#کمیشن
Explore tagged Tumblr posts
Text
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن دنیا میں کلین انرجی کیلئے تحقیقاتی معاونت فراہم کریگا
(اویس کیانی)دنیا میں کلین انرجی کیلئے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی مشترکہ کوششیں،پاکستان اٹامک انرجی کمیشن بھی کلین انرجی میں تحقیقاتی معاونت فراہم کرے گا۔ اعلامیہ کے مطابق چیئرمین پی اے ای سی ڈاکٹر راجا علی رضا انور نے فیوژن انرجی گروپ اجلاس میں شرکت کی،اجلاس میں پاکستان کا کلین انرجی سے متعلق بیان پیش کیا گیا،راجا علی رضا انور نے کہاکہ پاکستان انسانیت کو کاربن سے پاک توانائی کے ذرائع کی…
0 notes
Text
الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے کا پابند ہے، سپریم کورٹ کی مخصوص نشستوں کے کیس میں دوسری وضاحت
(24نیوز)مخصوص نشستوں کے کیس پر سپریم کورٹ کے اکثریتی 8 ج��ز نے دوسری مرتبہ وضاحت جاری کر دی ہے۔ الیکشن کمیشن کی درخواست پر سپریم کورٹ سے دوسری وضاحت دی گئی ہے،اکثریتی ججز کے مطابق الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے 12 جولائی کا فیصلہ غیر مؤثر نہیں ہو سکتا، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ماضی سے اطلاق کو وجہ بنا کر فیصلہ غیر مؤثر نہیں ہوسکتا، لہٰذا، مختصر حکمنامے کے بعد الیکشن ایکٹ میں کی جانے والی ترامیم کا…
0 notes
Text
جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیاگیا
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کےآج ہونےوالےاجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا۔ جوڈیشل کمیشن اجلاس کا اعلامیہ سیکرٹری جوڈیشل کمیشن جزیلہ اسلم نے جاری کیا۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد نوتشکیل شدہ جوڈیشل کمیشن کا پہلااجلاس ہوا جس کی صدارت چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نےکی۔اعلامیےمیں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین، وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان،…
0 notes
Text
الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے 15 اور صوبائی اسمبلیوں کے 22 حلقوں کے نتائج روک لیے
الیکشن کمیشن نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 37 حلقوں کے حتمی نتائج روک دیے۔ قومی اسمبلی کے 15 اورصوبائی اسمبلیوں کے 22 حلقوں کے نتائج جاری نہیں ہوں گے۔ این اے52 ،53 56 اور57راولپنڈی، این اے 60 جہلم، این اے 69 منڈی بہاوالدین کے حتمی نتائج جاری کرنے سے روک دیاگیا۔ الیکشن کمیشن نے پی پی 22 چکوال، پی پی 49 سیالکوٹ اور پی پی 14 راولپنڈی کے حتمی نتائج روک دیے۔ الیکشن کمیشن نے پی پی 283 لیہ، پی پی 164 …
View On WordPress
0 notes
Text
ہائر ایجوکیشن کمیشن HEC نوکریاں 2023 آن لائن اپلائی کریں۔
Higher Education Commission HEC Jobs 2023 Online Apply: There has been an advertisement for the latest job in the Higher Education Commission HEC Jobs 2023 Online Apply. You can find the advertisement below. The coming jobs are AC Supervisor, Attendant, Carpenter, Cheque Writer, Program Specialist, Project Manager, Receptionist, Sanitary Worker, Senior Cashier, Telephone Operator, Cook, Dish…
View On WordPress
#findpakjobz#Higher Education Commission HEC Jobs 2023 Online Apply#ہائر ایجوکیشن کمیشن HEC نوکریاں 2023 آن لائن اپلائی کریں۔
0 notes
Text
عام انتخابات اور عوامی لاتعلقی
عام انتخابات کے انعقاد میں گنتی کے دن باقی ہیں لیکن سوشل میڈیا کے علاوہ گراؤنڈ پر عام انتخابات کا ماحول بنتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ کسی بڑی سیاسی جماعت کو جلسے کرنے کی جرات نہیں ہو رہی اور اگر کوئی بڑا سیاسی لیڈر جلسہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے عوامی سرد مہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میاں نواز شریف جیسا سینئر سیاستدان اپنی تقریر 20 منٹ میں سمیٹتے ہوئے وہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر بلاول بھٹو اور مریم نواز جلسے منعقد کر رہے ہیں لیکن وہاں کی رونق ماضی کے انتخابی جلسوں سے یکسر مختلف ہے۔ پاکستان کا مقبول ترین سیاسی لیڈر اس وقت پابند سلاسل ہے اور اس کی جماعت کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں جبکہ عوام اسی کی بات سننا چاہتے ہیں۔ جبکہ جنہیں 'آزاد چھوڑ دیا گیا ہے انہیں جلسے کرنے کی آزادی تو ہے لیکن عوام ان کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک سنسان انتخابی ماحول ہے تقریریں ہیں کہ بے روح اور عوام ہیں کہ لا تعلق۔
اس لاتعلقی کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاؤن ہے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور ان کے نامزد امیدواروں کو بغیر نشان کے انتخابات لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر وہی عمل دہرایا گیا جو 2017 میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا۔عمران خان اور ان کے اہم ساتھی مقدمات کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور وہ 9 مئی سمیت متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان اقدامات نے نہ صرف انتخابات کو متنازع بنا دیا ہے بلکہ انہیں عوام سے بھی دور کر دیا ہے۔ دوسری بڑی وجہ گزشتہ دو سال سے جاری شدید معاشی بحران ہے۔ شہباز حکومت نے عوام کی بنیادی استعمال کی چیزوں اور اشیاء خورد و نوش عوام کی پہنچ سے دور کر دیے تھے اور ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی بجلی کا بل بھی ادا کرنے سے قاصر ہے۔ بیشتر عوام اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں اگلی حکومت کون بناتا ہے، حکومت کا اتحادی کون کون ہو گا اور اپوزیشن کس کا مقدر ٹھہرے گی۔
انہیں تو اس بات سے غرض ہے کہ ان کے بچے کھانا کھا سکیں گے یا نہیں، وہ اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر سکیں گے یا نہیں۔ شہباز حکومت کے اقدامات کے باعث آج معیشت اوندھے منہ پڑی ہے۔ ملازم پیشہ افراد اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے ایک سے زائد جگہوں پر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ کاروباری طبقہ جو پہلے ہی بے ہنگم ٹیکسوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھا عوام کی کمزور ہوتی معاشی حالت نے اس کی کمر بھی توڑ کے رکھ دی ہے۔ مالی بد انتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے معیشت کی ڈوبتی کشتی پر بوجھ میں اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے جس کے براہ راست اثرات عوام پر منتقل ہو رہے ہیں۔ نگراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی ہے لیکن بدانتظامی کے باعث اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے۔ ذرائع نقل و حمل کے کرایوں میں کمی نہیں آئی نہ ہی بازار میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ جس کے باعث عوامی بیزاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو انہیں انتخابات اور انتخابی عمل سے دور کر رہا ہے۔
میری دانست میں اس کی تیسری بڑی وجہ ریاستی اداروں اور عام آدمی کے مابین اعتماد کا فقدان ہے عوام اس بات پر توجہ ہی نہیں دے رہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں کون سی جماعت زیادہ نشستیں حاصل کرے گی کیونکہ ایک تاثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آپ جس کو چاہیں ووٹ دیں ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ہی اقتدار کے منصب پر فائز کیا جائے گا۔ اس عدم اعتماد کے باعث بھی عوام اس انتخابی مشق سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ووٹر لسٹوں نے پوری کر دی ہے۔ ان ووٹر لسٹوں میں بد انتظامی اور نالائقیوں کے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے ووٹ ماضی میں قائم کردہ پولنگ اسٹیشن پر موجود ہیں۔ ووٹر لسٹوں میں غلطیوں کی بھرمار ہے، ایک وارڈ کے ووٹ دوسرے وارڈ کے پولنگ اسٹیشن پر شفٹ کر دیے گئ�� ہیں۔ الیکشن کمیشن کا سسٹم ابھی سے بیٹھ گیا ہے اور مخصوص نمبر پر کیے گئے میسج کا جواب ہی موصول نہیں ہوتا۔
ووٹر لسٹیں جاری ہونے کے بعد امیدواروں اور ان کے انتخابی ایجنٹوں میں عجیب بے چینی اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ شہروں میں ووٹر لسٹوں کی یہ کیفیت ہے تو دیہات میں کیا حال ہو گا۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ روزانہ انتخابات کے حوالے سے نت نئی افواہوں کا طوفان آ جاتا ہے جو امیدواروں کو بددل کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں غیر یقینی کی کیفیت پختہ کر دیتا ہے۔ اور پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایک مخصوص گروہ کو انجینئرنگ کے ذریعے اقتدار پر مسلط کر بھی دیا گیا تو کیا وہ عوام کے دکھوں کا مداوا کر بھی سکے گا؟ عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی اشد ضرورت ہے جس میں تمام جماعتوں کو انتخاب میں حصہ لینے کے مساوی مواقع میسر ہوں اور ساتھ ساتھ ووٹر لسٹوں میں پائی جانے والی غلطیوں بے ضابطگیوں اور نالائقیوں کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔عوام کو ان کے جمہوری حق کے استعمال سے محروم کرنے کی سازش اگر کامیاب ہو گئی تو یہ ملک کے جمہوری نظام کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Imran Khan#Pakistan#Pakistan Election 2024#Pakistan Politics#Pakistan Tehreek-e-Insaf#Politics#PTI#World
4 notes
·
View notes
Text
عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا جس سے ان کے سیاسی کیریئر کو ایک نیا دھچکا لگا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان میں حزب اختلاف کے اہم رہنما عمران خان کو اس سال کے آخر میں متوقع قومی انتخابات سے قبل اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے لیے ایک طویل قانونی جنگ کا سامنا ہے۔ اس قانونی جنگ کے بارے میں کئی اہم سوالات ہیں جن کا جواب عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
کیا عمران خان کا سیاسی کیریئر ختم ہو چکا؟ قانون کے مطابق اس طرح کی سزا کے بعد کوئی شخص کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔ نااہلی کی مدت کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ قانونی طور پر اس نااہلی کی مدت سزا کی تاریخ سے شروع ہونے والے زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہو سکتے ہیں لیکن سپریم کورٹ اس صورت میں تاحیات پابندی عائد کر سکتی ہے اگر وہ یہ فیصلہ دے کہ وہ بے ایمانی کے مرتکب ہوئے اور اس لیے وہ سرکاری عہدے کے لیے ’صادق ‘ اور ’امین‘ کی آئینی شرط پورا نہیں کرتے۔ اس طرح کا فیصلہ 2018 میں تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خلاف دیا گیا تھا۔ دونوں صورتوں میں عمران خان کو نومبر میں ہونے والے اگلے عام انتخابات سے باہر ہونے کا سامنا ہے۔ عمران خان کا الزام ہے کہ ان کی برطرفی اور ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن میں عسکری عہدیداروں کا ہاتھ ہے۔ تاہم پاکستان کی فوج اس سے انکار کرتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے رہنماؤں کی مثالیں موجود ہیں جو جیل گئے اور رہائی کے بعد زیادہ ��قبول ہوئے۔ نواز شریف اور ان کے بھائی موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف دونوں نے اقتدار میں واپس آنے سے پہلے بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں وقت گزارا۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی جیل جا چکے ہیں۔
عمران خان کے لیے قانونی راستے کیا ہیں؟ عمران خان کے وکیل ان کی سزا کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گے اور سپریم کورٹ تک ان کے لیے اپیل کے دو مراحل باقی ہیں۔ سزا معطل ہونے کی صورت میں انہیں کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ اگر ان سزا معطل کر دی جاتی ہے تو عمران خان اب بھی اگلے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کو مجرم ٹھہرانے کے فیصلے کو بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں دیا گیا اور انہیں اپنے گواہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن سزا سنانے والی عدالت نے کہا ہے کہ عمران خان کی قانونی ٹیم نے جو گواہ پیش کیے ان کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔ بار بار طلب کیے جانے کے باوجود کئی ماہ تک عدالت میں پیش ہونے سے عمران خان کے انکار کے بعد عدالت نے مقدمے کی سماعت تیز کر دی تھی۔ تاہم توشہ خانہ کیس ان پر بنائے گئے 150 سے زیادہ مقدمات میں سے صرف ایک ہے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ مقدمات میں دو بڑے مقدمات شامل ہیں جن میں اچھی خاصی پیش رفت ہو چکی ہے انہیں زمین کے معاملے میں دھوکہ دہی اور مئی میں ان کی گرفتاری کے بعد فوجی تنصیبات پر حملوں کے لیے اکسانے کے الزامات کا سامنا ہے۔ امکان یہی ہے کہ انہیں ایک عدالت سے دوسری عدالت میں لے جایا جائے گا کیوں کہ وہ تین سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
عمران خان کی پارٹی کا کیا ہو گا؟ عمران خان کے جیل جانے کے بعد ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت اب سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں۔ نو مئی کے تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد کئی اہم رہنماؤں کے جانے سے پارٹی پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہے اور بعض رہنما اور سینکڑوں کارکن تاحال گرفتار ہیں۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف مقبول ہے لیکن سروے کے مطابق یہ زیادہ تر عمران خان کی ذات کے بدولت ہے۔ شاہ محمود قریشی کے پاس اس طرح کے ذاتی فالوورز نہیں ہیں اور تجزیہ کاروں کے مطابق وہ کرکٹ کے ہیرو کی طرح تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہوں گے۔ ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے پر پابندی کے بعد بھی عمران خان نے اپنے حامیوں کے ساتھ مختلف سوشل میڈیا فورمز جیسے ٹک ٹاک ، انسٹاگرام، ایکس اور خاص طور پر یوٹیوب تقریبا روزانہ یوٹیوب تقاریر کے ذریعے رابطہ رکھا تھا لیکن اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات میں ان کی پارٹی کو کامیابی ملی تو وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں۔
روئٹرز
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes
·
View notes
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 07 November-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ: ۷/ نومبر ۴۲۰۲ء
وقت: ۰۱:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ ریاستی اسمبلی انتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں کی تشہیری مہم تیز۔
٭ مہاوِکاس آگھاڑی کے مشترکہ تشہیری جلسے میں کانگریس کے پانچ نکاتی منشور کا اجراء۔
٭ باصلاحیت طلباء کی مالی اعانت کیلئے پی ایم - وِدّیا لکشمی اسکیم کو منظوری۔
٭ انتخابی نشان گھڑی عدالت میں زیرِ سماعت ہونے کا اعلان تمام اخبارات میں کرنے کا راشٹروادی کانگریس کو عدالت ِ عظمیٰ کا حکم۔
اور۔۔۔٭ رائے دہندگان میں بیداری پیدا کرنے کیلئے مختلف اقدامات کا سلسلہ جاری۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
ریاستی اسمبلی انتخابات کیلئے تشہیری مہم میں اب تیزی آگئی ہے اور مختلف جماعتوں کے اہم رہنماؤں کے عام جلسوں کا انعقاد عمل میں آرہا ہے۔ مہاوِکاس آگھاڑی کا مشترکہ اجتماع کل باندرہ- کُرلا کمپلیکس میں منعقد ہوا۔ کانگریس صدر ملک ارجن کھرگے، لوک سبھا میں قائد ِ حزبِ اختلاف راہل گاندھی‘ راشٹروادی شرد چندر پوار پارٹی کے سربراہ شرد پوار‘ شیوسینا اُدّھو باڑا صاحب ٹھاکرے پارٹی کے صدر اُدّھو ٹھاکرے اور مہاوِکاس آگھاڑی کی رُکن جماعتوں کے دیگر قائدین بھی اس جلسے میں شریک ہوئے۔ اسمبلی انتخابات کیلئے کانگریس کا پانچ نکاتی منشور بھی اس موقع پر جاری کیا گیا۔ خواتین کو ماہانہ تین ہزارر روپئے مالی امداد دینے سے متعلق مہالکشمی یوجنا اور بے روزگاروں کو چار ہزار روپئے امداد دینے کے وعدے بھی اس میں شامل ہیں۔ اس اجتماع میں مہاوِکاس آگھاڑی کے رہنماؤں نے بی جے پی کی زیرِ قیادت قومی جمہوری اتحاد حکومت کی پالیسیوں اور پروگراموں پر سخت تنقید کی۔
***** ***** *****
اسی دوران کانگریس کے رہنماء‘ راہل گاندھی نے کل صبح ناگپور میں ”سنویدھان سمّیلن“ میں بھی شرکت کی۔ اس پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دستورِ ہند محض ایک کتاب نہیں بلکہ زندگی گذارنے کا ایک طریقہ اور ایک فلسفہ ہے۔ اس سے قبل انھوں نے ناگپور کی دِکشا بھومی ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی یادگار کا دورہ کرکے معمارِ آئین کو خراجِ عقیدت بھی پیش کیا۔
***** ***** *****
مہاراشٹر نونرمان سیناکے سربراہ راج ٹھاکرے نے کل لاتور ضلع کے ریناپور میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔ لاتور دیہی حلقہئ انتخاب سے مہاراشٹر نونرمان سیناکے امیدوار سنتوش ناگرگوجے کی تشہیر کیلئے یہ جلسہ منعقد کیا گیا تھا۔ اپنے خطاب میں راج ٹھاکرے نے کہا کہ ریاست کے مسائل کے حل کیلئے ایک بار اقتدار مہاراشٹر نونرمان سینا کے ہاتھ میں دیا جائے۔ مراٹھواڑہ میں ایم این ایس کے تشہیری اجتماع سے راج ٹھاکرے کا یہ پہلا خطاب تھا۔ اورنگ آباد مشرق حلقے سے مہایوتی کے امیدوار اتل ساوے نے کل بھارت نگر میں پدیاترا کرکے رائے دہندگان سے بات چیت کی۔
***** ***** *****
ممبئی کے ماہم اسمبلی حلقے میں مہایوتی کے امیدوار سداسروَنکر اور مانخورد- شیواجی نگر حلقے کے امیدوار سریش پاٹل کی ریپبلکن پارٹی نے باضابطہ حمایت کا اعلان کیا ہے۔ پارٹی صدر اور مرکزی وزیرِ مملکت برائے سماجی انصاف رام داس آٹھولے نے کل یہ اطلاع دی۔ انھوں نے کہا کہ ریپبلکن کارکنوں کو ریاست میں اقتدار میں حصہ دلوانے کیلئے ریپبلکن پارٹی مہایوتی کی حمایت کررہی ہے۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات کے سلسلے میں رائے دہندگان میں بیداری پیدا کرنے کیلئے انتخابی کمیشن کی جانب سے آئندہ 8 نومبر سے موبائل وینس چلائی جائیں گی۔ ان وینس کے ذریعے رائے دہندگان میں بیداری پیدا کرنے سے متعلق معلومات دی جائیں گی۔ یہ گاڑیاں ریاست کے 15 اضلاع میں رائے دہی سے متعلق بیداری پیدا کرنے کیلئے کام کریں گی۔
***** ***** *****
ضابطہئ اخلاق کے نفاذ کے دوران ریاست بھر سے C-Vigil اَیپ پر کُل دو ہزار 833 شکایات موصول ہوئی ہیں۔ جن میں سے 819 شکایات انتخابی کمیشن کے ذریعے نمٹائی جاچکی ہیں۔ چیف انتخابی افسر کے دفتر سے یہ اطلاع دی گئی۔ ریاست اور مرکزی حکومت کی ضابطے کے نفاذ کی ذمہ دار مشنریوں کی جانب سے کی گئی کارروائیوں میں بے قاعدہ پیسہ، شراب، منشیات اور قیمتی دھاتوں کی شکل میں مجموعی طور پر 218 کروڑ 78 لاکھ روپئے کی اشیاء ضبط کیے جانے کی اطلاع ذرائع نے دی ہے۔
***** ***** *****
سامعین! اسمبلی انتخابات کے سلسلے میں ”آڑھاوا وِدھان سبھا متدار سنگھاچا“ کے عنوان سے ایک پروگرام روزانہ شام سات بجکر 10منٹ پر آکاشوانی سے نشر کیا جارہا ہے۔ اس پروگرام میں آج آکولہ اور واشم ضلع کے حلقہئ انتخاب کا جائزہ آپ سماعت کرسکتے ہیں۔
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر سے نشر کی جارہی ہیں۔
***** ***** *****
باصلاحیت طلبہ کو مالی امداد دینے کیلئے مرکزی حکومت نے پی ایم- وِدّیا لکشمی اسکیم کو منظوری دی ہے۔ مرکزی وزیر برائے اطلاعات و نشریات اشونی ویشنو نے کل ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ کل مرکزی کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ معاشی کمزوری کے باعث ذہین طلبہ اعلیٰ تعلیم کے حصول سے محروم نہ رہیں‘ اس مقصد سے اہل طلبہ، بلاضمانت یہ قرض حاصل کرسکتے ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کیلئے سال 2024-25 میں 10 ہزار سات سو کروڑ روپئے کے شیئر کیپٹل کو بھی کابینہ نے منظوری دی۔ جس سے کارپوریشن کی کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔
***** ***** *****
عدالت ِ عظمیٰ نے راشٹروادی کانگریس اجیت پوار گروپ کو حکم دیا ہے کہ انتخابی نشان گھڑی کا معاملہ سرِدست عدالت میں زیرِ سماعت ہونے سے متعلق آئندہ 36 گھنٹوں میں تمام اخبارات میں اعلان جاری کیا جائے۔ راشٹروادی کانگریس پارٹی کے دونوں گروپوں میں انتخابی نشان کے تنازعے پر کل عدالت میں سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران عدالت نے دونوں گروپوں کو مشورہ دیا کہ عین انتخابات کے وقت اپنی توانائی عدالتی تنازعات میں صرف کرنے کی بجائے تشہیری مہم چلانے پر لگائیں۔
***** ***** *****
قومی انتخابی کمیشن کے ڈپٹی کمشنر ہردیش کمار نے انتخابی مشنریوں کو ہدایت کی ہے کہ انتخابی عمل کے دوران کوئی ابہام نہ رہے، اس بات کو انتخابی افسران یقینی بنائیں‘ نیز انتخابی عمل کی شفافیت کو سب سے زیادہ ترجیح دی جائے۔ چھترپتی سمبھاجی نگر‘ ناگپوراور امراوتی ڈویژن کے تمام حلقوں میں انتخابات کی تیاریوں کے جائزے کیلئے کل چھترپتی سمبھاجی نگر میں منعقدہ ایک اجلاس سے وہ خطاب کررہے تھے۔ اجلاس میں ریاست کے چیف انتخابی افسر ایس چوکّ لنگم اور ضلع کلکٹر دلیپ سوامی نے بھی شرکت کی۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات میں EVM ہیک کرکے فتح دلانے کا دعویٰ کرتے ہوئے ناسک کے شیوسینا اُدّھو باڑا صاحب ٹھاکرے پارٹی کے امیدوار سے 42 لاکھ روپئے کا مطالبہ کرنے والے ایک شخص کو ناسک پولس نے گرفتار کرلیا ہے۔ اس شخص کا نام بھگوان سنگھ چوہان بتایا گیا ہے۔ ناسک وسطی اسمبلی حلقے کے امیدوار وسنت گیتے کے ممبئی ناکہ دفتر پر جاکر اس ملزم نے یہ مطالبہ کیا تھا۔
***** ***** *****
ناندیڑ ضلع لائبریری آفیسر دفتر اور رُگن سیوا منڈل عام لائبریری کے مشترکہ تعاون سے رائے دہندگان میں بیداری پیدا کرنے کیلئے سیلفی پوائنٹ کا افتتاح کل میونسپل کمشنر ڈاکٹر مہیش کمار ڈوئی پھوڑے کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ رائے دہندگان کو ترغیب دینے کیلئے ”رائے دہی کی روشنائی لگی اُنگلی دکھائیں اور آنکھوں کی مفت جانچ کرائیں“ یہ پروگرام چلایا جارہا ہے۔ اس موقع پر بڑے پیمانے پر عوام کو رائے دہی سے متعلق معلومات دی گئی۔
***** ***** *****
چھترپتی سمبھاجی نگر ضلع میں معذور اور 85 برس سے زائد عمر کے شہریوں کیلئے آئندہ 13 نومبر سے گھر سے ووٹنگ کا عمل شروع ہورہا ہے۔ ضلع میں چار ہزار 424 ایسے رائے دہندگان ہیں۔ سلوڑ حلقے میں 13 تا 16 نومبر‘ پیٹھن- گنگاپور اور کنڑ حلقوں میں 15 تا 17نومبر‘ پھلمبری میں 14 تا 17‘ اورنگ آباد وسطی اور مغربی حلقے میں 13 تا 15‘ اور اورنگ آباد مشرق میں 13 تا 18 اور ویجاپور حلقے میں 14 تا 16 نومبر کے دوران گھر سے رائے دہی کا یہ عمل ہوگا۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ ریاستی اسمبلی انتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں کی تشہیری مہم تیز۔
٭ مہاوِکاس آگھاڑی کے مشترکہ تشہیری جلسے میں کانگریس کے پانچ نکاتی منشور کا اجراء۔
٭ باصلاحیت طلباء کی مالی اعانت کیلئے پی ایم - وِدّیا لکشمی اسکیم کو منظوری۔
٭ انتخابی نشان گھڑی عدالت میں زیرِ سماعت ہونے کا اعلان تمام اخبارات میں کرنے کا راشٹروادی کانگریس کو عدالت ِ عظمیٰ کا حکم۔
اور۔۔۔٭ رائے دہندگان میں بیداری پیدا کرنے کیلئے مختلف اقدامات کا سلسلہ جاری۔
***** ***** *****
0 notes
Text
ناجائز تعمیر معاملہ میں کیجریوال کے بنگلہ کی ہوگی جانچ! سی وسی سی نے طلب کی رپورٹ
دہلی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر وجندر گپتا نے منگل کو بیان جاری کرکے کہا کہ ان کی جانچ پر سینٹرل ویجی لینس کمیشن نے وزیر اعلیٰ رہائش میں غیر قانونی تعمیر اور مالی بے ضابطگیوں کی جانچ کو سینٹرل پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے پاس بھیجا ہے اور انہیں یقین ہے کہ رپورٹ پر مناسب کارروائی کی جائے گی۔ گپتا نے بتایا کہ اس تعلق سے انہوں نے 14 اکتوبر کو سی وی سی کو ایک شکایت دی تھی، اس میں 6 فلیگ اسٹاف روڈ پر ہوئی…
0 notes
Text
الیکشن کمیشن کا امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کو شوکاز نوٹس
(24نیو) الیکشن کمیشن آف پاکستان ( ای سی پی ) نے ضمنی بلدیاتی انتخابات میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کوشوکازنوٹس جاری کردیا۔ ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سینٹرل ون محمد عاصم عباسی نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر حافظ نعیم الرحمان کو نوٹس جاری کیا،نوٹس میں کہا گیا کہ گلبرگ ٹاؤن میں بڑے جلسے اور بڑی تقریبات پرپابندی ہے،نوٹس کے مطابق حافظ…
0 notes
Text
پنجاب پبلک سروس کمیشن امتحان:45 ہزار سے زائد امیدواروں کے امتحانات کا کامیابی سے انعقاد
(24 نیوز) پنجاب پبلک سروس کمیشن نے اپنی تاریخ میں پہلی بار 45,000 سے زائد امیدواروں کے امتحانات کا کامیابی سے انعقاد کیا۔ ترجمان پی پی ایس سی کے مطابق ڈاکٹرزکی 900 اسامیوں کا تحریری امتحان بھی شامل ہے ، جس میں 17ہزارسےزائدڈاکٹرزنےامتحان دیا۔ ترجمان پی پی ایس سی کا کہنا ہے کہ امتحانات پنجاب کے 7 ریجنز میں لئے گئے، پی پی ایس سی کےممبران، افسران و عملے نے تمام امتحانی مراحل کو بخوبی انجام دیا۔ یہ…
0 notes
Text
قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی پر حملہ، ہائی کمیشن کامقدمہ درج کرانے کا فیصلہ
لندن میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی پرحملےکا مقدمہ درج کرانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ ذرائع کےمطابق پاکستان ہائی کمیشن نےحملہ کرنے والوں پرمقدمہ درج کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ میں9افراد کےخلاف مقدمہ درج کروایا جائےگا اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کو اندراج مقدمہ کی درخواست سفارتی اختیارات کےذریعے دی جائے گی۔ سفارتی ذرائع نےبتایاکہ قاضی فائزعیسیٰ پرحملےکےدوران…
0 notes
Text
پولیس اہلکار کو تھپڑ مارنے پر فردوس عاشق اعوان سے تحریری جواب طلب
فردوس عاشق اعوان نے معافی مانگ لی ،الیکشن کمیشن نے پولیس اہلکاروکوتھپڑمارنے پرفردوس عاشق اعوان سے تحریری جواب طلب کرلیا ، کمیشن نے پوچھا اگرکوئی بات نہیں سن رہا تو تھپڑ ماریں گی ؟ فردوس عاشق اعوان بولیں میں نے تھپڑ نہیں مارا۔ ممبرکے پی اکرم اللہ کی سربراہی میں دو رکنی کمیشن نےپولیس اہلکارکوتھپڑمارنے کے کیس کی سماعت کی، فردوس عاشق اعوان نے الیکشن کمیشن سے معافی مانگ مانگتے ہوئےموقف اپنایاکہ جب…
View On WordPress
0 notes
Text
فوج پی ٹی آئی مذاکرات ممکن…کیسے؟
ن لیگ اور محمود خان اچکزئی کے درمیان رابطوں کی تو تصدیق ہو چکی۔ ان رابطوں میں میرے ذرائع کے مطابق ن لیگ نے زور دیا کہ تحریک انصاف سے آمنے سامنے بیٹھ کر ہی بات ہو سکتی ہے اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ محمود خان اچکزئی کیساتھ حکومتی جماعت اُن معاملات پر بات کرے جن کا تعلق خالصتاً تحریک انصاف اور اسکے طرز سیاست سے ہے۔ یہ بھی تجویز سامنے آئی ہے کہ اگر تحریک انصاف اپنے بیانیہ کی وجہ سے ن لیگ یا حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کیساتھ کھل کر مذاکرات نہیں کرنا چاہتی تو یہ مذاکرات خفیہ بھی رکھے جا سکتے ہیں جس کیلئے ضروری ہے کہ محمود خان اچکزئی تحریک انصاف کی قیادت کو مذاکرات کیلئے ایک کمیٹی بنانے پر راضی کریں جو حکومت کی کمیٹی سے بات جیت کرے۔ جب اس سلسلے میں میں نے خبر دی محمود خان کی ن لیگ کیساتھ رابطوں کی تص��یق کی۔ ن لیگ کی طرف سے ان رابطوں کی تصدیق تو ہوئی لیکن حکمران جماعت کے کچھ دوسرے رہنمائوں بشمول احسن اقبال اور خواجہ آصف نے تحریک انصاف سے بات چیت کی مخالفت کر دی۔
احسن اقبال نے بات چیت کیلئے 9 مئی کے واقعات پر تحریک انصاف کی طرف سے معافی مانگنے کی شرط رکھ دی جبکہ اس سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنے ایک خطاب میں تحریک انصاف کو غیر مشروط مذاکرات کی دعوت دی تھی جس کو اُسی وقت وہاں موجود اپوزیشن لیڈر نے رد کر دیا اور کہا کہ حکومت سے مذاکرات کیلئے پہلے تحریک انصاف کی شرائط کو تسلیم کیا جائے جس میں عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے تمام رہنمائوں اور کارکنوں کو جیلوں سے رہا کیا جائے، فروری 8 کے انتخابات میں چوری شدہ مینڈیٹ تحریک انصاف کو واپس کیا جائے۔ 9 مئی کے حوالے سے تحریک انصاف معافی مانگنے کی بجائے بضد ہے کہ یہ تو اُن کے خلاف سازش تھی جس پر وہ 9 مئی پر تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جو شرائط تحریک انصاف کی طرف سے سامنے آ رہی ہیں اگر اُنکی موجودگی میں مذاکرات نہیں ہو سکتے تو دوسری طرف ن لیگ اگر واقعی مذاکرات چاہتی ہے تو اُسے بھی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت درکار ہو گی۔
9 مئی اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے فوج اور فوجی قیادت پر حملوں کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو ایک انتشاری ٹولے کے طور پر دیکھتی ہے۔ جس سیاسی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ انتشاری ٹولہ کے طور پر دیکھ رہی ہو اُس سے اُس کی مرضی کی شرائط کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ حکومتی جماعت ن لیگ کیسے مذاکرات کر سکتی ہے؟ ہاں اگر تحریک انصاف غیر مشروط مذاکرات کیلئے تیار ہو جاتی ہے تو پھر بات چیت کا کوئی رستہ نکل سکتا ہے۔ جب حکومت سے تحریک انصاف کے مذاکرات ہونگے تو ایسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ بھی ایک نہ نظر آنے والے فریق کے طور پر ان مذاکرات میں شامل ہو گی کیوں کہ حکومت 9 مئی اور کچھ دوسرے اہم معاملات میں وہی موقف مذاکرات کی ٹیبل پر رکھے گی جو موقف اسٹیبلشمنٹ کا ہو گا۔ عمران خان ویسے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی مذاکرات چاہتے ہیں۔ اگرچہ براہ راست ایسے مذاکرات فی الحال ممکن نظر نہیں آ رہے لیکن بالواسطہ یہ مذاکرات ہو سکتے ہیں جس کیلئے میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ تحریک انصاف کو غیر مشروط مذاکرات کیلئے تیار ہو نا ہو گا جبکہ ن لیگ کو اسٹیبلشمنٹ کو اس سارے معاملے میں لوپ پر رکھنا ہو گا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
نگران حکومت کی ضرروت ہی کیا ہے؟
انتخابات دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن نگران حکومتوں کے نام پر غیر منتخب لوگوں کو اقتدار میں لا بٹھانے کی یہ رسم صرف پاکستان میں ہے۔ سوال یہ ہے اس بندوبست کی افادیت کیا ہے اور نگران حکومتوں کے انتخاب، اہلیت، اختیارات اور کارکردگی کے حوالے سے کوئی قوانین اور ضابطے موجود ہیں یا نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ جہاں غیر منتخب نگران حکومتوں کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں وہاں تو معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ نبٹا لیے جاتے ہیں اور ہمارے ملک میں نگران حکومتوں کے ہوتے ہوئے بھی انتخابات متنازع ہو جاتے ہیں؟ نگران حکومت کے نام پر عارضی ہی سہی، ایک پورا حکومتی بندوبست قائم کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بندوبست کے بارے میں تفصیلی قانون سازی آج تک نہیں ہو سکی۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 اور آئین کے آرٹیکل 224 میں کچھ بنیادیں باتیں لکھ دی گئی ہیں لیکن وہ ناکافی اور مبہم ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ایک رکن پارلیمان کی اہلیت کے لیے تو ایک کڑا معیار مقرر کیا گیا ہے لیکن نگران حکومت کی اہلیت کے لیے کوئی اصول طے نہیں کیا گیا؟ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کوئی نام تجویز کر دیں تو اس نام کی اہلیت کو پرکھنے کے لیے کوئی قانون اور ضابطہ تو ہونا چاہیے، وہ کہاں ہے؟
یہی معاملہ نگران کابینہ کا ہے۔ آئین کا آرٹیکل A 224 (1) صرف یہ بتاتا ہے کہ نگران کابینہ کا انتخاب نگران وزیر اعظم اور نگران وزرائے اعلی کی ایڈوائس پر ہو گا لیکن یہ کہیں نہیں بتایا کہ نگران کابینہ کے لیے اہلیت کا پیمانہ کیا ہو گا۔ ایک جمہوری معاشرے میں ایسا صوابدیدی اختیار حیران کن ہے۔ دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے اختیارات کا دائرہ کار کیا ہے؟َ وہ کون سے کام کر سکتی ہے اور کون سے کام نہیں کر سکتی؟ اس کی مراعات کیا ہوں گی؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کس کو جواب دہ ہو گی؟ حیران کن بات یہ ہے کہ ان سولات کا تفصیلی جواب نہ آئین میں موجود ہے نہ ہی الیکشن ایکٹ میں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 میں کچھ وضاحت ہے لیکن ناکافی ہے۔ نگران حکومت کا مینڈیٹ دو جمع دو چار کی طرح تحریری طور پر موجود ہونا چاہیے۔ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ نگران حکومت کی کوئی حزب اختلاف نہیں ہوتی اور اسے کسی صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے وزراء کسی ایوان کو جواب دہ نہیں ہوتے۔ ان سے کسی فورم پر سوال نہیں ہوتا۔ نگران حکومتوں کے دورانیے میں، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں تو موجود نہیں ہوتیں لیکن سینیٹ جیسا ادارہ تو موجود ہوتا ہے، سوال یہ ہے اس دورانیے میں سینیٹ کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا؟
ہم نے ساری دنیا سے نرالا، نگران حکومتوں کا تصور اپنایا ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ اس نامعتبر بندوبست نے ہمیں کیا دیا اور ہمیں اس پر اصرار کیوں ہے؟ نگران حکومت کے قیام کا واحد بنیادی مقصد انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت ہے۔ سوال یہ ہے اس کے لیے غیر منتخب لوگوں کو حکومت سونپنے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت سرکاری محکموں اور وزارتوں کی صورت چلتی ہے، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ انتخابات کے لیے نگران حکومت بنانے کی بجائے حکومتی مشینری کو الیکشن کمیشن ہی کے ماتحت کر دیا جائے؟ جب آئین نے آرٹیکل 220 میں تمام اتھارٹیز کو چاہے وہ وفاقی ہوں یا صوبائی، یہ حکم دے رکھا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے کی مدد کریں گے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے جس کے لیے غیر منتخب حکومت مسلط کی جائے؟ معمول کے کام چلانا بلا شبہ ضروری ہیں تا کہ ریاستی امور معطل نہ ہو جائیں لیکن اس کی متعدد شکلیں اور بھی ہو سکتی ہیں اور اس کے لیے غیر منتخب لوگووں کی حکومت بنانا ضروری نہیں۔
سینیٹ کی شکل میں جو واحد منتخب ادارہ اس دورانیے میں موجود ہوتا ہے، اسے عضو معطل کیوں بنا دیا گیا ہے۔ کم از کم اتنا تو ہو سکتا ہے کہ غیر منتخب نگران حکومت کو سینٹ کے سامنے جواب دہ قرار دیا۔ ہمارے اہل سیاست کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ کتنی محنت سے خود ہی خود کو بددیانت، ناقابل بھروسہ اور خائن ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ اگر منتخب حکومت ہی کو نگران حکومت کی ذمہ داری دی گئی تو وہ لازمی بد دیانتی اور خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھاندلی کریں گے؟ قانونی اورآئینی طور پر سارے اراکین پارلیمان سچے، نیک، پارسا، دیانت دار، امین اور سمجھ دار ہیں اور ان میں کوئی بھی فاسق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ عام انتخابات کے لیے اس کی دیانت اور امانت داری کا یقین کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ نگران حکومت کا تصور جمہوری حکومت نے نہیں دیا تھا۔ جمہوری حکومتیں البتہ اسے سرمایہ سمجھ کر گلے سے لگائے ہوئے ہں اور انہیں احساس ہی نہیں یہ اصل میں ان کے اخلاقی وجود پر عدم اعتماد ہےا ور ایک فرد جرم ہے۔ نگران حکومت کے موجودہ غیر منتخب ڈھانچے کے ہوتے ہوئے ہماری سیاست کے اخلاقی وجود کو کسی دشمن کی حاجت نہیں۔ یہ الگ بات کہ انہیں اس حادثے کی کوئی خبر ہی نہیں۔
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes
·
View notes