#اندرونی اختلافات
Explore tagged Tumblr posts
Text
پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات میں شدت ،پارٹی گروپوں میں تقسیم ہو گئی
پی ٹی آئی کے گڑھ سمجھے جانے والے صوبہ خیبرپختونخوا میں پارٹی رہنماؤں میں شدید اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔جہاں ایک طرف بشری بی بی اور علیمہ خان گروپ میں پارٹی پر قبضے کی جنگ جاری ہے وہیں تحریک انصاف کے صوبائی رہنما عاطف خان کو گنڈاپور حکومت کے محکمہ اینٹی کرپشن کے جانب سے پے درپے نوٹسز نے پارٹی میں اختلافات پر مہر ثبت کر دی ہے۔ خیبرپختونخوا میں عاطف خان گروپ اور گنڈاپور سرکار کے ایک بار پھر…
0 notes
Text
اسرائیلی قیادت میں اندرونی اختلافات نیتن یاہو نے اپنے وزیر دفاع کو برطرف کردیا
اسرائیلی وزیر ��عظم کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق، نیتن یاہو نے 5 نومبر کو امریکی انتخابات کے موقع پر وزیر دفاع یوو گیلنٹ کو ہٹانے کا اعلان کیا۔ نیتن یاہو کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اسرائیل کے وزیر اعظم کے طور پر میرا سب سے بڑا فرض اسرائیل کی سلامتی کا تحفظ کرنا اور ہمیں فیصلہ کن فتح کی طرف لے جانا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’جنگ کے دوران، ، وزیر اعظم اور وزیر دفاع کے درمیان مکمل اعتماد ضروری ہے۔…
0 notes
Text
پی سی بی نے کرکٹ ٹیم میں اختلافات کی تردید کردی - ایکسپریس اردو
صحافتی اخلاقیات اور ذمہ داری انتہائی اہم ہیں، کرکٹ بورڈ:فوٹو:پی سی بی لاہور: پاکستان کرکٹ بورڈ( پی سی بی) نے ورلڈ کپ کے لیے بھارت میں موجود کرکٹ ٹیم میں اختلافات کی تردید کردی۔ پی سی بی کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں ان خبروں کی سختی سے تردید کی گئی ہے کہ آئی سی سی ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم اندرونی اختلافات کا شکار ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ میڈیا کے کچھ حصے میں…
View On WordPress
0 notes
Text
پاکستان میں پانی کا بحران
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں پانی کی قلت میں اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی ادارہ برائے خوراک وزراعت کی نئی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں ہر ایک منٹ میں 23 ایکڑ رقبہ پانی کی قلت کے باعث بنجر ہو رہا ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور پانی کی قلت کے بڑھتے ہوئے مسائل سے زرعی شعبہ کو سنگین خطرات درپیش ہیں، پاکستان میں 80 فیصد رقبہ پانی کی قلت سے متاثر ہے۔ آبی ذخائر نہ ہونے اور دریاؤں میں صنعتی اور شہروں کا آلودہ پانی شامل ہونے کی وجہ سے آبی حیات کو شدید نقصان کے علاوہ زرعی پیدا وار بھی متاثر ہو رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2025 تک دنیا میں 1.8 ارب افراد کو پانی کی کمی کا سامنا ہو گا اور دنیا کی دو تہائی آبادی پانی کی شدید قلت کا شکار ہو گی۔ 2045ء تک 135 ملین عالمی آبادی پانی کی قلت کے باعث اپنی آبادیاں چھوڑنے پر مجبور ہو جائے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آبی وسائل سے بھر پور استفادہ اور پانی کے استعمال میں احتیاط انتہائی ضروری ہے تاکہ آنے والے وقت میں آبی قلت، زمین کے بنجر ہونےاور صحراؤں میں اضافہ جیسے مسائل پر قابو پایا جا سکے۔ نیز پانی کے استعمال میں احتیاط ضروری ہے تاہم آبی قلت اور زمینوں کو بنجر ہونے اور صحرازدگی سے بچانے کیلئے پاکستان کو سر سبز بنانا ہو گا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق پانی کی قلت کی فی کس سالانہ کم از کم حد ایک ہزار کیوبک میٹر ہے تاہم عرب شہریوں کو اوسطاً فی کس 500 کیوبک میٹر سے بھی کم پانی مل رہا ہے۔ دوسری جانب عرب ممالک میں موسمی تبدیلیاں اور آبادی میں اضافہ بھی ہو رہا ہے جس سے پانی کا بحران مزید بڑھ رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے قلت آب کے بارے میں عالمی رائے عامہ بیدار کرنے کیلئے خصوصی پروگرام شروع کیا ہے جسے پانی برائے پائیدار ترقی کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس 10 سالہ پروگرام کا آغاز 2018ء میں کیا گیا تھا اور یہ 2028ء تک جاری رہے گا۔ پاکستان اس وقت جن سنگین ترین بحرانوں سے دوچار ہے ان میں قومی سلامتی کو درپیش چیلنجوں اور خطرات کے بعد جو سب سے زیادہ اہم ہے وہ پانی کا مسئلہ ہے اس کو مزید سنگین کرنے میں بیرونی کیساتھ ساتھ اندرونی عوامل کا بھی بڑا ہاتھ ہے، تاریخ پر نظر ڈالیں تو پانی کی قلت اور کم یابی اسی وقت شروع ہو گئی تھی جب تقسیم کے بعد بھارت سے آنیوالے دریائوں کے پانی کی ملکیت کے تنازع نے جنم لیا، لیکن ہماری قیادت کی نااہلی نے اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مزید الجھا دیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ 70 برس قبل ہر پاکستانی کیلئے فی کس 5000 کیوبک میڑ پانی کی مقدار اب کم ہو کر محض ایک ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ اسی قلت کے سبب صوبوں کے درمیان ایک مرتبہ پھر تنازع کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔
اس بحران کی اگرچہ بہت سی سیاسی وجوہات بھی ہیں لیکن صورتحال کو موجودہ نہج تک پہنچانے میں بھارت کی ہٹ دھرمی کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ پانی کے مسئلہ کے حل کیلئے اب تک بھارتی قیادت کے ساتھ بارہا مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے باوجود باہمی اختلافات بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث بہتر ہونے کے بجائے مزید کشیدگی کی طرف بڑھتے رہے اور اس سلسلہ میں اب تک کی جانے والی تمام تر کوششیں ناکامی ہی سے دوچار ہوئی ہیں، حتیٰ کہ بھارت نے تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جہاں پاکستان کے حصے میں آنیوالے پانی کا زبردستی استعمال شروع کر دیا وہیں پاکستان کی ملکیت کے دریائوں پر ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کر کے ایک ایسے تنازع کو ہوا دی جو دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان چوتھی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں ماہرین آئندہ عالمی جنگ پانی ہی کے مسئلے پر ہونے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں وہیں جنوبی ایشیاء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی ملکیت اور تقسیم کے تنازع کو بھی انتہائی خطرناک قرار دیا جا رہا ہے۔
پانی کی کمی کے سبب جہاں خطے کا امن دائوپر لگا ہوا ہے وہیں پاکستان کی زراعت، جو کہ ہماری معیشت کی بنیاد ہے، بھی تباہی کی طرف گامزن ہے اور وہ خطہ جو زرعی لحاظ سے دنیا میں ذرخیز ترین تصورکیا جاتا تھا پانی کی کمی کے سبب بنجر ہوتا جا رہا ہے۔ 1960ء میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے، جس کے ورلڈ بنک، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینڈا ضامن ہیں، کے تحت پاکستان اور بھارت دونوں کو تین تین دریائوں کے پانیوں پرملکیت کا حق دیا گیا ہے معاہدے کے مطابق ستلج، بیاس اور راوی بھارت جبکہ چناب، جہلم اور سندھ پاکستان کے حصے میں ہیں لیکن اس کے باوجود تنازع ختم نہ ہو سکا، بھارت نے تمام تر شرائط اور وعدے نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کے حصے میں آنیوالے دریائے چناب پر 450 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بگلیہار ڈیم کی تعمیر کا اعلان کر دیا جس کے بعد دونوں ملکوں کے مابین پہلے ہی سے موجود تنازع کو مزید شدید کر دیا، منصوبے کے تحت 470 فٹ بلندی پر پانی کے اس ذخیرے کی تعمیر پاکستانی زراعت کیلئے زہر قاتل ہے جبکہ ساتھ ہی ملک میں توانائی کے بحران میں بھی شدت کا باعث ہے۔
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق 9 اکتوبر 2008 ء اور گیارہ اکتوبر 2008ء کے دوران صرف تین دن میں بھارت نے پاکستان کو عام حالات میں ملنے والا 55000 کیوسک پانی کم کر کے 10739 کیوسک اخراج تک محدود کر دیا۔ حکومت سے درخواست ہے کہ نئے ڈیمز بنانے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے جس سے پاور سیکٹر میں بھی خ��طر خواہ اضافہ ہو گا۔
خلی�� احمد نینی تا ل والا
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
عمران خان بڑا خطرہ ہے یا آئی ایم ایف؟
اس وقت یہ طے کرنا مشکل ہے کہ بھان متی سرکار کے لیے سب سے بڑا چیلنج کون ہے؟ خود یہ سرکار؟ بیک روم بوائز؟ عمران خان؟ عدلیہ؟ یا پھر آئی ایم ایف؟ سرکار کے اندرونی اختلافات سلٹانا نبستاً آسان ہے کیونکہ بھلے کوئی کسی کو کتنا بھی ناپسند کرے مگر اس وقت ساتھ جڑے رہنے میں ہی عافیت ہے۔ بیک روم بوائز کو بھی ہاتھ پاؤں جوڑ کے سمجھایا جا سکتا ہے کہ مانا آپ عقلِ کل ہیں۔ پھر بھی ہاتھ ذرا ہولا رکھیں اور ہمیں بھی اپنی سائنس لڑانے کا تھوڑا موقع دیں۔ عمران خان کو بھی یکے بعد دیگرے مقدمات کی رسی میں باندھ کے وقتی طور پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ عدلیہ کو بھی بات چیت کی فلم دکھا کے، قانون سازی کی کرتب بازی، بال کی کھال اتارنے کے فن اور آئینی شوربہ پتلا کر کے مصروف رکھتے ہوئے تھوڑی بہت مہلت کمائی جا سکتی ہے۔ مگر آئی ایم ایف کا کیا کریں؟ ایک ایسا بین الاقوامی کلرک جو سائل کو چکر پر چکر لگوا رہا بے، بار بار کسی نہ کسی جملے پر لال دائرہ لگا کے درخواست ٹائپ پر ٹائپ کروا رہا ہے۔ ایک کے بعد ایک سوال پوچھ رہا ہے، کاغذ پر کاغذ طلب رہا ہے، دستخط سے دستخط ملا رہا ہے۔
کتنا ٹیکس دیتے ہو؟ آخری بار پراپرٹی ٹیکس کب دیا تھا، بجلی پانی گیس کا بل کہاں ہے جس پر تمہارا نام اور ایڈریس بھی ہو۔ آخری ٹیکس گوشوارے کب بھرے تھے، ان کی رسیدیں کہاں ہیں؟ پوری کیوں نہیں؟ دو کم کیوں ہیں؟ کیا کہا بچے نے پھاڑ دیں؟ بچوں کی پہنچ سے دور کیوں نہیں رکھتے؟ اس ہفتے تو مشکل ہے۔ اگلے ہفتے پھر چکر لگا لو۔ چلو اب کرسمس کی چھٹیوں کے بعد آنا، اب میری سالانہ چھٹیاں شروع ہیں بعد میں فائل دیکھیں گے، اگلی بار آؤ تو فائلوں کے تین سیٹ بنوا کر لانا۔ پچھلی بار اوتھ کمشنر کی آدھی مہر لگی تھی۔ اس بار دستخطوں کے نیچے پورا ٹھپہ ہونا چاہیے۔ ہر کاغذ پر مجسٹریٹ درجہ ِاول کے تصدیقی سائن کروانا مت بھولنا ورنہ صاحب لوگ میٹنگ میں فائل منہ پر دے ماریں گے وغیرہ وغیرہ۔ سب جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ وہ کسی گرگ ِباران دیدہ کرمچاری کی طرح تمام شرائط یک مشت بتانے کے بجائے ایک ایک کر کے بتا اور ہنپا رہا ہے۔ بس چلے تو کمینے کا گھلا گھونٹ دیں، پر اکڑنے کے لیے پلے بھی تو کچھ ہو۔
آئی ایم ایف بھی جانتا ہے کہ پاکستان نے 70 برس میں دو درجن سے زائد قرض پروگرام خریدے مگر سوائے ایک کے کوئی فنڈنگ پروگرام پورا نہیں کیا۔ پیسے ٹریکٹر خریدنے کے نام پر لیے مگر ان پیسوں سے تائی اماں کو جیولری بنوا کے دے دی۔ گھر بنانے کے لیے لون لیا اور اس لون کو کسی ڈبل شاہ کے حوالے کر دیا۔ دوست بھی کب تک ساتھ دیں اور کتنا؟ سب جان چکے ہیں کہ کوئی بھی حکومت کسی بھی مقدس کتاب پے قسمیہ ہاتھ دھر کے پیسہ تو لے لیتی ہے مگر قرض کو آمدنی شمار کرتی ہے۔ اگر کوئی گریبان پے ہاتھ ڈال دے یا گالم گلوچ پر اتر آئے تو کسی اور پارٹی سے ادھار پکڑ کے گھر کے سامنے بیٹھے قرضئی کو قسط دے کر وقتی گلو خلاصی کروا لیتی ہے۔ پچھلی حکومت نے بھی یہی کیا۔ مسکین صورت بنا کے آئی ایم ایف سے پیسے لیے اور پھر سستے پٹرول سے ان پیسوں کو آگ لگا کے وقتی چراغاں کر کے رخصت ہوئی۔ موجودہ حکومت لاکھ روئے پیٹے کہ پچھلوں کی سزا ہمیں کیوں دے رہے ہو مگر آئی ایم ایف اس لیے بہرا بنا بیٹھا ہے کیونکہ وہ کسی حکومت کو نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کو جانتا ہے کہ جس کے نام پر قرضے لے لے کے مجرے پر اڑائے جاتے رہے۔
اوپر سے ہمارے وزرا بھی پیٹ کے ہلکے اور بادل دیکھ کے گھڑے پھوڑنے کے عادی ہیں۔ ابھی پیسے ملے نہیں کہ پیشگی شور مچا دیا کہ جیسے ہی آئی ایم ایف کی قسط آتی ہے عوام کو الیکشن سے پہلے ٹھیک ٹھاک ریلیف دے دیں گے تاکہ الیکشن میں کچھ ووٹ بڑھ سکیں۔ یہ امید دلانے والے ایک بار پھر بھول گئے کہ آئی ایم ایف کا قرضہ کسی پی ڈی ایم یا پی ٹی آئی کو نہیں بلکہ ریاست کو ملتا ہے اور آئی ایم ایف حلوائی کی دوکان نہیں کہ ہر بار اس پے جا کے دادا جی کی فاتحہ دلوائی جائے۔ اب تو آئی ایم ایف نے بھی اردو اور پنجابی سیکھ لی ہے۔ غالباً اس کے کارندے پارلیمانی و جلسہ گاہی شعلہ بیانی کی بھی مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی یا کورٹ نمبر ون کے سمن سے ماورا ہیں، لہٰذا ایسے خشک بے مروت اور سپاٹ چہرے والے ادارے سے بے وقت کا مذاق بھی نہیں بنتا۔ پٹڑی سے اترا ایک جملہ کروڑوں ڈالر میں پڑ سکتا ہے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ آئی ایم ایف نے اب اگلے بجٹ کا خاکہ طلب کر کے ’انتخابی بجٹ‘ دینے کی سرکاری امید پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔ اوپر سے 30 جون تک پاکستان کو بیرونی قرضے کی قسط کی مد میں ساڑھے تین ارب ڈالر سے زائد رقم ادا کر��ی ہے۔
آئی ایم ایف کے ساڑھے چھ ارب ڈالر کے قرض پیکیج میں سے دو اعشاریہ چھ ارب ڈالر کی جو دو آخری قسطیں پاکستان کو ملنی تھیں، وہ کہیں مالیاتی تفتیش میں اٹک کے رہ گئیں اور موجودہ آئی ایم ایف پروگرام بھی 30 جون کو ختم ہو جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیا سالانہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کی کڑی نگرانی میں بنانا ہو گا بصورتِ دیگر پاکستان کے لیے اگلے فنڈنگ پروگرام کی منظوری میں موجودہ پروگرام سے بھی کہیں زیادہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہ دن ہوا ہوئے جب پاکستان کو متبادل کے طور پر دھشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے فنڈز میں سے ہر سال خدمات بجا لانے کے عوض چند ارب ڈالر کا سہارا مل جاتا تھا تاکہ اشرافی اللّوں تللّوں کو سہارا دینے والا معاشی ڈھانچہ جیسے تیسے کھڑا رہے۔ اب نہ وہ امریکہ رہا جو آئی ایم ایف یا عالمی بینک سے کہہ دیتا تھا کہ ’برخوردار پر ذرا ہاتھ ہولا رکھو۔ بچے کی جان لو گے کیا۔‘ امریکہ آئی ایم ایف کو سب سے زیادہ فنڈز (ساڑھے سولہ فیصد) دان کرتا ہے اور اس کا قرض لینے کا کوٹہ بھی سب سے ذیادہ ( پونے اٹھارہ فیصد ) ہے۔
امریکہ کے بعد سب سے زیادہ ووٹ علی الترتیب جاپان، چین، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور اٹلی کے ہیں۔ آئی ایم ایف کے بورڈ آف گورنرز میں انڈیا کے ووٹ دو اعشاریہ تریسٹھ جبکہ پاکستان کے ووٹ صفر اعشاریہ تینتالیس اور قرضہ لینے کا کوٹا بھی اتنا ہی ہے۔ آج تک آئی ایم ایف کے جتنے بھی ( بارہ ) مینیجنگ ڈائریکٹر نامزد ہوئے ان میں سے ایک بھی غیر یورپی نہیں۔ اسی طرح عالمی بینک میں سب بڑا شئیر ہولڈر امریکہ ہے ( سوا سترہ فیصد)۔ عالمی بینک کے پہلے صدر یوجین مائر سے لے کے موجودہ صدر سردار اجے بنگا تک چودہ میں سے تیرہ صدر امریکی شہری تھے۔ صرف ایک صدر جم یونگ کم ( دو ہزار بارہ تا انیس ) کا تعلق جنوبی کوریا سے تھا۔ چین اور امریکہ کے روز بروز بڑھتے مناقشے میں پاکستان نے بالاخر چینی کیمپ پوری طرح سے چن لیا ہے اور یہ خبر ہم تک پہنچنے سے بہت پہلے بین الاقوامی مالیاتی اداروں تک پہنچ چکی ہے۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس آخر خود کو کتنا اور کب تک بچا سکتی ہے ؟
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
90 روز میں انتخابات کی پٹیشن؛ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے اندرونی اختلافات میں شدت
اسلام آباد: پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں 90 روز میں الیکشن کرانے کیلئے ہائیکورٹ بار کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر پٹیشن کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے اندرونی اختلافات میں شدت آگئی۔ ہائیکورٹ بار کے صدر شعیب شاہین اور سیکرٹری سعد راجپوت کے اختلافات کے بعد ایگزیکٹیو کمیٹی نے صدر اور پٹیشن کے حق میں قرارداد منظور کرلی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر کی دائر کردہ پٹیشن سے سیکرٹری بار نے لا…
View On WordPress
0 notes
Text
90 روز میں انتخابات کی پٹیشن؛ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے اندرونی اختلافات میں شدت
اسلام آباد: پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں 90 روز میں الیکشن کرانے کیلئے ہائیکورٹ بار کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر پٹیشن کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے اندرونی اختلافات میں شدت آگئی۔ ہائیکورٹ بار کے صدر شعیب شاہین اور سیکرٹری سعد راجپوت کے اختلافات کے بعد ایگزیکٹیو کمیٹی نے صدر اور پٹیشن کے حق میں قرارداد منظور کرلی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر کی دائر کردہ پٹیشن سے سیکرٹری بار نے لا…
View On WordPress
0 notes
Text
90 روز میں انتخابات کی پٹیشن؛ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے اندرونی اختلافات میں شدت
اسلام آباد: پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں 90 روز میں الیکشن کرانے کیلئے ہائیکورٹ بار کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر پٹیشن کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے اندرونی اختلافات میں شدت آگئی۔ ہائیکورٹ بار کے صدر شعیب شاہین اور سیکرٹری سعد راجپوت کے اختلافات کے بعد ایگزیکٹیو کمیٹی نے صدر اور پٹیشن کے حق میں قرارداد منظور کرلی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر کی دائر کردہ پٹیشن سے سیکرٹری بار نے لا…
View On WordPress
0 notes
Text
90 روز میں انتخابات کی پٹیشن؛ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے اندرونی اختلافات میں شدت
اسلام آباد: پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں 90 روز میں الیکشن کرانے کیلئے ہائیکورٹ بار کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر پٹیشن کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے اندرونی اختلافات میں شدت آگئی۔ ہائیکورٹ بار کے صدر شعیب شاہین اور سیکرٹری سعد راجپوت کے اختلافات کے بعد ایگزیکٹیو کمیٹی نے صدر اور پٹیشن کے حق میں قرارداد منظور کرلی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر کی دائر کردہ پٹیشن سے سیکرٹری بار نے لا…
View On WordPress
0 notes
Photo
مسلم لیگ (ن) میں اختلافات کھل کر سامنے آ گئے، خواجہ آصف پر پھٹ پڑے، پارلیمانی اجلاس کی دلچسپ اندرونی کہانی سامنے آ گئی اسلام آباد (آن لائن) مسلم لیگ (ن) میں اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔ پارلیمانی اجلاس کی دلچسپ اندرونی کہانی سامنے آ گئی ہے، لیگی ارکین خواجہ آصف پر پھٹ پڑے۔ تفصیلات کے مطابق خواجہ آصف نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس دوبارہ اس لئے بلایا گیا کہ کچھ ارکان کو آرمی ایکٹ میں ترامیم پر تحفظات تھے اور آج میں دوبارہ کہہ رہا ہوں کہ میاں صاحب نے بالکل واضح کیا ہے کہ ہم غیر مشروط طور پر
#آ#آصف#اجلاس#اختلافات#اندرونی#پارلیمانی#پر#پڑے#پھٹ#خواجہ#دلچسپ#سامنے#کر#کھل#کہانی#کی#گئی#گئے#لیگ#مسلم#میں#ن
0 notes
Text
اندرونی اختلافات کا شکار PTI اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے لگی
عمران خان کی تحریک انصاف اندرونی اختلافات بڑھنے کے بعد اب واضح طور پر کئی دھڑوں میں تقسیم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ سابق آئی ایس آئی چیف فیض حمید کی گرفتاری اور عمران خان سے جیل ملاقاتوں پر پابندی کے بعد دوسرے درجے کی پی ٹی آئی قیادت اپنی سیاسی سمت کا تعین نہیں کر پا رہی اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اب اپنا وجود برقرار رکھنے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی…
0 notes
Text
کیا گیری کرسٹن کے استعفے کی وجہ بابر بنے؟ اندرونی کہانی سامنے آگئی
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )قومی وائٹ بال ٹیم کے عہدے سے مستعفی ہونے والے سابق جنوبی افریقہ کے کرکٹر گیری کرسٹن اور پی سی بی کے درمیان اختلافات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی۔ذرائع کا بتانا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور گیری کرسٹن کے درمیان کئی معاملات پر اختلافات تھے، گیری کرسٹن اور پی سی بی دونوں ہی اپنے مو¿قف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ذرائع کے مطابق گیری کرسٹن بغیر اختیارکے کوچنگ کے حق…
0 notes
Text
یاد ماضی
مین سٹریم اور سوشل میڈیا میں اکثر پچاس ، ساٹھ اور ستر کی دہائی کے پاکستانی شہروں کی ایسی تصاویر لگائی جاتی ہیں جو بہت ہانٹ کرتی ہیں اس دور کے پاکستانی شہروں کا جدید پسند ، روادار، آزاد خیال اور ترقی پسند ماحول دیکھ کر نہ صرف اس گزرے ماضی کا ناسٹیلجیا جنم لیتا ہے بلکہ قاری آج کے شہروں کا ماحول دیکھ کر سوچنے پہ مجبور ہوتا ہے کہ دراصل ہم نے تو ترقی کی بجائے تنزلی کی اگر ہمارا ماضی ایسا ہی تھا۔
آخر یہ ترقی معکوس کیوں ہوئی، اس کی عام وضاحت تو جنرل ضیا اور افغان جہاد کی صورت میں دی جاتی ہے لیکن یہ دو سیاسی وجوہات کافی نہیں اور بہت سے سوالات تشنہ رہ جاتے ہیں مثلاً کیا ان دو واقعات نے پورے معاشرے کی بنت اور سوچ ہی تبدیل کردی؟ کیا فرد واحد یوں ایک معاشرہ کو اس کے مرضی کے خلاف تبدیل کرسکتا ہے روبوٹ کی طرح ؟ ایسا کبھی ہوا نہیں پھر باقی مسلم دنیا افغانستان ، ایران ، لبنان وغیرہ بھی اسی دور میں اسی طرح تبدیلی کے عمل سے گزرے تو وہاں بھی کیا ضیا نے کچھ کیا؟
اس تمام تجزیہ سے سماجی پہلو نکال دیا جاتا ہے تو سوالات تشنہ رہ جاتے ہیں اگر اس تصویر میں سماجی جہت کو بھی شامل کرلیا جائے تو تصویر مکمل ہوجاتی اور ہر چیز اپنی جگہ پہ بیٹھ جاتی ہے۔ یہ ایک سماجی پروسیس تھا جو کم و بیش تمام مسلم معاشروں پہ اسی دور میں اثرانداز ہوا اسکو سمجھے بغیر مکمل کہانی سمجھ نہیں آ سکے گی۔
پچاس کی دہائی کے لگ بھگ جب مسلم ممالک آزاد ہوئے تو ان ممالک کی باگ ڈور جس ط��قہ نے سنبھالی وہ جدید مغربی تعلیم یافتہ طبقہ تھا لیکن مسلم معاشروں کے اندر ایک کشمکش نوآبادیاتی دور سے ہی چلی آرہی تھی اس کشمکش کو جدیدیت پسند شہری کلچر اور روایت پسند دیہی مذہبی کلچر کی کشمکش کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ شہروں کی تعلیم یافتہ کلاس پہ جدید مغرب کی چھاپ کافی نمایاں تھی جبکہ دیہی عوامی کلچر پہ قدامت پسند مذہبیت کی چھاپ تھی۔ مذہبی طبقہ جدیدیت سے خوفزدہ تھا اور اسے مغربیت گردانتا تھا اسے خوف تھا کہ جدیدیت اپنے ساتھ مغربیت لائے گی اور پرانے روایتی کلچر کو بہا لے جائے گی کچھ اسے اپنی اجاراداری کے خاتمے کا بھی ڈر تھا اس لئے جدیدیت کو مغربیت، عریانی اور فحاشی سے تعبیر کرتا تھا۔
لیکن پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں انفراسٹکچر کی کمزوری کے باعث دیہی طبقہ دیہات یا چھوٹے شہروں تک محدود تھا جبکہ شہروں بالخصوص بڑے شہروں کا کلچر جدیدیت کا حامل تھا اسی لئے اس عہد کی تصویریں آج کے شہروں کی نسبت بہت آزاد خیال اور روادار معاشرے کی جھلک دکھاتی ہیں۔ یہ معاملہ پاکستان کی حد تک نہ تھا بلکہ تمام مسلم دنیا یہی تصویر پیش کرتی تھی افغانستان جو پاکستان کی نسبت معاشی اور ہر لحاظ سے پسماندہ تھا وہاں کابل کا شہری معاشرہ جو تاجک آبادی پہ مشتمل تھا جدیدیت یا مغربیت میں پاکستانی شہری معاشرہ سے کہیں آگے تھا جبکہ افغانستان کا دیہی پشتون معاشرہ پاکستان کے دیہی پشتون معاشرہ کی نسبت کہیں زیادہ پسماندہ اور تنگ نظر تھا لیکن کمزور انفراسٹکچر کی وجہ سے شہری تاجک اور دیہی پشتون دو الگ دنیاؤں میں رہ رہے تھے۔
ایران ، لبنان ، ترکی الغرض ہر جگہ کم و بیش مجموعی صورتحال ایسی ہی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ تبدیلی کا عمل بھی جاری تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ ان نوآزاد ملکوں میں اس وقت کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ نے ملکوں کی ترقی کے لیے بے مثال کام کیا پاکستان کے حکمران طبقے اور بزنس انڈسٹریل کلاس نے ایشیا مین ترقی کے ریکارڈ توڑے اس کے ساتھ انفراسٹکچر بھی بہتر ہوتا گیا اور دیہاتوں سے مذہبیت کے حامل قدامت پسند دیہی کلچر کی عوامیت بھی رفتہ رفتہ شہروں کا رخ کرنے لگی ابتدا میں انکی تعداد بہت کم تھی تو شہری کلچر کا ہی حصہ بنتے گئے لیکن ستر کی دہائی تک کیفیت بدلنا شروع ہوئی جیسے جیسے قدامت پسند مذہبی کلچر کی افرادی قوت بڑھتی گئی تو ایک تضاد یا ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہونا شروع ہوئی۔ قدامت پسند دیہی کلچر کی قیادت روایتی طور پہ مذہبی طبقہ کے ہاتھ میں تھی جو جدیدیت پسند شہری کلچر کو مغرب زدہ عریانی اور فحاشی کو پھیلانے والا اور معاشرے کے لیئے خطرہ قرار دیتا تھا ان کے مطابق اگر اس عریانی اور بے حیائی کو نہ روکا گیا تو یہ معاشرہ کو زوال پذیر کردے گا۔
ستر کی دہائی کے دوسرے وسط تک شہروں میں قدامت پسند طبقہ کی نمائندگی کافی مضبوط ہوچکی تھی لہذا خطہ بھونچالوں کی زد میں آنا شروع ہوگیا۔ اگرچہ افغانستان میں سردار داؤد کے خلاف قدامت پسند مذہبی طبقہ کی تحریک کی بھٹو نے بھی جواباً سرپرستی کی لیکن یہ تقسیم اور ٹکراؤ پہلے سے ہی موجود تھی اور انکے داؤد پہ الزمات یا شکایات بعینہ وہی تھے جو پی این اے کی تحریک نظام مصطفی میں بھٹو پہ لگائے گئے یا شاہ ایران پہ۔ بھٹو اور شاہ ایران کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ انکے خلاف وہ طبقہ جو خود کو ماسکو نواز ترقی پسند کہلاتا تھا بھی مذہبی طبقہ کی تحریک میں شامل تھا۔
بھٹو کے خلاف نظام مصطفی کی یہ تحریک اپنی بھرپور اور ہمہ گیر تھی کہ ملک تقریباً مفلوج ہی ہوکر رہ گیا تھا اور اگر ضیا مارشل لاء نہ بھی لگاتا تو یہ کہنا مشکل ہے کہ بھٹو کامیابی سے ملک اور حکومت چلا سکتا تھا اسی طرح شاہ ایران کے خلاف تو عوام کا ایک سیلاب تھا جو امڈ پڑا اور اسے جاتے ہی بنی۔
افغانستان کی حد تک فوج نے داؤد کی چھٹی کرا طاقت کے زور پہ حالات کنٹرول کرنا چاہے لیکن نتیجہ الٹ نکلا۔ اس طرح ۱۹۸۰ تک ماحول ہی بدل چکا تھا۔
جہاں تک سیاسی عوامل کا تعلق ہے تو وہ بھی اتنے چھوٹے ، محدود اور مقامی نہیں تھے جتنے ہمارے تجزیہ کار بتاتے ہیں سیاسی عوامل بھی کہیں زیادہ وسیع اور ہمہ گیر تھے۔ مشرق وسطی کے ممالک کی اپنی اندرونی کشمکش تھی یہ جدیدیت پسند روس نواز فوجی ڈکٹیٹروں اور امریکہ نواز قدامت پسند عرب بادشاہتوں میں تقسیم تھا۔ عمومی امریکی رویہ یہ تھا کہ اگر کوئی جدیدیت پسند ڈکٹیٹر امریکہ نواز ہوتا شاہ ایران کی طرح تو امریکہ اسے قدامت پسند بادشاہتوں پہ ترجیح دیتا تھا لیکن خمینی کے اسلامی جمہوری انقلاب کے نعرے نے یکدم سے ماحول بدل دیا ڈکٹیٹر اور بادشاہ بیک وقت اس نعرے سے خوفزدہ تھے اور انکے آپسی اختلافات پس پشت چلے گئے اسی لیے ایران عراق جنگ میں باشاہتوں نے صدام کی حمایت کی شاہ ایران کے جانے کے بعد امریکہ نے بھی اپنا سارا وزن عرب بادشاہتوں کے پلڑے میں ڈال دیا ادھر عرب بادشاہتوں نے مسلم ممالک میں قدامت پسند اسلام کی ترویج کے لئے باقاعدہ سرمایہ کاری کی کیونکہ قدامت پسند اسلام بادشاہت کا روایتی طور پہ عادی تھا اسی لئے پاکستان کا اسلامسٹ جو پہلے مودودی کی سوچ سے متاثر تھا اب رفتہ رفتہ مدارس کے اسلام کی طرف رجحان رکھنے لگ گیا۔ ضیا کی بجائے کوئی اور ہوتا تو شائد اس کے لئے بھی اس مجموعی سیاسی ماحول سے کوئی جائے مفر نہ ہوتی لیکن ضیا تو خود قدامت پسند دیہی مذہبی فکر سے تعلق رکھتا تھا تو کچھ اور سوچنے کی گنجائش ہی کب تھی؟
ادھر اسی کی دہائی کے پاکستان مین شہراؤ کا عمل کہیں اور تیز ہوگیا اور شہروں میں اب بھاری تعداد قدامت پسند دیہی مذہبی فکر کے حامل طبقہ کی تھی تو تبدیلی کا یہ عمل مکمل ہی ہوگیا اس وقت کے پاکستانی شہروں کی معاشرت نے وہ رخ اختیار کرلیا جو ہم آج دیکھ رہے ہیں اور جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے بالکل معکوس رخ پہ نظر آتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ضیا تو ۱۹۸۸ میں چلا گیا لیکن اسکا شروع کیا ہوا عمل ریورس نہ ہوسکا کیونکہ شہروں میں وہ جدیدیت پسند طبقہ نہ صرف پسپا ہوچکا تھا بلکہ اب تو اقلیت بن چکا تھا الیکشن یا جمہوریت بھی ان تبدیلیوں کو ریورس نہ کرسکتی تھی یہی وجہ ہے کہ ضیا کے بعد کے جمہوری دور میں بھی معاشرہ اسی ڈھب پہ چلتا آیا جو ضیا کے دور میں متعین ہوچکی تھی۔
صرف ایک ہی طاقت تھی جو جنوب مشرقی ایشیا کی طرح جدیدیت پسندی کی حمایت کرسکتی تھی اور وہ تھی انڈسٹریل بزنس کلاس کی معاشی اور کاروباری ضروریات لیکن بھٹو دور کی نیشنلائزیشن کے بعد پاکستان کی وہ کلاس جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی کی حیرت انگیز معاشی کارکردگی کی ذمہ دار تھی، ملک چھوڑ کر ہی جاچکی تھی کچھ نے یورپ میں بینکنگ شروع کردی کوئی ہانگ کانگ میں شپنگ سے وابستہ ہوگیا کوئی جرمنی میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے لگا۔ جو باقی رہ گئے تھے وہ انڈسٹریل کلاس کہلانے کے لائق نہ تھے بلکہ دیگر ممالک کے موازنہ میں چھوٹے اور درمیانہ درجہ کے تاجر تھے جنکا سکوپ ، ضروریات اور مفادات بہت محدود درجہ کے تھے۔
مسلم ممالک میں جدیدیت پسند اور قدامت پسند مذہبی کلچر کے ٹکراؤ کی دلچسپ مثال مراکش اور الجزائر کا موازنہ ہے۔ مراکش کی نسبت الجزائر آزادی سے ہی بہت زیادہ جدیدیت پسند سمجھا گیا حواری بومدین کے دور سے وہ مراکش کی نسبت کہیں زیادہ خوشحال تھا اس کے شہروں کا ماحول یورپ کے شہروں سے ملتا تھا جس میں اس دور میں الجزائری خواتین میں ساحل سمندر پہ غسل آفتابی ایک عام روایت تھی۔ جبکہ مراکش اس کی نسبت کمزور معیشت کی حامل بادشاہت تھا۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد الجزائر کے صدر کو مغرب کے قریب آنا پڑا تو مغرب بالخصوص فرانس کے دباؤ پہ شاذلی بن جدید کے دور میں جمہوریت لانے کی کوشش ہوئی اور ۱۹۹۱ میں انتخابات ہویے لیکن انکا نتیجہ سب کی توقعات کے برعکس تھا اور شدت پسند اسلامسٹ پارٹی نے میدان مار لیا۔
یہ نتائج اتنے غیر متوقع تھے کہ نہ صرف الجزائر کی حکمران فوجی کونسل نے صدر شاذلی بن جدید کی چھٹی کرا کے ان انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا بلکہ خود مغرب نے بھی خوفزدہ ہو کر اس اقدام کی تائید کی اس کے بعد الجزائر ایک لمبا عرصہ خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اس کے برعکس سست رفتار مراکش رفتہ رفتہ آئینی بادشاہت کی طرف بڑھتا گیا جہاں جدیدیت پسند شہری کلچر اور قدامت پسند دیہی مذہبی کلچر دونوں کے نمائندے شاہ پرست تھے اور بادشاہت پہ متفق تھے اس طراح مراکشی معاشرہ میں وہ پولرائزیشن پیدا نہ ہوئی جو دیگر مسلم معاشروں میں جدیدت پسندوں اور قدامت پسندوں کا خاصہ رہی۔ یوں بالاخر آج مراکش میں جدید پسند معاشرتی رویہ گراس روٹ لیول پہ پہنچنے کا دعوی کرسکتا ہے جو دیگر مسلم ممالک میں شاذ ہی موجود ہے۔
پاکستان ایک نئی معاشرتی سطح سے دوچار ہے یہ جنوبی ایشیا کا سب سے زیادہ اربنائزڈ ملک ہے جہاں دیہی کے مقابلہ میں شہری آبادی کا تناسب ساٹھ فیصد کے قریب ہے اس تبدیلی نے اثرات بھی مرتب کئے ہیں تعلیم ، انفراسٹکچر اور ابلاغ بڑھا ہے معاشی ڈھانچہ اور ضروریات تبدیل ہورہی ہیں اس وجہ سے قدامت پسند مذہبی طبقہ کی اپیل دن بدن گھٹتی جارہی ہے اور حالیہ ادوار میں مذہبی طبقہ نے جو سیاسی جوئے کھیلے اس کی وجہ سے عوام میں انکی اہمیت اور تاثر گھٹتا گیا۔ سیاسی حالات بھی بدل چکے ہیں ریاست کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے جن سے وہ جدیدیت سے ہم آہنگ ہوئے بغیر عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ دیکھتے ہیں کہ کل کے پاکستانی شہروں کا ناک نقشہ کیسا ہوتا ہے
11 notes
·
View notes
Text
کیا ملک انارکی کی جانب جارہا ہے؟
ہمارا ملک پہلے ہی مسائل اور بحرانوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کا شکار تھا مگر اب ملکی سیاست میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس نے ہمیں انارکی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ ریاستی اداروں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں اور نام نہاد جمہوری عمل بھی اب جمود کا شکار ہے جس سے ملک میں بے یقینی کی صورتحال مزید سنگین ہو گئی ہے۔ آگے کیا ہونے والا ہے اس حوالے سے صرف اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں۔ اقتدار کے جاری اس کھیل میں اہم موڑ تب آیا جب صدرِ مملکت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا۔ صدر عارف علوی کی جانب سے انتخابات کی تاریخ دینے کے اختیار پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعتراض کیا جس نے ان دونوں کے درمیان خیلج پیدا کی ہے۔ اس سے قبل صدرِ مملکت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ پر مشاورت کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا جس کا الیکشن کمیشن نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ معاملہ ابھی عدالت میں ہے اس لیے اس پر مشاورت نہیں کی جاسکتی۔ جبکہ دوسری جانب الیکشن کمیشن بھی بے یقینی کا شکار ہے اور اس نے 10 فروری کو دیے جانے والے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے کوئی واضح اشارہ بھی نہیں دیا تھا۔ اس فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ نے آئین میں مقررہ مدت کے انتخابات کی تاریخ جلد از جلد دینے کا حکم دیا تھا۔ اس طرح اس قانونی جنگ کے ایک اور راؤنڈ کا آغاز ہو گیا ہے۔
حکومت اور الیکشن کمیشن دونوں ہی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے معاملے کو طول دینا چاہتے ہیں۔ صورتحال کو دیکھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے یہ سب انتخابات کے ذریعے آنے والی تبدیلی کے جمہوری عمل کو روکنے کے لیے کسی بڑے سیاسی کھیل کا حصہ ہے۔ ہماری حالیہ سیاسی تاریخ میں ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جہاں 90 دنوں میں انتخابات کروانے کے آئینی مینڈیٹ کی اس طرح کھلی خلاف ورزی کی گئی ہو۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل ہوئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کی جانب سے اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرنے کے حوالے سے کوئی اشارہ نہیں دیا گیا ہے۔ یہ بہت حیران کُن بات ہے کہ ایک ایسی حکومت جو جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتی وہ خود ہی انتخابی عمل سے راہِ فرار اختیار کر رہی ہے۔ یہ معاملہ صرف آئین کے اصولوں کے مطابق صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا نہیں ہے بلکہ یہ حکومت میں موجود اتحادی جماعتوں کے لیے بھی ضروری ہے جو حکومت کرنے کے لیے عوام کا تازہ مینڈیٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ملک کی بگڑتی ہوئی مالی صورتحال اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کو بہانا بنانے سے حکومت کی قانونی حیثیت اور انتخابات کے امکانات کو نقصان پہنچے گا۔
نامکمل اسمبلی تمام ووٹروں کی نمائندگی کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کے متعدد اراکین اسمبلی کے ڈی نوٹیفکیشن کو معطل کرنے کے فیصلے نے حکومتی اتحادیوں کی پوزیشن کو مزید متاثر کیا ہے۔ اپنی حکومت ختم ہونے کے ساتھ ہی پی ٹی آئی اراکین نے اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے طویل عرصے بعد ان استعفوں کو منظور نہیں کیا لیکن پھر اچانک ہی انہیں منظور کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ یہ اس وقت منظور کیے گئے جب پی ٹی آئی اپنے استعفے واپس لے کر قومی اسمبلی میں آنے پر غور کر رہی تھی۔ پی ٹی آئی کا اسمبلی چھوڑنے کا فیصلہ پہلے ہی غیرمعقول تھا جبکہ اب اسپیکر اسمبلی کے جلدی میں لیے گئے اس فیصلے سے حکومت کی گھبراہٹ بھی عیاں ہو رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈی نوٹیفیکیشن کو معطل کرنے کے باوجود بھی اسپیکر پی ٹی آئی اراکین کو اپنی نشستوں پر واپس آنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ یہ پوری کہانی جمہوری عمل کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اس سے یہ واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت آئینی دائرہ کار میں کام کرنے پر یقین نہیں رکھتی۔
اندرونی اختلافات کا شکار اتحادی حکومت ملک کو درپیش مسائل کے انبار سے نمٹنے میں بری طرح سے ناکام ہو چکی ہے۔ ان کی تباہ کُن پالیسیوں نے ملک کو معاشی بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ہم اس وقت سری لنکا جیسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے کے لیے تاخیر سے اقدامات لینے کا آغاز کر دیا گیا ہے لیکن اس بیل آؤٹ پیکج کے بحال ہونے کے حوالے سے ابھی کوئی حتمی فیصلہ بھی نہیں ہوا ہے۔ حکومت کی جانب سے لگائے گئے نئے ٹیکسوں میں جہاں غریب طبقے پر بوجھ ڈالا گیا ہے وہاں امیر طبقے کو چھوٹ بھی دی گئی ہے۔ کاروباری حضرات اور تاجر بڑی ان ٹیکسوں سے مستثنیٰ ہیں۔ کمر توڑ مہنگائی غریب ترین طبقے کو سب سے زیادہ لوگوں متاثر کر رہی ہے۔ اس سال کی پہلی ششماہی کے لیے اوسطاً 33 فیصد افراط زر کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اس سے پاکستانی گھرانوں کی اکثریت کے متاثر ہونے کا امکان ہے جو پہلے ہی شدید مشکلات کے بوجھ تلے دبے ہیں۔ اس سے بھی تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ سخت فیصلے بھی آئی ایم ایف کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے ناکافی لگ رہے ہیں۔ ایک کمزور حکومت جس کے پاس محدود سیاسی قوت ہے اس کے لیے اس سنگین بحران کو قابو کرنا بہت دشوار ثابت ہورہا ہے۔ اکتوبر 2023ء میں ہونے والے انتخابات اور سابق وزیراعظم عمران خان کے بڑھتے ہوئے دباؤ نے حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔
چونکہ حکومتی مینڈیٹ کم ہوتا جارہا ہے، اسے دیکھ کر لگ رہا ہے کہ جیسے وہ کسی سہارے پر کھڑی ہے۔ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے غیر سیاسی ہونے کے دعوے کے باوجود کہیں نہ کہیں ان کے اثرات نمایاں ہیں۔ مخالفین کے خلاف بغا��ت کے مقدمے بنانا حزبِ اختلاف کو دبانے اور ڈرانے کا ایک پرانا حربہ ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت نے ماضی کی کوتاہیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور وہ ایک بار پھر مخالفین کو دبانے کے لیے وہی روایتی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ نیب چیئرمین کے مستعفی ہونے کی بھی یہی وجہ بتائی گئی کہ جو کام حکومت ان سے کروانا چاہتی تھی وہ ان کے لیے ناقابلِ قبول تھے۔ اس سے ایک بار پھر ان الزامات کو تقویت ملی ہے کہ حکومت نیب کو مخالفین کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے۔ پنجاب کی نام نہاد نگران حکومت میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے ان شکوک و شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو ٹالنے کے لیے حکومت کسی نئے گیم پلان کی تیاری میں ہے تاکہ طویل مدتی عبوری سیٹ اپ رائج کیا جاسکے۔ فوج کی حمایت سے آنے والا اس قسم کا سیٹ اپ نہ ماضی میں کامیاب ہوا تھا اور نہ اب اس کے کامیاب ہونے کے کوئی امکانات ہیں۔ اس طرح کا کوئی بھی قدم ملک کو غیرمستحکم کرے گا جس سے اس کے اتحاد کو شدید نقصان پہنچے گا۔
تبدیل ہوتی اقتدار کی سیاست، اداروں میں ٹکراؤ کا باعث بنی ہے جس سے نظام بدحالی کا شکار ہوا ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ جیسے ریاست مکمل تباہی کے دہانے پر ہے جبکہ سیاسی اختلافات ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ ملک کے سب سے بڑے اور طاقتور صوبے پنجاب میں کشیدگی بڑھنے کے ساتھ ہی خانہ جنگی کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔ حالیہ بحرانوں نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم کی وجہ سے ملک میں انارکی پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ سیاسی مقابلے بازی اور تقسیم نے ریاستی اداروں کو کمزور کر دیا ہے جس سے دیگر طاقتوں دخل اندازی کا موقع مل رہا ہے۔ آج ہم جس بحران کا سامنا کر رہے ہیں، شاید اس نوعیت کا بحران ہماری ملکی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔ اس کے حل کے لیے سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہے۔ اپنی حکمرانی جاری رکھنے کے لیے غیرقانونی ذرائع استعمال کرنے کے بجائے پی ڈی ایم حکومت کو بڑھتی ہوئی سیاسی تفریق کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ملک کو جن مشکلات کا سامنا ہے اس کا حل انتخابات سے راہِ فرار اختیار کرنے میں ہرگز نہیں ہے۔
زاہد حسین
یہ مضمون 22 فروری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
کیا پاکستان ایران اور سعودی عرب کشیدگی کو ختم کرا سکتا ہے ؟
کیا پاکستان واقعی ایران اور سعودی عرب کے درمیان جاری کشیدگی کو ختم کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟ تجزیہ کاروں کی رائے اس حوالے سے بٹی ہوئی ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ پاکستان ایران اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے سہولت کار بن سکتا ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ مسئلہ پیچیدہ ہونے کے باوجود حل کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ روز تہران میں ایرانی صدر حسن روحانی کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران عمران خان کا کہنا تھا،'' پاکستان نے ماضی میں سعودی عرب اور ایران دونوں ممالک کی میزبانی کی ہے اور ایک مرتبہ پھر دونوں برادر ممالک کو پیشکش کرتا ہے کہ وہ پر امن انداز سے اپنے اختلافات کو بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کریں۔‘‘ عمران خان کا کہنا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تنازعہ صرف اس خطے کو نہیں بلکہ کئی ترقی پذیر ممالک کو متاثر کرے گا۔ کشیدگی کے باعث تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا، کئی ممالک کے اخراجات میں اضافہ ہو گا اور یوں غربت میں بڑھے گی۔‘‘
پاکستان کیا کردار ادا کر سکتا ہے ؟ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سکیورٹی صورتحال پر کئی کتابوں کے مصنف زاہد حسین کی رائے میں یہ پاکستان کے بس کی بات نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،'' ایران اور سعودی عرب کے تنازعات بہت گہرے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان خطے میں طاقت کے حصول کی جنگ ہے۔ ��یسے میں پاکستان کے پاس ایسی پوزیشن نہیں ہے کہ وہ اس بہت پیچیدہ مسئلے میں سہولت کار بن سکے، لگتا نہیں ہے کہ اس حوالے سے کوئی بہت زیادہ پیش رفت ہو گی۔‘‘ زاہد حسین کہتے ہیں کہ سعودی عرب ایران کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور ایران کے خلاف اس کی پوزیشن بہت سخت ہے ایسے میں ان دو ممالک کو بات چیت پر آمادہ کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔
دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں رپورٹنگ کرنے کا تجربہ رکھنے والے صحافی اویس توحید کہتے ہیں کہ حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ایک روشن خیال لیڈر کے طور پر ابھرنا چاہتے ہیں اور ایران بھی اپنے آپ کو بطوراعتدال پسند ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے میں جنگ سے دونوں مسلم ممالک کو بہت زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اویس توحید کا کہنا ہے کہ یمن میں ایران اور سعودی عرب کی پراکسی جنگ جاری ہے۔ اس مسئلے کا حل نہیں نکل رہا، سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملہ اس ملک کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا اور اب حال ہی میں ترکی کی جانب سے شام میں کرد ملیشیا پر حملے کی صورت میں سعودی عرب جنگ کا بڑھاوا دیکھ رہا ہے اور اسے خطرہ ہے کہ یہ تنازعہ ممکنہ طور پر مشرق وسطیٰ میں پھیل سکتا ہے۔ لیکن امریکا شام سے انخلاء چاہ رہا ہے اور سعودی عرب کو یہ بھی خطرہ ہے کہ کسی جنگ کی صورت میں شاید وہ امریکا کی مکمل حمایت حاصل نہ کر پائے تو ایسی صورتحال میں کہیں نہ کہیں سعودی عرب بھی چاہے گا کہ ایران کے ساتھ کشیدگی کے جائے معاملات حل ہوں۔
ایران کی صورتحال بھی کچھ زیادہ مضبوط نہیں۔ ایران پر امریکا کی اقتصادی پابندیاں برقرار ہے اور سعودی عرب کے ساتھ کشیدگی کے باعث جنگ کی صورت میں اسے کثیر سرمایہ درکار ہو گا۔ اویس توحید کہتے ہیں کہ دونوں فریقین آخر کار بات چیت کی میز پر آئیں گے اور اس میں پاکستان ان دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات کی بنا پر کردار ادا کر سکتا ہے۔ اسلام آباد میں قائم انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان کے سابق سکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا،'' پاکستان کے لیے دونوں ممالک اہمیت رکھتے ہیں اور دونوں ممالک میں پاکستان کو بھی مثبت انداز میں دیکھا جاتا ہے۔ اور اس بات کا ادراک سب کو ہو گیا ہے کہ جنگ کا نقصان سب کو ہو گا۔ نہ صرف دونوں ممالک کی تیل کی تنصیبات، انڈسٹری اور دیگر اثاثوں کو نقصان پہنچے گا بلکہ پورا خطہ اس سے متاثر ہو گا۔‘‘ اعزاز احمد چوہدری کہتے ہیں کہ کشیدگی کے باعث عالمی سطح پر تیل کی رسد گھٹتی ہے تو پوری دنیا کے لیے لمحہٴ فکریہ ہو گا۔ ماضی میں بھی پاکستان ایران اور سعودی عرب کے درمیان بات چیت میں سہولت کار کا کردار ادا کر چکا ہے لہٰذا اب بھی اس کام کے لیے پاکستان کا ہی نام لیا گیا ہے۔
پاکستان سہولت کار بن کر کیا حاصل کر سکتا ہے ؟ اس بار ے میں اویس توحید کہتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان کا نام دہشت گردی کے حوالے سے لیا جاتا تھا۔ اسے خطر ناک ملک کہا جاتا تھا۔ اگر پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان بات چیت میں سہولت کاری کا کردار ادا کر سکتا یے تو پاکستان عالمی سطح پر اپنا تاثر مثبت بنا سکتا ہے۔ فرقہ واریت نے پاکستان کو کافی عرصے اپنی لپیٹ میں لیے رکھا ہے۔ اور اگر پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی ختم کرنے میں مثبت کرادر ادا کرتا ہے تو پاکستان کو اندرونی طور پر شیعہ سنی تنازعہ کے حوالے سے مثبت ردعمل دیکھنے کو ملے گا۔ اعزاز احمد چوہدری کہتے ہیں کہ اگر معاملات خراب ہوتے ہیں تو خود پاکستان کو بھی نقصان ہو گا کیوں کہ امریکی پابندیوں کے باعث پاکستان ایران کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات نہیں بنا سکا۔ تو مثبت پیش رفت کی صورت میں یہ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں ایران پر یہ پابندیاں اٹھائی جائیں اور یوں پاکستان بھی اس صورتحال کا فائدہ اٹھا سکے گا۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
1 note
·
View note
Text
چین، ایک مخلص اور دانا دوست
ہمارے وزیر اعظم چین کا دورہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین اور پاکستان کی دوستی لازم و ملزوم اور کسی اگر مگر سے پاک ہے۔ آج تک جس طرح چین نے یہ دوستی نبھائی ہے وہ ملکوں کی تاریخ کا ایک عجوبہ ہے، اس عجوبے کی سلامتی میں پاکستانی کی سلامتی ہے۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کہا کرتے تھے کہ ہمیں اپنے آنے والی نسلوں کو بھی بتا کر جانا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے چین سے دوستی ہر حال میں قائم رکھنی ہے۔ پاکستان کے لیے چین کی دوستی اس کے تحفظ کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ بھارت سے بھی چین نے دوستی کا تجربہ کیا اور ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ بھی بلند ہوا تھا لیکن یہ تعلق زیادہ دیر نہ چل سکا جب کہ پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ چین کی دوستی نے دو ملکوں کے تعلقات کی ایک نئی مثال پیش کی۔ نظام حکومت اور مذہب و ثقافت کے مکمل اختلافات اور دوری کے باوجود مسلمانوں اور کیمونسٹوں کی یہ دوستی دور جدید کا ایک عجوبہ ہے۔
مغربی دنیا اور امریکا کی مسلسل مداخلت کے باجود دوستی کا یہ سفر جاری ہے اور اگر پاکستانی حکمران عقلمند فیصلے کرتے رہے تو یہ سفر بڑا طویل رہے گا۔ چین اب وہ پرانا چین نہیں رہا۔ دنیا میں کیمونسٹ انقلاب کا بانی سوویت یونین کئی دہائیاں قبل ختم ہو گیا مگر چین زندہ سلامت ہی نہیں دنیا کی ایک ایسی زبردست طاقت ہے، آج کا چین خوشحال ہے اور یہ خوشحالی کسی ورلڈبینک یا امریکا کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ چینیوں کی اپنی ہے، اس ترقی کا سب سے بڑا راز ان کا قومی ڈسپلن ہے۔ اس کی سیاسی قیادت نے ڈسپلن کی پابندیوں سے باہر ایک قدم بھی نہیں رکھا۔ موجودہ دور میں چین کی عالمی سیاست اور اقتصادیات کی کئی مجبوریاں اور مصلحتیں بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ بدلے ہوئے چین کو اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے مزید منڈیاں ��رکار ہیں، اس ضرورت کے لیے وہ دنیا سے جڑا رہنا چاہتے ہیں۔
جدید دنیا چین کی مصنوعات کی منڈی بن چکی ہے اورمغرب اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے پریشان اور خوفزدہ ہے کیونکہ چین کی کم قیمت مصنوعات نے دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے خاص طور پرپاکستان کے ساتھ سی پیک کا معاہدہ دنیا کی نظروں میں بری طرح کھٹک رہا ہے اورچین مخالف قوتوں کی یہ کوشش ہے کہ اس اقتصادی راہداری میں جس قدر ممکن ہو سکے تاخیر ہو کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ یہ راہداری نامکمل رہ جائے البتہ اس میں تاخیرکی صورت میں مخالف قوتوں کو کچھ اضافی وقت ضرور مل سکتا ہے جس میں وہ اپنے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ماضی ہو یا حال ہو چینی قیادت ایک بات پر بہت زیادہ اور خصوصی زور دیتی ہے کہ چین اور پاکستان کی دوستی دونوں ملکوں کے عوام کی دوستی بھی ہے بلکہ سچ پوچھیں تو یہی عوام کی دوستی دونوں حکومتوں کی دوستی کو سہارا دیے ہوئے ہے اور پاکستان کے بعض نالائق حکمرانوں کو بھی حوصلہ دیتی ہے۔ چینی ہمارے حکمرانوں کو خوب سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ پاکستان کے ساتھ دوستی کو کمزور نہیں ہونے دیتے۔
ایک مخلص اور دانا دوست کی طرح چینی پاکستانیوں کو مشورے بھی دیتے رہتے ہیں کیونکہ کوئی دوست یہ نہیں چاہتا کہ اس کا دوست کمزور ہو۔ چینی پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اس کے میزائلوں سے بہت خوش ہیں کیونکہ یہ ان کے دوست کی مضبوط دفاعی طاقت ہے مگر وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے بغیر وہ پاکستانی حکمرانوں کی نادانیوں پر ایک دوست کی طرح ناخوش ہوتے ہیں اور یہ ان کا حق ہے لیکن وہ مطمئن ہیں کہ پاکستان بھارت کے لیے ترنوالہ ہر گز نہیں ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے پاکستان کے عوام کے رہنما پاکستان کی سبکی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور حکمرانوں کے دوست ملک چین کے دوروں کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ پاکستانی قوم کے رہنماؤں کو کم ازکم چین کے معاملے میں محتاط رہنا چاہیے۔
اطہر قادر حسن
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes