#حزب اللہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
حزب اللہ کےخاتمے کا سوچنے والاخود مٹ جائے گا، آیت اللہ خامنہ ای
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہےکہ حزب اللہ کےخاتمے کا سوچنے والا اسرائیل خود مٹ جائے گا۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہے کہ شام میں کیے گئے اقدامات سے صیہونی حکومت کو مزاحمت ختم ہونےکی غلط فہمی ہوگئی ہے۔ دوسری جانب ترک صدر طیب اردوان کی یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان سے ملاقات ہوئی جس میں شام کی تعمیر نو اور مہاجرین کی واپسی کے لیے مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا…
0 notes
Text
حزب اللہ
ناموسِ وطن و دیں بیج رہا ہے مسلم سالار نیام میں زنگ آلودہ ہو گئی اتحاد کی تلوار پکارتا ہی رہ گیا کشمیروفسلطین کا لہو! راہبرانِ امت رہے مغربی ناخداؤں کے یار! امت کو درپیش ہے نیا معرکۂ فرعون! نسلِ فرعون ہے قوم پر مسلط برقرار معجزۂ قرآن کو سمجھا تو فقط کفار ہی سمجھا حافظ و ملا و قاضی دین کے منافق و بدک��دار! واجب امت پہ ہو چکا ہے نعرۂ حزب اللہ! ذلت کی زندگی سے بہتر خودداری کا وار! مسعوؔد Pegham…
View On WordPress
1 note
·
View note
Text
جنوبی لبنان میں اسرائیلی ڈرون حملے میں حزب اللہ کا سینئر کمانڈر شہید
حزب اللہ کے سینئر رہنما لبنان میںاسرائیل کے ڈرون حملے میں شہید ہو گئے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، حزب اللہ کے سینئر رہنما جو جنوبی لبنان میں ایک حملے میں شہید ہو گئے ہیں، کی شناخت وسام حسن طویل کے نام سے ہوئی ہے، جو گروپ کی ایلیٹ رضوان فورس کے ایک یونٹ کے نائب سربراہ تھے۔ تین سیکورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے، روئٹرز کا کہنا ہے کہ تاویل اور ایک اور حزب اللہ کے جنگجو اس وقت مارے گئے جب ان کی…
View On WordPress
0 notes
Text
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جلد جنگ بندی کا امکان
بیروت(ڈیلی پاکستان آن لائن) اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جلد جنگ بندی کا امکان پیدا ہوگیا۔ لبنان کے نگران وزیراعظم نے کہا کہ امید ہے چن�� گھنٹوں میں جنگ بندی ہوجائے گی، جنگ بندی معاہدے کی نگرانی لبنانی فوج کرے گی، حزب اللہ اور حماس نے اپنے تعلقات کا اظہار بہت دیر بعد کیا۔ اسرائیلی سرکاری میڈیا نے لبنان جنگ بندی کی تجاویز کا مسودہ نشر کردیا، حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان چند…
0 notes
Text
لبنان میں پیجر اٹیک حزب اللہ نہیں ٹیکنالوجی پر حملہ
گزشتہ ہفتے لبنان میں ایک عجیت و غریب حملہ کیا گیا، جس کی توقع بھی کسی کو نہیں تھی۔ پہلے مرحلے میں حزب اللہ اور دیگر لبنانی شہریوں کے زیراستعمال ’’پیجر‘‘ بلاسٹ کئے گئے۔ ان بلاسٹ ہونیوالے پیجرز سے متاثر ہونیوالوں میں حزب اللہ کے کارکنوں کے علاوہ عام شہریوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اسرائیلیوں کو جب اس بات کا احساس ہوا کہ اس سے حزب اللہ کو وہ خاطر خواہ نقصان نہیں پہنچا سکا، تو اس جارحیت کے دوسرے مرحلے…
0 notes
Text
مشرقِ وسطیٰ کے حالات کے پیش نظر اگلے ایرانی صدر کو کن چینلجز کا سامنا ہو گا؟
جہاں ایران کو معاشی چیلنجز سمیت داخلی مسائل کا سامنا ہے وہیں بیرونی محاذ پر تہران اسرائیل کے خلاف ایک غیراعلانیہ جنگ میں ہے جس میں صہیونی حکومت کی غزہ میں وحشیانہ کارروائیوں نے تنازع میں کلیدی کردار ادا کیا۔ تاہم یہ امکان کم ہے کہ ایران میں طاقت کا خلا پیدا ہو کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عبوری صدر نے عہدہ سنبھال لیا ہے جبکہ آئندہ 50 روز میں انتخابات متوقع ہیں۔ ابراہیم رئیسی اور ان کا وفد آذربائیجان سے ایران واپس آرہے تھے کہ جب بہ ظاہر خراب موسم کے باعث ان کا ہیلی کاپٹر پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا۔ گزشتہ روز صبح ہیلی کاپٹر میں سوار تمام افراد کی موت کی تصدیق ہو گئی تھی۔ ابراہیم رئیسی کا دورِ حکومت مختصر لیکن واقعات سے بھرپور رہا۔ انہوں نے 2021ء میں اقتدار سنبھالا۔ اپنے دورِ اقتدار میں ان کی انتظامیہ کو جس سب سے بڑے داخلی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا وہ 2022ء میں نوجوان خاتون مہسا امینی کی مبینہ طور پر ’اخلاقی پولیس‘ کی حراست میں ہلاکت کے بعد ہونے والے ملک گیر مظاہرے تھے۔ ایران میں حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آئی، جوابا�� حکومت نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔
بین الاقوامی محاذ پر بات کریں تو چین کی بطور ثالث کوششوں کی وجہ سے ابراہیم رئیسی نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بحال کیے۔ اس عمل میں وزیرخارجہ امیر عبداللہیان نے اہم کردار ادا کیا۔ لیکن شاید مرحوم ایرانی صدر کی خارجہ پالیسی کا سب سے مشکل دور اس وقت آیا جب گزشتہ ماہ کے اوائل میں اسرائیل نے شام کے شہر دمشق میں ایران کے سفارتخانے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایران پاسدارانِ انقلاب کے اہم عسکری رہنما ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے جواب میں تہران نے دو ہفتے بعد اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملہ کیا۔ یہ ایک ایسا حملہ تھا جس کی مثال تاریخ میں ہمیں نہیں ملتی۔ پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو ابراہیم رئیسی کی نگرانی میں دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کی گئیں۔ جنوری میں دونوں ممالک نے مبینہ طور پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی پر ایک دوسرے کی سرزمین پر میزائل داغے لیکن گزشتہ ماہ مرحوم ایرانی صدر کے دورہِ پاکستان نے اشارہ دیا کہ تہران پاکستان کے ساتھ گہرے تعلقات چاہتا ہے۔ امید ہے کہ اگلے ایرانی صدر بھی اسی سمت میں میں اقدامات لیں گے۔
ایران کے خطے اور جغرافیائی سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے، ایران میں اقتدار کی منتقلی کو دنیا قریب سے دیکھے گی۔ اگرچہ کچھ مغربی مبصرین ایران کے نظام کو سپریم لیڈر کے ماتحت ایک آمرانہ نظام قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت اس سے کئی زیادہ پیچیدہ ہے۔ یہ درست ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر کو ریاستی پالیسیوں میں ویٹو کا اختیار حاصل ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ صدر اور اقتدار کے دیگر مراکز کا کوئی اثرورسوخ نہیں۔ ایران کے نئے صدر کو داخلی محاذ پر اقتصادی پریشانیوں اور سیاسی تفریق کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ دوسری جانب مشرق وسطیٰ اس وقت ایک خطرناک اور متزلزل صورت حال سے دوچار ہے جس کی بنیادی وجہ غزہ میں اسرائیل کا وحشیانہ جبر ہے۔ خطے کی حرکیات میں ایران کا متحرک کردار ہے کیونکہ وہ حماس، حزب اللہ اور اسرائیل میں لڑنے والے دیگر مسلح گروہوں کی کھلی حمایت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سب نظریں اس جانب ہیں کہ اگلے ایرانی صدر اور اسلامی جموریہ ایران کی اسٹیبلشمنٹ، اسرائیل کی مسلسل اشتعال انگیزی کا جواب کیا دے گی۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes
·
View notes
Text
غزہ تین سو پینسٹھ دن بعد
غزہ ایک برس بعد محض اکتالیس کلومیٹر طویل، چھ تا بارہ کلومیٹر چوڑی جغرافیائی پٹی سے اوپر اٹھ کے پورے عالم کی آنکھوں پر بندھی خونی پٹی میں بدل چکا ہے۔ یوں سمجھئے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے آدھے رقبے پر سال بھر میں اتنا بارود فضا سے گرا دیا جائے جس کی طاقت ہیروشیما پر برسائے جانے والے چار ایٹم بموں کے برابر ہو تو سوچئے وہاں کیا کیا اور کون کون بچے گا ؟ پہلی اور دوسری عالمی جنگ سے لے کے ویتنام ، عراق اور افغانستان تک اتنے چھوٹے سے علاقے پر اتنی کم مدت میں اتنا بارود آج تک نہیں برسا۔ گزرے ایک برس میں غزہ کی دو فیصد آبادی مر چکی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد زخمی ہیں۔ جتنے مر چکے لگ بھگ اتنے ہی لاپتہ ہیں۔ گمان ہے کہ وہ ملبے تلے دبے دبے انجر پنجر میں بدل چکے ہیں یا ان میں سے بہت سے بھوکے جانوروں کا رزق ہو چکے ہیں۔ بے شمار بچے بس چند گھنٹے پہلے پیدا ہوئے اور بم ، گولے ، گولی یا دھمک سے مر گئے۔ جانے پیدا ہی کیوں ہوئے ؟ یہ سب کے سب اسرائیل کے عسکری ریکارڈ میں دھشت گرد ہیں اور جو زندہ ہیں وہ بھی دھشت گرد ہیں اور جو ماؤں کے پیٹ میں ہیں وہ بھی دھشت گرد ہیں۔
اس ایک برس میں غزہ کے لیے نہ پانی ہے ، نہ بجلی، نہ ایندھن۔ نہ کوئی اسپتال یا کلینک، اسکولی عمارت، لائبریری ، سرکاری دفتر ، میوزیم سلامت ہے۔ نہ دوکان ، درخت اور کھیت نظر آتا ہے۔ نہ کہیں بھاگنے کا رستہ ہے اور نہ ہی پیٹ بھر خوراک ہے۔ نہ ہی کوئی ایک سائبان ہے جسے محفوظ قرار دیا جا سکے۔ اسی فیصد مساجد ، گرجے اور چالیس فیصد قبرستان آسودہِ خاک ہو چکے ہیں۔ منطقی اعتبار سے ان حالات میں اب تک غزہ کی پوری آبادی کو مر جانا چاہیے تھا۔ مگر تئیس میں سے بائیس لاکھ انسانوں کا اب تک سانس لینا زندہ معجزہ ہے۔ اے ثابت قدمی تیرا دوسرا نام فلسطین ہے۔ ان حالات میں حماس سمیت کسی بھی مسلح تنظیم کے پرخچے اڑ جانے چاہیے تھے یا جو بچ گئے انھیں غیرمشروط ہتھیار ڈال دینے چاہیے تھے۔پوری آبادی گیارہ مرتبہ تین سو پینسٹھ مربع کلومیٹر کے پنجرے کے اندر ہی اندر اب تک سترہ بار نقل مکانی کر چکی ہے۔ غزہ شہر ، خان یونس ، رفاہ اور ناصریہ ریفیوجی کیمپ چار چار بار کھنڈر کیے جا چکے ہیں۔ مگر آج بھی وہاں سے راکٹ اڑ کے اسرائیل تک پہنچ رہے ہیں۔
مقبوضہ مغربی کنارے پر بھی نہتے فلسطینیوں کے خلاف جون انیس سو سڑسٹھ کے بعد پہلی بار جنگی ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کل ملا کے بیس ہزار فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ موت ہو کہ قید ، بچے ، جوان ، بوڑھے ، عورت ، مرد سب برابر ہیں۔ مگر غزہ مرا نہیں بلکہ ایک آہ بن گیا ہے۔ اس آہ نے نہر سویز کی بحری ٹریفک خشک کر دی ہے۔ یمن سے گزر کے بحرہند سے ملنے والا بحیرہ قلزم تجارتی جہازوں کے لیے پھندہ بن گیا ہے۔ یمن پر پہلے برادر عرب بھائیوں نے پانچ برس تک مسلسل بمباری کی اور اب امریکا ، برطانیہ اور اسرائیل بمباری کر رہے ہیں مگر پھر بھی وہاں سے ڈرون اور میزائل اڑ اڑ کے اسرائیلی بندرگاہ ایلات اور تل ابیب تک پہنچ رہے ہیں۔ شمالی اسرائیل کے سرحدی علاقے حزب اللہ کی راکٹ باری کے سبب سنسان ہیں اور جنوبی لبنان میں اسرائیل کے زمینی دستے گھسنے کے باوجود کسی ایک گاؤں پر بھی قبضہ نہیں کر سکے ہیں۔ غزہ اور بیروت میں جو بھی تباہی پھیل رہی ہے وہ امریکی بموں سے لیس منڈلاتے اسرائیلی طیاروں کے ذریعے پھیل رہی ہے۔
اسرائیل نے حماس اور حزب اللہ کی بالائی قیادت کا تقریباً صفایا کر دیا ہے۔ پھر بھی مغرب کی لامحدود پشت پناہی ہوتے ہوئے وہ غزہ یا لبنان میں اپنا ایک بھی عسکری ہدف حاصل نہیں کر پایا۔ عالمی عدالتِ انصاف ہو کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی یا انسانی حقوق سے متعلق کوئی بھی مقامی یا بین الاقوامی تنظیم۔ سب کے سب اسرائیل کو الٹی چپل دکھا رہے ہیں۔ مغربی میڈیا کی بھرپور یکطرفہ کوریج کے باوجود دنیا بھر کی سڑکوں اور یونیورسٹی کیمپسوں میں اسرائیل اپنی مظلومیت کا مزید منجن بیچنے سے قاصر ہے۔ جھنجھلاہٹ سے باؤلا ہونے کے سبب کبھی وہ عالمی عدالتِ انصاف کو دیکھ کے مٹھیاں بھینچتا ہے اور کبھی پوری اقوامِ متحدہ کو یہود دشمنی کا گڑھ قرار دیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی اسرائیلی بیانیے کے تابوت میں آخری کیل ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آئرن ڈوم کے سبب اسرائیل فضا سے آنے والے راکٹوں اور میزائلوں سے بہت حد تک بچ رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اسے امریکا ، برطانیہ اور فرانس سمیت سلامتی کونسل کے پانچ میں سے تین ارکان کی اندھی حمائیت میسر ہے۔
یہ بھی تسلیم کہ کل کا یہود کش جرمنی آج اسرائیل کا اندھ بھگت بن کے اپنے تاریخی احساِسِ جرم کا قرض مرکب سود سمیت چکا رہا ہے۔ مگر انسانیت سوز جرائم کے انسداد کی عالمی عدالت کے نزدیک اسرائیلی قیادت جنگی مجرم ہے اور وہ اس وقت سوائے چار پانچ ممالک کے کہیں بھی نہیں جا سکتی۔ کیونکہ جنگی ملزموں کی گرفتاری میں تعاون ہر اس ملک کا قانونی فرض ہے جو عالمی عدالت برائے انسانی جرائم کے وجود کو باضابطہ تسلیم کر چکا ہے۔ وہ بوڑھے بھی اب باقی نہیں رہے جنھیں یہودیوں پر ہٹلر کے مظالم یاد تھے۔ آج کا لڑکا اور لڑکی تو ہٹلر کے روپ میں صرف نیتن یاہو کو جانتا ہے۔ آخر یہودیوں کی اسی برس پرانی نسل کشی کی ہمدردی تاقیامت ہر نسل کو پرانی تصاویر دکھا دکھا کے تو نہیں سمیٹی جا سکتی۔وہ بھی تب جب خود کو مظلوم کہہ کر ہمدردیاں سمیٹنے کا عادی اسرائیل عملاً نازی جرمنی کا دوسرا جنم ثابت ہو رہا ہو۔ اس ایک برس میں غزہ نے نہ صرف مغرب اور مغربی میڈیا کو ننگا کر دیا بلکہ خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے مابین ہونے والے معاہدہ ِ ابراہیمی کے ٹائروں سے بھی ہوا نکال دی۔ اخلاقی دباؤ اس قدر ہے کہ سعودی عرب نے بھی اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا ارادہ فی الحال طاق پر دھر دیا ہے۔
اگرچہ ایران کے سیکڑوں میزائلوں نے مادی اعتبار سے اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑا۔مگر اتنا ضرور ہوا کہ ایران کے مدِ مقابل عرب حکومتوں نے اسرائیل ایران دنگل میں غیر جانبدار رہنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر دو چار میزائل ’’ غلطی ‘‘ سے سمندر کے پرلی طرف نظر آنے والی آئل ریفائنریوں یا تیل کے کنوؤں یا کسی ڈیوٹی فری بندرگاہ پر گر گئے اور غلطی سے دنیا کے بیس فیصد تیل کی گزرگاہ آبنائے ہرمز میں دوچار آئل ٹینکر ڈوب گئے تو پھر کئی ریاستوں اور خانوادوں کے بوریے بستر گول ہو سکتے ہیں۔ نیتن یاہو کے بقول یہی سنہری موقع ہے خطے کا نقشہ بدلنے کا۔ نیتن یاہو کا یہ خواب بس پورا ہی ہوا چاہتا ہے۔ یہ خطہ عنقریب ایسا بدلنے والا ہے کہ خود اسرائیل چھوڑ امریکا سے بھی نہ پہچانا جاوے گا۔ پچھتر برس پہلے جس جن کو بوتل میں بند کیا گیا۔ بند کرنے والوں کے ہاتھوں سے وہ بوتل اچانک چھوٹ چکی ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
لبنان میں حزب اللہ کے خلاف جنگ میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت
اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ جنوبی لبنان میں لڑائی کے دوران اس کے آٹھ فوجی مارے گئے ہیں۔ دوسری جانب ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ سمیت کچھ یورپی ممالک پر خطے میں کشیدگی اور جنگ مسلط کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغرب اس خطے سے نکل جائے تاکہ یہاں موجود ممالک امن سے رہ سکیں
0 notes
Text
حزب اللہ: ’اسرائیل کا سب سے مشکل حریف‘ ماضی کے مقابلے میں آج کتنا طاقتور ہے؟
http://dlvr.it/TBTQRp
0 notes
Text
حزب اللہ نے اسرایئل پر 100 راکٹ داغے
1 note
·
View note
Text
حزب اللہ کا 70 اسرائیلی فوجی ہلاک کرنےکا دعویٰ
لبنان کی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ نےایک ہفتے کےدوران70اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارےکےمطابق حزب اللہ نےایک بارپھروسطی اسرائیل پر میزائل حملے کیے۔ دوسری جانب اسرائیل نےلبنانی دارالحکومت بیروت پرشدید بمباری کی اور17 فضائی حملے کردیے۔اس دوران بغیر پیشگی وارننگ6عمارتیں بم مارکرملبےکا ڈھیر بنادی گئیں۔ ادھر شامی دارالحکومت دمشق کےمرکز میں ایک عمارت پربھی اسرائیل…
0 notes
Text
بائیڈن، اسرائیلی اور یورپی ہوشیار رہیں، ہماری طاقت پہلے کی نسبت ہزاروں گنا زیادہ ہے، حزب اللہ
لبنان کی حزب اللہ نے اپنے مخالفین کو خبردار کیا کہ وہ پہلے کے مقابلے میں “ہزاروں گنا زیادہ مضبوط” ہے۔ امریکہ نے ایران کو اسرائیل حماس تنازع میں ملوث ہونے پر خبردار کیا ہے، جو حزب اللہ اور فلسطینی گروپ حماس کی حمایت کرتا ہے، ۔ امریکا نے دو طیارہ بردار بحری جہاز تعینات کیے ہیں جن کا مقصد جنگ کو بڑھانے کی کوشش کرنے والے کسی بھی ریاستی یا غیر ریاستی اداکار کو روکنا ہے۔ حزب اللہ کے عہدے دار ہاشم صفی…
View On WordPress
0 notes
Text
اسرائیل کی حزب اللہ کے نئے سربراہ کو بھی نشانہ بنانے کی دھمکی
تل ابیب (ڈیلی پاکستان آن لائن) اسرائیل نے لبنان کی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کے نئے سربراہ شیخ نعیم قاسم کو قتل کرنے کی دھمکی دے دی۔ اسرائیلی وزیر دفاع یو آوف گولانٹ نے حزب اللہ کے نئے سربراہ کو بھی نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ سوشل میڈیا پر اسرائیلی وزیر دفاع نے شیخ نعیم قاسم کی تصویر پوسٹ کی اور دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ عارضی تقرری ہے، زیادہ دیر تک نہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے اپنے پیغام میں…
0 notes
Text
دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانہ پر کھڑی ہے ؟
مڈل ایسٹ میں تیزی سے بدلتی صورت حال بارے سرِدست کوئی پیشگوئی تو ممکن نہیں تاہم بظاہر یہی سمجھ لیا گیا کہ حسن نصراللہ کی شہادت اور لبنان میں حزب اللہ کے خلاف تباہ کن حملوں کے ذریعے اسرائیل نے غزہ جنگ میں بالادستی حاصل کر لی اور اب وہ ایران میں عسکریت پسند گروپ کے”حمایتیوں“کے ساتھ براہ راست تصادم کی طرف جائے گا لیکن اسرائیل کی بے لگام جارحیت اُس کی حربی ناکامیوں کا غبار نظر آتی ہے ، اگر ہمارا…
View On WordPress
0 notes
Text
شام کی صورت حال اور ترکیہ
مشرقِ وسطیٰ کے ملک شام جس پر بعث پارٹی اور اسد خاندان جو گزشتہ 50 سال سے زائد عرصے سے برسر اقتدار تھا آخر کار اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی موت کے بعد 2000 میں اقتدار میں آئے تھے۔ انکے والد نے 29 سال تک ملک پر حکمرانی کی تھی اور اپنے بیٹے کی طرح ملک پر آہنی کنٹرول رکھتے تھے۔ بشار الاسد اور اُن کے والد علوی فرقے سے تعلق رکھتے تھے ۔ یوں ایک سُنی اکثریتی ملک پر ایک ایسے فرقے کے پیروکاروں نے لگ بھگ 50 برس تک حکمرانی کی، سنی عوام پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رکھا۔ بشار الاسد کو ہمیشہ ایک ایسے ڈکٹیٹر کے طور پر یاد رکھا جائیگا جس نے اپنی حکومت کے خلاف 2011ء میں پُرامن مظاہرین پر تشدد کر کے انھیں منتشر کیا۔ اس صورتحال نے خانہ جنگی کو جنم دیا جس میں پانچ لاکھ لوگ ہلاک، 60 لاکھ بے گھر ہوئے اور چار ملین سے زائد پناہ گزینوں نے ترکیہ میں پناہ لی تھی۔ شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف برسر پیکار جنگجو جن کی قیادت ہیئت تحریر الشام یا ایچ ٹی ایس کررہی ہے 10 دن کی تیز ترین پیش قدمی کے بعد شام کے دارالحکومت دمشق میں داخل ہو گئے ہیں اور بشار الاسد شام سے فرار ہو کر روس کے دارالحکومت ماسکو میں سیاسی پناہ لے چکے ہیں۔
ہیئت تحریر الشام یا ایچ ٹی ایس، پہلی مرتبہ جبھہ النصرہ کے نام سے 2010ء کے اوائل میں منظر عام پر آئی تھی جو القاعدہ کی ایک ذیلی تنظیم تھی لیکن پھر جولائی 2016ء میں ابو محمد الجولانی نے القاعدہ سے علیحدگی کا باقاعدہ اعلان کر دیا تھا اور پھر سنہ 2017ء میں انہوں نے اپنی اس تنظیم کو ہیئت تحریر الشام یا ایچ ٹی ایس کے نام سے متعارف کروایا۔ شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے والی تنظیموں میں سیرئین نیشنل آرمی یا ایس این اے شامل ہے جسے ترکیہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ایس این اے دراصل شمال مغربی شام میں 2017ء میں ترکیہ کی حمایت سے قائم ہوئی تھی اور اس تنظیم نے 2018 ء اور 2019ء میں ترکیہ کی مدد سے علاقے میں موجود ترکیہ کی دہشت گرد تنظیم پی کے کے اور وائی پی جی کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن بھی کیا تھا۔ ترکیہ نے حالات سے استفادہ کرتے ہوئے ہیئت تحریر الشام یا ایچ ٹی ایس کی قیادت میں جنگجووں کی پیش قدمی کیلئے بڑے پیمانے پرسر مایہ کاری کرتے ہوئے جنگجووں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑے پیمانے پر مضبوط کیا ہے۔
ترکیہ کی اس تنظیم کے علاوہ شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والے کئی دیگر گروپس بھی موجود ہیں جن میں احرار الشام، اسلامسٹ گروپ 'نور الدین زنگی موومنٹ بھی شامل ہے۔ 11 روز قبل شام کے صدر بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے لیے ابو الجولانی کو یہ تاریخی کامیابی دس دنوں کے اندر اندر حاصل ہوئی جس کی ترکیہ نے بھر پور طریقے سے نہ صرف حمایت کی بلکہ تمام ممکنہ امکانات کو استعمال کرنے کے اختیارات بھی ابو الجولانی کو سونپ دیے۔ ترکیہ بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کو اپنی بہت بڑی کامیابی بھی تصور کر رہا ہے اس کا ثبوت صدر رجب طیب ایردوان اور حکومتِ ترکیہ کے سینئر حکام کے حالیہ بیانات ہیں۔ انہوں نے شام کے مخالفین کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت شام کے علاقے میں موجود ترکیہ کی دہشت گرد تنظیم پی کے اور وائی پی جی کو بھی اسی طرح علاقے سے نکال باہر کیا جائے گا۔ ترکیہ کے وزیرِ خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ شام میں اپوزیشن رہنماوں کی کامیابی کو بیرونی دخل اندازی کی نگاہ سے دیکھنا ایک غلطی ہو گی۔ (ترکیہ پردے کے پیچھے رہتے ہوئےشام میں اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے) انھوں نے اپنی اس تقریر میں نہ صرف اتحاد قائم رکھنے، شام کی خودمختاری اور استحکام کی بھی مکمل حمایت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہم نے اسد کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے مل کر شام کا مستقبل طے کرنے کی تجویز پیش کی تھی لیکن بدقسمتی سے انھوں نے ہمیں کوئی مثبت ردِعمل نہیں دیا تھا۔ بشار الاسد مخالف باغیوں کے ایک دھڑے کے سابق سربراہ عبدالباسط سدعا نے کہا کہ شام میں اپوزیشن گروہوں کے ترکیہ کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات ہیں اور ترکیہ ان تمام گروہوں کی ہر ممکنہ مدد بھی کرتا چلا آیا ہے، بشار الاسد مخالف گروہوں کو ہتھیار اور احکامات بھی ترکیہ سے ہی موصول ہوتے رہے ہیں۔ ایران، حزب اللہ اور روس کی طرف سے براہ راست فوجی امداد روک دیے جانے کی وجہ سے بھی شامی فوج کا مورال نمایاں طور پر گرا جبکہ ایران کو حزب اللہ کی مدد کرنے اور اسرائیل کے ساتھ جنگ کرنے سےشدید دھچکا لگا ہے اور وہ شام میں بشارالاسد کی حمایت اور مدد کرنے سے قاصر رہا ہے جس کا ترکیہ کی حمایت کردہ اپوزیشن نے بھر فائدہ اٹھایا۔ اس صورتِ حال سے سب سے زیادہ خوش اسرائیل نظر آتا ہے اس نے 1974 میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں شام کے ساتھ طے پائے معاہدے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے گولان کے پہاڑی علاقے میں اپنے فوجی دستوں کو بھیجنے کا سلسلہ جاری کر دیا ہے۔ اگر شام میں موجودہ حالات میں کوئی قومی حکومت قائم نہ ہوئی توپھر ملک تین یا چار حصوں میں بٹ سکتا ہے۔
ڈاکٹر فر قان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
’باپ رے باپ‘ ہمارے حکمراں
شاعر محسن بھوپالی مرحوم نے برسوں پہلے ہماری سیاست کو اس خوبصورت قطعہ میں سمو دیا تھا جمہوریت کی خیر ہو، اس مملکت کی خیر، جو وقت کے غلام تھے لمحوں میں بک گئے
چشم فلک نے دیکھا ہے ایسا بھی ماجرا لاکھوں کے ترجمان کروڑوں میں بک گئے
مجھے یہ قطعہ اس دن بہت یاد آیا جب 2018ء میں چیئرمین سینٹ کا انتخاب تھا دونوں امید واروں کا تعلق بلوچستان سے تھا ایک طرف موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی تھے جنہیں سابق وزیر اعظم عمران خان، اس وقت کے مقتدر حلقہ اور اسی سال معرض وجود میں آنے والی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی حمایت حاصل تھی تو دوسری طرف اس وقت کی اپوزیشن کے متفقہ امیدوار اور صوبہ کے سابق گورنر میرغوث بخش بزنجو کے فرزند میر حاصل بزنجو مرحوم تھے۔ اپوزیشن کے پاس واضح اکثریت تھی جس کو انہوں نے اجلاس میں کھڑے ہو کر دکھایا بھی مگر جب ’بیلٹ باکس‘ کھلا تو حاصل ہار گیا اور سنجرانی جیت گئے ۔ ’ باپ رے باپ‘ اور خود حاصل کے بقول، ’’میرا مقابلہ سیاستدان سے نہیں فیض سے تھا مجھے تو ہارنا ہی تھا۔‘‘ شاید اس وقت کی اپوزیشن بھی اپنی قبولیت کا انتظار کر رہی تھی اس لیے انہوں نے اپنے اندر سے دبک جانے والوں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جبکہ اصولوں‘ پر یقین رکھنے والے کپتان اور ان کے حواریوں نے اسے سینیٹرز کی ’��میر‘ کی آواز کہا۔ ساڑھے تین سال بعد وقت نے کروٹ لی ’ضمیر پلٹ گیا، اور خان صاحب کو جو لوگ لائے تھے انہوں نے ہی گھر بھیج دیا اس بار اسے ’ضمیر‘ کے مطابق ووٹ دینے والوں نے کپتان کے خلاف ووٹ کہا۔
جو کچھ 2018 میں سینٹ میں ہوا وہ ہماری سیاست میں اسی سینٹ میں پھر ہوا اور اس بار تو ’خفیہ کیمرے‘ نے اسے محفوظ بھی کیا مگر نہ کوئی تحقیق نہ کوئی کارروائی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود سینیٹر بھی بنے، چیئرمین سینیٹ کے امیدوار بھی اور پھر قائد حزب اختلاف بھی۔ سنجرانی پھر جیت گئے۔ ’باپ رے باپ، ہماری سیاست۔ لفظ ’ احساس محرومی‘ کا بھی خوب استعمال ہوتا ہے۔ ایک بار میں حاصل بزنجو کے ساتھ انکے والد کا انٹرویو کرنے کراچی میں ان کے دوسرے بیٹے بیزن کے گھر گیا میں نے پوچھا میر صاحب بلوچستان کا احساس محرومی کیسے دور ہو سکتا ہے۔ ان کا جواب تھا ’’ جب ہمارے حکمرانوں کو محرومی کا احساس ہو گا‘‘۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کا تعلق پنجاب سے تھا مگر 2013 کے الیکشن کے بعد انہوں نے بلوچستان کے حوالے سے ایک انتہائی مثبت سیاسی فیصلہ کیا اور مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہونے کے باوجود اپنے اتحادی بلوچستان کی ہی ایک معتبر سیاسی شخصیت اور نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیراعلیٰ نامزد کیا مسلم لیگ کے صوبائی صدر ثنا اللہ زہری کی مخالفت کے باوجود ۔ میں اس دن مری میں ہی تھا جب یہ اجلاس چل رہا تھا میاں صاحب کی موجودگی میں شہباز شریف نے بڑی مشکل سے انہیں منایا مگر انہوں نے مشروط حمایت کی، ڈھائی۔ ڈھائی سال کی وزارت اعلیٰ کے فارمولہ پر۔ ابھی ثنا اللہ جو 2018ء میں وزیراعلیٰ تھے ڈاکٹر مالک کے بعد کی مدت پوری نہیں ہوئی تھی کہ ان کے خلاف پارٹی میں’ بغاوت‘ ہو گئی جس میں بیشتر وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے عام انتخابات سے قبل ’ باپ بنائی، ’باپ رے باپ‘ کیا سیاست اور کیا ہمارا سیاسی مستقبل۔
سینیٹر انوار الحق کاکڑ ہمارے کئی سیاستدانوں کی طرح جماعتیں بدلتے رہتے ہیں ویسے بھی اس صوبہ سے تعلق رکھنے والے منتخب ہوں یا نگراں’ باپ‘ کے احترام میں ہر فیصلہ قبول کر لیتے ہیں ویسے بھی اس ملک کی سیاست اس وقت بھی اور پہلے بھی ’بزرگوں‘ کے پاس ہی رہی ہے۔ مگر انوار الحق پڑھے لکھے انسان ہیں اور گو کہ وہ اسکول میں بھی پڑھا چکے ہیں اور بلوچستان یونیورسٹی میں بھی اور تعلیمی مسائل کو بخوبی سمجھتے ہیں مگر کیا وہ اس مختصر وقت میں اس سمت میں کوئی اقدامات کر سکتے ہیں شاید نہیں، ویسے بھی ان کی تمام تر توجہ 90 روز میں عام انتخابات کروانے پر ہونی چاہئے۔ انہوں نے احسن فیصلہ کیا اپنی پارٹی اور سینٹ کی سیٹ سے استعفیٰ دے کر ورنہ تو ہمارے حکمرانوں نے ’ ایوانوں‘ کو اپنی اپنی جماعتوں کا ’گڑھ‘ بنا لیا ہے چاہے وہ ایوان صدر ہو، وزیراعظم ہائوس ہو، گورنر ہائوس ہو یا وزیر اعلیٰ ہائوس۔ جب آپ وزیر اعظم، صدر، گورنر یا وزیر اعلیٰ بنتے ہیں تو آپ ملک یا اپنے صوبہ کے ’باپ‘ کا درجہ رکھتے ہیں پارٹی کے حصار سے نکل کر لوگوں کی بلا امتیاز خدمت کرنی ہوتی ہے۔ نگراں وزیر اعظم تمام سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف کو ایک ٹیبل پر بیٹھا کر ’ میثاق سیاست‘ پر بات چیت کا آغاز کرسکتے ہیں۔
سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو ایک غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والی اسمبلی کی نمائندگی کرتے تھے مگر انہوں نے ملک کی بڑی جماعتوں کو جو اس نظام کو قبول نہیں کرتی تھیں وزیر اعظم ہائوس میں دعوت دی اور افغانستان جیسے حساس معاملے پر اعتماد میں لے کر’جنیوا‘ گئے اور ایکارڈ کیا۔ آج کی صورتحال میں شاید یہ کام اتنا آسان نہیں خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب سابق وزیر اعظم عمران خان ’ اٹک جیل‘ میں تین سال کی قید اور پانچ سال کی نااہلی بھگت رہے ہیں اور ان کی جماعت کے ہزاروں کارکن جیلوں میں ہیں۔ کیا کاکڑ صاحب بہت زیادہ نہیں تو خاں صاحب کو اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل کروا سکتے ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کے قیدی جن پر 9 مئی یا سنگین مقدمات قائم نہیں ہیں ان کے حوالے سے کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ کیا وہ بحیثیت ’نگراں‘ جونیجو کی طرح شہری آزادیوں، میڈیا کی آزادی اور الیکشن میں تمام سیاسی جماعتوں کو ’ لیول پلینگ فیلڈ‘ دلوا سکتے ہیں۔ دوسرا بڑا کام جو شاید سب سے مشکل نظر آتا ہے وہ بلوچ قوم پرستوں، علیحدگی پسندوں، شدت پسندوں سے مذاکرات کا آغاز کریں۔ اگر طالبان سے بات چیت ہوسکتی ہے تو ان بلوچوں سے کیوں نہیں۔
بات چیت سے ہی دروازے کھلتے ہیں ’گھر کے بھی اور دل کے بھی، لاپتہ افراد کا مسئلہ شاید ان کے کیا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اتنا مشکل نہیں جتنا ہم نے بنا دیا ہے۔ جو لوگ ’اٹھائے گئے ہیں وہ اسی ملک کے شہری ہیں اگر وہ سنگین جرائم میں ملوث ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کریں مقدمہ چلائیں اور سزا دیں، ان کے خاندان کے افراد کو ان سے ملنے دیں، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے وہ اگر ماورائے عدالت مارے گئے تو ان کے والدین اور رشتہ داروں کو اعتماد میں لیں۔ یہ صرف بلوچستان کا ہی نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے کراچی سے خیبر تک۔ کاش پاکستان بننے کے بعد اس ملک سے جاگیرداری اور سرداری نظام کا خاتمہ کر دیا جاتا، جمہوریت کی صحیح سمت کا تعین ہو جاتا، نظریہ ضرورت، آمروں کے لیے نہیں جمہوریت کے لیے استعمال ہو جاتا تو آج نہ احساس محرومی کا سوال ہوتا نہ سیاسی محرومیوں کا۔ بلوچستان حساس صوبہ ہے اس کی حساسیت کا احساس کریں ’ نگرانی‘ نہیں اور مسئلہ حل کریں اور یہی کاکڑ صاحب کا کڑا امتحان ہے 90 روز صرف 90 روز خدارا !
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes