#زخمی
Explore tagged Tumblr posts
kokchapress · 15 days ago
Text
درگیری در علی‌آباد کندز؛ جبهه مقاومت: سه طالب کشته شدند
درگیری در علی‌آباد کندز؛ جبهه مقاومت: سه طالب کشته شدند #علی‌آباد #کندز #جبهه_مقاومت #طالبان #درگیری #افغانستان
درگیری اخیر در ولسوالی علی‌آباد کندز، مورد توجه ویژه رسانه‌ها قرار گرفته است. جبهه مقاومت ملی اعلام کرده است که عملیات نیروهایش در منطقه «باغ انگور» منجر به کشته شدن سه طالب و زخمی شدن یک نفر دیگر از این گروه شده است. این اطلاعات توسط منابع معتبر در منطقه تأیید شده است. با این حال، منابع داخلی طالبان وقوع این درگیری را رد کرده و آن را بخشی از تبلیغات رسانه‌ای خوانده‌اند. این تحولات جدید در…
0 notes
googlynewstv · 2 months ago
Text
موٹروے پر فتح جنگ کے قریب بس حادثے میں 10 افراد جاں بحق، 7 زخمی
موٹر وے ایم 14 پر فتح جنگ کے قریب مسافر بس کو پیش آنے والے حادثے کے نتیجے میں 10 افراد جاں بحق ہوگئے۔ ترجمان موٹروے پولیس کے مطابق موٹر وے ایم 14 پر فتح جنگ کے قریب بس کو حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں 10 افراد جاں بحق اور 7 زخمی ہوگئے۔ ترجمان کے مطابق بس بہاولپور سے اسلام آباد جا رہی تھی کہ بس ڈرائیورکی لاپرواہی کی وجہ سے بس حادثے کا شکار ہو گئی۔ مدارس رجسڑیشن بل پر پارلیمنٹ کی بالادستی کی جنگ…
0 notes
topurdunews · 3 months ago
Text
کوسٹر اور مزدا میں تصادم خاتون جاں بحق 18 مسافر زخمی
(24نیوز)ننکانہ صاحب میں ٹریفک حادثے میں ایک خاتون جاں بحق، 6 خواتین سمیت 18 افراد زخمی ہوگئے۔ کوسٹر مسافروں کو ملتان سے سیالکوٹ لیکر جارہی تھی، موٹر وے ایم 3 ریسٹ ایریا کے قریب کوسٹر مزدا سے ٹکرا گئی، حادثہ تیز رفتاری کی وجہ سے پیش آیا، حادثے کی اطلاع پر پولیس اور امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں۔ ریسکیو حکام کے مطابق خاتون کی لاش اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا، پولیس نے حادثے کی تحقیقات…
0 notes
pinoytvlivenews · 5 months ago
Text
اسرائیلی فوج کی لبنان کے بازار پر بمباری:51 شہید 174 زخمی
بیروت(ڈیلی پاکستان آن لائن ) اسرائیلی فوج کی لبنان کے ایک بازار پر بھی بمباری،51 شہید اور 174 زخمی ہوگئے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق لبنان کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ماونٹ لبنان میں 22 اور جنوبی نباتیہ میں 10 جبکہ بقیہ افراد دیگر علاقوں میں شہید ہوئے۔وزارت صحت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ رہائشی عمارتوں کے ملبے سے لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ 174 زخمیوں میں سے درجن سے زائد کی حالت نازک ہے۔اسرائیلی…
0 notes
ariesvibe · 10 days ago
Text
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خبر نہیں آتی
0 notes
mkn314 · 2 months ago
Text
۳۷۵ سوخت‌بر کشته و زخمی در سال ۲۰۲۴ در ایران
Continue reading ۳۷۵ سوخت‌بر کشته و زخمی در سال ۲۰۲۴ در ایران
0 notes
rabiabilalsblog · 7 months ago
Text
"ابتدائے محبت کا قصہ "
عہدِ بعید میں، زمین و آسمان کی آفرینش کے بعد ،جب ابھی بشر کا عدم سے وجود میں آنا باقی تھا، اس وقت زمین پر اچھائی اور برائی کی قوتیں مل جل کر رہتیں تھیں. یہ تمام اچھائیاں اور برائیاں عالم عالم کی سیر کرتے گھومتے پھرتے یکسانیت سے بے حد اکتا چکیں تھیں.
ایک دن انہوں نے سوچا کہ اکتاہٹ اور بوریت کے پیچیدہ مسئلے کو حل کرنا چاہیے،
تمام تخلیقی قوتوں نے حل نکالتے ہوئے ایک کھیل تجویز کیا جس کا نام آنکھ مچولی رکھا گیا.
تمام قوتوں کو یہ حل بڑا پسند آیا اور ہر کوئی خوشی سے چیخنے لگا کہ "پہلے میں" "پہلے میں" "پہلے میں" اس کھیل کی شروعات کروں گا..
پاگل پن نے کہا "ایسا کرتے ہیں میں اپنی آنکھیں بند کرکے سو تک گنتی گِنوں گا، اس دو��ان تم سب فوراً روپوش جانا، پھر میں ایک ایک کر کے سب کو تلاش کروں گا"
جیسے ہی سب نے اتفاق کیا، پاگل پن نے اپنی کہنیاں درخت پر ٹکائیں اور آنکھیں بند کرکے گننے لگا، ایک، دو، تین، اس کے ساتھ ہی تمام اچھائیاں اور برائیاں اِدھر اُدھر چھپنے لگیں،
سب سے پہلے نرماہٹ نے چھلانگ لگائی اور چاند کے پیچھے خود کو چھپا لیا،
دھوکا دہی قریبی کوڑے کے ڈھیر میں چھپ گئی،
جوش و ولولے نے بادلوں میں پناہ لے لی،
آرزو زیرِ زمین چلی گئی،
جھوٹ نے بلند آواز میں میں کہا، "میرے لیے چھپنے کی کوئی جگہ باقی نہیں بچی اس لیے میں پہاڑ پر پتھروں کے نیچے چھپ رہا ہوں" ، اور یہ کہتے ہوئے وہ گہری جھیل کی تہہ میں جاکر چھپ گیا،
پاگل پن اپنی ہی دُھن میں مگن گنتا رہا، اناسی، اسی، اکیاسی،
تمام برائیاں اور اچھائیاں ایک ایک کرکے محفوظ جگہ پر چھپ گئیں، ماسوائے محبت کے، محبت ہمیشہ سے فیصلہ ساز قوت نہیں رہی ، لہذا اس سے فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ کہاں غائب ہونا ہے، اپنی اپنی اوٹ سے سب محبت کو حیران و پریشان ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور یہ کسی کے لئے بھی حیرت کی بات نہیں تھی ۔
حتیٰ کہ اب تو ہم بھی جان گئے ہیں کہ محبت کے لیے چھپنا یا اسے چھپانا کتنا جان جوکھم کا کام ہے. اسی اثنا میں پاگل پن کا جوش و خروش عروج پر تھا، وہ زور زور سے گن رہا تھا، پچانوے، چھیانوے، ستانوے، اور جیسے ہی اس نے گنتی پوری کی اور کہا "پورے سو" محبت کو جب کچھ نہ سوجھا تو اس نے قریبی گلابوں کے جھنڈ میں چھلانگ لگائی اور خود کو پھولوں سے ڈھانپ لیا،
محبت کے چھپتے ہی پاگل پن نے آنکھیں کھولیں اور چلاتے ہوئے کہا "میں سب کی طرف آرہا ہوں" "میں سب کی طرف آرہا ہوں" اور انہیں تلاش کرنا شروع کردیا،
سب سے پہلے اس نے سستی کاہلی کو ڈھونڈ لیا، کیوں کہ سستی کاہلی نے چھپنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی اور وہ اپنی جگہ پر ہی مل گئی،
اس کے بعد اس نے چاند میں پوشیدہ نرماہٹ کو بھی ڈھونڈ لیا،
صاف شفاف جھیل کی تہہ میں جیسے ہی جھوٹ کا دم گُھٹنے لگا تو وہ خود ہی افشاء ہوگیا، پاگل پن کو اس نے اشارہ کیا کہ آرزو بھی تہہ خاک ہے،
اسطرح پاگل پن نے ایک کے بعد ایک کو ڈھونڈ لیا سوائے محبت کے،
وہ محبت کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا حتیٰ کہ ناامید اور مایوس ہونے کے قریب پہنچ گیا،
پاگل پن کی والہانہ تلاش سے حسد کو آگ لگ گئی، اور وہ چھپتے چھپاتے پاگل پن کے نزدیک جانے لگا، جیسے ہی حسد پاگل پن کے قریب ہوا اس نے پاگل پن کے کان میں سرگوشی کی " وہ دیکھو وہاں، گلابوں کے جُھنڈ میں محبت پھولوں سے لپٹی چھپی ہوئی ہے"
پاگل پن نے غصے سے زمین پر پڑی ایک نوکدار لکڑی کی چھڑی اٹھائی اور گلابوں پر دیوانہ وار چھڑیاں برسانے لگا، وہ لکڑی کی نوک گلابوں کے سینے میں اتارتا رہا حتیٰ کہ اسے کسی کے زخمی دل کی آہ پکار سنائی ��ینے لگی ، اس نے چھڑی پھینک کر دیکھا تو گلابوں کے جھنڈ سے نمودار ہوتی محبت نے اپنی ��نکھوں پر لہو سے تربتر انگلیاں رکھی ہوئی تھیں اور وہ تکلیف سے کراہ رہی تھی، پاگل پن نے شیفتگی سے بڑھ کر محبت کے چہرے سے انگلیاں ہٹائیں تو دیکھا کہ اسکی آنکھوں سے لہو پھوٹ رہا تھا، پاگل پن یہ دیکھ کر اپنے کیے پر پچھتانے لگا اور ندامت بھرے لہجے میں کہنے لگا، یا خدا! یہ مجھ سے کیا سرزد ہوگیا، اے محبت! میرے پاگل پن سے تمھاری بینائی جاتی رہی، میں بے حد شرمندہ ہوں مجھے بتاؤ میری کیا سزا ہے؟ میں اپنی غلطی کا ازالہ کس صورت میں کروں؟
محبت نے کراہتے ہوئے کہا " تم دوبارہ میرے چہرے پر نظر ڈالنے سے تو رہے، مگر ایک طریقہ بچا ہے تم میرے راہنما بن جاؤ اور مجھے رستہ دکھاتے رہو"
اور یوں اس دن کے واقعے کے بعد یہ ہوا کہ، محبت اندھی ہوگئی، اور پاگل پن کا ہاتھ تھام کر چلنے لگی ، اب ہم جب محبت کا اظہار کرنا چاہیں تو اپنے محبوب کو یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ "میں تمھیں پاگل پن کی حد تک محبت کرتا ہوں "
8 notes · View notes
risingpakistan · 4 months ago
Text
اسرائیل نے فوٹیج جاری کر کے یحییٰ سنوار کی شہادت کی داستان کو امر کر دیا
Tumblr media
اپنی زندگی کی طرح یحییٰ سنوار کی شہادت بھی مصائب کے خلاف مزاحمت کی عکاس تھی۔ وہ 1962ء میں خان یونس کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے جہاں نکبہ کے دوران ان کا خاندان اپنے گھر عسقلان سے نقل مکانی کر کے پناہ حاصل کیے ہوئے تھا۔ یحییٰ سنوار نے 1987ء میں حماس کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی اس میں شمولیت اختیار کر لی اور داخلی سیکیورٹی ونگ کے اہم رکن کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ یحییٰ سنوار جاسوسوں اور مخالفین کے سہولت کاروں کی شناخت کرنے میں مہارت رکھتے تھے اور اس کے لیے وہ اکثر اوقات سخت طریقہ کار اختیار کرتے تھے۔ ان کی جانب سے بنائے گئے نظام کی پائیداری اس سے بھی ثابت شدہ ہے کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود اسرائیل کی انٹیلی جنس اب تک غزہ کی پٹی میں یحییٰ سنوار سمیت حماس کے دیگر اہم رہنماؤں کی نقل وحرکت کو بےنقاب کرنے میں ��دوجہد کا سامنا کررہی ہے۔ اور جب وہ یحییٰ سنوار کو شہید کرنے میں کامیاب ہو گئے تب بھی اسرائیل نے بذات خود اعتراف کیا کہ اسرائیلی افواج کا ان سے ٹکرا جانا ایک اتفاق تھا۔
1982ء اور 1988ء میں گرفتار ہونے والے یحییٰ سنوار نے رہائی سے قبل اسرائیلی جیل میں 23 سال گزارے اور انہیں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے تبادلے میں ایک ہزار 46 دیگر فلسطینی قیدیوں کے ہمراہ رہا کیا گیا۔ ممکنہ طور پر یہی وہ وجہ تھی جس کی بنا پر انہیں 7 اکتوبر کے حملے کی ترغیب ملی جس کے تحت حماس 250 اسرائیلی سپاہیوں کو یرغمالی بنا کر غزہ لے گیا۔ جیل نے ایک تربیتی مرکز کے طور پر کام کیا، سالوں بعد یحییٰ سنوار نے اپنے سپورٹرز کو بتایا، ’وہ چاہتے تھے یہ جیل ہماری قبر بن جائے جہاں وہ ہمارے حوصلوں اور عزائم کو کچل سکیں۔۔۔ لیکن ہم نے جیل کو اپنے لیے عبادت گاہوں اور مطالعے کے لیے اکیڈمیز میں تبدیل کر دیا‘۔ یہ محض کھوکھلی باتیں نہیں تھیں۔ یحییٰ سنوار نے جیل میں گزارے جانے والے عرصے میں عبرانی زبان پر عبور حاصل کیا اور ساتھ ہی وہ مشاہدہ کرتے رہے کہ اسرائیل کی سیکیورٹی فورسز کیسے کام کرتی ہیں بالخصوص بدنامِ زمانہ داخلی سیکیورٹی ونگ شن بیٹ کس طرح کام کرتا ہے، اس پر غور کیا۔ انہوں نے حاصل کردہ معلومات کا بہترین انداز میں استعمال کیا۔
Tumblr media
یحییٰ سنوار جو سالوں سے اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر تھے، غزہ میں ہی مقیم تھے، ایک مجاہد کے طور پر اپنے لوگوں کے ساتھ ساتھ رہے اور اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے والے اپنے گھر کے ملبے کے درمیان کرسی پر بیٹھے نظر آئے۔ حیرت انگیز طور پر اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی وہ ایسے ہی ایک صوفے پر بیٹھے تھے۔ زمینی کارروائی کے دوران اسرائیلی افواج سے سامنا ہونے پر یحییٰ سنوار اور ان کے تین محافظوں نے ایک عمارت میں پناہ لی۔ اسرائیل کے مطابق یحییٰ سنوار نے قریب آنے والے سپاہیوں پر دستی بموں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک اسرائیلی فوجی شدید زخمی ہوا۔ عمارت میں داخل ہو کر بات کرنے سے انکاری اسرائیلی فوج نے عمارت کو ٹینک سے نشانہ بنایا جس میں یحییٰ سنوار شدید زخمی ہوئے اور ان کا دایاں بازو جدا ہو گیا۔ اس کے بعد اسرائیل نے ڈرون بھیجا۔ ان کے محافظ شہید ہو چکے تھے اور جیسا کہ ڈرون فوٹیج نے دکھایا، یحییٰ سنوار زخمی حالت میں سر پر کوفیہ باندھے صوفے پر براجمان تھے۔ ان کا بایاں بازو جو اس وقت حرکت کرنے کے قابل تھا، انہوں نے اس بازو سے مزاحمت کی آخری کوشش کے طور پر قریب آنے والے اسرائیلی کواڈ کاپٹر پر چھڑی پھینکی جوکہ ٹیکنالوجی کے ذریعے کیے جانے والے ہولوکاسٹ کے خلاف مزاحمت کی ایک انسانی کوشش تھی۔ یہ سب ہونے کے بعد بھی انہیں شہید کرنے کے لیے ایک اسنائپر شوٹر کی ضرورت پیش آئی۔
ان کی شہادت نے اسرائیل کے بہت سے جھوٹے دعووں کا پردہ چاک کیا۔ ایک سال سے زائد عرصے سے اسرائیلی میڈیا نے یحییٰ سنوار کے ٹھکانے کے بارے میں اسرائیلی انٹیلی جنس کے ہر دعوے کو فرض شناسی کے ساتھ رپورٹ کیا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ غزہ سے فرار ہو چکے ہیں اور کسی دوسرے ملک میں چھپے ہیں جبکہ ان کے ہم وطن مصائب کا سامنا کررہے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ ایک خاتون کے بھیس میں فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہیں، ایک فریب جسے اسرائیل نے اپنی وحشیانہ کارروائیوں کے لیے جواز کے طور پر پیش کیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اسرائیل نے اب تک انہیں اس لیے نشانہ نہیں بنایا کیونکہ وہ زیرِزمین سرنگوں میں خودکش جیکٹ پہن کر اسرائیلی یرغمالیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اس کے بجائے یحییٰ سنوار محاذ پر موجود تھے اور رفح میں اسرائیلی افواج سے چند میٹرز کی دوری پر تھے۔ ان کی آخری لمحات کی ویڈیو جاری کرکے اسرائیل نے یقینی بنایا کہ ان کی بہادری کی داستان امر ہو جائے۔ 
حتیٰ کہ وہ لوگ جو صہیونیت سے ہمدردی رکھتے ہیں، انہوں نے بھی فوٹیج جاری کرنے کے اقدام پر سوال اٹھایا لیکن میرے نزدیک ایسا اس لیے ہے کیونکہ اسرائیل اب تک ان لوگوں کی ذہنیت کو سمجھنے سے قاصر ہے جنہیں وہ تقریباً ایک صدی سے ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر یہ فوٹیج جاری کرنے کے پیچھے اسرائیل کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کو یحییٰ سنوار کی لاچارگی دکھائی جائے اور مزاحمت کے حوالے سے ناامیدی ظاہر کی جائے تو اس مقصد میں وہ بری طرح ناکام ہوئے کیونکہ اس سے بالکل الٹ تاثر گیا۔ انہیں گمان تھا کہ یحییٰ سنوار کو مار کر وہ ان کی تحریک کو ختم کرسکتے ہیں تو وہ اب تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ مزاحمت، قیادت کے بجائے ڈھائے جانے والے مظالم سے مضبوط ہوتی ہے۔ جب تک جبر رہے گا تب تک اس کے خلاف مزاحمت بھی موجود رہے گی۔ جہاں تک یحییٰ سنوار کی بات ہے، یہی وہ انجام تھا جس کی انہیں خواہش تھی۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا، ’اسرائیل مجھے سب سے بڑا تحفہ مجھے قتل کر کے دے سکتا ہے۔۔۔ میں کورونا وائرس، اسٹروک یا ہارٹ اٹیک سے مرنے کے بجائے ایف 16 طیارے کی بمباری سے شہید ہونے کو ترجیح دوں گا‘۔ یحییٰ سنوار کو تو وہ مل گیا جس کی انہیں خواہش تھی، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اسرائیل اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب ہوپاتا ہے یا نہیں۔
ضرار کھوڑو
بشکریہ ڈان نیوز  
4 notes · View notes
0rdinarythoughts · 2 years ago
Text
Tumblr media
Muhammad Al-Maghout wrote on the grave of his wife Saniya Saleh:
"یہ دنیا کا آخری بچہ ہے"
"Here lies the last child in the world"
تیس سال اور وہ مجھے ایک زخمی سپاہی کی طرح اٹھا کر لے گئی اور میں اسے چند قدم بھی اس کی قبر تک نہ لے جا سکا۔
Thirty years and she carried me like a wounded soldier, and I could not carry her to her grave for a few steps
اس نے یہ بھی لکھا: اس کے بعد تمام عورتیں ستارے ہیں، گزرنے والی اور بجھنے والی ہیں اور وہ اکیلی آسمان ہے۔
He also wrote: All women after her are stars, passing and extinguishing, and she alone is the sky.
58 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 2 months ago
Text
عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے
میں شرمسار ہوا تیری جستجو کر کے
کھنڈر کی تہ سے بریدہ بدن سروں کے سوا
ملا نہ کچھ بھی خزانوں کی آرزو کر کے
سنا ھے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ھے
چلیں ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے
محسن نقوی
2 notes · View notes
seyedbeqarar · 2 months ago
Text
از شّطِ شراب عشق تا مُل می‌داد
از قصد مرا بە سوی تو هُل می‌داد
یک عمر نوشتیم فقط از رُخ یار
زخمی کە درون سینەام گل می‌داد
2 notes · View notes
kokchapress · 15 days ago
Text
درگیری در علی‌آباد کندز؛ جبهه مقاومت: سه طالب کشته شدند
درگیری در علی‌آباد کندز؛ جبهه مقاومت: سه طالب کشته شدند #علی‌آباد #کندز #جبهه_مقاومت #طالبان #درگیری #افغانستان
درگیری اخیر در ولسوالی علی‌آباد کندز، مورد توجه ویژه رسانه‌ها قرار گرفته است. جبهه مقاومت ملی اعلام کرده است که عملیات نیروهایش در منطقه «باغ انگور» منجر به کشته شدن سه طالب و زخمی شدن یک نفر دیگر از این گروه شده است. این اطلاعات توسط منابع معتبر در منطقه تأیید شده است. با این حال، منابع داخلی طالبان وقوع این درگیری را رد کرده و آن را بخشی از تبلیغات رسانه‌ای خوانده‌اند. این تحولات جدید در…
0 notes
googlynewstv · 7 months ago
Text
وادی تیرہ میں زخمی ہونیوالے لیفٹیننٹ جنرل عزیزمحمود دم توڑگئے
وادی تیرہ میں جھڑپوں کے دوران زخمی ہونیوالے لیفٹیننٹ عزیر محمود ملک نے سی ایم ایچ پشاور میں جام شہادت نوش کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق لیفٹیننٹ عزیر محمود ملک 9 اگست کو خیبر کی وادی تیراہ میں دہشت گردوں کے ساتھ جھڑپ میں زخمی ہوئے تھے۔خیبر  کی وادی میں تین مختلف مقامات پر خوارج اور سکیورٹی فورسز کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔فائرنگ کے تبادلے میں اپنے دستے کی قیادت کرنے والے لیفٹیننٹ عزیر…
0 notes
topurdunews · 3 months ago
Text
پی ٹی آئی شرپسندوں کے تشدد سے زخمی ہونے والے ایس ایچ او طاہر اقبال کی  اہم گفتگو
(احمد منصور) 24 تا 26نومبر تک پی ٹی آئی کے پرتشدد مظاہروں کے دوران جہاں دیگر سکیورٹی اہلکار شدید زخمی ہوئے انہیں میں ایس ایچ او تھانہ نیو ائیرپورٹ طاہر اقبال بھی شامل ہیں،  شرپسندوں نے ایس ایچ او طاہر اقبال کو شدید زخمی کیا اور ان کا ایک بازو بھی فریکچر ہوا۔  زخموں سے صحت یاب  ہونے کے بعد ڈیوٹی پر پہنچ   خیالات کا اظہار کرتے ہوئے طاہر اقبال کا کہنا تھا کہ ”24 نومبر 2024ء کو میں لاء اینڈ آرڈر…
0 notes
asthetic-azalea · 1 year ago
Text
Nemrah-Ahmad wrote in jannat key pattay
خواب اگر اپنے ہاتھوں سے توڑے جائے تو انگلیاں بھی زخمی ہوجاتی ہیں-❤️‍🩹
5 notes · View notes
hauntedqueenking · 2 days ago
Link
[ad_1] خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ کے معروف علاقے اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ میں جمعہ کو خودکش دھماکے میں جامعہ کے نائب مہتمم مولانا حامد الحق حقانی سمیت 8 افراد شہید ہو گئے ہیں جب کہ 20 سے زائد شدید زخمی ہوگئے۔ میڈیا کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ مولانا حامد الحق دارالعلوم حقانیہ کی مسجد سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنی رہائش گاہ جارہے تھے تو مسجد کے خارجی دروازے کے قریب ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا ، مولانا حامد الحق حقانی اور وہاں موجود لوگ شدید زخمی ہوئے۔ مولانا کو نازک حالت میں اسپتال لے جایا گیا جہاں وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ دارالعلوم حقانیہ کی مسجد میں چونکہ جمعہ کو بہت زیادہ رش ہوتا ہے، اس وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ دارالعلوم حقانیہ کے ارد گرد جمع ہوگئے جس کی وجہ سے جی ٹی روڈ پر ٹریفک کا نظام بھی درہم برہم رہا، ایک سینیئر پولیس افسر کے حوالے سے میڈیا نے بتایا ہے کہ دھماکا خودکش حملہ آور نے مولانا حامد الحق کو ٹارگٹ کر کے خود کو دھماکے سے اڑایا ہے۔ یہ خودکش حملہ مسجد کے ساتھ ملحقہ ایریا میں کیا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مدرسہ میں سیکیورٹی کے لیے 23 پولیس اہلکار ڈیوٹی پر تعینات تھے جب کہ مولانا حامد الحق کی سیکیورٹی کے لیے بھی چھ پولیس اہلکار تعینات تھے۔ یہی وجہ ہے کہ زخمیوں میں چار پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ مدرسہ کے داخلی دروازوں پر مدرسہ انتظامیہ کی بھی سیکیورٹی موجود تھی۔ اس کے باوجود خودکش حملہ آور کا مدرسے کے اندر تک چلے جانا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ مولانا حامد الحق حقانی شہید کی نماز جنازہ ہفتے کو اکوڑہ خٹک میں ادا کر دی گئی، انھیں اپنے والد مولانا سمیع الحق شہیدکے پہلو اور اپنی والدہ کے قدموں میں دفن کیا گیا ہے۔ مولانا حامد الحق جے یو آئی سمیع الحق گروپ کے سربراہ بھی تھے۔ وہ اپنے والد مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد جے یو آئی سمیع الحق گروپ کے سربراہ بنے تھے۔ ان کے والد مولانا سمیع الحق نامور عالم دین تھے۔ مولانا سمیع الحق کے والد کا نام مولانا عبدالحق تھا، وہ بھی خیبرپختونخوا کی بہت بڑی مذہبی شخصیت تھے، انھوں نے اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ کی بنیاد رکھی تھی۔ دارالعلوم حقانیہ کو افغان جہاد کے برسوں میں شہرت حاصل ہوئی، اس مدرسے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں سے ہزاروں افغان طالبان نے دینی تعلیم حاصل کی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی مولانا سمیع الحق کے ساتھ بڑی گہری وابستگی تھی اور مولانا سمیع الحق طالبان کے ’’باپ‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ اخباری خبر میں بتایا گیا ہے کہ ماضی میں ایک بار مولانا سمیع الحق نے ملا عمر کو اپنے بہترین طالب علموں میں سے ایک قرار دیا تھا اور انھیں ایک ’’فرشتہ نما انسان‘‘ کہا تھا۔ مولانا سمیع الحق متحدہ مجلس عمل کے بانی رہنماؤں میں شامل اور دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ بھی تھے۔ انھوں نے متحدہ دینی محاذ کی بھی 2013میں بنیاد رکھی تھی۔ وہ دو مرتبہ پاکستان کے ایوان بالا کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔ مولانا سمیع الحق کے تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا میں پہلی صوبائی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے تاہم بعد میں سینیٹ انتخابات میں ٹکٹ نہ دیے جانے پر ان کے تحریک انصاف کے ساتھ اختلافات کی خبریں بھی آئی تھیں۔ مولانا سمیع الحق کی شہادت کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا حامد الحق ان کے سیاسی ومذہبی جانشین تھے۔ اخبار کی خبر میں ہی بتایا گیا ہے مولانا حامد الحق نے اپنے والد کے قتل کے بعد کہا تھا کہ افغان حکومت اور مختلف طاقتوں کی جانب سے والد کو خطرہ تھا کیونکہ والد صاحب افغانستان کو امریکا کے تسلط سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔ مولانا حامد الحق کے اس سیاسی ومذہبی پس منظر سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ ایسی شخصیت تھے، جوکئی گروپوں کا ٹارگٹ ہو سکتے ہیں۔ بہرحال اب چونکہ تحقیقات جاری ہیں، جب تک تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں آتی تو فی الحال قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس قتل کے پیچھے ��وئی گروپ تھا یا نہیں۔ البتہ میڈیا نے سیکیورٹی ذرایع کا حوالہ دے کر بتایا ہے کہ اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ میں خود کش حملہ فتنہ الخوارج اور ان کے سر پرستوں کی مذموم کارروائی ہے ، ابتدائی اطلاعات کے مطابق خود کش حملہ فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں نے کیا جس میں مولانا حامد الحق حقانی کو نشانہ بنایا گیا ،مولانا حامد الحق حقانی نے گزشتہ ماہ رابطہ عالم اسلامی کے تخت ہونے والی کانفرنس میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے واضح اور دو ٹوک مؤقف اختیار کیا تھا، سیکیورٹی ذرایع کے مطابق مولانا حامد الحق نے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کو بھی خلاف اسلام قرار دیا تھا۔ اس بیانیے پر انھیں دھمکیاں بھی دی گئی تھیں، نماز جمعہ کے دوران دھماکا اس بات کی غمازی کرتا ہے کے فتنہ الخوارج، ان کے پیروکاروں اور سہولت کاروں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ مولانا حامد الحق کی خودکش حملے میں شہادت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خیبرپختونخوا کے حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ کرم کی صورت حال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اگر کرم کے حالات پر شروع میں ہی سخت گیر پالیسی اختیار کی جاتی اور وہاں شرپسند اور دہشت گرد عناصر کے خلاف بھرپور ایکشن لیا جاتا تو شاید خیبرپختونخوا میں جاری دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی آجاتی۔ کرم ہی نہیں بلکہ کرک اور بنوں، کوہاٹ وغیرہ میں بھی بدامنی اور دہشت گردی کے خلاف عوامی مظاہرے ہوتے رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان معاملات پر بھی آنکھیں بند رکھی گئیں۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صوبے کی صورت حال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں بھی دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہیں موجود ہیں اور وہاں بھی ان کے سہولت کار اپنا کام کر رہے ہیں۔ نرم حکومتی رٹ اور عزم کی کمزوری کے باعث دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کھل کھیلنے کا بھرپور موقع مل رہا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ دارالعلوم حقانیہ کی اپنی سیکیورٹی بھی خاصی سخت ہے۔ اتنی سخت سیکیورٹی کے باوجود خودکش حملہ آور کا مولانا حامد الحق تک پہنچ جانا، اندرونی سیکیورٹی لیپس کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ بغیر اندرونی سہولت کاری کے خودکش جیکٹ پہن کر کسی شخص کا آزادانہ طور پر سیکیورٹی بیریئر سے گزرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ چند ٹکوں کی خاطر جاسوسی اور سہولت کاری کرنے والوں کی کسی بھی ملک میں کمی نہیں ہوتی۔ اسی طرح پاکستان کے مختلف شہروں اور علاقوں میں بھی ایسے شخص موجود ہیں جو کسی بھی لالچ میں آ کر کسی کی جان کا سودا کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں فسادات پیدا کرنا، پاکستان میں انارکی پیدا کرنا اور پاکستان کی معیشت کو برباد کرنا کن قوتوں کی آرزو، تمنا اور مفادات کا تقاضا ہے، اس کے بارے میں بھی خاصے واضح اشارے موجود ہیں۔ ملک کے پالیسی سازوں کو بھی صورت حال کا خاصی حد تک اندازہ ہے۔ پاکستان کے عوام کا تقاضا ہے کہ ایسے شرپسند عناصر کی سرکوبی کیے بغیر ملک کی معیشت بحال ہو سکتی ہے اور نہ ہی داخلی استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ دہشت گردوں کے اندرونی سہولت کاروں، ان کے کیریئرز، ان کے فنانسرز اور ہینڈلرز کے خلاف ٹارگٹڈ اور نتیجہ خیز کارروائی کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت بن گئی ہے۔ افغانستان کی حکومت کا منفی کردار بھی اب ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے۔ پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں کے پار جو حالات ہیں، ان کے اثرات سے بچنے کے لیے پاکستان کو اپنی سرحدوں کی سخت نگرانی کرنے اور سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں موجود افغانستان کے باشندوں کا مزید قیام ملک کی سالمیت اور استحکام کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ویسے بھی اب کسی بھی افغان شہری کا پاکستان میں بطور مہاجر اور پناہ گزین قیام نہ سمجھ آنے والی بات ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے مربوط اور ٹھوس قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے ہاں امن ہے اور افغانستان کی معیشت ترقی کر رہی ہے۔ ایسی صورت میں افغانستان کی حکومت کو اپنے شہریوں کو واپس لینے میں لیت ولعل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی پاکستان میں موجود افغان مہاجرین اور پناہ گزینوں کی قیادت کو پاکستان میں قیام کی ضد کرنی چاہیے۔ پاکستان کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر قسم کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ امریکا کے صدر ٹرمپ نے بھی غیرقانونی طور پر موجود افراد کو امریکا سے نکالنا شروع کر رکھا ہے۔ اسی طرح پاکستان کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے اور پاکستان میں موجود تمام غیرقانونی غیرملکیوں کو نکالے۔ [ad_2] Source link
0 notes