#تیار
Explore tagged Tumblr posts
Text
ایجوکیشن اتھارٹی طلبا کے ہیلتھ پروفائل تیار کرنے میں ناکام
(جنید ریاض)ایجوکیشن اتھارٹی لاہور کی نااہلی،پانچ سال بعد بھی سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے ہیلتھ پروفائل تیار نہ ہوسکے۔ ہیلتھ پروفائل تیار نہ ہونے کے باعث بچے بنیادی صحت اور نظر کی کمزوری جیسے مسائل سےدوچار ہیں،اسی فیصد سرکاری و پرائیوٹ سکولوں کے بچوں کے ابھی تک ہیلتھ پروفائل تیار نہیں کروائے جاسکے،سابقہ دور حکومت میں سکولز کے بچوں میں صحت کے مسائل کو دیکھتے ہوئے ہیلتھ پروفائل تیار کرنے کی ہدایت…
0 notes
Text
مارگلہ ہلز مونال سے کنکریٹ کا جنگل ختم لیکن ایک اور منصوبہ تیار
سکون، ہنسی، خوشی، پر لطف لمحات ان سب کے لیے مونال جانا ہر کوئی پسند کرتا تھا اور بیشتر افراد جو تنہا وقت گزارنا زیادہ پسند کرتے تھے وہ بھی مارگلہ ہلز کی اونچائیوں پر جا کے چپکے چپکے مونال کے دامن میں اپنی تنہائی کو خود اپنی ذات کے ساتھ سیلیبریٹ کرتے تھے، کیا ملکی اور کیا غیر ملکی سیاح یہ مقام ہر ایک کا پسندیدہ تھا دل میں بستا تھا مگر جہاں جیتے جاگتے ہنستے مسکراتے انسان ادھر آکے خوش ہوتے تھے بے…
0 notes
Text
برطانیہ کے وزیر اعظم سنک نے اشارہ دیا کہ وہ نرسوں کی تنخواہوں میں اضافے پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ صحت کی خبریں۔
برطانیہ کے وزیر اعظم سنک نے اشارہ دیا کہ وہ نرسوں کی تنخواہوں میں اضافے پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ صحت کی خبریں۔
اجرتوں پر عوامی شعبے کی ہڑتالوں کی لہر کے درمیان رشی سنک صحت کی دیکھ بھال کے عملے کو اجرت کی پیشکش کو بہتر بنانے کے لیے دباؤ میں ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم رشی سنک نے کہا ہے کہ وہ دہائیوں میں صنعتی تنازعات کی سب سے بڑی لہر کو ختم کرنے کی کوشش میں پبلک سیکٹر ٹریڈ یونین کے رہنماؤں سے ملاقات سے قبل نرسوں کی تنخواہوں میں اضافے پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یونائیٹڈ کنگڈم کی نیشنل ہیلتھ سروس (NHS)، جو…
View On WordPress
#اشارہ#اضافے#اعظم#بات#برطانیہ#پر#تنخواہوں#تیار#خبریں#دیا#سنک#صحت#کرنے#کہ#کی#کے#لیے#میں#نرسوں#نے#ہیں#وزیر#وہ
0 notes
Text
عمران خان ،بشریٰ بی بی کیخلاف فرح گوگی کے وعدہ معاف گواہ بننے کاامکان
بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کیخلاف نئے مقدمات میں حکومت نے فرح گوگی کو وعدہ معاف گواہ بنانے کیلئے رابطے شروع کردیئے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور اہلیہ بشری بی بی کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور نئے مقدمات بنانے کیلئےتیاریاں شروع کردیں ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے فرح گوگی کوکرپشن کیسز میں وعدہ معاف گواہ بننے کیلئے منایاجارہاہے۔فرح گوگی…
0 notes
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے ��یے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی با�� کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes
·
View notes
Text
Ghassan_Kanfani says:
جانے والے سے مت پوچھو کہ وہ کیوں چلا گیا، کیونکہ اس نے اپنے تھیلے سے پہلے اپنا عذر تیار کر رکھا تھا۔
"Do not ask a departer why he left, because he prepared his excuse before his bags"
111 notes
·
View notes
Text
ٹین کا بندر
سنگلاخ چٹانوں کے بیچ ایک پرانی آبادی میں مٹی پتھر اور لکڑی کے بنے خوبصورت محل نما گھروں میں روزمرّہ کا کام جاری ہے بوڑھے اکتوبر نومبر کے ریشمی جھاڑوں میں کھلے آنگنوں میں بیٹھے دھوپ سیک رہے ہیں سورج آہستہ آہستہ سرکتا ہوا ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ کی جانب محوِ سفر ہے درختوں کے ساے بڑھ رہے ہیں گاوں کا حجام ایک صحن میں چھوٹے بڑوں کی حجمامت میں مصروف ہے بچے حجام کے گرد دائرہ بناے بیٹھےاپنی باری کاانتظارکررےہیں جسے ہی کسی بچے کا نمبر آتا ہے کوہی بڑا آ کے بیٹھ جاتا ہے بچے مایوسی اور غصے کے ملے جُلے جذبات کا اظہار سرگوشیوں میں کر رہے ایک بچہ سکول بیگ زمین پہ رکھتے ہوے باقی بچوں کو ذرہ دھیمی آواز میں کہہ رہا ہے ہمارے بڑے بھی نا پکے سامراجی ہیں حجمامت کرواتے چاچےپھنڈو کا غصے سے چہرہ سوا کُٹ [سرخ] ہو جاتا ہے کوبرا سانپ کی طرح پھنکارتے ہوے چاچا پھنڈو اپنی ترنگ میں بولے جا رہا ہے آج کل کے بچوں میں احترام نام کی کوہی چیز ہی نہیں میں ان کے باپ کی عمر کا ہوں مجھے مر چی کہہ دیا ہے یہ اپنے ماں باپ کا کیا احترام کرتے ہوں گے موب لیل کی پیداوار کہیں کے
ساے بڑھتے جا رہے ہیں آبادی میں مٹی کے بنے چولہوں پہ چاے اُبل رہی ہے ماہیں اپنے بچوں کو آوازیں دے رہی ہیں آچھو چا پی ہینو [آو چاے پی لو] چاے کی پیالیوں سے اٹھتی بھاپ فضا میں ت��لیل ہو رہی ہے فضاہیں محطر ہیں آبادی میں جادوہی سماں ہے۔
ساے بڑھتے بڑھتے ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پہ پہنچ چکے ہیں پہاڑ کی چوٹی سے ایک مداری بندر کے گلے میں رسی ڈالے آہستہ آہستہ آبادی کی طرف بڑھ رہا ہے ہر کوہی ماتھے پہ ہاتھ رکھے آنکھوں کو سورج کی روشنی سے بچاتے ہوے پہاڑ کی چوٹی سے اترتے مداری اور بندر کی طرف دیکھ رہا ہے سورج تھک کر لال ہو چکا ہے ساے غاہب ہو رہے ہیں مداری آبادی کے ایک صحن میں پہنچ چکاہے بچے سہم کر دیکھ رہے ہیں کہ مداری نے جس کے گلے میں رسی ڈال رکھی ہے یہ چیز کیا ہے کوہی جن بھوت ہے بلا ہے یا کہکو ہے آبادی میں رہنے والے بچے بندر پہلی بار دیکھ رہے تھے چاچا پھنڈو طیش میں آکر پھر بچوں پہ غصہ نکال رہا ہے کہہ دیخنیو بوجا دا یو نہی چک مارنا [ کیا دیکھ رہے ہو بندر ہے یہ نہیں کاٹے گا] حجام ہتھیلی پہ استرا تیز کرتے ہوے بچوں کو سمجھا رہا ہے یہ پڑھا ہوا بوجا ہے مالک کی سنتا ہے مالک اسے جو حکم دیتا ہے وہی کرتا ہے انسان بھی بندر سے انسان بنے ہیں ڈرو نہیں
بچے حجام کی راے کا احترام کرتے ہوے مداری کے پاس جمح ہو گے مداری سب کچھ بھانپ رہا تھا بندر کے گلے میں گھنگوروں جڑا پٹہ اور کمر پہ چمڑے کا بیلٹ تھا مداری نے سر پہ ٹوپی رکھتے ہوے ڈگڈگی بجاہی بندر دونوں ہاتھ اٹھا کر ناچنا شروع کر دیتا ہے چاچے پھنڈو کی جھڑکیوں سے تنگ بچوں کو خوشی کے چند لمحات ملے تو انھوں نے زور زور سے تالیاں بجانا شروع کر دی تالیوں کی آواز سن کر قرب و جوار کے بچے بھی جمح ہو گے ایک ماحول بن گیا
شام گہری ہوتی جا رہی ہے
مداری ڈگڈگی بجا رہا ہے، ڈنڈا ہر وقت بندر کے سر کے اوپر ہے۔ مداری نے اپنے دائیں ہاتھ پر بندر کے گلے میں بندھی رسی کو بل دے کر بندر کو قابو میں رکھا ہوا ہے۔ اگر کچھ چھوٹ دینا ہوتی ہے تو وہ ہاتھ کو آگے کرتا ورنہ پھر کھینچ کر بندر کو اپنے تابع رکھتا، اُس دوران میں ہاتھ میں پکڑا ڈنڈا بندر کے سر کے اوپر مسلسل رہتا۔ مداری بائیں ہاتھ سے متواتر ڈگڈگی بجا رہا ہے اور بچوں کو تسلسل کے ساتھ کہانی سنا رہا ہے۔ مداری کو کہانی بیان کرنے کا ہنر ہے۔ اُس نے کامیابی سے کئی تماشے لگائے اور سمیٹے ہیں۔
بندر کو ٹوپی پہنا دی گئی۔ مداری نے زمیں پر ایک چھوٹا ٹین کا ڈبہ رکھا، رسی سے بندھے بندر کو مداری نے بتایا ہے کہ یہ تیری کرسی ہے، چل اب اس پر چل کے بیٹھ
بندر نخرے دکھا رہا ہے، بندر ایسی کرسی پر بیٹھنے کو تیار نہیں۔ مداری نے زبان بدل لی، اُس نے کسی بدیسی سے کچھ انگریزی زبان سیکھی لگتی ہے۔ حاضرین کو بتاتا ہے کہ بندر انگریزی سمجھتا ہے۔ سو بندر کو انگریزی میں حکم دیا، ” گو اینڈ شِٹ ڈاون”۔ انگریزی اور ڈنڈے دونوں کے اکٹھ سے حکم بندر کو سمجھ آجاتا ہے اور وہ ٹین کے ڈبے پر جا کر بیٹھ جاتا ہے۔
بچے خوشی سے تالیاں بجا رہے ہیں بندر مٹک مٹک کر ڈانس کر رہا ہے مداری خوشی سے لوٹ پوٹ ہو رہا ہے کہ ایک لمبے عرصے بعد اسے داد مل رہی ہے دھندہ ٹھپ ہو چکا تھا شکر ہے بچوں نے بندر تماشہ پہلی بار دیکھا
اب رات کا سماں ہے بچے مداری اور بندر کے لیے مخملی بستر بچھا دیتے ہیں بندر اور مداری کو انواع و اقسام کے کھانے پیش کیے جاتے ہیں
مداری اور بندر آبادی کے محترم مہمان بن جاتے ہیں روزانہ بندر تماشہ لگایا جاتا ہے شب و روز یونہی گذر رہے ہیں دور دراز آبادیوں سے لوگ آ کر بندر تماشہ دیکھ رہے ہیں
اچانک ایک دن مداری کے رشتے دار آبادی میں داخل ہو کر مداری اور بندر کی تلاش شروع کر دیتے ہیں مداری کے رشتے دار کہہ رہے ہیں کہ یہ دونوں گھر سے بھاگے ہوے ہیں بندر ہمارا ہے ہم اس سے نہیں چھوڑیں گے
بچے بندر کو کسی دوسری جگہ بھاگادیتے ہیں مداری کے رشتے دار مایوس گھر کو لوٹ جاتے ہیں بیابانوں جنگلوں میں سر پٹخ رہے ہیں بندر نظر بھی آ جاے تو مداری کے ڈر سے اس کے قریب نہیں جاتے
اب مداری کے رشتے دار تلاش بسیار کے بعد وحشی ہو چکے ہیں گھپ اندھیری رات میں آبادی پہ دھاوا بول دیتے ہیں جن بچوں نے بندر تماشہ دیکھا انھیں سبق سکھا رہے ہیں ہر طرف آہ و بکا ہے بچے جو ماوں کی گود میں تھے مداری کے رشتے دار انھیں بغل میں دبا کر بھاگ رہے ہیں
بڑے بچے چھوٹے بچوں کو چھوڑاتے ہوے لہو لہان ہیں پگٹڈیوں پہ لہو کی پپڑیاں جمحی ہیں
فضاہیں محصوم خون کی خوشبو سے عطر بیز ہیں مداری کے رشتے دار بھی زخم چاٹ رہے ہیں
آبادی کی صبح افسردہ ہے معصوم بچے مٹی کے چولہوں کے پاس بیٹھے خاموشی سے سراپا سوال ہیں کہ آج ماہیں آگ کیوں نہیں جلا رہے ہیں چاے کیوں نہیں بناہی جا رہی
بندر مداری کے اشاروں پہ دور کہیں گھنے جنگلوں میں ٹہنیوں پہ چلانگیں لگا رہا ہے مداری کے
رشتے دار چاہ رہے ہیں کہ بندر خود ہی پنجرے میں آ کر بیٹھ جاے
چاچا پھنڈو محفل سجا کر کچے ذہن کے بچوں پہ پھٹکار بھیج رہا ہے کاش یہ چاچا پھنڈو اپنے نمبر پہ حجمامت کرواتا تو بچے بقول چاچا پھنڈو کے یوں بدتمیز نہ ہوتے
خیر اب
موسم بدل رہا ہے دسمبر کی سرمئ شاموں سرد راتوں حناہی صبحوں کا قہر ٹوٹنے والا ہے
سر پہ خاک ڈالے تار تار دامن ننگے پاوں آبلہ پا آشفتہ سر ملنگ ہمالے کی چوٹیوں پہ افسردہ شکستہ دِل سے اپنے آپ کو کوس رہا ہے
اپنا چہرہ نوچ رہا ہے
کہ کاش میں آبادی کہ محصوم ہیرے موتیوں نڈر چیتے کا جگر رکھنے والے بچوں کو مداری اور بندر کے کھیل کی حقیقت سمجھا دیتا یا سمجھا پاتا
عظمت حسین
جدہ سعودی عربیہ
۱۳ ،نومبر ۲۰۲۴
3 notes
·
View notes
Text
ہم بھائیوں کو بہنوں کی جوانیوں کا خیال خود رکھنا چاہیے.
جیسے مرغیوں کو گھر کے اندر مرغا نہ ملے تو وہ پڑوس میں چلی جاتی ہیں.
ویسے ہی اگر بہن کو گھر میں ل نہ ملے تو وہ بھی ل لینے باہر نکلتی ہیں.اس لیے ہم بھائیوں کو چاہیے کے ہم اپنا ل بہن کے لیے ہر وقت تیار رکھیں
41 notes
·
View notes
Text
تمام سڑکیں ہمارے سفر کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔وہ تمام جگہیں جہاں سے ہم بھاگتے ہیں ہمارے لیے موزوں نہیں ہوتیں۔ ہر قیام کا مطلب محبت نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی ہر خدا حافظ کا مطلب جدائی ہوتا ہے۔
تمام دل رہنے کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں ہوتے، اور نہ ہی تمام احساسات جو ہمارے پاس ہوتے ہیں جیے جا سکتے ہیں.تمام کہانیاں ایسی نہیں ہوتی کہ ہم اس کے ہیرو ہو سکتے ہیں.تمام خواہشات ہماری حقیقت کے لیے درست نہیں ہیں.
ان میں سے کچھ ایک امید کے طور پر ہمارے زندہ رہنے کے لیے تخلیق کی گئی ہیں۔
5 notes
·
View notes
Text
پاکستانیوں کا فلسطین سے رشتہ کیا؟
جس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہ ہو وہ اپنے طاقتور دشمن پر فتح پانے کیلئے موت کو اپنا ہتھیار بنا لیتا ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیم حماس کو بہت اچھی طرح پتہ تھا کہ اسرائیل پر ایک بڑے حملے کا نتیجہ غزہ کی تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے لیکن حماس نے دنیا کو صرف یہ بتانا تھا کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں اور مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اب آپ حماس کو دہشت گرد کہیں یا جنونیوں کا گروہ کہیں لیکن حماس نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ کچھ عرب ممالک کے حکمران اسرائیل کے سہولت کار بن کر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں کرسکتے امن قائم کرنا ہے تو فلسطینیوں سے بھی بات کرنا پڑیگی۔ اس سوال پر بحث بے معنی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی طاقتور انٹیلی جنس ایجنسیاں حماس کے اتنے بڑے حملے سے کیسے بے خبر رہیں؟ حماس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ شیخ احمد یاسین نے تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرفات سے مایوسی کے بعد حماس قائم کی تھی۔
شیخ احمد یاسین کو 2004ء میں اسرائیل نے نماز فجر کے وقت میزائل حملے کے ذریعہ شہید کر دیا تھا لہٰذا حماس اور اسرائیل میں کسی بھی قسم کی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد یہ طے تھا کہ فلسطین اور کشمیر میں مزاحمت کی چنگاریاں دوبارہ بھڑکیں گی۔ فلسطین اور کشمیر کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ یہ تعلق مجھے 2006ء میں لبنان کے شہر بیروت کے علاقے صابرہ اورشتیلا میں سمجھ آیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کا قتل عام کرایا تھا۔ 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران میں کئی دن کیلئے بیروت میں موجود رہا۔ ایک دن میں نے اپنے ٹیکسی ڈرائیور کے سامنے مفتی امین الحسینی کا ذکر کیا تو وہ مجھے صابرہ شتیلا کے علاقے میں لے گیا جہاں شہداء کے ایک قبرستان میں مفتی امین الحسینی دفن ہیں۔ مفتی امین الحسینی فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کے بانیوں میں سےتھے۔ مفتی اعظم فلسطین کی حیثیت سے انہوں نے علامہ اقبال ؒ، قائد اعظم ؒ اور مولانا محمد علی جوہر ؒسمیت برصغیر کے کئی مسلمان رہنمائوں کو مسئلہ فلسطین کی اہمیت سے آشنا کیا۔
2006ء میں امریکی سی آئی اے نے ان کے بارے میں ایک خفیہ رپورٹ کو ڈی کلاسیفائی کیا جو 1951ء میں تیار کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ مفتی امین الحسینی نے فروری 1951ء میں پاکستان کے شہر کراچی میں کشمیر پر منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کی جس کے بعد وہ آزاد کشمیر کے علاقے اوڑی گئے اور انہوں نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی۔ اسی دورے میں وہ جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا گئے اور وہاں کے قبائلی عمائدین سے ملاقات کی۔ ایک قبائلی رہنما نے مفتی امین الحسینی کو ایک سٹین گن کا تحفہ دیا جو اس نے 1948ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج سے چھینی تھی۔ مفتی صاحب نے وزیر قبائل سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کا حصہ نہ بنیں۔ امریکی سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے مفتی صاحب کابل گئے اور انہوں نے بیت المقدس کے امام کی حیثیت سے افغان حکومت سے اپیل کی کہ وہ ’’پشتونستان‘‘ کی سازش کا حصہ نہ بنیں۔
ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد مجھے ایک بزرگ فلسطینی ملا اور اس نے کہا کہ وہ بہت سوچتا تھا کہ مفتی اعظم فلسطین کو اتنی دور پاکستان جانے کی کیا ضرورت تھی اور کشمیریوں کی اتنی فکر کیوں تھی لیکن آج ایک پاکستانی کو ان کی قبر پر دیکھ کر سمجھ آئی کہ پاکستانیوں کو فلسطینیوں کے لئے اتنی پریشانی کیوں لاحق رہتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے تحریک پاکستان کے ساتھ ساتھ فلسطین اور کشمیر کیلئے تحریکوں میں بھی دل وجان سے حصہ لیا اس لئے عام پاکستانی فلسطین اور کشمیر کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے 3 جولائی 1937ء کو اپنے ایک تفصیلی بیان میں کہا تھا کہ عربوں کو چاہئے کہ اپنے قومی مسائل پر غوروفکر کرتے وقت اپنے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ بادشاہ اپنے ضمیروایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے۔ قائد اعظم ؒنے 15 ستمبر 1937ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنؤمیں مسئلہ فلسطین پر تقریر کرتے ہوئے برطانیہ کو دغا باز قرار دیا۔
اس اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ تمام مسلم ممالک سے درخواست کی ��ئی کہ وہ بیت المقدس کو غیر مسلموں کے قبضے سے بچانے کیلئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔ پھر 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں بھی مسئلہ فلسطین پر ایک قرار داد منظور کی گئی۔ میں ان حقائق کو ان صاحبان کی توجہ کیلئے بیان کر رہا ہوں جو دعویٰ کیا کرتے تھے کہ قیام پاکستان تو دراصل انگریزوں کی سازش تھی اور قائد اعظم ؒنے 23 مارچ کی قرارداد انگریزوں سے تیار کرائی۔ ۔اگر قائداعظم ؒ انگریزوں کے ایجنٹ تھے تو انگریزوں کے دشمن مفتی امین الحسینی سے خط وکتابت کیوں کرتے تھے اور اسرائیل کے قیام کیلئے برطانوی سازشوں کی مخالفت کیوں کرتے رہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ برطانوی سازشوں کے نتیجے میں قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو امریکہ کے بعد اگر کسی ملک کی سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے تو وہ بھارت ہے۔ آج بھارت میں مسلمانوں کےساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا اور اس ظلم وستم کا ردعمل حماس کے حملے کی صورت میں سامنے آیا۔ علامہ اقبال ؒ نے فلسطینیوں کو بہت پہلے بتا دیا تھا کہ
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
فیض احمد فیض نے تو فلسطین کی تحریک آزادی میں اپنے قلم کے ذریعہ حصہ لیا اور 1980ء میں بیروت میں یہ اشعار کہے۔
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطیں کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد
ابن انشاء نے ’’دیوار گریہ‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں عرب بادشاہوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا
وہ تو فوجوں کے اڈے بنایا کریں آپ رونق حرم کی بڑھایا کریں
ایک دیوار گریہ بنائیں کہیں جس پر مل کے یہ آنسو بہائیں کہیں
اور حبیب جالب بھی کسی سے پیچھے نہ رہے انہوں نے فلسطینی مجاہدین کو کعبے کے پاسبان قرار دیتے ہوئے ان کے مخالفین کے بارے میں کہا۔
ان سامراجیوں کی ہاں میں جو ہاں ملائے وہ بھی ہے اپنا دشمن، بچ کے نہ جانے پائے
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes
·
View notes
Text
ھمارا پھر سے جھگڑا ہوا اور میں ہمیشہ کی طرح اپنا بچہ اٹھا کر اپنے میکے چلی ائی دو دن بعد مجھے خبر ملی کہ میرے شوہر ہسپتال میں ہیں میرے گھر والوں نے مشورہ دیا کہ مجھے انہیں دیکھنے جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ میری بہنوں کا کہنا تھا کہ یہ سب ڈرامہ ہے تمہیں ایموشنلی بلیک میل کرنے کیلئے وہ ایک ہفتہ ہسپتال میں رھے نہ میں ملنے گئی اور نہ ہی کال کی کچھ دنوں کی بعد مجھے طلاق کا سامان ملا مجھے طلاق نہیں چاہیے تھی مجھے اپنے شوہر سے محبت تھی میں اپنا گھر خراب نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن میری انا اڑے ا رہی تھی مجھے لگا کہ طلاق معنہ کر کے میں نیچی ھو جاو گی میں نے انہیں کال کی کہ جب چاہیں طلاق لے لیں میں بھی اس جہنم میں نہیں رہنا چاہتی کورٹ نے ہمارا کیس اسانی سے نمٹ گیا میرے شوہر نے میری ساری ڈیمانڈز بچے کی کسٹڈی اور خرچہ دینا قبول کر لیا ان کا کہنا تھا کہ وہ میری سب باتیں ماننے کے لیے تیار ہیں آنھیں صرف طلاق چاہیے اس طرح میری طلاق ہو گئی میرے شوہر نے کچھ عرصے بعد دوسری شادی کر لی آنکے بچے بھی ہو گئے لیکن میرے بچے سے ملنے اکثر اتے ہیں اس کی ہر ضرورت کا خیال کرتے ہیں بچے کا خرچہ بھی مجھے پابندی سے ملتا ہےبلکہ میرا گزارا بھی انہیں پیسوں سے ہوتا ہے میں اپنے بچے کے ساتھ میکے میں رہتی ہوں میرے تمام بہن بھائیوں اپنی اپنی زندگی میں خوش میری وہ بہنیں ہے جو فون کر کے میرے شوہر کو باتیں سنایا کرتی تھی وہ اب مجھے غلط الزام ٹھہراتی ہیں مجھے اب احساس ہوتا ہے کہ میں اپنی شادی بچا سکتی تھی اگر میں نے ہر بات میں دوسروں کو نہ انوالو کیا ہوتا کبھی کبھی ہمارے خیر خواہ ہی ہمیں ڈبوتے ہیں میں ابھی بھی یہ نہیں کہہ رہی کہ میرے شوہر یا میری غلط ہی نہیں تھی لیکن ہمارے جھگڑے اتنے بڑے نہیں تھے جن کی وجہ سے طلاق لے جاتی یہ میری درخواست سارے کپل سے کہ جہاں تک ہو سکے اپنے معاملے خود نمٹائیں اپ کا خود سے بڑھ کر کوئی خیر خوا نہیں
5 notes
·
View notes
Text
چینی صدر کی امریکی ہم منصب سے ملاقات،نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ کام کیلئے تیار ہیں:چین
(24 نیوز)چین اور امریکا کے منجمد تعلقات میں بہتری آنے لگی،چینی صدر شی جن پنگ اور امریکی صدر بائیڈن کے درمیان اہم ملاقات،چینی صدر نے کہا ہے کہ اختلافات ایک طرف رکھ کر امریکا سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق چینی صدر شی چن پنگ اور امریکی صدر جوبائیڈن کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں مختلف امور پر تبادلہ خیالات کیا گیا ہے۔ ضرورپڑھیں:پنجاب حکومت نے مصنوعی بارش کیلئے تیاریاں مکمل…
0 notes
Text
کھانسنے اور چھینکنے سے بیماریوں کا پتا لگانے والا اے آئی ٹول تیار
(ویب ڈیسک) انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کمپنی گوگل کے ماہرین نے کھانسنے، چھینکنے، بولنے اور سانس لینے سے بیماریوں کا پتا لگانے والے آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹول تیار کرلیا۔ کمپنی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق گوگل کے ماہرین نے تیارکردہ اے آئی ٹولز کو پہلے 30 لاکھ کھانسی کی مختلف آوازوں، چھینکنے اور سانس لینے سمیت بولنے کی آوازوں کو پہنچاننے کی تربیت دی اور بعد ازاں اس پر آزمائش کی۔ ماہرین…
0 notes
Text
بیگم تیار رہنا میرے بچپن کا دوست فزیوتھراپسٹ ہے ۔ میں نے اس سے تمھارے عرق النساء کے درد کا ذکر کیا تو اس نے کہا کہ وہ کچھ فزیوتھراپی کے سیشنز میں مسئلہ حل کر دے گا۔ وہ رات 08:00 بجے آئے گا۔
اسی رات شوہر کو محکمہ کے طرف سے اچانک 3 مہینے کے لیے ملک سے باہر بھیج دیا گیا۔
اور پھر تینوں مہینے دوست نے آ کر اپنے دوست کی بیوی کی پلنگ توڑ فزیوتھراپی کرکے سارا مسئلہ حل کردیا۔۔۔
3 notes
·
View notes
Text
واٹس ایپ میں بڑی تبدیلی کیلئے ہو جائیں تیار
واٹس ایپ صارفین اب بڑی تبدیلی کیلئے تیار ہو جائے جو صارفین کیلئے جلد اپ ڈیٹ کی جائے گی ۔ واٹس ایپ میں تبیدلی کے بعد ایپ کو فون نمبر شیئر کیے بغیر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ بیشتر افراد واٹس ایپ میں اجنبیوں کو نمبر دینے سے اجتناب برتے ہیں۔ کیونکہ اس نمبر کو اشتہارات سمیت مختلف مقاصد کے لیے ان کی اجازت کے بغیر استعمال کیا جائے گا۔ واٹس ایپ کی ��انب سے فیچر متعارف کرایا جا رہا ہے جو فون نمبر کے بغیر…
0 notes
Text
آرون گروپس: ایک جدید کاروباری انقلاب
آرون گروپس ایک ایسا نام ہے جو آج کل دنیا بھر میں کاروباری دنیا میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ یہ کمپنی نہ صرف ایک طاقتور اور مستحکم کاروباری ماڈل پیش کرتی ہے بلکہ اپنے صارفین کو جدید ترین تکنیکی سہولیات اور بہترین کسٹمر سروس بھی فراہم کرتی ہے۔ اس مضمون میں، ہم آرون گروپس کی تاریخ، اس کے کاروباری ماڈل، اور اس کی کامیابی کے رازوں پر تفصیلی نظر ڈالیں گے۔
آرون گروپس کا تعارف
آرون گروپس ایک عالمی سطح کی کاروباری کمپنی ہے جو مختلف شعبوں میں خدمات فراہم کرتی ہے۔ یہ کمپنی مختلف مصنوعات اور خدمات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ آرون گروپس کی کامیابی کا راز اس کی بہترین کاروباری حکمت عملی، جدید ترین تکنیکی سہولیات، اور ماہرین کی ٹیم میں مضمر ہے۔
تاریخ اور پس منظر
آرون گروپس کی بنیاد 2010 میں رکھی گئی تھی۔ ابتدائی دنوں میں، کمپنی نے چھوٹے پیمانے پر کاروبار کا آغاز کیا۔ لیکن اپنے معیاری خدمات اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال کی بدولت، آرون گروپس نے بہت جلد ترقی کی منازل طے کیں۔ آج، آرون گروپس دنیا بھر میں مختلف ممالک میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے اور ہزاروں صارفین کو اپنی خدمات فراہم کر رہی ہے۔
کاروباری ماڈل
آرون گروپس کا کاروباری ماڈل متعدد شعبوں میں تقسیم ہے۔ اس کی بنیادی خدمات میں مالی مشاورت، ای کامرس، اور تکنیکی خدمات شامل ہیں۔ کمپنی کا مقصد اپنے صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرنا اور ان کی توقعات سے بڑھ کر کام کرنا ہے۔
مالی مشاورت: آرون گروپس مالی مشاورت کے شعبے میں بہترین خدمات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کی ماہر ٹیم مختلف مالی مسائل کا حل فراہم کرتی ہے اور صارفین کو بہترین سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتی ہے۔
ای کامرس: آرون گروپس کا ای کامرس سیکشن مختلف مصنوعات کی فروخت کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ یہ پلیٹ فارم صارفین کو بہترین مصنوعات اور خدمات فراہم کرتا ہے۔
تکنیکی خدمات: آرون گروپس تکنیکی خدمات کے شعبے میں بھی اپنی بہترین خدمات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کی ماہر ٹیم جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے صارفین کو بہترین تکنیکی حل فراہم کرتی ہے۔
آرون گروپس کی کامیابی کے راز
آرون گروپس کی کامیابی کے پیچھے کئی اہم عوامل کارفرما ہیں۔ ان عوامل میں بہترین کاروباری حکمت عملی، ماہرین کی ٹیم، اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے۔
بہترین کاروباری حکمت عملی: آرون گروپس کی کامیابی کا سب سے بڑا راز اس کی بہترین کاروباری حکمت عملی ہے۔ کمپنی نے مختلف شعبوں میں بہترین خدمات فراہم کرنے کے لئے مختلف حکمت عملی اپنائی ہیں۔
ماہرین کی ٹیم: آرون گروپس کی ٹیم میں مختلف شعبوں کے ماہرین شامل ہیں۔ یہ ماہرین اپنے تجربے اور مہارت کی بدولت کمپنی کو کامیابی کی راہ پر گامزن رکھتے ہیں۔
جدید ترین ٹیکنالوجی: آرون گروپس جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کے مختلف سیکشنز میں جدید ترین سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کا استعمال کیا جاتا ہے۔
آرون گروپس کی خدمات
آرون گروپس مختلف شعبوں میں اپنی خدمات فراہم کرتی ہے۔ ان خدمات میں مالی مشاورت، ای کامرس، تکنیکی خدمات، اور دیگر شعبے شامل ہیں۔
مالی مشاورت: آرون گروپس مالی مشاورت کے شعبے میں مختلف خدمات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کی ماہر ٹیم مختلف مالی مسائل کا حل فراہم کرتی ہے اور صارفین کو بہترین سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتی ہے۔
ای کامرس: آرون گروپس کا ای کامرس سیکشن مختلف مصنوعات کی فروخت کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ یہ پلیٹ فارم صارفین کو بہترین مصنوعات اور خدمات فراہم کرتا ہے۔
تکنیکی خدمات: آرون گروپس تکنیکی خدمات کے شعبے میں بھی اپنی بہترین خدمات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کی ماہر ٹیم جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے صارفین کو بہترین تکنیکی حل فراہم کرتی ہے۔
تربیت اور ترقی: آرون گروپس اپنے ملازمین کی تربیت اور ترقی پر خصوصی توجہ دیتی ہے۔ کمپنی مختلف تربیتی پروگرامز کے ذریعے اپنے ملازمین کی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہے اور ان کو نئے چیلنجز کے لئے تیار کرتی ہے۔
آرون گروپس کا مشن اور وژن
آرون گروپس کا مشن اور وژن کمپنی کی کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ کمپنی کا مشن بہترین خدمات فراہم کرنا اور صارفین کی توقعات پر پورا اترنا ہے۔ کمپنی کا وژن مستقبل میں ایک عالمی سطح کی کاروباری کمپنی بننا ہے۔
مشن: آرون گروپس کا مشن اپنے صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرنا اور ان کی توقعات سے بڑھ کر کام کرنا ہے۔
وژن: آرون گروپس کا وژن مستقبل میں ایک عالمی سطح کی کاروباری کمپنی بننا ہے۔ کمپنی کا مقصد جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مختلف شعبوں میں بہترین خدمات فراہم کرنا ہے۔
آرون گروپس کی سوشل رسپانس بلٹی
آرون گروپس اپنی سوشل رسپانس بلٹی پر خصوصی توجہ دیتی ہے۔ کمپنی مختلف سماجی منصوبوں میں حصہ لیتی ہے اور مختلف کمیونٹیز کی بہتری کے لئے کام کرتی ہے۔ کمپنی کے مختلف سوشل رسپانس بلٹی منصوبے درج ذیل ہیں:
تعلیم: آرون گروپس مختلف تعلیمی منصوبوں میں حصہ لیتی ہے۔ کمپنی مختلف سکولوں اور کالجز کو مالی معاونت فراہم کرتی ہے اور تعلیم کی بہتری کے لئے کام کرتی ہے۔
صحت: آرون گروپس مختلف صحت کے منصوبوں میں حصہ لیتی ہے۔ کمپنی مختلف ہسپتالوں اور کلینکس کو مالی معاونت فراہم کرتی ہے اور صحت کی بہتری کے لئے کام کرتی ہے۔
ماحولیات: آرون گروپس مختلف ماحولیات کے منصوبوں میں حصہ لیتی ہے۔ کمپنی مختلف ماحولیاتی منصوبوں کو مالی معاونت فراہم کرتی ہے اور ماحول کی بہتری کے لئے کام کرتی ہے۔
آرون گروپس کا مستقبل
آرون گروپس کا مستقبل بہت روشن ہے۔ کمپنی کی بہترین کاروباری حکمت عملی، ماہرین کی ٹیم، اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے، آرون گروپس مستقبل میں بھی کامیابی کی راہ پر گامزن رہے گی۔ کمپنی کا مقصد مختلف شعبوں میں بہترین خدمات فراہم کرنا اور عالمی سطح پر ایک ممتاز مقام حاصل کرنا ہے۔
آرون گروپس نے اپنی بہترین خدمات اور کاروباری حکمت عملی کی بدولت آج کل دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ کمپنی کی کامیابی کے پیچھے مختلف عوامل کارفرما ہیں، جن میں بہترین کاروباری حکمت عملی، ماہرین کی ٹیم، اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے۔ آرون گروپس کا مستقبل بہت روشن ہے اور کمپنی مختلف شعبوں میں اپنی بہترین خدمات فراہم کرنے کے لئے پر عزم ہے۔
آرون گروپس کا مستقبل کی راہیں مزید کامیابی کی جانب گامزن ہیں۔ کمپنی کے کاروباری منصوبے اور اس کی سوشل رسپانس بلٹی اسے ایک ممتاز مقام پر فائز کرتے ہیں۔ آرون گروپس کا مقصد نہ صرف اپنے صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرنا ہے بلکہ معاشرتی بہتری میں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
کاروباری حکمت عملی اور ٹیکنالوجی
آرون گروپس کی کاروباری حکمت عملی جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ہے۔ کمپنی کا مقصد جدید ترین تکنیکی حل فراہم کرنا اور اپنے صارفین کو بہترین تجربہ فراہم کرنا ہے۔ آرون گروپس کی ماہر ٹیم مستقل طور پر جدید ٹیکنالوجی کا جائزہ لیتی ہے اور ان کو اپنے کاروباری منصوبوں میں شامل کرتی ہے۔
جدید سافٹ ویئر: آرون گروپس جدید سافٹ ویئر کا استعمال کرتی ہے تاکہ صارفین کو بہترین خدمات فراہم کی جا سکیں۔ یہ سافٹ ویئر مختلف کاروباری عملوں کو خودکار بناتے ہیں اور کارکردگی میں بہتری لاتے ہیں۔
کلاؤڈ کمپیوٹنگ: آرون گروپس کلاؤڈ کمپیوٹنگ کا استعمال کرتی ہے تاکہ ڈیٹا کو محفوظ اور موثر طریقے سے منظم کیا جا سکے۔ یہ تکنیک کمپنی کو مختلف جگہوں پر اپنے ڈیٹا کو فوری رسائی فراہم کرتی ہے۔
مصنوعی ذہانت: آرون گروپس مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتی ہے تاکہ کاروباری عملوں کو بہتر بنایا جا سکے۔ یہ تکنیک مختلف کاروباری مسائل کے حل میں مدد کرتی ہے اور کارکردگی میں بہتری لاتی ہے۔
آرون گروپس کے کاروباری پارٹنرز
آرون گروپس نے مختلف شعبوں میں بہترین کاروباری پارٹنرز کے ساتھ معاہدے کیے ہیں۔ یہ پارٹنرشپ کمپنی کو مزید ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے اور بہترین خدمات فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
مالیاتی ادارے: آرون گروپس نے مختلف مالیاتی اداروں کے ساتھ پارٹنرشپ کی ہے تاکہ صارفین کو بہترین مالی مشاورت فراہم کی جا سکے۔
تکنیکی کمپنیز: آرون گروپس نے مختلف تکنیکی کمپنیز کے ساتھ پارٹنرشپ کی ہے تاکہ جدید ترین تکنیکی حل فراہم کیے جا سکیں۔
تعلیمی ادارے: آرون گروپس نے مختلف تعلیمی اداروں کے ساتھ پارٹنرشپ کی ہے تاکہ تعلیم کی بہتری کے لئے کام کیا جا سکے۔
صارفین کی توقعات اور آرون گروپس
آرون گروپس اپنے صارفین کی توقعات پر پورا اترنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتی ہے۔ کمپنی کا مقصد صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرنا اور ان کی توقعات سے بڑھ کر کام کرنا ہے۔ آرون گروپس نے اپنی خدمات میں مختلف اصلاحات کی ہیں تاکہ صارفین کو بہترین تجربہ فراہم کیا جا سکے۔
بہترین کسٹمر سروس: آرون گروپس بہترین کسٹمر سروس فراہم کرتی ہے تاکہ صارفین کو کسی بھی مسئلے کا فوری حل فراہم کیا جا سکے۔
معیاری خدمات: آرون گروپس معیاری خدمات فراہم کرتی ہے تاکہ صارفین کو بہترین تجربہ فراہم کیا جا سکے۔
جدید تکنیکی سہولیات: آرون گروپس جدید تکنیکی سہولیات فراہم کرتی ہے تاکہ صارفین کو بہترین تکنیکی حل فراہم کیا جا سکے۔
نتیجہ
آرون گروپس ایک ممتاز اور کامیاب کاروباری کمپنی ہے جو مختلف شعبوں میں بہترین خدمات فراہم کرتی ہے۔ کمپنی کی بہترین کاروباری حکمت عملی، ماہرین کی ٹیم، اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال اس کی کامیابی کے پیچھے بنیادی عوامل ہیں۔ آرون گروپس کا مستقبل بہت روشن ہے اور کمپنی مختلف شعبوں میں اپنی بہترین خدمات فراہم کرنے کے لئے پر عزم ہے۔
آرون گروپس کا مشن اور وژن کمپنی کو ایک عالمی سطح کی کاروباری کمپنی بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کمپنی کی سوشل رسپانس بلٹی اور مختلف سماجی منصوبے اس کی بہترین خدمات کا مظہر ہیں۔ آرون گروپس کا مقصد نہ صرف اپنے صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرنا ہے بلکہ معاشرتی بہتری میں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
آرون گروپس کی کامیابی کے پیچھے مختلف عوامل کارفرما ہیں جن میں بہترین کاروباری حکمت عملی، ماہرین کی ٹیم، اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے۔ آرون گروپس کا مستقبل بہت روشن ہے اور کمپنی مختلف شعبوں میں اپنی بہترین خدمات فراہم کرنے کے لئے پر عزم ہے۔
Website: https://www.gostaresh.news/
2 notes
·
View notes