#کورٹ
Explore tagged Tumblr posts
Text
پی ٹی آئی احتجاج کیخلاف درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنا دیا
(احتشام کیانی)پی ٹی آئی کا اسلام آباد میں احتجاج رکوانے کیلئے دائر درخواست پر تحریری حکمنامہ جاری کردیاگیا،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے تحریری حکمنامہ جاری کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کیلئے کمیٹی بنانے کی ہدایت کردی، عدالت نے کہاکہ مناسب ہو گا کہ حکومت وزیرداخلہ یا کسی اورشخص کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے، حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی پی ٹی…
0 notes
Text
الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے کا پابند ہے، سپریم کورٹ کی مخصوص نشستوں کے کیس میں دوسری وضاحت
(24نیوز)مخصوص نشستوں کے کیس پر سپریم کورٹ کے اکثریتی 8 ججز نے ��وسری مرتبہ وضاحت جاری کر دی ہے۔ الیکشن کمیشن کی درخواست پر سپریم کورٹ سے دوسری وضاحت دی گئی ہے،اکثریتی ججز کے مطابق الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے 12 جولائی کا فیصلہ غیر مؤثر نہیں ہو سکتا، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ماضی سے اطلاق کو وجہ بنا کر فیصلہ غیر مؤثر نہیں ہوسکتا، لہٰذا، مختصر حکمنامے کے بعد الیکشن ایکٹ میں کی جانے والی ترامیم کا…
0 notes
Text
اسلام آباد ہائی کورٹ : الیکشن ٹریبیونل تبدیلی کا آرڈر معطل، انجم عقیل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری
اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا اسلام آباد کے انتخابی ٹربیونل تبدیلی کا آرڈر معطل کردیا جب کہ مسلم لیگ نوازکے رکن قومی اسمبلی انجم عقیل خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے معافی مانگ لی تاہم ہائی کورٹ نے انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے الیکشن ٹربیونل کی تبدیلی کے خلاف درخواست پر سماعت کی، سماعت میں مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی انجم…
View On WordPress
0 notes
Text
Dr abdussalam, supreme court mubarak sani case ka faisla shia zakir
Dr abdussalam, supreme court mubarak sani case ka faisla shia zakir
youtube
View On WordPress
1 note
·
View note
Text
سپریم کورٹ نے سانحہ جڑانوالہ پر پنجاب حکومت کی رپورٹ مسترد کردی، رپورٹ دیکھ کر شرمندگی ہو رہی ہے، چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے جڑانوالہ واقعے سے متعلق پنجاب حکومت کی رپورٹ مسترد کر دی۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ پنجاب حکومت کی رپورٹ ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے قابل ہے، جڑانوالہ واقعے سے متعلق یہ رپورٹ دیکھنے کے بعد شرمندگی ہو رہی ہے۔ دوسری جگہوں پر جا کر اسلاموفوبیا پر ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور خود کیا کر رہے ہیں؟ کیا بھارت میں غیرمسلموں پرہونےوالاظلم یہاں کرناچاہتےہیں؟بہادرپنجاب پولیس نےچرچ کو…
View On WordPress
0 notes
Text
ھمارا پھر سے جھگڑا ہوا اور میں ہمیشہ کی طرح اپنا بچہ اٹھا کر اپنے میکے چلی ائی دو دن بعد مجھے خبر ملی کہ میرے شوہر ہسپتال میں ہیں میرے گھر والوں نے مشورہ دیا کہ مجھے انہیں دیکھنے جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ میری بہنوں کا کہنا تھا کہ یہ سب ڈرامہ ہے تمہیں ایموشنلی بلیک میل کرنے کیلئے وہ ایک ہفتہ ہسپتال میں رھے نہ میں ملنے گئی اور نہ ہی کال کی کچھ دنوں کی بعد مجھے طلاق کا سامان ملا مجھے طلاق نہیں چاہیے تھی مجھے اپنے شوہر سے محبت تھی میں اپنا گھر خراب نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن میری انا اڑے ا رہی تھی مجھے لگا کہ طلاق معنہ کر کے میں نیچی ھو جاو گی میں نے انہیں کال کی کہ جب چاہیں طلاق لے لیں میں بھی اس جہنم میں نہیں رہنا چاہتی کورٹ نے ہمارا کیس اسانی سے نمٹ گیا میرے شوہر نے میری ساری ڈیمانڈز بچے کی کسٹڈی اور خرچہ دینا قبول کر لیا ان کا کہنا تھا کہ وہ میری سب باتیں ماننے کے لیے تیار ہیں آنھیں صرف طلاق چاہیے اس طرح میری طلاق ہو گئی میرے شوہر نے کچھ عرصے بعد دوسری شادی کر لی آنکے بچے بھی ہو گئے لیکن میرے بچے سے ملنے اکثر اتے ہیں اس کی ہر ضرورت کا خیال کرتے ہیں بچے کا خرچہ بھی مجھے پابندی سے ملتا ہےبلکہ میرا گزارا بھی انہیں پیسوں سے ہوتا ہے میں اپنے بچے کے ساتھ میکے میں رہتی ہوں میرے تمام بہن بھائیوں اپنی اپنی زندگی میں خوش میری وہ بہنیں ہے جو فون کر کے میرے شوہر کو باتیں سنایا کرتی تھی وہ اب مجھے غلط الزام ٹھہراتی ہیں مجھے اب احساس ہوتا ہے کہ میں اپنی شادی بچا سکتی تھی اگر میں نے ہر بات میں دوسروں کو نہ انوالو کیا ہوتا کبھی کبھی ہمارے خیر خواہ ہی ہمیں ڈبوتے ہیں میں ابھی بھی یہ نہیں کہہ رہی کہ میرے شوہر یا میری غلط ہی نہیں تھی لیکن ہمارے جھگڑے اتنے بڑے نہیں تھے جن کی وجہ سے طلاق لے جاتی یہ میری درخواست سارے کپل سے کہ جہاں تک ہو سکے اپنے معاملے خود نمٹائیں اپ کا خود سے بڑھ کر کوئی خیر خوا نہیں
5 notes
·
View notes
Text
عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا جس سے ان کے سیاسی کیریئر کو ایک نیا دھچکا لگا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان میں حزب اختلاف کے اہم رہنما عمران خان کو اس سال کے آخر میں متوقع قومی انتخابات سے قبل اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے لیے ایک طویل قانونی جنگ کا سامنا ہے۔ اس قانونی جنگ کے بارے میں کئی اہم سوالات ہیں جن کا جواب عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
کیا عمران خان کا سیاسی کیریئر ختم ہو چکا؟ قانون کے مطابق اس طرح کی سزا کے بعد کوئی شخص کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔ نااہلی کی مدت کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ قانونی طور پر اس نااہلی کی مدت سزا کی تاریخ سے شروع ہونے والے زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہو سکتے ہیں لیکن سپریم کورٹ اس صورت میں تاحیات پابندی عائد کر سکتی ہے اگر وہ یہ فیصلہ دے کہ وہ بے ایمانی کے مرتکب ہوئے اور اس لیے وہ سرکاری عہدے کے لیے ’صادق ‘ اور ’امین‘ کی آئینی شرط پورا نہیں کرتے۔ اس طرح کا فیصلہ 2018 میں تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خلاف دیا گیا تھا۔ دونوں صورتوں میں عمران خان کو نومبر میں ہونے والے اگلے عام انتخابات سے باہر ہونے کا سامنا ہے۔ عمران خان کا الزام ہے کہ ان کی برطرفی اور ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن میں عسکری عہدیداروں کا ہاتھ ہے۔ تاہم پاکستان کی فوج اس سے انکار کرتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے رہنماؤں کی مثالیں موجود ہیں جو جیل گئے اور رہائی کے بعد زیادہ مقبول ہوئے۔ نواز شریف اور ان کے بھائی موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف دونوں نے اقتدار میں واپس آنے سے پہلے بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں وقت گزارا۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی جیل جا چکے ہیں۔
عمران خان کے لیے قانونی راستے کیا ہیں؟ عمران خان کے وکیل ان کی سزا کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گے اور سپریم کورٹ تک ان کے لیے اپیل کے دو مراحل باقی ہیں۔ سزا معطل ہونے کی صورت میں انہیں کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ اگر ان سزا معطل کر دی جاتی ہے تو عمران خان اب بھی اگلے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کو مجرم ٹھہرانے کے فیصلے کو بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں دیا گیا اور انہیں اپنے گواہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن سزا سنانے والی عدالت نے کہا ہے کہ عمران خان کی قانونی ٹیم نے جو گواہ پیش کیے ان کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔ بار بار طلب کیے جانے کے باوجود کئی ماہ تک عدالت میں پیش ہونے سے عمران خان کے انکار کے بعد عدالت نے مقدمے کی سماعت تیز کر دی تھی۔ تاہم توشہ خانہ کیس ان پر بنائے گئے 150 سے زیادہ مقدمات میں سے صرف ایک ہے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ مقدمات میں دو بڑے مقدمات شامل ہیں جن میں اچھی خاصی پیش رفت ہو چکی ہے انہیں زمین کے معاملے میں دھوکہ دہی اور مئی میں ان کی گرفتاری کے بعد فوجی تنصیبات پر حملوں کے لیے اکسانے کے الزامات کا سامنا ہے۔ امکان یہی ہے کہ انہیں ایک عدالت سے دوسری عدالت میں لے جایا جائے گا کیوں کہ وہ تین سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
عمران خان کی پارٹی کا کیا ہو گا؟ عمران خان کے جیل جانے کے بعد ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت اب سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں۔ نو مئی کے تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد کئی اہم رہنماؤں کے جانے سے پارٹی پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہے اور بعض رہنما اور سینکڑوں کارکن تاحال گرفتار ہیں۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف مقبول ہے لیکن سروے کے مطابق یہ زیادہ تر عمران خان کی ذات کے بدولت ہے۔ شاہ محمود قریشی کے پاس اس طرح کے ذاتی فالوورز نہیں ہیں اور تجزیہ کاروں کے مطابق وہ کرکٹ کے ہیرو کی طرح تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہوں گے۔ ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے پر پابندی کے بعد بھی عمران خان نے اپنے حامیوں کے ساتھ مختلف سوشل میڈیا فورمز جیسے ٹک ٹاک ، انسٹاگرام، ایکس اور خاص طور پر یوٹیوب تقریبا روزانہ یوٹیوب تقاریر کے ذریعے رابطہ رکھا تھا لیکن اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات میں ان کی پارٹی کو کامیابی ملی تو وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں۔
روئٹرز
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes
·
View notes
Text
کراچی میں نئی بسوں کی آمد؟
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے ۔ میں نے اپنی صحافت کا آغاز ہی بلدیاتی رپورٹنگ سے کیا تھا۔ اُس زمانے میں شام کے اخبارات شہری مسائل پر زیادہ توجہ دیتے تھے چاہے وہ پانی کا مسئلہ ہو، ٹرانسپورٹ کے مسائل ہوں یا شہر کا ’’ماسٹر پلان‘‘۔ کرائمز کی خبریں اس وقت بھی سُرخیاں بنتی تھیں مگر اُن کی نوعیت ذرا مختلف ہوتی تھی۔ مجھے میرے پہلے ایڈیٹر نے ’’ٹرانسپورٹ‘‘ کی خبریں لانے کی ذمہ داری سونپی، ساتھ میں کرائمز اور کورٹ رپورٹنگ۔ اب چونکہ خود بھی بسوں اور منی بسوں میں سفر کرتے تھے تو مسائل سے بھی آگاہ تھے۔ یہ غالباً 1984ء کی بات ہے۔ جاپان کی ایک ٹیم شہر میں ان مسائل کا جائزہ لینے آئی اور اُس نے ایک مفصل رپورٹ حکومت سندھ کو دی جس میں شہر میں سرکلر ریلوے کی بہتری کیساتھ کوئی پانچ ہزار بڑے سائز کی بسیں بشمول ڈبل ڈیکر لانے کا مشورہ دیا اور پرانی بسوں اور منی بسوں کو بند کرنے کا کیونکہ ان کی فٹنس نہ ہونے کی وجہ سے شدید آل��دگی پھیل رہی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غالباً ٹرام یا تو ختم ہو گئی تھی یا اُسے بند کرنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ اُس وقت کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے سربراہ چوہدری اسماعیل ہوتے تھے جن کے ماتحت کئی پرائیویٹ بسیں چلتی تھیں اور اُن کی گہری نظر تھی۔ اِن مسائل پر وہ اکثر کہتے تھے ’’ شہر جس تیزی سے پھیل رہا ہے ہم نے اس لحاظ سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہ کیا تو بات ہاتھوں سے نکل جائے گی‘‘۔
کوئی چالیس سال بعد مجھے یہ نوید سُنائی جا رہی ہے کہ اب انشا ءالله کئی سو نئی بسیں اور ڈبل ڈیکر بسیں بھی آرہی ہیں۔ مگر مجھے خدشہ ہے کے اِن ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر یہ بسیں کیسے چلیں گی مگر خیر اب یہ بسیں آ رہی ہیں لہٰذا ان کا ’’خیر مقدم‘‘ کرنا چاہئے۔ میں نے حیدر آباد اور کراچی میں ڈبل ڈیکر بسوں میں سفر کیا ہے پھر نجانے یہ کیوں بند کر دی گئیں۔ ایک مضبوط کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے تحت بڑی بڑی بسیں چلا کرتی تھیں جن کے شہر کے مختلف علاقوں میں ٹرمینل ہوتے تھے۔ اس کے اندر جس طرح لوٹ مار کی گئی اُس کی کئی خبریں میں نے ہیڈ لائن میں دی ہیں اور اچانک یہ بند ہو گئیں کیوں اور کیسے؟ پھر وہ بسیں کہاں گئیں ٹرمینلز کی زمینوں کا کیا بنا۔ ایسا ہی کچھ حال سرکلر ریلوے کا ہوا ورنہ تو یہ ایک بہترین سروس تھی، اب کوئی دو دہائیوں سے اس کی بحالی کی فائلوں پر ہی نجانے کتنے کروڑ خرچ ہو گئے۔ اس سارے نظام کو بہتر اور مربوط کیا جاتا تو نہ آج کراچی کی سڑکوں پر آئے دن ٹریفک جام ہوتا نہ ہی شہر دنیا میں آلودگی کے حوالے سے پہلے پانچ شہروں میں ہوتا۔
قیام پاکستان کے بعد بننے والا ’’کراچی ماسٹر پلان‘‘ اُٹھا لیں اور دیکھیں شہر کو کیسے بنانا تھا اور کیسا بنا دیا۔ ماسٹر پلان بار بار نہیں بنتے مگر یہاں تو کیونکہ صرف لوٹ مار کرنا تھی تو نئے پلان تیار کئے گئے۔ میں نے دنیا کے کسی شہر میں اتنے بے ڈھنگے فلائی اوور اور انڈر پاس نہیں دیکھے جتنے اس معاشی حب میں ہیں۔ عروس البلاد کراچی کی ایک دکھ بھری کہانی ہے اور یہ شہر ہر لحاظ سے اتنا تقسیم کر دیا گیا ہے کہ اسکی دوبارہ بحالی ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ تاہم خوشی ہے کہ وزیر اطلاعات نے رنگ برنگی اے سی بسیں لانے کا وعدہ کیا ہے جن کا کرایہ بھی مناسب اور بکنگ آن لائن۔ یہ ��ب کراچی ماس ٹرانسزٹ کا حصہ تھا جو کوئی 30 سال پہلے بنایا گیا تھا۔ اُمید ہے یہ کام تیزی سے ہو گا کیونکہ جو حال پچھلے پانچ سال سے کراچی یونیورسٹی روڈ کا ہے اور وہ بھی ایم اے جناح روڈ تک، اللہ کی پناہ۔ شہر کی صرف دو سڑکیں ایم اے جناح روڈ اور شاہراہ فیصل، چلتی رہیں تو شہر چلتا رہتا ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ چند سال پہلے ہی جیل روڈ سے لے کر صفورہ گوٹھ تک جہاں جامعہ کراچی بھی واقع ہے ایک شاندار سڑک کوئی ایک سال میں مکمل کی گئی، بہترین اسٹریٹ لائٹس لگائی گئیں جس پر ایک ڈیڑھ ارب روپے لاگت آئی اور پھر... یوں ہوا کہ اس سڑک کو توڑ دیا گیا۔ اب اس کا حساب کون دے گا۔
اگر ایک بہتر سڑک بن ہی گئی تھی تو چند سال تو چلنے دیتے۔ ہمیں تو بڑے پروجیکٹ بنانے اور چلانے بھی نہیں آتے صرف ’’تختیاں‘‘ لگوا لو باقی خیر ہے۔ دوسرا بسوں کا جال ہو یا پلوں کی تعمیر یہ کام دہائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کئے جاتے ہیں اس شہر کا کھیل ہی نرالا ہے یہاں پلان تین سال کا ہوتا ہے مکمل 13 سال میں ہوتا ہے۔ میں نے کئی بار شرجیل میمن صاحب کو بھی اور خود وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ صاحب کو بھی کہا کہ سڑکوں کا کوئی بڑا پروجیکٹ ہو، کوئی فلائی اوور یا انڈر پاس تو سب سے پہلے سائیڈ کی سڑکوں کو اور متبادل راستوں کو بہتر کیا جاتا ہے اور سڑکوں کی تعمیر یا مرمت سے پہلے متعلقہ اداروں سے پوچھا جاتا ہے کہ کوئی لائن و غیرہ تو نہیں ڈالنی؟ یہاں 80 فیصد واقعات میں واٹر بورڈ، سوئی گیس اور کے الیکٹرک والے انتظار کرتے ہیں کہ کب سڑک بنے اور کب ہم توڑ پھوڑ شروع کریں۔ اب دیکھتے ہیں ان نئی بسو ں کا مستقبل کیا ہوتا ہے کیونکہ 70 فیصد سڑکوں کا جو حال ہے ان بسوں میں جلد فٹنس کے مسائل پیدا ہونگے۔ مگر محکمہ ٹرانسپورٹ ذرا اس کی وضاحت تو کرے کہ چند سال پہلے جو نئی سی این جی بسیں آئی تھیں وہ کہاں ہیں کیوں نہیں چل رہیں اور ان پر لاگت کتنی آئی تھی۔
اگر یہ اچھا منصوبہ تھا تو جاری کیوں نہ رکھا گیا اور ناقص تھا تو ذمہ داروں کو سزا کیوں نہ ملی۔’’خدارا‘‘، اس شہر کو سنجیدگی سے لیں۔ ریڈ لائن، اورنج لائن، گرین لائن اور بلیو لائن شروع کرنی ہے تو اس کام میں غیر معمولی تاخیر نہیں ہونی چاہئے مگر اس سب کیلئے ٹریک بنانے ہیں تو پہلے سائیڈ ٹریک بہتر کریں ورنہ ایک عذاب ہو گا، یہاں کے شہریوں کیلئے بدترین ٹریفک جام کی صورت میں۔ سرکلر ریلولے بحال نہیں ہو سکتی اس پر پیسہ ضائع نہ کریں۔ اس کی وجہ سرکار بہتر جانتی ہے۔ جب بھی میں یا کوئی شہر کے مسائل کے حل کے اصل مسئلے پر آتا ہے تو اُسے سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈیفنس والے بھی خوش نہیں ہوتے ایک ’’میٹرو پولیٹن سٹی‘‘، ایک میئر کے انڈر ہوتی ہے۔ اُس کی اپنی لوکل پولیس اور اتھارٹی ہوتی ہے۔ کیا وقت تھا جب ہم زمانہ طالب علمی میں نارتھ ناظم آباد کے حسین ڈسلوا ٹائون کی پہاڑیوں پر جایا کرتے تھے، ہاکس بے ہو یا سی ویو پانی اتنا آلودہ نہ تھا، بو نہیں مٹی کی خوشبو آتی تھی۔ جرم و سیاست کا ایسا ملاپ نہ تھا۔ اس شہر نے ہم کو عبدالستار ایدھی بھی دیئے ہیں اور ادیب رضوی بھی۔ اس شہر نے سب کے پیٹ بھرے ہیں اور کچھ نہیں تو اس کو پانی، سڑکیں اور اچھی بسیں ہی دے دو۔ دُعا ہے نئی بسیں آئیں تو پھر غائب نہ ہو جائیں، نا معلوم افراد کے ہاتھوں۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
جسٹس یحییٰ آفریدی کیلئے چیلنجز؟
یحییٰ آفریدی پاکستان کے نئے چیف جسٹس بن گئے۔ اُنکے ماضی اور اُنکی شہرت کے بارے میں سب جانتے ہیں لیکن اُن کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے جس کا نتیجہ تین سال کے بعد نکلے گا جب وہ ریٹائر ہونگے اور جس کی بنیاد پر اُنہیں یاد رکھا جائے گا، اُن کے پاس ہونے یا فیل ہونے کا فیصلہ ہو گا۔ ججوں نے سیاست بہت کر لی، آزادی اور ’نہ جھکنے والے، نہ ڈرنے والے‘ سچے یا جھوٹے تاثر کے تمغے بھی کچھ نے اپنے سینوں پر سجا لیے اور کچھ یہ تمغے سجانے کیلئے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے فیصلوں میں شیکسپیئرن انگریزی لکھنے، انگریزی ناولوں کا ذکر کرنے اور یہ تاثر دینے کہ میرے جیسا کوئی نہیں کا مقابلہ بھی دیکھ چکے۔ اب خدارا اپنا بنیادی کام بھی کر لیں۔ نئے چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ عدلیہ کو اپنے اصل کام یعنی عوام کو جلد اور سستا انصاف دینے پر بھی لگا دیں۔ اب ٹی وی چینل کے ٹِکرز اور بریکنگ نیوز کو بھول کر اس ملک کے عوام کو انصاف دیں۔ لاکھوں مقدمات جو عدالتوں میں سالہا سال اور دہائیوں سے پڑے ہیں اُن کا فیصلہ کریں۔ لوگ جو کورٹ کچہری کا نام سن کر ڈرتے ہیں اُن کا پاکستان کے عدالتی نظام پر اعتماد بحال کریں۔
ہمیں سیاسی جج نہیں چاہئے، ہمیں وہ جج چاہیے جو عوام کو جلد انصاف دے۔ یہ وہ اصل چیلنج ہے جس کا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو سامنا ہے۔ پاکستان کی عدلیہ پر کسی کو اعتماد نہیں۔ اگر ایک طرف عوام اپنے عدالتی نظام سے بہت مایوس ہیں تو دوسری طرف دنیا بھر میں بھی ہماری عدلیہ آخری نمبروں پر آتی ہے۔ چند روز قبل رول آف لا کی رپورٹ برائے سال 2024ء میں 142 ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 129واں رہا۔ جس کا مطلب ہے کہ ہمارا حال بہت ہی بُرا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے جس طرح ہماری اعلیٰ عدلیہ خصوصاً سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج ایک دوسرے کو اپنے عدالتی فیصلوں اور خطوط کے ذریعے نشانہ بنا رہے ہیں اُس کی وجہ سے عدالت ِعظمیٰ اور اس کے ججز کے احترام میں بہت کمی ہوئی ہے۔ اس نے ججوں اور اعلیٰ عدلیہ پر لوگوں کو جگ ہنسائی کا موقع فراہم کیا ہے۔ یعنی جج خود اپنے آپ کا اور عدلیہ کے مذاق کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ایسے خط (جن کو فوری طور پر میڈیا کو لیک کیا جاتا ہے) لکھنے کا رواج سابق چیف جسٹس قا��ی فائز عیسٰی نے شروع اور اب تو اتنا رواج پا چکا ہے کہ آئے روز ایک جج دوسرے جج کی پوری دنیا کے سامنے ایسی تیسی کر رہا ہوتا ہے۔
قاضی فائز عیسٰی کی ریٹائرمنٹ کے روز جسٹس منصور علی شاہ نے جو خط لکھا اور اُس میں جس قسم کی زبان استعمال ہوئی اُسے پڑھ کر افسوس بھی ہوا۔ اس خط میں جسٹس منصور نے قاضی فائز عیسٰی کی ایسی تیسی کی جس پر بہت سے لوگ خوش ہوئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے اس بات پر حیران بھی ہوئے کہ جسٹس منصور نے یہ کیا خط لکھا، کیسی زبان استعمال کی اور کس موقع پر ایسا کیا۔ کسی کیلئے اس خط نے اگر فائز عیسیٰ کو ایکسپوزکیا تو دوسروں کیلئے ایسا کرنے سے جسٹس منصور خود ایکسپوز ہو گئے۔ بہت اچھا ہو کہ نئے چیف جسٹس اعلیٰ عدلیہ میں اس رجحان کے خاتمے کیلئے کوئی اقدام اُٹھائیں اور ایسے خطوط کو لکھ کر اُنہیں میڈیا کو لیک کرنے پر فوری پابندی لگائیں۔ آپس کے اختلافات کو بند کمرے میں آپس میں بیٹھ کر حل کریں بجائے اس کے کہ دنیا بھر کے سامنے اپنا ہی تماشہ بنواتے رہیں۔ کچھ عرصہ سے ہماری اعلیٰ عدلیہ خصوصاً سپریم کورٹ بہت بُری طرح سے تقسیم ہے۔ جج سیاست دانوں سے زیادہ سیاسی بن چکے ہیں۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا یہ بھی چیلنج ہو گا کہ وہ کس طرح ججوں کو سیاست سے پاک کرتے ہیں۔ جس نے سیاست کرنی ہے وہ جج کے عہدے سے استعفیٰ دے اور کھل کر سیاست کر لے۔ جج ہو اور اُسے دیکھ کر ہی پتا چل جائے کہ یہ کس سیاسی جماعت کے حق میں اور کس سیاسی جماعت کے خلاف فیصلہ کرے گا تو پھر ایسے ججوں کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ آیا وہ اپنے کام اور اپنے حلف سے انصاف کر رہے ہیں کہ نہیں۔ ایسے جج اگر اپنی سیاست نہیں چھوڑتے تو اُن کیلئے عدلیہ کی بجائے باقاعدہ سیاست کے میدان کا راستہ ہموار کرنے کا ��ریقہ کار بھی نئے چیف جسٹس کو سوچنا چاہیے تاکہ ہماری عدالتوں میں منصفوں کی جگہ کوئی سیاستدان نہ بیٹھا ہو۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
سپریم کورٹ کاچھ رکنی آئینی بنچ آج سےمقدمات کی سماعت کرے گا
(امانت گشکوری)سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6رکنی آئینی بنچ آج سے مقدمات کی سماعت کریگا۔ سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی آئینی بنچ میں جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔ اس بنچ میں مختلف آئینی مقدمات کی سماعت ساڑھے 9بجےعدالت نمبر 3 میں ہوگی،آج ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی…
0 notes
Text
سپریم کورٹ بار کے سالانہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان
(ملک اشرف)سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات کی تاریخ کااعلان کر دیا گیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ بار الیکشن کیلئے وائس چیئرمین پنجاب بارکونسل کا بطور پریزائیڈنگ افیسر تقرر کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے ،جبکہ انتخابات کیلئے 31 اکتوبر کا دن مقرر کیا گیا ہے ،وائس چیئرمین پنجاب بارکونسل 31 اکتوبر کو الیکشن ڈے پر بطور پریزائڈنگ افیسر فرائض سر انجام دیں گے ،سپریم کورٹ بار کے…
0 notes
Text
سپریم کورٹ:آئینی بینچز 14 نومبر سے سماعت کا آغاز کریں گے
سپریم کورٹ میں آئینی بینچزکی کمیٹی نےآئینی بینچ کےسامنے مقدمات مقرر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، آئینی بینچز14نومبر سے سماعت کاآغاز کریں گے۔ سپریم کورٹ میں آئینی بینچز کی کمیٹی کااجلاس ہوا،ذرائع کےمطابق جسٹس محمد علی مظہ نےٹیلی فون پراجلاس میں شرکت کی۔ آئینی بینچ کے سامنے مقدمات مقرر کرنےکافیصلہ اجلاس میں آئینی بینچ کے سامنے مقدمات مقرر کرنےکافیصلہ کیا گیا،ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی بینچز14نومبر…
0 notes
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chhatrapati Sambhajinagar
Date: 30 October-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ: ۳۰؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء
وقت: ۱۰:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ اسمبلی انتخابات کیلئے داخل کردہ کاغذاتِ نامزدگی کی آج ہوگی چھان بین ، 4 نومبر تک امیدواری عریضے واپس لینے کی مہلت۔
٭ ریاست بھر کے 288 انتخابی حلقوں میں سات ہزار 995 خواہشمندوں کی جانب سے 10 ہزار 905 امیدواری درخواستیں جمع۔
٭ معروف ادیبہ ڈاکٹر وینا دیو کا انتقال ؛ پونے میں آخری رسومات ادا۔
٭ شریعت کونسل کو طلاق نامہ جاری کرنے کا اختیار نہیں ؛ مدراس ہائی کورٹ کی مدورائی بنچ کا فیصلہ۔
٭ صحت مند و خوشحال زندگی کا پیغام دینے والا دھن تریودَشی کا تہوار ہر طرف جوش و خروش سے منایا گیا۔
اور
٭ تیسرے ایک روزہ کرکٹ میچ میں نیوزی لینڈ کو شکست دے کر بھارتی خواتین کی ٹیم نےسیریز جیت لی۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
ریاستی اسمبلی کے عام انتخابات کیلئے جمع کیے گئے امیدواروں کے عریضوں کی آج چھان بین کی جائیگی‘ جبکہ انتخابی مید ان میں موجوداہل امیدوار آئندہ 4 نومبر تک اپنی امید واری واپس لے سکتے ہیں۔
دریں اثناء گزشتہ روز درخواست دہی کے آخری دن متعدد امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ۔ مرکزی انتخابی افسر کے دفتر سے موصولہ اطلاع کے مطابق ریاست بھر میں 288 انتخابی حلقوں سے مجموعی طور پر سات ہزار 995 امیدواروں نے جملہ 10 ہزار 995 درخواستیں داخل کی ہیں۔
چھترپتی سمبھاجی نگر ضلعے میں کل 368 نامزدگی درخواستیں داخل کی گئیں۔ سابق رکن پارلیمان سیّد امتیاز جلیل نے اورنگ آباد مشرقی حلقے سے اپنا امیدواری عریضہ داخل کیا۔ انھوں نے وضاحت کی کہ مجلس اتحادالمسلمین اسمبلی انتخابات پر پور ی توجہ مرکوز کررہی ہے جس کے سبب پارٹی نے ناندیڑ لوک سبھا ضمنی انتخاب میں نہ اُترنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
اورنگ آباد مغربی حلقے سے مہا یوتی کے سنجے شرساٹ، اورنگ آباد وسطی حلقے سے مہا وِکاس آگھاڑی کے بالاصاحب تھورات اور سلوڑ۔ سوئیگاؤں حلقے سے مہایوتی کے نامزد امیدو ار عبدالستار نے کل اپنے کاغذاتِ نامزدگی د اخل کیے۔ اورنگ آباد مشرقی حلقے سے مہاوکاس آگھاڑی کے پانڈورنگ تانگڑے، پیٹھن سے مہایوتی کے ولاس بھومرے ، جبکہ کنڑ سے مہایوتی کی سنجنا جادھو نے اپنی درخواستیں جمع کیں۔ کنڑ انتخابی حلقے سے سابق رُکنِ اسمبلی ہرش وردھن جادھو نے بھی آزاد امیدوار کے طور پر اپنا امیدو اری عریضہ د اخل کیا۔
دھاراشیو ضلعے کے چار انتخابی حلقوں میں کل 130 امیدواروں نے 179 امیدوار ی پرچے داخل کیے۔ اس طرح مہلت ختم ہونے تک ضلعے میں 185 امیدواروں نے 271 کاغذات نامزدگی داخل کیے ہیں۔
لاتور ضلعے کے چھ اسمبلی حلقوں میں کل 125 امیدواروں نے 173 امیدواری عریضے داخل کیے اور ضلع میں مجموعی طور پر 213 امیدواروں نے 301 درخواستیں داخل کی ہیں۔
ناندیڑ پارلیمانی نشست کے ضمنی انتخاب کیلئے کل 27 امیدواروں نے 34 عریضے جمع کیے اور مجمو عی طور پر 41 خواہشمندوں نے 56 درخواستیں داخل کی ہیں۔ ضلع کے نو اسمبلی حلقوں میں کل 388 درخواستیں داخل کی گئیں اور جملہ 515 امیدواروں نے 667 پرچہ نامزدگی داخل کیے ہیں۔
جالنہ ضلعے کے پانچ اسمبلی حلقوں میں 149 امیدواروں نے 208 درخواستیں داخل کیں ۔ جبکہ مہلت ختم ہونے تک 258 امیدواروں کی 382 درخواستیں داخل ہوئی ہیں۔
بیڑ ضلع کے چھ انتخابی حلقوں میں اب تک 409 امیدواروں نے 566 درخواستیں داخل کی ہیں، جبکہ پربھنی ضلع میں 189 امیدواروں نے 244 درخواستیں داخل کی ہیں ‘ ساتھ ہی ہنگولی ضلعے کے تینوں اسمبلی حلقوں میں کل 124 نامزدگی عریضے داخل کیے گئے ۔
اہلیا نگر ضلعے کے سنگم نیر انتخابی حلقے سے کانگریس کے بالا صاحب تھورات، شری رامپور حلقے سے کانگریس کے ہیمنت اوگلے نے کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے۔ اسی انتخابی حلقے سے موجودہ رکنِ اسمبلی لہو کانڑے کو کانگریس کی جانب سے امیدواری نہ دئیے جانے پرانھوں نے راشٹروادی کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے مہایوتی سے اپنا نامزدگی عریضہ داخل کیا۔
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر سے نشر کی جارہی ہیں۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات کی مناسبت سے، ’’آڑھاوا وِدھان سبھا متدار سنگھانچا‘‘ پرو گرام آکاشوانی سے روزانہ شام سات بجکر دس منٹ پر نشر کیا جا رہا ہے۔ اس پروگرام میں آج کےنشریے میں جالنہ اور بیڑ اضلاع کے اسمبلی حلقوں کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔
***** ***** *****
معروف ادیبہ ڈاکٹر وینا دیو کل پونے میں انتقال کرگئیں، وہ 75 برس کی تھیں۔ نامور شخصیات کے انٹرویوز اور دیگر خصوصی پروگراموں کے توسط سے وہ آکاشوانی سے بھی وابستہ رہ چکی ہیں۔ وہ پونے کے شاہو مندر کالج میں 32 سال تک تدریسی فر ائض انجام د یتی رہیں۔ وینا دیو، نے مختلف کتابیںبھی تصنیف کیں، جن میں سے کئی تصنیفات عوام میں کافی مقبول ہیں۔ اُن کے جسد خاکی پر گذشتہ شب پونے میں آخری رسومات ادا کر دی گئیں۔ ان کی انتقال پر سماج کے سبھی طبقات میں رنج و غم کا اظہار کیا جارہا ہے۔
***** ***** *****
شریعت کونسل کو طلاق نامہ جاری کرنے کا کوئی اختیار نہ ہونے کا فیصلہ مدراس عد الت ِ عالیہ نے صادر کیا ہے۔ خبر رساں ایجنسی کے مطابق مدورائی بنچ میں ایک مسلم جوڑے کی تین طلاق سے متعلق عرضی پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس جی آر سوامی ناتھن نے یہ فیصلہ سنایا ہے۔ بنچ کے مطابق‘ شریعت کونسل ایک نجی ادارہ ہے اور یہ ادارہ خاندانی اور مالی معاملات کو حل کر سکتا ہے۔ تاہم اس ادارے کو طلاق نامہ جاری کرنے یا جرمانہ عائد کرنے کا کوئی اختیار نہ ہونے کی وضاحت اس فیصلے میں کی گئی ہے۔
***** ***** *****
خوشیوں ا ور روشنی کے تہوار دیوالی میں دھن تریودَشی کل منایا گیا ۔ کل شام گھر گھر میں بھگوان دھنونتری کی پوجا کی گئی۔ دھنونتری دن اور نویں آیوروید دن کے موقع پر، وزیر اعظم نریندر مودی نے کل نئی دہلی میں صحت سے متعلق سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ ناسک کی ہیلتھ سائنس یونیورسٹی میں کل قومی یوم آیوروید منایا گیا۔ یونیورسٹی کی وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل مادھوری کانٹکر اور دیگر شخصیات نے دھنونتری کی پوجاکی۔
***** ***** *****
خواتین کی کرکٹ میں، بھارت ا ورنیوزی لینڈ کے مابین کھیلے گئے تیسرے ایک رو زہ میچ میں بھارت نے چھ وِکٹوں سے فتح حاصل کرکے تین میچوں کی سیریز دو ایک سے جیت لی۔ احمد آباد میں گزشتہ روزکھیلے گئے میچ میں نیوزی لینڈ نے پہلے بلّے بازی کرتے ہوئے 232 رنز بنائے۔ اس ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے بھارتی خواتین کی ٹیم نے اسمرتی مندھانا کی سنچری کے بل بوتے پر 45ویں اوور میں چار کھلاڑیوں کے نقصان پر مقابلہ جیت لیا۔ اسمرتی مندھانا کو میچ کی بہترین کھلاڑی اور دِپتی شرما کو سیریز کی بہترین کھلاڑی کے ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔
***** ***** *****
ناسک میں مہاراشٹر پولس اکیڈمی کا 125 واں جلسۂ تقسیمِ اسناد ریاستی انسدادِ دہشت گردی دستے کے کارگذار پولس ڈائریکٹر جنرل کنول بجاج کی موجودگی میں منعقد ہوا۔ اس موقعے پر 108 مرد اور تین خواتین اس طرح مجموعی طور پر 111 پولس سب انسپکٹر پولس خدمات میں شامل ہوئے۔
***** ***** *****
پربھنی ضلعے میں عام انتخابات کے مبصرکے طور پر جنتو ر اور پربھنی اسمبلی حلقوں کیلئے کے ہریتا ‘ جبکہ گنگا کھیڑ اور پاتھری حلقوں کیلئے سنچیتا بشنوئی کا تقرر کیا گیا ہے۔ جبکہ راجیش دُگّل کا تمام انتخابی حلقوں کیلئے الیکشن پولس انسپکٹر کے طور پر تقرر کیا گیا۔
بیڑ ضلعے کے آشٹی‘ کیج اور پرلی اسمبلی انتخابات کے خرچ مبصر کے طور پر کے روہن ر اج جبکہ گیورائی‘ ماجل گائوں اور بیڑ اسمبلی انتخابات کے خرچ مبصر کے طور پر کپل جوشی کا تقرر کیا گیا ہے۔
***** ***** *****
ناند یڑ ضلعے میں انتخابی شعبے کی جانب سے سبھی امیدو ارو ں کے ریکارڈ بحفاظت رکھنے کے احکامات خرچ مبصر اے گووِند ر اج نے دئیے ہیں۔ دیگلور۔ بلولی اسمبلی حلقوں کے امیدو ار وں کے انتخابی خرچ سے متعلق جائزاتی اجلاس کے دوران وہ مخاطب تھے۔
***** ***** *****
بیڑ ضلعے میں کل غیر قانونی شراب کا بڑا ذخیرہ ضبط کیا گیا۔ کلمب۔ امباجوگائی شاہراہ پر محکمۂ محصول اور پولس دستے نے یہ کارروائی انجام دی۔ اس کارروائی میں اسکارپیو گاڑی سمیت دس لاکھ روپئے مالیت کا سا مان ضبط کیا گیا۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ اسمبلی انتخابات کیلئے داخل کردہ کاغذاتِ نامزدگی کی آج ہوگی چھان بین ، 4 نومبر تک امیدواری عریضے واپس لینے کی مہلت۔
٭ ریاست بھر کے 288 انتخابی حلقوں میں سات ہزار 995 خواہشمندوں کی جانب سے 10 ہزار 905 امیدواری درخواستیں جمع۔
٭ معروف ادیبہ ڈاکٹر وینا دیو کا انتقال ؛ پونے میں آخری رسومات ادا۔
٭ شریعت کونسل کو طلاق نامہ جاری کرنے کا اختیار نہیں ؛ مدراس ہائی کورٹ کی مدورائی بنچ کا فیصلہ۔
٭ صحت مند و خوشحال زندگی کا پیغام دینے والا دھن تریودَشی کا تہوار ہر طرف جوش و خروش سے منایا گیا۔
اور٭ تیسرے ایک روزہ کرکٹ میچ میں نیوزی لینڈ کو شکست دے کر بھارتی خواتین کی ٹیم نےسیریز جیت لی۔
***** ***** *****
0 notes
Text
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متروکہ وقف املاک بورڈ کے وکیل کی تلخ کلامی، اخلاقیات صرف آپ کو آتی ہے، اکرام چوہدری
سپریم کورٹ میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس فائز عیسیٰ اور متروکہ وقف املاک بورڈ کے وکیل اکرام چوہدری میں تلخ کلامی ہوئی۔ چیف جسٹس نے اکرام چوہدری کو روسٹرم سے ہٹنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اخلاق تو ختم ہی ہوگیا ہے، ہمیں آپ سے نہیں متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین سے بات کرنی ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ملک بھر میں کتنے گوردوارے…
View On WordPress
0 notes
Text
ہینڈ آؤٹ
پنجاب حکومت کا صوبہ بھر کی بار ایسویسی ایشنز کے وکلاء کے مسائل کو حل کرنے کا مشن جاری ہے
صوبائی وزیر قانون ملک صہیب احمد بھرتھ کی دعوت پر چھ بار ایسویسی ایشنز کے صدور و جنرل سیکرٹریز کی لاہور آمد
حکومت کو جمہوری انداز میں 26 ویں آئینی ترمیم پاس کروانے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔صدور و جنرل سیکرٹری بار ایسویسی ایشنز
پنجاب حکومت صوبہ بھر کی بار میں خواتین وکلاء کیلئے ڈے کیئر سنٹر کا قیام کررہی ہے۔وزیر قانون ملک صہیب احمد بھرتھ
وکلاء کے مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔وزیر قانون ملک صہیب احمد بھرتھ
آپ کا نمائندہ بن کر وزیر اعلیٰ پنجاب سے بات کروں گا۔ ملک صہیب احمد بھرتھ
لاہور ()24 اکتوبر:2024پنجاب حکومت کا صوبہ بھر کی بار ایسویسی ایشنز کے وکلاء کے مسائل کو حل کرنے کا مشن تیزی سے جاری۔ اسی حوالے سے صوبائی وزیر قانون ملک صہیب احمد بھرتھ کی دعوت پر چھ بار ایسویسی ایشنز کے صدور و جنرل سیکرٹریز نے وزیر قانون پنجاب ملک صہیب احمد بھرتھ اور پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون خالد رانجھا سے ملاقات کی۔ ملتان سے صدر عمران خاکوانی، نارووال سے صدر محمد ابراہیم، منڈی بہاوالدین سے ماریض رانا، فیصل آباد سے صدر میاں انوارلحق، گوجرانوالہ سے صدر عامر منیر اور سرگودھا سے محسن شاہ ملاقات کرنے والوں میں شامل تھے۔ملاقات میں بار ایسویسی ایشنز کے جنرل سیکرٹریز، سیکرٹری قانون پنجاب بلال احمد لودھی نے بھی شرکت کی۔بارز کے صدور وجنرل سیکرٹری کا اس موقع پر کہ��ا تھا کہ حکومت کو جمہوری انداز میں 26 ویں آئینی ترمیم پاس کروانے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔آئینی ترمیم سے کسی کو مسئلہ ہے تو وہ دوتہائی اکثریت اسمبلی میں لے آئے۔جمہوری انداز میں 26 ویں آئینی ترمیم کو پاس کروانا ایک مکمل جمہوری عمل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔صدور و جنرل سیکرٹری نے اس موقع پر چیمبر کی تعمیر کی جگہ، پارکنگ، ینگ لائرز کے لئے پروگرام، جوڈیشل کمپلیکس کی ری ویمپنگ، فیصل اباد، سرگودھا و دیگر ڈویژن میں ہائی کورٹ کے بینچ کے مسائل کا فوری حل کا بھی مطالبہ کیا۔صوبائی وزیر قانون ملک صہیب احمد بھرتھ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ آئینی کے ترمیم سے عوام الناس کے لئے آسانی پیدا ہو گی۔پنجاب حکومت صوبہ بھر کی بار میں خواتین وکلاء کیلئے ڈے کیئر سنٹر کا قیام کررہی ہے۔وکلاء کے مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ مقامی انتظامیہ بار ایسویسی ایشنز کے ساتھ تعاون کرے گی۔تمام بار ایسوسی ایشنز بھی آپس میں مربوط رابطہ رکھیں۔ صوبائی وزیر قانون کا کہناتھا کہ گوجرانوالہ میں جوڈیشل اکیڈمی کا قیام خوش آئند ہے۔پنجاب حکومت وکلاء کے مسائل کو حل کرنے کے لئے لائحہ عمل بنا رہی ہے۔آپ کا نمائندہ بن کر وزیر اعلیٰ پنجاب سے بات کروں گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب ترجیحی بنیادوں پر وکلاء کے مسائل کو حل کرنا چاہتی ہیں۔ ملاقات میں نارووال اور منڈی بہاولدین بارز کو پنجاب حکومت کی جانب سے پچاس پچاس لاکھ،گوجرانوالہ، سرگودھا بار کو ایک،ایک کروڑ کے چیک دیئے گئے اور ملتان اور فیصل آباد بار کو ایک، ایک کروڑ کے چیک دیئے گئے
0 notes