#کمیشن
Explore tagged Tumblr posts
Text
ہائیکورٹس میں ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کیلئے نامزدگیاں طلب
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نےاعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کےقواعد کی منظوری کے فوری بعد ہائی کورٹس میں ایڈیشنل ججزکی تقرری کےلیےاراکین سے نامزدگی طلب کرلی۔ جوڈیشل کمیشن نےمختلف ہائی کورٹس میں مجموعی طور پر 38 خالی اسامیوں کے لیےنامزدگیاں طلب کی ہیں،سندھ ہائی کورٹ کے لیے 12، اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے 4، لاہور ہائی کورٹ کےلیے 10، پشاور ہائی کورٹ کے لیے 9 اور بلوچستان ہائی کورٹ کےلیے 3 سفارشات طلب…
0 notes
Text
خیبرپختونخوا سینیٹ انتخابات ؛الیکشن کمیشن کا اجلا س بے نتیجہ ختم
(طیب سیف)خیبر پختونخوا سینیٹ انتخابات اور مخصوص نشستوں کے معاملے پر چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت دوسرے روز بھی اجلاس بے نتیجہ ختم ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیرصدارت خیبر پختونخوا سینیٹ انتخابات اور مخصوص نشستوں کے معاملے پرالیکشن کمیشن کا اہم اجلاس ہوا،اجلاس میں ممبران، سیکرٹری الیکشن کمیشن اور قانونی ٹیم شریک ہوئی،قانونی ٹیم نے دونوں معاملات پر عدالتی فیصلوں…
0 notes
Text
الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے کا پابند ہے، سپریم کورٹ کی مخصوص نشستوں کے کیس میں دوسری وضاحت
(24نیوز)مخصوص نشستوں کے کیس پر سپریم کورٹ کے اکثریتی 8 ججز نے دوسری مرتبہ وضاحت جاری کر دی ہے۔ الیکشن کمیشن کی درخواست پر سپریم کورٹ سے دوسری وضاحت دی گئی ہے،اکثریتی ججز کے مطابق الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے 12 جولائی کا فیصلہ غیر مؤثر نہیں ہو سکتا، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ماضی سے اطلاق کو وجہ بنا کر فیصلہ غیر مؤثر نہیں ہوسکتا، لہٰذا، مختصر حکمنامے کے بعد الیکشن ایکٹ میں کی جانے والی ترامیم کا…
0 notes
Text
الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے 15 اور صوبائی اسمبلیوں کے 22 حلقوں کے نتائج روک لیے
الیکشن کمیشن نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 37 حلقوں کے حتمی نتائج روک دیے۔ قومی اسمبلی کے 15 اورصوبائی اسمبلیوں کے 22 حلقوں کے نتائج جاری نہیں ہوں گے۔ این اے52 ،53 56 اور57راولپنڈی، این اے 60 جہلم، این اے 69 منڈی بہاوالدین کے حتمی نتائج جاری کرنے سے روک دیاگیا۔ الیکشن کمیشن نے پی پی 22 چکوال، پی پی 49 سیالکوٹ اور پی پی 14 راولپنڈی کے حتمی نتائج روک دیے۔ الیکشن کمیشن نے پی پی 283 لیہ، پی پی 164 …
View On WordPress
0 notes
Text
عام انتخابات اور عوامی لاتعلقی
عام انتخابات کے انعقاد میں گنتی کے دن باقی ہیں لیکن سوشل میڈیا کے علاوہ گراؤنڈ پر عام انتخابات کا ماحول بنتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ کسی بڑی سیاسی جماعت کو جلسے کرنے کی جرات نہیں ہو رہی اور اگر کوئی بڑا سیاسی لیڈر جلسہ کرنے کی کوشش کرتا ہے ��و اسے عوامی سرد مہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میاں نواز شریف جیسا سینئر سیاستدان اپنی تقریر 20 منٹ میں سمیٹتے ہوئے وہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ اگرچہ بعض جگہوں پر بلاول بھٹو اور مریم نواز جلسے منعقد کر رہے ہیں لیکن وہاں کی رونق ماضی کے انتخابی جلسوں سے یکسر مختلف ہے۔ پاکستان کا مقبول ترین سیاسی لیڈر اس وقت پابند سلاسل ہے اور اس کی جماعت کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں جبکہ عوام اسی کی بات سننا چاہتے ہیں۔ جبکہ جنہیں 'آزاد چھوڑ دیا گیا ہے انہیں جلسے کرنے کی آزادی تو ہے لیکن عوام ان کی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ کراچی سے لے کر خیبر تک سنسان انتخابی ماحول ہے تقریریں ہیں کہ بے روح اور عوام ہیں کہ لا تعلق۔
اس لاتعلقی کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاؤن ہے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور ان کے نامزد امیدواروں کو بغیر نشان کے انتخابات لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر وہی عمل دہرایا گیا جو 2017 میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ کیا گیا تھا۔عمران خان اور ان کے اہم ساتھی مقدمات کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور وہ 9 مئی سمیت متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان اقدامات نے نہ صرف انتخابات کو متنازع بنا دیا ہے بلکہ انہیں عوام سے بھی دور کر دیا ہے۔ دوسری بڑی وجہ گزشتہ دو سال سے جاری شدید معاشی بحران ہے۔ شہباز حکومت نے عوام کی بنیادی استعمال کی چیزوں اور اشیاء خورد و نوش عوام کی پہنچ سے دور کر دیے تھے اور ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی بجلی کا بل بھی ادا کرنے سے قاصر ہے۔ بیشتر عوام اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں اگلی حکومت کون بناتا ہے، حکومت کا اتحادی کون کون ہو گا اور اپوزیشن کس کا مقدر ٹھہرے گی۔
انہیں تو اس بات سے غرض ہے کہ ان کے بچے کھانا کھا سکیں گے یا نہیں، وہ اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر سکیں گے یا نہیں۔ شہباز حکومت کے اقدامات کے باعث آج معیشت اوندھے منہ پڑی ہے۔ ملازم پیشہ افراد اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے ایک سے زائد جگہوں پر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ کاروباری طبقہ جو پہلے ہی بے ہنگم ٹیکسوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھا عوام کی کمزور ہوتی معاشی حالت نے اس کی کمر بھی توڑ کے رکھ دی ہے۔ مالی بد انتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے معیشت کی ڈوبتی کشتی پر بوجھ میں اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ معاشی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے جس کے براہ راست اثرات عوام پر منتقل ہو رہے ہیں۔ نگراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی ہے لیکن بدانتظامی کے باعث اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے۔ ذرائع نقل و حمل کے کرایوں میں کمی نہیں آئی نہ ہی بازار میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ جس کے باعث عوامی بیزاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو انہیں انتخابات اور انتخابی عمل سے دور کر رہا ہے۔
میری دانست میں اس کی تیسری بڑی وجہ ریاستی اداروں اور عام آدمی کے مابین اعتماد کا فقدان ہے عوام اس بات پر توجہ ہی نہیں دے رہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں کون سی جماعت زیادہ نشستیں حاصل کرے گی کیونکہ ایک تاثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آپ جس کو چاہیں ووٹ دیں ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ہی اقتدار کے منصب پر فائز کیا جائے گا۔ اس عدم اعتماد کے باعث بھی عوام اس انتخابی مشق سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ رہی سہی کسر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ووٹر لسٹوں نے پوری کر دی ہے۔ ان ووٹر لسٹوں میں بد انتظامی اور نالائقیوں کے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے ووٹ ماضی میں قائم کردہ پولنگ اسٹیشن پر موجود ہیں۔ ووٹر لسٹوں میں غلطیوں کی بھرمار ہے، ایک وارڈ کے ووٹ دوسرے وارڈ کے پولنگ اسٹیشن پر شفٹ کر دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا سسٹم ابھی سے بیٹھ گیا ہے اور مخصوص نمبر پر کیے گئے میسج کا جواب ہی موصول نہیں ہوتا۔
ووٹر لسٹیں جاری ہونے کے بعد امیدواروں اور ان کے انتخابی ایجنٹوں میں عجیب بے چینی اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ شہروں میں ووٹر لسٹوں کی یہ کیفیت ہے تو دیہات میں کیا حال ہو گا۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ روزانہ انتخابات کے حوالے سے نت نئی افواہوں کا طوفان آ جاتا ہے جو امیدواروں کو بددل کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں غیر یقینی کی کیفیت پختہ کر دیتا ہے۔ اور پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر ایک مخصوص گروہ کو انجینئرنگ کے ذریعے اقتدار پر مسلط کر بھی دیا گیا تو کیا وہ عوام کے دکھوں کا مداوا کر بھی سکے گا؟ عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی اشد ضرورت ہے جس میں تمام جماعتوں کو انتخاب میں حصہ لینے کے مساوی مواقع میسر ہوں اور ساتھ ساتھ ووٹر لسٹوں میں پائی جانے والی غلطیوں بے ضابطگیوں اور نالائقیوں کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔عوام کو ان کے جمہوری حق کے استعمال سے محروم کرنے کی سازش اگر کامیاب ہو گئی تو یہ ملک کے جمہوری نظام کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Imran Khan#Pakistan#Pakistan Election 2024#Pakistan Politics#Pakistan Tehreek-e-Insaf#Politics#PTI#World
4 notes
·
View notes
Text
عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا جس سے ان کے سیاسی کیریئر کو ایک نیا دھچکا لگا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان میں حزب اختلاف کے اہم رہنما عمران خان کو اس سال کے آخر میں متوقع قومی انتخابات سے قبل اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے لیے ایک طویل قانونی جنگ کا سامنا ہے۔ اس قانونی جنگ کے بارے میں کئی اہم سوالات ہیں جن کا جواب عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
کیا عمران خان کا سیاسی کیریئر ختم ہو چکا؟ قانون کے مطابق اس طرح کی سزا کے بعد کوئی شخص کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔ نااہلی کی مدت کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ قانونی طور پر اس نااہلی کی مدت سزا کی تاریخ سے شروع ہونے والے زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہو سکتے ہیں لیکن سپریم کورٹ اس صورت میں تاحیات پابندی عائد کر سکتی ہے اگر وہ یہ فیصلہ دے کہ وہ بے ایمانی کے مرتکب ہوئے اور اس لیے وہ سرکاری عہدے کے لیے ’صادق ‘ اور ’امین‘ کی آئینی شرط پورا نہیں کرتے۔ اس طرح کا فیصلہ 2018 میں تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خلاف دیا گیا تھا۔ دونوں صورتوں میں عمران خان کو نومبر میں ہونے والے اگلے عام انتخابات سے باہر ہونے کا سامنا ہے۔ عمران خان کا الزام ہے کہ ان کی برطرفی اور ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن میں عسکری عہدیداروں کا ہاتھ ہے۔ تاہم پاکستان کی فوج اس سے انکار کرتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے رہنماؤں کی مثالیں موجود ہیں جو جیل گئے اور رہائی کے بعد زیادہ مقبول ہوئے۔ نواز شریف اور ان کے بھائی موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف دونوں نے اقتدار میں واپس آنے سے پہلے بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں وقت گزارا۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی جیل جا چکے ہیں۔
عمران خان کے لیے قانونی راستے کیا ہیں؟ عمران خان کے وکیل ان کی سزا کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گے اور سپریم کورٹ تک ان کے لیے اپیل کے دو مراحل باقی ہیں۔ سزا معطل ہونے ک�� صورت میں انہیں کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ اگر ان سزا معطل کر دی جاتی ہے تو عمران خان اب بھی اگلے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کو مجرم ٹھہرانے کے فیصلے کو بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں دیا گیا اور انہیں اپنے گواہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن سزا سنانے والی عدالت نے کہا ہے کہ عمران خان کی قانونی ٹیم نے جو گواہ پیش کیے ان کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔ بار بار طلب کیے جانے کے باوجود کئی ماہ تک عدالت میں پیش ہونے سے عمران خان کے انکار کے بعد عدالت نے مقدمے کی سماعت تیز کر دی تھی۔ تاہم توشہ خانہ کیس ان پر بنائے گئے 150 سے زیادہ مقدمات میں سے صرف ایک ہے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ مقدمات میں دو بڑے مقدمات شامل ہیں جن میں اچھی خاصی پیش رفت ہو چکی ہے انہیں زمین کے معاملے میں دھوکہ دہی اور مئی میں ان کی گرفتاری کے بعد فوجی تنصیبات پر حملوں کے لیے اکسانے کے الزامات کا سامنا ہے۔ امکان یہی ہے کہ انہیں ایک عدالت سے دوسری عدالت میں لے جایا جائے گا کیوں کہ وہ تین سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
عمران خان کی پارٹی کا کیا ہو گا؟ عمران خان کے جیل جانے کے بعد ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت اب سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں۔ نو مئی کے تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد کئی اہم رہنماؤں کے جانے سے پارٹی پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہے اور بعض رہنما اور سینکڑوں کارکن تاحال گرفتار ہیں۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف مقبول ہے لیکن سروے کے مطابق یہ زیادہ تر عمران خان کی ذات کے بدولت ہے۔ شاہ محمود قریشی کے پاس اس طرح کے ذاتی فالوورز نہیں ہیں اور تجزیہ کاروں کے مطابق وہ کرکٹ کے ہیرو کی طرح تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہوں گے۔ ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے پر پابندی کے بعد بھی عمران خان نے اپنے حامیوں کے ساتھ مختلف سوشل میڈیا فورمز جیسے ٹک ٹاک ، انسٹاگرام، ایکس اور خاص طور پر یوٹیوب تقریبا روزانہ یوٹیوب تقاریر کے ذریعے رابطہ رکھا تھا لیکن اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات میں ان کی پارٹی کو کامیابی ملی تو وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں۔
روئٹرز
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes
·
View notes
Text
میں نےجبری گمشدگیوں کےخلاف اپنے24 سالہ جد و جہد میں یہ قریب سےدیکھاہےجب جبری لاپتہ شخص کاکیس ملک کےکسی طاقتور ادارے پرثابت ہوجاتاہےتو وہاں عدلیہ، کمیشن اورحکومت عملی اقدامات اٹھانے کےحوالےسےبےبس نظر آتےہیں اور اداروں کی بےبسی کی وجہ سےلوگوں کااعتماد ملک کےانصاف کےنظام سےاٹھ چکاہے
#ReleaseAllBalochMissingPersons
#StopBalochGenocide
#OccupiedBalochistan
#BalochistanIsNotPakistan
#pakistanaterroristcountry
0 notes
Text
عمران خان کا آخری کارڈ
تحریک انصاف کی تقریباً پوری قیادت حیران ہے کہ جیل میں قید اُن کے رہنما اور بانی چیئرمین نے اب یہ کیا اعلان کر دیا ہے۔ بغیر کسی سے مشاورت کیے عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان سوشل میٖڈیا کے ذریعے کر دیا اور پہلے مرحلے میں اگر اُن کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کریں گے کہ وہ پاکستان پیسے بھیجنا یعنی ترسیلات زر کو محدود کر دیں اور بائیکاٹ مہم چلائیں۔ اُنہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ دوسرے مرحلے میں اس سے بھی آگے جائیں گے۔ دو مطالبات جو عمران خان نے حکومت کے سامنے رکھے، اُن میں ایک مطالبہ یہ ہے کہ انڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے جبکہ دوسرا مطالبہ ہے کہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ ان مطالبات کے ماننے کیلئے عمران خان نے 14 دسمبر تک کا وقت بھی دے دیا۔ تحریک انصاف کے کسی رہنما سے مشاورت کیے بغیر اس اعلان پر پارٹی رہنما پریشان ہیں کہ خان صاحب نے یہ پھر کیا کر دیا۔ ایک تو گلہ یہ تھا کہ اتنا اہم اعلان کیا گیا اور بغیر کسی کی مشاورت اور بغیر کسی کو بتائے اور دوسرا ان رہنمائوں کا تقریباً اس بات پر اتفاق تھا کہ سول نافرمانی کی جس تحریک کا عمران خان نے اعلان کر دیا اُس پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا اور ماضی کی طرح سول نافرمانی کی یہ تحریک بھی ناکام ہی ہو گی۔
عمران خان نے سوچا ہو گا کہ اُن کے اعلان کے بعد بیرون ملک بسنے والے پاکستانی پیسہ بھیجنا کم کر دیں گے جس سے پاکستان کی ترسیلات زر میں کمی ہو گی اور یوں ملک معاشی مشکلات کا شکار ہو گا جس سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے مطالبات ماننے پر مجبور ہو جائیں گی۔ ترسیلات زر کا تعلق اُن اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ ہے جو ہر ماہ یا کچھ عرصہ کے بعد پاکستان میں بسنے والے اپنے بیوی بچوں، ماں باپ یا خاندان کے دوسرے افراد اور رشتہ داروں کو خرچہ بھیجتے ہیں۔ اب اگر عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ باہر کام کیلئے جانے والوں کی بڑی تعداد یا بیرون ملک بسنے والے پاکستانی اپنے بیوی بچوں، ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کو بھیجا جانے والا خرچہ کم کر دیں تو ایسا تو ممکن نہیں ۔ نہ ہی کوئی اور اوورسیز پاکستانی جو یہاں اپنے لیے زمین اور گھر بنانا چاہ رہا ہے یا کوئی کاروبار کرنا چاہ رہا ہے وہ عمران خان کی بات سنے گا۔ ویسے جن اوورسیز پاکستانیوں خصوصاً امریکا، برطانیہ اور یورپ میں بسنے والے، جن کے پاس بہت پیسہ ہے وہ زیادہ تر اپنا پیسہ ملک سے باہر ہی رکھتے ہیں۔
عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران ایسے پاکستانیوں سے توقع لگائی تھی کہ وہ اپنا پیسہ پاکستان لے کر آئیں گے۔ مراد سعید نے تو کہا تھا کہ بیرون ملک رہنے والے عمران خان کی حکومت میں اتنا پیسہ لائیں گے کہ سو ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ اُن کے منہ پر ماریں گے۔ یہ بھی توقع تھی کہ جب عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہو گا تو بیرون ملک سے ترسیلات زر میں کمی ہو گی لیکن اس کے برعکس ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کا بھی یہی خیال ہے کہ نہ تو اوورسیز پاکستانی پاکستان پیسہ بھیجنا بند کریں گے اور نہ ہی یہاں رہنے والے اپنے بجلی اور گیس کے بل جلائیں گے کیوں کہ ایسا نہ 2014 میں ہوا نہ اب ممکن ہے۔ ذرائع کے مطابق پارٹی رہنمائوں نے اپنی مشاورت کے دوران یہ بھی کہا کہ بجلی و گیس کے بل نہ دینا تو پارٹی رہنما ئوں کیلئے بھی ممکن نہیں ہو گا۔ 2014 کے دھرنے کے دوران عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا، بجلی گیس کے بل جلائے اور عوام سے مطالبہ کیا کہ اس تحریک میں بھرپور حصہ ڈالیں لیکن بنی گالہ کے اپنے گھر کے بل جمع کرا دیے۔ وہ تحریک بھی ناکام ہوئی اور اب بھی ایسی کسی تحریک کا نتیجہ مختلف نہیں ہو گا۔ اب پارٹی رہنما عمران خان کو سمجھانے اور اس اعلان کو واپس لینے کیلئے جیل میں اُن سے ملاقات کریں گے۔ خان صاحب مانتے ہیں کہ نہیں اس کا کسی کو کوئی اندازہ نہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نے یہ اپنا آخری کارڈ کھیلا ہے۔ یہ جو بھی ہے عمران خان اپنا نقصان کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر علاقائی خبریں تاریخ : 19 ؍نومبر 2024ء وقت : صبح 09.00 سے 09.10 بجے
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 19 November 2024
Time: 09.00 to 09.10 AM
آکاشوانی چھترپتی سنبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ: ۹۱ /نومبر ۴۲۰۲ء
وقت: 09.00 سے 09.10/ بجے
سب سے پہلے خاص خبروں کی سرخیاں
٭ اسمبلی انتخابات سمیت ناندیڑ لوک سبھا کے ضمنی انتخابات کی تشہیر ختم ‘ کل رائے دہی
٭ ریاست بھر میں 9/ کروڑ 70 / لاکھ 25/ ہزار 119/ رائے دہندوں کے لیے ایک لاکھ427/ رائے دہی مراکز
٭ اکتوبر کے لیے جی ایس ٹی ٹیکس بھر نے21/ تاریخ تک مدت میں توسیع
اور
٭ ضابطہ ئ اخلاق کے دوران ریاست میں 80/ ہزار افراد کے خلاف کارروائی
اب خبریں تفصیل سے...
اسمبلی انتخا بات سمیت ناندیڑ لوک سبھا ضمنی انتخاب کی تشہیر کل ختم ہو گئی ہے۔ ریاست میں اسمبلی کی288/ جبکہ ناندیڑ لوک سبھا حلقہ کے لیے کل رائے دہی ہو گی۔ ریاست بھر میں 9/ کروڑ 70/ لاکھ 25/ ہزار119/ ووٹروں کے لیے ایک لاکھ 424 / رائے دہی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ حساس مراکز پر سینٹرل ریزرو فورس کے جوان تعینات ہوں گے۔
ووٹنگ سے پہلے کے خاموش ما حول میں ووٹروں پر دباؤ ڈالنے ‘ الیکشن کے نتیجہ متاثر کرنے جیسے عوام کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے سے الیکشن کمیشن نے منع کیا ہے۔ اب تشہیر کرنے اور ریلی نکا لنے پر منتظم اور شر کاء کے خلاف 2/ سال کی سزا اور جر ما نہ یا دونوں بھی لاگو کرنے کی اطلاع چیف الیکشن کمیشن دفتر نے دی ہے۔
اِسی دوران اشتہارات نشر کر تے وقت بھی اصول کا خیال رکھنے کے احکا مات امید واروں اور اشتہار نشر کرنے والوں کو الیکشن کمیشن نے دیے ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے الیکشن کے عمل کی پوری تیاری ہو چکی ہے اور چیف الیکشن افسر ایس چوک لنگم نے ریاست کے ووٹروں سے کثیر تعداد میں ووٹ کرنے کی اپیل کی ہے۔
***** ***** *****
پولنگ اسٹیشن پر ووٹر کی شناخت کے لیے ووٹر آئی ڈی کے ساتھ 12/ دیگر ثبو توں میں سے کوئی بھی ایک قبول کیا جائے گا۔ اِن میں ڈرائیونگ لائسنس ‘ پین کارڈ‘ آ دھار کارڈ ‘ پاسپورٹ ‘ منریگا جاب کارڈ‘ بینک یا پوسٹل اکاؤنٹ کی تصویر والی پاس بک ‘ ہیلتھ انشورنس اسمارٹ کارڈ‘ قومی آ بادی رجسٹر کے تحت رجسٹرار جنرل آف اِنڈیا کے ذریعہ جاری کردہ اسمارٹ کارڈ اور خصو صی معذوری شناختی کارڈ شامل ہیں۔
***** ***** *****
ناندیڑ لوک سبھا حلقہ کے ووٹروں کو کل دوبارہ ووٹ دینا ہے۔ اِسی پولنگ اسٹیشن پر پہلی پولنگ لوک سبھا ضمنی انتخاب کے لیے ہو گی جبکہ دوسری پولنگ اسمبلی انتخابات کے لیے ہو گی۔ ضلع کے6/ اسمبلی حلقوں کے ووٹروں سے احتیاط برتنے کی اپیل کر تے ہوئے کلکٹر ابھیجیت راؤت نے نا مہ نگاروں کو اطلاع دی۔
ناندیڑ شمال‘ ناندیڑ جنوب‘ بھو کر نائیگاؤں ‘ دیگلور اور مُدکھیڑ اِن اسمبلی حلقوں میں 2/ ای وی ایم کے سیٹ رہیں گے۔ ایک مشین لوک سبھا کے لیے سفید رنگ کی اِس پر سفید رنگ کے اسٹیکر چسپاں ہوں گے جبکہ دوسری مشینیں وِدھان سبھا کے لیے گلا بی رنگ کے اسٹیکر کے ساتھ اور پولنگ چِٹ بھی گلا بی رنگ کی ہو گی۔ رائے دہندگان کو ایک ہی پولنگ سینٹر پر دونوں ووٹ ڈالنے ہوں گے۔ اپنی شناخت کی تصدیق کے بعد رائے دہندہ کو پہلے لوک سبھا اور پھر اسمبلی کا ووٹ ڈالنا ہو گا۔
***** ***** *****
چھتر پتی سنبھا جی نگر ضلعے کے تمام 9/ اسمبلی حلقوں پر آج دو پہر تک ووٹنگ اشیاء کے ساتھ ووٹنگ دستے پہنچنے کی اطلاع ضلع کلکٹر و ضلع الیکشن افسر دلیپ سوامی نے دی۔ کل چھتر پتی سنبھا جی نگر میں ایک صحافتی کانفرنس سے وہ مخاطب تھے۔ انھوں نے اطلاع دی کہ تقریباً18/ ہزار178/ افراد ووٹنگ کے عمل کے لیے تعینات رہیں گے اور اُن کی حمل ونقل کے لیے تقریباً 11/ ہزار گاڑیاں رہیں گی۔
ضلع بھر میں مجموعی طور پر 3/ ہزار273/ رائے دہی مراکز پر ووٹنگ کا عمل مکمل کیا جائے گا۔ پولنگ مراکز کی تعداد کے پیش نظر ضلعے میں 7/ ہزار 430/ بیلیٹ یو نٹ در کار ہو ں گے۔ ان میں سے 20/ فیصد مشینیں مختص رکھی گئی ہیں۔ اِسی طرح 3/ ہزار 917/ کنٹرول یونٹ میں سے 20/ فیصد یو نٹ مختص رکھی گئیں ہیں۔
***** ***** *****
ضلع الیکشن افسر ڈاکٹر شری کرشن پانچاڑ نے کہا کہ جالنہ ضلعے میں الیکشن کمیشن کے آن لائن سسٹم کے ذریعہ کل پانچوں اسمبلی حلقوں کے پولنگ اسٹیشنوں پر جانے والی انتخابی ٹیموں کی تیسری راؤنڈنگ کل عمل مکمل ہو ا۔ اِس عمل کے مطا بق کون سی ٹیم کس پولنگ اسٹیشن پر جائے گی‘ متعلقہ ٹیموں کو آج آگاہ کر دیا جائے گا۔ اِس کے بعد ٹیمیں ووٹنگ کے تمام سامان لے کر پولنگ اسٹیشن کے لیے روانہ ہو جا ئیں گی۔
***** ***** *****
دھارا شیو ضلعے میں پُر امن اسمبلی انتخابات کو یقینی بنانے والے الیکشن کے دوران کسی بھی نا خوشگوار واقعے کو روکنے کے لیے پولس انتظامیہ‘ 5/ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولس‘18/ پولس انسپکٹر ‘104/ اسسٹنٹ انسپکٹر اور پولس سب انسپکٹر‘ ایک ہزار 604/ پولس کانسٹیبلوں کے ساتھ ایک ہزار450/ ہوم گارڈ اور 103/ این سی سی دستے تعینات کیے گئے ہیں۔ اِسی کے ساتھ مرکزی پولس ٹیم کے 4/ یونٹ بھی یہاں
داخل ہو چکے ہیں۔
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھترپتی سنبھا جی نگر سے نشر کی جارہی ہیں
***** ***** *****
دریں اثناء گزشتہ روز انتخابی مہم کے آخری دن امید واروں نے پر یس کانفرنس جلسے اور روڈ شو اور وٹر کے گھروں کا دورہ کیا۔
کانگریس لیڈر راہل گاندھی ‘ بی جے پی کے قو می جنرل سیکریٹری وِنود رتاؤڑے ‘ وزیر اعلیٰ و شیو سینا لیڈر ایکناتھ شندے ‘ شیو سینا اُدھو با لا صاحب ��ھاکرے گروپ کے رکن اسمبلی آدِتیہ ٹھاکرے سمیت دیگر افراد نے کل پریس کانفرنس منعقد کر تے ہوئے اپنے موقف کا اظہارکیا۔
***** ***** *****
سابق وزیر داخلہ اور این سی پی شرد چندر پوار گروپ کے لیڈر انیل دیشمکھ کی گاڑی پر پتھراؤ کیاگیا اِس میں انیل دیشمکھ زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ ناگپور دیہی کے کاٹول کے جلال کھیڑہ علاقہ میں پیش آ یا۔ انیل دیشمکھ کے بیٹے سلیل دیشمکھ کاٹول سے مہا وکاِس آ گھاڑی کے امید وار ہیں۔ پولس سپرنٹنڈنٹ ہرش پوددار نے کہا کہ واردات کی جانچ شروع کر دی گئی ہے۔
***** ***** *****
چھتر پتی سنبھا جی نگر ضلعے کے گنگا پور حلقہ کے آزاد امید وار سُریش سو نو نے پر بھی کچھ نہ معلوم افراد نے لانجی گاؤں کے قریب پتھراؤ کیا۔ اِس میں وہ معمولی زخمی ہو گئے۔ پولس جانچ کر رہی ہے۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابی ضابطہ اخلاق کے دوران ریاست میں تقریباً80/ ہزار لوگوں کے خلاف احتیا طی کارروائی کی گئی۔ 56/ ہزار سے زائد ہتھیار جمع کیے گئے اور 611/ اسلحہ لائسنس منسوخ کیے گئے۔ اِس عرصے میں مختلف مقامات سے ٹیموں نے660/ کروڑ روپئے سے زائد کا سامان ضبط کیا ہے۔ اِس میں 153/ کروڑ روپئے سے زیادہ نقد‘282/ کروڑ روپئے سے زیادہ کی قیمتی دھاتیں شامل ہیں۔
***** ***** *****
جاری مالی سال میں حکو مت نے جی ایس ٹی ریٹرن 3B داخل کرنے کی آخری تاریخ میں ایک دن یعنی مہا راشٹر اور جھار کھنڈ کی ریاستوں میں 21/ تاریخ تک توسیع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ جی ایس ٹی عمل آ وری کمیٹی کی منظوری کے بعد لیاگیا۔
***** ***** *****
چھترپتی سنبھا جی نگر میونسپل کارپوریشن کی جانب سے میونسپل حدود میں واقع 4/ اسمبلی حلقوں میں فی کس ایک مثالی ووٹنگ سینٹر قائم کیا گیا ہے۔ اِن میں ویٹنگ روم‘ نر سری ‘ پینے کا پانی ‘ طبی سہو لت ‘ سیلفی پوائنٹ سمیت دیگر سہو لیات فراہم کی گئی ہے۔ استقبالیہ کمرہ میں نویں دسویں کے طلبہ کو بطور رضار کار مقرر کیاگیا ہے تکہ وہ ووٹر کو فہرست میں نام تلاش کرنے اور بوتھ کی معلومات فراہم کرنے میں مدد کر سکیں۔ طلبہ کو تعینات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ الیکشن کے عمل سے آ گاہ ہو۔
***** ***** *****
اورنگ آباد مشرق حلقے سے مہا یوتی کے امید وار اتل ساوے اور اورنگ آباد وسطی حلقے سے مہا یو تی کے امید وار پر دیپ جیسوال نے وہیکل ریلی نکال کر رائے دہندگان سے ملاقاتیں کی۔ جبکہ اورنگ آباد وسطی حلقے سے مہاوِکاس آگھاڑی کے امید وار باڑا صاحب تھورات نے موبائل فون پر آڈی�� پیغام کے ذریعے مہا وِکاس آگھاری کے اِسی حلقے کے امید وار راجو شندے نے عوام سے راست ملا قاتیں کر کے اپنی تشہیر ی مہم کا اختتام کیا۔
***** ***** *****
چھتر پتی سنبھا جی نگرضلعے میں اب تک 4/ ہزار71/ رائے دہندگان نے گھر سے اپنا رائے دہی کا حق ادا کیا ہے اور یہ تنا سب79/ فیصد ہے۔ جبکہ 9/ہزار699/ پوسٹل ووٹ ڈالے گئے ہیں اور یہ رائے دہی 73/ فیصد ہوئی ہے۔ انتخابی شعبہ کی جانب سے یہ معلومات فراہم کی گئی ہے۔
***** ***** *****
دھارا شیو ضلعے کے عمر گہ حلقے میں 85/613 / سال سے زائد عمر کے افراد اور 194/ معذور رائے دہندگان اِس طرح مجموعی طور پر 807/ رائے دہندگان نے گھر سے ووٹ ڈالنے کے لیے رجسٹریشن کر وا یا ہے اور اِن میں سے 769/ رائے دہندگان نے گھر سے رائے دہی کا حق ادا کیا ہے۔
***** ***** *****
پر بھنی انتخابی حلقے سے شیو سینا اُدھو باڑا صاحب ٹھاکرے پارٹی کے ��کن اسمبلی ڈاکٹر راہل پاٹل نے اپنی تشہیر ی مہم کا اختتام کل آٹو رکشہ ریلی اور معذورین کی رکشہ ریلی سے کیا۔ جبکہ شیو سینا کے امدی وار آنند بھر وسے نے تصویر ی رتھ کی ریلی سے اپنی تشہیری مہم ختم کی۔
***** ***** *****
لاتور شہر انتخابی حلقے سے کانگریس پارٹی کے امید وار امِت دیشمکھ نے فلم ادا کار رِتیش دیشمکھ کے ہمارہ شہر میں ایک جلسہ ئ عام کیا۔ بعد ازاں گنج گو لائی علاقے میں روڈ شو کر کے رائے دہندگان سے ملا قاتیں کی۔
***** ***** *****
آخرمیں خبروں کی سر خیاں ایک مرتبہ پھر سُن لیجیے...
٭ اسمبلی انتخابات سمیت ناندیڑ لوک سبھا کے ضمنی انتخابات کی تشہیر ختم ‘ کل رائے دہی
٭ ریاست بھر میں 9/ کروڑ 70 / لاکھ 25/ ہزار 119/ رائے دہندوں کے لیے ایک لاکھ427/ رائے دہی مراکز
٭ اکتوبر کے لیے جی ایس ٹی ٹیکس بھر نے21/ تاریخ تک مدت میں توسیع
اور
٭ ضابطہ ئ اخلاق کے دوران ریاست میں 80/ ہزار افراد کے خلاف کارروائی
علاقائی خبریں ختم ہوئیں
آپ یہ خبر نامہ ہمارے یو ٹیوب چینل AIR چھتر پتی سنبھا جی نگر پر دوبارہ کسی بھی وقت سُن سکتے ہیں۔
٭٭٭٭
0 notes
Text
ناجائز تعمیر معاملہ میں کیجریوال کے بنگلہ کی ہوگی جانچ! سی وسی سی نے طلب کی رپورٹ
دہلی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر وجندر گپتا نے منگل کو بیان جاری کرکے کہا کہ ان کی جانچ پر سینٹرل ویجی لینس کمیشن نے وزیر اعلیٰ رہائش میں غیر قانونی تعمیر اور مالی بے ضابطگیوں کی جانچ کو سینٹرل پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے پاس بھیجا ہے اور انہیں یقین ہے کہ رپورٹ پر مناسب کارروائی کی جائے گی۔ گپتا نے بتایا کہ اس تعلق سے انہوں نے 14 اکتوبر کو سی وی سی کو ایک شکایت دی تھی، اس میں 6 فلیگ اسٹاف روڈ پر ہوئی…
0 notes
Text
پی ٹی آئی نے مذاکرات جاری رہنےکیلئےجوڈیشل کمیشن کی شرط رکھ دی
تحریک انصاف نے مذاکرات جاری رہنے کیلئے 31جنوری تک جوڈیشل کمیشن بنانے کی شرط رکھ دی ۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کے بعد مذاکراتی کمیٹی کے دیگر ارکان کے ہمراہ میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے صاحبزادہ حامد رضا کا کہنا تھا کہ ہم تیسرے مذاکراتی دور کیلئےتیار ہیں،حکومت جوڈیشل کمیشن کیلئےورکنگ کرکے آئے اور اگر 31 جنوری تک جوڈیشل کمیشن نہیں بنا تو مذاکرات آگے نہیں چلیں گے۔2 مطالبات تحریری شکل میں فراہم…
0 notes
Text
جوڈیشل کمیشن اجلاس،جسٹس شاہد بلال آئینی بنچ کے جج نامزد،ججز تقرریوں کا معاملہ موخر
(امانت گشکوری)چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیرصدارت جوڈیشل کمیشن نے سندھ اور پشاور ہائیکورٹس میں ججز تقرریوں کا معاملہ 21 دسمبر تک موخرکر دیاگیاجبکہ جسٹس شاہد بلال کو آئینی بنچ کا جج نامزد کر دیا گیا،چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس منصور علی شاہ کے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دینے کے خط کا جواب بھی دیدیا۔ تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ میں9 ایڈیشنل ججز کی تقرری کے معاملے پر چیف…
0 notes
Text
پنجاب پبلک سروس کمیشن امتحان:45 ہزار سے زائد امیدواروں کے امتحانات کا کامیابی سے انعقاد
(24 نیوز) پنجاب پبلک سروس کمیشن نے اپنی تاریخ میں پہلی بار 45,000 سے زائد امیدواروں کے امتحانات کا کامیابی سے انعقاد کیا۔ ترجمان پی پی ایس سی کے مطابق ڈاکٹرزکی 900 اسامیوں کا تحریری امتحان بھی شامل ہے ، جس میں 17ہزارسےزائدڈاکٹرزنےامتحان دیا۔ ترجمان پی پی ایس سی کا کہنا ہے کہ امتحانات پنجاب کے 7 ریجنز میں لئے گئے، پی پی ایس سی کےممبران، افسران و عملے نے تمام امتحانی مراحل کو بخوبی انجام دیا۔ یہ…
0 notes
Text
پولیس اہلکار کو تھپڑ مارنے پر فردوس عاشق اعوان سے تحریری جواب طلب
فردوس عاشق اعوان نے معافی مانگ لی ،الیکشن کمیشن نے پولیس اہلکاروکوتھپڑمارنے پرفردوس عاشق اعوان سے تحریری جواب طلب کرلیا ، کمیشن نے پوچھا اگرکوئی بات نہیں سن رہا تو تھپڑ ماریں گی ؟ فردوس عاشق اعوان بولیں میں نے تھپڑ نہیں مارا۔ ممبرکے پی اکرم اللہ کی سربراہی میں دو رکنی کمیشن نےپولیس اہلکارکوتھپڑمارنے کے کیس کی سماعت کی، فردوس عاشق اعوان نے الیکشن کمیشن سے معافی مانگ مانگتے ہوئےموقف اپنایاکہ جب…
View On WordPress
0 notes
Text
عمران کی فائنل کال
بانی پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومتوں کی ناکامیاں اور خراب کارکردگی رہی ہے۔ یہ مسئلہ خود خان صاحب کا بھی رہا اور وہ تیزی سے اپنی مقبولیت کھو رہے تھے ساڑھے تین سال کی حکومت میں خاص طور پر پنجاب میں کہ اُنکے خلاف مارچ 2022ء میں ’’عدم اعتماد‘‘ کی تحریک نے اُن میں ایک نئی جان ڈال دی۔ اپریل 2022ء سے نومبر 2024ء کے درمیان سیاست کا محور صرف وہی رہے۔ میڈیا میں 80 فیصد خبریں، تبصرے صرف اور صرف اُن پر ہوتے ہیں۔ 8 فروری 2024ء کے اصل نتائج کو ایک طرف رکھیں تب بھی وہ اپنی نوعیت کے پہلے جماعتی بنیادوں پر ہونے والے الیکشن تھے جس میں ’’آزاد‘‘، اُمیدوار جنکی 90 فیصد تعداد کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا، جیتے۔ میں تمام جمہوری پسند دوستوں سے پوچھتا ہوں کہ اگر پی ٹی آئی کواُس کا انتخابی نشان ’’بلا‘‘ مل جاتا تو نتیجہ کیا ہوتا۔ تاہم عمران کی مقبولیت کے باوجود کیا وجہ ہے کہ پی ٹی آئی اب تک ایک کامیاب احتجاجی تحریک چلانے میں ناکام رہی اور خان کو ’’فائنل کال‘‘ دینا پڑی جو نہ صرف اُن کیلئے ایک بڑا ’’رسک‘‘ ہے بلکہ اُنکی جماعت کیلئے بھی ��ڑا چیلنج ہے۔ بحیثیت اپوزیشن لیڈر کیا وجہ ہے کہ اس تحریک میں پی ٹی آئی ’’تنہا‘‘ کھڑی نظر آتی ہے۔
خود خان ’’تنہائی کا شکار‘‘ نظر آتے ہیں جسکی بڑی وجہ اُن کی حکمتِ عملی ہے، ایک طرف خود انہوں نے چھ جماعتی اتحاد بنایا مگر اُسکی کسی جماعت کو ’’فائنل کال‘‘ دینے سے پہلے اعتماد میں نہیں لیا۔ آخر محمود خان اچکزئی کہاں ہیں۔ اختر مینگل استعفیٰ دے کر لاپتہ ہو گئے اور اس سب پر پی ٹی آئی میں خاموشی۔ خان کی تنہائی کی ایک اور وجہ اُن کے بہت سے با اعتماد ساتھیوں کا مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ جانا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اب وہ اُن پر بھی اعتماد نہیں کر رہے جنکو انہوں نے خود نامزد کیا اور بڑے عہدے دیئے، اسی لیے آج خود اُنکی اہلیہ بشریٰ بی بی اور بہن عملی طور پر سیاست میں آگئی ہیں اور پارٹی میں کوئی عہدہ نہ ہوتے ہوئے بھی ’’فائنل کال‘‘ کا اعلان علیمہ خان نے کیا۔ دوسری طرف حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ اُس کی ’’ساکھ‘‘ ہے۔ یہ بہرحال 2014ء نہیں ہے حالانکہ اُس وقت بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔ وزیراعظم نواز شریف تھے مگر عمران 126 دن ڈی چوک پر دھرنا دیے بیٹھے رہے اور بات ایک عدالتی کمیشن پر ختم ہوئی کمیشن نے دھاندلی کے الزامات مسترد کر دیئے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اُس وقت دھرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی گئی کیا ا س لیے کہ کل مقتدرہ کی واضح حمایت پی ٹی آئی کو حاصل تھی اورآج معاملہ اُسکے برعکس ہے جس کی ایک بڑی وجہ بادی النظر میں 9 مئی کے واقعات ہیں۔
اس بات کو 17 ماہ گزر چکے ہیں اور مقدمات چلنے کا نام ہی نہیں لے رہے بلکہ آج بھی اس پر سیاست ہی ہو رہی ہے البتہ خود فوج کے اندر بہت سے افسران کے خلاف کارروائی ضرور ہوئی اور سُنا ہے سابق ISI چیف جنرل فیض حمید کیخلاف بھی تادیبی کارروائی ہونے والی ہے۔ ایسے میں عمران اور پی ٹی آئی کے احتجاج کا رخ موجودہ حکومت سے زیادہ مقتدرہ کی طرف نظر آتا ہے جو اخباری اطلاعات کے مطابق کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے کو تیار نہیں۔ کسی بھی احتجاجی تحریک میں چند باتیں بہت اہم ہوتی ہیں۔ تنظیم، اتحاد، نظریہ، جذبہ، حکمتِ عملی، اپنے مخالف کی طاقت کا اندازہ لگانا، حامیوں اور کارکنوں کو بڑی تعداد میں باہر نکالنا، گرفتاریوں کی صورت میں قانونی ٹیم کا کردار، مذاکرات کی صورت میں لچک دکھانا اور مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کی صورت میں آئندہ کی نظرثانی حکمتِ عملی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ احتجاج کی کال ایک ایسے ��قت دی گئی ہے جب ریاست اور حکومت کی واضح پالیسی ’’احتجاج‘‘ کو ہر طرح سے روکنا اور سختی کرنا بشمول گرفتاری اور اسلام آباد کو مکمل طور پر سیل کرنا ہے۔ اب اگر دھرنا سڑکوں یا ہائی وے پر دیا جاتا ہے تو اس سرد اور اسموگ والے موسم میں رکنا آسان نہ ہو گا۔
2014ء کے دھرنے کی طرح وہ سہولتیں میسر نہیں ہوں گی۔ البتہ حکومت یا قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے طاقت کا ضرورت سے زیادہ استعمال معاملات کو خراب کر سکتا ہے۔ اگر تحریک انصاف کوئی غیر معمولی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہتی ہے تو آنے والے وقت میں اس کی مشکلات میں اضافے کا امکان ہے۔ ایسے میں عمران کی ’’سیاسی تنہائی‘‘ انہیں نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بہتر ہوتا اگر اس ’’کال‘‘ کا اعلان وہ اتحاد کرتا جو بنا ہی اس مقصد کیلئے تھا۔ اگر اس احتجاج میں جے یو آئی اور جے آئی بھی یا دونوں میں سے ایک بھی شامل ہوتی تو احتجاج کو ’’سولو فلائٹ‘‘ نہ کہا جاتا۔ تاہم عمران کو شاید اپنے ووٹرز اور حامیوں سے یہ توقع رہی ہے اور اب بھی خاصی حد تک ہے کہ 8 فروری کی طرح باہر نکلیں گے۔ خان نے ’’مذاکرات‘‘ کے دروازے خاص طور پر مقتدرہ کیلئے بند نہیں کیے مگر اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ دوسری طرف سے دروازہ کھولنے ہی کوئی نہیں آ رہا۔ البتہ پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں کا خیال ہے کہ بہتر ہوتا اگر اعلان مکمل تیاریوں کے بعد ہوتا، تاہم جو لوگ ’’مارو یا مرجاؤ‘‘ والی باتیں کرتے رہے ہیں انہیں خدشہ تھا کہ جس طرح کے بعض ’’مخبر‘‘ پارٹی میں ہیں سارا پلان لیک ہو جاتا۔
خاص حد تک بانی اس دوسرے نقطہ نظر سے متفق نظر آتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اب سیاسی حکمتِ عملی میں اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی اور بہن علیمہ خان پر سیاسی طور پر زیادہ اعتماد کرنا شروع کر دیا ہے جس پر انہیں اِس تنقید کا بھی سامنا ہے کہ وہ سیاست میں موروثیت کے سب سے بڑے مخالف ہو کر اُسی طرف رُخ کر رہے ہیں۔ باقی ہمیں 24نومبر سے پہلے اور بعد میں اس کا پتہ چلے گا کہ یہ بات کس حد تک اُن پر تنقید کرنیوالوں کی درست ہے یا اُن کا اپنا موقف، اس کا اصل امتحان اُس وقت ہوگا جب خان رہا ہو کر باہر آئیں گے۔ اگر انہیں لمبی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو بشریٰ بی بی یا علیمہ خان کا رول ویسا ہی ہو سکتا ہے جو 1978ء میں بیگم نصرت بھٹو یا جنرل مشرف دور میں بیگم کلثوم نواز کا تھا البتہ سیاسی کرداروں کی نوعیت الگ الگ ہے۔ اب کوئی مانے یا نہ مانے پی ٹی آئی میں کچھ کچھ تو موروثیت آتی نظر آ رہی ہے۔ بدقسمتی سے سائوتھ ایشیا میں جمہوریت اور سیاست میں یہ رجحان آنے کی بڑی وجہ کہیں مقبول رہنمائوں کا قتل یا ان پر زبان بندی رہا ہے جسکے باعث عوام کی ہمدردی پارٹی سے زیادہ خاندان سے ہوتی ہے۔
ایک ایسے موقع پر جب بانی پی ٹی آئی کے گرد گھیرا تنگ ہوتا نظر آرہا ہے وہ ’’فائنل کال‘‘ دے کر اپنے حامیوں سے 8 فروری جیسے رد عمل کی اُمید لگا بیٹھے ہیں۔ ناکامی کی صورت میں اہلیہ اور بہن کا کردار مزید بڑھ سکتا ہے۔ جب پارٹی کے لوگ ’’بک‘‘ جاتے ہیں تو گھر والوں پر ہی بھروسہ کرنا پڑتا ہے بقول جاوید صبا
کوئی دین نا ایمان کون لوگ ہو تم کبھی کسی کی طرف ہو کبھی کسی کی طرف
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes