#Foreign debts
Explore tagged Tumblr posts
Text
قرض سے چھٹکارا کب اور کیسے؟
پاکستانی عوام مہنگائی اور مشکلات کی جس چکی سے گزر رہے ہیں، وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے میں کسی بھی قسم کی خاطر خواہ پیش رفت نظر نہیں آتی۔ پاکستان کی معیشت اور عوام کی مشکلات کی ویسے تو کئی وجوہات ہیں جن میں گڈ گورننس کی کمی، ترقیاتی ہدف کی جانب نیک نیتی سے پیش قدمی کا نہ ہونا، سیاسی ماحول میں تسلسل سے کھنچاؤ ل��کن معاشی اعتبار سے ان سب کی جڑ دو اہم مسئلوں میں الجھی ہوئی ہے۔ ان دونوں مسئلوں کا قابل عمل حل جب تک تلاش نہ کیا جائے گا نہ تو ملکی معیشت میں استحکام پیدا ہو گا اور نہ ہی عام آدمی کی زندگی فلاح و بہبود کی جانب بڑھ سکے گی اور یہ دو معاملات ہیں پاکستان پر بڑھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ اور بجلی کی مد میں کپیسٹی چارجز کی رقم، ان دونوں مسئلوں نے پاکستانی معیشت اور عوام کو جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ آئیے ذرا ان کا جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان اس حوالے سے کس مشکل میں گرفتار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان نے اس مالی سال کے دوران 40 ارب ڈالر کا قرض واپس کرنا ہے۔ اس ادائیگی میں قرض کی اصل رقم تو صرف آٹھ بلین ڈالر ہو گی جب کہ باقی 32 ارب ڈالر سود کی مد میں ادا کرنے ہوں گے۔ پاکستان کے پاس آمدنی ہو یا نہ ہو اسے ہر حال میں 32 بلین ڈالر تو ادا کرنے ہی ہوں گے۔ بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں کے نتیجے میں ہر سال ایک خطیر رقم قرض پر دیے جانے والے سود کی مد میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔
ادھر آئی پی پی سے پیدا ہونے والی بجلی کے مد میں ہمیں ساڑھے سات بلین ڈالر کپیسٹی پیمنٹ کے طور پر دینے ہیں۔ سالہا سال گزر جانے کے باوجود حکمرانوں کے پاس اس سے نکلنے کے لیے نہ تو کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی ان معاملات کو حل کرنے کا عزم نظر آ رہا ہے۔ ہم کبھی سعودی عرب کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی چین کی طرف، کبھی متحدہ عرب امارات کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ کوئی مدد دے دیں۔ اس صورتحال کے ذمے دار کون ہیں۔ ہم پر کتنا قرضہ ہے اور یہ کس طرح چڑھا ہے اور اس گرداب سے نکلنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے۔ اس بار یہ توقع کی جا رہی تھی کہ شاید حکومت اور مقتدر قوتی ایسے اصلاحی اقدامات کریں جس سے ہم خیر کی راہ پر چل نکلیں۔ لیکن بدقسمتی سے وہی “ڈھاک کے تین پات” … افسوس کہ “کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا” ۔ معاشی ماہرین اور پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ اشرافیہ عوام کو ہر ایشو پر دھوکے میں رکھ رہی ہے۔
حکومت سہانے خواب دکھاتی ہے کہ 10 بلین ڈالر فلاں جگہ سے آ رہے ہیں۔ 15 ملین ایک بین الاقوامی ادارہ امداد کے طور پر دے رہا ہے اور جب یہ رقوم آجائیں گی تو ہم خسارے پر بھی قابو پا لیں گے، کپیسٹی چارجزکا مسئلہ بھی حل کر لیں گے، سود کی قسط بھی ادا کر دیں گے اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی رقم مہیا کر سکیں گے۔ یہ سب کچھ بالکل اسی طرح ہے کہ کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لے اور سوچے کہ میں اب محفوظ ہو گیا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک خواب دکھانے کے مترادف ہے۔ حکمران اور سیاست دانوں کی نیتیں ٹھیک نہیں ہیں۔ وہ اصل مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں، صرف ڈنگ ٹپاؤ کام ہو رہا ہے۔ ملک کی معاشی اور معاشرتی صورتحال ایک پیچیدہ اور گنجلک جال بن چکا ہے۔ اس کا سرا نہ تو کوئی نیک نیتی سے پکڑنا چاہ رہا ہے اور نہ ہی کسی کو فکر ہے۔ اس ملک کے حکمران اپنی آنکھیں اور دماغ کیوں نہیں کھول رہے۔ پاکستان کی نسبت کم تر وسائل رکھنے والے ملک اور مشکلات سے گھری قوموں نے بھی منزل کو جانے والا راستہ ڈھونڈ نکالا ہے لیکن ایک ہم ہیں جو اپنی ہی صورت کو بگاڑنے پر لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس من حیث القوم وقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمیں نعرے بازی اور بیانیے کی جنگ کو چھوڑ کرملک اور قوم کی تعمیر کے لیے لائحہ عمل تشکیل دینا ہے۔ پاکستانی عوام کے دکھ درد کا مداوا کب ہو گا؟ اور کون کرے گا؟… یہ ہے وہ سوال جو پاکستان کے عوام حکمرانوں سے پوچھ رہے ہیں۔
سرور منیر راؤ
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
پاکستان کو قرض و سود سے بچانے کی ایک تجویز
پاکستان کو سود اس تیزی سے کھا رہا ہے کہ اب تو ہمارے بجٹ کا بڑا حصہ سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ سود کی مد میں مالی سال 2023-2024 میں 7300 ارب روپے مختص کیے گئے تھے لیکن کہا جا رہا ہے کہ سود کی ادائیگی اس سال کوئی 8300 ارب روپے سے بھی زیادہ ہو گی جبکہ آئندہ سال سود کی ادائیگی کیلئے مختص تخمینہ کوئی 9500 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ ہمارے قرضے (جن میں بہت بڑا حصہ اندرونی قرضوں کا ہے) اتنے بڑھ چکے ہیں اور بڑھتے جا رہے ہیں کہ اگر کوئی حل نہ نکالا گیا تو پاکستان اپنا بجٹ بھی نہیں بنا سکے گا کہ سارے کا سارا بجٹ ہی سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جائے تو پھر ملک کیسے چل سکتا ہے؟؟ کچھ عرصہ قبل مجھے ایک صاحب ملنے آئے جن کا نام قانت خلیل اللہ ہے۔ وہ ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں اور کچھ اہم اداروں سے منسلک رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اندرونی قرضے فوری طور پر ختم ہو سکتے ہیں جس سے سود کا بوجھ ختم ہو جائے گا۔ قانت صاحب نے دی نیوز میں اس سلسلے میں تین آرٹیکل بھی لکھے جبکہ وہ مختلف فورمز پر جا کر اپنی تجویز بھی سب کے سامنے رکھ رہے ہیں۔
میں نے وزیراعظم شہباز شریف صاحب سے بھی درخواست کی تھی کہ اپنی معاشی ٹیم کو کہیں کہ قانت صاحب کو سنیں اور اگر اُن کی تجویز میں کوئی وزن ہے تو اُس پر سنجیدگی سے غور کر کے پاکستان کو سود کے اس سنگین خطرے اور گناہ کبیرہ سے بچائیں۔ ابھی تک تو قانت صاحب سے حکومت کی طرف سے تو کوئی رابطہ نہیں کیا گیا لیکن میں نے اُن سے درخواست کی کہ مجھے اردو زبان میں قرضوں اور سود کے اس بوجھ کو ختم کرنے کیلئے اپنی تجویز لکھ کر بھیجیں تاکہ میں اُسے اپنے کالم میں شائع کر سکوں۔ ان کی تجویزدرج ذیل ہے: ’’جدید بینکنگ نظام میں دو قسم کی کرنسی یا پیسے ہوتے ہیں: بینک نوٹ (جو مرکزی بینک جاری کرتا ہے) اور بینک ڈپازٹ، جو کمرشل بینکوں کے قرضے ہوتے ہیں۔ عمومی نقطہ نظر سے، بینک ڈپازٹس نقد رقم رکھنے کے برابر ہیں۔ بینک جب قرضے جاری کرتے ہیں، نئے روپے تخلیق کرتے ہیں، کیونکہ اسی وقت بینک اکاؤنٹس میں نمبر (بینک ڈپازٹس) ظاہر ہوتے ہیں۔
بینک آف انگلینڈ کے الفاظ میں: ’’جب ایک بینک قرض دیتا ہے، اسی لمحے، نیا پیسہ تخلیق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، کسی کو گھر خریدنے کیلئے قرض دینے والے کو بینک ہزاروں پاؤنڈ مالیت کے نوٹ نہیں دیتا۔ اس کے بجائے، وہ ان کے بینک اکاؤنٹ میں قرض کے برابر بینک ڈپازٹ کریڈٹ کرتا ہے۔‘‘ (بینک آف انگلینڈ سہ ماہی بلیٹن، 2014 Q1) زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کیلئے، تجارتی بینکس زیادہ قرضے جاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فریکشنل ریزرو سسٹم کے تحت صرف 6-5 فیصد مرکزی بینک کی ریزرو کرنسی کے ساتھ�� بینک قرضے جاری کر سکتے ہیں اور تقریباً بیس گنا تک بینک ڈپازٹ میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ تاہم، ان کے پیسہ کی توسیع سے ہونیوالی افراط زر یا مہنگائی کو مرکزی بینک بلند شرح سود کی پالیسی کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ قرض لینے کی سرگرمی کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ تاہم جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، پاکستان میں بلند شرح سود پالیسی مؤثر نہیں ہے کیونکہ تجارتی بینکوں کی سب سے بڑی قرض دار حکومت پاکستان خود ہی ہے، جو قرضے واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پیسے کی تخلیق کے قانونی اختیارات کے باوجود، پاکستان کی ریاست نجی بینکوں سے بڑے پیمانے پہ اور قرضے لے رہی ہے تاکہ پرانے قرضوں پر سود ادا کر سکے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے؛ حکومت سود کی ادائیگی کیلئے قرض لیتی ہے، جس سے حکومت کا قرض بڑھتا ہے، اور سود کی ادائیگی کے نتیجے میں بینک ڈیپازٹس میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہم پیسے کی فراہمی میں اضافے کی وجہ سے افراط زر کا سامنا کر رہے ہیں، اور ہمارے بچوں پر حکومتی قرض کا بوجھ مسلسل بڑھتا چلا جائے گا۔ پاکستان کے سنگین معاشی مسائل کا حل مکمل ریزرو بینکنگ کا نفاذ ہے۔ اس نظام کی تائید بیسویں صدی کے بڑے ماہرین معاشیات ، جن میں ملٹن فریڈ مین اور فشر نمایاں ہیں، نے کی ہے اور اس کے نفاذ کو نہایت ہی قابل عمل اور آسان بتایا ہے۔ یہ منظم مالیاتی نظام بھاری سرکاری قرضوں کے بوجھ اور ان پر سود کے اخراجات کو ختم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ منصوبہ مالیاتی استحکام کو یقینی بنانے، افراط زر کو کنٹرول کرنے اور اقتصادی خوشحالی کو فروغ دینے کے مقاصد کو حاصل کر سکتا ہے۔ فریکشنل ریزرو سسٹم، جو پیسے کی فراہمی میں اتار چڑھاؤ اور اقتصادی عدم استحکام کا ذمہ دار ہے، اس کو مکمل ریزرو سسٹم سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ نیا تجویز کردہ نظام درج ذیل بنیادی اصولوں پر کام کرے گا:
۱۔ تجارتی بینکس قرض جاری کرنے اور انویسٹمنٹ کرنے کے عمل میں نیا پیسہ /کرنسی تخلیق نہیں کرسکیں گے۔ ۲۔ پیسہ تخلیق کرنے کی صلاحیت ایک خود مختار ادارے جیسے اسٹیٹ بینک کو منتقل کی جائے گی جو جی ڈی پی میں اضافے کے برابر نیا پیسہ تخلیق کر یگا تاکہ مہنگائی یا افراط زر نہ ہو۔ ۳۔ نیا تخلیق کردہ پیسہ غریب طبقے کی بنیادی ضروریات اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے استعمال کیا جائے گا تاکہ اشیا کی طلب کے ساتھ سپلائی میں بھی موثر اضافہ ہو۔
سو فیصد (100%) ریزرو سسٹم میں، بینکوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ اپنے تمام ڈپازٹس کیلئے 5 فیصد کی جگہ 100 فیصد تک مرکزی بینک کی ریزرو کرنسی رکھیں۔ نتیجتاً، بینک کے قرضوں سے نیا پیسہ تخلیق کرنے کا عمل بند ہو جائے گا، اس کے بجائے، بینکوں کو قرضے جاری کرنے کیلئے پہلے سرمایہ حاصل کرنے کی ضرورت ہو گی، اس سے پیسے کی فراہمی میں بڑے پیمانے پر اتار چڑھاؤ کو روکا جاسکے گا۔ مزید یہ کہ بینکوں کو مرکزی بینک کی ریزرو کرنسی کو حاصل کرنے کیلئے حکومتی بانڈز اور ٹریژری بلز اسٹیٹ بینک کے حوالے کرنا ہوں گے، اور کیونکہ 100 فیصد ریزرو کرنسی کی مقدار بینکوں کے پاس تقریباً 60 فیصد حکومتی بانڈز سے زیادہ ہے اسلئے اس سے بینکوں کے علاوہ دوس��ے اداروں اور لوگوں کے ہاتھوں میں حکومتی بانڈز اور قرضہ بھی ادا کر دیئے جائیں گے اور اس طرح پاکستان کا پورا داخلی قرض ختم ہو سکے گا۔ یہ نیا نظام اسلام کے مقاصد اور مالیاتی اصولوں کے عین مطابق ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ موجودہ نظام کے مقابلے میں جہاں 90 فیصد سے زیادہ کرنسی، تجارتی بینکس قرض دیتے وقت تخلیق کر رہے ہیں اور کرنسی اور قرض ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، اس نئے نظام میں پیسہ قرض کے بغیر تخلیق کیا جائیگا اور یہ حقیقی اشیا کی پیداوار کے تناسب سے ہو گا۔ مزید یہ کہ موجودہ بینکنگ سسٹم کے برعکس، ڈیپازٹ ہولڈرز کو انویسٹمنٹ اور نفع نقصان میں شرکت کے بغیر کوئی منافع نہیں ملے گا، ان کو اپنی رقم بینکوں کو ٹرانسفر کرنا ہو گی جو اس رقم کو مختلف کاروباری اداروں میں انویسٹ کر کے منافع کمائیں گے اور تقسیم کریں گے۔ روپے کی قدر اس نظام میں مستحکم رہے گی کیونکہ تجارتی بینک قرض کے ساتھ روپے کی سپلائی نہیں بڑھا رہے ہوں گے۔ اس نئے نظام میں حکومت کا 6 ہزار ارب کا سودی خرچ ختم ہو جائے گا اور اسکے پاس ٹیکس کے علاوہ تقریباً 2 ہزار ارب کی نئی تخلیق کردہ کرنسی ہو گی، اسلئے حکومت کو اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کیلئے بینکوں سے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، جس سے افراط زر کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی ختم ہو جائے گی۔
حکومت اپنی مالیاتی پالیسیوں کو مؤثر طریقے سے نافذ کر سکے گی، اور سود کی ادائیگی کیلئے رکھی گئی رقم، سماجی اور اقتصادی ترقی کے منصوبوں میں استعمال ہو سکے گی۔ مجموعی طور پر، 100%ریزرو بینکنگ ایک جدید اور پائیدار حل پیش کرتی ہے جو پاکستان کے سنگین اقتصادی مسائل کو حل کر سکتی ہے، مالیاتی استحکام کو یقینی بنا سکتی ہے، اور پاکستان اور اس کے عوام کیلئے ایک خوشحال مستقبل کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔‘‘
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
بیرونی قرضوں پر انحصار سے نجات کیسے؟
پاکستان اپنے قیام سے ہی غیر ملکی قرضوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا آ رہا ہے۔ اس رجحان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان کے قرضوں کا حجم مجموعی قومی پیداوار کے 90 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو کہ مالیاتی رسک اور قرض کی حد بندی ایکٹ 2005ء کی مقرر کردہ 60 فیصد حد سے بھی زیادہ ہے۔ بیرونی قرضوں کے حجم میں اضافے کی وجہ سے گزشتہ بیس سال کے دوران قومی ترقیاتی اخراجات کا حجم 20 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد پر آ گیا ہے جس کی وجہ سے صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں پر حکومتی سرمایہ کاری مسلسل کم ہو رہی ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماضی میں ترقی کی شرح میں اضافے کیلئے قرض لینے کی پالیسی کے قومی معیشت پر مثبت اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بیرونی قرضے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو تجارتی خسارے کو سنبھالنے اور اہم شعبوں کو فنڈ دینے کیلئے مالی معاونت کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ اس صورتحال میں نئی حکومت کیلئے جاری معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ مختلف ترقیاتی اشاریوں اور جمع شدہ غیر ملکی قرضوں کے درمیان روابط کا باریک بینی سے تجزیہ کرے۔
اس طرح کی جانچ پڑتال ملک کے معاشی بحرانوں سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کیلئے موثر حکمت عملی وضع کرنے کیلئے ضروری ہے۔ ہمارے لئے یہ موازنہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی معیشت اس وقت جس معاشی بحران سے دوچار ہے اس کی بڑی وجہ بیرونی قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم ہے جو معاشی استحکام کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔ قومی معیشت پر بیرونی قرضوں کے بوجھ کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی آبادی میں ہونے والا تیز رفتار اضافہ بھی ہے۔ اس خطرے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آبادی کے حجم کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جبکہ معاشی لحاظ سے پاکستان دنیا میں 46ویں نمبر پر ہے۔ اس کے برعکس امریکہ، چین اور بھارت ناصرف آبادی کے اعتبارسے دنیا کے تین بڑے ممالک ہیں بلکہ معاشی لحاظ سے بھی وہ دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں ہیں۔ یہ حالات معاشی اور مالیاتی نظم و نسق میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ دیگر ترقی پذیر ممالک بھی بیرونی قرضوں کو مالیاتی خسارہ پورا کرنے اور ترقیاتی منصوبوں کو فنڈ دینے کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ قرضے براہ راست اور بالواسطہ طور پر تجارت، افراط زر، شرح مبادلہ، کھپت، سرمایہ کاری، جی ڈی پی کی نمو اور قرضوں کی ادائیگی جیسے معاشی عوامل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اس وقت پاکستان جس معاشی بدحالی کے دہانے پر کھڑا ہے اس کا تقاضا ہے کہ بیرونی قرضوں پر انحصار کم کر کے فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنا کرپائیدار ترقی کو فروغ دینے اور قرض کے انتظام کی صلاحیت کو بہتر بنانے پر کام کیا جائے۔ علاوہ ازیں کرنسی کی قدر میں کمی، افراط زر، سیاسی عدم استحکام اور متضاد اقتصادی پالیسیوں جیسے عوامل کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو غیر ملکی قرضوں پر کم انحصار کو ترجیح دیتے ہوئے طویل مدتی قرض کے انتظام کی ایک جامع حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔ یہ حکمت عملی موجودہ قرضوں کی ادائیگی، نئے قرضوں کے جمع ہونے کو روکنے اور فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنانے پر مشتمل ہونی چاہئے۔ قرض لینے کی لاگت کو کم کر کے، قرض کی پائیداری کو بڑھا کر، سرمایہ کاروں کے اعتماد و شفافیت کو فروغ دے کر اور اقتصادی ترقی کو سہارا دے کربیرونی قرضوں کو لاحق خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے روایتی عالمی مالیاتی اداروں سے ہٹ کر غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا، بین الاقوامی منڈیوں میں بانڈز جاری کرنا، مالی امداد کے متبادل راستے تلاش کرنا مخصوص قرض دہندگان پر انحصار کم کر سکتا ہے۔
چین، بھارت اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنا کر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سےنجات حاصل کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں چین کی جانب سے مختلف کرنسیوں میں قرض کے اجراء نے کرنسی کے اتار چڑھاو کے اندیشے کو کم کیا ہے اور سرمایہ کاروں کی منڈیوں کو وسیع کیا ہے۔ ہندوستان کی طرف سے مختلف کرنسیوں میں بانڈز جاری کرنے سے قرض لینے کی لاگت کم ہوئی ہے۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے سکوک بانڈز کے اجراء نے اپنے سرمایہ کاروں کی بنیاد کو متنوع بنانے کے لیے اسلامی مالیاتی اصولوں کی تعمیل کرتے ہوئے فنڈنگ کے نئے ذرائع کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ بیرونی قرضوں پر معاشی انحصار کم کرنے کے لیے طویل المدت بنیادوں پر ادارہ جاتی اصلاحات کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ایسا کرنے میں ناکامی مستقبل کی نسلوں کو بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے مزید دبانے کے مترادف ہو گی جسے کسی طرح بھی قومی مفاد میں قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ادارہ جاتی اصلاحات کے علاوہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر کے اور برآمدات پر مبنی صنعتوں کو فروغ دے کر قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں سرکاری عملے کی تربیت اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے ذریعے بیرونی قرضوں کے استعمال میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان کی خوشحالی کا راستہ پیداواری صلاحیت اور برآمدات میں اضافے، توانائی کی لاگت کو کم کرنے اور زراعت میں سرمایہ کاری کرنے میں مضمر ہے۔
کاشف اشفاق
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
وطن کی فکر کر ناداں
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے پاکستان کے اقتصادی بحران پر ایک چشم کشا تجزیاتی رپورٹ جاری کی ہے جو ارباب بست و کشاد ہی نہیں پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ خاص طور پر ایسے حالات میں یہ رپورٹ اور بھی سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی ہے کہ ایک طرف ملک کا معاشی سفینہ منجدھار کے بیچ ہچکولے کھا رہا ہے تو دوسری طرف کشتی بان اشرافیہ اقتدار کی کرسی کیلئے دست و گریبان ہے اور سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے حکومتی عہدوں پر متمکن ایک سیاسی مکتبہ فکر حالات کو اپنے فہم کے مطابق سدھارنے کیلئے قرضے پہ قرضے لے رہا ہے تو اپوزیشن کی سوچ اور کوشش ہے کہ سفینہ کل کا ڈوبتا بے شک آج ڈوب جائے مگر اسے اقتدار مل جائے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ جب سفینہ ہی خدانخواستہ ثابت و سالم نہ رہا تو اقتدار کس کام کا؟ وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ سیاست کو عارضی طور پر ہی موقوف کر کے ملک اور اس کی اقتصادیات کو بچانے کیلئے کسی مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق کی صورت پیدا کی جائے مگر نہیں، اس حوالے سے مثبت سوچ کسی کے قریب سے گزر کر نہیں جاتی۔
سب اپنے اپنے مفادات کے پنجرے میں بند ہیں اور ایک دوسرے سے اپنے مطلب کی شرائط منوائے بغیر بات تک کرنا گوارا نہیں کرتے۔ غیر ملکی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ڈالر کی شکل میں زرمبادلہ کے ذخائر خشک ہونے سے ملکی اقتصادیات کا پہیہ جام ہو رہا ہے۔ ضروری اشیائے خوردو نوش، پیداواری عمل کیلئے لازمی خام مال اور طبی آلات سے بھرے کنٹینرز کراچی کی بندرگاہ پر رکے ہوئے ہیں کیونکہ زرمبادلہ کے بحران کے باعث مال چھڑانے کیلئے ادائیگیوں کی غرض سے ڈالر دستیاب نہیں۔ ڈالرز کی قلت کے سبب بنک درآمد کنندگان کیلئے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کھولنے کیلئے تیار نہیں، اس سے ملکی اقتصادیات پر شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ملکی معیشت کو پہلے ہی افراط زر اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے جکڑ رکھا ہے۔ شرح نمو انتہائی مایوس کن ہے۔ اسٹیٹ بینک کے پاس 6 ارب سے بھی کم ڈالر رہ گئے ہیں جبکہ اگلے تین ماہ 8 ارب ڈالرز کی ادائیگیاں باقی ہیں صرف ایک ماہ کی درآمدات کیلئے زرمبادلہ رہ گیا ہے۔ غیرملکی قرضوں کا بوجھ 274 ارب ڈالر تک بڑھ چکا ہے۔
ایسے میں آئی ایم ایف اور قرض دینے والوں کا مطالبہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر سبسڈی ختم کی جائے۔ اور تو اور زندگی کی بنیادی ضرورت آٹا بھی اتنا مہنگا اور نایاب ہو گیا ہے کہ ایک بیگ لینے کیلئے بھی لوگوں کو گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس اقتصادی زبوں حالی کی بنیادی وجہ سیاسی بحران اور بے یقینی ہے۔ روپے کی قدر مسلسل گھٹتی اور مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے۔ تباہ کن سیلاب اور توانائی بحران نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ دودھ، چینی اور دالوں سمیت ضروریات زندگی عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔ دوست ممالک اپنی اپنی بساط کے مطابق فراغ دلانہ مدد کر رہے ہیں مگر بحران ختم ہونے کے آثار پھر بھی دکھائی نہیں دیتے۔ حکومت کو یقین ہے کہ ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا جبکہ اپوزیشن کی خواہش ہی نہیں کوشش بھی ہے کہ ملک سری لنکا بن جائے تاکہ وہ حکومت کو رگڑا دے سکے روس سے سستی پٹرولیم مصنوعات خریدنے کیلئے معاہدے پر بات چیت ہو رہی ہے مگر سیاسی عدم استحکام، پالیسیوں میں عدم تسلسل، پیداواری شرح نمو میں تقریباً تین گنا کمی اور نجی شعبے میں پائی جانے والی بے چینی کے سبب روس بھی تذبذب کا شکار نظر آتا ہے کہ معاہدہ کرے یا نہ کرے۔ اوپر سے امریکہ کا دبائو بھی پیش نظر ہے۔ یہ صورتحال سیاسی قیادت سے تقاضا کر رہی ہے کہ اقتدار کی خواہش بجا، مگر اسے ملکی مفاد کے تابع بنائیں۔ آخری فتح اس کی ہو گی جو ملک و ملت کیلئے سوچے گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
بڑی تباہی کی چھوٹی چھوٹی داستانیں
مہنگائی کا آدم خور بوتل سے باہر نکل کر عوام کو نگل رہا ہے۔ غریب خودکشیاں کر رہے ہیں، مائیں بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھتی ہیں تو انہیں زہر کھلا کر ابدی نیند سلا رہی ہیں۔ عوام آٹے کے ایک تھیلے کیلئے پاؤں تلے روندے جارہے ہیں۔ حکمرانوں کی آنیوں جانیوں پر مزید لاکھوں ڈالر لٹائے جارہے ہیں۔ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے۔ ڈالر قومی خزانے سے منہ موڑ گیا اورہمارے حکمراں ہیں کہ ان کی شاہ خرچیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں عوام پس رہے ہیں کوئی اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کو تیار نہیں، اُلٹا عوام کی ہی منجی ٹھونکی جارہی ہے۔ اپنے لوگ روٹی کو ترس رہے ہیں اور افغانی، آٹا مافیا کے گٹھ جوڑ سے ایک ہی دن میں پاکستان سے چھ لاکھ ٹن گندم بارڈر پار لے گئے لیکن کسی نے بارڈر سیکورٹی، کسٹم حکام اور اسمگلروں کا گریبان نہیں پکڑا کہ آخر اپنے لوگوں کو بھوکا مار کر افغانیوں کا پیٹ کیو ں بھرا جارہا ہے؟ یہ افغانی ہمیں بھوک سے بھی ماررہے ہیں اور دہشت گردی سے بھی اور آنکھیں بھی ہمیں ہی دکھا رہے ہیں۔ پشاور میں ایک روٹی 30 روپے کی ہو گئی، خیبر پختونخوا حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ گندم پر سیاست کی جارہی ہے۔ خیبرپختونخوا میں سیاسی سرپرستی میں نجی گودام گندم کی بوریوں سے بھرے پڑے ہیں اور لوگ آٹے کی خاطر سڑکوں پر خوار ہو رہے ہیں۔ یہی صورت حال بلوچستان کی ہے۔ بھوک گھروں کے ساتھ ساتھ صوبوں کے درمیان نفرتیں پیدا کر رہی ہے۔ اگرچہ مہنگائی کا تمام ملبہ وفاق میں اتحادی حکومت پر ڈالا جارہا ہے۔ یقیناً وفاقی حکومت قصور وار ہو گی لیکن اٹھارہویں ترمیم کے بعد خوراک، تعلیم ، صحت کے معاملات صوبوں کے اختیار میں ہیں۔ انکے پاس وسائل بھی ہیں اور فیصلے کی قوت بھی اور وہ حالات کے مطابق اپنے عوام کو بہتر ریلیف دینے کی پوزیشن میں بھی ہیں لیکن یہاں صرف سیاست کھیلی جارہی ہے۔
کرپشن کی ہوش ربا داستانیں ایسی ہیں کہ ہم لکھتے جائیں، آپ پڑھتے جائیں، شرماتے جائیں۔ کہاں سے شروع کریں کہاں ختم، کوئی ایک ہو تو اس کا گریبان پکڑیں اور پوچھیں کہ آخر ان کا پیٹ کنواں ہے یا سمندر؟ باپ کا مال سمجھ کر قوم کا پیسہ لوٹ کر کھا رہے ہو اور ڈکار بھی نہیں لیتے۔ یہاں تو پوری کی پوری گنگا ہی میلی ہے۔ ان بدعنوانوں نے تو ہمیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔ آج گھر گھر مہنگائی کا ماتم ہے۔ لوگ اگلوں پچھلوں کو بددعائیں بھی دیتے ہیں اور آئندہ انہی کو ووٹ دینے کا پختہ ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ نونی ہوں، انصافی ہوں یا پپلیے سب کا کاں چٹا ہے۔ کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ آخر ہمیں اس دلدل میں کس نے اور کیوں دھکیلا، ان کے معدے اتنے طاقت ور ہیں کہ اربوں کھر��وں کے منصوبے نگل گئے۔ سڑکیں کھا گئے، پل ڈکار گئے، بجلی پانی کے منصوبوں کو ایک ہی گھونٹ میں پی گئے۔ ان بد عنوانوں کو کبھی بدہضمی ہوتی ہے نہ ہی کوئی ہیضے سے مرتا ہے۔ یہ پہلے لوٹتے ہیں، ہمیں مقروض کرتے ہیں، پھر بھکاری بن کر آئی ایم ایف کے پاس مزید قرضے لینے پہنچ جاتے ہیں اور قومی اثاثے گروی رکھ کر واپس آتے ہیں۔ سعودی عرب جاتے ہیں تو اللہ ، رسول ﷺ کے نام پر ہاتھ پھیلاتے ہیں اور دعوے دار ہیں کہ ہم دنیا کی پہلی واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہیں، اس کے تحفظ کے لئے مزید کچھ دے دیں۔ چین جاتے ہیں تو سی پیک کے نام پر جھولی پھیلاتے ہیں۔ یواے ای کے حکمرانوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے مزدوروں نے آپ کے ملک کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ماضی کی لوٹ مار ایک طرف، دیوالیہ ہوتے ملک کی موجودہ پارلیمنٹ کا حال ملاحظہ فرمائیے کہ جہاں ہماری تقدیر کے فیصلوں کے نام پر قانون سازی کی جاتی ہے کہ گزشتہ سال جولائی میں پارلیمنٹ کے ایک گھوسٹ مشترکہ اجلاس کی آڑ میں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے بابوؤں سے اردلیوں تک نے سیشن الاؤنس اور ٹی اے ڈی اے کے نام پر کروڑوں روپے ڈکار لئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ ہوا کچھ یوں کہ مشترکہ سیشن کے اختتام پر اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کے بجائے آئندہ ماہ تک ملتوی کر دیا اور اس کے بعد تاریخ میں لگاتار توسیع کرتے رہے۔ سیکرٹریٹ افسروں اور ملازمین نے پہلے چھ ماہ میں اس مد میں کروڑوں روپے وصول کئے۔ لیکن جب معاملات بگڑے تو اے جی پی آر نے مزید بلوں اور الاؤنسز کی ادائیگی روک کر انکوائری شروع کر دی جبکہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سینیٹ ملازمین کو یہ کہہ کر اس سیشن کا الاؤنس دینے سے انکار کر دیا کہ جب مشترکہ اجلاس ہوا ہی نہیں تو الاؤنس کیوں دوں؟ پڑھتے جائیے شرماتے جائیے عرفان اطہر قاضی بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
“Leverage is the reason some people become rich and others do not become rich” - Robert T Kiyosaki
The privatised water companies have been demanding price rises of between 24% and 91% over the next five years according to the Consumer Council for Water. The mainly foreign owned "English" water companies want to invest £96bn in water and sewage restructuring between now and 2030. New reservoirs, the first for over 30 years, will be built, leaks will be reduced and less sewage will be pumped into our waterways and seas.
Amen to that! But wait…
“English water firms have handed £57 billion to shareholders in the 30 years after privatisation.” (The London Economic: 28/10/21)
We, the consumer, having generously contributed to foreign share dividends for three decades to the tune of £2 billion per year, are now expected to part with even more money to pay for 30 years of private water company neglect. Meanwhile, the CEO’s of these private companies gave themselves a 20% pay rise for the year 2021-22, pocketing £24.8 million.
None of these facts are particularly new but what really irked me yesterday morning was an interview on BBC’s “Today" programme with David Henderson, CEO of Water UK, the organisation that represents all of the privately owned water companies.
Stressing the country’s need for “economic growth", Henderson said this would not be possible unless the water companies were allowed to drastically raise the price of water to cover the cost of investment needed to upgrade our water infrastructure. Talking of the need to increase water supply he stated:
“We have not built a reservoir in 30 years, even though our population has risen by 20% in that time. And that’s because we have been blocked by regulators and by planning officials around the country.”
The cheek!
According to New Civil Engineer magazine (01/09/22)
“There is a seemingly direct link between the 1989 privatisation of water companies in the UK and the ceasing of new reservoirs being built. While there have been a number of flood alleviation reservoirs built by the Environment Agency in this time, the water companies have not invested in potable drinking reservoirs.”
While I have no doubt that some applications for new reservoirs have been refused by planning authorities the main reason for inadequate reservoir capacity is the reluctance of the privately owned water companies to spend money on investment. Despite what David Henderson said on the Today programme this is a headline from the Express:
“Water firms ‘sold off reservoirs that could have eased drought' - Profit ahead of supply" (10/08.22)
In defending the private water companies Henderson was merely doing his job - after all that is what he is paid to do - but unfortunately their behaviour is indefensible. The reason that our waterway infrastructure is near collapse is not because investment plans have been blocked by “regulators and planning officials" but because of greed.
When Margaret Thatcher privatised the previously publicly owned water companies she sold this national asset for a grand total of £7.6bn. In addition she gave the newly created privately owned water companies a “green dowry" of £1.5bn. At time of purchase the water companies were totally debt free.
Fast-forward and what do we find?
“Water firms’ debts since privatisation hit £54bn as Ofwat refuses to impose limits.” Guardian: 01/12.22)
The water companies have spent the last few decades borrowing money, not to improve the water supply and sewage disposal infrastructure, but to pay dividends to shareholders. According to Ofwat’s own figures the water companies have been running ratios of debt to capital value as high as 80%. Water company share holders (70% owned by foreign investors) have received £65.9bn in dividends and it is calculated that 20% of household water bills go towards paying for the debt that rewards these shareholders.
Rachel Reeves much heralded national wealth fund is supposed to be a central plank of the Labour governments “Green Prosperity Plan” but Labour’s earlier promise to nationalise the dysfunctional private water companies has now been abandoned.
David Henderson has issued what in effect is a blackmail ultimatum to the new Labour Government that without massive price rises in consumer water bills, the Labour Party can kiss their dreams of economic growth goodbye.
Today Ofwat, the water regulator, sanctioned an average increase in water bills of 21%, some companies charging as much as 44% more over a five year period. This is a third less than what the water companies demanded, but even a 21% rise over five years is an increase of 4% a year, twice the inflation rate target of the Bank of England.
An interesting case study will be that of Thames Water which has dire financial problems due to building up a debt of £14bn (while still paying out tens of millions in dividends to its shareholders). It remains to be seen if Thames Water will be allowed to go bust or whether the new Labour Government will step in and bail it out but maybe this headline gives us a clue:
“Labour abstain on bid to criminalize water companies for sewage pollution” (Canary: 17/05/24)
#uk politics#water companies#ofwat#rachel reeves#keir starmer#david henderson#thames water#foreign ownership#debt#price rises#pollution#national wealth fund#blackmail
7 notes
·
View notes
Text
🇺🇸 🚨 THE US FOREIGN AID AND DEFENSE SPENDING RACKET EXPLAINED IN THREE GRAPHS
In three graphs, why the United States is clearly in extreme, rapid decline, and the evidence for why ordinary Americans will pay the price for the decades of perpetual-war policies in their own standard of living.
There's a reason why the minimum wage hasn't been raised since 2009. Why there's no money for schools, why our hospitals and doctors are a mess, why theres homeless people on every city's streets, including the mentally ill, the drug addicted, and veterans, no money to deal with out of control crime in American cities, the waves of constant immigration meant to destroy your wages... There's only ever money for more federal law enforcement, more war, more "foreign aid" aka corruption rackets for US vassal states.
During the very years we watched this decline take place, spending on foreign aid and defense spending have gone constantly upwards while wages declined and income Inequality skyrocketed.
The evidence for the betrayal of the American people by their corrupt elite is everywhere, and the debt we will be saddled with for generations is unimaginably large: $34.209 trillion at the time of writing this.
Every American will suffer the consequences for the imperialism of their elites, and in fact already are as displayed clearly by the flattening of US wage growth simultaneously alongside the increase in foreign aid and defense spending.
It's elites taking money out of your pocket, out of your retirement, your children's college education, your family's healthcare, your wages, your life, and putting it into the same super wealthy, billionaire elites who've wanted to kill social security and Medicare and use the US Military to enforce a system of control, impoverishment and censorship on all of us across the world. Or fund genocides, you know, whatever's profitable. 🇵🇸
It is nothing more than an old fashioned racket, an upward transfer of wealth, and it always has been.
@WorkerSolidartyNews
#us imperialism in three charts#us imperialism#us war#us colonialism#foreign aid#us foreign aid#us defense spending#us war spending#us wars#politics#geopolitics#imperialism#colonialism#us military#us national debt#political opinion#war#war spending#war propaganda#censorship#control#news#world news#global news#international news#current events#war news
11 notes
·
View notes
Text
screaming crying coughing up blood every time i have to fucking defend genocide joe bc ppl wanna lie and say he isn't responsible for most of the best domestic policy we've seen in decades
his foreign policy is dogshit, yes, and he should rightly be called on it and primaried out, but we can criticize the shit he's actually done wrong instead of making shit up about him ~not doing anything good~
#thinking about the keystone pipeline shutdown and how fully 2/3 of the people he appointed to legislative systems were women and poc#thinking about student debt forgiveness and rejoining the paris climate accord and unfucking some of the extreme gerrymandering#and improving COVID protections (that were roundly thrown out by corporate america which is its own concern yes but like. he's not a king)#'biden didn't fix' blah blah blah he's not a fucking dictator he can't actually do whatever he wants. the only thing the GOP lets slide#is the aforementioned dogshit foreign policy bc fuck knows every last republican loves bombing the middle east and supporting israel#(remember that the evangelical xtian death cult requires israel for the apocalypse!! that is a very real fucking thing these ppl strive for#(and evangelicals support the GOP for this very fucking reason. you cannot forget this. we are all fighting for all our goddamn lives rn)#stirring up trouble#i hate biden i hate his foreign policy i hate how ok he is with fascism i hate most of his pre-presidential voting record BUT#i will not let that hate blind me to the reality that he is Objectively Miles Ahead Of Any Fucking Republican Alternative#i still want his ass primaried out of the presidential race so hard he physically blacks out upon seeing the polling results tho#and fuck. at least the dem side seems to have a lot of good progressive downballot candidates this time around already.
13 notes
·
View notes
Text
#politics#us politics#progressive#foreign policy#war#student debt#cancel student debt#student loans#higher education#joe biden#genocide#gaza#free gaza#gaza strip#gaza genocide#gazaunderattack#free palestine#ethnic cleansing#middle east
9 notes
·
View notes
Text
قرضوں میں جکڑا ہوا ملک اور ہمارے حکمران
ہمارا ملک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے بھاری قرضوں اور سود کی ادائیگی میں جکڑا ہوا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کی خبروں کے بارے میں تحقیق کے مطابق اب تک قرضہ 62 ہزار 880 ارب روپے ہو گیا ہے۔ رپورٹ بھی آئی ایم ایف کو پیش کر دی گئی ہے۔ ملکی قرضہ 38 ہزار 809 ارب جب کہ غیر ملکی قرض 24 ہزار 71 ارب ہو گیا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں 13 ہزار 638 ارب اضافہ ہوا ہے جب کہ قرض پر سود کا حجم 3 ہزار 182 ارب سے بڑھ کر 5 ہزار 671 ڈالر تک بڑھ گیا ہے۔ وفاقی حکومت کے ذمے 72 ارب ڈالر واجب ہے۔ اس دوران پاکستان کی کرنسی کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 204.4 سے گر کر 286.4 روپے تک ہو گئی ہے۔ وزارت خزانہ کے ڈائریکٹوریٹ جنرل ڈیٹ کی جانب سے تیارکردہ رپورٹ میں آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں ملکی قرض 7 ہزار 724 ارب روپے بڑھ کر 31 ہزار 685 ارب سے 38 ہزار 809 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ غیر ملکی قرض 5 ہزار 914 ارب سے بڑھ کر 18 ہزار 157 ارب سے 24 ہزار 71 ارب روپے ہو گیا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں ملکی قرضہ جی ڈی پی کے 46.7 فی صد سے بڑھ کر 45.8 فیصد تک پہنچا ہے اور غیر ملکی قرض 27.3 فی صد سے بڑھ کر 28.4 فی صد پہنچا ہے، ملک پر واجب الادا قرض پر سود کی ادائیگی 3 ہزار 182 ارب سے بڑھ کر 5 ہزار 671 ارب ڈالر تک آگئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری اداروں کے لیے ریاستی گارنٹی پر لگائے گئے قرض کا حجم 14 ارب 60 کروڑ ڈالر تک ہے۔ آئی ایم ایف سے لیا گیا قرض 37 ارب 91 کروڑ ڈالر اور دیگر ملکوں کا قرض 17 ارب 57 کروڑ ڈالر تک آگیا ہے جب کہ پنجاب کے لیے 5 ارب 95 کروڑ ڈالر، سندھ کے لیے 3 ارب 12 کروڑ ڈالر، کے پی کے لیے 2 ارب 5 کروڑ ڈالر، بلوچستان کے لیے 30 کروڑ ڈالر، گلگت بلتستان کے ذمے 5 کروڑ 93 لاکھ اور وفاقی حکومت کے ملکی قرضے کا حجم 72 ارب 34 کروڑ ڈالر۔ اس کا پریس کلب کا قرض ایک گورکھ دھندا جاری ہے۔ دوسری طرف ہمارے حکمران مرکزی ہوں یا صوبائی، سینیٹ چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین سابق ہوں یا موجودہ وزیر ہوں، سفیر ہوں، مشیر ہوں یا پھر اشرافیہ سب ہی مراعات یافتہ ہیں۔ ان کی تنخواہیں یا پھر الاؤنسز سب کچھ مفت ہے۔ پٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس، اسپتال اور میڈیکل کی مفت سپلائی ساتھ بھی ملازمین کی بھاری تعداد بڑی گاڑیاں بڑے بڑے بنگلے مفت کی پروٹوکول سب کچھ فری اور مفت میں مل رہا ہے۔ بڑی بڑی جاگیریں ہیں زمینوں پر کاشت کاری سے لے کر شوگر مل مالکان، فیکٹری مالکان، بینکوں اور انشورنس کمپنی کے مالکان، دواؤں کی فیکٹریاں، بڑے شاپنگ مالزکے مالکان، شادی ہالوں کے مالکان، ہوائی جہاز اور فوکر طیاروں کے مالکان، بڑی بڑی گدی کے پیر اورسب ہ�� بلکہ ہمارے ملک اور صوبوں کے مالکان کہاں تک لکھوں بلکہ ہماری غربت، جہالت، بیماری اور اسپتالوں کے مالکان۔
اب تو ملک کے ہوائی اڈے فروخت ہو رہے ہیں۔ پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل مل اور ہمارے ہائی ویز بھی گروی رکھ دیے گئے ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کی کم ازکم تنخواہ جو کہ آپ کے اعلان کے مطابق 32 ہزار مقرر کی گئی کم ازکم اس پر تو عمل درآمد کرا دو۔ تمام ٹی ایل اے اور کچے ملازمین کو مستقل ملازمت دے دو سیلاب زدگان کے گھر تو بنا دو۔ تعلیمی ادارے ہی ٹھیک کر دو، اپنے اسپتالوں میں دوائیں تو دے دو۔ ایک ایک گھر تو انھیں دے دو۔ ملک کو بنے ہوئے 76 سال ہو گئے ہیں۔ 50 سال پہلے تو ایسا پاکستان نہیں تھا۔ اتنی غربت اتنی بھوک اور اتنی لوٹ مار اور کرپشن تو نہ تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان شہید تو ایسے نہیں تھے، ان کی اتنی جائیدادیں تو نہیں تھیں اتنی رشوت اور کرپشن تو نہیں تھی۔ ذوالفقا��علی بھٹو کے پاس اسلام آباد میں کوئی رہائشی پلاٹ تو نہیں تھا، صرف پاکستان کی قومی اسمبلی کی بنیاد ہی اسلام آباد میں رکھی تھی، بس کراچی میں ایک 70 کلفٹن کا بنگلہ تھا یا پھر گڑھی خدا بخش میں اپنی پہلی بیوی کی زمینیں ورثے میں ملی تھیں۔ خیر اب تو ایک طرف جاتی عمرہ رائے ونڈ ہے اور دوسری طرف بلاول ہاؤسز ہیں۔
بے چارے بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عبدالمالک بلوچ کے پاس شاید اتنی جائیداد نہ ہو۔ خیر اب تو ایم کیو ایم سے لے کر پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی کے پاس ایم این اے اور ایم پی اے بڑے مالدار ہیں لیکن غریب ہاری، کسان اور مزدور کو تو کوئی اسمبلی کا ٹکٹ بھی نہیں دیتا۔ وہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ سوشل ازم کا نعرہ طاقت کا سرچشمہ عوام اور اسلام ہمارا دین ہو گا، کیا ہوا؟ آج اسرائیل نے 11 ہزار فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی پر گولیاں اور بم برسا کر تباہ اور برباد کر کے رکھ دیا ہے، یورپ سمیت دنیا بھر کے عوام سڑکوں پر نکل کر اسرائیل کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں، خود بعض یہودی بھی اس کی مذمت کر رہے ہیں مگر ہمارے 57 اسلامی ممالک کے سربراہ اور ڈھائی ارب مسلمان کیا کر رہے ہیں؟ ہمارے جیسے دکھی انسان خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں اب چار ایشوز پر ٹی وی اور اخبارات میں خبریں آ رہی ہیں، الیکشن 8 فروری کو ہو گا جلسے جلوس جاری ہیں۔
ملک بھر میں ورلڈ کرکٹ کا زور شور جاری ہے۔ کراچی، سکھر، لاہور، اسلام آباد میں ہسٹری فیسٹیول ہو رہے ہیں، گانے بجانے اور قوالیاں ہو رہی ہیں، قانون کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں کچھ اچھے فیصلے ہو رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن الیکشن کرانے کے انتظامات میں لگا ہوا ہے۔ خیر شکر ہے کہ الیکشن کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ملک میں شفاف الیکشن کرا کے منتخب نمایندوں کے حوالے کیا جائے گا اور تمام سیاسی جماعتوں جن میں تحریک انصاف بھی شامل ہو، الیکشن لڑنے کا اختیار دیا جائے تو ہی اس الیکشن میں مزہ آئے گا۔ ہمیں امید ہے کہ ملک سے دہشت گردی کا جلد خاتمہ ہو سکے، ملک امن کی طرف روانہ ہو سکے ملک میں تھوڑی بہت بہتر جمہوریت آ سکے اور پاکستان کے عوام کو عدالتوں سے کچھ انصاف مل سکے۔ منظر بھوپالی کا اشعار یاد آگئے۔
اونچے اونچے ناموں کی تختیاں جلا دینا ظلم کرنے والوں کی وردیاں جلا دینا
در بدر بھٹکنا کیا دفتروں کے جنگل میں بیلچے اٹھا لینا ڈگریاں جلا دینا
پھر بہو جلانے کا حق تمہیں پہنچتا ہے پہلے اپنے آنگن میں بیٹیاں جلا دینا
منظور رضی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
جوہری بجلی، آئی ایم ایف اور زرعی منصوبہ بندی
نیوکلیئر پاور پلانٹ جسے ماحول دوست قرار دیا جاتا ہے۔ کم قیمت بجلی پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ پاکستان نے اس جانب 60 کی دہائی میں توجہ دینی شروع کر دی تھی۔ اس وقت توانائی کی پیداوار کے لیے کوئلہ اور فیول کا استعمال خاصے مہنگے ہونے کے ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج کا ذریعہ بھی ہیں۔ عالمی موسمیاتی تبدیلی کے باعث اور حالیہ شدید ترین سیلاب کو مدنظر ��کھتے ہوئے اب نیوکلیئر پاور پلانٹ کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ کراچی میں پہلے ایٹمی بجلی گھر کی تعمیر جب 1972 میں مکمل ہوئی تو ساتھ ہی شہر کو بجلی کی سپلائی بھی شروع کر دی گئی تھی۔ اس وقت مکمل ہونے والے نیوکلیئر پاور پلانٹ یونٹ (K-3) کا افتتاح بدست وزیر اعظم پاکستان کر دیا گیا ہے۔ جس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس پاور پلانٹ کے بعد ملک میں جوہری ایندھن سے بجلی کی پیداوار تقریباً 3600 میگاواٹ ہو جائے گی۔ پاکستان کو اپنے ان تمام ذرایع سے جن کے ذریعے سستی اور ماحول دوست بجلی کا حصول ممکن ہو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
خاص طور پر ایک ایسے زمانے میں جب ہم پر آئی ایم ایف نے اپنا شکنجہ کس دیا ہے اور بجلی سے متعلق تمام سبسڈیز کو واپس لینے کے مطالبے کے ساتھ 41 سو ارب روپے کے گردشی قرضوں کی واپسی کا پلان مانگ لیا ہے۔ آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو بلا چوں و چرا تسلیم کرنے کے نتیجے میں جولائی تک بجلی 6 روپے فی یونٹ مہنگی ہو جائے گی۔ اب ہمیں جلد یا بہ دیر کوئلہ گیس تیل پر بجلی کی پیداوار کا انحصار کم سے کم کرنا پڑے گا، کیونکہ یہ تینوں اجزا انتہائی مہنگے ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی درآمدی لاگت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ سردست نیوکلیئر پاور پلانٹ کے افتتاح کے علاوہ فوری طور پر کوئی اور منصوبہ پائپ لائن میں موجود نظر نہیں آ رہا ہے ، لہٰذا بجلی کی قلت کے ساتھ ساتھ بجلی مہنگی بھی ہو گی اور حکومت صارفین صنعتکاروں کو مہنگی ترین بجلی فراہم کرنے پر مجبور ہو جائے گی کیونکہ آئی ایم ایف کی تلوار لٹکی رہے گی۔
اس وقت آئی ایم ایف سے جو معاہدہ تقریباً طے ہے، اس کے مطابق پٹرول پر سیلز ٹیکس 11 سے بڑھا کر 17 فی صد کرنے کا مطالبہ ہے جس کے باعث جلد ہی پٹرولیم مصنوعات کی بڑھی ہوئی قیمتوں کا اعلان متوقع ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر دودھ، گھی، مسالہ جات سمیت کئی اشیا مہنگی ہو چکی ہیں۔ ابھی آئی ایم ایف سے مذاکرات چل رہے ہیں، لیکن مہنگائی نے 47 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ 27.6 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ معاہدے پر عمل درآمد کے بعد مزید 8 یا 10 فیصد کا اضافہ ہو کر 35 فیصد سے زائد ہو چکا ہو گا، کیونکہ چند روز قبل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 35 روپے فی لیٹر اضافے کے اثرات بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ریلوے کی تمام ٹرینوں کے کرایوں میں 8 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ریلوے حکام کے مطابق ڈیزل کی قیمتوں میں حالیہ 15 فیصد اضافے سے پاکستان ریلوے پر یومیہ تقریباً 12 ملین روپے کا اضافی بوجھ پڑا ہے۔ 15 فیصد اضافے کے باوجود 8 فیصد اضافہ کرنا اسے اچھا فیصلہ قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ دوسری طرف ٹرانسپورٹرز نے اس سے بھی 4 گنا زائد کرایہ بڑھا دیا ہے اور یہ اضافہ 25 سے 35 فیصد تک نظر آ رہا ہے۔
اب آپ ملاحظہ فرمائیں چند ہفتے قبل ٹماٹر 200 روپے اور کبھی 300 اور 400 روپے فی کلو تک بھی جا پہنچے تھے اور آج کل 60 روپے فی کلو فروخت ہو رہے ہیں۔ اب ان دنوں جب کاشتکاروں کو غالباً 10 سے 15 روپے فی کلو کے ہی مل رہے ہوں تو وہ بھلا کرایہ جو کہ اب ہزاروں روپے فی ٹرک پہنچ چکا ہے کھیت سے منڈی تک آج مجبوراً آ جائے گا تو آیندہ کے لیے وہ یہ فیصلہ کر لے گا کہ اب اس سیزن میں ٹماٹر نہیں بونے ہیں۔ لہٰذا اس تمام صورت حال کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ ٹماٹر کی ملکی پیداوار کم ہو گی اور درآمدی ٹماٹر پر انحصار کرنا ہو گا۔ جیسا آج کل پیازکی قیمتوں کا معاملہ ہے۔ دو سو روپے فی کلو سے ڈھائی سو روپے فی کلو تک درآمدی پیاز دستیاب ہے پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ 10 یا 20 روپے فی کلو پیاز ملنے لگ جاتی ہے، یہاں آ کر کاشتکار پریشان ہو جاتا ہے کہ اس کی پیداوار فی لاگت بھی نہیں مل رہی ہے۔ لہٰذا راقم اس سے قبل بھی عرض کرتا رہا ہے کہ کم ازکم ہر صوبائی حکومت ایسی زرعی منصوبہ بندی پر توجہ دے جس سے کاشتکار کو نقصان بھی اٹھانا نہ پڑے اور ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف زرعی پیداوار کا ہدف مقرر کیا جائے۔
ایسے حالات میں جب کہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے کے باعث صدارتی آرڈیننس کے ذریعے منی بجٹ لانے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ پٹرول مزید مہنگا اور بجلی گیس مہنگی ہو جائے گی۔ ایسی صورت میں ہم اپنی زراعت و صنعت کی ایسی منصوبہ بندی کریں تاکہ زرعی پیداوار ان کی طلب ان کی کھپت اور اچانک قلت پر قابو پایا جاسکے۔ اسی طرح مصنوعات کی پیداوار ان کی برآمد ان کی لاگت اور دیگر امور کی خاطر صنعتی شعبے کی منصوبہ بندی کی جائے۔ اسی طرح افرادی قوت کی برآمد کے بارے میں لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم آئی ایم ایف کے پھندے میں آچکے ہیں۔ اب اس سے نکلنا کیسے ہے؟ اور یہ عین ممکن ہے۔ بس پوری پاکستانی قوم اس سے نکلنے کا عزم و ارادہ کر لے۔
محمد ابراہیم خلیل
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
The Seventh Year
At the end of every seven years you must cancel debts. This is the manner of remission: Every creditor shall cancel what he has loaned to his neighbor. He is not to collect anything from his neighbor or brother, because the LORD’s time of release has been proclaimed. You may collect something from a foreigner, but you must forgive whatever your brother owes you. — Deuteronomy 15:1-3 | The Reader’s Bible (BRB) The Reader’s Bible © 2020 by Bible Hub and Berean.Bible. All rights Reserved. Cross References: Deuteronomy 15:9; Deuteronomy 23:20; Deuteronomy 31:10; Nehemiah 10:31
#Israel#debt#seventh year#forgiveness#foreigners#money#debt collection#owe#Deuteronomy 15:1-3#Book of Deuteronomy#Old Testament#The Reader's Bible#BRB#BIble Hub#Berean Bible
7 notes
·
View notes
Text
The People's Republic of China | United States Trade Representative
Not even taking into account how much US debt China holds (currently 870 billion dollars) and concentrating strictly on trade, I'm not sure why some politicians are so comfortable with the "enemy" rhetoric. Pay off the debt and manufacture/assemble your own products, then you can talk shit. Or as my mom used to say, "Don't let your mouth write a check your ass can't cash."
But we all know how this story will play out: the debt ceiling will likely be raised, as the alternative would create havoc in global financial markets. For more see this article in Foreign Policy.
#us china#foreign policy#us debt#us treasury#us china trade#makes me wonder what all that balloon shit is really about#wag the dog
8 notes
·
View notes
Photo
LETTERS FROM AN AMERICAN
May 30, 2023
HEATHER COX RICHARDSON
MAY 30, 2023
“[O]ne of the things that I hear some of you guys saying is, ‘Why doesn’t Biden say what a good deal it is?’” President Joe Biden said to reporters yesterday afternoon before leaving the White House on the Marine One helicopter. “Why would Biden say what a good deal it is before the vote? You think that’s going to help me get it passed? No. That’s why you guys don’t bargain very well.”
Biden’s unusually revealing comment about the budget negotiations was actually a statement about his presidency. Unlike his Republican opponents, he has refused to try to win points by playing the media and instead has worked behind the scenes to govern, sometimes staying out of negotiations, sometimes being central to them.
The result has been, as Daily Beast columnist David Rothkopf summarized today, historic. Biden has worked to replace 40 years of supply-side economics with policies to rebuild the nation’s economy and infrastructure by supporting ordinary Americans. The American Rescue Plan gave the United States a faster economic recovery from the COVID pandemic than any other major economy. The Bipartisan Infrastructure Law has already funded more than 32,000 projects in more than 4,500 communities in all 50 states, Washington D.C., and U.S. territories.
The Inflation Reduction Act made the biggest investment in addressing climate change in our history, and according to University of Washington transportation analyst Jack Conness, it and the CHIPS and Science Act have already attracted over $220 billion in private investment, much of it going to Republican-dominated states: Tennessee, Nevada, North Carolina, and Oklahoma have each attracted more than $4 billion; Ohio, more than $6 billion; Arizona, more than $7 billion; South Carolina, more than $9 billion; and Georgia, more than $13 billion.
Victoria Guida in Politico yesterday reported that the reordering of the economy under Biden and the Democrats has reversed the widening income gap between wage workers and upper-income professionals that has been growing for the past 40 years. The pay of those making an average of $12.50 an hour grew by almost 6% from 2020 to 2022, even after inflation.
Those gains are now at risk as pandemic measures end and the Fed raises interest rates to bring down inflation, although the wage increases are only a piece of the inflation puzzle: Talmon Joseph Smith and Joe Rennison of the New York Times today reported that companies raising their prices to “protect…profits” are “adding to inflation.” In other words, companies pushed prices beyond normal profit margins during the pandemic and the economic recovery, then maintained those higher profit margins with the Russian invasion of Ukraine, and continue to maintain them now.
The fight over the debt ceiling is both an example of the different approaches to negotiation on the part of Biden and Republicans like House speaker Kevin McCarthy (R-CA), and part of the larger question about the direction of the country.
On January 13, 2023, Treasury Secretary Janet Yellen warned McCarthy that the Treasury was about to hit the borrowing limit established by Congress and that she would have to resort to extraordinary measures in order to meet obligations until Congress raised the debt ceiling.
On March 9, as part of the usual budget process, Biden produced a detailed budget, which was a wish list of programs that would continue to build the country from the bottom up. He told McCarthy he would meet with the speaker as soon as he produced his own budget, which McCarthy could not do because the far-right House Freedom Caucus (these days being abbreviated as HFC) wanted extreme cuts to which other Republicans would never agree.
On April 26 the House Republicans passed a bill that would require $4.8 trillion in cuts but was quite vague about how it would do so apart from getting rid of much of the legislation the Democrats had just passed. HFC members said they would not raise the debt ceiling until the Senate passed their bill. That is, they would drive the United States into default, crashing the U.S. and the global economy, until the president and the Democrats agreed to their policies. Even then, they would raise it only until next spring, with the expectation that it would then become a key factor in the 2024 election.
Biden insisted all along that he would not negotiate over the debt ceiling, which pays for money already appropriated under the normal process of Congress and which Congress raised three times under former president Trump even as he added $7.8 trillion to the national debt. Biden said he would happily negotiate over the budget. McCarthy, meanwhile, was out in front of the cameras and on social media insulting Biden and insisting that it was Biden’s fault that talks took so long to get started.
Late Saturday, the two sides announced an agreement “in principle” to raise the debt ceiling for two years—clearing the presidential election. As the Washington Post’s Catherine Rampell noted, it protects current spending on Social Security, Medicare, and Medicaid; keeps tax rates as they are; increases spending on defense and veterans’ programs; leaves most other domestic spending the same; cuts a little from the expanded funding of the Internal Revenue Service; and tweaks both the permitting process for energy projects and the existing work requirements in the food assistance program.
As Rampell points out, “this much-ballyhooed ‘deal’ doesn’t seem terribly different from whatever budget agreement would have materialized anyway later this year, during the usual annual appropriations process, under divided government. To President Biden’s credit, the most objectionable ransoms that Republicans had been demanding are all gone.”
Now the measure has to get through both parties, with congressmembers back in Washington today after the holiday weekend. Freedom Caucus members are howling at the deal. Representative Chip Roy (R-TX) is threatening to bottle the measure up in the House Rules Committee, which decides what bills make it to the floor. The Freedom Caucus forced McCarthy to stack that committee with far-right extremists as part of his deal for the speakership (it has nine Republicans but only four Democrats on it). But Josh Marshall of Talking Points Memo suggests that McCarthy’s alliance with Representatives Jim Jordan (R-OH) and Marjorie Taylor Greene (R-GA) might pay off here, since the two have thrown their weight behind the measure.
Even if the measure does pass before the June 5 deadline when the Treasury runs out of money, it has had an important effect. As Rampell noted, it has weakened the United States. It has enabled both China and Russia to portray the U.S. as unstable and an unreliable partner. As if to prove that criticism, Biden had to cancel a trip to Australia and Papua New Guinea, where he was strengthening the Indo-Pacific alliances designed to weaken Chinese dominance of the region. (And Russia continues to involve itself in U.S. politics: today Tara Reade, the woman who in 2020 accused Biden of sexually assaulting her, appeared on Russian television next to alleged spy Maria Butina to say she has fled to Russia out of fear for her life in the U.S.)
Writing in Foreign Policy, Howard W. French sees a more sweeping problem with the debt ceiling fight: it “highlights America’s warped priorities.” “[W]hen a rich and powerful country finds it easier to cut back on the way that it invests in its people, in education, in science, and in making sure that the weakest among them are not completely left behind than to curtail useless and profligate weapons spending,” he said, “there are reasons to worry about the foundations of its power.”
—
LETTERS FROM AN AMERICAN
HEATHER COX RICHARDSON
#debt limit crisis#crisis#Letters From An American#Heather Cox Richardson#political#US House of Representatives#budget#foreign policy#America's warped priorities
6 notes
·
View notes
Text
gonna need to find a sugar daddy for agust d tickets
#min yoongi#why is he like that#im about to go in debt to go see him live#in a foreign country#this bitch
2 notes
·
View notes
Text
So I'm lactose intolerant
And like an hour ago I drank 0.5 of choko milk that might've been not in the fridge for a day
I have classes in two hours (luckily school is 5 minutes away)
But the thing is
I AM A TEACHER
Uugh
#and it's the only lesson I have!#and some of my students need to tell me stories that are their debt for previous classes#i prepared some writing assignments so i could just sit and die#honestly it's not even the subject I'm competent at#it's kinda hilarious#I'm a foreign languages teacher and am great in English#german? i have lots of academic debts but seems like i am okay to dive in blond into school books#mostly#but it's ironic that i have gigantic debts in german classes and my first full on official teaching is German#i have a field practice for a whole month#and on a weekend before that their german teacher had a heart attack so it was sudden for everyone#so i just had to start right with the students not knowing what to do#and can't even communicate with their teacher#and their textbook is PURE GARBAGE#uuugh#the English textbook is so easy to work with#this one literally has nothing#like barely anything to work with
0 notes