#کھل
Explore tagged Tumblr posts
Text
مولانا طارق جمیل وی پی این کےمعاملہ پر کھل کر بول پڑے
(24 نیوز)اسلامک سکالر مولانا طارق جمیل نے اسلامی نظریاتی کونسل کے فتوے پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وی پی این حرام ہے تو پھر موبائل فون کا استعمال بھی حرام ہے۔ نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ کہ کون سی شرعی کونسل نے یہ فتویٰ دیا ہے لیکن اگر وی پی این حرام ہے تو پھر تو موبائل بھی حرام ہے کیونکہ اس میں تو وی پی این کے بغیر ہی دیکھنے کے لیے اتنی چیزیں…
0 notes
Text
آپ زندگی میں کبھی نہ کبھی وہ دروازے بھی بند دیکھیں گے، جو کبھی صرف آپ کے قدموں کی آہٹ سے کھل جاتے تھے
Life's journey will sometimes lead you to doors that once swung open at your approach, but now stand shut.
32 notes
·
View notes
Text
When Major Ahmed said
"آپ بے شک سو جائیں مگر پلیز فون بند مت کیجئے گا...میں آپ کی خاموشی سنوں گا۔"
When Gabriel Garcia Marquez said "And if one day you don't feel like talking to anyone. Call me ... We'll be silent."
When Behzad lakhnawi wrote
"مجھے تو ہوش نہ تھا ان کی بزم میں لیکن، خموشیوں نے میری ان سے کچھ کلام کیا"
When R. Arnold said "So, if you are too tired to speak, sit next to me for I, too, am fluent in silence."
When Arijit singh sang
"خاموشیاں آواز ہیں تم سننے تو آؤ کبھی، چھو کر تمہیں کھل جائیں گی گھر ان کو بلاؤ کبھی.."
#اردو شعر#اردو غزل#اردو ادب#اردو شاعری#urdu#urdu poetry#urdublr#urdu posts#urdushayari#shayari#urdu stuff#urdu ghazal#desi tumblr#desiblr#quotes#threads#text post#eng x urdu#khamoshi#silence#unrequited love#unrequited feelings#arijitsingh#Jannat ke pattay#jkppost#nemrah ahmed#Major Ahmed#Haya suleiman
106 notes
·
View notes
Text
جہاں دن میں صرف بے چینی ہوتی ہے، وہیں رات کو دل اور دماغ دونوں کھل جاتے ہیں۔ پھر کیا وقت اور کیا نیند۔۔۔ صرف خاموشی میں سکون ملتا ہے۔
jahan din main sirf bechayni hoti hai, waheen raat ko dil aur deemagh dono khul jaate hain. phir kya waqt aur kya neend… sirf khamooshi main sukoon milta hai.
11 notes
·
View notes
Text
درد اتنا تھا کہ اْس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے اْلجھنا چاہا............!!
ہر بنِ مو سے ٹپکنا چاہا............!!
اور کہیں دور تیرے صحن میں گویا!
پتّہ پتّہ مرے افسردہ لہو میں دْھل کر.!
حْسنِ ماہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا..!
میرے ویرانہء تن میں گویا........!
سارے دکھتے ریشوں کی طنابیں کھل کر
سلسلہ وار پتہ دینے لگیں.........!
ایک پل آخری لمحہ تیری دلداری کا
درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا
ہم نے چاہا بھی مگر دل نہ ٹہرنا چاہا.!!
- فیض احمد فیض
#urdu#urdu poetry#urdu shayari#urdu ghazal#urdu literature#urduadab#urdu quote#hindi shayari#hindi poetry
9 notes
·
View notes
Text
تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے، عشق تیرا ستائے تو میں کیا کروں
تابش کانپوری
تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے، عشق تیرا ستائے تو میں کیا کروں
کوئی اتنا تو آکر بتا دے مجھے جب تری یاد آئے تو میں کیا کروں
میں نے خاک نشیمن کو بوسے دیے اوریہ کہہ کے بھی دل کو سمجھا لیا
آشیانہ بنانا مرا کام تھا کوئی بجلی گرائے تو میں کیا کروں
میں نے مانگی تھی یہ مسجدوں میں دعا، میں جسے چاہتا ہوں وہ مجھ کو ملے
جو مرا فرض تھا میں نے پورا کیا، اب خدا ہی نہ چاہے تو میں کیا کروں
شوق پینے کا مجھ کو زیادہ نہ تھا،ترک توبہ کا کوئی ارادہ نہ تھا
میں شرابی نہیں مجھ کو تہمت نہ دو، وہ نظر سے پلائے تو میں کیا کروں
حسن اور عشق دونوں میں تفریق ہے، پر انہیں دونوں پہ میرا ایمان ہے
گر خدا روٹھ جائے تو سجدے کروں، اور صنم روٹھ جائے تو میں کیا کروں
چشم ساقی سے پینے کو میں جو گیا، پارسائی کا میری بھرم کھل گیا
بن رہا ہے جہاں میں تماشا مرا، ہوش مجھ کو نہ آئے تو میں کیا کروں
7 notes
·
View notes
Text
Allah to un darwazon ko bhe khol deta hay jin pe tum kabhi dastak nhi dete, phir wo un darwazon ko kiu nhi khole ga jin par tumhari musalsal dastak ke nishaan hayn.
دعا دستک کی طرح ہے، اور مستقل دستک سے دروازہ کھل جاتا ہے۔
#aesthetic#writing#writers on tumblr#tumblrstuff#vintage#poets on tumblr#tumblrpost#quotes#urdu quotes#urduposts
9 notes
·
View notes
Text
Appeal to the Chief Justice of India to take Suo Motu action against Yati Narsinghanand for his blasphemy against our beloved Prophet Muhammad (PBUH). 🌙💖
🖱️ *Click* on this link: mailxto.com/appealtocji
📧 Once you click, it will open in your Gmail. Just tap the send button ▶️ and you're done!
May Allah reward you immensely. 🤲
یتی نرسمہانند کے خلاف فوری قانونی کاروائی کے لیے چیف جسٹس آف انڈیا کو اپیل کریں
🖱 اس لنک پر کلک کریں: mailxto.com/appealtocji
📧 کلک کرنے کے بعد، آپ کا Gmail خودبخود کھل جائے گا۔ بس send کا بٹن ▶️ دبائیں اور آپ کا پیغام بھیج دیا جائے گا!
اللہ آپ کو بے پناہ اجر سے نوازے۔ 🤲
3 notes
·
View notes
Text
ٹک ٹاک کا بھلا ہو، ہماری ان بہنوں کو کھل کر اپنے جسم کی نمائش کا موقع دیا جن کے اندر ایک گرم نشیلی زانیہ بے حیا نیم ننگی آوارہ بد چلن رقاصائیں موجود تھیں مگر معاشرے کی پابندیوں اور جھوٹی اناؤں کے سبب وہ اپنا نشیلے سے نشیلا جسم بھی سات پردوں میں چھپا کر رکھتی تھیں ۔ بھلا کو تک ٹاک کا اپنے باپ کے سامنے سات پردوں میں چھپ کر با حیا شریف زادیاں ٹک ٹاک پر اپنے جسم کا ایک ایک انگ رقصاں کرکے کسی بے حیا زانیہ رقاصہ کے روپ میں لاکھوں غیر محرم مردوں کو چھٹواتء ہیں ۔
30 notes
·
View notes
Text
کڈے لاڈ لڈاوے ماں
صدقے واری جاوے ماں
آپوں کھاوے رکھی سکھی
مینوں ددھ پلاوے ماں
آپوں تپ وچ سڑدی ریندی
مینوں چھاویں پاوے ماں
ٹھنڈ وچ سوندی گلے پاسے
مینوں سکے پاوے ماں
کچی نیندر ہوسی اس دی
ستیاں ناں جگاوے ماں
جتھے میرا مڑکا ڈلے
اوتھے رت وگاۓ ماں
کنڈ ہو جاندی اس دی خالی
جس دی وی مر جاوے ماں
جے وس چلدا مرن نہ دیندی
ہاڑے ترلے پاوے ماں
پتر پاویں پیڑے ہوون
سو سو پردے پاوے ماں
رحمت دے کھل جان خزانے
جدوں ھتھ اٹھاوے ماں
جس منور رب نوں منانا
اپنی او مناوے ماں
6 notes
·
View notes
Text
آج میں آپ سے اپنا انسسٹ یا بہن۔ چود بننے کا سفر شیئر کرنے جا رہا ہوں اس سے پہلے اپنے مذہبی بننے کا سفر بھی شیئر کر چکا ہوں۔ ابھی چونکہ میں انسسٹ نہیں کرتا پریکٹیکلی مگر پھر بھی گزرا وقت یاد بہت کرتا ہے تو کہانی کو شروع کرنے سے پہلے بتا دوں کہ یہ سفر لکھتے وقت گانڈ میں ایک عدد کھیرا اور اپنے نپلز پر دو کلپ موجود ہیں اس کے علاوہ پیشاب کا ایک گلاس پی پر لکھنے لگا ہوں تاکہ بہتر انداز سے بیان کر سکوں کوشش کروں گا سفر مختصراً اور اچھے سے بتا سکوں۔
ہم چار بہن بھائی ہیں میں مون ، روبی، عائشہ اور عدیل۔
میرا تعلق لاہور سے ہے یہ انسسٹ کا سفر میں نے اور روبی نے شروع کیا تھا جب میں محض سات یا آتھ سال کا ہوں گا جی ہاں سات یا آتھ سال اور اس وقت روبی بارہ سال کی تھی ہاں ہاں پتا ہے اس وقت کہاں لن پھدی کا پتا ہوتا ہے مگر یہ وہی عمر تھی جب محلے کے جوان لاتعداد لڑکے میری گانڈ کواپنی منی نکالنے والی مشین کے طور پر استعمال کرتے تھے اور مجھے بھی یہ سب پسند تھا۔ خیر روبی اور میں روزانہ رات کو ساتھ سوتے اور ایک دوسرے کے نپلز سے کھیلتے وہ میرا لن چوستی اور میں اس کی پھدی اور نپلز اس کے علاوہ ساتھ نہاتے اور جب بھی کبھی گھر اکیلے ہوتے تو ننگے ہو گر پورے صحن میں گھومتے اور ایک دوسرے کو مزے دیتے رہتے خواہ ڈسچارج نہ بھی ہوتے مگر مزہ آتا رہتا اس دوران اکثر عائشہ جو کہ کم عمر تھی اسے کچھ سمجھ نا تھی وہ بھی ہمارے ساتھ ہوتی وقت گزرتا گیا روبی اور میں بڑے ہوتے گئے روبی کے ممے اور جسم بھی پر کشش ہوتا گیا میری گانڈ مروانے کی روٹین میں اضافہ ہوا اور ساتھ ہی روبی سے سیکس کرنے میں بھی کیونکہ لن چھوٹا تھا یا جب بڑا بھی ہو گیا تو روبی کی پھدی کی سیر کرتا ہی رہتا دوسری طرف جہاں روبی کو میری گانڈ مروانے والی عادت کا میں نے علم نہ ہونے دیا تھا وہاں ہی اس کے ساتھ عائشہ کے ساتھ جو میں مزے کر رہا تھا وہی پھدی چوسنا گانڈ چاٹنا دودھ چوسنا اس کا علم بھی نہ ہونے دیا تھا۔ مگراس سب میں میں اور روبی عدیل کو بھول گئے تھے جو ہوش سنبھال چکا تھا ہم اپنی مستی میں ایک دوسرے کو ہی مزہ دینے میں مصروف تھے عدیل کا خیال مجھے اس وقت آیا جب میں سترہ سال۔کا تھا اور عائشہ تیرہ سال کی تھی اور روبی لگ بھگ بائیس کی اور اس وقت عائشہ سے کافی وقت بعد ملاپ ہونے کی وجہ سے مجھے معذرت کرنا پڑی تو اس نے بتایا کہ اس نے اس کا بھی حل نکالا ہوا ہے اور وہ عدیل ہے تب بھی ایک جھٹکا لگا کہ مجھے پتا ہی نہیں پھر سوچا کہ میں نے بھی تو روبی کو عائشہ سے جنس ملاپ کا علم نہیں ہونے دیا خیر اس جے بعد میں نے کافی دفعہ عائشہ اور عدیل کو جنسی مزے لیتے دیکھا تھا مگر آہستہ آہستہ سب چھوٹ گیا مجھ سے کچھ زمانے کی وجہ سے مصروفیات کی وجہ سے مگر انسسٹ سے دور ہونے کے بعد میں نے اپنی توجہ گانڈ مروانے لن چوسنے ان۔لڑکوں کو بلو جاب دینے اور مذہبی ہونے پر لگا دی روبی کا اکثر مجھے خیال آتا کہ وہ کیسے گزارا کرتی ہو گی تو پھر سوچتا کہ کالج جاتی ہے کیا پتا وہاں کوئی نہ کوئی یار بنا لیا ہو کیونکہ وہ جتنی گرم تھی اس کا اندازہ مجھ سے زیادہ کوئی نہیں لگا سکتا تھا اور اس گرمی کو صبر سے کنٹرول کرنا ناممکن تھا رہی بات عائشہ کی تو اس کی طرف پھر میں نے دھیان دینا چھوڑ دیا انسسٹ کے لحاظ سے اور عدیل بھی سیکس کی طلب میں آگے بڑھتا گیا اس سے پہلے بھی میں زیادہ کھل نہیں پاتا تھا کہ سیکس پر بات کروں یا اسے اپنے ساتھ ملا لوں اور نہ آج اس سے کھل پاتا ہوں معلوم نہیں وہ بہنوں سے انسسٹ کر۔رہا ہے یا نہیں وہ گانڈو بنا۔یا گانڈ مارنے والا مذہبی کی ہوا میں مذہبی بنا یا بچا رہا۔ خیر ابھی تو گانڈ مروانے کی کمی کو بھی کھیرے سے اور منہ کو منی سے بھرنے کے شوق کو پیشاب پی کر پورا کرتا ہوں۔
13 notes
·
View notes
Text
سلمان اکرم راجہ کے بیان پر شیر افضل مروت کھل کر سامنے آ گئےدبنگ بیان داغ دیا
(ویب ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیکریٹری جنرل بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ شیر افضل مروت کو خود کو قابو میں رکھنا ہوگا، اگر وہ پارٹی میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو ہم انہیں ایک موقع دے رہے ہیں لیکن اگر ان کی جانب سے نظم و ضبط کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو ہم ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔ سلمان اکرم راجہ کے اس بیان پر پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت نے جوابی ٹوئٹ کیا ہے، شیر…
0 notes
Text
تم نہیں جانتے یادیں انسان کو اندر سےکس قدر کھوکھلا کر دیتی ہیں ہر خوشی غمی کے موقع پہ لگتا ہے جیسے دل دیمک زدہ ہو گیا ہو, بظاہر ہنستا مسکراتا چہرہ آنکھوں میں درد سموئے ویران آنکھوں سے ایسی جگہ چاہتا ہے جہاں وہ کھل کر اپنے غموں کا ماتم کر سکے مگر بےسود..!!
You don't know how much memories make a person hollow from the inside. Every happiness and sadness seems like the heart has become infected with termites. The smiling face seems to hide the pain in the eyes and wants a place where it can openly express its sorrows. Can mourn but in vain..!!
میں بھی اسی لاعلاج بیماری میں مبتلائے اذیت ہوں، میری خاموش سسکیاں میری اذیتوں کو بڑھاوا دیتی ہیں، میں خود کو بے بس محسوس کرتا ہوں بہت بے بس!
I am also suffering from the same incurable disease, my silent sobs increase my agony, I feel helpless, very helpless!
Sahib Rumi
19 notes
·
View notes
Text
وہ مِرا ہو نہ سکا تو میں برا کیوں مانوں؟
اسکو حق ہے وہ جسے چاہے اُسے پیار کرے
کل تلک میں نے سُنے جس کے دھڑکتے نغمے
اور کوئی بھی تو اس دل میں سما سکتا ہے
ایک میں ہی تو نہیں پیار کا حق دار یہاں
وہ کسی اور کو بھی اپنا بنا سکتا ہے
کیوں فقط مجھ سے محبت کا وہ اقرار کرے
اس کو حق ہے وہ جسے چاہے اسے پیار کرے
پیار کہتے ہیں جسے وہ ہے دلوں کا سودا
کسی دھڑکن پہ کسی دل پہ کوئی قید نہیں
ہم سفر اپنا بنا لے وہ جسے بھی چاہے
سوچ آزاد ہے منزل پہ کوئی قید نہیں
اس کے رستے میں کھڑی کیوں کوئی دیوار کرے
اس کو حق ہے وہ جسے چاہے اُسے پیار کرے-
صرف وہ مجھ کو ہی چاہے یہ ضروری تو نہیں
وہ تو سائے کو بھی سینے سے لگا سکتا ہے
ایک میں ہی تو نہیں پیار کی حقدار یہاں
وہ کسی اور کو بھی اپنا بنا سکتا ہے
کیوں بھلا اُس سے کوئی پیار پہ اصرار کرے
اُس کو حق ہے وہ جسے چاہے اُسے پیار کرے
دل بھی چھلنی ہے مرا، اور جگر بھی لیکن
کیا کروں کھل کے میں آہیں بھی نہیں بھر سکتی
پیار تو میں نے کیا ،جرم تو سب میرا ہے
میں کسی سے کوئی شکوہ بھی نہیں کر سکتی
اس کی مرضی ہے جو چاہے مرا دلدار کرے
اُس کو حق ہے وہ جسے چاہے اُسے پیار کرے
قتیل شفائی
2 notes
·
View notes
Text
اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
اپنی بے کار تمناؤں پہ شرمندہ ہوں
ا��نی بے سود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے
میری امیدوں کا حاصل مری کاوش کا صلہ
ایک بے نام اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں
کتنی بے کار امیدوں کا سہارا لے کر
میں نے ایوان سجائے تھے کسی کی خاطر
کتنی بے ربط تمناؤں کے مبہم خاکے
اپنے خوابوں میں بسائے تھے کسی کی خاطر
مجھ سے اب میری محبت کے فسانے نہ کہو
مجھ کو کہنے دو کہ میں نے انہیں چاہا ہی نہیں
اور وہ مست نگاہیں جو مجھے بھول گئیں
میں نے ان مست نگاہوں کو سراہا ہی نہیں
مجھ کو کہنے دو کہ میں آج بھی جی سکتا ہوں
عشق ناکام سہی زندگی ناکام نہیں
ان کو اپنانے کی خواہش انہیں پانے کی طلب
شوق بے کار سہی سعئ غم انجام نہیں
وہی گیسو وہی نظریں وہی عارض وہی جسم
میں جو چاہوں تو مجھے اور بھی مل سکتے ہیں
وہ کنول جن کو کبھی ان کے لیے کھلنا تھا
ان کی نظروں سے بہت دور بھی کھل سکتے ہیں
ساحر لدھیانوی۔
10 notes
·
View notes
Text
پوچھنا تھا
پوچھنا تھا کہ
اس اداسی کی کہانی کون لکھے گا
جو ہر وقت مسکراتے چہرے کے سینے میں تب تک دفن رہتی ہے
جب تک وہ خود کسی خاک میں مدفون نہیں ہوتا۔
پوچھنا تھا کہ
اس وجود کی تنہائی کا افسانہ
کب تحریر ہوگا
جو کسی پہ یہ راز عیاں نہ کرتا
کہ وہ ہجوم میں بھی اکیلا تھا
پوچھنا تھا کہ
اس گمشدہ شخص کا پتہ
اب کہاں ملے گا
جس کو شہر کی ہر گلی پہچانتی تھی
مگر وہ راستے میں ہی بھٹک گیا -
پوچھنا تھا کہ
ہر بار اسی گھر کو لوٹ جانے کی تمنا
اس کی آنکھیں کیوں گیلی کرتی رہتی
جہاں واپسی پہ کوئی اس کا منتظر نہ تھا-
پوچھنا تھا کہ
اس کی خوش لباسی کے پیچھے
پوشیدہ رہنے کے بجائے
ہر بار اس کے اندر کی ویرانی کھل کے
کیوں سامنے آجاتی -
پوچھنا تھا کہ
آخر وہ
اندر میں کون سا درد لیئے گھومتا پھرتا ہے
جس کے بوجھہ سے
اس کے دونوں شانے ڈھلک گئے تھے-
پوچھنا تھا کہ
وہ آخری بار کب سویا تھا
کہ اس کی آنکھوں میں
ایک صدی کی جاگ عیاں رہتی تھی۔
پوچھنا تھا کہ
آخر اس کی مسافری کی منزل کہاں ہے
مگر کس سے پوچھنا تھا
وہ اکیلا شخص تو دھیرے دھیرے اندر میں مرتا
ایک دن اچانک مر گیا۔
- امر سندھو
4 notes
·
View notes