیں گے۔ تعلیمی اداروں میں خصوصی لیکچرز اور تربیتی ورکشاپس منعقد ہوں گی اور انسانی صحت کو پلاسٹک سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کیاجائے گا۔اجلاس کو بتایا گیا کہ ارتھ ڈے پر”نو ٹو پلاسٹک‘‘کے پیغامات جاری ہوں گے،ذرائع اور سوشل میڈیا پرخصوصی آگاہی مہم چلے گی۔ مریم اورنگزیب نے اپیل کی کہ عوام کینسر سے بچاؤکے لئے پلاسٹک بیگ کی بجائے کپڑے اور کاغذ کے تھیلے استعمال کریں - اسی طرح دکاندار، شاپنگ مالز، ریستوران اور تندورمالکان پلاسٹک بیگز کی بجائے استعمال نہ کرنے کی مہم کا ساتھ دیں اور انسانی صحت کو بہتر بنانے اور سموگ کے خاتمے میں اپنا حصہ ڈالیں۔عوام اپنے گھروں میں بھی پلاسٹک بیگز اور پلاسٹک کے کھانے پینے کے برتنوں کو استعمال نہ کریں تا کہ ان کی صحت بحال رہے۔
سینئر وزیر نے کہا کہ ماحول اور انسانی صحت کیلئے اس اہم مسئلے کو اجاگر کرنے میں میڈیا اپنا کردار ادا کرے کیونکہ شہریوں اور میڈیا کے تعاون کے بغیر یہ مہم کامیاب نہیں ہوسکتی۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کی ہدایت کے مطابق 5 جون ڈیڈ لائن ہے جس کے بعد پلاسٹک بیگز کے استعمال پر مکمل پابندی ہوگی۔ چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان کے علاوہ تمام ڈپٹی کمشنرز ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے۔
٭٭٭٭
بہ تسلیمات نظامت اعلی تعلقات عامہ پنجاب
لاہور،فون نمبر 99201390
ڈی این/آصف
ہینڈ آؤٹ نمبر1068
محتسب پنجاب میجر (ر)اعظم سلیمان خان کے حکم پر 13درخواست گزاران کو 1 کروڑ 36لاکھ سے زائد کے واجبات کی ادائیگی
لاہور، اپریل 18: محتسب پنجاب میجر (ر)اعظم سلیمان خان کی ہدایت پرڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر، چیف ایگزیکٹیو آفیسر، ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی، میونسپل کارپوریشن، چیف انجینئر(سنٹرل زون)، بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ، ریسکیو1122اور چیئرمین ضلعی بہبود فنڈ بورڈ نے مختلف درخواست گزار افراد کے 1کروڑ 36لاکھ سے زائد کے واجبات ادا کر دیئے ہیں۔
آج یہاں جاری ایک بیان میں ترجمان نے بتایا کہ مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے 13درخواست گزار فرادنے دفتر محتسب پنجاب کو درخواستیں دیں کہ انہوں نے فیملی پنشن، ماہانہ امداد اور زیر التواء واجبات حاصل کرنے کیلئے متعدد بار متعلقہ اداروں سے رابطہ کیا مگرانہیں ابھی تک واجبات ادا نہیں کئے گئے- محتسب پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان خان کی ہدایت پر متعلقہ اداروں نے سائلین کو ان کے زیر التواء واجبات ادا کر دیئے ہیں جس پر درخواست افراد نے قانونی حق کی فراہمی پر دفتر محتسب پنجاب کا شکریہ ادا کیا ہے -
٭٭٭٭٭
ho1067-1068.gifho1067-1068.gif002.gif
0 notes
urduchronicle · 10 months ago
Text
سندھ میں الیکشن ڈیوٹی پر مامورسکیورٹی اہلکاروں کے کھانے پر 21 کروڑ سے زیادہ خرچ ہوں گے
سندھ کابینہ نے عام انتخابات کے دوران امن و امان قائم رکھنے کے لیے باسٹھ کروڑ چوون لاکھ روپے فنڈز کی منظوری دے دی۔ فنڈز کی رقم الیکشن کے دوران استعمال ہونے والی گاڑیوں کے کرایے، ایندھن، مرمت، کھانے اور اسٹیشنری کی مد میں خرچ کی جائے گی۔ سندھ کابینہ کا اجلاس نگران وزیر اعلی سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں کابینہ نے عام انتخابات کے دوران امن و امان قائم رکھنے کے لیے ہونے والے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
rimaakter45 · 10 months ago
Text
جانوروں کی فلاح و بہبود اور ویگنزم کا عروج: ایک عالمی تناظر
Tumblr media
تعارف
جانوروں کی فلاح و بہبود تیزی سے دنیا بھر میں بحث کا ایک اہم موضوع بن گیا ہے، زیادہ سے زیادہ افراد ایک ہمدرد اور پائیدار طرز زندگی کو فروغ دینے کے طریقے کے طور پر ویگنزم کو اپنا رہے ہیں۔ ویگنزم، جس میں پودوں پر مبنی خوراک اور جانوروں سے حاصل کی جانے والی تمام مصنوعات سے اجتناب شامل ہے، کا مقصد جانوروں پر ہونے والے ظلم کا مقابلہ کرنا، ماحول کی حفاظت کرنا اور انسانی صحت کو بہتر بنانا ہے۔ اس مضمون کی بڑھتی ہوئی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جانوروں کی فلاح و بہبود اور ویگنزم.
جانوروں کی بہبود کا تحفظ
جانوروں کی فلاح و بہبود سے مراد جانوروں کی صحت اور معیار زندگی ہے، جس میں مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے جیسے کہ رہائش کے حالات، خوراک اور پانی تک رسائی، تکلیف سے آزادی، اور درد اور تکلیف سے بچنا۔ جانوروں کی بہبود کے حامی اس بات کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ جانوروں کے ساتھ احترام اور مہربانی کے ساتھ برتاؤ کیا جائے۔ تاہم، جانوروں کی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے، کھیتی باڑی کے سخت طریقے رائج ہو گئے ہیں، جس کے نتیجے میں جانوروں کے ساتھ بدسلوکی اور بدسلوکی ہوتی ہے۔
بہت سے لوگ ویگن طرز زندگی کو اپنانے کا انتخاب کرنے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک خوراک کی صنعت میں جانوروں کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک کے خلاف احتجاج کرنا ہے۔ جانوروں کو چھوٹی جگہوں پر قید کرنا، پیداوار کے ظالمانہ طریقوں کا استعمال، اور ان کی جذباتی اور ذہنی ضروریات پر غور نہ کرنا اہم خدشات ہیں۔ ان صنعتوں میں حصہ نہ لینے کا انتخاب کرکے، ویگنز جانوروں کی فلاح و بہبود کے مسائل کے بارے میں بیداری پیدا کرنے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دینے کے لیے فعال طور پر کام کرتے ہیں۔
ماحولیاتی پائیداری
جانوروں کی زراعت کی صنعت ماحولیاتی انحطاط میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مویشیوں کی پیداوار عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا تقریباً 14.5 فیصد بنتی ہے، جو اسے موسمیاتی تبدیلی کا ایک اہم محرک بناتی ہے۔ مزید برآں، صنعت پانی اور زمین کا بہت زیادہ استعمال کرتی ہے، جس سے جنگلات کی کٹائی، صحرائی اور پانی کی کمی ہوتی ہے۔ کھاد، کیڑے مار ادویات اور کھادوں کی وجہ سے ہونے والی آلودگی انتہائی کھیتی باڑی کے طریقوں میں استعمال ہونے والے ماحولیاتی انحطاط کو مزید بڑھاتی ہے۔
ویگن جانوروں کی زراعت اور ماحولیاتی تباہی کے درمیان تعلق کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کی خوراک سے جانوروں کی مصنوعات کو ختم کرکے، وہ اپنے کاربن فوٹ پرنٹ کو کم کرتے ہیں، پانی کو بچاتے ہیں، اور قیمتی ماحولیاتی نظام کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ پودوں پر مبنی طرز زندگی خوراک کی پیداوار کے لیے ایک زیادہ پائیدار اور ماحولیات کے بارے میں شعور رکھنے والے نقطہ نظر کی حمایت کرتا ہے، جو انسانوں اور جانوروں دونوں کے لیے ایک صحت مند سیارے کے لیے کام کرتا ہے۔
اخلاقیات اور ہمدردی
بنیادی اصول جو ویگنزم کو تقویت دیتے ہیں ان کی جڑیں اخلاقیات اور ہمدردی میں ہیں۔ یہ عقیدہ کہ جانوروں کو نقصان اور استحصال سے آزاد زندگی گزارنے کا حق ہے اس فلسفے کا مرکز ہے۔ جانوروں کے استحصال پر بنائی گئی پوری صنعتیں، جیسے فیکٹری فارمنگ، کھال کی پیداوار، اور جانوروں کی جانچ، ان اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی۔
ویگنزم فعال طور پر جانوروں کے اعتراض اور اجناس کو چیلنج کرتا ہے اور سماجی رویوں میں تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے کہ جانوروں کو جذباتی مخلوق کے طور پر دیکھنے کے لیے جو احترام اور غور و فکر کے مستحق ہیں۔ یہ اخلاقی نقطہ نظر کھانے کے انتخاب سے آگے بڑھتا ہے، طرز زندگی کے فیصلوں جیسے کہ لباس، کاسمیٹکس، اور تفریح کو متاثر کرتا ہے۔ ویگنزم کو اپنانے سے، افراد اپنے اعمال کو اپنے اخلاقی عقائد کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں اور ایک زیادہ ہمدرد دنیا کے لیے کوشش کرتے ہیں۔
صحت کے فوائد
اخلاقی اور ماحولیاتی وجوہات کے ساتھ ساتھ، ویگنزم ممکنہ صحت کے فوائد کی ایک حد پیش کرتا ہے۔ ایک اچھی طرح سے پلانٹ پر مبنی خوراک تمام ضروری غذائی اجزاء فراہم کر سکتی ہے جب کہ دائمی بیماریوں جیسے دل کی بیماری، قسم 2 ذیابیطس، اور کینسر کی بعض اقسام کے خطرے کو کم کرتی ہے۔ ویگن غذا عام طور پر فائبر، وٹامنز اور معدنیات سے بھرپور ہوتی ہے اور سیر شدہ چکنائی اور کولیسٹرول کی مقدار کم ہوتی ہے۔ نتیجے کے طور پر، بہت سے لوگ اپنی مجموعی صحت اور تندرستی کو بہتر بنانے کے لیے ویگنزم کو اپناتے ہیں۔
نتیجہ
جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے بڑھتی ہوئی تشویش، جانوروں کی زراعت کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں بڑھتی ہوئی بیداری کے ساتھ، طرز زندگی کے انتخاب کے طور پر ویگنزم کے عروج کو ہوا دی ہے۔ ویگنز زیادہ ہمدرد اور پائیدار دنیا کے لیے فعال طور پر کام کرتے ہیں، جانوروں کے ساتھ بدسلوکی کو بے نقاب کرتے ہیں اور ان کے ماحولیاتی اثرات کو کم کرتے ہیں۔ جیسے جیسے زیادہ افراد ویگنزم کو اپناتے ہیں، تحریک تیز ہوتی جاتی ہے، جس سے جانوروں کی بہبود کے مسائل اور پودوں پر مبنی طرز زندگی کے فوائد کو عالمی بحث میں سب سے آگے لایا جاتا ہے۔
0 notes
winyourlife · 10 months ago
Text
صحت مند رہنے کے رہنما اصول
Tumblr media
صحت مند رہنا ایک خواب ہے، جو کہ ہر کسی کی آنکھوں میں سجا رہتا ہے۔ کیوں کہ صحت ایک ایسی نعمت خداوندی ہے جس سے انسان اپنے روزمرہ کے کام بخوبی سر انجام دے سکتا ہے۔ وہ جو ضرب المثل مشہور ہے کہ ’’اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں‘‘۔ اسی طرح ایک بیمار آدمی بھی صحت کی خواہش رکھتا ہے۔ آج اگر ہم دیکھیں تو ہمارے اسپتال بیمار لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہر دوسرا انسان کسی نہ کسی مرض میں مبتلا نظر آتا ہے۔ مسجدوں میں جائیں تو ہر نماز کے بعد امام صاحب کی آواز گونجتی ہے کہ بیماروں کے لیے دعا کیجئے۔ آخر کیا وجہ ہے اتنی دعاؤں، دواؤں اور سائنس کی ترقی کے باوجود ��ھی بیماریاں ہیں کہ بڑھتی جارہی ہیں؟ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے، مگر میں آج کچھ ایسے طریقے بیان کرنا چاہ رہا ہوں جن کی مدد سے آپ خود کو صرف چند دنوں میں سست اور بیمار زندگی سے تندرست و توانا زندگی کی طرف لے کر جاسکتے ہیں۔ صحت و تندرستی ایک حساس موضوع ہے اور ہم بحیثیت قوم ایسے ہیں کہ اگر کوئی ڈاکٹر ملے تو سب بیمار بن جاتے ہیں اور اگر کوئی اپنی بیماری بتا بیٹھے تو ہم سب اسی وقت ایک ماہر ڈاکٹر بن جاتے ہیں اور اسے متضاد غذاؤں کے ساتھ دیسی ٹوٹکے بھی عنایت کردینا عین ثواب سمجھتے ہیں۔ چاہے اس کے نتائج کا ہمیں قطعاً علم بھی نہ ہو۔
ماہرین صحت کے مطابق حسب ذیل بنیادی طریقوں سے کافی حد تک صحت مند زندگی کو اپنایا جاسکتا ہے۔ صرف دس دن میں آپ کو اپنی صحت میں بدلاؤ نظر آئے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ صحت اور تندرستی کو تبدیل کرنے کےلیے بہت سارے آسان طریقے ہیں، جو آپ فوری طور پر استعمال کرنا شروع کرسکتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں: 
Tumblr media
1۔ کھانا ذائقہ حاصل کرنے یا مزے لینے کےلیے مت کھاؤ، بلکہ اسے بطور رزق کھاؤ۔ یعنی جینے کےلیے کھاؤ نہ کہ کھانے کےلیے جیو۔ جب آپ ذائقہ حاصل کرنے کےلیے کھاتے ہیں تو آپ وہ غذا بھی لے لیتے ہیں جو آپ کی صحت کےلیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ لہٰذا توانائی کےلیے کھانے کی کوشش کیجئے۔ 2۔ روزانہ کی بنیاد پر کچھ دیر کی چہل قدمی ضرور کیجئے۔ کیوں کہ پیدل چلنے سے آپ کے جسم میں موجود اضافی کیلوریز جلتی ہیں۔ اور اس پر بھی کوئی پابندی نہیں کہ آپ نے صرف چلنا ہی ہے بلکہ آپ کو اگر چلنا پسند نہیں تو بھی آپ اپنی پسند کا کوئی بھی کھیل کھیل سکتے ہیں، جیسا کہ ٹینس، کرکٹ، باسکٹ بال، ہاکی وغیرہ۔ 3۔ شوگر ڈرنکس سے پرہیز کیجئے۔ تازہ پھلوں کا جوس پیجئے اور وہ جوس بھی اپنے گھر میں خود تیار کیجئے۔ بہت زیادہ پانی بھی پیجئے۔
4۔ گوشت کے بجائے سبزی کا زیادہ استعمال کیجئے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ڈاکٹر جب بھی پرہیز بتاتے ہیں تو سبزیوں کے علاوہ ہر چیز کا بتاتے ہیں۔ ہر بیماری کی نوعیت کے اعتبار سے کہ چاول نہیں کھانے یا دودھ نہیں لینا، بڑا گوشت نہیں کھانا، تلی ہوئی کوئی چیز نہیں کھانی یا فلاں پھل نہیں کھانا۔ مگر کسی بھی بیماری میں کوئی بھی سبزی منع نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ وزن کم کرنے کےلیے بھی گوشت چھوڑ کر سبزی کا استعمال بہترین حل ہے۔ آپ کو سبزی خور بننے کی ضرورت نہیں مگر گوشت کے بجائے سبزی کو اہمیت دیجئے۔ 5۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں صرف ایک آیت میں صحت مند زندگی کا ایسا رہنما اصول بتا دیا ہے کہ اس پر عمل ہمیں بہت سی پیچیدگیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: یا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿الاعراف: 31﴾ ’’اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
پانچ وقت کی نماز، مسواک کرنا، وضو کے لیے اپنے اعضا کا پانی سے دھونا، اپنے آپ کو صاف رکھنا، خوشبو لگانا، اپنے معدے کے تین حصے کر کے ایک حصہ کھانا، ایک حصہ پانی پینا اور ایک حصہ خالی رکھنا عین صحت مند زندگی کے ایسے رہنما اصول ہیں کہ اگر صرف ان کو ہی اپنا لیا جائے تو آپ ایک تندرست زندگی گزار سکتے ہیں۔ 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
googlynewstv · 3 months ago
Text
ایک ماہ ادرک کھانے سے کیا فائدہ ہوگا؟
ماہرین نے کہا ہے کہ ادرک ایک مقبول جڑی بوٹی ہے جسے نہ صرف کھانے میں ذائقہ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ اس کے صحت بخش فوائد کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ اگر آپ ایک ماہ تک باقاعدگی سے ادرک کھایا جائے تو صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ماہرین  نے کہاکہ ادرک معدے کی حرکات کو بہتر بناتا ہے، جس سے متلی، الٹی، اور بدہضمی جیسے مسائل کم ہو سکتے ہیں۔ادرک میں موجود اینٹی آکسیڈینٹس اور اینٹی انفلامیٹری…
0 notes
emergingpakistan · 11 months ago
Text
اسرائیل عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں
Tumblr media
2023 فلسطینیوں کیلئے بدترین سال ثابت ہوا اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت سال کے آخری دن تک جاری رہی، جس میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 23 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ اس دوران غزہ اسرائیل جنگ بندی کی تمام تر کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں اور امریکہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق استعمال کر کے اسرائیل کا ساتھ دیتا رہا جس سے ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں بھی غزہ اسرائیل جنگ بندی کا کوئی امکان نہیں۔ اسرائیلی فوج کا ترجمان پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ غزہ جنگ 2024ء میں بھی جاری رہے گی اور اسرائیل بہت جلد غزہ کا سیکورٹی کنٹرول سنبھال لے گا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل پر 5 مستقل ارکان کا غلبہ ہے اور یہ کونسل اُس وقت تک کوئی ایکشن نہیں لے سکتی جب تک مستقل ارکان کسی قرارداد پر متفق نہ ہوں۔ ان مستقل ارکان میں شامل امریکہ، فرانس اور برطانیہ حماس، اسرائیل جنگ بندی کیلئے آمادہ نہیں اور ان ممالک میں سے کوئی ایک ملک بھی جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کر دیتا ہے تو قرارداد بے معنی ہو جاتی ہے۔ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے یہ صاف ظاہر ہے کہ صہیونی ریاست کا ہدف غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کر کے یہاں یہودی بستیاں بسانا ہے اور اس سازش میں امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک بھی شامل ہیں۔
ایسی صورتحال میں اسرائیل عالمی تنہائی کے باوجود امریکی تعاون کے بل بوتے پر غزہ پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے اور جنگ کو طول دینے کیلئے امریکہ نے گزشتہ دنوں اسرائیل کو 150 ملین ڈالر کا گولہ بارود اور فوجی ساز و سامان سپلائی کرنے کی منظوری دی ہے تاکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رہے لیکن امریکی اشیرباد کے باوجود اسرائیل کے پاس اب تک ایسا کوئی پلان نہیں کہ وہ حماس کو کس طرح ختم کرے جسکے سیاسی و نظریاتی رابطے صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ہیں۔ ایسے میں جب غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے، یہ امر قابل ستائش ہے کہ جنوبی افریقہ نے غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کیا ہے جس میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسرائیل کا مقصد فلسطینی قوم اور نسل کو تباہ کرنا ہے۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ فلسطینیوں کیلئے اسرائیلی پالیسیاں نسل کشی کے مترادف ہیں تاہم اسرائیلی وزیر خارجہ نے جنوبی افریقہ کے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ 
Tumblr media
یاد رہے کہ ماضی میں بوسنیا جنگ کے دوران مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم اور نسل کشی کے مجرم یوگوسلاویا کے سابق جرنیل 72 سالہ سلوبودان پرالجک کو عالمی عدالت انصاف نے بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے مجرم قرار دیا تھا اور اسے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ سلوبودان پرالجک کے خلاف بوسنیا جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ زیر سماعت تھا اور عالمی عدالت کی جانب سے عمر قید کی سزا سنائے جانے کے بعد اس نے عدالت میں ہی زہر پی کر خود کشی کرلی تھی۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ کسی اسلامی ملک نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر نہیں کیا اور یہ مقدمہ ایک غیر اسلامی ملک کی طرف سے دائر کیا گیا ہے۔ غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی پر اسلامی ممالک اور ان کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے بالکل خاموشی اختیار کر رکھی ہے کیونکہ تنظیم میں شامل کئی ممالک امریکی، یورپی دباؤ اور اسرائیل سے اپنے تجارتی مفادات کے باعث آواز یا کوئی سخت ایکشن لینے کے حق میں نہیں تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ مسلمان ممالک کے عوام اسرائیل کے خلاف کھل کر سامنے آگئےہیں اور انفرادی طور پر مسلمانوں کی جانب سے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ ایک اچھی حکمت عملی ثابت ہوئی ہے جس سے امریکہ اور اسرائیل کی معیشت کو کافی دھچکا لگا ہے اور انکی کمپنیوں کی مصنوعات کی سیلز آدھے سے زیادہ گرچکی ہیں۔ 
میرے خاندان کے کچھ چھوٹے بچوں نے بھی اسرائیلی کمپنیوں کی اشیاء کھانے سے انکار کر دیا ہے اور واضح کر دیا ہے کہ وہ اس کمپنی کی اشیاء استعمال نہیں کریں گے جن کا تعلق اسرائیل سے ہو۔ اسی طرح دوسرے اسلامی ممالک بالخصوص مراکو جہاں گزشتہ دنوں وزٹ پر گیا تھا، وہاں پہلے غیر ملکی فاسٹ فوڈ کے حصول کیلئے قطاریں لگی ہوتی تھیں مگر آج وہ ویران ہیں۔ اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو فلسطینی عوام کسی قسم کی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کے پاس اتنے جنگی وسائل نہیں کہ وہ اسرائیل جیسی قوت، جس کا امریکہ ساتھ دے رہا ہے، کا مقابلہ کر سکیں جبکہ فلسطینیوں کے پاس کوئی باقاعدہ فوج بھی نہیں اور نہ ہی وہ اسرائیل کی طرح جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اسرائیلی بمباری سے غزہ مکمل تباہ و برباد ہو چکا ہے جبکہ دیگر فلسطینی علاقے بھی بمباری کے نتیجے میں تباہ ہو رہے ہیں اور ان علاقوں کے فلسطینی عوام ترک وطن پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گونتویریس نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل کی یہ کوشش ہے کہ غزہ کی صورتحال اس قدر بگڑ جائے کہ وہاں سے بڑے پیمانے پر فلسطینی سرحد پار نقل مکانی کر جائیں تاکہ اسرائیل فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری کے منصوبے میں کامیاب ہوسکے۔
اسرائیلی جارحیت نے غزہ کو اسرائیل کے خلاف جہاد کیلئے ایک زرخیز زمین (Breeding Ground) بنا دیا ہے جہاں شہداء کے لواحقین جوق درجوق حماس کا حصہ بن رہے ہیں اور 23 ہزار شہید فلسطینیوں کے خاندان کے افراد اپنے پیاروں کی شہادت کا بدلہ لینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ اس طرح مستقبل میں اسرائیل کے خلاف جنگ گوریلا وار میں تبدیل ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل، فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری کر کے یہ سوچ رہا ہے کہ وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو جائے گا مگر وہ یہ بھول گیا ہے کہ مستقبل میں اِن 23 ہزار شہداء کے خاندان کے بچےاپنے پیاروں کے قاتل اسرائیل سے قتل کے انتقام کا جذبہ لے کر جوان ہونگے اور اِس طرح اسرائیل کے خلاف جنگ ہمیشہ جاری رہے گی اور اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضے کا خواب کبھی پورا نہ ہو گا۔
مرزا اشتیاق بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
mobilephone2 · 1 year ago
Text
موبائل اسکرین جب آنکھیں تھکا دے
Tumblr media
رضوان کو موبائل فون کے سامنے بیٹھنے کی ایسی لت پڑی کہ کھانے پینے سے بھی بے پروا ہو گیا۔ گھر والے چیختے چلاتے رہتے کہ کچھ تو کھا لو مگر وہ انٹرنیٹ میں مگن رہتا یا گیمز سے چپکا رہتا۔ ہر چیز کی زیادتی جلد یا بدیر رنگ ضرور لاتی ہے لہٰذا رضوان کے سر اور آنکھوں میں مسلسل درد رہنے لگا۔ عموماً چکر بھی آجاتے۔ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا تواس نے ابتدائی طبی معائنے کے بعد یہ بتا کر سب کو حیران کر دیا کہ یہ بیماری موبائل سکرین کی پیداکردہ ہے‘ سر درد کی وجہ آنکھوں پر پڑنے والا وہ ناگواردباؤ ہے جو سکرین پہ مسلسل نظریں جمائے رکھنے سے جنم لیتا ہے۔ آج کل کروڑوں لوگ موبائل فون ،کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ وغیرہ استعمال کرتے ہیں لہٰذا اس سے وابستہ امراض چشم بڑھ رہے ہیں۔ ماہرین نے انہیں ’’کمپیوٹر بصری خلل‘‘ (Computer Vision Syndrome) کا مجموعی نام دیا ہے۔ 
ماہرین امراض چشم کے پاس اب ایسے سیکڑوں مریض آتے ہیں جو آشوب چشم یا کندھے کے اعصاب کی اکڑن کا شکار ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر سے وابستہ امراض چشم کا آغاز 1980 ء کے عشرے میں ہوا۔ جدید ٹیکنالوجی میں تبدیلی کے سبب ان میں بھی معمولی سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اب ہرسال دنیا میں پچاس سے نوے لاکھ انسان موبائل یا کمپیوٹر کے باعث خراب ہونے والی آنکھیں لیے ماہرین امراض چشم کے پاس آتے ہیں۔ چالیس سال قبل یہ تعداد صرف پندرہ لاکھ تھی۔  ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ باقاعدگی سے دن میں چار گھنٹے سے زیادہ سکرین کے سامنے بیٹھیں اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کریں، وہ آنکھوں کی کسی نہ کسی خرابی میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ عینکیں بنانے والے مشہور ادارے بوش اینڈ لومب کے ماہرین کا تو دعوی ہے کہ موبائل وکمپیوٹر سکرینوں کے باعث ہر سال ساٹھ لاکھ لوگ اپنی آنکھیں خراب کر بیٹھتے ہیں۔
Tumblr media
ایک عام بیماری ماہرین کے مطابق ’’ڈیجٹل تناؤ چشم‘‘ (Digital eye strain) یعنی آنکھوں پر پڑنے والا دباؤ سب سے عام شکایت ہے۔ پھر نظر کا دھندلا جانا‘ آنکھوں کی خشکی اور سر درد کا نمبر آتا ہے۔ جب سر درد مسلسل رہے تو لوگ عموماً ڈاکٹر سے رابطہ کرتے ہیں۔ ’کمپیوٹر بصری خلل‘ کے علاج فی الحال تلاش کیے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس مرض کو جنم دینے والی کیا چیز مجرم ہے؟ اس کا انحصار مختلف باتوں پر ہے۔ مثلاً کئی لوگ درست طریقے سے اسکرین کے سامنے نہیں بیٹھتے‘ چند لوگوں کی نشستیں آرام دہ نہیں ہوتیں اور کچھ کے مانیٹر پرانے ہیں جن سے پھوٹنے والی شعاعیں زیادہ مضر ہیں۔ مرض دراصل مجموعی طور پر بیٹھنے کے ماحول‘ کام کی عادات اور دیکھنے کی حالت سے جنم لیتا ہے۔
تکراری دباؤ صدمہ کمپیوٹر بصری خلل بنیادی طور پر ’’تکراری دباؤ صدمہ‘‘ (repetitive stress injury) ہے۔ اس حالت میں آنکھوں کے عضلات دباؤ میں آجاتے ہیں کیونکہ اسکرین پر ابھرنے والے اعداد‘ تصاویر وغیرہ پر انہیں بار بار مرتکز کیا جاتا ہے۔ موبائل یا کمپیوٹر اسکرین کے پکسل (Pixels) دراصل وہ تقابل (Contrast) نہیں رکھتے جو طبع شدہ صفحہ رکھتا ہے۔ اسی لیے اسکرین پر کسی چیز کو دیکھنے کے لیے آنکھوں کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ عجیب بات یہ کہ آنکھوں پر سب سے زیادہ دباؤ اس وقت پڑتا ہے جب کوئی اپنے کام میں محو ہو۔ کیونکہ انسان جب کسی چیز مثلاً کمپیوٹر اسکرین پر نظر جمائے رکھے تو وہ آنکھیں کم جھپکتا ہے۔ انسان روزمرہ کام کی حالت میں فی منٹ بائیس بار آنکھ جھپکتا ہے۔ اگر کتاب پڑھے تو یہ تعداد آدھی رہ جاتی ہے۔ موبائل یا کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے تو عام فرد ایک منٹ میں صرف سات بار جھپکتا ہے۔ نتیجتاً آنکھیں خشک ہو کر درد کرنے لگتی ہیں کیونکہ جھپکنے سے آنکھوں میں موجود پانی پھیلتا اور انہیں نم رکھ کر تازہ دم رکھتا ہے۔
ماہرین امراض چشم آنکھوں کی بیماری و سردرد سے بچنے کے لیے مشورہ دیتے ہیں کہ موبائل وکمپیوٹر سکرین کے سامنے بیٹھ کر تین نکاتی منصوبے پر عمل کیجیے …آنکھیں جھپکائیے‘ گہرے سانس لیجیے اور وقفہ کیجیے۔ کام کے دوران سانس لینا بہت ضروری ہے تاکہ آنکھوں کو آکسیجن ملتی رہے۔ بار بار جھپکیئے اور کام کا وقفہ کیجیے۔ اس ضمن میں ’بیس بٹا بیس‘ کا اصول فائدے مند ہے یعنی ہر بیس منٹ بعد وقفہ کیجیے اور بیس فٹ دور کسی چیز کو بیس سیکنڈ تک دیکھیے۔ یوں آنکھوں کو آرام ملتا ہے اور وہ کسی خرابی کا نشانہ نہیں بنتیں۔ یاد رکھیے‘ اگر کسی کی آنکھیں خراب ہیں تو موبائل و کمپیوٹر سکرین استعمال کرنے سے وہ زیادہ خراب ہو سکتی ہیں۔ خاص طور پر جو نزدیک کی چیزیں صاف نہیں دیکھ سکتے‘ وہ زیادہ مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ 
انسان میں یہ خلل بڑھتی عمر کے ساتھ جنم لیتا ہے۔ کم روشنی اور مانیٹر کی درست پوزیشن نہ ہونے سے بھی آنکھوں پر دباؤ پڑتا ہے۔ اس ضمن میں یہ عام مشاہدہ ہے کہ اسکرین دیکھنے کی سطح سے اونچی یا نیچی ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکرین کی درمیانی سطح آنکھوں سے چار پانچ انچ نیچے ہونی چاہیے۔ جب آنکھیں کسی چیز کو تھوڑا نیچے دیکھیں تو نہ صرف بہترین حالت میں کام کرتی ہیں بلکہ ان پر کم سے کم دباؤ پڑتا ہے۔ اگر سکرین اس طرح رکھی جائے کہ دیکھنے کے لیے گردن اٹھانی پڑے تو کندھوں اور گردن کے اعصاب پر بوجھ پڑتا ہے‘ نتیجتاً آنکھوں پر پڑنے والے دباؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
مانیٹر اچھا خریدیئے امراض چشم سے بچاؤ کے لیے اب مارکیٹ میں خاص قسم کے چشمے آگئے ہیں مگر ضروری ہے کہ مستند ڈاکٹر سے مشورے کے بعد ہی عینک استعمال کیجیے۔ ماہرین کے مطابق چشمے خریدنے کے بجائے بہتر ہے کہ اچھی قسم کا مانیٹر خرید لیں جس کی شرح تھرتھراہٹ (Flicker rate) کم ہو کیونکہ اسکرین کی زیادہ تھر تھراہٹ آنکھوں کو تھکا دیتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مانیٹر کو آنکھوں سے کم از کم بیس تیس انچ دور رکھیے۔ اسی طرح موبائل کی سکرین بھی اپنے چہرے سے کم از کم سولہ انچ دور رکھیے۔ وجہ یہ ہے کہ جب سکرین چہرے کے نزدیک ہو تو ہماری آنکھوں کو توجہ مرکوز کرنے کی خاطر زیادہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
طبی معائنہ کروائیے کئی لوگ یہ حقیقت نہیں جانتے کہ آنکھوں کی بہت سی خرابیوں کا تعلق موبائل یا کمپیوٹر سے بھی ہے۔ اگر اسکرین کو دیکھتے ہوئے آپ کو سر درد محسوس ہو یا آنکھوں میں تکلیف رہے تو بہتر ہے کہ اپنے کام کا ماحول بدلیے اور فوراً کسی ماہر ڈاکٹر سے آنکھوں کا معائنہ کروائیے۔ آنکھ نہایت حساس عضوہے اورانسان اپنے اسّی فیصد کام اسی کے ذریعے کرتا ہے۔ لہٰذا باقاعدگی سے ان کی دیکھ بھال کیجیے‘ یہ بہت بڑی نعمت ہیں۔
مانیٹر کون سا بہتر ؟ جو لوگ کمپیوٹر اسکرین پر دیکھتے ہوئے آنکھوں میں درد محسوس کریں‘ وہ اچھی قسم کا مانیٹر خرید لیں۔ بڑی سکرین والے مانیٹروں کی ایجاد کے بعد درمیانی عمر کے اور بوڑھے لوگوں کو کافی آسانی ہو گئی ہے۔ بہترین قسم کا مانیٹر وہ ہے جس کی شرح تھرتھراہٹ (یا ریفریش ریٹ ) فی سیکنڈ ساٹھ سائیکل (یعنی ساٹھ ہرٹز) ہو۔ مطلب یہ کہ ہر سیکنڈمیں اسکرین ساٹھ بار تھرتھرا کر اپنے آپ کو تازہ رکھے۔ گو وہ مانیٹر سب سے بہتر ہے جس کی شرح تھرتھراہٹ ستر سے پچاسی ہرٹز ہو۔
مفید مشورے بینائی کی اچھی صحت کے سلسلے میں چند مشورے حاضر ہیں خصوصاً ان کے لیے جو امراض چشم میں مبتلا ہونے کے باوجود مہنگا مانیٹر یاچشمہ نہیں خرید سکتے۔ اس سلسلے میں پہلا مشورہ یہ ہے کہ کام کے دوران کم از کم بیس منٹ بعد وقفہ کریں تاکہ آنکھوں پر کم دباؤ پڑے۔ دیگر یہ ہیں: ٭…سکرین پہ دو گھنٹے نظرین جمائے رکھنے کے بعد پندرہ منٹ کا وقفہ ضرور کیجیے۔ ٭… آنکھیں نم رکھنے کے لیے بار بار جھپکیے۔ ٭… اگر آنکھوں میں تکلیف ہو اور وہ خشک ہو جائیں‘ تو ان میں پانی ڈال لیجیے۔ ٭…کوشش کیجیے کہ اسکرین پر بلب‘ ٹیوب یا کھڑکی کی روشنی کا عکس نہ پڑے۔ بلبوں کو دوسری طرف لگائیے اور کھڑکی پر پردہ ڈالیے۔ تاہم موبائل یا کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے کمرے میں روشنی ہونی چاہیے۔ اندھیرے میں سکرین دیکھنے سے آنکھوں پہ دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ ٭… مانیٹر کو اس اندازمیں رکھیے کہ اس کا درمیانی حصہ آنکھوں کی سطح سے چار پانچ انچ نیچے اور بیس سے تیس انچ دور ہو۔ ٭…اسکرین پر پس منظر سفید اور کردار (عدد‘آئکون وغیرہ) سیاہ رکھیے۔ پس منظر (بیک گراؤنڈ) سیاہ اور گہرا نہ رکھیے۔ ٭…زیادہ سے زیادہ ریزولیشن حاصل کرنے کے لیے تقابل (کونٹراسٹ) کو ہم آہنگ رکھیے۔ ٭… متن (ٹیکسٹ) کو بڑا رکھیے تاکہ ضرورت پڑے‘ تو آپ دور سے بھی اسے پڑھ سکیں۔
سید عاصم محمود  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 9 months ago
Text
متنازع ترین انتخابات کے حیران کن نتائج
Tumblr media
آٹھ فروری کو پاکستان کے ’متنازع ترین‘ انتخابات کے بعد نتائج تقریباً مکمل ہو چکے ہیں، جس کے بعد پاکستانیوں کی اکثریت نے سکون کا سانس لیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ گذشتہ کئی مہینوں سے قید اور سینکڑوں مقدمات میں الزامات کا سامنا کرنے والے پاکستان کے ’مقبول ترین‘ رہنما عمران خان سٹیبلشمنٹ کے خلاف سیاسی لڑائی جتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ پارلیمان سے باہر سیاسی تنازعات اور کڑوا ترین وقت اب ممکنہ طور پر ماضی کا حصہ ہے۔ کچھ مخصوص نتائج کو چھوڑ کر عمومی نتائج کے بعد سیاسی مفاہمت کا امکان بڑھ گیا ہے۔ انتخابات کے بہت سے حیران کن نتائج میں سے تین قابل ذکر ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستان مسلم لیگ ن، جس کی قیادت نے 2018 میں شکست کھانے کے بعد دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا سہارا لیا، نتائج کے بعد کافی مایوسی کا شکار ہے۔ مسلم لیگ ن اور اس کے قائد نواز شریف کلین سویپ کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کی جماعت نے قومی اسمبلی میں 70 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جب کہ پاکس��ن تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 100 کے قریب سیٹوں پر کامیابی سمیٹی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے طور پر حکومت نہیں بنا سکتی۔
صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنانے کا امکان ہے جہاں پی ٹی آئی ان سے چند سیٹیں ہی پیچھے ہے، اس لیے مسلم لیگ ن کی صفوں میں مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ جہاں پورا شریف خاندان، کم از کم چھ، اپنی اپنی نشستیں جیت چکا ہے، وہیں مسلم لیگ ن کے کئی بڑے رہنما بشمول تجربہ کار وزرا جیسے خرم دستگیر اور رانا ثنا اللہ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ درحقیقت پنجاب کے بڑے شہروں بشمول گوجرانوالہ، فیصل آباد اور شیخوپورہ سے مسلم لیگ ن سے منسوب گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ کی شناخت فی الحال مٹ چکی ہے۔ دوسرا یہ کہ عمران خان کی عدم موجودگی میں پی ٹی آئی سے انتخابات میں اچھی کارکردگی کی توقع نہیں تھی، اس لیے نہیں کہ اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی بلکہ اس لیے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے فوجی تنصیبات پر دھاوا بولنے کے بعد مبینہ طور پر طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اعلیٰ کمان اس کی شکست کی خواہاں تھی۔ بہت سے لوگوں کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کا نام مٹانے کے لیے ہر ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں گے۔ 
Tumblr media
انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان ’بلے‘ سے محروم کر دیا گیا اور پی ٹی آئی کی چھتری تلے الیکشن لڑنے کی کوشش کرنے والے آزاد ارکان کے خلاف ریاستی طاقت، قید و بند، ہراسانی، ٹارگٹڈ حملے، وکٹمائزیشن اور قانون نافذ کرنے والی فورسز کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ عوامی عزم اور جرات، جو پی ٹی آئی کے لیے ڈالے گئے ووٹوں سے ظاہر ہوتی ہے، کے برعکس قابل اعتراض عدالتی فیصلے اور ان کے رہنما کی سزا اور قید و بند سے توڑنے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان نے تقریباً 66 سال سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عوامی طاقت ہی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبوں کو ناکام بنا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر عدلیہ نے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور انتخابات کے دوران پارٹی کو مؤثر طریقے سے انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا جیسا کہ لاکھوں پاکستانی ووٹرز کے لیے پی ٹی آئی کے سینکڑوں قومی اور صوبائی امیدواروں کے انفرادی انتخابی نشان یاد رکھنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس کے باوجود عوام نے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مایوس نہیں کیا۔
انتخابی نتائج کا اعلان تقریباً مکمل ہو گیا اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 97 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی دوڑ میں آگے ہیں اور مسلم لیگ ن 71 اور پی پی پی 54 نشستوں کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ تاریخ ساز نتائج میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے ان انتخابات میں کلین سویپ کیا ہے ملک کے دوسرے سرے یعنی کراچی میں بھی پی ٹی آئی نے کئی نشستیں حاصل کی ہیں۔ تیسرا یہ کہ پی ٹی آئی کے سابق بڑے رہنما، جنہوں نے عمران خان ان سے راہیں جدا کر لی تھیں، کو انتخابات میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ماضی میں عمران خان کے اہم معتمد اور حامی جہانگیر ترین اور ان کے سابق وزیر اعلیٰ اور وزیر دفاع پرویز خٹک دونوں ہی جیتنے میں ناکام رہے ہیں۔ باغی رہنماؤں نے عمران خان کی بظاہر ڈوبتی ہوئی کشتی سے اترنے کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ پرویز خٹک کی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے خٹک خاندان کے تمام سات ارکان ہار گئے ہیں۔ 
پی ٹی آئی کے لیے اب بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ کئی سیٹوں سے اس کے امیدواروں نے نتائج کو چیلنج کر رکھا ہے۔ انتخابی نتائج شیئر کے طریقہ کار پر اس کے ارکان سوال اٹھا رہے ہیں۔ کچھ اس معاملے کو عدالتوں میں لے گئے ہیں۔ اگلی حکومت میں پی ٹی آئی کے کردار کے ساتھ ساتھ قانونی لڑائیاں بھی زور پکڑیں گی۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ اب بھی مشکل وقت ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے بہت سے اہم معاملات پر مسائل حل طلب ہیں، بشمول اس کے کہ نو مئی کی کہانی کو کیسے ختم کیا جائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان، پارٹی اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے بہترین راستے کے بارے میں سوچیں۔
 نسیم زہرہ  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
hassanriyazzsblog · 1 year ago
Text
🌹🌹 *ₚₐₛₛᵢₙG ₜᵢₘₑ*
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
3️⃣2️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *PASSING TIME :*
*The Quran states that time has shown that man is at a loss.*
(Quran :103 :1-2)
According to this verse, it is as if human life is like ice. Just as the ice melts, so does the age of man.
Little by little, the time comes when a man reaches the end of his life.
Man’s countdown is constantly taking place.
If a person is destined to live for sixty years after birth, it is as if his countdown began as soon as he was born.
At the end of the first year, he is left with fifty-nine years. Then fifty-eight, then fifty-seven, and then fiftysix, then fifty-five, and so on.
In this way, every man’s countdown is taking place constantly.
No one can stop this countdown.
In such a situation, every man should value his every moment because the time lost is not going to come back.
*Just as the past does not come back, similarly the past moments of life do not come back to anyone either.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *وقت گزر رہا ہے :*
*قران میں اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں :’’ قسم ہے زمانے ( وقت ) کی انسان خسارے میں ہے۔‘‘*
(قرآن: 1,2 : 103)
اس آیت کے مطابق، گویا انسانی زندگی برف کی مانند ہے۔ جس طرح برف پگھلتی ہے اسی طرح انسان کی عمر بھی پگھلتی ہے۔
تھوڑا تھوڑا کر کے، وہ وقت آتا ہے جب انسان اپنی زندگی کے اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔
انسان کی الٹی گنتی مسلسل ہو رہی ہے۔
اگر کسی شخص کی قسمت میں پیدائش کے بعد ساٹھ سال زندہ رہنا ہے، گویا اس کی الٹی گنتی اس کے پیدا ہوتے ہی شروع ہو گئی۔
پہلے سال کے اختتام پر، اس کے پاس 59 سال باقی رہ گئے ہیں۔ پھر اٹھاون، پھر ستاون، اور پھر چھپن، پھر پچپن، اور اسی طرح وہ اختتام کو پہنچتا ہے۔
اس طرح سے، ہر آدمی کی الٹی گنتی مسلسل ہو رہی ہے۔
اس الٹی گنتی کو کوئی نہیں روک سکتا۔
ایسی حالت میں، ہر انسان کو اپنے ہر لمحے کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ کھویا ہوا وقت واپس نہیں آتا۔
*جیسے ماضی واپس نہیں آتا، اسی طرح زندگی کے گزرے لمحے بھی کسی کے پاس واپس نہیں آتے۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
*سورۃ العصر - زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے :*
اس سورۃ میں زمانے کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ انسان بڑے خسارے میں ہے ، اور اس خسارے سے صرف وہی لوگ بچے ہوئے ہیں جن کے اندر چار صفتیں پائی جاتی ہیں ۔
( 1 ) ایمان
( 2 ) عمل صالح
( 3 ) ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنا
( 4 ) ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا ۔
اب اس کے ایک ایک جز کو الگ لے کر اس پر غور کرنا چاہیے تاکہ اس ارشاد کا پورا مطلب واضح ہوجائے ۔
جہاں تک قسم کا تعلق ہے اس سے پہلے بارہا یہ وضاحت کی جاچکی ہے کہ اللہ تعالی نے مخلوقات میں سے کسی چیز کی قسم اس کی عظمت یا اس کے کمالات و عجائب کی بنا پر نہیں کھائی ہے ، بلکہ اس بنا پر کھائی ہے کہ وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے جسے ثابت کرنا مقصود ہے ۔ پس زمانے کی قسم کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ انسان بڑے خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جن میں یہ چار صفتیں پائی جاتی ہوں ۔
زمانے کا لفظ گزرے ہوئے زمانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، اور گزرتے ہوئے زمانے کے لیے بھی، جس میں حال درحقیقت کسی لمبی مدت کا نام نہیں ہے ۔ ہر آن گزر کر ماضی بنتی چلی جارہی ہے ، اور ہر آن آکر مستقبل کو حال اور جاکر حال کو ماضی بنا رہی ہے ۔ گزرے ہوئے زمانے کی قسم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو لوگ بھی ان صفات سے خالی تھے وہ بالآخر خسارے میں پڑ کر رہے ۔ اور گزرتے ہوئے زمانے کی قسم کھانے کا مطلب سمجھنے کے لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جو زمانہ اب گزر رہا ہے وہ دراصل وہ وقت ہے جو ایک ایک شخص اور ایک ایک قوم کو دنیا میں کام کرنے کے لیے دیا گیا ہے ۔
اس کی مثال اس وقت کی سی ہے جو امتحان گاہ میں طالب علم کو پرچے حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے ۔ یہ وقت جس تیز رفتاری کے ��اتھ گزر رہا ہے اس کا اندازہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھنے سے آپ کو ہوجائے گا ۔ حالانکہ ایک سیکنڈ بھی وقت کی بہت بڑی مقدار ہے ۔ اسی ایک سیکنڈ میں روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کا راستہ طے کرلیتی ہے ، اور خدا کی خدائی میں بہت سی چیزیں ایسی بھی ہوسکتی ہیں جو اس سے بھی زیادہ تیز رفتار ہوں خواہ وہ ابھی تک ہمارے علم میں نہ آئی ہوں ۔ تاہم اگر وقت کے گزرنے کی رفتار وہی سمجھ لی جائے جو گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کے چلنے سے ہم کو نظر آتی ہے ، اور اس بات پر غور کیا جائے کہ ہم جو کچھ بھی اچھا یا برا فعل کرتے ہیں اور جن کاموں میں بھی ہم مشغول رہتے ہیں ، سب کچھ اس محدود مدت عمر ہی میں وقوع پذیر ہوتا ہے جو دنیا میں کام کرنے کے لیے دی گئی ہے ، تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اصل سرمایہ تو یہی وقت ہے جو تیزی سے گزر رہا ہے ۔
امام رازی نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے سورہ عصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو بازار میں آواز لگا رہا تھا کہ رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جارہا ہے ، رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جارہا ہے ، اس کی یہ بات سن کر میں نے کہا یہ ہے وَالْعَصْرِ ۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ ۔ کا مطلب ۔ عمر کی جو مدت انسان کو دی گئی ہے وہ برف کے گھلنے کی طرح تیزی سے گزر رہی ہے ۔ اس کو اگر ضائع کیا جائے ، یا غلط کاموں میں صرف کر ڈالا جائے تو یہی انسان کا خسارہ ہے ۔ پس گزرتے ہوئے زمانے کی قسم کھا کر جو بات اس سورہ میں کہی گئی ہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ تیز رفتار زمانہ شہادت دے رہا ہے کہ ان چار صفات سے خالی ہوکر انسان جن کاموں میں بھی اپنی مہلت عمر کو صرف کر رہا ہے وہ سب کے سب خسارے کے سودے ہیں ۔ نفع میں صرف وہ لوگ ہیں جو ان چاروں صفات سے متصف ہوکر دنیا میں کام کریں ۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہم اس طالب علم سے جو امتحان کے مقررہ وقت کو اپنا پرچہ حل کرنے کے بجائے کسی اور کام میں گزار رہا ہو ، کمرے کے اندر لگے ہوئے گھنٹے کی طرف اشارہ کر کے کہیں کہ یہ گزرتا ہوا وقت بتا رہا ہے کہ تم اپنا نقصان کر رہے ہو ، نفع میں صرف وہ طالب علم ہے جو اس وقت کا ہر لمحہ اپنا پرچہ حل کرنے میں صرف کررہا ہے ۔ اور اس کا اطلاق افراد ، گروہوں ، اقوام ، اور پوری نوع انسانی پر یکساں ہوتا ہے ۔ پس یہ حکم کہ مذکورہ چار صفات سے جو بھی خالی ہو وہ خسارے میں ہے ، ہر حالت میں ثابت ہوگا ، خواہ ان سے خالی کوئی شخص ہو ، یا کوئی قوم ، یا دنیا بھر کے انسان ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم اگر یہ حکم لگائیں کہ زہر انسان کے لیے مہلک ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زہر بہرحال مہلک ہے خواہ ایک فرد اس کو کھائے ، یا ایک پوری قوم ، یا ساری دنیا کے انسان مل کر اسے کھا جائیں ۔ زہر کی مہلک خاصیت اپنی جگہ اٹل ہے ، اس میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک شخص نے اس کو کھایا ہے ، یا ایک قوم نے اسے کھانے کا فیصلہ کیا ہے ، یا دنیا بھر کے انسانوں کا اجماع اس پر ہوگیا ہے کہ زہر کھانا چاہیے ۔ ٹھیک اسی طرح یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ چار مذکورہ بالا صفات سے خالی ہونا انسان کے لیے خسارے کا موجب ہے ۔ اس قاعدہ کلیہ میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ایک شخص ان سے خالی ہو ، یا کسی قوم نے ، یا دنیا بھر کے انسانوں نے کفر ، بد عملی ، اور ایک دوسرے کو باطل کی ترغیب دینے اور بندگی نفس کی تلقین کرنے پر اتفاق کرلیا ہے ۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگرچہ قرآن کہ نزدیک حقیقی فلاح آخرت میں انسان کی کامیابی ، اور حقیقی خسارہ وہاں اس کی ناکامی ہے ، لیکن اس دنیا میں بھی جس چیز کا نام لوگوں نے فلاح رکھ چھوڑا ہے وہ دراصل فلاح نہیں ہے بلکہ اس کا انجام خود اسی دنیا میں خسارہ ہے ، اور جس چیز کو لوگ خسارہ سمجھتے ہیں وہ دراصل خسارہ نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی وہی فلاح کا ذریعہ ہے ۔ اس حقیقیت کو قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے ۔پس جب قرآن پورے زور اور قطعیت کے ساتھ کہتا ہے کہ درحقیقت انسان بڑے خسارے میں ہے تو اس کا مطلب دنیا اور آخرت دونوں کا خسارہ ہے ، اور جب وہ کہتا ہے کہ اس خسارے سے صرف وہ لوگ بچے ہوئے ہیں جن کے اندر حسب ذیل چار صفات پائی جاتی ہیں تو اس کا مطلب دونوں جہانوں میں خسارے سے بچنا اور فلاح پانا ہے ۔
اب ہمیں ان چاروں صفات کو دیکھنا چاہیے جن کے پائے جانے پر اس سورۃ کی رو سے انسان کا خسارے سے محفوظ رہنا موقوف ہے ۔ ان میں پہلی صفت "ایمان " ہے ۔ یہ لفظ اگرچہ بعض مقامات پر قرآن مجید میں محض زبانی اقرار ایمان کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ ( مثلا النساء ، آیت 137 ۔ المائدہ ، آیت 54 ۔ الانفال ، آیت 20 ۔ 27 ۔ التوبہ آیت 38 ۔ الصف آیت 2 میں ) لیکن اس کا اصل استعمال سچے دل سے ماننے اور یقین کرنے کے معنی ہی میں کیا گیا ہے ۔قرآن دراصل جس ایمان کو حقیقی ایمان قرار دیتا ہے ، اس کو ان آیات میں پوری طرح واضح کردیا گیا ہے ۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا ( الحجرات ۔ 15 ) مومن تو حقیقت میں وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر شک میں نہ پڑے ۔
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا ( حم السجدہ ۔ فصلت ۔ آیت 30 ) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر ڈٹ گئے ۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ ( الانفال 2 ) ان کے دل تو اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں ۔
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ( البقرہ ، 165 ) اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے ہیں ۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا ( النساء ، 65 ) پس نہیں ( اے نبی ) تمہارے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہیں ہیں جب تک کہ اپنے باہمی اختلاف میں تمہیں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں ۔
ان میں بھی زیادہ اس آیت میں زبانی اقرار ایمان اور حقیقی ایمان کا فرق ظاہر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اصل مطلوب حقیقی ایمان ہے نہ کہ زبانی اقرار: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ( النساء ، آیت 136 ) ا�� لوگ جو ایمان لائے ہو ، ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر ۔
اب رہا یہ سوال کہ ایمان لانے سے کن چیزوں پر ایمان لانا مراد ہے ، تو قرآن مجید میں پوری طرح اس بات کو بھی کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے ۔ اس سے مراد اولا اللہ کو ماننا ہے ۔ محض اس کے وجود کو ماننا نہیں بلکہ اسے اس حیثیت سے ماننا ہے کہ وہی ایک خدا ہے ، خدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے ، وہی اس کا مستحق ہے کہ انسان اس کی عبادت ، بندگی اور اطاعت بجا لائے ۔ وہی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے والا ہے ، بندے کو اسی سے دعا مانگنی چاہیے اور اسی پر توکل کرنا چاہیے ۔ وہی حکم دینے اور منع کرنے والا ہے ۔ بندے کا فرض ہے کہ اس کے حکم کی اطاعت کرے اور جس چیز سے اس نے منع کیا ہے اس سے رک جائے ۔ وہ سب کچھ دیکھنے اور سننے والا ہے ، اس سے انسان کا کوئی فعل تو درکنار ، وہ مقصد اور نیت بھی مخفی نہیں ہے جس کے ساتھ اس نے کوئی فعل کیا ہے ۔ ثانیا رسول کو ماننا ، اس حیثیت سے کہ وہ اللہ تعالی کا مامور کیا ہوا ھادی اور رہنما ہے ، اور جس چیز کی تعلیم بھی اس نے دی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے ، برحق ہے ، اور واجب التسلیم ہے ۔ اسی ایمان بالرسالت میں ملائکہ ، انبیاء اور کتب الہیہ پر ، اور خود قرآن پر بھی ایمان لانا شامل ہے ، کیونکہ یہ ان تعلیمات میں سے ہے جو اللہ کے رسول نے دی ہیں ۔ ثالثا آخرت کو ماننا ، اس حیثیت سے کہ انسان کی موجودہ زندگی پہلی اور آخری زندگی نہیں ہے ، بلکہ مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ زندہ ہوکر اٹھنا ہے ، اپنے ان اعمال کا جو اس نے دنیا کی اس زندگی میں کیے ہیں ، خدا کو حساب دینا ہے ، اور اس محاسبہ میں جو لوگ نیک قرار پائیں انہیں جزاء ، اور جو بد قرار پائیں ان کو سزا ملنی ہے ۔ یہ ایمان اخلاق اور سیرت و کردار کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کردیتا ہے جس پر ایک پاکیزہ زندگی کی عمارت قائم ہوسکتی ہے ۔ ورنہ جہاں سرے سے یہ ایمان ہی موجود نہ ہو وہاں انسان کی زندگی خواہ کتنی ہی خوشنما کیوں نہ ہو ، اس کا حال ایک بے لنگر کے جہاز کا سا ہوتا ہے جو موجوں کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے اور کہیں قرار نہیں پکڑ سکتا ۔
ایمان کے بعد دوسری صفت جو انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے ضروری ہے وہ "صالحات ( نیک کاموں ) پر عمل کرنا " ہے ۔ صالحات کا لفظ تمام نیکیوں کا جامع ہے جس سے نیکی اور بھلائی کو کوئی قسم چھوٹی نہیں رہ جاتی ۔ لیکن قرآن کی رو سے کوئی عمل بھی اس وقت تک عمل صالح نہیں ہوسکتا جب تک اس کی جڑ میں ایمان موجود نہ ہو ، اور وہ اس ہدایت کی پیروی میں نہ کیا جائے جو اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے ۔ اسی لیے قرآن مجید میں ہر جگہ عمل صالح سے پہلے ایمان کا ذکر کیا گیا ہے اور اس سورہ میں بھی اس کا ذکر ایمان کے بعد ہی آیا ہے ۔ کسی ایک جگہ بھی قرآن میں ایمان کے بغیر کسی عمل کو صالح نہیں کہا گیا ہے اور نہ عمل بلا ایمان پر کسی اجر کی امید دلائی گئی ہے ۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایمان وہی معتبر اور مفید ہے جس کے صادق ہونے کا ثبوت انسان اپنے عمل سے پیش کرے ۔ ورنہ ایمان بلا عمل صالح محض ایک دعوی ہے جس کی تردید آدمی خود ہی کردیتا ہے جب وہ اس دعوے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے سے ہٹ کر چلتا ہے ۔ ایمان اور عمل صالح کا تعلق بیج اور درخت کا سا ہے ۔ جب تک بیج زمین میں نہ ہو ، کوئی درخت پیدا نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر بیج زمین میں ہو اور کوئی درخت پیدا نہ ہورہا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ بیج زمین میں دفن ہوکر رہ گیا ۔ اسی بنا پر قرآن پاک میں جتنی بشارتیں بھی دی گئی ہیں انہی لوگوں کو دی گئی ہیں جو ایمان لاکر عمل صالح کریں ، اور یہی بات اس سورہ میں بھی کہی گئی ہے کہ انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے جو دوسری صفت ضروری ہے وہ ایمان کے بعد صالحات پر عمل کرنا ہے ۔ بالفاظ دیگر عمل صالح کے بغیر محض ایمان آدمی کو خسارے سے نہیں بچا سکتا ۔ مذکورہ بالا دو صفتیں تو وہ ہیں جو ایک ایک فرد میں ہونی چاہیں ۔
اس کے بعد یہ سورۃ دو مزید صفتیں بیان کرتی ہے جو خسارے سے بچنے کے لیے ضروری ہیں ، اور وہ یہ ہیں کہ ایمان لانے اور عمل صالح کرنے والے لوگ "ایک دوسرے کو حق کی نصیحت" اور "صبر کی تلقین کریں "۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اول تو ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو فرد فرد بن کر نہیں رہنا چاہیے بلکہ ان کے اجتماع سے ایک مومن و صالح معاشرہ وجود میں آنا چاہیے ۔ دوسرے اس معاشرے کے ہر فرد کو اپنی یہ ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے کہ وہ معاشرے کو بگڑنے نہ دے ، اس لیے اس کے تمام افراد پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں ۔ حق کا لفظ باطل کی ضد ہے اور بالعموم یہ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ایک صحیح اور سچی اور مطابق عدل و انصاف اور مطابق حقیقت بات ، خواہ وہ عقیدہ ایمان سے تعلق رکھتی ہو یا دنیا کے معاملات سے ۔ دوسرے وہ حق جس کا ادا کرنا انسان پر واجب ہو ، خواہ وہ خدا کا حق ہو یا بندوں کا حق یا خود اپنے نفس کا حق ۔ پس ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کا یہ معاشرہ ایسا نہ ہو کہ اس میں باطل سر اٹھا رہا ہو اور حق کے خلاف کام کیے جارہے ہوں ، مگر لوگ خاموشی کے ساتھ اس کا تماشا دیکھتے رہیں ، بلکہ اس معاشرے میں یہ روح جاری و ساری رہے کہ جب اور جہاں بھی باطل سر اٹھائے کلمہ حق کہنے والے اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں ، اور معاشرے کا ہر فرد صرف خود ہی حق پرستی اور راستبازی اور عدل و انصاف پر قائم رہنے اور حق داروں کے حقوق ادا کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی اس طرز عمل کی نصیحت کرے ۔ یہ وہ چیز ہے جو معاشرے کو اخلاقی زوال و انحطاط سے بچانے کی ضامن ہے ۔ اگر یہ روح کسی معاشرے میں موجود نہ رہے تو وہ خسران سے نہیں بچ سکتا اور اس خسران میں وہ لوگ بھی آخر کار مبتلا ہوکر رہتے ہیں جو اپنی جگہ حق پر قائم ہوں مگر اپنے معاشرے میں حق کو پامال ہوتے ہوئے دیکھتے رہیں ۔ یہی بات ہے جو سورہ مائدہ میں فرمائی گئی ہے کہ بنی اسرائیل پر حضرت داؤد اور حضرت عیسی ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی اور اس لعنت کی وجہ یہ تھی کہ ان کے معاشرے میں گناہوں اور زیادتیوں کا ارتکاب عام ہو رہا تھا اور لوگوں نے ایک دوسرے کو برے افعال سے روکنا چھوڑ دیا تھا ( آیات ، 78 ۔ 79 ) پھر اسی بات کو سورہ اعراف میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے جب کھلم کھلا سبت کے احکام کی خلاف ورزی کر کے مچھلیاں پکڑنی شروع کردیں تو ان پر عذاب نازل کردیا گیا اور اس عذاب سے صرف وہی لوگ بچائے گئے جو اس گناہ سے روکنے کی کوشش کرتے تھے ( آیات ، 163 تا 166 ) اور اسی بات کو سورہ انفال میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو ( آیت 25 ) اسی لیے *امر بالمعروف اور نہی عن المنکر* کو امت مسلمہ کا فریضہ قرار دیا گیا ہے ( آل عمران ۔ 104 ) اور اس امت کو بہترین امت کہا گیا ہے جو یہ فریضہ انجام دے ( آل عمران 110 ) حق کی نصیحت کے ساتھ دوسری چیز جو اہل ایمان اور ان کے معاشرے کو خسارے سے بچانے کے لیے شرط لازم قرار دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس معاشرہ کے افراد ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہیں ۔ یعنی حق کی پیروی اور اس کی حمایت میں جو مشکلات پیش آتی ہیں ، اور اس راہ میں جن تکالیف سے ، جن مشقتوں سے ، جن مصائب سے اور جن نقصانات اور محرومیوں سے انسان کو سابقہ پیش آتا ہے ان کے مقابلے میں وہ ایک دوسرے کو ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے رہیں ۔ ان کا ہر فرد دوسرے کی ہمت بندھاتا رہے کہ وہ ان حالات کو صبر کے ساتھ برداشت کرے ۔
(منقول)
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
1 note · View note