#لگانے
Explore tagged Tumblr posts
Text
پیٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز
(ویب ڈیسک) پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے، پیٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز دے دی گئی۔ پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان مذاکرات شروع ہوگئے ہیں اور پہلے روز ٹیکنیکل سطح پر بات چیت ہوئی جبکہ پیٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) عائد کرنے کے علاوہ لیوی بھی 70 روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق ایف بی آر کے اہداف…
0 notes
Text
کھانسنے اور چھینکنے سے بیماریوں کا پتا لگانے والا اے آئی ٹول تیار
(ویب ڈیسک) انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کمپنی گوگل کے ماہرین نے کھانسنے، چھینکنے، بولنے اور سانس لینے سے بیماریوں کا پتا لگانے والے آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹول تیار کرلیا۔ کمپنی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق گوگل کے ماہرین نے تیارکردہ اے آئی ٹولز کو پہلے 30 لاکھ کھانسی کی مختلف آوازوں، چھینکنے اور سانس لینے سمیت بولنے کی آوازوں کو پہنچاننے کی تربیت دی اور بعد ازاں اس پر آزمائش کی۔ ماہرین…
0 notes
Text
کیا ججز لگانے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہونا چاہیئے یا ججز کے پاس؟
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے ججز کی تعیناتی میں پارلیمنٹ کا نمایاں کردار تنقید کی زد میں ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے تقرری کے عمل میں اپنا دائرہ اختیار بڑھا کر عدلیہ کو سیاست زدہ کر دیا ہے۔ اس عمل سے نہ صرف سیاسی جماعتیں اپنے منظور نظر افراد کو ججز تعینات کرنے میں کامیاب ہونگی بلکہ ججز کی تعیناتی میں سیاسی عمل دخل بڑھنے کے بعد سیاسی…
0 notes
Text
حیرت ہے کہ ہم لوگ بھی ٹھکرائے ہوئے ہیں
ہم جیسے تو سینوں سے لگانے کے لیے تھے
hairat hai k hum loag bhi thukraye howe hain
hum jaise to seeno'n se laganay k liye the.
128 notes
·
View notes
Text
اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد مٹا دیں
کچھ درد کلیجے سے لگانے کے لیے ہیں
6 notes
·
View notes
Text
میں نے دہشت کے آنسو پونچھنے کے لیے ہاتھ نہیں مانگا، میں نے کسی کو گلے لگانے کے لیے نہیں جگایا تاکہ میں سکون حاصل کر سکوں، میں کس چیز کا شکر ادا کروں؟ میں نے بدترین لمحات تنہا گزارے۔
I didn't ask for a hand to wipe tears of terror, I didn't wake up to hug someone so I can have peace, what should I be thankful for? I spent the worst moments alone.
Dostovsky, from the poor people
28 notes
·
View notes
Text
پیمانِ وفا توڑ کے جانے کے لئے آ
آ دل کی لگی اور بڑھانے کے لئے آ
پامال ہی کر ظلم ہی ڈھانے کے لئے آ
مجھ کو مرا احساس دلانے کے لئے آ
نوخیز بہاروں سے مرے دل کو سجا دے
زخموں کے نئے پھول کھلانے کے لئے آ
کب سے غم حالات کی راہوں میں پڑا ہوں
تو بھی کوئی ٹھوکر ہی لگانے کے لئے آ
پھولوں کا تقاضا تو نہیں دست کرم سے
کانٹے مری راہوں میں بچھانے کے لئے آ
ہو طنز کی بارش بھی توجہ کی ادا سے
اے ابر کرم آگ لگانے کے لئے آ
اب خود کو بھلاؤں کہ تجھے یاد کروں میں
اے حاصلِ غم اتنا بتانے کے لئے آ
لکھا ہے مرا نام ترے دل کے ورق پر
میں حرف غلط ہوں تو مٹانے کے لئے آ
ہر زخم دل بدرؔ کو اک تازہ خلش دے
لو بجھتے چراغوں کی بڑھانے کے لئے آ
- بدر شمسی
7 notes
·
View notes
Text
محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے
جس میں تم لکھو
کہ کل کس رنگ کے کپڑے پہننے کون سی خوشبو لگانی ہے
کسے کیا بات کہنی کون سی کس سے چھپانی ہے
کہاں کس پیڑ کے سائے تلے ملنا ہے
مل کر پوچھنا ہے
کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے
یہ فرسودہ سا جملہ ہے
مگر پھر بھی یہی جملہ
دریچوں آنگنوں سڑکوں گلی کوچوں میں چوباروں میں
چوباروں کی ٹوٹی سیڑھیوں میں
ہر جگہ کوئی کسی سے کہہ رہا ہے
کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے
محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے
جس میں تم لکھو
تمہیں کس وقت کس سے کس جگہ ملنا ہے کس کو چھوڑ جانا ہے
کہاں پر کس طرح کی گفتگو کرنی ہے یا خاموش رہنا ہے
کسی کے ساتھ کتنی دور تک جانا ہے اور کب لوٹ آنا ہے
کہاں آنکھیں ملانا ہے کہاں پلکیں جھکانا ہے
یا یہ لکھو کہ اب کی بار جب وہ ملنے آئے گا
تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر
دھنک چہرے پہ روشن جگمگاتی رقص کرتی اس کی آنکھوں میں اتر جائیں گے
اور پھر گلشن و صحرا کے بیچوں بیچ دل کی سلطنت میں خاک اڑائیں گے
بہت ممکن ہے وہ عجلت میں آئے
اور تم اس کا ہاتھ ہاتھوں میں نہ لے پاؤ
نہ آنکھوں ہی میں جھانکو اور نہ دل کی سلطنت کو فتح کر پاؤ
جہاں پر گفتگو کرنی ہے تم خاموش ہو جاؤ
جہاں خاموش رہنا ہے وہاں تم بولتے جاؤ
نئے کپڑے پہن کر گھر سے نکلو میلے ہو جاؤ
کوئی خوشبو لگانے کا ارادہ ہو تو شیشی ہاتھ سے گر جائے
تم ویران ہو جاؤ
سفر کرنا سے پہلے بے سر و سامان ہو جاؤ
محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے آب جو ہے
جو دلوں کے درمیاں بہتی ہے خوشبو ہے
کبھی پلکوں پہ لہرائے تو آنکھیں ہنسنے لگتی ہیں
جو آنکھوں میں اتر جائے تو منظر اور پس منظر میں شمعیں جلنے لگتی ہیں
کسی بھی رنگ کو چھو لے
��ہی دل کو گوارا ہے
کسی مٹی میں گھل جائے
وہی مٹی ستارہ ہے
سلیم کوثر 🥀
2 notes
·
View notes
Text
ترکیہ اسرائیل تجارتی تعلقات منقطع
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر ترکیہ کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ سوویت یونین کے خطرے نے ترکیہ کو مغربی بلاک کے بہت قریب کر دیا اور اس دوران ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت کی اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ ترکیہ نے 14 مئی 1948 کو قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا اور’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ترکیہ نے 1948-1949 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا، جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد 24 مارچ 1949 کو ترکیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے ��الا پہلا اسلامی ملک بن گیا اور ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کی بنیادیں اس دور میں رکھی گئیں۔ ایردوان کے دور میں کئی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بڑے پیمانے پر کشیدگی بھی دیکھی گئی اور دونوں ممالک نےکئی بار سفیر کی سطح کے تعلقات کو نچلی سطح پر جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران ترکیہ پر اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا جس پر ترکیہ نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ ترکیہ اس وقت تک غزہ کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
گزشتہ ہفتے نماز جمعہ کے بعد صدر ایردوان نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اس وقت 9.5 بلین ڈالر کا تجارتی حجم موجود ہے۔ اس سے اگرچہ ترکیہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ منفی اثرات غزہ پر معصوم انسانوں کی نسل کشی کے سامنے ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس طرح ترکیہ نے پہلی بار اسرائیل پر تجارتی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکیہ کی وزارتِ تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا اسرائیل کیلئے 54 مختلف کٹیگریز سے مصنوعات کی برآمدات پر پابندی ہو گی اور پابندی کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔ ترکیہ کا یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ایئر ڈراپ یعنی فضا کے ذریعے امداد میں حصہ لینے کی ترکیہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکیہ کے شماریاتی ادارے (TUIK) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات 5.2 بلین ڈالر تھیں، اور اسرائیل سے اس کی درآمدات 1.6 بلین ڈالر تھیں۔ اس ایک سال کی مدت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 6.8 بلین ڈالر تھا اور ترکیہ، اسرائیل کے ساتھ اپنی برآمدات کی فہرست میں 13 ویں نمبر پر ہے۔
اسرائیل پر لگائی جانے والی تجارتی پابندیوں کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود وہ جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے اب تک کسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ پوری امت کا فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دفاع کیلئے صف بندی کرے۔ یہ ہمارا امتحان ہے ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دکھانا چاہیے کہ اسلامی دنیا سفارتی ذرائع سے اور جب ضروری ہو، زبردستی اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا کے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان لڑائی ہے۔ وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ اگر ہم نے (غزہ میں) اس سانحے سے سبق نہ سیکھا اور دو ریاستی حل کی طرف گامزن نہ ہوئے تو یہ غزہ کی آخری جنگ نہیں ہو گی بلکہ مزید جنگیں اور آنسو ہمارے منتظر ہوں گے۔ ہمیں اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔
حماس سمیت تمام فلسطینی 1967 کی بنیاد پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے دو ریاستی حل کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور عالم اسلام اب فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ یکم مئی کو ترکیہ نے جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ تمام ممکنہ سفارتی ذرائع استعمال کرے گا اور اسرائیل کو روکنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کے حوالے سے انقرہ میں فلسطینی سفیر مصطفیٰ نے کہا کہ ترکی کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی ریاست پر اثر انداز ہونے کی جانب ایک عملی قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ ترکیہ نے یہ فیصلہ 9 اپریل تک غزہ کو ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی امداد بھیجنے کی کوشش کو روکنے کے بعد کیا تھا اور 2 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے۔
اس فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد ہوتے رہنا چاہیے جب تک غزہ کیلئے انسانی امداد کی بلاتعطل رسائی کیاجازت نہ مل جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے وقت سے ہی غزہ کی پٹی میں فیلڈ ہسپتال تیار کررہا تھا اور ضروری سازو سامان العریش ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پہنچادیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے ان آلات کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اور ترکی کو فیلڈ ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ غزہ کی پٹی میں قائم واحد کینسر ہسپتال، جسے ترکیہ نے قائم کیا کیا تھا، کو بھی تباہ کر دیا ۔
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
When they always say, “I miss him/her” but Arslan Abbas wrote:
جا بجا دل کو لگانے سے کہاں بھولے گا؟ ہم کو وہ شخص بھلانے سے کہاں بھولے گا؟
ہاں کئی روز سے وہ یاد نہیں آیا مگر، وہ فقط یاد نا آنے سے کہاں بھولے گا؟
- Maria Jay
5 notes
·
View notes
Text
زرعی ٹیکس
ساحرلدھیانوی نے کہا تھا زمیں نے کیا اِسی کارن اناج اگلا تھا؟ کہ نسل ِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے
چمن کو اس لئے مالی نے خوں سے سینچا تھا؟ کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
لگتا ہے یہی صورتحال پیدا ہونے والی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق زرعی ٹیکس کی وصولی کا کام شروع ہو جائے گا۔ پنجاب اسمبلی نے زرعی ٹیکس کا بل منظور کر لیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر نے اس کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ٹیکس پاکستان کے زرعی شعبہ کیلئے معاشی تباہی سے کم نہیں کیونکہ پاکستان ان زرعی ملکوں میں سے ہے جہاں کسان مسلسل بدحالی کا شکار ہیں۔ جہاں اکثر اوقات گندم باہر سے منگوا نی پڑ جاتی ہے۔ زراعت پہلے ہی تباہ تھی زرعی ٹیکس لگا کر اسے مزید تباہ کر دیا گیا ہے۔‘‘ پاکستان کسان اتحاد کے سربراہ کا کہنا ہے کہ زرعی ٹیکس کیخلاف ملک گیر احتجاج کا پلان ترتیب دے رہے ہیں۔ زراعت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، کچھ ممالک نے ایسی پالیسیاں اپنائی ہیں جو اس شعبے کو براہ راست ٹیکس سے مستثنیٰ کرتی ہیں، جن کا مقصد ترقی کو تیز کرنا، کسانوں کا تحفظ کرنا اور زرعی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ جیسے ہندوستان جہاں 1961 کے انکم ٹیکس ایکٹ کے تحت زراعت وفاقی انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔
یہ استثنیٰ تاریخی اور اقتصادی تحفظات پر مبنی ہے، جو ہندوستانی معیشت میں زراعت کی اہم شراکت کو تسلیم کرتا ہے۔ اگرچہ آئین کے تحت ریاستی حکومتوں کے پاس زرعی ٹیکس لگانے کا اختیار موجود ہے، لیکن زیادہ تر ریاستیں سیاسی اور عملی وجوہات کی بنا پر پر زرعی ٹیکس نہیں لگاتیں۔ ایک بار ہندوستان میں زرعی ٹیکس لگانے کی کوشش کی گئی تھی مگر اتنا خوفناک احتجاج ہوا تھا کہ حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑ گیا تھا۔ پاکستان میں زرعی ٹیکس اُس وقت تک نہیں لگایا جانا چاہئے تھا جب تک کسان کو اس قابل نہ کیا جاتا کہ وہ زرعی ٹیکس ادا کر سکے۔ اس زرعی ٹیکس سے یقیناً کھانے پینے کی اشیا اور مہنگی ہونگی۔ پہلے ہی پاکستان میں مہنگائی اپنے پورے عروج پر ہے۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے احتجاج میں کسان بھی شریک ہونے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ، جو اپنے جدید زرعی شعبے کیلئے جانا جاتا ہے، وہاں بھی زرعی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں بلکہ زرعی سرمایہ کاری، پائیداری کے منصوبوں اور اختراعات کیلئے اہم چھوٹ اور مراعات دی جاتی ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور قطر جیسے ممالک بھی زرعی ٹیکس عائد نہیں کرتے۔
یہ قومیں خوراک کی حفاظت پر توجہ مرکوز کرتی ہیں اور سبسڈی اور مراعات کے ذریعے کاشتکاری کے طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ کینیا، برما وغیرہ میں بھی زرعی ٹیکس نہیں ہے۔ وہ ممالک جو اپنے کسانوں کو بہت زیادہ سہولیات فراہم کرتے ہیں وہ ضرور ٹیکس لگاتے ہیں مگر دنیا بھرمیں سب سے کم شرح زرعی ٹیکس کی ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، جہاں اکثر کسان غیر مستحکم منڈیوں، غیر متوقع موسم، اور وسائل تک محدود رسائی کا سامنا کرتے ہیں۔ ٹیکس کی چھوٹ انہیں اپنی کاشتکاری کی سرگرمیوں میں دوبارہ سرمایہ کاری کرنے کیلئے مزید آمدنی برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ بہت سی حکومتیں خوراک کی پیداوار اور خود کفالت کو ترجیح دیتی ہیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ کسانوں پر ٹیکسوں کا زیادہ بوجھ نہ پڑے جس سے زرعی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔ ان ممالک میں جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ زرعی کام کرتا ہے، وہاں ٹیکس کی چھوٹ دیہی حلقوں کی معاش بہتر بنانے کا ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے۔
ٹیکس میں چھوٹ کسانوں کو کاشتکاری کے جدید طریقوں کو اپنانے، انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے اور پائیدار تکنیکوں کو اپنانے کی ترغیب دے سکتی ہے۔زرعی ٹیکس کی چھوٹ پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ حکومتیں ممکنہ ٹیکس ریونیو کو چھوڑ دیتی ہیں جسے عوامی خدمات کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ممالک میں، مالدار زمیندار یا بڑے زرعی ادارے ان چھوٹوں سے غیر متناسب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ٹیکس کی چھوٹ پر حد سے زیادہ انحصار بعض اوقات ناکارہ ہونے یا آمدنی کے تنوع کی حوصلہ شکنی کا باعث بن سکتا ہے۔ وہ ممالک جو زراعت کو ٹیکس سے مستثنیٰ رکھتے ہیں ان کا مقصد کاشتکاری کی سرگرمیوں کو فروغ دینا، خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانا اور دیہی معاش کی حمایت کرنا ہے۔ اگرچہ یہ پالیسیاں نیک نیتی پر مبنی ہیں، لیکن ان کی تاثیر کا انحصار مناسب نفاذ اور متعلقہ چیلنجوں سے نمٹنے پر ہے۔ اپنے زرعی شعبوں کو ترقی دینے کی کوشش کرنے والی قوموں کیلئے، وسیع تر اقتصادی مقاصد کے ساتھ ٹیکس مراعات میں توازن رکھنا بہت ضروری ہے مگر پاکستان میں زرعی ٹیکس صرف آئی ایم ایف کے دبائو میں لگایا گیا ہے۔
اگر حکومت سمجھتی ہے کہ یہ ٹیکس لگانا اس کی مجبوری تھی تو پھر اسے کسانوں کوفری مارکیٹ دینی چاہئے، انہیں بجلی اور ڈیزل کم قیمت پر ملنا چاہئے، کھاد، بیج اور کیڑے مار ادویات پر بھی سبسڈی فراہم کی جائے۔ باہر سے ہر قسم کے بیجوں کی درآمد پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔
منصور آفاق
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
خیبرپختونخوا کے پرائمری سکولوں کو تالا لگانے کا اعلان
(24 نیوز)خیبرپختونخوا کے پرائمری سکولوں کو تالا لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق آل پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن نے اپ گریڈیشن کے نوٹی فکیشن کے حصول تک صوبے کے تمام پرائمری سکولز بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پرائمری اساتذہ کا اپ گریڈیشن نہ ملنے پر سکول بند رکھنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ صدر آل پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن ایپٹا عزیز اللہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ہماری اپ گریڈیشن کابینہ سے منظوری کے…
0 notes
Text
وزیر خزانہ نے پراپرٹی کے بعد زراعت پر بھی ٹیکس لگانے کا اعلان کردیا
اسلام آباد (ویب ڈیسک) وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ حکومت کا ہر صورت زراعت اور پراپرٹی پر ٹیکس لگانے کا ارادہ ہے، صوبے زراعت اور پراپرٹی کو ٹیکس نیٹ میں نہ لائے تو سسٹم نہیں چلے گا، صوبوں کو سوشل پروٹیکشن میں بھی حصہ ڈالنا ہوگا، وفاق کا اکھٹا کیا گیا ریونیو کا 60 فیصد صوبوں کو چلا جاتا ہے۔ آج نیوز کے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس بجٹ کو ہمیں ایک…
0 notes
Text
آئی ایم ایف کا اخراجات کم کرنے یا189ارب کے مزید ٹیکس لگانے کامطالبہ
آئی ایم ایف نے پاکستانی حکومت سےاخراجات کم کرنے یا 189 ارب کے مزید ٹیکس لگانے کا مطالبہ کردیا۔ وزیر خزانہ کی سربراہی میں اعلیٰ سطح پر مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان نے پیر کے روز آئی ایم ایف کو مطلع کیا کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران ٹیکس مشینری نے ریٹیلرز، تھوک فروشوں اورڈسٹری بیوٹرز سے11 ارب روپے جمع کیے ہیں۔ تاہم، تاجِر دوست اسکیم کے بارے میں توقعات پوری نہیں ہو سکیں اور اس…
0 notes
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس، محکمہ تعلقات عامہ ، حکومت پنجاب ، شیخوپورہ
ہینڈ آﺅٹ نمبر : 10397
26 اکتوبر :- وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف کے ویژن کے مطابق ستھرا پنجاب پروگرام ضلع بھر میں کامیابی سے جاری ہے ، تمام اسسٹنٹ کمشنرز ، لوکل گورنمنٹ ، ضلع کونسل اور میونسپل کمیٹیز کے افسران ستھرا پنجاب پروگرام کے تحت ضلع بھر میں شہروں ، قصبوں سمیت دیہاتوں کو صاف ستھرا اور دلکش بنانے کے لیے فیلڈ میں مکمل متحرک ہیں ، عوام الناس کو مزید بہترین میونسپل سروسز کی فراہمی اور ناجائز تجاوزات کے خاتمے کیلئے تمام مشینری و عملہ ضلع بھر میں مکمل متحرک ہے اور شہروں کی سڑکوں ، گلی محلوں اور دیگر عوامی مقامات کی صفائی یقینی بنانے کیلئے مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔ ڈپٹی کمشنر شیخوپوره شاہد عمران مارتھ نے ان خیالات کا اظہار ستھرا پنجاب مہم کے تحت ضلع بھر میں جاری صفائی ستھرائی مہم کے حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ ڈپٹی کمشنر شاہد عمران مارتھ نے کہا کہ تمام متعلقہ محکموں کے افسران کو اپنی نگرانی میں صفائی ستھرائی اور عوامی شکایات کے فوری ازالے کے لیے فیلڈ میں صفائی ستھرائی میں مزید تیزی لانے کے لیے ہدایت کی گئی ہیں ، ستھرا پنجاب پروگرام سے شہری و دیہی علاقوں کی صفائی ستھرائی میں نمایاں بہتری آئی ہے ، پارکس ، گرین بیلٹس اور چوراہے سرسبز و شاداب دکھائی دے رہے ہیں جبکہ میونسپل کمیٹیز کا عملہ سیوریج لائنوں ، واٹر ڈسپوزلز کی صفائی اور گٹروں کو ڈھکن لگانے کا کام باقاعدگی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ کی اولین ترجیح ہے کہ ستھرا پنجاب پروگرام کے تحت عوام کو اچھا ماحول فراہم کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔
0 notes
Text
اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں
اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد مٹا دیں
کچھ درد کلیجے سے لگانے کے لیے ہیں
سوچو تو بڑی چیز ہے تہذیب بدن کی
ورنہ یہ فقط آگ بجھانے کے لیے ہیں
آنکھوں میں جو بھر لو گے تو کانٹوں سے چبھیں گے
یہ خواب تو پلکوں پہ سجانے کے لیے ہیں
دیکھوں ترے ہاتھوں کو تو لگتا ہے ترے ہاتھ
مندر میں فقط دیپ جلانے کے لیے ہیں
یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں
اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں
جان نثار اختر
4 notes
·
View notes