#بائیڈن
Explore tagged Tumblr posts
Text
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے صدارتی انتخابات کے نتائج قبول کرلیے
واشنگٹن(ڈیلی پاکستان آن لائن)امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے صدارتی انتخابات کے نتائج کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم عوام کا فیصلہ تسلیم کرتے ہیں اور 20 جنوری 2025 کو پرُ امن اقتدار کی منتقلی ہو گی ، امریکی انتظامیہ ٹرمپ کی ٹیم کےساتھ ملک کی ترقی کےلیےکام کرگی۔امریکی صدر جوبائیڈن نے وائٹ ہاوس کے روزگارڈن میں عوام سے اپنے خطاب میں کہا کہ میں نے ٹرمپ کو یقین دلایا ہے کہ میں ان کی ٹیم کے ساتھ مل کر…
0 notes
Text
بائیڈن کا امریکیوں سے شادی پر شہریت دینے کااعلان
امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی شہریوں سے شادیاں کرنے والے لاکھوں غیرقانونی تارکین وطن کو شہریت دینے کا اعلان کردیا ہے۔ بائیڈن کا کہنا تھا کہ اس بات پر یقین کرنا بہت مشکل ہے لیکن میں ببانگ دُہل یہ باتیں کہہ رہا ہوں کہ بارڈر امیگریشن پر سیاست کرنے میں میری کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ میری دلچسپی اسے حل کرنے میں ہے۔ امریکی حکام کے مطابق بائیڈن کے نئے پروگرام سے ایسے غیر قانونی تارکین وطن فائدہ حاصل…
View On WordPress
0 notes
Text
جو بائیڈن کے 2023 اسٹیٹ آف دی یونین سے پانچ اہم نکات | جو بائیڈن نیوز
ریاستہائے متحدہ کے صدر جو بائیڈن نے سالانہ خطاب کیا۔ یونین کی ریاست خطاب، ان کی صدارت کا دوسرا، اپنے پالیسی اہداف کا خاکہ پیش کرتے ہوئے اور کامیابیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے جب وہ دوسری مدت صدارت کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ لیکن منگل کو ہونے والی تقریر ان کی پہلی منقسم کانگریس کو دی گئی تھی، جس نے بعض اوقات فضول تقریر کے دوران صدر کو جھنجھوڑ دیا۔ سامنا کرنا a ڈیموکریٹ قیادت سینیٹ اور ایوانِ…
View On WordPress
0 notes
Text
اردن میں فوجیوں کی ہلاکت پر امریکی جواب کا فیصلہ کر لیا، بائیڈن
صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اردن میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے ڈرون حملے کا امریکہ کیا جواب دے گا۔ فلوریڈا میں فنڈ ریزر کے لیے وائٹ ہاؤس سے نکلتے ہوئے، بائیڈن نے کہا: “مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں مشرق وس��یٰ میں وسیع جنگ کی ضرورت ہے۔” شام کی س��حد کے قریب اتوار کو ہونے والے حملے میں درجنوں مزید زخمی ہوئے۔ایک ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا گروپ نے امریکی فوجی اڈے پر حملے کی…
View On WordPress
0 notes
Text
اسرائیل دنیا کو اپنے خلاف کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے
ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ آگے کیا ہو گا۔ اسرائیل کو لگتا ہے کہ اس کے پاس مغرب کی طرف سے چار ہزار سے زائد بچوں سمیت ہزاروں فلسطینی شہریوں کو مارنے کے لیے مطلوبہ مینڈیٹ ہے۔ گنجان پناہ گزین کیمپوں پر گرائے گئے ایک ٹن وزنی مہیب بم اور ایمبولینسوں، سکولوں اور ہسپتالوں پر فضائی حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسے حماس کی طرح عام شہریوں کی اموات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اسرائیل مہذب دنیا کی نظروں میں خود کو بدنام کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ غزہ کے قتلِ عام سے پہلے بن یامین نتن یاہو کے فاشسٹوں اور بنیاد پرستوں کے ٹولے کے ذریعے اسرائیل کے عدالتی اداروں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس نے امریکی لابی گروپ اے آئی پی اے سی کے پے رول پر موجود سیاست دانوں کی جانب سے اسرائیل کے جمہوری ملک ہونے اور اخلاقی طور پر برتر اور ترقی یافتہ ملک ہونے کے برسوں سے کیے جانے والے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ پچھلی دہائیوں میں، واحد بین الاقوامی آواز جو اہمیت رکھتی تھی وہ واشنگٹن کی تھی، جس میں یورپی اتحادی ہمنوا کی حیثیت سے ساتھ ساتھ تھے۔ لیکن 2020 کی کثیرالجہتی دہائی میں ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں ابھرتی ہوئی طاقتیں اسرائیل کی مذمت کرنے اور سفارتی تعلقات کو گھٹانے کے لیے قطار میں کھڑی ہیں۔
انصاف کے حامی بڑے حلقے غصے سے بھڑک اٹھے ہیں، یہاں تک کہ مغربی دنیا میں بھی۔ مسلمانوں، عربوں اور ترقی پسند رحجان رکھنے والے یہودیوں کے انتخابی لحاظ سے اہم طبقوں کے ساتھ ساتھ، یونیورسٹیاں نوجوانوں کی سیاست زدہ نسل سے فلسطین کی حامی سرگرمیوں کے لیے اہم مراکز بن گئی ہیں۔ جب دنیا بھر میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں، برطانیہ کی وزیر داخلہ بریورمین جیسے دائیں بازو کے کارکن فلسطینیوں کے حامی مظاہروں کو مجرمانہ بنانے کے لیے شہری آزادیوں پر غصے سے کریک ڈاؤن کر رہے ہیں، جسے وہ ’نفرت مارچ‘ کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ وہ دور لد چکا جب اسرائیل کی حامی لابیوں نے بیانیے کو قابو میں کر رکھا تھا۔ سوشل میڈیا کی خوفناک تصاویر مظالم کو ریئل ٹائم میں سب کو دکھا رہی ہیں، جبکہ دونوں فریق بیک وقت ہمیں غلط معلومات اور پروپیگنڈے کے ذریعے بہکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ماحول میں مذہب پر مبنی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلاموفوبیا پر مبنی حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عمر رسیدہ امریکی سیاست دان ایک مٹتے ہوئے اسرائیل نواز اتفاقِ رائے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خاص طور پر مشی گن جیسی اہم ’سوئنگ‘ ریاستوں میں بڑی مسلم، عرب اور افریقی نژاد امریکی کمیونٹیز بائیڈن کی اسرائیل کی پالیسی کے خلاف ہو رہی ہیں۔
اوباما نے اپنے جانشینوں کو خبردار کیا ہے، ’اگر آپ مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو پوری سچائی کو اپنانا ہو گا۔ اور پھر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی کے ہاتھ صاف نہیں ہیں، بلکہ ہم سب اس میں شریک ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا، ’اسرائیلی فوجی حکمت عملی جو انسانی جانوں کی اہیمت کو نظر انداز کرتی ہے بالآخر الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس موجودہ تباہی کے بعد بائیڈن کے پاس مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی کو فوری طور پر بحال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اپنے فلسطین کے حامی ترقی پسند ونگ کی طرف خاصا رجحان رکھتی ہے، جسے ایسے لوگوں کی وسیع بنیاد پر حمایت حاصل ہے جو آج غزہ کے قتل عام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان ترقی پسندوں کو ایک دن قانون سازی کی مطلوبہ طاقت حاصل کرنے کے بعد اسرائیل کی فوجی امداد کے لیے کانگریس کے بلوں کو ویٹو کرنے میں کچھ پریشانی ہو گی۔ اسی قسم کا تناؤ یورپ بھر میں بھی چل رہا ہے۔ آئرلینڈ اور سپین واضح طور پر فلسطینیوں کے حامی ہیں، جب کہ ارسلا فان ڈیر لیین اور رشی سونک جیسی شخصیات اسرائیل کی حمایت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے بےچین ہیں۔
فرانس اور جرمنی جیسی بڑی عرب اور مسلم آبادی والے ملک اپنی سیاسی بیان بازی کو اعتدال پر لانے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل نے بین الاقوامی بائیکاٹ کی تحریکوں کے خلاف بھرپور طریقے سے جنگ لڑی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ دشمنوں سے گھرے ہوئے اسرائیل کے لیے عالمی اقتصادی تنہائی کتنی تباہ کن ثابت ہو گی۔ غزہ کے باسیوں کی تسلی کے لیے اس طرح کے رجحانات بہت دور کی بات ہیں، لیکن ان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آنے والے برسوں میں فلسطین تنازع اسرائیل کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی کے تناظر میں سامنے آئے گا۔ بین الاقوامی بار ایسوسی ایشن سمیت عالمی اداروں کے تمام حصوں نے بھرپور طریقے سے جنگ بندی کی وکالت کی ہے، اور اسرائیل کو انسانی حقوق کی عالمی ذمہ داریوں سے استثنیٰ نہ دینے پر زور دیا ہے۔ سات اکتوبر کو حماس کا حملہ اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑا نفسیاتی دھچکہ تھا، جس نے بالآخر اسے یہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جب تک وہ امن کی کوششوں کو مسترد کرتا رہے گا، اس کے وجود کو خطرات کا سامنا رہے گا۔ اس جیسے چھوٹے سے ملک میں بڑی تعداد میں لوگوں کو جنوبی اور شمالی اسرائیل کے بڑے علاقوں اور دیگر غیر محفوظ علاقوں سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے، کچھ کو شاید مستقل طور پر، لیکن آبادی کے بڑے مراکز اب بھی حزب اللہ اور اسلامی جہاد کے راکٹوں کی آسانی سے پہنچ میں ہیں۔
نتن یاہو جیسے امن کو مسترد کرنے والوں کی ایک دوسرے سے ملتی جلتی کارروائیاں ہیں جنہوں نے امن کی میز پر فریقین کی واپسی کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں معاشروں میں اوسلو معاہدے کے برسوں سے سرگرم امن کیمپوں کو دوبارہ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو انصاف، امن اور مفاہمت کے لیے مہم چلا سکیں۔ اسرائیل کی انتقامی پیاس نے انتہا پسند کیمپ کو طاقت بخشی ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ غزہ کی فوجی مہم فلسطین کو عربوں سے پاک کرنے کے لیے بہترین دھواں دھار موقع پیش کرتی ہے۔ اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ گیورا آئلینڈ نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ’ایسے حالات پیدا کرے جہاں غزہ میں زندگی غیر پائیدار ہو جائے۔ ایسی جگہ جہاں کوئی انسان موجود نہ ہو‘ تاکہ غزہ کی پوری آبادی یا تو مصر چلی جائے، یا پھر مصر منتقل ہو جائے۔ ‘نتن یاہو مصر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ غزہ کے لوگوں کے صحرائے سینا کی طرف ’عارضی‘ انخلا کو قبول کرے، جبکہ دوسری طرف وہ محصور آبادی کو بھوک سے مرنے اور کچلنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ فلسطینی صرف اتنا چاہتے ہیں کہ دنیا ان کی حالتِ زار کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھے۔
فلسطین کی حمایت اور حماس کی حمایت ایک برابر نہیں ہیں۔ بلاروک ٹوک مغربی پشت پناہی نے اسرائیل کو یہ باور کروایا ہے کہ اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، جو نہ صرف مقبوضہ علاقوں میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی ان گنت قراردادوں اور عالمی نظام کے بنیادی اصولوں کو بھی زک پہنچا رہا ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں ایک مختصر دورانیے میں غزہ میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے 72 عملے کی اموات ایک ریکارڈ ہے، جب کہ الٹا اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل پر ’خون کی توہین‘ اور ’دہشت گردی کی کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے‘ کا الزام لگایا ہے۔ اسرائیلی سمجھتے تھے کہ وقت ان کے ساتھ ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ عرب ریاستیں دلچسپی کھو رہی ہیں، فلسطینی اپنے علاقوں کے ہر سال بڑھتے ہوئے نقصان پر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور تھے، اور یہ سوچ تھی کہ جب 1947 اور 1967 کی نسلیں ختم ہو جائیں تو کیا ان کے ساتھ ہی قوم پرستانہ جذبات بھی فنا نہیں ہو جائیں گے؟ اس کے بجائے، نئی فلسطینی نسل اور ان کے عالمی حامی پہلے سے زیادہ پرجوش، پرعزم اور سیاسی طور پر مصروف ہیں۔ اور معقول طور پر، کیونکہ تمام تر مشکلات اور خونریزی کے باوجود ناقابل تسخیر عالمی رجحانات اس بات کی علامت ہیں کہ وقت، انصاف اور آخرِ کار تاریخ ان کے ساتھ ہے۔
اس طرح سوال یہ بنتا ہے کہ کتنی جلد کوتاہ اندیش اسرائیلی امن کے لیے ضروری سمجھوتوں کی وکالت شروع کر دیتے ہیں، کیوں کہ اسرائیل کو لاحق دفاعی خطرات بڑھ رہے ہیں اور ان کی ریاست کی جغرافیائی سیاسی طاقت ختم ہو رہی ہے۔
بارعہ علم الدین
نوٹ: کالم نگار بارعہ عالم الدین مشرق وسطیٰ اور برطانیہ میں ایوارڈ یافتہ صحافی اور براڈکاسٹر ہیں۔ وہ میڈیا سروسز سنڈیکیٹ کی مدیر ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes
·
View notes
Text
غزہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیا
جن کا خیال تھا کہ حماس کی مزاحمت کو ختم کر دیا گیا ہے اور اب وہ قصہ ماضی ہے، انہیں خبر ہو کہ اسرائیل کو اسی مزاحمت کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر معاہدہ کرنا پڑا ہے اور معاہدہ بھی وہی ہے جس پر فلسطینی مزاحمت پہلے دن سے رضامند تھی مگر نیتن یاہو نے جسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جن کا خیال تھا کہ غزہ اب قصہ پارینہ بن چکا، اور یہاں ��سرائیل ساحل کے ساتھ اب اپنی بستیاں آباد کرے گا، ان کو خبر ہو کہ معاہدے کی رو سے غزہ، غزہ والوں کے پاس ہے۔ جن کا خیال تھا کہ شمالی غزہ سے فلسطینیوں کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا جائے گا، انہیں خبر ہو کہ شمالی غزہ پر اہل غزہ کا حق تسلیم کروا لیا گیا ہے۔ جن کو یقین تھا کہ فلاڈلفیا اور نیٹسارم کاریڈور اب ہمیشہ کے لیے اسرائیلی فوج کے بوٹوں تلے رہیں گے انہیں خبر ہو کہ دونوں کاریڈورز سے اسرائیل کو انخلا کرنا ہو گا۔ جن کا خیال تھا مزاحمت کاروں کو یوں کچل دیا جائے گا کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں گے وہ اب بیٹھے سر پیٹ رہے ہیں کہ صرف بیت حنون میں اتنے اسرائیلی فوجی مارے گئے جتنے آج تک کی جنگوں میں نہیں مارے گئے۔ جن کا خیال تھا چند سر پھروں کی مزاحمت کچل دی گئی، انہیں خبر ہو کہ اسرائیلی برگیڈیر عامر اویوی دہائی دے رہا ہے کہ مزاحمت تو آج بھی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے لیکن اسرائیل گھائل ہو چکا، مزاحمت کار تو نئی بھرتیاں کر رہے ہیں لیکن اسرائیل سے لوگ بھاگ رہے ہیں کہ فوجی سروس نہ لی جائے۔
غزہ میں مزاحمت متحد ہے۔ لوگوں پر قیامت بیت گئی، بچے ٹھٹھر کر مر گئے، قبریں کم پڑ گئیں، لیکن کوئی تقسیم نہیں ہے۔ سب ڈٹ کر کھڑے ہیں، لہو میں ڈوبے ہیں لیکن خدا کی رحمت سے مایوس نہیں۔ اُدھر اسرائیل ہے جہاں مایوسی اور فرسٹریشن میں دراڑیں وضح ہیں۔ ہرادی یہودی اسرائیلی حکومت کو سیدھے ہو چکے ہیں کہ ملک تو چھوڑ دیں گے لیکن لڑائی میں شامل نہیں ہوں گے۔ اسرائیل کا فنانس منسٹر بزالل سموٹرچ دھمکی دے رہا ہے کہ یہ معاہدہ اسرائیل کی شکست ہے ، وہ حکومت سے الگ ہو جائے گا۔ نیشنل سیکیورٹی کا وزیر اتمار بن گویر بھی دہائی دے رہا ہے کہ اس وقت ایسا کوئی معاہدہ شکست کے مترادف ہے۔ ایرل سیگل چیخ رہا ہے یہ معاہدہ اسرائیل پر مسلط کیا گیا ہے۔ یوسی یوشع کہتا ہے بہت برا معاہدہ ہوا لیکن ہم بے بس ہو چکے تھے، اور کیا کرتے۔ مقامی خوف فروشوں سے اب کوئی جا کر پوچھے، حساب سودوزیاں کا گوشوارہ کیا کہتا ہے۔ اسرائیل کے جنگی مبصرین دہائی دے رہے ہیں کہ جس دن امریکہ کمزور پڑ گیا یا اس نے منہ پھیر لیا اس دن اسرائیل کا کھیل ختم ہو جائے گا۔
اسرائیلی فضائیہ کے افسران گن گن کر بتا رہے ہیں کہ امریکی امداد نہ پہنچتی تو اسرائیل تیسرے ہفتے میں جنگ کے قابل نہ تھا۔ وہ حیران ہیں کہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، ہزاروں قتل ہوئے پڑے اور لاکھوں زخمی، دنیا نے منہ موڑ رکھا، کئی ایٹم بموں کے برابر سلحہ ا�� پر پھونک دیا گیا، کہیں سے کوئی امداد نہیں ملی، اسلحہ تو دور کی بات انہیں کوئی مسلمان ملک پانی اور خوراک تک نہ دے سکا، لیکن وہ ڈٹے رہے، کیسے ڈٹے رہے۔ وہ لڑتے رہے، کیسے لڑتے رہے؟ کچھ وہ تھے جن کے سر قضا کھیل چکی، اور کچھ وہ تھے جو اس کے منتظر تھے، قدم مگر کسی کے نہ لڑکھڑائے۔ ہبریو یونیورسٹی میں قائم عارضی وار روم میں اب پہلی تحقیق اس بات پر ہونے لگی ہے کہ ان حالات میں مزاحمت کیسے قائم رہی؟ حوصلے کیوں نہ ٹوٹے۔ دنیا اب ویت نام کی مزاحمت بھول چکی ہے۔ دنیا آئندہ یہ پڑھا کرے گی کہ غزہ میں ایسی مزاحمت کیسے ممکن ہوئی؟ جس مزاحمت کا نام لینے پر مغرب کے سوشل میڈیا کے کمیونٹی سٹینڈرڈز کو کھانسی، تپ دق، تشنج اور پولیو جیسی مہلک بیماریاں لاحق ہو جاتی تھیں، اتفاق دیکھیے اسی مزاحمت کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے، معاہدے میں اسی مزاحمت کا نام لکھنا پڑا اور عالم یہ ہے کہ امریکی صدر اور نو منتخب امریکی صدر میں کریڈٹ کاجھگڑا چل رہا ہے کہ سہرا کس کے سر باندھا جائے۔
دنیا اپنے فوجیوں کی تحسین کرتی ہے مگر ادھر خوف کی فضا یہ ہے کہ غزہ میں لڑنے والے اسرائیلی فوجیوں کی شناخت خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ کہیں کسی ملک میں جنگی جرائم میں دھر نہ لیے جائیں۔ ان جنگی مجرموں کے لیے باقاعدہ مشاورتی فرمان جاری ہو رہے ہیں کہ بیرون ملک جائیں تو گرفتاری سے بچنے کے لیے کون کون سے طریقے استعمال کیے جائیں۔ خود نیتن یاہو کے لیے ممکن نہیں کہ دنیا میں آزادانہ گھوم سکے۔ قانون کی گرفت میں آنے کا خوف دامن گیر ہے۔ یہ فاتح فوج کے ڈھنگ ہیں یا کسی عالمی اچھوت کے نقوش ہیں جو ابھر رہے ہیں؟ ادھر اسرائیل میں بائیڈن کے سفیر جیک لیو کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے نہ صرف گلوبل ساؤتھ گنوا دیا ہے بلکہ مغرب بھی اس کے ہاتھ سے جا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہم تو اسرائیل کے ساتھ ہیں لیکن نئی نسل کچھ اور سوچ رہی ہے اور اگلے بیس تیس سال میں معاملات نئی نسل کے ہاتھ میں ہوں گے۔ جیک لیو کے مطابق بائڈن اس نسل کا آخری صدر تھا جو اسرائیل کے قیام کے بیانیے کے زیر اثر بڑی ہوئی۔ اب بیانیہ بدل رہا ہے۔
نیا بیانیہ کیا ہے؟ نیا بیانیہ یہ ہے کہ امریکہ میں ایک تہائی یہودی ٹین ایجرز فلسطینی مزاحمت کی تائید کر رہے ہیں۔ 42 فی صد ٹین ایجر امریکی یہودیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا جرم کر رہا ہے۔ 66 فی صد امریکی ٹین ایجر یہودی فلسطینی عوام سے ہمدردی رکھتے ہیں۔۔۔۔ کیا یہ کوئی معمولی اعدادوشمار ہیں؟غزہ نے اپنی لڑائی اپنی مظلومیت اور عزیمت کے امتزاج سے لڑی ہے ورنہ مسلم ممالک کی بے نیازی تو تھی ہی، مسلمان دانشوروں کی بڑی تعداد نے بھی اپنے فیس بک اکاؤنٹ کی سلامتی کی قیمت پر غزہ کو فراموش کر دیا تھا۔ اسرائیل کا مظلومیت کا جھوٹا بیانیہ تحلیل ہو چکا ہے۔ دنیا کے سب سے مہذب فاتح کی کوزہ گری کرنے والی فقیہان ِ خود معاملہ طفولیت میں ہی صدمے سے گونگے ہو چکے۔ مرعوب مجاورین کا ڈسکو کو��س منہدم ہو چکا ہے۔ انکے جو ممدوح مزاحمت کو ختم کرنے گئے تھے، اسی مزاحمت سے معاہدہ کر کے لوٹ رہے ہیں۔ جدوجہد ابھی طویل ہو گی، اس سفر سے جانے کتنی مزید عزیمتیں لپٹی ہوں، ہاں مگر مزاحمت باقی ہے، باقی رہے گی۔ مزاحمتیں ایسے کب ختم ہوتی ہیں؟ ڈیوڈ ہرسٹ نے کتنی خوب صورت بات کی ہے کہ غزہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیا ہے۔
آصف محمود
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز
0 notes
Text
پاکستان کا میزائل پروگرام نشانے پر؟
پاکستان کا میزائل پروگرام ایک مرتبہ پھر عالمی میڈیا کی زینت ہے۔ ان خبروں میں تیزی اس وقت آئی جب امریکی تھنک ٹینک کارنیگی انڈاؤمنٹ کے زیرِاہتمام ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے، چند ہفتوں کے مہمان امریکی صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے لانگ رینج میزائل سسٹم اور ایسے دیگر ہتھیار بنا لئے ہیں جو اسے بڑی راکٹ موٹرز کے (ذریعے) تجربات کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کر ڈالا کہ اس میزائل سسٹم سے امریکہ کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ جبکہ عالمی سیاست سے معمولی واقفیت رکھنے والا شخص یہ جانتا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی یا میزائل پروگرام صرف اور صرف بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم سے بچنے کیلئے ترتیب دیا گیا ہے۔ مذکورہ بیان اس وقت دیا گیا جب امریکہ میں انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل کیا جا رہا ہے۔ عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی لابی، بائیڈن انتظامیہ میں کافی موثر تھی اس نے دم توڑتی حکومت سے بیان دلوا کر پاکستان پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے جبکہ پینٹاگون کے ترجمان نے اس بیان سے فاصلہ اختیار کیا ہے جسکا واضح مطلب ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اس بیان کیساتھ کھڑی نظر نہیں ا ٓرہی۔
دنیا کے جغرافیہ پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستان اپنی نوعیت کا واحد ملک ہے جس کے ہمسائے میں ایک ایسا ملک موجود ہے جو ہر وقت اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔ بھارت نے روز اول سے پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بھارت جیسے مکار دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے ریاست پاکستان 1947ء سے لیکر آج تک مختلف اقدامات کرتی رہی ہے لیکن ان سارے اقدامات کا مطمح نظر اپنا دفاع اور اپنی جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ ہوتا ہے۔ عالمی امن کیساتھ پاکستان کی کمٹمنٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم محمد علی بوگرا نے امریکی صدر آئزن ہاور کیساتھ ایک ایسے معاہدے پر دستخط کئے تھے جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ پاکستان اپنا ایٹمی پروگرام پرامن رکھے گا۔ لیکن جب بھارت کی جانب سے توسیع پسندانہ عزائم سامنے آئے تو پاکستان بھی اپنا حق دفاع استعمال کرنے پر مجبور ہوا۔
پاکستان نے اپنا جوہری پروگرام 1970ء کی دہائی میں شروع کیا اور پھر مسلسل اس پر کام جاری ہے۔ 1974 ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کر کے اس دوڑ میں پہل کی پاکستان نے طویل عرصہ کے بعد 1998ء میں ایٹمی دھماکے کر کے بھارتی منصوبوں کا جواب دیا۔ اسی طرح پاکستان کا ایٹمی میزائل بھی پرامن مقاصد کیلئے ہے۔ آج پاکستان نہ صرف ایک جوہری طاقت ہے بلکہ اسکے جوہری میزائل دنیا میں بہترین مانے جاتے ہیں۔ پاکستان کا 37 میل (60 کلومیٹر) تک مار کرنیوالا ’نصر‘ نامی ٹیکٹکل میزائل ایک ایسا جوہری میزائل ہے، جو دنیا بھر میں اہمیت تسلیم کروا چکا ہے۔ حتف میزائل ایک ملٹی ٹیوب بلیسٹک میزائل ہے، یعنی لانچ کرنیوالی وہیکل سے ایک سے زائد میزائل داغے جا سکتے ہیں۔ غزنوی ہائپر سانک میزائل ہے، جو زمین سے زمین تک مار کرتا ہے جبکہ اسکی رینج 290 کلومیٹر تک ہے۔ ابدالی بھی سوپر سانک زمین سے زمین تک مار کرنیوالا میزائل ہے جبکہ اسکی رینج 180 سے 200 کلومیٹر تک ہے۔ غوری میزائل میڈیم رینج کا میزائل ہے، جو زمین سے زمین تک مار کرتا ہے اور 700 کلوگرام وزن اٹھا کر 1500 کلومیٹر تک جا سکتا ہے۔
شاہین I بھی ایک سپر سانک زمین سے زمین تک مار کرنیوالا بلیسٹک میزائل ہے، جو 750 کلومیٹر تک روایتی اور جوہری مواد لے جاسکتا ہے۔ غوری II ایک میڈیم رینج بلیسٹک میزائل ہے، جسکی رینج 2000 کلومیٹر ہے۔ شاہین II زمینی بلیسٹک سپر سانک میزائل ہے، جو زمین سے زمین تک مار کر سکتا ہے اور اسکی رینج بھی 2000 کلومیٹر ہے۔ شاہین III میزائل 9 مارچ 2015ء کو ٹیسٹ کیا گیا۔ اسکی پہنچ 2750 کلومیٹر تک ہے اور اسکی بدولت پاکستان کا ہر دشمن اب رینج میں آ گیا ہے۔ پاکستان نے زمین سے زمین پر مار کرنیوالے بیلسٹک میزائل غزنوی کا کامیاب تجربہ کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق غزنوی میزائل کا تجربہ رات میں کیا گیا اور رات کے وقت میزائل داغنے کی کامیاب تربیتی مشق کی گئی۔ اسی طرح ابابیل میزائل نظام پاکستان کے دفاعی نظام کا ایک اہم جزو ہے۔ مئی 2016ء میں بھارت نے اسرائیل کی مدد سے ’آشون بیلسٹک میزائل شکن نظام‘ کا تجربہ کیا جسکا مقصد بھارتی فضائوں کے اندر بھارتی تنصیبات اور اہم مقامات کے گرد ایسا دفاعی نظام تشکیل دینا تھا، جسکے ذریعے اس طرف آنیوالے پاکستانی میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کیا جا سکے۔
اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان نے کثیر الاہداف میزائل نظام پر کام شروع کیا۔ ابابیل میزائل نظام ایک وقت میں کئی ایٹم بم لے جاسکتا ہے، ایک خاص بلندی پر پہنچ کر یہ وقفے وقفے سے ایٹم بم گراتا ہے، ہرایٹم بم کا ہدف مختلف ہوتا ہے۔ گویا اس پر نصب ایٹم بم ایسے اسمارٹ ایٹم بم ہوتے ہیں، جومطلوبہ بلندی سے گرائے جانے کے بعد نہ صرف اپنے اہداف کی جانب آزادانہ طور بڑھتے ہیں بلکہ میزائل شکن نظام کو چکمہ دینے کیلئے ’’مصنوعی ذہانت‘‘ سے آگے بڑھتے ہیں۔ یہ ایسی صلاحیت ہے جو صرف امریکا، برطانیہ، روس، چین اور فرانس کے پاس ہے۔ پاکستان اس ٹیکنالوجی کا حامل دنیا کا چھٹا ملک ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کہیں زیادہ ایٹمی صلاحیت کا مالک ہے۔ اسکی ایٹمی آبدوزوں کا نظام پوری دنیا کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ ضرورت اس ��مر کی ہے کہ دنیا پاکستان کی جغرافیائی نزاکتوں کو سمجھے۔ پاکستان پر پابندی کے بجائے بھارت کو سمجھائے کہ وہ عالمی امن سے کھلواڑ بند کرے۔ پاکستان کسی بھی آزاد ریاست کی طرح اپنا حق دفاع استعمال کرتا رہیگا اور اپنی سلامتی کیلئے اقدامات جاری رکھے گا۔ اس معاملہ پر پوری قوم یکسو ہے۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
کملا ہیرس کا حملہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کیسے ناکام کیا؟ جیت کی چند اہم وجوہات
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت ایک تاریخی موڑ ہے۔ انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کو شکست دی۔ یہ پہلی بار تھا کہ سابق صدر، جو پچھلا الیکشن ہار چکے تھے، دوبارہ صدر بننے میں کامیاب ہوئے۔ ٹرمپ کی جیت کے کچھ اہم عوامل، جو مختلف سروے اور عوامی آراء سے سامنے آئے، درج ذیل ہیں: معیشت امریکی عوام نے معیشت کو انتخابی مہم میں اہم مسئلہ قرار دیا۔ بائیڈن کے دور میں معیشت میں اتار چڑھاؤ دیکھنے ک��…
0 notes
Text
غزہ جنگ کے خاتمے کے بارے میں اسرائیل کا مجوزہ منصوبہ: ’وقت آ گیا ہے کہ یہ جنگ ختم ہو۔۔۔ ہم یہ لمحہ نہیں کھو سکتے‘، بائیڈن
http://dlvr.it/T7jvPr
0 notes
Link
Donald Trump is more favorite than Joe Biden for the US presidency
0 notes
Text
ارکان کانگریس کا پاکستان سے متعلق لکھا گیا خط صدر بائیڈن کو موصول ہونے کی تصدیق
واشنگٹن(ڈیلی پاکستان آن لائن)امریکی محکمہ خارجہ نے ارکان کانگریس کی جانب سے پاکستان سے متعلق لکھا گیا خط صدر بائیڈن کو موصول ہونے کی تصدیق کردی۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے پریس بریفنگ میں کہا کہ ارکان کانگریس کا پاکستان سے متعلق لکھا گیا خط صدر بائیڈن کو موصول ہوگیا، ہم ممبران کو خط کا مناسب وقت پر جواب دیں گے، ہم پاکستان میں جمہوریت کو برقرار دیکھنا چاہتے ہیں۔ میتھیو ملر نے مزید…
0 notes
Text
ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بائیڈن سے صدارتی معافی کی اپیل کردی
ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکی صدر بائیڈن سےصدارتی معافی کی اپیل کردی۔ برطانوی میڈیا کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکی صدر سے اپیل کی ہےکہ وہ صدارت سے سبکدوش ہونے سے پہلے سزا معاف کردیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکا میں ایک متنازع عدالتی فیصلےکے باعث 86 سالہ سزا کاٹ رہی ہیں۔ برطانوی میڈيا کا کہنا ہےکہ ڈاکٹرعافیہ صدیقی اپنی رہائی کے لیے پر امید ہیں۔ اپنے وکیل کے ذریعے برطانوی میڈيا سےخصوصی گفتگومیں…
0 notes
Text
پاک ایران کشیدگی، اس مسئلے پر کام کر رہے ہیں، صدر بائیڈن، پاکستان سے رابطے میں ہیں، وائٹ ہاؤس،
ایران کی پاکستان کی حدود میں فضائی کارروائی کی امریکی عہدیداروں نے مذمت کی ہے،صدر بائیڈن نےخود اس معاملے پر بات کی ہے۔ قومی سلامتی کے مشیرجان کربی کا تفصیلی ردعمل سامنے آیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو کہا کہ“جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، ایران کو خطے میں کوئی خاص پسند نہیں کیا جاتا ۔ ہم اب اس مسئلے پر کام کر رہے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ معاملہ کہاں جاتا ہے ۔” پاکستان نے جمعرات کو ایران کے…
View On WordPress
0 notes
Text
پس ثابت ہوا امریکا یاروں کا یار ہے
سامانِ مرگ و حرب ساختہِ امریکا ہے۔ اسرائیل تو بس غزہ اور غربِ اردن اذیت ساز لیبارٹری میں چابک دست نسل کشی اور صنعتی پیمانے پر املاکی بربادی کے لیے تیار اس سامان کا آزمائشی آپریٹر ہے۔ اسرائیل کے ایک مقبول ٹی وی چینل بارہ کے مطابق سات اکتوبر تا تئیس دسمبر امریکا سے آنے والی دو سو سترہ کارگو پروازوں اور بیس مال بردار بحری جہازوں کے ذریعے دس ہزار ٹن جنگی ساز و سامان اسرائیل میں اتارا جا چکا ہے۔ اس وزن میں وہ اسلحہ اور ایمونیشن شامل نہیں ہے جو امریکا نے اسرائیل میں اپنے استعمال کے لیے زخیرہ کر رکھا ہے اور اس گودام کی ایک چابی اسرائیل کے پاس ہے تاکہ نسل کشی کی مشین سست نہ پڑنے پائے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کو ہنگامی سپلائی کے لیے لگ بھگ تین ارب ڈالر کے آرڈرز بھی جاری کیے ہیں۔ اسرائیل نے امریکا سے ہلاکت خیز اپاچی ہیلی کاپٹرز کی تازہ کھیپ کی بھی فرمائش کی ہے۔ یہ ہیلی کاپٹرز اسرائیل غزہ کو مٹانے کے لیے فضائی بلڈوزرز کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ خود اسرائیل کا شمار دنیا کے دس بڑے اسلحہ ساز ممالک میں ہوتا ہے۔ تاہم اس نے فی الحال تمام بین الاقوامی آرڈرز موخر کر دیے ہیں اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے خانہ ساز اسلحہ صنعت کی پروڈکشن لائن چوبیس گھنٹے متحرک ہے۔
جب چھ ہفتے میں لاہور شہر کے رقبے کے برابر تین ہیروشیما بموں کے مساوی طاقت کا بارود برسا دیا جائے تو سپلائی اور پروڈکشن لائن کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ امریکا اس بات کو ہمیشہ کی طرح یقینی بنا رہا ہے کہ اسرائیل کا دستِ مرگ کہیں تنگ نہ پڑ جائے۔ اب تک جو ہنگامی رسد پہنچائی گئی ہے اس میں اسمارٹ بموں کے علاوہ طبی سازو سامان ، توپ کے گولے ، فوجیوں کے لیے حفاظتی آلات ، بکتر بند گاڑیاں اور فوجی ٹرک قابلِ ذکر ہیں۔ اس فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ دانتوں تک مسلح اسرائیلی بری، بحری اور فضائی افواج کے لیے تیسرے مہینے میں بھی غزہ لوہے کا چنا ثابت ہو رہا ہے۔ ابتدا میں اسرائیل کا اندازہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ تین ہفتے میں غزہ کی مزاحمت ٹھنڈی پڑ جائے گی مگر ا�� اسرائیلی فوجی ہائی کمان کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے مطلوبہ نتائج فروری سے پہلے ظاہر نہیں ہوں گے۔ البتہ بری فوج کے سابق سربراہ جنرل ڈان ہالوٹز نے ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا جتنا بھی فوجی تجربہ ہے اس کی بنیاد پر وہ کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل یہ جنگ ہار گیا ہے۔
بقول جنرل ہالوٹز جنگ جتنا طول پکڑے گی اتنے ہی ہم دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے۔ اب تک ہمیں بارہ سو اسرائیلیوں کی ہلاکت، جنوبی اور شمالی اسرائیل میں دو لاکھ پناہ گزین اور حماس کی قید میں ڈھائی سو کے لگ بھگ یرغمالی سویلینز اور فوجی تو نظر آ رہے ہیں مگر کامیابی کہیں نظر نہیں آرہی۔ واحد فتح یہی ہو گی کہ کسی طرح بنجمن نیتن یاہو سے جان چھوٹ جائے۔ جہاں تک امریکا کا معاملہ ہے تو جو بائیڈن اسرائیل نواز امریکی کانگریس سے بھی زیادہ اسرائیل کے دیوانے ہیں۔ اس وقت بائیڈن کی اسرائیل پالیسی یہ ہے کہ ’’ تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے۔‘‘ چنانچہ دو ہفتے پہلے ہی بائیڈن نے کانگریس کے ذریعے اسرائیل کے لیے ہنگامی امداد منظور کروانے کی تاخیری کھکیڑ اور فالتو کے سوال جواب سے بچنے کے لیے ہنگامی قوانین کی آڑ میں کانگریس سے بالا بالا چودہ ارب ڈالر کے فنڈز کی منظوری دے دی جو اسرائیل کی فوجی و اقتصادی ضروریات کو مختصر عرصے کے لیے پورا کرنے کے قابل ہو گا۔ اسرائیل کو جب بھی ضرورت پڑی امریکی انتظامیہ اس کے لیے سرخ قالین کی طرح بچھتی چلی گئی۔
مثلاً چھ اکتوبر انیس سو تہتر کو جب مصر اور شام نے اپنے مقبوضہ علاقے چھڑانے کے لیے اسرائیل کو بے خبری میں جا لیا تو وزیرِ اعظم گولڈا مائر نے پہلا فون رچرڈ نکسن کو کیا کہ اگر ہمیں بروقت سپلائی نہیں ملی تو اپنی بقا کے لیے مجبوراً جوہری ہتھیار استعمال کرنے پڑ سکتے ہیں۔ نکسن اشارہ سمجھ گیا اور اس نے جنگ شروع ہونے کے چھ دن بعد بارہ اکتوبر کو پینٹاگون کو حکم دیا کہ اسرائیل کے لیے اسلحہ گودام کھول دیے جائیں۔ محکمہ دفاع کو اس ضمن میں جو فائدہ خسارہ ہو گا اس سے بعد میں نپٹ لیں گے۔ اسرائیل نے اپنی قومی ایئرلائن ال آل کے تمام کارگو طیارے امریکا سے فوجی امداد ڈھونے کے لیے وقف کر دیے۔ مگر یہ اقدام ناکافی تھا۔ سوویت یونین نے مصر اور شام کی ہنگامی فوجی امداد کے لیے دس اکتوبر کو ہی دیوہیکل مال بردار انتونوف طیاروں کا بیڑہ وقف کر دیا تھا۔ چنانچہ امریکی فضائیہ کا مال بردار بیڑہ جس میں سی ون فورٹی ون اور سی فائیو گلیکسی طیارے شامل تھے۔ ضرورت کا ہر سامان ڈھونے پر لگا دیے۔ یہ آپریشن تاریخ میں ’’ نکل گراس ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے امریکا اور اسرائیل کے درمیان ساڑھے چھ ہزار ناٹیکل میل کا ایئرکوریڈور بنا دیا گیا۔
پہلا سی فائیو گلیکسی مال بردار طیارہ چودہ اکتوبر کو ایک لاکھ کلو گرام کارگو لے کر تل ابیب کے لوڈ ایئرپورٹ پر اترا اور آخری طیارے نے چودہ نومبر کو لینڈ کیا۔ پانچ سو سڑسٹھ پروازوں کے ذریعے تئیس ہزار ٹن جنگی سازو سامان پہنچایا گیا۔جب کہ تیس اکتوبر سے امریکی کارگو بحری جہاز بھی بھاری سامان لے کر حیفہ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے لگے۔ اس کے برعکس سوویت یونین ایک ماہ کے دوران نو سو پینتیس مال بردار پروازوں کے ذریعے پندرہ ہزار ٹن ساز و سامان مصر اور شام پہنچا سکا۔ حالانکہ روس سے ان ممالک کا فضائی فاصلہ محض سترہ سو ناٹیکل میل تھا۔ امریکا نے تہتر ٹن سامان اٹھانے والے سی فائیو گلیکسی کے ذریعے اسرائیل کو ایک سو پچھتر ملی میٹر تک کی توپیں ، ایم سکسٹی اور ایم فورٹی ایٹ ساختہ بھاری ٹینک ، اسکوراسکی ہیلی کاپٹرز ، اسکائی ہاک لڑاکا طیاروں کے تیار ڈھانچے اور بارودی کمک پہنچائی۔ یہ طیارے صرف پرتگال میں ری فیولنگ کے لیے رکتے تھے۔ اور اسپین ، یونان ، جرمنی اور ترکی نے انھیں اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ اگر یہ کاریڈور نہ ہوتا تو اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں کے ساتھ ساتھ اپنی بقا کے لالے پڑجاتے۔ پس ثابت ہوا کہ امریکا یاروں کا یار ہے۔ وہ الگ بات کہ امریکا کو اسرائیل اپنی بین الاقوامی عزت سے بھی زیادہ پیارا ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes