#urdu novel
Explore tagged Tumblr posts
rouphicc · 1 year ago
Text
Tumblr media
سر طور ہو سر حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے ، وہ کبھی ملیں ، وہ کہیں ملیں ، وہ کبھی سہی ، وہ کہیں سہی
― Umera Ahmed, Peer e Kamil
60 notes · View notes
zeynobishan · 10 months ago
Text
But when Umera Ahmed wrote in Aab e Hayat:
Tumblr media
“Voh log zindagi me kyun aate hai jo mukadar me nhi hote aur mukadar mẹ nhi hote toh aedhi ka kanta kyun ban jate hai.”
And when Nemrah Ahmed wrote in Halim:
Tumblr media
"Kuch log hamare liye nhi hote ham duein krein ya jadu wou hme kbhi nhi mil sktay...In logon ka milnay ki khwaish ko tark krdena dil ko mardeta hai"
And when Umera Ahmed wrote in Amarbail:
Tumblr media
“Zindagi mein kuch cheezein aesi hoti hn jo hme kbhi nhi mil skti...Chahein hum royein chilyein ya bachoun ki trha aeriyan ragrein wo kisi dusray ke liye hoti hein”
37 notes · View notes
be-wajhah · 2 years ago
Text
شام فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
Ask not of the night of separation, it came and it passed away,
My heart found a way to please itself again; life found a way to get back on track again.
73 notes · View notes
iwajidshaikh · 9 months ago
Text
Tumblr media
From Book Sukoon,2023 by Wajid Shaikh
9 notes · View notes
oye-its-me · 1 month ago
Text
Tumblr media
میں نے ہی تمہیں خُ��ا سے دُور کیا،
اُس شخص کو جو مجھے ہر شے و اِنسان سے زیادہ عزیز ہے۔
تُم مجھ سے دُور ہوئیں اور خُدا ایسے ہی اپنے بندوں کو بچاتا ہے جیسے تمہیں مجھ سے۔ تمہیں خدا مل گیا اور میں دونوں سے محروم۔
بقول تمہارے کے میرے جذبات ، سچائی سے عاری اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں تھے
اور اب بات خُدا کی آگئی ہے تو اسِ نہج پر تسلیم و اعتراف کے سوا کوئی چارا ہی نہیں میرے پاس۔
2 notes · View notes
my-urdu-soul · 2 years ago
Text
کچھ شوق تھا یار فقیری کا
کچھ عشق نے در در بھٹکایا
- منیر نیازی
Kuch shok tha yaar faqeeri ka
Kuch ishq ne dar dar bhatkaya
- Munir Niazi
43 notes · View notes
chandtarasblog · 1 year ago
Text
Tumblr media
From abdullah the novel
17 notes · View notes
urdustoriespoint · 1 year ago
Text
Choti Umar – Part 08 – چھوٹی عمر – Bold Novel
Choti Umar – Part 08 – چھوٹی عمر – Bold Romantic Urdu Novel سردار ڈاکو مجھے کسی بھی طرح کی رائے دینے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اور اس کے تینوں ساتھی مل کر میرے ساتھ کھیل کھیلیں گے اور جب ان کا دل بھر جائے گا تو وہ مجھے سندھ میں بڑے سائیں کی حویلی میں لے جائیں گے۔ میں مجبور تھی میرے پاس ان کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ Urdu Novel انہوں نے میرے محافظ ساگر کو اٹھا کر…
Tumblr media
View On WordPress
1 note · View note
urduzz · 2 years ago
Text
https://urduz.com/desi-kimchi-episode-1/
0 notes
urduclassic · 2 years ago
Text
طویل ترین اشاعت کی حامل تحریر " دیوتا " کے خالق ، محی الدین نواب صاحب
Tumblr media
سسپنس ڈائجسٹ میں طویل ترین اشاعت کی حامل تحریر " دیوتا " کے خالق ، محی الدین نواب صاحب تھے. یہ سیریز ٹیلی پیتھی کے ماہر، فرہاد علی تیمور کی روداد تھی کہ جس کو مسلسل 30 سال تک قسط وار لکھا گیا. (بنام محی الدین نواب، 4 ستمبر 1930 تا 6 فروری 2016). طویل ترین قسط وار کہانی " دیوتا " ایک مقبول ترین سلسلہ تھا جو 1977 سے آغاز کر کے 2010 تک مسلسل ہر ماہ لکھا گیا. یہ اردو ادب کا سب سے زیادہ شائع ہونے والا طویل ترین قسط وار ناول تھا کہ جس کو پڑھنے والوں نے اپنی دو سے تین نسلیں گزار دیں. جب یہ الگ کتابی صورت میں شائع ھوا تو اسکی 57 جلدیں بنیں. محی الدین نواب صاحب نے اتنا کچھ کیسے لکھ دیا ؟ کیونکہ جتنا انہوں نے لکھا ہے، اتنا لکھا ہی نہیں جا سکتا، مگر اس سے بڑا اسرار، انکی اپنی زندگی تھی کہ انہوں نے ہمیشہ خود کو راز میں رکھا اور بہت کم لوگوں کو، انکی ��ات کے بارے میں علم ھو گا، حتی کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی، انکی تصویر تک سے آگاہ نہیں تھے، کیونکہ محی الدین صاحب اپنی ذات کو خفی رکھنا پسند کرتے تھے۔
آج ھم ان کے بارے میں ایسی باتیں بھی سامنے لائیں گے کہ جو بہت کم لوگ جانتے ہونگے . شہرہ آفاق مصنف ، محی الدین نواب صاحب ، بنگال کے شہر کھڑگ پور میں پیدا ہوئے . وہ نسلی اعتبار سے بنگالی مسلم تھے . عام بنگالیوں کی طرح ، وہ چھوٹے قد و قامت ، موٹی آنکھوں والے ، سانولی رنگت کے حامل تھے ، کئی زبانوں کے ماہر اور بولنے میں بہت شیریں لکھنوی انداز کی اردو بولتے تھے، ہند و پاک کی تقسیم کے بعد وہ بہار سے پاکستان (1970 میں) لاہور چلے آئے کہ بہار کو ہندوستانی علاقہ بنا دیا گیا تھا، ان کی پہلی شادی چھوٹی عمر میں ہی ھو چکی تھی لاہور آکر انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، علم و ادب سے محبت اور گہری وابستگی ، ان کے خون میں شامل تھی اور اسی کام کو ہی انہوں نے ذریعہ روزگار بھی بنایا اور بہت سی تحریریں لکھیں اور پبلشرز کے حوالے کیں، مگر جیسا کہ کچھ پبلشرز کا حال ہے، بہت سوں نے نیا ادیب اور نئی تحریر کا کہہ کر ٹرخا دیا اور کئی نے بہت کم معاوضہ دے کر کہانی ہتھیانے کا بھی قصد کیا . ( کچھ پبلشرز آج بھی یہی گر استمال کر رھے ہیں معزرت کے ساتھ) 
Tumblr media
کم معاوضہ کے باوجود ، نواب صاحب نے بہت کچھ لکھا، اصل نام سے بھی اور دیبا کے فرضی نام سے بھی، مگر انہیں کوئی پزیرائی نہ مل سکی . انہوں نے کراچی کے پبلشنگ اداروں سے رابطہ کیا تو مقبول ترین سسپنس ڈائجسٹ کے مدیر اعلی، معراج رسول صاحب نے ان میں گوہر خاص دیکھ لیا . انہوں نے نواب صاحب کو کراچی بلوا لیا اور زندگی بھر کے لئے ، سسپنس ��ائجسٹ میں بہترین معاوضہ پر لکھنے کی پیشکش کی جو ساری عمر قائم رہی اور نواب صاحب نے ، دیوتا کی اشاعت کے ساتھ ساتھ ہی متعدد ملک گیر مقبولیت کی حامل کہانیاں بھی لکھیں کہ جو ظاہر ہے مالی خوشحالی کے بعد �� لکھنی آسان بھی تھیں. دیوتا کے ہر ماہ لکھے ، 30 سالہ ریکارڈ کے بعد ، انہوں نے دیگر موضوعات پر بھی ادبی و افسانوی کتب لکھیں انکا انداز بیان اور الفاظ و احساسات کی چاشنی باکمال تھی اور انکی تعداد بھی اتنی زیادہ تھی کہ سن کر بھی حیرانگی ہوتی ہے. اس پر اگلی سطور میں بات کی جائے گی. 
کراچی آمد کے بعد خوشحالی کا دور آیا تو محی الدین صاحب نے پہ در پہ مزید شادیاں کئیں . انکی چار شادیاں اور تیرہ بچے تھے ، ایک جواں سال بچے کی بے وقت موت پر وہ بےحد افسردہ بھی تھے، وہ سسپنس ڈائجسٹ کی قسط وار کہانی کا ماہانہ معاوضہ 50 ہزار لیا کرتے تھے اور دیگر فی کہانی 40 ہزار، یوں انہوں نے اچھی علمی زندگی کے ساتھ ساتھ ، کامیاب مالی زندگی بھی گزاری . انکی پہلی کتاب 23 سال کی عمر میں لکھی گئی اور 86 سال کی عمر تک یہ سلسلہ جاری رہا. اب بتاتے ہیں کہ ایک انسان ، اتنا زیادہ کیسے لکھ سکتا ہے . تو جناب من ! نواب صاحب ، اپنی ساری کہانی کی روداد ایک چھوٹے سے ٹیپ ریکارڈ میں بھر لیا کرتے تھے کہ جسے کشور سلطانہ نامی ایک دبلی پتلی سی ، نازک اندام لڑکی ، الفاظ کا روپ دیا کرتی تھی ، مطلب الفاظ گری کی ساری تعریف ، کشور سلطانہ کے نام جاتی ہے ، اس نازک اندام لڑکی نے ، اپنا بھی بہت سا کام لکھا کہ جس کی تحریری جھلک ، نواب صاحب کے جیسی دکھتی ہے.
نواب صاحب کی تمام تر توجہ لکھنے کی طرف تھی تو صحت کے بگڑنے کا پتا ہی نہیں چلا. وہ دمہ کے مرض میں مبتلا ھو گئے کہ جو کبھی شدید کھانسی کا سبب بھی بنتا. وہ بہت بار سوات بھی رہے تاکہ بحالی صحت ھو سکے. اب کچھ تذکرہ انکی شہرہ آفاق کہانیوں کا ھو جائے کہ جن کی مثال بہت مشکل سے ملتی ہے. دل پارہ پارہ ، آدھا چہرہ ، ایمان کا سفر ، کچرا گھر۔
بشکریہ : سسپنس ڈائجسٹ  
0 notes
maihonhassan · 1 month ago
Text
And when Mahmoud Darwish wrote;
“tumhari gair maujoodgi mein sab theek hai, siwaye mere.”
144 notes · View notes
rouphicc · 1 year ago
Text
when furqan suggested : "usse bhool jao"
and salar replied with : "koi saans lena bhool sakta hai?" >>>>>>
i melted 🫠
38 notes · View notes
zeynobishan · 9 months ago
Text
unfulfilled desires
کچھ ادھوری خواہشوں کا سلسلہ ہے زندگی
Kuch adhuri khwahishon ka silsila hai Zindagi
8 notes · View notes
be-wajhah · 2 years ago
Text
Tumblr media
You have witnessed that forehead, that aspect, those lips,
In whose imagination I wasted away my life.
Tumblr media
Those lost magical eyes have been raised to meet yours,
You know why I wasted my life pining.
69 notes · View notes
nabihahahahahaha · 6 months ago
Text
Tumblr media Tumblr media
They said; "hm intyzar karien gy"
But when Salar Sikander said:
Sar-e-toor ho, sar-e-hashr ho hamien intyzar qabool hai Wo kabhi milien wo kahien milien wo kabhi sahi wo kahin sahi
62 notes · View notes
mycomfortspace · 1 month ago
Text
"Yeh Dunya humein apni maa ki nazar se nahi dekhti"
- Parizaad.
34 notes · View notes