#ملٹری
Explore tagged Tumblr posts
Text
سویلینز کے ملٹری ٹرائل سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے کی اجازت دیدی
( امانت گشکوری )سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نےسویلنز کے ملٹری کورٹ ٹرائل کے کیس میں فوجی عدالتوں کو 85 ملزموں کے کیسز کے فیصلے سنانے کی اجازت دیدی۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں ملٹری کورٹس کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیئے،سماعت کے آغاز میں آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کے کیس کے علاوہ دیگر تمام کیسز کی سماعت…
0 notes
Text
سویلینزکاملٹری ٹرائل عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے،شیخ وقاص اکرم
پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کاکہنا ہے کہ سویلینزکاملٹری ٹرائل عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کاپشاورمیں پریسکانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شہریوں کے ملٹری ٹرائل پر یورپی یونین نے بھی تشویش کااظہار کیا ہے۔ہم اب بھی سمجھتے ہیں سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہونا چاہیے۔
0 notes
Text
فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف پنجاب حکومت نے بھی اپیل دائر کردی
فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے ک�� خلاف پنجاب حکومت نے بھی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی۔اپیل میں سپریم کورٹ کے فوجی عدالتوں سے متعلق فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ انٹرا کورٹ اپیل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی جانب سے دائر کی گئی ہے، پنجاب حکومت نے انٹرا کورٹ اپیل میں موقف اختیار کیا ہے کہ معاملہ آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹ میں جانا چاہیے تھا،سپریم کورٹ نے…
View On WordPress
0 notes
Text
چھبیسویں ویں آئینی ترمیم کیسے پاس ہوئی
قارئین آپ کو بتاتا ہوں کہ 26ویں آئینی ترمیم کیسے پاس ہوئی، میری ایک دوست سے بات ہوئی تو اس نے مجھ سے کہا کہ کچھ لوگ مولانا فضل الرحمن اور تحریک انصاف کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔ مولانا اور تحریک انصاف کے درمیان کچھ چیزیں طے ہوئی تھیں۔ مولانا نے پی ٹی آئی سے کہا تھا کہ سینیٹ میں حکومت کو ہمارے ووٹوں کی ضرورت ہے اور قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ووٹوں کی ضرورت ہو گی۔ لہٰذا سینیٹ میں ہم ووٹ نہیں دیں گے اور قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی والے ووٹ نہیں دیں گے تو یہ بل پاس نہیں ہو گا۔ مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف سے کہا کہ سینیٹ کو میں سنبھالتا ہوں اور قومی اسمبلی کو آپ سنبھالیں اور آپ کا کوئی بھی ممبر نہ ٹوٹے، تحریک انصاف کو یہ باور تھا کہ اس کا سینیٹ میں کوئی بھی بندہ ٹوٹ نہیں سکتا اور قومی اسمبلی میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور سب سے کہا کہ وہ کے پی کے چلے جائیں اور اپنے فیملی ممبرز کو بھی سائیڈ پر کر لیں۔ ان کو یہ باقاعدہ ہدایت ملی تھی، مگر مسئلہ یہ ہو اکہ جب پاکستان تحریک انصاف کے لوگوں کیلئے منڈی لگ گئی تو وہ بھیڑ بکریوں کی طرح بک گئے تو وہاں مولانا کیا کرتے؟
اب یہ قصہ الٹ ہو گیا اور تحریک انصاف کے کچھ سینیٹر اور اسکے علاوہ 11 سے 15 قومی اسمبلی کے ممبران بھی بک چکے ہیں تو پھر دونوں نے مل کر جو مولانا کا مسودہ تھا وہ مولانا کا نہیں بلکہ وہ پاکستان تحریک انصاف کا مسودہ تھا۔ تحریک انصاف حکومت کے ساتھ نہیں بیٹھتی اور نہ ہی ان کے ساتھ وہ ڈائیلاگ کی سوچ رکھتی تھی۔ نہ انہوں نے ان کے ساتھ کوئی ڈائیلاگ کیا، وجہ یہ تھی کہ خان صاحب کا حکم تھا کہ حکومت کو ہم نہیں مانتے ہیں کیونکہ یہ فارم 47 کی پیداوار ہے۔ یہ ناجائز حکومت ہے تو ہم ان کے ساتھ نہیں بیٹھتے، مولانا کو اس لئے استعمال کیا کہ وہ یہ ساری چیزیں دیکھیں۔ کیونکہ مولانا کے پاس اگر مسلم لیگ (ن) والے اور پیپلز پارٹی والے آتے تھے، تو فوراً پی ٹی آئی والے چلے جاتے تھے۔ اصل میں مولانا اور پی ٹی آئی والے آپس میں مشورہ کرتے تھے، مگر جب حالات یہاں پہنچ گئے کہ تحریک انصاف کے سینیٹر اور قومی اسمبلی کے ممبر بک گئے تو انہوں نے پلان ہی تبدیل کر دیا۔
پہلے یہ تھا کہ یہ بل پاس ہی نہیں ہو گا، تو پھر پلاننگ میں یہ بات طے ہوئی کہ اس میں جو خطرناک چیزیں ہیں کوشش کریں کہ ان کو نکالا جائے۔ ایک تو یہ کہ سویلین کا ملٹری کورٹ میں مقدمہ نہیں چلے گا، یہ تحریک انصاف کا مطالبہ تھا اور خان صاحب اور ان کے ورکرز کو بچانے کیلئے تھا۔ دوسرا یہ کہ آئینی عدالت نہیں بنے گی اور آئینی عدالت نہیں بنی، آئینی عدالت اور آئینی بینچ میں فرق ہوتا ہے۔ تیسرا یہ تھا کہ اب قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہ دی جائے۔ یہ 3 چیزیں اہم تھیں انہوں نے ان کو بل سے نکال دیا۔ باقی یہ کہ اگر سپریم کورٹ میں کسی کی اتھارٹی تھی کوئی سپریم کورٹ کا جج بن رہا ہے یا مستقبل میں بنے گا تو تحریک انصاف یا تحریک انصاف کے ورکرز نے کوئی ٹھیکہ نہیں لیا سارے پاکستان کا، پاکستان میں اور بھی لوگ ہیں اور اگر کسی کی اتھارٹی چیلنج ہوئی ہے تو وہ اپنا کردار ادا کرے۔ تحریک انصاف والے کال دیتے ہیں تو وکیل نہیں نکلتے، نہ تاجر برادری، نہ انجینئر، نہ کسان باہر نکلتے ہیں حالانکہ سب لوگ پریشان ہیں۔ صر ف تحریک انصاف کے ورکر اور لیڈر ہیں جو مار کھاتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ دیکھیں تو بہت کم ایسا ہوا ہے کہ سب سے پہلے کوئی بھی بل سینیٹ سے پاس کیا گیا ہو، حالانکہ پہلے بل ��ومی اسمبلی سے پاس ہوتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ آپ جب ��کوک و شبہات میں ہوتے ہیں تو آپ سوچتے ہیں کہ اگر میں اسٹیپ لے لوں کہ قومی اسمبلی سے پاس کرالوں اور بعد میں سینیٹ میں ناکامی ہو تو بے عزتی بھی ہو گی اور بل بھی پاس نہیں ہو گا۔ ٹیکنیکل اور آئینی بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، جہاں تک چیف جسٹس کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل کرنے کی بات ہے یہ تحریک انصاف کی پالیسی میں بھی شامل تھا۔ عمران خان جب وزیر اعظم تھے تو وہ بھی اسی طرح کا قانون لانا چاہتے تھے لیکن اس وقت انکے پاس 2 تہائی اکثریت نہیں تھی، مگر خواہش تھی کہ اگر مجھے 2 تہائی اکثریت دے دی گئی تو میں چیف جسٹس کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل کر دوں گا۔ وہ طریقہ تھوڑا اس سے مختلف تھا۔ تحریک انصاف چاہتی تھی کہ 3 ججز کا ڈیٹا لے کر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ان پر ڈیبیٹ کی جائے، ان کا ماضی دیکھا جائے، ان کا کردار بحیثیت سپریم کورٹ جج دیکھا جائے کہ سپریم کورٹ میں ان کا کردار کیسا تھا اور کتنے فیصلے ٹھیک اور کتنے غلط تھے۔
ان ساری چیزوں پر ڈیبیٹ ہونا تھی اور اس کے بعد ان 3 ججوں میں سے ایک کا نام قومی اسمبلی سے منظور ہونا تھا اور وزیر اعظم نے اس کو انڈورس کرنا تھا اور صدر نے اس پر دستخط کرنے تھے۔ اب جبکہ چیف جسٹس کا تقرر ہو چکا ہے تو اب میں تھوڑا سا نیوٹرل ہو کر تجزیہ کروں گا۔ 1998 میں نواز شریف نے نیب کا ادارہ بنایا تو نواز شریف اور زرداری دونوں اس میں پھنس گئے۔ ثاقب نثار مسلم لیگ (ن) کے لیگل ایڈوائزر تھے جب چیف جسٹس بنے تو انہوں نے ان کے ساتھ کیا کیا۔ عبدالحمید ڈوگر کو چیف جسٹس پی پی پی نے بنایا تو اس نے ان کے ساتھ کیا کیا، یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ بہر حال نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایک بڑا اچھا فیصلہ کیا اور حلف اٹھاتے ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی تشکیل نو کر دی۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو بطور رکن دوبارہ کمیٹی میں شامل کر دیا اور سپریم کورٹ کے تمام کورٹ روم کو لائیو اسٹریمنگ سروس فراہم کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔
خلیل احمد نینی تا ل والا
بشکریہ روزنامہ جنگ
#26th amendments#Maulana Fazlur Rehman#Pakistan Constitution#Pakistan Judiciary#Politics#PPP#PTI#World
0 notes
Text
آج کے مشہور جلسہ کے مشہور عوامی فقرے
#8ستمبر
گنڈاپور
فیض حمید کو فوجی تم نے بنایا، جنرل تم نے بنایا، ڈی جی تم نے بنایا، اب اگر وہ غلط کرے تو اپنا ادارہ صہیح کرو ہمیں کیوں کہتے ہو۔
عمران خان کا ملٹری ٹرائل نہ خواجہ آصف کا باپ کرسکتا ہے نہ خواجہ آصف کے باپ کرسکتے ہیں ، علی امین
اگلا جلسہ لاہور میں ہوگا، مریم میں آرہا ہوں، پنگا مت لینا وہ حال کریں گے کہ بنگلہ دیش بھول جاؤ گے، ہمارے پٹھانوں کا اصول ہے ڈھول بھی لاتے ہیں اور بارات بھی، علی امین گنڈا پور۔۔۔!!!
عمران خان تم جیت گئے یہ سارے بے غیرت ہار گئے ، علی امین
اگر تم نےفوج نہ ٹھیک کی تو فوج کو ہم ٹھیک کردیں گے ، لو یو علی امین
علی امین نے ڈیڈ لائن دے دی 🚨
ایک سے دو ہفتوں میں عمران خان رہا نا ہوا تو ہم خود عمران خان کو رہا کروائیں گے لیڈ میں کروں گا پہلی گولی بھی میں کھاؤں گا۔
علی امین گنڈا پور کی وارننگ
علامہ راجہ ناصر عباس
دوستو یہ جدوجہد بہت طویل ہے آپ نے مایوس نہیں ہونا،میدان میں ڈٹے رہنا ہے،دنیا کی کوئی طاقت آپ کے جذبوں اور حوصلوں کو شکست نہیں دے سکتے۔جلسے سے خطاب
اب جو ہمیں مارے گا،ہم اسے ماریں گے،اگر آئین تم نہیں مانتے تو آئین پھر ہم بھی نہیں مانتے،علی امین گنڈا پور
فیض حمید ہمیں کوئی جہیز میں نہیں ملا تھا وہ تمہارا جنرل تھا وہ تمہارا باپ تھا
��لی امین گنڈا پور کی للکار🔥🔥🔥
محمود خان اچکزئی
میں تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ذریعے عمران خان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ دنیا میں جتنے انقلابات ہوئے انہیں اتنی بڑی عوامی حمایت حاصل نہیں تھی جتنی آپ کو حاصل ہے۔ پھر کیوں انقلاب نہیں ہورہا؟
انقلاب کیلئے بنیادی شرط تنظیم ہے۔ یہاں تنظیم کی کمی ہے۔
مجھے تحریک انصاف کی اس قیادت سے ایک گلہ ہے کہ لاکھوں لوگوں کے سمندر کے باوجود عمران خان جیل میں ہے یہ افسوس کی بات ہے۔
کیوں نہ اڈیالہ کی طرف مارچ شروع کیا جائے؟ ہمارا راستہ نا اسٹیبلشمنٹ روک سکتی ہے نا یہ سرکار۔
خالد خورشید کا یہ جملہ پاکستان کی 77 سالہ تاریخ کا نچوڑ ہے:
ایوب نے آئین پہ پیشاب کیا: بھٹو نے جنم لیا
ضیاء نے آئین پہ پیشاب کیا: شریف خاندان نے جنم لیا
منیرے مستری نے آئین پہ پیشاب کیا: محسن نقوی نے جنم لیا
0 notes
Link
0 notes
Text
متنازع ترین انتخابات کے حیران کن نتائج
آٹھ فروری کو پاکستان کے ’متنازع ترین‘ انتخابات کے بعد نتائج تقریباً مکمل ہو چکے ہیں، جس کے بعد پاکستانیوں کی اکثریت نے سکون کا سانس لیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ گذشتہ کئی مہینوں سے قید اور سینکڑوں مقدمات میں الزامات کا سامنا کرنے والے پاکستان کے ’مقبول ترین‘ رہنما عمران خان سٹیبلشمنٹ کے خلاف سیاسی لڑائی جتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ پارلیمان سے باہر سیاسی تنازعات اور کڑوا ترین وقت اب ممکنہ طور پر ماضی کا حصہ ہے۔ کچھ مخصوص نتائج کو چھوڑ کر عمومی نتائج کے بعد سیاسی مفاہمت کا امکان بڑھ گیا ہے۔ انتخابات کے بہت سے حیران کن نتائج میں سے تین قابل ذکر ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستان مسلم لیگ ن، جس کی قیادت نے 2018 میں شکست کھانے کے بعد دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا سہارا لیا، نتائج کے بعد کافی مایوسی کا شکار ہے۔ مسلم لیگ ن اور اس کے قائد نواز شریف کلین سویپ کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کی جماعت نے قومی اسمبلی میں 70 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جب کہ پاکسان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 100 کے قریب سیٹوں پر کامیابی سمیٹی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے طور پر حکومت نہیں بنا سکتی۔
صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنانے کا امکان ہے جہاں پی ٹی آئی ان سے چند سیٹیں ہی پیچھے ہے، اس لیے مسلم لیگ ن کی صفوں میں مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ جہاں پورا شریف خاندان، کم از کم چھ، اپنی اپنی نشستیں جیت چکا ہے، وہیں مسلم لیگ ن کے کئی بڑے رہنما بشمول تجربہ کار وزرا جیسے خرم دستگیر اور رانا ثنا اللہ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ درحقیقت پنجاب کے بڑے شہروں بشمول گوجرانوال��، فیصل آباد اور شیخوپورہ سے مسلم لیگ ن سے منسوب گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ کی شناخت فی الحال مٹ چکی ہے۔ دوسرا یہ کہ عمران خان کی عدم موجودگی میں پی ٹی آئی سے انتخابات میں اچھی کارکردگی کی توقع نہیں تھی، اس لیے نہیں کہ اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی بلکہ اس لیے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے فوجی تنصیبات پر دھاوا بولنے کے بعد مبینہ طور پر طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اعلیٰ کمان اس کی شکست کی خواہاں تھی۔ بہت سے لوگوں کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کا نام مٹانے کے لیے ہر ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں گے۔
انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان ’بلے‘ سے محروم کر دیا گیا اور پی ٹی آئی کی چھتری تلے الیکشن لڑنے کی کوشش کرنے والے آزاد ارکان کے خلاف ریاستی طاقت، قید و بند، ہراسانی، ٹارگٹڈ حملے، وکٹمائزیشن اور قانون نافذ کرنے والی فورسز کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ عوامی عزم اور جرات، جو پی ٹی آئی کے لیے ڈالے گئے ووٹوں سے ظاہر ہوتی ہے، کے برعکس قابل اعتراض عدالتی فیصلے اور ان کے رہنما کی سزا اور قید و بند سے توڑنے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان نے تقریباً 66 سال سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عوامی طاقت ہی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبوں کو ناکام بنا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر عدلیہ نے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور انتخابات کے دوران پارٹی کو مؤثر طریقے سے انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا جیسا کہ لاکھوں پاکستانی ووٹرز کے لیے پی ٹی آئی کے سینکڑوں قومی اور صوبائی امیدواروں کے انفرادی انتخابی نشان یاد رکھنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس کے باوجود عوام نے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مایوس نہیں کیا۔
انتخابی نتائج کا اعلان تقریباً مکمل ہو گیا اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 97 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی دوڑ میں آگے ہیں اور مسلم لیگ ن 71 اور پی پی پی 54 نشستوں کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ تاریخ ساز نتائج میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے ان انتخابات میں کلین سویپ کیا ہے ملک کے دوسرے سرے یعنی کراچی میں بھی پی ٹی آئی نے کئی نشستیں حاصل کی ہیں۔ تیسرا یہ کہ پی ٹی آئی کے سابق بڑے رہنما، جنہوں نے عمران خان ان سے راہیں جدا کر لی تھیں، کو انتخابات میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ماضی میں عمران خان کے اہم معتمد اور حامی جہانگیر ترین اور ان کے سابق وزیر اعلیٰ اور وزیر دفاع پرویز خٹک دونوں ہی جیتنے میں ناکام رہے ہیں۔ باغی رہنماؤں نے عمران خان کی بظاہر ڈوبتی ہوئی کشتی سے اترنے کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ پرویز خٹک کی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے خٹک خاندان کے تمام سات ارکان ہار گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے لیے اب بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ کئی سیٹوں سے اس کے امیدواروں نے نتائج کو چیلنج کر رکھا ہے۔ انتخابی نتائج شیئر کے طریقہ کار پر اس کے ارکان سوال اٹھا رہے ہیں۔ کچھ اس معاملے کو عدالتوں میں لے گئے ہیں۔ اگلی حکومت میں پی ٹی آئی کے کردار کے ساتھ ساتھ قانونی لڑائیاں بھی زور پکڑیں گی۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ اب بھی مشکل وقت ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے بہت سے اہم معاملات پر مسائل حل طلب ہیں، بشمول اس کے کہ نو مئی کی کہانی کو کیسے ختم کیا جائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان، پارٹی اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے بہترین راستے کے بارے میں سوچیں۔
نسیم زہرہ
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
#Imran Khan#Pakistan#Pakistan Election 2024#Pakistan establishment#Pakistan Politics#Politics#PTI#World
0 notes
Text
غزہ کا مستقبل کیا ہو گا؟
تھامس فریڈ مین ایک مغربی صحافی ہیں انھوں نے اسرائیل حماس کے حوالے سے غزہ جنگ کا تجزیہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے شروع دن سے ہی یہ فکر لاحق تھی کہ اسرائیل نے حماس کے خاتمے کے لیے کسی منصوبہ بندی کے بغیر حملہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور متحدہ امارات میں ایک ہفتہ قیام اور عرب دنیا کے لوگوں کے خیالات اور احساسات جاننے کے بعد میری اس فکر اور تشویش میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل پر امریکا اور دیگر اتحادیوں کا شدید دباؤ ہے کہ اسرائیل جلد از جلد اس جنگ کو ختم کرے۔ جب کہ اسرائیل کے مطابق حماس نے غزہ میں زیر زمین سرنگوں کا ایک وسیع نیٹ ورک بنا رکھا ہے۔ اس لیے وہ ان سرنگوں کا خاتمہ کیے بغیر اس جنگ کو ختم نہیں کر سکتا۔ فریڈ مین کہتے ہیں کہ حماس نے پہلے تو اسرائیل کے خلاف ایک ناقابل یقین حملے کا منصوبہ بنایا اور پھر اس پر پوری شدت سے حملہ کر دیا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ اسرائیل کو اتنا اشتعال دلایا جائے کہ وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر ایک جنگی مہم کا آغاز کر دے اور اسرائیل نے اس جال میں پھنس کر بالکل ایسا ہی کیا جیسا کہ حماس والوں نے منصوبہ بنا رکھا تھا اور ہم آج تک اس کے نتائج کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
ہنری کسنجر جنکی حال ہی میں وفات ہوئی ہے انھوں نے بھی بالکل یہی بات کہی کہ اسرائیل نے اس معاملے میں سعودی عرب اور دوسری عرب ریاستوں کی مدد حاصل کرنے کے بجائے حماس کے جال میں پھنس کر غزہ پر فوری حملہ کر کے غیر دانشمندانہ اقدام کیا۔ اسرائیل کا پلان یہ تھا کہ حماس کی ملٹری مشین کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے اور اس کی اعلیٰ قیادت کا پوری طرح صفایا کر دیا جائے۔ اسرائیل نے غزہ کے ہزاروں بے گناہ باسیوں کو شہید اور زخمی کیا ہے۔ حماس کو اس امر کا بھر پور ادراک تھا کہ ایسا ہی ہو گا اسی لیے اس نے اس پلان کے نتائج کی سنگینی کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ایک بڑے انسانی المیہ کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے جس کے ازالے کے لیے ��میں برسوں مل کر غزہ کی تعمیر نو کا کام کرنا ہو گا۔ حال ہی میں دی ٹائمز نے انکشاف کیا کہ سیٹلائٹ سے ملنے والی تصاویر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غزہ کے ہر کونے میں بھاری تباہی ہوئی ہے۔ کم از کم 6 ہزار عمارتیں زمین بوس ہو چکی ہیں جس میں سے ایک تہائی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں۔
غزہ کی تعمیر نو اربوں ڈالر کا پروجیکٹ ہو گا اور اس میں کئی برس لگ جائیں گے۔ یہاں عرب دنیا میں ہونے والی میری بات چیت کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی خلیجی ملک رقم سے بھرے بیگ لے کر غزہ نہیں آرہا تاوقتیکہ اسرائیل دو ریاستی حل پر مذاکرات کا وعدہ نہ کرے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے ساتھ ایک انٹرویو میں یو این او میں متحدہ عرب امارات کے سفیر نے کہا کہ غزہ میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو پر بات کرنے سے پہلے ہمیں دو ریاستی حل کے منصوبے کو قابل عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ ریاض میں سعودی حکام اور پھر امریکی حکام کے ساتھ بات چیت کرنے کے بعد جب سے میں یہاں آیا ہوں مجھے جو بات سب سے زیادہ پر امید نظر آئی ہے وہ یہ کہ جب غزہ کی جنگ ختم ہو جائے گی تو مذاکرات کا سلسلہ اسی مرحلے سے شروع ہو گا جو سات اکتوبر کے حملوں سے پہلے جاری تھا۔ سعودی عرب یہ چاہتا ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو اسرائیل فوری طور پر غزہ میں جنگ بند کر دے کیونکہ غزہ میں موت اور تباہی سے فلسطینیوں کی نوجوان نسل میں شدت پسندی کے جذبات پروان چڑھ رہے ہیں۔
عرب ممالک کا خیال ہے کہ اسرائیل حماس کو مکمل طور پر نیست و نابود نہیں کر سکتا۔ انھیں یہ تشویش ہے کہ ایسا کرنے کی کوشش کے دوران غزہ کو اس قدر نقصان پہنچ جائے گا کہ اس کے بہت ہی بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ بلاشبہ میں یہ جانتا ہوں کہ سعودی امریکی اسرائیلی اور فلسطینی مذاکرات کا یہ سلسلہ بحال کرنا کتنا مشکل ہو گا خواہ اسرائیل میں کتنی ہی اعتدال پسند حکومت کیوں نہ قائم ہو۔ وہ فی الحال ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی جب کہ اس وقت تو اسرائیل میں انتہائی جنونی عناصر امور حکومت چلا رہے ہیں۔ جو اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ مغربی کنارے کو بھی اسرائیل میں ضم کر لیا جائے اور جو ان میں انتہائی شدت پسند ہیں وہ غزہ کو بھی اسرائیل میں ضم کرنا چاہتے ہیں۔ تباہی کے بعد غزہ ایک ایسا دیو بن کر سامنے آئے گا جو اپنے سینے کے زخموں کو خود ہی چاٹ رہا ہو گا جس سے اسرائیل کو عسکری معاشی اور اخلاقی نقطہ نظر سے بہت نقصان پہنچائے گا اور یہ اس کے سرپرست امریکا کی سپر پاور حیثیت کو بھی متاثر کرے گا اور اسے ایک دیر پا نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انھوں نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل اس طویل مدتی سیاسی وژن پر پیش رفت نہیں کرتا کہ دنیا غزہ میں تعمیر نو کے لیے فنڈز دینے پر تیار ہو تو اسے سفارتی اور معاشی میدان میں سخت نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ لیکن اس وقت اسرائیل پر جو مذہبی جنونی دہشت گرد ٹولہ حکومت کر رہا ہے وہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور غزہ خالی کروانے پر تلا ہوا ہے دراصل اس کا مشرق وسطیٰ پر مکمل قبضے کا یہ ابتدائی منصوبہ ہے۔
زمرد نقوی
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
عمران خان کا سیاسی مستقبل دائو پر لگ گیا۔
ملٹری کورٹس سخت غصے کے عالم میں۔
دہشت گردوں کو کسی حال میں نا چھوڑنے کا عزم۔
پیپلز پارٹی میں PTI اور عمران خان کے لیئے نرم گوشہ۔
عمران خان کبھی اقتدار میں آ سکیں گے؟
عمران خان JIT کے سامنے الزامات ثابت نا کر سکے؟
youtube
youtube
0 notes
Video
youtube
پروگریسو لائرز فورم | وکلاء کنونشن | علی احمد کرد کی تقریر | ملٹری کورٹس
0 notes
Text
سوڈان میں پیرا ملٹری فورس کا گاؤں پر حملہ 124افراد ہلاک 100 زخمی
خرطوم (ڈیلی پاکستان آن لائن) سوڈان کی پیراملٹری فورس ریپڈ سپورٹ فورسز گاؤں پر حملہ کرکے 124 افراد کو ہلاک اور 100 شہریوں کو زخمی کردیا جو ریاست میں ڈیڑھ سال کے دوران سب سے بڑا خون ریز حملہ ہے۔ غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سوڈان کے جمہوریت پسند کارکنوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ اتوار کو آر ایس ایف کے اعلیٰ افسر ابوغلا کیکال کی جانب سے فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد آر ایس ایف اسی ریاست میں…
0 notes
Text
حزب اللہ کاپہلابڑا حملہ،اسرائیلی ملٹری بیس کونشانہ بنایا
حسن نصر اللہ کی شہادت کےبعد حزب اللہ کاپہلابڑا حملہ،اسرائیلی ملٹری انٹیلیجنس کے گلیلوٹ بیس کونشانہ بنایا۔ حزب اللہ نے اپنےحملےمیں فادی4میزائلوں کا استعمال کیاجو اس سےقبل استعمال نہیں کیےگئےالبتہ حزب اللہ فادی میزائل سےدوسرےورژنزپہلےضروراستعمال کرتا رہاہے۔ دوسری جانب حزب اللہ نےاسرائیلی فوج کی جانب سےلبنان میں زمینی کارروائی کے بیان کی تردیدکرتےہوئےاسےجھوٹا دعویٰ قرار دےدیا۔ حزب اللہ میڈیا ریلیشن…
0 notes
Text
سویلینز کے ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف وزارتِ دفاع نے اپیل دائر کردی
حکومت نے جمعہ کو سپریم کورٹ ی جانب سے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمے کی سماعت کو غیر قانونی قرار دینے کے اس کے فیصلے کو چیلنج کیا۔ اپنی انٹرا کورٹ اپیل میں، وزارت دفاع نے سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے ان سیکشنز کو بحال کرے جنہیں بینچ نے غیر قانونی قرار دیا۔ 23 اکتوبر کو جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ…
View On WordPress
0 notes
Text
کون جال میں پھنسا ؟ حماس یا اسرائیل ؟
سات اکتوبر سے پہلے تک اسرائیلی فوج اس عسکری ڈاکٹرائن کے تحت مشقیں کرتی رہی کہ اس پر بیک وقت چہار جانب سے عرب ممالک کی افواج چڑھ دوڑی ہیں اور اب اپنی بقا کے لیے کیا فوجی حکمتِ عملی اپنانی ہے ؟ انیس سو اڑتالیس انچاس میں ایسا ہی ہوا جب نوزائیدہ اسرائیلی ریاست نے عرب ممالک کی مشترکہ فوج کی پیش قدمی کامیابی سے روک دی۔ جون انیس سو سڑسٹھ میں بھی اسرائیل نے پہل کر کے صرف پانچ دن میں مصر ، شام اور اردن کی اجتماعی عددی برتری چت کر دی۔ اکتوبر انیس سو تہتر میں اسرائیل کو سرپرائز ملا جب مصر اور شام نے اچانک دو طرفہ حملہ کر دیا۔ مگر ایک ہفتے کے اندر اسرائیل سنبھل گیا اور اس نے بھرپور امریکی مدد سے عرب پیش قدمی کو بیچ میں ہی روک دیا۔ انیس سو بیاسی میں اسرائیل نے بیروت سے پی ایل او کو لبنانی فلانجسٹوں کی مدد سے کامیابی سے کھدیڑ دیا اور لبنان کی جنوبی پٹی کو اگلے اٹھارہ برس تک بطور بفر زون استعمال کرتا رہا۔ اسرائیل نے اس دوران اپنی طفیلی ساؤتھ لبنان آرمی بھی تشکیل دے دی۔ مگر مئی دو ہزار میں اسرائیل ایران و شام کی حمایت یافتہ حزب اللہ ملیشیا کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی تاب نہ لا سکا۔ اسے عجلت میں جنوبی لبنان کی پٹی چھوڑنا پڑی۔ ساؤتھ لبنان آرمی کا وجود بھی اسرائیلی پسپائی کے ساتھ تحلیل ہو گیا۔اٹھارہ برس کے قبضے کی قیمت ایک ہزار اسرائیلی فوجیوں کی موت کی صورت میں چکانی پڑی۔
جولائی دو ہزار چھ میں جب حزب اللہ نے ایک شبخون میں چار اسرائیلی فوجی ہلاک اور دو اغوا کر لیے تو اسرائیل نے حزب اللہ کو مزہ چکھانے کے لیے جنوبی لبنان میں بھرپور فضائی و بری کارروائی شروع کی مگر الٹا لینے کے دینے پڑ گئے جب حزب اللہ کے راکٹ اور میزائل شمالی اسرائیل کے سرحدی قصبوں کے اوپر سے گزرتے ہوئے تل ابیب اور حیفہ پر گرنے لگے۔ اسرائیل سوائے اس کے کچھ نہ کر سکا کہ حزب اللہ کو برابر کا فریق سمجھ کر جنگ بندی پر راضی ہو کر اس کمبل سے عارضی طور پر جان چھڑا لے۔ حزب اللہ وقت کے ساتھ ساتھ اور طاقت پکڑتی گئی اور آج یہ حال ہے کہ سات اکتوبر کے بعد سے شمالی اسرائیل مسلسل حزب اللہ کے راکٹوں کی زد میں ہے۔ تقریباً دو لاکھ اسرائیلی شہری گھر بار چھوڑ کے نق�� مکانی کر چکے ہیں اور غزہ میں الجھنے کے سبب اسرائیل حزب اللہ سے ��یک اور بھرپور جنگ شروع کرنے کا خطرہ مول لیتے ہوئے ہچکچا رہا ہے۔ اس کی جوابی کارروائیاں محض فضائی حملوں اور حزب اللہ کمانڈروں کو انفرادی طور پر ہدف بنانے تک محدود ہیں۔ اسرائیل کے ملٹری ڈاکٹرائن میں فلسطینی کبھی بھی ایسی عسکری قوت کے طور پر نہیں دیکھے گئے جن سے اسرائیل کو بقائی خطرہ محسوس ہو۔ بلکہ اسرائیلی نصاب میں فلسطینیوں کو ایک پسماندہ نیم انسان کی شکل میں ہی پیش کیا گیا جو محض دہشت گرد ہیں اور کوئی بھرپور جنگ لڑنے کے اہل نہیں۔
چنانچہ اسرائیلی فوج کو شہری علاقوں میں ایک بھرپور مزاحمتی شورش سے نمٹنے کی کوئی تربیت نہیں دی گئی۔ اسے فلسطینیوں کو دبانے کے لیے ہمیشہ ایک پولیس فورس کی طرح استعمال کیا گیا۔ اسرائیل کی باقاعدہ بری فوج محض سوا لاکھ سپاہیوں پر مشتمل ہے۔ جب کہ باقی فوجی طاقت ہر بالغ اور اہل شہری کے لیے تین برس کی لازمی فوجی خدمات کے قانون کے تابع ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بس تین برس کی لازمی مدت پوری کر کے اپنے شعبوں اور اداروں میں لوٹ جاتے ہیں اور بہت کم مستقل فوجی ملازمت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس پس منظر کے ساتھ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کبھی تصور ہی نہیں کر سکتی تھی کہ حماس یا اسلامی جہاد جیسی تنظیمیں محض اکادکا گھریلو ساختہ راکٹ چلانے کے سوا اسرائیل کو کوئی بڑا نقصان پہنچا سکتی ہیں یا کبھی اتنی طاقت ور ہو سکتی ہے کہ اسرائیل کے اندر گھس کے کوئی بھرپور پروفیشنل فوجی مشن انجام دے سکیں۔ اسرائیل کو ماضی میں الفتح ، پاپولر فرنٹ یا دیگر مسلح فلسطینی تنظیموں کے اتحاد پی ایل او کا تجربہ تھا۔ اسے اچھے سے معلوم تھا کہ فلسطینی گوریلے یا فدائین زیادہ سے زیادہ سرحدی علاقہ عبور کر کے مختصر و محدود چھاپہ مار کارروائی کر کے فرار ہو جاتے ہیں۔ یا پھر کہیں کوئی بم دھماکا کر دیتے ہیں یا پھر کوئی اسرائیلی مسافر طیارہ ہائی جیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ عارضی طور پر بین الاقوامی توجہ حاصل کر سکیں۔
اسرائیل نے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ایسی چھٹ پٹ مسلح کارروائیوں سے نمٹنے کا تجربہ حاصل کر لیا۔ جب پی ایل او نے اسرائیل کے وجود کو سیاسی و سفارتی طور پر تسلیم کر کے اسرائیل اور امریکا کی من مانی شرائط پر ہتھیار رکھ کے جو بھی ملا اسے قسمت کا لکھا سمجھ کے قبول کر لیا تو اسرائیلی عسکری قیادت کے دل سے یہ آخری کھٹکا بھی نکل گیا کہ فلسطینی اب کبھی اس قابل بھی ہو سکتے ہیں کہ ایک سنگین عسکری چیلنج بن سکیں۔ اسرائیل نے ناقابل�� تسخیر ہونے کے تاثر کو اپنے مغربی اتحادیوں اور عرب دنیا کی نظروں میں اس قدر مستحکم کر دیا کہ خود فلسطینیوں کے سابق اتحادی ممالک بھی اس مسلسل پروپیگنڈے کے قائل ہوتے چلے گئے کہ فلسطینی کسی کے لیے بھی کوئی سنگین خطرہ نہیں بن سکتے۔چنانچہ فلسطینیوں کو عرب حکومتوں نے پہلے کی طرح احترام اور برابری کا درجہ دینے کے بجائے ان پر ترس کھانا شروع کر دیا۔ جب عربوں نے دیکھا کہ خود پی ایل او کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی بھی عملاً اسرائیل کو ایک ناقابلِ شکست طاقت سمجھ کے انتظامی طور پر اس کی بی ٹیم بننے پر تیار ہے تو پھر عرب ممالک نے مسلسل گھاٹے کے فلسطینی نظریاتی سودے کو نظرانداز کرتے ہوئے براہِ راست یا بلاواسطہ طور پر اسرائیل سے اپنے سفارتی ، اقتصادی و اسٹرٹیجک معاملات سیدھے کرنے شروع کر دیے۔
پہل مصر نے کی، پھر اردن نے مصالحت کی اور اس کے بعد خلیجی ریاستوں نے امریکا سے قربت برقرار رکھنے کی خاطر اسرائیل سے دو ریاستی حل کی شرط منوائے بغیر ہاتھ ملا لیا۔ مگر سات اکتوبر کو حماس اور اسلامک جہاد کے مسلح کیڈر نے جنوبی اسرائیل میں گھس کے کئی گھنٹوں تک جو کارروائی کی۔ اس کے سبب اسرائیل کا روایتی فوجی نظریہ ملیامیٹ ہو گیا کہ فلسطینی نہ اپنا دفاع ٹھیک سے کرنے کے قابل ہیں اور نہ ہی کوئی جارحانہ اقدام۔ حماس کے آپریشن کے بعد اگلے بہتر گھنٹے تک پوری اسرائیلی سول و عسکری اسٹیبلشمنٹ سکتے کی حالت میں رہی۔ وہ یہی سمجھنے کی کوشش کرتے رہے کہ ان کے ساتھ دراصل کیا ہاتھ ہو گیا۔ غزہ میں قدم قدم پر جاسوسی کے جال اور غزہ کو تین طرف سے خاردار تاروں سے الگ تھلگ کرنے اور وہاں کسی بھی غیر معمولی نقل و حرکت کا فوری پتہ چلانے کے لیے سرحد کے ساتھ ساتھ جدید آلات سے لیس نگرانی کے ٹاورز کی موجودگی میں یہ کیسے ہو گیا ؟ اب سوال یہ ہے کہ کیا حماس نے اسرائیل کے ممکنہ ردِ عمل کا غلط اندازہ لگایا یا پھر حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل کو غزہ میں پھنسانے کے لیے جو کانٹا ڈالا اسرائیل اسے حماس کی توقعات کے مطابق نگل گیا؟ اور دنیا اب اسرائیل کو مظلوم سمجھنے کے بجائے اس کا اصل چہرہ دیکھ پا رہی ہے ؟
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
بھارت کے ملٹری بیس میں دوسرے دن بھی فائرنگ؛ ایک اور فوجی ہلاک
بھٹنڈہ ملٹری اسٹیشن میں مسلسل دوسرے روز فائرنگ میں مجموعی ہلاکتیں 5 ہوگئیں، فوٹو: فائل نئی دہلی: ابھی بھارتی فوج ریاست پنجاب کے فوجی اڈے میں کل ہونے والی فائرنگ میں 4 اہلکار ہلاکت سے سنبھلی نہ تھی کہ اسی مقام پر فائرنگ کے ایک اور واقعے میں مزید ایک اہلکار گولی لگنے سے موت کی…بھارت کے ملٹری بیس میں دوسرے دن بھی فائرنگ؛ ایک اور فوجی ہلاک
View On WordPress
0 notes