#تاحال
Explore tagged Tumblr posts
Text
عمران خان کی توشہ خانہ 2 کیس میں ضمانت کے بعد بھی تاحال رہائی کا امکان نہیں
(24 نیوز)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی )کے بانی عمران خان توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت کے بعد تاحال رہائی کا امکان نہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس ٹو میں بھی بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ضمانت منظور کرلی اور انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے،توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت کے بعد تاحال رہائی کا امکان نہیں،بانی پی ٹی آئی کے خلاف لاہور میں درج 9 مئی کے 3 کیسز میں ضمانت خارج کی گئی تھی،ذرائع کے…
0 notes
Text
پنجاب حکومت گندم خریداری سے متعلق تاحال کوئی فیصلہ نا کر سکی
لاہور (آئی این پی ) پنجاب حکومت نے گندم خریداری سے متعلق تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے جب کہ کسانوں نے اس حوالے سے حکومت کو کل تک کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔ اے آر وائی نیوز کو محکمہ خوراک کے ذرائع نے بتایا ہے کہ پنجاب حکومت نے کسانوں سے گندم خریداری سے متعلق کوئی فیصلہ تاحال نہیں کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق گندم خریداری کے معاملے پر آج وزرا کمیٹی کا اجلاس دوبارہ ہو گا، اجلاس کے بعد کسانوں سے اس معاملے…
0 notes
Text
کتب بینی کے شوقین افراد مفت کتابیں کیسے پڑھ سکتے ہیں؟
ڈیجیٹل دور میں جہاں زندگی کے معمولات میں بے شمار تبدیلیاں آئی ہیں وہاں روایتی کتابوں کے حوالے سے بھی بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ تاہم یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ کتب بینی کے عادی افراد تاحال روایتی کتابیں پڑھنے کی اپنی عادت سے مجبور ہیں اور وہ اپنے اس شوق کی تسکین کے لیے جب تک کتاب کا مطالعہ نہ کریں تو ذہنی سکون حاصل نہیں کر پاتے۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ایسے افراد کتب بینی کے حوالے سے ایک قسم کے سحر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ دورحاضر میں جب کوئی کتب بینی کا شوقین اپنے مطالعہ کی عادت سے مجبور ہو کر چند پسندیدہ کتب خریدنے کی خواہش کرتا ہے تو وہ ان کی قیمت دیکھ کر کچھ دیر تو ضرور پریشان ہو جاتا ہے کیونکہ ان قیمتوں میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے اور ایک کتاب 13.95 سے 18 ڈالر تک دستیاب ہے، اس حساب سے اگر چند اضافی کتب خریدی جائیں تو بل باآسانی 100 ڈالر کا تو بن ہی جاتا ہے۔ سعودی میگزین الرجل نے مطالعے کے شوقین افراد کے لیے چند ایسے طریقے بتائے ہیں جنہیں برائے کار لا کر وہ اضافی رقم خرچ کیے بغیر مفت میں اپنی من پسند کتابیں حاصل کرسکیں گے۔
1 ۔ لائبریری جائیں ہر ملک میں ہزاروں عوامی کتب خانے موجود ہوتے ہیں جہاں انواع و اقسام کی کتابیں خواہ وہ روایتی ہوں یا ڈیجیٹل کاپی کی صورت میں دستیاب ہوتی ہیں۔ یہ بھی یقینی امر ہے کہ کسی نہ کسی لائبریری میں آپ کی من پسند کتابیں بھی ضرور موجود ہوں گی۔ اب آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ آپ اس لائبریری کے رُکن بن جائیں اور وہاں سے اپنی من پسند کتابیں یا سیریز حاصل کریں اور انہیں پڑھنے کے بعد مقررہ وقت پر واپس کر دیں۔ اس طرح آپ کو کتابیں خریدنے کے لیے اضافی رقم خرچ نہیں کرنا پڑے گی۔
2 ۔ کتب خانوں کی ایپلکیشنز آپ اگر کسی لائبریری میں جانے کے خواہاں نہیں تو کوئی مسئلہ نہیں، سمارٹ ایپس نے یہ مسئلہ بھی تقریباً حل کر ہی دیا ہے جس کے ذریعے آپ آسانی سے کسی بھی کتب خانے میں موجود کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں، جس کے لیے آپ کو صرف یہ کرنا ہو گا کہ کتب خانے کے ہوم پیچ پر اپنا اکاؤنٹ بنائیں جس کے بعد آپ کوئی رقم ادا کیے بغیر کسی وقت بھی اپنی من پسند کتابوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
3 ۔ مفت ڈیجیٹل کتابیں روایتی کتاب کی طرح ڈیجیٹل کتب کو اگر آپ اپنے ہاتھوں میں نہیں تھام سکتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ باقاعدہ کتاب نہیں ہے، ویب سائٹ ’بک بوب‘ آپ کو یہ سہولت بھی فراہم کرتی ہے کہ جس کتاب کا آپ مطالعہ کرنا چاہتے ہیں اس کا عنوان درج کریں اور ویب سائٹ چند لمحوں میں تمام معلومات فراہم کر دے گی کہ مذکورہ کتاب کس لائبریری میں دستیاب ہے، اور اسے مفت میں کیسے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔
4 ۔ بک ٹریڈنگ سائٹس کے رُکن بنیں انٹرنیٹ پر اب شیئرنگ کی سہولت بھی دستیاب ہے جس سے آپ دیگر قارئین کے ساتھ کتابیں شیئر کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے متعدد ویب سائٹس موجود ہیں جن میں ’بک موچ‘ ’پیپربیک سواپ‘ وغیرہ شامل ہیں جن پر آپ اپنی کتاب دوسرے قارئین کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں۔ شیئرنگ کے لیے جب آپ کسی کو میل کرتے ہیں تو آپ کو اس کے پوائنٹس بھی ملتے ہیں۔
5۔ ریٹنگ کرنا کسی بھی کتاب کے بارے میں رائے دینا بہت اہم ہوتا ہے۔ اس حوالے سے آپ اگر رائے دیتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ آپ کے مطالعہ اور حاصل مطالعے کا جائزہ لینے کے بعد کتاب کے بارے میں معلومات حاصل کرسکیں تو ’نیٹ گیلی‘ جیسی ویب سائٹس کی جانب سے کتاب کی درجہ بندی کرنے یعنی اس کے بارے میں رائے دینے والوں کو پیشگی کاپیاں ارسال کی جاتی ہیں۔ آپ اگر سوشل میڈیا پر ایکٹیو ہیں اور آپ کے فالوورز کی تعداد بھی زیادہ ہے اور کتابوں پر اپنی رائے بھی دیتے ہیں تو اس صورت میں کوئی بھی پبلشر آپ کو نئی کتابوں کی کاپیاں ارسال کرنے میں پس و پیش سے کام نہیں لے گا۔
6۔ چھوٹی اور مفت لائبریری تلاش کریں جب بھی آپ اپنے علاقے کی سیر کریں تو کوشش کریں کہ وہاں چھوٹی لائبریری تلاش کریں جہاں آپ کو متعدد کتابیں مفت میں پڑھنے کے لیے مل جائیں گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنی پڑھی ہوئی کسی کتاب کے بدلے میں دوسری کتاب حاصل کرسکیں۔
7 ۔ سوشل میڈیا آپ اگر سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں اور کتب بینی کے شوقین بھی ہیں تو اس صورت میں آپ یقینی طور پر پبلشرز کے ایڈریسز سے بھی واقف ہوں گے۔ عام طور پر پبلشرز ایسے افراد کو جو کتب بینی کا شغف رکھتے ہیں انہیں مفت میں نئی کتابیں تحفے کے طور پر بھی ارسال کرتے ہیں تو کچھ یوں بھی آپ بنا کچھ خرچ کیے اپنے مطالعے کا شوق پورا کر سکتے ہیں۔
بشکریہ اردو نیوز
2 notes
·
View notes
Text
عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا جس سے ان کے سیاسی کیریئر کو ایک نیا دھچکا لگا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان میں حزب اختلاف کے اہم رہنما عمران خان کو اس سال کے آخر میں متوقع قومی انتخابات سے قبل اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے لیے ایک طویل قانونی جنگ کا سامنا ہے۔ اس قانونی جنگ کے بارے میں کئی اہم سوالات ہیں جن کا جواب عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
کیا عمران خان کا سیاسی کیریئر ختم ہو چکا؟ قانون کے مطابق اس طرح کی سزا کے بعد کوئی شخص کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔ نااہلی کی مدت کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ قانونی طور پر اس نااہلی کی مدت سزا کی تاریخ سے شروع ہونے والے زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہو سکتے ہیں لیکن سپریم کورٹ اس صورت میں تاحیات پابندی عائد کر سکتی ہے اگر وہ یہ فیصلہ دے کہ وہ بے ایمانی کے مرتکب ہوئے اور اس لیے وہ سرکاری عہدے کے لیے ’صادق ‘ اور ’امین‘ کی آئینی شرط پورا نہیں کرتے۔ اس طرح کا فیصلہ 2018 میں تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خلاف دیا گیا تھا۔ دونوں صورتوں میں عمران خان کو نومبر میں ہونے والے اگلے عام انتخابات سے باہر ہونے کا سامنا ہے۔ عمران خان کا الزام ہے کہ ان کی برطرفی اور ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن میں عسکری عہدیداروں کا ہاتھ ہے۔ تاہم پاکستان کی فوج اس سے انکار کرتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے رہنماؤں کی مثالیں موجود ہیں جو جیل گئے اور رہائی کے بعد زیادہ مقبول ہوئے۔ نواز شریف اور ان کے بھائی موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف دونوں نے اقتدار میں واپس آنے سے پہلے بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں وقت گزارا۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی جیل جا چکے ہیں۔
عمران خان کے لیے قانونی راستے کیا ہیں؟ عمران خان کے وکیل ان کی سزا کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گے اور سپریم کورٹ تک ان کے لیے اپیل کے دو مراحل باقی ہیں۔ سزا معطل ہونے کی صورت میں انہیں کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ اگر ان سزا معطل کر دی جاتی ہے تو عمران خان اب بھی اگلے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کو مجرم ٹھہرانے کے فیصلے کو بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں دیا گیا اور انہیں اپنے گواہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن سزا سنانے والی عدالت نے کہا ہے کہ عمران خان کی قانونی ٹیم نے جو گواہ پیش کیے ان کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔ بار بار طلب کیے جانے کے باوجود کئی ماہ تک عدالت میں پیش ہونے سے عمران خان کے انکار کے بعد عدالت نے مقدمے کی سماعت تیز کر دی تھی۔ تاہم توشہ خانہ کیس ان پر بنائے گئے 150 سے زیادہ مقدمات میں سے صرف ایک ہے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ مقدمات میں دو بڑے مقدمات شامل ہیں جن میں اچھی خاصی پیش رفت ہو چکی ہے انہیں زمین کے معاملے میں دھوکہ دہی اور مئی میں ان کی گرفتاری کے بعد فوجی تنصیبات پر حملوں کے لیے اکسانے کے الزامات کا سامنا ہے۔ امکان یہی ہے کہ انہیں ایک عدالت سے دوسری عدالت میں لے جایا جائے گا کیوں کہ وہ تین سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
عمران خان کی پارٹی کا کیا ہو گا؟ عمران خان کے جیل جانے کے بعد ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت اب سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں۔ نو مئی کے تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد کئی اہم رہنماؤں کے جانے سے پارٹی پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہے اور بعض رہنما اور سینکڑوں کارکن تاحال گرفتار ہیں۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف مقبول ہے لیکن سروے کے مطابق یہ زیادہ تر عمران خان کی ذات کے بدولت ہے۔ شاہ محمود قریشی کے پاس اس طرح کے ذاتی فالوورز نہیں ہیں اور تجزیہ کاروں کے مطابق وہ کرکٹ کے ہیرو کی طرح تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہوں گے۔ ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے پر پابندی کے بعد بھی عمران خان نے اپنے حامیوں کے ساتھ مختلف سوشل میڈیا فورمز جیسے ٹک ٹاک ، انسٹاگرام، ایکس اور خاص طور پر یوٹیوب تقریبا روزانہ یوٹیوب تقاریر کے ذریعے رابطہ رکھا تھا لیکن اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات میں ان کی پارٹی کو کامیابی ملی تو وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں۔
روئٹرز
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes
·
View notes
Text
پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کا امکان ختم کیوں ہوگیا؟
حکومت اور عمراندار ججز کے مابین جاری ڈیڈلاک میں الیکشن کمیشن بری طرح پھنسا دکھائی دیتا ہے، الیکشن کمیشن پر مخصوص نشستوں کے معاملے کے جلد حل کیلئے پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ دونوں کا دبائو بڑھ رہا ہے؛ اس حوالے سے قانون کی تشریح پر بھی الیکشن کمیشن کو دونوں ریاستی اداروں کے دبائو کا سامنا ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تاحال کوئی فیصلہ کرنے سے گریزاں ہے کیونکہ مخصوص نشستوں بارے الیکشن کمیشن کا…
View On WordPress
0 notes
Text
0 notes
Text
لاہور میں یونیورسٹی کے طالبعلم نے پھندے سے لٹک کر خوکشی کر لی
جوہر ٹائون لاہور کے علاقے میں ایک نجی یونیورسٹی میں طالبعلم نے مبینہ طور پر خودکشی کرلی،نوجوان کی خودکشی کی تاحال وجہ معلوم نہ ہوسکی،یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ نے پھندے سے لٹک کر خودکشی کی۔ ریسکیو ذرائع نے بتایا کہ نواب ٹائون کے علاقے میں ایک نجی یونیورسٹی میں طالبعلم نے مبینہ طور پر خودکشی کرلی،نوجوان کی خودکشی ک�� وجہ معلوم نہ ہوسکی۔ واقعہ کی اطلاع ملنے مقامی پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی، پولیس نے خود…
View On WordPress
0 notes
Text
کیا سندھ پریمئیر لیگ میں شریک کھلاڑیوں، آفیشلرز کو واجبات ادا نہیں کیے گئے؟ - ایکسپریس اردو
سابق کپتان شاہد آفریدی سمیت کئی پاکستانی کرکٹرز ایونٹ میں شریک تھے (فوٹو: ایکسپریس ویب) سندھ پریمئیر لیگ میں شرکت کرنے والے کھلاڑیوں اور منتظمین تاحال ادائیگی نہیں کی گئی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خبریں گردش کررہی ہیں کہ سندھ پریمئیر لیگ (ایس پی ایل) کے پہلے ایڈیشن میں ��ریک کھلاڑیوں اور آفیشلرز کو واجبات ادا نہیں کیے گئے ہیں۔ ایک پلیٹ فارم پر پوسٹ شیئر کی گئی ہے کہ پاکستانی کرکٹر صہیب مقصود…
View On WordPress
0 notes
Text
مستقبل کا معاشی منظر نامہ کیا ہو گا ؟
پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران جو اتار چڑھائو آیا ہے اس نے ملک کے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے۔ تاہم اس دوران یہ حقیقت پوری طرح کھل کر عیاں ہو گئی ہے کہ معاشی معاملات کو مستقبل میں سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھانا ممکن نہیں رہے گا۔ اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ملک کو معاشی طور پر خودمختار بنانے کیلئے ناصرف حکومت کو بھرپور تعاون فراہم کیا ہے بلکہ مستقبل کیلئے بھی حکمت عملی مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس حوالے سے جو سب سے اہم قدم اٹھایا گیا ہے وہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کو ملک میں لانے کیلئے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کا قیام ہے۔ اس کونسل کے قیام کا بنیادی مقصد مشرق وسطیٰ کے ممالک کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے سہولتیں فراہم کرنا ہے تاکہ انہیں افسر شاہی کے روایتی طریقہ کار اور سرخ فیتے کی وجہ سے پیش آنے والی رکاوٹوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بھی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا حصہ بنایا گیا ہے جس سے سرمایہ کاروں کے سیکورٹی سے متعلق خدشات دور کرنے میں بھرپور مدد ملے گی علاوہ ازیں یہ اقدام دفاع، زراعت، معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں میں خلیجی ممالک سے حکومتی سطح پر سرمایہ کاری کے عمل کو بھی بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو گا۔
یہ ادارہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے باوجود معیشت کو مستحکم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کونسل کی تشکیل سے پہلے ہی دوست ممالک پاکستان میں 20 سے 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کر چکے ہیں۔ یہ کونسل ون ونڈو آپریشن کی طرز پر کام کرے گی اور اس کے تحت وہ تمام ادارے جن کا کسی بھی طرح بیرونی سرمایہ کاری سے تعلق ہے وہ ایک چھت تلے اکھٹے کر دیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں تین اعلیٰ سطحی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جن میں سب سے اوپر ایپکس کمیٹی ہے جس کی سربراہی وزیر اعظم کریں گے جبکہ اس کے ممبرز میں کابینہ کے اراکین اور آرمی چیف شامل ہیں۔ اس کے بعد ایگزیکٹیو کمیٹی ہے جس میں وفاقی وزرا، صوبائی حکومتوں کے نمائندے اور وفاقی حکومت کے ادارے شامل ہیں جبکہ تیسری عمل درآمد کمیٹی ہے جو ہر ہفتے اجلاس کر کے بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے درپیش مشکلات کے ازالے کیلئے کئے جانے والے اقدامات پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گی۔
اس حوالے سےامید کی جا رہی ہے کہ اگلے پانچ سے سات سال میں 112 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی جس کیلئے چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سمیت دیگر دوست ممالک کا کردار اہم ہو گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان ممالک سے یہ بات پہلے سے طے ہو گئی ہے کہ وہ کن شعبوں میں سرمایہ کاری کریں گے۔ اس سلسلے میں جن شعبوں پر زیادہ توجہ دی جائے گی ان میں زراعت، معدنیات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ اس حوالے سے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سرمایہ کاری کے یہ وعدے عملی شکل اختیار کر گئے تو 2035ء تک ملک کی جی ڈی پی ایک کھرب ڈالر ہو جائے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانیوں کی آمدنی اور معیار زندگی میں بھی خاطر خواہ بہتری آئے گی۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت ملک کی 40 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور کاروبار میں آسانی کے انڈیکس میں پاکستان کی پوزیشن کئی سال سے ایک ہی سطح پر برقرار ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں بیرونی سرمایہ کاری کو پاکستان لانے کیلئے بڑی تندہی اور لگن سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں اگر اگلے چند مہینوں میں 25 سے 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو ہی عملی شکل دے دی جائے تو عام انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی حکومت کو اپنی معاشی پالیسیوں کی تشکیل کیلئے مناسب ماحول میسر آ جائے گا۔ واضح رہے کہ پاکستان کو جن سنگین معاشی چیلنجز کا سامنا ہے اس سے عہد برآہ ہونے کیلئے ایسی ہی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ضرورت تھی جو اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے کسی اور اتھارٹی کی منظوری کی محتاج نہ ہو۔ تاہم خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل سے متعلق اب تک سامنے آنے والی معلومات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس کا بنیادی کام حکومتی سطح پر دوست ممالک سے سرمایہ کاری کا حصول ہے جبکہ نجی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنے کے حوالے سے اس کونسل کی کوئی حکمت عملی تاحال سامنے نہیں آ سکی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو معاشی خودمختاری سے ہمکنار کرنے کیلئے نجی شعبے سے آنے والی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے اور سہولتیں فراہم کرنے کیلئے بھی لائحہ عمل تیار کیا جائے۔
پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت بننے والے ترجیحی اسپیشل اکنامک زونز میں ون ونڈو سنٹرز قائم کر کے اس سمت میں اقدامات کا آغاز کیا جا سکتا ہے جہاں تمام متعلقہ سرکاری اداروں اور اتھارٹیوں کے نمائندے موجود ہوں تاکہ غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاروں کو صنعتی منصوبے شروع کرنے کیلئے مختلف اداروں سے این او سی یا اجازت ناموں کے حصو ل کیلئے ایک دفتر سے دوسرے دفتر چکر لگانے سے نجات مل سکے۔ اس سے عوام کو روزگار اور بہتر طرز زندگی کی فراہمی سے ملک کی معاشی بنیادوں کو بھی مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔
کاشف اشفاق
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
اوکاڑا: دریائے ستلج میں بیڑا ڈوب گیا..45 میں سے 33 کو زندہ 4 نعشیں نکال لی گئیں..8 تاحال لا پتہ .. آپریشن جاری .
اوکاڑا (ساجد لطیف مانیکا سے) دریائے ستلج میں بیڑا ڈوب گیا ..45 میں سے 33 کو زندہ 4 نعشیں نکال لی گئیں..8 تاحال لا پتہ .. ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر محمد ذیشان حنیف کی سربراہی میں آپریشن جاری . تفصیلات کے مطابق دریائے ستلج میں سوجیکے کے مقام پر حادثہ کا شکار ہونے والے بیڑا میں 45 لوگ سوار تھے جن میں سے 33 افراد کو زندہ بچا لیا گیا. 4 کی نعشیں دریا سے نکالی جا چکی ہیں جبکہ باقی 8 افراد کی تلاش کا کام جاری…
View On WordPress
0 notes
Text
عمران خان کا سحر تاحال قائم۔
عمران خان کے ساتھیوں نے خان خو ضدی قرار دے دیا۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی کے قدم۔
9 مئی نے سب ڈبو دیا، پی ٹی آئی فارغ۔
تفصیلی تجزیہ ویلاگ میں دیکھیئے
youtube
0 notes
Text
سعودی ویمن ٹیم سے دوستانہ فٹبال میچ، پاکستان فٹبال فیڈریشن کو تاحال این او سی نہ مل سکا
لاہور(آئی این پی)پاکستان اسپورٹس بورڈ (پی ایس بی) نے پاکستان فٹبال فیڈریشن (پی ایف ایف) کو سعودی عرب کیخلاف قطر میں فرینڈلی ویمن فٹبال میچ کیلئے این او سی کے اجرا سے قبل ضروری دستاویزات جمع کرانے کی ہدایت کردی ۔ ذرائع کے مطابق پی ایف ایف نے 7 نومبر کو این او سی کیلئے پاکستان اسپورٹس بورڈ کو خط لکھا تھا لیکن اس خط میں فرینڈلی میچ سے متعلق مکمل تفصیلات شامل نہیں کی گئی تھیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی…
0 notes
Text
جامعہ کراچی بند وفاقی اردو یونیورسٹی کے ملازمین و اساتذہ بھی تاحال سراپا احتجاج
(آئمہ خان، سید زبیر راشد )طلبہ یونین نے کے اعلان کے بعد آج جامعہ کراچی بند ہے۔طلبہ الائنس کا کہنا ہے کہ آج جامعہ کراچی میں تدریسی عمل بند رہے گا ،تمام دفاتر و انتظامی امور اور پوائنٹس بھی بند رکھے جائیں گے۔ جامعہ کراچی میں طلبہ تنظیم کی جانب سے اسٹوڈنٹس کو درپیش مسائل پر ساتویں روز بھی احتجاج جاری ہے اور طلبہ نے جزوی طور پر کلاسز کا بائیکاٹ کردیا،جامعہ کی تمام تنظیموں کی جانب سے طلبہ اتحاد کی…
0 notes
Text
پاکستان کا مستقبل امریکا یا چین؟
پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک منصوبے کو 10 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری بلاشبہ دونوں ممالک کی دوستی اور دوطرفہ تعلقات کی بہترین مثال ہے۔ چین نے ایسے وقت میں پاکستان میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا جب پاکستان دہشت گردی اور شدید بدامنی سے دوچار تھا اور کوئی بھی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں تھا۔ چین کی جانب سے پاکستان میں ابتدائی 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری 62 ارب ڈالر تک ہو چکی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت اب تک 27 ارب ڈالر کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ سی پیک منصوبوں سے اب تک براہ راست 2 لاکھ پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع ملے اور چین کی مدد اور سرمایہ کاری سے 6 ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ کا حصہ بنی۔ سی پیک کو پاکستان کے مستقبل کے لیے اہم ترین منصوبہ ہے، لیکن منصوبے کے ابتدائی مرحلے میں انفرا اسٹرکچر اور توانائی کے پروجیکٹس کے بعد سی پیک کے دیگر منصوبے سست روی کا شکار ہیں۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں ملک کے چاروں صوبوں میں خصوصی اکنامک زونز کا قیام تھا جس کے بعد انڈسٹری اور دیگر پیداواری شعبوں میں چینی سرمایہ کاری میں بتدریج اضافہ کرنا تھا لیکن اب تک خصوصی اکنامک زونز قائم کرنے کے منصوبے مکمل نہیں کیے جا سکے۔
سی پیک منصوبوں میں سست روی کی ایک وجہ عالمی کورونا بحرا ن میں چین کی زیرو کووڈ پالیسی اور دوسری وجہ امریکا اور مغربی ممالک کا سی پیک منصوبوں پر دباؤ بھی ہو سکتا ہے۔ سی پیک منصوبوں کی ترجیحات اور رفتار پر تو تحفظات ہو سکتے ہیں لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے پیش نظر پاکستان کے پاس چینی سرمایہ کاری کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں۔ پاکستان کا معاشی مستقبل اور موجودہ معاشی مسائل کا حل اب سی پیک کے منصوبوں اور چینی سرمایہ کاری سے ہی وابستہ ہیں۔ گزشتہ ہفتے وزیر مم��کت حنا ربانی کھر اور وزیراعظم شہباز شریف کی گفتگو پر مبنی لیک ہونے والے حساس ڈاکومنٹس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو اب چین یا امریکا میں سے کسی ایک کو اسٹرٹیجک پارٹنر چننا ہو گا۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات خصوصا مشرقی وسطی میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد اب چین عالمی سیاست کا محور بنتا نظر آرہا ہے۔
پاکستان کو اب امریکا اور مغرب کو خوش رکھنے کی پالیسی ترک کر کے چین کے ساتھ حقیقی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرنا ہو گی چاہے اس کے لیے پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعلقات کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ چین کی طرف سے گوادر تا کاشغر 58 ارب ڈالر ریل منصوبے کی پیشکش کے بعد پاکستان کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ اس منصوبے سے نہ صرف پاک چین تعلقات کو اسٹرٹیجک سمت دے سکتا ہے بلکہ اس منصوبے کی بدولت پاکستان چین کو بذریعہ ریل گوادر تک رسائی دیکر اپنے لیے بھی بے پناہ معاشی فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان نے تاحال سی پیک کے سب سے مہنگے اور 1860 کلومیٹر طویل منصوبے کی پیشکش پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کیا پاکستان کے فیصلہ ساز امریکا کو ناراض کر کے چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو طویل مدتی اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں گے یا دونوں عالمی طاقتوں کو بیک وقت خوش رکھنے کی جزوقتی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے؟
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں اشرافیہ کے کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جن کے مفادات براہ راست امریکا اور مغربی ممالک سے وابستہ ہیں۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے بچے امریکا اور مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ ان افراد کی اکثریت کے پاس امریکا اور مغربی ممالک کی دہری شہریت ہے۔ ان کی عمر بھر کی جمع پونجی اور سرمایہ کاری امریکا اور مغربی ممالک میں ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک ہی اشرافیہ کے ان افراد کا ریٹائرمنٹ پلان ہیں۔ یہ لوگ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات کو قربان کر کے چین کے ساتھ طویل مدتی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرے ان کوخوف ہے کہیں روس، ایران اور چین کی طرح پاکستان بھی براہ راست امریکی پابندیوں کی زد میں نہ آجائے، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے ریٹائرمنٹ پلان برباد ہو جائیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہترین خارجہ پالیسی کا مطلب تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات اور معاشی ترقی کے نئے امکانات اور مواقع پیدا کرنا ہے۔ لیکن ماضی میں روس اور امریکا کی سرد جنگ کے تجربے کی روشنی میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ موجودہ عالمی حالات میں پاکستان کے لیے امریکا اور چین کو بیک وقت ساتھ لے کر چلنا ناممکن نظر آتا ہے۔ جلد یا بدیر پاکستان کو امریکا یا چین میں سے کسی ایک کے ساتھ تعلقات کی قربانی کا فیصلہ کرنا ہو گا تو کیوں نہ پاکستان مشرقی وسطیٰ میں چین کے بڑھتے کردار اور اثرورسوخ کو مدنظر رکھتے ہوئے چین کے ساتھ طویل مدتی شراکت داری قائم کرنے کا فیصلہ کرے یہ فیصلہ پاکستان کے لیے مشکل ضرور ہو گا لیکن عالمی حالات یہی بتا رہے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل اب چین کے مستقبل سے وابستہ ہے۔
ڈاکٹر مسرت امین
بشکریہ ایکسپریس نیوز
3 notes
·
View notes
Text
عمران کی بہن نے بشریٰ کے خاص مرید زلفی بخاری کی دھلائی کیوں کی؟
عمران خان کی بڑی بہن روبینہ خان نے بشری بی بی کے مرید خاص زلفی بخاری کو نشانے پر لے لیا۔ روبینہ خان نے بحری محفل میں زلفی بخاری کی دھلائی کرتے ہوئے اس پر سنگین الزامات عائد کر دئیے۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے لیے الیکشن لڑنے والوں کی فہرست سے عمران خان کا نام آوٹ کرنے پر جہاں پی ٹی آئی قیادت تاحال سیاسی مخالفین کی تنقید کی زد میں ہے۔ وہیں دوسری جانب عمران خان کی بہن روبینہ خان نے اس کا ذمہ دار…
0 notes
Text
انٹرنیٹ کا آغاز کیسے ہوا ؟، موجد کون تھا ؟
انٹرنیٹ ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ دنیا کی تمام ٹیکنالوجی اور ارتقاء انٹرنیٹ کی مرہون منت ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ اربوں ڈالر کی موبائل فون انڈسٹری ہو یا ورچوئل ورلڈسب انٹر نیٹ کے شاہکار ہیں۔ انٹرنیٹ کی ایجاد کو 50 سال سے زائدکا عرصہ گزر چکا ہے۔ 1969ء کے اختتام میں، چاند پر انسانی قدم پڑنے کے کچھ ہفتوں بعد یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر لیونارڈ کلائن روک کے دفتر میں ایک سرمئی رنگ کا دھاتی باکس موصول ہوا۔ اس باکس کا سائز ایک ریفریجریٹر جتنا تھا۔ یہ بات عام لوگوں کے لئے حیران کن تھی لیکن کلائن روک اس سے بہت خوش تھا اور پرجوش نظر آرہا تھا۔ 60 کی دہائی میں گہرے خاکی رنگ میں لی گئی اس کی تصویر اس کی خوشی کی بخوبی ترجمانی کر رہی ہے۔ وہ تصویر میں کھڑا ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی باپ اپنی باصلاحیت اور قابل فخر اولاد کے ساتھ کھڑا ہو۔
کلائن روک نے اپنی خوشی کی وجہ اپنے قریبی احباب کے علاوہ کسی کو سمجھانے کی کوشش کی ہوتی تو شائد وہ سمجھ نہ پاتے۔ کچھ لوگ جنہیں اس باکس کی موجودگی کا علم تھا وہ بھی یہ نہیں جانتے تھے کہ آخر یہ ہے کیا اور اس کا نام کیا ہے۔ یہ'' آئی ایم پی‘‘ تھا جسے انٹرفیس میسج پروسیسر بھی کہا جاتا ہے۔ کچھ دیر قبل بوسٹن کی ایک کمپنی نے اسے بنانے کا ٹھیکہ حاصل کیا تھا۔ بوسٹن کے سنیٹر ٹیڈ کینیڈی نے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے اس کی افادیت اور ماحول دوست ہونے کا اظہار کیا تھا۔ کلائن کے دفتر کے باہر موجود مشین صرف دنیا میں رہنے والے مختلف لوگوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم کام کر سکتی تھی۔ دنیا میں انٹرنیٹ پہلی مرتبہ کب استعمال ہوا اور اس کا باقاعدہ آغاز کس وقت ہوا اس کے متعلق یقینی طورپر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کیوں کہ بہت سے لوگ اس کی تخلیق میں شامل تھے اور کئی لوگوں نے اس کی تخلیق میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
اس لئے بہت سے لوگ اس کا اعزاز اپنے نام کرنا چاہتے تھے۔ 29 اکتوبر 1969ء میں انٹرنیٹ کا آغاز ہوا، یہ کلائن روک کا مضبوط دعویٰ ہے کیونکہ اسی تاریخ کو پہلی مرتبہ انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے پیغام ایک سے دوسرے سرے پر بھیجا گیا تھا۔ 29 اکتوبر 1969ء رات 10 بجے جب کلائن، اس کے ساتھی پروفیسر اور طلباء ہجوم کی صورت میں اس کے گرد جمع تھے تو کلائن روک نے کمپیوٹر کو آئی ایم پی کے ساتھ منسلک کیا جس نے دوسرے آئی ایم پی سے رابطہ کیا جو سیکڑوں میل دور ایک کمپیوٹر کے ساتھ منسلک تھا۔ چارلی کلین نامی ایک طالب علم نے اس پر پہلا میسج ٹائپ کیا اور اس کے الفاظ وہی تھے جو تقریباً 135 برس قبل سیموئیل مورس نے پہلا ٹیلی گراف پیغام بھیجتے ہوئے استعمال کئے تھے۔ کلائن روک کو جو ذمہ داری دی گئی تھی وہ یہ تھی کہ اسے لاس اینجلس میں بیٹھ کر سٹینفرڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں موجود مشین میں لاگ ان کرنا ہے لیکن ظاہر طور پر اس کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے تھے۔
کلائن نے جو بھی کیا وہ ایک تاریخ ہے اور اب اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسا کہنا حماقت ہو گی کیونکہ کلائن روک کے پہلا پیغام بھیجنے کے 12 سال بعد اس سسٹم پر صرف 213 کمپیوٹر موجود تھے۔ 14 سال بعد اسی سسٹم پر ایک کروڑ 60 لاکھ لوگ آن لائن تھے اور ای میل دنیا کے لئے نئے دروازے کھول رہی تھی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 1993ء تک صارفین کے پاس کوئی قابل استعمال ویب براؤزر موجود نہیں تھا۔ 1995ء میں ہمارے پاس ایمزون تھا، 1998ء میں گوگل اور 2001ء میں وکی پیڈیا موجود تھا اور ُاس وقت تک 513 ملین لوگ آن لائن ہو چکے تھے۔ اس رفتار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انٹر نیٹ نے کتنی تیزی سے کامیابی کی منازل طے کیں اور اب انٹرنیٹ اپنی اگلی جنریشن میں داخل ہونے کو تیار ہے، جسے میٹاورس کہا جاتا ہے۔ تاحال میٹا ورس ابھی ایک تصور سے زیادہ کچھ نہیں لیکن اس میٹا ورس کی ورچوئل ورلڈ میں آپ ہیڈ سیٹ کا استعمال کرتے ہوئے ڈیجیٹل دنیا میں قدم رکھ پائیں گے اور اپنے روز مرہ کے کام سر انجام دے سکیں گے۔
انٹرنیٹ کے ارتقاء کا عمل اتنا برق رفتار تھا کہ یہ بہت سے نشیب و فراز جو اس دنیا نے دیکھے ان کا ''گواہ‘‘ بن گیا۔ آج انٹرنیت اپنی ایک الگ دنیا رکھتا ہے۔ کلائن نے پہلا پیغام بھیجتے وقت یہ سوچا بھی نہیں ہو گا کہ 50 برس بعد یہ دنیا انٹرنیٹ کے ذریعے، فیس بک، ٹوئٹر، وٹس ایپ اور انسٹا گرام جیسی ورچوئل ورلڈ سے متعارف ہو گی، جس کا استعمال دنیا کی سپر پاورز کے وزرائے اعلیٰ اور صدور بھی کیا کریں گے۔ انٹرنیٹ نے دنیا کی سیاست کو بھی یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے یہی انٹرنیٹ کئی انقلاب اور بغاوتوں کا بھی گواہ ہے اور کسی حد تک وجہ بھی۔ جس انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے کلائن روک سٹینفرڈ انسٹیٹیوٹ میں موجود کمپیوٹر پر لاگ ان کرنے کے لئے پریشان تھا وہی انٹرنیٹ ترقی کی منازل طے کرتا ہوا آج اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ پوری دنیا صرف 135 سے 150 گرام کے موبائل میں قید کر کے آپ کے ہاتھ میں پکڑا دی گئی ہے۔ آج دنیا کے 4 ارب 66 کروڑ لوگ انٹرنیٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔
(تنزیل الرحمن ایک نوجوان لکھاری ہیں اور تحقیق کے شعبہ سے وابستہ ہیں)
بشکریہ دنیا نیوز
#Internet#Internet history#Internet revolution#Modern discoveries#Modern Science#Science#Technology#World
0 notes