#وفاقی
Explore tagged Tumblr posts
Text
مقررہ مدت کے اندر ہی عوام کو پاسپورٹ ملیں گے، وفاقی وزیر داخلہ
وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ شہریوں کو پاسپورٹ کےاجرا میں ہونے والی تاخیر کا ازالہ کیا جا رہا ہے، اب مقررہ مدت کےاندر پاسپورٹ ملیں گے۔ وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے 24/7 اوپن پاسپورٹ آفس عوامی مرکز اور نادرا ڈیفنس میگا سینٹر کےاچانک دورے کے دوران پاسپورٹ اور شناختی کارڈز بنوانے کے لیے آئے شہریوں سے ملاقات کی۔ وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے پاسپورٹ اور شناختی کارڈز بنوانے کےعمل کےبارے…
0 notes
Text
وفاقی وزیر داخلہ کا اسلام آباد، راولپنڈی اور اٹک کا فضائی دورہ ،سکیورٹی انتظامات پر اظہار اطمینان
(اویس کیانی)وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اسلام آباد، راولپنڈی اور اٹک کا فضائی دورہ کیا،وزیر داخلہ نے تینوں شہروں کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی انتظامات کا فضائی جائزہ لیا،محسن نقوی نے صوابی، پتھر گڑھ، موٹر وے پر بھی مجموعی صورتحال کا فضائی مشاہدہ کیا،وزیر داخلہ ��محسن نقوی نے سکیورٹی انتظامات پر اظہار اطمینان کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہاکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق امن عامہ یقینی بنانے…
0 notes
Text
وفاقی کابینہ کا اجلاس صبح تک موخر
(اویس کیانی)وفاقی کابینہ کا اجلاس صبح تک موخرکر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی کابینہ کا اجلاس صبح ساڑھے 9 بجے دوبارہ ہو گ��،کابینہ اجلاس میں آئینی ترمیم کی منظوری دی جائے گی ،کل ہی آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کرنے اور منظوری لینے کا امکان ہے۔ یہ بھی پڑھیں:میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں داخلے روک دیئے گئے؟ Source link
0 notes
Text
وفاقی کابینہ کا اجلاس، کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کو الگ الگ کرنے کی منظوری
نگران وزیراعظم انوار الحق کا��ڑ کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس میں ریونیو ڈویژن کی سفارش پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تنظیمِ نو اور ڈیجٹائزیشن کی منظوری دے دی گئی۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس آج اسلام آباد میں ہوا۔ وفاقی کابینہ نے ریونیو ڈویژن کی سفارش پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تنظیمِ نواورڈیجٹائزیشن کی منظوری دے دی۔ کابینہ کو23 جنوری2024 کے اجلاس میں قائم…
View On WordPress
0 notes
Text
نگران حکومت کی ضرروت ہی کیا ہے؟
انتخابات دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن نگران حکومتوں کے نام پر غیر منتخب لوگوں کو اقتدار میں لا بٹھانے کی یہ رسم صرف پاکستان میں ہے۔ سوال یہ ہے اس بندوبست کی افادیت کیا ہے اور نگران حکومتوں کے انتخاب، اہلیت، اختیارات اور کارکردگی کے حوالے سے کوئی قوانین اور ضابطے موجود ہیں یا نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ جہاں غیر منتخب نگران حکومتوں کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں وہاں تو معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ نبٹا لیے جاتے ہیں اور ہمارے ملک میں نگران حکومتوں کے ہوتے ہوئے بھی انتخابات متنازع ہو جاتے ہیں؟ نگران حکومت کے نام پر عارضی ہی سہی، ایک پورا حکومتی بندوبست قائم کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بندوبست کے بارے میں تفصیلی قانون سازی آج تک نہیں ہو سکی۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 اور آئین کے آرٹیکل 224 میں کچھ بنیادیں باتیں لکھ دی گئی ہیں لیکن وہ ناکافی اور مبہم ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ایک رکن پارلیمان کی اہلیت کے لیے تو ایک کڑا معیار مقرر کیا گیا ہے لیکن نگران حکومت کی اہلیت کے لیے کوئی اصول طے نہیں کیا گیا؟ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کوئی نام تجویز کر دیں تو اس نام کی اہلیت کو پرکھنے کے لیے کوئی قانون اور ضابطہ تو ہونا چاہیے، وہ کہاں ہے؟
یہی معاملہ نگران کابینہ کا ہے۔ آئین کا آرٹیکل A 224 (1) صرف یہ بتاتا ہے کہ نگران کابینہ کا انتخاب نگران وزیر اعظم اور نگران وزرائے اعلی کی ایڈوائس پر ہو گا لیکن یہ کہیں نہیں بتایا کہ نگران کابینہ کے لیے اہلیت کا پیمانہ کیا ہو گا۔ ایک جمہوری معاشرے میں ایسا صوابدیدی اختیار حیران کن ہے۔ دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے اختیارات کا دائرہ کار کیا ہے؟َ وہ کون سے کام کر سکتی ہے اور کون سے کام نہیں کر سکتی؟ اس کی مراعات کیا ہوں گی؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کس کو جواب دہ ہو گی؟ حیران کن بات یہ ہے کہ ان سولات کا تفصیلی جواب نہ آئین میں موجود ہے نہ ہی الیکشن ایکٹ میں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 میں کچھ وضاحت ہے لیکن ناکافی ہے۔ نگران حکومت کا مینڈیٹ دو جمع دو چار کی طرح تحریری طور پر موجود ہونا چاہیے۔ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ نگران حکومت کی کوئی حزب اختلاف نہیں ہوتی اور اسے کسی صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے وزراء کسی ایوان کو جواب دہ نہیں ہوتے۔ ان سے کسی فورم پر سوال نہیں ہوتا۔ نگران حکومتوں کے دورانیے میں، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں تو موجود نہیں ہوتیں لیکن سینیٹ جیسا ادارہ تو موجود ہوتا ہے، سوال یہ ہے اس دورانیے میں سینیٹ کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا؟
ہم نے ساری دنیا سے نرالا، نگران حکومتوں کا تصور اپنایا ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ اس نامعتبر بندوبست نے ہمیں کیا دیا اور ہمیں اس پر اصرار کیوں ہے؟ نگران حکومت کے قیام کا واحد بنیادی مقصد انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت ہے۔ سوال یہ ہے اس کے لیے غیر منتخب لوگوں کو حکومت سونپنے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت سرکاری محکموں اور وزارتوں کی صورت چلتی ہے، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ انتخابات کے لیے نگران حکومت بنانے کی بجائے حکومتی مشینری کو الیکشن کمیشن ہی کے ماتحت کر دیا جائے؟ جب آئین نے آرٹیکل 220 میں تمام اتھارٹیز کو چاہے وہ وفاقی ہوں یا صوبائی، یہ حکم دے رکھا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے کی مدد کریں گے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے جس کے لیے غیر منتخب حکومت مسلط کی جائے؟ معمول کے کام چلانا بلا شبہ ضروری ہیں تا کہ ریاستی امور معطل نہ ہو جائیں لیکن اس کی متعدد شکلیں اور بھی ہو سکتی ہیں اور اس کے لیے غیر منتخب لوگووں کی حکومت بنانا ضروری نہیں۔
سینیٹ کی شکل میں جو واحد منتخب ادارہ اس دورانیے میں موجود ہوتا ہے، اسے عضو معطل کیوں بنا دیا گیا ہے۔ کم از کم اتنا تو ہو سکتا ہے کہ غیر منتخب نگران حکومت کو سینٹ کے سامنے جوا�� دہ قرار دیا۔ ہمارے اہل سیاست کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ کتنی محنت سے خود ہی خود کو بددیانت، ناقابل بھروسہ اور خائن ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ اگر منتخب حکومت ہی کو نگران حکومت کی ذمہ داری دی گئی تو وہ لازمی بد دیانتی اور خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھاندلی کریں گے؟ قانونی اورآئینی طور پر سارے اراکین پارلیمان سچے، نیک، پارسا، دیانت دار، امین اور سمجھ دار ہیں اور ان میں کوئی بھی فاسق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ عام انتخابات کے لیے اس کی دیانت اور امانت داری کا یقین کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ نگران حکومت کا تصور جمہوری حکومت نے نہیں دیا تھا۔ جمہوری حکومتیں البتہ اسے سرمایہ سمجھ کر گلے سے لگائے ہوئے ہں اور انہیں احساس ہی نہیں یہ اصل میں ان کے اخلاقی وجود پر عدم اعتماد ہےا ور ایک فرد جرم ہے۔ نگران حکومت کے موجودہ غیر منتخب ڈھانچے کے ہوتے ہوئے ہماری سیاست کے اخلاقی وجود کو کسی دشمن کی حاجت نہیں۔ یہ الگ بات کہ انہیں اس حادثے کی کوئی خبر ہی نہیں۔
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes
·
View notes
Text
0 notes
Text
پاکستان کی دو بنیادی خرابیاں
ہمیں ایک طرف معاشرتی طور پر انتہائی گراوٹ کا سامنا ہے تو دوسری طرف ہماری حکومت اور ریاست عوام سے متعلق اپنی ذمہ دریاں ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ اخلاقی گراوٹ کی وجہ سے ہم بحیثیت معاشرہ ہر قسم کی خرابیوں اور برائیوں کا شکار ہیں، کون سی برائی ایسی ہے جو ہم میں موجودہ نہیں۔ جھوٹ، فراڈ، دھوکہ، ملاوٹ، رشوت، سفارش اور ایسی ایسی اخلاقی برائیاں کہ گننا مشکل ہو چکا۔ حکومتی اور ریاستی مشینری اتنی کرپٹ اور نااہل ہو چکی کہ کسی بھی سرکاری محکمے کا نام لے لیں کوئی اپنا کام ایمانداری اور ذمہ داری سے ادا نہیں کرتا جس کی وجہ سے عوام کی سہولت اور فلاح کیلئے قائم کیے گئے ان اداروں میں سروس ڈیلوری کی بجائے عوام کو دھکے کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور کوئی کام رشوت اور سفارش کے بغیر نہیں ہوتا۔ ان سرکاری محکموں میں بیٹھے سرکاری ملازم جائز سے جائز کام پر بھی عوام کو رُلاتے ہیں، ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین اپنی ڈیوٹی کو ایمانداری سے ادا کرنے کی بجائے ایسے کام کرتے ہیں جیسے عوام پر احسان کر رہے ہوں۔
ہمارے معاشرے اور حکومت سے متعلق ان دو بنیادی خرابیوں (اخلاقی و معاشرتی گراوٹ اور حکومتی و ریاستی مشینری کی ناکامی) کے بارے میں جس سے بات کریں سب مانتے ہیں کہ یہ بہت بڑی خرابیاں ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور حکومتیں بھی یہ تسلیم کرتی ہیں لیکن کوئی بھی حکومت، کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت ان دو بنیادی خرابیوں کو ٹھیک کرنے کیلئے کچھ نہیں کر رہی۔ جب معاشرتی و اخلاقی گراوٹ کو روکنے کی کوئی تدبیر نہیں کی جائے گی تو پھر اس کا نتیجہ ہمارے ہاں مزید معاشرتی خرابیوں اور نئی نئی اخلاقی برائیوں کی صورت نکلے گا اور یہی کچھ یہاں ہو رہا ہے۔ اگر ریاست اور حکومت سرکاری وانتظامی مشینری کو اپنی بنیادی ذمہ داری ایمانداری کے ساتھ سر انجام دینے میں دلچسپی نہیں لے گی تو نہ یہاں عوام کو کوئی ریلیف مل سکتا ہے، نہ ہی ملک و قوم کی ترقی ممکن ہے۔ معاشرتی بگاڑ کو روکنے کیلئے افراد اور معاشرہ کی کردار سازی کیلئے کام کرنا پڑے گا جس میں تعلیمی اداروں، مسجد و منبر، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کا کردار بہت اہم ہے جس کیلئے حکومت کو بنیادی رول ادا کرنا پڑے گا۔
یعنی حکومت کو ایک طرف تعلیم کے ساتھ تربیت کو نصاب اور نظام تعلیم کا بنیادی حصہ بنانا پڑے گا تو دوسری طرف میڈیا، مذہبی طبقات، سیاسی جماعتوں کے ذریعے معاشرے کی کردار سازی پر فوکس کرنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کو جنگی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔ وفاق کی سطح پر موجودہ سیکریٹری تعلیم اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے کردار سازی کیلئے اسلام آباد کے سرکاری تعلیمی اداروں میں کچھ کام کر رہے ہیں لیکن یہ وہ بڑا چیلنج ہے جس کیلئے وزیر اعظم اور وزرائے اعلی کو ذاتی دلچسپی لینی چاہیے۔ اگر تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ہو گی، معاشرے کی کردار سازی پر کام ہو رہا ہو گا تو معاشرتی و اخلاقی برائیوں میں خاطر خواہ کمی کے ساتھ ہم بہتر قوم بن جائیں گے۔ حکومت و ریاست سے متعلق ناکامیوں اور نااہلیوں کا اگر ادراک کرنا ہے تو اُس کیلئے سرکاری مشینری کو اپنی ذاتی پسند، ناپسند کی بجائے میرٹ اوراہلیت کی بنیاد پر ایک نظام کے تحت چلایا جائے۔ یہ نظام ہماری سرکاری فائلوں میں تو موجود ہے لیکن سفارش، اقربا پروری اور ذاتی پسند، ناپسند کی وجہ سے ہماری سرکاری مشینری مکمل سیاست زدہ ہو چکی جس کی وجہ سے ہم نااہل حکمرانی اور کرپشن کی وجہ سے دنیا میں بدنام ہیں۔
وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کیلئے بہتر طرز حکمرانی کا بڑا آسان نسخہ ہے کہ وہ سول سروس اور پولیس یعنی سرکاری مشینری کو غیر سیاسی کر دیں، ہر تعیناتی میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر کی جائے اور یہ کام اُنہی اداروں کو کرنا چاہیے جو اس مقصد کیلئے بنائے گئے۔ اس سے ہر سرکاری محکمہ کے کام میں بہتری آئے گی۔ حکمران اگر عوام کو ریلیف دینا چاہتے ہیں تو سرکاری مشینری کو غیر سیاسی کر کے صرف فوکس اس نکتہ پر رکھیں کہ کون سا سرکاری ادارہ اور کون سا سرکاری افسر اپنی ذمہ داری اور ڈیوٹی ادا کرنے میں ناکام ہے۔ جب سرکاری ادارے اپنا کام کریں گے تو عوام خوش ہونگے اور ملک ترقی کرے گا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Link
[ad_1] حکومتی اخراجات کم کر رہے ہیں، وفاقی وزارتوں اور اداروں میں ڈیڑھ لاکھ اسامیاں ختم کر دی گئیں، وزیر خزانہ اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ) وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومتی اخراجات کم کرنے جا رہے ہیں، وفاقی وزارتوں اور اداروں میں ایسی خالی اسامیاں جن پر ابھی بھرتیاں نہیں ہوئی تھیں، ان میں سے 60 فیصد کو ختم کر دیا گیا، جن کی تعداد تقریباً ڈیڑھ لاکھ بنتی ہے، اب ان اسامیوں پر بھرتیاں نہیں کی جائیں گی۔ اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے معیشت کو پائیدار ترقی کی جانب لیکر جائیں، ٹیکس نظام میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات دسمبر سے جاری ہیں، معاشی ترقی کے لے نجی شعبے کو کردار نبھانا ہوگا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاقی وزارتوں کے 80 اداروں کی تعداد کم کرکے 40 کردی گئی، یعنی ان نصف ادارے ختم ہوگئے، ان میں سے کچھ اداروں کو ضم کیا گیا ہے، 2 وزارتوں کو ضم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ دوسرے مرحلے میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، کامرس ڈویڑن، ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے 60 ذیلی اداروں مین سے 25 کو ختم، 20 میں کمی اور 9 کو ضم کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ خدمات سے متعلق اسامیوں کو آؤٹ سورس کر رہے ہیں، حکومت رائٹ سائزنگ کرکے سرکاری اداروں کی استعداد کار بڑھانا چاہ رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کا کام پالیسیاں بنانا ہے، روزگار دینا نجی شعبے کا کام ہے، نجی شعبے کو ملکی معیشت کو سنبھالنا ہوگا۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ الحمد للہ معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے، اہداف درست سمت میں جارہے ہیں، ہم حکومتی اخراجات کم کرنے جارہے ہیں، یہ وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کی جانب اہم قدم ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ ہم سے بہت ٹیکس لے رہے ہیں، تو پیسہ کہاں خرچ ہورہا ہے، آپ اپنے اخراجات کیوں کم نہیں کرتے؟ یہ بہت اچھا سوال ہے، اسی سلسلے میں وزیراعظم نے میری سربراہی میں اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بنائی تھی۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس کمیٹی میں حکومت، اتحادی جماعتوں، سرکاری افسران اور بزنس کمیونٹی کے نمائندے شامل ہیں، کمیٹی کے ٹی او آرز طے کرلیے گئے تھے، جن کے مطابق بنیادی مقصد حکومتی اخراجات میں کمی لانا تھا، یہ عوام کا پیسہ ہے اور حکومت کے اخراجات میں کمی ضرور ہونی چاہیے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس دوران یہ سوال بھی سامنے آ کہ کیا یہ اقدام وفاقی حکومت کو کرنا چاہیے یا اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ ذمہ داری صوبوں کو دی جائے یا پھر اسے نجی شعبے کے حوالے کیا جائے؟۔انہوں نے کہا کہ وفاق کے پاس 43 وزارتیں، ان کے 400 ذیلی ادارے ہیں، ان سب کے لیے 900 ارب روپے کا خرچہ کیا جاتا ہے، ابھی اس پر کام جاری ہے کہ کیسے اس خرچے کیسے کم کرنا ہے، عوام کا پیسہ بچانے کے لیے ہم قدم اٹھا چکے ہیں۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم یکدم 43 وزارتوں کے اخراجات کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کے بجائے بتدریج مختلف وزارتوں اور ان کے ذیلی اداروں کو اخراجات کم کرنے کے دائرے میں لائیں گے، اس کے لیے ایک وقت میں 5 سے 6 وزارتوں کا انتخاب کیا جارہا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پہلی 6 وزارتوں کے وزرا، ان کے سیکریٹری، ذیلی اداروں کے سربراہان اور متعلقہ افسران کو کمیٹی میں بلاکر سنا گیا، ان کا موقف جاننے کا موقع ملا�� کہ کس طرح اخراجات کم کیے جائیں۔اسی طرح دوسرے مرحلے میں 4 وزارتوں کو لیا گیا، اب ہم تیسرے مرحلے میں 5 وزارتوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، ان تفصیلی ملاقاتوں کے بعد رائٹ سائزنگ کے لیے حکمت عملی بنتی ہے، سارے عمل کی نگرانی وزیراعظم خود کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سارے عمل میں دیکھا جاتا ہے، کہ اداروں کے وسائل اور انسانی افرادی قوت کا کیا کرنا ہے، 6 ماہ کے دوران جو فیصلے کیے گئے ہیں کہ خالی اسامیاں، جن پر ابھی بھرتیاں کی جانی تھیں، ان میں سے 60 فیصد کو ختم کر دیا جائے، یہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ اسامیاں بنتی ہیں، انہیں ختم کر دیا گیا ہے، یہ فیصلہ ہو نہیں رہا بلکہ اس پر عمل درآمد کے احکام پہلے دیے جاچکے ہیں، آج متعلقہ وزرا اور سیکریٹریز بریفنگ میں بتائیں گے، کہ عمل در آمد کہاں تک پہنچ چکا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ جون 2025 تک رواں مالی سال ختم ہونے سے قبل تمام وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کا کام مکمل کرلیا جائے گا، ہمارے ان فیصلوں کے اثرات ا?ئندہ مالی سال میں دکھائی دیں گے، اب یہ دیکھنا ہوگا کہ ان وزارتوں اور اداروں کے اخراجات کس طرح مزید کم کیے جائیں، اخراجات کم رکھنا اور اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا حکومت کے لیے اہم ہے۔محمد اورنگزیب نے صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی وزارت نہیں جسے رائٹ سائزنگ میں شامل نہ کیا گیا ہو، کئی سرکاری ملکیتی کمپنیوں (ایس ای اوز) کے معاملات حساس ہیں، تاہم سب کی کارکردگی اور استعداد کے اعتبار سے فیصلے کیے جارہے ہیں، کمیٹی 95 فیصد سے بھی زائد فیصلے اتفاق رائے سے کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کا مقصد ہی یہی تھا کہ صوبوں کو جو محکمے یا ادارے منتقل کیے جائیں، ان کے تمام اختیارات اور وسائل بھی دیے جائیں، ہم چاہتے ہیں آئین کے مطابق اداروں کا صوبوں کو سونپنے کا عمل مکمل ہوجائے اور صوبے خود ان کا انتظام چلائیں۔ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی بلال اظہر کیانی نے کہا کہ ڈیڑھ لاکھ اسامیاں ختم کرنے کے لیے ہر وزارت سے مختلف اسامیوں کی معلومات لی گئیں، بڑی احتیاط کے ساتھ یہ اقدام کیا ہے، جیسے جیسے ملازم ریٹائر ہوتے جائیں گے، ہم خدمات کو آؤٹ سورس کریں گے، میڈیا بھی حکومت کے سائز اور اخراجات پر توجہ دلواتا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ رائٹ سائزنگ کا مقد صرف اخراجات کی کمی نہیں بلکہ حکومت کی کارکردگی کو بھی بہتر بنانا ہے، چاہتے ہیں بزنس کمیونٹی کو 4 سے 6 اداروں میں جاکر این او سی لینے کے بجائے آسانی فراہم کریں۔ وفاقی وزارتوں کی ’ای آفس‘ احکامات کی عدم تعمیل، وزیراعظم کا اظہار برہمی اسلام اباد(سی ایم لنکس)وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی وزارتوں کے ای آفس پر کام کرنے میں عدم دلچسپی، احکامات کی عدم تعمیل پر اظہار برہمی کرتے ہوئے وزارت آئی ٹی اور نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (این آئی ٹی بی)کو جامع رپورٹ تیار کرکے جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ وفاقی وزارتوں، ڈویڑنز نے ای آفس پر کام کرنے میں عدم دلچسپی ظاہر کی ہے، وزیراعظم کی بارہا ہدایت کے باوجود ’ای آفس‘ کے احکامات پر تعمیل نہیں ہوسکی، وزیراعظم نے وفاقی حکومت میں ’ای آفس‘ عملدرآمد نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔شہباز شریف نے وزارتوں کے مابین خط و کتابت کے لیے ’ای آفس‘ کے استعمال کو لازمی قرار دے دیا ہے، وزیراعظم آفس نے ’ای آفس‘ کے نفاذ پر تمام وزارتوں، ڈویڑنز کو ایک بار پھر مراسلہ ارسال کردیا۔جاری مراسلے کے مطابق تمام قسم کی وزارتوں کے مابین خط و کتابت کو خصوصی طور پر ’ای آفس‘ کے ذریعے یقینی بنایا جائے، فزیکل کمیونیکیشن ک�� مسترد کرکے ’ای آفس‘ کے ذریعے خط و کتابت کو دوبارہ جمع کرایا جائے، وزارت آئی ٹی اور اس کے ذیلی ادارے (این آئی ٹی بی) ’ای آفس‘ کے استعمال پر جامع رپورٹ تیار کرکے وزیراعظم آفس کو جمع کرائیں۔ علاوہ ازیں رپورٹ میں وزارتوں میں ’ای آفس‘ کی تعمیل سے متعلق تفصیلی اعدادوشمار شامل کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔گزشتہ روز ذرائع نے بتایا تھا کہ وفاقی وزارتوں میں وزارت آئی ٹی کے ذیلی ادارے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (این آئی ٹی بی) کا ای آفس بیوروکریسی کے لیے درد سر بن گیا ہے۔ذرائع کے مطابق 25 فیصد افسران کے لاگ ان ہونے کے بعد سسٹم خود بخود لاگ آؤٹ ہوجاتا ہے، سسٹم میں ہوسٹنگ اور کیپسٹی کے مسائل سے ای آفس کئی گھنٹوں تک ڈاؤن رہتا ہے۔خیال رہے کہ وزیراعظم آفس اس موضوع پر پہلے بھی وفاقی وزارتوں کو 27 مارچ 2024، 17 اگست 2024 اور 18 ستمبر 2024 کو مراسلے تحریری طور پر لکھ چکا ہے تاہم اس بار ای آفس کے استعمال پر زور دینے کے لیے مراسلہ میں سخت ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ Post Views: 175 Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged وفاقی وزارتوں اور اداروں میں ڈیڑھ لاکھ اسامیاں ختم کر دی گئیں [ad_2] Source link
0 notes
Link
[ad_1] حکومتی اخراجات کم کر رہے ہیں، وفاقی وزارتوں اور اداروں میں ڈیڑھ لاکھ اسامیاں ختم کر دی گئیں، وزیر خزانہ اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ) وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومتی اخراجات کم کرنے جا رہے ہیں، وفاقی وزارتوں اور اداروں میں ایسی خالی اسامیاں جن پر ابھی بھرتیاں نہیں ہوئی تھیں، ان میں سے 60 فیصد کو ختم کر دیا گیا، جن کی تعداد تقریباً ڈیڑھ لاکھ بنتی ہے، اب ان اسامیوں پر بھرتیاں نہیں کی جائیں گی۔ اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے معیشت کو پائیدار ترقی کی جانب لیکر جائیں، ٹیکس نظام میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات دسمبر سے جاری ہیں، معاشی ترقی کے لے نجی شعبے کو کردار نبھانا ہوگا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاقی وزارتوں کے 80 اداروں کی تعداد کم کرکے 40 کردی گئی، یعنی ان نصف ادارے ختم ہوگئے، ان میں سے کچھ اداروں کو ضم کیا گیا ہے، 2 وزارتوں کو ضم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ دوسرے مرحلے میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، کامرس ڈویڑن، ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے 60 ذیلی اداروں مین سے 25 کو ختم، 20 میں کمی اور 9 کو ضم کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ خدمات سے متعلق اسامیوں کو آؤٹ سورس کر رہے ہیں، حکومت رائٹ سائزنگ کرکے سرکاری اداروں کی استعداد کار بڑھانا چاہ رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کا کام پالیسیاں بنانا ہے، روزگار دینا نجی شعبے کا کام ہے، نجی شعبے کو ملکی معیشت کو سنبھالنا ہوگا۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ الحمد للہ معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے، اہداف درست سمت میں جارہے ہیں، ہم حکومتی اخراجات کم کرنے جارہے ہیں، یہ وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کی جانب اہم قدم ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ ہم سے بہت ٹیکس لے رہے ہیں، تو پیسہ کہاں خرچ ہورہا ہے، آپ اپنے اخراجات کیوں کم نہیں کرتے؟ یہ بہت اچھا سوال ہے، اسی سلسلے میں وزیراعظم نے میری سربراہی میں اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بنائی تھی۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس کمیٹی میں حکومت، اتحادی جماعتوں، سرکاری افسران اور بزنس کمیونٹی کے نمائندے شامل ہیں، کمیٹی کے ٹی او آرز طے کرلیے گئے تھے، جن کے مطابق بنیادی مقصد حکومتی اخراجات میں کمی لانا تھا، یہ عوام کا پیسہ ہے اور حکومت کے اخراجات میں کمی ضرور ہونی چاہیے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس دوران یہ سوال بھی سامنے آ کہ کیا یہ اقدام وفاقی حکومت کو کرنا چاہیے یا اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ ذمہ داری صوبوں کو دی جائے یا پھر اسے نجی شعبے کے حوالے کیا جائے؟۔انہوں نے کہا کہ وفاق کے پاس 43 وزارتیں، ان کے 400 ذیلی ادارے ہیں، ان سب کے لیے 900 ارب روپے کا خرچہ کیا جاتا ہے، ابھی اس پر کام جاری ہے کہ کیسے اس خرچے کیسے کم کرنا ہے، عوام کا پیسہ بچانے کے لیے ہم قدم اٹھا چکے ہیں۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم یکدم 43 وزارتوں کے اخراجات کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کے بجائے بتدریج مختلف وزارتوں اور ان کے ذیلی اداروں کو اخراجات کم کرنے کے دائرے میں لائیں گے، اس کے لیے ایک وقت میں 5 سے 6 وزارتوں کا انتخاب کیا جارہا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پہلی 6 وزارتوں کے وزرا، ان کے سیکریٹری، ذیلی اداروں کے سربراہان اور متعلقہ افسران کو کمیٹی میں بلاکر سنا گیا، ان کا موقف جاننے کا موقع ملا، کہ کس طرح اخراجات کم کیے جائیں۔اسی طرح دوسرے مرحلے میں 4 وزارتوں کو لیا گیا، اب ہم تیسرے مرحلے میں 5 وزارتوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، ان تفصیلی ملاقاتوں کے بعد رائٹ سائزنگ کے لیے حکمت عملی بنتی ہے، سارے عمل کی نگرانی وزیراعظم خود کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سارے عمل میں دیکھا جاتا ہے، کہ اداروں کے وسائل اور انسانی افرادی قوت کا کیا کرنا ہے، 6 ماہ کے دوران جو فیصلے کیے گئے ہیں کہ خالی اسامیاں، جن پر ابھی بھرتیاں کی جانی تھیں، ان میں سے 60 فیصد کو ختم کر دیا جائے، یہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ اسامیاں بنتی ہیں، انہیں ختم کر دیا گیا ہے، یہ فیصلہ ہو نہیں رہا بلکہ اس پر عمل درآمد کے احکام پہلے دیے جاچکے ہیں، آج متعلقہ وزرا اور سیکریٹریز بریفنگ میں بتائیں گے، کہ عمل در آمد کہاں تک پہنچ چکا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ جون 2025 تک رواں مالی سال ختم ہونے سے قبل تمام وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کا کام مکمل کرلیا جائے گا، ہمارے ان فیصلوں کے اثرات ا?ئندہ مالی سال میں دکھائی دیں گے، اب یہ دیکھنا ہوگا کہ ان وزارتوں اور اداروں کے اخراجات کس طرح مزید کم کیے جائیں، اخراجات کم رکھنا اور اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا حکومت کے لیے اہم ہے۔محمد اورنگزیب نے صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی وزارت نہیں جسے رائٹ سائزنگ میں شامل نہ کیا گیا ہو، کئی سرکاری ملکیتی کمپنیوں (ایس ای اوز) کے معاملات حساس ہیں، تاہم سب کی کارکردگی اور استعداد کے اعتبار سے فیصلے کیے جارہے ہیں، کمیٹی 95 فیصد سے بھی زائد فیصلے اتفاق رائے سے کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کا مقصد ہی یہی تھا کہ صوبوں کو جو محکمے یا ادارے منتقل کیے جائیں، ان کے تمام اختیارات اور وسائل بھی دیے جائیں، ہم چاہتے ہیں آئین کے مطابق اداروں کا صوبوں کو سونپنے کا عمل مکمل ہوجائے اور صوبے خود ان کا انتظام چلائیں۔ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی بلال اظہر کیانی نے کہا کہ ڈیڑھ لاکھ اسامیاں ختم کرنے کے لیے ہر وزارت سے مختلف اسامیوں کی معلومات لی گئیں، بڑی احتیاط کے ساتھ یہ اقدام کیا ہے، جیسے جیسے ملازم ریٹائر ہوتے جائیں گے، ہم خدمات کو آؤٹ سورس کریں گے، میڈیا بھی حکومت کے سائز اور اخراجات پر توجہ دلواتا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ رائٹ سائزنگ کا مقد صرف اخراجات کی کمی نہیں بلکہ حکومت کی کارکردگی کو بھی بہتر بنانا ہے، چاہتے ہیں بزنس کمیونٹی کو 4 سے 6 اداروں میں جاکر این او سی لینے کے بجائے آسانی فراہم کریں۔ وفاقی وزارتوں کی ’ای آفس‘ احکامات کی عدم تعمیل، وزیراعظم کا اظہار برہمی اسلام اباد(سی ایم لنکس)وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی وزارتوں کے ای آفس پر کام کرنے میں عدم دلچسپی، احکامات کی عدم تعمیل پر اظہار برہمی کرتے ہوئے وزارت آئی ٹی اور نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (این آئی ٹی بی)کو جامع رپورٹ تیار کرکے جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ وفاقی وزارتوں، ڈویڑنز نے ای آفس پر کام کرنے میں عدم دلچسپی ظاہر کی ہے، وزیراعظم کی بارہا ہدایت کے باوجود ’ای آفس‘ کے احکامات پر تعمیل نہیں ہوسکی، وزیراعظم نے وفاقی حکومت میں ’ای آفس‘ عملدرآمد نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔شہباز شریف نے وزارتوں کے مابین خط و کتابت کے لیے ’ای آفس‘ کے استعمال کو لازمی قرار دے دیا ہے، وزیراعظم آفس نے ’ای آفس‘ کے نفاذ پر تمام وزارتوں، ڈویڑنز کو ایک بار پھر مراسلہ ارسال کردیا۔جاری مراسلے کے مطابق تمام قسم کی وزارتوں کے مابین خط و کتابت کو خصوصی طور پر ’ای آفس‘ کے ذریعے یقینی بنایا جائے، فزیکل کمیونیکیشن کو مسترد کرکے ’ای آفس‘ کے ذریعے خط و کتابت کو دوبارہ جمع کرایا جائے، وزارت آئی ٹی اور اس کے ذیلی ادارے (این آئی ٹی بی) ’ای آفس‘ کے استعمال پر جامع رپورٹ تیار کرکے وزیراعظم آفس کو جمع کرائیں۔ علاوہ ازیں رپورٹ میں وزارتوں میں ’ای آفس‘ کی تعمیل سے متعلق تفصیلی اعدادوشمار شامل کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔گزشتہ روز ذرائع نے بتایا تھا کہ وفاقی وزارتوں میں وزارت آئی ٹی کے ذیلی ادارے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (این آئی ٹی بی) کا ای آفس بیوروکریسی کے لیے درد سر بن گیا ہے۔ذرائع کے مطابق 25 فیصد افسران کے لاگ ان ہونے کے بعد سسٹم خود بخود لاگ آؤٹ ہوجاتا ہے، سسٹم میں ہوسٹنگ اور کیپسٹی کے مسائل سے ای آفس کئی گھنٹوں تک ڈاؤن رہتا ہے۔خیال رہے کہ وزیراعظم آفس اس موضوع پر پہلے بھی وفاقی وزارتوں کو 27 مارچ 2024، 17 اگست 2024 اور 18 ستمبر 2024 کو مراسلے تحریری طور پر لکھ چکا ہے تاہم اس بار ای آفس کے استعمال پر زور دینے کے لیے مراسلہ میں سخت ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ Post Views: 175 Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged وفاقی وزارتوں اور اداروں میں ڈیڑھ لاکھ اسامیاں ختم کر دی گئیں [ad_2] Source link
0 notes
Text
وفاقی کابینہ نے5 سالہ نجکاری پروگرام کی منظوری دے دی
وفاقی کابینہ نے 5سالہ نجکاری پروگرام کی منظوری دیدی،24اداروں کی نجکاری کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق 2024سے 2029پروگرام کے تحت 24ادارے فہرست میں شامل ہیں۔جائزےکےبعدمزیدادارےبھی نجکاری پروگرام میں شامل کیےجائیں گے،پروگرام کےتحت 3 مراحل میں اداروں کی نجکاری کی جائے گی۔پی آئی اے،ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کانجکاری عمل جلد مکمل کیاجائےگا۔سرکاری بجلی تقسیم کاراور پیداواری کمپنیوں کی نجکاری کی جائے…
0 notes
Text
آئینی بینچ نے سابق وفاقی محتسب توہین عدالت کیس سمیت کئی کیسز میں نوٹسز جاری کردیے
(24نیوز)سپریم کورٹ کا 6 رکنی آئینی بینچ میں دوسرے روز بھی کیسز کی سماعتیں کررہا ہے جبکہ 3 کیسز نمٹا دیئے، سابق وفاقی محتسب یاسمین عباسی توہین عدالت کیس سمیت کئی کیسزمیں نوٹسز جاری کردیئے گئے جبکہ ج��ٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ بات ذہن نشین کرلیں آئینی بینچ ازخود نوٹس لے سکتا ہے۔ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی آٸینی بینچ نے آج دوسرے روز بھی مختلف کیسز کی سماعت کی، جسٹس جمال…
0 notes
Text
جامعہ کراچی بند وفاقی اردو یونیورسٹی کے ملازمین و اساتذہ بھی تاحال سراپا احتجاج
(آئمہ خان، سید زبیر راشد )طلبہ یونین نے کے اعلان کے بعد آج جامعہ کراچی بند ہے۔طلبہ الائنس کا کہ��ا ہے کہ آج جامعہ کراچی میں تدریسی عمل بند رہے گا ،تمام دفاتر و انتظامی امور اور پوائنٹس بھی بند رکھے جائیں گے۔ جامعہ کراچی میں طلبہ تنظیم کی جانب سے اسٹوڈنٹس کو درپیش مسائل پر ساتویں روز بھی احتجاج جاری ہے اور طلبہ نے جزوی طور پر کلاسز کا بائیکاٹ کردیا،جامعہ کی تمام تنظیموں کی جانب سے طلبہ اتحاد کی…
0 notes
Text
وفاقی کابینہ نے بجلی کمپنیوں میں فوجی افسروں کی تعیناتی کی سفارش مسترد کردی
وفاقی کابینہ نے پاور ڈویژن کا سالانہ 600ارب روپے وصولی کا انوکھا پلان مسترد کردیا،بجلی نادہندگان کے شناختی کارڈ،پاسپورٹ اجرا اور تجدید نہ کرنے کی سفارش اور نادہندگان کو بیرون ملک جانے سے روکنے اور بینک اکاونٹ نہ کھولنے کی سفارشات بھی مسترد کر دی گئیں۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے ارکان کا کہنا ہے کہ پاور ڈویژن کا پلان آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم نے بھی…
View On WordPress
0 notes
Text
0 notes
Text
پریس ریلیز
دسمبر 20
*پنجاب حکومت بہت جلد دیہاتی خواتین کے لائیو سٹاک پروگرام لا رہی ہے: عظمٰی بخاری*
*وزیر اعلٰی پنجاب کے قریب ترین دھی رانی پروگرام جلد شروع ہو جائیگا: عظمٰی بخاری*
*پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جس نے سب سے پہلے کم عمر بچیوں کی شادی پر پابندی لگائی: عظمٰی بخاری*
*گالم گلوچ، طوفان بدتمیزی، جلاؤ گھراؤ اور مار دو اس ملک کا مقدر نہیں ہیں: عظمٰی بخاری*
*ہمارے ملک میں جب تک مسالے والی نیوز نہ ہو وہ نیوز ہی نہیں سمجھی جاتی: عظمٰی بخاری*
*ملکی تعمیر و ترقی میں میڈیا سمیت تمام اداروں کا مثبت کردار نا گزیر ہے: عظمٰی بخاری*
لاہور()وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت بہت جلد دیہاتی خواتین کے لائیو سٹاک پروگرام لا رہی ہے۔ وزیر اعلٰی پنجاب کے قریب ترین دھی رانی پروگرام جلد شروع ہو جائیگا۔پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جس نے سب سے پہلے کم عمر بچیوں کی شادی پر پابندی لگائی۔ گالم گلوچ، طوفان بدتمیزی، جلاؤ گھراؤ اور مار دو اس ملک کا مقدر نہیں ہیں۔ ہمارے ملک میں جب تک مسالے والی نیوز نہ ہو وہ نیوز ہی نہیں سمجھی جاتی۔ ملکی تعمیر و ترقی میں میڈیا سمیت تمام اداروں کا مثبت کردار نا گزیر ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میں ایک تقریب میں بطور مہمان خصوصی کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہیں جہاں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے بہت مسائل جنم لے رہے ہیں۔ جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے ویسے وسائل نہیں بڑھ رہے۔دنیا میں بہت سے اسلامی ممالک فیملی پلاننگ کر رہے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس پر بات کرنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ مذہب پر ہم سب کی اپنی اپنی تعریف ہے۔ دکھ کی بات ہے کہ سیاست دانوں کے پاس ان ایشوز پر بات کرنے کے لئے وقت ہی نہیں ہے۔ ہم جب تک اپنے ایشوز پر مل کر بات نہیں کریں گے ایشوز حل نہیں ہوں گے۔ انکا کہنا تھا کہ پیمرا ء رولز کے مطابق تمام چینلز کو اپنے ایئر ٹائم میں سے دس فیصد وقت پبلک سروس کے میسجز کے لئے صرف کرنا ہوتا ہے۔ مگر یہاں کوئی بھی میڈیا ہاؤس اس رول کو فالو نہیں کرتا۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہم سب کو دیکھنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں کتنی عورتیں اور بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ڈومیسٹک وائیلنس کا بل میں نے بنایا تھا مگر مجھ پر فتوے لگ گئے تھے۔ آج خواتین کی اچھی صحت بہت بڑا ایشو ہے۔ پانچ بچوں کی بجائے دو بچوں کو پالنا بہت آسان ہے۔ وزیر اعلٰی پنجاب فیملی پلاننگ کے ٹاپک کو بڑی سنجیدگی سے لیتی ہیں۔ہم وفاقی حکومت کے ساتھ بھی اس معاملے پر کام کررہے ہیں۔ ہم سب کو ایک ٹیبل پر بیٹھنا اور فیملی پلاننگ پر بات کرنا ہوگی۔ ہم سب مل کر اور ایک دوسرے کے ساتھ ڈائیلاگ کرکے ہی ملک کو آگے لے جا سکتے ہیں۔کوئی بھی حکومت اپنے طور پر کچھ نہیں کرسکتی ریاست کو اس پر مل کر چلنے کی ضرورت ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ ہم اتنے زیادہ ماڈرن ہوچکے ہیں کہ ہمارے ملک میں بھی اولڈ ایج ہوم کھل گئے ہیں۔ ہمارے صوبے میں ورچوئل پولیس اسٹیشنز کے اندر خواتین کو پولیس اسٹیشن آئے بغیر تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ وزیر اعلٰی پنجاب کی جانب سے بچیوں کو موٹرسائیکلیں دی جارہی ہیں۔پاکستان کو اس کا مقام دلوانا ہے۔پاکستان کی معیشت کو کامیاب معیشت بنانا ہے۔
0 notes
Text
زرعی ٹیکس
ساحرلدھیانوی نے کہا تھا زمیں نے کیا اِسی کارن اناج اگلا تھا؟ کہ نسل ِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے
چمن کو اس لئے مالی نے خوں سے سینچا تھا؟ کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
لگتا ہے یہی صورتحال پیدا ہونے والی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق زرعی ٹیکس کی وصولی کا کام شروع ہو جائے گا۔ پنجاب اسمبلی نے زرعی ٹیکس کا بل منظور کر لیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر نے اس کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ٹیکس پاکستان کے زرعی شعبہ کیلئے معاشی تباہی سے کم نہیں کیونکہ پاکستان ان زرعی ملکوں میں سے ہے جہاں کسان مسلسل بدحالی کا شکار ہیں۔ جہاں اکثر اوقات گندم باہر سے منگوا نی پڑ جاتی ہے۔ زراعت پہلے ہی تباہ تھی زرعی ٹیکس لگا کر اسے مزید تباہ کر دیا گیا ہے۔‘‘ پاکستان کسان اتحاد کے سربراہ کا کہنا ہے کہ زرعی ٹیکس کیخلاف ملک گیر احتجاج کا پلان ترتیب دے رہے ہیں۔ زراعت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، کچھ ممالک نے ایسی پالیسیاں اپنائی ہیں جو اس شعبے کو براہ راست ٹیکس سے مستثنیٰ کرتی ہیں، جن کا مقصد ترقی کو تیز کرنا، کسانوں کا تحفظ کرنا اور زرعی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ جیسے ہندوستان جہاں 1961 کے انکم ٹیکس ایکٹ کے تحت زراعت وفاقی انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔
یہ استثنیٰ تاریخی اور اقتصادی تحفظات پر مبنی ہے، جو ہندوستانی معیشت میں زراعت کی اہم شراکت کو تسلیم کرتا ہے۔ اگرچہ آئین کے تحت ریاستی حکومتوں کے پاس زرعی ٹیکس لگانے کا اختیار موجود ہے، لیکن زیادہ تر ریاستیں سیاسی اور عملی وجوہات کی بنا پر پر زرعی ٹیکس نہیں لگاتیں۔ ایک بار ہندوستان میں زرعی ٹیکس لگانے کی کوشش کی گئی تھی مگر اتنا خوفناک احتجاج ہوا تھا کہ حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑ گیا تھا۔ پاکستان میں زرعی ٹیکس اُس وقت تک نہیں لگایا جانا چاہئے تھا جب تک کسان کو اس قابل نہ کیا جاتا کہ وہ زرعی ٹیکس ادا کر سکے۔ اس زرعی ٹیکس سے یقیناً کھانے پینے کی اشیا اور مہنگی ہونگی۔ پہلے ہی پاکستان میں مہنگائی اپنے پورے عروج پر ہے۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے احتجاج میں کسان بھی شریک ہونے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ، جو اپنے جدید زرعی شعبے کیلئے جانا جاتا ہے، وہاں بھی زرعی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں بلکہ زرعی سرمایہ کاری، پائیداری کے منصوبوں اور اختراعات کیلئے اہم چھوٹ اور مراعات دی جاتی ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور قطر جیسے ممالک بھی زرعی ٹیکس عائد نہیں کرتے۔
یہ قومیں خوراک کی حفاظت پر توجہ مرکوز کرتی ہیں اور سبسڈی اور مراعات کے ذریعے کاشتکاری کے طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ کینیا، برما وغیرہ میں بھی زرعی ٹیکس نہیں ہے۔ وہ ممالک جو اپنے کسانوں کو بہت زیادہ سہولیات فراہم کرتے ہیں وہ ضرور ٹیکس لگاتے ہیں مگر دنیا بھرمیں سب سے کم شرح زرعی ٹیکس کی ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، جہاں اکثر کسان غیر مستحکم منڈیوں، غیر متوقع موسم، اور وسائل تک محدود رسائی کا سامنا کرتے ہیں۔ ٹیکس کی چھوٹ انہیں اپنی کاشتکاری کی سرگرمیوں میں دوبارہ سرمایہ کاری کرنے کیلئے مزید آمدنی برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ بہت سی حکومتیں خوراک کی پیداوار اور خود کفالت کو ترجیح دیتی ہیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ کسانوں پر ٹیکسوں کا زیادہ بوجھ نہ پڑے جس سے زرعی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔ ان ممالک میں جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ زرعی کام کرتا ہے، وہاں ٹیکس کی چھوٹ دیہی حلقوں کی معاش بہتر بنانے کا ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے۔
ٹیکس میں چھوٹ کسانوں کو کاشتکاری کے جدید طریقوں کو اپنانے، انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے اور پائیدار تکنیکوں کو اپنانے کی ترغیب دے سکتی ہے۔زرعی ٹیکس کی چھوٹ پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ حکومتیں ممکنہ ٹیکس ریونیو کو چھوڑ دیتی ہیں جسے عوامی خدمات کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ممالک میں، مالدار زمیندار یا بڑے زرعی ادارے ان چھوٹوں سے غیر متناسب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ٹیکس کی چھوٹ پر حد سے زیادہ انحصار بعض اوقات ناکارہ ہونے یا آمدنی کے تنوع کی حوصلہ شکنی کا باعث بن سکتا ہے۔ وہ ممالک جو زراعت کو ٹیکس سے مستثنیٰ رکھتے ہیں ان کا مقصد کاشتکاری کی سرگرمیوں کو فروغ دینا، خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانا اور دیہی معاش کی حمایت کرنا ہے۔ اگرچہ یہ پالیسیاں نیک نیتی پر مبنی ہیں، لیکن ان کی تاثیر کا انحصار مناسب نفاذ اور متعلقہ چیلنجوں سے نمٹنے پر ہے۔ اپنے زرعی شعبوں کو ترقی دینے کی کوشش کرنے والی قوموں کیلئے، وسیع تر اقتصادی مقاصد کے ساتھ ٹیکس مراعات میں توازن رکھنا بہت ضروری ہے مگر پاکستان میں زرعی ٹیکس صرف آئی ایم ایف کے دبائو میں لگایا گیا ہے۔
اگر حکومت سمجھتی ہے کہ یہ ٹیکس لگانا اس کی مجبوری تھی تو پھر اسے کسانوں کوفری مارکیٹ دینی چاہئے، انہیں بجلی اور ڈیزل کم قیمت پر ملنا چاہئے، کھاد، بیج اور کیڑے مار ادویات پر ��ھی سبسڈی فراہم کی جائے۔ باہر سے ہر قسم کے بیجوں کی درآمد پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔
منصور آفاق
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes