#پراپرٹی
Explore tagged Tumblr posts
pinoytvlivenews · 3 months ago
Text
وزیر خزانہ نے پراپرٹی کے بعد زراعت پر بھی ٹیکس لگانے کا اعلان کردیا
اسلام آباد (ویب ڈیسک) وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ حکومت کا ہر صورت زراعت اور پراپرٹی پر ٹیکس لگانے کا ارادہ ہے، صوبے زراعت اور پراپرٹی کو ٹیکس نیٹ میں نہ لائے تو سسٹم نہیں چلے گا، صوبوں کو سوشل پروٹیکشن میں بھی حصہ ڈالنا ہوگا، وفاق کا اکھٹا کیا گیا ریونیو کا 60 فیصد صوبوں کو چلا جاتا ہے۔ آج نیوز کے پروگرام  میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس بجٹ کو ہمیں ایک…
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
پنجاب میں جائیدادوں کی خرید و فروخت پر جمع ہونے والا ود ہولڈنگ ٹیکس خزانے میں جمع نہ کرائے جانے کا انکشاف
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ٹیکس آفس نے پنجاب میں جائیداد کے رجسٹراروں کا الیکٹرانک آڈٹ کیا ہے اور اربوں کی ودہولڈنگ ٹیکس چوری کا پتہ چلا ہے، جو پراپرٹی کے لین دین پر اکٹھے کیے گئے تھے، لیکن کبھی قومی خزانے میں جمع نہیں کرائے گئے۔ سرگودھا میں ایف بی آر کے ٹیکس آفس نے پنجاب میں پراپرٹی رجسٹرار، ریونیو افسران اور وکلاء کے ایک منظم گروہ کا پردہ فاش کیا ہے، جو اربوں کی غیر منقولہ جائیدادوں کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 21 hours ago
Text
کیا نیب دبئی میں ملک ریاض کے پراجیکٹ کو فلاپ کرنا چاہتا ہے؟
معروف پراپرٹی ٹائیکون اور بحریہ ٹاؤن کے چئیرمین ملک ریاض حسین کے قریبی ذرائع نے الزام عائد کیا ہے کہ قومی احتساب بیورو کی جانب سے حال ہی میں انکے خلاف جاری کردہ پریس ریلیز کا بنیادی مقصد انکے دبئی میں شروع ہونے والے نئے تعمیراتی پراجیکٹ کو خراب کرنا پہنچانا ہے لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے گا۔ یاد رہے کہ ملک ریاض کا شمار پاکستان کی ان بااثر کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ…
0 notes
risingpakistan · 22 days ago
Text
نان فائلرز کو فائلرز بنانے کا چیلنج
Tumblr media
پاکستان اس وقت جن معاشی مسائل کا سامن�� کر رہا ہے اس کی بنیادی وجہ ریاست کے وسائل کی کمی اور اخراجات میں مسلسل اضافہ ہے۔ اسی بنیادی خرابی کے سبب ہر حکومت کو مالی خسارہ پورا کرنے کیلئے دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے بلند شرح سود اور سخت شرائط پر قرضے لینا پڑتے ہیں جس کا خمیازہ پھر عام آدمی کو مہنگائی اور معاشی بدحالی کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل طبقات بھی ٹیکس کی شرح میں مسلسل اضافے اور ٹیکس در ٹیکس ادائیگیوں کے باعث مالی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ عام آدمی کیلئے بھی ہر چیز کی خریداری پر بھاری سیلز ٹیکس کی ادائیگی لازمی ہے۔ ایسے میں افسوسناک امر یہ ہے کہ اب بھی ملک میں بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں ٹیکس دینے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وہ طبقہ جس پر ٹیکس قوانین لازمی طور پر لاگو ہونے چاہئیں انہیں بھی نان فائلر کے نام پر ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کی سہولت موجود ہے۔ اس وقت پاکستان کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کے حوالے سے جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں غیر دستاویزی معیشت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سے ایک طرف حکومت کی ٹیکس مشینری کی بدانتظامی ظاہر ہوتی ہے جسکی وجہ سے بہت سے کاروباری افراد غیر رسمی معیشت کا حصہ رہتے ہوئے ٹیکس کی ادائیگی سے بچ جاتے ہیں۔
اس حوالے سے لوگوں میں حکومت کی ٹیکس مشینری پر عدم اعتماد بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس نیٹ کا حصہ بنیں گے تو انہیں ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کے عملے کی طرف سے بلا جواز تنگ کرنے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس پالیسیوں میں متواتر تبدیلیاں اور غیر واضح ٹیکس قوانین بھی ٹیکس دہندگان کیلئے سمجھ بوجھ اور تعمیل کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث ہیں۔ ٹیکس نیٹ میں توسیع کیلئے اس خامی کو ٹیکس میکانزم اور قوانین بہتر بنا کر دور کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام بنیادی طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے تحت کام کرتا ہے۔ تاہم اس محکمے کو بھی عملے کی مبینہ نااہلیوں، بدعنوانیوں اور ناکافی وسائل کے باعث مسائل کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں ٹیکس وصولیوں میں اضافے اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کے حوالے سے ایک اور اہم فیکٹر سیاسی قیادت یا حکومت کا عزم ہے کیونکہ زراعت، پراپرٹی اور ریٹیل سیکٹر اپنے سیاسی اثرورسوخ کے باعث ہی طویل عرصے سے عملی طور پر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ ان طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے جب بھی حکومت کی طرف سے کوئی پالیسی بنائی جاتی ہے تو اسے اندر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخر میں یہ کوشش سیاسی سمجھوتوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ 
Tumblr media
ان وجوہات کی بنا پر اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت کو بھی یہ واضح نظر آنا شروع ہو گیا ہے کہ اگر اس نے اب بھی ان مسائل کو حل کرنے کیلئے ٹیکس اصلاحات نہ کیں اور نان فائلر کو فائلر بنانے کی پالیسی پر عمل نہ کیا تو اس کیلئے موجودہ معاشی استحکام کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں حال ہی میں حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی میں یہ بل پیش کیا گیا ہے کہ نان فائلر افراد پر کاروں، جائیدادوں کی خریداری اور بینک اکاؤنٹس کھولنے پر پابندی عائد کی جائے۔ اسی طرح حکومت نے ٹیکس دہندگان کے خفیہ ڈیٹا کو کمرشل بینکوں اور نجی طور پر رکھے گئے ٹیکس آڈیٹرز کے ساتھ شیئر کرنےکیلئے بھی پارلیمنٹ سے منظوری مانگی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نان فائلرز کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے اور سیلز ٹیکس رجیم میں رجسٹرڈ نہ ہونیوالے افراد کے کاروبار اور جائیدادیں ضبط کرنے کے اختیارات بھی مانگے گئے ہیں۔ اس بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ نان فائلرز کو اپنے بینک کھاتوں سے ایک خاص حد سے زیادہ رقم نکالنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
مجوزہ بل میں جہاں کچھ اچھی چیزیں شامل ہیں وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت نے ماضی میں کئے گئے اپنے ہی اعلانات کے برعکس نان فائلر کیٹیگری کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا ہے۔ اس سلسلے میں انکم ٹیکس آرڈیننس کے 10ویں شیڈول کو حذف کرنے کی ضرورت ہے جو نان فائلرز کیلئے زیادہ شرح کی ادائیگی کرکے فائلر بننے سے بچنے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایف بی آر کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد نان فائلرز میں سے نومبر تک صرف 56 لاکھ افراد نے اپنے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروائے ہیں۔ دیگر نان فائلرز ٹیکس نظام کی عدم فعالیت اور کمزوری یا حکومت کی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے تاحال ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ دوسری طرف ایف بی آر کو گزشتہ پانچ ماہ میں 340 ارب روپے کے ٹیکس شارٹ فال کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے اندیشہ ہے کہ حکومت ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا کرنے کیلئے پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود افراد پر کوئی نیا ٹیکس لگا سکتی ہے یا پہلے سے نافذ شدہ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر سکتی ہے۔ 
حالانکہ رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ٹیکس محصولات کا ہدف پہلے ہی 13 ہزار ارب روپے رکھا گیا ہے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے حکومت ٹیکس دہندگان پر نئے ٹیکس لگانے کے علاوہ براہ راست ٹیکسوں میں 48 فیصد اور بالواسطہ ٹیکسوں میں 35 فیصد اضافہ کر چکی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ حکومت ایسے کسی بھی اقدام سے باز رہے جس کے باعث پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل افراد پر مالی بوجھ ناقابل برداشت ہو جائے اور وہ بھی فرار کے راستے ڈھونڈنے شروع کر دیں۔
چوہدری سلامت علی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
topurdunews · 2 months ago
Text
اثاثہ جات ریفرنس شرجیل میمن و دیگر کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
(24 نیوز) احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس میں سند�� کے سینئر وزیر شرجیل میمن اور دیگر کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ سندھ کی احتساب عدالت میں شرجیل میمن اور دیگر کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس میں عدالت کے دائرہ اختیار سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی، شرجیل میمن اور دیگر ملزمان احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ شرجیل میمن کی پراپرٹی کی مالیت…
0 notes
dpr-lahore-division · 4 months ago
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب
لاہور، فون نمبر:99201390
ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آر او ٹو سی ایم
ہینڈ آؤٹ نمبر 1029
وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کا پنجاب بھر میں سکول بلڈنگز کی چیکنگ کا حکم
مخدوش اور خستہ حال عمارتوں میں بنے سکول سیل کرنے اور سکولوں کی صفائی کی صورتحال کی چیکنگ کی ہدایت
ارکان اسمبلی کی تجاویز پر مظفر گڑھ کے مرکزی روڈز کی تعمیر و مرمت اور بحالی یقینی بنانے کا حکم
وزیر اعلیٰ مریم نواز کا مظفرگڑھ کے مرکزی علاقوں میں تجاوزات اور ناقص صفائی اور لینڈ ریکارڈ سینٹرز کے بارے میں عوامی شکایات پر اظہار برہمی
وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کا تجاوزات کے خاتمے کے لئے فوری طور پر مہم شروع کرنے کا حکم
ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں کرپٹ عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے، وزیر اعلیٰ مریم نواز کی ہدایت
عوامی امور پر نظر ہے، تمام مسائل حل کرنا چاہتے ہیں، ہر آنے والے دن میں بہتری آ رہی ہے:مریم نواز شریف
جرائم پیشہ افراد کے خلاف سخت ترین اور فیصلہ کن کارروائی کر کے خوف زدہ کیا جائے
پولیس کو عوام میں ریلیف اور مجرموں میں خوف کا احساس پیدا کرنا چاہیے، مظفر گڑھ میں نو گو ایریا ختم ہونا قابل اطمینان ہے
سوشل سیکیورٹی ہسپتال میں ڈائیلسیز کی سہولت کی تجویز کا جائزہ لیا جائے گا:مریم نواز شریف
وزیر اعلیٰ مریم نواز کی مظفر گڑھ کے ڈپٹی کمشنر آفس میں ارکان اسمبلی سے ملاقات، سی ایم انیشیٹیوز اور امن امان پر بریفنگ
لاہور27ستمبر: وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے پنجاب بھر میں سکول بلڈنگز کی چیکنگ کا حکم دیاہے-مخدوش اور خستہ حال عمارتوں میں بنے سکول سیل کرنے کی ہدایت کی ہے-وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے سکولوں کی صفائی کی صورتحال کی چیکنگ کی ہدایت کرتے کہاکہ عوامی امور پر نظر ہے، تمام مسائل حل کرنا چاہتے ہیں -مجھے یقین ہے کہ کچھ سالوں میں شکایات برقرار نہیں رہیں گی -شاباش دینے میں کنجوس نہیں، چیزوں کو بہتر کرنے کے لیے سخت رویہ اپنانا پڑتا ہے - ہر آنے والے دن میں بہتری آ رہی ہے -انہوں نے کہاکہ پولیس کو عوام میں ریلیف اور مجرموں میں خوف کا احساس پیدا کرنا چاہیے - جرائم پیشہ افراد کے خلاف سخت ترین اور فیصلہ کن کارروائی کر کے خوف زدہ کیا جائے - جرائم بر خلاف پراپرٹی کے رجحان پر قابو پایا جائے -وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے مظفر گڑھ کے ڈپٹی کمشنر آفس میں ارکان اسمبلی سے ملاقات کی-ارکان اسمبلی نے عوامی مسائل کے حل کے لیے تجاویز اور سفارشات پیش کیں -وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے ارکان اسمبلی کی تجاویز پر مظفر گڑھ کے مرکزی روڈز کی تعمیر و مرمت اور بحالی یقینی بنانے کا حکم دیا-وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے مظفرگڑھ کے مرکزی علاقوں میں تجاوزات اور ناقص صفائی پر برہمی کا اظہار کیااورتجاوزات کے خاتمے کے لئے فوری طور پر مہم شروع کرنے کا حکم دیا-وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے ہدایت کی کہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں کرپٹ عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے-وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے لینڈ ریکارڈ سینٹرز کے بارے میں عوامی شکایات پر برہمی کااظہار کیا-وزیراعلی مریم نوازشریف نے کہاکہ مظفر گڑھ میں نو گو ایریا ختم ہونا قابل اطمینان ہے، اسے بحال رکھا جائے - سوشل سکیورٹی ہسپتال میں ڈائیلسیز کی سہولت کی تجویز کا جائزہ لیا جائے گا-وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے ارکان اسمبلی سے روٹی، آٹا اور اشیا خوردو نوش کے نرخ کے بارے میں بھی دریافت کیا -ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ نے سی ایم انیشیٹیوز پر رپورٹ پیش کی جبکہ ڈی پی او مظفرگڑھ نے امن و امان کی صورتحال سے آگاہ کیا -سینیٹر پرویز رشید، سینئر منسٹر مریم اورنگزیب،صوبائی وزیراطلاعات و ثقافت عظمیٰ زاہد بخاری، معاون خصوصی ذیشان ملک، ارکان اسمبلی، چیف سیکرٹری،سیکرٹری پی اینڈ ڈی، کمشنر ڈی جی خان، آر پی او اور دیگر متعلقہ حکام بھی موجود تھے-
٭٭٭٭
0 notes
urduintl · 8 months ago
Text
0 notes
urdustoriespoint · 1 year ago
Text
Neighbor Love Story - Part 02– پڑوسی اردو ناول Full Romantic
Neighbor Love Story – پڑوسی اردو ناول رانی کو بھی احسان اچھا لگتا تھا۔ وہ بہت پرفیکٹ لڑکا تھا۔اچھی شکل صورت اچھا لباس پہنتا تعلیم یافتہ ماسٹرز کے فائنل کا سٹوڈنٹ تھا۔ احسان کی دوستیاں بھی بڑے معقول لوگوں کے ساتھ تھیں۔ اپنے والدین کی طرف سے ملنے والی پراپرٹی اور کاروبار کو بھی اچھی طرح دیکھتا تھا۔ رانی کے ذہن میں کبھی ایسا خیال تو موجود ہی نہ تھا کہ احسان اس عمر میں تقریبا دس برس چھوٹا رانی کے حسن…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 1 year ago
Text
اٹھائیس دن میں سب نکل جائیں گے؟
Tumblr media
حکم نامہ جاری ہوا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطنوں 28 دن کے اندر اندر پاکستان چھوڑ دو، ورنہ۔۔۔ اگر بچے سکول میں پڑھتے ہیں تو سکول والوں کو بتا دو، اگر اتنے غریب ہو کہ بچے کسی ورکشاپ، کسی دکان میں کام کرتے ہیں تو آخری ہفتے کی تنخواہ وصول کر لو، اگر بہت ہی زیادہ غریب ہو اور بچے کچرا اٹھاتے ہیں تو کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں، کچرا اٹھانے والے کچھ اور بھی آ جائیں گے۔ اگر خود کہیں نوکری کرتے ہو تو نوٹس دے دو، اگر اتنے خوش قسمت ہو کہ اپنا گھر بنا لیا تھا تو کسی پراپرٹی ڈیلر کے ہاتھ چابیاں دو اور اونے پونے پیسے پکڑ لو، اگر کرائے کے گھر میں رہتے ہو یا کسی کچی بستی میں بسیرا ہے تو اپنی آخری جمع پونجی کسی پک اپ، کسی ٹرک والے کو دو، سامان لادو اور یہاں سے نکل جاؤ۔ اگر پلے کوئی پیسہ نہیں تو شاید بیگم یا کسی بچی کے پاس بالیاں ہوں گی وہ بیچو، موٹرسائیکل یا سائیکل کا بھی کچھ نہ کچھ مل ہی جائے گا۔ اگر سب کچھ بیچ کر بھی واپسی کا سفر نہیں کر سکتے تو بھی جیب میں کچھ پیسے رکھو۔
پولیس والے، سکیورٹی ایجنسیوں والے اور اب نادرا والے بھی تمھاری تلاش میں ہیں، جب وہ تمھاری جھونپڑی تک پہنچیں تو وہ پیسے اُن کی جیب میں منتقل کرنا، پیروں کو ہاتھ لگانا، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانا، اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کا واسطہ دینا، ہو ��کتا ہے اُن کے دل میں رحم آ جائے اور وہ تمھاری جھونپڑی چھوڑ کر تمہارے ہمسائے اور اس کے بچوں کو اٹھا کر لے جائیں۔ کبھی یہ نہ کہنا کہ میں تو پیدا ہی اِسی دھرتی پر ہوا تھا، جس ملک میں تم مجھے واپس بھیج رہے ہو اسے تو میں نے کبھی دیکھا ہی نہیں، صرف ماں باپ سے اس ملک کی کہانیاں سنی ہیں اور ان میں سے بھی زیادہ تر ڈراؤنی ہیں۔ سُنا تھا اس ملک میں ایک قانون بھی موجود ہے کہ اگر آپ یہاں پیدا ہوئے ہیں تو آپ کے پاس یہاں رہنے کا قانونی حق موجود ہے۔ جب سرکاری ہرکارے تمہیں اس مملکت خداداد سے بے دخل کرنے آئیں تو پرانے قصے لے کر نہ بیٹھ جانا۔ یہ نہ یاد دلانا کہ ہمارے باپ دادا کا تو تم نے کُھلے بازوؤں کے ساتھ استقبال کیا تھا۔ کیا ہم نے تمھارے ساتھ مل کر سوویت یونین کو پاش پاش نہیں کیا تھا؟ کیا ہمارے افغان آباؤ و اجداد کو تم نے امت مسلمہ کا ہراول دستہ نہیں کہا تھا؟
Tumblr media
یہ مت یاد کروانا کہ حکمنامے میں تو صرف غیر قانونی تارکین وطن لکھا گیا ہے لیکن اس بار نشانہ صرف افغان مہاجر اور ان کی وہ نسلیں ہیں جنھوں نے کابل قندھار صرف کہانیوں میں سُنا ہے اور وہ خالصتاً پاکستان کی ’جم پل‘ ہیں۔ یہ بھی مت کہنا کہ اس ملک میں لاکھوں بنگلہ دیشی بھی ہیں، جو بنگلہ دیش بننے سے بہت پہلے سے پاکستان میں موجود ہیں، انھوں نے نہ کبھی ملک سے غداری کی، نہ دہشت گردی کی، نہ کوئی مذہبی جتھہ بنایا لیکن پھر بھی ان کی تیسری نسل کچی بستیوں میں بغیر شناختی کارڈوں کے ریاست کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہو رہی ہے۔ ہاتھ باندھ کر یاد دلانا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہو گا کہ کب سے پاکستان میں رہنے والے سارے افغان دہشت گرد، منشیات فروش اور جرائم پیشہ ہو گئے۔ دہشت گرد اپنی کارروائی سے پہلے شناختی کارڈ نہیں لیتے، نہ ہی انھیں پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ یاد مت کرانا کہ جو طالبان رہنما پاکستان کی سرحدوں کے اندر مقیم تھے انھیں پاسپورٹ کہاں سے جاری ہوئے تھے۔
کیا سویت یونین کے بعد ہم نے افغانستان میں ایک دوسری سپر پاور امریکہ کو آپ کی مدد سے شکست نہیں دی۔ کیا ہم نے غلامی کی زنجیریں نہیں توڑیں، کیا آپ نے ہمارے لیے ’نصر من اللہ و فتح قریب‘ کی دعائیں نہیں دیں۔ کیا پاکستان کے طاقتور ترین جنرل اس فتح کا ج��ن منانے کابل کے انٹرکانٹینینٹل ہوٹل نہیں پہنچے اور کیمروں کے سامنے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ نہیں کہا کہ اب سب ٹھیک ہو جائے گا؟ ہمیں یہ مت یاد دلانا کہ ہم افغانستان سے اپنے گھروں، کھیتوں، شہروں، دیہاتوں کو چھوڑ کر اس لیے بھاگے تھے کہ آپ کے چہیتے طالبان ہمیں مارتے تھے، دھندہ نہیں کرنے دیتے تھے، بچیوں کو سکول نہیں جانے دیتے تھے۔ ہم نے بھاگ کر اپنے آباؤ و اجداد کی طرح یہاں پناہ ڈھونڈی اب طالبان آپ کی بات نہیں سنتے (کیونکہ وہ غلامی کی زنجیریں توڑ چکے) تو آپ پاکستان میں ہمارے ساتھ وہی کریں گے جو طالبان نے ہمارے ساتھ افغانستان میں کیا تھا۔ حکمنامہ جاری ہو چکا کہ 28 دن میں پاکستان چھوڑ دو ورنہ۔۔۔ ایسے حکمناموں کا جواب ہم نے پہلے بھی سُن رکھا ہے: ’اگر نہ چھوڑیں تو۔۔۔‘
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
oneida کیسینو - بلاگ تعارف: Oneida کیسینو میں خوش آمدید آپ اندر پہنچ گئے ہیں۔ oneida کیسینووسکونسن کا بہترین کیسینو، اونیڈا۔ Oneida Casino اپنی وسیع تاریخ، گیمنگ کے بے شمار مواقع، لذیذ کھانے کے انتخاب، اور عالمی معیار کی تفریح ​​کی بدولت زائرین اور مقامی لوگوں کو زندگی میں ایک بار کا تجربہ فراہم کرتا ہے۔ کے لیے یہاں کلک کریں۔ کیسینو نیوز. Oneida کیسینو کا بھرپور ماضی oneida کیسینو 1993 میں اپنے قیام کے بعد سے، Oneida Casino ملک بھر میں مقامی امریکی جواریوں کے لیے ایک اعلیٰ مقام کے طور پر بڑے پیمانے پر پہچانا جاتا ہے۔ قومی طور پر تسلیم شدہ اور ثقافتی طور پر امیر Oneida Nation اس پراپرٹی کی مالک اور اس کا انتظام کرتی ہے۔ Oneida Casino نے کئی سالوں میں توسیع کی ہے اور زیادہ مشہور ہوا ہے کیونکہ یہ اپنے صارفین کو تفریحی اور دلچسپ گیمنگ ماحول فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ Oneida کیسینو کے گیمنگ کے مختلف اختیارات Oneida کیسینو اپنے سرپرستوں کے لیے مختلف قسم کے کھیل پیش کرتا ہے جس میں سے انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ جوئے بازی کے اڈوں میں سلاٹ مشینوں اور ٹیبل گیمز سے لے کر پوکر رومز اور بنگو ہالز تک سب کچھ موجود ہے، لہذا چاہے آپ تجربہ کار کھلاڑی ہوں یا ابھی شروعات کریں، آپ کو اپنی پسند کے مطابق کچھ ملے گا۔ آپ کو یہاں دستیاب 2,000 سے زیادہ میں سے ایک نئی پسندیدہ سلاٹ مشین تلاش کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی، جو کہ انواع اور بیٹنگ کی حدود کی ایک وسیع رینج پر محیط ہے۔ مزید روایتی کیسینو گیمز کے شائقین کو ٹیبل گیمز کے سیکشن میں لطف اندوز ہونے کے لیے بہت کچھ ملے گا، جس میں بلیک جیک، رولیٹی، کریپس اور بہت کچھ جیسے مداحوں کے پسندیدہ ہیں۔ پوکر کے شائقین خصوصی پوکر رومز کی تعریف کریں گے جو سنسنی خیز کیش گیمز اور ٹورنامنٹس کی نمائش کرتے ہیں۔ کھانے پینے کے ساتھ تفریح ​​اور کھیل Oneida کیسینو میں تفریح ​​صرف گیمنگ تک محدود نہیں ہے۔ سائٹ پر موجود بہت سے ریستوراں میں سے ایک میں کھانے کا لطف اٹھائیں۔ جوئے بازی کے اڈوں میں وسیع اقسام کے ریستوراں اور کیفے ہیں جو فاسٹ فوڈ سے لے کر عمدہ کھانے تک لذیذ کرایہ پیش کرتے ہیں۔ Oneida کے کیسینو میں، آپ مزیدار سٹیک، تازہ سمندری غذا، یا کاسموپولیٹن ذائقوں سے اپنی بھوک پوری کر سکتے ہیں۔ کیسینو اکثر سرپرستوں کے پورے کیسینو کے تجربے کو بڑھانے کے لیے دنیا کے مشہور موسیقاروں، مزاح نگاروں، اور اداکاروں کو پیش کرنے والے لائیو تفریح ​​کا شیڈول بنا��ا ہے۔ ایک شاندار کنسرٹ میں شرکت کرنے یا ہنسی کی شام گزارنے کے لیے کیسینو کے تفریحی علاقوں کا دورہ کریں۔ دلچسپ ماحول اور شاندار شوز کی وجہ سے آپ اپنے دورے کے دوران بالکل بھی بور نہیں ہوں گے۔ [embed]https://www.youtube.com/watch?v=ElD5cnoomhw[/embed] قیام کے لیے سہولیات Oneida Casino جامع تعطیلات کی تلاش میں لوگوں کے لیے رہائش کے آسان اختیارات فراہم کرتا ہے۔ جوئے اور تفریح ​​کے ایک طویل دن کے بعد، مہمان ملحقہ ہوٹل میں اپنی رہائش کے عیش و آرام میں آرام کر سکتے ہیں۔ آپ ہوٹل کے فٹنس سنٹر، سوئمنگ پول، سپا اور مزید بہت کچھ کی بدولت آرام کر سکتے ہیں اور دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔ اشتہارات اور مراعات جب گاہک Oneida Casino کے ساتھ قائم رہتے ہیں، تو انہیں بہت اچھا انعام دیا جاتا ہے۔ گاہکوں کو راغب کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے، کیسینو متعدد انعامی اور پروموشنل اسکیمیں چلاتا ہے۔ انعامات کا پروگرام اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ کھلاڑیوں کو ان کی کاوشوں کے لیے VIP ایونٹس تک خصوصی رسائی اور کھانے اور تفریح ​​پر خصوصی بچت فراہم کرکے پہچانا جاتا ہے۔ حفاظت اور سماجی طور پر قابل قبول جوا oneida کیسینو Oneida Casino میں آپ کی حفاظت اور آرام ہماری اولین ترجیحات ہیں۔ کیسینو تمام صارفین کے لیے خطرے سے پاک اور ایماندار گیمنگ کے تجربے کو یقینی بنانے کے لیے سخت حفاظتی طریقہ کار کا استعمال کرتا ہے۔ تمام زائرین یہ جان کر آرام محسوس کر سکتے ہیں کہ جدید ترین ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اہل سیکورٹی افسران کے ذریعہ جدید ترین نگرانی کے نظام کے ذریعے ان کی نگرانی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، Oneida Casino ذمہ دار جوئے کو فروغ دینے کے لیے وقف ہے۔ اگر کسی سرپرست کو اپنے جوئے پر قابو پانے میں دشواری ہو رہی ہے، تو کیسینو مدد کے لیے موجود ہے۔ Oneida's Casino اپنے صارفین کو گیمنگ کا ایک محفوظ اور تفریحی ماحول فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے جیسے کہ خود سے اخراج کے پروگرام اور ذمہ دار گیمنگ انفارمیشن سینٹرز کو نافذ کر کے۔ فائدے اور نقصانات پیشہ Cons کے کیسینو گیمز کا وسیع انتخاب جوئے کی لت کے لیے ممکنہ آسان مقام شور اور ہجوم کا ماحول دل لگی لائیو شوز اور ایونٹس احاطے میں سگریٹ نوشی کی اجازت ہے۔ کھانے کے مختلف اختیارات
