#اہم
Explore tagged Tumblr posts
Text
اہم سیاسی و سماجی شخصیات مسلم لیگ (ق) شمولیت کا اعلان
(24نیوز)صوبائی وزیرچودھری شافع حسین سےگجرات کی سیاسی وسماجی شخصیات نےملاقات کرتے ہوئے فیملی ارکان اور ساتھیوں سمیت پاکستان مسلم لیگ (ق) میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ تفصیلات کےمطابق صوبائی وزیرچودھری شافع حسین سےگجرات کی سیاسی وسماجی شخصیات نےملاقات کی اور پاکستان مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین کی قیادت پرمکمل اعتمادکااظہار کیا ۔ اس موقع پر چودھری شافع حسین نے کہا کہ گجرات کی سیاسی وسماجی…
0 notes
Text
ملتان ٹیسٹ میں کامیابی کس کی محنت کا نتیجہ ہے چیئرمین پی سی بی کا اہم بیان
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)چئیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے ملتان ٹیسٹ جیتنے پر پاکستانی ٹیم کو م��ارکباد پیش کی ہے۔ چئیرمین پاکستان کرکٹ بورڈمحسن نقوی نےاپنے بیان میں کہاہے کہ ساجدخان اور نعمان علی نےشاندار باؤلنگ کرکے فتح میں اہم کردارادا کیا، کامران غلام نےپہلےہی میچ میں سنچری سکورکرکے اپنی بھرپورصلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ چئیرمین پی سی بی نے مزید نےکہاطویل عرصے کے بعد ہوم ٹیسٹ میچ میں…
0 notes
Text
روس یوکرین جنگ: اہم واقعات کی فہرست، دن 381 | روس یوکرین جنگ کی خبریں۔
روس-یوکرین جنگ اپنے 381 ویں دن میں داخل ہونے پر، ہم اہم پیش رفت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ یہ صورتحال 11 مارچ 2023 بروز ہفتہ ہے: لڑائی یوکرین تباہ شدہ شہر باخموت کے لیے جنگ جاری رکھے گا کیونکہ جنگ ختم ہو گئی ہے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ایک معاون نے کہا ہے کہ موسم بہار میں یوکرائنی جوابی کارروائی کی منصوبہ بندی سے پیشگی روس کی بہترین فوجی قوتیں ہیں۔ روسی افواج نے باخموت کے مشرقی حصے اور شمال…
View On WordPress
0 notes
Text
'سب سے اہم اٹل ہوں' سے پنکج ترپاٹھی کا پہلا منظر
‘سب سے اہم اٹل ہوں’ سے پنکج ترپاٹھی کا پہلا منظر
سب سے اہم اٹل ہن پوسٹر: اداکار پنکج ترپاٹھی فی الحال کسی شناخت پر منحصر نہیں ہیں۔ انہوں نے خوب صورتی کے خیال سے ناظرین کے اندر اپنی خاص جگہ بنائی ہے۔ پنکج ترپاٹھی کے آنے سے ہر کوئی مطمئن نظر آتا ہے۔ وہ ہر کردار کو اپنا ذاتی بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیروکار ان کی فلموں کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔ اب جلد ہی وہ ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی بایوپک فلم ‘سب سے اہم اٹل ہوں’ میں نظر…
View On WordPress
0 notes
Text
26ویں مجوزہ آئینی ترمیم کےاہم نکات سامنے آگئے
26ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ ڈرافٹ کی تیاری حتمی مرحلےمیں داخل،مجوزہ آئینی ترمیم کےاہم نکات سامنےآگئے۔ ذرائع کے مطابق26ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ ڈرافٹ میں سپریم کورٹ کے 5 یا 9 رکنی آئینی بینچ کے قیام اورصوبوں میں آئینی بینچ تشکیل نہ دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ مجوزہ ڈرافٹ میں شامل تجاویز کے مطابق آئینی بینچ کی تشکیل جوڈیشل کمیشن کرے گا اور آئینی بینچ کا سربراہ بھی جوڈیشل کمیشن مقرر کرے گا جبکہ آئینی…
0 notes
Text
بدین میں آسمانی بجلی سے دو افراد جان بحق
بدین، کڈھن اور پنگريو کے گردونواح میں گرج چمک کے ساتھ بارش نشیبی علاقے زیر آب بجلی غائب آسمانی بجلی گرنے سے ایک مرد اور ایک عورت جان بحق ہو گئے۔بدین شہر کڈھن اور پنگريو کے گردونواح اور دیگر علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ ب��رش ہونے والی بارش سے نشیبی علاقے زیر آب آگئے جبکہ بجلی اور ڈرینج کا نظام درہم برہم ہوگیا بارش کے بعد بند ہونے والی بجلی رات گئے تک بحال نہ ہو سکی . آسمانی بجلی گرنے سے پنگريو…
View On WordPress
0 notes
Text
بڑی آفت آئی نہیں ہمارے بیچ، لڑے بھی نہیں، جھگڑے بھی نہیں، ایک دوسرے پر چیخے بھی نہیں، بہت خاموشی سے ختم ہوئے، ایک دوسرے کی زندگی سے ایسے نکل گئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔
There was no big disaster between us, we did not fight, no quarrel, no shouting at each other, we ended very quietly, we left each other's lives as if we had never existed.
شاید تمہارے لیے اہم نہیں تھا لیکن یہ میرا دل تھا ریٹا (Rita)، مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرا وطن ایک پھر قبضے میں چلا گیا ہو۔
Maybe wasn't important to you but it was my heart Rita, I feel like my homeland has been taken over again.
A memorable picture of Palestinian poet Mahmood Darwish with his fiancee, Israeli agent Rita.
238 notes
·
View notes
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes
·
View notes
Text
مشاہدہ کرنے کی عادت ڈالیں ! سوچا کریں ! کہیں بھی ہوں کچھ بھی کریں ! اس کی گہرائی تک اترنے کی کوشش کیجئے !
چہرے پڑھا کیجئے !
جن باتوں سے آپ کو خود تکلیف ہو وہ کبھی دوسروں کے لئے نہ کی جائیں ۔۔۔
کوئی جب آپ کے گھر آئے تو کھلے دل کے ساتھ اس سے مل لیجئے اور اگر ان کے ساتھ بچے ہوں تو انکو سب سے زیادہ اہمیت دیجئے !
کسی کے گھر جائیں تو کبھی خالی ہاتھ نہ جائیں ۔۔اور چہرے کے تاثرات ضرور پڑھیں کہ کون آپ کو دل سے خوش آمدید کہتا ہے کون نہیں ۔۔ جو خوش دلی سے ملے اس سے جب دل ��اہے ملیں ۔۔اور جو نہ ملے اسے چھوڑیں مت لیکن بس اتنا ملیں کہ صلہ رحمی کا فرض ادا ہوجائے ۔۔یاد رکھیں محبّتیں برابر نہیں ہوا کرتیں لیکن رشتے برابر ہوتے ہیں ۔۔
کسی کو کسی کی خاطر مت چھوڑیں چاہے کتنا ہی نزدیکی کیوں نہ ہو ۔۔ اللہ کے لئے چھوڑیں جب بھی چھوڑیں ۔۔ اللہ ایک نہ ایک دن لوگوں کو آپ کی موافقت میں کر دے گا ۔۔
اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے کبھی بھی نہ گھبرائیں اور نہ اپنے کئے کو جتائیں ۔۔۔ جتانے والے کی کبھی کوئی عزت نہیں کیا کرتا ۔۔۔ خلوص نیت سے کریں گے تو خود اہم ہو جائیں گے ۔۔۔
توقعات رکھ کر خود کو نیچے مت گرنے دیں ۔۔کر کے بھول جائیں اسی میں سکون اور عزت ہے اللہ کسی اور ذریعہ سے آپ کی قدر دانی کروا دے گا ۔۔
شکر کرنے کی عادت ڈالیں چاہے جیسے بھی حالات ہوں ۔۔حالات گذر جاتے ہیں اچھی یادیں ہمیشہ باقی رہتی ہیں ۔۔ معتبر رہیں !
جہاں بھی ہوں اپنی ذات کو تکبر سے پاک رکھنے کی کوشش کریں ! دوسرے کو سنیں اور خود جو بھی کہیں دل کش ہو کسی کے لئے اذیت نہ ہو ۔۔۔
بندے سے شکایت ہو یا دکھ ملے تو پہلے رب سے رجوع کیجئے وہ حالات کو آپ کے لئے آسان کر دیتا ہے اور اگر ایسا ہونے میں دیر ہو تو وہ حوصلہ تو بخش ہی دیتا ہے ۔۔۔
کسی کا عیب مت کریدیں ! پتہ چل بھی جائے تو چرچا مت کریں ۔۔۔اللہ آپ کے عیب ڈھک دے گا ۔۔۔
انسانوں کی قربت چاہتے ہیں تو انسانوں سے دور رہیں اور رب کی قربت چاہتے ہیں تو انسانوں سے قریب رہیں ۔۔
بس یہی توازن قائم رکھ لینا ہماری کامیابی اور ہمارا سکون ہے ۔۔۔۔
8 notes
·
View notes
Text
اسرائیل نے فوٹیج جاری کر کے یحییٰ سنوار کی شہادت کی داستان کو امر کر دیا
اپنی زندگی کی طرح یحییٰ سنوار کی شہادت بھی مصائب کے خلاف مزاحمت کی عکاس تھی۔ وہ 1962ء میں خان یونس کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے جہاں نکبہ کے دوران ان کا خاندان اپنے گھر عسقلان سے نقل مکانی کر کے پناہ حاصل کیے ہوئے تھا۔ یحییٰ سنوار نے 1987ء میں حماس کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی اس میں شمولیت اختیار کر لی اور داخلی سیکیورٹی ونگ کے اہم رکن کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ یحییٰ سنوار جاسوسوں اور مخالفین کے سہولت کاروں کی شناخت کرنے میں مہارت رکھتے تھے اور اس کے لیے وہ اکثر اوقات سخت طریقہ کار اختیار کرتے تھے۔ ان کی جانب سے بنائے گئے نظام کی پائیداری اس سے بھی ثابت شدہ ہے کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود اسرائیل کی انٹیلی جنس اب تک غزہ کی پٹی میں یحییٰ سنوار سمیت حماس کے دیگر اہم رہنماؤں کی نقل وحرکت کو بےنقاب کرنے میں جدوجہد کا سامنا کررہی ہے۔ اور جب وہ یحییٰ سنوار کو شہید کرنے میں کامیاب ہو گئے تب بھی اسرائیل نے بذات خود اعتراف کیا کہ اسرائیلی افواج کا ان سے ٹکرا جانا ایک اتفاق تھا۔
1982ء اور 1988ء میں گرفتار ہونے والے یحییٰ سنوار نے رہائی سے قبل اسرائیلی جیل میں 23 سال گزارے اور انہیں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے تبادلے میں ایک ہزار 46 دیگر فلسطینی قیدیوں کے ہمراہ رہا کیا گیا۔ ممکنہ طور پر یہی وہ وجہ تھی جس کی بنا پر انہیں 7 اکتوبر کے حملے کی ترغیب ملی جس کے تحت حماس 250 اسرائیلی سپاہیوں کو یرغمالی بنا کر غزہ لے گیا۔ جیل نے ایک تربیتی مرکز کے طور پر کام کیا، سالوں بعد یحییٰ سنوار نے اپنے سپورٹرز کو بتایا، ’وہ چاہتے تھے یہ جیل ہماری قبر بن جائے جہاں وہ ہمارے حوصلوں اور عزائم کو کچل سکیں۔۔۔ لیکن ہم نے جیل کو اپنے لیے عبادت گاہوں اور مطالعے کے لیے اکیڈمیز میں تبدیل کر دیا‘۔ یہ محض کھوکھلی باتیں نہیں تھیں۔ یحییٰ سنوار نے جیل میں گزارے جانے والے عرصے میں عبرانی زبان پر عبور حاصل کیا اور ساتھ ہی وہ مشاہدہ کرتے رہے کہ اسرائیل کی سیکیورٹی فورسز کیسے کام کرتی ہیں بالخصوص بدنامِ زمانہ داخلی سیکیورٹی ونگ شن بیٹ کس طرح کام کرتا ہے، اس پر غور کیا۔ انہوں نے حاصل کردہ معلومات کا بہترین انداز میں استعمال کیا۔
یحییٰ سنوار جو سالوں سے اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر تھے، غزہ میں ہی مقیم تھے، ایک مجاہد کے طور پر اپنے لوگوں کے ساتھ ساتھ رہے اور اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے والے اپنے گھر کے ملبے کے درمیان کرسی پر بیٹھے نظر آئے۔ حیرت انگیز طور پر اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی وہ ایسے ہی ایک صوفے پر بیٹھے تھے۔ زمینی کارروائی کے دوران اسرائیلی افواج سے سامنا ہونے پر یحییٰ سنوار اور ان کے تین محافظوں نے ایک عمارت میں پناہ لی۔ اسرائیل کے مطابق یحییٰ سنوار نے قریب آنے والے سپاہیوں پر دستی بموں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک اسرائیلی فوجی شدید زخمی ہوا۔ عمارت میں داخل ہو کر بات کرنے سے انکاری اسرائیلی فوج نے عمارت کو ٹینک سے نشانہ بنایا جس میں یحییٰ سنوار شدید زخمی ہوئے اور ان کا دایاں بازو جدا ہو گیا۔ اس کے بعد اسرائیل نے ڈرون بھیجا۔ ان کے محافظ شہید ہو چکے تھے اور جیسا کہ ڈرون فوٹیج نے دکھایا، یحییٰ سنوار زخمی حالت میں سر پر کوفیہ باندھے صوفے پر براجمان تھے۔ ان کا بایاں بازو جو اس وقت حرکت کرنے کے قابل تھا، انہوں نے اس بازو سے مزاحمت کی آخری کوشش کے طور پر قریب آنے والے اسرائیلی کواڈ کاپٹر پر چھڑی پھینکی جوکہ ٹیکنالوجی کے ذریعے کیے جانے والے ہولوکاسٹ کے خلاف مزاحمت کی ایک انسانی کوشش تھی۔ یہ سب ہونے کے بعد بھی انہیں شہید کرنے کے لیے ایک اسنائپر شوٹر کی ضرورت ��یش آئی۔
ان کی شہادت نے اسرائیل کے بہت سے جھوٹے دعووں کا پردہ چاک کیا۔ ایک سال سے زائد عرصے سے اسرائیلی میڈیا نے یحییٰ سنوار کے ٹھکانے کے بارے میں اسرائیلی انٹیلی جنس کے ہر دعوے کو فرض شناسی کے ساتھ رپورٹ کیا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ غزہ سے فرار ہو چکے ہیں اور کسی دوسرے ملک میں چھپے ہیں جبکہ ان کے ہم وطن مصائب کا سامنا کررہے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ ایک خاتون کے بھیس میں فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہیں، ایک فریب جسے اسرائیل نے اپنی وحشیانہ کارروائیوں کے لیے جواز کے طور پر پیش کیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اسرائیل نے اب تک انہیں اس لیے نشانہ نہیں بنایا کیونکہ وہ زیرِزمین سرنگوں میں خودکش جیکٹ پہن کر اسرائیلی یرغمالیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اس کے بجائے یحییٰ سنوار محاذ پر موجود تھے اور رفح میں اسرائیلی افواج سے چند میٹرز کی دوری پر تھے۔ ان کی آخری لمحات کی ویڈیو جاری کرکے اسرائیل نے یقینی بنایا کہ ان کی بہادری کی داستان امر ہو جائے۔
حتیٰ کہ وہ لوگ جو صہیونیت سے ہمدردی رکھتے ہیں، انہوں نے بھی فوٹیج جاری کرنے کے اقدام پر سوال اٹھایا لیکن میرے نزدیک ایسا اس لیے ہے کیونکہ اسرائیل اب تک ان لوگوں کی ذہنیت کو سمجھنے سے قاصر ہے جنہیں وہ تقریباً ایک صدی سے ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر یہ فوٹیج جاری کرنے کے پیچھے اسرائیل کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کو یحییٰ سنوار کی لاچارگی دکھائی جائے اور مزاحمت کے حوالے سے ناامیدی ظاہر کی جائے تو اس مقصد میں وہ بری طرح ناکام ہوئے کیونکہ اس سے بالکل الٹ تاثر گیا۔ انہیں گمان تھا کہ یحییٰ سنوار کو مار کر وہ ان کی تحریک کو ختم کرسکتے ہیں تو وہ اب تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ مزاحمت، قیادت کے بجائے ڈھائے جانے والے مظالم سے مضبوط ہوتی ہے۔ جب تک جبر رہے گا تب تک اس کے خلاف مزاحمت بھی موجود رہے گی۔ جہاں تک یحییٰ سنوار کی بات ہے، یہی وہ انجام تھا جس کی انہیں خواہش تھی۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا، ’اسرائیل مجھے سب سے بڑا تحفہ مجھے قتل کر کے دے سکتا ہے۔۔۔ میں کورونا وائرس، اسٹروک یا ہارٹ اٹیک سے مرنے کے بجائے ایف 16 طیارے کی بمباری سے شہید ہونے کو ترجیح دوں گا‘۔ یحییٰ سنوار کو تو وہ مل گیا جس کی انہیں خواہش تھی، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اسرائیل اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب ہوپاتا ہے یا نہیں۔
ضرار کھوڑو
بشکریہ ڈان نیوز
4 notes
·
View notes
Text
جب کسی کا کوئی مر جائے، یا ایک دن ایک عام سی ہنستی کھیلتی صبح اُس کا گھر اُجڑ جائے، جب ایک پرفیکٹ لائف گزارتے ہویے اُس پتہ چلے کہ یہ سب ایک دھوکا ہے، وہ دن کتنے عجیب ہوتے ہیں سورج کی روشنی دل کو کتنا سوگوار کرتی ہے، روڈ پے چلتے ہوئے ہنستے کھیلتے لوگ کتنا حیران کن لگتے ہیں میری زندگی اُجڑ گئی اور یہ سب لوگ کتنے نارملُ ہیں کسی کو کوئی فرق پڑا سب کتنے خوش قسمت ہیں، اور میں کتنا بد نصیب، اُس دن بچون نے کھانا کھایا یا نہی پڑھا یا نہی روز کے مسائل روز کی ڈیوٹیز سب غیر اہم ہو جاتے ہیں، احساس ہوتا ہے زندگی میں کتے بڑے مسلے ہیں، ہنستا کھیلتا چہکتا ہوا لاونج کتنا بے رونق اور disoriented لگتا ہے۔
وہ دن کتا عجیب ہوتا ہے۔
9 notes
·
View notes
Text
کوپ 29 میں این ڈی سیز اس صدی کی اہم دستاویزات قرار
آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں کوپ 29 کانفرنس کا انعقاد ہوا تو ہم نے بھی ٹھان لیا کہ ہم نے بھی جانا ہے اور ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اس کانفرنس میں شریک ہونا ہے، لمحہ بہ لمحہ ہم انتظار کرتے رہے پھر وہ لمحہ بھی آ گیا جب 7 نومبر کی صبح ہم آذربائیجان کے خوبصورت دارالحکومت باکو پہنچے، ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یقیناً یہ کانفرنس بہت اہم ہیں. 11 نومبر 2024 کی صبح ہم جب کانفرنس کے لیے…
0 notes
Text
انگلینڈ کیخلاف پاکستانی سپنر نعمان علی نے اہم اعزاز اپنے نام کر لیا
ملتان(ڈیلی پاکستان آن لائن )پاکستان کے سپنر نعمان علی چوتھی اننگز میں 8 وکٹیں لینے والے پہلے پاکستانی باولر بن گئے ۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان نے دوسرے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کو 152 رنز سے شکست دیتے ہوئے بڑی کامیابی سمیٹی جس میں نعمان علی اور ساجد خان کا اہم کردار رہا ۔ ساجد خان نے چوتھی اننگز میں انگلینڈ کے 8 کھلاڑیوں کو پولین پہنچایا جو کہ انہوں نے صرف 46 رنز دیتے ہوئے کیا ، یہ کارنانہ سرانجام…
0 notes
Text
جو بائیڈن کے 2023 اسٹیٹ آف دی یونین سے پانچ اہم نکات | جو بائیڈن نیوز
ریاستہائے متحدہ کے صدر جو بائیڈن نے سالانہ خطاب کیا۔ یونین کی ریاست خطاب، ان کی صدارت کا دوسرا، اپنے پالیسی اہداف کا خاکہ پیش کرتے ہوئے اور کامیابیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے جب وہ دوسری مدت صدارت کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ لیکن منگل کو ہونے والی تقریر ان کی پہلی منقسم کانگریس کو دی گئی تھی، جس نے بعض اوقات فضول تقریر کے دوران صدر کو جھنجھوڑ دی��۔ سامنا کرنا a ڈیموکریٹ قیادت سینیٹ اور ایوانِ…
View On WordPress
0 notes
Text
رنبیر-شردھا کی فلم کا ٹائٹل 'تو جھوتھی سب سے اہم مکڑ' ہے۔
رنبیر-شردھا کی فلم کا ٹائٹل ‘تو جھوتھی سب سے اہم مکڑ’ ہے۔
TJMM عنوان کا اعلان: آخری دن رنبیر کپور اور شردھا کپور کی سب سے زیادہ انتظار کی جانے والی بلا عنوان فلم کے بارے میں ایک ٹچ سامنے آیا۔ واقعی، فلم کے ڈائریکٹر لو رنجن نے ٹویٹ کیا اور جانکاری دی کہ فلم کا ٹائٹل مکمل قسم کا TJMM ہوگا۔ جب سے یہ معلومات یہاں تک پہنچی، پیروکار اس کے عنوان کے بارے میں بالکل مختلف قیاس آرائیاں کرنے لگے۔ تاہم اب فلم کا ٹائٹل سامنے آ گیا ہے۔ ٹائٹل اناؤنسمنٹ ویڈیو جاری کرتے…
View On WordPress
0 notes
Text
پارلیمنٹ میں اہم قانون سازی،آئینی ترمیم کے 2اہم نکات سامنے آ گئے
پارلیمنٹ میں حکومت کی متوقع قانون سازی،آئینی ترمیم کے 2اہم نکات سامنے آ گئے۔ ذرائع کے مطابق حکومت آئینی ترمیم ججوں کے حوالے سے کرنے جارہی ہے۔نکات میں ججوں کی عمر میں توسیع کی جائے گی۔اور ججوں کے تعداد میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔حکومت کو آئینی ترمیم کے لیے 3 ووٹ مزید درکار ہوں گے۔ صدر مملکت آصف زرداری نے عشائیہ میں آئینی ترمیم کے حوالے سے پی پی اراکین کو آگاہ کردیا۔آئینی ترمیم کے لیے جے یو آئی…
0 notes