#ا ہم خبر
Explore tagged Tumblr posts
Text
آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر علاقائی خبریں تاریخ : 08 ؍ستمبر 2024 ء وقت : صبح 09.00 سے 09.10 بجے
Regional Urdu Text Bulletin, Chhatrapati Sambhajinagar
Date : 08 September 2024
Time : 09.00 to 09.10 AM
آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ : ۸ ؍ستمبر۲۰۲۴ ء
وقت : صبح ۹.۰۰ سے ۹.۱۰ بجے
پہلے خاص خبروں کی سر خیاں ...
٭ گنیش اُتسو کا آغاز ‘ جگہ جگہ گنپتی کی مورتیاں بٹھائی گئیں
٭ متنازعہ سرکاری افسر پو جا کھیڈ کر عہدے سے بر طرف
٭ پنجاب میں 3؍ افراد کا قتل کرنے والے 7؍ قاتل چھتر پتی سنبھا جی نگر میں گرفتار
٭ دھارا شیو - تلجا پور- شولا پور ریلوے راستے کے تعمیر کا م کا آغاز
اور
٭ پیرس پیرا لِمپک میں نیزہ باز نودیپ سنگھ نے حاصل کیا سونے کا تمغہ
اب خبریں تفصیل سے...
کل سےگنیش اُتسو کا آغاز ہو ا ۔ ریاست بھر میں جگہ جگہ گنپتی کی موتیاں بٹھائیں گئیں ہیں۔ اِس 10؍ روزہ فیسٹیول کے دوران ریاست میں 11؍ ہزار کروڑ روپیوں کی تجارت ہونے کی توقع کی جا رہی ہے ۔
صدر جمہوریہ محتر مہ درو پدی مُر مو ‘ وزیر ��عظم نریندر مودی اور ایوان زیرین یعنی لوک سبھا میں حزب مخالف کے رہنما راہل گاندھی نے عوام کو گنیش اُتسو کی مبارکباد پیش کی ہے ۔
ممبئی میں واقع راج بھون میں گور نر سی پی رادھا کرشنن کے ہاتھوں اور وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ ’’ور شا‘‘ میں وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے ہاتھوں کل گنپتی کی مورتیاں بٹھائی گئیں ۔
***** ***** *****
غیر ممالک میں آباد ہندوبرادان بھی گنیش اُتسو منا تے ہیں ۔ پاکستان کے شہر کراچی میں رہنے والے وشال راجپوت نے بتا یا کہ وہاں بھی گنیش اُتسو منا یا جا تا ہےاور یہ سلسلہ تقسیم ہند کے بعد سے جاری ہے ۔ وِشال راجپوت نے بتا یا کہ وہاں دیڑھ دن کے لیے گنپتی کی مورتی بٹھائی جا تی ہے ۔ انھوں نے مزید بتا یا کہ گنیش اُتسو کے دوران ہم گنپتی کے بھجن اور ست سنگ وغیرہ تقاریب کا بھی اہتمام کر تے ہیں ۔
***** ***** *****
چھتر پتی سنبھا جی نگر میں آباد ہندو برا دری نے اپنے مکا نات میں اِسی طرح عوامی مقامات پر گنیش منڈلوں نے بھی جوش و خروش سے کل گنپتی کی مورتیاں بٹھائی۔ اِس موقعے پر شہر کے سنستھان گنپتی مندر میں مشہور شخصیات کے ہاتھوں آرتی کی گئی۔ چھتر پتی سنبھا جی نگر ضلعے میں ایک ہزار 660؍ گنیش منڈلوں کا اندراج کیاگیا ہے ۔ضلعے کے 544؍ دیہاتوں میں ’’ ایک گائوں ایک گنپتی ‘‘ اِس خیال پر عمل در آمد کیا جا رہا ہے ۔
اِسی دوران گنپتی وسر جن جلوس راستوں کا میونسپل کمشنر جی شری کانت نے کل معائنہ کیا ۔ اِس دوران انھوں نے راستوں میں جھول رہی بجلی کی تاروں کو آئندہ 15؍ تاریخ سے قبل درست طریقے سے تاننے کی ہدایت دی ۔
***** ***** *****
اُمید اپنی مدد آپ گروہ میں شامل خواتین کے لیے چھتر پتی سنبھا جی نگر ضلع پریشد کی جانب سے گنیش مورتیاں فروخت کرنے کا پروگرام چلا گیا ۔ خبر ہے کہ اِس کے ذریعے تقریباً ایک کروڑ روپئے کی تجارت ہوئی ہے ۔
***** ***** *****
جالنہ ضلعے میں کل گنیش اُتسو کا آغاز جوش و خروش سے کیاگیا ۔ اِس سال جالنہ گنیش فیسٹیول کی جانب سے 8؍ روزہ ثقافتی پروگرامس کا اہتمام کیا گیا ہے ۔
***** ***** *****
ناندیڑ میں سابق وزیراعلیٰ نیز رکن پارلیمان اشوک چوہا ن کے گھر میں اِسی طرح چھتر پتی سنبھا جی نگر میں ہائوسنگ کے وزیر اتُل ساوے کےگھر میں کل جوش و خروش سے گنپتی کی مورتیاں بٹھائی گئیں ۔
***** ***** *****
بیڑ شہر میں واقع سِدھ وِنائک کمرشیل کامپلیکس میں گنیش کی مورتیاں خرید نے کے لیے کل گاہکوں کا ہجوم دیکھا گیا ۔ اِسی طرح پر بھنی کے بازاروں میں بھی کثیر تعداد میں گاہک گنپتی کی مورتیاں اور سجاوٹ کا سامان خریدتے دیکھتے گئے ۔ ضلعے کے کئی گنیش منڈلوں نے اِس مرتبہ ماحول دوست گنپتی کی مورتیاں بٹھائیں ہیں ۔
***** ***** *****
ہنگولی ضلع اغذیہ و ادویہ انتظامیہ نے شہر یان سے اپیل کی ہے کہ وہ تہواروں کے دنوں میں مٹھائی اور پر ��اد کی خوردنی اشیاء خرید تے وقت تمام ضروری باتوں کی تسلی کر لیں۔ انتظامیہ نے گنیش منڈلوں کو کہا ہے کہ وہ پر ساد کے لیے مٹھائی تیار کر نے سے پہلے فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈ ایکٹ کے تحت اندراج لازمی کروائیں۔
***** ***** *****
متنازعہ سرکاری افسر پو جا کھیڈ کر کو عہدے سے ہٹا دیاگیا ہے ۔ خیال رہے کہ پو جا کھیڈ کرنے معذوری کے جعلی سرٹیفکیٹ کی بناء پر سرکاری ملازمت حاصل کر نے کا انکشاف ہوا تھا۔ جس کے بعد مرکزی حکو مت نے انتظامی ایکٹ 1954ء کے تحت کارروائی کر تے ہوئے اُسے زیر تربیت انتظامی افسر کے عہدے سے بر طرف کر دیا ہے ۔
***** ***** *****
پنجات کےشہر فیروز پور میں ایک ہی خاندانہ کے 3؍ افرادکاقتل کرنے والے 7؍قاتلوں کو چھتر پتی سنبھا جی نگر پولس نےکل گرفتار کرلیا ہے ۔
پولس نے ناگپور - ممبئی قومی شاہراہ پر کل صبح جال بچھا کر قاتلوں کو گرفتار کیا ۔ پولس کمشنر پر وین پوار نے یہ اطلاع دی ہے ۔ انھوں نے بتا یا کہ مذکورہ قاتلوں کو پنجاب پولس کے سپرد کیا جائے گا ۔
***** ***** ***** ***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر سے نشر کی جا رہی ہیں
***** ***** ***** ***** ***** *****
افیم کی اسمگلنگ کرنے والے ایک شخص کو ناندیڑ شہر کے وزیر آباد پولس نے کل گرفتار کر لیا ۔ اُس شخص کا نام سُکھ وِندر سنگھ بتا یاگیا ہے ۔ موصولہ خبر میں بتا یا گیا ہے کہ اُس کے پاس سے 27؍ گرام افیم بر آمد ہوئی ہے ۔
***** ***** *****
جالنہ کرائم برانچ کے دستے نے ‘ غنودی آور گولیاں فروخت نے والے 4؍ مشتبہ افراد کو کل جال بچھا کر گرفتار کر لیا ۔ اُن کے پاس سے نشہ آور گولیاں ‘ اسقاطِ حمل کی گولیاں اور شہوت انگیز گولیوں کا ذخیرہ بر آمد ہوا ہے ۔ اِس کی مالیت تقریباً 8؍ لاکھ 18؍ ہزار روپئے بتائی جارہی ہے ۔ گرفتار کیے گئے چاروں ملزمین کے خلاف معاملہ درج کر لیاگیا ہے ۔ جالنہ کرائم برانچ کے پولس انسپکٹر پنکج جادھو نے یہ اطلاع دی ہے ۔
***** ***** *****
گوندیا ضلعے کے پوگ جھر گائوں میں بہنے والے نالے میں سیلاب آنے کی وجہ سے ایک ہی کُنبے کے 2؍ بچوں کی موت واقع ہو گئی ۔ موصولہ خبر میں بتا یا گیا ہے کہ مہلوکین میں ایک بچے کی عمر 3؍ سال اور دوسرے بچے کی عمر دیڑھ سال تھی۔
***** ***** *****
ناسک ضلعے کے وانی پیپل گائوں راستے پر کل چار پہیہ گاڑی اور دو پہیہ گاڑی کے ما بین ہوئے تصا دم میں موٹر سائیکل پر سوار 3؍ افراد کی موت واقع ہوگئی ۔ مہلو کین میں سے 2؍ سگے بھائی تھے ۔ ہمارے نمائندے نے خبر دی ہے کہ چار پہیہ گاڑی نے موٹر سائیکل کو پیچھے سے ٹکر مار نے کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا ۔
***** ***** *****
دھارا شیو- تلجا پور- شولا پور ریلوے راستے کا تعمیر کام کل سے شروع کر دیاگیا ہے ۔ اُپڑا کے مقا م پر ساز و سامان کی پو جا کرکے اِس کام کا آغاز کیاگیا ۔ رکن اسمبلی رانا جگجیت سنگھ پاٹل نے بتا یا کہ یہ کام 2؍ سال میں مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیاگیا ہے ۔
***** ***** *****
پیرس پیرا لمپک میں کل بھارت کے نیزہ باز نو دیپ سنگھ نے سونے کا تمغہ حاصل کیا ۔اِسی طرح 200؍ میٹر ٹریک مقابلے میں سِمرن شر ما نے کانسے کا تمغہ حاصل کیا ۔ یہ پرا لِمپک آج ختم ہو رہا ہے ۔ اِس پیرالمپک میں بھارت نے 7؍ سونے کے ‘ 9؍ چاندی کے اور 13؍ کانسے کے تمغے اِس طرح مجموعی طور پر 29؍ تمغے حاصل کیے ہیں ۔ تمغوں کی درجہ بندی میں بھارت 16؍ ویں درجہ پر ہے ۔ پیرا لمپک کی تاریخ میں یہ بھارت کی اب تک کی سب سے اچھی کار کر دگی ہے ۔ اِس پیرالمپک کی اختتامی تقریب میں تیر انداز ہر وِندر سنگھ اور رنر پریتی پال بھارتی پرچم بردار ہوں گے ۔
***** ***** *****
حکومت کی مختلف اسکیمات سے عوام کو واقف کر وانے کے لیے ’’ وزیر اعلیٰ اسکیمات کا سفیر ‘‘ نام سے ایک طریقہ اختیار کیاگیا ہے ۔ اِس کے تحت لاتور ضلعے کی تمام گرام پنچایتوں میں ایک ایک اور شہری علاقوں میں 5؍ ہزار افراد کا حلقہ بنا کر ایک سفیر مقرر کیا جائے گا ۔ اِس سرگر می میں حصہ لینے کے خواہش مند افراد www.mahayojanadoot.org نامی ویب سائٹ پر آئندہ 13؍ ستمبر تک اندراج کر وا سکتے ہیں ۔
***** ***** *****
ہنگولی ضلعے کے عیسیٰ پور میں واقع ڈیم 97؍ فیصد بھر چکا ہے ۔ اِسی لیے ڈیم کے 3؍ در وازے تقریباً آدھا فیٹ کھول دیے گئے ہیں ۔ ڈیم سے ایک ہزار 21؍ مکعب فیٹ فی سیکینڈ کی رفتار سے پانی چھوڑا جا رہا ہے ۔متعلقہ انتظامیہ نے ندی کنارے آبا دیہاتوں کو چوکنا رہنے کا مشورہ دیا ہے ۔
***** ***** *****
پیٹھن کا جائیکواڑی ڈیم 95؍ فیصد سے زیادہ بھر چکا ہے ۔ انتظامیہ نے مطلع کیا ہے کہ اگر ڈیم میں پانی کی آمد بڑھتی ہے تو کسی بھی وقت ڈیم سے پانی چھوڑا جا سکتا ہے ۔جائیکواڑی ڈیم انتظامیہ نے گودا وری ندی کے کنارے آبا د دیہاتوں کو چوکس رہنے کا مشورہ دیا ہے ۔
***** ***** *****
آج عالمی یومِ خواندگی منا یا جا رہاہے ۔ یہ دن ہر سال 8؍ ستمبر کو منا یا جا تا ہے ۔ اِس کا مقصد معاشرے میں خواندگی کی اہمیت کااعادہ کر نا ہے ۔ اِس سال یومِ خواندگی کا عنوان ہے ’’ کثیر لسانی تعلیم کو فروغ دینا : باہمی مفاہمت اور امن کے لیے خواندگی ‘‘ -
***** ***** *****
آخر میں اہم خبروں کی سر خیاں ایک مرتبہ پھر سن لیجیے ...
٭ گنیش اُتسو کا آغاز ‘ جگہ جگہ گنپتی کی مورتیاں بٹھائی گئیں
٭ متنازعہ سرکاری افسر پو جا کھیڈ کر عہدے سے بر طرف
٭ پنجاب میں 3؍ افراد کا قتل کرنے والے 7؍ قاتل چھتر پتی سنبھا جی نگر میں گرفتار
٭ دھارا شیو - تلجا پور- شولا پور ریلوے راستے کے تعمیر کا م کا آغاز
اور
٭ پیرس پیرا لِمپک میں نیزہ باز نودیپ سنگھ نے حاصل کیا سونے کا تمغہ
علاقائی خبریں ختم ہوئیں
آپ یہ خبر نامہ ہمارے یو ٹیوب چینل AIR چھتر پتی سنبھا جی نگر پر دوبارہ کسی بھی وقت سن سکتے ہیں۔
٭٭٭
0 notes
Photo
کیا کسی شخص کو ’’شہید ‘‘کہنا جائز ہے؟ سوال ۱۱۲: کسی کو شہید کہنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :کسی کو شہید کہنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں: ۱۔ اسے وصف کے ساتھ مقید کیا جائے، مثلاً: یوں کہا جائے کہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے رستے میں مارا جائے وہ شہید ہے،یا جو اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شہید ہے،یا جو طاعون کے مرض سے فوت ہو جائے وہ شہید ہے، تو اس طرح کہنا جائز ہے جیسا کہ نصوص میں آیا ہے کیونکہ آپ تو اس بات کی شہادت دے رہے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔ ہمارے یہ کہنے کہ ’’یہ جائز ہے‘‘ کا مطلب یہ کہ ایسا کہنا ممنوع نہیں ہے حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے ایسی شہادت دینا تو واجب ہے۔ ۲۔ شہادت کو کسی معین شخص کے ساتھ مقید کیا جائے، مثلاً: آپ کسی معین شخص کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ شہید ہے تو یہ جائز نہیں، سوائے اس کے جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شہادت دی ہو یا جس کی شہادت پر امت کا اتفاق ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بات کا عنوان اس طرح قائم کیا ہے: (باب لا یقال فلان شہید) ’’یہ نہ کہا جائے کہ فلاں شہید ہے‘‘ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بات کے تحت لکھا ہے، یعنی کسی معین شخص کے بارے میں قطعی طور پر یہ نہ کہا جائے الا یہ کہ وحی کے ذریعے سے ایسا معلوم ہوجائے۔ انہوں نے گویا اپنے اس قول سے حدیث عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آپ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھاکہ تم اپنے غزوات میں کہتے ہو کہ فلاں شہید ہے، فلاں شہادت کی موت مرا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ سواری سے گر کر مرا ہو، لہٰذا تم اس طرح نہ کہا کرو بلکہ یہ کہا کرو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں فوت ہو یا قتل ہو وہ شہید ہے۔‘‘ یہ حدیث حسن ہے۔ امام احمد اور سعید بن منصور وغیرہ نے بطریق محمد بن سیرین اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔[1] کسی چیز کی شہادت اس کے بارے میں علم ہی کی بنیاد پر ہو سکتی ہے اور کسی انسان کے شہید ہونے کی شرط یہ ہے کہ اس نے اس لیے لڑائی لڑی ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے کلمے کو سربلندی حاصل ہواجائے دراصل اس کا تعلق باطنی نیت سے ہے جسے معلوم کرنے کی کوئی کسوٹی نہیں۔ اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے: ((مَثَلُ الْمُجَاہِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَنْ یُجَاہِدُ فِی سَبِیْلِہِ)) (صحیح البخاری، ال��ہاد والسیر، باب افضل الناس مومن مجاہد بنفسہ ومالہ فی سبیل اللّٰه ، ح:۲۷۸۷۔) ’’اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال یہ ہے… اور یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستے میں جہاد کرنے والا کون ہے؟‘‘ اور فرمایا: ((وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَا یُکْلَمُ أَحَدٌ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِمَنْ یُکْلَمُ فِی سَبِیْلِہِ إِلَّا جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وکلمہ یثعب دما َاللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ وَالرِّیحُ رِیحُ الْمِسْکِ)) (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب من یجرح فی سبیل اللّٰه عزوجل، ح:۲۸۰۳۔) ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جسے اللہ تعالیٰ کے رستے میں زخم لگے… اور یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے رستے میں کسے زخم لگتا ہے… وہ روز قیامت اس طرح آئے گا کہ اس کے زخم سے خون رس رہاہوگا اس کا رنگ خون کا رنگ ہو گا اور خوشبو کستوری کی خوشبو ہوگی۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ان دونوں حدیثوں کو امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت فرمایا ہے۔ جو شخص بظاہر نیک ہو، اس کے لیے ہم یہ امید کر سکتے ہیں، مگر اس کے بارے میں یہ گواہی دے سکتے ہیں نہ اس کے بارے میں کوئی بدگمانی کر سکتے ہیں۔ امید ان دونوں مرتبوں کے درمیان کا ایک مرتبہ ہے۔ ہاں! ایسے شخص کے بارے میں دنیا میں معاملہ احکام شہداء کے مطابق کیا جائے گا، یعنی اگر وہ اللہ تعالیٰ کے رستے میں جہاد کرتے ہوئے قتل ہواہو تو اسے اس کے خون آلود کپڑوں میں دفن کیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جائے گی اور اگر اس کا تعلق دوسرے شہداء سے ہو تو پھر اسے غسل اور کفن دیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔اگر کسی معین شخص کے بارے میں ہم یہ شہادت دیں کہ وہ شہید ہے تو اس شہادت سے یہ لازم آتا ہے کہ ہم ا س کے جنتی ہونے کی شہادت دے رہے ہیں اور یہ بات اہل سنت کے مذہب کے خلاف ہے کہ ہم کسی کے قطعی جنتی ہونے کی شہادت دیں شرعا ہمارے لئے اس کا جواز نہیں سوائے اس کے جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصف بیان کر کے یا شخصی طور پر اس کا تعین فرما کر شہادت دی ہو۔ کچھ لوگوں نے ایسے شخص کے بارے میں شہادت دینے کو بھی جائز قرار دیا ہے جس کی تعریف پر امت کا اتفاق ہو۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ نص یا اتفاق امت کے بغیر کسی معین شخص کے شہید ہونے کی شہادت دینا جائز نہیں، البتہ جو شخص بظاہر نیک ہو تو اس کے لیے ایسی امید کی جا سکتی ہے جیساکہ قبل ازیں بیان کیا گیا ہے دراصل اس کی منقبت کے لیے یہی کافی ہے اوراس کی شہادت کا علم تو اس کے خالق ومالک سبحانہ و تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۱۸۲، ۱۸۳ ) #FAI00095 ID: FAI00095 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
کیا انتخابات سے ملک میں استحکام آسکے گا؟
خوشخبری یہ ہے کہ عام ا��تخابات کا انعقاد 8 فروری کو ہورہا ہے۔ بری خبر یہ ہے کہ یہ انتخابات بھی مذاق ثابت ہوسکتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا گیا، شاید اس صورتحال نے انتخابات کے حوالے سے ابہام کچھ حد تک کم کیا ہو لیکن ان کی شفافیت پر اب بھی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ گمان یہ ہورہا ہے کہ پسندیدہ لوگوں کے لیے میدان صاف کیا جارہا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوششوں کے تناظر میں ان معاملہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے درمیان مقابلے پر آچکا ہے۔ اس پورے کھیل نے انتخابی عمل کو مضحکہ خیز بنا دیا ہے۔ یہ شاید پہلا موقع نہیں ہے کہ ہم نے ایسے حالات دیکھے ہوں لیکن صورتحال کبھی اتنی خطرناک نہیں تھی۔ یہ سب ’مثبت‘ نتائج سامنے لانے کی کوششیں ہیں۔ لیکن کھیل ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اس طرح ختم نہیں کیا جاسکتا۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے طاقت کے مظاہرے نے ظلم و ستم اور پابندیوں کو ٹھکراتے ہوئے بڑھتی ہوئی مزاحمت کی جھلک پیش کی۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں آواز دبانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں۔ اب پی ٹی آئی ان پابندیوں کے خلاف مصنوعی ذہانت کا استعمال کررہی ہیں۔ حال ہی میں پی ٹی آئی نے انتخابی مہم کے لیے اپنے پہلے ورچوئل جلسے کا انعقاد کیا۔ یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے پی ٹی آئی نے اپنے قائد عمران خان کی آواز بھی بنائی۔ اگرچہ انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے 5 گھنٹے طویل یہ ورچول جلسہ تعطل کا شکار ہوا لیکن اس کے باوجود یہ کسی حد تک اپنا مؤقف پیش کرنے میں کامیاب رہے۔ مصنوعی ذہانت پر مبنی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا ایسا استعمال اس حوالے سے ریاست کی جانب سے عائد پابندیوں کی حدود کو ظاہر کرتا ہے جوکہ انتخابات سے قبل سیاسی حرکیات کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔ یہ ان طاقتوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دے گا جوکہ انتخابی عمل میں مداخلت کرنا چاہتی ہیں۔ مرکزی دھارے کی دو سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی تو سوشل میڈیا کے استعمال میں بہت پیچھے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کو سوشل میڈیا پر غلبہ حاصل ہے جس سے وہ نوجوانوں تک اپنا پیغام پہنچانے میں کافی حد تک کامیاب ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے اپنے ووٹرز کو بڑی تعداد میں انتخابات والے دن باہر نکلنے کا پیغام، پولنگ کے روز حالات کو الگ رخ دے سکتا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ابھی مزید پتے ہیں۔ پارٹی کی طرف سے کسی بھی ممکنہ چیلنج کو روکنے کے لیے ریاست کی جانب سے جابرانہ ہتھکنڈے اپنانے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کریک ڈاؤن کا دائرہ کار وسیع ہورہا ہے اور اب تیسرے اور چوتھے درجے کے رہنما بھی اس کریک ڈاؤن کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ وہ رہنما تائب ہونے سے انکار رہے ہیں انہیں شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی خواتین قیدیوں کی حالتِ زار بھی بدتر ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے اُس فیصلے کو منسوخ کر دیا ہے جس میں سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کو غیرقانونی قرار دیا گیا تھا۔ یوں اس فیصلے کو سیاسی قیدیوں کو مزید دھمکانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ لیکن پھر بھی ان تمام سخت اقدامات کے باوجود، لگ نہیں رہا کہ صورتحال پوری طرح قابو میں ہے۔
اگرچہ پی ٹی آئی کے پاس بیان بازی کے علاوہ کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے لیکن درحقیقت ریاست کے جابرانہ اقدامات ان کی حمایت میں اضافہ کررہے ہیں۔ زبردستی پارٹی چھڑوانے اور ان کے امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی کوششوں سے پی ٹی آئی کی حمایت میں کمی واقع نہیں ہورہی۔ یہ وہ ماحول ہے جس میں عام انتخابات کا انعقاد ہو گا۔ عوام میں یہ بڑھتا ہوا خیال کہ انتخابات کے نتائج کا فیصلہ ہو چکا ہے، انتخابی عمل کی ساکھ کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ایسے انتخابات سے ملک میں استحکام آسکے گا یا پھر اس سے تقسیم میں مزید اضافہ ہو گا؟ سوشل میڈیا کے دور میں ریاست کے لیے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانا انتہائی مشکل ہے۔ متنازع انتخابات کی ساکھ صورتحال کو انتہائی غیر مستحکم کرنے کا سبب بن سکتی ہے جس سے مستقبل کی حکومت کے لیے ملک کو درپیش متعدد چیلنجز سے نمٹنا مشکل ہو جائے گا۔ متنازع انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی کسی بھی حکومت کی ساکھ انتہائی کمزور ہو گی جس سے ان کا سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر انحصار مزید بڑھے گا۔ اس سے ملک میں جمہوری عمل کو شدید نقصان پہنچے گا۔
ہمارے لیے یہ حقیقت لمحہِ فکریہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی اقتدار کے اس کھیل میں اسٹیلشمنٹ کے تمام جابرانہ اقدامات کا ساتھ رہی ہیں۔ درحقیقت سابق وزیراعظم نواز شریف کو اسٹیلشمنٹ کے اس نئے کھیل میں سب سے زیادہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔ جس طرح اس پورے نظام میں تبدیلی لائی گئی ہے، اس تناظر میں ان کے خلاف مقدمات میں عدلیہ کا فیصلہ نواز شریف کے حق میں آنا کوئی حیران کُن بات نہیں ہے۔ اس عدالت جس نے انہیں پہلے ’مجرم‘ قرار دیا تھا، اب وہی عدالت انہیں ان الزامات سے بری کر رہی ہے۔ یہ ثابت شدہ ہے کہ ان کو اقتدار سے ہٹانے اور مجرم قرار دینے والی وہی قوتیں تھیں جو اب مبینہ طور پر 2024ء کے انتخابات میں ان کی سرپرستی کررہی ہیں۔ سزا معطلی کے بعد نواز شریف اب انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں جس سے ان کے چوتھی بار وزیراعظم بن��ے کے امکانات کو تقویت مل رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو یقین ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آرہے ہیں۔ اب نواز شریف کی جگہ عمران خان کرپشن اور بغاوت جیسے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ سائفر کیس میں عمران خان پر پہلے ہی فردِجرم عائد ہو چکی ہے۔ سزا یافتہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئی بھی حکومتی عہدہ سنبھالنے کے اہل نہیں ہیں۔
ہمارے عدالتی نظام کی مشکوک ساکھ اور جس طرح انہیں سزا دی گئی ہے، یہ بظاہر پولیٹیکل وکٹیمائزیشن کا ایک اور کیس معلوم ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں منعقد ہونے والے تمام انتخابات میں اسی طرح ہیرا پھیری کی گئی لیکن اس وقت جاری پری پول منیجمنٹ کی مثال ہمیں کم ہی ملتی ہے۔ انتخابی عمل میں اس قدر مداخلت تو ہمیں فوجی حکومتوں کے ادوار میں بھی دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔ جس طرح ہمارے ملک کے ہر شعبے میں سیکیورٹی اسٹیلشمنٹ کا اثرورسوخ ہے اس سے انتخابات میں سویلین بالادستی انتہائی مشکل ہے اور اس سے ایک بار پھر ممکنہ طور پر ہائبرڈ اقتدار کا دور شروع ہو گا جس میں سویلین انتظامیہ کا ذیلی کردار ہو گا۔ ایک ریاست جو پہلے ہی لاتعداد مسائل میں گھری ہوئی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسی مضبوط نمائندہ حکومت اقتدار میں آئے جو ملک کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرے۔ ملک کو سیاسی تقسیم کی نہیں بلکہ سیاسی طور پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنی تاریخ سے کبھی بھی سبق نہیں سیکھتے۔ ان کی تمام تر توجہ صرف قلیل مدتی مفادات پر ہوتی ہے جبکہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کے ہدف پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔
زاہد حسین یہ مضمون 20 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
#Imran Khan#Nawaz Sharif#Pakistan#Pakistan Elections#Pakistan Establishment#Pakistan Politics#PML-N#Politics#PPP#PTI#World
0 notes
Text
نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا
مرے چارہ گرکو نوید ہو صف دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا
ا دھر ایک حرف کے کشتنی یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
جو کہا تو ہنس کے اڑا دیا جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا
urduz.com
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا
فیض احمد فیض
kuch acha perho
#urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen
0 notes
Text
چینی صدر امریکی ہم منصب سے بات چیت اور ایپیک اجلاس کے لیے سان فرانسسکو پہنچ گئے
چین کی سرکاری خبر ایجنسی شِںہوا کے مطابق چین کے صدر شی جن پنگ سان فرانسسکو پہنچ گئے ہیں جہاں وہ امریکی ہم منصب جو بائیڈن سے ملاقات اور ایشیا بحرالکاہل اقتصادی تعاون (ا یپیک) کے اقتصادی رہنماؤں کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ سان فرانسسکو بین الاقوامی ہوائی اڈے پر کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم، امریکی وزیر خزانہ جینٹ یلین اور دیگر امریکی نمائندوں نے چینی صدر کا استقبال کیا۔ چینی صدر کی امریکی ہم منصب…
View On WordPress
0 notes
Text
ملک تو آخر اپنا ہے
سیاسی اختلاف جیسے بھی ہوں اور جتنے بھی ہوں، ان میں تلخی کیسی ہی ہو اور کتنی ہی ہو، یہ کیسی وحشت ہے کہ شہدا کی یادگاروں کو بھی وحشت کا نشانہ بنا دیا جائے؟ تحریک انصاف کو، کوئی خبر کرے کہ وہ سماج کی روح میں گرہیں لگا رہی ہے، ایسا نہ ہو کہ کل کو یہ گرہیں دانتوں سے بھی نہ کھل سکیں۔ یہ گرہیں لگانے کا نہیں، گرہیں کھولنے کا وقت ہے۔ میرا تعلق سرگودھا سے ہے۔ یہاں ماؤ�� کی لوری میں بتایا جاتا ہے کہ بنگال کا ایک بانکا تھا جس نے دشمن کے چھ جہاز گرا کر سر گودھا کی نگہبانی کی تھی۔ یہ ایم ایم عالم تھے۔ انہی کی نسبت سے سرگودھا کو شاہینوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ ایم ایم عالم سے محبت سرگودھا کی مٹی میں گندھی ہے۔ ایم ایم عالم اس محبت کا استعارہ ہیں جو ملک بھر کی مٹی میں مہک رہی ہے۔ کہیں عزیز بھٹی کی صورت، کہیں کرنل شیر خان کی شکل میں، کہیں عزیز بھٹی بن کر، کہیں لالک جان بن کر۔ یہ شہداء ، ان کے مجسمے، ان کے ہتھیار، ان کے جہاز، یہ وہ علامتیں ہیں جو سانجھی ہیں۔ احتجاج یہاں پہلے بھی ہوئے، یہ ا حتجاج پاگل پن میں بھی بدلے، گھیراؤ جلاؤ بھی ہوا، لیکن کسی نے عشق و محبت کی ان یادگاروں کو چھونے کی جرات نہیں کی۔ یاد گاریں نہ تھیں، یہ ہمارے تاج محل تھے۔یہ قومی تفاخر کی علامات تھے۔
پچھلے دنوں جو کچھ ہوا، اس کی تکلیف روح میں کہیں اترکر بیٹھ گئی ہے۔ نکل ہی نہیں رہی۔ یہ جنگی جہاز تو قومی فخر کی نشانی تھے۔ یہ کرنل شیر خان کا مجسمہ تو ایک تذکیر تھی کہ جب دھرتی کے دفاع کی بات آتی ہے تو پھر جان کی تو کوئی بات نہیں رہتی، یہ تو آنی جانی ہے۔ یہ کیسا جنون ہے جس نے انہیں آ گ لگا دی، یہ کیسی وحشت ہے دھرتی ماں کی نشانیوں کو آگ میں ڈال رہی ہے؟ کوئی دکھ سا دکھ ہے کہ اس حرکت کی توجیحات پیش کی جا رہی ہیں، سیاسی میدان میں بھی اور سوشل میڈیا پر بھی۔ اب بھی توجیحات تلاش کی جا رہی ہیں۔ دبی دبی تنقید ہو بھی رہی ہے تو اس کا مرکزی نکتہ شہدا کی یاد گاروں کی توہین کی نہیں بلکہ یہ اندیشہ ہے کہ کہیں اس حرکت سے ممدوح گروہ کا سیاسی مستقبل متاثر نہ ہوجائے۔ تکلیف مادر وطن کے گھاؤ کی نہیں، تکلیف عشق نامراد کے مستقبل کی ہے کہ کہیں اس کاسیا سی مستقبل خراب نہ ہو جائے۔ ہماری ذ ات پر بات آ جائے ہم تلخ ہو جاتے ہیں، ہم گالیاں تک دینے لگتے ہیں لیکن شہدائے وطن کے مجسموں کو وحشت کی آگ چاٹ لے تو ہم برہم نہیں ہوتے۔ ہم توازن قائم کرتے رہتے ہیں۔ ہم معروضی تجزیے فرمانے لگتے ہیں۔ ہمیں اندیشے دامن گیر ہو جاتے ہیں کہ فلاں گروہ ناراض نہ ہو جائے، فلاں گروہ خفا نہ ہو جائے۔
سیاست سے بالاتر ہو کر سوچنے کا وقت ہے۔ اقتدار میں پی ڈی ایم رہے یا پی ٹی آئی، ہماری بلا سے۔ لیکن کسی سیاسی جتھے کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے کہ اس کے وجود کی آگ وطن کے شہداء کے دامن سے لپٹ جائے۔ ایک مقام ایسا ہوتا ہے جہاں رک جانا ہوتا ہے۔ جہاں خود کو تھام لینا ہوتا ہے۔ یہ التجاؤں کا وقت نہیں ہے کہ ہاتھ باندھ کر درخواست کی جائے کہ گرامی قدر ایک مذمتی بیان ہی جاری فرما دیجیے،، آپ کی عین نوازش ہو گی اور آپ کا اقبال بلند ہو گا۔ یہ واضح طور پر، پوزیشن لینے کا وقت ہے کہ آپ میں سے کسی کی سیاسی وابستگی جو بھی ہو، موقف جیسا بھی ہو، آپ ہماری قومی یادگاروں کی توہین کریں گے تو ہم گوارا نہیں کریں گے۔ اپنی وحشت کو ہمارے شہداء کی یادگاروں سے محفوظ رکھیے۔ یہ ایک مجہول طرز فکر ہے کہ وجوہات اور اسباب کے نام پر اس وحشت کا جواز تلاش کیا جائے۔ وجوہات کیسی ہی کیوں نہ ہوں، قومی تفاخر کی علامات کو جلانے کا جواز نہیں بن سکتیں۔ اس کی غیر مشروط، دوٹوک اور واضح مذمت ہونی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہو سکا۔
خود جناب عمران خان نے، معاف کیجیے، عمران خان نے اس کی مذمت کی بجائے حیلہ اور ہائپر ٹروتھ کا روایتی طریقہ اختیار کیا۔ ایک سانس میں کہا یہ ہمارے لوگ نہیں تھے، ساتھ ہی کہا مجھے گرفتار کیا گیا تو پھر یہی رد عمل آ ئے گا۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ اس عالم میں بھی، سچ پوچھیے تو میرا گمان تھا کہ عمران خان نہ صرف اس کی مذمت کریں گے بلکہ رہائی کے بعد وہ سیدھا شہداء کی ان یادگاروں پر جائیں گے، قوم سے معافی مانگیں گے، بلوائیوں سے اعلان برات کریں گے، وہاں پھول رکھ آئیں گے، شہداء کے مجسموں کو اپنے ہاتھوں سے نصب کریں گے، جلے ہوئے جہاز پر اشک ندامت کا مرہم رکھیں گے اور کہیں گے کہ میرا سیاسی موقف آج بھی وہی ہے لیکن محبت کے یہ تاج محل سانجھے ہیں، یہ میرے بھی ہیں۔ ان شہیدوں نے پی ڈی ایم کے لیے جان نہیں دی تھی ملک کے لیے دی تھی۔ اور ملک تو سب کا ہے۔ لیکن عمران نے ایک تکلیف دہ اور سفاک بے نیازی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس رویے نے دل میں گھاؤ کر دیا ہے۔ یہ گھاؤ بڑھتے جا رہے ہیں۔ قوم کی جذباتی و ابستگی سے اتنی بے اعتنائی، افتاد طبع کی نرگسیت کے سوا کیا ہو سکتی ہے؟
ہم نے دو بڑے جنازے اٹھائے، ایک ڈاکٹر اے کیو خان کا اور دوسرا سید علی گیلانی کا۔ عمران خان چند قدموں کے فاصلے پر بیٹھے رہے اور شریک ہونا گوارا نہ کیا۔ کشمیر ہاؤس میں علی گیلانی کا جنازہ ہوا تو وہاں عمائدین ریاست موجود تھے اور سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن عمران نے وہاں جانا بھی گوارا نہ کیا۔ بظاہر یہ ایک معمولی چیز لگتی ہے لیکن یہ معمولی نہیں۔ اس میں جہان معنی ہوتا ہے اور اس رویے کا گھاؤ کبھی مندمل نہیں ہوتا۔ مندمل ہو بھی جائے تو زخم کا داغ نہیں جاتا۔ اب جب کہ ہر دل دکھی ہے عمران خان کا رویہ نہ صرف بے نیازی کا ہے بلکہ اب کی بار اس میں نمک بھی شامل ہے۔ ایک حکمت عملی کے تحت جواز اور عذر گناہ تراشے جا رہے ہیں، ویڈیوز اور آٓڈیوز موجود ہیں کہ ان کے کارکنان اور قیادت کا رویہ کیا تھا لیکن یہ پوسٹ ٹروتھ کے روایتی اعتماد سے ہر چیز کی تردید کر رہے ہیں۔ یہ رویہ ایک ذمہ دار مقبول قومی سیاسی رہنما کا نہیں ہے۔ یہ ذات کے گنبد میں قید رویہ ہے۔ قیادت اگر ذات کے گنبد کی اسیر ہو کر رہ جائے تو اس سے المیے پھوٹتے ہیں۔ خلط مبحث، پوسٹ ٹروتھ، ہائپر ٹروتھ، عقیدت بھرے تجزیے، کچھ بھی کام نہیں آئیں گے۔ گرفتاری کوئی ایسی انہونی بات نہ تھی کہ رد عمل میں ایسی انتہا تک جایا جاتا۔ خود تحریک انصاف کی خیر خواہی بھی یہ نہیں کہ اس کی ہر حرکت کا دفاع کیا جائے، خیر خواہی یہ ہے کہ اسے روک کر کہا جائے وہ اندھے کنویں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ رک جائے۔
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Photo
پاکستان میں کورونا کے 539 نئے مریض ، مزید 15 اموات پاکستان میں کورونا وائرس کے نئے کیسوں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران ، ملک میں وائرس کے 539 نئے کیس رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ 15 اموات ہوچکی ہیں۔
0 notes
Photo
پاکستان میں کورونا کے 539 نئے مریض ، مزید 15 اموات پاکستان میں کورونا وائرس کے نئے کیسوں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران ، ملک میں وائرس کے 539 نئے کیس رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ 15 اموات ہوچکی ہیں۔
0 notes
Text
نصیر ترابی
جس تیزی اور کثرت سے اہلِ علم وفن گزشتہ ایک برس سے ہمارے درمیان سے اُٹھتے چلے جا رہے ہیں کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ اس کالم کا عنوان ’’چشمِ تماشا‘‘ کے بجائے ’’چشمِ گریہ‘‘ رکھ دیا جائے کہ ابھی ایک کا ماتم ختم نہیں ہوتا تو کسی دوسرے کی سناونی آجاتی ہے۔ جانا تو سب کو ہے اور اس حوالے سے کوئی بھی خبر کسی بھی وقت متوقع ہو سکتی ہے مگر جس طرح یار عزیز نصیر ترابی نے سب کو خدا حافظ کہا ہے اُس پر اب تک یقین نہیں آرہا کہ چند دن قبل جب اُس سے فون پر بات ہوئی تو اُس کی آواز میں معمول سے بھی زیادہ زندگی اور گرمجوشی تھی، وہ ایک ہم عصر نامور مشترکہ دوست کے کچھ روّیوں سے نالاں تھا اور غصے میں اُس کے کچھ حالیہ بیانات پر تنقید کے ساتھ ساتھ اُس کی کچھ پرانی باتیں یاد دلا رہا تھا۔ یہ اس کا مخصوص انداز تھا کہ وہ اپنی ناراضی کو دل میں رکھنے کا سرے سے قائل نہ تھا یہ اور بات ہے کہ وہ ایک sorry پر راضی ہو جاتا تھا اور پھر سب کچھ ایسے بھول جاتا تھا جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
نصیر سے ابتدائی تعارف گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی کے آخری برسوں میں ہوا جب وہ کراچی میں عبیداللہ علیم ، ذکاء الرحمن ا ور دیگر ساتھیوں کے ساتھ وہاں کی نئی نسل کا نمایندہ بن کر اُبھر رہا تھا اور اِدھر ہم پنجاب میں اپنی پہچان بنانے کے چکر میں تھے لیکن ہم میں ایک بات مشترک تھی کہ دونوں گروہ افتخار جالب اینڈ کمپنی کی مخصوص ’’مغربی جدیدیت‘‘کے بجائے اپنی مقامی روایت کے تسلسل اور احیا کے حامی تھے اور چند معمولی سے اختلافات سے قطع نظر اس بات پر متفق تھے کہ ہماری اصل پہچان ہماری عربی، فارسی اور ہندی کی مشترکہ روایت ہی ہے۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کے تاریخ ساز جریدہ ’’فنون‘‘ کے جدید غزل نمبر سے جس رشتے کا آغاز ہوا آیندہ تقریباً پچپن برس تک اُس میں کم یا زیادہ اضافہ تو ہوتا رہا لیکن کبھی کمی نہیں آئی۔ کسی بڑے علمی خانوادے میں پیدا ہونے کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ کو پہلے سے اونچی کی ہوئی بار تک پہنچنے میں دوسروں سے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے اور اکثر لوگ اس دباؤ کا سامنا نہیں کر پاتے مگر نصیر نے بہت نوجوانی کے دنوں میں ہی یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ اپنے والد رشید ترابی کی چھوڑی ہوئی عظیم روایت کا امین بھی ہے اور علم بردار بھی۔
اُس کے بارے میں یہ شکایت عام تھی کہ وہ اپنی ہی صحبت میں رہنا زیادہ پسند کرتا ہے لیکن اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ فروعات میں وقت ضایع کرنے کا قائل نہیں تھا صحبتِ ناجنس اور معمول کی محفل بازی سے اس گریز کی وجہ سے وہ مشاعروں میں کم کم نظر آتا تھا لیکن جو لوگ اُسے قریب سے جانتے ہیں وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ اپنی مرضی کی محفل میں وہ ایسے چمکتا تھا کہ ’’وہ کہے اور سُنا کرے کوئی‘‘۔ فیس بُک اور سوشل میڈیا کا ایک روشن پہلو یقیناً یہ ہے کہ ان کی معرفت اب شاعر اور شاعری عام لوگوں کی دسترس میں بھی رہنے لگے ہیں اور وہ اشعار جو کتابوں اور مشاعروں کے حوالے سے بمشکل ہزاروں تک پہنچتے تھے اب لاکھوں بلکہ بعض صورتوں میں کروڑوں تک بآسانی پہنچ جاتے ہیں۔ نصیر کی بہت سی شاعری اُس کی یا کسی گلوکار کی زبانی اُس کی زندگی میں بھی گردش میں تھی مگر اُس کی اچانک وفات سے تو جیسے ایک سیلاب سا آگیا ہے اور اُس کے ایسے ایسے شعر بھی دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں جو کسی وجہ سے حافظے میں یا سامنے موجود نہیں تھے اسی طرح اُس کی بہت سی باتیں بھی پہلی بار سننے کو ملیں۔
آخر میں اس کے لیے مغفرت کی دعا کے ساتھ ساتھ میں اُس کے چند ایسے اشعار اپنے قارئین سے شیئر کرتا ہوں جو شائد بہت زیادہ مشہور نہ ہوں مگر یہ کسی طرح بھی اس کے اُن اشعار سے کم تر نہیں جو فی الوقت سوشل میڈیا پر تکرار کے ساتھ پیش کیے جارہے ہیں۔
تم شہر آشنا ہو تمہی یک دلاں کہو اب کون مہرباں ہے کسے مہرباں کہو
شہر میں کس سے سخن رکھیئے کدھر کو چلئے اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کو چلیئے
پرائی آگ میں جل کر سیاہ پوش ہوئے خود اپنی آگ میں جلتے تو کیمیا ہوئے
وہ بے وفا ہے تو کیا ، مت کہو بُرا اُس کو کہ جو ہُوا سو ہُوا ، خوش رکھے، خدا اُس کو
وہ سادہ خُو تھا زمانے کے خم سمجھتا کیا ہوا کے ساتھ چلا، لے اُڑی ، ہوا اُس کو
آخر کو وحشتوں کا سلیقہ سا ہو گیا چلتے رہے تو راستہ اپنا سا ہو گیا
یوں دلد ہی کو دن بھی ہُوا رات بھی ہوئی گزری کہاں ہے عمر گزارا سا ہو گیا
دِیا سا دل کے خرابے میں چل رہا ہے میاں دیے کے گِرد کوئی عکس چل رہا ہے میاں
کچھ اُس کی کم سخنی پر بھی حرف آجاتا میں بولتا تو مجھی کو بُرا کہا جاتا
کیا بڑے لوگ ہیں یہ عشق میں مارے ہوئے لوگ اپنے امروز میں فردا کو گزارے ہوئے لوگ
تجھے کیا خبر مرے بے خبر مرا سلسلہ کوئی اور ہے جو مجھی کو مجھ سے بہم کرے وہ گریز پا کوئی اور ہے
دل کو بہا کے آنکھ کا سیلاب لے گیا دریا سے تیز تر ہیں رووں کی روانیاں
جب اُس گلی میں نہ ہم جیسے وحشتی ہوں گے تو دیکھنا درودیوار حسرتی ہوں گے
دیکھ لیتے ہیں اب اُس بام کو آتے جاتے یہ بھی آزار چلا جائے گا جاتے جاتے
امجد اسلام امجد
بشکریہ ایکسپریس نیوز
4 notes
·
View notes
Text
راحت اندوری ایک عہد ساز شاعر
مرے جذبے کی بڑی قدر ہے لوگوں میں مگر میرے جذبے کو مرے ساتھ ہی مر جانا ہے
ہندوستان کے معروف شاعر راحت اندوری کے وصال کی خبر مجھے راویش کمار سے کچھ یوں ملی کہ میں سنتا گیا بکھرتا گیا
ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
اندور کے راحت اندوری اب ہم میں نہیں رہے ۔ اپنی شاعری سے اندور کو ایک پہچان دی اور اپنی شہرت سے ایک بلند مقام پایا کبھی اندور کو خود سے الگ نہیں کیا، آج راحت اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو الوادع کہہ گیا اک شاعر کی زندگی کا حساب آپ چلتے پھرتے ٹی وی شوز کو دیکھ کر تو نہیں کر سکتے ہیں لیکن وہ تھے مزاج سے بہت ضدی لگتا تھا کہ وہ اپنی شاعری کے ذریعے دنیا سے ٹکرا گئے ہیں لکھتے ہیں۔
مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا دنیا کو
راحت تو مزاج اور کلام کے اعتبار سے بھی راحت تھے۔ کروڑوں لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرنے والا راحت، دنیا کو داغ مفارقت دے گیا۔ راحت سچے جذبوں کا امین اور مرزا کی طرح ضدی، حبیب جالب کی طرح طوفانوں سے ٹکرانے والا ، مخالفین کے ہوش ٹھکانے لگانے والا، لاکھوں کے مجمع میں اپنے موقف کو اشعار میں بدلنے والا کروڑوں مسلمانوں کی ترجمانی کرنے والا، راحت شعراء کی مجلس کے لیے راحت تھا ، ادب کا یہ بلند درخت اہل علم وفن کے لیے سایہ دار پیڑ تھا، وہ مشہور بھی تھا اورمعروف بھی۔
لوگ ہر موڑ پہ رُک رُک کے سنبھلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں
میکدہ ظرف کے معیار کا پیمانہ ہے
خالی شیشوں کی طرح لوگ اُچھلتے کیوں ہیں
موڑ ہوتا ہے جوانی کا سنبھلنے کے لیئے
اور سب لوگ یہیں آ کے پھسلتے کیوں ہیں
نیند سے میرا تعلق ہی نہیں برسوں سے
خواب آ، آ کے مری چھت پہ ٹہلتے کیوں ہیں
میں نہ جگنو ہیں، دیا ہوں نہ کوئی تار ا ہوں
روشنی والے مرے نام سے جلتے کیوں ہیں
راحت ، محبت ، امن ، بغاوت ، مزاحمت اور سبق اموز شاعری کا روشن باب تھا۔ راحت جوش ملیحہ آبادی کی طرح فتنہ پردازوں کی خوب کلاس لیتا اپنے کلام کے ذریعے بھارت میں انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والوں کی خوب کلاس لیتا۔
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
منفی سیاست کے چال چلن کا بھرپور پوسٹ مارٹم کیا کرتے ۔ اپنے انوکھے انداز اور حسین امتزاج اور شاندار کلام سے لوگوں کے من موہ لیتے، بلاشبہ وہ اپنے ہم عصروں میں بلند پایہ مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے مشاعروں کو اپنے موجودگی سے پہچان بخشی، ان کے بغیر انٹرنیشنل مشاعرہے ادھورے رہا کرتے ۔
افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کر دیا
دو گز سہی مگر یہ مِری ملکیت تو ہے
اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کر دیا
راحت مزاج کے اعتبار سے نرم دل اپنے دوست شعراء کا خاص خیال رکھتے۔ سلیم احمد کاظمی لکھتے ہیں کہ غریب شعرا کی مدد اور مرحوم شعرا کے گھر والوں خبر گیری خاموشی سے کرتے تھے ایک بار غالباً طویٰ کے مشاعرہ میں کمیٹی بغیر پیمنٹ دیے غائب ہو گی تھی، کی شعرا کو کرایہ دیا اور کچھ رقم خاموشی سے ان کی جیب میں ڈال دی، مجھے مشاعرہ کی دنیا میں اس سے اچھا انسان نہیں ملا ـ۔
یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا
مولانا فیضی نے کہا کہ راحت صاحب نے برسوں تک اردو ادب کے گی��و سنوارنے کے ساتھ کئی نسلوں کی اس طرح تربیت کی کہ آج پوری اردو دنیا میں قدم قدم پر آپ کے ایسے پروردہ افراد نظر آتے ہیں جن کو آپ نے اردو ادب کے ساتھ چلنے کا ہنر سکھایا تھا، انہوں نے کہا کہ راحت صاحب نے تو دنیا کو الوداع کہہ دیا؛ مگر انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ انسانی برادری کے لئے جو پیغام چھوڑے ہیں وہ ہمیشہ ادب سے وابستہ افراد کو ان کی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں گے۔ بلاشبہ راحت کی بے باکی اور للکار ایوانوں اور ادبی محفلوں کی رونق رہے گی ۔
گھروں کے دھنستے ہوئے منظروں میں رکھے ہیں
بہُت سے لوگ یہاں مقبروں میں رکھے ہیں
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
مَیں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی
تم نے اچھا ہی کیا مجھ سے کنارہ کر کے
راحت کے اشعار میں زندگی کا ہر رنگ نظرآتا ہے دوستی اور دشمنی سے متعلق لکھتے ہیں۔
دوستی جب کسی سے کی جائے دشمنوں کی بھی رائے لی جائے
راحت اندوری کی پیدائش یکم جنوری 1950 کو ہوئی تھی۔ اندور کے ہی نوتن سکول میں انھوں نے ہائیر سیکنڈری کی تعلیم حاصل کی اور وہیں کے اسلامیہ کریمیہ کالج سے انھوں نے گریجوئیشن کرنے کے بعد برکت اللہ یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ ایک سنجیدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ نوجوان نسل کی نبض تھامنا خوب جانتے تھے۔
مرے بیٹے کسی سے عشق کر مگر حد سے گزر جانے کا نئیں وہ گردن ناپتا ہے ناپ لے مگر ظالم سے ڈر جانے کا نئیں
سڑک پر ارتھیاں ہی ارتھیاں ہیں ابھی ماحول مر جانے کا نئیں وبا پھیلی ہوئی ہے ہر طرف ابھی ماحول مر جانے کا نئیں
راحت صاحب کی مجموعی شاعری میں سچائی وبے باکی کی روشن علامت ہے۔سیدھے سادھے لفظوں سے راحت نے تلخ سے تلخ پیغام بڑے اچھوتے انداز سے دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار مرزا، سودا، جالب اور جوش کی یاد تازہ کرتے ہیں ، ان کا اچھوتا انداز منفرد لہجہ انہیں دیگر شعرا سے ممتاز دکھاتا ہے ۔
میں نہ جگنو ہیں، دیا ہوں نہ کوئی تارا ہوں روشنی والے مرے نام سے جلتے کیوں ہیں
راحت کے وصال کی خبر عالم ادب کے لیے بجلی بن کر گری ہر خاص وعام بلادِ ہند سے لے کر بلادِ حجاز ومغرب سبھی راحت کے چلے جانے پر دکھی ہیں ۔
جسم سے ساتھ نبھانے کی مت امید رکھو
اس مسافر کو تو رستے میں ٹھہر جانا ہے
موت لمحے کی صدا زندگی عمروں کی پکار
میں یہی سوچ کے زندہ ہوں کہ مر جانا ہے
راشد علی
بشکریہ روزنامہ جسارت
6 notes
·
View notes
Text
***** زہرہ فونا کی کراچی آمد*****
سن 1970 ء میں انڈونیشیا ایک خاتون زہرہ فونا نے امام مہدی کی والدہ ہونے کا دعو ا کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے رحم میں پرورش پانے والا بچہ امام مہدی ہے کیونکہ اسکے پیٹ سے کان لگا کر سننے پر اذان اور تلاوت قران کی آواز آتی ہے۔یہ خبر زہرہ فونا کے پڑوس اور محلے سے نکل کر پورے شہر اور پھر سارے انڈونیشیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگ جوق در جوق اس خاتون کا دیدار کرنے اور اس کے پیٹ سے کان لگا کر اذان و تلاوت کی آوز سننے کے لئے آنے لگے۔ جب یہ خبر اخبارات کے ذریعے انڈونیشی حکام تک پہنچی تو سب سے پہلے نائب صدر آدم مالک نے زہرہ کو اپنی رہائش گاہ مدعو کیا اور اس سے ملاقات کر کے اذان سنی۔ اس کے بعد انڈونیشیا کے وزیر مذہبی امور محمد ڈیچلن نے زہرہ سے ملاقات کی ا س کے بعد تو گویا انڈونیشی حکام کی زہرہ فونا سے ملاقات کی لائن لگ گئی۔ خود صدر سوہارتو اور ان کی بیگم نے بھی زہرہ سے ملاقات کی۔ زہرہ کی شہرت انڈونیشیا سے نکل کر پورے عالم اسلام میں پھیل گئی اور کئی اسلامی مم��لک کے سربراہاں نے زہرہ کو اپنے ملک آنے کی دعوت دی۔مختلف مسلمان ممالک میں زہرہ فونا کو سرکاری دعوت پر بلانے کا سلسلہ شروع ہواتو ہماری حکومت نے بھی پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دے ڈالی۔
زہرہ فونا کی کراچی آمد کے بعد چند علماء نے اپنے کانوں سے اذان کی آواز سنی اور انہوں نے اس بات کی تصدیق کردی کہ زہرہ کے پیٹ میں پرورش پانے والا بچہ امام مہدی ہی ہے۔جنگ گروپ نے زہرہ فونا کو بھرپور کوریج دی اور اس کے چرچے پاکستان کی گلی گلی میں ہونے لگے‘ کراچی میں زہرہ کو سرکاری پروٹوکول حاصل ہوگیا۔ مگر لیکن چند سائنٹفک سوچ رکھنے والے ڈاکٹروں کے لئے اس بات پر یقین کرنا مشکل ہوگیا چنانچہ انہوں نے صحیح صورت حال معلوم کرنے کا فیصلہ کرلیا‘ ڈاؤ میڈیکل اور اس کے بعد سندھ میڈیکل کالج کی طالبات نے زہرہ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی مگر زہرہ فونا ہر بار ان طالبات کو چکر دے کر نکل جاتی۔ ایک دن سندھ میڈیکل کالج کی طالبات نے زہرہ کو قابو کرکے معائنہ کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے اور دوران تفتیش زہرہ فونا کی ٹانگوں کے درمیان پھنسا ہوا ننھا منا ٹیپ ریکارڈر برآمد کرلیا۔اسی روز زہرہ فونا پاکستان سے براستہ انڈیا انڈونیشیا بھاگ گئی۔ بعد میں زہرہ فونا اور اس کے شوہر انڈونیشیا میں گرفتار ہوئے اور انہوں نے قبول کیا کہ یہ سب انہوں نے دولت اور شہرت حاصل کرنے کے لئے کیا تھا۔
اس معاملے میں ہم علماء کو اس لئے موردازام نہیں ٹھہرا سکتے کہ 1970 ء میں ٹیپ ریکارڈر کوئی عام چیز نہ تھا بلکہ پاکستان میں شاید ہی کوئی ٹیپ ریکارڈر استعمال کرتا ہو۔ لوگ صرف ریڈیو کو جانتے تھے یا کچھ بہت ہی متمول افراد ٹی وی استعمال کرتے تھے۔ دوسرا اس زمانے میں جو ٹیپ ریکارڈر استعمال ہوتے تھے وہ اتنے حجم اور وزن میں ایسی نہ تھے کہ کوئی ان کو اپنی ٹانگوں کے درمیان چھپا سکتا تھا۔ تیسرا علماء‘ دین کے علم میں تو ماہر تھے لیکن اپنی سادہ لوحی اور جدید سائنسی ایجادات سے ناواقفیت کی بنا پر ان کا دھیان اس جانب قطعی نہیں گیا کہ انہوں نے صرف ریڈیو پاکستان میں بڑے اسپول والے ریکارڈر ہی دیکھے ہونگے۔ اور انہوں نے اذان کی آواز سن کر امام مہدی کے اس خاتون کے پیٹ میں ہونے کے کی تصدیق کردی۔دوسری سن 1969 ء میں اولمپس نامی مشہور کمپنی نے منی کیسٹ پلئیر پہلی مرتبہ مارکیٹ میں متعارف کروایا تھا لیکن یہ ایک خاص چیز تھا اور عام عوام اس کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔ اس قسم کے آلات یورپ امریکہ اور جاپان میں لوگوں کی دسترس میں تھے اور ان کو جیمس بانڈ ٹائپ فلموں میں بطور ایک نئی ایجاد جاسوسی کے لئے استعمال ہونے والی ڈیوائس کے طور پر دکھایا جاتا تھا اور فلم بینوں کے لئے بھی یہ ایک حیرت انگیز چیز ہوتی تھی۔شاید یہی منی پلیئر زہرہ فونا نے بھی استعمال کیا ہوگا۔یہ بھی دیکھئے کہ جس خاتون نے اپنے ملک کے صدر اور دیگر حکام بالا تک کو ماموں بنا دیا اس کے سامنے ہماری کی حیثیت تھی یہ تو اللہ بھلا کر میڈیکل کالج کی طالبات کا جنہوں نے زہرہ کا بھانڈا پھوڑ کر دنیا کو مزید بے وقوف بنانے سے بچالیا۔
قران پاک کی سورہ حجرات کی آیت94میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ”اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کئے پر پیشمانی اٹھاؤ۔”
ذرائع -: روزنامہ دی نیوز‘ ہیومن رائٹس ایشیاء‘ سیاست ڈوٹ پی کے‘ ہیرالڈویکلی ڈوٹ کوم‘نیا زمانہ ڈوٹ کوم۔
1 note
·
View note
Text
پل دو پل کے عیش کی خاطر
خبر دینے والوں کو اکثر یہ پتا ہوتا ہے کہ وہ خود بھی ایک خبر بن سکتے ہیں۔ کوئی خوف کے مارے خبر روک لیتا ہے، کوئی خبر نہیں روکتا اور پھر خود بھی خبر بن جاتا ہے۔ عزیز میمن بھی ایک ایسا ہی صحافی تھا جس کو پتا تھا کہ اُس کی خبریں طاقتور لوگوں کو ناراض کر رہی ہیں۔ یہ طاقتور لوگ بڑے بزدل ہوتے ہیں۔ صحافیوں پر سامنے سے حملہ نہیں کرتے۔ کبھی نامعلوم بن کر پیچھے سے وار کرتے ہیں اور کبھی دوست بن کر دھوکا دیتے ہیں۔ ایسے بزدل اور کمینے دشمنوں کے بارے میں فیض احمد فیضؔ نے کہا تھا؎
نہ خاک پہ کوئی دھبہ، نہ بام پہ کوئی داغ کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
عزیز میمن کو قتل کر کے اُس کی لاش محراب پور کی ایک نہر میں پھینک دی گئی اُن کی گردن کے گرد اُن کے ٹی وی چینل کا مائیک اور تار لپیٹی گئی لیکن اُن کی موت گردن دبانے سے نہیں بلکہ زہریلا انجکشن لگانے سے ہوئی۔ عزیز میمن محراب پور پریس کلب کے صدر بھی تھے اور پچھلے سال پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کے ٹرین مارچ کے دوران اُنہوں نے کچھ عورتوں سے بات کی جو محراب پور ریلوے اسٹیشن پر بلاول کے استقبال کیلئے موجود تھیں۔ ان عورتوں نے عزیز میمن کو سندھی میں بتایا کہ پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما انہیں دو ہزار روپے کا لالچ دے کر یہاں لائے لیکن اُنہیں صرف دو سو روپے دیے گئے۔ عزیز میمن نے ان عورتوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ اپنے چینل کو فراہم کی لیکن چینل نے یہ گفتگو نشر نہیں کی۔
اس دوران عزیز میمن نے اس گفتگو کی وڈیو سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ پیپلز پارٹی والوں نے اس وڈیو کو ایک سازش قرار دے دیا اور عزیز میمن کو دھمکیاں ملنے لگیں لہٰذا اُنہوں نے ایک وڈیو بیان میں ایک مقامی پولیس افسر اور پیپلز پارٹی کے مقامی لیڈروں کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کا ذکر کیا اور بلاول بھٹو زرداری سے مدد کی اپیل کی۔ اس وڈیو کی وجہ سے اُن پر دبائو کچھ عرصہ کے لئے کم ہو گیا لیکن 17؍ فروری کو اُنہیں بڑے ظالمانہ طریقے سے ایک دہشت ناک خبر بنا دیا گیا اور اُن کے گلے میں چینل کا مائیک اور تار لپیٹ کر پیغام دیا گیا کہ جو بھی ہمارے بارے میں خبر دے گا ہم اُسے خبر بنا دیں گے۔ عزیز میمن کے قتل پر تحریک انصاف کے وفاقی وزرا اور پیپلز پارٹی کے صوبائی وزرا کے بیانات ثابت کر رہے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
وزیراعظم عمران خان آج کل میڈیا کو مافیا قرار دینے سے گریز نہیں کرتے لیکن اُن کے وزرا کو اچانک آزادیٔ صحافت یاد آ گئی ہے اور وہ عزیز میمن کے قتل کی آڑ میں پیپلز پارٹی پر تنقید کر رہے ہیں۔ کوئی جے آئی ٹی بنانے کا مطالبہ کر رہا ہے، کوئی عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ پچھلے بیس سال میں ڈیڑھ سو سے زیادہ صحافی قتل ہو چکے ہیں، کسی صحافی کے قاتل کی سزا پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ عدالتی کمیشن تو حیات اللہ خان کے قتل پر بھی بنا تھا۔ اس عدالتی کمیشن کو بیان دینے پر اُن کی اہلیہ کو بھی قتل کر دیا گیا لیکن شمالی وزیرستان کے اس بہادر صحافی کے قتل کی تحقیقات کے لئے بننے والے عدالتی کمیشن کی رپورٹ آج تک ��امنے نہیں آئی۔ عدالتی کمیشن سلیم شہزاد کے قتل پر بھی بنا لیکن قاتلوں کی نشاندہی نہ کر سکا۔
جے آئی ٹی ��و ولی خاں بابر کے قتل پر بھی بنی کچھ ملزم بھی گرفتار ہوئے لیکن پھر تمام گواہ قتل کر دیے گئے۔ پاکستان میں صحافیوں کے قتل کی کہانیاں بہت خوفناک ہیں۔ حیات اللہ خان اور موسیٰ خان خیل کو اپنے قتل سے پہلے پتا تھا کہ وہ خبر بننے والے ہیں۔ وہ چاہتے تو مصلحت کی چادر اوڑھ سکتے تھے لیکن اُنہوں نے موت کو گلے لگا کر کفن اوڑھ لیا۔ 2014 میں لاڑکانہ کے صحافی شان ڈاہر کو جعلی ادویات اسپتالوں کو فراہم کرنے والوں کے خلاف خبر دینے پر گولیاں ماری گئیں۔ شان ڈاہر نے مرنے سے قبل دو افراد کو اپنا قاتل قرار دیا، دونوں کو سزا نہ ملی۔ ایک اور بہادر صحافی ارشاد مستوئی کو کوئٹہ میں اُن کے دفتر میں گھس کر شہید کر دیا گیا۔ کچھ دنوں بعد ایک کالعدم تنظیم کے دو ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔
ان ٹارگٹ کلرز نے ارشاد مستوئی کے علاوہ بی این پی مینگل کے رہنما حبیب جالب بلوچ کو قتل کرنے کا اعتراف کیا اور بتایا کہ وہ ماما قدیر کو بھی قتل کرنا چاہتے تھے۔ کچھ دنوں بعد ان دونوں ٹارگٹ کلرز کو مستونگ میں ایک پُراسرار مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا اور ارشاد مستوئی کے قتل کی فائل بند ہو گئی۔ 2017 میں ہری پور کے ایک صحافی بخش الٰہی کو قتل کر دیا گیا۔ خیبر پختونخوا پولیس نے اُن کے قتل کے الزام میں تحریک انصاف کی ایک مقامی لیڈر کونسلر کو گرفتار کیا لیکن اُسے سزا نہیں ہوئی۔ 2018 میں سمبڑیال کے ایک صحافی کو بیگووالہ یونین کونسل کے چیئرمین عمران اسلم چیمہ نے قتل کی دھمکیاں دیں تو صحافی ذیشان اشرف بٹ نے فون پر پولیس کو اطلاع دی کہ اُنہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں، ابھی اُن کی فون کال ختم نہیں ہوئی تھی کہ اُنہیں گولیاں مار دی گئیں۔
قاتل کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا۔ وہ آج تک گرفتار نہ ہو سکا۔ کراچی کے ایک صحافی نصراللہ چوہدری کو گھر سے قابلِ اعتراض مواد برآمد ہونے پر پانچ سال قید کی سزا سنا دی گئی لیکن صحافیوں کے قاتلوں کے خلاف ٹرائل ہی مکمل نہیں ہوتا۔ پاکستان کی صحافی برادری کئی سال سے صحافیوں کے تحفظ کے لئے جرنلسٹس پروٹیکشن بل کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) آزادیٔ صحافت کی حمایت تو کرتی ہیں لیکن دونوں جماعتوں نے صحافت کو سیڑھی بنا کر کچھ من پسند صحافیوں کو سرکاری نوکریاں دینے کے سوا کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے جرنلسٹس پروٹیکشن بل کا ایک مسودہ تیار کر لیا ہے لیکن وزارتِ قانون اس مسودے میں سے کیڑے نکال رہی ہے۔
جرنلسٹس پروٹیکشن بل کے ذریعہ کم از کم صحافیوں کے خلاف جرائم کے ذمہ داروں کو سزا دلوانے کے لئے ایک طریقہ کار وضع ہو جائے گا اور اگر موجودہ حکومت یہ بل منظور کرا لے تو اس کا کریڈٹ صرف ایک پارٹی کو نہیں تمام پارٹیوں کو ملے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ زور زبردستی اور طاقت سے صحافیوں کو دبا لے گا تو وہ احمقوں کی جنت کا مکین ہے۔ ہاں ہم جانتے ہیں کہ خبر دینے والوں کو خبر بنانے کے زعم میں مبتلا لوگ بہت طاقتور ہوتے ہیں، سوشل میڈیا پر جعلی ناموں سے گالیاں دیتے اور نامعلوم افراد کے ذریعہ عزیز میمن کو قتل کرا دیتے ہیں لیکن عزیز میمن جیسے سر پھرے یہاں بہت ہیں جو موت سے نہیں ڈرتے اور خبر بننے سے بھی نہیں ڈرتے بقول جالبؔ؎
پل دو پل کے عیش کی خاطر کیا دبنا، کیا جھکنا آخر سب کو ہے مر جانا، سچ ہی لکھتے جانا
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note
·
View note
Text
شریف کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟
پھر ہم کہتے ہیں کہ ہمارے حالات کیوں نہیں بدلتے؟؟ سب کچھ کر دیکھا لیکن معیشت ہے کہ سدھرنے کا نام ہی نہیں لے رہی !! قدرتی آفات ہیں کہ ایک کے بعد ایک ہمیں گھیرے رکھتی ہیں، اس بار جو سیلاب آیا ہے اُس نے ��و تباہی کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ موسمی تغیر میں قصور ترقی یافتہ ملکوں کا ہے اور سزا پاکستان کو مل رہی ہے۔ دنیاوی لحاظ سے جو ممکن ہے وہ سب کچھ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن افسوس کہ وہ کچھ کرنے میں کوئی دلچسپی دکھائی نہیں دے رہی جس کا حکم ہمیں ہمارا دین ِمتین دیتا ہے۔ موسم کی تبدیلی کی وجوہات پر ضرور غور کریں اور جو عوامل خرابیاں پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں اُنہیں بھی درست کرنے کی لازمی کوشش کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمات کے مطابق ہمیں بحیثیت قوم اپنے انفرادی اور اجتماعی اعمال کو بھی ضرور دیکھنا چاہئے کہ کہاں کہاں کیسی کیسی خرابیاں ہیں اوران کو کیسے درست کیا جائے اچھی بات ہے کہ حکومتی سطح پر سیلاب اور اس کے متاثرین کے حوالے سے بڑی سوچ بچار ہو رہی ہے.
میٹنگز پر میٹنگز جاری ہیں تو کوئی ایک ایسی میٹنگ بھی بلا لیں جس میں ذرا اس بات پر غور کرلیا جائے کہ ہم کہاں کہاں اور کیسے کیسے اپنے خالق و مالک کو ناراض کر رہے ہیں؟ آخر ایسا کیا ہے کہ بحیثیت قوم ہم میں اور ہمارے معاشرہ میں ایسی ایسی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں کہ ہمیں اخلاقی اور سماجی طور پر بدترین تنزلی کا سامنا ہے۔ جب کوئی آفت آئے تو متاثرین کی مدد کریں. آئندہ کے لئے ایسی تباہی سے بچنے کی تدبیر بھی کریں، ایسے تمام عوامل جو بظاہر سیلاب کا سبب بنتے ہیں اور تباہی کو بڑھاتے ہیں اُن کا ہر ممکن حد تک ادراک بھی کریں، ڈیم بنائیں، لوگوں کو پکے گھر بنا کر دیں، دنیا کو بھی ضرور باور کروائیں کہ موسمی تبدیلی کا سبب تو دنیا کے بڑے بڑے ممالک ہیں پر اس کا شکار پاکستان ہو رہا ہے !! تاہم اس کے ساتھ ساتھ اپنی قوم اور معاشرے کے اخلاق اور کردار کو بھی ٹھیک کرنے کا سوچیں۔ گزشتہ روز جنگ اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی، جس کے مطابق پاکستانی معاشرے کی کردار سازی کے لئے عمران خان دور میں قائم کیا گیا ادارہ’’ رحمتہ ا للعالمین اتھارٹی ‘‘ایکٹ منظور ہونے کے باوجود ابھی تک غیر فعال ہے۔
اس اتھارٹی کو عمران خان دور میں صدارتی آرڈننس کے تحت قائم کیا گیا، اس کے چیئرمین اور دوسرے ممبران بھی تعینات کئے گئے۔ اس ادارے نے کام بھی شروع کر دیا۔ شہباز شریف حکومت نے اگرچہ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کروا دی تھی لیکن پھر بھی یہ ادارہ فعال نہ ہو سکا کیوں کہ قانون سازی کے نتیجے میں کی جانے والی تعیناتیوں کے لئے حکومت کے پاس وقت نہیں۔ اس اتھارٹی کا قیام عمران خان حکومت کے چند بہترین کاموں میں سے ایک تھا۔ اگر ہم سوچیں سمجھیں تو بحیثیت قوم ہمارا سب سے بڑا المیہ ہی یہی ہے کہ ہمیں کردار اور اخلاق کےاعتبار سے بدترین بدحالی کا سامنا ہے اور معاشرے کی کردار سازی اور تربیت کے نہ ہونے کی وجہ ��ے ہمارے معاشرے میں ہر قسم کی خرابی، بُرائی سرائیت کر چکی ہے اور آئے دن ایسے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ انسانیت سر پیٹ کر رہ جاتی ہے۔
موجودہ حکومت سے میری گزارش ہے کہ اس اتھارٹی کو فوری طور پر فعال کر کے معاشرے کی کردار سازی اور تربیت کے کام کو جنگی بنیادوں پر شروع کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت اور پارلیمنٹ خوا��ہ سرا کے نام پر بنائے گئے انتہائی خطرناک اور غیر اسلامی قانون ٹرانس جینڈر ایکٹ پر نظر ثانی کرے اور اس کی اُن تمام دفعات میں ترامیم کرے جو معاشرے میں ہم جنس پرستی، بے راہ روی اور فحاشی و عریانی کو بڑھاوا دینے کا سبب بن سکتی ہیں۔ ایک اور معاملہ جو ہماری تباہی کا سبب بن رہا ہے. بدقسمتی سے حکومت اُس کی درستی میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی، وہ معاملہ وفاقی شرعی عدالت کے حکم کے مطابق سود کے خاتمہ کا ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا اور اب پھر عرض گزار ہوں کہ یہ شریف خاندان اور ن لیگ کی بدقسمتی نہیں تو کیا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے دو بار (1992 اور 2022) سود کے خلاف اور اس کے خاتمے کا فیصلہ دیا لیکن دونوں بار ان فیصلوں کو حکومتی بینکوں کے ذریعے چیلنج کر دیا گیا۔
دونوں بار ن لیگ کی حکومت تھی، پہلی بار نواز شریف وزیر اعظم تھے اور اس بار شہباز شریف وزیر اعظم ہیں۔ نواز شریف، شہباز شریف، مفتاع اسمعٰیل، اسحاق ڈار، احسن اقبال اور دوسرے بڑے بڑے ن لیگی رہنمائوں کو سود کے خاتمے کے معاملہ پر علماء کرام سمیت بہت سوں نے وارننگ دی لیکن اس کے باوجود اسٹیٹ بینک کے ذریعے شرعی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ جب اس اقدام پر شور اُٹھا تو کہا گیا کہ ہم اس اپیل کو واپس لیں گے لیکن ابھی تک ایسا نہیں کیا گیا۔ سود کے معاملے میں اسلام کیا کہتا ہے سب کو معلوم ہے لیکن اس کے باوجود اگر ن لیگی اور شریف خاندان اس لعنت کے دفاع کا ہی فیصلہ کریں گے تو پھر سوچ لیں، سمجھ لیں کہ سیاسی طور پر، معاشی طور پر بلکہ کسی بھی لحاظ سے کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
مہاراشٹر کے وزیر اعلی ایکناتھ شندے ہوں گے: دیویندر فڑنویس کا اعلان
مہاراشٹر کے وزیر اعلی ایکناتھ شندے ہوں گے: دیویندر فڑنویس کا اعلان
مہاراشٹر کے وزیر اعلی ایکناتھ شندے ہوں گے:دیویندر فڑنویس کا اعلان مہاراشٹر ا،30جون( ایجنسیز) مہاراشٹر کی سیاست میں اس وقت سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ مہاراشٹر کے نئے وزیر اعلی ایکناتھ شندے ہوں گے۔ ان کی حلف برداری آج شام 7:30 بجے ہوگی۔ خود دیویندر فڑنویس نے اس کا اعلان کیا۔ بی جے پی لیڈر دیویندر فڑنویس نے کہا کہ ہم نے شندے دھڑے اور اپنے ایم ایل ایز کی حمایت کا خط گورنر کو سونپ دیا ہے۔ ایکناتھ…
View On WordPress
0 notes
Text
پاکستان سری لنکا سے بدتر ہو چکا ؟
پاکستان کی معیشت کے حالات سری لنکا سے بھی بُرے ہو چکے لیکن ہماری لڑائیاں اور ہماری سیاست ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ امریکی جریدے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان مہنگائی میں سری لنکا سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نہ صرف پاکستان میں مہنگائی کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہے بلکہ پاکستان کی کرنسی سری لنکا سے کمزور اور غذائی اشیاء بھی اُس ملک سے مہنگی ہیں جو ڈیفالٹ کر چکا اور جس کی مثالیں دے دے کر ہمارے حکمراں بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستان کو سری لنکا نہیں بننے دیں گے اور یہ کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 1964 کے بعد سب سے زیادہ ہے یعنی مہنگائی نے 58 سالہ ریکارڈ توڑ دیا۔ یعنی پاکستان کے معاشی حالات ڈیفالٹ سے پہلے ہی اتنے بُرے ہو چکے ہیں کہ ہم نے سری لنکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یاد رہے کہ ابھی تک آئی ایم ایف سے ڈیل نہیں ہو سکی۔ یہ ڈیل کب ہو گی اس بارے میں بھی کسی کو کوئی خبر نہیں۔ حکومت کئی بار کہہ چکی کہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط مکمل کر چکی لیکن ڈیل پھر بھی نہیں ہو رہی اور نئی سے نئی شرائط سامنے آ رہی ہیں۔
اب تو یہ کہا جا رہا ہے کہ اگلے سال کے بجٹ کی تیاری پر آئی ایم ایف کی نظر ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اگلا بجٹ اُس کی شرائط کے مطابق ہو۔ گویا آئی ایم ایف ڈیل کے متعلق صورتحال اب بھی گو مگو کی ہے اور اگر پاکستان خدانخواستہ ڈیفالٹ کر جاتا ہے تو پھر اندازہ لگا لیں کہ ہمارے حالات کس قدر تشویش ناک ہو سکتے ہیں۔ مہنگائی جو پہلے ہی بہت زیادہ بڑھ چکی اور عوام کا حال بہت خراب ہو چکا، ڈیفالٹ کی صورت میں یہاں حالات کیسے ہو سکتے ہیں سوچ کر ہی بندہ خوفزدہ ہو جاتا ہے پی ڈی ایم جو بڑے دعوئوں کے ساتھ عمران خان کی حکومت ختم کر کے اقتدار میں آئی تھی وہ معیشت کو سنبھالنے میں مکمل ناکام ہو چکی اور مہنگائی تحریک انصاف کے دورسے بہت زیادہ بڑھ چکی۔ خیال تھا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر حکومت اور تحریک انصاف کے بیچ شروع ہونے والے مذاکرات سے کچھ بہتر نتیجہ نکلے گا لیکن افسوس ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔ حکمراں جلد الیکشن کرانے پر تیار نہیں تو تحریک انصاف ستمبر اکتوبر تک انتظار کرنے پرراضی نہیں۔
یہ سیاسی کشمکش دراصل اقتدار کی جنگ ہے اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ عوام اور پاکستان کے نام پر سیاست کرنے والوں کو معیشت کی کوئی فکر نہیں۔ ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ معیشت پر سب مل کر میثاق کر لیں، اس پر سیاست سے باز رہیں لیکن معیشت کیلئے یہ دونوں فریق کبھی ا کٹھے نہیں بیٹھے۔ بیٹھے ہیں تو الیکشن کی تاریخ کیلئے یعنی ایک فریق اقتدار سے کسی بھی حالت میں چمٹا رہنا چاہتا ہے تو دوسرا اُسے باہرنکالنے کے در پے ہے اور جلد از جلد خود اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کا خواہاں ہے۔ حکومتی اتحاد اور خصوصاً ن لیگ کی کوشش ہے کہ آئندہ سال کا بجٹ پیش کر کے عوام کیلئے کچھ نہ کچھ ریلیف کا اعلان کیا جائے۔ تحریک انصاف نہیں چاہتی کہ موجودہ حکومت آئندہ سال کا بجٹ پیش کرے۔ عمران خان اور اُن کے ساتھیوں کو خطرہ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ حکومت آئندہ الیکشن کی خاطر اپنے ووٹروں کو خوش کرنے کے لئے کوئی ایسا بجٹ پیش کر دے جو آئی ایم ایف کی شرائط کے خلاف ہو اور جس کی وجہ سے آئندہ آنے والی حکومت کیلئے مشکلات ہی مشکلات ہوں۔
تحریک انصاف کو امید ہے کہ آئندہ اُ ن کی حکومت ہو گی اسی لئے وہ مطالبہ کر رہی ہے کہ آئی ایم ایف کے مشورے سے بجٹ تیار کیا جائے۔ تحریک انصاف کو شاید ڈر ہے کہ پی ڈی ایم اُس کے ساتھ وہ کچھ نہ کر دے جو اپنی حکومت کے خاتمہ سے چند ہفتہ قبل عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوے عوام کو خوش کرنے کیلئے پٹرول اور ڈیزل سستا کر کے کیا تھا۔ اگر پی ڈی ایم اور ن لیگ وہی کرتے ہیں جو گزشتہ سال تحریک انصاف نے کیا تھا تو یہ دراصل پاکستان پر بڑا ظلم ہو گا، عوام سے زیادتی ہو گی۔ ایک دوسرے سے بدلہ لینے کا سوچنے کی بجائے میری حکومت اور تحریک انصاف سے درخواست ہے کہ آئندہ سال کے بجٹ کو دونوں فریق مل کر پاکستان کیلئے، ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے اور معیشت کو ٹھوس بنیادیں فراہم کرنےکیلئے تیار کریں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Photo
لبنانی حکومت کے مستعفی ہونے کا امکان!! بیروت میں تباہ کن بم دھماکوں کے بعد لبنانی حکومت پیر کو استعفیٰ دینے کے لئے تیار ہے۔ متعدد وزراء نے استعفی دینے کے امکان کی بات کی ہے۔
0 notes