#Pakistan Railway
Explore tagged Tumblr posts
emergingpakistan · 2 years ago
Text
کاشغر' گوادر ریلوے لائن
Tumblr media
28 اپریل 2023 کے اخبارات میں ایک بہت ہی اچھی خبر شایع ہوئی ہے‘ خبر کے مطابق ’’چین کے روڈ اور بیلٹ پروجیکٹ کے مہنگے ترین منصوبے کی فزیبیلٹی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے‘ جس میں گوادر سے سنکیانگ تک 58 ارب ڈالر کے نئے ریل منصوبے کی تجویز دی گئی ہے‘ 1860 میل طویل ریلوے سسٹم گوادر کو سنکیانگ کے شہر کاشغر سے ملا دے گا‘‘۔ انگریز نے ہندوستان اور پاکستان کو جاتے ہوئے جو تحفے دیے‘ ان میں ریل سب سے بہترین ذریعہ سفر تھا۔ اب تو ہم ریلوے کے ساتھ ساتھ اس کی پٹڑیاں بھی کباڑ میں فروخت کر کے کھا چکے ہیں‘ معلو�� نہیں ہمارا پیٹ کب بھرے گا؟ اب چین کے تعاون سے نئی ریلوے لائن اور موٹر وے کا چرچا ہے‘ جو چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کے شہر کاشغر کو بحیرہ عرب کے دہانے پر واقع پاکستان کی بندر گاہ گوادر سے ملائے گی۔ چین سے آنے والی اس سڑک اور ریلوے لائن کا روٹ پاکستان میں کون سا ہونا چاہیے اس سلسلے میں مختلف فورموں پر بحث ہو رہی ہے‘ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی اس پر کافی بحث کی ہے اور مختلف تجاویز پیش کی ہیں، اس سلسلے میں سب سے بہترین حل نواز شریف کے دور حکومت میں اس وقت کے چیئرمین ریلوے و چیئرمین واپڈا محترم شکیل درانی نے پیش کیا تھا، قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ تجاویز پیش خدمت ہیں‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور شاہراہ‘ کی بہت زیادہ اسٹرٹیجک اور اقتصادی اہمیت ہو گی۔ 
Tumblr media
کوہاٹ‘ بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ڈیرہ غازی خان اور اندرون بلوچستان کے علاقوں کی دوسرے علاقوں کی بہ نسبت پسماندگی کی بڑی وجہ ریلوے لائن کا نہ ہونا بھی ہے۔ ضروری ہے کہ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور سڑک کے روٹ کے لیے وہ علاقے منتخب کیے جائیں جو پسماندہ اور دور دراز واقع ہوں تاکہ ان علاقوں کو بھی ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔ سنکیانگ کے شہر کاشغر سے آنے والا راستہ دو اطراف سے پاکستان میں داخل ہو سکتا ہے‘ یہ کاشغر کے نزدیک درہ کلیک ور درہ منٹاکا سے گزرے گی چونکہ یہ درے کاشغر کے نزدیک ہیں یا پھر یہ درہ خنجراب سے ہوکر آ سکتی ہے‘ اول ذکر درّے پرانے قافلوں کے راستے ہیں اور شاید ان کے ذریعے گلگت تک ایک متبادل راستہ بذریعہ غذر مل جائے گا‘ یہ راستہ آگے ملک کے باقی علاقوں کے ساتھ مل جائے گا اور یہ موجودہ قراقرم ہائی وے کے علاوہ ہو گا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر انڈس ہائی وے نے پہلے سے ہی کراچی اور پشاور کے درمیان فاصلہ 300 میل کم کر دیا ہے‘ اس طرح نئی ریلوے لائن بھی پرانی کی نسبت چھوٹی ہو گی پرانی لائن کی مرمت اور سگنلنگ کے نظام کو بہتر کر کے اسپیڈ بڑھائی جا سکتی ہے‘ بجائے اس کے کہ نئی لائن بچھائی جائے‘ پرانی لائن کو لاہور سے پنڈی تک ڈبل کیا جائے اس سے اخ��اجات بھی کم ہوں گے‘ نئی ریلوے لائن کو کشمور سے آگے بلوچستان کے اندرونی علاقوں خضدار اور تربت وغیرہ سے گزار کر گوادر تک لایا جائے۔
کوئٹہ کے لیے موجودہ لائن بہتر رہے گی اور اس کو گوادر تک توسیع دی جائے تاکہ سیندک‘ریکوڈیک اور دوسرے علاقوں کی معدنیات کو برآمد کے لیے گوادر بندرگاہ تک لانے میں آسانی ہو ۔ تربت‘ پنچ گور‘ آواران‘ خاران اور خضدار کی پسماندگی کا اندازہ ان لوگوں کو ہو سکتا ہے جنھوں نے یہ علاقے خود دیکھے ہوں یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہیں اور ریاست کی طرف سے بہتر سلوک کے مستحق ہیں، دریائے سندھ کے داہنے کنارے پر واقع انڈس ہائی وے آج کل افغانستان کی درآمدی اور برآمدی تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بنوں میرعلی روڈ آگے سرحد پر واقع غلام خان کسٹم پوسٹ سے جا ملتی ہے۔ 2005 میں کی گئی انڈس ہائی وے کے ساتھ نئی ریلوے لائن کی فیزیبلٹی رپورٹ موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، اس ریلوے لائن کو افغانستان تک توسیع دی جا سکتی ہے‘ کوئٹہ چمن لائن بھی بہت مناسب ہے‘ دادو سے گوادر تک ریلوے لائن صرف پیسوں کا ضیاع ہو گا، گوادر سے کراچی تک کوسٹل ہائی وے اس بندرگاہ کی فوری ضروریات کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں بہت سے علاقے حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پسماندہ رہ گئے ہیں ’اس لیے مستقبل میں جو بھی منصوبہ بنے اس کا ہدف پسماندہ علاقوں کی ترقی ہونا چائے‘‘۔
جمیل مرغز  
بشکریہ ایکپریس نیوز
2 notes · View notes
postcard-from-the-past · 1 year ago
Text
Tumblr media
Railway station of Quetta, Balochistan, Pakistan
German vintage postcard
5 notes · View notes
aamirbilal · 2 months ago
Text
Tumblr media
1 note · View note
paknewsinsightspk · 2 months ago
Text
" Change in timings of Bolan Mail running from Karachi to Quetta " | PAK News Insights
” The timings of Bolan Mail running from Karachi to Quetta have been changed. According to Pakistan Railways, Bolan Mail will depart from Karachi at 7 pm and reach Quetta at 6:30 pm the next day. The numbers for the constitutional amendment are complete and the numbers are also complete, Faisal Vawda The decision to change the working hours of Bolan Mail will be implemented immediately, earlier…
0 notes
risingpakistan · 4 months ago
Text
مہنگے ریلوے سفر میں بدحال مسافر
Tumblr media
پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں کے باعث پاکستان ریلوے نے مسافر ٹرینوں اور مال گاڑیوں کے کرایوں میں اضافے کا سلسلہ شروع کیا تھا، وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود برقرار ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی و بیشی ہوتی رہی مگر پاکستان ریلوے کے کرایوں میں کمی نہیں ہوئی اور مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت نے ریلوے کے اہم محکمے کو لاوارث چھوڑ رکھا ہے، جہاں کوئی وزیر موجود نہیں اور اویس لغاری کو چند روز کے لیے ریلوے کا وزیر بنایا گیا تھا جس کے بعد سے ریلوے افسران ہی فیصلے کر رہے ہیں۔ جنھیں مسافروں کا کوئی احساس نہیں جس کی وجہ سے ریلوے مسافر لاوارث ہو کر سفر کر رہے ہیں جب کہ ریلوے کے بڑے افسروں کے سفر کے لیے ریلوے کے خصوصی اور شاہانہ سہولتوں سے آراستہ سیلون موجود ہیں جو مسافروں کا سفر ان کی بوگیوں میں جا کر دیکھیں تو شاید انھیں احساس ہو جائے کہ ریلوے مسافر کس بدحالی میں سفر کرتے آ رہے ہیں مگر وہ ایسا کیوں کریں گے ریلوے ٹرینوں میں بزنس کلاس اور اسٹینڈرڈ اے سی ہیں جب کہ اکنامی کلاس تیسرے درجے کی کلاس ہے۔ تیز رفتار ٹرینوں جن کے کرائے بھی کچھ زیادہ ہیں ان میں کچھ بہتر بوگیاں اکنامی میں لگا دی جاتی ہیں مگر بعض دفعہ قراقرم اور بزنس ٹرین میں بھی پرانی اور خستہ بوگیاں جو سفر کے اب قابل نہیں مگر وہ بھی لگا دی جاتی ہیں جب کہ باقی ٹرینوں میں لگائی جانے والی اکنامی بوگیاں انتہائی خستہ حال اور ناقابل سفر ہوتی ہیں۔ 
Tumblr media
جن کے پنکھے خراب، بلب غائب، واش روم گندے اور بعض میں اندر سے بند کرنے کے لاک تک نہیں ہوتے۔ اے سی کلاسز میں تو لوٹے اور ٹشو رول اور ہاتھ دھونے کا لیکوڈ ضرور ہوتا ہے مگر اکنامی کے لاوارث مسافر لوٹوں تک سے محروم ہوتے ہیں اور مسافر خریدے ہوئے پانی کو پینے کے بعد وہ خالی بوتلیں واش روم میں رکھ دیتے ہیں جو دوسروں کے بھی کام آ جاتی ہیں۔ اے سی بوگیوں میں مسافر کم اور سہولتیں موجود ہوتی ہیں۔ جہاں فاصلے کے بعد صفائی کرنے والے دوران سفر آ جاتے ہیں یا کوئٹہ سے پشاور یا کراچی سے لاہور، روہڑی اور راولپنڈی و پشاور تک کی گاڑیوں میں صفائی کا عملہ مقرر ہے جو پورے سفر میں ایک دو اسٹیشنوں پر اے سی کوچز کی صفائی کر دیتے ہیں مگر اکنامی کلاس کے مسافروں کو رفع حاجت کے لیے پانی کی معقول فراہمی، صفائی اور روشنی اور پنکھوں کی ہوا سے مکمل محروم رکھا جاتا ہے جہاں گرمی میں پنکھے چلتے ہیں تو لائٹ نہیں ہوتی۔ واش رومز بدتر اور پانی سے محروم ہوتے ہیں۔ اکنامی کلاس میں بہت سے مسافر سیٹ ریزرو نہ ہونے کی وجہ سے مجبوری میں فرش پر بھی سفر کر لیتے ہیں۔ اکنامی کلاسز میں مسافر بھی زیادہ ہوتے ہیں اور ان بوگیوں میں پانی جلد ختم ہو جاتا ہے۔
کراچی سے چلنے والی ٹرینوں میں روہڑی، ملتان اور لاہور میں پانی بھرا جاتا ہے اور دوران سفر واش رومز کا پانی ختم ہو جائے تو مسافروں کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے یا ضرورت پر خود ہی متبادل انتظام کرنا پڑتا ہے۔ ایئرپورٹس کی طرح تمام ریلوے اسٹیشنوں پر فراہم کردہ کھانا اور غیر معیاری ہوتا ہے جب کہ دوران سفر خوردنی اشیا، پانی کی بوتلوں اور کنفیکیشنری کے نرخ اسٹیشنوں سے بھی زیادہ ہوتے ہیں اور چائے و کھانا فروخت کرانے والوں کے ٹھیکیدار ریلوے عملے اور افسروں کو مفت کھانا اور چائے فراہم کرتے ہیں اور قیمت مسافروں سے وصول کر لیتے ہیں۔ ٹرینوں میں دوران سفر مسافروں کو تکیے اور چادریں مہنگے کرائے پر دی جاتی ہیں جو صاف نہیں ہوتے اور پرانے ہوتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں اور دوران سفر فروخت ہونے والی اشیائے ضرورت اور خوردنی کے سرکاری طور پر نرخ مقرر نہیں ہوتے اور مسافروں کو بازار سے کافی مہنگے ملتے ہیں جن کا کوئی معیار نہیں ہوتا۔ ریلوے کے سفر سڑکوں کے سفر کے مقابلے میں آسان اور آرام دہ کہا جاتا ہے مگر لمبے سفر کی ٹرینوں کی بعض بوگیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی اوپر کی نشست پر صرف لیٹا جا سکتا ہے بیٹھا نہیں جا سکتا۔ دوران سفر سامان کی حفاظت خود مسافروں کی ذمے داری ہے مگر رات کو بوگی میں روشنی کی فراہمی ریلوے اپنی ذمے داری نہیں سمجھتی اور مسافروں کو کھانا کھانے اور ضرورت پر اپنے موبائل فونز سے روشنی کرنا پڑتی ہے۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
lifewithdream · 7 months ago
Text
I remember it was a nice day. My city Train station
0 notes
pakistantime · 11 months ago
Text
قومی اداروں کی نجکاری
Tumblr media
ملک کی معیشت کا حال مت پوچھیے۔ بظاہر اصلاح کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ بقولِ غالبؔ : کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی حالت یہ ہے کہ ڈاکٹروں پر ڈاکٹر تبدیل کیے جا رہے ہیں، لیکن مریض کی حالت ہے کہ بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑتی جا رہی ہے۔ مختلف قومی ادارے جو کبھی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہوا کرتے تھے، ملک کی معیشت کے لیے بوجھ بن چکے ہیں۔ سب سے بڑی مثال قومی ایئر لائن پی آئی اے کی ہے جس کا سلوگن ہوا کرتا تھا Great people to fly with ملک کے ہی نہیں غیر ملکی مسافر بھی پی آئی اے سے سفر کرنے پر فخر کیا کرتے تھے۔ یہ وہ ایئر لائن تھی جس نے کئی مشہور غیر ملکی ایئر لائنوں کو جنم دیا تھا جو آج پھل پھول رہی ہیں۔ وقت کی پابندی کا عالم یہ تھا کہ پی آئی اے کی پرواز سے لوگ اپنی گھڑیاں ملایا کرتے تھے۔ دورانِ پرواز مسافروں کی جو خاطر تواضع کی جاتی تھی اب وہ قصہ پا��ینہ ہے۔ ایئر مارشل نور خان (مرحوم) کی یاد بُری طرح ستا رہی ہے جنھوں نے اِس پودے کی اپنے خون سے آبیاری کی جس کے نتیجے میں یہ پودا ایک تناور درخت بن گیا۔ 
آج اِس درخت کا حال یہ ہے کہ شاخیں ٹوٹ رہی ہیں اور پتے جھڑ رہے ہیں۔ یہ کیسے ہوا اور کون اِس کا ذمے دار ہے، یہ کہانی بہت رقت انگیز ہے۔ قصہ مختصر: وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا نوبت یہ آن پہنچی ہے کہ مریضہ کو خون پر خون چڑھایا جارہا ہے اور اس کی حالت کسی طور سُدھر نہیں رہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اِس وقت ملک میں 4 پرائیوٹ فضائی کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور ہر کمپنی منافع میں جارہی ہے جب کہ پی آئی اے کا معاملہ اِس کے الٹ ہے۔ شنید یہ ہے کہ اِس کی نجکاری کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ صرف وقت کا انتظار ہے۔ عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا منافع تو کُجا پی آئی اے کو گزشتہ سال 88 بلین روپے کا خسارہ اٹھانا پڑا۔ اِس سے بھی قبل ایئر لائن کو 50 بلین روپے کا نقصان ہوا تھا۔ پی آئی اے کو سال بہ سال ہونے والے نقصانات کی کُل رقم 717 بلین روپے بنتی ہے جب کہ اِس کی موجودہ قیمت 900 روپے بلین ہے۔
Tumblr media
900 بلین روپے کی یہ رقم کسی بڑے 15 اسپتال، کسی بڑی جدید 60 جامعات اور پورے پاکستان میں 18,000 اسکول تعمیر کرنے کے لیے کافی ہے۔ پی آئی اے کا یہ حشر کیوں اور کیسے ہوا؟ اِس کی سب سے بڑی وجہ اووَر اسٹافنگ ہے۔ موٹی سی بات ہے کہ اگر بڑے سے بڑے بحری جہاز پر اُس کی گنجائش سے کئی گُنا سامان لاد دیا جائے تو اُس کا ڈوبنا یقینی ہے۔ سیاسی سفارشوں کے دباؤ تلے بے تحاشہ اور اندھا دھُند بھرتیاں کی گئیں جس نے اس ادارے کا دیوالیہ نکال دیا۔ دوسری جانب ضرورت سے زیادہ اسٹاف ہونے کی وجہ سے اِس کی کارکردگی بُری طرح متاثر ہوئی۔ اس ادارے پر چاہے جتنا پیسہ لگا دیا جائے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ اقدام ریگستان میں آبیاری کرنے کے مترادف ہو گا۔ ایک پی آئی اے کا ہی رونا کیا دیگر قومی اداروں کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ 
پاکستان ریلوے بھی نزع کی حالت میں ہے۔ یہ قومی ادارہ بھی مسافروں کی آمد ورفت اور مال برداری کا اہم ترین اور ن��ایت با کفایت ذریعہ تھا لیکن کرپشن اور بدانتظامی نے اِس کا بھی بیڑا غرق کر دیا ہے۔ گزشتہ سال حکومت نے اِس کے نقصانات کی تلافی کے لیے اِس کو 45 بلین روپے کی خطیر رقم مہیا کی تھی۔ اِس کے علاوہ 25 بلین روپے کی اضافی رقم اِس کی ترقی کی مَد میں دی تھی۔ مجموعی صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ 15 سالوں میں ملک کے ٹیکس دہندگان نے بطورِ اعانت پاکستان ریلویز کو 783 بلین روپے کی بھاری رقم فراہم کی تھی مگر نتیجہ وہی صفر کا صفر رہا۔ اِس محکمہ کی موجودہ قیمت 1000 بلین روپے ہے۔ ایک کلو گرام وزنی کارگوکی نقل و حمل پر خرچ ہونے والے ڈیزل کی قیمت ریل کے مقابلے میں ٹرک سے 3 سے 4 گُنا زیادہ ہے۔ اِس کے باوجود پاکستان ریلوے کارگو پر ٹرک کے مقابلے میں زیادہ قیمت وصول کرتی ہے۔ ریل سے سفر مسافروں کے لیے زیادہ آرام دہ اور محفوظ ذریعہ ہے لیکن پھر بھی مسافروں کی ایک بڑی تعداد ریل کے مقابلے میں بس کے لمبے سفر کو ترجیح دیتی ہے۔ 
ایک زمانہ وہ تھا جب ریلوے کے محکمہ کی وزارت کا قلم دان محمد خان جونیجو جیسے انتہائی ذمے دار اور فرض شناس شخص کے پاس تھا۔ پاکستان ریلوے کی کارکردگی کا وہ سنہرا دور تھا جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اُس وقت ٹرینوں کی آمد ورفت نہ صرف بروقت ہوا کرتی تھی بلکہ ٹرین کی بوگیوں اور اسٹیشنوں کی حالت بھی اچھی ہوا کرتی تھی اور مسافروں کو ٹکٹ باآسانی دستیاب ہوتے تھے اور ٹکٹوں کی بلیک میں فروخت کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ ریلوے کے ملازم بھی آسودہ اور خوشحال اور ایماندار ہوتے تھے اور کرپشن کا نام و نشان نہیں تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ریلوے کی انتظامیہ میں بھی تبدیلیاں آتی چلی گئیں۔ ہوتے ہوتے وہ وقت بھی آگیا جب وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت میں اِس کی وزارت کا قلم دان خواجہ سعد رفیق کے سپرد کردیا گیا جنھوں نے انتہائی دیانت، فراست اور بساط کے مطابق اِس اونٹ کی کَلیں سیدھی کرنے کی انتھک کوششیں کیں جس کے نتیجے میں نہ صرف اِس قومی ادارے کی کارکردگی بہتر ہوئی بلکہ مسافروں کی سہولتوں میں بھی اضافہ ہوا اور بہتری ہوئی۔ 
پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کی حالت جاننے کے بعد اب آئیے! پاکستان اسٹیل مِلز کی حالت پر ایک سَر سَری نظر ڈالی جائے۔ اِس عظیم اور غیر معمولی اہمیت کے حامل ادارے کے قیام کا سہرا سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کے سَر ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان انتہائی کشیدہ تعلقات کے پَس منظر میں اِس ادارے کا قیام محض ایک خواب تھا جس کی تعبیر ناممکن تھی لیکن کمال ہے بھٹو صاحب کا کہ نہ صرف انھوں نے اپنی بے مثل ذہانت کی بدولت دونوں ممالک کے تعلقات کی کشیدگی کو اپنی سحر انگیز ڈپلومیسی کے ذریعے دوستی میں تبدیل کر دیا بلکہ پاکستان اسٹیل ملز کے قیام کو بھی ممکن بنا دیا۔ افسوس صد افسوس بعض دیگر اداروں کی طرح بد انتظامی اور کرپشن کی بھینٹ چڑھ کر یہ ادارہ بھی ایک عظیم اثاثہ کے بجائے ایک بوجھ بن گیا اور نوبت یہ ہے کہ اِس کے ملازمین کے واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اِس کے ملازمین اور پینشنرز ایک عذاب میں مبتلا ہیں۔ چار و ناچار یہ عظیم ادارہ بھی نجکاری کی زد میں ہے۔
شکیل فاروقی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
emergingkarachi · 11 months ago
Text
قصہ سرکلر ریلوے کی بحالی کا
Tumblr media
سندھ کے نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا بیڑا اٹھا لیا۔ جسٹس مقبول باقر بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کے لیے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے وفد میں شامل تھے۔ وزیر اعلیٰ نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کے سی آر کے فوائد بیان کرتے ہوئے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا بنیادی مقصد تجارت و صنعت کو فروغ دینا ہے اور کے سی آر صرف ٹریکس اور اسٹیشنوں کا قیام ہی نہیں بلکہ معاشی فوائد کو کراچی سے پاکستان کے اہم شہروں تک پہنچانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر سرکلر ریلوے بحال ہو گئی تو روزانہ لاکھ سے زیادہ مسافر ان ریل گاڑیوں میں سفر کریں گے۔ نگران وزیر اعلیٰ نے فورم کے شرکاء کو بتایا کہ اس منصوبہ پر 2 بلین ڈالر کی لاگت آئے گی اور سرکلر ریلوے کی لائن 43 کلومیٹر طویل ہو گی۔ کے سی آر شہر کے خاصے علاقوں سے گزرے گی۔ پھر یہ بھی کہا کہ سندھ کی نگراں حکومت اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے پرعزم ہے۔ جب میاں نواز شریف کے دور اقتدار میں سی پیک منصوبہ پر دستخط کرنے کی تقریب بیجنگ میں منعقد ہوئی تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بھی وزیر اعظم کے وفد میں شامل تھے۔ انھوں نے واپسی پر کراچی آکر اعلان کیا کہ چین کے سی آر کی بحالی کے لیے تیار ہے۔
میاں نواز شریف کے اس وفد میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی شامل تھے، انھوں نے لاہور پہنچنے پر اعلان کیا کہ سی پیک کے منصوبہ میں لاہور کی اورنج ٹرین کی تعمیر کا منصوبہ بھی شامل کیا گیا ہے، یوں لاہور میں اورنج ٹرین کی تعمیر شروع ہوئی۔ یہ منصوبہ تکمیل کے قریب تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت وفاق اور پنجاب میں قائم ہوئی تو منصوبہ کئی مہینوں کے لیے التواء کا شکار ہوا، مگر یہ منصوبہ مکمل ہوا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ پھر تحریک انصاف کے وزیر اعظم کے ساتھ بیجنگ گئے اور واپسی پر یہ بری خبر سنائی کہ چین کو اس منصوبے میں دلچسپی نہیں رہی۔ سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کراچی بد امنی کیس میں سماعت کے دوران ایمپریس مارکیٹ سے تجاوزات کے خاتمہ کا حکم دیا۔ ان کی توجہ کے سی آر کے التواء کے منصوبہ پڑ گئی۔ انھوں نے اس منصوبے کی عدم تکمیل پر سندھ حکومت کی کارکردگی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس وقت کے بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب کو طلب کیا گیا اور یہ احکامات جاری کیے گئے کہ سرکلر ریلوے پر قائم تجاوزات کو ہنگامی طور پر ہٹایا جائے، یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ سرکاری مشینری نے فوری طور پر آپریشن شروع کیا۔ سرکلر ریلوے کی لائن پر سیکڑوں بستیاں، اسپتال اور سرکاری دفاتر حتیٰ کہ تھانے قائم تھے۔
Tumblr media
حکومتی عملے نے سپریم کورٹ کے طے شدہ وقت کے مطابق کام مکمل کیا۔ اس وقت کے ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشید نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ پاکستان ریلوے زبوں حالی کا شکار ہے اس بناء پر حکومت سندھ کو کے سی آر کی بحالی کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ میاں شہباز شریف کی قیادت میں وفاق میں مختلف جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ مسلم لیگ ن کے احسن اقبال کو پلاننگ کی وزارت کی سربراہی سونپی گئی۔ احسن اقبال کی قیادت میں اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے دوسری فزیبلٹی تیار کی گئی جس پر 2.027 ملین ڈالرکا تخمینہ لگایا گیا۔ اس فزیبلٹی کے مطابق یہ منصوبہ 38 مہینوں میں مکمل ہونا تھا۔ احسن اقبال کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ چین کی حکومت پھر اس منصوبہ میں دلچسپی لے رہی ہے اس بناء پر نئی فزیبلٹی تیار کرنا ضروری ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سرکلر ریلوے 43.13 کلومیٹر طویل ہو گی، جس میں سے 17.74 کلومیٹر ریلوے لائن زمین پر تعمیر ہو گی اور 25.51 کلومیٹر ایلی ویٹر پر تعمیر ہو گی۔
اس فزیبلٹی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پہلے کے سی آر کی ملکیت وفاقی حکومت ہو گی اور پھر یہ بتدریج حکومت سندھ کو منتقل ہو جائے گی مگر یہ معاملہ محض فزیبلٹی تک محدود ہو گیا۔ یہ خبریں بھی ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں کہ چین کی حکومت پشاور سے کراچی کے لیے تعمیر ہونے والی نئی ریلوے لائن ایم۔ ون پر فوری طور پر سرمایہ کاری نہیں کرے گی۔ اب نگراں وزیر اعظم بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کے لیے چین کے دار الحکومت بیجنگ گئے تو پھر دونوں منصوبوں کی تجدید ہوئی۔ سرکلر ریلوے جنرل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں تعمیرکی گئی، اس وقت شہر میں کئی نئی بستیاں آباد ہوئیں۔ S.I.T.S میں بہت سے کارخانے قائم ہوئے یوں سرکلر ریلوے ایک نیم دائرہ کی شکل میں چلنے لگی۔ یہ سرکلر ریلوے پپری سے کراچی آنے کے لیے کم وقت میں سب سے زیادہ مناسب سواری تھی۔ اسی طرح وزیر منشن کیماڑی سے سائٹ، ناظم آباد، لیاقت آباد، یونیورسٹی روڈ سے سی او ڈی تک کے علاوہ سے ہوتی ہوئی مرکزی ریلوے سے منسلک ہوجاتی تھی۔ پھر مضافات کے علاقوں سے روزانہ علیٰ الصبح ہزاروں مسافر آدھے گھنٹہ میں (لانڈھی اور ملیر سٹی سے ) سٹی اسٹیشن پہنچ جاتے تھے۔
اس وقت تمام مالیاتی ادارے سرکاری ادارے، اسکول اور دیگر کاروباری اداروں کے دفاتر میکلوروڈ، آئی آئی چندریگر روڈ اور اطراف کے علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ یہ مسافر سرکلر ریلوے کے ذریعے اپنے گھروں تک آرام دہ سفر کے ذریعے واپس پہنچ جاتے تھے۔ اس زمانے میں اندرون شہر میں ٹرام وے چلتی تھی۔ سٹی اسٹیشن سے کینٹ اسٹیشن، سولجر بازار اور چاکیواڑہ تک ٹرام سفر کے لیے بہترین سواری تھی مگر پیپلز پارٹی کی حکومت میں ٹرانسپورٹ مافیا ارتقاء پذیر ہوئی۔  بیوروکریسی نے ساری دنیا کی طرح الیکٹرک ٹرام میں تبدیلی کرنے کے بجائے اس بناء پر بند کرنے کا فیصلہ کیا کہ ٹرام کی پٹری ٹریفک میں رکاوٹ بنتی ہے۔ ٹرام کی جگہ چھوٹی منی بسوں نے لے لی جن میں مسافر مرغا بن کر سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سرکلر ریلوے 1984 میں بند ہو گئی۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں سندھ کے گورنر عشرت العباد نے اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کو کراچی بلا کر سرکلر ریلوے کے افتتاح کی تقریب منعقد کی۔
یہ سرکلر ریلوے چنیسر ہالٹ تک جاتی تھی مگر کچھ عرصے بعد یہ بھی بند ہو گئی، بعد ازاں شیخ رشید کے پاس ریلوے کا محکمہ آگیا۔ انھوں نے ریلوے کے ملازمین کو صبح پپری مارشلنگ یارڈ لے جانے والی ریل گاڑی کو سرکلر ریلوے کا نام دیا مگر یہ تجربہ ناکام ہوا۔ ناقص پبلک ٹرانسپورٹ کی بناء پر 80ء کی دہائی میں کراچی خون ریز ہنگاموں کا شکار ہوا مگر کسی حکومت نے کراچی میں جدید ماس ٹرانزٹ منصوبہ پر کام نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ سال کراچی والوں پر ایک احسان کیا۔ پیپلز بس سروس کے نام پر 250 بسیں چلنے لگیں۔ اس سروس سے مسافروں کو خاصا فائدہ ہوا مگر نگران صوبائی وزیر منصوبہ بندی کے وزیر یونس دھاگہ کا تجزیہ ہے کہ شہر میں کم از کم 5 ہزار بسیں چلنی چاہئیں۔ اب نگران وزیر اعلیٰ نے سرکلر ریلوے کو متحرک کرنے کا عزم کیا ہے مگر کوئی شہری اس خبر پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ کراچی کے شہریوں کو ممبئی، کلکتہ، دہلی اور ڈھاکا کی طرز پر انڈر گراؤنڈ ٹرین، الیکٹرک ٹرام اور جدید سفر کی سہولتیں سے اس صدی میں مستفید ہونے کا موقع ملے گا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
banglakhobor · 1 year ago
Text
Pakistan: পর পর বগি লাইনচ্যুত! মৃত্যু ৩০, আহত ৬০, আতঙ্কে-শোকে পাথর...
জি ২৪ ঘণ্টা ডিজিটাল ব্যুরো: কদিন আগেই ট্রেন লাইনচ্যুত হয়ে ভয়াবহ রেলদুর্ঘটনা ঘটেছিল ভারতে। এবার ট্রেন লাইনচ্যুত হল পাকিস্তানে। পাকিস্তানের দক্ষিণাঞ্চলে সিন্ধু প্রদেশে একটি ট্রেন লাইনচ্যুত হয়ে অন্তত ৩০ জন যাত্রীর মৃত্যু হয়েছে বলে জানা গিয়েছে। ঘটনায় অন্তত ৬০ জন আহত হয়েছেন। আজ রবিবার পাকিস্তানের নওয়াবশাহ শহরের সাহারা রেল স্টেশনের কাছে এই দুর্ঘটনা ঘটে। আরও পড়ুন: Imran Khan Updates: ইমরানের গ্রেফতারির…
View On WordPress
0 notes
forcenewz · 2 years ago
Text
Cyclone Biparjoy Marches Toward Coastal Areas and Disrupts Lives 2023!
Cyclone Biparjoy will likely step into Rajasthan on June 16. The Gujarat Health Minister Rushikesh Patel has chaired a meeting with Kutch District Administration. The IMD has predicted that Cyclone Biparjoy will also impact the state of Rajasthan. For more info on cyclone biparjoy, visit our blog now!
Tumblr media
0 notes
emergingpakistan · 1 year ago
Text
کیا ریلوے اور پی آئی اے جیسے اداروں کی نجکاری ضروری ہے؟
Tumblr media
نگران حکومت اور وزیر نجکاری فواد حسن فواد کچھ سرکاری اداروں خصوصاً پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش کر رہے ہیں۔ فواد صاحب ایک قابل بیوروکریٹ ہیں جنہیں ہماری سیاست میں ایک جانب کی طرف سے بہت ستایا گیا جبکہ دوسری جانب نے انہیں بھلا دیا۔  پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کرنے والے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے وزیر نجکاری اور نگران حکومت کا کوئی خفیہ ایجنڈا ہے۔ ان کا کیا ایجنڈا ہو سکتا ہے؟ آئیے کچھ اعداد و شمار کا جائزہ لیں۔ پاکستان میں پانچ ایئرلائنز ہیں جن میں سے چار نجی ہیں۔ سبھی ایک جیسا ہی کرایہ لیتے ہیں اور ایک ہی سطح کی سروس فراہم کرتے ہیں۔ اس کے باوجود چار نجی ایئر لائنز تو پیسہ کماتی ہیں اور ٹیکس ادا کرتی ہیں لیکن دوسری جانب پی آئی اے کو گزشتہ سال 172 ارب روپے کی فروخت پر 88 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ یہ 51 فیصد نقصان ہے اور یہ نقصان کا وہ تناسب جسے پورا کرنا مشکل ہے چاہے کوئی کتنی ہی کوشش کر لے۔ اس سے ایک سال قبل پی آئی اے کو 50 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا اور اس سے بھی ایک سال قبل 35 ارب روپے کا۔ پی آئی اے کا اب تک کا مجموعی خسارہ 717 ارب روپے ہے جبکہ اس کی موجودہ مالیت 900 ارب روپے سے زیادہ ہے۔
900 ارب روپے کی یہ رقم 15 آغا خان یونیورسٹی اسپتالوں، 60 لمس یونیورسٹیوں یا پورے پاکستان میں 18 ہزار اسکولوں کی تعمیر کے لیے کافی ہے۔ اس کے بجائے، ہم نے خسارے میں چلنے والے ادارے کو جاری رکھنے کا انتخاب کیا ہے جو 8 ہزار ملازمین کو نوکریاں دیتا ہے، کبھی بھی سول ایوی ایشن کے واجبات ادا نہیں کرتا اور پی ایس او کو ایندھن کی ادائیگی میں بھی ہچکچاتا ہے۔ پی آئی اے نے تمام حکومتوں اور بورڈز کے ماتحت اور ہر ایک بحالی اسکیم کے بعد خسارہ کیا ہے گزشتہ 15 سال میں حکومت نے 109 ارب روپے براہ راست پی آئی اے پر خرچ کیے اور بینکوں کے 263 ارب روپے کے قرضوں کی ضمانت دی ہے۔ ہم پی آئی اے پر جتنی رقم چاہیں لگا سکتے ہیں لیکن سیدھی سی بات یہ ہے کہ پی آئی اے کو اب ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ ملازمین کی ملازمت کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے ایئرلائن کی جلد نجکاری پاکستانی ٹیکس دہندگان کے لیے بہت بہتر ہو گا۔ نجکاری کی بات مجھے پاکستان ریلوے پر بھی غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ پچھلے سال، حکومت نے اس کے آپریشنل نقصانات کو پورا کرنے کے لیے 45 ارب روپے اور مجموعی طور پر 70 ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات کے لیے اضافی 25 ارب روپے دیے۔
Tumblr media
پاکستان ریلوے کو ایک سال پہلے 59 ارب روپے اور اس سے ایک سال پہلے 56 ارب روپے ملے۔ صرف گزشتہ 15 سالوں میں، ٹیکس دہندگان نے پاکستان ریلوے پر 783 ارب روپے کی سبسڈی دی ہے جبکہ اس کی موجودہ مالیت تقریباً ایک ہزار ارب روپے ہے۔ ٹرک کے ذریعے ایک کلوگرام کارگو کو منتقل کرنے پر آنے والے ڈیزل کے اخراجات ٹرین کی نسبت 3 گنا زیادہ ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان ریلوے کارگو کے لیے ٹرکوں سے زیادہ معاوضہ لیتی ہے۔ ٹرینیں مسافروں کے سفر کے لیے زیادہ آرام دہ اور محفوظ طریقہ ہیں، پھر بھی سفر کرنے والے پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت ریلوے کے مقابلے میں طویل فاصلے کے بس کے سفر کو ترجیح دیتی ہے۔ تاہم، خدمات کو بہتر بنانے یا نقصانات کو کم کرنے کے بجائے، ریلوے کی بیوروکریسی چاہتی ہے کہ حکومت نئے ٹریکس کے لیے مزید 7 ارب ڈالر قرض لے اور ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالے۔ کیا ریلوے کی وزارت سوچ بچار نہیں کررہی؟ کیا ان میں اصلاحات کا کوئی عزم نہیں؟ آخر کیوں پاکستان ریلوے روڈ ٹرانسپورٹ کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے جبکہ اس کی ایندھن کی لاگت روڈ ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں بہت کم ہے؟
کیا آپ اس نا اہلی اور ممکنہ طور پر بدعنوانی کا تصور کر سکتے ہیں جو شاید پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کا حصہ ہے کیونکہ برسوں کی سرکاری سبسڈی کے باوجود، یہ ادارے اربوں کا نقصان کرتے رہتے ہیں اور بار بار بیل آؤٹ کا تقاضا کرتے ہیں۔ ریلوے کو چلانے کے ذریعے ہماری وزارت ریلوے اس شعبے کے مفادات کے لیے کام کرتی ہے نا کہ صارفین یا ٹیکس دہندگان کے لیے۔ تاہم ریلوے کو چلانے کے بجائے اس کا کردار ریگولیٹر کا ہونا چاہیے۔ ہمیں مزید آپریٹرز کے لیے پٹریوں اور ٹرینوں دونوں کو پرائیویٹائز کرنا چاہیے جبکہ وزارت ریلوے کو ایک ریگولیٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے پٹریوں اور ٹرینوں کے لیے حفاظتی معیارات مرتب کرے اور ان کو نافذ کرے اور وہ زیادہ سے زیادہ معاوضہ مقرر کرے جو ٹریک مالکان ٹرینوں سے اور ٹرینیں مال برداری کے لیے اور مسافروں سے لے سکتی ہیں۔ لائسنس کی شرائط میں یہ بھی شامل ہونا چاہیے کہ اگر ریگولیٹنگ وزارت کو ٹریک اور ٹرینوں میں کارکردگی اور بہتر حفاظت کی ضرورت ہو تو نجی شعبے کو اپنے فنڈز سے ایسا کرنا چاہیے تاکہ کرایوں کے ذریعے معاوضہ لیا جائے۔
پھر ریلوے کی زمین پر جو کچی آبادیاں بن گئی ہیں ان کو ریگولرائز کیا جائے اور ان کی ملکیت وہاں رہنے والے غریبوں کو ہی دے دی جائے۔ بقیہ زمین کو فروخت کیا جائے تاکہ موجودہ ریلوے ملازمین کی ریٹائرمنٹ تک تنخواہوں اور مراعات کو یقینی بنایا جاسکے۔ آئیے اب پاکستان اسٹیل ملز پر غور کریں جو آٹھ سال سے بند ہے، جس کے ملازمین کو ابھی تک تنخواہ دی جا رہی۔ پاکستان اسٹیل ملز پر نیشنل بینک اور سوئی سدرن کے 100 ارب روپے سے زائد واجب الادا ہیں۔ سوئی سدرن اور نیشنل بینک آف پاکستان کی مالی حالت کو شدید خطرے میں نہ ڈالتے ہوئے ان کے دیے گئے قرضوں کی تلافی کا ایک معقول طریقہ یہ ہے کہ اسٹیل ملز کی باقی ماندہ زمین ان کے حوالے کر دی جائے۔ (اسٹیل ملز کی زمین 20 ہزار ایکڑ تھی جس میں 5 ہزار ایکڑ مل کے لیے اور بقیہ زمین دیگر زیلی صنعتوں کے لیے۔ تقریباً 2 ہزار ایکڑ پر تجاوزات، ایک ہزار 500 ایکڑ پر مشتمل انڈسٹریل پارک اور ملازمین کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے بعد صرف 8 ہزار ایکڑ رقبہ باقی بچتا ہے)۔ 
اس کے بعد یہ زمین سوئی سدرن اور نیشنل بینک اپنے واجبات کی جزوی وصولی کے لیے فروخت کر سکتے ہیں۔ خود اسٹیل مل، جو 1960ء کی دہائی کی روسی ساختہ ہے اب بھی اسے بیچ کر یا لیز پر دے کر بحال کیا جاسکتا ہے۔ تاہم موجودہ ملازمین کو ان کے ریٹائر ہونے تک تنخواہ جاری رکھی جائے۔ نگران حکومت اور خصوصی س��مایہ کاری سہولت کونسل کے لیے معیشت کی اصلاح اور ہمارے کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ان تینوں اداروں کی نجکاری سے بہتر کچھ نہیں۔ جہاں پی آئی اے اور اسٹیل ملز کی نجکاری صرف نقصانات کو روکے گی، وہیں ریلوے کی نجکاری سے نہ صرف نقصانات میں کمی آئے گی بلکہ یہ معیشت کی مجموعی بہتری میں بھی ایک بڑا محرک ثابت ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ ان سرکاری اداروں میں ڈالا جانے والا نیا پیسہ ضائع ہی ہو گا۔ ہمیں ان سرکاری اداروں کے منافع بخش بننے اور صارفین اور ٹیکس دہندگان کے لیے فائدہ مند ہونے کے لیے نجی شعبے کے سرمایہ کاروں اور اچھی طرح سے ریگولیٹڈ مارکیٹوں کی ضرورت ہے۔ نجکاری کا ایجنڈا نقصانات کو روکنا اور معیشت کو بہتر کرنا ہے۔ وزرا پر بے بنیاد الزامات اس عمل کو پٹری سے اتارنے کا ایک طریقہ ہے۔
مفتاح اسمٰعیل
یہ مضمون 7 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
postcard-from-the-past · 1 year ago
Text
Tumblr media
Railway Station of Rawalpindi, Pakistan
British vintage postcard
4 notes · View notes
kneedeepincynade · 2 years ago
Text
Cooperation between China and Pakistan knows no borders, no terrain feture can alt it and no enemy can stop it!
The post is machine translated
Translation is at the bottom
The collective is on telegram
⚠️ RICOSTRUIRE L'ANTICA VIA DELLA SETA | L'AZIENDA STATALE CINESE "CREC" PROGETTA UNA LINEA FERROVIARIA DI 3.000KM CHE COLLEGHI CINA E PAKISTAN ⚠️
💕 Nell'ambito della Fratellanza di Ferro tra Cina e Pakistan, nasce il più ambizioso e costoso progetto della Nuova Via della Seta, che ha il potenziale di rivoluzionare e rimodellare completamente il Commercio e la Geopolitica della Regione ⭐️
🇨🇳 La Cina costruirà una Ferrovia verso il Pakistan, per un totale di 3.000km, che collegherà Kashgar (Cina, Regione Autonoma Uigura dello Xinjiang) con il Porto di Gwadar (Pakistan) 🇵🇰
🤩 Tale collegamento rappresenta - essenzialmente - una versione moderna dell'Antica Via della Seta, e tale percorso si armonizzerà con i Progetti tra Cina e Iran e Cina e Turchia per le rotte commerciali, e permetterano alla Repubblica Islamica del Pakistan di ottenere più opportunità per commerciare 📊
🇨🇳 Il Progetto, che costerà 400 Miliardi Yuan, pari a 57,7 Miliardi di Dollari, verrà progettato e sviluppato dalla "China Railway Group Limited", di Proprietà Statale 🚩
🚅 La rete ferroviaria, di 3.000km, collegherà le Regioni Occidentali della Cina con il Mar Arabico, e permetterà alla Nazione Asiatica di costituire una forte Rotta Commerciale alternativa al Mar Cinese Meridionale, in modo da poterle utilizzare entrambe 🇨🇳
📰 Come scritto nell'Articolo "China-Pakistan railway ‘worth it’ at estimated US$58 billion: study" sul SCMP: «Studi precedenti condotti da Ricercatore del Governo Cinese hanno suggerito che l'Iniziativa Infrastrutturale potrebbe avere significative implicazioni geopolitiche, contribuendo a spostare l'equilibrio di potere lontano dalle tradizionali rotte commerciali dominate dall'Occidente» ⭐️
🌸 Iscriviti 👉 @collettivoshaoshan
⚠️ REBUILD THE ANCIENT SILK ROAD | CHINESE STATE COMPANY "CREC" DESIGNS 3,000KM RAILWAY LINE CONNECTING CHINA AND PAKISTAN ⚠️
💕 Within the framework of the Brotherhood of Iron between China and Pakistan, the most ambitious and expensive project of the New Silk Road is born, which has the potential to completely revolutionize and reshape the Commerce and Geopolitics of the Region ⭐️
🇨🇳 China to build a railway to Pakistan, for a total of 3,000km, which will connect Kashgar (China, Xinjiang Uyghur Autonomous Region) with Gwadar Port (Pakistan) 🇵🇰
🤩 This link is - essentially - a modern version of the Ancient Silk Road, and this route will harmonize with the China-Iran and China-Turkey Trade Route Projects, and allow the Islamic Republic of Pakistan to get more opportunities for trade 📊
🇨🇳 The Project, which will cost 400 Billion Yuan, equal to 57.7 Billion Dollars, will be designed and developed by the State-owned "China Railway Group Limited" 🚩
🚅 The 3,000km railway network will connect the Western Regions of China with the Arabian Sea, and will allow the Asian nation to establish a strong alternative trade route to the South China Sea, so that both can be used 🇨🇳
📰 As written in the Article "China-Pakistan railway 'worth it' at estimated US$58 billion: study" on the SCMP: «Previous studies conducted by Chinese Government Researcher have suggested that the Infrastructure Initiative could have significant geopolitical implications, contributing to shift the balance of power away from traditional Western-dominated trade routes» ⭐️
🌸 Subscribe 👉 @collettivoshaoshan
1 note · View note
aamirbilal · 2 months ago
Text
Tumblr media
0 notes
e2etravelandtour · 2 years ago
Text
Tumblr media
kolpur the highest railway station in Quetta Pakistan
Plan Your Trips With 𝐄𝟐𝐄 𝐓𝐫𝐚𝐯𝐞𝐥 𝐀𝐧𝐝 𝐓𝐨𝐮𝐫 (E2ETT).
0 notes
metamatar · 1 year ago
Text
A Railway Protection Force (RPF) constable on escort duty fired 12 rounds from his automatic service rifle, first killing his senior and then three passengers on board the Jaipur-Mumbai Central Superfast Express early Monday, officials said.
While two of the dead passengers were identified as Asgar Abbas Ali (48) and Abdul Kadar Mohamed Hussain Bhanpurwala (64), the identity of the third passenger was being ascertained
A purported video of Chetan Singh speaking to passengers while standing over Asghar’s bloodied body was went viral on social media in which the RPF constable says:
“Pakistan se operate hue hain, tumhari media, yahi media coverage dikha rahi hai hai, pata chal raha hai unko, sab pata chal raha hai, inke aaqa hai wahan… Agar vote dena hai, agar Hindustan me rehna hai, toh mai kehta hoon, Modi aur Yogi, ye do hain, aur aapke Thackeray”
(‘They operate from Pakistan, this is what the media of the country is showing, they have found out, they know everything, their leaders are there… If you want to vote, if you want to live in India, then I say, Modi and Yogi, these are the two, and your Thackeray’)
191 notes · View notes