#وفاقی کابینہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
پی آئی اےکی نجکاری کیلئےنئی تجاویزکوکابینہ کےسامنے پیش کرنے کافیصلہ
نجکاری بورڈ نےقومی ایئرلائن(پی آئی اے)کی نجکاری کےلیےموصول ہونےوالےبولی مسترد کردی، ایئرلائن کی نجکاری کےلیے نئی تجاویزپیش کردی گئی گئیں جنہیں کابینہ کمیٹی اور وفاقی کابینہ کےسامنےپیش کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر برائے نجکاری علیم خان کی زیرصدارت نجکاری بورڈ کےاجلاس میں پی آئی اےکی نجکاری کےلئےدی گئی بولی مسترد کردی گئی۔ وفاقی وزیربرائے نجکاری علیم خان کی زیرصدارت نجکاری بورڈ کااجلاس ہوا۔اجلاس میں پی…
0 notes
Text
وفاقی کابینہ کا اجلاس، کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کو الگ الگ کرنے کی منظوری
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس میں ریونیو ڈویژن کی سفارش پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تنظیمِ نو اور ڈیجٹائزیشن کی منظوری دے دی گئی۔ ��گران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس آج اسلام آباد میں ہوا۔ وفاقی کابینہ نے ریونیو ڈویژن کی سفارش پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تنظیمِ نواورڈیجٹائزیشن کی منظوری دے دی۔ کابینہ کو23 جنوری2024 کے اجلاس میں قائم…
View On WordPress
0 notes
Text
وفاقی کابینہ میں اضافے کا فیصلہ
(اویس کیانی )وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ میں ردوبدل اور اضافے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے وفاقی کابینہ میں تبدیلی اور حجم میں اضافے کا کہا ہے جس کیلئے وزراء کی کارکردگی اور مانیٹرنگ رپورٹ منگوانے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں،کابینہ میں اتحادی جماعتوں کے ارکان بھی شامل کیے جائیں گے،ن لیگ کے سینیٹرز اور ایم این ایز کی بھی بڑی لاٹری نکلے گی،کابینہ میں توسیع کے سلسلے میں کام کا…
0 notes
Text
وفاقی کابینہ کا اجلاس صبح تک موخر
(اویس کیانی)وفاقی کابینہ کا اجلاس صبح تک موخرکر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی کابینہ کا اجلاس صبح ساڑھے 9 بجے دوبارہ ہو گا،کابینہ اجلاس میں آئینی ترمیم کی منظوری دی جائے گی ،کل ہی آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کرنے اور منظوری لینے کا امکان ہے۔ یہ بھی پڑھیں:میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں داخلے روک دیئے گئے؟ Source link
0 notes
Text
نگران حکومت کی ضرروت ہی کیا ہے؟
انتخابات دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن نگران حکومتوں کے نام پر غیر منتخب لوگوں کو اقتدار میں لا بٹھانے کی یہ رسم صرف پاکستان میں ہے۔ سوال یہ ہے اس بندوبست کی افادیت کیا ہے اور نگران حکومتوں کے انتخاب، اہلیت، اختیارات اور کارکردگی کے حوالے سے کوئی قوانین اور ضابطے موجود ہیں یا نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ جہاں غیر منتخب نگران حکومتوں کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں وہاں تو معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ نبٹا لیے جاتے ہیں اور ہمارے ملک میں نگران حکومتوں کے ہوتے ہوئے بھی انتخابات متنازع ہو جاتے ہیں؟ نگران حکومت کے نام پر عارضی ہی س��ی، ایک پورا حکومتی بندوبست قائم کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بندوبست کے بارے میں تفصیلی قانون سازی آج تک نہیں ہو سکی۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 اور آئین کے آرٹیکل 224 میں کچھ بنیادیں باتیں لکھ دی گئی ہیں لیکن وہ ناکافی اور مبہم ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ایک رکن پارلیمان کی اہلیت کے لیے تو ایک کڑا معیار مقرر کیا گیا ہے لیکن نگران حکومت کی اہلیت کے لیے کوئی اصول طے نہیں کیا گیا؟ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کوئی نام تجویز کر دیں تو اس نام کی اہلیت کو پرکھنے کے لیے کوئی قانون اور ضابطہ تو ہونا چاہیے، وہ کہاں ہے؟
یہی معاملہ نگران کابینہ کا ہے۔ آئین کا آرٹیکل A 224 (1) صرف یہ بتاتا ہے کہ نگران کابینہ کا انتخاب نگران وزیر اعظم اور نگران وزرائے اعلی کی ایڈوائس پر ہو گا لیکن یہ کہیں نہیں بتایا کہ نگران کابینہ کے لیے اہلیت کا پیمانہ کیا ہو گا۔ ایک جمہوری معاشرے میں ایسا صوابدیدی اختیار حیران کن ہے۔ دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے اختیارات کا دائرہ کار کیا ہے؟َ وہ کون سے کام کر سکتی ہے اور کون سے کام نہیں کر سکتی؟ اس کی مراعات کیا ہوں گی؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کس کو جواب دہ ہو گی؟ حیران کن بات یہ ہے کہ ان سولات کا تفصیلی جواب نہ آئین میں موجود ہے نہ ہی الیکشن ایکٹ میں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 میں کچھ وضاحت ہے لیکن ناکافی ہے۔ نگران حکومت کا مینڈیٹ دو جمع دو چار کی طرح تحریری طور پر موجود ہونا چاہیے۔ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ نگران حکومت کی کوئی حزب اختلاف نہیں ہوتی اور اسے کسی صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے وزراء کسی ایوان کو جواب دہ نہیں ہوتے۔ ان سے کسی فورم پر سوال نہیں ہوتا۔ نگران حکومتوں کے دورانیے میں، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں تو موجود نہیں ہوتیں لیکن سینیٹ جیسا ادارہ تو موجود ہوتا ہے، سوال یہ ہے اس دورانیے میں سینیٹ کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا؟
ہم نے ساری دنیا سے نرالا، نگران حکومتوں کا تصور اپنایا ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ اس نامعتبر بندوبست نے ہمیں کیا دیا اور ہمیں اس پر اصرار کیوں ہے؟ نگران حکومت کے قیام کا واحد بنیادی مقصد انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت ہے۔ سوال یہ ہے اس کے لیے غیر منتخب لوگوں کو حکومت سونپنے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت سرکاری محکموں اور وزارتوں کی صورت چلتی ہے، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ انتخابات کے لیے نگران حکومت بنانے کی بجائے حکومتی مشینری کو الیکشن کمیشن ہی کے ماتحت کر دیا جائے؟ جب آئین نے آرٹیکل 220 میں تمام اتھارٹیز کو چاہے وہ وفاقی ہوں یا صوبائی، یہ حکم دے رکھا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے کی مدد کریں گے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے جس کے لیے غیر منتخب حکومت مسلط کی جائے؟ معمول کے کام چلانا بلا شبہ ضروری ہیں تا کہ ریاستی امور معطل نہ ہو جائیں لیکن اس کی متعدد شکلیں اور بھی ہو سکتی ہیں اور اس کے لیے غیر منتخب لوگووں کی حکومت بنانا ضروری نہیں۔
سینیٹ کی شکل میں جو واحد منتخب ادارہ اس دورانیے میں موجود ہوتا ہے، اسے عضو معطل کیوں بنا دیا گیا ہے۔ کم از کم اتنا تو ہو سکتا ہے کہ غیر منتخب نگران حکومت کو سینٹ کے سامنے جواب دہ قرار دیا۔ ہمارے اہل سیاست کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ کتنی محنت سے خود ہی خود کو بددیانت، ناقابل بھروسہ اور خائن ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ اگر منتخب حکومت ہی کو نگران حکومت کی ذمہ داری دی گئی تو وہ لازمی بد دیانتی اور خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھاندلی کریں گے؟ قانونی اورآئینی طور پر سارے اراکین پارلیمان سچے، نیک، پارسا، دیانت دار، امین اور سمجھ دار ہیں اور ان میں کوئی بھی فاسق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ عام انتخابات کے لیے اس کی دیانت اور امانت داری کا یقین کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ نگران حکومت کا تصور جمہوری حکومت نے نہیں دیا تھا۔ جمہوری حکومتیں البتہ اسے سرمایہ سمجھ کر گلے سے لگائے ہوئے ہں اور انہیں احساس ہی نہیں یہ اصل میں ان کے اخلاقی وجود پر عدم اعتماد ہےا ور ایک فرد جرم ہے۔ نگران حکومت کے موجودہ غیر منتخب ڈھانچے کے ہوتے ہوئے ہماری سیاست کے اخلاقی وجود کو کسی دشمن کی حاجت نہیں۔ یہ الگ بات کہ انہیں اس حادثے کی کوئی خبر ہی نہیں۔
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes
·
View notes
Text
پی آئی اے کی نجکاری
خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے ملک کے معاشی مسائل کا یقینی طور پر ایک بنیادی سبب ہیں۔ پاکستان اسٹیل مل اور پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز ان میں سرفہرست ہیں۔ پچھلی صدی میں جب سوشلزم کی تحریک اپنے عروج پر تھی، پاکستان میں بھی تمام نجی کاروبار، صنعتوں، کارخانوں اور بینکوں کو قومیانے کا تجربہ کیا گیا لیکن اس کے نتائج نہایت تلخ رہے لہٰذا ڈی نیشنلائزیشن کا عمل ناگزیر ہوگیا چنانچہ تمام بینک اور بیشتر دوسرے ادارے ان کے مالکان کو واپس کیے گئے ۔ یوں ان اداروں کے حالات میں بہتری آئی اور معاشی بحالی کا سفر ا��سرنو شروع ہوا۔ تاہم سرکاری تحویل میں چلنے والے جن اداروں کی نجکاری نہیں ہو سکی ان میں سے بیشتر خسارے میں ہیں اور عوام کے ٹیکسوں اور بیرونی قرضوں کا ایک بڑا حصہ برسوں سے ان کا نقصان پورا کرنے پر خرچ ہو رہا ہے۔ ان اداروں کی نجکاری پچھلی کئی حکومتوں کے ایجنڈے میں شامل رہی لیکن عوامی اور سیاسی سطح پر منفی ردعمل کے خوف سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ تاہم پی ڈی ایم کی حکومت کے فیصلے کے مطابق نگراں حکومت خسارے میں چلنے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کو فروخت کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔
نگراں وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد نے رائٹرز سے گفتگو میں انکشاف کیا ہے کہ اس ضمن میں 98 فیصد کام ہو چکا ہے اور بقیہ دو فیصد کاموں کی منظوری کابینہ سے لی جانی ہے۔ وزیر نجکاری کے مطابق ٹرانزیکشن ایڈوائزر ارنسٹ اینڈ ینگ کی طرف سے تیار کردہ پلان کو نگراں حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کابینہ یہ فیصلہ بھی کرے گی کہ پی آئی اے کو بذریعہ ٹینڈر بیچنا ہے یا بین الحکومتی معاہدے کے ذریعے جبکہ نجکاری کے عمل سے قریب دو ذرائع کے مطابق ارنسٹ اینڈ ینگ کی 1100 صفحات کی رپورٹ کے تحت ایئر لائن کے قرضوں کو ایک علیحدہ ادارے کو دینے کے بعد خریداروں کو مکمل انتظامی کنٹرول کے ساتھ 51 فیصد حصص کی پیشکش بھی کی جائے گی۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال جون تک پی آئی اے پر 785 ارب روپے کے واجبات تھے اور 713 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔ پاکستان نے سنگین معاشی بحران کے پیش نظر گزشتہ سال جون میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ تین ارب ڈالر کے بیل آؤٹ معاہدہ کرتے ہوئے خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا تھا۔
پی ڈی ایم حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ آئی ایم ایف معاہدے پر دستخط کے چند ہفتے بعد ہی کرلیا تھا۔ بعد ازاں 8 اگست کو منصب سنبھالنے والی نگراں حکومت کو سبکدوش ہونے والی پارلیمان نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ بجٹ کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کا اختیار دیا تھا۔ فی الحقیقت خسارے میں چلنے والے تمام سرکاری اداروں کی نجکاری معاشی بحران سے نکلنے کیلئے ناگزیر ہے۔ نیشنلائزیشن کا تجربہ تقریباً دنیا بھرمیں ناکام ہو چکا ہے کیونکہ سرکاری تحویل میں چلنے والے اداروں میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں، مالی بدعنوانیاں، اقربا پروری، کام چوری اور دیگر خرابیاں بہت آسانی سے راستہ بنا لیتی ہیں۔ اس لیے حکومتیں اپنے دائرہ کار کو قانون سازی، فراہمی انصاف، قیام امن و امان ، نفاذ قانون، خارجہ امور اور نظام مالیات وخزانہ جسے بنیادی معاملات تک محدود رکھتی ہیں جس کے باعث کاروبار مملکت چلانے کیلئے مختصر کابینہ بھی کافی ہوتی ہے اورغیرضروری سرکاری اخراجات سے نجات مل جاتی ہے جبکہ معاشی ترقی کیلئے نجی شعبے کو محفوظ سرمایہ کاری کی تمام منصفانہ سہولتیں دے کر کام کرنے کے بھرپور مواقع مہیا کیے جاتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں بھی اس طریق کار کو اپنایا جائے اور وقتی سیاسی مفادات کیلئے نجکاری کے عمل کی مخالفت نہ کی جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
سیاسی قربانی کی سزا عوام کیوں بھگتیں؟
سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے متعدد بار کہا کہ ہم نے ملک کو بچانے کے لیے اپنی سیاست قربان کی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے بھی کہا کہ ہم نے ملک کے لیے سیاسی قربانی دی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اپنی سیاست قربان کرنے اور ملک کے لیے سیاسی قربانی دینے کی سزا یہ دعوے کرنے والے نہیں بلکہ ملک کے عوام بھگت رہے ہیں اور جانے والی حکومت ملک میں مہنگائی کا ایسا ریکارڈ قائم کر گئی جس کی سزا سولہ ماہ حکومت کرنے والوں نے نہیں بھگتی اور وہ ایسے اقدامات کر گئے جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ 16 ماہ اقتدار میں رہنے والے ملک کی صورت حال کا ذمے دار 44 ماہ تک اقتدار میں رہنے والی پی ٹی آئی کی حکومت کو قرار دیتے رہے اور الزام لگاتے رہے کہ سابق حکومت ملک کا جو حال کر گئی ہے وہ سالوں میں بھی بہتر نہیں بنائے جاسکتے تھے۔ 16 ماہ کی اتحادی حکومت عوام کو مہنگائی، بے روزگاری، خودکشیوں اور بجلی و گیس کی مہنگی ترین قیمتوں میں پھنسا گئی ہے وہ عذاب ختم نہیں ہو گا اور کہا جا رہا ہے کہ عوام کو یہ سزائیں 5 سال تک بھگتنا ہوں گی جس کے بعد بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ عوام کو ریلیف ملے گا یا نہیں؟ اتحادی حکومت پی ٹی آئی حکومت میں ہونے والی مہنگائی کو بنیاد بنا کر اقتدار میں آئی تھی جس نے سابق حکومت میں مہنگائی مارچ کیے تھے جس سے عوام کو توقع تھی کہ اتحادی حکومت عوام کی بھلائی کے لیے اقدامات کرے گی مگر اتحادی حکومت نے ملک کو سب سے بڑی کابینہ کا تحفہ دیا اور اتحادی حکومت کی بڑی پارٹیوں نے یہ نہ سوچا کہ معیشت کی تباہی کا شکار ملک اتنی بڑی کابینہ کا بوجھ اٹھانے کا متحمل بھی ہے یا نہیں۔
اہم پارٹیوں نے بڑی کابینہ میں اپنا حصہ بھرپور طور پر وصول کیا۔ اپنے ارکان اسمبلی کو مکمل وزارتیں دلائیں اور جو کسر رہ گئی تھی وہ اپنی پارٹیوں کے منتخب و غیر منتخب رہنماؤں کو وزرائے مملکت، مشیر اور معاونین خصوصی بنوا کر پوری کردی تھی اور سیاسی تقرریوں کا یہ سلسلہ آخر ت�� جاری رہا۔ اتحادی پارٹیوں میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے وزیر اعظم سمیت کوئی وفاقی وزیر ایسا نہیں تھا جو ٹی وی پر سوٹ میں ملبوس نظر نہ آیا ہو جس سے لگتا تھا کہ (ن) لیگی سوٹ پہننے کا شوق پورا کرنے یا ایک دوسرے کا قیمتی سوٹوں میں مقابلہ کرنے والے وزیر بنے ہیں جب کہ ماڈرن کہلانے والی پیپلز پارٹی میں ایسا بہت کم تھا اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اندرون ملک تو کیا بیرونی دوروں میں بھی سوٹ میں کبھی نظر نہیں آئے اور تیسری بڑی اتحادی جے یو آئی کے وزیروں نے بھی قومی لباس اور پگڑی کا ہی استعمال کیا جب کہ (ن) لیگی وزیروں نے اپنی شناخت ہی سوٹ بنا لی تھی اور سابق وزیر اعظم شہباز شریف اپنے یو اے ای کے آخری دورے میں دو عرب حکمرانوں کے درمیان سوٹ پہنے بیٹھے تھے جب کہ عرب حکمران اپنے قومی لباس میں ان کے اطراف بیٹھے تھے اور سابق وزیر اعظم کا یہ دورہ اظہار تعزیت کے لیے تھا۔
اتحادی حکومت میں 16 ماہ تک اقتدار میں رہنے والے پارٹی رہنماؤں نے ذاتی طور پر کیا قربانی دی؟ عوام کو ان کی سیاسی و مالی قربانیوں کا نہیں پتا مگر جب بڑی کابینہ پر اعتراض ہوا تو کہا گیا کہ بہت سے عہدیدار اعزازی تقرریوں پر تعینات کیے گئے ہیں اور اتحادی حکومتوں میں سب پارٹیوں کو نمایندگی دینے کے لیے عہدے دینے ہی پڑتے ہیں۔ حکومتی عہدوں کی اس بندربانٹ میں تمام اتحادی پارٹیوں نے بھرپور حصہ وصول کیا اور کسی پارٹی نے نہیں کہا کہ ملک کی معاشی بدحالی کے باعث کابینہ چھوٹی رکھی جائے اور وزیر اعظم سمیت حکومت عہدیدار تنخواہیں، مراعات اور سرکاری پروٹوکول نہ لیں سادگی اپنائیں تاکہ ان کی کی گئی بچت سے عوام کو کچھ ریلیف دیا جاسکے۔ سرکاری اداروں کے عہدیدار تو خود کو غیر سیاسی قرار دیتے اور سیاست بھی کرتے ہیں اور سرکاری سیاسی عہدیداروں سے زیادہ تنخواہیں سرکاری مراعات اور پروٹوکول سے سفر کرتے ہیں۔ کسی اتحادی عہدیدار نے نہیں کہا کہ وہ اعزازی طور کام کریں گے۔ مراعات اور پروٹوکول نہیں لیں گے بلکہ پی پی رہنما اور وفاقی مشیر نے تو یہ کہا کہ دو لاکھ بیس ہزار کی تنخواہ میں ہوتا کیا ہے۔ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ 2013 میں پی پی حکومت میں سرکاری عہدے کے بغیر ان کا گھر کیسے چلتا تھا۔
اتحادی حکومت میں شامل کوئی ایک بھی عہدیدار متوسط طبقے سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ کوئی بھی سرکاری تنخواہ اور مراعات کا محتاج نہیں تھا۔ سب کا تعلق امیر گھرانوں سے تھا یہ سب اعلان کرتے کہ ہم ملک کے لیے مالی قربانی دیں گے اور قومی خزانے سے کوئی تنخواہ نہیں لیں گے تو 16 ماہ میں اربوں روپے کی بچت کی جاسکتی تھی جس سے غریبوں کو ریلیف دیا جاسکتا تھا۔ (ن) لیگی وزیر نے موٹرسائیکل سواروں کو سستا پٹرول دینے کا اعلان کیا تھا مگر اتحادی حکومت جاتے جاتے پٹرول بیس روپے مہنگا کر گئی اور پٹرول بم سے قبل بجلی و گیس انتہائی مہنگا کرنے کا ریکارڈ قائم کر گئی۔ اتحادی حکومت کے کسی بھی عہدیدار نے مالی قربانی نہیں دی۔ حکومت میں اتنے امیر لوگ تھے کہ جو چاہتے تو اپنی کمائی سے کروڑوں روپے نکال کر مالی قربانی دیتے تاکہ آئی ایم ایف کی شرائط پر مزید قرض نہ لینا پڑتا۔ پی ٹی آئی کے امیر اسمبلی ٹکٹ کے لیے پانچ کروڑ روپے اور ٹکٹ دینے والے سے ملنے کے لیے ایک ایک کروڑ دیتے تھے تو کیا اتحادی حکومت میں مالی قربانی دینے والا کوئی نہیں تھا؟ اسمبلی ٹکٹ اور الیکشن پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کی مالی حیثیت رکھنے والوں نے ملک کے لیے کبھی مالی قربانی نہیں دی۔ اتحادی حکومت میں بھی کرپشن عروج پر رہی اور صرف دعوے ہوئے کہ ہم نے سیاست قربان کر کے ملک بچایا مگر کسی نے مالی قربانی دے کر عوام کو مہنگائی سے نہیں بچایا۔
محمد سعید آرائیں
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس آج ہوگا
http://dlvr.it/Srb59K
0 notes
Text
ججز کی رہائش گاہوں کیلیے کروڑوں روپے کی منظوری
اسلام آباد: کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی(آی سی سی) نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی عمارت اور ججز کی رہائش گاہوں کے لیے 69.500 ملین روپے کے فنڈز جاری کرنے کی منظوری دے دی۔ تفصیلات کے مطابق کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت ہوا، جس میں وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق مسعود ملک، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے خزانہ طارق باجوہ، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے…
View On WordPress
0 notes
Text
قومی اسمبلی نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کو فنڈز کا اجرا مسترد کردیا آج ہی وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کی جانب سے اسٹیٹ بینک کو انتخابات کے لیے 21 ارب روپے فنڈز جاری کرنے کے حکم کا معاملہ منظوری کے لیے قومی اسمبلی کو بھجوایا تھا https://t.co/d2YjMBhti7
قومی اسمبلی نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کو فنڈز کا اجرا مسترد کردیا آج ہی وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کی جانب سے اسٹیٹ بینک کو انتخابات کے لیے 21 ارب روپے فنڈز جاری کرنے کے حکم کا معاملہ منظوری کے لیے قومی اسمبلی کو بھجوایا تھا https://t.co/d2YjMBhti7
— Karachi_Times (@Karachi_Times) Apr 17, 2023
from Twitter https://twitter.com/Karachi_Times
1 note
·
View note
Text
قومی اسمبلی،سینیٹ اور وفاقی کابینہ کا اجلاس کل تک کیلئے ملتوی
مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ کا اجلاس کل تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کا اجلاس اب کل ہوگا۔ دوسری جانب آج قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے کے بعد مختصر ترین کارروائی کے بعد ملتوی کردیا گیا۔ اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات اور توجہ دلاؤ نوٹس کو معطل کرنے کی تحریک پیش ہوئی…
0 notes
Text
وفاقی کابینہ نے بجلی کمپنیوں میں فوجی افسروں کی تعیناتی کی سفارش مسترد کردی
وفاقی کابینہ نے پاور ڈویژن کا سالانہ 600ارب روپے وصولی کا انوکھا پلان مسترد کردیا،بجلی نادہندگان کے شناختی کارڈ،پاسپورٹ اجرا اور تجدید نہ کرنے کی سفارش اور نادہندگان کو بیرون ملک جانے سے روکنے اور بینک اکاونٹ نہ کھولنے کی سفارشات بھی مسترد کر دی گئیں۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے ارکان کا کہنا ہے کہ پاور ڈویژن کا پلان آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم نے بھی…
View On WordPress
0 notes
Text
وفاقی کابینہ نے 26ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری دیدی
(24نیوز)وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ نے 26ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری دیدی۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا،کابینہ اجلاس میں تمام وزرا شریک ہوئے،نائب وزیراعظم اسحاق ڈار ،وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر داخلہ محسن نقوی بھی کابینہ اجلاس میں شریک ہوئے،وفاقی وزیر اویس لغاری اور چوہدری سالک حسین کے علاوہ وزیر خزانہ ،وزیر منصوبہ بندی…
0 notes
Text
قومی اسمبلی اجلاس کا شیڈول تبدیل صبح 11کی بجائے شام 6بجے ہوگا
(24نیوز)قومی اسمبلی اجلاس کا شیڈول تبدیل ہو گیا،اجلاس صبح 11کی بجائے شام 6بجے ہوگا۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اجلاس آج شام طلب کرلیا،قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعمولی صورتحال میں تبدیل کیا گیاہے،سپیکر قومی اسمبلی کا پیغام تمام ارکان کو بھجوا دیا گیا،سپیکر قومی اسمبلی نے قاعدہ 49کے تحت تبدیل کیا۔ دوسری جانب وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی آج طلب کرلیا گیا،کابینہ اجلاس میں آئینی ترمیم کے…
0 notes
Text
پرانے چہرے، نئی وزارتیں
شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے چند روز بعد آصف علی زرداری نے صدرِ مملکت کے عہدے کا حلف اٹھایا جس نے ملک میں ایک ناقابلِ یقین صورتحال پیدا کی ہے۔ دو حریف اب سمجھوتے کے بندھن میں بندھ چکے ہیں۔ انتخابی نتائج نے دونوں کو مجبور کر دیا کہ وہ حکومت کی تشکیل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ اقتدار کی تقسیم کا نیا نظام پاکستان کی سیاست کی عجیب و غریب صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ جتنی زیادہ چیزیں بدلتی ہیں، اتنی ہی زیادہ وہ ایک جیسی رہتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اچھی آئینی پوزیشن لے کر بھی کابینہ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے جوکہ نئے حکومتی نظام کے عارضی ہونے کا اشارہ ہے۔ رواں ہفتے حلف اٹھانے والی 19 رکنی وفاقی کابینہ میں 5 اتحادی جماعتوں کی نمائندگی بھی شامل ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وہی پرانے چہرے تھے جن سے تبدیلی کی امید بہت کم ہے۔ نئے ٹیکنوکریٹس کے علاوہ، وفاقی کابینہ میں زیادہ تر وہی پرانے چہرے ہیں جو گزشتہ 3 دہائیوں میں کبھی حکومت میں اور کبھی حکومت سے باہر نظر آئے۔ ان میں سے اکثریت ان کی ہے جو پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی ایم) کی سابق حکومت کا بھی حصہ تھے۔ تاہم سب سے اہم نئے وزیرخزانہ کی تعیناتی تھی جوکہ ایک مایہ ناز بین الاقوامی بینکر ہیں۔ محمد اورنگزیب کی کابینہ میں شمولیت نے ’معاشی گرو‘ اسحٰق ڈار سے وزارت خزانہ کا تخت چھین لیا ہے۔
بہت سے لوگوں کے نزدیک اسحٰق ڈار کے بجائے ٹیکنوکریٹ کو وزیرخزانہ منتخب کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کے سائے سے باہر آرہے ہیں۔ یہ یقیناً مشکلات میں گھری پاکستانی معیشت کے لیے اچھی نوید ہے۔ اس کے باوجود نئے وزیر کے لیے چینلجز پریشان کُن ہوں گے۔ معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کے لیے پاکستان کو اہم اصلاحات کی ضرورت ہے۔ لگتا یہ ہے کہ وزیراعظم کے ایجنڈے میں معیشت سرِفہرست ہے اور ایسا بجا بھی ہے۔ کابینہ کے ساتھ اپنے پہلے خطاب میں شہباز شریف نے کچھ ایسے اقدامات کو ترجیح دی جن سے ان کی حکومت کو حالات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ لیکن موجودہ بحران کے پیش نظر یہ اتنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ ہماری معیشت پہلے ہی اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ اس کے لیے یقینی طور پر کوئی فوری حل دستیاب نہیں۔ اگلے چند مہینوں میں اقتصادی محاذ پر جو کچھ ہونے جارہا ہے اس سے کمزور مخلوط حکومت کے لیے صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔ نئے وزیر خزانہ کا پہلا کام نہ صرف آئی ایم ایف کے ساتھ 3 ارب ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج کی آخری قسط کے اجرا کو یقینی بنانا ہے بلکہ 6 ارب ڈالرز کے توسیعی فنڈز پر بات چیت کرنا بھی ان کے ایجنڈے میں شامل ہو گا کیونکہ یہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
کمرشل بینکاری میں مہارت رکھنے والے نئے وزیرخزانہ کا یہ پہلا امتحان ہو گا۔ معاملہ صرف آئی ایم ایف معاہدے تک محدود نہیں بلکہ انہیں قرضوں کی شرح میں کمی اور ریونیو بیس کو بڑھانا بھی ہو گا۔ مشکل حالات متزلزل نظام کے منتظر ہیں۔ ایک اور دلچسپ پیش رفت میں اسحٰق ڈار کو ملک کا وزیر خارجہ تعینات کر دیا گیا ہے۔ اس سے عجیب و غریب صورتحال اور کیا ہو گی کہ خارجہ پالیسی کے امور کا ذمہ دار ایک ایسے شخص کو بنا دیا گیا ہے جو اکاؤنٹینسی کے پس منظر (جو بطور وزیرخزانہ ناکام بھی ہو چکے ہیں) سے تعلق رکھتا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی ہمارے خطے کی جغرافیائی سیاست میں پاکستان کو پیچیدہ سفارتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک تجربہ کار شخص کی ضرورت ہے۔ یقینی طور پر اسحٰق ڈار وہ شخص نہیں جنہیں یہ اعلیٰ سفارتی عہدہ سونپا جاتا۔ یہ وہ آخری چیز ہونی چاہیے تھی جس پر نئی حکومت کو تجربہ کرنا چاہیے تھا۔ لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اپنے سب سے قابلِ اعتماد لیفٹیننٹ کو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ اسحٰق ڈار جو مسلم لیگ (ن) کے سینیئر ترین قیادت میں شامل ہیں، وہ نئی حکومت میں دوسرے سب سے طاقتور عہدیدار ہوں گے۔ ماضی میں بھی اتحادی جماعتوں سے بات چیت کرنے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔
جہاں زیادہ تر مسلم لیگ (ن) کے وزرا پی ڈی ایم حکومت میں کابینہ کا حصہ بن چکے ہیں وہیں محسن نقوی کی بطور وزیرداخلہ تعیناتی اتنا ہی حیران کن ہے جتنا کہ ڈیڑھ سال قبل نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر ان کی تقرری تھی۔ دلچسپ یہ ہے کہ ان کا تعلق مسلم لیگ (ن) یا کسی اتحادی جماعت سے نہیں لیکن اس کے باوجود انہیں کابینہ کے اہم قلمدان کی ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔ ملک کے کچھ حصوں میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور بڑھتے ہوئے سیاسی تناؤ کے درمیان وزارت داخلہ اہم ترین وزارت ہے۔ اس سے ان قیاس آرائیوں کو بھی تقویت ملی کہ ان کی تقرری کے پیچھے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے۔ فوج کی قیادت کے ساتھ محسن نقوی کے روابط کا اس وقت بھی خوب چرچا ہوا تھا جب و�� نگران وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ وہ اپنے نگران دور میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف پنجاب میں سنگین کریک ڈاؤن کی وجہ سے بھی بدنام ہوئے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو عملی طور پر ایک پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کر دیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں عوامی سیکیورٹی کے اعلیٰ عہدے سے نوازا گیا۔ محسن نقوی کی بطور وزیر داخلہ تقرری، اہم سرکاری عہدوں پر تقرریوں میں اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔
اتنے کم وقت میں میڈیا ہاؤس کے مالک سے اہم حکومتی وزیر تک ان کا سفر کافی حیران کُن ہے۔ دوسری طرف انہیں چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدے پر بھی برقرار رکھے کا امکان ہے اور وہ سینیٹ کی نشست کے لیے کھڑے ہوں گے۔ یہ دیکھنے کے لیے انتظار کرنا ہو گا کہ وہ مزید کتنا آگے جاتے ہیں۔ ابھی صرف کچھ وفاقی وزرا نے حلف اٹھایا ہے۔ کابینہ میں مزید تقرریاں ہوسکتی ہیں کیونکہ وزیراعظم کو اپنی حکومت کی بقا کو یقینی بنانے کے لیے تمام اتحادی جماعتوں کی تعمیل کرنا ہو گی۔ صرف امید کی جاسکتی ہے کہ یہ کابینہ پی ڈی ایم حکومت جتنی بڑی نہیں ہو گی جس میں 70 وزرا، وزرائے مملکت اور مشیر شامل تھے جس کے نتیجے میں قومی خزانے پر بوجھ پڑا۔ 18ویں ترمیم کے بعد بہت سے محکموں کی صوبوں میں منتقلی ک�� باوجود کچھ وزارتیں وفاق میں اب بھی موجود ہیں جو کہ عوامی وسائل کے لیے نقصان دہ ہیں۔ سب سے اہم، ملک کو آگے بڑھنے کے لیے سیاسی استحکام کی ضرروت ہے۔ نومنتخب قومی اسمبلی کی قانونی حیثیت کا سوال نئی حکومت کو اُلجھائے رکھے گا۔
اپوزیشن کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال پہلے سے عدم استحکام کا شکار سیاسی ماحول کو مزید بگاڑ دے گا۔ حکومت کی جانب سے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے کوئی اقدام اٹھانے کا اشارہ نہیں مل رہا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران پنجاب میں پی ٹی آئی کے مظاہروں میں جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے۔ معیشت اور گورننس براہ راست سیاسی استحکام سے منسلک ہیں لیکن یہ اقتدار میں موجود قوت یہ اہم سبق بھلا چکی ہے۔
زاہد حسین
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes