#صدر بائیڈن
Explore tagged Tumblr posts
Text
اردن میں فوجیوں کی ہلاکت پر امریکی جواب کا فیصلہ کر لیا، بائیڈن
صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اردن میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے ڈرون حملے کا امریکہ کیا جواب دے گا۔ فلوریڈا میں فنڈ ریزر کے لیے وائٹ ہاؤس سے نکلتے ہوئے، بائیڈن نے کہا: “مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں مشرق وسطیٰ میں وسیع جنگ کی ضرورت ہے۔” شام کی سرحد کے قریب اتوار کو ہونے والے حملے میں درجنوں مزید زخمی ہوئے۔ایک ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا گروپ نے امریکی فوجی اڈے پر حملے کی…
View On WordPress
0 notes
Text
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے صدارتی انتخابات کے نتائج قبول کرلیے
واشنگٹن(ڈیلی پاکستان آن لائن)امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے صدارتی انتخابات کے نتائج کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم عوام کا فیصلہ تسلیم کرتے ہیں اور 20 جنوری 2025 کو پرُ امن اقتدار کی منتقلی ہو گی ، امریکی انتظامیہ ٹرمپ کی ٹیم کےساتھ ملک کی ترقی کےلیےکام کرگی۔امریکی صدر جوبائیڈن نے وائٹ ہاوس کے روزگارڈن میں عوام سے اپنے خطاب میں کہا کہ میں نے ٹرمپ کو یقین دلایا ہے کہ میں ان کی ٹیم کے ساتھ مل کر…
0 notes
Text
کملا ہیرس کا حملہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کیسے ناکام کیا؟ جیت کی چند اہم وجوہات
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت ایک تاریخی موڑ ہے۔ انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کو شکست دی۔ یہ پہلی بار تھا کہ سابق صدر، جو پچھلا الیکشن ہار چکے تھے، دوبارہ صدر بننے میں کامیاب ہوئے۔ ٹرمپ کی جیت کے کچھ اہم عوامل، جو مختلف سروے اور عوامی آراء سے سامنے آئے، درج ذیل ہیں: معیشت امریکی عوام نے معیشت کو انتخابی مہم میں اہم مسئلہ قرار دیا۔ بائیڈن کے دور میں معیشت میں اتار چڑھاؤ دیکھنے کو…
0 notes
Text
ڈونلڈ ٹرمپ پرحملہ جوبائیڈن کا صدارتی الیکشن کیسے لے ڈوبا؟
آئندہ انتخابات میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو فیورٹ قرار دئیے جانے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے دوبارہ صدارتی امیدوار نہ بننے پر غور شروع کردیا ہے۔ صدر بائیڈن کے انتہائی قریبی افراد کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن نے دستبردار ہونے کے لیے ابھی اپنا ذہن تو نہیں بنایا تاہم بظاہر وہ اس حقیقت کو تسلیم کررہے ہیں کہ انہیں ممکنہ طور پر اس دوڑ سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ دوسری جانب ڈیمو کریٹک امریکی صدر جو…
0 notes
Text
’تسلیم کرلینا چاہیے کہ اسرائیل سلامتی کونسل کا ’مستقل رکن‘ ہے‘
صرف 24 لاکھ لوگ یعنی شنگھائی کی آبادی کا بھی 5 فیصد اور ایک سپر پاور نے انہیں دھمکانے کے لیے دو طیارہ بردار بحری جہاز بھیج دیے تاکہ جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے بن یامین نیتن یاہو کو اپنی غیر مشروط وفاداری کا یقین دلایا جا سکے۔ سلام ہے غزہ کے لوگوں کو۔ کیا اسرائیلی حملے کی مزاحمت کرنے والے ان لوگوں سے زیادہ بھی کوئی بہادر ہوسکتا ہے؟ حیرت ان��یز بات تو امریکی، برطانوی اور فرانسیسی لیڈروں کا ایک صف میں کھڑے ہونا اور نیتن یاہو کو اس بات کا یقین دلانا ہے کہ ہیکلِ ثالث کا مستقبل تھرڈ رائیخ سے مختلف ہو گا۔ یہ ہیکل ثالث بھی ارضِ اسرائیل کے لیے مزید زمین چاہتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے رائیخ کو لیبینسروم درکار تھا۔ نازی تو روس میں زمین کے متلاشی تھے جبکہ صہیونی، جیسا کہ برطانیہ میں لیبر پارٹی کے سابق رہنما جیریمی کوربن نے درست طور پر اشارہ کیا ہے، فلسطینی عوام کی قیمت پر ایسا چاہتے ہیں۔ مزید زمین کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والی اسرائیلی لالچ کو پورا کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے جنگ بندی کی بات نہ کی جائے کیونکہ یہ نیتن یاہو کی خواہش نہیں۔
ہمیں اس بات کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ اسرائیل سلامتی کونسل کا ’مستقل رکن‘ ہے اور اسے ویٹو بھی حاصل ہے۔ امریکی مندوب تو محض وائٹ ہاؤس کے ذریعے اسرائیل سے آنے والے احکامات پر عمل درآمد کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اسرائیل کے حکم سے انکار کے کیا نتائج ہوں گے۔ نومبر کے آخر میں، اپنے یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل نے حماس کے ساتھ ایک مختصر جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ یرغمالیوں کے تبادلے کے بعد، نیتن یاہو نے غزہ کے شہری اہداف پر دوبارہ بمباری شروع کر دی، اور سلامتی کونسل جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے میں ناکام رہی۔ عام طور پر، جب سلامتی کونسل کوئی مشکل جغرافیائی سیاسی مسئلہ اٹھاتی ہے اور مندوبین کسی حل پر متفق ہونے میں ناکام رہتے ہیں، تو سب سے پہلے وہ یہ کرتے ہیں کہ خونریزی کے خاتمے کے لیے ایک بے ضرر قرارداد منظور کرتے ہیں۔ تاہم، موجودہ حالات میں، اس طرح کی تحریک اسرائیلی غصے کو جنم دے گی، کیونکہ یہ غزہ کے لوگوں کی جاری نسل کشی کو روک دے گی۔
اسرائیل کے وفادار اتحادیوں کے طور پر، کونسل کے مغربی اراکین نے جنگ بندی کی قرارداد کو روک کر ایک ایسی بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے جیسے ڈاکٹر بے ہوش کیے بغیر کسی مریض کا آپریشن کر دے۔ یہ افسوسناک صورتحال ہمیں بیلسن اور ٹریبلنکا میں رائیخس فیوہرر ہملر کی ایس ایس کے فوجیوں کی یاد دلاتی ہے۔ صہیونیوں کو صرف لوگوں قتل کرنے میں کوئی ��لچسپی نہیں تھی۔ وہ زخمی اور حاملہ خواتین کو درد سے کراہتے ہوئے اور اس طبی امداد کے انتظار میں دیکھ کر افسوسناک خوشی سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے جو ایسا لگتا تھا کہ کبھی نہیں پہنچے گی۔ توقع کے عین مطابق واشنگٹن نے رفح میں اسرائیلی ہدایات کی تعمیل کی۔ اسرائیل کے حکم پر اور مصری حکومت کے تعاون سے خوراک اور طبی سامان لے جانے والے طیارے العریش ہوائی اڈے پر اترے اور سامان لے جانے والے ٹرک رفح جانے کے بجائے 206 کلومیٹر طویل مصری اسرائیل سرحد پر کسی رابطہ مقام کی طرف روانہ ہوئے۔ معائنے کے بعد وہ رفح کراسنگ پر گئے جہاں اسرائیلی حکام نے زخمیوں اور امداد کے منتظر لوگوں کو امداد کی جلد فراہمی روکنے کے لیے اس عمل میں مزید تاخیر کی۔
سچ تو یہ ہے کہ دنیا میں صرف ایک یہودی ریاست ہے لیکن دو صہیونی حکومتیں ہیں، ایک مقبوضہ بیت المقدس میں اور دوسری واشنگٹن میں۔ مؤخر الذکر یروشلم کی حکومت کے تابع ہے، اس کا کام بنیادی طور پر اسرائیل کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے آپ الاہلی ہسپتال پر بمباری کے جرم سے لیکود پارٹی کی حکومت کو بری الذمہ کرنے کے صدر جو بائیڈن کے فیصلے پر غور کریں۔ بائیڈن کی اپنی کوئی رائے نہیں تھی، وہ اسرائیل میں تھے اور ظاہر ہے کہ انہوں نے امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں سے مشورہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس کے بجائے انہوں نے صرف وہی بات دہرائی جو نیتن یاہو نے ان سے کہی تھی۔ بعد میں نیویارک ٹائمز اور الجزیرہ کی تحقیقات سے بھی اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ ایک اسرائیلی میزائل تھا جس نے ہسپتال کو قبرستان میں تبدیل کر دیا۔ کیا امریکی سیاست پر صہیونی اثرات مبالغہ آمیز ہیں؟ دو امریکی پروفیسر، جان جے میرشیمر اور اسٹیفن ایم والٹ کی کتاب ’دی اسرائیل لابی اینڈ یو ایس فارن پالیسی‘ میں اس کا ایک علمی جواب ملتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ بائیڈن کے رویے میں معمولی تبدیلی آئی ہے۔ ایک فنڈ ریزنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ لیکود پارٹی کی حکومت ’اسرائیل کی تاریخ کی سب سے قدامت پسند حکومت‘ ہے اور یہ کہ نیتن یاہو کو اپنی پالیسیاں بدلنی ہوں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’اسرائیل فلسطینی ریاست کا انکار نہیں کرسکتا‘۔ تاہم اسرائیلی اثر و رسوخ کے بارے میں سچائی ایک ایسے شخص نے بیان کی جو ہر لحاظ سے صہیونی نظریے کی نمائندگی کرتا ہے اور اسے صبرا شاتیلہ میں قتل عام کی وجہ سے بیروت کا قصائی کہا جاتا ہے۔ اکتوبر 2001ء میں کابینہ کے اجلاس کے دوران، اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز کی وزیر اعظم ایریل شیرون کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی۔ ایریل شیرون نے غصے میں آتے ہوئے کہا کہ ’جب بھی ہم کچھ کرتے ہیں تو آپ مجھے کہتے ہیں کہ امریکی ایسا کریں گے اور ویسا کریں گے۔ ’میں آپ کو ایک بات واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں، اسرائیل پر امریکی دباؤ کی فکر نہ کریں، ہم، یہودی لوگ، امریکا کو کنٹرول کرتے ہیں اور امریکی اسے جانتے ہیں‘۔ یہ خبر ایک اسرائیلی ریڈیو اسٹیشن کول اسرائیل نے نشر کی تھی۔
محمد علی صدیقی یہ مضمون 16 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
#Israel#Joe Biden#Middle East#Palestine#Palestine Conflict#Security Council#United States#Wars#World
0 notes
Text
اگر اسرائیل کا نام سوڈان اور امریکا کمپوچیا ہوتا
جو بائیڈن میں کم از کم ایک خوبی ضرور ہے، وہ اپنی بات پر قائم رہتے ہیں۔ مثلاً سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس چھاپہ ماروں کی مسلح کارروائی کے دوران لگ بھگ بارہ سو اسرائیلی سویلینز بشمول تین سو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے اور ڈھائی سو کے لگ افراد کو حماس کے چھاپہ مار یرغمال بنا کے اپنے علاقے میں لے گئے۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا۔ مگر پھر کردار کش مشنیری حرکت میں آ گئی اور یہ خبر اڑا دی گئی کہ حماس کے چھاپہ ماروں نے اپنی مسلح کارروائی کے دوران کئی خواتین کو ریپ کیا اور لگ بھگ چالیس اسرائیلی بچوں کے گلے کاٹ دیے۔ جو بائیڈن نے اس افواہ کی تصدیق کیے بغیر سچ مان لیا اور بچوں کے گلے کاٹنے کی خبر کو حماس کی سفاکی سے تعبیر کیا۔ حالانکہ امریکی محکمہ خارجہ اور خود وائٹ ہاؤس کی وائٹ واش مشینری بارہا صدرِ ذی وقار کو سمجھانے کی کوشش کر چکی ہے کہ انکل جن چالیس بچوں کے گلے کٹے تھے وہ ماشااللہ آج بھی زندہ ہیں اور جن خواتین کا مبینہ ریپ ہوا تھا ان میں سے ایک بھی اسرائیلی حکومت کی جانب سے انھیں بدنام کرنے کے باوجود سامنے نہیں آئی۔ لہٰذا اگر کچھ ایسا ہوا تو ہم سب سے پہلے آپ کو ہی بتائیں گے۔ شانت رہیے اور ہماری بریفنگز کے مطابق چلتے رہیے۔
معلوم نہیں کسی نے جو بائیڈن کو یہ جتانے کی بھی کوشش کی ہو کہ چالیس افسانوی بچوں کے گلے کاٹنے اور بارہ سو اسرائیلیوں کی حقیقی موت کے بدلے اسرائیل اب تک انیس ہزار فلسطینیوں کو قتل کر چکا ہے اور ان میں ساڑھے سات ہزار بچے بھی شامل ہیں۔ جب کہ اتنے ہی ملبے کے نیچے دبے دبے مر چکے ہیں اور اب ان کی لاشیں تدفین کے قابل بھی نہیں رہیں اور یہ سلسلہ اس لمحے تک جاری و ساری ہے۔ مگر آپ تو جانتے ہیں کہ ایک اسی سالہ بوڑھے کو اپنے ہی مفروضوں کے جال سے نکالنا ایک آٹھ سالہ بچے کو قائل کرنے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ بچے کے تو آپ کان مروڑ کے بھی ��مجھا سکتے ہیں مگر بوڑھوں کا کیا کریں۔ رہی سہی کسر بائیڈن کے وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے پوری کر دی جب انھوں نے سات اکتوبر کے حملے کے بعد پہلی بار تل ابیب پہنچ کر اسرائیلی ہلاکتوں پر نیتن یاہو سے تعزیت کی تو یہ بھی کہا کہ وہ آج امریکی وزیر خارجہ ہونے کے ساتھ ساتھ بطور یہودی بھی افسردہ ہیں۔
غزہ کے جاری قتلِ عام کے ساتویں ہفتے میں وائٹ ہاؤس میں یہودی تہو��ر ہنوکا کے موقعے پر منعقد روایتی تقریب میں بائیڈن نے نکسن کے بعد سے آنے والے ہر صدر کی طرح یہودی مہمانوں کے اجتماع کو یاد دلایا کہ امریکا مشرقِ وسطی میں اسرائیل کے طاقتور وجود کا ضامن رہے گا۔ اگر اسرائیل نہ ہوتا تو آج دنیا میں ہر یہودی خود کو غیر محفوظ سمجھتا رہتا۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ میں نے پینتیس برس قبل سینیٹ میں کہا تھا کہ اسرائیل کو ہم تین ارب ڈالر سالانہ کی جو امداد دے رہے ہیں وہ امریکا کی سب سے بہتر سرمایہ کاری ہے۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ صیہونی ہونے کے لیے یہودی ہونا شرط نہیں۔ میں صیہونی ہوں۔ دو ہفتے قبل وائٹ ہاؤس کی ہنوکا تقریب میں ان خیالات کے واشگاف اظہار اور اعادے کے بعد اب بھی اگر کسی کو بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل پالیسی سمجھ میں نہ آئے تو اسے کوئی بھی مثال یہ پالیسی نہیں سمجھا سکتی۔ امریکا نے انیس سو اڑتالیس کے نسل کشی مخالف بین الاقوامی کنونشن پر بھی دستخط کر رکھے ہیں۔
اس کنونشن میں نسل کشی کی جو تعریف کی گئی ہے اس کے مطابق انسانوں کے کسی نسلی، مذہبی یا قومی گروہ کو جزوی و کلی طور پر مٹانے کے لیے پانچ اقدامات میں سے کوئی بھی قدم نسل کشی کہلائے گا۔ اول۔ کسی مخصوص انسانی گروہ کو جان بوجھ کے قتل کیا جانا، دوم۔ اس گروہ کو اجتماعی طور پر شدید جسمانی و ذہنی نقصان پہنچانا ، سوم۔ ایسی تادیبی پابندیاں لگانا جس سے ان کی اجتماعی بقا خطرے میں پڑ جائے ، چہارم۔ ان سے حقِ پیدائش چھیننا ، پنجم۔ ان کے بچوں کو ان سے الگ کر کے جبراً کہیں اور منتقل کرنا۔ اسرائیل ان پانچ میں سے پہلی تین شرائط پوری کر رہا ہے۔ وہ ایک مخصوص علاقے ( غزہ کی پٹی) میں آباد فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر مٹانے کے لیے اندھا دھند بمباری اور گولہ باری کر رہا ہے۔ اس نے سات اکتوبر سے اب تک جتنا بارود برسایا ہے۔ اس کی اجتماعی قوت ہیروشیما پر پھینکے گئے جوہری بم سے ڈھائی گنا زائد ہے۔ خود امریکی سی آئی اے نے اعتراف کیا ہے کہ اب تک غزہ پر جتنے بم گرائے گئے۔ ان میں سے پچاس فیصد اندھے یا ان گائیڈڈ بم ہیں۔ اندھے بم محضوص ہدف کا تعین کیے بغیر کسی بھی انسان یا عمارت کو ختم کر سکتے ہیں۔ اور یہ اجتماعی جسمانی و نفسیاتی نقصان کا سبب ہیں۔
اسرائیل نے سات اکتوبر کے بعد سے غزہ کے لیے پانی ، خوراک ، بجلی ، ادویات کی ترسیل بند کر رکھی ہے اور اسپتالوں ، اسکولوں اور پناہ گاہوں کو جان بوجھ کے تباہ کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے نسل کشی۔ نیز ان اقدامات سے ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ غزہ کی تئیس لاکھ آبادی یہ علاقہ جبراً خالی کر کے جلاوطن ہو جائے۔ بائیڈن انتظامیہ اس نسل کشی میں سب سے بڑی مددگار ہے۔ اس نے جنگ بندی کی ہر قرار داد کو ویٹو کر کے اسرائیل کو اقوامِ متحدہ کی پابندیوں سے بچا کے رکھا ہوا ہے۔ امریکی انتظامیہ نہ صرف غزہ میں استعمال ہونے والا اسلحہ اسرائیل کو مسلسل فراہم کر رہی ہے بلکہ کانگریس کو بائی پاس کر کے ہنگامی اختیارات کی آڑ میں اس نے گزشتہ ہفتے اسرائیل کو توپوں اور ٹینکوں میں استعمال ہونے والے چودہ ہزار گولوں کی تازہ کھیپ بھی پہنچائی ہے۔ اس سب کے باوجود امریکی ذرایع ابلاغ میں ایک بار بھی یہ لفظ آج تک کسی خبر، مضمون یا اداریے میں شایع یا نشر نہیں ہو پایا کہ اسرائیل نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ میڈیا میں اگر کوئی جملہ تواتر سے استعمال ہو رہا ہے تو وہ ہے کہ اسرائیل حقِ دفاع استعمال کر رہا ہے۔
انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے آئین کے مطابق یہ نسل کشی کا سیدھا سیدھا کیس ہے۔مگر معاملہ اگر امریکا اور اسرائیل کا ہو تو سیدھا سیدھا کیس بھی ہکلانے لگتا ہے۔دونوں ممالک انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے دائرہ کار سے منکر ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ پھر بھی اگر اسرائیل اور امریکا کا نام سوڈان، لائبیریا، کمپوچیا یا سربیا ہوتا تو آج جو بائیڈن اور نیتن یاہو دی ہیگ میں کرمنل کورٹ کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے۔ البتہ یوکرین کے ساتھ اس سے نصف نسل کش سلوک کرنے پر پوتن کے بین الاقوامی وارنٹ نکلے ہوئے ہیں۔ اسی لیے ولادی میر پوتن گرفتاری کے ڈر سے کسی ایسے ملک میں نہیں جا سکتے جو انھیں گرفتار کر کے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں پیش کرنے کا پابند ہو۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
کیا اسرائیل کی جانب واشنگٹن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے؟
بائیڈن انتظامیہ نے غزہ کی جنگ میں اسرائیلی حکومت کےطریقہ کار پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اختلافات عوامی طور پر ظاہر کرنا شروع کر دیے ہیں اگرچہ وہ اپنے اتحادی کی حمایت میں ابھی تک بیشتر ثابت قدم ہے۔ اس ہفتے بائیڈن نے غزہ میں، " اندھا دھند بمباری" کا حوالہ دیا اور قدامت پسند اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے اپنی مایوسی کا اظہار کیا، جن کی حکومت کے بارے میں بائیڈن کا خیال ہے کہ وہ عالمی حمایت کھو رہی ہے۔ ڈیمو کریٹک امریکی انتظامیہ نے اس بارے میں کسی ٹائم ٹیبل پر بات کرنی بھی شروع کر دی ہے کہ اسرائیل کا انتہائی شدید فوجی آپریشن کتنی دیر تک جاری رہ سکتا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں انتباہ کیے جانے کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ امریکی نائب صدر کاملا ہیرس اور امریکی وزیرخارجہ انٹنی بلنکن نے فلسطینی شہریوں کی بہت زیادہ تعداد میں ہلاکتوں اور شہریوں کی زندگیوں کے احترام کے بارے اسرائیل کے وعدوں اور زمینی حقیقت کے درمیان موجود خلا پر بات کی۔ اسرائیل سات اکتوبر کو تنازعے کے آغاز کے بعدسے مسلسل غزہ پر بمباری کر تا رہا ہے جس میں نومبر کے آخر میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر صرف ایک مختصر وقفہ آیا تھا۔
امریکی وزیر دفاع لائڈ آسٹن نے حال ہی میں اسرائیل کو اس بارے میں انتباہ کیا کہ کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا" اس قسم کی لڑائی میں شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ اور اگر آپ انہیں دشمن کے ہاتھوں میں دھکیل دیتے ہیں تو آپ ایک ٹیکٹیکل کامیابی کو اسٹرٹیجک شکست میں بدل دیں گے۔" لیکن واشنگٹن نے، جو اسرائیل کا ایک سب سے اہم سفارتی اور فوجی اتحادی ہے، بین الاقوامی دباؤ کے باوجود اپنے اتحادی پر کھلم کھلا تنقید کرنے میں احتیاط سے کام لیا ہے اور جنگ بندی کی اپیلوں کی مزاحمت کی ہے کیوں کہ اس کا خیال ہے کہ اس سے حماس کو فائدہ پہنچے گا۔ در حقیقت امریکہ اسرائیل کے لیے اپنی حمایت میں دن بدن تنہا ہوتا جارہا ہے جیسا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ووٹنگ سے ظاہر ہوا جس میں جنگ بندی کے مطالبہ کی 153 رکن ملکوں نے منظوری دی۔ اور صرف امریکہ اور نو دوسرے ملکوں نے اس کے خلاف ووٹ دیا جبکہ 23 غیر حاضر رہے۔
نظام الاوقات یہ جنگ سات اکتوبر کو حماس کےعسکریت پسندوں کی جانب سے اسرائیل پر خونریز حملے سے شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے غزہ کے لوگوں کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانےوالی امداد کا راستہ کھولنے کے لیے اپنے اتحادی پر دباؤ ڈالا ہے، ساتھ ہی ان یرغمالوں کی رہائی کےلیے کام کیا ہے جنہیں ��ماس نے اغوا کیا تھا، اور ایک زیادہ ٹارگٹد ملٹری اسٹرٹیجی اپنائی ہے۔ امریکی سفارت کاروں نے نجی طور پراسرائیل کے جنگ کے طریقہ کار پر اپنے عدم اطمینان کو پوشیدہ نہیں رکھا۔ وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اسرائیل پر امریکی دباؤ کی ایک علامت کے طور پر قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اسرائیل کا دورہ کر رہے ہیں سلیوان نے وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا کہ، میں یقینی طور پر اسرائیل کے وزیر اعظم، جنگی کابینہ اور سینیئر عہدے داروں سے ٹائم ٹیبل کے بارے میں بات کروں گا کہ وہ اس کے بارے میں کس طرح سوچ رہے ہیں، اور انہیں ان انتہائی شدید قسم کی فوجی کارروائیوں میں ایک تبدیلی کی تجویز دوں گا جو ہم گزشتہ ہفتوں میں دیکھ چکے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے ایک سینیئر عہدے دار نے کہا کہ بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں پہلی بار غزہ میں حماس کے پاس یرغمال رہنے والے امریکی خاندانوں کا خیر مقدم کیا۔
جنگ کے بعد کیا ہو گا؟ اگر اسرائیل کی جانب امریکی موقف میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو اس سے ملکی سیاسی صورتحال کی عکاسی بھی ہو گی۔ ایک غیر منافع بخش تھنک ٹینک، فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں مڈل ایسٹ پروگرام کے ڈائریکٹر جیمز ریان کہتے ہیں کہ، "اسرائیل کی جانب پالیسی کے حوالے سے بائیڈن انتظامیہ پر خود اپنی پارٹی اور انتخابی حلقے کی جانب سے بہت زیادہ دباؤ ہے۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی تبدیلی اس بات کا بھی ایک اشارہ ہو گی کہ امریکہ کا اسرائیل پر اثر و رسوخ زیادہ نہیں رہا۔ اس بارے میں اختلافات بھی سامنے آرہے ہیں کہ جنگ کے خاتمے کے بعد کیا ہو گا؟ واشنگٹن دو ریاستی حل کو اسرائیلی فلسطینی مسئلے کا واحد پائیدار حل قرار دیتا ہے جسے اسرائیل مسترد کرتا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تنازعے کے بعد غزہ پر کون حکومت کرے گا، تو ایک از سر نو تقویت پانے والی فلسطینی اتھارٹی کو باگ ڈور دینے پر امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
0 notes
Text
ایردوان امریکہ کے سامنے ڈٹ گئے
ترکیہ، اس وقت نیٹو میں امریکہ کا قریبی اتحادی ہونے کے علاوہ یورپی یونین کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کا منتظر ہے چنانچہ امریکہ اور یورپی یونین کے چند ایک رکن ممالک ترکیہ سے حماس کی حمایت ختم کرنے اور اسے دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن صدر ایردوان نے یورپی یونین کے دباؤ کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ امریکہ کسی نہ کسی طریقے سے صدر ایردوان کو اقتدار سے ہٹانے میں مصروف رہا ہے، اس نے پہلے ترکیہ میں فیتو دہشت گرد تنظیم کی پشت پناہی کرتے ہوئے ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی، پھر بائیڈن نے صدر منتخب ہونے سے قبل صدر ایردوان کو مختلف طریقے سے اقتدار سے ہٹانے کیلئے، ترکیہ کی اپوزیشن کی حمایت کرنے کا کھلا پیغام دیا۔ پھر بائیڈن نے ترکیہ کی جیل میں جاسوسی کے الزام میں قید پادری Brunson کی رہائی کیلئے ترکیہ پر دبائو ڈالا اور رہا نہ کرنے کی صورت میں ترکیہ کو سبق سکھانے کی دھمکی بھی دی۔ اسی طرح یورپی یونین کے دس ممالک نے ترک بزنس مین عثمان کوالا کو رہا کروانے کیلئے ترکیہ پر شدید دباؤ ڈالا لیکن صدر ایردوان امریکہ اور یورپی یونین کی ان دھمکیوں سے ذرہ بھر بھی مرعوب نہ ہوئے بلکہ انہوں نے فوری طور پر ان دس ممالک کے سفیروں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر جلا وطن کرنے کا حکم جاری کر دیا تاہم ان ملکوں کی جانب سے معذرت کرنے پر معاملے کو بگڑنے سے روک لیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے ترکیہ آئے ہوئے اعلیٰ امریکی حکام نے تر کیہ کی حماس کی کھل کر حمایت کیے جانے پر تشو یش سے آگاہ توضرور کیا لیکن وہ صدر ایردوان کے موقف کو اچھی طرح جاننے کی وجہ سے ترک حکام کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔ امریکی انڈر سیکرٹری برائن نیلسن حماس اسرائیل جنگ میں تر کیہ سے حماس کو فنڈز کی منتقلی کے شواہد تو پیش نہ کر سکے تاہم انہوں نے ماضی میں ترکیہ کی جانب سے حماس کو فنڈز فراہم کیے جانے کا الزام ضرور عائد کیا جسے ترک وزارتِ خارجہ نے یکسر مسترد کر دیا۔ یاد رہے صدر ایردوان بڑے واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک حماس کو کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھتا کیونکہ حماس فلسطین کی حقیقت ہے اور وہاں کی سیاسی جماعت ہے جو عام انتخابات جیت کر غزہ میں بر سر اقتدارآئی ہے۔ صدر ایردوان نے کہا کہ ترکیہ کسی بھی ملک کو ان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دے گا، ترکیہ کی خارجہ پالیسی ترک عوام کی توقعات اور مفادات کےمطابق ہی انقرہ میں مرتب کی جاتی ہے۔
صدر ایردوان نے امریکی حکام کے دورے سے قبل پارلیمنٹ میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے گروپ اجلاس میں اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یا ہو کے بارے میں سخت بیان دیتے ہوئے یاہو کو " غزہ کا قصاب" اور اسرائیل کو ایک" دہشت گرد ریاست " قرار دے چکے ہیں۔ انہوں نے نیتن یا ہو کو عالمی عدالت کے روبرو پیش کرنے کیلئے اپنی تیاریوں سے بھی آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تقریباً 3 ہزار وکلاء نے دی ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت میں اس حوالے سے پہلے ہی سے درخواستیں دے رکھی ہیں، جس میں بڑی تعداد میں ترک وکلاء اور ترک اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہیں جو اس کیس کی پیروی کریں گے۔ وہاں ہمیں یقین ہے جس طرح سربیہ اور کوسوو میں مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے"سربیہ قصاب" کرادزیچ کو دی ہیگ کی عالمی عدالت سے سزا دلوائی گئی تھی بالکل اسی طرح "غزہ کے قصاب" نیتن یا ہو کو نسل کشی کے الزام میں سزا دلوا کر ہی دم لیں گے۔
ہزاروں سال سے آباد فلسطینیوں کے مکانات، زمینوں اور دفاتر کو ناجائز طور پر اپنے قبضے میں لے رکھا ہے جسے کسی بھی صورت قابلِ قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ریاستی دہشت گردی ہے اور ہم اس ریاستی دہشت گردی پرخاموش نہیں رہ سکتے۔ ہمارے بین الاقوامی رابطوں کا سب سے اہم ایجنڈا بلا شبہ غزہ کی جنگ ہے۔ صدر ایردوان نے اس وقت تک 50 سے زائد عالمی رہنمائوں سے رابطہ کیا ہے۔ وہ رواں ہفتے 2 اہم دورے کر رہے ہیں، پہلے قطر اور پھر یونان کا دورہ کریں گے قطر نے ترکیہ ہی کے تعاون سے اسرائیل اور حماس تنازع کو روکنے میں ثالثی کا کردار ادا کیا تھا اور اب وہ اس دورے کے دوران قطر کے امیر سے مستقل جنگ بندی کیلئے کیے جانے والے اقدامات پر تبادلہ خیال کریں گے جبکہ یونان کے دورے میں غزہ کی صورتحال پر بھی غور کیا جائے گا۔
ڈاکٹر فر قان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
امریکی صدر کا پہلی مرتبہ فلسطینی صدر سے ٹیلی فونک رابطہ
(ویب ڈیسک ) امریکی صدر جو بائیڈن نے فلسطین کے صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور دونوں رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ علاقے میں انسانی امداد کی ترسیل کی اجازت دیں انہوں نے شہریوں کے تحفظ کی کوششوں کے لیے اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق وائٹ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق صدر محمود عباس نے جو بائیڈن کو فلسطینی عوام…
View On WordPress
#24 News#first time#Palestinian President#telephone contact#امریکی صدر، پہلی مرتبہ، فلسطینی صدر ،ٹیلی فونک رابطہ،24 نیوز American President
0 notes
Text
پاک ایران کشیدگی، اس مسئلے پر کام کر رہے ہیں، صدر بائیڈن، پاکستان سے رابطے میں ہیں، وائٹ ہاؤس،
ایران کی پاکستان کی حدود میں فضائی کارروائی کی امریکی عہدیداروں نے مذمت کی ہے،صدر بائیڈن نےخود اس معاملے پر بات کی ہے۔ قومی سلامتی کے مشیرجان کربی کا تفصیلی ردعمل سامنے آیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو کہا کہ“جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، ایران کو خطے میں کوئی خاص پسند نہیں کیا جاتا ۔ ہم اب اس مسئلے پر کام کر رہے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ معاملہ کہاں جاتا ہے ۔” پاکستان نے جمعرات کو ایران کے…
View On WordPress
0 notes
Text
ارکان کانگریس کا پاکستان سے متعلق لکھا گیا خط صدر بائیڈن کو موصول ہونے کی تصدیق
واشنگٹن(ڈیلی پاکستان آن لائن)امریکی محکمہ خارجہ نے ارکان کانگریس کی جانب سے پاکستان سے متعلق لکھا گیا خط صدر بائیڈن کو موصول ہونے کی تصدیق کردی۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے پریس بریفنگ میں کہا کہ ارکان کانگریس کا پاکستان سے متعلق لکھا گیا خط صدر بائیڈن کو موصول ہوگیا، ہم ممبران کو خط کا مناسب وقت پر جواب دیں گے، ہم پاکستان میں جمہوریت کو برقرار دیکھنا چاہتے ہیں۔ میتھیو ملر نے مزید…
0 notes
Text
Indian Prime Minister Narendra Modi denied that discrimination against minorities existed under his government during a press conference with US President Joe Biden on Thursday.
Asked at the press conference what steps he was willing to take to “improve the rights of #Muslims and other minorities in your country and to uphold free speech,” Modi suggested they did not need to be improved.
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعرات کو امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران اس بات کی تردید کی کہ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک ان کی حکومت میں موجود ہے۔
پریس کانفرنس میں یہ پوچھے جانے پر کہ وہ "آپ کے ملک میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کو بہتر بنانے اور اظہار رائے کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے" کیا قدم اٹھانے کے لیے تیار ہیں، مودی نے مشورہ دیا کہ انہیں بہتر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
#islam#muslims#islamophobia#ummah#hijab#muslim#allah#hijabi#muslimah#dawah#India#Indian#Democracy#Delhi
0 notes
Text
میٹا نے ٹرمپ کی مشکل آسان کردی،اکاؤنٹس بحال
میٹا نے سابق امریکی صدر ٹرمپ کے فیس بک اور انسٹاگرام اکاؤنٹس بحال کرنے کااعلان کردیا۔ رپورٹ کے مطابق کمپنی کا کہنا تھا کہ میٹا کی جانب س یہ فیصلہ ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کے برابر موقع دینے کے پیش نظر کیا گیا۔کمپنی کی جانب سے سیاسی اظہار کرنے دینے کی ذمہ داری کے پیشِ نظر اس کا ماننا ہے کہ امریکی لوگوں کو صدارتی امیدواروں کو برابری کی سطح پر سننا…
0 notes
Text
یورپ جنگ کے شعلے بجھائے، یوکرین کے لیے نہیں، اپنے لیے
روس یوکرین جنگ نے رواں ہفتے اچانک نیا موڑ لیا۔ منگل کو روسی پارلیمان سے اپنے خطاب میں صدر ولادی میر پوتن نے مغرب پر یوکرین کو ’مقامی تنازع سے عالمی محاذ آرائی‘ میں تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا۔ اتفاق دیکھیے کہ ایسا اس وقت ہوا جب امریکی صدر جو بائیڈن وارسا میں پولینڈ کے صدر کے ساتھ م��اکرات سے پہلے اچانک یوکرین کے دورے پر پہنچ گئے۔ پوتن کے بیان کے جواب میں بائیڈن کیئف کو مزید تعاون فراہم کرنے کا…
View On WordPress
0 notes
Text
یورپ جنگ کے شعلے بجھائے، یوکرین کے لیے نہیں، اپنے لیے
روس یوکرین جنگ نے رواں ہفتے اچانک نیا موڑ لیا۔ منگل کو روسی پارلیمان سے اپنے خطاب میں صدر ولادی میر پوتن نے مغرب پر یوکرین کو ’مقامی تنازع سے عالمی محاذ آرائی‘ میں تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا۔ اتفاق دیکھیے کہ ایسا اس وقت ہوا جب امریکی صدر جو بائیڈن وارسا میں پولینڈ کے صدر کے ساتھ مذاکرات سے پہلے اچانک یوکرین کے دورے پر پہنچ گئے۔ پوتن کے بیان کے جواب میں بائیڈن کیئف کو مزید تعاون فراہم کرنے کا…
View On WordPress
0 notes