محدود پارکنگ کی دستیابی روزگار کے مواقع مالی نقصان کا امکان وفادار صارفین کے لیے انعامات کا پروگرام محدود غیر جوئے کی سرگرمیاں پیشہ ور اور دوستانہ عملہ کم عمر افراد کے لیے داخلہ ممنوع ہے۔ نتیجہ آخر میں، Oneida Casino تجربہ کی تمام سطحوں کے جواریوں کے لیے تفریحی اور دلچسپ وقت فراہم کرنے کی اپنی صلاحیت میں بے مثال ہے۔ Oneida's Casino کھیلوں کے وسیع انتخاب، اعلیٰ معیار کے کھانے اور تفریحی اختیارات، عالیشان رہائش، فراخدلی پروموشنز، اور کھلاڑیوں کی حفاظت اور ذمہ داری پر زور دینے کی بدولت اپنے آپ کو پہلے درجے کے مقام کے طور پر ممتاز کرتا ہے۔ Oneida's Casino گیمنگ کا ایک قسم کا تجربہ پیش کرتا ہے، اس لیے ابھی آنے کا منصوبہ بنائیں۔ یہ صفحہ صرف تعلیمی اور حوالہ جاتی مقاصد کے لیے ہے۔ یہ ممکن ہے کہ دی گئی معلومات اور خدمات میں ترمیم کی جائے گی۔ Oneida Casino کی آفیشل ویب سائٹ یا کالنگ کسٹمر کیئر میں تازہ ترین تفصیلات ہوں گی۔ دیگر گیمز کے لیے، رجوع کریں۔ کیسینو پیشن گوئی سافٹ ویئر. سوالات اور جوابات (FAQs) Oneida کیسینو ہفتے کے ساتوں دن نا�� اسٹاپ کھلا رہتا ہے، تاکہ اس کے سرپرستوں کو جب چاہیں جوئے بازی کی کارروائی تک رسائی فراہم کی جا سکے۔ کسی جوئے کے اڈے میں داخل ہونے اور وہاں جوا کھیلنے کے لیے آپ کی عمر کم از کم 21 سال ہونی چاہیے۔ سرپرست کے مطالبے کے جواب میں، Oneida Casino نے کیسینو کے اندر دھوئیں سے پاک زون بنائے ہیں۔ ہاں، Oneida Casino کنونشنز، شادیوں اور پارٹیوں جیسی تقریبات کے لیے جگہیں اور کھانا فراہم کرتا ہے۔ مزید معلومات کے لیے، براہ کرم کیسینو کے ایونٹ پلاننگ کے عملے سے رابطہ کریں۔ بالکل! آپ Oneida Casino Players Club میں شامل ہو کر اور اپنے حاصل کردہ پوائنٹس کا استعمال کر کے مفت کھیل، ہوٹل میں قیام، کھانے پر رعایت اور بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ https://blog.myfinancemoney.com/oneida-casino/?rand=725 https://blog.myfinancemoney.com/oneida-casino/
0 notes
emergingpakistan · 2 years ago
Text
ان چار آن لائن دھوکوں سے ضرور بچیں
Tumblr media
صارفین کے ’ویچ؟‘ نامی گروپ کی جانب سے برطانوی شہریوں کو اس سال سب سے زیادہ قابل یقین طریقے سے دیے جانے والے دھوکوں کے بارے میں متنبہ کیا جا رہا ہے۔ اس کمپنی کا کہنا ہے کہ 2023 میں چار ایسے قابل یقین دھوکے ہیں جن پر نظر رکھنی چاہیے تاکہ آپ اپنے پیسے نہ گنوا بیٹھیں۔ کمپنی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صارفین سکیم الرٹس کے لیے سائن اپ کر کے یا ماہرین کی مشاورت لے کر خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ ویچ؟ کی ٹیک ایڈیٹر لیزا باربر کا کہنا ہے، ’چونکہ دھوکہ دہی کی ایک نئی لہر میں ہر سمت سے صارفین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، یہ افسوسناک بات ہے کہ 2023 میں دھوکہ بازوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔‘ یہ انتباہ اس وقت سامنے آیا ہے جب حکومت نے اس ماہ کے شروع میں دھوکہ دہی کی ایک نئی حکمت عملی شائع کی تھی، جس میں انشورنس یا جعلی کرپٹو کرنسی سکیموں سے متعلق تمام مالیاتی مصنوعات پر کمپنیوں کی جانب سے صارفین کو کی جانے والی کالز پر پابندی عائد کرنا شامل ہے۔ حکومت ایڈورٹائزنگ ریگولیٹر ’آف کام‘ (مواصلات کا دفتر) کے ساتھ مل کر کام کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے تاکہ ’دھوکے بازی‘ کو مزید کم کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا سکے۔ ان منصوبوں کے تحت بینک ادائیگیوں کے عمل میں مزید تاخیر کر سکیں گے تاکہ مشتبہ ٹرانزیکشنز کی تحقیقات کی جا سکیں۔ ذیل میں ان چار دھوکوں کا ذکر کیا گیا ہے جن پر نظر رکھنی چاہیے:
1۔ پگ بوچرنگ ان دھوکوں کو دھوکہ بازوں نے اپنا نام دیا ہے کیونکہ پیسے مانگنے سے قبل وہ متاثرہ شخص کے ساتھ رومانوی تعلق قائم کرتے ہیں۔ دھوکہ باز اور متاثرہ شخص عام طور پر ایک ڈیٹنگ سائٹ پر ملتے ہیں، اور متاثرہ شخص کے ساتھ کچھ وقت کے لیے کسی ایسے ��خص کی طرف سے ’انتہائی محبت‘ کا اظہار کیا جاتا ہے جو ان کی زندگی میں بہت دلچسپی لیتا ہے۔ فریب دہندہ اکثر اپنے شکار کو ڈیٹنگ پلیٹ فارم سے ہٹ کر نجی پیغام رسانی کی سروس استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے، اور انہیں ڈیٹنگ سائٹ کی جانب سے پیش کردہ کسی بھی سکیورٹی سے نکال لیتا ہے۔ جب متاثرہ شخص کو کافی حد تک ذہنی طور پر تیار کر لیا جاتا ہے، تو فریب دہندہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ سرمایہ کاری کرکے پیسے کما رہا ہے۔ عام طور پر پراپرٹی یا کرپٹو کرنسی میں- اور متاثرہ شخص کے بھی کچھ پیسے انویسٹ کرنے کی پیش کش کرتا ہے۔ اگر متاثرہ شخص رضامندی ظاہر کر دیتا ہے تو، کبھی کبھی انہیں دھوکہ بازوں کے زیر کنٹرول کرپٹو ٹریڈنگ پلیٹ فارم دکھایا جاتا ہے اور سائن اپ کرنے اور فنڈز ڈالنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ویچ؟ کا کہنا ہے کہ ایک متاثرہ کو اس طرح کے فریب میں ایک لاکھ سات ہزار پاؤنڈ کا نقصان ہوا۔ انہیں یقین تھا کہ وہ بیرون ملک ریٹائرمنٹ اپارٹمنٹس میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ ویچ؟ کا مشورہ ہے کہ کسی ایپ کو انسٹال کرتے وقت ڈویلپر کے نام پر کلک کریں اور چیک کریں کہ اس نے کون سی دوسری ایپس بنائی ہیں تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ آیا یہ قابل اعتماد لگتی ہیں (پیکسلز)
Tumblr media
