#سربراہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
انتخابات میں دھاندلی کا الزام سربراہ الیکشن کمیشن پر سیاہی پھینک دی گئی
جارجیا(ڈیلی پاکستان آن لائن)جارجیا میں اپوزیشن جماعت کے رہنما نے سینٹرل الیکشن کمیشن کے سربراہ پر دھاندلی کا الزام لگا کر سیاہی پھینک دی۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق الیکشن کمیشن کے سربراہ گیورگی کالادرویش پارلیمانی انتخابات کے بعد نتائج کی توثیق کیلئے ایک اجلاس میں شریک تھے۔میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اپوزیشن جماعت کے اہلکار نے بھرے مجمع میں الیکشن کمیشن کے سربراہ گیورگی کالادرویش پر دھاندلی…
0 notes
Text
سربراہ مسلم لیگ ن نواز شریف کا ملک گیر دورے کرنے کا فیصلہ
مسلم لیگ ن کو چاروں صوبوں میں منطم کرنے کیلئےسربراہ مسلم لیگ ن نواز شریف کا ملک گیر دورے کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ذرائع کے مطابق سربراہ مسلم لیگ ن نوازشریف پہلے مرحلے میں ملک گیر دورے کریں گے اور سینئر پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرینگے ۔نوازشریف سب سے پہلے بلوچستان کا دورہ کریں گے۔ نوازشریف بلوچستان کے بعد سندھ اور پھر خیبر پختونخواہ کا دورہ کریں گے، تینوں صوبوں کے بعد نواز شریف پنجاب کے مختلف اضلاع…
0 notes
Text
مسلح افواج کسی بھی جارحیت کو ناکام بنانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں، جنرل عاصم منیر
پاک فضائیہ کے ایک آپریشنل ایئر بیس پر انڈکشن اینڈ آپریشنلائزیشن تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ ترجمان پاک فضائیہ کے مطابق پروقار تقریب میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ سربراہ پاک فضائیہ، ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے بیس آمد پر آرمی چیف کا استقبال کیا۔ تقریب میں پاک فضائیہ کے بیڑے میں شامل کردہ نئے ویپن سسٹمز اور دفاعی اثاثہ جات نمائش کے لیئے پیش کئے گئے۔ چیف آف آرمی…
View On WordPress
0 notes
Text
پاکستانیوں کا فلسطین سے رشتہ کیا؟
جس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہ ہو وہ اپنے طاقتور دشمن پر فتح پانے کیلئے موت کو اپنا ہتھیار بنا لیتا ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیم حماس کو بہت اچھی طرح پتہ تھا کہ اسرائیل پر ایک بڑے حملے کا نتیجہ غزہ کی تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے لیکن حماس نے دنیا کو صرف یہ بتانا تھا کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں اور مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اب آپ حماس کو دہشت گرد کہیں یا جنونیوں کا گروہ کہیں لیکن حماس نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ کچھ عرب ممالک کے حکمران اسرائیل کے سہولت کار بن کر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں کرسکتے امن قائم کرنا ہے تو فلسطینیوں سے بھی بات کرنا پڑیگی۔ اس سوال پر بحث بے معنی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی طاقتور انٹیلی جنس ایجنسیاں حماس کے اتنے بڑے حملے سے کیسے بے خبر رہیں؟ حماس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ شیخ احمد یاسین نے تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات سے مایوسی کے بعد حماس قائم کی تھی۔
شیخ احمد یاسین کو 2004ء میں اسرائیل نے نماز فجر کے وقت میزائل حملے کے ذریعہ شہید کر دیا تھا لہٰذا حماس اور اسرائیل میں کسی بھی قسم کی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد یہ طے تھا کہ فلسطین اور کشمیر میں مزاحمت کی چنگاریاں دوبارہ بھڑکیں گی۔ فلسطین اور کشمیر کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ یہ تعلق مجھے 2006ء میں لبنان کے شہر بیروت کے علاقے صابرہ اورشتیلا میں سمجھ آیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کا قتل عام کرایا تھا۔ 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران میں کئی دن کیلئے بیروت میں موجود رہا۔ ایک دن میں نے اپنے ٹیکسی ڈرائیور کے سامنے مفتی امین الحسینی کا ذکر کیا تو وہ مجھے صابرہ شتیلا کے علاقے میں لے گیا جہاں شہداء کے ایک قبرستان میں مفتی امین الحسینی دفن ہیں۔ مفتی امین الحسینی فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کے بانیوں میں سےتھے۔ مفتی اعظم فلسطین کی حیثیت سے انہوں نے علامہ اقبال ؒ، قائد اعظم ؒ اور مولانا محمد علی جوہر ؒسمیت برصغیر کے کئی مسلمان رہنمائوں کو مسئلہ فلسطین کی اہمیت سے آشنا کیا۔
2006ء میں امریکی سی آئی اے نے ان کے بارے میں ایک خفیہ رپورٹ کو ڈی کلاسیفائی کیا جو 1951ء میں تیار کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ مفتی امین الحسینی نے فروری 1951ء میں پاکستان کے شہر کراچی میں کشمیر پر منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کی جس کے بعد وہ آزاد کشمیر کے علاقے اوڑی گئے اور انہوں نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی۔ اسی دورے میں وہ جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا گئے اور وہاں کے قبائلی عمائدین سے ملاقات کی۔ ایک قبائلی رہنما نے مفتی امین الحسینی کو ایک سٹین گن کا تحفہ دیا جو اس نے 1948ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج سے چھینی تھی۔ مفتی صاحب نے وزیر قبائل سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کا حصہ نہ بنیں۔ امریکی سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے مفتی صاحب کابل گئے اور انہوں نے بیت المقدس کے امام کی حیثیت سے افغان حکومت سے اپیل کی کہ وہ ’’پشتونستان‘‘ کی سازش کا حصہ نہ بنیں۔
ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد مجھے ایک بزرگ فلسطینی ملا اور اس نے کہا کہ وہ بہت سوچتا تھا کہ مفتی اعظم فلسطین کو اتنی دور پاکستان جانے کی کیا ضرورت تھی اور کشمیریوں کی اتنی فکر کیوں تھی لیکن آج ایک پاکستانی کو ان کی قبر پر دیکھ کر سمجھ آئی کہ پاکستانیوں کو فلسطینیوں کے لئے اتنی پریشانی کیوں لاحق رہتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے تحریک پاکستان کے ساتھ ساتھ فلسطین اور کشمیر کیلئے تحریکوں میں بھی دل وجان سے حصہ لیا اس لئے عام پاکستانی فلسطین اور کشمیر کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے 3 جولائی 1937ء کو اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا تھا کہ عربوں کو چاہئے کہ اپنے قومی مسائل پر غوروفکر کرتے وقت اپنے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ بادشاہ اپنے ضمیروایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے۔ قائد اعظم ؒنے 15 ستمبر 1937ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنؤمیں مسئلہ فلسطین پر تقریر کرتے ہوئے برطانیہ کو دغا باز قرار دیا۔
اس اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ تمام مسلم ممالک سے درخواست کی گئی کہ وہ بیت المقدس کو غیر مسلموں کے قبضے سے بچانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔ پھر 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں بھی مسئلہ فلسطین پر ایک قرار داد منظور کی گئی۔ میں ان حقائق کو ان صاحبان کی توجہ کیلئے بیان کر رہا ہوں جو دعویٰ کیا کرتے تھے کہ قیام پاکستان تو دراصل انگریزوں کی سازش تھی اور قائد اعظم ؒنے 23 مارچ کی قرارداد انگریزوں سے تیار کرائی۔ ۔اگر قائداعظم ؒ انگریزوں کے ایجنٹ تھے تو انگریزوں کے دشمن مفتی امین الحسینی سے خط وکتابت کیوں کرتے تھے اور اسرائیل کے قیام کیلئے برطانوی سازشوں کی مخالفت کیوں کرتے رہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ برطانوی سازشوں کے نتیجے میں قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو امریکہ کے بعد اگر کسی ملک کی سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے تو وہ بھارت ہے۔ آج بھارت میں مسلمانوں کےساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا اور اس ظلم وستم کا ردعمل حماس کے حملے کی صورت میں سامنے آیا۔ علامہ اقبال ؒ نے فلسطینیوں کو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
فیض احمد فیض نے تو فلسطین کی تحریک آزادی میں اپنے قلم کے ذریعہ حصہ لیا اور 1980ء میں بیروت میں یہ اشعار کہے۔
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطیں کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد
ابن انشاء نے ’’دیوار گریہ‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں عرب بادشاہوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا
وہ تو فوجوں کے اڈے بنایا کریں آپ رونق حرم کی بڑھایا کریں
ایک دیوار گریہ بنائیں کہیں جس پر مل کے یہ آنسو بہائیں کہیں
اور حبیب جالب بھی کسی سے پیچھے نہ رہے انہوں نے فلسطینی مجاہدین کو کعبے کے پاسبان قرار دیتے ہوئے ان کے مخالفین کے بارے میں کہا۔
ان سامراجیوں کی ہاں میں جو ہاں ملائے وہ بھی ہے اپنا دشمن، بچ کے نہ جانے پائے
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes
·
View notes
Text
ہواوے کا چینی آپریٹنگ سسٹم ’ہارمنی‘ کے ساتھ نیا سمارٹ فون متعارف
چینی ٹیکناجی کمپنی ہواوے نے مکمل طور پر چین میں بنے آپریٹنگ سسٹم سے لیس اپنا پہلا سمارٹ فون متعارف کرا دیا ہے۔ یہ ہوواوے کا اپنے مغربی مسابقتی اداروں کے غلبے کو چیلنج کرنے کی لڑائی میں ایک اہم امتحان ہے۔ ایپل کا آئی او ایس اور گوگل کا اینڈرائیڈ اس وقت زیادہ تر موبائل فونز میں استعمال ہوتا ہے، لیکن ہواوے اپنے جدید ترین میٹ 70 ڈیوائسز کے ساتھ اسے تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو کمپنی کے اپنے ہارمونی او ایس نیکسٹ پر چلتے ہیں۔ یہ لانچ ہواوے کے لیے بڑی کامیابی کا نقطہ عروج ہے، جو حالیہ برسوں میں سخت امریکی پابندیوں کا شکار رہی لیکن اب اپنی فروخت میں زبردست اضافے کے ساتھ دوبارہ ابھر رہی ہے۔ کنسلٹنگ فرم البرائٹ سٹون برج گروپ کے چین اور ٹیکنالوجی پالیسی کے سربراہ پال ٹریولو نے بتایا ��ہ ’قابل عمل اور وسیع پیمانے پر قابل استعمال موبائل آپریٹنگ سسٹم کی تلاش، جو مغربی کمپنیوں کے کنٹرول سے آزاد ہو، چین میں ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ لیکن یہ نیا سمارٹ فون جو اندرون ملک تیارکردہ جدید چپ سے بھی لیس ہے، ظاہر کرتا ہے کہ چینی ٹیکنالوجی کمپنیاں ’ڈٹی رہ سکتی ہیں۔‘
میٹ 70 شینزین میں ہواوے کے ہیڈکوارٹر میں ایک کمپنی لانچ ایونٹ میں پیش کیا گیا۔ ہواوے کے آن لائن شاپنگ پلیٹ فارم کے مطابق 30 لاکھ سے زیادہ یونٹس کی پہلے ہی بکنگ ہو چکی ہے، البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تمام خریدے بھی جائیں گے۔ پچھلے ورژن کے برعکس جو اینڈروئڈ کے اوپن سورس کوڈ پر مبنی تھا، آپریٹنگ سسٹم ہارمونی نیکسٹ ان تمام ایپس کی مکمل طور پر نئے سرے سے پروگرامنگ کا تقاضا کرتا ہے جو یہ سمارٹ فونز چلاتا ہے۔ گیری نگ، نیٹکسز کے سینیئر ماہر معیشت، نے بتایا کہ ’ہارمنی نیکسٹ پہلا مکمل مقامی طور پر تیار کردہ آپریٹنگ سسٹم ہے جو چین کے لیے مغربی ٹیکنالوجیز پر انحصار کم کرنے اور سافٹ ویئر کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے ایک سنگ میل ہے۔‘ تاہم نگ کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ چینی کمپنیاں ہواوے کے ایکوسسٹم میں حصہ ڈالنے کے لیے وسائل مختص کرنے پر آمادہ ہو سکتی ہیں، یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا ہارمونی نیکسٹ عالمی صارفین کو اتنی ہی ایپس اور فیچرز فراہم کر سکتا ہے۔‘
بلند توقعات ہواوے بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان شدید تکنیکی مسابقت کا محور ہے۔ امریکی حکام نے خبردار کیا کہ اس کے آلات چینی حکام کی جانب سے جاسوسی کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ہواوے ان الزامات کو وہ مسترد کرتے ہی۔ 2019 سے امریکی پابندیوں نے ہواوے کو عالمی ٹیکنالوجی سپلائی چینز اور امریکی ساختہ اجزا سے کاٹ دیا، جس کے نتیجے میں اس کی سمارٹ فونز کی پیداوار پر ابتدائی طور پر سخت منفی اثر پڑا۔ یہ تنازع مزید شدت اختیار کرنے والا ہے، کیونکہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی درآمدات پر بڑے ٹیرف لگانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ بیجنگ کے غیر منصفانہ تجا��تی طریقوں کا جواب ہے۔ ٹیکنالوجی ریسرچ فرم کینالیس کے سینیئر تجزیہ کار ٹوبی ژو کے مطابق: ’ہواوے کی ٹیک انڈسٹری کو متاثر کرنے کی بجائے، چینی ٹیک انڈسٹری کے خود انحصاری کے رجحان نے ہواوے کی ترقی کو ممکن بنایا۔‘
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
کرپشن کے ذمے دار صرف سیاستدان ہی کیوں؟
کرپشن، ملک لوٹنے اور غیر آئینی اقدامات کی حمایت کے جتنے الزامات سیاستدانوں پر لگے اتنے الزامات ملک کی بیوروکریسی اور دیگر اداروں پر نہیں لگے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ خود بدنام ہو کر دوسروں کو اشرافیہ بنانے والے بھی خود سیاستدان ہی ہیں۔ 1973ء کے آئین کے تحت ملک میں پہلی حکومت پیپلز پارٹی کی بنی تھی جس کے سربراہ کے اپنے غیر جمہوری اقدامات کے باعث ملک میں 1977 میں مارشل لا لگا اور جنرل ضیا نے جنرل ایوب کی طویل حکومت کا ریکارڈ توڑ کر اگست 1988 تک سب سے طویل حکومت کی تھی جس کے دوران 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں محمد خان جونیجو کی سیاسی حکومت بھی قائم ہوئی تھی جو ایک اچھی حکومت تھی جس کے وزیر اعظم پر کرپشن، غیر جمہوری اقدامات، من مانیوں کے الزامات نہیں لگے تھے بلکہ انھوں نے ملک سے مارشل لا ختم کرایا تھا جس کے بعد جنرل ضیا نے 1988 میں ان کی حکومت ضرور ختم کی تھی مگر جونیجو حکومت پر کرپشن کا کوئی بھی الزام نہیں تھا بلکہ وزیر اعظم جونیجو نے کرپشن کے باعث اپنا ایک وزیر بھی برطرف کیا تھا۔
جنرل ضیا الحق کی شہادت کے بعد 1988 میں بے نظیر بھٹو پھر نواز شریف، پھر بے نظیر بھٹو پھر 1997 میں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت والی حکومت قائم ہوئی تھی جو 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے برطرف کی تھی۔ 1988 سے 1999 تک بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی چاروں حکومتیں کرپشن کے الزامات پر برطرف ہوئیں اور دونوں وزرائے اعظم نے اپنی اپنی حکومت میں ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگائے، مقدمات بنائے، ایک دوسرے کی حکومتوں کی برطرفی کا خیر مقدم اور غیر آئینی اقدامات کی حمایت کرتے رہے تھے۔ جنرل پرویز بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دونوں ہی کو کرپٹ قرار دیتے تھے حالانکہ جنرل پرویز کے ہاتھوں نواز حکومت کی برطرفی کا بے نظیر بھٹو نے خیر مقدم کر کے جنرل پرویز کی حمایت کی تھی مگر بعد میں دونوں کو جنرل پرویز نے جلا وطن ہونے پر مجبور کیا اور دونوں کی سیاست ختم کرنے کے دعوے کیے اور دونوں کی پارٹیاں توڑ کر مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنوائی تھی جس نے 5 سال حکومت کی جس میں تین وزیر اعظم رہے مگر (ق) لیگ کی حکومت پر کرپشن کے اتنے الزامات نہیں لگے جتنے پی پی اور (ن) لیگ کی حکومت پر لگے۔
دونوں حکومتوں پر کرپشن، ملک لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے کے الزامات تھے ان الزامات میں سرے محل اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹس بھی شامل تھے جن کی دونوں تردید کرتے رہے۔ نواز شریف اور زرداری فیملی پر کرپشن کے سنگین الزامات عمران خان نے لگائے مگر دونوں نے عمران خان پر ہتک عزت کا کی�� تک نہیں کیا۔ عمران حکومت میں سی پیک کے سربراہ پر کرپشن کے الزامات لگے مگر وزیر اعظم عمران خان نے انھیں خود ہی ایمانداری کا سرٹیفکیٹ دے دیا اور نیب کو ان کے خلاف کارروائی نہیں کرنے دی۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی حکومتوں میں اعلیٰ بیوروکریٹس پر الزامات سامنے آئے مگر تینوں حکومتوں میں انھیں اپنی اپنی حکومتوں میں تحفظ دیا گیا اور اپنے اپنے حامی ان اعلیٰ عہدیداروں کی سرپرستی کی گئی۔ عمران خان واحد وزیر اعظم تھے جنھیں بعض ججز کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ملک میں پہلی بار ایک سیاستدان عمران خان کو صادق و امین قرار دیا جن پر اپنی حکومت میں کرپشن، القادر ٹرسٹ اور توشہ خانہ لوٹنے کے الزامات لگے اور اب قید ہیں۔ ملک میں پہلی بار پارلیمنٹ میں بعض ججز پر الزامات لگائے گئے ہیں کہ انھیں سیاستدانوں کو گاڈ فادر، سسلین مافیا اور پراکسی قرار دیا گیا۔ دو وزیر اعظم برطرف ایک کو پھانسی غلط طور دی جسے اب سپریم کورٹ نے بھی غلط قرار دیا ہے۔ کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات سیاستدانوں پر لگے وہی قید ہوئے۔
انھوں نے ناحق سیاسی سزائیں بھگتیں مگر بیورو کریسی کے وہ افراد محفوظ رہے جن پر الزامات تھے مگر انھیں محفوظ رکھنے کے ذمے دار بھی سیاستدان ہی تھے جنھوں نے اپنے اپنے من پسندوں کے خلاف کارروائی نہیں ہونے دی۔ کرپشن و دیگر الزامات کی ذمے داری ہمیشہ ہی سیاستدانوں پر رہی اور سیاسی سرپرستی اور اثر و رسوخ کے باعث اعلیٰ بیورو کریٹس ملک سے باہر جائیدادیں بنا کر اپنا مستقبل اس لیے بہتر اور محفوظ بناتے رہے کہ ریٹائر ہو کر انھوں نے فیملیز سمیت ملک سے باہر ہی رہنا ہے وہ سیاستدان نہیں ہیں کہ بعد میں انھیں سیاست کرنی ہو، جو چند سیاست میں آئے ناکام رہے اور سیاسی لوگ ہی سیاست کر رہے ہیں۔
محمد سعید آرائیں
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note
·
View note
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 18 November-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ: ۱۸؍ نومبر ۲۰۲۴ء
وقت: ۱۰:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ ریاست میں اسمبلی انتخابات کی تشہیری مہم آج ختم ہو گی-رائے دہی کے عمل کیلئےانتظامیہ پوری طرح تیار۔
٭ الزام تر اشی اور نکتہ چینی کے ساتھ انتخابی تشہیری مہم عروج پر - ر ائے دہند گان سے راست ملاقاتوں کو امیدواروں کی ترجیح۔
٭ فلمساز و ہدایت کا ر آشوتوش گواریکر IFFI کے بین الاقو امی انتخابی بورڈ کے چیئرمین منتخب۔
اور۔۔۔٭ خواتین کے ایشیا کپ ہاکی ٹورنامنٹ میں جاپان کو شکست دے کر بھارت کی سیمی فائنل میں رسائی۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
ریاست میں اسمبلی کے عام انتخابات کی تشہیری مہم آج ختم ہو جائے گی۔ آئندہ بدھ 20 نومبر کورائے دہی ہوگی ‘ جس میں 363 خواتین امیدواروں سمیت مجموعی طور پر چار ہزار 136 امیدواروں کی قسمت الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں بندہو جائے گی۔ گڈچرولی ضلعےکے اہیری حلقے کے انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنوں پر ر ائے دہی عملے کو ووٹنگ مشینوں اور دیگر سامان کے ساتھ کل بذریعہ ہیلی کاپٹر روانہ کیا گیا۔ اسمبلی کے عام انتخابات کے ساتھ ہی ناندیڑ لوک سبھا کے ضمنی انتخاب کی تیاریاں بھی مکمل کر لی گئی ہیں اور تمام ر ائے دہندگان سے اپنا حقِ ر ائے دہی ادا کرنے کی اپیل ریاستی انتخابی افسر ایس چوکّ لنگم نے کی ہے۔
***** ***** *****
انتخابات کی تشہیری مہم کے اختتام کی مناسبت سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور امیدواروں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات ا ور نکتہ چینی میں شدت آتی دکھائی دے رہی ہے۔
کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھرگے نے کل ناگپور کے قریب عمریڈ میں انتخابی تشہیر ی اجتماع سے خطاب کیا۔ انہوں نے حزبِ اختلاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پنڈت جواہر لال نہرو اور بابا صاحب امبیڈکر جیسے رہنمائوں نے جمہوریت کے تحفظ کیلئے اپنی زندگیاں قربان کیں، لیکن بی جے پی نے ملک کو تقسیم کرنے کا کام کیا۔
کانگریس پارٹی کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے کل گڈچرولی میں تشہیری جلسے سے خطاب کیا۔ انہوں نے مہایوتی حکومت پر اپنے دورِ اقتدار میں مہاراشٹر کی صنعتیں گجرات میں منتقل کرنے کا الزام عائد کیا۔ بعد ازاں‘پرینکا گاندھی نے ناگپور میں کانگریس امیدوار وکاس ٹھاکرے کی تشہیر کیلئے ایک روڈ شو میں بھی حصہ لیا۔
مہاوِکاس آگھاڑی کا اختتامی تشہیری جلسۂ عام کل ممبئی میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے شیوسینا ادھو بالا صاحب ٹھاکرے پارٹی کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نےریاست میں مہا وکاس آگھاڑی حکومت برسرِ اقتدار آنے پرسویابین کو سات ہزار رو پئے نرخ د ینے تک چین سے نہ بیٹھنے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے انتخابی منشور میں کسانوں کے قرضہ جات معاف کرنے سمیت دیگر وعدوں کو بھی دہرایا ۔ اس جلسۂ عام میں کانگریس رہنما ورشا گائیکواڑ، رُکنِ پارلیمان سنجے رائوت بھی موجود تھے۔
***** ***** *****
مرکزی وزیر شیوراج سنگھ چوہان نے کل ناگپور میں ایک صحافتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یقین ظاہر کیا کہ مرکزی حکومت کی رہنمائی میں ریاست میں مہایوتی حکومت کے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے رائے دہندگان مہایوتی کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
***** ***** *****
گوا کے وزیر اعلیٰ پرمود ساونت نے کل آکولہ میں، جبکہ آندھرا پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ پون کلیان نے چندر پور ضلع کے بلار پور میں اور مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی موہن یادو نے چھترپتی سمبھاجی نگر میں کل ر ائے دہندگان سے ملاقاتیں کیں۔
اسی طرح وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کل نندوربار ضلعے کے دھڑگاؤں اور دھولیہ ضلعے کے ساکری حلقہ کے دہی ویل میں تشہیری مہم میں حصہ لیا۔ بی جے پی قائد اور نائب وزیر اعلیٰ دیویندر پھڑنویس نے کل ناگپور جنوبی حلقے میں روڈ شو کیا، جبکہ دوپہر کو چاندوڑ میں ایک انتخابی اجتماع میں بھی شرکت کی۔
***** ***** *****
بہوجن سماج پارٹی کی قومی صدر اور اتر پردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی کل پونے میں انتخابی تشہیر میں شریک ہوئیں۔ انھوں نے یقین دلایا کہ بی ایس پی اپنے بل بوتے پر حکومت میں آنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن مناسب نشستیں حاصل نہ ہونے پر وہ حکومت سازی کی اہل پارٹی کی حمایت کرکے حکومت میں شامل ہو کر عوام کو انصاف دلائے گی۔
***** ***** *****
تشہیری مہم کی مہلت ختم ہونے سے قبل سبھی امیدو ار عوام سے راست ملاقاتوں‘ تشہیری جلسوں اور روڈ شوز سمیت ریلیوں کے علاوہ گھر گھر جاکر رائے دہندگان سے ملاقاتیں کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
جالنہ ضلعے کے بھوکردن حلقے سے بی جے پی و مہایوتی کے امیدوار سنتوش دانوے نے کل والسا وڈالا، ڈون گاؤں، نیو ڈُنگا‘ پوکھری ا ور بوٹ کھیڑا میں تشہیری ریلی نکال کر ��و ام سے ملاقاتیں کیں۔ جالنہ حلقہ انتخاب سے مہاوِکاس آگھاڑی کے امیدوار کیلاش گورنٹیال کی حمایت میں کل جالنہ شہر کے مختلف علاقوں میں تشہیری ریلیاں نکالی گئیں۔ جبکہ سابق مرکزی وزیرِ مملکت راؤ صاحب دانوے نے کل جالنہ میں مہایوتی امیدوار ارجن کھوتکر کیلئے ایک تشہیری ریلی میں حصہ لیا۔ گھن ساونگی اسمبلی حلقہ سے راشٹروادی کانگریس مہاوکاس اگھاڑی کے امیدوار راجیش ٹوپے نے کل اپنے انتخابی حلقے کے نالے واڑی، شاہ گڑھ، والکیشور، انتروالی سراٹی سمیت مختلف دیہاتوں کا تشہیری دورہ کیا اور رائے دہند گان سے بات چیت کی۔
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر سے نشر کی جارہی ہیں
***** ***** *****
ریاستی زرعی پید اوارویلیو کمیشن کے صدر پاشا پٹیل نے کہا ہے کہ مہاراشٹر میں برسرِ اقتدار رہتے ہوئے سویابین کو ملک میں سب سے زیادہ پانچ ہزار روپے فی کوئنٹل کے ضمانتی نرخ دئیے گئےہیںاور فصل کی نمی کی شرط 12 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کردی گئی ہے۔ وہ گزشتہ روز ناگپور میں ایک اطلاعی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ پاشا پٹیل نے کانگریس رہنما‘ رندیپ سُرجے والا کی جانب سے سویابین کے ضمانتی نرخ کے بارے میں دی گئی معلومات کو بھی غلط قرار دیا۔
***** ***** *****
ہد ایت کار اور فلمساز آشوتوش گواریکر کو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا 2024یعنی IFFI کے بین الاقو امی انتخابی بورڈ کا چیئرمین منتخب کیا گیا ہے۔ اس تقرری پر گواریکر نےخوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدلتے وقت کے ساتھ تیار ہونے والی فلمیں دیکھنے کیلئے اس فلم فیسٹیول سے بہتر دوسرا کوئی موقع نہیں ہے۔ یہ فیسٹیول 20 نومبرسے 28 نومبر کے درمیان گوا میں منعقد ہوگا۔
***** ***** *****
خواتین کے ایشیائی کپ ہاکی ٹورنامنٹ میں کل بھارت نے جاپان کو تین ۔صفر سے شکست دے کر اپنی جیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ بہار کے راجگیر میں یہ مقابلہ کھیلا گیا۔ بھارت کی نونیت کور اور دیپیکا کماری نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ اس ٹورنامنٹ میں منگل کو سیمی فائنل مقا بلے میں بھارت کا مقابلہ پھر ایک بار جاپان سے ہوگا۔
***** ***** *****
دوردرشن سماچار کے سابق ڈائریکٹر جنرل ایس ایم خان کل نئی دہلی میں انتقال کرگئے، وہ 67 برس کے تھے۔ انہوں نے سابق صدر ِ جمہوریہ بھارت رتن ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے پریس سکریٹری کے طور پر بھی خدمات انجام دی تھیں۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات میں رائے دہی فیصد بڑھانے کیلئے کئی بیداری مہمیں چلائی جارہی ہیں۔
پربھنی ضلع کلکٹر دفتر او ر ر ائے دہندگان بیداری شعبہ ا ور پربھنی سائیکل تنظیم کی جانب سے کل شہر میں سائیکل ریلی نکالی گئی۔ اس سے پہلے ضلع کلکٹر رگھوناتھ گائوڑے نے سبھی شرکا‘ کو ووٹ د ینے کا حلف دلا یا۔ بعد ازاں سائیکل سو ارو ں کو اسنادات دیکر ان کی ستائش کی گئی۔ اس ریلی میں آٹھ سال سے لیکر ساٹھ سال تک کے سائیکل سوارو ں نے شرکت کی۔
دھاراشیو میں قومی خدمت اسکیم اور ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھو اڑہ یونیورسٹی کے ذ یلی مرکز کے شعبۂ ڈرامہ کی جانب سے شہر میں رائے دہی کے پیغام پر مبنی ڈرامہ پیش کرکے بیداری پید ا کی گئی۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات کی تشہیری مہم ختم ہونے کے بعد 72 گھنٹوں میں امن و قانون کی صورتحال برقرار رکھنے سے متعلق کل چھترپتی سمبھاجی نگر میں ضلع کلکٹر دلیپ سوامی کی موجودگی میں ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس دور ان رائے دہی سے قبل کے 72 گھنٹوں کے دو ر ان گاڑیوں کی جانچ‘ مخفی طور پر کی جانے والی تشہیر‘ رائے دہندگان کو لبھانے کی کوششوں سے متعلق انتخابی مشنریوں کو چوکنا رہنے کی ہدا یا ت د ی گئیں۔
ناند یڑ ضلعے میں بھی ہر طرف سخت بندوبست کیا گیا ہے ا ور ضلع کلکٹر ابھیجیت رائوت نے عوام سے کثیر تعداد میں رائے دہی کرنے کی اپیل کی ہے۔
***** ***** *****
چھترپتی سمبھاجی نگر ضلع کے اورنگ آباد مغربی اسمبلی حلقے میں 404 بزرگ شہریوں ا ور معذور افراد نے گھر سے رائے دہی کی۔ اس حلقے میں 95 فیصد معمر شہریوں نے گھر سے ووٹنگ کی ہے‘ جبکہ اورنگ آباد مشرقی حلقے میں 176 افراد نے گھر سے رائے دہی کا حق ادا کیا ‘ اس انتخابی حلقے میں گھر سے 96 فیصد رائے دہی ہوچکی ہے۔
***** ***** *****
ہنگولی ضلعے کے بسمت تعلقے کے چکھلی پھاٹے پر بیٹھک نگرانی دستے نے ا یک ٹراویلس بس سے تقریباً 90 لاکھ روپئے نقد رقم ضبط کی۔ یہ بس ممبئی سے ناندیڑ کی جانب جارہی تھی۔
***** ***** *****
ناند یڑ ضلع کے کنوٹ‘ پانگر پاڑ‘ حد گائوں کے چو رمبا‘ بھوکر کے پاکی تانڈا‘ دیگلور کے رام تیرتھ اور مکھیڑ کے کولے گائوں کے رائے دہی مراکز کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ ان مقامات پر مرکزی ریزرو دستے کے ملازمین کو بندوبست پر مامور کیا گیا ہے۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ ریاست میں اسمبلی انتخابات کی تشہیری مہم آج ختم ہو گی-رائے دہی کے عمل کیلئےانتظامیہ پوری طرح تیار۔
٭ الزام تر اشی اور نکتہ چینی کے ساتھ انتخابی تشہیری مہم عروج پر - ر ائے دہند گان سے راست ملاقاتوں کو امیدواروں کی ترجیح۔
٭ فلمساز و ہدایت کا ر آشوتوش گواریکر IFFI کے بین الاقو امی انتخابی بورڈ کے چیئرمین منتخب۔
اور۔۔۔٭ خواتین کے ایشیا کپ ہاکی ٹورنامنٹ میں جاپان کو شکست دے کر بھارت کی سیمی فائنل میں رسائی۔
***** ***** *****
0 notes
Text
زرعی ٹیکس
ساحرلدھیانوی نے کہا تھا زمیں نے کیا اِسی کارن اناج اگلا تھا؟ کہ نسل ِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے
چمن کو اس لئے مالی نے خوں سے سینچا تھا؟ کہ اس کی اپن�� نگاہیں بہار کو ترسیں
لگتا ہے یہی صورتحال پیدا ہونے والی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق زرعی ٹیکس کی وصولی کا کام شروع ہو جائے گا۔ پنجاب اسمبلی نے زرعی ٹیکس کا بل منظور کر لیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر نے اس کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ٹیکس پاکستان کے زرعی شعبہ کیلئے معاشی تباہی سے کم نہیں کیونکہ پاکستان ان زرعی ملکوں میں سے ہے جہاں کسان مسلسل بدحالی کا شکار ہیں۔ جہاں اکثر اوقات گندم باہر سے منگوا نی پڑ جاتی ہے۔ زراعت پہلے ہی تباہ تھی زرعی ٹیکس لگا کر اسے مزید تباہ کر دیا گیا ہے۔‘‘ پاکستان کسان اتحاد کے سربراہ کا کہنا ہے کہ زرعی ٹیکس کیخلاف ملک گیر احتجاج کا پلان ترتیب دے رہے ہیں۔ زراعت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، کچھ ممالک نے ایسی پالیسیاں اپنائی ہیں جو اس شعبے کو براہ راست ٹیکس سے مستثنیٰ کرتی ہیں، جن کا مقصد ترقی کو تیز کرنا، کسانوں کا تحفظ کرنا اور زرعی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ جیسے ہندوستان جہاں 1961 کے انکم ٹیکس ایکٹ کے تحت زراعت وفاقی انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔
یہ استثنیٰ تاریخی اور اقتصادی تحفظات پر مبنی ہے، جو ہندوستانی معیشت میں زراعت کی اہم شراکت کو تسلیم کرتا ہے۔ اگرچہ آئین کے تحت ریاستی حکومتوں کے پاس زرعی ٹیکس لگانے کا اختیار موجود ہے، لیکن زیادہ تر ریاستیں سیاسی اور عملی وجوہات کی بنا پر پر زرعی ٹیکس نہیں لگاتیں۔ ایک بار ہندوستان میں زرعی ٹیکس لگانے کی کوشش کی گئی تھی مگر اتنا خوفناک ا��تجاج ہوا تھا کہ حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑ گیا تھا۔ پاکستان میں زرعی ٹیکس اُس وقت تک نہیں لگایا جانا چاہئے تھا جب تک کسان کو اس قابل نہ کیا جاتا کہ وہ زرعی ٹیکس ادا کر سکے۔ اس زرعی ٹیکس سے یقیناً کھانے پینے کی اشیا اور مہنگی ہونگی۔ پہلے ہی پاکستان میں مہنگائی اپنے پورے عروج پر ہے۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے احتجاج میں کسان بھی شریک ہونے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ، جو اپنے جدید زرعی شعبے کیلئے جانا جاتا ہے، وہاں بھی زرعی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں بلکہ زرعی سرمایہ کاری، پائیداری کے منصوبوں اور اختراعات کیلئے اہم چھوٹ اور مراعات دی جاتی ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور قطر جیسے ممالک بھی زرعی ٹیکس عائد نہیں کرتے۔
یہ قومیں خوراک کی حفاظت پر توجہ مرکوز کرتی ہیں اور سبسڈی اور مراعات کے ذریعے کاشتکاری کے طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ کینیا، برما وغیرہ میں بھی زرعی ٹیکس نہیں ہے۔ وہ ممالک جو اپنے کسانوں کو بہت زیادہ سہولیات فراہم کرتے ہیں وہ ضرور ٹیکس لگاتے ہیں مگر دنیا بھرمیں سب سے کم شرح زرعی ٹیکس کی ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، جہاں اکثر کسان غیر مستحکم منڈیوں، غیر متوقع موسم، اور وسائل تک محدود رسائی کا سامنا کرتے ہیں۔ ٹیکس کی چھوٹ انہیں اپنی کاشتکاری کی سرگرمیوں میں دوبارہ سرمایہ کاری کرنے کیلئے مزید آمدنی برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ بہت سی حکومتیں خوراک کی پیداوار اور خود کفالت کو ترجیح دیتی ہیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ کسانوں پر ٹیکسوں کا زیادہ بوجھ نہ پڑے جس سے زرعی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔ ان ممالک میں جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ زرعی کام کرتا ہے، وہاں ٹیکس کی چھوٹ دیہی حلقوں کی معاش بہتر بنانے کا ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے۔
ٹیکس میں چھوٹ کسانوں کو کاشتکاری کے جدید طریقوں کو اپنانے، انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے اور پائیدار تکنیکوں کو اپنانے کی ترغیب دے سکتی ہے۔زرعی ٹیکس کی چھوٹ پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ حکومتیں ممکنہ ٹیکس ریونیو کو چھوڑ دیتی ہیں جسے عوامی خدمات کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ممالک میں، مالدار زمیندار یا بڑے زرعی ادارے ان چھوٹوں سے غیر متناسب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ٹیکس کی چھوٹ پر حد سے زیادہ انحصار بعض اوقات ناکارہ ہونے یا آمدنی کے تنوع کی حوصلہ شکنی کا باعث بن سکتا ہے۔ وہ ممالک جو زراعت کو ٹیکس سے مستثنیٰ رکھتے ہیں ان کا مقصد کاشتکاری کی سرگرمیوں کو فروغ دینا، خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانا اور دیہی معاش کی حمایت کرنا ہے۔ اگرچہ یہ پالیسیاں نیک نیتی پر مبنی ہیں، لیکن ان کی تاثیر کا انحصار مناسب نفاذ اور متعلقہ چیلنجوں سے نمٹنے پر ہے۔ اپنے زرعی شعبوں کو ترقی دینے کی کوشش کرنے والی قوموں کیلئے، وسیع تر اقتصادی مقاصد کے ساتھ ٹیکس مراعات میں توازن رکھنا بہت ضروری ہے مگر پاکستان میں زرعی ٹیکس صرف آئی ایم ایف کے دبائو میں لگایا گیا ہے۔
اگر حکومت سمجھتی ہے کہ یہ ٹیکس لگانا اس کی مجبوری تھی تو پھر اسے کسانوں کوفری مارکیٹ دینی چاہئے، انہیں بجلی اور ڈیزل کم قیمت پر ملنا چاہئے، کھاد، بیج اور کیڑے مار ادویات پر بھی سبسڈی فراہم کی جائے۔ باہر سے ہر قسم کے بیجوں کی درآمد پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔
منصور آفاق
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
کراچی میں نئی بسوں کی آمد؟
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے ۔ میں نے اپنی صحافت کا آغاز ہی بلدیاتی رپورٹنگ سے کیا تھا۔ اُس زمانے میں شام کے اخبارات شہری مسائل پر زیادہ توجہ دیتے تھے چاہے وہ پانی کا مسئلہ ہو، ٹرانسپورٹ کے مسائل ہوں یا شہر کا ’’ماسٹر پلان‘‘۔ کرائمز کی خبریں اس وقت بھی سُرخیاں بنتی تھیں مگر اُن کی نوعیت ذرا مختلف ہوتی تھی۔ مجھے میرے پہلے ایڈیٹر نے ’’ٹرانسپورٹ‘‘ کی خبریں لانے کی ذمہ داری سونپی، ساتھ میں کرائمز اور کورٹ رپورٹنگ۔ اب چونکہ خود بھی بسوں اور منی بسوں میں سفر کرتے تھے تو مسائل سے بھی آگاہ تھے۔ یہ غالباً 1984ء کی بات ہے۔ جاپان کی ایک ٹیم شہر میں ان مسائل کا جائزہ لینے آئی اور اُس نے ایک مفصل رپورٹ حکومت سندھ کو دی جس میں شہر میں سرکلر ریلوے کی بہتری کیساتھ کوئی پانچ ہزار بڑے سائز کی بسیں بشمول ڈبل ڈیکر لانے کا مشورہ دیا اور پرانی بسوں اور منی بسوں کو بند کرنے کا کیونکہ ان کی فٹنس نہ ہونے کی وجہ سے شدید آلودگی پھیل رہی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غالباً ٹرام یا تو ختم ہو گئی تھی یا اُسے بند کرنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ اُس وقت کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے سربراہ چوہدری اسماعیل ہوتے تھے جن کے ماتحت کئی پرائیویٹ بسیں چلتی تھیں اور اُن کی گہری نظر تھی۔ اِن مسائل پر وہ اکثر کہتے تھے ’’ شہر جس تیزی سے پھیل رہا ہے ہم نے اس لحاظ سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہ کیا تو بات ہاتھوں سے نکل جائے گی‘‘۔
کوئی چالیس سال بعد مجھے یہ نوید سُنائی جا رہی ہے کہ اب انشا ءالله کئی سو نئی بسیں اور ڈبل ڈیکر بسیں بھی آرہی ہیں۔ مگر مجھے خدشہ ہے کے اِن ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر یہ بسیں کیسے چلیں گی مگر خیر اب یہ بسیں آ رہی ہیں لہٰذا ان کا ’’خیر مقدم‘‘ کرنا چاہئے۔ میں نے حیدر آباد اور کراچی میں ڈبل ڈیکر بسوں میں سفر کیا ہے پھر نجانے یہ کیوں بند کر دی گئیں۔ ایک مضبوط کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے تحت بڑی بڑی بسیں چلا کرتی تھیں جن کے شہر کے مختلف علاقوں میں ٹرمینل ہوتے تھے۔ اس کے اندر جس طرح لوٹ مار کی گئی اُس کی کئی خبریں میں نے ہیڈ لائن میں دی ہیں اور اچانک یہ بند ہو گئیں کیوں اور کیسے؟ پھر وہ بسیں کہاں گئیں ٹرمینلز کی زمینوں کا کیا بنا۔ ایسا ہی کچھ حال سرکلر ریلوے کا ہوا ورنہ تو یہ ایک بہترین سروس تھی، اب کوئی دو دہائیوں سے اس کی بحالی کی فائلوں پر ہی نجانے کتنے کروڑ خرچ ہو گئے۔ اس سارے نظام کو بہتر اور مربوط کیا جاتا تو نہ آج کراچی کی سڑکوں پر آئے دن ٹریفک جام ہوتا نہ ہی شہر دنیا میں آلودگی کے حوالے سے پہلے پانچ شہروں میں ہوتا۔
قیام پاکستان کے بعد بننے والا ’’کراچی ماسٹر پلان‘‘ اُٹھا لیں اور دیکھیں شہر کو کیسے بنانا تھا اور کیسا بنا دیا۔ ماسٹر پلان بار بار نہیں بنتے مگر یہاں تو کیونکہ صرف لوٹ مار کرنا تھی تو نئے پلان تیار کئے گئے۔ میں نے دنیا کے کسی شہر میں اتنے بے ڈھنگے فلائی اوور اور انڈر پاس نہیں دیکھے جتنے اس معاشی حب میں ہیں۔ عروس البلاد کراچی کی ایک دکھ بھری کہانی ہے اور یہ شہر ہر لحاظ سے اتنا تقسیم کر دیا گیا ہے کہ اسکی دوبارہ بحالی ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ تاہم خوشی ہے کہ وزیر اطلاعات نے رنگ برنگی اے سی بسیں لانے کا وعدہ کیا ہے جن کا کرایہ بھی مناسب اور بکنگ آن لائن۔ یہ سب کراچی ماس ٹرانسزٹ کا حصہ تھا جو کوئی 30 سال پہلے بنایا گیا تھا۔ اُمید ہے یہ کام تیزی سے ہو گا کیونکہ جو حال پچھلے پانچ سال سے کراچی یونیورسٹی روڈ کا ہے اور وہ بھی ایم اے جناح روڈ تک، اللہ کی پناہ۔ شہر کی صرف دو سڑکیں ایم اے جناح روڈ اور شاہراہ فیصل، چلتی رہیں تو شہر چلتا رہتا ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ چند سال پہلے ہی جیل روڈ سے لے کر صفورہ گوٹھ تک جہاں جامعہ کراچی بھی واقع ہے ایک شاندار سڑک کوئی ایک سال میں مکمل کی گئی، بہترین اسٹریٹ لائٹس لگائی گئیں جس پر ایک ڈیڑھ ارب روپے لاگت آئی اور پھر... یوں ہوا کہ اس سڑک کو توڑ دیا گیا۔ اب اس کا حساب کون دے گا۔
اگر ایک بہتر سڑک بن ہی گئی تھی تو چند سال تو چلنے دیتے۔ ہمیں تو بڑے پروجیکٹ بنانے اور چلانے بھی نہیں آتے صرف ’’تختیاں‘‘ لگوا لو باقی خیر ہے۔ دوسرا بسوں کا جال ہو یا پلوں کی تعمیر یہ کام دہائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کئے جاتے ہیں اس شہر کا کھیل ہی نرالا ہے یہاں پلان تین سال کا ہوتا ہے مکمل 13 سال میں ہوتا ہے۔ میں نے کئی بار شرجیل میمن صاحب کو بھی اور خود وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ صاحب کو بھی کہا کہ سڑکوں کا کوئی بڑا پروجیکٹ ہو، کوئی فلائی اوور یا انڈر پاس تو سب سے پہلے سائیڈ کی سڑکوں کو اور متبادل راستوں کو بہتر کیا جاتا ہے اور سڑکوں کی تعمیر یا مرمت سے پہلے متعلقہ اداروں سے پوچھا جاتا ہے کہ کوئی لائن و غیرہ تو نہیں ڈالنی؟ یہاں 80 فیصد واقعات میں واٹر بورڈ، سوئی گیس اور کے الیکٹرک والے انتظار کرتے ہیں کہ کب سڑک بنے اور کب ہم توڑ پھوڑ شروع کریں۔ اب دیکھتے ہیں ان نئی بسو ں کا مستقبل کیا ہوتا ہے کیونکہ 70 فیصد سڑکوں کا جو حال ہے ان بسوں میں جلد فٹنس کے مسائل پیدا ہونگے۔ مگر محکمہ ٹرانسپورٹ ذرا اس کی وضاحت تو کرے کہ چند سال پہلے جو نئی سی این جی بسیں آئی تھیں وہ کہاں ہیں کیوں نہیں چل رہیں اور ان پر لاگت کتنی آئی تھی۔
اگر یہ اچھا منصوبہ تھا تو جاری کیوں نہ رکھا گیا اور ناقص تھا تو ذمہ داروں کو سزا کیوں نہ ملی۔’’خدارا‘‘، اس شہر کو سنجیدگی سے لیں۔ ریڈ لائن، اورنج لائن، گرین لائن اور بلیو لائن شروع کرنی ہے تو اس کام میں غیر معمولی تاخیر نہیں ہونی چاہئے مگر اس سب کیلئے ٹریک بنانے ہیں تو پہلے سائیڈ ٹریک بہتر کریں ورنہ ایک عذاب ہو گا، یہاں کے شہریوں کیلئے بدترین ٹریفک جام کی صورت میں۔ سرکلر ریلولے بحال نہیں ہو سکتی اس پر پیسہ ضائع نہ کریں۔ اس کی وجہ سرکار بہتر جانتی ہے۔ جب بھی میں یا کوئی شہر کے مسائل کے حل کے اصل مسئلے پر آتا ہے تو اُسے سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈیفنس والے بھی خوش نہیں ہوتے ایک ’’میٹرو پولیٹن سٹی‘‘، ایک میئر کے انڈر ہوتی ہے۔ اُس کی اپنی لوکل پولیس اور اتھارٹی ہوتی ہے۔ کیا وقت تھا جب ہم زمانہ طالب علمی میں نارتھ ناظم آباد کے حسین ڈسلوا ٹائون کی پہاڑیوں پر جایا کرتے تھے، ہاکس بے ہو یا سی ویو پانی اتنا آلودہ نہ تھا، بو نہیں مٹی کی خوشبو آتی تھی۔ جرم و سیاست کا ایسا ملاپ نہ تھا۔ اس شہر نے ہم کو عبدالستار ایدھی بھی دیئے ہیں اور ادیب رضوی بھی۔ اس شہر نے سب کے پیٹ بھرے ہیں اور کچھ نہیں تو اس کو پانی، سڑکیں اور اچھی بسیں ہی دے دو۔ دُعا ہے نئی بسیں آئیں تو پھر غائب نہ ہو جائیں، نا معلوم افراد کے ہاتھوں۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
جموں و کشمیر اسمبلی میں دفعہ 370 کی بحالی کے لیے قرارداد منظور، اپوزیشن کا احتجاج
پی ڈی پی کے تین ارکان، پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد لون، اور آزاد اراکین اسمبلی شیخ خورشید اور شبیر کلے نے اس قرارداد کی حمایت کی۔ اسپیکر عبدالرحیم راتھر نے اس قرارداد کو ووٹ کے لیے پیش کیا، جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ اس تمام صورتحال کے دوران اسمبلی میں بی جے پی کے ارکان نے شدید احتجاج کیا، جس پر اسپیکر کو ایوان کی کارروائی 15 منٹ کے لیے ملتوی کرنی پڑی۔ Source link
0 notes
Text
سربراہ پاک بحریہ سےمراکش فضائیہ کے انسپکٹر کی ملاقات، سیکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال
(احمد منصور) سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل نوید اشرف سے رائل مراکش فضائیہ کے انسپکٹر نےملاقات کی،ملاقات کے دوران باہمی دلچسپی کے امور اور علاقائی میری ٹائم سیکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاک فوج کے تعلقات عامہ انٹر سروسز پبلک ریلیشن(آئی ایس پی آر)سے جاری بیان کے مطابق رائل مراکش فضائیہ کے انسپکٹر میجر جنرل محمد غادی نے نیول ہیڈکوارٹرز اسلام آباد کا دورہ کیا۔ اس موقع پر پاک بحریہ کے چیف نے…
0 notes
Text
کالعدم ٹی ٹی پی سربراہ خارجی نورولی محسود کی خفیہ کال لیک
کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ خارجی نور ولی محسود کی ہوشروبا خفیہ کال منظرِ عام پر آگئی۔ ذرائع کے مطابق دشمن کے آلہ کارٹی ٹی پی کے انتہا پسند خوارج نے نام نہاد شریعت کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان کے امن کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔بدامنی پھیلانے کے اس مکروہ دھندے میں خوارج عملی طور پر اور پراپیگنڈے کے ذریعے پاکستانی عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں۔حالیہ ڈی آئی خان کے علاقے کری شموزئی میں خوارج…
0 notes
Text
مسئلہ کشمیر کے حل تک جنوبی ایشیا میں امن ناممکن رہے گا، ایڈمرل نوید اشرف
120ویں مڈشپ مین اور 28 ویں شارٹ سروس کمیشن کورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ پاکستان نیول اکیڈمی کراچی میں منعقد ہوئی۔ چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل نوید اشرف نےاس موقع پر بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ کمیشن حاصل کرنے والا دستہ 88 مڈ شپ مین پر مشتمل تھا جن میں سے 60 کا تعلق پاکستان، 01 بحرین اور 27 کا تعلق سعودی عرب سے تھا جبکہ ایس ایس سی کورس کے 44 افسران بشمول 12خاتون افسران بھی شامل تھیں۔ چیف آف دی نیول اسٹاف…
View On WordPress
0 notes
Text
حکومت نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے تو مذاکرات روک دیں گےمولانا فضل الرحمان
(24نیوز)جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہاہے کہ جے یو آئی کے ارکان پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے،ہمارے ارکان کو بڑی آفر دی جارہی ہیں، حکومت نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے تو مذاکرات روک دیں گے،حکومت کا رویہ بدمعاشی کا ہوا تو ہمارا بھی وہی ہوگا،ولیل کے ساتھ بات کروتو دلیل سے جواب دیں گے،اپوزیشن ارکان کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں، صبح تک تمام صورتحال تبدیل دیکھنا چاہتا ہوں۔ تحریک…
0 notes
Text
چمپیئنز ٹرافی : میچ صرف پاکستان میں ہو گا
چمپیئنز ٹرافی کے لیے بھارت نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا ہے۔ کرکٹ کے بارے میں میری رائے سب کے سامنے ہے اور اس پر کچھ لکھنا وقت کا زیاں ہے تاہم بھارت کے یہاں نہ آنے کا تعلق کھیل سے نہیں ہے، اس کا تعلق پاکستان سے ہے۔ یہ پاکستان کے خلاف سفارتی اور معاشی جارحیت ہے، اس لیے اس پر بات ہونی چاہیے۔ بھارت پاکستان میں کرکٹ کیوں نہیں کھیل سکتا؟ اس کے جواب میں بھارت نے واضح طور پر کچھ نہیں بتایا۔ کسی معاملے میں اس طرح کے ابہام کو سفارت کاری کی دنیا میں Intended ambiguity کہا جاتا ہے۔ یعنی جان بوجھ کر رکھا گیا ابہام۔ جس کی حسب ضرورت تشریح کر لی جائے۔ چنانچہ بھارت کا میڈیا اور اس کے سابق سفارت کار جب پاکستان نہ جانے کے فیصلے کی تشریح کرتے ہیں تو وہ اسی Intended ambiguity کے ہتھیار سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے پاکستان میں امن عامہ کی صوت حال ایسی نہیں کہ ہم وہاں جا کر کھیل سکیں۔ کوئی قرار دیتا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں امن کے لے خطرہ ہے اس لیے پاکستان جب تک اپنا رویہ نہیں بدلتا، اس کے ہاں جا کر نہیں کھیلا جا سکتا۔
یہ محض کھیل کا معاملہ نہیں یہ پاکستان کے خلاف ایک پوری واردات ہے۔ واردات یہ ہے کہ پاکستان کو اس خطے کا اچھوت بنا دیا جائے۔ اس فیصلے کے اثرات کرکٹ کے میدان تک محدود نہیں، بہت وسیع ہیں۔ مثال کے طور پر اگر یہاں کرکٹ کا ایک میچ نہیں ہو سکتا تو یہاں سرمایہ کاری کیسے ہو سکے گی۔ پھر یہ کہ دنیا میں آپ کا امیج کیا بنے گا؟ ایسے میں پاکستان کی جانب سے کسی ہائبرڈ ماڈل پر اتفاق کر لینا، بہت بڑی غلطی ہو گی۔ کرکٹ اتنی بڑی چیز نہیں کہ اس کے لیے ملکی مفاد اور وقار کو داؤ پر لگا دیا جائے۔ یہ میچ اگر پاکستان کی بجائے کہیں اور ہوتا ہے تو یہ کرکٹ کے مفاد میں تو ہو سکتا ہے، پاکستان کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ پاکستان کا مفاد اس بات کا متقاضی ہے کہ بھارت نے کھیلنا ہے تو پاکستان آئے، اور پاکستان نہیں آ سکتا تو اس کے بغیر ٹورنامنٹ کرایا جائے۔ بھارت کو بھی معلوم ہے کہ اس میچ کے ساتھ غیر معمولی ریو ینیو جڑا ہوتا ہے۔ آئی سی سی کا مفاد یقینا اسی میں ہو گا کہ کسی بھی طرح یہ میچ ہو جائے کیونکہ ا س سے اس کے ریونیو کا تعلق ہے۔ ہائبرڈ ماڈل پر رضامندی نفسیاتی، معاشی، سفارتی، ہر لحاظ سے نقصان دہ ہو گی۔ باٹم لائن یہی ہونی چاہیے کہ جس نے کھیلنا ہے، پاکستان میں ہی کھیلنا ہو گا۔ نہیں کھیلنا تو آپ کی مرضی، ہم متبادل ٹیم بلا لیتے ہیں۔
بھارت کی پالیسی ’ایک چوری، اوپر سے سینہ زوری‘ والی ہے۔ اس کے جواب میں فدویانہ پالیسی سے کام نہیں چلے گا۔ سچ پوچھیے تو مجھے مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف صاحب کا بیان بھی پسند نہیں آیا۔ فرماتے ہیں: معاملات کو بہتر بنانے کی ضررت ہے۔ ماضی میں بھارت کے ساتھ معاملات بگڑے ہیں تو یہ سنوارے جا سکتے ہیں“۔ بھارتی قیادت خاموش تھی تو میاں صاحب کو بھی خاموش رہنا چاہیے تھا۔ بھارت نے اگر اپنا پتہ کرکٹ بورڈ کے ذریعے پھینکا تھا تو اس کا جواب پاکستان کرکٹ بورڈ ہی کے ذریعے جانا چاہیے تھا۔ لیکن اگر میاں صاحب بولے ہی تھے تو پھر چیزوں کا سیاق و سباق درست رکھ کر امن کی بات کی جانی چاہیے تھی۔ کیا کانگریس یا بی جے پی کے سربراہ نے اس پر کوئی بیان دیا ہے؟ جب ادھر سے اسے ایک معمولی معاملے کے طور پر کرکٹ بورڈ کے ذریعے ہی ہینڈل کیا جا رہا ہے تو ہماری سیاسی قیادت اس کو اتنی غیر معمولی اہمیت کیوں دے رہی ہے؟ میاں صاحب کے اس بیان سے تو یوں لگ رہا ہے کہ جیسے ماضی میں، جب ان کی حکومت نہ تھی، پاکستان سے کوئی ایسی گستاخی ہو گئی ہے جس سے بھارت ناراض ہو گیا ہے اور اب ہمیں ’ماضی میں‘ بھارت کے ساتھ بگڑ جانے والے معاملات کو سنوارنا ہو گا۔
ماضی میں کیا ہو تھا؟ ماضی میں کل بھوشن یادیو پکڑا گیا تھا۔ لاہور بم دھماکے میں ملوث بھارتی لوگ پکڑے گئے تھے۔ کشمیر کو بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے بھارت نے انڈین یونین میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس نے پاکستان پر فضائی حملہ کیا تھا جس کے جواب میں ابھے نندن صاحب کو پ��کستان کا چائے کا پورا کپ پینے کی بہادری کے اعتراف میں بھارت کا سب سے بڑا فوجی اعزاز دیا گیا تھا۔ بھارت نے پاکستان سے پانی کے معاہدے کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا۔پاکستان نے کیا کیا تھا کہ مودی مہاراج اتنے خفا ہیں؟ پاکستا ن نے تو بھارت جا کر کھیلنے سے کبھی انکار نہیں کیا۔ یہ بھارت ہے جس نے کھیلوں کو اپنی سیاست کے شاؤنزم سے آلودہ کر دیا ہے۔ ایسے میں برائے وزن بیت شاعری بالکل ایک غیر ضروری چیز ہے۔ ہو سکتا ہے میاں صاحب نے بین السطور ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہو کہ پاک بھارت تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے وہ موزوں ترین شخصیت ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہو سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر محض ان کی شخصیت ہی اس کام کے لیے اتنی موزوں ہوتی تو ان کی جماعت کی حکومت میں بھارت اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے انکار ہی کیوں کرتا۔ ممالک کے تعلقات کی صورت گری میں بہت سارے عوامل ہوتے ہیں۔ یہ ڈوری محض شخصی روابط سے نہیں کھل پاتی۔
بھارت سے تعلقات اچھے ہونے چاہیں لیکن یہ ہماری یکطر فہ فدویت سے بہتر نہیں ہوں گے۔ یہاں طاقت اور اس کا اظہار ہی توازن کا ضامن ہے۔ یہ عجیب رویہ ہے جس نے پہلے ہمارے دانشوروں کو اپنی گرفت میں لیا اور اب اہل سیاست بھی اس کے اسیر ہیں کہ بھارت کے سامنے فدوی اور مودب ہوتے جاو کیوں کہ ہماری معیشت کمزور ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا معیشت فدویانہ فارمولے سے کھڑی ہو جائے گی؟ یہ وہی دیرینہ مسئلہ ہے کہ کوئے یار سے سوئے دار کے بیچ یاروں کو کوئی مقام راس ہی نہیں آتا۔ توازن ہی زندگی ہے۔ اور چیزوں کی ترتیب درست رہنی چاہیے۔ملامتی دانشوری اور ملامتی سیاست، دونوں میں سے کوئی بھی آپ کو سرخرو نہیں کر سکتا۔ پاکستان نے کھیلوں کو سیاست کا اکھاڑا کبھی نہیں بنایا۔ یہ بھارت ہے جس نے کھیل کو بھی ویپنائز کر دیا ہے۔ اس سے قبل یہی کام وہ سفارت کاری کی دنیا میں بھی کر چکا ہے۔ سارک کانفرس کا پاکستان کا انعقاد بھی اس ہی کی وجہ سے نہ ہو سکا۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو جس حد تک ممکن ہو اقوام عالم میں غیر متعلقہ کر دیا جائے۔ سارک ہو تو اسے سبوتاژ کر دو، چمپینز ٹرافی ہو تو اسے سبوتاژ کر دو۔ یاد رکھیے کہ ایسے میں کسی ہائبرڈ فارمولے کی طرف جانا، بھارت کی سہولت کاری کے مترادف ہو گا۔ غیر فقاریہ پالیسی کے آزار سے ہشیار رہیے۔
آصف محمود
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز
0 notes
Text
چھبیسویں آئینی ترمیم منظور، کیا طوفان ٹل چکا ہے؟
کیا طوفان ٹل چکا ہے؟ یہ تو ہمیں آنے والے دن بتائیں گے۔ بلآخر حکومتی اتحاد کے متنازع آئینی پیکج کو سینیٹ نے منظور کر لیا جس کے ساتھ ہی اس کی شقوں پر ہفتوں سے جاری بحث اور مذاکرات بھی اپنے اختتام کر پہنچے۔ جس لمحے یہ اداریہ لکھا جارہا تھا اس وقت قومی اسمبلی سے اس آئینی پیکج کی منظوری لینا باقی تھی ۔ اس سے پہلے ترامیم کو منظور کروانے کی ناکام کوشش کے بعد، کل جو مسودہ پیش کیا گیا وہ پہلے کے مقابلے میں کافی حد تک تبدیل شدہ تھا۔ حتیٰ کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) جس نے ترامیم کے لیے ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کر کے تجاویز فراہم کرنے کے اہم موقع کو گنوا دیا، اس نے بھی اعتراف کیا کہ یہ آئینی مسودہ ابتدائی طور پر پیش کیے جانے والے مسودے سے ’قدرے بہتر‘ ہے۔ سینیٹ میں پارٹی کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے اس ’کامیابی‘ پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی کاوشوں کی تعریف کی، البتہ انہوں نے ججوں کے انتخاب اور اعلیٰ عدلیہ میں اہم تقرریوں کے نئے عمل پر اپنی پارٹی کے تحفظات کو برقرار رکھا۔
گزشتہ شب پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کیے جانے والے بل میں 22 ترامیم شامل تھیں جوکہ گزشتہ ماہ پیش کیے جانے والے مسودے میں 50 شقوں سے نصف سے بھی کم ہیں۔ یہ تبدیل شدہ مسودہ کافی حد تک قابلِ قبول تھا جبکہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اگر ووٹنگ کا عمل چند دن بعد کیا جاتا تو وہ بھی اس میں حصہ لیتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انہیں چند معاملات کے حوالے سے جیل میں قید اپنے پارٹی قائد سے مشاورت کرنے کی ضرورت تھی۔ مسودے کے حوالے سے سب سے پہلا خیال یہی تھا کہ ترامیم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کو متنازع بنا دیتیں کیونکہ یوں اس عمل میں حکومت کا کردار اہم ہوجاتا۔ عدالت عظمیٰ کے اندر اور ریاست کی مختلف شاخوں میں طویل عرصے سے جاری تنازعات اور تقسیم کے درمیان، ان آئینی ترامیم کی وجہ سے حکومت اور عدلیہ میں مزید ایک نیا تنازع کھڑا ہوسکتا ہے۔ اب وکلا برادری اس پر کیا ردعمل دیتے ہیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
ایک خدشہ جو بدستور موجود ہے وہ یہ ہے کہ حکمران اتحاد نئے ’آئینی بینچ‘ میں اپنی پسند کے ججوں کی تقرری کے لیے ترامیم کا غلط استعمال کرنے کی کوشش کر سکتا ہے یا وہ اپنے ’ہم خیال‘ جج کو چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کرنے کی کوشش بھی کرسکتا ہے۔ شاید تحریک انصاف کو ان ترامیم کے بنیادی مخالف کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری زیادہ سنجیدگی سے لینی چاہیے تھی۔ انہیں عمل کو ’منصفانہ‘ بنانے کے لیے متبادل خیالات یا تجویز کردہ تبدیلیاں پیش کرنی چاہیے تھیں۔ اگر پی ٹی آئی کی تجاویز مسترد بھی ہو جاتیں تب وہ کم از کم یہ دعویٰ کر سکتے تھے کہ انہوں نے دیگر آپشنز پیش کیے تھے۔ تاہم یہ حکومت کا کام تھا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کرتی لیکن اس کے لیے انہیں کئی دن یا ہفتے لگ جاتے لیکن انہیں یہی راستہ چُننا چاہیے تھا۔ اس کے بجائے حکومت نے ایک سخت ڈیڈلائن مقرر کی جس میں رہ کر انہوں نے ترامیم سے متعلق کام کیا جو کہ شاید اس لیے تھا کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ میں ہونے والی بڑی تبدیلی سے قبل وہ اس معاملے کو نمٹا دیں۔ تاہم ابھی ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ آنے والے دنوں میں اس معاملے سے متعلق کیا پیش رفت ہوتی ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز
#26th amendments#Maulana Fazlur Rehman#Pakistan Constitution#Pakistan Judiciary#Politics#PPP#PTI#World
0 notes