#حزب اللہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
حزب اللہ کا 70 اسرائیلی فوجی ہلاک کرنےکا دعویٰ
لبنان کی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ نےایک ہفتے کےدوران70اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارےکےمطابق حزب اللہ نےایک بارپھروسطی اسرائیل پر میزائل حملے کیے۔ دوسری جانب اسرائیل نےلبنانی دارالحکومت بیروت پرشدید بمباری کی اور17 فضائی حملے کردیے۔اس دوران بغیر پیشگی وارننگ6عمارتیں بم مارکرملبےکا ڈھیر بنادی گئیں۔ ادھر شامی دارالحکومت دمشق کےمرکز میں ایک عمارت پربھی اسرائیل…
0 notes
Text
حزب اللہ
ناموسِ وطن و دیں بیج رہا ہے مسلم سالار نیام میں زنگ آلودہ ہو گئی اتحاد کی تلوار پکارتا ہی رہ گیا کشمیروفسلطین کا لہو! راہبرانِ امت رہے مغربی ناخداؤں کے یار! امت کو درپیش ہے نیا معرکۂ فرعون! نسلِ فرعون ہے قوم پر مسلط برقرار معجزۂ قرآن کو سمجھا تو فقط کفار ہی سمجھا حافظ و ملا و قاضی دین کے منافق و بدکردار! واجب امت پہ ہو چکا ہے نعرۂ حزب اللہ! ذلت کی زندگی سے بہتر خودداری کا وار! م��عوؔد Pegham…
View On WordPress
1 note
·
View note
Text
جنوبی لبنان میں اسرائیلی ڈرون حملے میں حزب اللہ کا سینئر کمانڈر شہید
حزب اللہ کے سینئر رہنما لبنان میںاسرائیل کے ڈرون حملے میں شہید ہو گئے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، حزب اللہ کے سینئر رہنما جو جنوبی لبنان میں ایک حملے میں شہید ہو گئے ہیں، کی شناخت وسام حسن طویل کے نام سے ہوئی ہے، جو گروپ کی ایلیٹ رضوان فورس ک�� ایک یونٹ کے نائب سربراہ تھے۔ تین سیکورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے، روئٹرز کا کہنا ہے کہ تاویل اور ایک اور حزب اللہ کے جنگجو اس وقت مارے گئے جب ان کی…
View On WordPress
0 notes
Text
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جلد جنگ بندی کا امکان
بیروت(ڈیلی پاکستان آن لائن) اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جلد جنگ بندی کا امکان پیدا ہوگیا۔ لبنان کے نگران وزیراعظم نے کہا کہ امید ہے چند گھنٹوں میں جنگ بندی ہوجائے گی، جنگ بندی معاہدے کی نگرانی لبنانی فوج کرے گی، حزب اللہ اور حماس نے اپنے تعلقات کا اظہار بہت دیر بعد کیا۔ اسرائیلی سرکاری میڈیا نے لبنان جنگ بندی کی تجاویز کا مسودہ نشر کردیا، حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان چند…
0 notes
Text
لبنان میں پیجر اٹیک حزب اللہ نہیں ٹیکنالوجی پر حملہ
گزشتہ ہفتے لبنان میں ایک عجیت و غریب حملہ کیا گیا، جس کی توقع بھی کسی کو نہیں تھی۔ پہلے مرحلے میں حزب اللہ اور دیگر لبنانی شہریوں کے زیراستعمال ’’پیجر‘‘ بلاسٹ کئے گئے۔ ان بلاسٹ ہونیوالے پیجرز سے متاثر ہونیوالوں میں حزب اللہ کے کارکنوں کے علاوہ عام شہریوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اسرائیلیوں کو جب اس بات کا احساس ہوا کہ اس سے حزب اللہ کو وہ خاطر خواہ نقصان نہیں پہنچا سکا، تو اس جارحیت کے دوسرے مرحلے…
0 notes
Text
مشرقِ وسطیٰ کے حالات کے پیش نظر اگلے ایرانی صدر کو کن چینلجز کا سامنا ہو گا؟
جہاں ایران کو معاشی چیلنجز سمیت داخلی مسائل کا سامنا ہے وہیں بیرونی محاذ پر تہران اسرائیل کے خلاف ایک غیراعلانیہ جنگ میں ہے جس میں صہیونی حکومت کی غزہ میں وحشیانہ کارروائیوں نے تنازع میں کلیدی کردار ادا کیا۔ تاہم یہ امکان کم ہے کہ ایران میں طاقت کا خلا پیدا ہو کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عبوری صدر نے عہدہ سنبھال لیا ہے جبکہ آئندہ 50 روز میں انتخابات متوقع ہیں۔ ابراہیم رئیسی اور ان کا وفد آذربائیجان سے ایران واپس آرہے تھے کہ جب بہ ظاہر خراب موسم کے باعث ان کا ہیلی کاپٹر پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا۔ گزشتہ روز صبح ہیلی کاپٹر میں سوار تمام افراد کی موت کی تصدیق ہو گئی تھی۔ ابراہیم رئیسی کا دورِ حکومت مختصر لیکن واقعات سے بھرپور رہا۔ انہوں نے 2021ء میں اقتدار سنبھالا۔ اپنے دورِ اقتدار میں ان کی انتظامیہ کو جس سب سے بڑے داخلی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا وہ 2022ء میں نوجوان خاتون مہسا امینی کی مبینہ طور پر ’اخلاقی پولیس‘ کی حراست میں ہلاکت کے بعد ہونے والے ملک گیر مظاہرے تھے۔ ایران میں حکومت مخا��ف مظاہروں میں شدت آئی، جواباً حکومت نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔
بین الاقوامی محاذ پر بات کریں تو چین کی بطور ثالث کوششوں کی وجہ سے ابراہیم رئیسی نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بحال کیے۔ اس عمل میں وزیرخارجہ امیر عبداللہیان نے اہم کردار ادا کیا۔ لیکن شاید مرحوم ایرانی صدر کی خارجہ پالیسی کا سب سے مشکل دور اس وقت آیا جب گزشتہ ماہ کے اوائل میں اسرائیل نے شام کے شہر دمشق میں ایران کے سفارتخانے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایران پاسدارانِ انقلاب کے اہم عسکری رہنما ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے جواب میں تہران نے دو ہفتے بعد اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملہ کیا۔ یہ ایک ایسا حملہ تھا جس کی مثال تاریخ میں ہمیں نہیں ملتی۔ پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو ابراہیم رئیسی کی نگرانی میں دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کی گئیں۔ جنوری میں دونوں ممالک نے مبینہ طور پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی پر ایک دوسرے کی سرزمین پر میزائل داغے لیکن گزشتہ ماہ مرحوم ایرانی صدر کے دورہِ پاکستان نے اشارہ دیا کہ تہران پاکستان کے ساتھ گہرے تعلقات چاہتا ہے۔ امید ہے کہ اگلے ایرانی صدر بھی اسی سمت میں میں اقدامات لیں گے۔
ایران کے خطے اور جغرافیائی سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے، ایران میں اقتدار کی منتقلی کو دنیا قریب سے دیکھے گی۔ اگرچہ کچھ مغربی مبصرین ایران کے نظام کو سپریم لیڈر کے ماتحت ایک آمرانہ نظام قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت اس سے کئی زیادہ پیچیدہ ہے۔ یہ درست ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر کو ریاستی پالیسیوں میں ویٹو کا اختیار حاصل ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ صدر اور اقتدار کے دیگر مراکز کا کوئی اثرورسوخ نہیں۔ ایران کے نئے صدر کو داخلی محاذ پر اقتصادی پریشانیوں اور سیاسی تفریق کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ دوسری جانب مشرق وسطیٰ اس وقت ایک خطرناک اور متزلزل صورت حال سے دوچار ہے جس کی بنیادی وجہ غزہ میں اسرائیل کا وحشیانہ جبر ہے۔ خطے کی حرکیات میں ایران کا متحرک کردار ہے کیونکہ وہ حماس، حزب اللہ اور اسرائیل میں لڑنے والے دیگر مسلح گروہوں کی کھلی حمایت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سب نظریں اس جانب ہیں کہ اگلے ایرانی صدر اور اسلامی جموریہ ایران کی اسٹیبلشمنٹ، اسرائیل کی مسلسل اشتعال انگیزی کا جواب کیا دے گی۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes
·
View notes
Text
غزہ تین سو پینسٹھ دن بعد
غزہ ایک برس بعد محض اکتالیس کلومیٹر طویل، چھ تا بارہ کلومیٹر چوڑی جغرافیائی پٹی سے اوپر اٹھ کے پورے عالم کی آنکھوں پر بندھی خونی پٹی میں بدل چکا ہے۔ یوں سمجھئے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے آدھے رقبے پر سال بھر میں اتنا بارود فضا سے گرا دیا جائے جس کی طاقت ہیروشیما پر برسائے جانے والے چار ایٹم بموں کے برابر ہو تو سوچئے وہاں کیا کیا اور کون کون بچے گا ؟ پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے لے کے ویتنام ، عراق اور افغانستان تک اتنے چھوٹے سے علاقے پر اتنی کم مدت میں اتنا بارود آج تک نہیں برسا۔ گزرے ایک برس میں غزہ کی دو فیصد آبادی مر چکی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد زخمی ہیں۔ جتنے مر چکے لگ بھگ اتنے ہی لاپتہ ہیں۔ گمان ہے کہ وہ ملبے تلے دبے دبے انجر پنجر میں بدل چکے ہیں یا ان میں سے بہت سے بھوکے جانوروں کا رزق ہو چکے ہیں۔ بے شمار بچے بس چند گھنٹے پہلے پیدا ہوئے اور بم ، گولے ، گولی یا دھمک سے مر گئے۔ جانے پیدا ہی کیوں ہوئے ؟ یہ سب کے سب اسرائیل کے عسکری ریکارڈ میں دھشت گرد ہیں اور جو زندہ ہیں وہ بھی دھشت گرد ہیں اور جو ماؤں کے پیٹ میں ہیں وہ بھی دھشت گرد ہیں۔
اس ایک برس میں غزہ کے لیے نہ پانی ہے ، نہ بجلی، نہ ایندھن۔ نہ کوئی اسپتال یا کلینک، اسکولی عمارت، لائبریری ، سرکاری دفتر ، میوزیم سلامت ہے۔ نہ دوکان ، درخت اور کھیت نظر آتا ہے۔ نہ کہیں بھاگنے کا رستہ ہے اور نہ ہی پیٹ بھر خوراک ہے۔ نہ ہی کوئی ایک سائبان ہے جسے محفوظ قرار دیا جا سکے۔ اسی فیصد مساجد ، گرجے اور چالیس فیصد قبرستان آسودہِ خاک ہو چکے ہیں۔ منطقی اعتبار سے ان حالات میں اب تک غزہ کی پوری آبادی کو مر جانا چاہیے تھا۔ مگر تئیس میں سے بائیس لاکھ انسانوں کا اب تک سانس لینا زندہ معجزہ ہے۔ اے ثابت قدمی تیرا دوسرا نام فلسطین ہے۔ ان حالات میں حماس سمیت کسی بھی مسلح تنظیم کے پرخچے اڑ جانے چاہیے تھے یا جو بچ گئے انھیں غیرمشروط ہتھیار ڈال دینے چاہیے تھے۔پوری آبادی گیارہ مرتبہ تین ��و پینسٹھ مربع کلومیٹر کے پنجرے کے اندر ہی اندر اب تک سترہ بار نقل مکانی کر چکی ہے۔ غزہ شہر ، خان یونس ، رفاہ اور ناصریہ ریفیوجی کیمپ چار چار بار کھنڈر کیے جا چکے ہیں۔ مگر آج بھی وہاں سے راکٹ اڑ کے اسرائیل تک پہنچ رہے ہیں۔
مقبوضہ مغربی کنارے پر بھی نہتے فلسطینیوں کے خلاف جون انیس سو سڑسٹھ کے بعد پہلی بار جنگی ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کل ملا کے بیس ہزار فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ موت ہو کہ قید ، بچے ، جوان ، بوڑھے ، عورت ، مرد سب برابر ہیں۔ مگر غزہ مرا نہیں بلکہ ایک آہ بن گیا ہے۔ اس آہ نے نہر سویز کی بحری ٹریفک خشک کر دی ہے۔ یمن سے گزر کے بحرہند سے ملنے والا بحیرہ قلزم تجارتی جہازوں کے لیے پھندہ بن گیا ہے۔ یمن پر پہلے برادر عرب بھائیوں نے پانچ برس تک مسلسل بمباری کی اور اب امریکا ، برطانیہ اور اسرائیل بمباری کر رہے ہیں مگر پھر بھی وہاں سے ڈرون اور میزائل اڑ اڑ کے اسرائیلی بندرگاہ ایلات اور تل ابیب تک پہنچ رہے ہیں۔ شمالی اسرائیل کے سرحدی علاقے حزب اللہ کی راکٹ باری کے سبب سنسان ہیں اور جنوبی لبنان میں اسرائیل کے زمینی دستے گھسنے کے باوجود کسی ایک گاؤں پر بھی قبضہ نہیں کر سکے ہیں۔ غزہ اور بیروت میں جو بھی تباہی پھیل رہی ہے وہ امریکی بموں سے لیس منڈلاتے اسرائیلی طیاروں کے ذریعے پھیل رہی ہے۔
اسرائیل نے حماس اور حزب اللہ کی بالائی قیادت کا تقریباً صفایا کر دیا ہے۔ پھر بھی مغرب کی لامحدود پشت پناہی ہوتے ہوئے وہ غزہ یا لبنان میں اپنا ایک بھی عسکری ہدف حاصل نہیں کر پایا۔ عالمی عدالتِ انصاف ہو کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی یا انسانی حقوق سے متعلق کوئی بھی مقامی یا بین الاقوامی تنظیم۔ سب کے سب اسرائیل کو الٹی چپل دکھا رہے ہیں۔ مغربی میڈیا کی بھرپور یکطرفہ کوریج کے باوجود دنیا بھر کی سڑکوں اور یونیورسٹی کیمپسوں میں اسرائیل اپنی مظلومیت کا مزید منجن بیچنے سے قاصر ہے۔ جھنجھلاہٹ سے باؤلا ہونے کے سبب کبھی وہ عالمی عدالتِ انصاف کو دیکھ کے مٹھیاں بھینچتا ہے اور کبھی پوری اقوامِ متحدہ کو یہود دشمنی کا گڑھ قرار دیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی اسرائیلی بیانیے کے تابوت میں آخری کیل ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آئرن ڈوم کے سبب اسرائیل فضا سے آنے والے راکٹوں اور میزائلوں سے بہت حد تک بچ رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اسے امریکا ، برطانیہ اور فرانس سمیت سلامتی کونسل کے پانچ میں سے تین ارکان کی اندھی حمائیت میسر ہے۔
یہ بھی تسلیم کہ کل کا یہود کش جرمنی آج اسرائیل کا اندھ بھگت بن کے اپنے تاریخی احساِسِ جرم کا قرض مرکب سود سمیت چکا رہا ہے۔ مگر انسانیت سوز جرائم کے انسداد کی عالمی عدالت کے نزدیک اسرائیلی قیادت جنگی مجرم ہے اور وہ اس وقت سوائے چار پانچ ممالک کے کہیں بھی نہیں جا سکتی۔ کیونکہ جنگی ملزموں کی گرفتاری میں تعاون ہر اس ملک کا قانونی فرض ہے جو عالمی عدالت برائے انسانی جرائم کے وجود کو باضابطہ تسلیم کر چکا ہے۔ وہ بوڑھے بھی اب باقی نہیں رہے جنھیں یہودیوں پر ہٹلر کے مظالم یاد تھے۔ آج کا لڑکا اور لڑکی تو ہٹلر کے روپ میں صرف نیتن یاہو کو جانتا ہے۔ آخر یہودیوں کی اسی برس پرانی نسل کشی کی ہمدردی تاقیامت ہر نسل کو پرانی تصاویر دکھا دکھا کے تو نہیں سمیٹی جا سکتی۔وہ بھی تب جب خود کو مظلوم کہہ کر ہمدردیاں سمیٹنے کا عادی اسرائیل عملاً نازی جرمنی کا دوسرا جنم ثابت ہو رہا ہو۔ اس ایک برس میں غزہ نے نہ صرف مغرب اور مغربی میڈیا کو ننگا کر دیا بلکہ خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے مابین ہونے والے معاہدہ ِ ابراہیمی کے ٹائروں سے بھی ہوا نکال دی۔ اخلاقی دباؤ اس قدر ہے کہ سعودی عرب نے بھی اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا ارادہ فی الحال طاق پر دھر دیا ہے۔
اگرچہ ایران کے سیکڑوں میزائلوں نے مادی اعتبار سے اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑا۔مگر اتنا ضرور ہوا کہ ایران کے مدِ مقابل عرب حکومتوں نے اسرائیل ایران دنگل میں غیر جانبدار رہنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر دو چار میزائل ’’ غلطی ‘‘ سے سمندر کے پرلی طرف نظر آنے والی آئل ریفائنریوں یا تیل کے کنوؤں یا کسی ڈیوٹی فری بندرگاہ پر گر گئے اور غلطی سے دنیا کے بیس فیصد تیل کی گزرگاہ آبنائے ہرمز میں دوچار آئل ٹینکر ڈوب گئے تو پھر کئی ریاستوں اور خانوادوں کے بوریے بستر گول ہو سکتے ہیں۔ نیتن یاہو کے بقول یہی سنہری موقع ہے خطے کا نقشہ بدلنے کا۔ نیتن یاہو کا یہ خواب بس پورا ہی ہوا چاہتا ہے۔ یہ خطہ عنقریب ایسا بدلنے والا ہے کہ خود اسرائیل چھوڑ امریکا سے بھی نہ پہچانا جاوے گا۔ پچھتر برس پہلے جس جن کو بوتل میں بند کیا گیا۔ بند کرنے والوں کے ہاتھوں سے وہ بوتل اچانک چھوٹ چکی ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
لبنان میں حزب اللہ کے خلاف جنگ میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت
اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ جنوبی لبنان میں لڑائی کے دوران اس کے آٹھ فوجی مارے گئے ہیں۔ دوسری جانب ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ سمیت کچھ یورپی ممالک پر خطے میں کشیدگی اور جنگ مسلط کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغرب اس خطے سے نکل جائے تاکہ یہاں موجود ممالک امن سے رہ سکیں
0 notes
Text
حزب اللہ: ’اسرائیل کا سب سے مشکل حریف‘ ماضی کے مقابلے میں آج کتنا طاقتور ہے؟
http://dlvr.it/TBTQRp
0 notes
Text
حزب اللہ نے اسرایئل پر 100 راکٹ داغے
1 note
·
View note
Text
شام میں نئی حزب اللہ کو قبول نہیں کریں گے، اسرائیل
شام میں نئی حزب اللہ کو قبول نہیں کریں گے، اسرائیل
یوکرین جنگ میں استعمال ایرانی ہتھیاروں کی فروخت خطے پر اثرات مرتب کرے گی (فوٹو: فائل) تل ابیب: اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ شام میں ایک اور حزب اللہ کی موجودگی کو قبول نہیں کرے گا۔ اسرائیلی فوج کے آپریشنز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ عودید بسیویک نے کہا ہے کہ شام میں فوج کی کارروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاری اور مسلسل فوجی کارروائی پورے خطے کو متاثر کرتی ہے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق انہوں نے آنیوالے سال کیلیے…
View On WordPress
0 notes
Text
حزب اللہ کےممکنہ سربراہ ہاشم صفی الدین کی شہادت کی اطلاعات
لبنان پراسرائیلی حملےمیں حزب اللہ کےممکنہ سربراہ ہاشم صفی الدین کی شہادت کی اطلاعات ہیں۔ برطانوی میڈیانےاسرائیلی سکیورٹی ذرائع کےحوالےسےدعویٰ کیاہےکہ حسن نصراللہ کےممکنہ جانشین ہاشم صفی الدین شہیدہوچکےہیں۔ گزشتہ دو روز سےبیروت کےجنوب میں اسرائیلی فوج کی جانب سےشدید بمباری کی جا رہی ہے۔امریکی اخبار کےمطابق اسرائیلی حملوں میں ہاشم صفی الدین کو ٹارگٹ کیا گیا۔ لبنانی سکیورٹی ذرائع نےکہا ہےکہ بیروت…
0 notes
Text
بائیڈن، اسرائیلی اور یورپی ہوشیار رہیں، ہماری طاقت پہلے کی نسبت ہزاروں گنا زیادہ ہے، حزب اللہ
لبنان کی حزب اللہ نے اپنے مخالفین کو خبردار کیا کہ وہ پہلے کے مقابلے میں “ہزاروں گنا زیادہ مضبوط” ہے۔ امریکہ نے ایران کو اسرائیل حماس تنازع میں ملوث ہونے پر خبردار کیا ہے، جو حزب اللہ اور فلسطینی گروپ حماس کی حمایت کرتا ہے، ۔ امریکا نے دو ��یارہ بردار بحری جہاز تعینات کیے ہیں جن کا مقصد جنگ کو بڑھانے کی کوشش کرنے والے کسی بھی ریاستی یا غیر ریاستی اداکار کو روکنا ہے۔ حزب اللہ کے عہدے دار ہاشم صفی…
View On WordPress
0 notes
Text
اسرائیل کی حزب اللہ کے نئے سربراہ کو بھی نشانہ بنانے کی دھمکی
تل ابیب (ڈیلی پاکستان آن لائن) اسرائیل نے لبنان کی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کے نئے سربراہ شیخ نعیم قاسم کو قتل کرنے کی دھمکی دے دی۔ اسرائیلی وزیر دفاع یو آوف گولانٹ نے حزب اللہ کے نئے سربراہ کو بھی نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ سوشل میڈیا پر اسرائیلی وزیر دفاع نے شیخ نعیم قاسم کی تصویر پوسٹ کی اور دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ عارضی تقرری ہے، زیادہ دیر تک نہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے اپنے پیغام میں…
0 notes
Text
دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانہ پر کھڑی ہے ؟
مڈل ایسٹ میں تیزی سے بدلتی صورت حال بارے سرِدست کوئی پیشگوئی تو ممکن نہیں تاہم بظاہر یہی سمجھ لیا گیا کہ حسن نصراللہ کی شہادت اور لبنان میں حزب اللہ کے خلاف تباہ کن حملوں کے ذریعے اسرائیل نے غزہ جنگ میں بالادستی حاصل کر لی اور اب وہ ایران میں عسکریت پسند گروپ کے”حمایتیوں“کے ساتھ براہ راست تصادم کی طرف جائے گا لیکن اسرائیل کی بے لگام جارحیت اُس کی حربی ناکامیوں کا غبار نظر آتی ہے ، اگر ہمارا…
View On WordPress
0 notes
Text
کون جال میں پھنسا ؟ حماس یا اسرائیل ؟
سات اکتوبر سے پہلے تک اسرائیلی فوج اس عسکری ڈاکٹرائن کے تحت مشقیں کرتی رہی کہ اس پر بیک وقت چہار جانب سے عرب ممالک کی افواج چڑھ دوڑی ہیں اور اب اپنی بقا کے لیے کیا فوجی حکمتِ عملی اپنانی ہے ؟ انیس سو اڑتالیس انچاس میں ایسا ہی ہوا جب نوزائیدہ اسرائیلی ریاست نے عرب ممالک کی مشترکہ فوج کی پیش قدمی کامیابی سے روک دی۔ جون انیس سو سڑسٹھ میں بھی اسرائیل نے پہل کر کے صرف پانچ دن میں مصر ، شام اور اردن کی اجتماعی عددی برتری چت کر دی۔ اکتوبر انیس سو تہتر میں اسرائیل کو سرپرائز ملا جب مصر اور شام نے اچانک دو طرفہ حملہ کر دیا۔ مگر ایک ہفتے کے اندر اسرائیل سنبھل گیا اور اس نے بھرپور امریکی مدد سے عرب ��یش قدمی کو بیچ میں ہی روک دیا۔ انیس سو بیاسی میں اسرائیل نے بیروت سے پی ایل او کو لبنانی فلانجسٹوں کی مدد سے کامیابی سے کھدیڑ دیا اور لبنان کی جنوبی پٹی کو اگلے اٹھارہ برس تک بطور بفر زون استعمال کرتا رہا۔ اسرائیل نے اس دوران اپنی طفیلی ساؤتھ لبنان آرمی بھی تشکیل دے دی۔ مگر مئی دو ہزار میں اسرائیل ایران و شام کی حمایت یافتہ حزب اللہ ملیشیا کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی تاب نہ لا سکا۔ اسے عجلت میں جنوبی لبنان کی پٹی چھوڑنا پڑی۔ ساؤتھ لبنان آرمی کا وجود بھی اسرائیلی پسپائی کے ساتھ تحلیل ہو گیا۔اٹھارہ برس کے قبضے کی قیمت ایک ہزار اسرائیلی فوجیوں کی موت کی صورت میں چکانی پڑی۔
جولائی دو ہزار چھ میں جب حزب اللہ نے ایک شبخون میں چار اسرائیلی فوجی ہلاک اور دو اغوا کر لیے تو اسرائیل نے حزب اللہ کو مزہ چکھانے کے لیے جنوبی لبنان میں بھرپور فضائی و بری کارروائی شروع کی مگر الٹا لینے کے دینے پڑ گئے جب حزب اللہ کے راکٹ اور میزائل شمالی اسرائیل کے سرحدی قصبوں کے اوپر سے گزرتے ہوئے تل ابیب اور حیفہ پر گرنے لگے۔ اسرائیل سوائے اس کے کچھ نہ کر سکا کہ حزب اللہ کو برابر کا فریق سمجھ کر جنگ بندی پر راضی ہو کر اس کمبل سے عارضی طور پر جان چھڑا لے۔ حزب اللہ وقت کے ساتھ ساتھ اور طاقت پکڑتی گئی اور آج یہ حال ہے کہ سات اکتوبر کے بعد سے شمالی اسرائیل مسلسل حزب اللہ کے راکٹوں کی زد میں ہے۔ تقریباً دو لاکھ اسرائیلی شہری گھر بار چھوڑ کے نقل مکانی کر چکے ہیں اور غزہ میں الجھنے کے سبب اسرائیل حزب اللہ سے ایک اور بھرپور جنگ شروع کرنے کا خطرہ مول لیتے ہوئے ہچکچا رہا ہے۔ اس کی جوابی کارروائیاں محض فضائی حملوں اور حزب اللہ کمانڈروں کو انفرادی طور پر ہدف بنانے تک محدود ہیں۔ اسرائیل کے ملٹری ڈاکٹرائن میں فلسطینی کبھی بھی ایسی عسکری قوت کے طور پر نہیں دیکھے گئے جن سے اسرائیل کو بقائی خطرہ محسوس ہو۔ بلکہ اسرائیلی نصاب میں فلسطینیوں کو ایک پسماندہ نیم انسان کی شکل میں ہی پیش کیا گیا جو محض دہشت گرد ہیں اور کوئی بھرپور جنگ لڑنے کے اہل نہیں۔
چنانچہ اسرائیلی فوج کو شہری علاقوں میں ایک بھرپور مزاحمتی شورش سے نمٹنے کی کوئی تربیت نہیں دی گئی۔ اسے فلسطینیوں کو دبانے کے لیے ہمیشہ ایک پولیس فورس کی طرح استعمال کیا گیا۔ اسرائیل کی باقاعدہ بری فوج محض سوا لاکھ سپاہیوں پر مشتمل ہے۔ جب کہ باقی فوجی طاقت ہر بالغ اور اہل شہری کے لیے تین برس کی لازمی فوجی خدمات کے قانون کے تابع ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بس تین برس کی لازمی مدت پوری کر کے اپنے شعبوں اور اداروں میں لوٹ جاتے ہیں اور بہت کم مستقل فوجی ملازمت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس پس منظر کے ساتھ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کبھی تصور ہی نہیں کر سکتی تھی کہ حماس یا اسلامی جہاد جیسی تنظیمیں محض اکادکا گھریلو ساختہ راکٹ چلانے کے سوا اسرائیل کو کوئی بڑا نقصان پہنچا سکتی ہیں یا کبھی اتنی طاقت ور ہو سکتی ہے کہ اسرائیل کے اندر گھس کے کوئی بھرپور پروفیشنل فوجی مشن انجام دے سکیں۔ اسرائیل کو ماضی میں الفتح ، پاپولر فرنٹ یا دیگر مسلح فلسطینی تنظیموں کے اتحاد پی ایل او کا تجربہ تھا۔ اسے اچھے سے معلوم تھا کہ فلسطینی گوریلے یا فدائین زیادہ سے زیادہ سرحدی علاقہ عبور کر کے مختصر و محدود چھاپہ مار کارروائی کر کے فرار ہو جاتے ہیں۔ یا پھر کہیں کوئی بم دھماکا کر دیتے ہیں یا پھر کوئی اسرائیلی مسافر طیارہ ہائی جیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ عارضی طور پر بین الاقوامی توجہ حاصل کر سکیں۔
اسرائیل نے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ایسی چھٹ پٹ مسلح کارروائیوں سے نمٹنے کا تجربہ حاصل کر لیا۔ جب پی ایل او نے اسرائیل کے وجود کو سیاسی و سفارتی طور پر تسلیم کر کے اسرائیل اور امریکا کی من مانی شرائط پر ہتھیار رکھ کے جو بھی ملا اسے قسمت کا لکھا سمجھ کے قبول کر لیا تو اسرائیلی عسکری قیادت کے دل سے یہ آخری کھٹکا بھی نکل گیا کہ فلسطینی اب کبھی اس قابل بھی ہو سکتے ہیں کہ ایک سنگین عسکری چیلنج بن سکیں۔ اسرائیل نے ناقابلِ تسخیر ہونے کے تاثر کو اپنے مغربی اتحادیوں اور عرب دنیا کی نظروں میں ا�� قدر مستحکم کر دیا کہ خود فلسطینیوں کے سابق اتحادی ممالک بھی اس مسلسل پروپیگنڈے کے قائل ہوتے چلے گئے کہ فلسطینی کسی کے لیے بھی کوئی سنگین خطرہ نہیں بن سکتے۔چنانچہ فلسطینیوں کو عرب حکومتوں نے پہلے کی طرح احترام اور برابری کا درجہ دینے کے بجائے ان پر ترس کھانا شروع کر دیا۔ جب عربوں نے دیکھا کہ خود پی ایل او کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی بھی عملاً اسرائیل کو ایک ناقابلِ شکست طاقت سمجھ کے انتظامی طور پر اس کی بی ٹیم بننے پر تیار ہے تو پھر عرب ممالک نے مسلسل گھاٹے کے فلسطینی نظریاتی سودے کو نظرانداز کرتے ہوئے براہِ راست یا بلاواسطہ طور پر اسرائیل سے اپنے سفارتی ، اقتصادی و اسٹرٹیجک معاملات سیدھے کرنے شروع کر دیے۔
پہل مصر نے کی، پھر اردن نے مصالحت کی اور اس کے بعد خلیجی ریاستوں نے امریکا سے قربت برقرار رکھنے کی خاطر اسرائیل سے دو ریاستی حل کی شرط منوائے بغیر ہاتھ ملا لیا۔ مگر سات اکتوبر کو حماس اور اسلامک جہاد کے مسلح کیڈر نے جنوبی اسرائیل میں گھس کے کئی گھنٹوں تک جو کارروائی کی۔ اس کے سبب اسرائیل کا روایتی فوجی نظریہ ملیامیٹ ہو گیا کہ فلسطینی نہ اپنا دفاع ٹھیک سے کرنے کے قابل ہیں اور نہ ہی کوئی جارحانہ اقدام۔ ��ماس کے آپریشن کے بعد اگلے بہتر گھنٹے تک پوری اسرائیلی سول و عسکری اسٹیبلشمنٹ سکتے کی حالت میں رہی۔ وہ یہی سمجھنے کی کوشش کرتے رہے کہ ان کے ساتھ دراصل کیا ہاتھ ہو گیا۔ غزہ میں قدم قدم پر جاسوسی کے جال اور غزہ کو تین طرف سے خاردار تاروں سے الگ تھلگ کرنے اور وہاں کسی بھی غیر معمولی نقل و حرکت کا فوری پتہ چلانے کے لیے سرحد کے ساتھ ساتھ جدید آلات سے لیس نگرانی کے ٹاورز کی موجودگی میں یہ کیسے ہو گیا ؟ اب سوال یہ ہے کہ کیا حماس نے اسرائیل کے ممکنہ ردِ عمل کا غلط اندازہ لگایا یا پھر حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل کو غزہ میں پھنسانے کے لیے جو کانٹا ڈالا اسرائیل اسے حماس کی توقعات کے مطابق نگل گیا؟ اور دنیا اب اسرائیل کو مظلوم سمجھنے کے بجائے اس کا اصل چہرہ دیکھ پا رہی ہے ؟
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes