#کابینہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
سستی بجلی کی فراہمی،وفاقی کابینہ نے اہم فیصلہ کرلیا،8 مزید آئی پی پیز کے ٹیرف ریویو کی منظوری
(اویس کیانی)وفاقی حکومت عوام کی مشکلات کم کرنے میں سنجیدہ کوششیں کرتی نظر آتی ہے،مہنگی بجلی سے تنگ صارفین کیلئے اچھی خبر ہے کہ وفاقی کابینہ نے 8 مزید آئی پی پیز کے ٹیرف ریویو کی منظوری دے دی ہے۔ یہ فیصلہ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا،ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ نے 8 مزید آئی پی پیز کے ٹیرف ریویو کی منظوری دی، کابینہ نے جے ڈی ڈبلیو، چنیوٹ…
0 notes
Text
وفاقی کابینہ کی اکثریت نےخیبر پختونخوا میں گورنرراج نافذ کرنے کی حمایت کردی
حکومتی ذرائع کا بتانا ہےکہ وفاقی کابینہ کی اکثریت نےخیبر پختونخوا میں گورنرراج نافذ کرنے کی حمایت کردی۔ ذرائع کےمطابق حکومت نےکے پی میں گورنرراج نافذ کرنے سے پہلےپیپلز پارٹی، قومی وطن پارٹی وراے این پی سے مشاورت کافیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کا بتانا ہےکہ وزارت قانون اور اٹارنی جنرل نے وفاقی کابینہ کوکےپی میں گورنر راج کے نفاذ کے حوالے سے اپنی رائےدے دی ہے۔ ذرائع کےمطابق خیبرپختونخوا نےخود 2 باروفاق پر…
0 notes
Text
وفاقی کابینہ کا اجلاس صبح تک موخر
(اویس کیانی)وفاقی کابینہ کا اجلاس صبح تک موخرک�� دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی کابینہ کا اجلاس صبح ساڑھے 9 بجے دوبارہ ہو گا،کابینہ اجلاس میں آئینی ترمیم کی منظوری دی جائے گی ،کل ہی آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کرنے اور منظوری لینے کا امکان ہے۔ یہ بھی پڑھیں:میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں داخلے روک دیئے گئے؟ Source link
0 notes
Text
پنجاب کابینہ نے طلبہ و طالبات کو 10 ہزار الیکٹرک بائیکس قسطوں پر دینے کی منظوری دے دی
وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی زیر صدارت پنجاب کابینہ کے اجلاس میں عام ا نتخابات کے پر امن انعقاد پر پولیس، انتظامیہ اور قانون فافذ کرنے والے اداروں کو خراج تحسین پیش کیا گیا،،پنجاب حکومت نے سموگ میں کمی کیلئے 10ہزار طلباء و طالبات کو آسان شرائط پر بلاسود الیکٹرک بائیکس دینے کی منظوری دی ، ریسکیو1122 ایمولینسزمیں ہارٹ اٹیک کے مریضوں کیلئے آٹو میٹڈ ایکسٹرنل ڈیفیبریلیٹر نصب کرنے کی منظوری بھی دی…
View On WordPress
0 notes
Text
نگران حکومت کی ضرروت ہی کیا ہے؟
انتخابات دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن نگران حکومتوں کے نام پر غیر منتخب لوگوں کو اقتدار میں لا بٹھانے کی یہ رسم صرف پاکستان میں ہے۔ سوال یہ ہے اس بندوبست کی افادیت کیا ہے اور نگران حکومتوں کے انتخاب، اہلیت، اختیارات اور کارکردگی کے حوالے سے کوئی قوانین اور ضابطے موجود ہیں یا نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ جہاں غیر منتخب نگران حکومتوں کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں وہاں تو معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ نبٹا لیے جاتے ہیں اور ہمارے ملک میں نگران حکومتوں کے ہوتے ہوئے بھی انتخابات متنازع ہو جاتے ہیں؟ نگران حکومت کے نام پر عارضی ہی سہی، ایک پورا حکومتی بندوبست قائم کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بندوبست کے بارے میں تفصیلی قانون سازی آج تک نہیں ہو سکی۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 اور آئین کے آرٹیکل 224 میں کچھ بنیادیں باتیں لکھ دی گئی ہیں لیکن وہ ناکافی اور مبہم ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ایک رکن پارلیمان کی اہلیت کے لیے تو ایک کڑا معیار مقرر کیا گیا ہے لیکن نگران حکومت کی اہلیت کے لیے کوئی اصول طے نہیں کیا گیا؟ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کوئی نام تجویز کر دیں تو اس نام کی اہلیت کو پرکھنے کے لیے کوئی قانون اور ضابطہ تو ہونا چاہیے، وہ کہاں ہے؟
یہی معاملہ نگران کابینہ کا ہے۔ آئین کا آرٹیکل A 224 (1) صرف یہ بتاتا ہے کہ نگران کابینہ کا انتخاب نگران وزیر اعظم اور نگران وزرائے اعلی کی ایڈوائس پر ہو گا لیکن یہ کہیں نہیں بتایا کہ نگران کابینہ کے لیے اہلیت کا پیمانہ کیا ہو گا۔ ایک جمہوری معاشرے میں ایسا صوابدیدی اختیار حیران کن ہے۔ دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے اختیارات کا دائرہ کار کیا ہے؟َ وہ کون سے کام کر سکتی ہے اور کون سے کام نہیں کر سکتی؟ اس کی مراعات کیا ہوں گی؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کس کو جواب دہ ہو گی؟ حیران کن بات یہ ہے کہ ان سولات کا تفصیلی جواب نہ آئین میں موجود ہے نہ ہی الیکشن ایکٹ میں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 میں کچھ وضاحت ہے لیکن ناکافی ہے۔ نگران حکومت کا مینڈیٹ دو جمع دو چار کی طرح تحریری طور پر موجود ہونا چاہیے۔ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ نگران حکومت کی کوئی حزب اختلاف نہیں ہوتی اور اسے کسی صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے وزراء کسی ایوان کو جواب دہ نہیں ہوتے۔ ان سے کسی فورم پر سوال نہیں ہوتا۔ نگران حکومتوں کے دورانیے میں، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں تو موجود نہیں ہوتیں لیکن سینیٹ جیسا ادارہ تو موجود ہوتا ہے، سوال یہ ہے اس دورانیے میں سینیٹ کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا؟
ہم نے ساری دنیا سے نرالا، نگران حکومتوں کا تصور اپنایا ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ اس نامعتبر بندوبست نے ہمیں کیا دیا اور ہمیں اس پر اصرار کیوں ہے؟ نگران حکومت کے قیام کا واحد بنیادی مقصد انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت ہے۔ سوال یہ ہے اس کے لیے غیر منتخب لوگوں کو حکومت سونپنے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت سرکاری محکموں اور وزارتوں کی صورت چلتی ہے، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ انتخابات کے لیے نگران حکومت بنانے کی بجائے حکومتی مشینری کو الیکشن کمیشن ہی کے ماتحت کر دیا جائے؟ جب آئین نے آرٹیکل 220 میں تمام اتھارٹیز کو چاہے وہ وفاقی ہوں یا صوبائی، یہ حکم دے رکھا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے کی مدد کریں گے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے جس کے لیے غیر منتخب حکومت مسلط کی جائے؟ معمول کے کام چلانا بلا شبہ ضروری ہیں تا کہ ریاستی امور معطل نہ ہو جائیں لیکن اس کی متعدد شکلیں اور بھی ہو سکتی ہیں اور اس کے لیے غیر منتخب لوگووں کی حکومت بنانا ضروری نہیں۔
سینیٹ کی شکل میں جو واحد منتخب ادارہ اس دورانیے میں موجود ہوتا ہے، اسے ��ضو معطل کیوں بنا دیا گیا ہے۔ کم از کم اتنا تو ہو سکتا ہے کہ غیر منتخب نگران حکومت کو سینٹ کے سامنے جواب دہ قرار دیا۔ ہمارے اہل سیاست کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ کتنی محنت سے خود ہی خود کو بددیانت، ناقابل بھروسہ اور خائن ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ اگر منتخب حکومت ہی کو نگران حکومت کی ذمہ داری دی گئی تو وہ لازمی بد دیانتی اور خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھاندلی کریں گے؟ قانونی اورآئینی طور پر سارے اراکین پارلیمان سچے، نیک، پارسا، دیانت دار، امین اور سمجھ دار ہیں اور ان میں کوئی بھی فاسق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ عام انتخابات کے لیے اس کی دیانت اور امانت داری کا یقین کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ نگران حکومت کا تصور جمہوری حکومت نے نہیں دیا تھا۔ جمہوری حکومتیں البتہ اسے سرمایہ سمجھ کر گلے سے لگائے ہوئے ہں اور انہیں احساس ہی نہیں یہ اصل میں ان کے اخلاقی وجود پر عدم اعتماد ہےا ور ایک فرد جرم ہے۔ نگران حکومت کے موجودہ غیر منتخب ڈھانچے کے ہوتے ہوئے ہماری سیاست کے اخلاقی وجود کو کسی دشمن کی حاجت نہیں۔ یہ الگ بات کہ انہیں اس حادثے کی کوئی خبر ہی نہیں۔
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes
·
View notes
Text
پریس ریلیز
جنوری 11
*شہباز شریف نے پاکستان کو نئی پہچان دی، بانی فتنہ پارٹی کا کوئی فون تک نہیں سنتا تھا: عظمٰی بخاری*
*سول نافرمانی کی کال کے باوجود ترسیلات زر میں اضافہ ہوا، اوورسیز پاکستانیوں نے تین ارب دس کروڑ ڈالر پاکستان بھیجے: عظمٰی بخاری*
*گنڈا پور سمیت کے پی گورنمنٹ کی پوری کابینہ کرپشن میں لت پت ہے: عظمٰی بخاری*
*بارہ سال سے نالائق شخص کی حکومت نے لوگوں کی تکلیف میں اضافہ کر دیا ہے: عظمٰی بخاری*
*بانی پی ٹی آئی جیل میں برانڈڈ چاکلیٹس اور بادام انجوائے کر رہا ہے: عظمٰی بخاری*
*قوم کو بانی پی ٹی آئی کی خراب حالت دکھا کر جذباتی کیا جاتا ہے: عظمٰی بخاری*
لاہور () وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری نے کہا ہے کہ شہباز شریف نے پاکستان کو نئی پہچان دی، بانی فتنہ پارٹی کا کوئی فون تک نہیں سنتا تھا۔ اڈیالہ جیل سے فتنہ خان نے فائنل کال دی وہ مس کال ثابت ہوئی۔ سول نافرمانی کی کال کے باوجود ترسیلات میں ریکارڈ اضافہ ہوا، اوورسیز پاکستانیوں نے تین ارب دس کروڑ ڈالر پاکستان بھیجے۔ سول نافرمانی کی تحریک سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی مگر فتنہ کی پالیسی کو کسی دوست ملک نے توجہ نہیں۔ اسلام آباد میں خواتین پرکانفرنس چل رہی ہے جہاں پچاس ملکوں سے زائد مندوبین موجود ہیں۔ فتنہ خان نے ملک کو تنہا کرنے کی کوئی کس�� نہیں چھوڑی۔ اگر پاکستان میں کوئی دوست ملک کا سربراہ آیا ہو تو یہ لوگ مہم جوئی شروع کر دیتے ہیں تاکہ پاکستان کے تعلقات خراب ہوں۔ انہوں نے کہا کہ گنڈا پور سمیت کے پی گورنمنٹ کی پوری کابینہ کرپشن میں لت پت ہے۔ بارہ سال سے نالائق شخص کی حکومت نے ہر شخص کی تکلیف میں اضافہ کر دیا ہے۔ ہمیں بتایا جائے کہ گنڈا پور صاحب میں ایسی کون سی قابلیت ہے کہ اسے سی ایم بنا دیا ہے۔ کے پی میں مساجد کے نام پر دو ارب روپے بانٹے گئے۔ بانی پی ٹی آئی جیل میں برانڈڈ چاکلیٹس اور بادام انجوائے کر رہا ہے۔ قوم کو بانی پی ٹی آئی کی خراب حالت دکھا کر جذباتی کیا جاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے شاہدرہ میں سمیع اللہ خان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ شاہدرہ کا علاقہ ن لیگ کبھی نہیں بھلا سکتی۔ شاہدرہ میں سیوریج کے بہت مسائل تھے جو کہ اب حل ہو رہے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں اب آسانی آئے گی۔ وزیر اعلٰی پنجاب مریم نواز کی قیادت میں پنجاب ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ یہاں صرف اعلانات نہیں ہوتےبلکہ کام کر کے دکھایا جاتا ہے۔ دھی رانی پروگرام میں مریم نواز ایک بڑے پروگرام کا آغاز کرنے جا رہی ہیں۔ سکالر شپ پروگرام سے تیس ہزار مستحق بچوں کو تعلیم ملے گی مگر فتنہ پارٹی کے اس پر بھی شرانگیزی کرنے کی کوشش کی ۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ مریم نواز نے لائیو سٹاک کارڈ پروگرام پاکپتن سے شروع کیا ہے جس سے مویشی پال لوگ اپنے لئے مویشی خریدیں گے اور روزگار کمائیں گے۔ بہت سارے دوست ممالک پاکستان سے مویشی خریدنا چاہتے ہیں۔ اس پروگرام سے پنجاب سے دوسرے ممالک کو جانور بیچیں جائیں گے۔ انتشار گروپ نے شہباز شریف کے بغض میں لیپ ٹاپ پروگرام کوبند کر دیا۔اب لیپ ٹاپ کی کھیپ پاکستان پہنچ چکی ہے، کوئی ایم این اے یا ایم پی اے لیپ ٹاپ پر سفارش نہیں کرسکتا۔ مریم نواز کی حکومت میں کسی کی سفارش کا کوئی نظریہ نہیں، جب لیڈر شپ محنتی ہو تو اللہ کا فضل ہوتاہے۔ ان کے دور میں انڈے، کٹے لنگر خانے، پناہ گاہیں اور بھنگ کی فیکٹریاں شروع کی گئیں۔ ادھر تو پھونکوں اور تعویزوں کی حکومت تھی۔ انتشار گروپ کے جلاؤ گھیراؤ کے باوجود پاکستان آگے بڑھ رہا ہے۔ جو کہتا تھا کہ این آر او نہیں لونگا وہ اب این آر او کیلئے ترلے کر رہا ہے۔اب تو خان کو اس کے گھر والے ملنے بھی نہیں جارہے، اگر کوئی ملنے جائے تو اس سےکہتا ہے مجھ سے جیل میں نہ ملو بلکہ مجھے کسی طرح این آر او دلواکر باہر نکالو۔ اس کے اپنے بچے لندن میں عیاشیاں کررہے ہیں اور قوم کے بچوں کے ہاتھ میں غلیلیں،اسلحہ اور پٹرول بمب تھمایا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے پی حکومت کئی ہزار ارب روپے کی مقروض ہے وہاں نہ تو سکول ہیں اور نہ ہسپتال۔ وہاں لوگ ڈولیوں میں بیٹھ کر سفر کرتے ہیں۔ عوام پر توجہ دینے کی بجائے ان کے لوگوں کو صرف ایک ہی فکر ہے کہ خان کی اڈیالہ جیل میں بھنا ہوامرغا مل رہا ہے یا نہیں۔
0 notes
Text
آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر علاقائی خبریں تاریخ : 15 ؍ اکتوبر 2024 ء وقت : صبح 09.00 سے 09.10 بجے
پہلے خاص خبروں کی سر خیاں ...
٭ دمن گنگا - ایکدرے-گوداوری ندی جوڑ منصوبہ اور آشٹی آبپاشی منصوبے کو ریاستی حکو مت کی منظوری
٭ مراٹھواڑےکو قحط سے پاک کرنے کے لیے 80؍ ہزار کروڑ روپئے کے اخراجات پر مشتمل منصوبے
روبہ عمل لائے جائیں گے -وزیر اعلیٰ کا اعلان
٭ اُدگیر سے دیگلور اور آدم پور موڑ سے سگ روڑی موڑ راستے کے تعمیر کاموں کو مرکزی حکو مت کی منظوری
اور
٭ دیوالی کے موقعے پربس کرایوں میں اضافے کی تجویز واپس لینے کا ایس ٹی کارپوریشن کا فیصلہ
اب خبریں تفصیل سے...
ریاستی کابینہ نے دمن گنگا -ایکدرے-گودا وری ندی جوڑ منصوبے کی منظوری دیدی ہے ۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کی صدارت میں کل منعقدہ میٹنگ میں یہ فیصلہ کیاگیا ۔ اِس موقعے پر رکن پارلیمان اشوک چو ہان نے کہا کہ مراٹھواڑےمیں پانی کی قلت دور کرنے کے مقصد کو پورا کرنے میں یہ منصوبہ نہایت کارگر ثابت ہو گا ۔ ساتھ ہی آشٹی آبپاشی منصوبہ اور ویجاپور کے قریب شنی دیو گائوں میں پُشتے کے تعمیری کام کو بھی کل ہوئے ریاستی کابینی اجلاس میں منظوری دی گئی ۔
مراٹھی زبان سے متعلق عوامی بیداری کے لیے 15؍ روزہ پروگرام کا اہتمام کرنے ‘ اننا صاحیب جائوڑے مراٹھواڑہ تر قیاتی کارپوریشن اور اُمید کے لیے محقق گروہ تشکیل دینے کی بھی منظوری دی گئی ہے ۔ اِس کے علا وہ ریاستی اِسکِل یو نیور سٹی کا نام بدل کر پدم وِبھو شن رتن ٹا ٹا مہاراشٹر اسٹیٹ اِسکِل یو نیور سٹی کرنے کو بھی کل ہوئے ریاستی کابینی اجلاس میں منظوری دی گئی ۔
***** ***** *****
مراٹھواڑے کو قحط سے پاک کرنے کے لیے 80؍ ہزار کروڑ روپئے کے اخرجات پر مشتمل منصوبے روبہ عمل لائیں جائیں گے ۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے یہ بات کہی ہے ۔ وہ کل جالنہ ضلعے میں گھن سائونگی تعلقے کے کمبھار پمپڑ گائوں میں منعقدہ کاشتکاروں کےجلسے میں بول رہے تھے ۔ اپنی مخاطبت میں انھوں نے مزید کہا کہ مراٹھواڑے کے لیےتمامضروری کام کیے جا ئیں گے ۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ندی جوڑ منصوبے کے ذریعے سمندر میں جا ملنے والے پانی کو موڑ کر عوام کے لیے مہیا کیا جائے گا ۔ انھوں نے کہا کہ حکو مت کسانوں کو بے سہارا نہیں چھوڑے گی ۔ انھوں نے بتا یا کہ کاشتکاروں کو 12؍ ہزار روپئے دینے والی مہاراشٹر کی عظیم اتحاد کی حکو مت ملک بھر میں پہلی ریاستی حکو مت ہے ۔
اِس موقعے پر مرکزی مملیکتی وزیر پر تاپ رائو جا دھو ‘ رکن پارلیمان سندپان بھومرے ‘ وزیر صنعت اُدئے سامنت ‘ سڈ کو کارپوریشن کے چیئر مین سنجئے شر ساٹ اور سابق وزیر ارجن کھوتکر سمیت کئی معزز شخصیات موجود تھیں ۔
بلیو سفائر کمپنی کے فوڈ پرو سیسنگ کے دوسرے یونٹ کا سنگ بنیاد بھی کل وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کےہاتھوں رکھا گیا ۔
***** ***** *****
وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کہا ہے کہ راشٹر وادی کانگریس پارٹی کے رہنما بابا صدیقی کے قتل کا معاملہ فاسٹ ٹریک عدالت میں چلا یا جائے گا ۔ انھوں نے کہا کہ وہ تمام مجرموں کو پھانسی کی سزا دینے کا مطالبہ کریں گے ۔
اِسی دوران بابا صدیقی قتل معاملے میں زیر حراست 2؍ ملزمان میں سے دھرم راج کشیپ کی بلو غت ثابت ہو گئی ہے ۔ لہذا اُسے آئندہ 21؍ تاریخ تک پولس کی حراست میں رکھا جائے گا ۔ اِس معاملے میں ایک اور ملزم پر وین لون کر کو ممبئی پولس نے کل پونا سے گرفتار کیا ۔
***** ***** *****
وزیر اعلیٰ میرا اسکول خوبصورت اسکول مہم کے دوسرے مرحلے میں نما یاں کار کر دگی کا مظاہرہ کرنے والے اسکولوں کو کل وزیر اعلیٰ کےہاتھوں سر ٹیفکیٹ ‘ ستائش نامہ اور چیک عطا کیے گئے ۔ اِن اسکولوں میں جالنہ ضلعے کے جئو کھیڈا خورد میں واقع دشرتھ با با ثانوی و اعلیٰ ثانوی اسکول کو ریاستی سطح پر تیسرا مقام حاصل ہوا ہے ۔
***** ***** *****
قومی شاہراہ نمبر63�� پر اُدگیر سے دیگلور اور آدم پور موڑ سے سگ روڑی موڑراستے کے تعمیری کام کو منظوری دیدی گئی ہے ۔ شاہراہوں کے مرکزی وزیر نتن گڈ کری نےکل سوشل میڈیا پیغام کے ذریعے یہ بات بتائی ۔ انھوں نے بتا یا کہ مذکورہ راستوں کے تعمیری کام کے لیے 809؍ کروڑ 77؍ لاکھ روپئے کے اخراجات پیش آئیں گے ۔وزیر موصوف نے مزید بتا یا کہ ان راستوں کے سبب اُدگیر ‘ مکرم آباد اور دیگر شہروں کی کاروباری سر گر میوں میںتیزی آئے گی۔
***** ***** *****
ریاستی ٹرانسپوٹ کارپوریشن ایس ٹی نے دیوالی کے پیش نظر بس کےکرایوں میں اضا فے کی تجویز کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ خیال رہے کہ آئندہ 25؍ اکتوبر سے 25؍ نومبر کے دوران ایس ٹی بس کرایوں میں اضافے کی تجویز زیر غور تھی ۔اِس بارے میں ایک اطلاع نا مہ بھی جاری کیاگیا تھا جسے ایس ٹی کارپوریشن نے کل منسوخ کر دیا۔
***** ***** *****
***** ***** ***** ***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر سے نشر کی جا رہی ہیں
***** ***** ***** ***** ***** *****
معروف مزاحیہ ادا کار اتُل پر چورے کل ممبئی میںچل بسے ۔ وہ 57؍ برس کے تھے ۔ کچھ عرصہ قبل ہی وہ کینسر جیسے مہلک مرض کو شکست دے کر صحت یاب ہو ئے تھے لیکن کچھ دن قبل دوبارہ تکلیف محسوس ہونے پر اُنھیں ہسپتال میں شریک کیاگیا تھا ۔ دوران علاج ہی کل اُن کا انتقال ہو گیا۔ خیال رہےکہ اتُل پر چورے چھوٹے اور بڑے دونوں پردوں پر اپنی اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں ۔ انھوں نے ہندی اور مراٹھی کی 40؍ سے زیادہ فلموں میں کام کیا تھا ۔اُن کے انتقال پر ہندی اور مراٹھی فلمی دنیا میں غم کا ماحو ل ہے ۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے اتُل پر چورے کی موت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے ۔ اتل پر چورے کی آخری رسو مات آج ممبئی میں ادا کی جا ئیں گی ۔
***** ***** *****
محکمہ توانائی نے پر لی ویجناتھ میں اسپورٹس کامپلیکس قائم کرنے کے لیے محکمہ کھیل کو جلال پور علاقے میں 5؍ ہیکٹر اراضی مُفت دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ کل اِس خصوص میں سرکاری حکم نا مہ جاری کیاگیا ۔ نگراں وزیر دھننجئے مُنڈے نے مذکورہ اراضی کو محکمہ کھیل کے نام منتقل کر کے اسپورٹس کامپلیکس قائم کرنے کی کارروائی شروع کرنے کی ہدایت دیدی ہے ۔
***** ***** *****
ونچت بہو جن آ گھاڑی کے صدر ایڈو کیٹ پر کاش امبیڈکر نے کہا ہے کہ اگر ہم منتخب ہوتے ہیں تب بھی ہم الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی مخالفت کریں گے ۔ وہ کل چھترپتی سنبھا جی نگر میں صحافیوں سے اظہار خیال کر رہے تھے ۔ اِس موقعے پر انھوں نے کانگریس اور بی جے پی دنوں سیاسی جماعتوں پر نکتہ چینی کی ۔
***** ***** *****
جالنہ شہر کے چندن جھیرا علاقے میں 9؍ سالہ بچی کے ساتھ کی گئی زیادتی کی مذمت میں شہر یان کی جانب سے کل راستہ روکو آندو لن کیا گیا ۔ اِس کی وجہ سے جالنہ - چھتر پتی سنبھا جی نگر راستے پر آمد و رفت بند ہوگئی تھی ۔
اِسی دوران مذکورہ سانحہ کے سلسلے میں کارروائی کرتے ہوئے پولس نے 6؍ مشکوک افراد کو گرفتار کیاہے ۔ متاثرہ بچی چھتر پتی سنبھا جی نگر کے گھاٹی ہ��پتال میںزیر علاج ہے ۔
***** ***** *****
ناندیڑ ضلع کلکٹر دفتر پر کل کاشتکار احتجاجی مورچہ نکا لا گیا تھا ۔ یہ مورچہ چھتر پتی سنبھا جی مہاراج کی قیادت میں نکا لا گیا تھا ۔ مورچے میں شامل کاشتکاروں نے سویا بین کو فی کوئنٹل ساڑھے آٹھ ہزار روپئے کا بھائو اور کپاس کو 11؍ ہزار روپئے فی کوئنٹل کا بھائودینے کا مطالبہ کیا ۔ اِس کے علا وہ موسلا دھار بارش کی وجہ سے ہوئے نقصانا ت کی بھر پائی جلد از جلد ادا کرنے اور کاشتکاروں کے قرض صد فیصد معاف کرنے وغیرہ مطالبات بھی کاشتکاروں نے اِس موقعے پر کیے ۔
***** ***** *****
اَگلی پھُلے- شاہو- امبیڈ کر عالمی ادبی کانفرنس کے صدر نشین عہدے پر بزرگ ادیب رُشی کیش کامبڑے کا انتخاب کیاگیا ہے ۔
یہکانفرنس آئندہ سال5؍ جنوری 2025ء کے روز بینگ کاک میں منعقد کی جائے گی ۔ خیال رہے کہ اِس کانفرنس کا نظم تھائی لینڈ کی پٹا یا اِنڈین ایسو سی ایشن نامی تنظیم سے وابسطہ بھارتی افراد کی جانب سےکیا جائے گا ۔
***** ***** *****
وزیر اعلیٰ تیرتھ درشن یو جنا کے تحت لاتور ضلع سے کل تقریباً 800؍ بزرگ شہر یان ایو دھیا کے لیے روانہ ہوئے ۔ ضلع کلکٹر ورشا ٹھا کُر گھو گے نے اِس جاترا کو ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کیا ۔ اِس موقعے پر نگراں وزیر گیرش مہا جن کی جانب سے بھیجا گیا پیغام مسافروں کو پڑ ھ کر سنا یاگیا ۔
***** ***** *****
پر بھنی ضلع کلکٹر دفتر میں کل 4؍ آدھار اندراج مراکز کا آغاز کیا گیا ۔ ضلع کلکٹر رگھو ناتھ گائوڈے نے اِن مراکز کاافتتاح کیا ۔ یہ مراکز ضلع کلکٹر دفتر کی زیر نگرانی کام کریں گے ۔
***** ***** *****
آخر میں اہم خبروں کی سر خیاں ایک مرتبہ پھر سن لیجیے ...
٭ دمن گنگا - ایکدرے-گوداوری ندی جوڑ منصوبہ اور آشٹی آبپاشی منصوبے کو ریاستی حکو مت کی منظوری
٭ مراٹھواڑےکو قحط سے پاک کرنے کے لیے 80؍ ہزار کروڑ روپئے کے اخراجات پر مشتمل منصوبے
روبہ عمل لائے جائیں گے -وزیر اعلیٰ کا اعلان
٭ اُدگیر سے دیگلور اور آدم پور موڑ سے سگ روڑی موڑ راستے کے تعمیر کاموں کو مرکزی حکو مت کی منظوری
اور
٭ دیوالی کے موقعے پربس کرایوں میں اضافے کی تجویز واپس لینے کا ایس ٹی کارپوریشن کا فیصلہ
علاقائی خبریں ختم ہوئیں
آپ یہ خبر نامہ ہمارے یو ٹیوب چینل AIR چھتر پتی سنبھا جی نگر پر دوبارہ کسی بھی وقت سن سکتے ہیں۔
٭٭٭
0 notes
Text
وقف ایکٹ میں ترامیم کو کابینہ کی منظوری
0 notes
Link
0 notes
Text
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) میئر لندن صادق خان کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستانی اور مسلمان ہونےکی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے اور 2016 میں زیک گولڈ اسمتھ نے ان کے خلاف اسلاموفوبک حملوں کی بنیاد رکھی۔
صادق خان نے کہا کہ لندنستان اور مسلم سلیپر سیل جیسے الفاظ کا استعمال خطرناک ہے، مسلمان معاشرے کا حصہ ہیں وہ معاشرے میں قبولیت کے لیے اورکیا کریں، رشی سونک اور ان کی کابینہ مجھ پر الزامات لگانے والے کو نسل پرست کہنے سے خوفزدہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ رشی سونک اور دیگر اسلامو فوبک کا لفظ استعمال ہی نہیں کرتے، 2016 کی طرح پھر میرے خلاف نسل پرستانہ مہم شروع کردی گئی ہے، مجھے مسلمان اور پاکستانی کہہ کر لوگوں کو ووٹ دینےسے ڈرایا جائےگا۔
صادق خان کا کہنا تھا کہ میرے خلاف مہم چلانے والوں میں مرکزی دھارے کے سیاستدان شامل ہیں، سویلا بریوربتائیں کہ مسلمان کون سے شعبوں پر ��ابض ہوئے ہیں، نسل پرستی دیکھ کر سیاست سے دور نہ ہوں بلکہ اس کا حصہ بنیں۔
میئر لندن نے کہا کہ مشکلات کے باوجود لندن میں جرائم کی وارداتوں کو نیچے لائے ہیں۔
0 notes
Text
ہماری فورسز نے بہترین حکمت عملی بنا کر احتجاج کا خاتمہ کیا ، وزیراعظم کا کابینہ اجلاس سے خطاب
(24 نیوز )وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ہماری فورسز نے بہترین حکمت عملی بنا کر احتجاج کا خاتمہ کیا ،احتجاج کے باعث کئی دن سے کاروبار نہ ہونے کے برابر تھا ، معیشت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ وزیراعظم شہبازشریف کا کابینہ اجلاس سے خطاب میں کہنا تھا کہ ہماری فورسز نے بہترین حکمت عملی بنا کر احتجاج کا خاتمہ کیا ، دیہاڑی دار مزدور اور صنعت کار طبقہ پریشان تھا ، ہسپتالوں میں مریضوں کو مشکلات کا…
0 notes
Text
کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلوں کی توثیق کردی
وفاقی کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 22 اگست کے فیصلوں کی توثیق کر دی۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا۔وفاقی کابینہ نے ایک لاکھ میٹرک ٹن چینی کی شرطیہ برآمد کی منظوری دے دی۔وفاقی کابینہ اجلاس میں آپریشن عزم استحکام کے لئے 20 ارب روپے کی منظوری دید ی۔ کابینہ نے کابینہ نے ریکوڈک منصوبے کی سیکیورٹی کی مد میں ایف سی بلوچستان کے لئے ایک ارب 951 کروڑ روپے کی منظوری دے دی۔
0 notes
Text
بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بار دانہ کی خریداری کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کا فیصلہ
کوئٹہ (ڈیلی پاکستان آن لائن)وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا دوسرا اجلاس ہوا جس میں بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بار دانہ کی خریداری کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ کابینہ نے فیصلہ کیا کہ حسب ضرورت جدید ماحول دوست بیگز خریدے جائیں گے، آئندہ مالی سال سے کاشتکاروں کو بار دانہ کی فراہمی کے بجائے رقم ادا کی جائے گی، صوبائی کابینہ نے آئندہ سال سے…
0 notes
Text
وفاقی کابینہ کا اجلاس، کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کو الگ الگ کرنے کی منظوری
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس میں ریونیو ڈویژن کی سفارش پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تنظیمِ نو اور ڈیجٹائزیشن کی منظوری دے دی گئی۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس آج اسلام آباد میں ہوا۔ وفاقی کابینہ نے ریونیو ڈویژن کی سفارش پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تنظیمِ نواورڈیجٹائزیشن کی منظوری دے دی۔ کابینہ کو23 جنوری2024 کے اجلاس میں قائم…
View On WordPress
0 notes
Text
فائنل کال کے بعد؟
پہلے سوال کا تعلق تحریک انصاف اور حکومت دونوں سے ہے۔ تحریک انصاف سے پوچھا جانا چاہیے کہ اس کی قیادت عام کارکنان سے تو یہ اپیل کر رہی تھی کہ بچوں اور فیملیوں سمیت اس احتجاج کا حصہ بنیں تو کیا پارٹی قیادت بھی اپنے بچوں اور فیملیوں سمیت اس احتجاج میں شامل ہوئی۔ کے پی حکومت کے وزیر اعلی کیا اہل خانہ سمیت اس احتجاج میں شریک تھے؟ عمر ایوب صاحب کے بچے اور اہل خانہ کیا اس احتجاج میں شامل تھے؟ کیا کے پی کے کی کابینہ اپنے بچوں اور اہل خانہ سمیت احتجاج کا حصہ بنی؟ کیا حماد اظہر کے اہل خانہ شریک ہوئے؟ یہ سیاست کا ایندھن صرف عام کارکن کو ہی کیوں بنایا جاتا ہے؟ اسی طرح حکومت سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ عام کارکن پر تو اس نے قانون نافذ کر دیا، سوال یہ ہے کہ علی امین گنڈا پور اور بشری بی بی ڈی چوک سے نکلنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟ راستے سارے بند تھے، سڑکیں ساری بند تھیں، یہ کیسے ممکن ہوا کہ وہ ڈی چوک سے نکلے اور مانسہرہ تک کوئی ان کی راہ میں حائل ہوا۔ یہ کیسا بندوبست تھا کہ ڈی چوک سے وہ لوگ آرام سے نکل گئے، جو کارکنان کو اکسا کر لائے تھے اور کوئی ان کی راہ میں مزاحم نہ ہوا۔
جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں کیا یہ ممکن ہے کہ چاروں اطراف سے گھیرے میں لیے گئے ڈی چوک میں سے قیادت گاڑی بھگا کر نکل جائے اور اسلام آباد کے تین درجن ناکوں سے بحفاظت نکل کر مانسہرہ پہنچ جائے۔ قانون کا اطلاق سب پر کیوں نہیں ہوا؟ کیا یہ سمجھا جائے کہ حزب اقتدار کی اشرافیہ نے حزب اختلاف کی اشرافیہ کی موقع سے فرار میں پوری سہولت کاری کی؟ اور دونوں کے ہاں اس بات پر اتفاق ہے کہ عوام کی حیثیت سیاست کی اس بساط پر رکھے مہرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ بادشاہوں، وزیروں اور ملکہ کو بچانا ہے، ان کے کھیل اور ان کے شوق سلامت رہیں، اس کھیل اور اس شوق میں مہروں کی کوئی اوقات نہیں۔ یہ بڑا ہی اہم اور بنیادی سوال ہے کہ سیاسی قیادت کی نظر میں کارکن کی حیثیت کیا ہے؟ وہ ایک زندہ انسانی وجود ہے یا وہ قربانی کا بکرا ہے جسے بار بار ریاست کی انتظامی قوت سے ٹکرایا جاتا ہے؟ معاملات کے حل کے لیے سیاسی بصیرت سے کام کیوں نہیں لیا جاتا؟ کیا سیاسی جماعت کو اپنے کارکنان کے لیے عافیت تلاش کرنی چاہیے یا ان کے جذبات میں آگ لگا کر انہیں احتجاجی سیاست کا ایندھن بنا دینا چاہیے؟
یہ سوال ان وکیلوں کے بارے میں بھی ہے جو اچانک ہی پارٹی رہنما قرار پائے یا وہ جو پہلے سے ہی اس پارٹی کے رہنما تھے۔ ان میں سے کتنے تھے جو اس احتجاج میں شریک ہوئے؟ کیا ان میں سے کوئی اپنے بچوں اور اہل خانہ کو بھی لے کر آیا؟ کیا پولیس سے ٹکرانے، اور قانون کو ہاتھ میں لینے کے لیے ہمیشہ غریب کارکن کا ہی جذباتی استحصال کیا جاتا رہے گا؟ کیا کہیں بیرسٹر گوہر نظر آ ئے؟ سلمان اکرم راجہ کہاں تھے؟ حامد خان صاحب نے کن قافلوں کی قیادت کی؟ غریب کا بچہ ہی کیوں؟ تحریک انصاف کے کارکنان کو سوچنا چاہیے کہ اس احتجاج کا مقصد کیا تھا اور کیا وہ مقصد حاصل ہو سکا؟ متعدد مقدمات میں عمران خان کی ضمانت منظور ہو چکی ہے اور جو چند ایک مقدمات باقی ہیں ان کی نوعیت اتنی سنگین نہیں ہے اور امکان تھا کہ ایک ڈیڑھ ماہ میں ان میں بھی ضمانت ہو جائے گی۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ تحریک انصاف اگر اس موقع پر احتجاج کرے گی تو ��حتجاج میں اگر کچھ ناخوشگوار واقعہ ہو گیا تو اس کا مقدمہ قیادت پر قائم ہو گا اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ عمران خان پر دس بیس مزید ایف آئی آر ز درج ہو جائیں گی۔
یعنی اس احتجاج کا مقصد اگر عمران خان کو جیل سے نکالنا تھا تو یہ مقصد پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا لیکن اگر اس کا مقصد یہ تھا کہ عمران خان باہر نہ آنے پائیں تو توقع تھی کہ یہ مقصد کامیابی سے حاصل کر لیا جائے گا۔ فائنل کال کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ رینجرز اہلکار بھی شہید ہو چکے، پولیس کے آنگن میں بھی لاشہ رکھا ہے اور خود تحریک انصاف ��ھی اپنے کارکنان کے لاشوں پر دکھی بیٹھی ہے۔ تحریک انصاف چاہے تو اس سوال پر غور کر لے کہ کے پی حکومت کے وسائل کے سہارے وفاق پر اس یلغار کے بعد عمران خان کی رہائی، اب آسان ہو گئی ہے یا اسے مزید مشکل بنا دیا گیا ہے۔ کے پی سے لائے گئے کارکنان کو اس احتجاج میں، قیادت کی جانب سے صرف ایک صوبے، یعنی کے پی کے لوگوں کو بہادری کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب کیوں دی جاتی رہی؟ یہ اگر بہادری تھی تو اس بہادری میں شمولیت کی ترغیب پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کو بھی دی جاتی۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ تحریک انصاف بھی سکڑ کر ایک صوبے کی جماعت بن چکی؟ یاا س سے یہ تا ثر لیا جائے کہ چونکہ اقتدار اسی صوبے میں تھا اس لیے حکومتی وسائل سے مستفید ہونے کے لیے اس صوبے پر فوکس کیا گیا؟
یہ چیز بھی قابل توجہ ہے کہ کارکن کو غیرت مندی کا تازیانہ لگا کر جو قائدین اپنے ساتھ لائے، جب وہی کارکن زخمی ہو رہے تھے تو وہ قائدین وہاں سے ایسے بھاگے کہ مانسہرہ تک پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ کارکنان کا رویہ اگر غیرت مندی کہلا سکتا ہے تو قیادت کا رویہ کیا کہلائے گا؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ تحریک انصاف کا فیصلہ ساز کون ہے۔ کے پی حکومت کا ترجمان ان افواہوں کی تصدیق کر رہا ہے کہ عمران خان متبادل جگہ پر دھرنے پر قائل ہو گئے تھے، پارٹی لیڈر شپ کا بھی یہی فیصلہ تھا لیکن بشری بی بی نے کہا کہ ہر حال میں ڈی چوک جانا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے فیصلے کہاں ہونے چاہییں اور یہ فیصلے کون کر رہا ہے؟ پارٹی میں ایک تنظیم موجود ہے، اس میں سینییر قانون دان ہیں، صوبے میں ایک حکومت ہے، ایک کابینہ ہے۔ فیصلوں کا اختیار ان کے پاس کیوں نہیں؟ بشری بی بی کے پاس تحریک انصاف کا کون سا عہدہ ہے کہ وہ پارٹی میں فیصلہ ساز بنی بیٹھی ہیں۔ اسے موروثی سیاست قرار دیا جائے یا اسے بھی ماسٹر سٹروک قرار دے کر اس کی داد و تحسین کی جائے؟ بیرسٹر گوہر اس جماعت کے چیئرمین ہیں۔ کیا ان کے پاس فیصلوں کا کوئی اختیار بھی ہے؟ کیا احتجاج کے کسی بھی مرحلے پر فیصلہ سازی میں ان کا بھی کوئی کردار تھا؟
آصف محمود
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز
0 notes