#پوچھ
Explore tagged Tumblr posts
Text
میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی
تیرے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں
پوچھ کر اپنی نگاہوں سے بتا دے مجھ کو
میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں
چار دن کی یہ رفاقت جو رفاقت بھی نہیں
عمر بھر کے لیے آزار ہوئی جاتی ہے
زندگی یوں تو ہمیشہ سے پریشان سی تھی
اب تو ہر سانس گراں بار ہوئی جاتی ہے
میری اجڑی ہوئی نیندوں کے شبستانوں میں
تو کسی خواب کے پیکر کی طرح آئی ہے
کبھی اپنی سی کبھی غیر نظر آئی ہے
کبھی اخلاص کی مورت کبھی ہرجائی ہے
پیار پر بس تو نہیں ہے مرا لیکن پھر بھی
تو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں
تو نے خود اپنے تبسم سے جگایا ہے جنہیں
ان تمناؤں کا اظہار کروں یا نہ کروں
تو کسی اور کے دامن کی کلی ہے لیکن
میری راتیں تری خوشبو سے بسی رہتی ہیں
تو کہیں بھی ہو ترے پھول سے عارض کی قسم
تیری پلکیں مری آنکھوں پہ جھکی رہتی ہیں
تیرے ہاتھوں کی حرارت ترے سانسوں کی مہک
تیرتی رہتی ہے احساس کی پہنائی میں
ڈھونڈتی رہتی ہیں تخئیل کی بانہیں تجھ کو
سرد راتوں کی سلگتی ہوئی تنہائی میں
تیرا الطاف و کرم ایک حقیقت ہے مگر
یہ حقیقت بھی حقیقت میں فسانہ ہی نہ ہو
تیری مانوس نگاہوں کا یہ محتاط پیام
دل کے خوں ک��نے کا ایک اور بہانہ ہی نہ ہو
کون جانے مرے امروز کا فردا کیا ہے
قربتیں بڑھ کے پشیمان بھی ہو جاتی ہیں
دل کے دامن سے لپٹتی ہوئی رنگیں نظریں
دیکھتے دیکھتے انجان بھی ہو جاتی ہیں
میری درماندہ جوانی کی تمناؤں کے
مضمحل خواب کی تعبیر بتا دے مجھ کو
میرا حاصل میری تقدیر بتا دے مجھ کو
- ساحر لدھیانوی
19 notes
·
View notes
Text
شام فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
Ask not of the night of separation, it came and it passed away,
My heart found a way to please itself again; life found a way to get back on track again.
#urdu#lit#urdu literature#urdu lines#urdu shayari#urdu ghazal#urdu lyrics#urdu quote#urdu novel#best of faiz ahmed faiz#remembering faiz ahmed faiz#faiz ahmed faiz
73 notes
·
View notes
Text
اس بستی میں اس دھرتی پر سیرابیٔ جاں کا حال نہ پوچھ
یاں آنکھوں آنکھوں آنسو ہیں اور دریا دریا پانی ہے
یہ راز سمجھ میں کب آتا آنکھوں کی نمی سے سمجھا ہوں
اس گرد و غبار کی دنیا میں ہر چیز سے سچا پانی ہے
سلیم احمد
4 notes
·
View notes
Text
اظہارِ محبت کروں یا پوچھ لوں طبیعت ان کی
اے دل ، کوئی تو بہانہ بتا اُن سے بات کرنے کی ~
Izhar e muhabbat karu yaa pooch lu tabiyat unki
Aye dil, koi tou bahana bata unse baat karne ki ~
*Credits go to rightful owners
#thedelusionalselenophile#delulu#delusional#selenophile#poetry#moon lovers#crescent moon#poetry of the heart#full moon#sad thoughts#moon#new moon#moon phases#urdu shairi#urdu shayari#urdu ghazal#urdu quote#urdu literature#urdu#parveen shakir#aesthetic#jaun elia#ahmad faraz#mirza ghalib#literature lover#literature#writers on tumblr#writing
12 notes
·
View notes
Text
Urdu Poetry
جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی
میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی
تجھ کو پوجا ہے کہ اصنام پرستی کی ہے
میں نے وحدت کے مفاہیم کی کثرت کر دی
مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے
تری الفت نے محبت مری عادت کر دی
پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے ترے کوچے کا پتہ
تیرے حالات نے کیسی تری صورت کر دی
کیا ترا جسم ترے حسن کی حدت میں جلا
راکھ کس نے تری سونے کی سی رنگت کر دی
جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی
میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی
تجھ کو پوجا ہے کہ اصنام پرستی کی ہے
میں نے وحدت کے مفاہیم کی کثرت کر دی
مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے
تری الفت نے محبت مری عادت کر دی
پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے ترے کوچے کا پتہ
تیرے حالات نے کیسی تری صورت کر دی
کیا ترا جسم ترے حسن کی حدت میں جلا
راکھ کس نے تری سونے کی سی رنگت کر دی
احمد ندیم قاسمی
5 notes
·
View notes
Text
سمجھا لیا فریب سے مجھ کو تو آپ نے
دل سے تو پوچھ لیجیے کیوں بے قرار ہے
समझा लिया फरेब से मुझको तो आपने
दिल से तो पूछ लीजिए कयूं बेकरार है!
8 notes
·
View notes
Text
بعض اوقات آپ بڑے فلسفیانہ انداز میں پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی؟
Sometimes you are asking in a very philosophical way, when will the resurrection come?
حالانکہ ساتھ بیٹھے شخص پر بیت رہی ہوتی ہے۔
Although the person sitting next to is going through it...
18 notes
·
View notes
Text
بعض اوقات آپ بڑے فلسفیانہ انداز میں پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی؟ حالانکہ ساتھ بیٹھے شخص پر بیت رہی ہوتی ہے۔
12 notes
·
View notes
Text
سائے کی بھیک مانگ رہے ہیں بیول سے
کیا جانے تو کہ کیسے زندگی گزرتی ہے
کیفِ ملال پوچھ کسی دل ملول سے
میں آج تک سفر میں ہوں اس اعتماد سے
ابھریں گی منزلیں میرے قدموں کی دھول سے
اب ڈس رہا ہے ان کے گزرنے کا غم مجھے
جو لمحے میں گزار چکا ہوں فضول سے
3 notes
·
View notes
Text
یہ تو پوچھ اس سے کہ جس پر یہ بلا گُزری ہے
کیا خبر تجھ کو کہ کیا ہے شبِ ہجراں جاناں 🥀
2 notes
·
View notes
Text
تیری چاہت سے گریزاں بھی رہے اور ہم نے
تیری یادوں کے بھی انبار لگا کر رکھے
کس قدر لوٹ مچی شہرِنگاراں میں نہ پوچھ
ہاں مگر ہم نے ترے درد بچا کر رکھے
دل جو ٹوٹا بھی تو تقدیر کو ٹھہرایا سبب
آنکھ بھر آئی تو الزام گھٹا پر رکھے
- مجید اختر
7 notes
·
View notes
Text
پی سی بی کا آئی سی سی کو خط
(24 نیوز) حکومتی ہدایت پر پاکستان کرکٹ بو��ڈ (پی سی بی) چیمپئنز ٹرافی کے پاکستان میں انعقاد کے معاملے پر ڈٹ گیا۔ ذرائع کے مطابق حکومتی ہدایت پر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے آئی سی سی کو خط لکھ دیا، خط میں پی سی بی نے پاکستانی حکومت کے سخت مؤقف سے آگاہ کردیا اور بھارت کے پاکستان نہ آنے کی ٹھوس وجوہات بھی پوچھ لیں۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ پی سی بی نے خط میں واضح کیا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی پاکستان…
0 notes
Text
مجھے کیوں عزیز تر ہے یہ دھواں دھواں سا موسم
یہ ہوائے شام ہجراں مجھے راس ہے تو کیوں ہے
تجھے کھو کے سوچتا ہوں مرے دامن طلب میں
کوئی خواب ہے تو کیوں ہے کوئی آس ہے تو کیوں ہے
میں اجڑ کے بھی ہوں تیرا تو بچھڑ کے بھی ہے میرا
یہ یقین ہے تو کیوں ہے یہ قیاس ہے تو کیوں ہے
مرے تن برہنہ دشمن اسی غم میں گھل رہے ہیں
کہ مرے بدن پہ سالم یہ لباس ہے تو کیوں ہے
کبھی پوچھ اس کے دل سے کہ یہ خوش مزاج شاعر
بہت اپنی شاعری میں جو اداس ہے تو کیوں ہے
ترا کس نے دل بجھایا مرے اعتبار ساجد
یہ چراغ ہجر اب تک ترے پاس ہے تو کیوں ہے
اعتبار ساجد
4 notes
·
View notes
Text
قرض سے چھٹکارا کب اور کیسے؟
پاکستانی عوام مہنگائی اور مشکلات کی جس چکی سے گزر رہے ہیں، وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے میں کسی بھی قسم کی خاطر خواہ پیش رفت نظر نہیں آتی۔ پاکستان کی معیشت اور عوام کی مشکلات کی ویسے تو کئی وجوہات ہیں جن میں گڈ گورننس کی کمی، ترقیاتی ہدف کی جانب نیک نیتی سے پیش قدمی کا نہ ہونا، سیاسی ماحول میں تسلسل سے کھنچاؤ لیکن معاشی اعتبار سے ان سب کی جڑ دو اہم مسئلوں میں الجھی ہوئی ہے۔ ان دونوں مسئلوں کا قابل عمل حل جب تک تلاش نہ کیا جائے گا نہ تو ملکی معیشت میں استحکام پیدا ہو گا اور نہ ہی عام آدمی کی زندگی فلاح و بہبود کی جانب بڑھ سکے گی اور یہ دو معاملات ہیں پاکستان پر بڑھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ اور بجلی کی مد میں کپیسٹی چارجز کی رقم، ان دونوں مسئلوں نے پاکستانی معیشت اور عوام کو جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ آئیے ذرا ان کا جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان اس حوالے سے کس مشکل میں گرفتار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان نے اس مالی سال کے دوران 40 ارب ڈالر کا قرض واپس کرنا ہے۔ اس ادائیگی میں قرض کی اصل رقم تو صرف آٹھ بلین ڈالر ہو گی جب کہ باقی 32 ارب ڈالر سود کی مد میں ادا کرنے ہوں گے۔ پاکستان کے پاس آمدنی ہو یا نہ ہو اسے ہر حال میں 32 بلین ڈالر تو ادا کرنے ہی ہوں گے۔ بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں کے نتیجے میں ہر سال ایک خطیر رقم قرض پر دیے جانے والے سود کی مد میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔
ادھر آئی پی پی سے پیدا ہونے والی بجلی کے مد میں ہمیں ساڑھے سات بلین ڈالر کپیسٹی پیمنٹ کے طور پر دینے ہیں۔ سالہا سال گزر جانے کے باوجود حکمرانوں کے پاس اس سے نکلنے کے لیے نہ تو کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی ان معاملات کو حل کرنے کا عزم نظر آ رہا ہے۔ ہم کبھی سعودی عرب کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی چین کی طرف، کبھی متحدہ عرب امارات کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ کوئی مدد دے دیں۔ اس صورتحال کے ذمے دار کون ہیں۔ ہم پر کتنا قرضہ ہے اور یہ کس طرح چڑھا ہے اور اس گرداب سے نکلنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے۔ اس بار یہ توقع کی جا رہی تھی کہ شاید حکومت اور مقتدر قوتی ایسے اصلاحی اقدامات کریں جس سے ہم خیر کی راہ پر چل نکلیں۔ لیکن بدقسمتی سے وہی “ڈھاک کے تین پات” … افسوس کہ “کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا” ۔ معاشی ماہرین اور پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ اشرافیہ عوام کو ہر ایشو پر دھوکے میں رکھ رہی ہے۔
حکومت سہانے خواب دکھاتی ہے کہ 10 بلین ڈالر فلاں جگہ سے آ رہے ہیں۔ 15 ملین ایک بین الاقوامی ادارہ امداد کے طور پر دے رہا ہے اور جب یہ رقوم آجائیں گی تو ہم خسارے پر بھی قابو پا لیں گے، کپیسٹی چارجزکا مسئلہ بھی حل کر لیں گے، سود کی قسط بھی ادا کر دیں گے اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی رقم مہیا کر سکیں گے۔ یہ سب کچھ بالکل اسی طرح ہے کہ کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لے اور سوچے کہ میں اب محفوظ ہو گیا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک خواب دکھانے کے مترادف ہے۔ حکمران اور سیاست دانوں کی نیتیں ٹھیک نہیں ہیں۔ وہ اصل مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں، صرف ڈنگ ٹپاؤ کام ہو رہا ہے۔ ملک کی معاشی اور معاشرتی صورتحال ایک پیچیدہ اور گنجلک جال بن چکا ہے۔ اس کا سرا نہ تو کوئی نیک نیتی سے پکڑنا چاہ رہا ہے اور نہ ہی کسی کو فکر ہے۔ اس ملک کے حکمران اپنی آنکھیں اور دماغ کیوں نہیں کھول رہے۔ پاکستان کی نسبت کم تر وسائل رکھنے والے ملک اور مشکلات سے گھری قوموں نے بھی منزل کو جانے والا راستہ ڈھونڈ نکالا ہے لیکن ایک ہم ہیں جو اپنی ہی صورت کو بگاڑنے پر لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس من حیث القوم وقت نہ ہونے ک�� برابر ہے۔ ہمیں نعرے بازی اور بیانیے کی جنگ کو چھوڑ کرملک اور قوم کی تعمیر کے لیے لائحہ عمل تشکیل دینا ہے۔ پاکستانی عوام کے دکھ درد کا مداوا کب ہو گا؟ اور کون کرے گا؟… یہ ہے وہ سوال جو پاکستان کے عوام حکمرانوں سے پوچھ رہے ہیں۔
سرور منیر راؤ
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Photo
تقصیر میں سارے سر کے بال کٹوانا ضروری ہے سوال ۵۲۴: جو شخص عمرے میں اپنے سر کے تھوڑے سے حصے کے بال کٹوا دیتا ہے، اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ جواب :میری رائے میں اس کا عمل تقصیر (بال کٹوانا) مکمل نہیں، لہٰذا اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے معمول کے کپڑے اتار دے، احرام کے کپڑے پہن لے، پھر صحیح طریقے سے سارے سر کے بال کٹوائے اور پھر حلال ہو۔ اس مناسبت سے میں اس طرف توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر وہ مومن جو اللہ تعالیٰ کے لیے کسی عبادت کو سر انجام دینے کا ارادہ کرے، اس کے لیے واجب ہے کہ وہ اس عبادت کے بارے میں ان حدود کو پہچانے، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے تاکہ وہ علی وجہ البصیرت اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے: ﴿قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ﴾ (یوسف:۱۰۸) ’’کہہ دو میرا راستہ تو یہ ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں (ازروئے یقین و برہان) سمجھ بوجھ کر۔ میں بھی (لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں) اور میرے پیروکار بھی۔‘‘ اگر کوئی انسان مکہ سے مدینہ کی طرف سفر کرنا چاہے، تو وہ اس وقت تک سفر کے لیے نہ نکلے جب تک راستے کے بارے میں پوچھ نہ لے۔ جب حسی راستوں کے بارے میں معلوم کرنا ضروری ہے، تو ان معنوی راستوں کے بارے میں کیوں معلوم نہ کیا جائے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والے ہیں؟ تقصیر کے معنی یہ ہیں کہ سارے سر کے بال کٹوائے جائیں۔ اس سلسلے میں افضل یہ ہے کہ مشین استعمال کی جائے کیونکہ اس سے سارے سر کے بال کٹ جاتے ہیں، گو قینچی کے ذریعہ بال کاٹنا بھی جائز ہے لیکن ش��ط یہ ہے کہ اس کے ساتھ سارے سر کے بال کاٹے جائیں جیسے کہ وضو میں سارے سر کا مسح ضروری ہے، ایسے ہی تقصیر میں بھی سارے سر کے بالوں کو کٹوانا ضروری ہے۔ واللّٰہ اعلم فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۴۷، ۴۴۸ ) #FAI00423 ID: FAI00423 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes