#کا پہلا یہ تھا کہ
Explore tagged Tumblr posts
bazm-e-ishq · 2 years ago
Text
یہ کائنات صراحی تھی جام آنکھیں تھیں
مواصلات کا پہلا نظام آنکھیں تھیں
غنیمء شہر کو وہ تھا بصارتوں کا جنوں
کہ جتنا بھی لوٹ کے لائے تمام آنکھیں تھیں
This universe was a goblet and the eyes were wine
The first means of communication were eyes
The bandits of the city were so obsessed with visualisation
That whatever they looted, all were eyes.
(Ye Kainaat Surahi Thi Jaam Aankhein Thi, Muwasilaat Ka Pehla Nizaam Aankhein Thi, Ganiim e shaher ku wo tha basarton ka junon, ky jitna loot ky laye tamam ankhein thein)
— Saif ur Rehman Jaffar
62 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 1 month ago
Text
میں تو اس شہر کے لوگوں کا بھی ، دمساز ہوا
مری بربادی کا جس شہر سے آغاز ہوا
ایک ہی شاخ پہ اک عمر گزاری دل نے
یہ پرندہ نہ کبھی مائلِ پرواز ہوا
پیار کا پہلا قدم میری طرف تیرا تھا
دشمنی کا بھی تری سمت سے آغاز ہوا
عین ممکن ہے کہ لکھے کوئی دیواروں پر
کون ؟ کس طرح ؟ یہاں صاحبِ اعزاز ہوا
ُتُو تو ہر بات ہی دنیا کو بتا دیتا ہے
ترے سینے میں نہ محفوظ کوئی راز ہوا
شہر میں کس کو ملیں ؟ عزتیں تیرے جتنی
ترا انداز ہی ہر شخص کا انداز ہوا
خلقتِ شہر ہے ڈوبی ہوئی حیرانی میں
ایک چڑ یا کا بدن کس طرح شہباز ہوا ؟
مجھ کو نفرت سے بٹھایا گیا اک کونے میں
اور ، مرے شعر سے تقریب کا آغاز ہوا
غزنوی نے تو کسی دور میں بت توڑے تھے
اور غزنی ہے ، کہ ، اِ س دور کا بت ساز ہوا
محمود غزنی
2 notes · View notes
emergingpakistan · 9 months ago
Text
ترکیہ اسرائیل تجارتی تعلقات منقطع
Tumblr media
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر ترکیہ کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ سوویت یونین کے خطرے نے ترکیہ کو مغربی بلاک کے بہت قریب کر دیا اور اس دوران ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت کی اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ ترکیہ نے 14 مئی 1948 کو قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا اور’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ترکیہ نے 1948-1949 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا، جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد 24 مارچ 1949 کو ترکیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا اور ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کی بنیادیں اس دور میں رکھی گئیں۔ ایردوان کے دور میں کئی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بڑے پیمانے پر کشیدگی بھی دیکھی گئی اور دونوں ممالک نےکئی بار سفیر کی سطح کے تعلقات کو نچلی سطح پر جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران ترکیہ پر اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا جس پر ترکیہ نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ ترکیہ اس وقت تک غزہ کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہ��۔
گزشتہ ہفتے نماز جمعہ کے بعد صدر ایردوان نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اس وقت 9.5 بلین ڈالر کا تجارتی حجم موجود ہے۔ اس سے اگرچہ ترکیہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ منفی اثرات غزہ پر معصوم انسانوں کی نسل کشی کے سامنے ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس طرح ترکیہ نے پہلی بار اسرائیل پر تجارتی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکیہ کی وزارتِ تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا اسرائیل کیلئے 54 مختلف کٹیگریز سے مصنوعات کی برآمدات پر پابندی ہو گی اور پابندی کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔ ترکیہ کا یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ایئر ڈراپ یعنی فضا کے ذریعے امداد میں حصہ لینے کی ترکیہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکیہ کے شماریاتی ادارے (TUIK) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات 5.2 بلین ڈالر تھیں، اور اسرائیل سے اس کی درآمدات 1.6 بلین ڈالر تھیں۔ اس ایک سال کی مدت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 6.8 بلین ڈالر تھا اور ترکیہ، اسرائیل کے ساتھ اپنی برآمدات کی فہرست میں 13 ویں نمبر پر ہے۔
Tumblr media
اسرائیل پر لگائی جانے والی تجارتی پابندیوں کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود وہ جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے اب تک کسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ پوری امت کا فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دفاع کیلئے صف بندی کرے۔ یہ ہمارا امتحان ہے ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دکھانا چاہیے کہ اسلامی دنیا سفارتی ذرائع سے اور جب ضروری ہو، زبردستی اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا کے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان لڑائی ہے۔ وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ اگر ہم نے (غزہ میں) اس سانحے سے سبق نہ سیکھا اور دو ریاستی حل کی طرف گامزن نہ ہوئے تو یہ غزہ کی آخری جنگ نہیں ہو گی بلکہ مزید جنگیں اور آنسو ہمارے منتظر ��وں گے۔ ہمیں اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔ 
حماس سمیت تمام فلسطینی 1967 کی بنیاد پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے دو ریاستی حل کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور عالم اسلام اب فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ یکم مئی کو ترکیہ نے جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ تمام ممکنہ سفارتی ذرائع استعمال کرے گا اور اسرائیل کو روکنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کے حوالے سے انقرہ میں فلسطینی سفیر مصطفیٰ نے کہا کہ ترکی کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی ریاست پر اثر انداز ہونے کی جانب ایک عملی قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ ترکیہ نے یہ فیصلہ 9 اپریل تک غزہ کو ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی امداد بھیجنے کی کوشش کو روکنے کے بعد کیا تھا اور 2 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے۔ 
اس فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد ہوتے رہنا چاہیے جب تک غزہ کیلئے انسانی امداد کی بلاتعطل رسائی کیاجازت نہ مل جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے وقت سے ہی غزہ کی پٹی میں فیلڈ ہسپتال تیار کررہا تھا اور ضروری سازو سامان العریش ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پہنچادیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے ان آلات کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اور ترکی کو فیلڈ ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ غزہ کی پٹی میں قائم واحد کینسر ہسپتال، جسے ترکیہ نے قائم کیا کیا تھا، کو بھی تباہ کر دیا ۔
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
faheemkhan882 · 2 years ago
Text
Tumblr media
چاند پر جانے کی وڈیو جعلی تھی
ایک اخباری کے مطابق :جو کہ امریکہ اور یورپ کے 12 دسمبر کے اخبارات میں چھپی ہے۔ خبر کا لنک بھی دے رہا ہوں۔
http://www.express.co.uk/news/science/626119/MOON-LANDINGS-FAKE-Shock-video-Stanley-Kubrick-admit-historic-event-HOAX-NASA
خبر کا خلاصہ کچھ یوں ہے
ہالی ووڈ کے معروف فلم ڈائریکٹر سٹینلے کبرک نے ایک ویڈیو میں تسلیم کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے چاند پر مشن بھیجنے کا دعویٰ جعلی اور جھوٹ پر مبنی تھا اور میں ہی وہ شخص ہوں جس نے اس جھوٹ کو فلم بند کیا تھا ۔اس رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ایک خفیہ ویڈیو ریلیز کی گئی ہے جس میں ہالی ووڈ کے آنجہانی ہدایتکار سٹینلے کبرک نے تسلیم کیا ہے کہ 1969ء میں چاند پر کوئی مشن نہیں گیا تھا بلکہ انہوں نے اس کی فلم بندی کی تھی۔ ہالی ووڈ کے ہدایتکار کی اس خفیہ ویڈیو کو 15 سال قبل فلم بند کیا گیا تھا۔ ان کی ویڈیو بنانے والے رپورٹر نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس ویڈیو کو ان کی وفات کے 15 سال بعد افشاء کرے گا۔ اس کے چند ہی دن بعد سٹینلے کبرک کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس خفیہ ویڈیو میں انہوں نے تسلیم کیا کہ چاند کی تسخیر پر اٹھائے جانے والے تمام سوالات درست ہیں یہ سب کچھ امریکی خلائی ادارے ناسا اور امریکی حکومت کی ایماء پر کیا گیا تھا۔اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو اس تمام معاملے کا علم تھا۔سٹینلے کبرک کا کہنا تھا کہ وہ امریکی عوام سے معذرت خواہ ہیں کیونکہ انہوں نے ان سے دھوکہ دہی کی ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے امریکی حکومت اور ناسا کے کہنے پر مصنوعی چاند پر فلم بندی کی تھی میں اس فراڈ پر امریکی عوام کے سامنے شرمسار ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو یہ تھا اس وڈیو بنانے والا اصل کریکٹر جو اعتراف کرگیا کہ یہ سب کچھ جعلی تھا۔ اس سے پہلے میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اس کے بارے میں بتا چکا ہوں کہ اس وڈیو بنانے کی وجوہات اصل میں کیا تھیں۔ اور کچھ اس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات بھی بتا چکا ہوں۔ یہ پوسٹ میں دوبارہ آپ کی دلچسپی اور علم میں اضافے کے لئے پیش کررہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند پر انسانی قدم کے ڈرامے کی وجوہات اور اعتراضات
چند دن پہلے میں نے "چاند پر قدم کا ڈرامہ" نامی آرٹیکل اس دلچسپ معلومات پیج پر پوسٹ کیا تھا ۔ جس پر کچھ دوستوں نے اعتراضات کئے تھے کہ "یہ سب بکواس ہے چاند پر قدم ایک حقیقت ہے"۔یا۔"خود تو کچھ کر نہیں سکتے اور دوسروں پر اعتراضات کرتے ہیں"۔ وغیرہ وغیرہ ۔اور بہت سارے دوست تو میری بات سے متفق بھی تھے۔ تو ان معترضین سے عرض یہ ہے کہ چاند پر قدم کا ڈرامہ کہنے والے پاکستان نہیں بلکہ خود امریکی اور یورپ کے ماہرین ہیں۔کیونکہ ہمارے پاس تو اتنی ٹیکنالوجی اور وسائل نہیں کہ ہم حقیقتِ حال جان سکیں۔ جن کے پاس تمام وسائل ہیں ان لوگوں نے ہی اس ن��ریے پر اعتراضات اٹھائے ہیں کہ یہ ایک باقاعدہ ڈرامہ تھا جو امریکہ اور روس کی سرد جنگ کے درمیان امریکہ نے روس پر برتری حاصل کرنے کے لئے گڑھا تھا۔ آئیے ان اعتراضات پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ذہن میں رہے یہ اعتراضات کوئی پاکستانی نہیں کررہا ��لکہ امریکی کررہے ہیں۔جن کو میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کو دوستوں سے شئیر کررہا ہوں۔
1969 میں امریکی خلانورد نیل آرمسٹرانگ نے گرد سے اٹی ہوئی جس سرزمین پر قدم رکھا تھا، کیا وہ چاند کی سطح تھی یا یہ ہالی وڈ کے کسی سٹوڈیو میں تخلیق کیا گیا ایک تصور تھا؟ بہت سے لوگوں کی نظر میں یہ حقیقت آج بھی افسانہ ہے۔کیونکہ کچھ ہی سالوں میں خود امریکہ میں اس بات پر شک و شبہ ظاہر کیا جانے لگا کہ کیا واقعی انسان چاند پر اترا تھا؟
15 فروری 2001 کو Fox TV Network سے نشر ہونے والے ایک ایسے ہی پروگرام کا نام تھا
Conspiracy Theory: Did We Land on the Moon?
اس پروگرام میں بھی ماہرین نے بہت سے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اسی طرح یوٹیوب پر بھی یہ دو ڈاکیومینٹری دیکھنے والوں کے ذہن میں اس بارے ابہام پیدا کرنے کے لئے کافی موثر ہیں۔
Did man really go to the moon
Did We Ever Land On The Moon
پہلے اس ڈرامے کی وجوہات پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔کہ آخر کیا وجہ تھی کہ امریکہ نے اتنا بڑا(تقریباکامیاب) ڈرامہ بنایا۔
سرد جنگ کے دوران امریکہ کو شدید خطرہ تھا کہ نہ صرف اس کے علاقے روسی ایٹمی ہتھیاروں کی زد میں ہیں بلکہ سرد جنگ کی وجہ سے شروع ہونے والی خلائی دوڑ میں بھی انہیں مات ہونے والی ہے۔ کیونکہ روس کی سپیس ٹیکنالوجی امریکہ سے بہت بہتر تھی۔ جنگ ویتنام میں ناکامی کی وجہ سے امریکیوں کا مورال بہت نچلی سطح تک آ چکا تھا۔
پہلا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجنے کے معاملے میں روس کو سبقت حاصل ہو چکی تھی جب اس نے 4 اکتوبر 1957 کو Sputnik 1 کو کامیابی کے ساتھ زمین کے مدار میں بھیجا۔ روس 1959 میں بغیر انسان والے خلائی جہاز چاند تک پہنچا چکا تھا۔ 12 اپریل 1961 کو روسی خلا نورد یوری گگارین نے 108 منٹ خلا میں زمیں کے گرد چکر کاٹ کر خلا میں جانے والے پہلے انسان کا اعزاز حاصل کیا۔ 23 دن بعد امریکی خلا نورد Alan Shepard خلا میں گیا مگر وہ مدار تک نہیں پہنچ سکا۔ ان حالات میں قوم کا مورال بڑھانے کے لیئے صدر کینڈی نے 25 مئی 1961 میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم اس دہائی میں چاند پر اتر کہ بخیریت واپس آئیں گے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دہائی کے اختتام پر بھی اسے پورا کرنا امریکہ کے لئے ممکن نہ تھا اس لیئے عزت بچانے اور برتری جتانے کے لیئے جھوٹ کا سہارا لینا پڑا۔ امریکہ کے ایک راکٹ ساز ادارے میں کام کرنے والے شخصBill Kaysing کے مطابق اس وقت انسان بردار خلائی جہاز کے چاند سے بہ سلامت واپسی کے امکانات صرف 0.017% تھے۔ اس نے اپولو مشن کے اختتام کے صرف دو سال بعد یعنی 1974 میں ایک کتاب شائع کی جسکا نام تھا
We Never Went to the Moon:
America's Thirty Billion Dollar Swindle
3 اپریل 1966 کو روسی خلائ جہاز Luna 10 نے چاند کے مدار میں مصنوعی سیارہ چھوڑ کر امریکیوں پر مزید برتری ثابت کر دی۔ اب امریکہ کے لئے ناگزیر ہوگیا تھا کہ کچھ بڑا کیا جائے تاکہ ہمارا مورال بلند ہو۔
21 دسمبر 1968 میں NASA نے Apollo 8 کے ذریعے تین خلا نورد چاند کے مدار میں بھیجے جو چاند کی سطح پر نہیں اترے۔ غالباً یہNASA کا پہلا جھوٹ تھا اور جب کسی نے اس پر شک نہیں کیا تو امریکہ نے پوری دنیا کو بے وقوف بناتے ہوئے انسان کے چاند پر اترنے کا یہ ڈرامہ رچایا اورہالی وڈ کے ایک اسٹوڈیو میں جعلی فلمیں بنا کر دنیا کو دکھا دیں۔ اپولو 11 جو 16جولائی 1969 کو روانہ ہوا تھا درحقیقت آٹھ دن زمین کے مدار میں گردش کر کے واپس آ گیا۔
1994 میں Andrew Chaikin کی چھپنے والی ایک کتاب A Man on the Moon میں بتایا گیا ہے کہ ایسا ایک ڈرامہ رچانے کی بازگشت دسمبر 1968 میں بھی سنی گئی تھی۔
اب ان اعتراضات کی جانب آتے ہیں جو سائنسدانوں نے اٹھائے ہیں۔
1- ناقدین ناسا کے سائنسدانوں کے عظیم شاہکار اپالو گیارہ کو ہالی وڈ کے ڈائریکٹروں کی شاندار تخلیق سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سفر اور چاند پر انسانی قدم کو متنازعہ ماننے والوں کی نظر میں ناسا کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں کئی نقائص ہیں، جن سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے چالیس سال قبل انسان سچ مچ چاند پر نہیں پہنچا تھا۔
2۔اس سفر کی حقیقت سے انکار کرنے والوں کا خیال ہے کہ تصاویر میں خلانوردوں کے سائے مختلف سائز کے ہیں اور چاند کی سطح پر اندھیرا دکھایا گیا ہے۔
3۔ ان افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ چاند کی سطح پر لی گئی ان تصاویر میں آسمان تو نمایاں ہے مگر وہاں کوئی ایک بھی ستارہ دکھائی نہیں دے رہا حالانکہ ہوا کی غیر موجودگی اور آلودگی سے پاک اس فضا میں آسمان پر ستاروں کی تعداد زیادہ بھی دکھائی دینی چاہئے تھی اور انہیں چمکنا بھی زیادہ چاہئے تھا۔
4۔ ان لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ناسا کی ویڈیو میں خلانورد جب امریکی پرچم چاند کی سطح پر گاڑ دیتے ہیں تو وہ لہراتا ہے جب کہ چاند پر ہوا کی غیر موجودگی میں ایسا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
5۔چاند کی تسخیر کو نہ ماننے والے ایک نکتہ یہ بھی اٹھاتے ہیں کہ اس ویڈیو میں ایک خلانورد جب زمین پر گرتا ہے تو اسے دوتین مرتبہ اٹھنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ چاند پر کم کشش ثقل کی وجہ سے ایسا ہونا خود ایک تعجب کی بات ہے۔
6۔زمین کے بہت نزدیک خلائی مداروں میں جانے کے لیئے انسان سے پہلے جانوروں کو بھیجا گیا تھا اور پوری تسلی ہونے کے بعد انسان مدار میں گئے لیکن حیرت کی بات ہے کہ چاند جیسی دور دراز جگہ تک پہنچنے کے لئے پہلے جانوروں کو نہیں بھیجا گیا اور انسانوں نے براہ راست یہ خطرہ مول لیا۔
7۔ کچھ لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر انسان چاند پر پہنچ چکا تھا تو اب تک تو وہاں مستقل قیام گاہ بن چکی ہوتی مگر معاملہ برعکس ہے اور چاند پر جانے کا سلسلہ عرصہ دراز سے کسی معقول وجہ کے بغیر بند پڑا ہے۔ اگر 1969 میں انسان چاند پر اتر سکتا ہے تو اب ٹیکنالوجی کی اتنی ترقی کے بعد اسے مریخ پر ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے۔ ناسا کے مطابق دسمبر 1972 میں اپولو 17 چاند پر جانے والا آخری انسان بردار خلائی جہاز تھا۔ یعنی 1972 سے یہ سلسلہ بالکل بند ہے ۔
8۔ چاند پر انسان کی پہلی چہل قدمی کی فلم کا سگنل دنیا تک ترسیل کے بعد
slow scan television -SSTV
فارمیٹ پر اینالوگ Analog ٹیپ پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ان ٹیپ پر ٹیلی میٹری کا ڈاٹا بھی ریکارڈ تھا۔ عام گھریلو TV اس فارمیٹ پر کام نہیں کرتے اسلیئے 1969 میں اس سگنل کو نہایت بھونڈے طریقے سے عام TV پر دیکھے جانے کے قابل بنایا گیا تھا۔ اب ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ایسے سگنل کو صاف ستھری اور عام TV پر دیکھنے کے قابل تصویروں میں بدل دے۔ جب ناسا سےSSTV کے اصلی ٹیپ مانگے گئے تو پتہ چلا کہ وہ ٹیپ دوبارہ استعمال میں لانے کے لئے مٹائے جا چکے ہیں یعنی اس ٹیپ پر ہم نے کوئی اور وڈیو ریکارڈ کردی ہے۔ اورناسا آج تک اصلی ٹیپ پیش نہیں کر سکا ہے۔
9۔ اسی طرح چاند پر جانے اور وہاں استعمال ہونے والی مشینوں کے بلیو پرنٹ اور تفصیلی ڈرائنگز بھی غائب ہیں۔
ان لوگوں کا اصرار رہا ہے کہ ان تمام نکات کی موجودگی میں چاند کو مسخر ماننا ناممکن ہے اور یہ تمام تصاویر اور ویڈیوز ہالی وڈ کے کسی بڑے اسٹوڈیو کا شاخسانہ ہیں۔تو یہ کچھ اعتراضات تھے جن کے تسلی بخش جوابات دیتے ہوئے ناسا ہمیشہ سے کتراتا رہا ہے۔ جو اس نے جوابات دیئے بھی ہیں وہ بھی نامکمل اور غیرشعوری ہیں۔
#fakemoonlanding
#معلومات #عالمی_معلومات #دنیا_بھر_کی_معلومات #جہان_کی_تازہ_معلومات #دنیا_کی_تحریریں #عالمی_خبریں #دنیا_کی_تاریخ #جغرافیائی_معلومات #دنیا_بھر_کے_سفر_کی_کہانیاں #عالمی_تجارت #عالمی_سیاست #تاریخ #اردو #اردو_معلومات #اردوادب
#Infotainment #information #History #WorldHistory #GlobalIssues #SocialTopics #WorldPolitics #Geopolitics #InternationalRelations #CulturalHeritage #WorldCulture #GlobalLeadership #CurrentAffairs #WorldEconomy #Urdu
بہرحال ہر انسان کے سوچنے کا انداز مختلف ہوتا ہےمیرے موقف سے ہر ایک کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
2 notes · View notes
fatimawrites · 13 days ago
Text
کہانی
دو مسافر
ایک مسافر کافی زخمی پاؤں کے ساتھ پرخار راستوں سے گزر رہا ہے اسکی حالت دیکھ کہ کوئی اسکے پہ دھیان نہیں دیتا جبکہ دوسرا مسافر جو وہیل چیئر پہ بیٹھا ہےجس کے پاؤں نہیں مگر عالیشان وظع قطع سے لوگوں کی توجہ بہت جلد اپنی طرف کرلیتا ہے دونوں مسافروں میں شرط لگتی ہےکہ سامنے نظر آتی منزل کی طرف سب سے پہلے کون جائے گا پہلا مسافر کہتا ہے کہ وہ سب سے پہلے منزل پہ پہنچے گا جس پہ لوگ اس مسافر پہ ہنستے ہیں کی پاؤں زخمی پریشان حل مسافر اتنے پرخار راستوں سے کیسے جاسکتا ہے جبکہ اسکی پیر بھی زخمی ہیں۔ پہلا۔ مسافر لوگوں کی بات ��ن کر کہتا ہے کہ مانا کہ میں پریشان حال ہوں پاؤں اس راستے پہ چل چل کہ زخمی ہیں مگر میں نے ہمت نہیں ہاری ۔ کچھ لوگ پہلے مسافر کی بات کو سراہتے ہیں جبکہ لوگوں کی اکثریت پہلے مسافر کی بات کو دیوانے کا خواب سمجھ کہ ہنستے ہیں جبکہ دوسرا مسافر جو بہت ہششاش بششاش لگ رہا ہے وہ لوگوں سے کہتا ہے کہ کیا ہوا جو میرے پاؤں نہیں میں اس وہیل چیئر پہ ہوں سب سے پہلے منزل پہ میں ہی پہنچوں گا ۔ لوگ دوسرے مسافر کہ بہت تعریف کرتے ہیں اب دونوں مسافروں میں مقابلہ شروع ہوتا ہے پہلا مسافر اپنے زخمی پیروں سے گرتا سنبھلتا منزل کی جانے تیز چلتا ہے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کی پرواہ بھی نہیں کرتا جبکہ دوسرا مسافر اپنی وہیل چیئر پہ آرام سے منزل کی طرف بڑھتا ہے لوگوں کا شور تماشے کا زور منزل ویب ہوتی ہے اور دوسرا مسافر بھی منزل کے قریب لوگوں کی داد و تحسین بھری آوازیں بڑھتی جاتی ہیں جبکہ پہلا مسافر بھی ہمت نہیں ہارتا اور آگے بڑھتا رہتا ہے اچانک دوسرے مسافر کی وہیل چیئر کو کسی چیز سے ٹھوکر۔لگتے ہے اور وہ منہ کی بل ایسے گرتا ہے کہ آٹھ نہیں پاتا جبکہ پہلا مسافر منزل پہ پہنچ کہ فاتح قرار پاتا ہے اور دوسرا مسافر نہایت حسرت سے پہلے مسافر کو دیکھتا ہے دوستوں کیا آ�� جانتے ہیں کہ یہ کون تھے ؟ پہلا مسافر سچ تھا جو زخمی پاؤں ہونے کے باوجود بھی ہمت نہیں ہارتا اور اپنی منزل حق کو پالیتا ہے دوسرا مسافر جھوٹ تھا جس کے پاؤں نہیں ہوتے جو چاپلوسی کی وہیل چیئر پہ بیٹھ کر تماش بینوں یعنی دنیا کو اپنے فریب میں لانا چاہتا تھا ۔ امید کرتی ہوں کہ یہ چھوٹی سی کہانی آپ سب کو پسند آئے گی
تحریر : فاطمہ نسیم
تاریخ : 28 جنوری 2025
بوقت رات 2:28
1 note · View note
shiningpakistan · 2 months ago
Text
ہواوے کا چینی آپریٹنگ سسٹم ’ہارمنی‘ کے ساتھ نیا سمارٹ فون متعارف
Tumblr media
چینی ٹیکناجی کمپنی ہواوے نے مکمل طور پر چین میں بنے آپریٹنگ سسٹم سے لیس اپنا پہلا سمارٹ فون متعارف کرا دیا ہے۔ یہ ہوواوے کا اپنے مغربی مسابقتی اداروں کے غلبے کو چیلنج کرنے کی لڑائی میں ایک اہم امتحان ہے۔ ایپل کا آئی او ایس اور گوگل کا اینڈرائیڈ اس وقت زیادہ تر موبائل فونز میں استعمال ہوتا ہے، لیکن ہواوے اپنے جدید ترین میٹ 70 ڈیوائسز کے ساتھ اسے تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو کمپنی کے اپنے ہارمونی او ایس نیکسٹ پر چلتے ہیں۔ یہ لانچ ہواوے کے لیے بڑی کامیابی کا نقطہ عروج ہے، جو حالیہ برسوں میں سخت امریکی پابندیوں کا شکار رہی لیکن اب اپنی فروخت میں زبردست اضافے کے ساتھ دوبارہ ابھر رہی ہے۔ کنسلٹنگ فرم البرائٹ سٹون برج گروپ کے چین اور ٹیکنالوجی پالیسی کے سربراہ پال ٹریولو نے بتایا کہ ’قابل عمل اور وسیع پیمانے پر قابل استعمال موبائل آپریٹنگ سسٹم کی تلاش، جو مغربی کمپنیوں کے کنٹرول سے آزاد ہو، چین میں ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ لیکن یہ نیا سمارٹ فون جو اندرون ملک تیارکردہ جدید چپ سے بھی لیس ہے، ظاہر کرتا ہے کہ چینی ٹیکنالوجی کمپنیاں ’ڈٹی رہ سکتی ہیں۔‘
Tumblr media
میٹ 70 شینزین میں ہواوے کے ہیڈکوارٹر میں ایک کمپنی لانچ ایونٹ میں پی�� کیا گیا۔ ہواوے کے آن لائن شاپنگ پلیٹ فارم کے مطابق 30 لاکھ سے زیادہ یونٹس کی پہلے ہی بکنگ ہو چکی ہے، البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تمام خریدے بھی جائیں گے۔ پچھلے ورژن کے برعکس جو اینڈروئڈ کے اوپن سورس کوڈ پر مبنی تھا، آپریٹنگ سسٹم ہارمونی نیکسٹ ان تمام ایپس کی مکمل طور پر نئے سرے سے پروگرامنگ کا تقاضا کرتا ہے جو یہ سمارٹ فونز چلاتا ہے۔ گیری نگ، نیٹکسز کے سینیئر ماہر معیشت، نے بتایا کہ ’ہارمنی نیکسٹ پہلا مکمل مقامی طور پر تیار کردہ آپریٹنگ سسٹم ہے جو چین کے لیے مغربی ٹیکنالوجیز پر انحصار کم کرنے اور سافٹ ویئر کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے ایک سنگ میل ہے۔‘ تاہم نگ کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ چینی کمپنیاں ہواوے کے ایکوسسٹم میں حصہ ڈالنے کے لیے وسائل مختص کرنے پر آمادہ ہو سکتی ہیں، یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا ہارمونی نیکسٹ عالمی صارفین کو اتنی ہی ایپس اور فیچرز فراہم کر سکتا ہے۔‘
بلند توقعات ہواوے بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان شدید تکنیکی مسابقت کا محور ہے۔ امریکی حکام نے خبردار کیا کہ اس کے آلات چینی حکام کی جانب سے جاسوسی کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ہواوے ان الزامات کو وہ مسترد کرتے ہی۔ 2019 سے امریکی پابندیوں نے ہواوے کو عالمی ٹیکنالوجی سپلائی چینز اور امریکی ساختہ اجزا سے کاٹ دیا، جس کے نتیجے میں اس کی سمارٹ فونز کی پیداوار پر ابتدائی طور پر سخت منفی اثر پڑا۔ یہ تنازع مزید شدت اختیار کرنے والا ہے، کیونکہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی درآمدات پر بڑے ٹیرف لگانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ بیجنگ کے غیر منصفانہ تجارتی طریقوں کا جواب ہے۔ ٹیکنالوجی ریسرچ فرم کینالیس کے سینیئر تجزیہ کار ٹوبی ژو کے مطابق: ’ہواوے کی ٹیک انڈسٹری کو متاثر کرنے کی بجائے، چینی ٹیک انڈسٹری کے خود انحصاری کے رجحان نے ہواوے کی ترقی کو ممکن بنایا۔‘
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
risingpakistan · 3 months ago
Text
ایک خواب جو تعبیر پا گیا
Tumblr media
ادیب بھائی سے برسوں پرانا تعلق ہے، وہ ہمارا فخر ہیں۔ ان جیسی دردمندی ہر کسی میں نہیں ہوتی۔ ان کے جذبے اور لگن نے آج SIUT کو جو مقام دیا ہے وہ برسوں کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے۔ ابھی حال ہی میں انھوں نے ریجنٹ پلازہ ہوٹل خرید کر وہاں SIUT کا اسپتال قائم کیا ہے۔ میں نہ صرف ان کی مزید کامیابی کی دعا گو ہوں بلکہ یہ خواہش بھی رکھتی ہوں کہ آنے والے وقت میں پاکستان میں بہت سے ادیب رضوی پیدا ہوں۔ پاکستان میں یورولوجی اور نیفرالوجی کے شعبے میں اگر کسی شخصیت نے اپنی بے لوث خدمات اور انسانی ہمدردی کے ذریعے انقلابی ��بدیلی لائی ہے تو وہ ہیں ڈاکٹر ادیب رضوی۔ ڈاکٹر ادیب رضوی جو کہ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) کے بانی ہیں انھوں نے اپنی زندگی غریبوں اور ضرورت مندوں کی خدمت میں گزاری ہے۔ ان کی رہنمائی کی بدولت SIUT نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ایک مثال کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی نے ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد یورولوجی اور نیفرالوجی کی اعلیٰ تعلیم برطانیہ اور امریکا میں حاصل کی۔ ڈاکٹر رضوی نے جدید ترین طریقوں کو سیکھا، جو بعد میں انھوں نے پاکستان میں استعمال کیے۔
ان کی تعلیم نے انھیں نہ صرف جدید طبی علم سے آراستہ کیا بلکہ انھیں دنیا بھر میں صحت کے نظام کے بارے میں بھی آگاہی فراہم کی۔ اسی وقت انھوں نے یہ محسوس کیا کہ پاکستان میں صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے ایک نیا اور منفرد طریقہ کار اپنانا ہو گا، جو ذمے داری حکومت کو نبھانی چاہیے تھی وہ ڈاکٹر ادیب رضوی نے اپنے سر لے لی۔ 1980 کی دہائی میں پاکستان کو صحت کے شعبے میں سنگین مشکلات کا سامنا تھا۔ یورولوجی اور نیفرالوجی کے ماہرین کی کمی تھی اور جدید علاج کی سہولتیں بہت کم تھیں۔ ڈاکٹر ادیب رضوی نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا عہد کیا جس میں عام آدمی کو معیاری اور سستی طبی خدمات فراہم کی جاسکیں۔ دسمبر 1985 میں ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کی ٹیم نے گردے کی پیوند کاری کا پہلا کامیاب آپریشن کیا جس پر پورے ملک میں نہ صرف خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی بلکہ ہر طرف اس کا ذکر تھا۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ ڈاکٹر ادیب اور ان کی ٹیم نے SIUT کو ایشیا کا سب سے بڑا اسپتال بنا دیا جہاں مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔ 
Tumblr media
1989 میں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) کا قیام ڈاکٹر ادیب رضوی کی نگرانی میں عمل میں لایا گیا شروع میں یہ ادارہ صرف گردوں کی ڈائیلاسس اور ٹرانسپلانٹیشن کی خدمات فراہم کرتا تھا، لیکن جلد ہی اس کا دائرہ کار بڑھا اور SIUT ایک عالمی سطح کی طبی سہولت بن گیا۔ ڈاکٹر رضوی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ صحت کی سہولیات ان لوگوں تک پہنچائیں جو مالی طور پر کمزور ہیں اور جو مہنگے نجی اسپتالوں میں علاج نہیں کرا سکتے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کو گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن کے میدان میں ایک رہنما سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن بہت کم ہوتی تھی اور جو مریض اس عمل کے لیے بیرون ملک جاتے تھے، ان کے لیے یہ علاج بہت مہنگا پڑتا تھا۔ ڈاکٹر رضوی نے زندہ عطیہ کنندگان سے گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن کے تصور کو متعارف کرایا، جس سے پاکستان میں گردوں کی منتقلی کے عمل کو ممکن بنایا گیا۔ انھوں نے (kidney paired donation) کا تصور بھی متعارف کرایا۔ کڈنی پیئرڈ ڈونیشن ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے ایسے افراد کو گردے کی پیوندکاری (ٹرانسپلانٹ) فراہم کی جاتی ہے جنھیں اپنے متعلقہ عطیہ دہندگان سے گردہ نہیں مل پاتا کیونکہ دونوں کا جسمانی طور پر میچ نہیں ہوتا۔
اس طریقے میں، دو یا زیادہ افراد جو گردہ دینے کے لیے رضامند ہیں، مگر ان کا گردہ ایک دوسرے کے مریضوں کے ساتھ میل نہیں کھاتا، ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کرتے ہیں۔ اس طرح، ہر مریض کو ایک ایسا گردہ مل جاتا ہے جو اس کے جسم کے لیے موزوں ہوتا ہے۔ ان کے کام نے نہ صرف پاکستان میں گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن کے عمل کو فروغ دیا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ ڈاکٹر رضوی کی زندگی کا مقصد صرف علاج کرنا نہیں بلکہ صحت کے شعبے میں عوامی آگاہی بھی پیدا کرنا تھا۔ انھوں نے اعضاء کا عطیہ، خون کا عطیہ اور صحت کے بنیادی مسائل پر عوامی سطح پر مہم چلائی۔ ان کی کوششوں سے لوگوں میں گردوں کی بیماریوں، ان کے علاج اور پیشگی احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہی پیدا ہوئی۔ ڈاکٹر رضوی نے پاکستان میں گردوں کی بیماری کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات کیے۔ انھوں نے خاص طور پر ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسے عوامل پر توجہ مرکوز کی، جو گردوں کی بیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔ انھوں نے عوامی سطح پر ان بیماریوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے مہم چلائی، تاکہ لوگ صحت مند طرز زندگی اپنا سکیں۔
آج SIUT ایک بین الاقوامی سطح کا طبی ادارہ بن چکا ہے، جو کہ گردوں کی بیماری، یورولوجی اور دیگر شعبوں میں دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ SIUT میں نہ صرف گردوں کا ڈائیلاسس اور ٹرانسپلانٹیشن کی سہولت فراہم کی جاتی ہے بلکہ یہ ادارہ یورولوجی سرجری، ریڈیالوجی جیسے مختلف شعبوں میں بھی خدمات فراہم کرتا ہے۔SIUT کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ یہ ادارہ اپنے مریضوں کو مفت علاج فراہم کرتا ہے۔ ان کے نیٹ ورک سے پورے پاکستان کے غریب اور ضرورت مند مریض فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس ادارے کا مقصد صرف علاج کرنا نہیں بلکہ صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے تحقیق اور تعلیم کو فروغ دینا بھی ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کی خدمات کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ انھیں ستارہ امتیاز جیسے اعلیٰ اعزازات مل چکے ہیں اور وہ عالمی صحت کی تنظیم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) سے بھی ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی خدمات اور کامیابیاں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں تسلیم کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر رضوی نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ صحت کا حق ہر انسان کو حاصل ہونا چاہیے اور اس حق کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو زیادہ سرمایہ کاری کرنی ہو گی۔ ان کا ماننا ہے کہ SIUT کا ماڈل پاکستان کے دوسرے حصوں میں بھی اپنانا چاہیے تاکہ پورے ملک میں معیاری اور سستی صحت کی خدمات فراہم کی جا سکیں۔
ڈاکٹر ادیب رضوی کی زندگی کا مقصد صرف ایک طبی ادارہ قائم کرنا نہیں تھا، بلکہ وہ چاہتے تھے کہ وہ سماجی تبدیلی کا باعث بنیں، جہاں صحت کی خدمات ہر شخص کو اس کی مالی حیثیت سے قطع نظر دستیاب ہوں۔ ان کی بے لوث خدمات اور انسان دوستی نے SIUT کو ایک عالمی معیار کے صحت کی سہولت میں تبدیل کر دیا ہے۔ ڈاکٹر رضوی کی قیادت میں SIUT نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر گردوں کی بیماریوں کے علاج میں انقلاب برپا کیا۔ ان کی خدمات کا شمار نہ صرف طب کے شعبے میں بلکہ سماجی بہبود کے حوالے سے بھی ایک عظیم کارنامہ ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کا یہ کہنا کہ ان کا سب سے بڑا انعام مریضوں کی دعائیں اور ان کی خوشی ہے، ان کی یہ سوچ ان کے کے انسان دوست نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے۔ ا��ج SIUT اس بات کا گواہ ہے کہ ڈاکٹر رضوی اور ان کی ٹیم کی محنت، لگن اور انسان دوستی واقعی لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لائی ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کی ٹیم نے جو اکیلے کر دکھایا وہ ان کی انسانیت سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے، جو کام ہماری حکومت نہیں کرسکی وہ اکیلے اس ایک انسان نے کر دکھایا۔ ان کی ڈاکٹروں کی ٹیم کی بھی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔
پاکستان اور بیرون ملک پاکستانی دل کھول کر اور آنکھ بند کرکے SIUT کو عطیات دیتے ہیں کیونکہ ان کو یقین کامل ہوتا ہے کہ ان کی پائی پائی مریضوں کے کام آئے گی۔ دعا گو ہوں کے ادیب بھائی طویل عمر پائیں اور وہ یوں ہی انسانیت کی خدمت کرتے رہیں۔
زاہدہ حنا
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
airnews-arngbad · 3 months ago
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 07 November-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں 
تاریخ:  ۷/ نومبر ۴۲۰۲ء؁
وقت: ۰۱:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
 ::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ ریاستی اسمبلی انتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں کی تشہیری مہم تیز۔
٭ مہاوِکاس آگھاڑی کے مشترکہ تشہیری جلسے میں کانگریس کے پانچ نکاتی منشور کا اجراء۔
٭ باصلاحیت طلباء کی مالی اعانت کیلئے پی ایم - وِدّیا لکشمی اسکیم کو منظوری۔
٭ انتخابی نشان گھڑی عدالت میں زیرِ سماعت ہونے کا اعلان تمام اخبارات میں کرنے کا راشٹروادی کانگریس کو عدالت ِ عظمیٰ کا حکم۔
اور۔۔۔٭ رائے دہندگان میں بیداری پیدا کرنے کیلئے مختلف اقدامات کا سلسلہ جاری۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
  ریاستی اسمبلی انتخابات کیلئے تشہیری مہم میں اب تیزی آگئی ہے اور مختلف جماعتوں کے اہم رہنماؤں کے عام جلسوں کا انعقاد عمل میں آرہا ہے۔ مہاوِکاس آگھاڑی کا مشترکہ اجتماع کل باندرہ- کُرلا کمپلیکس میں منعقد ہوا۔ کانگریس صدر ملک ارجن کھرگے، لوک سبھا میں قائد ِ حزبِ اختلاف راہل گاندھی‘ راشٹروادی شرد چندر پوار پارٹی کے سربراہ شرد پوار‘ شیوسینا اُدّھو باڑا صاحب ٹھاکرے پارٹی کے صدر اُدّھو ٹھاکرے اور مہاوِکاس آگھاڑی کی رُکن جماعتوں کے دیگر قائدین بھی اس جلسے میں شریک ہوئے۔ اسمبلی انتخابات کیلئے کانگریس کا پانچ نکاتی منشور بھی اس موقع پر جاری کیا گیا۔ خواتین کو ماہانہ تین ہزارر روپئے مالی امداد دینے سے متعلق مہالکشمی یوجنا اور بے روزگاروں کو چار ہزار روپئے امداد دینے کے وعدے بھی اس میں شامل ہیں۔ اس اجتماع میں مہاوِکاس آگھاڑی کے رہنماؤں نے بی جے پی کی زیرِ قیادت قومی جمہوری اتحاد حکومت کی پالیسیوں اور پروگراموں پر سخت تنقید کی۔ 
***** ***** *****
اسی دوران کانگریس کے رہنماء‘ راہل گاندھی نے کل صبح ناگپور میں ”سنویدھان سمّیلن“ میں بھی شرکت کی۔ اس پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دستورِ ہند محض ایک کتاب نہیں بلکہ زندگی گذارنے کا ایک طریقہ اور ایک فلسفہ ہے۔ اس سے قبل انھوں نے ناگپور کی دِکشا بھومی ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی یادگار کا دورہ کرکے معمارِ آئین کو خراجِ عقیدت بھی پیش کیا۔
***** ***** *****
 مہاراشٹر نونرمان سیناکے سربراہ راج ٹھاکرے نے کل لاتور ضلع کے ریناپور میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔ لاتور دیہی حلقہئ انتخاب سے مہاراشٹر نونرمان سیناکے امیدوار سنتوش ناگرگوجے کی تشہیر کیلئے یہ جلسہ منعقد کیا گیا تھا۔ اپنے خطاب میں راج ٹھاکرے نے کہا کہ ریاست کے مسائل کے حل کیلئے ایک بار اقتدار مہاراشٹر نونرمان سینا کے ہاتھ میں دیا جائے۔ مراٹھواڑہ میں ایم این ایس کے تشہیری اجتماع سے راج ٹھاکرے کا یہ پہلا خطاب تھا۔ اورنگ آباد مشرق حلقے سے مہایوتی کے امیدوار اتل ساوے نے کل بھارت نگر میں پدیاترا کرکے رائے دہندگان سے بات چیت کی۔
***** ***** *****
 ممبئی کے ماہم اسمبلی حلقے میں مہایوتی کے امیدوار سداسروَنکر اور مانخورد- شیواجی نگر حلقے کے امیدوار سریش پاٹل کی ریپبلکن پارٹی نے باضابطہ حمایت کا اعلان کیا ہے۔ پارٹی صدر اور مرکزی وزیرِ مملکت برائے سماجی انصاف رام داس آٹھولے نے کل یہ اطلاع دی۔ انھوں نے کہا کہ ریپبلکن کارکنوں کو ریاست میں اقتدار میں حصہ دلوانے کیلئے ریپبلکن پارٹی مہایوتی کی حمایت کررہی ہے۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات کے سلسلے میں رائے دہندگان میں بیداری پیدا کرنے کیلئے انتخابی کمیشن کی جانب سے آئندہ 8  نومبر سے موبائل وینس چلائی جائیں گی۔ ان وینس کے ذریعے رائے دہندگان میں بیداری پیدا کرنے سے متعلق معلومات دی جائیں گی۔ یہ گاڑیاں ریاست کے 15  اضلاع میں رائے دہی سے متعلق بیداری پیدا کرنے کیلئے کام کریں گی۔ 
***** ***** *****
ضابطہئ اخلاق کے نفاذ کے دوران ریاست بھر سے C-Vigil اَیپ پر کُل دو ہزار 833 شکایات موصول ہوئی ہیں۔ جن میں سے 819 شکایات انتخابی کمیشن کے ذریعے نمٹائی جاچکی ہیں۔ چیف انتخابی افسر کے دفتر سے یہ اطلاع دی گئی۔ ریاست اور مرکزی حکومت کی ضابطے کے نفاذ کی ذمہ دار مشنریوں کی جانب سے کی گئی کارروائیوں میں بے قاعدہ پیسہ، شراب، منشیات اور قیمتی دھاتوں کی شکل میں مجموعی طور پر 218 کروڑ 78 لاکھ روپئے کی اشیاء ضبط کیے جانے کی اطلاع ذرائع نے دی ہے۔ 
***** ***** *****
سامعین! اسمبلی انتخابات کے سلسلے میں ”آڑھاوا وِدھان سبھا متدار سنگھاچا“ کے عنوان سے ایک پروگرام روزانہ شام سات بجکر 10منٹ پر آکاشوانی سے نشر کیا جارہا ہے۔ اس پروگرام میں آج آکولہ اور واشم ضلع کے حلقہئ انتخاب کا جائزہ آپ سماعت کرسکتے ہیں۔ 
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر سے نشر کی جارہی ہیں۔
***** ***** *****
 باصلاحیت طلبہ کو مالی امداد دینے کیلئے مرکزی حکومت نے پی ایم- وِدّیا لکشمی اسکیم کو منظوری دی ہے۔ مرکزی وزیر برائے اطلاعات و نشریات اشونی ویشنو نے کل ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ کل مرکزی کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ معاشی کمزوری کے باعث ذہین طلبہ اعلیٰ تعلیم کے حصول سے محروم نہ رہیں‘ اس مقصد سے اہل طلبہ، بلاضمانت یہ قرض حاصل کرسکتے ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کیلئے سال 2024-25 میں 10 ہزار سات سو کروڑ روپئے کے شیئر کیپٹل کو بھی کابینہ نے منظوری دی۔ جس سے کارپوریشن کی کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ 
***** ***** *****
عدالت ِ عظمیٰ نے راشٹروادی کانگریس اجیت پوار ��روپ کو حکم دیا ہے کہ انتخابی نشان گھڑی کا معاملہ سرِدست عدالت میں زیرِ سماعت ہونے سے متعلق آئندہ  36 گھنٹوں میں تمام اخبارات میں اعلان جاری کیا جائے۔ راشٹروادی کانگریس پارٹی کے دونوں گروپوں میں انتخابی نشان کے تنازعے پر کل عدالت میں سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران عدالت نے دونوں گروپوں کو مشورہ دیا کہ عین انتخابات کے وقت اپنی توانائی عدالتی تنازعات میں صرف کرنے کی بجائے تشہیری مہم چلانے پر لگائیں۔
***** ***** *****
قومی انتخابی کمیشن کے ڈپٹی کمشنر ہردیش کمار نے انتخابی مشنریوں کو ہدایت کی ہے کہ انتخابی عمل کے دوران کوئی ابہام نہ رہے، اس بات کو انتخابی افسران یقینی بنائیں‘ نیز انتخابی عمل کی شفافیت کو سب سے زیادہ ترجیح دی جائے۔ چھترپتی سمبھاجی نگر‘ ناگپوراور امراوتی ڈویژن کے تمام حلقوں میں انتخابات کی تیاریوں کے جائزے کیلئے کل چھترپتی سمبھاجی نگر میں منعقدہ ایک اجلاس سے وہ خطاب کررہے تھے۔ اجلاس میں ریاست کے چیف انتخابی افسر ایس چوکّ لنگم اور ضلع کلکٹر دلیپ سوامی نے بھی شرکت کی۔ 
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات میں EVM ہیک کرکے فتح دلانے کا دعویٰ کرتے ہوئے ناسک کے شیوسینا اُدّھو باڑا صاحب ٹھاکرے پارٹی کے امیدوار سے 42 لاکھ روپئے کا مطالبہ کرنے والے ایک شخص کو ناسک پولس نے گرفتار کرلیا ہے۔ اس شخص کا نام بھگوان سنگھ چوہان بتایا گیا ہے۔ ناسک وسطی اسمبلی حلقے کے امیدوار وسنت گیتے کے ممبئی ناکہ دفتر پر جاکر اس ملزم نے یہ مطالبہ کیا تھا۔
***** ***** *****
ناندیڑ ضلع لائبریری آفیسر دفتر اور رُگن سیوا منڈل عام لائبریری کے مشترکہ تعاون سے رائے دہندگان میں بیداری پیدا کرنے کیلئے سیلفی پوائنٹ کا افتتاح کل میونسپل کمشنر ڈاکٹر مہیش کمار ڈوئی پھوڑے کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ رائے دہندگان کو ترغیب دینے کیلئے ”رائے دہی کی روشنائی لگی اُنگلی دکھائیں اور آنکھوں کی مفت جانچ کرائیں“ یہ پروگرام چلایا جارہا ہے۔ اس موقع پر بڑے پیمانے پر عوام کو رائے دہی سے متعلق معلومات دی گئی۔
***** ***** *****
چھترپتی سمبھاجی نگر ضلع میں معذور اور 85 برس سے زائد عمر کے شہریوں کیلئے آئندہ 13 نومبر سے گھر سے ووٹنگ کا عمل شروع ہورہا ہے۔ ضلع میں چار ہزار 424  ایسے رائے دہندگان ہیں۔ سلوڑ حلقے میں 13 تا 16 نومبر‘ پیٹھن- گنگاپور اور کنڑ حلقوں میں 15 تا 17نومبر‘ پھلمبری میں 14 تا 17‘ اورنگ آباد وسطی اور مغربی حلقے میں 13 تا 15‘ اور اورنگ آباد مشرق میں 13 تا 18 اور ویجاپور حلقے میں 14 تا 16 نومبر کے دوران گھر سے رائے دہی کا یہ عمل ہوگا۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
  ٭ ریاستی اسمبلی انتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں کی تشہیری مہم تیز۔
٭ مہاوِکاس آگھاڑی کے مشترکہ تشہیری جلسے میں کانگریس کے پانچ نکاتی منشور کا اجراء۔
٭ باصلاحیت طلباء کی مالی اعانت کیلئے پی ایم - وِدّیا لکشمی اسکیم کو منظوری۔
٭ انتخابی نشان گھڑی عدالت میں زیرِ سماعت ہونے کا اعلان تمام اخبارات میں کرنے کا راشٹروادی کانگریس کو عدالت ِ عظمیٰ کا حکم۔
اور۔۔۔٭ رائے دہندگان میں بیداری پیدا کرنے کیلئے مختلف اقدامات کا سلسلہ جاری۔
***** ***** *****
0 notes
asliahlesunnet · 4 months ago
Photo
Tumblr media
اگر نماز خسوف کی ایک رکعت رہ جائے تو…؟ ��وال ۳۳۶: جس شخص کی نماز خسوف کی ایک رکعت فوت ہوگئی ہو تو وہ اس کی قضا کس طرح ادا کرے؟ جواب :جس شخص کی نماز خسوف کی ایک رکعت رہ گئی ہو تو اس کی قضا ادا کرنے کا طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ آپ نے فرمایا: ((اِذَا سَمِعْتُمُ الْإِقَامَۃَ فَامْشُوا إِلَی الصَّلَاۃِ وَعَلَیْکُمْ بِالسَّکِینَۃِ وَالْوَقَارِ وَلَا تُسْرِعُوا فَمَا أَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَکُمْ فَأَتِمُّوا)) (صحیح البخاری، الاذان، باب لا یسعی الی الصلاۃ… ح:۶۳۶ وصحیح مسلم، المساجد، باب استحباب اتیان الصلاۃ بوقار وسکینۃ، ح: ۶۰۲۔) ’’جب تم اقامت سنو تو نماز کے لیے چلو، سکون و وقار اختیار کرو اور تیز تیز نہ چلو۔ نماز کا جتنا حصہ پالو پڑھ لو اور جتنا حصہ فوت ہوگیا ہو تو اسے پورا کر لو۔‘‘ لہٰذا جس شخص کی نماز خسوف کی ایک رکعت رہ گئی ہو، وہ اسے اسی طرح پورا کرے جس طرح امام نے اسے پڑھا تھا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’’اسے پورا کر لو‘‘ کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔ یہاں ایک اور سوال بھی پیداہوکر سامنے آتا ہے جس کی وجہ سے بہتیرے لوگوں کو بہت سے اشکال پیش آتے ہیں وہ یہ کہ اگر پہلا رکوع فوت ہوگیا ہو تو وہ کیا کرے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس کا رکوع اول فوت ہوگیا ہو تو اس کی رکعت فوت ہوگئی، لہٰذا امام کے سلام پھیرنے کے بعد اسے یہ رکعت پڑھنا ہوگی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’اور جتنا حصہ فوت ہوگیا ہو تو اسے پورا کر لو۔‘‘ کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۳۲۹ ) #FAI00264 ID: FAI00264 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
googlynewstv · 5 months ago
Text
کیا عسکری قیادت عمراندار ججز کو قابوکرنے میں کامیاب ہوگی؟
فوج کا سیاسی کردار چھین کر حکومتیں بنانے اور گرانے والی پاکستانی عدلیہ کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاری جنگ آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے، حکومت کی کوشش ہے کہ آئینی ترامیم کے ذریعے ججز کا سیاسی کردار محدود کیا جا سکے جو کہ ماضی میں فوج کے پاس ہوتا تھا۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ اس لڑائی میں چیف جسٹس اور آرمی چیف حکومت کے ساتھ ہیں جبکہ عدلیہ کے اندر سے ہی ایک عمرانی دھڑا تحریک انصاف کا سیاسی…
0 notes
azmathfan · 5 months ago
Text
آنکھیں
یہ کائنات صراحی تھی جام آنکھیں تھیں
مواصلات کا پہلا نظام آنکھیں تھیں
غنیم ِ شہر کو وہ تھا بصارتوں کا جنوں
کہ جب بھی لْوٹ کے لایا تمام آنکھیں تھیں
خطوط ِ نور سے ہر حاشیہ مزّین تھا
کتاب ِ نور میں سارا کلام آنکھیں تھیں
اب آگۓ ہیں یہ چہروں کے زخم بھرنے کو
کہاں گۓ تھے مناظر جو عام آنکھیں تھیں
وہ قافلہ کسی اندھے نگر سے آیا تھا
ہر ایک شخص کا تکیہ کلام آنکھیں تھیں
نظر فروز تھا یوسف کا پیرہن شاید
دیار ِ مصر سے پہلا سلام آنکھیں تھیں
کسی کا عکس بھی دیکھا تو رو پڑیں یکدم
قسم خدا کی بہت تشنہ کام آنکیں تھیں
ن م راشد
1 note · View note
ohwellbull · 6 months ago
Text
میرا نام ایک او جی ہائفن ہے
آپ کا نام کہاں سے آیا ہے؟صبح بخیر دوستو، خاندان اور ساتھیو،ایک نام کتنا دلچسپ ہو سکتا ہے؟ آئیے تھوڑی دیر کے لیے میرے نام کا تجزیہ کرتے ہیں۔مجھے یقین نہیں ہے کہ میرے اپنے خاندان کو اس وقت اس کا علم تھا، لیکن میرا پہلا نام جنگ کے رومن دیوتا کا ہے، جو فرانسیسی رومانوی ہجے کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ میرا درمیانی نام اور آخری نام دونوں میرے مادری اور پدری نسب کو ظاہر کرتے ہیں، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ جین…
0 notes
urdu-poetry-lover · 9 months ago
Text
سعادت حسن منٹو کے اقوال
سعادت حسن منٹو ایک ادیب، شاعر اور صحافی تھے، جنہوں نے اپنے ادبی کاموں کو سماجی اور سیاسی مسائل کے بارے میں بیداری پھیلانے کے لیے استعمال کیا۔ ان کی یوم پیدائش 11 مئ کی مناسبت سے ان کے کچھ اقوال ۔۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں میں اپنی آنکھیں بند کر بھی لو، مگر اپنے ضمیر کا کیا کروں؟
ہم عورت اُسی کو سمجھتے ہیں جو ہمارے گھر کی ہو۔ باقی ہمارے لئے کوئی عورت نہیں ہوتی، بس گوشت کی دکان ہوتی ہے اور ہم اس دکان کے باہر کھڑے کتوں کی طرح ہوتے ہیں، جن کی ہوس زدہ نظر ہمیشہ گوشت پر نکی رہتی ہے۔
مسجد میں دیوبندی ، شیعہ، سُنی ،وہابی سنیما میں ایک ذات۔
میرے جانے کے بعد میری لکھی ہوئی ہر بات کو سراہا جائے گا میرا نام لیا جائے گا مجھے یاد کیا جائے گا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
ہاتھ چھوڑ دینے والے کی اپنی اذیت ہے اور ہاتھ چھڑوا لینے والے کی اپنی کہانی ہے ، لیکن اس عمل میں محبت یتیم ہوجاتی ہے۔
میں ایسے عشق کا قائل نہیں جو مرد کی طرف سے شروع ہو۔
آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا صرف ایک دکان بچ گئی جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا، یہاں عمارت سازی کا ج��لہ سامان موجود ہے۔
دنیا میں جتنی لعنیتیں ہیں، بھوک ان کی ماں ہے۔
ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔
بیٹی کا پہلا حق جو ہم کھا جاتے ہیں وہ اُس کے پیدا ہونے کی خوشی ہے۔
غلط کار انسان نہیں وہ حالات ہیں جن کے کھیتوں میں انسان غلطیاں پیدا کرتا ہے اور پھر ان کی فصلیں کاٹتا ہے۔
تم نے کبھی محبت کی ہو تو جانو محبت اُداسی کا دوسرا نام ہے۔
مرد بھی کیا عجیب شے ہے، بیوی میں طوائف جیسی ادائیں اور طوائف میں بیوی جیسی وفاداری تلاش کرتا ہے۔
بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اہنی ذات کے لئے وہ کام بھی کرتے ہیں، جو شیطان بھی کرنے سے گریز کرتا ہے۔
سچ بولنے والوں کو میٹھی باتیں کرنا نہیں آتیں۔
عشق ایک مرض ہے اور جب تک طول نہ پکڑے، مرض نہیں ہوتا محض ایک مذاق ہوتا ہے۔
میں اس کا ذمہ دار ہوں جو میں نے کہا ، لیکن اس کا ذمہ دار نہیں جو آپ نے سمجھا۔
مختصر الفاظ میں زندگی کے متعلق صرف یہ کہا جاسکتا ہے، کہ یہ ایک آہ ہے جو واہ میں لپیٹ کر پیش کی گئی ہے۔
میں نے محبت میں عورت سے بڑا بے وقوف نہیں دیکھا، اکثر ایسے لوگوں کو اپنا سمجھ بیٹھی ہے جو خود اپنے بھی نہیں ہوتے ۔
لوگ اکثر اس چیز کو محبت کرتے ہیں جو حقیقت میں محبت کئے جانے کے قابل نہیں ہوتی۔
انسان کو مارنا کچھ نہیں ، لیکن اُس کی فطرت کو ہلاک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔
��شق جیومیٹری ہے نہ الجبرا۔ بس بکواس ہے۔ چونکہ اس بکواس ہے۔ اس لئے اس میں گرفتار ہونے والے کو بکواس ہی سے مدد لینی چاہئے۔
میرے شہر کے معززین کو میرے شہر کی طوائفوں سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا۔
کپڑوں کے بغیرآدمی حیوان معلوم ہوتا ہے۔
مذہبی محبوبہ، ان پڑھ بیوی اور دیہاتی دوست تینوں وفادار ہوتے ہیں۔
محبت تو جذبوں کی امانت ہے، فقط بستر کی سلوٹ زدہ چادر پر گزارے جانے والے چند بدبودار لمحے محبت نہیں کہلاتے ۔
چنگاری کو شعلوں میں تبدیل کردینا آسان ہے مگر چنگاری پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔
اگر آپ کی زندگی درد کے احساس کے بغیر گزری ہے تو شاید آپ ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔
یہ عیب مجھ میں شروع سے رہا ہے کہ مجھے جھوٹ بولنے کا سلیقہ نہیں۔
تم نے کبھی محبت کی ہو تو جانو محبت اُداسی کا دوسرا نام ہے ہر وقت آدمی کھویا کھویا سارہتا ہے اس لئے کہ اس کے دل ودماغ میں صرف خیال یار ہوتا ہے۔
مرد کے اعصاب پر عورت سوارنہ ہو تو کیا ہاتھی گھوڑے سوارہو؟
انسانوں سے حیوانوں کی دوستی اچھی میرے بھائی، انہیں کوئی ورغلا تو نہیں سکتا۔
جس طرح بعض بچے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں اور کمزور رہتے ہیں اس طرح وہ محبت بھی کمزور رہتی ہے جو وقت سے پہلے جنم لے۔
جسم داغا جاسکتا ہے لیکن روح نہیں داغی جاسکت۔
میرا کام تو آئینہ دکھانا ہے اگر آپ کا چہرہ گرد آلود اور بدنما ہے تو وہ ویسا ہی نظر آئیگا۔
Tumblr media
4 notes · View notes
emergingpakistan · 4 months ago
Text
بھارتی انتخابات ہمارے لیے کون سے سوالات چھوڑ گئے؟
Tumblr media
بھارت میں ہونے والے انتخابات ہمارے لیے کچھ سوالات چھوڑ گئے ہیں۔ اگر ہم چاہیں توا ن پر غور کر سکتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ بھارت میں کسی نگران حکومت کے تماشے کے بغیر کیسے انتخابات ہو گئے؟ بھارت میں بھی ایک عدد سپریم کورٹ تھی اس کے کسی سابق چیف جسٹس کو نگران وزیر اعظم بنا کر نوازا جا سکتا تھا۔ کسی سیاسی یتیم کی 90 دنوں کے لیے لاٹری نکالی جا سکتی تھی تا کہ وہ ہر روز نیا سوٹ اور نئی ٹائی لگا کر بھارتی شہریوں کی سماعت کا امتحان لیتا رہتا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وہی حکومت برقرار رہی جس کی مدت ختم ہو رہی تھی اور انتخابات ہو گئے۔ اگر بھارت میں نگران حکومت کے نام پر سیاسی یتیموں کو مسلط کیے بغیر الیکشن ہو سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتے؟ کیا وجہ ہے کہ وہاں ایک سیاسی حریف کی حکومت کے ہوتے ہوئے انتخابات ہوتے ہیں اور معتبر انداز میں ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں غیر جانب دار نگران حکومت کا ایک لشکر جرار اترتا ہے ا ور وہ الیکشن کرواتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے الیکشن متنازعہ ہو جاتے ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ بھارت میں نگران حکومت کے نہ ہونے اور پاکستان میں نگران حکومت کے ہونے سے، ہر دو ممالک کے عوام کو ان کے حکمران کیا پیغام دے رہے ہیں؟
بھارت میں ایک حکومت اپنی مدت مکمل کرتی ہے اور الیکشن کے دوران اقتدار اسی کے پاس رہتا ہے اور الیکشن ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب ہم کہتے ہیں کہ نہیں ہمیں ایک نگران حکومت چاہیے ورنہ دھاندلی ہو جائے گی۔ تو کیا بھارت کے اہل سیاست اپنے عوام کو یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم اپنی مدت اقتدار ختم ہونے پر انتخابات کے دوران بھی حکومت میں رہے تو ہم الیکشن پر اثر انداز نہیں ہوں گے اور غیر جانب دار رہیں گے۔ جب کہ پاکستان کے اہل سیاست اپنے عوام کو یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی حکومت میں رہا تو لازمی طور پر بے ایمانی کرے گا، ہم اس قابل ہی نہیں کہ الیکشن کروا سکیں۔ اس لیے ایک نگران سیٹ اپ آئے گا جو الیکشن کروائے گا۔ کیا کوئی سماجی مطالعہ ہو سکے گا کہ ان دونوں رویوں کا عوام کی نفسیات پر کیا اثر پڑتا ہے؟ کیا پاکستان کے سیاست دان زبان حال سے خود کو بے ایمان اور نا قابل اعتبار قرار دے کر اپنے خلاف خود ہی فرد جرم عائد نہیں کر رہے کہ ہم میں اتنی دیانت اور اخلاقی قوت بھی نہیں کہ ہم الیکشن کروائیں اور اس میں بے ایمانی نہ کریں۔ نگران حکومتوں کا یہ بندوبست پاکستان کے اہل سیاست کا اعتراف جرم ہے ا ور اپنے اوپر ��دم اعتماد ہے۔
Tumblr media
اس کے بعد انہیں کسی سے یہ شکایت نہیں ہونی چاہیے کہ ان کی توہین اور تذلیل کی جاتی ہے۔ وہ اگر خود اپنے آپ میں خیانت اور بد دیانتی کا عنصر غالب سمجھ کر قانون سازیاں فرماتے رہیں گے تو اس کے معاشرے کی فکری ساخت پر اثرات تو مرتب ہوں گے۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ بھارت کی آبادی پاکستان سے چھ گنا زیادہ ہے اور وہاں الیکشن کمیشن اچھے انداز سے الیکشن کروا لیتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ چھ گنا کم آبادی والے پاکستان کا الیکشن کمیشن ہر الیکشن میں تنازعات کا شکار ہو جاتا ہے؟ خرابی کہاں ہے اور کیوں ہے اور کب تک رہے گی؟ اتنی بڑی آبادی کے باوجود بھارت کے انتخابی عمل کا بھٹہ کیوں نہیں بیٹھتا؟ یعنی آپ چاہیں تو یوں سمجھ لیجیے کہ اس کا آر ٹی ایس کیوں نہیں بیٹھتا؟ اس کے ہاں فارم 45 اور47 کا تنازعہ کیوں نہیں کھڑا ہوتا؟ دلی میں کبھی کوئی کنٹینر کیوں نہیں لگا کہ اتنے حلقے کھولو ورنہ ہم لوک سبھا کے سامنے قبریں کھود رہے ہیں؟ کیا اتنے بڑے بھارت کے پاس کوئی ’ایک پیج‘ نہیں کہ وہاں کے تجزیہ کار بھی ہمارے تجزیہ کاروں کی طرح جاسوسیاں کریں کہ حکومت اور مقتدرہ ایک پیج پر ہیں یا نہیں؟ وہاں مارچ میں مارچ کی باتیں کیوں نہیں ہوتیں، اور وہاں ستمبر کو ستم گر کیوں نہیں کہا جاتا؟
چوتھے سوال کا تعلق الیکشن کمیشن کی فعالیت سے ہے۔ بھارت کا الیکشن کمیشن اپنے طور پر اصلاح احوال کے لیے بروئے کار رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک زمانے میں بھارت میں بھی ہماری طرح سب کو آزادی تھی کہ جتنے حلقوں سے کوئی چاہے الیکشن میں حصہ لے لے۔ یہ بھارت کا الیکشن کمیشن تھا جو اس معاملے کو سپریم کورٹ لے گیا اور یہ طے کروا لیا کہ ایک امیدوار زیادہ سے زیادہ دو حلقوں سے کھڑا ہو سکتا ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے اب وزارت قانون سے کہہ رکھ ہے کہ قانون میں مزید ترمیم کی جائے اور ایک آدمی کو صرف ایک حلقے تک محدود کر دیا جائے۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے یہ تجویز بھی دے رکھی ہے کہ اگر ایک امیدوار کو ایک سے زیادہ حلقے سے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دینی ہے تو پھر ان حلقوں کے انتخابی اخراجات اس امیدوار یا اس کی جماعت سے وصول کیے جائیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا الیکشن کمیشن اس طرح فعال کردار کیوں نہیں ادا کر سکتا۔ اور نا قابل عمل اور احمقانہ قسم کے قوانین اور چور دروازوں کو بند کرنے کے لیے وہ پارلیمان اور عدالت کا دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹاتا؟
پانچویں سوال کا تعلق الیکشن کمیشن کے فیصلوں سے ہے۔ ہمارے ہاں الیکشن کمیشن ایک فیصلہ کرتا ہے اگلے روز ہائی کورٹ اس پر سٹے دے دیتی ہے اور معاملات لٹک جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اہل سیاست ایک دوسرے کو طعنے دیتے ہیں کہ فلاں سٹے آرڈر کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ سٹے آرڈر موجود رہتا ہے یہاں تک کہ اسمبلی کی مدت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ وہ صورت حال ہے جو الیکشن کمیشن کو عملا بے بس اور غیر فعال کر دیتی ہے۔ بھارت میں صورت حال مختلف ہے۔ الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق پامال ہوتا رہتا ہے اور وہ بے چارہ منمناتا رہتا ہے کہ ایسا نہ کرو۔ دوسری جانب بھارت ہے، کسی کی جرات نہیں کہ الیکشن کمیشن کوئی حکم دے اور اس حکم کو پامال کر دیا جائے۔ اندرا گاندھی جیسی وزیر اعظم کو راستے میں حکم ملتا ہے کہ اب جب کہ ضمنی الیکشن کا اعلان ہو چکا ہے آپ اس حلقے میں نہیں جا سکتیں، راستے سے واپس آ جائیں۔ اور وہ راستے ہی سے واپس آ جاتی ہیں۔ ابھی مارچ میں بھارتی سپریم کورٹ سے الیکشن کمیشن کے خلاف رجوع کیا گیا تو عدالت نے اس معاملے کو سننے سے انکار کر دیا۔
ہمارے ہاں الیکشن کمیشن کو پنڈولم بنا دیا جاتا ہے۔ یہاں تو فیصلوں کے ��ام پر آئین ری رائٹ کر دیا جاتا ہے اور آگے سے کسی کی مجال نہیں کہ کوئی بات کر سکے۔ بلکہ ری رائٹ کیا یہاں تو آئین کے پا مال ہوتے رہنے کی بھی ایک پوری داستان ہے۔ بھاری انتخابات کے نتائج کیا رہے، یہ ثانوی چیز ہے۔ بنیادی چیز یہ ہے کہ یہ انتخابات ہمارے لیے جو سوالات چھوڑ گئے ہیں کیا ہم ان پر غور کرنے کو تیار ہیں؟
آصف محمود
بشکریہ روزنامہ ۹۲ نیوز
0 notes
forgottengenius · 9 months ago
Text
آئی کیوب قمر : خلا میں پاکستان کا پہلا قدم
Tumblr media
پاکستان کے سیٹلائٹ آئی کیو ب قمر کا گزشتہ روز چین کے خلائی مشن چینگ ای 6 کے ساتھ چاند تک پہنچنے کیلئے روانہ ہو جانا اور یوں خلائی تحقیقات کے میدان میں وطن عزیز کا دنیا کے چھٹے ملک کا درجہ حاصل کر لینا پاکستانی قوم کیلئے یقینا ایک اہم سنگ میل ہے۔ وزیر اعظم نے اس پیش رفت کو بجا طور پر خلا میں پاکستان کا پہلا قدم قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں خدمات انجام دینے والے ہمارے تمام سائنسداں اور تحقیق کار پوری قوم کی جانب سے دلی مبارکباد کے حق دار ہیں۔ دو سال کی قلیل مدت میں آئی کیوب قمر تیار کرنے والے انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے جنرل منیجر ثمر عباس کا یہ انکشاف ہمارے سائنسدانوں کی اعلیٰ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ 2022 میں چینی نیشنل اسپیس ایجنسی نے ایشیا پیسفک اسپیس کارپوریشن آرگنائزیشن کے توسط سے اپنے آٹھ رکن ممالک پاکستان ، بنگلا دیش، چین، ایران، پیرو، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور ترکی کو چاند کے مدار تک مفت پہنچنے کا منفرد موقع فراہم کیا تھا لیکن ان میں سے صرف پاکستان کے منصوبے کو قبول کیا گیا۔ ہماری لامحدود کائنات کے کھربوں ستارے، سیارے اور کہکشائیں ناقابل تصور وسعت رکھنے والے جس خلا میں واقع ہیں، اس کے اسرار و رموز کیا ہیں اور زمین پر بسنے والا انسان اس خلا سے کس کس طرح استفادہ کر سکتا ہے؟ 
Tumblr media
کثیرالوسائل ممالک اس سمت میں پچھلے کئی عشروں سے نہایت تندہی سے سرگرم ہیں۔ ان کے خلائی اسٹیشن انفارمیشن ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کے علاوہ سائنسی تحقیق کے متعدد شعبوں میں قیمتی اضافوں ��ا ذریعہ ثابت ہوئے ہیں جبکہ دنیا کے دیگر ممالک خلائی تحقیق کی دوڑمیں براہ راست شرکت کیلئے کوشاں ہیں۔ پاکستان میں بھی 1961 سے پاکستان اسپیس اینڈ اَپر ای��موسفیئر ریسرچ کمیشن قائم ہے اور مختلف اہداف کے حصول کیلئے کام کررہا ہے جن میں اسے چین کا خصوصی تعاون حاصل ہے۔ آئی کیوب قمر کو انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی نے چین کی شنگھائی یونیورسٹی اورسپارکو کے تعاون سے تیار کیا ہے۔ یہ دنیا کا پہلا مشن ہے جو چاند کی دوسری طرف سے نمونے حاصل کرے گا۔ پاکستانی سیٹلائٹ آئی کیوب قمر آپٹیکل کیمروں سے لیس ہے۔ ٹیسٹنگ اور قابلیت کے مرحلے سے کامیابی سے گزرنے کے بعد آئی کیوب قمر کو چین کے چینگ 6 مشن کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے رکن کور کمیٹی ڈاکٹرخرم خورشید کے مطابق سیٹلائٹ چاند کے مدار پر پانچ دن میں پہنچے گا اورتین سے چھ ماہ تک چاند کے اطراف چکر لگائے گا، سیٹلائٹ کی مدد سے چاند کی سطح کی مختلف تصاویر لی جائیں گی جس کے بعد پاکستان کے پاس تحقیق کیلئے چاند کی اپنی سیٹلائٹ تصاویر ہوں گی۔
ڈاکٹرخرم خورشید کے بقول سیٹلائٹ پاکستان کا ہے اور ہم ہی اس کا ڈیٹا استعمال کریں گے لیکن چونکہ اسے چین کے نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے چاند پر پہنچایا جارہا ہے اس لیے چینی سائنسدان بھی اس ڈیٹا کو استعمال کرسکیں گے۔انہوں نے بتایا کہ یہ اگرچہ ایک چھوٹا سیٹلائٹ ہے لیکن مستقبل میں بڑے مشن کیلئے راہ ہموار کرے گا۔ دنیا کے تقریباً دو سو سے زائد ملکوں میں ساتویں ایٹمی طاقت کا مقام حاصل کرنے کے بعد خلا میں اپنا سیٹلائٹ بھیجنے والا چھٹا ملک بن جانا بلاشبہ پوری پاکستانی قوم کیلئے ایک بڑا اعزاز اور اس کی اعلیٰ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو ترقی یافتہ ملکوں جیسا معیاری تعلیمی نظام اور وسائل مہیا کیے جائیں تو ایسے سائنسداں اور تحقیق کار بڑی تعداد میں تیار ہو سکتے ہیں جو خلائی تحقیقات کے میدان میں نمایاں پیش قدمی کے علاوہ ملک کو درپیش توانائی کے بحران، پانی کی کمیابی ، فی ایکڑ زرعی پیداوار کے نسبتاً کم ہونے، موسمی تبدیلی جیسے مسائل سے نمٹنے اور صنعتی جدت طرازی کی نئی راہیں اور طریقے تلاش کرسکتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduintl · 11 months ago
Text
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجربینچ نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، بنچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے، سماعت مکمل ہونے پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے رائے محفوظ کر لی ہے آج نہیں مگر پھر کسی روز دوبارہ شاید اپنا فیصلہ سنانے بیٹھیں۔
بتایا جارہا ہے کہ آج کی سماعت میں صنم بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو کے وک��ل رضا ربانی کے دلائل دیئے، اس دوران انہوں نے کہا کہ ’بھٹو کیس کے وقت لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آئین کے تحت کام نہیں کر رہے تھے، اس وقت ملک میں مارشل لاء نافذ تھا، بنیادی انسانی حقوق معطل تھے، اس وقت استغاثہ فوجی آمر جنرل ضیاء تھے، اس وقت اپوزیشن اور حکومت کے درمیان نئے الیکشن کے لیے معاملات طے ہو چکے تھے‘۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ’کیا کوئی معاہدہ بھی ہو چکا تھا؟‘ اس پر رضا ربانی نے کہا کہ ’معاہدے پر دستخط ہونا باقی تھے لیکن پھر مارشل لاء نافذ کر دیا گیا، 24 جولائی کو ایف ایس ایف کے انسپکٹرز کو گرفتار کیا گیا، 25 اور 26 جولائی کو ان کے اقبالِ جرم کے بیانات آ گئے، مارشل لاء دور میں زیرِ حراست ان افراد کے بیانات لیے گئے، اس وقت مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، چیف جسٹس پاکستان، قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا ٹرائی اینگل تھا، ذوالفقار علی بھٹو کی برییت سے تینوں کی جاب جا سکتی تھی‘۔
اس موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ’رضا ربانی آپ کہہ سکتے ہیں کہ حسبہ بل میں عدالتی رائے بائنڈنگ تھی‘؟ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ ’حسبہ بل میں کتنے جج صاحبان تھے؟‘ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’حسبہ بل کے صدارتی ریفرنس میں بھی 9 جج صاحبان تھے‘، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’ہم بھی 9 ہی جج ہیں، کوئی اختلاف بھی کر سکتا ہے‘۔ اس بات پر رضا ربانی نے کہا کہ ’اس وقت جج جج نہیں تھے، مختلف مارشل لاء ریگولیشن کے تحت کام کر رہے تھے، مارشل لاء ریگولیشن کے باعث ڈیو پراسس نہیں دیا گیا، بیگم نصرت بھٹو نے بھٹو کی نظر بندی کو چیلنج کیا تھا، اسی روز مارشل لاء ریگولیشن کے تحت چیف جسٹس یعقوب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا‘۔
یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا، صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔
تاہم حال ہی میں اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی 12 دسمبر کو 9 رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔
‏سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس 5 سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟
چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟
جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟
0 notes