#اندرونی
Explore tagged Tumblr posts
Text
چیمپئنز ٹرافی سے متعلق آئی سی سی اجلاس کی اندرونی کہانی
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان میں چیمپئنز ٹرافی کیلئے آئی سی سی بورڈ ممبرز کا ورچوئل اجلاس صرف آدھا گھنٹہ جاری رہنے کے بعد ملتوی کر دیا گیا ۔تفصیلات کے مطابق ابتدائی طور معلوم ہوا تھا کہ آئی سی سی کے بورڈ کا اجلاس کل دوبارہ ہو گا تاہم آئی سی سی کی جانب سے جاری کر دہ اعلامیے میں دوبارہ اجلاس کی کوئی تاریخ نہیں دی گئی بلکہ یہ کہا گیاہے کہ آئندہ چند روز میں دوبارہ ہو گا ۔ آج ہونے والے…
0 notes
Text
صوبوں کو نہری پانی کی تقسیم سے متعلق وفاقی اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن)صوبوں کو نہری پانی کی تقسیم سے متعلق وفاقی اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔ تین رخی فارمولے کے تحت پانی لینے سے سندھ نے انکار کردیا۔ خبر رساں ادارے ” این این آئی” نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ تین رخی فارمولے کے تحت نہری پانی کی تقسیم پر سندھ نے شدید احتجاج کیا جس کے باعث اجلاس بغیرکسی نتیجے کے ختم ہوگیا۔وزیر آبپاشی سندھ جام خان شورو نے کہا کہ نہری پانی کی…
0 notes
Text
پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات میں شدت ،پارٹی گروپوں میں تقسیم ہو گئی
پی ٹی آئی کے گڑھ سمجھے جانے والے صوبہ خیبرپختونخوا میں پارٹی رہنماؤں میں شدید اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔جہاں ایک طرف بشری بی بی اور علیمہ خان گروپ میں پارٹی پر قبضے کی جنگ جاری ہے وہیں تحریک انصاف کے صوبائی رہنما عاطف خان کو گنڈاپور حکومت کے محکمہ اینٹی کرپشن کے جانب سے پے درپے نوٹسز نے پارٹی میں اختلافات پر مہر ثبت کر دی ہے۔ خیبرپختونخوا میں عاطف خان گروپ اور گنڈاپور سرکار کے ایک بار پھر…
0 notes
Text
"اندرونی کشمکش تباہ کن ہے، وہ گفتگو جو ہماری روحوں کے اندر بغیر کسی جواب کے ہوتی ہے تھکا دینے والی ہوتی ہے۔"
The inner conflict is destructive, the conversations that take place within our souls without answers are exhausting.
Dostovski
91 notes
·
View notes
Text
امام احمد اورترمزی کی روایت هے کہ اللہ تعالی نے ایک بار اپنے رسول کو سونے کی عظیم ترین کان دینے کی پیش کش کی، رسول نے جواب دیا، خدایا نہیں، بلکہ مجهے اس طرح رکهیے کہ کسی روز کهاوں اور کسی روز بهوکا رهوں- تاکہ جب میں کهاوں تو اپ کا شکر ادا کروں اور جب بهوک ستائے تو اپ کے سامنے گریہ و زاری کروں-
اس سے معلوم هوا کہ آدمی حالات کے بغیر اپنے اندر کیفیات پیدا نہیں کر سکتا- جو حالات سے خالی هو جائے وه کیفیات سے بهی خالی هو جائے گا- حقیقت یہ هے کہ سختی اور مشقت کے لمحات اپنے اندر دو طرفہ فائده رکهتے ہیں- ایک طرف ان سے وه " درد " حاصل هوتا هے جو دل کی زندگی هے، جو اپ کو احساس حیات سے آشنا کرتا ہے- جو انسان کی اندرونی صلاحیتوں کو بیدار کرنے والا هے- دوسری طرف مشقت کے لمحات ہی اپ کےراحت کے لمحات کو اسلامی رنگ دیتے ہیں- وه آدمی کو اس قابل بناتے ہیں کہ جب وه ایسی کوئی چیز کو دیکهے تو اس کا دل شکر سے لبریز هو جائے- جو درد سے خالی هے وه زندگی سے خالی هے، اور جو زندگی سے محروم هو وه کیسے کوئی بات سنے گا اور کیسے کوئی بات قبول کرے گا-
قرآن کا مطلوب انسان
مولانا وحیدالدین خان
2 notes
·
View notes
Text
کاشغر' گوادر ریلوے لائن
28 اپریل 2023 کے اخبارات میں ایک بہت ہی اچھی خبر شایع ہوئی ہے‘ خبر کے مطابق ’’چین کے روڈ اور بیلٹ پروجیکٹ کے مہنگے ترین منصوبے کی فزیبیلٹی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے‘ جس میں ��وادر سے سنکیانگ تک 58 ارب ڈالر کے نئے ریل منصوبے کی تجویز دی گئی ہے‘ 1860 میل طویل ریلوے سسٹم گوادر کو سنکیانگ کے شہر کاشغر سے ملا دے گا‘‘۔ انگریز نے ہندوستان اور پاکستان کو جاتے ہوئے جو تحفے دیے‘ ان میں ریل سب سے بہترین ذریعہ سفر تھا۔ اب تو ہم ریلوے کے ساتھ ساتھ اس کی پٹڑیاں بھی کباڑ میں فروخت کر کے کھا چکے ہیں‘ معلوم نہیں ہمارا پیٹ کب بھرے گا؟ اب چین کے تعاون سے نئی ریلوے لائن اور موٹر وے کا چرچا ہے‘ جو چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کے شہر کاشغر کو بحیرہ عرب کے دہانے پر واقع پاکستان کی بندر گاہ گوادر سے ملائے گی۔ چین سے آنے والی اس سڑک اور ریلوے لائن کا روٹ پاکستان میں کون سا ہونا چاہیے اس سلسلے میں مختلف فورموں پر بحث ہو رہی ہے‘ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی اس پر کافی بحث کی ہے اور مختلف تجاویز پیش کی ہیں، اس سلسلے میں سب سے بہترین حل نواز شریف کے دور حکومت میں اس وقت کے چیئرمین ریلوے و چیئرمین واپڈا محترم شکیل درانی نے پیش کیا تھا، قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ تجاویز پیش خدمت ہیں‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور شاہراہ‘ کی بہت زیادہ اسٹرٹیجک اور اقتصادی اہمیت ہو گی۔
کوہاٹ‘ بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ڈیرہ غازی خان اور اندرون بلوچستان کے علاقوں کی دوسرے علاقوں کی بہ نسبت پسماندگی کی بڑی وجہ ریلوے لائن کا نہ ہونا بھی ہے۔ ضروری ہے کہ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور سڑک کے روٹ کے لیے وہ علاقے منتخب کیے جائیں جو پسماندہ اور دور دراز واقع ہوں تاکہ ان علاقوں کو بھی ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔ سنکیانگ کے شہر کاشغر سے آنے والا راستہ دو اطراف سے پاکستان میں داخل ہو سکتا ہے‘ یہ کاشغر کے نزدیک درہ کلیک ور درہ منٹاکا سے گزرے گی چونکہ یہ درے کاشغر کے نزدیک ہیں یا پھر یہ درہ خنجراب سے ہوکر آ سکتی ہے‘ اول ذکر درّے پرانے قافلوں کے راستے ہیں اور شاید ان کے ذریعے گلگت تک ایک متبادل ��استہ بذریعہ غذر مل جائے گا‘ یہ راستہ آگے ملک کے باقی علاقوں کے ساتھ مل جائے گا اور یہ موجودہ قراقرم ہائی وے کے علاوہ ہو گا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر انڈس ہائی وے نے پہلے سے ہی کراچی اور پشاور کے درمیان فاصلہ 300 میل کم کر دیا ہے‘ اس طرح نئی ریلوے لائن بھی پرانی کی نسبت چھوٹی ہو گی پرانی لائن کی مرمت اور سگنلنگ کے نظام کو بہتر کر کے اسپیڈ بڑھائی جا سکتی ہے‘ بجائے اس کے کہ نئی لائن بچھائی جائے‘ پرانی لائن کو لاہور سے پنڈی تک ڈبل کیا جائے اس سے اخراجات بھی کم ہوں گے‘ نئی ریلوے لائن کو کشمور سے آگے بلوچستان کے اندرونی علاقوں خضدار اور تربت وغیرہ سے گزار کر گوادر تک لایا جائے۔
کوئٹہ کے لیے موجودہ لائن بہتر رہے گی اور اس کو گوادر تک توسیع دی جائے تاکہ سیندک‘ریکوڈیک اور دوسرے علاقوں کی معدنیات کو برآمد کے لیے گوادر بندرگاہ تک لانے میں آسانی ہو ۔ تربت‘ پنچ گور‘ آواران‘ خاران اور خضدار کی پسماندگی کا اندازہ ان لوگوں کو ہو سکتا ہے جنھوں نے یہ علاقے خود دیکھے ہوں یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہیں اور ریاست کی طرف سے بہتر سلوک کے مستحق ہیں، دریائے سندھ کے داہنے کنارے پر واقع انڈس ہائی وے آج کل افغانستان کی درآمدی اور برآمدی تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بنوں میرعلی روڈ آگے سرحد پر واقع غلام خان کسٹم پوسٹ سے جا ملتی ہے۔ 2005 میں کی گئی انڈس ہائی وے کے ساتھ نئی ریلوے لائن کی فیزیبلٹی رپورٹ موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، اس ریلوے لائن کو افغانستان تک توسیع دی جا سکتی ہے‘ کوئٹہ چمن لائن بھی بہت مناسب ہے‘ دادو سے گوادر تک ریلوے لائن صرف پیسوں کا ضیاع ہو گا، گوادر سے کراچی تک کوسٹل ہائی وے اس بندرگاہ کی فوری ضروریات کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں بہت سے علاقے حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پسماندہ رہ گئے ہیں ’اس لیے مستقبل میں جو بھی منصوبہ بنے اس کا ہدف پسماندہ علاقوں کی ترقی ہونا چائے‘‘۔
جمیل مرغز
بشکریہ ایکپریس نیوز
2 notes
·
View notes
Photo
محض خوشبو سونگھنے اورناک میں دوائی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا سوال ۴۲۱: روزہ دار کے خوشبو سونگھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :روزہ دار کے لیے خوشبو سونگھنے میں کوئی حرج نہیں، خوشبو خواہ تیل کی صورت میں ہو یا بخور کی صورت میں۔ اگر بخور کی صورت میں ہو تو اس کے دھوئیں کو نہ سونگھیں کیونکہ دھوئیں میں ذرات ہوتے ہیں، جو پیٹ تک پہنچ جاتے ہیں، جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ پانی اور اس کے مشابہ دیگر چیزوں کے پیٹ میں پہنچ جانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ناک میں کھینچے بغیر محض خوشبو کے سونگھنے میں کوئی حرج نہیں۔ سوال ۴۲۲: خوشبو کا دھواں سونگھنے اور ناک میں دوائی کا قطرہ ڈالنے میں یہ فرق کیوں ہے کہ پہلی صورت میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور دوسری صورت میں روزہ نہیں ٹوٹتا؟ جواب :دونوں میں فرق یہ ہے کہ خوشبو کے دھوئیں کو ناک سے کھینچا ہے، وہ گویا اسے قصد وارادے سے اپنے پیٹ میں داخل کر رہا ہے لیکن جو دوائی کا قطرہ ناک میں ڈالتا ہے اس سے اس کا قصد اسے پیٹ تک پہنچانا نہیں، اس کا مقصد صرف ناک کے نتھنے میں دوائی کا قطرہ ڈالنا ہے۔ سوال ۴۲۳: روزہ دار کے لیے ناک، آنکھ اور کان میں دوائی کا قطرہ ڈالنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :ناک میں ڈالے جانے والا قطرہ اگر معدہ تک پہنچ جائے، تو اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ حدیث حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا: ((بَالِغْ فِی الْاِسْتِنْشَاقِ اِلاَّ اَنْ تَکُوْنَ صَائِمًا))( سنن ابی داود، الطہارۃ، باب فی الاستنثار، ح: ۱۴۲ وسنن النسائی الطہارۃ، باب المبالغۃ فی الاسستنشاق، ح: ۸۷۔) ’’ناک میں پانی چڑھانے میں خوب مبالغے سے کام لو اِلاَّ یہ کہ تم روزہ دار ہو۔‘‘ لہٰذا روزہ دار کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ناک میں ایسا قطرہ ڈالے جو اس کے معدے تک پہنچ جائے اور ناک میں ڈالے جانے والا دوائی کا جو قطرہ معدے تک نہ پہنچے، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ آنکھ میں ڈالنے والے قطرے، سرمہ لگانے اور کان میں ڈالے جانے والے قطرے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ اس کے بارے میں کوئی نص نہیں ہے اور نہ یہ منصوص علیہ کے معنی میں ہے۔ آنکھ کھانے پینے کا راستہ نہیں ہے، اسی طرح کان بھی جسم کے دیگر مساموں کی طرح ہے۔ اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص پاؤں کی اندرونی جانب کوئی چیز لگائے اور وہ اپنے گلے میں اس کا ذائقہ محسوس کرے، تو اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ یہ بھی کھانے پینے کا راستہ نہیں ہے، لہٰذا جو شخص آنکھ میں سرمہ ڈال لے یا آنکھ میں دوائی کا قطرہ ڈال لے یا کان میں قطرہ ڈال لے تو اس سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا خواہ وہ اس کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے۔ اسی طرح اگر کوئی انسان علاج کے لیے یا بغیر علاج کے تیل استعمال کرے، تو اس کے روزے کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اسی طرح اگر کوئی دمہ کا بیمار ہو اور وہ سانس میں آسانی کے لیے ان ہیلر استعمال کر لے، تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ اس سے دوائی کے اجزا معدے تک نہیں پہنچتے، لہٰذا وہ کھانے یا پینے والا شمار نہیں ہوگا۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۳۸۸، ۳۸۹ ) #FAI00342 ID: FAI00342 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
یحییٰ سنوار، حماس سربراہ کون ہیں؟
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ یحییٰ سنوار ایک سخت اور پُرعزم جنگجو شخصیت کے مالک ہیں جو اسرائیل کے خلاف فلسطینی تحریک میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
پس منظر اور ابتدائی زندگی یحییٰ سنوار 1962 میں غزہ پٹی کے شہر خان یونس میں پیدا ہوئے۔ انکا تعلق ایک غریب فلسطینی خاندان سے ہے اور بچپن ہی سے انہوں نے اسرائیل کے خلاف فلسطینی جدوجہد میں حصہ لیا۔ حماس سربراہ کی جوانی 1980 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں گزری، جو فلسطین کی آزادی کے لیے ایک اہم دور سمجھا جاتا ہے۔
حماس میں شمولیت اور قیادت کا سفر یحییٰ سنوار نے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کی رہنمائی میں 1980 کی دہائی میں حماس میں شمولیت اختیار کی، وہ جلد ہی تنظیم کے اندرونی سیکیورٹی یونٹ کے سربراہ بن گئے، یہ یونٹ اسرائیلی حکام کےلیے جاسوسی کرنے والوں کی نشاندہی کرنے اور سزا دینے کےلیے ذمہ دار تھا۔ ان کے اس کردار نے انہیں ایک سخت گیر اور غیر مصالحانہ شخصیت کے طور پر متعارف کروایا۔
قید اور رہائی یحییٰ سنوار کو 1988 میں اسرائیل نے گرفتار کیا اور متعدد قتل کے الزامات میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ انہوں نے اسرائیل کی جیلوں میں تقریباً 22 سال گزارے جہاں ان کے نظریات اور ان کی عسکری صلاحیتوں میں مزید پختگی آئی۔ انہیں 2011 میں ایک اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے میں ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کے ساتھ رہا کیا گیا۔ یہ رہائی انہیں حماس کے اندر ایک مضبوط مقام دلوانے کا سبب بھی بنی۔
حماس کی قیادت میں کردار رہائی کے بعد یحییٰ سنوار نے تیزی سے حماس میں اپنی پوزیشن مضبوط کی۔ 2017 میں انہیں حماس کے غزہ پٹی کے لیے سیاسی دفتر کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ ان کے اس عہدے نے انہیں حماس کے عسکری اور سیاسی ونگز کے درمیان ایک رابطے کا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا۔ سنوار کو حماس کی حکمت عملی میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے والا رہنما مانا جاتا ہے، خصوصاً اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور مسلح جدوجہد کے حوالے سے۔ ان کے فیصلے اکثر سخت گیر ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی قسم کے مذاکرات یا سمجھوتے کے حامی نہیں سمجھے جاتے۔
حماس کے موجودہ حالات اور سنوار کی قیادت اکتوبر 2023 میں اسرائیل کے خلاف حملوں کے بعد یحییٰ سنوار زیر زمین چلے گئے اور ان کی تلاش اسرائیل کے لیے ایک اولین ترجیح بن گئی۔ اسرائیلی فوج نے متعدد بار غزہ میں یحییٰ سنوار کو تلاش کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ مسلسل اسرائیلی جاسوسی اور حملوں سے بچنے میں کامیاب رہے۔ یحییٰ سنوار کی قیادت میں حماس نے ناصرف اپنی عسکری صلاحیتوں میں اضافہ کیا بلکہ فلسطینی عوام کے درمیان اپنی مقبولیت کو بھی برقرار رکھا۔ ان کی حکمت عملی نے حماس کو تنقید کے باوجود بین الاقوامی سطح پر ایک طاقتور مزاحمتی تحریک کے طور پر قائم رکھا ہے۔
شخصیت اور اثرات
یحییٰ سنوار کو ایک کرشماتی اور سخت گیر رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے دریغ نہیں کرتے۔ ان کی قیادت نے حماس کو ایک مضبوط عسکری اور سیاسی قوت میں تبدیل کر دیا جو ناصرف اسرائیل بلکہ بین الاقوامی کمیونٹی کےلیے بھی ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ سنوار کی زندگی اور ان کے کارنامے فلسطینی تحریک کی مزاحمت اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد کی ایک مضبوط علامت بن چکے ہیں۔ ان کی قیادت نے حماس کی صفوں میں اتحاد اور مزاحمت کی ایک نئی روح پھونک دی ہے جو آنے والے وقتوں میں بھی فلسطینی تحریک کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھے گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
About the picture: The illustration depicting the internal enemies of the Pakistan Army. The image captures a metaphorical representation of the army surrounded by shadows of deceit and betrayal, highlighting the struggles faced by the institution. Original: Internal enemies of Pakistan Army – پاکستانی فوج کے اندرونی دشمنCrystal Kazmi As per evidence below, I have been requesting the Army top…
View On WordPress
0 notes
Text
عدالتی معاملات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے،برطانوی وزیر خارجہ کا ممبران پارلیمنٹ کے خط پر جواب
لندن(ڈیلی پاکستان آن لائن)برطانوی وزیرخارجہ ڈیوڈ لیمی نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی حراست اور پاکستان کی سیاسی صورتحال پر ممبران پارلیمنٹ کے خط کا جواب دے دیا۔ نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق خط کے جواب میں برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا ہے کہ ہم باقاعدگی سے ان اہم معاملات پر سینئر سطح پر بات چیت کرتے ہیں، پاکستان کے عدالتی معاملات داخلی معاملہ ہے لیکن عالمی قوانین کی پاسداری کی ضرورت…
0 notes
Text
تشریح وتوضیح:-
گزشتہ ساڑھے پانچ صدیوں میں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔
وہ حجرہ شریف جس میں آپ اور آپ کے دو اصحاب کی قبریں ہیں، اس کے گرد ایک چار دیواری ہے، اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے جو پانچ دیواروں پر مشتمل ہے۔
یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بنوائی تھی۔ اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔
اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے۔ اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیا ہے۔ یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں،
لہذا کسی کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
روضہ رسولؐ کی اندر سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں۔
روضہ رسولؐ پر سلام عرض کرنے والے عام زائرین جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آ سکتا ہے، جو حجرہ شریف کی پنج دیواری پر پڑا ہوا ہے۔
اس طرح سلام پیش کرنے والے زائرین اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کے درمیان گو کہ چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے لیکن درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔
ایک سنہری جالیوں والی دیوار، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنج دیواری، اور چوتھی وہ چار دیواری جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔
گزشتہ تیرہ سو سال سے اس پنج دیواری حجرے کے اندر کوئی نہیں جا سکا ہے سوائے دو مواقع کے۔
ایک بار 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ان کا غلام
اور دوسری بار 881 ہجری میں معروف مورخ علامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی کے بیان کے مطابق وہ خود۔
مسجد نبوی میں قبلہ کا رخ جنوب کی جانب ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال کمرے میں ہے۔
بڑے ہال کمرے کے اندر جانے کا دروازہ مشرقی جانب ہے یعنی جنت البقیع کی سمت۔
یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی محراب ہے۔ اس کے پیچھے ان کی چارپائی (سریر) ہے۔
العربیہ ویب سائٹ نے محقق محی الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ ہال کمرے میں روضہ مبارک کی طرف جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے۔
1406 ہجری میں شاہ فہد کے دور میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیا۔
اس سے قبل ڈھانپا جانے والا پردہ 1370 ہجری میں شاہ عبد العزیز آل سعود کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا۔
مذکورہ دیوار 881 ہجری میں اُس دیوار کے اطراف تعمیر کی گئی جو 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تعمیر کی تھی۔ اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ قبلے کی سمت اس کی لمبائی 8 میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6.5 میٹر اور شمال کی جانب دونوں دیواروں کی لمبائی ملا کر 14 میٹر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 91 ہجری سے لے کر 881 ہجری تک تقریباً آٹھ صدیاں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا۔
اس کے بعد 881 ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہو جانے کے باعث ان کی تعمیر نو کرنا پڑی۔ اس وقت نامور مورخ اور فقیہ علّامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی مدینہ منورہ میں موجود تھے، جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔
وہ لکھتے ہیں 14 شعبان 881 ھ کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں شمالی سمت سے داخل ہوا۔ خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔
میں نے رسول اللہ اور آپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔
میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمر کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔
علامہ نور الدین ابو الحسن سمہودی نے اپنی کتاب (وفاءالوفاء) میں حجرہ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ”اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پر مبنی ہے۔
حجرہ نبوی کا فرش مسجد نبوی کے فرش سے تقریبا 60 سینٹی میٹر نیچے ہے۔
اس دوران حجرے پر موجود چھت کو ختم کر کے اس کی جگہ ٹیک کی لکڑی کی چھت نصب کی گئی جو دیکھنے میں حجرے پر لگی مربع جالیوں کی طرح ہے۔ اس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کیا گیا جس کی اونچائی 8 میٹر ہے اور یہ گنبد خضراء کے عین نیچے واقع ہے“۔
یہ سب معلومات معروف کتاب ��وفاء الوفاء با اخبار دار ال��صطفی صلی اللہ علیہ وسلم“ کے مؤلف نور الدین ابو الحسن السمہودی نے اپنی مشہور تصنیف میں درج کی ہیں----واللہ اعلم بالصواب
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ یہ تحریر صدقہ جاریہ ہے ، شیئر کرکے باقی احباب تک پہنچائیے ، شکریہ, اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے ایمان میں تازگی کا باعث ہو .. جزاک اللہ خیرا کثیرا
0 notes
Text
نوازشریف کی زیرصدارت اجلاس کی اندرونی کہانی سامنےآ گئی
مسلم لیگ ن کے صدر نوازشریف کی زیرصدارت اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے عوام کو ریلیف ��ینے کے لئے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں، حکومتوں اور اداروں کو مل کر فیصلے کرنے کی تجویز دے دی۔ نواز شریف نے کہاکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اخراجات میں کٹوتی اور بچت سے عوام کے ریلیف کےلئے وسائل مہیا کریں۔ چاہتاہوں کہ پاکستان کے ہرشہری کو…
0 notes
Text
اندرونی کشمکش تباہ کن ہے ، وہ گفتگو جو ہمارے روحوں کے اندر بغیر کسی جواب کے ہوتی یے تھکا دینے والی ہوتی ہے۔
Internal conflict is destructive, the unanswered conversations within our souls exhausting.
20 notes
·
View notes
Text
لوگوں کے ساتھ ایسے پیش آؤ جیسے کوئی کتاب پڑھ رہے ہو...
منافق کو نظرانداز کر دو، برے کو پھاڑ دو...
اور سب سے خوبصورت پر رک جاؤ...
انسان بھی کتابوں کی طرح ہوتے ہیں...
کچھ لوگ صرف سرورق سے دھوکہ دیتے ہیں،......
جبکہ کچھ کا اندرونی مواد حیران کن ہوتا ہے، حالانکہ ان کا سرورق بالکل عام سا لگتا ہے.....
پہلی نظر میں متاثر نہ ہو، وقت ہر چیز کا فیصلہ کر دیتا ہے......
1 note
·
View note
Text
کیا معیشت دم توڑ چکی ہے؟
کمال فنکاری بلکہ اوج ثریا سے منسلک لازوال عیاری سے اصل معاملات چھپائے جا رہے ہیں۔ جذباتیت‘ شدید نعرے بازی اور کھوکھلے وعدوں سے ایک سموک سکرین قائم کی گئی ہے جس میں ملک کی ریڑھ کی ہڈی‘ یعنی معیشت کے فوت ہونے کے المیہ کو خود فریبی کا کفن پہنا کر چھپایا جا رہا ہے۔ ذمہ داری سے گزارش کر رہا ہوں کہ پاکستان کی معیشت دم توڑ چکی ہے۔ دھوکہ بازی کے ماہر بھرپور طریقے سے غلط اعداد فراہم کر رہے ہیں۔ قوم کو اصل حقیقت سے مکمل دور کر دیا گیا ہے۔ مگر انفارمیشن کے اس جدید دور میں لوگوں کو مسلسل فریب دینا ناممکن ہو چکا ہے۔ طالب علم کو کوئی غرض نہیں کہ سیاسی حالات کیا ہیں۔ کون پابند سلاسل ہے اور کون سا پنچھی آزاد ہوا میں لوٹن کتوبر کی طرح قلابازیاں کھا رہا ہے۔ اہم ترین نکتہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کیا ہیں؟ کیا وہ بہتری کی جانب رواں دواں ہیں یا ذلت کی پاتال میں گم ہو چکے ہیں۔ عوام کی بات کرنا بھی عبث ہے۔ اس لیے کہ اس بدقسمت خطے میں ڈھائی ہزار برس سے عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
عام آدمی چندرگپت موریا اور اشوکا کے زمانے سے دربدر ہے۔ اور اگر ہمارے خطے میں جوہری تبدیلی نہ آئی یا نہ لائی گئی۔ تو یقین فرمائیے کہ کم از کم پاکستان میں حسب روایت اور تاریخ کے غالیچے پر براجمان طبقہ تباہی کا صور اسرافیل پھونک رہا ہے۔ معیشت کو ٹھیک سمت میں اگر موجودہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نہیں لے کر جائے گا تو پھر کون یہ اہم ترین کام کرے گا۔ غور کیجیے۔ اگر کوئی ایسی بیرونی اور اندرونی منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان کو سابقہ سوویت یونین کی طرز پر آرے سے کاٹنا ہے ۔ تو پھر تو درست ہے ۔ مگر وہ کون لوگ اور ادارے ہیں جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ملکی معیشت کو دفنانے کی بھرپور کوشش میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کی عقابی نظرسے کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے۔ تو پھر ملکی معیشت کا جنازہ کس طرح نکال دیا گیا۔ ڈاکٹر اشفاق حسین جیسے جید معیشت دان‘ گال پیٹ پیٹ کر ملک کی معاشی زبوں حالی کا ذکر عرصے سے کر رہے ہیں۔ کیوں ان جیسے دانا لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ گمان تو یہ ہے کہ واقعی ایک پلان ہے‘ جس میں مرکزیت صرف ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہے۔ اس اثناء میں‘ اگر معیشت ختم ہو گئی تو اسے زیادہ سے زیادہ Collateral damage کے طور پر برداشت کرنا ہے۔
صاحبان! اگر واقعی یہ سب کچھ آدھا جھوٹ اور آدھا سچ ہے۔ تب بھی مشکل صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے سامنے ہم گھٹنوں کے بل نہیں بلکہ سربسجود ہونے کے باوجود ’’ایک دھیلہ یا ایک پائی‘‘ کا قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سچ بھرپور طریقے سے چھپایا جا رہا ہے۔ وزیرخزانہ کے نعروں کے باوجود ورلڈ بینک پاکستان کی کسی قسم کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر کمال یہ ہے کہ وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ ‘ گورنر صاحبان ‘ وزراء اور ریاستی اداروں کے سربراہان ہر طرح کی مالی مراعات لے رہے ہیں۔ جن کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری ہوائی جہاز‘ سرکاری ہیلی کاپٹر‘ حکومتی قیمتی ترین گاڑیاں‘ رکشے کی طرح استعمال کی جا رہی ہیں۔ چلیئے‘ اس ادنیٰ اداکاری کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے۔ تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک سال سے تو کسی قسم کا کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ کسی قسم کی ایسی بات نہیں کر رہا‘ جس کا ثبوت نہ ہو۔
ایکسپریس ٹربیون میں برادرم شہباز رانا کی ملکی معیشت کے متعلق رپورٹ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ یہ چھبیس مئی کو شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘ پاکستان کی معیشت سکڑ کر صرف اور صرف 341 بلین ڈالر تک آ چکی ہے۔ یہ ناقابل یقین کمی‘ ملکی معیشت کا نو فیصد ہے۔ یعنی گزشتہ ایک برس میں اقتصادی طور پر ملک خوفناک طور پر غرق کیا گیا ہے۔ یہ 34 بلین ڈالر کا جھٹکا ہے۔ اس کی وضاحت کون کرے گا۔ اس کا کسی کو بھی علم نہیں۔ انفرادی آمدنی‘ پچھلے اقتصادی برس سے گیارہ فیصد کم ہو کر 1568 ڈالر پر آ چکی ہے۔ یعنی یہ گیارہ فیصد یا 198 ڈالر کی کمی ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی غیر سرکاری ادارے کے نہیں‘ بلکہ چند دن قبل نیشنل اکاؤنٹس کمپنی (NAC) میں سرکاری سطح پر پیش کئے گئے تھے۔ اور ان پر سرکار کی مہر ثابت ہو چکی ہے۔ معیشت کا سکڑنا اور انفرادی آمدنی میں م��لسل گراؤٹ کسی بھی حکومت کی ناکامی کا اعلانیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ تف ہے کہ ملک کے ذمہ دار افراد میں سے کسی نے اس نوحہ پر گفتگو کرنی پسند کی ہو۔ ہاں۔ صبح سے رات گئے تک‘ سیاسی اداکار‘ سیاسی مخالفین کے لتے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب تو سیاسی مخالفین کو غدار اور غیر محب وطن ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی تواتر سے بانٹے جا رہے ہیں۔ ماضی میں یہ کھیل کئی بار کھیلا جا چکا ہے۔
ہم نے ملک تڑوا لیا۔ لیکن کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔ عمران خان تو خیر‘ سیاست کی پیچیدگیوں سے نابلد انسان ہے۔ مگر موجودہ تجربہ کار قائدین کیوں ناکام ہو گئے ہیں۔ خاکم بدہن‘ کہیں ملک توڑنے کا نسخہ‘ دوبارہ زیر استعمال تو نہیں ہے۔ وثوق سے کچھ کہنا ناممکن ہے۔ معیشت پر برادرم شہباز رانا کی رپورٹ میں تو یہاں تک درج ہے کہ بیورو آف سٹیسٹسکس (BOS) کو جعلی اعداد و شمار دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ دباؤ حکومت وقت کے سرخیل کی طرف سے آیا ہے۔ بیورو نے ملکی معیشت کو منفی 0.5 فیصد پر رکھا تھا۔ مگر اس رپورٹ کے بقول وزارت خزانہ اور دیگرطاقتور فریقین نے یہ عدد جعل سازی سے تبدیل کروا کر مثبت 0.3 فیصد کروایا ہے۔ دل تھام کر سنیے۔ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح دو فیصد ہے۔ اگر 0.3 فیصد ملکی ترقی کو تسلیم کر بھی لیا جائے۔ تب بھی ملکی معیشت 1.7 فیصد منفی ڈھلان پر ہے۔ یہ معاملات کسی بھی ملک کی بربادی کے لیے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ ہمارے دشمن شادیانے بجا رہے ہیں۔ اندازہ فرمائیے کہ اس رپورٹ کے مطابق‘ موجودہ حکومت نے 2022ء کے سیلاب میں دس لاکھ جانوروں کے نقصان کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ Livestock سیکٹر کی بات کر رہا ہوں۔ مگر BOS کے مطابق حکومت کے یہ اعداد بھی مکمل طور پر غلط ہیں۔
سرکاری ادارے کے مطابق جانوروں کا نقصان صرف دو لاکھ ہے۔ سوچیئے۔ عالمی برادری اور ادارے‘ ہمارے اوپر کس طرح قہقہے لگا رہے ہونگے۔ اس تجزیہ کے مطابق زراعت کے شعبہ میں نمو 1.6 فیصد رکھی گئی ہے۔ یہ عدد بھی کسی بنیاد کے بغیر ہوا میں معلق ہے۔ وجہ یہ کہ کپاس کی فصل اکتالیس فیصد کم ہوئی ہے۔ کپاس کو روئی بنانے کے عمل میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چاول کی فصل میں اکیس فیصد کمی موجود ہے۔ یہ سب کچھ برادرم شہباز رانا کی شائع شدہ رپورٹ میں درج ہے۔ مگر ذرا میڈیا ‘ میڈیا رپورٹنگ پر نظر ڈالیے ۔ تو سوائے سیاست یا گالم گلوچ کے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہاں کوئی بھی ’’مہاشے‘‘ ذکر نہیں کرتا کہ معیشت بھی مقدس ہے۔ اگر یہ بیٹھ گئی تو سب کچھ عملی طور پر ہوا میں اڑ جائے گا۔ مگر کسی بھی طرف سے کوئی سنجیدہ بات سننے کو نہیں آتی۔ وزیر خزانہ کے یہ جملے‘ ’’کہ ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔ بس فکر کی کوئی بات نہیں۔ ان پر شائد میرے جیسے لا علم اشخاص تو یقین کر لیں۔ مگر سنجیدہ بین الاقوامی اقتصادی ادارے اور ماہرین صرف ان جملوں پر ہنس ہی سکتے ہیں۔
معیشت ڈوب گئی تو پچیس کروڑ انسان‘ کتنے بڑے عذاب میں غرقاب ہو جائیںگے۔ اس پر بھی کوئی بات نہیں کرتا۔ موجودہ حکومت کی سیاست‘ سیاسی بیانات اور کارروائیاں ایک طرف۔ مگر عملی طور پر ہماری معیشت دم توڑ چکی ہے۔ صرف سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ سوال ہو سکتا ہے کہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ اس کا جواب صرف یہ ہے‘ کہ ہماری بلیک اکانومی حد درجہ مضبوط اور فعال ہے۔ یہ واحد وجہ ہے کہ ہم خانہ جنگی میں نہیں جا رہے۔ مگر شائد تھوڑے عرصے کے بعد‘ یہ آخری عذاب بھی بھگتنا پڑے۔ مگر حضور‘ تھوڑا سا سچ بول ہی دیجئے۔ مردہ معیشت کی تدفین کب کرنی ہے!
راؤ منظر حیات
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes
·
View notes
Text
خاموش مجاہد جنرل اختر عبدالرحمٰن شہید
اسلام میں مرتبہء شہادت کی جو فضیلت ہے، وہ کسی اور عمل کی نہیں ہے۔ قرآن میں شہداء کو’ مردہ‘ کہنے کی بھی ممانعت ہے کہ وہ زندہ ہیں، مگر ہمیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے۔ اسی لئے ہر سچا مسلمان راہ خدا میں شہادت کی موت کی تمنا کرتا ہے۔ بقول اقبال، جب بندہ ء مومن موت کے پردے میں رخِ دوست دیکھ لیتا ہے تو پھر اس کیلئے موت آسان اور زندگی دشوار ہو جاتی ہے۔ امت مسلمہ کی تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری ��ڑی ہے۔ حالیہ تاریخ میں اسکی ایک عظیم مثال 1979ء میں سوویت یونین کے افغانستان پر قبضہ کے بعد پاکستان کی بے خوف جنگی حکمت عملی تھی، جس میں سوویت یونین کی فوجی ہیبت سے خوف کا شائبہ تک نہیں تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب سوویت یونین کے حوالے سے ضرب المثل بن چکی تھی کہ سوویت یونین جب ایک بار کسی ملک میں داخل ہو جاتا ہے تو پھر نکلتا نہیں۔ امریکی دفاعی ماہر بروس رائیڈل کے بقول افغانستان میں روسی فوجوں کے داخل ہونے کے بعد جنرل ضیاالحق نے آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبدالرحمن سے اس پر مشورہ طلب کیا۔ چند روز بعد جنرل اختر عبدالرحمن نے جو پلان پیش کیا اسے دیکھ کر ایک بار توجنرل ضیاالحق بھی سوچ میں پڑ گئے کہ بالواسطہ طور پر یہ سوویت یونین کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا اور اس کے نتیجہ میں پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے تھے۔
تاہم جنرل اختر عبدالرحمن کی راے یہ تھی کہ اگر سوویت یونین کی پیشقد می کو افغانستان کے اندر نہ روکا گیا تو افغانستان پر فوجی قبضہ مستحکم کرنے کے بعد اس کا اگلا ہدف بلوچستان ہو گا، جہاں پاکستان، روس اور بھارت کے گھیرے میں آ جائے گا۔ بہرحال کچھ ردوکد کے بعد جنرل ضیاء الحق نے جنرل اختر عبدالرحمن کے جنگی منصوبہ کی منظوری دیدی، تاہم یہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن دونوں جانتے تھے کہ اس کے بعد ان کی زندگیاں مستقل طور پر خطرے میں رہیں گی اور وہ راہ ِشہادت کے راہی ہوں گے۔ جنرل اختر عبدالرحمن میں تو خوف نام کی کوئی چیز ہی نہ تھی۔ وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے، اس کے باوجود انہوں نے فوج جوائن کی، جس میں زندگی کا چراغ ہر لحظہ آندھیوں کی زد میں رہتا ہے۔ وہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے خلاف تینوں جنگوں ( 1948ء ، 1965ء ، 1970ء) میں شریک ہو چکے تھے۔
موت کو انھوں نے کبھی خوف زدہ کرنے و الی شے سمجھا ہی نہیں تھا۔ 1947ء میں وہ ابھی لیفٹیننٹ کرنل تھے، جب پہلی بار انھوں نے موت کو قریب سے دیکھا۔وہ نقل مکانی کرنے والے قافلوں کی نگرانی پر مامور تھے، ایک مقام پر ہندو فوجیوں کے گھیرے میں آ گئے۔ ایک ہندو جوان نے ان پر بندوق تان لی۔ وہ فائرکرنے ہی والا تھا کہ اسی لمحےایک مسلمان ریکروٹ نے اس ہندو جوان کو اپنی گولی کا نشانہ بنا ڈالا۔ اختر عبدالرحمن کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ موت ان کو چھو کے گزر گئی تھی۔ اس طرح 1948ء میں پانڈو ٹیکری کے محاذ پر بھارتی فوج سے لڑتے لڑتے ان کا اپنی یونٹ سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ یہاں تک کہ یونٹ میں ان کی شہادت کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ اس پس منظر ہی میں فوج میں ان کو ’زندہ شہید‘ کہا جاتا تھا۔، 1965ء اور 1970ء کی جنگ میں بھی جنرل اختر عبدالرحمن نے میدان جنگ میں اس طرح داد شجاعت دی تھی کہ بھارتی جنرل بھی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے۔
1979ء میں کوئی بھی یہ یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ سوویت فوج کے خلاف جنرل اختر عبدالرحمن کی فوجی حکمت عملی کامیاب ہو گی اور سوویت فوج جس طرح دریاے آمو پار کر کے افغانستان میں داخل ہوئی ہے، چند سال بعد اسی طرح بے نیل مرام دریاے آمو پار کر کے واپس جا رہی ہو گی۔ امریکا کی بے یقینی کا تو یہ عالم تھا کہ اس نے اس سال اپنے بجٹ میں اس مد میں کوئی رقم نہ رکھی، اور ایک سال بعد بھی جب کچھ امداد کی پیشکش کی تو جنرل ضیاء الحق اس کو مونگ پھلی قرار دینے پر مجبور ہو گئے۔ حقیقتاً ، ابتدائی طور پر صرف سعودی عرب ہی عملی طور پر پاکستان کی مدد کر رہا تھا۔ تاہم بعد میں جب سوویت یونین کے خلاف افغان مزاحمت زور پکڑنے لگی اور امریکہ اور یورپ کو جنرل اختر عبدالرحمن کی حکمت عملی قابل عمل نظر آئی، تب جا کے انھوں نے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا شروع کیا۔ کچھ عرصہ بعد جنرل اختر عبدالرحمن نے امریکا کو سوویت فوج کے خلاف سٹنگر میزائل کی فراہمی پر بھی راضی کر لیا، جس نے جنگ کا پانسہ واضح طور پر افغان مجاہدین کے حق میں پلٹ دیا۔
1987ء میں جب جنرل اختر عبدالرحمن کو ترقی دے کر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف بنا دیا گیا، تو آئی ایس آئی چیف کی حیثیت سے افغانستان میں سوویت فوج کے خلاف ان کا خفیہ مشن کامیابی کی منزل پر پہنچ چکا تھا اور سوویت فوجوں کی واپسی طے پا چکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی جنرل اختر عبدالرحمن کیلئے اندرونی اور بیرونی خطرات پہلے سے بڑھ چکے تھے۔ وہ افغانستان میں مستحکم عبوری حکومت کے قیام سے قبل جلدبازی میں معاہدہ جنیوا کرنے کے حق میں نہ تھے۔ یہ چیز صرف سوویت یونین کو نہیں، امریکا کو بھی سخت ناگوار گزر رہی تھی۔ اپریل 1988ء میں اوجڑی کیمپ کی پراسرار تباہی اور پھر اس کی ذمہ داری کا سارا ملبہ جنرل اختر عبدالرحمن پر ڈالنے کی سازش سے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ سوویت یونین کی افغانستان سے واپسی کے بعد اس خطہ میں جو نیا منظر نامہ طلوع ہو رہا ہے، اس میں جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ساتھ جنرل اخترعبدالرحمن کی زندگی بھی سخت خطرے میں ہے۔ دونوں جنرلز کو الرٹ ملنا شروع ہو چکے تھے۔ پھر وہی ہوا، جس کے اشارے مل رہے تھے۔
جنرل اختر عبدالرحمن کا جنرل ضیاالحق کے ساتھ امریکی ٹینکوں کی نمائش دیکھنے کیلئے بہاولپور جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ تاہم سازشیوں نے اس طرح کا تانا بانا تیار کیا کہ آخری وقت پر جنرل اختر عبدالرحمن بھی جنرل ضیاء الحق کے ساتھ طیارے میں سوار ہو گئے اور 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ہی جام شہادت نوش کیا اور اس قافلہ شہداءمیں شامل ہو گئے، جن کیلئے رب تعالیٰ نے جنت واجب کر رکھی ہے۔
عبیداللّٰہ اصغر
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes