#کھانے میں استعمال
Explore tagged Tumblr posts
Text
کھانے میں استعمال ہونیوالی ”ہلدی“صحت کیلئے بھی فائدہ مند قرار
ماہرین صحت نے کھانے میں استعمال ہونیوالی ”ہلدی“کو صحت کیلئے بھی فائدہ مند قرار دیدیا۔ ماہرین نے بتایا کہ ہلدی، جو عام طور پر کھانوں میں استعمال ہوتی ہے، اپنی طبی خصوصیات کی وجہ سے بھی بہت مشہور ہے۔ اس میں کرکیومِن نامی مرکب پایا جاتا ہے، جو اس کے زیادہ تر فائدوں کا ذمہ دار ہے۔ہلدی میں موجود کرکیومِن ایک طاقتور اینٹی انفلامیٹری خصوصیات رکھتا ہے، جو جسم میں سوزش کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔…
0 notes
Text
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
مکیش امبانی کے بیٹے کی شادی
مارک ذکربرگ اور ایلون مسک کی شرکت اور قدرت کی ادھوری ادھوری تصویر۔۔
سعدیہ قریشی کے قلم سے۔
،،تصویر ادھوری رہتی ہے !
سعدیہ قریشی
رب کائنات نے زندگی کو ایسا ڈیزائن کیا ہے کہ تمام تر کامرانیوں اور کامیابیوں کے باوجود زندگی کی تصویر ادھوری رہتی ہے
کہیں نہ کہیں اس میں موجود کمی اور کجی کی ٹیڑھ ہمیں چھبتی ضرور ہے ۔
مارچ کے آغاز میں بھارت میں دنیا کی مہنگی ترین پری ویڈنگ تقریبات نے پوری دنیا میں ایک تہلکہ مچادیا۔
پاکستان کے سوشل میڈیا پر بھی اس کا کافی چرچا رہا۔
بہت سی پوسٹیں ایسی نظر سے گزریں کہ ہمارے نوجوان آہیں بھرتے دکھائی دیے کہیں لکھا تھا بندہ اتنا امیر تو ہو کہ مارک زکر برگ اور ایلون مسک کو شادی پر بلاسکے ۔
یہ پری ویڈنگ تقریبات مکیش امبانی کے چھوٹے بیٹے اننت امبانی کی تھیں۔
مکیش امبانی ایشیا کے امیر ترین کاروباری اور دنیا کے امیر ترین لوگوں میں گیارویں نمبر پر ہیں وہ ریلائنس گروپ کے بانی اور چیئرمین ہیں.
پری ویڈنگ تقریبات کے لیے امبانی خاندان نے گجرات کے شہر جام نگر کو اربوں روپے لگا کر مہمانوں کے لیے سجایا۔
اس تقریب میں مہمانوں کو ڈھائی ہزار ڈشز ناشتے ،ظہرانے ۔شام۔کی چائے عشائیے اور مڈںائٹ ڈنر کے طور پر پیش کی گئیں
بھارت کے درجنوں اعلی درجے کے باورچی اور شیف جام نگر میں مہمانوں کے لیے کھانا بلانے کے لیے بنانے کے لیے بلائے گئےتین دنوں میں ایک ڈش کو دوسری دفعہ دہرایا نہیں گیا۔
تقریب میں تقریبا 50 ہزار لوگوں کے کھانے کا بندوبست کیا گیا۔
فلم انڈسٹری کے تمام سپر سٹار تقریب میں ناچتے دکھائی دئیے۔
فیس بک کے بانی مارک زکربرگ اور ٹوئٹر خرید کر ایکس کی بنیاد رکھنے ایلون مسک اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ شریک ہوئے ٹرمپ کی بیٹی ایونکا ٹرمپ نے بھی خصوصی مہمان کی حیثیت سے شرکت کی ۔
مہمانوں کو لانے اور لے جانے کے لیے چارٹر طیارے، مرسیڈیز کاریں اور لگزری گاڑیاں استعمال کی گئیں۔
2018 میں بھی مکیش امبانی نے اپنی بیٹی ایشا کی شادی پر اربوں ڈالرز خرچ کر کے پوری دنیا میں مہنگی شادی کا ایک ریکارڈ قائم کیا تھا ۔
اس شادی میں مہمانوں کو دعوت ناموں کے ساتھ سونے کی مالائیں بھی پیش کی گئی تھیں اور تمام مہمانوں کو شرکت کے لیے ان کو بھاری معاوضے دیے گئے تھے۔
ا خیال یہی ہے کہ اس تقریب میں بھی خاص مہمانوں شرکت کے لیے ریلائنس گروپ کی طرف سے ادائیگی کی گئی ہے ۔
دنیا بھر سے نامور گلیمرس شخصیات کی موجودگی کی چکاچوند کے باوجود اس تقریب کا مرکز نگاہ دولہا اننت امبانی اور دولہن رادھیکا مرچنٹ تھے ۔تقریب کے تین دن باقاعدہ طور پر ایک تھیم کے تحت منائے گئے ۔دولہا دلہن سے لے کر تمام لوگوں کے کپڑے اسی تھیم کے مطابق تھے تھیم کے مطابق تقریب کا کروڑوں روپے کا ڈیکور کیا گیا۔
تقریب کے دولہا اننت مبانی اس وجہ سے بھی خبروں کا موضوع رہے کہ وہ ایک خطرناک بیماری کا شکار ہیں۔ جس میں وزن بے تحاشہ بڑھ جاتا ہے۔ان کے ساتھ ان کی دھان پان سی خوبصورت دلہن دیکھنے والوں کو حیران کرتی
اننت امبانی کو شدید قسم کا دمے کا مرض لاحق ہے جس کا علاج عام دوائیوں سے ممکن نہیں ۔سو علاج کے لیے اسے سٹیرائیڈز دئیے جاتے رہے ہیں ۔ان میں سٹیرائیڈز کی ایک قسم کارٹیکو سٹیرائیڈز تھی سٹرائیڈز کی یہ قسم وزن بڑھنے کا سبب بنتی ہے ۔
اس سے انسان کی بھوک بے تحاشہ بڑھ جاتی ہے اتنی کہ وہ ہاتھی کی طرح کئی افراد کا کھانا اپنے پیٹ میں انڈیلنے لگتا ہے ۔
ایک طرف بھوک بڑھتی ہے تو دوسری طرف مریض کا میٹابولزم کچھوے کی طرح سست رفتار یوجاتا ۔میٹابلزم انسانی جسم کا وہ نظام ہے جس سے خوراک ہضم ہوتی ہے اور توانائی جسم کا حصہ بنتی ہے۔میٹابولزم اچھا ہو تو چربی توانائی میں تبدیل ہوتی ہے ۔
کارٹیکو سٹیرائڈز جسم کے نظام انہضام کو درہم برہم کردیتا ہے جسم کے اندر چربی جمع ہونے لگتی ہے اور جسم کئی طرح کی دوسری بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔
مسلز پروٹین نہیں بنتی جس کے نتیجے میں جسم بے تحاشہ موٹا ہونے لگتا ہے
کورٹیکو سٹیرائڈز کے مزید برے اثرات یہ ہیں کہ جسم میں پانی جمع ہونے لگتا ہے جسے ڈاکٹری اصطلاح میں واٹر ریٹینشن کہتے ہیں اس واٹر اٹینشن کی وجہ سے بھی جسم موٹا ہونے لگتا ہے ۔
اسے قدرت کی ستم ظریفی کہیے کہ کھربوں ڈالر کے اثاثوں کے مالک مکیش امبانی کا لاڈلا اور چھوٹا بیٹا ایک ایسی بیماری کا شکار ہے جس کے علاج کے لیے سٹیرائڈز کی تباہی کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا
۔اننت امبانی اپنی زندگی کے اوائل برسوں سے ہی اس بیماری کا شکار ہے اس کا اربوں کھربوں پتی باپ اپنے بیٹے کے بہلاوے کے لیے اپنے دولت پانی کی طرح بہاتا ہے۔
اس کے بیٹے کو ہاتھیوں سے لگاؤ ہوا تو مکیش امبانی نے ایکڑوں پر پھیلا ہوا ہاتھیوں کا ایک سفاری پارک بنادیا ۔اس سفاری پارک میں بیمار ہاتھیوں کے اسپتال ،تفریح گاہوں ،سپا اور مالش کا انتظام ہے ۔خشک میوہ جات سے بھرے ہوئے سینکڑوں لڈو روزانہ ہاتھیوں کو کھلا دیے جاتے ہیں۔
یہ صرف مکیش امبانی کے اپنے بیمار بیٹے کے ساتھ لاڈ کی ایک جھلک ہے۔
مگر وہ اپنی تمام تر دولت کے باوجود اپنے بیٹے کے لیے مکمل صحت سے بھرا ایک دن نہیں خرید سکا۔
اننت امبانی نے تقریب میں ہزاروں مہمانوں کے سامنے اپنے دل کی بات کرتے ہوئے کہا کہ میری زندگی پھولوں کی سیج نہیں رہی بلکہ میں نے کانٹوں کے راستوں پر چل کر زندگی گزاری ہے
اس کا اشارہ اپنی خوفناک بیماری کی طرف تھا اس نے کہا کہ میں بچپن ہی سے ایک ایسی بیماری کا شکار تھا جس میں میری والدین نے میرا بہت ساتھ دیا۔
جب اننت امبانی یہ باتیں کر رہا تھا تو کیمرے نے ایشیا کے سب سے امیر ترین شخص مکیش امبانی کے چہرے کو زوم کیا اس کے گہرے سانولے رنگ میں ڈوبے
خدو خال تکلیف سے ��گھل رہے تھے اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے
تکلیف اور بے بسی کے آنسو کہ وہ کھربوں ڈالر کے اثاثوں کے باوجود اپنے بیٹے کے لیے مکم�� صحت سے بھرا ہوا ایک دن نہیں خرید سکا۔
رب نے دنیا ایسی ہی بنائی ہے کہ تصویر ادھوری رہتی ہے ۔اسی ادھورے پن میں ہمیں اس ذات کا عکس دکھائی دیتا ہے جو مکمل ہے!
سو آئیں مکیش امبانی کی دولت پر رشک کرنے کی بجائے اپنی زندگی کی ادھوری تصویر پر اپنے رب کا شکر ادا کریں کیونکہ تصویر تو اس کی زندگی کی بھی مکمل نہیں!
(بشکریہ کالم 92 نیوز سعدیہ قریشی)
منقول
4 notes
·
View notes
Text
آئیں اسرائیل سے بدلہ لیں
اسلامی ممالک کی حکومتوں اور حکمرانوں نے دہشت گرد اور ظالم سرائیل کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بڑا مایوس کیا۔ تاہم اس کے باوجود ہم مسلمان اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں، بہنوں اور بچوں کے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم اور اسرائیل کی طرف سے اُن کی نسل کشی کا بدلہ لے سکتے ہیں بلکہ ان شاء اللہ ضرور لیں گے۔ بے بس محسوس کرنے کی بجائے سب یہودی اور اسرائیلی مصنوعات اور اُن کی فرنچائیزز کا بائیکاٹ کریں۔ جس جس شے پر اسرائیل کا نام لکھا ہے، کھانے پینے اور استعمال کی جن جن اشیاء کا تعلق اس ظالم صہیونی ریاست اور یہودی کمپنیوں سے ہے، اُن کو خریدنا بند کر دیں۔ یہ بائیکاٹ دنیا بھر میں شروع ہو چکا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بائیکاٹ کو مستقل کیا جائے۔ یہ بائیکاٹ چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں کا نہیں ہونا چاہیے۔ بہت اچھا ہوتا کہ اسلامی دنیا کے حکمران کم از کم اپنے اپنے ممالک میں اس بائیکاٹ کا ریاستی سطح پر اعلان کرتے لیکن اتنا بھی مسلم امہ کے حکمران نہ کر سکے۔ بہرحال مسلمان (بلکہ بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی) دنیا بھر میں اس بائیکاٹ میں شامل ہو رہے ہیں۔
پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کے حق میں مہم چلائی جا رہی ہے۔ اسرائیلی مصنوعات، اشیاء، مشروبات اور فرنچائیزز سے خریداری میں کافی کمی آ چکی ہے۔ ان اشیاء کو بیچنے کیلئے متعلقہ کمپنیاں رعایتی آفرز دے رہی ہیں، قیمتیں گرائی جا رہی ہیں لیکن بائیکاٹ کی کمپین جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ کاروباری ��بقہ اورتاجر تنظیمیں بھی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اس بائیکاٹ کے متعلق یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ ایسے تو ان پاکستانیوں کا، جو اسرائیلی مصنوعات فروخت کر رہے ہیں یا اُنہوں نے اسرائیلی فرنچائیزز کو یہاں خریدا ہوا ہے، کاروبار تباہ ہو رہا ہے۔ اس متعلق محترم مفتی تقی عثمانی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں بہت اہم بات کی۔ تقی صاحب کا کہنا تھا کہ بہت سارے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کچھ مسلمانوں نے یہودی اور امریکی مصنوعات کی خریدوفروخت کیلئے ان سے فرنچائیزز خرید رکھی ہیں جس کی وجہ سے آمدنی کا پانچ فیصد ان کمپنی مالکان کو جاتا ہے جو کہ یہودی و امریکی ہیں یا پھر کسی اور طریقہ سے اسرائیل کےحامی ہیں تو اگر کاروبار بند ہوتا ہے تو مسلمانوں کا کاروبار بھی بند ہوتا ہے۔
مفتی تقی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ فتوے کا سوال نہیں بلکہ اس مسئلہ کا تعلق غیرت ایمانی سے ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا ایک مسلمان کی غیرت یہ برداشت کرتی ہے کہ اس کی آمدنی کا ایک فیصد حصہ بھی مسلم امہ کے دشمنوں کو جائے اور خاص طور پر اس وقت جب امت مسلمہ حالت جنگ میں ہو اور ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا جا رہا ہو۔ مفتی صاحب نے کہا کہ یہ بات مسلمان کی ایمانی غیرت کے خلاف ہےکہ اس کی آمدنی سے کسی بھی طرح امت مسلمہ کے دشمنوں کو فائدہ پہنچے۔ اُنہوں نے ایک مثال سے اس مسئلہ کو مزید واضح کیا کہ کیا آپ ایسے آدمی کو اپنی آمدنی کا ایک فیصد بھی دینا گوارا کریں گے جو آپ کے والد کو قتل کرنے کی سازش کر رہا ہو۔ مفتی صاحب نے زور دیا کہ غیرت ایمانی کا تقاضہ ہے کہ ان مصنوعات اور فرنچائیزز کا مکمل بائیکاٹ کر کے اپنا کاروبار شروع کیا جائے۔ اسرائیلی و یہودی مصنوعات اور فرنچائیزز کے منافع سے خریدا گیا اسلحہ مظلوم فلسطینیوں کو شہید کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے، چھوٹے چھوے بچوں، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، کو بھی بے دردی سے مارا جا رہا ہے جس پر دنیا بھر کے لوگوں کا دل دکھا ہوا ہے۔
ایک عام مسلمان اسرائیل سے لڑ نہیں سکتا لیکن اُس کا کاروبار اور اُس کی معیشت کو بائیکاٹ کے ذریعے زبردست ٹھیس پہنچا کر بدلہ ضرور لے سکتا ہے۔ بائیکاٹ کا یہ سارا عمل پر امن ہونا چاہیے۔ میری تمام پاکستانیوں اور یہ کالم پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ اسرائیل سے بدلہ لینے میں بائیکاٹ کی اس مہم کو آگے بڑھائیں، اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں لیکن ہر حال میں پرامن رہیں اور کسی طور پر بھی پرتشدد نہ ہوں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Boycott Israel#Boycott Israel Products#Gaza#Gaza war#Israel#Middle East#Palestine#Palestine Conflict#Wars#World
2 notes
·
View notes
Text
ہوا کی آلودگی سے بچاؤ کے لئے: اہم احتیاطی تدابیر
New Post has been published on https://drashfaq.com/dr-ashfaq-tips/health-tips/786/
ہوا کی آلودگی سے بچاؤ کے لئے: اہم احتیاطی تدابیر
ہوا کی آلودگی سے بچاؤ کے لئے: اہم احتیاطی تدابیر
ہوا کی آلودگی ایک عالمی مسئلہ ہے جو ہماری صحت اور ماحول کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ آلودہ ہوا سانس کی بیماریوں، دل کی بیماریوں اور دیگر صحت کے مسائل ��ا باعث بنتی ہے۔ ہمیں ہوا کی آلودگی سے بچاؤ کے لئے کچھ اہم احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اور ہمارے پیارے محفوظ رہ سکیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم کس طرح ان تدابیر کو اپنی زندگی کا حصہ بنا سکتے ہیں۔ 1. ماسک کا استعمال: ماسک کا استعمال ہوا کی آلودگی سے بچاؤ کے لئے نہایت ضروری ہے۔ خاص طور پر ان دنوں میں جب آلودگی کی سطح زیادہ ہو، ماسک پہننے سے ہم نقصان دہ ذرات سے بچ سکتے ہیں۔ ماسک مختلف اقسام کے ہوتے ہیں، جن میں این 95 ماسک زیادہ مؤثر ثابت ہوتے ہیں کیونکہ یہ چھوٹے ذرات کو بھی فلٹر کر سکتے ہیں۔ 2. پودے لگائیں: پودے لگانے سے نہ صرف ہوا کی آلودگی کم ہوتی ہے بلکہ یہ ہمارے ماحول کو خوبصورت بھی بناتے ہیں۔ پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور آکسیجن فراہم کرتے ہیں جو ہماری صحت کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اپنے گھر کے آنگن، چھت، یا بالکنی میں پودے لگائیں اور اپنے ماحول کو بہتر بنائیں۔ چند مفید پودے جو ہوا کی آلودگی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، ان میں اسنیک پلانٹ، مانی پلنٹ، اور اسپائیڈر پلانٹ شامل ہیں۔ 3. گھر کی صفائی: گھر کی صفائی کا خاص خیال رکھیں تاکہ اندر کی ہوا صاف رہے۔ گرد وغبار کو کم کرنے کے لئے گھر کو باقاعدگی سے صاف کریں۔ ویکیوم کلینر کا استعمال کریں جو ہائی ایفیشینسی پارٹیکولیٹ ایئر (HEPA) فلٹر کے ساتھ ہو تاکہ گرد کے چھوٹے ذرات کو بھی صاف کیا جا سکے۔ گھر میں ایئر پیوریفائر کا استعمال بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے جو ہوا کو فلٹر کر کے صاف کرتی ہے۔ 4. گاڑیوں کی دیکھ بھال: گاڑیوں کی صحیح دیکھ بھال اور مرمت کا خیال رکھیں تاکہ وہ آلودگی نہ پھیلائیں۔ گاڑیوں کے انجن کی باقاعدگی سے دیکھ بھال کریں اور انہیں صاف ستھرا رکھیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں یا پیدل چلنے کی عادت ڈالیں تاکہ ہوا کی آلودگی کم ہو سکے۔ کار پولنگ کا رجحان بھی اختیار کریں تاکہ گاڑیوں کی تعداد کم ہو اور آلودگی کم ہو۔ 5. پلاسٹک کا کم استعمال: پلاسٹک کے استعمال کو کم کریں کیونکہ پلاسٹک کے جلانے سے نقصان دہ ذرات ہوا میں شامل ہوتے ہیں جو ہماری صحت کے لئے نقصان دہ ہیں۔ پلاسٹک کے بجائے متبادل مواد جیسے کپڑے کے تھیلے، کاغذ کے تھیلے اور دھاتی بوتلوں کا استعمال کریں۔ 6. گھریلو مصنوعات کا محتاط استعمال: گھریلو مصنوعات جیسے پینٹ، کلیننگ ایجنٹس، اور ایئر فریشنرز کا محتاط استعمال کریں کیونکہ ان میں موجود کیمیائی مادے ہوا کی آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔ ان مصنوعات کو کھلی جگہوں پر استعمال کریں اور استعمال کے دوران کھڑکیاں اور دروازے کھول کر رکھیں تاکہ ہوا کی روانی برقرار رہے۔ 7. فضلہ کی صحیح نکاسی: گھر کے فضلے کو صحیح طریقے سے نکاس کریں۔ ری سائیکلنگ کی عادت ڈالیں اور کچرے کو صحیح طریقے سے ٹھکانے لگائیں۔ کھانے پینے کی اشیاء کے فضلے کو الگ کریں اور کمپوستنگ کا طریقہ اختیار کریں تاکہ فضلہ کم ہو اور ہوا کی آلودگی میں کمی آئے۔ 8. پانی کی صفائی: پانی کی صفائی کا بھی خاص خیال رکھیں تاکہ ہوا کی آلودگی کم ہو سکے۔ پانی کے ذخیرے کو صاف رکھیں اور ان میں کسی بھی قسم کی گندگی یا فضلہ نہ ڈالیں۔ پانی کی صفائی کے لئے فلٹرز کا استعمال کریں تاکہ پانی صاف اور صحت مند رہے۔ آخر میں: ہوا کی آلودگی ایک سنگین مسئلہ ہے جس کا حل ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ ہمیں اپنی زندگی میں چند اہم احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں تاکہ ہم اور ہمارے پیارے صاف ہوا میں سانس لے سکیں۔ ماسک کا استعمال، پودے لگانا، گھر کی صفائی، گاڑیوں کی دیکھ بھال، پلاسٹک کا کم استعمال، گھریلو مصنوعات کا محتاط استعمال، فضلے کی صحیح نکاسی، اور پانی کی صفائی یہ سب اقدامات ہماری صحت اور ماحول کے لئے بے حد مفید ہیں۔
#Air Pollution#Air Quality Improvement#Anti-Pollution Strategies#Clean Air#Clean Air Campaign#Community Health#Eco-Friendly Practices#Environmental Protection#Face Mask#Green Living#Health Tips#Healthy Environment#Indoor Cleanliness#Planting Trees#Pollution Control#Preventive Measures#Public Health#Respiratory Health#Sustainable Living#Vehicle Maintenance
0 notes
Text
ایک اور بھارتی ریاست نے شادی بیاہ میں بیف کھانے پر پابندی لگادی
نئی دلی (ڈیلی پاکستان آن لائن) شمال مشرقی بھارتی ریاست آسام نے عوامی مقامات بشمول ریستورانوں اور شادی بیاہ سمیت دیگر تقریبات میں بیف کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ۔ بی بی سی کے مطابق وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے پابندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ پابندی اس سے پہلے کے قانون میں توسیع ہے، جو گائے کے گوشت کی مندروں کے قریب فروخت کی ممانعت کرتا ہے۔ ریاست میں گوشت کو دکانوں سے خریدا جا سکتا ہے اور…
0 notes
Text
زرعی ٹیکس
ساحرلدھیانوی نے کہا تھا زمیں نے کیا اِسی کارن اناج اگلا تھا؟ کہ نسل ِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے
چمن کو اس لئے مالی نے خوں سے سینچا تھا؟ کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
لگتا ہے یہی صورتحال پیدا ہونے والی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق زرعی ٹیکس کی وصولی کا کام شروع ہو جائے گا۔ پنجاب اسمبلی نے زرعی ٹیکس کا بل منظور کر لیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر نے اس کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ٹیکس پاکستان کے زرعی شعبہ کیلئے معاشی تباہی سے کم نہیں کیونکہ پاکستان ان زرعی ملکوں میں سے ہے جہاں کسان مسلسل بدحالی کا شکار ہیں۔ جہاں اکثر اوقات گندم باہر سے منگوا نی پڑ جاتی ہے۔ زراعت پہلے ہی تباہ تھی زرعی ٹیکس لگا کر اسے مزید تباہ کر دیا گیا ہے۔‘‘ پاکستان کسان اتحاد کے سربراہ کا کہنا ہے کہ زرعی ٹیکس کیخلاف ملک گیر احتجاج کا پلان ترتیب دے رہے ہیں۔ زراعت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، کچھ ممالک نے ایسی پالیسیاں اپنائی ہیں جو اس شعبے کو براہ راست ٹیکس سے مستثنیٰ کرتی ہیں، جن کا مقصد ترقی کو تیز کرنا، کسانوں کا تحفظ کرنا اور زرعی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ جیسے ہندوستان جہاں 1961 کے انکم ٹیکس ایکٹ کے تحت زراعت وفاقی انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔
یہ استثنیٰ تاریخی اور اقتصادی تحفظات پر مبنی ہے، جو ہندوستانی معیشت میں زراعت کی اہم شراکت کو تسلیم کرتا ہے۔ اگرچہ آئین کے تحت ریاستی حکومتوں کے پاس زرعی ٹیکس لگانے کا اختیار موجود ہے، لیکن زیادہ تر ریاستیں سیاسی اور عملی وجوہات کی بنا پر پر زرعی ٹیکس نہیں لگاتیں۔ ایک بار ہندوستان میں زرعی ٹیکس لگانے کی کوشش کی گئی تھی مگر اتنا خوفناک احتجاج ہوا تھا کہ حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑ گیا تھا۔ پاکستان میں زرعی ٹیکس اُس وقت تک نہیں لگایا جانا چاہئے تھا جب تک کسان کو اس قابل نہ کیا جاتا کہ وہ زرعی ٹیکس ادا کر سکے۔ اس زرعی ٹیکس سے یقیناً کھانے پینے کی اشیا اور مہنگی ہونگی۔ پہلے ہی پاکستان میں مہنگائی اپنے پورے عروج پر ہے۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے احتجاج میں کسان بھی شریک ہونے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ، جو اپنے جدید زرعی شعبے کیلئے جانا جاتا ہے، وہاں بھی زرعی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں بلکہ زرعی سرمایہ کاری، پائیداری کے منصوبوں اور اختراعات کیلئے اہم چھوٹ اور مراعات دی جاتی ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور قطر جیسے ممالک بھی زرعی ٹیکس عائد نہیں کرتے۔
یہ قومیں خوراک کی حفاظت پر توجہ مرکوز کرتی ہیں اور سبسڈی اور مراعات کے ذریعے کاشتکاری کے طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ کینیا، برما وغیرہ میں بھی زرعی ٹیکس نہیں ہے۔ وہ ممالک جو اپنے کسانوں کو بہت زیادہ سہولیات فراہم کرتے ہیں وہ ضرور ٹیکس لگاتے ہیں مگر دنیا بھرمیں سب سے کم شرح زرعی ٹیکس کی ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، جہاں اکثر کسان غیر مستحکم منڈیوں، غیر متوقع موسم، اور وسائل تک محدود رسائی کا سامنا کرتے ہیں۔ ٹیکس کی چھوٹ انہیں اپنی کاشتکاری کی سرگرمیوں میں دوبارہ سرمایہ کاری کرنے کیلئے مزید آمدنی برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ بہت سی حکومتیں خوراک کی پیداوار اور خود کفالت کو ترجیح دیتی ہیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ کسانوں پر ٹیکسوں کا زیادہ بوجھ نہ پڑے جس سے زرعی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔ ان ممالک میں جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ زرعی کام کرتا ہے، وہاں ٹیکس کی چھوٹ دیہی حلقوں کی معاش بہتر بنانے کا ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے۔
ٹیکس میں چھوٹ کسانوں کو کاشتکاری کے جدید طریقوں کو اپنانے، انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے اور پائیدار تکنیکوں کو اپنانے کی ترغیب دے سکتی ہے۔زرعی ٹیکس کی چھوٹ پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ حکومتیں ممکنہ ٹیکس ریونیو کو چھوڑ دیتی ہیں جسے عوامی خدمات کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ممالک میں، مالدار زمیندار یا بڑے زرعی ادارے ان چھوٹوں سے غیر متناسب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ٹیکس کی چھوٹ پر حد سے زیادہ انحصار بعض اوقات ناکارہ ہونے یا آمدنی کے تنوع کی حوصلہ شکنی کا باعث بن سکتا ہے۔ وہ ممالک جو زراعت کو ٹیکس سے مستثنیٰ رکھتے ہیں ان کا مقصد کاشتکاری کی سرگرمیوں کو فروغ دینا، خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانا اور دیہی معاش کی حمایت کرنا ہے۔ اگرچہ یہ پالیسیاں نیک نیتی پر مبنی ہیں، لیکن ان کی تاثیر کا انحصار مناسب نفاذ اور متعلقہ چیلنجوں سے نمٹنے پر ہے۔ اپنے زرعی شعبوں کو ترقی دینے کی کوشش کرنے والی قوموں کیلئے، وسیع تر اقتصادی مقاصد کے ساتھ ٹیکس مراعات میں توازن رکھنا بہت ضروری ہے مگر پاکستان میں زرعی ٹیکس صرف آئی ایم ایف کے دبائو میں لگایا گیا ہے۔
اگر حکومت سمجھتی ہے کہ یہ ٹیکس لگانا اس کی مجبوری تھی تو پھر اسے کسانوں کوفری مارکیٹ دینی چاہئے، انہیں بجلی اور ڈیزل کم قیمت پر ملنا چاہئے، کھاد، بیج اور کیڑے مار ادویات پر بھی سبسڈی فراہم کی جائے۔ باہر سے ہر قسم کے بیجوں کی درآمد پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔
منصور آفاق
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
میٹا نے کمپنی کی پرچی پر راشن خریدنے والے ملازمین کے ساتھ کیا کیا؟ حیران کن انکشاف
سکرامنٹو (ویب ڈیسک) فیس بک کی پیرنٹ کمپنی میٹا نے فوڈ واؤچرز کے غلط استعمال پر 24 ملازمین کو برطرف کردیا ہے۔ یہ ملازمین کمپنی کی طرف سے کھانے پینے کے لیے دیے جانے والے واؤچرز سے چائے کی پٹی، ڈیٹرجنٹ پاؤڈر اور دیگر چھوٹی موٹی اشیا خریدتے پائے گئے تھے۔ ادارے کی میل کریڈٹ پالیسی کے تحت دفتر کی حدود میں کھانے پینے کے لیے 25 ڈالر کے واؤچر دیے جاتے ہیں۔ فائنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق بعض ملازمین…
0 notes
Photo
محض خوشبو سونگھنے اورناک میں دوائی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا سوال ۴۲۱: روزہ دار کے خوشبو سونگھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :روزہ دار کے لیے خوشبو سونگھنے میں کوئی حرج نہیں، خوشبو خواہ تیل کی صورت میں ہو یا بخور کی صورت میں۔ اگر بخور کی صورت میں ہو تو اس کے دھوئیں کو نہ سونگھیں کیونکہ دھوئیں میں ذرات ہوتے ہیں، جو پیٹ تک پہنچ جاتے ہیں، جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ پانی اور اس کے مشابہ دیگر چیزوں کے پیٹ میں پہنچ جانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ناک میں کھینچے بغیر محض خوشبو کے سونگھنے میں کوئی حرج نہیں۔ سوال ۴۲۲: خوشبو کا دھواں سونگھنے اور ناک میں دوائی کا قطرہ ڈالنے میں یہ فرق کیوں ہے کہ پہلی صورت میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور دوسری صورت میں روزہ نہیں ٹوٹتا؟ جواب :دونوں میں فرق یہ ہے کہ خوشبو کے دھوئیں کو ناک سے کھینچا ہے، وہ گویا اسے قصد وارادے سے اپنے پیٹ میں داخل کر رہا ہے لیکن جو دوائی کا قطرہ ناک میں ڈالتا ہے اس سے اس کا قصد اسے پیٹ تک پہنچانا نہیں، اس کا مقصد صرف ناک کے نتھنے میں دوائی کا قطرہ ڈالنا ہے۔ سوال ۴۲۳: روزہ دار کے لیے ناک، آنکھ اور کان میں دوائی کا قطرہ ڈالنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :ناک میں ڈالے جانے والا قطرہ اگر معدہ تک پہنچ جائے، تو اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ حدیث حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا: ((بَالِغْ فِی الْاِسْتِنْشَاقِ اِلاَّ اَنْ تَکُوْنَ صَائِمًا))( سنن ابی داود، الطہارۃ، باب فی الاستنثار، ح: ۱۴۲ وسنن النسائی الطہارۃ، باب المبالغۃ فی الاسستنشاق، ح: ۸۷۔) ’’ناک میں پانی چڑھانے میں خوب مبالغے سے کام لو اِلاَّ یہ کہ تم روزہ دار ہو۔‘‘ لہٰذا روزہ دار کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ناک میں ایسا قطرہ ڈالے جو اس کے معدے تک پہنچ جائے اور ناک میں ڈالے جانے والا دوائی کا جو قطرہ معدے تک نہ پہنچے، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ آنکھ میں ڈالنے والے قطرے، سرمہ لگانے اور کان میں ڈالے جانے والے قطرے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ اس کے بارے میں کوئی نص نہیں ہے اور نہ یہ منصوص علیہ کے معنی میں ہے۔ آنکھ کھانے پینے کا راستہ نہیں ہے، اسی طرح کان بھی جسم کے دیگر مساموں کی طرح ہے۔ اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص پاؤں کی اندرونی جانب کوئی چیز لگائے اور وہ اپنے گلے میں اس کا ذائقہ محسوس کرے، تو اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ یہ بھی کھانے پینے کا راستہ نہیں ہے، لہٰذا جو شخص آنکھ میں سرمہ ڈال لے یا آنکھ میں دوائی کا قطرہ ڈال لے یا کان میں قطرہ ڈال لے تو اس سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا خواہ وہ اس کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے۔ اسی طرح اگر کوئی انسان علاج کے لیے یا بغیر علاج کے تیل استعمال کرے، تو اس کے روزے کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اسی طرح اگر کوئی دمہ کا بیمار ہو اور وہ سانس میں آسانی کے لیے ان ہیلر استعمال کر لے، تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ اس سے دوائی کے اجزا معدے تک نہیں پہنچتے، لہٰذا وہ کھانے یا پینے والا شمار نہیں ہوگا۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۳۸۸، ۳۸۹ ) #FAI00342 ID: FAI00342 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
Please see Attachment
بہ تسلیمات نظامت اعلی تعلقات عامہ پنجاب
لاہور،فون نمبر 99201390
عظمی زبیر/آصف
ہینڈ آؤٹ نمبر1067
لاہور،18 اپریل:وزیراعلی پنجاب مریم نوازشریف نے 22 اپریل کو’’ارتھ ڈے“2024 کے موقع پر اہم ماحول دوست اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔پنجاب بھرمیں ڈویژن اور ضلع کی سطح پر ”ارتھ ڈے“منایاجائے گااور ’پلاسٹک کو ناں‘(No to Plastic)مہم کا آغاز ہوگا۔اس حوالے سے 5 جون سے پنجاب بھر میں پلاسٹک تھیلوں کے استعمال پر پابندی کی وزیراعلی پنجاب نے منظوری دے دی ہے۔
ان خیالات کا اظہار سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے وزیراعلی پنجاب کے ماحول دوست وژن کے تحت اقدامات پر عمل درآمدکے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ مہم کا مقصدپلاسٹک سے ہونے والی جان لیوا بیماریوں اور ماحولیاتی آلودگی سے متعلق عوام کو آگاہ کرنا ہے۔ سینئروزیر نے ہدایت کی کہ پولیتھین بیگز کی تیاری، ترسیل اور استعمال پر مکمل پابندی یقینی بنائی جائے کیونکہ پلاسٹک بیگز کو تلف کرنے اور آگ لگانے سے ماحول کو سنگین نقصان پہنچتا ہے اور سانس کی تکلیف اور دیگر جان لیوا بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سربراہان اپنے اداروں اورڈپٹی کمشنرز اپنے اپنے اضلاع میں پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی یقینی بنائیں گے۔ تعلیمی اداروں میں خصوصی لیکچرز اور تربیتی ورکشاپس منعقد ہوں گی اور انسانی صحت کو پلاسٹک سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کیاجائے گا۔اجلاس کو بتایا گیا کہ ارتھ ڈے پر”نو ٹو پلاسٹک‘‘کے پیغامات جاری ہوں گے،ذرائع اور سوشل میڈیا پرخصوصی آگاہی مہم چلے گی۔ مریم اورنگزیب نے اپیل کی کہ عوام کینسر سے بچاؤکے لئے پلاسٹک بیگ کی بجائے کپڑے اور کاغذ کے تھیلے استعمال کریں - اسی طرح دکاندار، شاپنگ مالز، ریستوران اور تندورمالکان پلاسٹک بیگز کی بجائے استعمال نہ کرنے کی مہم کا ساتھ دیں اور انسانی صحت کو بہتر بنانے اور سموگ کے خاتمے میں اپنا حصہ ڈالیں۔عوام اپنے گھروں میں بھی پلاسٹک بیگز اور پلاسٹک کے کھانے پینے کے برتنوں کو استعمال نہ کریں تا کہ ان کی صحت بحال رہے۔
سینئر وزیر نے کہا کہ ماحول اور انسانی صحت کیلئے اس اہم مسئلے کو اجاگر کرنے میں میڈیا اپنا کردار ادا کرے کیونکہ شہریوں اور میڈیا کے تعاون کے بغیر یہ مہم کامیاب نہیں ہوسکتی۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کی ہدایت کے مطابق 5 جون ڈیڈ لائن ہے جس کے بعد پلاسٹک بیگز کے استعمال پر مکمل پابندی ہوگی۔ چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان کے علاوہ تمام ڈپٹی کمشنرز ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے۔
٭٭٭٭
بہ تسلیمات نظامت اعلی تعلقات عامہ پنجاب
لاہور،فون نمبر 99201390
ڈی این/آصف
ہینڈ آؤٹ نمبر1068
محتسب پنجاب میجر (ر)اعظم سلیمان خان کے حکم پر 13درخواست گزاران کو 1 کروڑ 36لاکھ سے زائد کے واجبات کی ادائیگی
لاہور، اپریل 18: محتسب پنجاب میجر (ر)اعظم سلیمان خان کی ہدایت پرڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر، چیف ایگزیکٹیو آفیسر، ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی، میونسپل کارپوریشن، چیف انجینئر(سنٹرل زون)، بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ، ریسکیو1122اور چیئرمین ضلعی بہبود فنڈ بورڈ نے مختلف درخواست گزار افراد کے 1کروڑ 36لاکھ سے زائد کے واجبات ادا کر دیئے ہیں۔
آج یہاں جاری ایک بیان میں ترجمان نے بتایا کہ مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے 13درخواست گزار فرادنے دفتر محتسب پنجاب کو درخواستیں دیں کہ انہوں نے فیملی پنشن، ماہانہ امداد اور زیر التواء واجبات حاصل کرنے کیلئے متعدد بار متعلقہ اداروں سے رابطہ کیا مگرانہیں ابھی تک واجبات ادا نہیں کئے گئے- محتسب پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان خان کی ہدایت پر متعلقہ اداروں نے سائلین کو ان کے زیر التواء واجبات ادا کر دیئے ہیں جس پر درخواست افراد نے قانونی حق کی فراہمی پر دفتر محتسب پنجاب کا شکریہ ادا کیا ہے -
٭٭٭٭٭
ho1067-1068.gifho1067-1068.gif002.gif
0 notes
Text
سندھ میں الیکشن ڈیوٹی پر مامورسکیورٹی اہلکاروں کے کھانے پر 21 کروڑ سے زیادہ خرچ ہوں گے
سندھ کابینہ نے عام انتخابات کے دوران امن و امان قائم رکھنے کے لیے باسٹھ کروڑ چوون لاکھ روپے فنڈز کی منظوری دے دی۔ فنڈز کی رقم الیکشن کے دوران استعمال ہونے والی گاڑیوں کے کرایے، ایندھن، مرمت، کھانے اور اسٹیشنری کی مد میں خرچ کی جائے گی۔ سندھ کابینہ کا اجلاس نگران وزیر اعلی سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں کابینہ نے عام انتخابات کے دوران امن و امان قائم رکھنے کے لیے ہونے والے…
View On WordPress
0 notes
Text
جانوروں کی فلاح و بہبود اور ویگنزم کا عروج: ایک عالمی تناظر
تعارف
جانوروں کی فلاح و بہبود تیزی سے دنیا بھر میں بحث کا ایک اہم موضوع بن گیا ہے، زیادہ سے زیادہ افراد ایک ہمدرد اور پائیدار طرز زندگی کو فروغ دینے کے طریقے کے طور پر ویگنزم کو اپنا رہے ہیں۔ ویگنزم، جس میں پودوں پر مبنی خوراک اور جانوروں سے حاصل کی جانے والی تمام مصنوعات سے اجتناب شامل ہے، کا مقصد جانوروں پر ہونے والے ظلم کا مقابلہ کرنا، ماحول کی حفاظت کرنا اور انسانی صحت کو بہتر بنانا ہے۔ اس مضمون کی بڑھتی ہوئی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جانوروں کی فلاح و بہبود اور ویگنزم.
جانوروں کی بہبود کا تحفظ
جانوروں کی فلاح و بہبود سے مراد جانوروں کی صحت اور معیار زندگی ہے، جس میں مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے جیسے کہ رہائش کے حالات، خوراک اور پانی تک رسائی، تکلیف سے آزادی، اور درد اور تکلیف سے بچنا۔ جانوروں کی بہبود کے حامی اس بات کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ جانوروں کے ساتھ احترام اور مہربانی کے ساتھ برتاؤ کیا جائے۔ تاہم، جانوروں کی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے، کھیتی باڑی کے سخت طریقے رائج ہو گئے ہیں، جس کے نتیجے میں جانوروں کے ساتھ بدسلوکی اور بدسلوکی ہوتی ہے۔
بہت سے لوگ ویگن طرز زندگی کو اپنانے کا انتخاب کرنے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک خوراک کی صنعت میں جانوروں کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک کے خلاف احتجاج کرنا ہے۔ جانوروں کو چھوٹی جگہوں پر قید کرنا، پیداوار کے ظالمانہ طریقوں کا استعمال، اور ان کی جذباتی اور ذہنی ضروریات پر غور نہ کرنا اہم خدشات ہیں۔ ان صنعتوں میں حصہ نہ لینے کا انتخاب کرکے، ویگنز جانوروں کی فلاح و بہبود کے مسائل کے بارے میں بیداری پیدا کرنے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دینے کے لیے فعال طور پر کام کرتے ہیں۔
ماحولیاتی پائیداری
جانوروں کی زراعت کی صنعت ماحولیاتی انحطاط میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مویشیوں کی پیداوار عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا تقریباً 14.5 فیصد بنتی ہے، جو اسے موسمیاتی تبدیلی کا ایک اہم محرک بناتی ہے۔ مزید برآں، صنعت پانی اور زمین کا بہت زیادہ استعمال کرتی ہے، جس سے جنگلات کی کٹائی، صحرائی اور پانی کی کمی ہوتی ہے۔ کھاد، کیڑے مار ادویات اور کھادوں کی وجہ سے ہونے والی آلودگی انتہائی کھیتی باڑی کے طریقوں میں استعمال ہونے والے ماحولیاتی انحطاط کو مزید بڑھاتی ہے۔
ویگن جانوروں کی زراعت اور ماحولیاتی تباہی کے درمیان تعلق کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کی خوراک سے جانوروں کی مصنوعات کو ختم کرکے، وہ اپنے کاربن فوٹ پرنٹ کو کم کرتے ہیں، پانی کو بچاتے ہیں، اور قیمتی ماحولیاتی نظام کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ پودوں پر مبنی طرز زندگی خوراک کی پیداوار کے لیے ایک زیادہ پائیدار اور ماحولیات کے بارے میں شعور رکھنے والے نقطہ نظر کی حمایت کرتا ہے، جو انسانوں اور جانوروں دونوں کے لیے ایک صحت مند سیارے کے لیے کام کرتا ہے۔
اخلاقیات اور ہمدردی
بنیادی اصول جو ویگنزم کو تقویت دیتے ہیں ان کی جڑیں اخلاقیات اور ہمدردی میں ہیں۔ یہ عقیدہ کہ جانوروں کو نقصان اور استحصال سے آزاد زندگی گزارنے کا حق ہے اس فلسفے کا مرکز ہے۔ جانوروں کے استحصال پر بنائی گئی پوری صنعتیں، جیسے فیکٹری فارمنگ، کھال کی پیداوار، اور جانوروں کی جانچ، ان اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی۔
ویگنزم فعال طور پر جانوروں کے اعتراض اور اجناس کو چیلنج کرتا ہے اور سماجی رویوں میں تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے کہ جانوروں کو جذباتی مخلوق کے طور پر دیکھنے کے لیے جو احترام اور غور و فکر کے مستحق ہیں۔ یہ اخلاقی نقطہ نظر کھانے کے انتخاب سے آگے بڑھتا ہے، طرز زندگی کے فیصلوں جیسے کہ لباس، کاسمیٹکس، اور تفریح کو متاثر کرتا ہے۔ ویگنزم کو اپنانے سے، افراد اپنے اعمال کو اپنے اخلاقی عقائد کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں اور ایک زیادہ ہمدرد دنیا کے لیے کوشش کرتے ہیں۔
صحت کے فوائد
اخلاقی اور ماحولیاتی وجوہات کے ساتھ ساتھ، ویگنزم ممکنہ صحت کے فوائد کی ایک حد پیش کرتا ہے۔ ایک اچھی طرح سے پلانٹ پر مبنی خوراک تمام ضروری غذائی اجزاء فراہم کر سکتی ہے جب کہ دائمی بیماریوں جیسے دل کی بیماری، قسم 2 ذیابیطس، اور کینسر کی بعض اقسام کے خطرے کو کم کرتی ہے۔ ویگن غذا عام طور پر فائبر، وٹامنز اور معدنیات سے بھرپور ہوتی ہے اور سیر شدہ چکنائی اور کولیسٹرول کی مقدار کم ہوتی ہے۔ نتیجے کے طور پر، بہت سے لوگ اپنی مجموعی صحت اور تندرستی کو بہتر بنانے کے لیے ویگنزم کو اپناتے ہیں۔
نتیجہ
جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے بڑھتی ہوئی تشویش، جانوروں کی زراعت کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں بڑھتی ہوئی بیداری کے ساتھ، طرز زندگی کے انتخاب کے طور پر ویگنزم کے عروج کو ہوا دی ہے۔ ویگنز زیادہ ہمدرد اور پائیدار دنیا کے لیے فعال طور پر کام کرتے ہیں، جانوروں کے ساتھ بدسلوکی کو بے نقاب کرتے ہیں اور ان کے ماحولیاتی اثرات کو کم کرتے ہیں۔ جیسے جیسے زیادہ افراد ویگنزم کو اپناتے ہیں، تحریک تیز ہوتی جاتی ہے، جس سے جانوروں کی بہبود کے مسائل اور پودوں پر مبنی طرز زندگی کے فوائد کو عالمی بحث میں سب سے آگے لایا جاتا ہے۔
0 notes
Text
ایک ماہ ادرک کھانے سے کیا فائدہ ہوگا؟
ماہرین نے کہا ہے کہ ادرک ایک مقبول جڑی بوٹی ہے جسے نہ صرف کھانے میں ذائقہ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ اس کے صحت بخش فوائد کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ اگر آپ ایک ماہ تک باقاعدگی سے ادرک کھایا جائے تو صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ماہرین نے کہاکہ ادرک معدے کی حرکات کو بہتر بناتا ہے، جس سے متلی، الٹی، اور بدہضمی جیسے مسائل کم ہو سکتے ہیں۔ادرک میں موجود اینٹی آکسیڈینٹس اور اینٹی انفلامیٹری…
0 notes
Text
صحت مند رہنے کے رہنما اصول
صحت مند رہنا ایک خواب ہے، جو کہ ہر کسی کی آنکھوں میں سجا رہتا ہے۔ کیوں کہ صحت ایک ایسی نعمت خداوندی ہے جس سے انسان اپنے روزمرہ کے ک��م بخوبی سر انجام دے سکتا ہے۔ وہ جو ضرب المثل مشہور ہے کہ ’’اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں‘‘۔ اسی طرح ایک بیمار آدمی بھی صحت کی خواہش رکھتا ہے۔ آج اگر ہم دیکھیں تو ہمارے اسپتال بیمار لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہر دوسرا انسان کسی نہ کسی مرض میں مبتلا نظر آتا ہے۔ مسجدوں میں جائیں تو ہر نماز کے بعد امام صاحب کی آواز گونجتی ہے کہ بیماروں کے لیے دعا کیجئے۔ آخر کیا وجہ ہے اتنی دعاؤں، دواؤں اور سائنس کی ترقی کے باوجود بھی بیماریاں ہیں کہ بڑھتی جارہی ہیں؟ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے، مگر میں آج کچھ ایسے طریقے بیان کرنا چاہ رہا ہوں جن کی مدد سے آپ خود کو صرف چند دنوں میں سست اور بیمار زندگی سے تندرست و توانا زندگی کی طرف لے کر جاسکتے ہیں۔ صحت و تندرستی ایک حساس موضوع ہے اور ہم بحیثیت قوم ایسے ہیں کہ اگر کوئی ڈاکٹر ملے تو سب بیمار بن جاتے ہیں اور اگر کوئی اپنی بیماری بتا بیٹھے تو ہم سب اسی وقت ایک ماہر ڈاکٹر بن جاتے ہیں اور اسے متضاد غذاؤں کے ساتھ دیسی ٹوٹکے بھی عنایت کردینا عین ثواب سمجھتے ہیں۔ چاہے اس کے نتائج کا ہمیں قطعاً علم بھی نہ ہو۔
ماہرین صحت کے مطابق حسب ذیل بنیادی طریقوں سے کافی حد تک صحت مند زندگی کو اپنایا جاسکتا ہے۔ صرف دس دن میں آپ کو اپنی صحت میں بدلاؤ نظر آئے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ صحت اور تندرستی کو تبدیل کرنے کےلیے بہت سارے آسان طریقے ہیں، جو آپ فوری طور پر استعمال کرنا شروع کرسکتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
1۔ کھانا ذائقہ حاصل کرنے یا مزے لینے کےلیے مت کھاؤ، بلکہ اسے بطور رزق کھاؤ۔ یعنی جینے کےلیے کھاؤ نہ کہ کھانے کےلیے جیو۔ جب آپ ذائقہ حاصل کرنے کےلیے کھاتے ہیں تو آپ وہ غذا بھی لے لیتے ہیں جو آپ کی صحت کےلیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ لہٰذا توانائی کےلیے کھانے کی کوشش کیجئے۔ 2۔ روزانہ کی بنیاد پر کچھ دیر کی چہل قدمی ضرور کیجئے۔ کیوں کہ پیدل چلنے سے آپ کے جسم میں موجود اضافی کیلوریز جلتی ہیں۔ اور اس پر بھی کوئی پابندی نہیں کہ آپ نے صرف چلنا ہی ہے بلکہ آپ کو اگر چلنا پسند نہیں تو بھی آپ اپنی پسند کا کوئی بھی کھیل کھیل سکتے ہیں، جیسا کہ ٹینس، کرکٹ، باسکٹ بال، ہاکی وغیرہ۔ 3۔ شوگر ڈرنکس سے پرہیز کیجئے۔ تازہ پھلوں کا جوس پیجئے اور وہ جوس بھی اپنے گھر میں خود تیار کیجئے۔ بہت زیادہ پانی بھی پیجئے۔
4۔ گوشت کے بجائے سبزی کا ��یادہ استعمال کیجئے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ڈاکٹر جب بھی پرہیز بتاتے ہیں تو سبزیوں کے علاوہ ہر چیز کا بتاتے ہیں۔ ہر بیماری کی نوعیت کے اعتبار سے کہ چاول نہیں کھانے یا دودھ نہیں لینا، بڑا گوشت نہیں کھانا، تلی ہوئی کوئی چیز نہیں کھانی یا فلاں پھل نہیں کھانا۔ مگر کسی بھی بیماری میں کوئی بھی سبزی منع نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ وزن کم کرنے کےلیے بھی گوشت چھوڑ کر سبزی کا استعمال بہترین حل ہے۔ آپ کو سبزی خور بننے کی ضرورت نہیں مگر گوشت کے بجائے سبزی کو اہمیت دیجئے۔ 5۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں صرف ایک آیت میں صحت مند زندگی کا ایسا رہنما اصول بتا دیا ہے کہ اس پر عمل ہمیں بہت سی پیچیدگیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: یا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿الاعراف: 31﴾ ’’اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
پانچ وقت کی نماز، مسواک کرنا، وضو کے لیے اپنے اعضا کا پانی سے دھونا، اپنے آپ کو صاف رکھنا، خوشبو لگانا، اپنے معدے کے تین حصے کر کے ایک حصہ کھانا، ایک حصہ پانی پینا اور ایک حصہ خالی رکھنا عین صحت مند زندگی کے ایسے رہنما اصول ہیں کہ اگر صرف ان کو ہی اپنا لیا جائے تو آپ ایک تندرست زندگی گزار سکتے ہیں۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
اسرائیل عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں
2023 فلسطینیوں کیلئے بدترین سال ثابت ہوا اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت سال کے آخری دن تک جاری رہی، جس میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 23 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ اس دوران غزہ اسرائیل جنگ بندی کی تمام تر کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں اور امریکہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق استعمال کر کے اسرائیل کا ساتھ دیتا رہا جس سے ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں بھی غزہ اسرائیل جنگ بندی کا کوئی امکان نہیں۔ اسرائیلی فوج کا ترجمان پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ غزہ جنگ 2024ء میں بھی جاری رہے گی اور اسرائیل بہت جلد غزہ کا سیکورٹی کنٹرول سنبھال لے گا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل پر 5 مستقل ارکان کا غلبہ ہے اور یہ کونسل اُس وقت تک کوئی ایکشن نہیں لے سکتی جب تک مستقل ارکان کسی قرارداد پر متفق نہ ہوں۔ ان مستقل ارکان میں شامل امریکہ، فرانس اور برطانیہ حماس، اسرائیل جنگ بندی کیلئے آمادہ نہیں اور ان ممالک میں سے کوئی ایک ملک بھی جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کر دیتا ہے تو قرارداد بے معنی ہو جاتی ہے۔ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے یہ صاف ظاہر ہے کہ صہیونی ریاست کا ہدف غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کر کے یہاں یہودی بستیاں بسانا ہے اور اس سازش میں امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک بھی شامل ہیں۔
ایسی صورتحال میں اسرائیل عالمی تنہائی کے باوجود امریکی تعاون کے بل بوتے پر غزہ پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے اور جنگ کو طول دینے کیلئے امریکہ نے گزشتہ دنوں اسرائیل کو 150 ملین ڈالر کا گولہ بارود اور فوجی ساز و سامان سپلائی کرنے کی منظوری دی ہے تاکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رہے لیکن امریکی اشیرباد کے باوجود اسرائیل کے پاس اب تک ایسا کوئی پلان نہیں کہ وہ حماس کو کس طرح ختم کرے جسکے سیاسی و نظریاتی رابطے صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ہیں۔ ایسے میں جب غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے، یہ امر قابل ستائش ہے کہ جنوبی افریقہ نے غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کیا ہے جس میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسرائیل کا مقصد فلسطینی قوم اور نسل کو تباہ کرنا ہے۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ فلسطینیوں کیلئے اسرائیلی پالیسیاں نسل کشی کے مترادف ہیں تاہم اسرائیلی وزیر خارجہ نے جنوبی افریقہ کے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
یاد رہے کہ ماضی میں بوسنیا جنگ کے دوران مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم اور نسل کشی کے مجرم یوگوسلاویا کے سابق جرنیل 72 سالہ سلوبودان پرالجک کو عالمی عدالت انصاف نے بوسنیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے مجرم قرار دیا تھا اور اسے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ سلوبودان پرالجک کے خلاف بوسنیا جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ زیر سماعت تھا اور عالمی عدالت کی جانب سے عمر قید کی سزا سنائے جانے کے بعد اس نے عدالت میں ہی زہر پی کر خود کشی کرلی تھی۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ کسی اسلامی ملک نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر نہیں کیا اور یہ مقدمہ ایک غیر اسلامی ملک کی طرف سے دائر کیا گیا ہے۔ غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی پر اسلامی ممالک اور ان کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے بالکل خاموشی اختیار کر رکھی ہے کیونکہ تنظیم میں شامل کئی ممالک امریکی، یورپی دباؤ اور اسرائیل سے اپنے تجارتی مفادات کے باعث آواز یا کوئی سخت ایکشن لینے کے حق میں نہیں تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ مسلمان ممالک کے عوام اسرائیل کے خلاف کھل کر سامنے آگئےہیں اور انفرادی طور پر مسلمانوں کی جانب سے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ ایک اچھی حکمت عملی ثابت ہوئی ہے جس سے امریکہ اور اسرائیل کی معیشت کو کافی دھچکا لگا ہے اور انکی کمپنیوں کی مصنوعات کی سیلز آدھے سے زیادہ گرچکی ہیں۔
میرے خاندان کے کچھ چھوٹے بچوں نے بھی اسرائیلی کمپنیوں کی اشیاء کھانے سے انکار کر دیا ہے اور واضح کر دیا ہے کہ وہ اس کمپنی کی اشیاء استعمال نہیں کریں گے جن کا تعلق اسرائیل سے ہو۔ اسی طرح دوسرے اسلامی ممالک بالخصوص مراکو جہاں گزشتہ دنوں وزٹ پر گیا تھا، وہاں پہلے غیر ملکی فاسٹ فوڈ کے حصول کیلئے قطاریں لگی ہوتی تھیں مگر آج وہ ویران ہیں۔ اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو فلسطینی عوام کسی قسم کی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کے پاس اتنے جنگی وسائل نہیں کہ وہ اسرائیل جیسی قوت، جس کا امریکہ ساتھ دے رہا ہے، کا مقابلہ کر سکیں جبکہ فلسطینیوں کے پاس کوئی باقاعدہ فوج بھی نہیں اور نہ ہی وہ اسرائیل کی طرح جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اسرائیلی بمباری سے غزہ مکمل تباہ و برباد ہو چکا ہے جبکہ دیگر فلسطینی علاقے بھی بمباری کے نتیجے میں تباہ ہو رہے ہیں اور ان علاقوں کے فلسطینی عوام ترک وطن پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گونتویریس نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل کی یہ کوشش ہے کہ غزہ کی صورتحال اس قدر بگڑ جائے کہ وہاں سے بڑے پیمانے پر فلسطینی سرحد پار نقل مکانی کر جائیں تاکہ اسرائیل فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری کے منصوبے میں کامیاب ہوسکے۔
اسرائیلی جارحیت نے غزہ کو اسرائیل کے خلاف جہاد کیلئے ایک زرخیز زمین (Breeding Ground) بنا دیا ہے جہاں شہداء کے لواحقین جوق درجوق حماس کا حصہ بن رہے ہیں اور 23 ہزار شہید فلسطینیوں کے خاندان کے افراد اپنے پیاروں کی شہادت کا بدلہ لینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ اس طرح مستقبل میں اسرائیل کے خلاف جنگ گوریلا وار میں تبدیل ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل، فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری کر کے یہ سوچ رہا ہے کہ وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو جائے گا مگر وہ یہ بھول گیا ہے کہ مستقبل میں اِن 23 ہزار شہداء کے خاندان کے بچےاپنے پیاروں کے قاتل اسرائیل سے قتل کے انتقام کا جذبہ لے کر جوان ہونگے اور اِس طرح اسرائیل کے خلاف جنگ ہمیشہ جاری رہے گی اور اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضے کا خواب کبھی پورا نہ ہو گا۔
مرزا اشتیاق بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
دماغی کارکردگی کو کم کرنے والی چند غذائیں: ان سے بچنے کے اہم نکات
New Post has been published on https://drashfaq.com/dr-ashfaq-tips/health-tips/799/
دماغی کارکردگی کو کم کرنے والی چند غذائیں: ان سے بچنے کے اہم نکات
دماغی کارکردگی کو کم کرنے والی چند غذائیں: ان سے بچنے کے اہم نکات
دماغی کارکردگی ہماری روزمرہ زندگی میں نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ ہمارا دماغ مختلف غذاؤں سے توانائی حاصل کرتا ہے اور اس کی صحت مندانہ کارکردگی کے لئے متوازن غذا ضروری ہے۔ بعض غذائیں اور عادات ایسی ہیں جو دماغی کارکردگی کو کم کرتی ہیں اور ہمیں ان سے بچنے کی ضرورت ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کون سی غذائیں اور عادات ہماری دماغی کارکردگی کو نقصان پہنچاتی ہیں اور ان سے بچاؤ کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے۔ 1. زیادہ میٹھا کھانا: زیادہ میٹھا کھانا دماغی صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔ میٹھے میں شامل چینی دماغی کارکردگی کو کم کرتی ہے اور یادداشت پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ زیادہ چینی کھانے سے دماغ کی نشونما میں خلل پیدا ہوتا ہے اور ذہنی تناؤ بڑھتا ہے۔ اس کے علاوہ، میٹھے میں شامل شکر جسم کی توانائی کو جلدی ختم کرتی ہے جس سے جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ بچاؤ کے لئے نکات: – میٹھے کی مقدار کو کم کریں۔ – مصنوعی مٹھاس کا استعمال کم کریں۔ – صحت مند متبادل جیسے پھل، خشک میوہ جات اور ہنی کا استعمال کریں۔ 2. غیر ضروری اور منفی سوچ: غیر ضروری اور منفی سوچ دماغی کارکردگی کو کم کرتی ہے۔ منفی سوچ سے دماغی تناؤ بڑھتا ہے اور دماغی خلیوں کی نشونما متاثر ہوتی ہے۔ منفی سوچ دماغی سکون کو بھی کم کرتی ہے اور یادداشت پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ بچاؤ کے لئے نکات: – مثبت سوچ کو اپنائیں۔ – مراقبہ اور یوگا کی عادت ڈالیں۔ – خود کو مصروف رکھیں اور منفی خیالات سے بچیں۔ 3. تمباکو نوشی: تمباکو نوشی دماغی صحت کے لئے بے حد نقصان دہ ہے۔ سگریٹ میں موجود نیکوٹین دماغی خلیوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور دماغی کارکردگی کو کم کرتی ہے۔ تمباکو نوشی سے یادداشت پر منفی اثر پڑتا ہے اور دماغی تناؤ بڑھتا ہے۔ بچاؤ کے لئے نکات: – تمباکو نوشی ترک کریں۔ – نیکوٹین کی مقدار کو کم کریں۔ – صحت مند عادات جیسے ورزش اور صحت مند غذا کو اپنائیں۔ 4. نیند کی کمی: نیند کی کمی دماغی صحت کے لئے بے حد نقصان دہ ہے۔ مناسب نیند نہ لینے سے دماغی کارکردگی کم ہوتی ہے اور یادداشت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ نیند کی کمی سے دماغی خلیوں کی نشونما متاثر ہوتی ہے اور دماغی تناؤ بڑھتا ہے۔ بچاؤ کے لئے نکات: – روزانہ 7-8 گھنٹے کی نیند لیں۔ – نیند کا باقاعدہ معمول بنائیں۔ – سونے سے پہلے سکون آور سرگرمیاں جیسے مطالعہ یا مراقبہ کریں۔ دیگر اہم نکات: 1. متوازن غذا: متوازن غذا کا استعمال دماغی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔ اپنی غذا میں مختلف وٹامنز، معدنیات، اور پروٹینز کو شامل کریں۔ 2. ورزش: باقاعدگی سے ورزش کرنے سے دماغی صحت بہتر ہوتی ہے۔ ورزش دماغی خلیوں کی نشونما میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ 3. پانی کا زیادہ استعمال: پانی زیادہ پئیں تاکہ جسم ہائیڈریٹ رہے اور دماغی کارکردگی بہتر رہے۔ 4. تناؤ کو کم کریں: ذہنی تناؤ کو کم کرنے کے لئے مراقبہ، یوگا اور گہرے سانس لینے کی عادت ڈالیں۔ آخر میں: دماغی کارکردگی کو بہتر رکھنے کے لئے صحت مند غذا اور مثبت عادات کا اپنانا بے حد ضروری ہے۔ زیادہ میٹھا کھانا، غیر ضروری اور منفی سوچ، تمباکو نوشی، اور نیند کی کمی دماغی صحت کے لئے نقصان دہ ہیں۔ ان عادات سے بچنے کے لئے چند اہم نکات پر عمل کریں اور اپنی زندگی کو بہتر بنائیں۔
#balanced diet#Brain Function#Brain Performance#Cognitive Decline#Diet Tips#Fitness Tips#Health Awareness#Health Tips#healthy living#Impairing Foods#Lifestyle Change#Mental Health#mental wellness#Negative Thinking#Positive Thinking#Sleep Deprivation#Smoking Impact#Sweet Consumption#Unhealthy Habits#Wellness Advice
0 notes
Text
کیاافطار میں کھجور ذیابطس کے مریض کیلئے خطرناک ہے؟
(ویب ڈیسک)ذیابیطس ایک ایسی بیماری ہے جس میں میٹھا کھانا نقصان دہ ہے، لیکن یہاں اہم بات یہ ہے کہ کس قسم کا میٹھا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پھلوں یا سبزیوں میں پائے جانے والے قدرتی میٹھے چینی سے مختلف صحت کے اثرات رکھتے ہیں۔ کھجور کھانے سے بلڈ شوگر لیول میں فوری اضافہ نہیں ہوتا کیونکہ اس پھل میں پایا جانے والا فائبر نامی ایک اور غذائیت خون میں شوگر کی سطح کو مستحکم رکھنے میں مدد کرتا…
0 notes