#الاقوامی
Explore tagged Tumblr posts
Text
آسٹریلوی بیٹر میتھیو ویڈ نے بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا
کینبرا(ڈیلی پاکستان آن لائن)آسٹریلوی وکٹ کیپر بیٹر میتھیو ویڈ نے بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا اور اب پاکستان کیخلاف سیریز کیلئے انہیں کوچ بنایا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق رواں برس جون میں ٹی20 ورلڈکپ میں کینگروز کی نمائندگی کرنیوالے میتھیو ویڈ آسٹریلوی سکواڈ کا حصہ تھے تاہم ستمبر میں انگلینڈ کے دورے سے نظر انداز کیے جانے کے بعد انہیں ڈراپ کردیا گیا تھا۔متھیو ویڈ مارچ میں تسمانیہ کے…
0 notes
Text
پاکستان میں صحت کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوگی
(24 نیوز) پاکستان میں پائیدار صحت کے نظام اور بہتری کے لیے کوششیں جاری ہیں،جس کیلئے ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس بروز منگل 8 اکتوبر 2024 کو کامسٹیک، اسلام آباد میں منعقد ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق یہ کانفرنس پاکستان میں پبلک ہیلتھ کے محنتی کارکنوں کے نام کی گئی ہے اور اسے امریکہ کے معروف تھنک ٹینک، مین ہٹن اسٹریٹیجی گروپ نے اپنے شراکت دار اداروں کے ساتھ مل کر منعقد کیا ہے۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر…
0 notes
Text
چین نے بین الاقوامی سمندری حدود میں ہمارے غوطہ خوروں پر ’ سونر پلسز‘ کا استعمال کیا، آسٹریلیا کا الزام
آسٹریلیا نے الزام لگایا ہے کہ چین کی بحریہ نے بین الاقوامی پانیوں میں ہونے والے ایک واقعے میں ’سونر پلسز‘استعمال کیں جس کے نتیجے میں آسٹریلوی غوطہ خور زخمی ہوئے۔ آسٹریلیا کے وزیر دفاع نے کہا کہ ایک چینی جنگی جہاز نے اس ہفتے کے اوائل میں جاپان سے تصادم کے دوران “غیر محفوظ اور غیر پیشہ ورانہ” اقدامات کا سہارا لیا۔ انہوں نے کہا کہ جنگی جہاز ایک آسٹریلوی فریگیٹ کے قریب پہنچا جب غوطہ خور اس کے پروپیلر…
View On WordPress
0 notes
Text
ترکیہ اسرائیل تجارتی تعلقات منقطع
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر ترکیہ کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ سوویت یونین کے خطرے نے ترکیہ کو مغربی بلاک کے بہت قریب کر دیا اور اس دوران ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت کی اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ ترکیہ نے 14 مئی 1948 کو قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا اور’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ترکیہ نے 1948-1949 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا، جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد 24 مارچ 1949 کو ترکیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا اور ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کی بنیادیں اس دور میں رکھی گئیں۔ ایردوان کے دور میں کئی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بڑے پیمانے پر کشیدگی بھی دیکھی گئی اور دونوں ممالک نےکئی بار سفیر کی سطح کے تعلقات کو نچلی سطح پر جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران ترکیہ پر اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا جس پر ترکیہ نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ ترکیہ اس وقت تک غزہ کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
گزشتہ ہفتے نماز جمعہ کے بعد صدر ایردوان نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اس وقت 9.5 بلین ڈالر کا تجارتی حجم موجود ہے۔ اس سے اگرچہ ترکیہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ منفی اثرات غزہ پر معصوم انسانوں کی نسل کشی کے سامنے ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس طرح ترکیہ نے پہلی بار اسرائیل پر تجارتی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکیہ کی وزارتِ تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا اسرائیل کیلئے 54 مختلف کٹیگریز سے مصنوعات کی برآمدات پر پابندی ہو گی اور پابندی کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔ ترکیہ کا یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ایئر ڈراپ یعنی فضا کے ذریعے امداد میں حصہ لینے کی ترکیہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکیہ کے شماریاتی ادارے (TUIK) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات 5.2 بلین ڈالر تھیں، اور اسرائیل سے اس کی درآمدات 1.6 بلین ڈالر تھیں۔ اس ایک سال کی مدت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 6.8 بلین ڈالر تھا اور ترکیہ، اسرائیل کے ساتھ اپنی برآمدات کی فہرست میں 13 ویں نمبر پر ہے۔
اسرائیل پر لگائی جانے والی تجارتی پابندیوں کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود وہ جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے اب تک کسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ پوری امت کا فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دفاع کیلئے صف بندی کرے۔ یہ ہمارا امتحان ہے ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دکھانا چاہیے کہ اسلامی دنیا سفارتی ذرائع سے اور جب ضروری ہو، زبردستی اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا کے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان لڑائی ہے۔ وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ اگر ہم نے (غزہ میں) اس سانحے سے سبق نہ سیکھا اور دو ریاستی حل کی طرف گامزن نہ ہوئے تو یہ غزہ کی آخری جنگ نہیں ہو گی بلکہ مزید جنگیں اور آنسو ہمارے منتظر ہوں گے۔ ہمیں اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔
حماس سمیت تمام فلسطینی 1967 کی بنیاد پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے دو ریاستی حل کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور عالم اسلام اب فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ یکم مئی کو ترکیہ نے جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ تمام ممکنہ سفارتی ذرائع استعمال کرے گا اور اسرائیل کو روکنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کے حوالے سے انقرہ میں فلسطینی سفیر مصطفیٰ نے کہا کہ ترکی کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی ریاست پر اثر انداز ہونے کی جانب ایک عملی قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ ترکیہ نے یہ فیصلہ 9 اپریل تک غزہ کو ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی امداد بھیجنے کی کوشش کو روکنے کے بعد کیا تھا اور 2 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے۔
اس فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد ہوتے رہنا چاہیے جب تک غزہ کیلئے انسانی امداد کی بلاتعطل رسائی کیاجازت نہ مل جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے وقت سے ہی غزہ کی پٹی میں فیلڈ ہسپتال تیار کررہا تھا اور ضروری سازو سامان العریش ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پہنچادیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے ان آلات کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اور ترکی کو فیلڈ ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ غزہ کی پٹی میں قائم واحد کینسر ہسپتال، جسے ترکیہ نے قائم کیا کیا تھا، کو بھی تباہ کر دیا ۔
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
اسرائیل دنیا کو اپنے خلاف کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے
ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ آگے کیا ہو گا۔ اسرائیل کو لگتا ہے کہ اس کے پاس مغرب کی طرف سے چار ہزار سے زائد بچوں سمیت ہزاروں فلسطینی شہریوں کو مارنے کے لیے مطلوبہ مینڈیٹ ہے۔ گنجان پناہ گزین کیمپوں پر گرائے گئے ایک ٹن وزنی مہیب بم اور ایمبولینسوں، سکولوں اور ہسپتالوں پر فضائی حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسے حماس کی طرح عام شہریوں کی اموات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اسرائیل مہذب دنیا کی نظروں میں خود کو بدنام کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ غزہ کے قتلِ عام سے پہلے بن یامین نتن یاہو کے فاشسٹوں اور بنیاد پرستوں کے ٹولے کے ذریعے اسرائیل کے عدالتی اداروں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس نے امریکی لابی گروپ اے آئی پی اے سی کے پے رول پر موجود سیاست دانوں کی جانب سے اسرائیل کے جمہوری ملک ہونے اور اخلاقی طور پر برتر اور ترقی یافتہ ملک ہونے کے برسوں سے کیے جانے والے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ پچھلی دہائیوں میں، واحد بین الاقوامی آواز جو اہمیت رکھتی تھی وہ واشنگٹن کی تھی، جس میں یورپی اتحادی ہمنوا کی حیثیت سے ساتھ ساتھ تھے۔ لیکن 2020 کی کثیرالجہتی دہائی میں ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں ابھرتی ہوئی طاقتیں اسرائیل کی مذمت کرنے اور سفارتی تعلقات کو گھٹانے کے لیے قطار میں کھڑی ہیں۔
انصاف کے حامی بڑے حلقے غصے سے بھڑک اٹھے ہیں، یہاں تک کہ مغربی دنیا میں بھی۔ مسلمانوں، عربوں اور ترقی پسند رحجان رکھنے والے یہودیوں کے انتخابی لحاظ سے اہم طبقوں کے ساتھ ساتھ، یونیورسٹیاں نوجوانوں کی سیاست زدہ نسل سے فلسطین کی حامی سرگرمیوں کے لیے اہم مراکز بن گئی ہیں۔ جب دنیا بھر میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں، برطانیہ کی وزیر داخلہ بریورمین جیسے دائیں بازو کے کارکن فلسطینیوں کے حامی مظاہروں کو مجرمانہ بنانے کے لیے شہری آزادیوں پر غصے سے کریک ڈاؤن کر رہے ہیں، جسے وہ ’نفرت مارچ‘ کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ وہ دور لد چکا جب اسرائیل کی حامی لابیوں نے بیانیے کو قابو میں کر رکھا تھا۔ سوشل میڈیا کی خوفناک تصاویر مظالم کو ریئل ٹائم میں سب کو دکھا رہی ہیں، جبکہ دونوں فریق بیک وقت ہمیں غلط معلومات اور پروپیگنڈے کے ذریعے بہکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ماحول میں مذہب پر مبنی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلاموفوبیا پر مبنی حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عمر رسیدہ امریکی سیاست دان ایک مٹتے ہوئے اسرائیل نواز اتفاقِ رائے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خاص طور پر مشی گن جیسی اہم ’سوئنگ‘ ریاستوں میں بڑی مسلم، عرب اور افریقی نژاد امریکی کمیونٹیز بائیڈن کی اسرائیل کی پالیسی کے خلاف ہو رہی ہیں۔
اوباما نے اپنے جانشینوں کو خبردار کیا ہے، ’اگر آپ مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو پوری سچائی کو اپنانا ہو گا۔ اور پھر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی کے ہاتھ صاف نہیں ہیں، بلکہ ہم سب اس میں شریک ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا، ’اسرائیلی فوجی حکمت عملی جو انسانی جانوں کی اہیمت کو نظر انداز کرتی ہے بالآخر الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس موجودہ تباہی کے بعد بائیڈن کے پاس مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی کو فوری طور پر بحال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اپنے فلسطین کے حامی ترقی پسند ونگ کی طرف خاصا رجحان رکھتی ہے، جسے ایسے لوگوں کی وسیع بنیاد پر حمایت حاصل ہے جو آج غزہ کے قتل عام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان ترقی پسندوں کو ایک دن قانون سازی کی مطلوبہ طاقت حاصل کرنے کے بعد اسرائیل کی فوجی امداد کے لیے کانگریس کے بلوں کو ویٹو کرنے میں کچھ پریشانی ہو گی۔ اسی قسم کا تناؤ یورپ بھر میں بھی چل رہا ہے۔ آئرلینڈ اور سپین واضح طور پر فلسطینیوں کے حامی ہیں، جب کہ ارسلا فان ڈیر لیین اور رشی سونک جیسی شخصیات اسرائیل کی حمایت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے بےچین ہیں۔
فرانس اور جرمنی جیسی بڑی عرب اور مسلم آبادی والے ملک اپنی سیاسی بیان بازی کو اعتدال پر لانے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل نے بین الاقوامی بائیکاٹ کی تحریکوں کے خلاف بھرپور طریقے سے جنگ لڑی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ دشمنوں سے گھرے ہوئے اسرائیل کے لیے عالمی اقتصادی تنہائی کتنی تباہ کن ثابت ہو گی۔ غزہ کے باسیوں کی تسلی کے لیے اس طرح کے رجحانات بہت دور کی بات ہیں، لیکن ان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آنے والے برسوں میں فلسطین تنازع اس��ائیل کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی کے تناظر میں سامنے آئے گا۔ بین الاقوامی بار ایسوسی ایشن سمیت عالمی اداروں کے تمام حصوں نے بھرپور طریقے سے جنگ بندی کی وکالت کی ہے، اور اسرائیل کو انسانی حقوق کی عالمی ذمہ داریوں سے استثنیٰ نہ دینے پر زور دیا ہے۔ سات اکتوبر کو حماس کا حملہ اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑا نفسیاتی دھچکہ تھا، جس نے بالآخر اسے یہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جب تک وہ امن کی کوششوں کو مسترد کرتا رہے گا، اس کے وجود کو خطرات کا سامنا رہے گا۔ اس جیسے چھوٹے سے ملک میں بڑی تعداد میں لوگوں کو جنوبی اور شمالی اسرائیل کے بڑے علاقوں اور دیگر غیر محفوظ علاقوں سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے، کچھ کو شاید مستقل طور پر، لیکن آبادی کے بڑے مراکز اب بھی حزب اللہ اور اسلامی جہاد کے راکٹوں کی آسانی سے پہنچ میں ہیں۔
نتن یاہو جیسے امن کو مسترد کرنے والوں کی ایک دوسرے سے ملتی جلتی کارروائیاں ہیں جنہوں نے امن کی میز پر فریقین کی واپسی کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں معاشروں میں اوسلو معاہدے کے برسوں سے سرگرم امن کیمپوں کو دوبارہ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو انصاف، امن اور مفاہمت کے لیے مہم چلا سکیں۔ اسرائیل کی انتقامی پیاس نے انتہا پسند کیمپ کو طاقت بخشی ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ غزہ کی فوجی مہم فلسطین کو عربوں سے پاک کرنے کے لیے بہترین دھواں دھار موقع پیش کرتی ہے۔ اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ گیورا آئلینڈ نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ’ایسے حالات پیدا کرے جہاں غزہ میں زندگی غیر پائیدار ہو جائے۔ ایسی جگہ جہاں کوئی انسان موجود نہ ہو‘ تاکہ غزہ کی پوری آبادی یا تو مصر چلی جائے، یا پھر مصر منتقل ہو جائے۔ ‘نتن یاہو مصر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ غزہ کے لوگوں کے صحرائے سینا کی طرف ’عارضی‘ انخلا کو قبول کرے، جبکہ دوسری طرف وہ محصور آبادی کو بھوک سے مرنے اور کچلنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ فلسطینی صرف اتنا چاہتے ہیں کہ دنیا ان کی حالتِ زار کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھے۔
فلسطین کی حمایت اور حماس کی حمایت ایک برابر نہیں ہیں۔ بلاروک ٹوک مغربی پشت پناہی نے اسرائیل کو یہ باور کروایا ہے کہ اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، جو نہ صرف مقبوضہ علاقوں میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی ان گنت قراردادوں اور عالمی نظام کے بنیادی اصولوں کو بھی زک پہنچا رہا ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں ایک مختصر دورانیے میں غزہ میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے 72 عملے کی اموات ایک ریکارڈ ہے، جب کہ الٹا اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل پر ’خون کی توہین‘ اور ’دہشت گردی کی کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے‘ کا الزام لگایا ہے۔ اسرائیلی سمجھتے تھے کہ وقت ان کے ساتھ ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ عرب ریاستیں دلچسپی کھو رہی ہیں، فلسطینی اپنے ��لاقوں کے ہر سال بڑھتے ہوئے نقصان پر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور تھے، اور یہ سوچ تھی کہ جب 1947 اور 1967 کی نسلیں ختم ہو جائیں تو کیا ان کے ساتھ ہی قوم پرستانہ جذبات بھی فنا نہیں ہو جائیں گے؟ اس کے بجائے، نئی فلسطینی نسل اور ان کے عالمی حامی پہلے سے زیادہ پرجوش، پرعزم اور سیاسی طور پر مصروف ہیں۔ اور معقول طور پر، کیونکہ تمام تر مشکلات اور خونریزی کے باوجود ناقابل تسخیر عالمی رجحانات اس بات کی علامت ہیں کہ وقت، انصاف اور آخرِ کار تاریخ ان کے ساتھ ہے۔
اس طرح سوال یہ بنتا ہے کہ کتنی جلد کوتاہ اندیش اسرائیلی امن کے لیے ضروری سمجھوتوں کی وکالت شروع کر دیتے ہیں، کیوں کہ اسرائیل کو لاحق دفاعی خطرات بڑھ رہے ہیں اور ان کی ریاست کی جغرافیائی سیاسی طاقت ختم ہو رہی ہے۔
بارعہ علم الدین
نوٹ: کالم نگار بارعہ عالم الدین مشرق وسطیٰ اور برطانیہ میں ایوارڈ یافتہ صحافی اور براڈکاسٹر ہیں۔ وہ میڈیا سروسز سنڈیکیٹ کی مدیر ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes
·
View notes
Text
پاکستان کی سکیورٹی کے فیصلے قوم کرےگی،دفتر خارجہ
پاکستان نے فوجی عدالتوں سےشہریوں کوملنےوالی سزاؤں پربین الاقوامی ردعمل کو مسترد کرتے ہوئےکہاہےکہ پاکستان اپنےاندرونی مسائل کاحل جانتاہے،پاکستان کی سیکیورٹی کےفیصلےپاکستانی قوم کرے گی، کسی بیرونی مداخلت کی ضرورت نہیں۔ ترجمان دفترخارجہ ممتاززہرا بلوچ نےفوجی عدالتوں سےمتعلق یورپی یونین کے تحفظات پرردعمل دیتےہوئےکہا کہ پاکستان کےآئین اورعدالتوں میں اندرونی معاملات حل کرنے کی مکمل صلاحیت موجود…
0 notes
Text
انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ایف بی ایم کا جرمنی میں مظاہرہ
https://humgaam.net/?p=99861
جرمنی (ہمگام نیوز) انسانی حقوق کا دن ہر سال 10 دسمبر کو منایا جاتا ہے، جس دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1948 میں انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ منظور کیا تھا۔ اس دن کے موقع پر فری بلوچستان موومنٹ (FBM) جرمنی برانچ نے بلوچستان میں جاری بحران کو اجاگر اور غیر قانونی قبضے سے آزادی کے مطالبے کا اعادہ کرنے کے لیے جرمنی کے شہر ہنوفر کے مرکزی اسٹیشن کے سامنے ایک احجاجی مظاہرہ کیا ۔ احتجاج کے دوران جرمن زبان میں سینکڑوں پمفلٹ بھی تقسیم کیے گئے تاکہ جرمن عوام میں بلوچستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جا سکے۔
مظاہرین سے اشفاق بلوچ، خدا داد بلوچ، بیبگر بلوچ اور ممتاز بلوچ نے خطاب کیا جبکہ ماڈریٹر کی ذمہ داری نوید بلوچ نے سرانجام دی۔
مقررین نے کہا کہ بلوچ عوام اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ بلوچ کئی دہائیوں سے غیر انسانی سلوک کا شکار ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ بلوچ جدوجہد اور بلوچ مغوی افراد کے خاندانوں کا مسلسل احتجاج منظم جبر و تشدد کے خلاف بہادری اور مزاحمت کی علامت ہے۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بیبگر بلوچ نے کہا کہ فری بلوچستان موومنٹ نے آزادی کے حوالے سے اپنا موقف اپنایا ہے، چاہے وہ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان ہو یا ایرانی مقبوضہ بلوچستان۔ اور آزادی سے پہلے اور بعد کا روڈ میپ پیش کیا ہے، چاہے وہ بلوچستان لبریشن چارٹر کی شکل میں ہو یا ایران کے لیے جمہوری عبوری منصوبہ۔
اس کے علاوہ مقررین نے کہا کہ عالمی سطح پر بیداری پیدا کرنے اور پاکستان اور ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے لیے ضروری ہے کہ وہ بلوچستان میں ہونے والی زیادتیوں کی دستاویز اور تشہیر کریں۔ جامع اور تفصیلی رپورٹیں بین الاقوامی وکالت اور کارروائی کی بنیاد کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔
0 notes
Text
پہاڑوں کا عالمی دن: 11 دسمبر
New Post has been published on https://drashfaq.com/days/world-days-urdu/545/
پہاڑوں کا عالمی دن: 11 دسمبر
پہاڑوں کا عالمی دن: 11 دسمبر
پہاڑوں کا عالمی دن ہر سال 11 دسمبر کو منایا جاتا ہے تاکہ دنیا بھر میں پہاڑوں کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے اور ان کے تحفظ کے لئے شعور بیدار کیا جا سکے پہاڑ قدرتی خوبصورتی اور حیاتیاتی تنوع کی حامل ہوتے ہیں اور ہماری زمین کی صحت کے لئے نہایت اہم ہیں پہاڑوں کا عالمی دن کا مقصد اس دن کا بنیادی مقصد عوام میں پہاڑوں کی اہمیت کے بارے میں شعور بیدار کرنا ہے پہاڑوں کے تحفظ کے لئے مختلف اقدامات اور قوانین کو فروغ دینا اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانا بھی اس دن کا مقصد ہوتا ہے پہاڑوں کا عالمی دن کے مقاصد میں شامل ہیں شعور بیدار کرنا عوام میں پہاڑوں کی اہمیت کے بارے میں معلومات فراہم کرنا اور انہیں پہاڑوں کے تحفظ کے لئے اقدامات سے آگاہ کرنا حفاظتی اقدامات پہاڑوں کے حفاظتی اقدامات کو فروغ دینا اور انہیں بہتر بنانا تحقیق کی حمایت پہاڑوں کے مسائل کے حل کے لئے تحقیق کی حمایت کرنا اور نئے طریقے تلاش کرنا ماحولیاتی تحفظ پہاڑوں کے ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانا تاکہ حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھا جا سکے پہاڑوں کا عالمی دن کی تاریخ پہاڑوں کا عالمی دن سب سے پہلے 2003 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منایا اس دن کو منانے کا مقصد عوام میں پہاڑوں کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنا اور ان کے تحفظ کے لئے مختلف اقدامات کو فروغ دینا تھا اس دن کو مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے جیسے سیمینار کانفرنس اور مختلف پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں اس کے علاوہ میڈیا سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے بھی اس دن کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے پہاڑوں کا عالمی دن کے اہم پیغامات حفاظتی اقدامات پہاڑوں کے حفاظتی اقدامات کی اہمیت پر زور دینا اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانا تعلیم اور آگاہی لوگوں کو پہاڑوں کے فوائد کے بارے میں تعلیم دینا اور انہیں ان کے تحفظ کے اقدامات کے بارے میں آگاہ کرنا ماحولیاتی تحفظ پہاڑوں کے ماحولیاتی تحفظ کے لئے مختلف اقدامات کو فروغ دینا اور حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنا تحقیق اور ترقی پہاڑوں کے مسائل کے حل کے لئے تحقیق کی حمایت کرنا اور نئے طریقے تلاش کرنا پہاڑوں کی اہمیت پہاڑ دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں یہ قدرتی خوبصورتی کے حامل ہوتے ہیں اور ماحولیاتی تنوع کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں پہاڑوں کی اہمیت کے چند پہلو درج ذیل ہیں ماحولیاتی تحفظ پہاڑ ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بناتے ہیں یہ حیاتیاتی تنوع کے حامل ہوتے ہیں اور قدرتی وسائل کو محفوظ رکھتے ہیں سیاحت پہاڑ سیاحت کو فروغ دیتے ہیں لوگ پہاڑوں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے لئے دور دور سے آتے ہیں اور مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں جیسے ہائیکنگ کیمپنگ اور سکینگ پانی کی فراہمی پہاڑ پانی کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں پہاڑوں کی برف پگھل کر دریاوں اور جھیلوں کو پانی فراہم کرتی ہے جو انسانی زندگی اور زراعت کے لئے ضروری ہے حیاتیاتی تنوع پہاڑ حیاتیاتی تنوع کے حامل ہوتے ہیں یہ مختلف پودوں اور جانوروں کی اقسام کا مسکن ہوتے ہیں جو ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھتے ہیں پہاڑوں کے چیلنجز پہاڑوں کو مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی حفاظت میں رکاوٹ بن سکتے ہیں ان چیلنجز میں شامل ہیں ماحولیاتی تبدیلی ماحولیاتی تبدیلی پہاڑوں کی برف کو پگھلا رہی ہے جو پانی کی فراہمی کو متاثر کر سکتی ہے آلودگی پہاڑوں کی خوبصورتی کو آلودگی سے نقصان پہنچ سکتا ہے آلودگی کی وجہ سے پہاڑوں کے قدرتی وسائل کو نقصان پہنچتا ہے سیاحت کے مسائل غیر منظم سیاحت پہاڑوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے زیادہ تعداد میں لوگ آ کر پہاڑوں کی خوبصورتی کو خراب کر سکتے ہیں پہاڑوں کے تحفظ کے اقدامات پہاڑوں کے تحفظ کے لئے مختلف اقدامات اختیار کیے جا سکتے ہیں تاکہ اس مسئلے کو کم کیا جا سکے ان میں شامل ہیں حفاظتی قوانین پہاڑوں کے تحفظ کے لئے حفاظتی قوانین بنانا اور ان پر سختی سے عملدرآمد کرنا تعلیم اور آگاہی لوگوں کو پہاڑوں کی اہمیت اور ان کے تحفظ کے اقدامات کے بارے میں تعلیم دینا اور انہیں اس مسئلے کے خلاف جدوجہد کے لئے تیار کرنا ماحولیاتی اقدامات پہاڑوں کے ماحولیاتی تحفظ کے لئے مختلف اقدامات کو فروغ دینا اور حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنا بین الاقوامی تعاون پہاڑوں کے تحفظ کے لئے بین الاقوامی سطح پر تعاون کو فروغ دینا تاکہ مختلف ممالک مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کر سکیں نتائج پہاڑوں کا عالمی دن ہر سال 11 دسمبر کو منایا جاتا ہے تاکہ پہاڑوں کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے اور ان کے تحفظ کے لئے مختلف اقدامات کیے جا سکیں پہاڑوں کے تحفظ کے لئے حفاظتی اقدامات تعلیم ماحولیاتی تحفظ اور بین الاقوامی تعاون بہت اہم ہیں پہاڑوں کی حفاظت کے لئے مضبوط قوانین بنانا عوامی شعور بیدار کرنا اور ماحولیاتی اقدامات کو فروغ دینا بہت ضروری ہے
#Biodiversity#Climate Change#Ecosystem Balance#Environmental Awareness#Environmental Education#Environmental Protection#Green Initiatives#International Mountain Day#Mountain Awareness#Mountain Conservation#Mountain Ecosystems#Mountain Habitats#Mountain Preservation#Mountain Protection#Mountain Tourism#Natural Beauty#Natural Habitats#Sustainable Living#Sustainable Practices#World Days Urdu
0 notes
Text
چمپیئنز ٹرافی : میچ صرف پاکستان میں ہو گا
چمپیئنز ٹرافی کے لیے بھارت نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا ہے۔ کرکٹ کے بارے میں میری رائے سب کے سامنے ہے اور اس پر کچھ لکھنا وقت کا زیاں ہے تاہم بھارت کے یہاں نہ آنے کا تعلق کھیل سے نہیں ہے، اس کا تعلق پاکستان سے ہے۔ یہ پاکستان کے خلاف سفارتی اور معاشی جارحیت ہے، اس لیے اس پر بات ہونی چاہیے۔ بھارت پاکستان میں کرکٹ کیوں نہیں کھیل سکتا؟ اس کے جواب میں بھارت نے واضح طور پر کچھ نہیں بتایا۔ کسی معاملے میں اس طرح کے ابہام کو سفارت کاری کی دنیا میں Intended ambiguity کہا جاتا ہے۔ یعنی جان بوجھ کر رکھا گیا ابہام۔ جس کی حسب ضرورت تشریح کر لی جائے۔ چنانچہ بھارت کا میڈیا اور اس کے سابق سفارت کار جب پاکستان نہ جانے کے فیصلے کی تشریح کرتے ہیں تو وہ اسی Intended ambiguity کے ہتھیار سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے پاکستان میں امن عامہ کی صوت حال ایسی نہیں کہ ہم وہاں جا کر کھیل سکیں۔ کوئی قرار دیتا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں امن کے لے خطرہ ہے اس لیے پاکستان جب تک اپنا رویہ نہیں بدلتا، اس کے ہاں جا کر نہیں کھیلا جا سکتا۔
یہ محض کھیل کا معاملہ نہیں یہ پاکستان کے خلاف ایک پوری واردات ہے۔ واردات یہ ہے کہ پاکستان کو اس خطے کا اچھوت بنا دیا جائے۔ اس فیصلے کے اثرات کرکٹ کے میدان تک محدود نہیں، بہت وسیع ہیں۔ مثال کے طور پر اگر یہاں کرکٹ کا ایک میچ نہیں ہو سکتا تو یہاں سرمایہ کاری کیسے ہو سکے گی۔ پھر یہ کہ دنیا میں آپ کا امیج کیا بنے گا؟ ایسے میں پاکستان کی جانب سے کسی ہائبرڈ ماڈل پر اتفاق کر لینا، بہت بڑی غلطی ہو گی۔ کرکٹ اتنی بڑی چیز نہیں کہ اس کے لیے ملکی مفاد اور وقار کو داؤ پر لگا دیا جائے۔ یہ میچ اگر پاکستان کی بجائے کہیں اور ہوتا ہے تو یہ کرکٹ کے مفاد میں تو ہو سکتا ہے، پاکستان کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ پاکستان کا مفاد اس بات کا متقاضی ہے کہ بھارت نے کھیلنا ہے تو پاکستان آئے، اور پاکستان نہیں آ سکتا تو اس کے بغیر ٹورنامنٹ کرایا جائے۔ بھارت کو بھی معلوم ہے کہ اس میچ کے ساتھ غیر معمولی ریو ینیو جڑا ہوتا ہے۔ آئی سی سی کا مفاد یقینا اسی میں ہو گا کہ کسی بھی طرح یہ میچ ہو جائے کیونکہ ا س سے اس کے ریونیو کا تعلق ہے۔ ہائبرڈ ماڈل پر رضامندی نفسیاتی، معاشی، سفارتی، ہر لحاظ سے نقصان دہ ہو گی۔ باٹم لائن یہی ہونی چاہیے کہ جس نے کھیلنا ہے، پاکستان میں ہی کھیلنا ہو گا۔ نہیں کھیلنا تو آپ کی مرضی، ہم متبادل ٹیم بلا لیتے ہیں۔
بھارت کی پالیسی ’ایک چوری، اوپر سے سینہ زوری‘ والی ہے۔ اس کے جواب میں فدویانہ پالیسی سے کام نہیں چلے گا۔ سچ پوچھیے تو مجھے مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف صاحب کا بیان بھی پسند نہیں آیا۔ فرماتے ہیں: معاملات کو بہتر بنانے کی ضررت ہے۔ ماضی میں بھارت کے ساتھ معاملات بگڑے ہیں تو یہ سنوارے جا سکتے ہیں“۔ بھارتی قیادت خاموش تھی تو میاں صاحب کو بھی خاموش رہنا چاہیے تھا۔ بھارت نے اگر اپنا پتہ کرکٹ بورڈ کے ذریعے پھینکا تھا تو اس کا جواب پاکستان کرکٹ بورڈ ہی کے ذریعے جانا چاہیے تھا۔ لیکن اگر میاں صاحب بولے ہی تھے تو پھر چیزوں کا سیاق و سباق درست رکھ کر امن کی بات کی جانی چاہیے تھی۔ کیا کانگریس یا بی جے پی کے سربراہ نے اس پر کوئی بیان دیا ہے؟ جب ادھر سے اسے ایک معمولی معاملے کے طور پر کرکٹ بورڈ کے ذریعے ہی ہینڈل کیا جا رہا ہے تو ہماری سیاسی قیادت اس کو اتنی غیر معمولی اہمیت کیوں دے رہی ہے؟ میاں صاحب کے اس بیان سے تو یوں لگ رہا ہے کہ جیسے ماضی میں، جب ان کی حکومت نہ تھی، پاکستان سے کوئی ایسی گستاخی ہو گئی ہے جس سے بھارت ناراض ہو گیا ہے اور اب ہمیں ’ماضی میں‘ بھارت کے ساتھ بگڑ جانے والے معاملات کو سنوارنا ہو گا۔
ماضی میں کیا ہو تھا؟ ماضی میں کل بھوشن یادیو پکڑا گیا تھا۔ لاہور بم دھماکے میں ملوث بھارتی لوگ پکڑے گئے تھے۔ کشمیر کو بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے بھارت نے انڈین یونین میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس نے پاکستان پر فضائی حملہ کیا تھا جس کے جواب میں ابھے نندن صاحب کو پاکستان کا چائے کا پورا کپ پینے کی بہادری کے اعتراف میں بھارت کا سب سے بڑا فوجی اعزاز دیا گیا تھا۔ بھارت نے پاکستان سے پانی کے معاہدے کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا۔پاکستان نے کیا کیا تھا کہ مودی مہاراج اتنے خفا ہیں؟ پاکستا ن نے تو بھارت جا کر کھیلنے سے کبھی انکار نہیں کیا۔ یہ بھارت ہے جس نے کھیلوں کو اپنی سیاست کے شاؤنزم سے آلودہ کر دیا ہے۔ ایسے میں برائے وزن بیت شاعری بالکل ایک غیر ضروری چیز ہے۔ ہو سکتا ہے میاں صاحب نے بین السطور ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہو کہ پاک بھارت تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے وہ موزوں ترین شخصیت ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہو سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر محض ان کی شخصیت ہی اس کام کے لیے اتنی موزوں ہوتی تو ان کی جماعت کی حکومت میں بھارت اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے انکار ہی کیوں کرتا۔ ممالک کے تعلقات کی صورت گری میں بہت سارے عوامل ہوتے ہیں۔ یہ ڈوری محض شخصی روابط سے نہیں کھل پاتی۔
بھارت سے تعلقات اچھے ہونے چاہیں لیکن یہ ہماری یکطر فہ فدویت سے بہتر نہیں ہوں گے۔ یہاں طاقت اور اس کا اظہار ہی توازن کا ضامن ہے۔ یہ عجیب رویہ ہے جس نے پہلے ہمارے دانشوروں کو اپنی گرفت میں لیا اور اب اہل سیاست بھی اس کے اسیر ہیں کہ بھارت کے سامنے فدوی اور مودب ہوتے جاو کیوں کہ ہماری معیشت کمزور ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا معیشت فدویانہ فارمولے سے کھڑی ہو جائے گی؟ یہ وہی دیرینہ مسئلہ ہے کہ کوئے یار سے سوئے دار کے بیچ یاروں کو کوئی مقام راس ہی نہیں آتا۔ توازن ہی زندگی ہے۔ اور چیزوں کی ترتیب درست رہنی چاہیے۔ملامتی دانشوری اور ملامتی سیاست، دونوں میں سے کوئی بھی آپ کو سرخرو نہیں کر سکتا۔ پاکستان نے کھیلوں کو سیاست کا اکھاڑا کبھی نہیں بنایا۔ یہ بھارت ہے جس نے کھیل کو بھی ویپنائز کر دیا ہے۔ اس سے قبل یہی کام وہ سفارت کاری کی دنیا میں بھی کر چکا ہے۔ سارک کانفرس کا پاکستان کا انعقاد بھی اس ہی کی وجہ سے نہ ہو سکا۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو جس حد تک ممکن ہو اقوام عالم میں غیر متعلقہ کر دیا جائے۔ سارک ہو تو اسے سبوتاژ کر دو، چمپینز ٹرافی ہو تو اسے سبوتاژ کر دو۔ یاد رکھیے کہ ایسے میں کسی ہائبرڈ فارمولے کی طرف جانا، بھارت کی سہولت کاری کے مترادف ہو گا۔ غیر فقاریہ پالیسی کے آزار سے ہشیار رہیے۔
آصف محمود
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز
0 notes
Text
ایران ایٹم بم بنانے کے قریب پہنچ گیا:عالمی توانائی ایجنسی کا دعویٰ
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن )سربراہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے کے قریب پہنچ گیا۔رافیل گروسی نے کہاکہ ایران یورینیم کی ساٹھ فیصد تک افزودگی کر چکا ہے جبکہ ایٹم بم بنانے کے لئے نوے فیصد یورینیم کی افزودگی کی ضرورت ہے۔یاد رہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھنے سے ایٹمی تنصیبات پر حملوں کا خطرہ بھی بڑھا ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو خبردار کیا تھا…
0 notes
Text
**سائنس اور امن کا عالمی ہفتہ**
سائنس اور امن کا عالمی ہفتہ ہر سال نومبر میں منایا جاتا ہے۔ اس تقریب کا مقصد یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی عالمی سطح پر امن اور ترقی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ سائنسی تعاون اور تعلیم کو فروغ دیتا ہے تاکہ امن اور باہمی سمجھ بوجھ کی ثقافت کو تقویت ملے۔
###سائنس اور امن کی اہمیت
1. **سائنس کے پُرامن استعمال کو فروغ دینا**: اس ہفتے کے دوران، سائنسی علم اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے پُرامن مقاصد کے لئے استعمال کو اجاگر کیا جاتا ہے تاکہ عالمی امن اور سیکیورٹی کو تقویت ملے۔
2. **بین الاقوامی تعاون کی حوصلہ افزائی**: سائنسدانوں، اساتذہ، اور پالیسی سازوں کو عالمی سطح پر اکٹھا کر کے، یہ تقریب بین الاقوامی تعاون اور مکالمے کو فروغ دیتی ہے۔
3. **آگاہی بڑھانا**: یہ دن عوام میں سائنس کی اہمیت کے بارے میں آگاہی بڑھاتا ہے تاکہ عالمی مسائل جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، صحت کے بحران، اور پائیدار ترقی کا حل نکالا جا سکے۔
4. **تعلیم اور آؤٹ ریچ**: اس ہفتے کے دوران تعلیمی پروگرامز اور آؤٹ ریچ سرگرمیاں نوجوان ذہنوں کو متاثر کرنے اور سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے منعقد کی جاتی ہیں۔
### جشن منانے کے طریقے
- **سائنسی کانفرنسوں اور سیمینارز میں شرکت کریں**: ایسی تقریبات میں شامل ہوں جو سائنس کے پُرامن استعمال پر بات کریں۔
- **تعلیمی سرگرمیاں**: اسکول اور یونیورسٹیاں ورکشاپس، سائنس میلوں، اور لیکچرز کا انعقاد کر سکتی ہیں تاکہ سائنسی سمجھ بوجھ کو فروغ دیا جا سکے۔
- **کمیونٹی انگیجمنٹ**: کمیونٹی گروپس مباحثوں اور سرگرمیوں کی میزبانی کر سکتے ہیں جو سائنس کی اہمیت کو اجاگر کریں۔
- **سوشل میڈیا کمپینز**: سوشل میڈیا پر سائنس اور امن کی اہمیت کے بارے میں شعور بیدار کریں، حقائق، کہانیاں، اور کارنامے شیئر کریں۔
#ScienceAndPeace #GlobalCooperation #PeacefulScience #SustainableDevelopment #ScientificLiteracy #InternationalWeek #Homeopathy #DrAshfaqAhmad #HolisticHealth #NaturalHealing #HealthTips #HealthyLifestyle
0 notes
Text
اگلے ہفتے بھارت میں جی 20 وزرا خزانہ کا اجلاس، کم آمدن والے ملکوں کے لیے قرض بڑھانے پر بات ہوگی
عالمی مالیاتی اداروں کے سربراہان بین الاقوامی اداروں کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کو قرضوں میں اضافہ، بین الاقوامی قرضوں کے ڈھانچے میں اصلاحات اور کریپٹو کرنسی کے ضوابط پر تبادلہ خیال کے لیے اگلے ہفتے بھارت میں ملاقات کریں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے گروپ جی 20 کے وزرا خزانہ، مرکزی بینکوں کے سربراہ بڑے کاروباری اداروں پر سرحد پار ٹیکس ریگولیشنز کے معاہدے پر بھی بات کریں گے،۔ بھارتی ریاست گجرات…
View On WordPress
0 notes
Text
سائبر کرائم میں ملوث 230 سے زائد چینی باشندے گرفتار
کولمبو(ڈیلی پاکستان آن لائن )سری لنکا میں سائبر کرائم میں ملوث 230 سے زائد چینی باشندوں کو گرفتار کرلیا گیا۔سری لنکا کے وزیر خارجہ وجیتھ ہیراتھ کے مطابق سری لنکن پولیس نے گزشتہ روز چینی سکیورٹی اہلکاروں کی مدد سے کارروائی کر کے بین الاقوامی بینکوں سے آن لائن فراڈ کے الزام میں 230 سے زائد چینی باشندوں کو گرفتار کیا ہے۔ا±نہوں نے بتایا کہ آن لائن فراڈ میں استعمال ہونے والے 250 کمپیوٹر اور 500 موبائل…
View On WordPress
0 notes
Text
مشرقِ وسطیٰ کے حالات کے پیش نظر اگلے ایرانی صدر کو کن چینلجز کا سامنا ہو گا؟
جہاں ایران کو معاشی چیلنجز سمیت داخلی مسائل کا سامنا ہے وہیں بیرونی محاذ پر تہران اسرائیل کے خلاف ایک غیراعلانیہ جنگ میں ہے جس میں صہیونی حکومت کی غزہ میں وحشیانہ کارروائیوں نے تنازع میں کلیدی کردار ادا کیا۔ تاہم یہ امکان کم ہے کہ ایران میں طاقت کا خلا پیدا ہو کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عبوری صدر نے عہدہ سنبھال لیا ہے جبکہ آئندہ 50 روز میں انتخابات متوقع ہیں۔ ابراہیم رئیسی اور ان کا وفد آذربائیجان سے ایران واپس آرہے تھے کہ جب بہ ظاہر خراب موسم کے باعث ان کا ہیلی کاپٹر پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا۔ گزشتہ روز صبح ہیلی کاپٹر میں سوار تمام افراد کی موت کی تصدیق ہو گئی تھی۔ ابراہیم رئیسی کا دورِ حکومت مختصر لیکن واقعات سے بھرپور رہا۔ انہوں نے 2021ء میں اقتدار سنبھالا۔ اپنے دورِ اقتدار میں ان کی انتظامیہ کو جس سب سے بڑے داخلی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا وہ 2022ء میں نوجوان خاتون مہسا امینی کی مبینہ طور پر ’اخلاقی پولیس‘ کی حراست میں ہلاکت کے بعد ہونے والے ملک گیر مظاہرے تھے۔ ایران میں حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آئی، جواباً حکومت نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔
بین الاقوامی محاذ پر بات کریں تو چین کی بطور ثالث کوششوں کی وجہ سے ابراہیم رئیسی نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بحال کیے۔ اس عمل میں وزیرخارجہ امیر عبداللہیان نے اہم کردار ادا کیا۔ لیکن شاید مرحوم ایرانی صدر کی خارجہ پالیسی کا سب سے مشکل دور اس وقت آیا جب گزشتہ ماہ کے اوائل میں اسرائیل نے شام کے شہر دمشق میں ایران کے سفارتخانے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایران پاسدارانِ ا��قلاب کے اہم عسکری رہنما ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے جواب میں تہران نے دو ہفتے بعد اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملہ کیا۔ یہ ایک ایسا حملہ تھا جس کی مثال تاریخ میں ہمیں نہیں ملتی۔ پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو ابراہیم رئیسی کی نگرانی میں دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کی گئیں۔ جنوری میں دونوں ممالک نے مبینہ طور پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی پر ایک دوسرے کی سرزمین پر میزائل داغے لیکن گزشتہ ماہ مرحوم ایرانی صدر کے دورہِ پاکستان نے اشارہ دیا کہ تہران پاکستان کے ساتھ گہرے تعلقات چاہتا ہے۔ امید ہے کہ اگلے ایرانی صدر بھی اسی سمت میں میں اقدامات لیں گے۔
ایران کے خطے اور جغرافیائی سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے، ایران میں اقتدار کی منتقلی کو دنیا قریب سے دیکھے گی۔ اگرچہ کچھ مغربی مبصرین ایران کے نظام کو سپریم لیڈر کے ماتحت ایک آمرانہ نظام قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت اس سے کئی زیادہ پیچیدہ ہے۔ یہ درست ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر کو ریاستی پالیسیوں میں ویٹو کا اختیار حاصل ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ صدر اور اقتدار کے دیگر مراکز کا کوئی اثرورسوخ نہیں۔ ایران کے نئے صدر کو داخلی محاذ پر اقتصادی پریشانیوں اور سیاسی تفریق کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ دوسری جانب مشرق وسطیٰ اس وقت ایک خطرناک اور متزلزل صورت حال سے دوچار ہے جس کی بنیادی وجہ غزہ میں اسرائیل کا وحشیانہ جبر ہے۔ خطے کی حرکیات میں ایران کا متحرک کردار ہے کیونکہ وہ حماس، حزب اللہ اور اسرائیل میں لڑنے والے دیگر مسلح گروہوں کی کھلی حمایت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سب نظریں اس جانب ہیں کہ اگلے ایرانی صدر اور اسلامی جموریہ ایران کی اسٹیبلشمنٹ، اسرائیل کی مسلسل اشتعال انگیزی کا جواب کیا دے گی۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes
·
View notes
Text
دریائے سندھ کا ڈیلٹا خطرے میں
سندھ کی معیشت، زراعت اور مقامی ماحول کا انحصار سندھ کے دریا، خاص طور پر دریائے سندھ پر ہے۔ یہ دریا سندھ کے میدانی علاقوں کو تازہ پانی فراہم کرتا ہے جس پر نہ صرف زراعت کا دارومدار ہے بلکہ دریائے سندھ کا ڈیلٹا بھی زندہ ہے۔ بدقسمتی سے، حالیہ برسوں میں نئی نہروں اور پانی کی تقسیم کے منصوبوں کے سبب سندھ کے اس قدرتی نظام کو خطرات لاحق ہیں۔ یہ نہریں بالائی علاقوں میں پانی کے بہاؤ کو کم کرتی ہیں، جس سے سندھ کے لئے پانی کی کمی کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ اس صورتحال کا اثر نہ صرف سندھ کے کسانوں پر پڑ رہا ہے بلکہ ڈیلٹا کی بقا بھی خطرے میں ہے۔ نئے نہری منصوبے بالائی علاقوں میں آبپاشی اور پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تشکیل دیے جاتے ہیں، لیکن اس کا براہ راست اثر سندھ پر پڑتا ہے۔ جب دریائے سندھ کے پانی کا بہاؤ کم ہوتا ہے، تو یہ نیچے کے علاقوں تک صحیح مقدار میں نہیں پہنچ پاتا، جس کے نتیجے میں زرعی زمین بنجر ہو جاتی ہے۔ زمین کی نمی ختم ہونے لگتی ہے اور کاشتکاری کے مواقع بھی محدود ہو جاتے ہیں۔ اس کمی کا سیدھا اثر مقامی کسانوں اور ان کی معیشت پر پڑتا ہے، جس سے ان کی معاشی حالت خراب ہو جاتی ہے۔
دریائے سندھ کے ڈیلٹا کی ��حت کے لئے دریا کا بہاؤ مسلسل اور مناسب مقدار میں ہونا ضروری ہے۔ ڈیلٹا، جو کہ مٹی، پانی اور سمندری حیاتیات کی اہم بقا کا مرکز ہے، اس میں کمی آنے سے سمندری پانی آگے بڑھ جاتا ہے اور زمین میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس سے مچھلیوں کی نسل ختم ہونے لگتی ہے، مینگروو کے جنگلات جو ڈیلٹا کی حفاظت کرتے ہیں، کمزور ہونے لگتے ہیں، اور حیاتیاتی تنوع بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ماہی گیر طبقے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو کہ اپنی روزی روٹی کے لئے ان وسائل پر انحصار کرتے ہیں۔ سمندری پانی کے زمین میں شامل ہونے سے فصلوں اور زمین کی زرخیزی بھی متاثر ہوتی ہے، جو کہ زرعی معیشت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ ڈیلٹا کی تباہی سے نہ صرف ماحولیات پر اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ سندھ کے لوگوں کی روزمرہ زندگی پر بھی اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ پانی کی کمی کے باعث کاشتکاروں کی پیداوار میں کمی آتی ہے، جس سے ان کے مالی وسائل محدود ہوتے ہیں اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اسی طرح ماہی گیری کی صنعت پر پڑنے والے اثرات بھی واضح ہیں، کیونکہ ڈیلٹا کے بگاڑ کے سبب مچھلیوں کی تعداد میں کمی ہوتی ہے۔ نتیجتاً، ماہی گیر طبقے کی آمدنی کم ہوتی ہے اور انہیں دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نئے نہری منصوبوں کی وجہ سے ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات بھی سنگین ہیں۔ جب پانی کا بہاؤ تبدیل ہوتا ہے تو مٹی کے کٹاؤ اور زمین کی زرخیزی ختم ہونے لگتی ہے۔ اس سے موسمیاتی تبدیلیوں کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، جس کے اثرات نہ صرف زراعت پر بلکہ پورے خطے کی آب و ہوا پر بھی ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال سندھ کے لئے ایک بڑے چیلنج کی صورت اختیار کر رہی ہے اور اس کے لئے مناسب اقدامات کی ضرورت ہے۔ پانی کی تقسیم کے معاملے میں بین الاقوامی معاہدے اور صوبائی سطح پر بھی کچھ اصول بنائے گئے ہیں۔ لیکن جب تک ان معاہدوں پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوتا، سندھ جیسے زیریں علاقوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ برقرار رہتا ہے۔
حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ پانی کی تقسیم میں تمام صوبوں کے مفادات کو مدنظر رکھیں اور کسی بھی نئے نہری منصوبے کی منصوبہ بندی سے پہلے اس کے ماحولیاتی، سماجی اور اقتصادی اثرات کا جائزہ لیا جائے۔ اس باب میں پانی کے وسائل کا موثر اور پائیدار انتظام ہی واحد راستہ ہے جس سے سندھ کے آبپاشی نظام اور ڈیلٹا کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ ہمیں ایک ایسی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جو نہ صرف پانی کے قدرتی بہاؤ کو برقرار رکھے بلکہ سندھ جیسے زیریں علاقوں کے مفادات کا بھی خیال رکھے۔ اگر ہم نے اس چیلنج کو نظر انداز کیا تو مستقبل میں نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک کو اس کے اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
محمد خان ابڑو
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
عالمی شہرت یافتہ بھارتی طبلہ نواز ذاکرحسین انتقال کرگئے
ذاکر حسین امریکا کے شہر سان فرانسسکو کےاسپتال میں دل کےعارضے کے باعث انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیر علاج تھےجہاں وہ انتقال کرگئے۔ لیجنڈ طبلہ نواز ذاکر حسین نے73 برس عمر پائی،وہ لیجنڈ طبلہ نواز استاد اللہ رکھا کے بیٹے تھے۔ لیجنڈ طبلہ نواز بھارت کے مشہور کلاسیکی موسیقاروں میں سے ایک تھے جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ بھارتی حکومت نےاستاد ذاکر حسین کی فن کیلئےخدمات کےاعتراف…
0 notes