2- جعلی لاپتہ افراد کی اپیلیں لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ لاپتہ افراد کے بارے میں جعلی آن لائن پوسٹس کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔ ویچ؟ کے مطابق ان کے ماہرین جانتے ہیں کہ یہ جعلی ہیں کیونکہ دنیا بھر میں کمیونٹی پیجز میں تقریبا ایک جیسی پوسٹس موجود ہیں جو مواد تو ایک ہی دکھاتی ہیں لیکن مقامات مختلف ہوتے ہیں۔ ویچ؟ نے کہا کہ پوسٹس پر تبصرے بند کر دیے جاتے ہیں تاکہ لوگ تضادات کی نشاندہی نہ کریں۔ ان میں سے جب ایک پوسٹ کو بڑی تعداد میں لائکس مل جاتے ہیں تو، اس کے مواد میں ترمیم کر کے بالکل مختلف چیز بنا دی جاتی ہے، جیسا سرمایہ کاری کا دھوکہ۔ پوسٹ پر موجود لائکس اور شیئرز کی بڑی تعداد کی وجہ سے یہ دھوکہ سچ لگتا ہے۔ ویچ؟ نے کہا کہ ’گھناؤنے‘ فریب کا انحصار ذمہ دار شہریوں کی جانب سے مدد کی نیت سے پوسٹ کو لائک اور شیئر کرنے پر ہے، جو وہ بڑی تعداد میں کرتے ہیں کچھ گمشدہ افراد کی پوسٹیں حقیقی ہیں، لیکن ویچ؟ کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی ان کے بارے میں بتانا مشکل ہوسکتا ہے۔ دھوکہ دہی کو بڑھانے یا نادانستہ طور پر تعاقب یا ہراسانی میں حصہ لینے سے بچنے کے لیے ویچ؟ کا مشورہ ہے کہ صرف پولیس یا مسنگ پیپل جیسی تنظیموں کی جانب سے پوسٹ کی جانے والی آفیشل پوسٹس کو شیئر کریں۔
3- پے پال والے دھوکے ویچ؟ کے مطابق لوگوں کو پے پال کے اصلی ای میل ایڈریس سے ’پیسوں کی درخواست‘ موصول ہو گی۔ ہو سکتا ہے یہ اصل لگے، لیکن فریب دہندہ جعلی ادائیگی کی درخواستیں بھیج سکتے ہیں، اکثر زیادہ قیمتی اشیا، یا ایچ ایم آر سی بن کر ’واجب الادا‘ ٹیکس ادائیگیوں کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ دھوکے کی کچھ اقسام میں جعلی انوائس میں کہا گیا کہ متاثرہ شخص کا پے پال اکاؤنٹ ہیک ہو گیا ہے اور انہیں جعلی فراڈ ہاٹ لائن پر کال کرنے کے لیے اکسایا گیا۔ صارفین کے اس گروپ نے کہا کہ لوگوں کو کبھی بھی پے پال کی ایسی انوائسز پر ادائیگی نہیں کرنی چاہیے جن کو وہ پہچان نہیں سکتے، یا ان انوائسز سے میں درج فون نمبروں پر کال نہیں کرنی چاہیے۔
4- جعلی ایپ الرٹ ویچ؟ نے خبردار کیا کہ کچھ ایپس فون پر میلویئر انسٹال کرسکتی ہیں، ڈیٹا چوری کر سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایپ سٹورز اس مسئلے پر کریک ڈاؤن کرنے کے لیے اقدامات کرتے ہیں، لیکن ہوسکتا ہے خطرات برقرار رہیں۔ ویچ؟ کا مشورہ ہے کہ کسی ایپ کو انسٹال کرتے وقت ڈویلپر کے نام پر کلک کریں اور چیک کریں کہ اس نے کون سی دوسری ایپس بنائی ہیں تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ آیا یہ قابل اعتماد لگتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایپ کے ریویوز جعلی ہو سکتے ہیں۔ ایپ ممکنہ طور پر صارفین سے اجازت طلب کرے گی- مثال کے طور پر کیمرا استعمال کرنے کی۔ لازمی ہے اس کا تعلق ایپ کے افعال سے ہو۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے ساتھ دھوکہ دہی ہوئی ہے انہیں فوری طور پر اپنے پیمنٹ پرووائیڈر سے رابطہ کرنا چاہیے اور ایکشن فراڈ نامی رپورٹنگ سینٹر کو واقعے کی اطلاع دینی چاہیے۔
مارتھا مک ہارڈی   بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
دبئی میں جائیدادوں کے 7 ویں بڑے خریدار پاکستانی،مالی استحکام سب سے بڑی وجہ
معروف ڈویلپر DAMAC پراپرٹیز کے ایک اہلکار نے کہا کہ دبئی کی رئیل اسٹیٹ میں پاکستانیوں کی دلچسپی نے سرمایہ کاری کے مقاصد کے لیے جائیدادیں خریدنے سے لے کر شہر میں منتقل ہونے کی طرف توجہ دی ہے، یہاں تک کہ امارات کی ریڈ ہاٹ ہاؤسنگ مارکیٹ میں ، دنیا کے سب سے “سپر اسٹیبل” شہروں میں سے ایک میں گھر حاصل کرنے کی جانب کلائنٹس کی بڑی تعداد کو راغب کیا ہے۔ دبئی فنانشل مارکیٹ میں درج DAMAC پراپرٹیز کے سیلز…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 2 months ago
Text
سینیٹ قائمی کمیٹی میں ترک شدہ پراپرٹی ایکٹ میں ترمیم کے بل پر غور
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کابینہ کےاجلاس میں ترک شدہ پراپرٹی کی فروخت سےحاصل رقم فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں جمع کرانے سےمتعلق انوشہ رحمان کا بل مؤخر کر دیا گیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کابینہ کےاجلاس میں ترک شدہ پراپرٹی ایکٹ میں ترمیم کا انوشہ رحمان کا بل زیر غور آیا۔ بل میں کہا گیا ہےکہ ترک شدہ پراپرٹی کی فروخت سےحاصل رقم فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں جمع کرائی جائے۔ انوشہ رحمان نےکہا کہ کوئی ادارہ اپنے ذاتی…
0 notes
risingpakistan · 3 months ago
Text
ٹیکس نیٹ بڑھنے میں رکاوٹ؟
Tumblr media
پاکستان اس وقت جن معاشی مسائل کا سامنا کررہا ہے اسکی بنیادی وجہ وسائل کی کمی اور اخراجات میں مسلسل اضافہ ہے۔ اسی بنیادی خرابی کے سبب ہر حکومت کو مالی خسارہ پورا کرنے کیلئے نجی بینکوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے بلند شرح سود اور سخت شرائط پر قرضے لینا پڑتے ہیں جس کا خمیازہ حتمی طور پر عام آدمی کو مہنگائی اور معاشی بدحالی کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں عام آدمی تو ماچس کی ڈبیا خریدنے پر بھی ٹیکس دینے پر مجبور ہے جبکہ بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں ٹیکس دینے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وہ طبقہ جس پر ٹیکس قوانین لازمی طور پر لاگو ہونے چاہئیں انہیں بھی نان فائلر کے نام پر ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کی سہولت دستیاب ہے۔ اس وقت پاکستان کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کے حوالے سے جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں غیر دستاویزی معیشت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سے ایک طرف حکومت کی ٹیکس مشینری کی بدانتظامی ظاہر ہوتی ہے جس کی وجہ سے بہت سے کاروباری افراد غیر رسمی معیشت کا حصہ رہتے ہوئے ٹیکس کی ادائیگی سے بچ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے لوگوں میں حکومت کی ٹیکس مشینری پر عدم اعتماد بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس نیٹ کا حصہ بنیں گے تو انہیں ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کے عملے کی طرف سے بلا جواز تنگ کرنے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔ 
ٹیکس پالیسیوں میں متواتر تبدیلیاں اور ٹیکس قوانین میں وضاحت کی کمی بھی ٹیکس دہندگان کے لیے سمجھ بوجھ اور تعمیل کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام بنیادی طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے تحت کام کرتا ہے۔ تاہم اس محکمے کو بھی عملے کی مبینہ نااہلیوں، بدعنوانیوں اور ناکافی وسائل کے باعث مسائل کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے حال ��ی میں ایف بی آر اور کسٹم کے بعض افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی کی ہے۔ تاہم ٹیکس وصولیوں میں اضافے اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کے حوالے سے ایک اور اہم فیکٹر سیاسی قیادت یا حکومت کا عزم ہے کیونکہ زراعت، پراپرٹی اور ریٹیل سیکٹر اپنے سیاسی اثرورسوخ کے باعث ہی طویل عرصے سے عملی طور پر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ ان طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے جب بھی حکومت کی طرف سے کوئی پالیسی بنائی جاتی ہے تو اسے اندر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخر میں یہ کوشش سیاسی سمجھوتوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ حال ہی میں حکومت کی طرف سے متعارف کروائی گئی ’’تاجر دوست اسکیم‘‘ کی ناکامی اس کی ایک مثال ہے۔
Tumblr media
تاجر طبقے سے متعلق حکومت کے اپنے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق ملک بھر میں کاروبار کرنے والے 35 لاکھ تاجروں میں سے صرف تین لاکھ باقاعدگی سے ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے یکم اپریل کو شروع کی گئی ’’تاجر دوست اسکیم‘‘ کے تحت 32 لاکھ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن ایک ماہ میں اس اسکیم کے تحت سو سے بھی کم تاجروں نے رضاکارانہ رجسٹریشن کروائی ہے۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے افسوسناک ہے کہ جی ڈی پی میں ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر کا حصہ 18 فیصد ہونے کے باوجود اس شعبے کا محصولات میں حصہ چار فیصد سے بھی کم ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق تاجر دوست اسکیم ناکام ہونے کے بعد ایف بی آر نے نان فائلر تھوک اور خوردہ فروشوں کی سپلائز پر ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ نئے ٹیکس ریٹس کا اعلان بجٹ 25-2024ء میں کیا جائے گا اور اس کا اطلاق یکم جولائی سے ہو گا۔ ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کے مجوزہ منصوبے کے مطابق تاجر دوست اسکیم کے تحت رجسٹرڈ نہ ہونے والے ڈسٹری بیوٹرز کی مینوفیکچرر زکو سپلائز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح بڑھا کر 10 فیصد کر دی جائے گی جو اس وقت 0.2 فیصد ہے، جس کا اثر ریٹیلرز کو منتقل کیا جائے گا۔ 
مینوفیکچرر سپلائی کرنے والوں سے ڈسٹری بیوٹرز کے 10 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس منہا کریں گے جسے نیچے سپلائی چین میں منتقل کیا جائے گا اسی طرح درآمد کنندگان بھی سپلائرز پر 10 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کاٹیں گے۔ اس وقت فائلر تاجروں پر 0.1 فیصد اور نان فائلرز پر 0.2 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس عائد ہے۔ ایف بی آر کے تخمینے کے مطابق اس اقدام سے تقریباً 400 سے 500 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہو گا۔ اگرچہ اس اقدام سے حکومت کے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہو جائے گا لیکن طویل المدت بنیادوں پر دیکھا جائے تو یہ کہنا بیجا نہیں ہو گا کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کی حکومتی کوششوں کو ایک مرتبہ پھر دھچکا لگا ہے۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے یہ بھی امکان ہے کہ تاجروں کے متوقع احتجاج کے بعد ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کا فیصلہ واپس لے لیا جائے یا اس کی شرح میں اتنی کمی کر دی جائے کہ تاجروں کو اس پر اعتراض نہ رہے۔ اس طرح لامحالہ ٹیکس وصولیاں بڑھانے کے لئے تمام تر بوجھ یا تو عام عوام پر ڈالا جائے گا یا پھر ان سیکٹرز پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی جائے گی جو پہلے سے ٹیکس نیٹ کا حصہ ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس فرسودہ سوچ کو تبدیل کر کے ٹیکس نیٹ میں توسیع کو ٹیکس اصلاحات کا بنیادی ��کتہ بنائے اس سے ٹیکس ریونیو میں خودبخود اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے لئے فوری طور پر ہر شہری کے شناختی کارڈ نمبر کو ٹیکس نمبر قرار دیا جائے اور ایسے نان فائلرز کے خلاف فوری کریک ڈائون کیا جائے جو ماہانہ لاکھوں روپے کے اخراجات کرنے کے باوجود ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔
چوہدری سلامت علی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
apnabannu · 2 years ago
Text
دبئی میں پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافے کا روسی شہریوں سے کیا تعلق ہے؟
http://dlvr.it/Sls3MY
0 notes
pakistantime · 2 years ago
Text
ن لیگ کی مقبولیت ؟
Tumblr media
عمران خان عوام میں جتنے مقبول ہو چکے ہیں وہ اس سے زیادہ مقبول نہیں ہو سکتے بلکہ اب وہ غیر مقبول ہی ہوں گے اور (ن) لیگ عوام میں جتنی غیر مقبول ہو چکی ہے وہ اس سے زیادہ غیر مقبول نہیں ہو گی بلکہ یہاں سے وہ اپنا مقبولیت کا سفر ہی طے کرے گی‘‘۔ یہ منطق (ن) لیگ کے ایک سینئر رہنما اور میرے دوست مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے ریاست کو بچانے کیلئے مشکل فیصلے کئے اور ہمیں مزید وقت درکار ہے، مگر اگ��ے انتخابات کا بروقت انعقاد بھی بہت ضروری ہے لیکن اُس سے پہلے ملکی حالات مدنظر رکھنا بھی ازحد ضروری ہے۔ پھر عمران خان کا احتساب بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ (ن) لیگ کی طرف سے آج کل اسی قسم کا بیانیہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کسی بھی بیانیے کے مقبول ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی قسم کے کنفیوژن کا شکار نہ ہو، اُسے پوری پارٹی تسلیم کرے اور اُس پر من و عن یقین رکھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زمینی حقائق بھی ایسے ہونا ضروری ہیں جو آپ کے بیانیے کو فروغ دے سکیں۔ پھر اس طرح کی سوچ کا یہ بھی مسئلہ ہے کہ آپ بھول جاتے ہیں کہ اگر اسٹیٹس کو برقرار رہا اور عمران خان کی مقبولیت اور آپ کی غیر مقبولیت میں کوئی فرق نہ آیا تو پھر آپ کیا کریں گے؟ 
کیونکہ آپ بے شک اب یا سال بعد بھی جو کچھ مرضی کر لیں، اس اسٹیٹس کو کو تبدیل کرنا بڑا مشکل امر ہے۔ ویسے تو سیاست میں حالات بدلتے دیر نہیں لگتی لیکن اس تبدیلی کیلئے کسی ٹھوس وجہ یا منطق کا ہونا از حد ضروری ہے مگر (ن) لیگ کے اس بیانیے میں ایسی کوئی ٹھوس وجہ یا منطق نظر نہیں آ رہی۔ ابھی تک آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہیں ہو سکا اور اسکی شرائط روز بروز مزید سخت ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ بھی واضح نظر آ رہا ہے کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو جون میں پاکستان کو ایک اور آئی ایم ایف پروگرام لینا پڑے گا جس کی شرائط مزید سخت ہو سکتی ہیں۔ اس ضمن میں زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے طے پانے والی شرائط کے نتیجے میں جو مشکل فیصلے کئے جاتے ہیں اُن سے براہِ راست ملک کا غریب طبقہ متاثر ہوتا ہے جبکہ ملک کی اشرافیہ، جس کی ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے بنائی گئی پالیسیوں کی وجہ سے ہم اس نہج تک پہنچے ہیں، پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ حکومتی پالیسیوں کے ردِ عمل میں بھی غریب طبقہ ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ 
Tumblr media
اس ساری رسہ کشی میں حکومت ایسے موقع کی تلاش میں ہے جس سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی مقبولیت میں اضافہ کر سکے لیکن بدقسمتی سے الیکشن اگر اپنے وقت پر ہوں یا سال بعد بھی، حکومت کی مقبولیت میں کوئی اضافہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ کیونکہ اگر حکومت نے یہ مشکل فیصلے نہ کئے تو پاکستان ڈیفالٹ کر سکتا ہے  پھر مقبول اور غیر مقبول کا کھیل تو رہا ایک طرف، سرے سے ان کی سیاست کا نام و نشان ہی مٹ جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف اور (ن) لیگ کے حامیوں میں ایک بنیادی فرق بھی ہے کہ تحریک انصاف کے حامی عمران خان کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں۔ عمران خان جتنے مرضی ��وٹرن لے لیں، جتنے مرضی بیانیے بدل لیں، جس طرح مرضی اپنی کابینہ سے ایک پراپرٹی ٹائیکون کے برطانیہ میں ضبط شدہ اثاثے واپس دلوا دیں، جتنی مرضی گھڑیاں بیچ لیں، اُن کے حامیوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ جبکہ (ن) لیگ کے لوگ اس لئے حامی تھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ (ن) لیگ معیشت کو سنبھال لے گی، کچھ ڈلیور کرے گی، یا عمران خان کے غیر جمہوری اعمال اور آزادی اظہار پر حملوں کی وجہ سے (ن) لیگ کے حمایت میں کھڑے تھے۔ 
اب اگر (ن) لیگ ڈلیور نہیں کر پا رہی، جس میں (ن) لیگ والوں کی اپنی غلطی ہے کہ انہوں نے مفتاح اسماعیل کو ہٹا کر پھر سے اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ لگا دیا جن کی معیشت کو مصنوعی سنبھالا دینے کی حکمت عملی نے عوام کی اُس تکلیف کو، جو محض چند مہینوں میں کم ہو جانی تھی، کئی سال طویل کر دیا ہے۔ دیگر شعبے بھی سست روی کا شکار یا کنفیوژڈ نظر آتے ہیں۔ حکومت کی زیادہ تک پریس کانفرنسز اپنی کارکردگی کا جائزہ پیش کرنے کے بجائے عمران خان پر تنقید پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے حامیوں کا جوش و جذبہ بھی دیگر سیاسی جماعتوں سے کافی زیادہ ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ تحریک انصاف اپنے دورِ اقتدار میں صرف اس لئے غیر مقبول ہوئی تھی کیونکہ وہ عوام کو ریلیف فراہم نہیں کر سکی تھی۔ اس دوران عوام کو شدید مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا۔ عوام کی اس معاشی بدحالی کے تناظر میں اگر تحریک عدم اعتماد کے فوراً بعد انتخابات ہو جاتے تو کوئی شک نہیں کہ پی ڈی ایم کلین سویپ کر جاتی۔ اب مگر لگتا ہے کہ حکومت یا پی ڈی ایم عوام کی معاشی بدحالی کو پس پشت ڈال چکی ہیں۔
عمران خان سیاسی حریفوں کو جیل میں ڈال کر اور آزادی اظہار اور صحافیوں پر پابندیاں لگا کر اپنی مقبولیت برقرار نہیں رکھ سکے تھے، اور اب پی ڈی ایم بھی جو اسی پالیسی پر گامزن نظر آرہی ہے، اس کا انجام بھی تحریک انصاف سے مختلف نہیں ہو گا۔ زیادہ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ خان صاحب اگر پھر سے حکومت میں آتے ہیں تو وہ پھر سے اُسی انتقامی سیاست کی پالیسی پر رہیں گے اور ملک کے بنیادی مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ پھر (ن) لیگ کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ایسی حکومت کا کیا فائدہ جس میں نہ نوازشریف پاکستان واپس آ پا رہے ہوں اور نہ ہی حکومت عمران خان کو گرفتار کر پا رہی ہو۔ نہ ہی اُنہیں اداروں کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے اور نہ وہ ملکی مسائل حل کر پا رہے ہیں۔ بلکہ جو لوگ جمہوریت کی بقا کی خاطر اس وقت حکومت کے حامی ہیں وہ بھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ کیا عمران خان واقعی جمہوریت کیلئے اتنا بڑا خطرہ ہے کہ جمہوریت بچانے کیلئے حکومت جمہوریت ہی کو ڈی ریل کرنے پر تیار ہے۔ ایسا بیانیہ نہ بن سکتا ہے اور نہ ہی بک سکتا ہے۔ حکومت کیلئے اپنی غلطیوں کی تلافی کرنا اس وقت بہت مشکل ہو چکا ہے۔
علی معین نوازش 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes