Tumgik
#الیکشن نتائج
urduchronicle · 8 months
Text
الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے 15 اور صوبائی اسمبلیوں کے 22 حلقوں کے نتائج روک لیے
الیکشن کمیشن نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 37 حلقوں کے حتمی نتائج روک دیے۔ قومی اسمبلی کے 15 اورصوبائی اسمبلیوں کے 22 حلقوں کے نتائج جاری نہیں ہوں گے۔ این اے52 ،53 56 اور57راولپنڈی، این اے 60 جہلم، این اے 69  منڈی بہاوالدین کے حتمی نتائج جاری کرنے سے روک دیاگیا۔ الیکشن کمیشن نے پی پی 22 چکوال، پی پی 49 سیالکوٹ اور پی پی 14 راولپنڈی کے حتمی نتائج روک دیے۔ الیکشن کمیشن نے پی پی 283 لیہ، پی پی 164 …
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 13 days
Text
سپریم کورٹ کے 8 عمرانڈو ججز کی الیکشن کمیشن کو کھلی دھمکی
سپریم کورٹ آف پاکستان کے 8 عمرانڈو ججز نے مخصوص نشستوں کے کیس میں تفصیلی فیصلہ دینے کی بجائے اب ایک دھمکی آمیز پریس ریلیز جاری کر دی ہے جس میں الیکشن کمیشن اف پاکستان کو وارننگ دی گئی ہے کہ اگر پی ٹی آئی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں 12 جولائی 2024 کی ججمنٹ کے مطابق فوری طور پر مخصوص نشستیں الاٹ نہ کی گئیں تو اسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ یہ پاکستان کی 75 سالہ سیاسی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ…
0 notes
emergingpakistan · 6 months
Text
سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی اہلیت
Tumblr media
سینئر سیاسی رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ملکی مسائل حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں ہے، انھیں علم ہی نہیں ہے کہ ملکی مسائل کا حل کیا ہے۔ سینئر سیاسی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ سیاستدان صرف اپنے لیے نہیں بلکہ قوم کے بچوں کے لیے آگے آئیں اور ان کے بہتر مستقبل کا سوچیں۔ الیکشن میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے، اس لیے انتخابی نتائج تسلیم کریں۔ ملک میں سیاسی جماعتوں کی مختلف حکومتوں کی مدت تین آمرانہ حکومتوں سے زیادہ ہو چکی ہے۔ گزشتہ 16 برس سے ملک آمریت سے محفوظ ہے۔ 2008 کے الیکشن کے بعد سے ملک میں تین جماعتوں کے وزرائے اعظم نے ہی حکومت کی ہے مگر تینوں پارٹیوں کے منتخب وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکے البتہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں اور تین اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آئینی طور پر ہٹایا گیا، یوں اسمبلیاں برقرار رہیں اور پانچوں قومی و صوبائی اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار سے محرومی کے بعد پہلے قومی اسمبلی سے اپنے ارکان کے استعفے دلائے اور بعد میں اپنے سیاسی مفاد کے لیے پنجاب و کے پی کی اسمبلیاں قبل از وقت تڑوا کر اپنے وزرائے اعلیٰ کو بھی اقتدار میں نہیں رہنے دیا اور اپنی ضد اور انا کی خاطر اپنی اچھی بھلی دو صوبائی حکومتیں اس لیے ختم کرائیں کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن قبل ازوقت جنرل الیکشن کرانے پر مجبور ہو جائے لیکن عمران خان کی یہ خواہش ناتمام ہی رہی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے دونوں وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو عدالتی فیصلوں نے مدت پوری نہیں کرنے دی تھی اور دونوں کو نااہل کیا تھا۔ نااہلی کے دونوں عدالتی فیصلوں سے قبل 1999 تک فوجی جنرلوں اور 58/2-B کے اختیار کے حامل سویلین صدور نے وزرائے اعظم برطرف کیے اور اسمبلیاں ختم کیں اور 1985 سے 1999 تک کسی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی۔ 1999 میں نواز شریف کو برطرف کرنے والے جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے حکم پر ملک میں 2002 میں الیکشن کرایا اور 2007 تک تمام اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے کا موقعہ دیا اور اپنی بنائی گئی مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں ظفر اللہ جمالی کو ضرور تبدیل کیا اور غیر سیاسی وزیر اعظم شوکت عزیز کے ذریعے حکومت کے 5 سال مکمل کرائے تھے اور یہ واحد فوجی جنرل تھے جنھوں نے اسمبلیوں کی مدت پوری کرائی اور خود کو وردی میں صدر منتخب کرایا اور بعد میں صدر رہ کر فوجی وردی اتار دی تھی۔ 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے اقتدار کے گیارہ برسوں میں ایک دوسرے کی حکومتیں ختم کرائیں اور دو دو باریاں لیں اور دونوں ہی حکومتیں خود ان کے منتخب صدور نے ختم کیں اور فوجی مداخلت 1999 میں ہوئی جس کے بعد سے فوج نے برائے راست کوئی مداخلت نہیں کی مگر 2018 تک تمام حکومتیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے قائم ہوئیں اور پی ٹی آئی حکومت بنوائی گئی۔
Tumblr media
2018 میں پہلی بار پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی گئی جو اس کے وزیر اعظم کے غیر جمہوری رویے، من مانیوں اور انتقامی کارروائیوں کے باعث تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہو گئی جس کو برطرف وزیر اعظم نے غلط رنگ دیا۔ کبھی تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیا، کبھی جنرل قمر جاوید باجوہ کو ذمے دار قرار دیا اور میر صادق، میر جعفر اور جانور تک کا طعنہ دیا گیا۔ اپنی آئینی برطرفی کے بعد انھیں جمہوری طور اسمبلیوں میں رہنا چاہیے تھا اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی خوشامد نہیں کرنی چاہیے تھی کہ وہ انھیں دوبارہ وزیر اعظم بنوا دیں، جنرل صاحب نے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا بھی کہا تھا مگر اپوزیشن نہیں مانی تھی کیونکہ اس کی تحریک عدم اعتماد آئینی تھی جو پہلی بار کامیاب ہوئی تھی۔ سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ فوج غیر جانبدار رہے، آئین کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کسی وزیر اعظم کولائے نہ ہٹائے ، یہ درست ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے ذمے دار تو خود سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ہیں۔ 1970 تک ملک میں جو ہوتا رہا اس کے ذمے دار سیاسی رہنما اور ان کی اپنی پارٹیاں تھیں جنھوں نے جنرل ایوب کو باعزت واپسی کا راستہ نہیں دیا۔
1977 میں بھٹو حکومت میں انتخابی دھاندلی کے بعد ملک گیر تحریک چلی۔ وزیر اعظم بھٹو کی وجہ سے مارشل لا لگا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کی حکومت ہٹانے کی کوشش کرتے رہے۔ نواز شریف اگر جنرل پرویز مشرف کو غلط طور نہ ہٹاتے، پی ٹی آئی وزیر اعظم اگر پی پی اور (ن) لیگ کو ساتھ لے کر چلتے تو آج تنہا نہ ہوتے۔ سیاستدانوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ ہوتا، پی ٹی آئی دوسری جماعتوں سے مل کر مسائل کا حل تلاش کرتی اور اس کے چیئرمین نئی نسل کو بگاڑنے کے بجائے ملک کے بچوں کا سوچتے تو آج جیل میں نہ ہوتے۔ دوسروں کو چور، ڈاکو قرار نہ دیتے تو سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ملک کے مفاد اور مسائل کے حل پر آپس میں متحد ہو جاتیں تو ملک میں سیاسی استحکام ہوتا، پی پی اور (ن) لیگ کی طرح پی ٹی آئی نے اقتدار کے بجائے ملک کا سوچا ہوتا تو آج ملک میں سیاسی دشمنی اور انتشار نہ ہوتا۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 7 months
Text
کیا اسلام آباد میں ایک دیوانے کی گنجائش بھی نہیں؟
Tumblr media
نگران حکومت کے سنہرے دور کے آغاز میں ہی ایک وزیر نے سب کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اس لیے یہاں پر اداروں کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میرا خیال تھا نگران شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے چلے ہیں۔ جتنا بڑا آپ کے پاس ہتھیار ہوتا ہے، خوف اتنا ہی کم ہونا چاہیے۔ جب سے ہم نے بم بنایا ہے ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ اب دشمن ہمیں کبھی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ امریکہ سے انڈیا تک جتنی آوارہ طاقتیں ہیں، جہاں چاہے گھس جاتی ہیں وہ پاکستان کی سرحدوں کے اند آتے ہوئے سو دفعہ سوچیں گے۔ دفاعی تجزیہ نگار بھی یہی بتاتے تھے کہ یہ والا بم چلانے کے لیے نہیں، دشمن کو دھمکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جب نگران وزیر صاحب نے اس بم سے اپنے ہی عوام کو دھمکانا شروع کیا تو لگا کے شاید پاکستان ایک اور طرح کی دفاعی ریاست بننے جا رہی ہے۔ کل اسلام آباد میں زیرِ حراست صحافی اور یوٹیوبر اسد طور کی 78 سالہ والدہ کا ایک مختصر سا ویڈیو دیکھا جب وہ اپنے بیٹے سے مل کر آئی تھیں۔ وہ کھانا لے کر گئیں تھیں طور نے نہیں کھایا، وہ اصرار کرتی رہیں۔ طور بھوک ہڑتال پر تھا اس لیے غالباً والدہ کو ٹالنے کے لیے کہا بعد میں کھا لوں گا۔
ان کی والدہ نے ایف آئی اے کو، عدالتوں کو یا کسی اور ادارے سے کوئی شکوہ نہیں کیا صرف یہ دعا کی کہ اللہ میرے بیٹے کو ہدایت دے۔ اسلام آباد کو ہمیشہ دور سے حسرت کی نظر سے دیکھا ہے۔ کبھی جانے کا اتفاق ہوا تو ایک ہی شام میں دس سیانوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ کسی کے پاس اندر کی خبر، کسی کے پاس اندر سے بھی اندر کی اور پھر وہ جو اندر کی خبر باہر لانے والوں کے نام اور حسب نسب بھی بتا دیتے ہیں۔ اسد طور سے نہ کبھی ملاقات ہوئی نہ کبھی سیانا لگا۔ کبھی کبھی اس کے یوٹیوب چینل پر بٹن دبا دیتا تھا۔ منحنی سا، جذباتی سا، گلی کی نکڑ پر کھڑا لڑکا جو ہاتھ ہلا ہلا کر کبھی ٹھنڈی کبھی تلخ زبان میں باتیں کرنے والا۔ گذشتہ ماہ اسلام آباد میں بلوچستان سے اپنے اغوا شدہ پیاروں کا حساب مانگنے آئی ہوئی بچیوں اور بزرگوں نے کیمپ لگایا اور اسلام آباد کے زیادہ تر سیانے اپنے آتش دانوں کے سامنے الیکشن کے نتائج پر شرطیں لگا رہے تھے تو وہ کیمرا لے کر احتجاجی کیمپوں سے ان کی آواز ہم تک پہنچاتا رہا۔
Tumblr media
میں نے سوچا کہ یہ کیسا یوٹیوبر ہے جسے یہ بھی نہیں پتا کہ بلوچ کہانیاں سنا کر کبھی بھی کوئی یوٹیوب سٹار نہیں بنا۔ اس سے پہلے سنا ہے کہ جب سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس پر بُرا وقت آیا تھا تو ان کی عزت کا محافظ بنا ہوا تھا۔ عدلیہ کی سیاست کی کبھی سمجھ نہیں آئی لیکن میں یہی سمجھا کہ سیانوں کے اس شہر اسلام آباد میں شاید ہمیشہ ایک دیوانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری تاریخ اور ثقافتی روایت بھی ہے۔ بادشاہ بھی اپنے دربار میں مسخرہ رکھتے تھے، گاؤں کا چوہدری بھی میراثی کو برداشت کرتا ہے۔ گاؤں میں ایک ملنگ نہ ہو تو گاؤں مکمل نہیں ہوتا۔ اسد طور بھی مجھے کیمرے والا ملنگ ہی لگا جس کے بغیر اسلام آباد کا گاؤں مکمل نہیں ہوتا۔ اس گاؤں میں ابھی تک یہ طے نہیں ہے کہ طور پر زیادہ غصہ عدلیہ عظمیٰ کو ہے یا ان کو جن کے لیے اسلام آباد کے صحافی کندھوں پر انگلیاں رکھ کر بتاتے تھے، پھر کسی نے بتایا کہ یہ کوڈ ورڈ پاکستان کے عسکری اداروں کے لیے ہے۔ اسلام آباد کے ایک بھیدی نے بتایا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ کس ادارے کی زیادہ بےعزتی ہوئی ہے لیکن یہ کہ اسد طور تھوڑا سا بدتمیز ہے، کسی کی عزت نہیں کرتا۔
مجھے اب بھی امید ہے کہ اسلام آباد میں کوئی سیانا کسی بڑے سیانے کو سمجھا دے گا کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں اور ہم نے دشمن چنا ہے اتنا دبلا پتلا طور۔ اچھا نہیں لگتا۔ ہمارے نگران وزیراعظم ہمیں ایک دفعہ یہ بھی بتا چکے ہیں کہ دہشت گردوں کی بھی مائیں ہوتی ہیں۔ اسد طور کی والدہ کیمرے پر دعا مانگ چکی ہیں کہ اللہ ان کے بیٹے کو ہدایت دے۔ دونوں ادارے جن کے ساتھ اسد طور نے بدتمیزی کی ہے، ان کے سربراہ ہمیں کبھی کبھی دین کا درس دیتے ہیں۔ دعا ہر دین کا بنیادی عنصر ہے۔ اگر وہ انصاف نہیں دے سکتے تو طور کی والدہ کی دعا کے ساتھ دعا کریں کہ اللہ ہمارے بیٹے کو ہدایت دے اور اس کے ساتھ اپنے لیے بھی اللہ سے ہدایت مانگ لیں۔
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
urduintl · 7 months
Text
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجربینچ نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، بنچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے، سماعت مکمل ہونے پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے رائے محفوظ کر لی ہے آج نہیں مگر پھر کسی روز دوبارہ شاید اپنا فیصلہ سنانے بیٹھیں۔
بتایا جارہا ہے کہ آج کی سماعت میں صنم بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو کے وکیل رضا ربانی کے دلائل دیئے، اس دوران انہوں نے کہا کہ ’بھٹو کیس کے وقت لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آئین کے تحت کام نہیں کر رہے تھے، اس وقت ملک میں مارشل لاء نافذ تھا، بنیادی انسانی حقوق معطل تھے، اس وقت استغاثہ فوجی آمر جنرل ضیاء تھے، اس وقت اپوزیشن اور حکومت کے درمیان نئے الیکشن کے لیے معاملات طے ہو چکے تھے‘۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ’کیا کوئی معاہدہ بھی ہو چکا تھا؟‘ اس پر رضا ربانی نے کہا کہ ’معاہدے پر دستخط ہونا باقی تھے لیکن پھر مارشل لاء نافذ کر دیا گیا، 24 جولائی کو ایف ایس ایف کے انسپکٹرز کو گرفتار کیا گیا، 25 اور 26 جولائی کو ان کے اقبالِ جرم کے بیانات آ گئے، مارشل لاء دور میں زیرِ حراست ان افراد کے بیانات لیے گئے، اس وقت مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، چیف جسٹس پاکستان، قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا ٹرائی اینگل تھا، ذوالفقار علی بھٹو کی برییت سے تینوں کی جاب جا سکتی تھی‘۔
اس موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ’رضا ربانی آپ کہہ سکتے ہیں کہ حسبہ بل میں عدالتی رائے بائنڈنگ تھی‘؟ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ ’حسبہ بل میں کتنے جج صاحبان تھے؟‘ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’حسبہ بل کے صدارتی ریفرنس میں بھی 9 جج صاحبان تھے‘، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’ہم بھی 9 ہی جج ہیں، کوئی اختلاف بھی کر سکتا ہے‘۔ اس بات پر رضا ربانی نے کہا کہ ’اس وقت جج جج نہیں تھے، مختلف مارشل لاء ریگولیشن کے تحت کام کر رہے تھے، مارشل لاء ریگولیشن کے باعث ڈیو پراسس نہیں دیا گیا، بیگم نصرت بھٹو نے بھٹو کی نظر بندی کو چیلنج کیا تھا، اسی روز مارشل لاء ریگولیشن کے تحت چیف جسٹس یعقوب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا‘۔
یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا، صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔
تاہم حال ہی میں اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی 12 دسمبر کو 9 رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔
‏سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس 5 سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟
چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟
جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟
0 notes
apnabannu · 8 months
Text
آر ٹی ایس نہ آر ایم ایس: اس بار الیکشن کمیشن نتائج کا اعلان کیسے کرے گا اور یہ نیا نظام کتنا قابل بھروسہ ہے؟
http://dlvr.it/T2ChXM
0 notes
globalknock · 8 months
Text
بنگلادیش کے عوام نے ’انڈیا آؤٹ‘ کے نعرے لگادئیے
(ویب ڈیسک)بنگلادیش کے عوام نے ہندوستان کی مداخلت کو مسترد کردیا,پورے ملک میں ہندوستان کے خلاف مہم نے طول پکڑ لی  ’انڈیا آؤٹ‘ کے نام سے مہم نے بنگلادیش اور ہندوستان کی حکومت کو شدید تشویش اور پریشانی میں مبتلا کردیا۔ 7 جنوری 2024 کو بنگلادیش میں یکطرفہ الیکشن منعقد ہوئے جن میں شیخ حسینہ نے متنازعہ طور پر کامیابی حاصل کی شیخ حسینہ کی جیت کے اعلان کے فوری بعد عوام نے نتائج کے متعلق تشویش اور شکوک کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingkarachi · 1 year
Text
لاوارث شہر کا ’میئر‘ کون
Tumblr media
وہ شاعر نے کہا تھا نا’’ ؎ مرے خدایا میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں۔‘‘ ابھی ہم پہلے سال کی بارشوں کی تباہ کاریوں سے ہی باہر نکل نہیں پائے کہ ایک اور سمندری طوفان کی آمد آمد ہے۔ اب خدا خیر کرے یہ طوفان ٹلے گا یا میئر کا الیکشن جو کم از کم کراچی میں کسی سیاسی طوفان سے کم نہیں۔ ویسے تو مقابلہ پی پی پی کے نامزد امیدوار مرتضیٰ وہاب اور جماعت اسلامی کے حافظ نعیم کے درمیان ہے مگر دونوں کی جیت اس وقت زیر عتاب پاکستان تحریک انصاف کے منتخب بلدیاتی نمائندوں پر منحصرہے، وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں اور کیسے کرتے ہیں۔ اتوار کے روز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بڑے پراعتماد نظر آئے اور کہا نہ صرف میئر کراچی ایک ’جیالا‘ ہو گا بلکہ اکتوبر میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک بار پھر سندھ کے لوگ پی پی پی کو ووٹ دیں گے۔ بظاہر کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے مگر شاہ صاحب پہلے آنے والے طوفان سے تو بچائیں۔ دوسری طرف اسی شام جماعت اسلامی نے، جس کی شکایت یہ ہے کہ پی پی پی زور زبردستی سے اپنا ’میئر‘ لانا چاہتی ہے، سندھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے ’مدد‘ طلب کی ہے۔ 
امیر جماعت اسلامی سراج الحق خصوصی طور پر کراچی آئے کیونکہ یہ الیکشن جماعت کیلئے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ شاید پورے پاکستان میں یہ واحد بلدیہ ہے جہاں ان کا میئر منتخب ہو سکتا ہے اگر پاکستان تحریک انصاف کے تمام منتخب بلدیاتی نمائندے حافظ نعیم کو ووٹ دے دیں۔ ماضی میں جماعت کے تین بار میئر منتخب ہوئے دو بار عبدالستار افغانی 1979ء اور 1983ء میں اور جناب نعمت اللہ ایڈووکیٹ 2001 میں، مگر یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ 1979ء میں پی پی پی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا جیسا آج پی ٹی آئی کے بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ ہو رہا ہے ورنہ افغانی صاحب کا جیتنا مشکل تھا البتہ 1983ء میں وہ باآسانی جیت گئے اور دونوں بار ڈپٹی میئر پی پی پی کا آیا۔ لہٰذا ان دونوں جماعتوں کا یہ��ں کی سیاست میں بڑا اسٹیک ہے۔ اسی طرح نعمت اللہ صاحب کو 2001 کی میئر شپ متحدہ قومی موومنٹ کے بائیکاٹ کے طفیل ملی جنہوں نے اس وقت کے بلدیاتی الیکشن میں حصہ نہیں لیا، جو ایک غلط سیاسی فیصلہ تھا۔
Tumblr media
اب تھوڑی بات ہو جائے پی پی پی کی بلدیاتی سیاست کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم کے ساتھ 22 اگست 2016ء کے بعد جو ہوا اس سے شہری سندھ کا سیاسی توازن پی پی پی کے حق میں چلا گیا اور پہلی بار دیہی اور شہری سندھ کی بلدیاتی قیادت ان کے ہاتھ آنے والی ہے، جس میں حیدرآباد، میر پور خاص، سکھر اور نواب شاہ شامل ہیں۔ پی پی پی پر تنقید اپنی جگہ مگر کسی دوسری سیاسی جماعت نے اندرون سندھ جا کر کتنا سیاسی مقابلہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی ہو یا 29 سال پرانی تحریک انصاف یا مسلم لیگ (ن)۔ رہ گئی بات ’قوم پرست‘ جماعتوں کی تو بدقسمتی سے یہ صرف استعمال ہوئی ہیں ’ریاست‘ کے ہاتھوں۔ ایسے میں افسوس یہ ہوتا ہے کہ اتنی مضبوط پوزیشن میں ہونے اور برسوں سے برسر اقتدار رہنے کے باوجود آج بھی سندھ کا اتنا برا حال کیوں ہے۔ شہروں کو ایک طرف رکھیں کیا صوبہ تعلیمی میدان میں آگے ہے کہ پیچھے۔ بارشوں کا پانی جاتا نہیں اور نلکوں میں پانی آتا نہیں۔ 
18ویں ترمیم میں واضح اختیارات کے باوجود۔ آج بھی منتخب بلدیاتی ادارے صوبائی حکومت کے مرہون منت ہیں، آخر کیوں؟۔ چلیں اس کو بھی ایک طرف رکھیں۔ شاہ صاحب جس وقت پریس کانفرنس کر رہے تھے تو ان کے دائیں اور بائیں سب منتخب نمائندے بیٹھے تھے، سوائے میئر کیلئے نامزد امیدوار مرتضیٰ وہاب کے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک پڑھے لکھے انسان ہیں بات بھی شائستگی سے کرتے ہیں جس میں والدین وہاب اور فوزیہ وہاب کی تربیت بھی نظر آتی ہے مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ یو سی کا الیکشن جیت کر امیدوار بنتے۔ اب یہ سوال تو بنتا ہے کہ اگر پی پی پی بلدیاتی الیکشن میں کراچی کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے تو کیا کوئی بھی منتخب نمائندہ اس قابل نہیں کہ ’میئر‘ کیلئے نامزد ہو سکے ایسے میں صرف ایک غیر منتخب نمائندے کو میئر بنانے کیلئے قانون میں ترمیم کی گئی۔ کیا یہ رویہ جمہوری ہے۔ مرتضیٰ سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ آپ نے بلدیاتی الیکشن نہیں لڑا اور اب کیا آپ کی نامزدگی منتخب یوسی چیئرمین کے ساتھ ’تھوڑی زیادتی‘ نہیں۔ 
تعجب مجھے اس لئے نہیں ہوا کیونکہ پی پی پی میں کچھ ایسا ہی چند سال پہلے بھی ہوا تھا جب پارٹی کی کراچی کی صدارت کیلئے رائے شماری میں تین نام تھے جن کو ووٹ پڑا مگر جب نتائج کا اعلان ہوا تو ایک صاحب جو دوڑ میں ہی نہیں تھے وہ کراچی کے صدر ہو گئے۔ ’جیالا‘ کون ہوتا ہے اس کا بھی شاید پی پی پی کی موجودہ قیادت کو علم نہ ہو کہ یہ لفظ کیسے استعمال ہوا اور کن کو ’جیالا‘ کہا گیا۔ یہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پھانسی چڑھ جانے والوں، خود سوزی کرنے اور کوڑے کھانے، شاہی قلعہ کی اذیت سہنے والوں کے لئے اس زمانے میں پہلی بار استعمال ہوا یعنی وہ جو جان دینے کے لئے تیار رہے اور دی بھی۔ اب مرتضیٰ کا مقابلہ ہے جماعت کے ’جیالے‘ سے یا انہیں آپ جماعتی بھی کہہ سکتے ہیں، حافظ نعیم سے ، جنہوں نے پچھلے چند سال میں خود کو ایک انتہائی محنتی اور متحرک سیاسی کارکن منوایا اور جلد کراچی شہر میں جماعت کی پہچان بن گئے۔ دوسرا 2016ء میں متحدہ کو ’ریاستی طوفان‘ بہا کر لے گیا جس کو حافظ نعیم نے پر کرنے کی کوشش کی اور بارشوں میں شہر کے حالات اور تباہی نے بھی انہیں فائدہ پہنچایا۔
مگر ان دونوں جماعتوں کے درمیان آئی، پی ٹی آئی اور 2018ء میں 14 ایم این اے اور 25 ایم پی اے جیت گئے جس کا خود انہیں الیکشن کے دن تک یقین نہیں تھا۔ البتہ حال ہی میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں انہیں نشستیں ضرور مل گئیں کہ کراچی کا میئر جو بھی منتخب ہو گا وہ ’پی ٹی آئی‘ کی وجہ سے ہی ہو گا چاہے وہ ووٹ کی صورت میں، مبینہ طور پر ’نوٹ‘ کی صورت میں ہو یا لاپتہ ہونے کی صورت میں۔ اگر 9؍ مئی نہیں ہوتا توشاید ان کے معاملات خاصے بہتر ہوتے، اب دیکھتے ہیں کہ اگر الیکشن ہو جاتے ہیں تو پی ٹی آئی کے کتنے نومنتخب نمائندے آتے ہیں اور کتنے لائے جاتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ووٹنگ اوپن ہے سیکرٹ بیلٹ کے ذریعہ نہیں۔ رہ گئی بات ’لاوارث کراچی‘ کی تو بھائی کوئی بھی آجائے وہ بے اختیار میئر ہو گا کیونکہ سیاسی مالی اور انتظامی اختیارات تو بہرحال صوبائی حکومت کے پاس ہی ہوں گے یہ وہ لڑائی ہے جو کسی نے نہیں لڑی۔ لہٰذا ’کراچی کی کنجی‘ جس کے بھی ہاتھ آئے گی اس کا اختیار 34 فیصد شہر پر ہی ہو گا۔ جس ملک کے معاشی حب کا یہ حال ہو اس ملک کی معیشت کا کیا حال ہو گا۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
سندھ اسمبلی نتائج: پیپلز پارٹی 84، ایم کیو ایم پاکستان 24، 14 آزاد امیدوار کامیاب
الیکشن کمیشن نے سندھ اسمبلی کی تمام 130 جنرل نشستوں کے جو نتائج جاری کئے ہیں ان کے مطابق پیپلز پارٹی صوبے کی سب سے بڑی جماعت جبکہ ایم کیو ایم دوسری بڑی جماعت ہے۔ پیپلز پارٹی نے 84 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کو 28 نشستیں ملی ہیں، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کو چیلنج کرنے کے لیے ابھرا تھا لیکن اسے کوئی نمایاں کامیابی نہیں ملی اور اسے صوبائی اسمبلی کی صرف…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 1 month
Text
اپٹما کے انتخابات میں گوہراعجاز گروپ کا 16ویں سال کلین سویپ
 اپٹما کے انتخابات میں ڈاکٹر گوہر اعجاز گروپ نے مسلسل 16 ویں سال کلین سویپ کرلیا۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے انتخابات کے نتائج کا اعلان کردیاگیا۔  الیکشن میں بلامقابلہ 24 ممبران اپٹما کمیٹی منتخب ہو گے  گوہر اعجاز  سمیت 15  ممبران نارتھ زون سے منتخب ہوئے ہیں۔ اپٹما اعلامیہ کے مطابق اپٹما باڈی کے سالانہ انتخابات کا عمل مکمل ہو گیا۔مجموعی طور پر 24 ممبران  بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں گوہر…
0 notes
shiningpakistan · 8 months
Text
پی ٹی آئی ووٹرز کا انتقام
Tumblr media
الیکشن نے سب کو حیران اور بہت سوں کو پریشان کر دیا۔ سب اندازے، تجزیے غلط نکلے۔ تحریک انصاف کے ووٹر، سپورٹر اتنے نکلے کہ ہر طرف چھا گئے۔ انتخابات سے پہلے تمام تر پابندیوں، سختیوں، جلسے جلوس کرنے کی اجازت نہ ملنے کے باوجود، بلے کے بغیر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے سب سے زیادہ ووٹ لیے۔ قومی اسمبلی میں نمبر ون، خیبر پختونخوا میں تو سویپ کر لیا، پنجاب بھی میں ایک بڑا نمبر حاصل کر لیا اوریہ سب کچھ 2018 کے آر ٹی ایس کے بدلے میں الیکشن کمیشن کے نئے نظام ای ایم ایس کے بیٹھنے کے باوجود ممکن ہوا۔ الیکشن کمیشن کا الیکشن کے نتائج مرتب کرنے کے حوالے سے بنایا گیا ای ایم ایس (Election Management System) تو آر ٹی ایس کا بھی باپ نکلا۔ یہ نظام ماضی کے آ ر ٹی ایس کی طرح پہلے تو بیٹھ گیا اور پھر جب صبح اُٹھا تو مبینہ طور پر رات کو کئی ہارنے والوں کو جیتنے والا اور کئی جیتنے والوں کو ہارنے والے بنا دیا۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اُس کے کوئی پچاس ساٹھ جیتے ہوئے امیدواروں کو ای ایم ایس کو بٹھا کر ہرایا گیا۔ گویا 8 فروری تحریک انصاف کے ووٹروں، سپوٹروں کے لیے ’’ـ بدلہ لینے‘‘ یا ’’انتقام لینے‘‘ کا دن ثابت ہوا۔ 
دھاندلی کے الزامات لگانے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن ابھی تک کے الیکشن نتائج کے مطابق وفاق میں کوئی ایک جماعت بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکی، اس لیے یہاں صرف ایک مخلوط حکومت ہی بن سکتی ہے جس کیلئے ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیوایم ، جے یو آئی ایف وغیرہ میں پہلے ہی بات چیت شروع کر چکی ہے وفاقی سطح پر تحریک انصاف کے جیتے ہوئے امیدواروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے حکومت سازی کیلئے ابھی تک کسی سیاسی جماعت سے رابطہ کرنے کی اطلاعات نہیں ملیں۔ دھاندلی کے الزامات اور ان الزامات کی شنوائی کا جو نظام ہمارے ہاں موجود ہے اُس سے تحریک انصاف کو وہ 150 یا 170 سیٹیں فوری نہیں ملیں گی جس کا وہ دعویٰ کر رہی ہے۔ اس لیے بہتر ہوتا کہ تحریک انصاف دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح حکومت سازی کیلئے کوشش کرتی اور ساتھ ساتھ اپنے دھاندلی کے الزمات کیلئے قانونی چارہ جوئی کرتی رہتی۔
Tumblr media
تحریک انصاف کے ترجمان کی خواہش (کہ حکومت سازی کے عمل کو اُس وقت تک روکا جائے جب تک کہ تحریک انصاف کی طرف سے دھاندلی کے الزمات کا فیصلہ نہیں ہوتا) تو کسی صورت کوئی پوری نہیں کر سکتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریک انصاف اور اس کے بانی چیئرمین عمران خان ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم وغیرہ سے مل کر حکومت بنانےکیلئے ہاتھ ملانے پر تیار ہونگے؟ اگر دوسروں سے ہاتھ نہیں ملائیں گے تو پھر وفاق میں حکومت کیسے بنے گی۔ عمران خان کے ماضی کے رویے کی وجہ سے کسی بڑی سیاسی جماعت کی طرف سے تحریک انصاف سے بھی رابطہ کی اطلاعات نہیں ملیں۔ تحریک انصاف نے ووٹ تو بہت لیے لیکن اگر وہ ماضی کی طرح کسی دوسری سیاسی جماعت سے بات نہیں کرے گی یا پھر دھاندلی کا رونا ہی روتی رہے گی تو پھر وہ وفاق میں حکومت کیسے بنا سکتی ہے۔ 
اس وقت تحریک انصاف کیلئے یہ بھی چیلنج ہے کہ آزاد حیثیت میں جیتنے والے اپنے اراکین قومی اسمبلی کو سنبھالے کیوں کہ خطرہ موجود ہے کہ ان میں سے کئی، حکومت کا حصہ بننے کی لالچ میں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں جا سکتے ہیں۔خیبر پختونخوا میں تو تحریک انصاف کو حکومت بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا، پنجاب میں ممکنہ طور پر ن لیگ ہی حکومت بنائے گی جبکہ وفاق میں اگر تحریک انصاف کو حکومت بنانی ہے تو اپنےماضی کے رویے سے ہٹ کر اپنے سیاسی مخالفین سے ہاتھ ملانا پڑے گا۔ اگر ایسا ہو جائے تو سب کیلئے بہت اچھا ہو گا لیکن مجھے ایسا ہوتا ہوا ن��ر نہیں آتا۔ پاکستان کیلئے سب سے بہتر تو یہ ہے کہ سب سیاسی جماعتیں مل کر حکومت بنائیں اور اس ملک و قوم کو مشکلات سے نکالیں ۔ یہ ایک خواب ہے جو نجانے کب پورا ہو گا۔ فی الحا ل جو نظر آ رہا ہے اُس کے مطابق وفاق میں پی ڈی ایم طرز کی ہی حکومت بنے گی، پنجاب میں ن لیگ، کے پی کے میں تحریک انصاف، سندھ میں پی پی پی اور بلوچستان میں ایک مخلوط حکومت بنے گی جس کا وزیراعلی ٰممکنہ طور پر پیپلز پارٹی کا ہو گا۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 8 months
Text
پاکستان میں نئی حکومت کی تشکیل کیسے ہوتی ہے؟
Tumblr media
پاکستان میں گذشتہ ہفتے ہونے والے عام انتخابات کے بعد سامنے آنے والے نتائج کے مطابق بظاہر ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی کیوں کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو قومی اسمبلی میں اتنی نشستیں نہیں ملیں کہ وہ اپنی حکومت تشکیل کر سکے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ ن کو الیکشن میں 75 نشستیں ملی ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی نشستوں کی تعداد 54 ہے۔ دونوں جماعتیں مخلوط حکومت بنانے کے لیے بات چیت کر رہی ہیں۔ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے سب سے زیادہ 93 نشستیں حاصل کیں۔ وہ بھی حکومت سازی کے لیے اتحاد بنانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسمبلی کی کل 336 نشستوں میں سے 264 نشستوں پر براہ راست انتخابات کے لیے امیدوار میدان میں تھے، اس کے علاوہ 70 مخصوص نشستیں بھی ہیں۔ آنے والے دنوں میں جب نئی حکومت بنانے کی کوششیں کی جائیں گی تو ایوان کے اندر ممکنہ صورت حال کیسے سامنے آ سکتی ہے؟
Tumblr media
قانون کے مطابق قومی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کا اجلاس انتخابات کے تین ہفتے کے بعد صدر کی طرف سے بلایا جانا ضروری ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس عام طور پر پہلے ہی بلا لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ایوان کا نیا سپیکر منتخب کیا جاتا ہے جس کے بعد قائد ایوان، یا وزیر اعظم کا انتخاب ہوتا ہے جس کے لیے سادہ اکثریت ضروری ہے یعنی 336 میں سے 169 نشستیں. وزیر اعظم کے لیے کئی امیدوار ہو سکتے ہیں۔ اگر پہلے مرحلے میں کوئی امیدوار اکثریت حاصل نہیں کرتا ہے تو دوسری بار ان دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو گا جنہوں نے پہلی مرتبہ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہوتے ہیں۔ ووٹنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کوئی امیدوار اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو جاتا۔ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد حلف اٹھاتا ہے اور اپنی کابینہ کا اعلان کرتا ہے۔ نگران سیٹ اپ جو انتخابات کی نگرانی کے لیے قائم کیا گیا وہ نئی حکومت کو اقتدار سونپ دیتا ہے۔ جیتنے والی نشستوں کی تعداد کے تناسب سے پارٹیوں کے لیے 70 نشستیں مختص کی گئی ہیں جن میں خواتین کی 60 اور غیر مسلموں کی 10 نشستیں شامل ہیں۔ آزاد امیدوار مخصوص نشستوں کے اہل نہیں ہیں۔
اگر آزاد امیدوار مخصوص نشستیں حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بلاک بنانے کے لیے کسی دوسری پارٹی میں شامل ہونا ہو گا۔ آزاد امیدوار اس وجہ سے ایسی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں کیوں کہ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر بطور پارٹی الیکشن لڑنے سے روک دیا گیا تھا۔  
روئٹرز  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
risingpakistan · 7 months
Text
بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاست میں جمہوریت؟
Tumblr media
عالمی جمہوریت انڈیکس کے مطابق آمرانہ رجیم درجہ بندی میں گر کر پاکستان کا اسکور 3.25 ہو گیا ہے اور 11 درجے تنزلی ہو گئی ہے۔ پاکستان پہلے دنیا کی 165 ریاستوں میں ایک برس قبل 5.23 انڈیکس پر تھا جو اب گر کر 3.25 پر آ گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ہائبرڈ رجیم سے تنزلی کے بعد آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں آ گیا ہے جب کہ عالمی سطح پر ریٹنگ میں گیارہ مقام نیچے چلا گیا ہے۔ ای آئی یو نے حالیہ انتخابات پر کہا ہے کہ یہ بات حیران کن نہیں کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور روس میں رجیم چینج یا زیادہ جمہوریت نہیں آئے گی اور پاکستان میں بھی مکمل جمہوریت نہیں آئے گی اور ناقص جمہوریت چلتی رہے گی۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کو 1956 میں آئین ملا تھا جس کے نتیجے میں ملک کو 1958 میں جنرل ایوب خان کا جو طویل مارشل لا ملا تھا اس کے خاتمے کے بعد کہنے کو ملک کو 1973 کا متفقہ آئین ملا تھا جو بعد میں مارشل لاؤں کو نہیں روک سکا تھا جس کے بعد 1977ء اور 1999ء میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز کے مارشل لا آئے تھے جو جنرل پرویز کی وردی اترنے کے بعد ختم ہو گئے تھے۔ 
2002ء سے 2024ء تک ملک میں چار بار قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور پہلی بار اسمبلیوں نے اپنی اپنی مدت پوری کی اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ق) کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) نے پانچ پانچ سال اور پی ٹی آئی حکومت نے پونے چار سال حکومت کی اور عمران خان کی اپنی حماقت کے نتیجے میں سولہ ماہ ملک میں ایک اتحادی حکومت رہی اور ملک میں کوئی مارشل لا نہیں لگا۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے پر ملک میں جنرل یحییٰ نے جو الیکشن کرائے اور جیتنے والی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا تھا جس کے نتیجے میں 1971 میں ملک دولخت ہوا تھا جس کے بعد بھٹو صاحب نے 1972 میں حکومت بنائی تھی اور 1973 کا ایسا متفقہ آئین بنوایا تھا جو ملک میں جمہوریت برقرار رکھ سکے اور کسی اور جنرل کو آمریت قائم کرنے کا موقعہ نہ مل سکے مگر ایسا نہیں ہوا۔ ملک میں بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاسی حکومتیں آئیں اور ابتدا ہی میں بھٹو صاحب نے اقتدار میں آ کر اپنی آمریت قائم کی اور اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ جمہوریت کے نام پر وہ سلوک کیا جو کبھی جمہوریت میں نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں 1977 میں جنرل ضیا الحق کو مارشل لا لگانا پڑا تھا۔
Tumblr media
جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ قرار دی جانے والی حکومت میں سیاستدان شامل رہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھالا تھا۔ جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز کو وردی میں صدر منتخب کرانے میں سیاستدانوں کا اہم کردار رہا۔ جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے وزرائے اعظم نے خود کو بادشاہ سلامت بنا لیا اور جمہوریت کے نام پر ملک میں اپنی ذاتی آمریت مسلط رکھی اور ملک میں حقیقی جمہوریت کسی ایک بھی سیاسی وزیر اعظم نے قائم نہ ہونے دی۔ محمد خان جونیجو نے کچھ کوشش کی تو برطرف کر دیے گئے۔ 1988 سے 2024 تک ملک میں جتنے بھی عام انتخابات ہوئے وہ سب متنازع رہے اور سیاسی رہنما اپنے مفادات کے لیے برسر اقتدار سیاستدانوں کی ٹانگیں کھینچتے رہے اور مقتدر قوتوں کی سرپرستی سے اقتدار میں آئے اور بعد میں وہ بھی اپنے لانے والوں کو آنکھیں دکھانے لگتے تھے۔ ملک کو جو ترقی ملی اس میں بھی جنرلوں کے نام آئے مگر کسی سیاستدان کو تو تمغہ جمہوریت نہیں ملا مگر ایک جج نے اپنے پسندیدہ سیاستدان کو صادق اور امین قرار دینے کا فیصلہ ضرور دیا تھا جو ان کا کام ہی نہیں تھا۔
بھٹو سے عمران خان تک تمام وزرائے اعظم اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آئے اور پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار میں آ کر جمہوریت کا جنازہ نکال دیا اور فخریہ طور پر اپنی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک پیج پر قرار دیتے تھے۔ انھوں نے اپنے تمام مخالف سیاستدانوں پر مقدمات بنوا کر سب کو جیل میں ڈلوایا جو بعد میں کوئی ثبوت نہ ہونے پر عدالتوں سے بری ہوئے۔ پی ٹی آئی کی نام نہاد جمہوریت پونے چار سال ملک میں بدترین آمریت کی شکل میں قائم رہی اور وزیر اعظم نے اپنی حکومت میں اپنے مخالف سیاستدان حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈر سے ملنا گوارا نہ کیا جو کبھی آمریت میں نہ ہوا وہ عمران خان نے اپنی حکومت میں کر دکھایا مگر جب دانشوروں نے انھیں سمجھانا چاہا تو وہ نہ مانے اور اپنے آمرانہ فیصلے کرتے تھے جو ان کی جمہوریت تھی۔ جمہوریت کے نام پر اپنے اقتدار میں آمریت قائم کرنے والے سیاسی وزیر اعظم اگر واقعی حقیقی جمہوریت پر یقین رکھنے والے اور جمہوریت پر عمل کرتے تو ملک کو آج اس بدنامی کا سامنا نہ ہوتا اور آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں پاکستان مسلسل نہ گرتا اور جمہوریت بھی مستحکم ہوتی مگر جمہوریت کے لبادے میں اپنے اپنے اقتدار میں اگر سیاسی رہنما ذاتی آمریت قائم نہ کرتے اور ایک دوسرے سے انتقام نہ لیتے تو جمہوریت حقیقی شکل میں عوام کو میسر آتی۔ ملک میں آمریت کے ذمے دار صرف آمر ہی نہیں نام نہاد جمہوری وزرائے اعظم اور مفاد پرست بے اصول سیاستدان بھی ہیں۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
marketingstrategy1 · 2 years
Text
حافظ نعیم کی اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے باہر طویل دھرنے کی دھمکی
فوٹو: فیس بک پیج جماعت اسلامی کراچی   کراچی: امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے بلدیاتی الیکشن کا عمل جلد مکمل نہ کرنے پر اسلام آباد کی طرف ٹرین مارچ اور الیکشن کمیشن پر طویل دھرنے کی دھمکی دیدی۔  بلدیاتی انتخابات کو تین ہفتے ہونے کے باوجود تاحال انتخابی عمل مکمل نہ ہونے، نتائج میں تاخیر اور ملتوی شدہ 11 نشستوں پر الیکشن کا شیڈول جاری نہ کرنے کے خلاف ہفتہ کو جماعت اسلامی کے تحت صوبائی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnabannu · 2 years
Text
یہ دہشتگردی ہے کراچی بلدیاتی الیکشن کے نتائج بدلے جارہے ہیں، حافظ نعیم
http://dlvr.it/SkFFBL
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد سیاسی پارہ ہائی،میئر کے لیے رسا کشی
کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے سیاسی پارہ ہائی کررکھا ہے بار بار ملتوی ہونے کے بعد15 جنوری کو پولنگ ڈے تک کسی کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ الیکشن ہوں گے کیونکہ سندھ حکومت نے آخری وقت تک اس معاملے پر ایم کیو ایم کے اعتراضات پر الیکشن کمیشن کو دوبارہ حلقہ بندیوں کے لیے خط لکھ کر یہ درخواست کی تھی کہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیے جائیں۔ ایم کیو ایم نے اس حوالے سے سندھ ہائی کورٹ اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes