#الیکشن نتائج
Explore tagged Tumblr posts
Text
الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے 15 اور صوبائی اسمبلیوں کے 22 حلقوں کے نتائج روک لیے
الیکشن کمیشن نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 37 حلقوں کے حتمی نتائج روک دیے۔ قومی اسمبلی کے 15 اورصوبائی اسمبلیوں کے 22 حلقوں کے نتائج جاری نہیں ہوں گے۔ این اے52 ،53 56 اور57راولپنڈی، این اے 60 جہلم، این اے 69 منڈی بہاوالدین کے حتمی نتائج جاری کرنے سے روک دیاگیا۔ الیکشن کمیشن نے پی پی 22 چکوال، پی پی 49 سیالکوٹ اور پی پی 14 راولپنڈی کے حتمی نتائج روک دیے۔ الیکشن کمیشن نے پی پی 283 لیہ، پی پی 164 …
View On WordPress
0 notes
Text
امریکا کے صدارتی الیکشن میں پاکستانی نژاد امیدواروں کے انتخابی نتائج کیا رہے؟
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن )امریکا کے صدارتی الیکشن میں جہاں پاکستانی نژاد امیدوار کامیاب ہوئے وہیں کچھ پاکستانی نژاد امیدواروں کو شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا۔امریکا میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ 277 الیکٹورل ووٹ حاصل کر کے ملک کے 47 صدر منتخب ہو گئے ہیں جبکہ ان کی حریف ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس 226 الیکٹورل ووٹ حاصل کر سکیں۔امریکی الیکشن میں بہت سے پاکستانی نژاد…
0 notes
Text
الیکشن2024میں 3جماعتوں کو حصےسےزائدنشستیں ملیں،فافن
الیکشن 2024 میں تین جماعتوں کو انکے حصے سے زیادہ نشستیں ملیں، فافن نے انتخابات 2024 کے نتائج کے حوالے سے رپورٹ جاری کردی۔ فافن کی رپورٹ میں قومی اور صوبائی سطح کےرجحانات کی نشاندہی کرنے کیلئے نتائج کا جائزہ لیا گیا۔ رپورٹ کےمطابق ووٹوں اورسیٹوں کے تقابلی پارٹی شیئر کے لحاظ سے پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن، اور پیپلزپارٹی نےاپنےحصےسےزیادہ قومی اور صوبائی نشستیں حاصل کیں۔ رپورٹ کے مطابق قومی انتخابات میں…
0 notes
Text
عمران کی فائنل کال
بانی پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومتوں کی ناکامیاں اور خراب کارکردگی رہی ہے۔ یہ مسئلہ خود خان صاحب کا بھی رہا اور وہ تیزی سے اپنی مقبولیت کھو رہے تھے ساڑھے تین سال کی حکومت میں خاص طور پر پنجاب میں کہ اُنکے خلاف مارچ 2022ء میں ’’عدم اعتماد‘‘ کی تحریک نے اُن میں ایک نئی جان ڈال دی۔ اپریل 2022ء سے نومبر 2024ء کے درمیان سیاست کا محور صرف وہی رہے۔ میڈیا میں 80 فیصد خبریں، تبصرے صرف اور صرف ا��ن پر ہوتے ہیں۔ 8 فروری 2024ء کے اصل نتائج کو ایک طرف رکھیں تب بھی وہ اپنی نوعیت کے پہلے جماعتی بنیادوں پر ہونے والے الیکشن تھے جس میں ’’آزاد‘‘، اُمیدوار جنکی 90 فیصد تعداد کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا، جیتے۔ میں تمام جمہوری پسند دوستوں سے پوچھتا ہوں کہ اگر پی ٹی آئی کواُس کا انتخابی نشان ’’بلا‘‘ مل جاتا تو نتیجہ کیا ہوتا۔ تاہم عمران کی مقبولیت کے باوجود کیا وجہ ہے کہ پی ٹی آئی اب تک ایک کامیاب احتجاجی تحریک چلانے میں ناکام رہی اور خان کو ’’فائنل کال‘‘ دینا پڑی جو نہ صرف اُن کیلئے ایک بڑا ’’رسک‘‘ ہے بلکہ اُنکی جماعت کیلئے بھی بڑا چیلنج ہے۔ بحیثیت اپوزیشن لیڈر کیا وجہ ہے کہ اس تحریک میں پی ٹی آئی ’’تنہا‘‘ کھڑی نظر آتی ہے۔
خود خان ’’تنہائی کا شکار‘‘ نظر آتے ہیں جسکی بڑی وجہ اُن کی حکمتِ عملی ہے، ایک طرف خود انہوں نے چھ جماعتی اتحاد بنایا مگر اُسکی کسی جماعت کو ’’فائنل کال‘‘ دینے سے پہلے اعتماد میں نہیں لیا۔ آخر محمود خان اچکزئی کہاں ہیں۔ اختر مینگل استعفیٰ دے کر لاپتہ ہو گئے اور اس سب پر پی ٹی آئی میں خاموشی۔ خان کی تنہائی کی ایک اور وجہ اُن کے بہت سے با اعتماد ساتھیوں کا مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ جانا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اب وہ اُن پر بھی اعتماد نہیں کر رہے جنکو انہوں نے خود نامزد کیا اور بڑے عہدے دیئے، اسی لیے آج خود اُنکی اہلیہ بشریٰ بی بی اور بہن عملی طور پر سیاست میں آگئی ہیں اور پارٹی میں کوئی عہدہ نہ ہوتے ہوئے بھی ’’فائنل کال‘‘ کا اعلان علیمہ خان نے کیا۔ دوسری طرف حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ اُس کی ’’ساکھ‘‘ ہے۔ یہ بہرحال 2014ء نہیں ہے حالانکہ اُس وقت بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔ وزیراعظم نواز شریف تھے مگر عمران 126 دن ڈی چوک پر دھرنا دیے بیٹھے رہے اور بات ایک عدالتی کمیشن پر ختم ہوئی کمیشن نے دھاندلی کے الزامات مسترد کر دیئے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اُس وقت دھرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی گئی کیا ا س لیے کہ کل مقتدرہ کی واضح حمایت پی ٹی آئی کو حاصل تھی اورآج معاملہ اُسکے برعکس ہے جس کی ایک بڑی وجہ بادی النظر میں 9 مئی کے واقعات ہیں۔
اس بات کو 17 ماہ گزر چکے ہیں اور مقدمات چلنے کا نام ہی نہیں لے رہے بلکہ آج بھی اس پر سیاست ہی ہو رہی ہے البتہ خود فوج کے اندر بہت سے افسران کے خلاف کارروائی ضرور ہوئی اور سُنا ہے سابق ISI چیف جنرل فیض حمید کیخلاف بھی تادیبی کارروائی ہونے والی ہے۔ ایسے میں عمران اور پی ٹی آئی کے احتجاج کا رخ موجودہ حکومت سے زیادہ مقتدرہ کی طرف نظر آتا ہے جو اخباری اطلاعات کے مطابق کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے کو تیار نہیں۔ کسی بھی احتجاجی تحریک میں چند باتیں بہت اہم ہوتی ہیں۔ تنظیم، اتحاد، نظریہ، جذبہ، حکمتِ عملی، اپنے مخالف کی طاقت کا اندازہ لگانا، حامیوں اور کارکنوں کو بڑی تعداد میں باہر نکالنا، گرفتاریوں کی صورت میں قانونی ٹیم کا کردار، مذاکرات کی صورت میں لچک دکھانا اور مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کی صورت میں آئندہ کی نظرثانی حکمتِ عملی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ احتجاج کی کال ایک ایسے وقت دی گئی ہے جب ریاست اور حکومت کی واضح پالیسی ’’احتجاج‘‘ کو ہر طرح سے روکنا اور سختی کرنا بشمول گرفتاری اور اسلام آباد کو مکمل طور پر سیل کرنا ہے۔ اب اگر دھرنا سڑکوں یا ہائی وے پر دیا جاتا ہے تو اس سرد اور اسموگ والے موسم میں رکنا آسان نہ ہو گا۔
2014ء کے دھرنے کی طرح وہ سہولتیں میسر نہیں ہوں گی۔ البتہ حکومت یا قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے طاقت کا ضرورت سے زیادہ استعمال معاملات کو خراب کر سکتا ہے۔ اگر تحریک انصاف کوئی غیر معمولی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہتی ہے تو آنے والے وقت میں اس کی مشکلات میں اضافے کا امکان ہے۔ ایسے میں عمران کی ’’سیاسی تنہائی‘‘ انہیں نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بہتر ہوتا اگر اس ’’کال‘‘ کا اعلان وہ اتحاد کرتا جو بنا ہی اس مقصد کیلئے تھا۔ اگر اس احتجاج میں جے یو آئی اور جے آئی بھی یا دونوں میں سے ایک بھی شامل ہوتی تو احتجاج کو ’’سولو فلائٹ‘‘ نہ کہا جاتا۔ تاہم عمران کو شاید اپنے ووٹرز اور حامیوں سے یہ توقع رہی ہے اور اب بھی خاصی حد تک ہے کہ 8 فروری کی طرح باہر نکلیں گے۔ خان نے ’’مذاکرات‘‘ کے دروازے خاص طور پر مقتدرہ کیلئے بند نہیں کیے مگر اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ دوسری طرف سے دروازہ کھولنے ہی کوئی نہیں آ رہا۔ البتہ پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں کا خیال ہے کہ بہتر ہوتا اگر اعلان مکمل تیاریوں کے بعد ہوتا، تاہم جو لوگ ’’مارو یا مرجاؤ‘‘ والی باتیں کرتے رہے ہیں انہیں خدشہ تھا کہ جس طرح کے بعض ’’مخبر‘‘ پارٹی میں ہیں سارا پلان لیک ہو جاتا۔
خاص حد تک بانی اس دوسرے نقطہ نظر سے متفق نظر آتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اب سیاسی حکمتِ عملی میں اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی اور بہن علیمہ خان پر سیاسی طور پر زیادہ اعتماد کرنا شروع کر دیا ہے جس پر انہیں اِس تنقید کا بھی سامنا ہے کہ وہ سیاست میں موروثیت کے سب سے بڑے مخالف ہو کر اُسی طرف رُخ کر رہے ہیں۔ باقی ہمیں 24نومبر سے پہلے اور بعد میں اس کا پتہ چلے گا کہ یہ بات کس حد تک اُن پر تنقید کرنیوالوں کی درست ہے یا اُن کا اپنا موقف، اس کا اصل امتحان اُس وقت ہوگا جب خان رہا ہو کر باہر آئیں گے۔ اگر انہیں لمبی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو بشریٰ بی بی یا علیمہ خان کا رول ویسا ہی ہو سکتا ہے جو 1978ء میں بیگم نصرت بھٹو یا جنرل مشرف دور میں بیگم کلثوم نواز کا تھا البتہ سیاسی کرداروں کی نوعیت الگ الگ ہے۔ اب کوئی مانے یا نہ مانے پی ٹی آئی میں کچھ کچھ تو موروثیت آتی نظر آ رہی ہے۔ بدقسمتی سے سائوتھ ایشیا میں جمہوریت اور سیاست میں یہ رجحان آنے کی بڑی وجہ کہیں مقبول رہنمائوں کا قتل یا ان پر زبان بندی رہا ہے جسکے باعث عوام کی ہمدردی پارٹی سے زیادہ خاندان سے ہوتی ہے۔
ایک ایسے موقع پر جب بانی پی ٹی آئی کے گرد گھیرا تنگ ہوتا نظر آرہا ہے وہ ’’فائنل کال‘‘ دے کر اپنے حامیوں سے 8 فروری جیسے رد عمل کی اُمید لگا بیٹھے ہیں۔ ناکامی کی صورت میں اہلیہ اور بہن کا کردار مزید بڑھ سکتا ہے۔ جب پارٹی کے لوگ ’’بک‘‘ جاتے ہیں تو گھر والوں پر ہی بھروسہ کرنا پڑتا ہے بقول جاوید صبا
کوئی دین نا ایمان کون لوگ ہو تم کبھی کسی کی طرف ہو کبھی کسی کی طرف
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد امریکا کیسا ہو گا؟
امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی جماعت ریپبلکن پارٹی کی شاندار کامیابی کے بعد اب امریکا کیسا ہو گا؟ یہ سوال امریکا سمیت دنیا بھر میں گردش کر رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نے امریکی اور بین القوامی سیاسی منظر نامے میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں عوام کی بڑی تعداد نے ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ طرزِ سیاست اور تبدیل شدہ امریکی پالیسیوں کو واپس لانے کی خواہش ظاہر کی۔
صدارتی الیکشن جیتنے والے ٹرمپ سے متعلق دلچسپ حقیقت امریکا میں ووٹرز کی اکثریت معاشی مسائل، امیگریشن قوانین کی سختی اور امریکی حکومت میں ڈرامائی تبدیلیاں چاہتی تھی، جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے منشور میں جگہ دی اور پھر کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ اس کامیابی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسی حکومت کی تشکیل کا ارادہ رکھتے ہیں جو ان کے مخالفین پر کڑی نظر رکھے، بڑے پیمانے پر تارکینِ وطن کو نکالے اور امریکی اتحادیوں کے لیے سخت پالیسی بنائے۔ مذکورہ اقدامات کے ذریعے ٹرمپ ایک مضبوط امریکی قوم کا جو نظریہ پیش کر رہے تھے وہ نوجوان ووٹرز میں مقبول ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی حکومت میں کوئی روایت�� رکاوٹ نہیں ہو گی کیونکہ انہوں نے پہلے سے ہی اپنی ایڈمنسٹریشن میں وفادار افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کرنے کا عندیہ دیا ہے جو ان کے ہر حکم کو نافذ العمل کریں گے۔ اب صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکی سیاست کے مستقبل پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں اور یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ وہ اپنی پالیسیوں پر کس حد تک عمل کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
صدارتی انتخابات کے نتائج کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے 295 الیکٹورل ووٹس کے ساتھ برتری حاصل کی ہے جبکہ کملا ہیرس کو صرف 226 الیکٹورل ووٹس ملے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی اہم ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 270 الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے ہوتے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی نے سینیٹ کی 52 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور ڈیموکریٹس پارٹی 43 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی، یوں اب ریپبلکن پارٹی کو سینیٹ میں اکثریت حاصل ہے۔ ایوان نمائندگان کانگریس میں ریپبلکن پارٹی نے 222 نشستیں حاصل کیں جبکہ ڈیموکریٹس پارٹی کو 213 نشستوں پرکامیابی ملی یعنی ریپبلکن پارٹی کو معمولی برتری حاصل ہے۔ ریاستی سطح پر گورنرز کی تعداد دیکھیں تو ریپبلکن پارٹی کے 27 امیدوار بطور گورنر منتخب ہوئے جبکہ ڈیموکریٹس پارٹی کے 23 امیدوار کامیاب ہوئے۔
جب ریپبلکن پارٹی نے ایوانِ نمائندگان کانگریس میں اکثریت حاصل کر لی ہے تو قانون سازی میں ان کا غلبہ متوقع ہے اور سینیٹ میں بھی ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اس لیے ڈیموکریٹس پارٹی کے لیے کسی بھی بل کی منظوری میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح گورنرز کی تعداد میں بھی ریپبلکن پارٹی کی برتری برقرار ہے، لیکن ڈیموکریٹس پارٹی نے واشنگٹن، ڈیلاویئر اور نارتھ کیرولائنا جیسی اہم ریاستوں میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور گورنرز ریاستوں کی سطح پر اہم فیصلوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جن میں تعلیم، صحت اور گن کنٹرول جیسے موضوعات شامل ہیں تو یہ ترتیب ڈونلڈ ٹرمپ کے آئندہ ایجنڈے پر اثر ڈال سکتی ہے۔ حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد امریکی عوام کو ریپبلکن پارٹی کی حکمتِ عملی سے جو توقعات ہیں ان میں معاشی اصلاحات، امیگریشن کنٹرول اور امریکا کی عالمی پوزیشن کو دوبارہ مضبوط کرنا شامل ہیں۔
کانگریس اور سینٹ میں اکثریت ہونے کی وجہ سے ریپبلکن پارٹی کو اپنے قوانین اور پالیسیز نافذ کرنے میں ڈیموکریٹس پارٹی کی مخالفت کا سامنا کم کرنا پڑے گا۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں امریکی عوام ٹیکس میں چھوٹ، قومی سلامتی میں سختی اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ محتاط رویہ اختیار کیے جانے کی توقع کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ڈیموکریٹس پارٹی شکست کے بعد اب ایک چیلنجنگ پوزیشن میں آ گئی ہے جہاں انہیں ایوان میں اپنے ایجنڈے کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی زبردست حکمتِ عملی اپنانی ہو گی کیونکہ وہ مستقبل میں اپوزیشن کی حیثیت سے کام کریں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر بعض اقدامات کو روکنے کے لیے مختلف فورمز پر اپنی آواز بھی بلند کریں۔ حالیہ صدارتی انتخابات امریکی سیاسی نظام کے مستقبل کو ایک نئی سمت کی طرف لے گئے ہیں اور عوام کے لیے یہ تبدیلی کئی اہم معاملات پر اثر انداز ہو گی۔
ٹرمپ کی پالیسیاں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کا مرکز سب سے پہلے امریکا ہے اور ان کی معاشی پالیسی امریکا میں کاروبار اور ملازمتوں کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس کٹوتیاں اور تجارتی معاہدوں میں ترامیم ہیں جن کا مقصد ملک کی معیشت کو مضبوط بنانا ہے۔
ٹرمپ کی خارجہ پالیسی ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں نیٹو اور عالمی اداروں میں امریکی اخراجات پر نظر، چین کے ساتھ تجارتی جنگ، ایران پر دباؤ ڈالنا اور مشرق وسطیٰ میں امریکا کی موجودگی کو کم کرنا ہے۔ وہ امیگریشن پالیسی میں سرحدی حفاظت اور غیر قانونی امیگریشن روکنے کے لیے سخت اقدامات اور دیوار کی تعمیر پر زور بھی دیتے ہیں۔
ماحولیاتی پالیسی ماحولیاتی پالیسی میں ڈونلڈ ٹرمپ صنعتی ترقی کے لیے ماحولیاتی پابندیوں کو کم کر کے اور پیرس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرناچاہیں گے، یہ تمام پالیسیاں بقول ان کے امریکی معیشت، سماج، اور دفاع کو مستحکم بنانے کے لیے ہیں۔
ٹرمپ کے مسلمانوں کے بارے میں خیالات ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات کی روشنی میں یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ مسلمان کاروباری افراد اور نوجوانوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔
ٹرمپ سپریم کورٹ پر کیسے اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت دہائیوں تک سپریم کورٹ میں قدامت پسند اکثریت کو یقینی بنا سکتی ہے، ویسے وہ اپنے پہلے پچھلے دورِ اقتدار میں 3 سپریم کورٹ کے ججز تعینات کر چکے ہیں جبکہ اب اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں انہیں مزید 2 ججز نامزد کرنے کا بھی موقع مل سکتا ہے جس سے ایک ایسی سپریم کورٹ تشکیل پائے گی جس میں ان کے تعینات کردہ ججز کی اکثریت دہائیوں تک قائم رہے گی۔ یہ فیصلہ کن نتیجہ عدالت کو انتخابی تنازعات میں الجھنے سے محفوظ رکھے گا اور اس سے امیگریشن جیسے اہم معاملات کے مقدمات کی نوعیت بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس وقت امریکی سپریم کورٹ میں 2 معمر ترین ججز موجود ہیں جن میں 76 سالہ جسٹس کلیرنس تھامس اور دوسرے 74 سالہ جسٹس سیموئل الیٹو ہیں گو کہ امریکا میں ججز کی تعیناتی تاحیات ہوتی ہے لیکن یہ دونوں اپنی عمر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ریٹائر بھی ہو سکتے ہیں۔ یوں ڈونلڈ ٹرمپ کو اگر 2 نئے ججز تعینات کرنے کا موقع ملا تو وہ ایسے ججز نامزد کریں گے جو جسٹس کلیرنس تھامس ا��ر جسٹس سیموئل الیٹو سے تقریباً 3 دہائیاں کم عمر ہوں اور اس طرح سپریم کورٹ پر طویل عرصے تک قدامت پسندانہ ججز کا غلبہ یقینی ہو گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر علاقائی خبریں تاریخ : 28 ؍ستمبر 2024 ء وقت : صبح 09.00 سے 09.10 بجے
سب سے پہلے خاص خبروں کی سرخیاں ٭ مَنکی پاکس نامی بیماری کے پھیلاؤ کی روک تھام کی خاطر مرکزی وزارتِ صحت کی جانب سے ہدایات جاری ٭ اسمبلی انتخابات کی تیاری کے سلسلے میں مرکزی انتخابی کمیشن کے سیاسی اور انتظامی جائزاتی اجلاس ٭ ناندیڑ ضلع کے نر لی میں آلو دہ پانی پینے سے 15/ بچوں سمیت 200/ افراد ہوئے متاثر ٭ عالمی یومِ سیاحت کے موقع پر مختلف پروگراموں کا انعقاد اور ٭ تِر شا جوالی ا ور گائیتری گو پی چند ‘ مکاؤ اوپن بیڈ مِنٹن مقابلے کے سیمی فائنل میں داخل اب خبریں تفصیل سے... مرکزی وزارتِ صحت اور خاندانی بہبود نے مَنکی پاکس نامی بیماری کے پھیلاؤ کی روک تھام کی خاطر رہنما خطوط جاری کیے ہیں۔ وزارت نے مقا می انتظامیہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ اِس بیماری کے وائرس کے پھیلاؤ پر نظر رکھیں ساتھ ہی علاج اور کورنٹین یعنی مریضوں کو علیحدہ رکھنے کی سہو لت فراہم کریں۔مرکزی انتخابی کمیشن کی ٹیم نے کل ریاست میں اسمبلی انتخابات کی تیاریوں کاجائزہ لینے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کی۔ کمیشن نے کوکن اور پونے کے ڈویژنل کمشنروں‘ تھانے‘ پونے‘ پالگھر‘ ممبئی اور مضا فات کے پولس کمشنروں اور پولس سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ ساتھ تھانے ‘ نئی ممبئی ‘ پونے اور پمپری چنچوڑ کی میونسپل انتظامیہ کے ساتھ انتخابی عمل سے متعلق تبادلہ خیال کیا اور تیاریوں کا جائزہ لیا۔ بقیہ ڈویژنوں میں انتخابی تیاریوں کا آج جائزہ لیا جائے گا۔ مرکزی انتخابی ٹیم اپنے اِس 2/ روزہ دورے کے بیچ ریاست کے مختلف عہدیداروں ‘ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں‘ چیف الیکٹرول آفیسر اور چیف سیکریٹری کے ساتھ انتخابی تیاریوں کے جائزہ کے لیے میٹنگیں کر ے گی۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی آشیش شیلار نے الیکشن کمیشن کو چند تجاویز پیش کی ہے۔ کمیشن کے نام اپنے خط میں انھوں نے کہا کہ رائے دہی کا دن تسلسل کے ساتھ ہونے والی چھٹیوں کے دوران نہیں ہو نا چاہے اور منتقل ہونے والے تمام ووٹرس کو رائے دہی کا حق ملنا چاہیے۔وزیر اعظم نریندر مودی کل ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پونے کے شیواجی نگر سے سُوار گیت تک زیر زمین میٹرو ریلوے لائن کا افتتاح کریں گے۔ ساتھ ہی اِس موقعے پر سُوار گیٹ تا کاترج زیر زمین راستے کا سنگِ بنیاد بھی رکھا جائے گا۔ مرکزی وزیر مملکت مُر لی دھر مو ہول نے یہ اطلاع دی۔ اِسی بیچ وزیر اعظم کل آکاشوانی کے پروگرام من کی بات کے ذریعے ہم وطنوں سے خطاب کریں گے۔ یہ اِس پروگرام کے تیسرے سلسلے کی چو تھی قسط ہے۔ یہ پروگرام کل صبح11/بجے سے آکاشوانی اور دور در شن کے تمام چینلز پر نشر کیا جائے گا۔سابق وزیر اور کانگریس کے سینئر رہنما روہی داس چُڈا مَن پاٹل کا کل دھولیہ میں انتقال ہو گیا۔ وہ84/ برس کے تھے۔ آنجہا نی پاٹل کانگریس پارٹی کے مختلف عہدوں اور ریاستی حکو مت کی مختلف وزارتوں پر فائز رہے۔ اُن کی آخری رسو مات آج ادا کی جائے گی۔ نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار اور کانگریس پارٹی کے ریاستی صدر نانا پٹو لے نے اُن کی موت پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔راجستھان کے گور نر ہر ی بھاؤ باگڑے کی ابھیشٹ چِنتن تقریب کا انعقاد کل چھتر پتی سنبھا جی نگر میں کیاگیا۔ باگڑے نے حال ہی میں اپنی زندگی کے80/ ویں برس میں قدم رکھا ہے۔ اِس تقریب کی صدارت مرکزی وزیر نتن گڈ کری نے کی۔ اِس موقع پر ہر باگڑے کی زندگی کا سفر کا احا طہ کرنے والی کتاب”ماجھا پر واس“ کا اجراء عمل میں آیا۔ریاستی حکو مت کی مختلف اسکیمات سے متعلق عام شہر یان کو اطلاع دینے کے لیے شروع کیے گئے ” وزیر اعلیٰ یو جنا دوت“ پرو گرام میں حصہ لینے کی خاطر آخری تاریخ 30/ ستمبر تک بڑ ھا دی گئی ہے۔ حکو مت نے اپیل کی ہے کہ خواہش مند امید وار مذکورہ تاریخ تک ویب سائٹwww.mahayojnadoot.orgپر در خواست ��ے سکتے ہیں۔
یہ خبریں آکاشوانی چھترپتی سنبھا جی نگر سے نشر کی جارہی ہیں سیاحت کا عالمی دِن کل منا یاگیا۔ ” سیاحت اور امن“ اِس برس کے یوم سیاحت کا موضوع ہے۔ اِسی مناسبت سے سیاحت کی مرکزی وزارت نے کل بہترین ٹوریزم وِلیج مقابلے کے نتائج کا اعلان کیا۔ اِن انعامات کا اعلان8/ مختلف زمروں میں 36/ دیہاتوں کے لیے کیاگیا ہے۔ اِس میں رتنا گیری ضلعے کے داپولی تعلقے کے گر دے گاؤں کو زرعی سیاحت کا ایوارڈ ظاہر کیا گیا ہے۔سیاحت کے ریاستی وزیر گیرش مہاجن نے کل ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے چھتر پتی سنبھا جی نگر ضلعے کے ایلورہ میں ٹوریزم ڈیو لپمنٹ کارپوریشن کے راشٹر کوٹ گیسٹ ہاؤس کا افتتاح کیا۔ یہاں ایک ہیلی پیڈ اور عالمی معیار کا وِزیٹر سینٹر قائم کیاگیا ہے۔سیاحت کے عالمی دِن کے موقعے پر کل چھترپتی سنبھا جی نگر میں پائیدار سیاحت۔ شراکت پر مشتمل ایک مکمل قدم کے موضوع پر ایک ورک شاپ کا انعقاد کیاگیا۔ اِس میں محکمہ آ ثار قدیمہ کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شیو کمار بھگت ‘ پریس انفار میشن بیورو کی ڈپٹی ڈائریکٹر جئے دیوی پُجا ری سوامی‘ ضلع اطلا عاتی افسر ڈاکٹر مِلند دوسانے اور وزارت سیاحت کی معا ون ڈائریکٹر مالتی دت نے سیاحت کی ترقی کی خاطر مدد گار امور پر دیہی صحافیوں سے تفصیلی بات چیت کی۔ اِسی بیچ عالمی یومِ سیاحت کے موقع پر ایلورہ کے غاروں کے قریب 2/ روزہ ملٹی میڈیا فلم نمائش کا اہتمام کیاگیا ہے۔یہ نمائش آج شام تک سب کے لیے کھلی ہے۔دھا راشیو ضلعے کے تیر میں کل عالمی یوم سیا حت کے موقع پر ہیریٹیج کا انعقاد کیاگیا۔ اِس میں شر کت کرنے والے شہر یان نے تری وِکرم مندر اُتر یشور مندر ‘ تیرتھ کُنڈ چیتیہ گڑہ کے ساتھ ساتھ دِونگت رام لِنگپہ رام تُرے نوادرات کے میوزیم کا دورہ کیا اور معلومات حاصل کی۔ناندیڑ ضلع کے نَر لی کشٹھ دھام میں سر کاری آب رسانی ٹینک کا پانی پینے سے 15/ بچوں سمیت200/ سے زائد شہر یان متاثر ہو گئے۔ اِن میں سے6/ کی حالت نازک ہے۔ یہ اطلاع ہمارے نا مہ نگار نے دی۔ اِن مریضوں کی نصب شب کے قریب ناندیڑ شہر کے سر کاری ہسپتال اور ایک خانگی ہسپتال میں علاج کے لیے داخل کیاگیا ہے۔ اِس واقعے کی اطلا ع ملنے پر ضلع کلکٹر ابھیجیت راؤت نے ضلعے کے محکمہ صحت کو ضروری ہدایات دی ہیں۔بھارت اور بانگلہ دیش کے در میان کا انپور میں کھیلے جانے والے دوسرے کر کٹ ٹیسٹ میچ کے پہلے دِن کا کھیل بارش اور نا کا فی روشنی کے باعث کل صبح سویرے روک دیاگیا۔ بانگلہ دیش ٹیم نے کل دِن کے اختتام تک3/ وکٹوں کے نقصان پر 107/ رنز بنا ئے ہیں۔تِر شا جوالی اور گائیتری گو پی چند مکاؤ اوپن بیڈ مِنٹن ٹور نا منٹ کے خواتین ڈبلز مقابلے میں سیمی فائنل میں پہنچ گئی ہیں۔ کل کھیلے گئے میچ میں تر شا اور گائیتری کی جوڑی نے تائیوان کی جوڑی کو12 - 12 اور21 - 17 / سے شکست دے دی۔ آج سیمی فائنل میں اِن کا مقابلہ تائیوان کی دوسری جوڑی سے ہوگا۔ اِسی دوران کِدامبی شری کانت کو کوارٹر فائنل میں مردوں کے سنگلز مقابلے میں ہار کا سامنا کرنا پڑ�� ہے۔چھتر پتی سنبھا جی نگر میونسپل کارپوریشن کی جانب سے آئندہ30/ برسوں کے لیے تیارکر دہ آب رسانی پالیسی کا مسودہ ویب ساءchhatrapatisambhajinagarmc.org پر شائع کیا گیاہے۔ شہر یان سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنے اعتراضات اور تجاوزیر تحریری شکل میں کاپوریشن کے شعبہ آب رسانی کے ایکزی کیٹیو اِنجینئر کے دفتر میں آئندہ60/ دنوں کے دوران داخل کریں۔دھارا شیو ضلعے کے پرانڈا تعلقے میں سینا کو لے گاؤں آبی منصوبہ لبالب بھر چکاہے۔ ڈیم کے17/ در وازے کھول دیے گئے ہیں۔ جن سے30/ ہزار گھن فیٹ فی سیکینڈ کی رفتار سے پانی ند یوں میں چھوڑا جا رہاہے۔ ندیوں کے کنارے آ باد دیہاتوں کو چو کنا رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔چھتر پتی سنبھا جی نگر ضلع جائیکواڑی ڈیم سے پانی کا اخراج کم کر دیاگیا ہے۔ اِس ڈیم کے18/ دروازوں سے تقریباً 14/ ہزار672/ کیو بِک فیٹ فی سیکینڈ کی رفتار سے گو دا وَری ندی میں پانی چھوڑا جا رہا ہے۔ہنگولی بلدیہ کی جانب سے کل صفائی مِتر صحت تحفظ کیمپ کا انعقاد کیاگیا۔ چیف افسر اروِند مُنڈے کی رہنمائی میں منعقد کیے گئے اِس کیمپ میں 160/ صفائی ملازمین کی طِبّی جانچ کی گئی۔ صفائی ہی خدمت مہم کے تحت کل پر بھنی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے شہر میں عوامی بیداری کی خاطر اسٹریٹ پلے پیش کیاگیا۔ اِس ڈرامے کے ذریعے کوڑے کو الگ کرنے ‘ ہمارا کچرا ہماری ذمہ داری سے متعلق عوام میں آگاہی پیدا کی گئی۔آخرمیں خبروں کی سر خیاں ایک مرتبہ پھر سُن لیجیے...
٭ مَنکی پاکس نامی بیماری کے پھیلاؤ کی روک تھام کی خاطر مرکزی وزارتِ صحت کی جانب سے ہدایات جاری ٭ اسمبلی انتخابات کی تیاری کے سلسلے میں مرکزی انتخابی کمیشن کے سیاسی اور انتظامی جائزاتی اجلاس ٭ ناندیڑ ضلع کے نر لی میں آلو دہ پانی پینے سے 15/ بچوں سمیت 200/ افراد ہوئے متاثر ٭ عالمی یومِ سیاحت کے موقع پر مختلف پروگراموں کا انعقاد اور ٭ تِر شا جوالی ا ور گائیتری گو پی چند ‘ مکاؤ اوپن بیڈ مِنٹن مقابلے کے سیمی فائنل میں داخل علاقائی خبریں ختم ہوئیں آپ یہ خبر نامہ ہمارے یو ٹیوب چینل AIR چھتر پتی سنبھا جی نگر پر دوبارہ کسی بھی وقت سُن سکتے ہیں۔ ٭٭٭٭
0 notes
Text
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجربینچ نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، بنچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے، سماعت مکمل ہونے پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے رائے محفوظ کر لی ہے آج نہیں مگر پھر کسی روز دوبارہ شاید اپنا فیصلہ سنانے بیٹھیں۔
بتایا جارہا ہے کہ آج کی سماعت میں صنم بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو کے وکیل رضا ربانی کے دلائل دیئے، اس دوران انہوں نے کہا کہ ’بھٹو کیس کے وقت لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آئین کے تحت کام نہیں کر رہے تھے، اس وقت ملک میں مارشل لاء نافذ تھا، بنیادی انسانی حقوق معطل تھے، اس وقت استغاثہ فوجی آمر جنرل ضیاء تھے، اس وقت اپوزیشن اور حکومت کے درمیان نئے الیکشن کے لیے م��املات طے ہو چکے تھے‘۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ’کیا کوئی معاہدہ بھی ہو چکا تھا؟‘ اس پر رضا ربانی نے کہا کہ ’معاہدے پر دستخط ہونا باقی تھے لیکن پھر مارشل لاء نافذ کر دیا گیا، 24 جولائی کو ایف ایس ایف کے انسپکٹرز کو گرفتار کیا گیا، 25 اور 26 جولائی کو ان کے اقبالِ جرم کے بیانات آ گئے، مارشل لاء دور میں زیرِ حراست ان افراد کے بیانات لیے گئے، اس وقت مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، چیف جسٹس پاکستان، قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا ٹرائی اینگل تھا، ذوالفقار علی بھٹو کی برییت سے تینوں کی جاب جا سکتی تھی‘۔
اس موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ’رضا ربانی آپ کہہ سکتے ہیں کہ حسبہ بل میں عدالتی رائے بائنڈنگ تھی‘؟ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ ’حسبہ بل میں کتنے جج صاحبان تھے؟‘ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’حسبہ بل کے صدارتی ریفرنس میں بھی 9 جج صاحبان تھے‘، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’ہم بھی 9 ہی جج ہیں، کوئی اختلاف بھی کر سکتا ہے‘۔ اس بات پر رضا ربانی نے کہا کہ ’اس وقت جج جج نہیں تھے، مختلف مارشل لاء ریگولیشن کے تحت کام کر رہے تھے، مارشل لاء ریگولیشن کے باعث ڈیو پراسس نہیں دیا گیا، بیگم نصرت بھٹو نے بھٹو کی نظر بندی کو چیلنج کیا تھا، اسی روز مارشل لاء ریگولیشن کے تحت چیف جسٹس یعقوب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا‘۔
یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا، صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔
تاہم حال ہی میں اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی 12 دسمبر کو 9 رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس 5 سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟
چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟
جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟
0 notes
Text
آر ٹی ایس نہ آر ایم ایس: اس بار الیکشن کمیشن نتائج کا اعلان کیسے کرے گا اور یہ نیا نظام کتنا قابل بھروسہ ہے؟
http://dlvr.it/T2ChXM
0 notes
Text
بنگلادیش کے عوام نے ’انڈیا آؤٹ‘ کے نعرے لگادئیے
(ویب ڈیسک)بنگلادیش کے عوام نے ہندوستان کی مداخلت کو مسترد کردیا,پورے ملک میں ہندوستان کے خلاف مہم نے طول پکڑ لی ’انڈیا آؤٹ‘ کے نام سے مہم نے بنگلادیش اور ہندوستان کی حکومت کو شدید تشویش اور پریشانی میں مبتلا کردیا۔ 7 جنوری 2024 کو بنگلادیش میں یکطرفہ الیکشن منعقد ہوئے جن میں شیخ حسینہ نے متنازعہ طور پر کامیابی حاصل کی شیخ حسینہ کی جیت کے اعلان کے فوری بعد عوام نے نتائج کے متعلق تشویش اور شکوک کا…
View On WordPress
0 notes
Text
سندھ اسمبلی نتائج: پیپلز پارٹی 84، ایم کیو ایم پاکستان 24، 14 آزاد امیدوار کامیاب
الیکشن کمیشن نے سندھ اسمبلی کی تمام 130 جنرل نشستوں کے جو نتائج جاری کئے ہیں ان کے مطابق پیپلز پارٹی صوبے کی سب سے بڑی جماعت جبکہ ایم کیو ایم دوسری بڑی جماعت ہے۔ پیپلز پارٹی نے 84 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کو 28 نشستیں ملی ہیں، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کو چیلنج کرنے کے لیے ابھرا تھا لیکن اسے کوئی نمایاں کامیابی نہیں ملی اور اسے صوبائی اسمبلی کی صرف…
View On WordPress
0 notes
Text
الیکشن ہوتے ہیں مگر نتائج کوئی اور مرتب کرتا ہے مولانا فضل الرحمان
(24نیوز) سربراہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ الیکشن ہوتے ہیں مگر نتائج کوئی اور مرتب کرتا ہے، پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جس میں عوام کی شراکت داری ہے اور آمریت نہیں ہو گی، عوام کی مرضی کے خلاف زبردستی ان پر کوئی مسلط نہیں ہوگا۔ ڈی آئی خان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ آئین میں ترامیم آتی رہی ہیں کچھ متنازع بھی آئی لیکن…
0 notes
Text
سپریم کورٹ کے 8 عمرانڈو ججز کی الیکشن کمیشن کو کھلی دھمکی
سپریم کورٹ آف پاکستان کے 8 عمرانڈو ججز نے مخصوص نشستوں کے کیس میں تفصیلی فیصلہ دینے کی بجائے اب ایک دھمکی آمیز پریس ریلیز جاری کر دی ہے جس میں الیکشن کمیشن اف پاکستان کو وارننگ دی گئی ہے کہ اگر پی ٹی آئی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں 12 جولائی 2024 کی ججمنٹ کے مطابق فوری طور پر مخصوص نشستیں الاٹ نہ کی گئیں تو اسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ یہ پاکستان کی 75 سالہ سیاسی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ…
0 notes
Text
کیا اسلام آباد میں ایک دیوانے کی گنجائش بھی نہیں؟
نگران حکومت کے سنہرے دور کے آغاز میں ہی ایک وزیر نے سب کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اس لیے یہاں پر اداروں کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میرا خیال تھا نگران شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے چلے ہیں۔ جتنا بڑا آپ کے پاس ہتھیار ہوتا ہے، خوف اتنا ہی کم ہونا چاہیے۔ جب سے ہم نے بم بنایا ہے ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ اب دشمن ہمیں کبھی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ امریکہ سے انڈیا تک جتنی آوارہ طاقتیں ہیں، جہاں چاہے گھس جاتی ہیں وہ پاکستان کی سرحدوں کے اند آتے ہوئے سو دفعہ سوچیں گے۔ دفاعی تجزیہ نگار بھی یہی بتاتے تھے کہ یہ والا بم چلانے کے لیے نہیں، دشمن کو دھمکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جب نگران وزیر صاحب نے اس بم سے اپنے ہی عوام کو دھمکانا شروع کیا تو لگا کے شاید پاکستان ایک اور طرح کی دفاعی ریاست بننے جا رہی ہے۔ کل اسلام آباد میں زیرِ حراست صحافی اور یوٹیوبر اسد طور کی 78 سالہ والدہ کا ایک مختصر سا ویڈیو دیکھا جب وہ اپنے بیٹے سے مل کر آئی تھیں۔ وہ کھانا لے کر گئیں تھیں طور نے نہیں کھایا، وہ اصرار کرتی رہیں۔ طور بھوک ہڑتال پر تھا اس لیے غالباً والدہ کو ٹالنے کے لیے کہا بعد میں کھا لوں گا۔
ان کی والدہ نے ایف آئی اے کو، عدالتوں کو یا کسی اور ادارے سے کوئی شکوہ نہیں کیا صرف یہ دعا کی کہ اللہ میرے بیٹے کو ہدایت دے۔ اسلام آباد کو ہمیشہ دور سے حسرت کی نظر ��ے دیکھا ہے۔ کبھی جانے کا اتفاق ہوا تو ایک ہی شام میں دس سیانوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ کسی کے پاس اندر کی خبر، کسی کے پاس اندر سے بھی اندر کی اور پھر وہ جو اندر کی خبر باہر لانے والوں کے نام اور حسب نس�� بھی بتا دیتے ہیں۔ اسد طور سے نہ کبھی ملاقات ہوئی نہ کبھی سیانا لگا۔ کبھی کبھی اس کے یوٹیوب چینل پر بٹن دبا دیتا تھا۔ منحنی سا، جذباتی سا، گلی کی نکڑ پر کھڑا لڑکا جو ہاتھ ہلا ہلا کر کبھی ٹھنڈی کبھی تلخ زبان میں باتیں کرنے والا۔ گذشتہ ماہ اسلام آباد میں بلوچستان سے اپنے اغوا شدہ پیاروں کا حساب مانگنے آئی ہوئی بچیوں اور بزرگوں نے کیمپ لگایا اور اسلام آباد کے زیادہ تر سیانے اپنے آتش دانوں کے سامنے الیکشن کے نتائج پر شرطیں لگا رہے تھے تو وہ کیمرا لے کر احتجاجی کیمپوں سے ان کی آواز ہم تک پہنچاتا رہا۔
میں نے سوچا کہ یہ کیسا یوٹیوبر ہے جسے یہ بھی نہیں پتا کہ بلوچ کہانیاں سنا کر کبھی بھی کوئی یوٹیوب سٹار نہیں بنا۔ اس سے پہلے سنا ہے کہ جب سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس پر بُرا وقت آیا تھا تو ان کی عزت کا محافظ بنا ہوا تھا۔ عدلیہ کی سیاست کی کبھی سمجھ نہیں آئی لیکن میں یہی سمجھا کہ سیانوں کے اس شہر اسلام آباد میں شاید ہمیشہ ایک دیوانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری تاریخ اور ثقافتی روایت بھی ہے۔ بادشاہ بھی اپنے دربار میں مسخرہ رکھتے تھے، گاؤں کا چوہدری بھی میراثی کو برداشت کرتا ہے۔ گاؤں میں ایک ملنگ نہ ہو تو گاؤں مکمل نہیں ہوتا۔ اسد طور بھی مجھے کیمرے والا ملنگ ہی لگا جس کے بغیر اسلام آباد کا گاؤں مکمل نہیں ہوتا۔ اس گاؤں میں ابھی تک یہ طے نہیں ہے کہ طور پر زیادہ غصہ عدلیہ عظمیٰ کو ہے یا ان کو جن کے لیے اسلام آباد کے صحافی کندھوں پر انگلیاں رکھ کر بتاتے تھے، پھر کسی نے بتایا کہ یہ کوڈ ورڈ پاکستان کے عسکری اداروں کے لیے ہے۔ اسلام آباد کے ایک بھیدی نے بتایا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ کس ادارے کی زیادہ بےعزتی ہوئی ہے لیکن یہ کہ اسد طور تھوڑا سا بدتمیز ہے، کسی کی عزت نہیں کرتا۔
مجھے اب بھی امید ہے کہ اسلام آباد میں کوئی سیانا کسی بڑے سیانے کو سمجھا دے گا کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں اور ہم نے دشمن چنا ہے اتنا دبلا پتلا طور۔ اچھا نہیں لگتا۔ ہمارے نگران وزیراعظم ہمیں ایک دفعہ یہ بھی بتا چکے ہیں کہ دہشت گردوں کی بھی مائیں ہوتی ہیں۔ اسد طور کی والدہ کیمرے پر دعا مانگ چکی ہیں کہ اللہ ان کے بیٹے کو ہدایت دے۔ دونوں ادارے جن کے ساتھ اسد طور نے بدتمیزی کی ہے، ان کے سربراہ ہمیں کبھی کبھی دین کا درس دیتے ہیں۔ دعا ہر دین کا بنیادی عنصر ہے۔ اگر وہ انصاف نہیں دے سکتے تو طور کی والدہ کی دعا کے ساتھ دعا کریں کہ اللہ ہمارے بیٹے کو ہدایت دے اور اس کے ساتھ اپنے لیے بھی اللہ سے ہدایت مانگ لیں۔
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی اہلیت
سینئر سیاسی رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ملکی مسائل حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں ہے، انھیں علم ہی نہیں ہے کہ ملکی مسائل کا حل کیا ہے۔ سینئر سیاسی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ سیاستدان صرف اپنے لیے نہیں بلکہ قوم کے بچوں کے لیے آگے آئیں اور ان کے بہتر مستقبل کا سوچیں۔ الیکشن میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے، اس لیے انتخابی نتائج تسلیم کریں۔ ملک میں سیاسی جماعتوں کی مختلف حکومتوں کی مدت تین آمرانہ حکومتوں سے زیادہ ہو چکی ہے۔ گزشتہ 16 برس سے ملک آمریت سے محفوظ ہے۔ 2008 کے الیکشن کے بعد سے ملک میں تین جماعتوں کے وزرائے اعظم نے ہی حکومت کی ہے مگر تینوں پارٹیوں کے منتخب وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکے البتہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں اور تین اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آئینی طور پر ہٹایا گیا، یوں اسمبلیاں برقرار رہیں اور پانچوں قومی و صوبائی اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار سے محرومی کے بعد پہلے قومی اسمبلی سے اپنے ارکان کے استعفے دلائے اور بعد میں اپنے سیاسی مفاد کے لیے پنجاب و کے پی کی اسمبلیاں قبل از وقت تڑوا کر اپنے وزرائے اعلیٰ کو بھی اقتدار میں نہیں رہنے دیا اور اپنی ضد اور انا کی خاطر اپنی اچھی بھلی دو صوبائی حکومتیں اس لیے ختم کرائیں کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن قبل ازوقت جنرل الیکشن کرانے پر مجبور ہو جائے لیکن عمران خان کی یہ خواہش ناتمام ہی رہی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے دونوں وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو عدالتی فیصلوں نے مدت پوری نہیں کرنے دی تھی اور دونوں کو نااہل کیا تھا۔ نااہلی کے دونوں عدالتی فیصلوں سے قبل 1999 تک فوجی جنرلوں اور 58/2-B کے اختیار کے حامل سویلین صدور نے وزرائے اعظم برطرف کیے اور اسمبلیاں ختم کیں اور 1985 سے 1999 تک کسی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی۔ 1999 میں نواز شریف کو برطرف کرنے والے جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے حکم پر ملک میں 2002 میں الیکشن کرایا اور 2007 تک تمام اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے کا موقعہ دیا اور اپنی بنائی گئی مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں ظفر اللہ جمالی کو ضرور تبدیل کیا اور غیر سیاسی وزیر اعظم شوکت عزیز کے ذریعے حکومت کے 5 سال مکمل کرائے تھے اور یہ واحد فوجی جنرل تھے جنھوں نے اسمبلیوں کی مدت پوری کرائی اور خود کو وردی میں صدر منتخب کرایا اور بعد میں صدر رہ کر فوجی وردی اتار دی تھی۔ 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے اقتدار کے گیارہ برسوں میں ایک دوسرے کی حکومتیں ختم کرائیں اور دو دو باریاں لیں اور دونوں ہی حکومتیں خود ان کے منتخب صدور نے ختم کیں اور فوجی مداخلت 1999 میں ہوئی جس کے بعد سے فوج نے برائے راست کوئی مداخلت نہیں کی مگر 2018 تک تمام حکومتیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے قائم ہوئیں اور پی ٹی آئی حکومت بنوائی گئی۔
2018 میں پہلی بار پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی گئی جو اس کے وزیر اعظم کے غیر جمہوری رویے، من مانیوں اور انتقامی کارروائیوں کے باعث تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہو گئی جس کو برطرف وزیر اعظم نے غلط رنگ دیا۔ کبھی تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیا، کبھی جنرل قمر جاوید باجوہ کو ذمے دار قرار دیا اور میر صادق، میر جعفر اور جانور تک کا طعنہ دیا گیا۔ اپنی آئینی برطرفی کے بعد انھیں جمہوری طور اسمبلیوں میں رہنا چاہیے تھا اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی خوشامد نہیں کرنی چاہیے تھی کہ وہ انھیں دوبارہ وزیر اعظم بنوا دیں، جنرل صاحب نے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا بھی کہا تھا مگر اپوزیشن نہیں مانی تھی کیونکہ اس کی تحریک عدم اعتماد آئینی تھی جو پہلی بار کامیاب ہوئی تھی۔ سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ فوج غیر جانبدار رہے، آئین کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کسی وزیر اعظم کولائے نہ ہٹائے ، یہ درست ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے ذمے دار تو خود سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ہیں۔ 1970 تک ملک میں جو ہوتا رہا اس کے ذمے دار سیاسی رہنما اور ان کی اپنی پارٹیاں تھیں جنھوں نے جنرل ایوب کو باعزت واپسی کا راستہ نہیں دیا۔
1977 میں بھٹو حکومت میں انتخابی دھاندلی کے بعد ملک گیر تحریک چلی۔ وزیر اعظم بھٹو کی وجہ سے مارشل لا لگا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کی حکومت ہٹانے کی کوشش کرتے رہے۔ نواز شریف اگر جنرل پرویز مشرف کو غلط طور نہ ہٹاتے، پی ٹی آئی وزیر اعظم اگر پی پی اور (ن) لیگ کو ساتھ لے کر چلتے تو آج تنہا نہ ہوتے۔ سیاستدانوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ ہوتا، پی ٹی آئی دوسری جماعتوں سے مل کر مسائل کا حل تلاش کرتی اور اس کے چیئرمین نئی نسل کو بگاڑنے کے بجائے ملک کے بچوں کا سوچتے تو آج جیل میں نہ ہوتے۔ دوسروں کو چور، ڈاکو قرار نہ دیتے تو سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ملک کے مفاد اور مسائل کے حل پر آپس میں متحد ہو جاتیں تو ملک میں سیاسی استحکام ہوتا، پی پی اور (ن) لیگ کی طرح پی ٹی آئی نے اقتدار کے بجائے ملک کا سوچا ہوتا تو آج ملک میں سیاسی دشمنی اور انتشار نہ ہوتا۔
محمد سعید آرائیں
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes