#اسٹیٹ
Explore tagged Tumblr posts
Text
معیشت درست سمت پر گامزن، مہنگائی کم اور معاشی سرگرمیاں بحال ہورہی ہیں, گورنر اسٹیٹ بینک
(ویب ڈیسک)گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا ہےکہ معیشت درست سمت پر گامزن ہے جب کہ مہنگائی کم اور معاشی سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں۔ واشنگٹن میں گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کی آئی ایم ایف اور عالمی سرمایہ کاروں سے ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاسوں کے موقع پر ملاقات ہوئی۔ گورنر اسٹیٹ بینک کی بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں سے بھی ملاقات ہوئی جہاں جمیل احمد نےگزشتہ سال پاکستان کے معاشی انڈیکیٹرز میں نمایاں…
0 notes
Text
جو بائیڈن کے 2023 اسٹیٹ آف دی یونین سے پانچ اہم نکات | جو بائیڈن نیوز
ریاستہائے متحدہ کے صدر جو بائیڈن نے سالانہ خطاب کیا۔ یونین کی ریاست خطاب، ان کی صدارت کا دوسرا، اپنے پالیسی اہداف کا خاکہ پیش کرتے ہوئے اور کامیابیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے جب وہ دوسری مدت صدارت کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ لیکن منگل کو ہونے والی تقریر ان کی پہلی منقسم کانگریس کو دی گئی تھی، جس نے بعض اوقات فضول تقریر کے دوران صدر کو جھنجھوڑ دیا۔ سامنا کرنا a ڈیموکریٹ قیادت سینیٹ اور ایوانِ…
View On WordPress
0 notes
Text
زرمبادلہ کے ذخائر11کروڑ93لاکھ ڈالر کااضافہ
زرمبادلہ کے سرکاری زخائر میں گزشتہ ہفتہ کے دوران 11 کروڑ 93 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے زرمبادلہ کے ذخائر کے اعداد و شمار کی ہفتہ وار رپورٹ جاری کی گئی۔9اگست تک زرمبادلہ کے سرکاری زخائر کی مالیت 9 ارب 27 کروڑ 26 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئی۔ کمرشل بینکوں کے ذخائر میں 5 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا۔ کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب 37 کروڑ 26 لاکھ ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔ سٹیٹ بینک کے…
0 notes
Text
نئے کرنسی نوٹوں کے ڈیزائن کے لیے مقامی آرٹسٹوں، طلبہ کے درمیان مقابلہ کرایا جائے گا
مرکزی بینک نے تمام مالیت کے نئے کرنسی نوٹ ڈیزائن اور اجراء پر کام کا آغاز کردیا ۔کرنسی نوٹوں کے ڈیزائن کے لئے آرٹ مقابلہ منعقد کرایا جائے گا۔ مقامی آرٹسٹ، ڈیزائنرز اور طالب علم اپنے ڈیزائن 11 مارچ 2024 تک ارسال کریں گے۔ مرکزی بینک 15 سے 20 سال میں نئے کرنسی نوٹ جاری کرتے ہیں۔ نئے کرنسی نوٹ کا اجراء ٹیکنالوجیکل بدلاؤ اور سیکیورٹی فیچر کو بڑھایا جاتا ہے۔ سٹییٹ بینک کرنسی نوٹوں کے ڈیزائن کے لئے آرٹ…
View On WordPress
0 notes
Text
اہم ٹیکس اصلاحات
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس قوانین سے نان فائلرز کی کیٹگری ختم کرنے اور ٹیکس نہ دینے والوں پر 15 پابندیاں لگانے کا جو فیصلہ کیا وہ معاشی چیلنجوں کا سامنا کرنے والے وطن عزیز کیلئے نہ صرف وقت کی ضرورت ہیں بلکہ امور مملکت چلانے کے تقاضوں کا لازمی جزو بھی۔ ریاست ایک ماں کی طرح اپنے بچوں کیلئے اپنے وسائل وقف کرتی اور بنیادی حقوق اور سلامتی سمیت تمام امور کی نگہبانی کرتی ہے تو ان سے ان کی آمدنی اور حیثیت کے مطابق ملکی معاملات چلانے کے لئے ٹیکس کی طلب گار بھی ہوتی ہے جس سے انکار یا ہیر پھیر کا طرز عمل دنیا کے کسی ملک میں برداشت نہیں کیا جاتا۔ کئی ممالک میں تو ٹیکس گریزی یا آمدنی و وسائل کے بارے میں غلط معلومات فراہم کرنے والوں کو سنگین جرم کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے۔ جو ممالک آج ترقی یافتہ کہلاتے ہیں، ان کی ترقی و خوشحالی کا ایک اہم عنصر وہاں ٹیکس کی ادائیگی کا کلچر ہے۔ وطن عزیز میں محصولات میں اضافے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے حوالے سے اشرافیہ کے طرز عمل، سرکاری اداروں میں رشوت ستانی، مختلف النوع ٹیکس استثنا اور ایسے عوامل شامل ہیں جن کی آڑ میں ٹیکس گریزی کے عادی عناصر پناہ لیتے رہے ہیں۔
پچھلے برسوں کے دوران معیشت کو دستاویزی بنانے کے لئے جو ترغیبات دی گئیں ان میں فائلرز کے لئے بعض رعایتیں اور نان فائلرز کے لئے کچھ رکاوٹیں شامل تھیں جن کے نتائج توقعات کے مطابق نہیں رہے۔ اب حکومت نے ٹیکس قوانین میں نئی اصلاحات کا فیصلہ کیا ہے تو کہا جاتا ہے کہ موجودہ فائلرز اور نان کمپلائنٹ شہریوں سے مزید ریونیو حاصل کرنے کے لئے بڑے صنعت کاروں کی حمایت حاصل کر لی گئی ہے۔ تاہم صنعت کاروں کا موقف ہے کہ زراعت پر ٹیکس نہ لگا تو ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب جمود کا شکار رہے گا۔ اسلام آباد میں صنعت کاروں اور تاجروں سے ملاقات میں چیئرمین ایف بی آر وزیر مملکت برائے خزانہ نے جو باتیں بتائیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچھلے برس نان فائلرز سے صرف 25 ارب روپے فیس کی مد میں جمع ہوئے۔ اب نان فائلر کیٹگری ختم ہونے کی صورت میں لین دین پر ٹیکس ادا کرنے سے بچنے کے لئے معمولی فیس ادا کرنے کا راستہ بند ہو گیا ہے۔ نان فائلرز کی کیٹگری ختم کرکے ٹیکس نہ دینے والوں پر جو 15 پابندیاں عائد کی جانی ہیں ان میں سے پانچ ابتدائی طور پر لگائی جائیں گی جن میں جائداد ،گاڑیوں، بین الاقوامی سفر، کرنٹ اکائونٹ کھولنے اور میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری پر پابندیاں شامل ہیں۔
حکومت نے جدید مشین لرننگ اور الگور تھمز کے ذریعے نان فائلرز کی شناخت کا فیصلہ کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر ایسے افراد کی نگرانی کی جائے گی جن کی آمدن کی سطح ان کے لین دین سے مطابقت نہیں رکھتی۔ چیئرمین ایف بی آر کے مطابق یہ اقدامات ایف بی آر کے تبدیلی کے منصوبے کا حصہ ہیں۔ جسے وزیراعظم کی منظوری مل چکی ہے اور بتدریج نان فائلرز کی 15 اقسام کے ٹرانزیکشنز پابندیوں کی زد میں آجائیں گے۔ جہاں تک مبصرین کا تعلق ہے، ان کا موقف پہلے بھی یہ رہا ہے اور آج بھی ہے کہ مخصوص آمدن سے زائد انکم اور وسائل کے حامل تمام لوگوں کو دیانتداری سے ٹیکس ادا کرنا چاہئے۔ بااثر افراد کے لئے چھوٹ کی گنجائشیں نکالنے سے گریز کیا جانا چاہئے کیونکہ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کا بوجھ ان لوگوں پر پڑتا ہے جو ایمانداری سے ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ ٹیکس گریزی کےاثرات فلاحی اقدامات کی کٹوتی، غربت میں اضافے اور قرض خواہی کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ نئی ٹیکس اصلاحات کے نتیجے میں ملکی معیشت استحکام کی راہ پر تیزی سے آگے بڑھے گی اور قرضوں کے بھاری بوجھ سے نجات میں مدد ملے گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
پاکستان میں حالیہ دنوں میں کمی کے باجود شرحِ سود اس وقت بھی بلند ترین سطح پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہاؤسنگ مارگیج کے ریٹ بھی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ بلند ترین شرح سود کے باعث گھر خریدنے میں دلچسپی کنے کئی ممکنہ خریدار مارکیٹ سے باہر ہیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ وہ گھر مالکان جو مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے گھر بیچنا چاہتے ہیں، وہ بھی ایسا نہیں کرپارہے۔ ہاؤسنگ مارکیٹ کی یہ صورتِ حال گھر فروخت کرنے والوں اور گھر خریدنے والوں، دونوں کے لیے چیلنجز کے ساتھ ساتھ مواقع بھی پیش کرتی ہے۔ اگر آپ گھر بیچنا چاہتے ہیں تو اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ آپ جس قیمت کا تقاضا کررہے ہیں وہ آپ کی پراپرٹی کی قدر کی حقیقی عکاس ہے۔ کوئی بھی گھر جب پہلی دفعہ فروخت کے لیے مارکیٹ میں آتا ہے تو اس وقت جتنی توجہ حاصل کرتا ہے وہ بعد میں قیمت کم کرکے فروخت کرنے کی کوشش پر بھی حاصل نہیں کرپاتا۔ مارکیٹ میں کم گھرخریداروں کے باعث انھیں اپنی پراپرٹی کی جانب راغب کرنے کے لیے شروع سے ہی مناسب قیمت لگانا ضروری ہے۔اس حکمتِ عملی کے ساتھ بہترین قیمت پر آپ بروقت اپنی پراپرٹی فروخت کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اپنا موجودہ گھر بیچنے والوں کے لیے ایک مشکل فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ انھیں پہلے اپنا موجودہ گھر بیچنا چاہیے یا پہلے اگلا گھر خریدناچاہیے۔ بلند مارگیج ریٹس کے پیشِ نظر، پہلے بیچنااور پھر اپنا اگلا گھر خریدنا زیادہ سود مند ہو سکتا ہے۔ اس طرح آپ کو اس بات کا درست اندازہ ہوجاتا ہے کہ آپ اپنی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کی بنیاد پر کیا خریدسکتے ہیں۔ یہ لائحہ عمل آپ کو کئی ممکنہ مشکلات سے بچا سکتا ہے۔ جیسے بلند مارگیج ریٹ کے دباؤ سے محفوظ رہنا اور اگلا گھر خریدنے کے لیے ایسی رقم کی پیشکش کردینا، جس کے بارے میں آپ بے یقینی کا شکار ہیں کہ آپ ادا کرپائیں گے یا نہیں کیوں کہ آپ نے ابھی تک اپنا موجودہ گھر بیچا نہیں ہے۔ ہر ریئل اسٹیٹ ایجنٹ اپنی شرائط پر کام کرتا ہے۔ اس لیے اپنا گھر بیچنے کے لیے جس کسی بھی ایجنٹ سے بات کریں اس کے ساتھ لین دین کی شرائط پیشگی طور پر واضح انداز میں طے کرلیں کہ وہ آپ کے لیے کیا کرے گا اور بدلے میں وہ آپ سے کمیشن اور فیس کی مد میں کیا وصول کرے گا۔ خریدار کو اچھی تیاری کے ساتھ آنا چاہیے اگر کوئی خریدار نقدی پر گھر خریدنے مارکیٹ میں نکلا ہوا ہے تو اسے زیادہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ایجنٹ اور پراپرٹی بیچنے والی فیملیز ایسی پارٹیوں کی منتظر رہتی ہیں جو انھیں نقدی میں ادائیگی کردے۔ البتہ اگر آپ مارگیج پر گھر خریدنا چاہتے ہیں تو تاخیر سے بچنے اور بیچنے والی پارٹی کے ساتھ سودا خراب کرنے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ پہلے بینک یا قرض دینے والے ادارے سے اپنا قرض اور اس کی زیادہ سے زیادہ حد کا تعین کرواکر مارگیج کی منظوری لے لیں۔ اب آپ واضح پوزیشن میں ہوں گے کہ آپ کو زیادہ سے زیادہ قرض کتنا مل سکے گا اور اس میں آپ کو اپنا حصہ کتنا ڈالناپڑے گا۔ سودے کی شرائط میں کوشش کریں کہ ادائیگی کے لیے دو مہینے کا وقت لے لیں کیوں کہ عمومی طور پر پراپرٹی کی مکمل فائل بینک میں جمع کروانے کے وقت سے لے کر مارگیج کی رقم جاری ہونے کے درمیان ڈیڑھ سے دو ماہ کا وقت لگ جاتا ہے۔ مزید برآں، گھر کا مارگیج قرض چونکہ طویل مدتی ہوتا ہے، اس لیے یہ قرض آپ کو فلوٹنگ ریٹ پر ملے گا۔ ایسے میں آپ اپنی ماہانہ ادائیگی میں اس بات کو بھی شامل رکھیں کہ اگر آنے والے برسوں میں پالیسی ریٹ میں اضافہ ہوا تو آپ کی ماہانہ ادائیگی کی رقم بھی اسی مناسبت سے بڑھ جائے گی۔ آپ کو اپنے ایجنٹ کے ساتھ یہ بات بھی ضرور واضح کرنی چاہیے کہ آپ گھر کا سودا ہونے پر اسے کمیشن اور فیس وغیرہ کی کس طرح ادائیگی کریں گے۔ ساتھ ہی آپ ایجنٹ پر یہ بات بھی واضح کریں کہ سودا مکمل ہونے سے پہلے کے تمام مراحل مکمل کروانا اس کی ذمہ داری ہوگی۔ چانس کے سودے آپ کو مارکیٹ میں فروخت کے لیے آنے والے نئے گھروں کے ساتھ ساتھ ایسے گھروں پر بھی نظر رکھنی چاہیے جو ایک بار خریدے جانے کے باعث، خریدار اس سودے کو مکمل نہیں کرپایا ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی فیملی نے ایک گھر مارگیج پر لیا ہوا ہے لیکن اب کچھ عرصہ بعد وہ اس گھر کو مارگیج کے ساتھ بیچنا چاہتا ہے۔ ایسا گھر آپ نسبتاًرعایتی شرائط پر خریدنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ چانس کے سودوں کی اور بھی صورتیں ہوسکتی ہیں، جن پر آپ کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت مارگیج ریٹس کافی بلند سطح پر ہیں لیکن اگر آپ گھر خریدنے کا فیصلہ کرچکے ہیں تو تاخیر نہ کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ دس یا بیس سال کےعرصے کے لیے مارگیج قرض لے رہے ہیں تو یہ ممکن ہے کہ اس دوران آپ کو کئی بار مارگیج ریٹس میں اُتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملے۔ ا��ج کے بلند مارگیج ریٹس دو، چار
سال کے بعد یقیناً نیچے آجائیں گے اور پھر اس کے کچھ سال کے بعد پھر سے بلند ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اسی طرح آج کے کم مارگیج ریٹس ہمیشہ کم نہیں رہنے والے۔ یہ ایک معاشی پہیہ ہے جو مسلسل اوپر نیچے گھوم رہا ہوتا ہے۔ آپ کو مارگیج کے پورے عرصے کے لیے اس اونچ نیچ اور اس کے نتیجے میں ماہانہ قسط ادائیگی کی رقم میں ردوبدل کے لیے تیار رکھنا ہوگا۔ واضح رہے کہ ہاؤسنگ مارکیٹ اس وقت ایک مشکل وقت سے گزر رہی ہے لیکن ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مشکل وقت ہمیشہ نہیں رہنے والا۔ یقیناً، اچھا وقت آنے والا ہے۔ مناسب تیاری، لچک اور حقیقت پسندانہ توقعات کے ساتھ خریدار اور بیچنے والا دونوں اپنے اہداف کامیابی کے ساتھ حاصل کرسکتے ہیں
0 notes
Text
پاکستان کو قرض و سود سے بچانے کی ایک تجویز
پاکستان کو سود اس تیزی سے کھا رہا ہے کہ اب تو ہمارے بجٹ کا بڑا حصہ سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ سود کی مد میں مالی سال 2023-2024 میں 7300 ارب روپے مختص کیے گئے تھے لیکن کہا جا رہا ہے کہ سود کی ادائیگی اس سال کوئی 8300 ارب روپے سے بھی زیادہ ہو گی جبکہ آئندہ سال سود کی ادائیگی کیلئے مختص تخمینہ کوئی 9500 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ ہمارے قرضے (جن میں بہت بڑا حصہ اندرونی قرضوں کا ہے) اتنے بڑھ چکے ہیں اور بڑھتے جا رہے ہیں کہ اگر کوئی حل نہ نکالا گیا تو پاکستان اپنا بجٹ بھی نہیں بنا سکے گا کہ سارے کا سارا بجٹ ہی سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جائے تو پھر ملک کیسے چل سکتا ہے؟؟ کچھ عرصہ قبل مجھے ایک صاحب ملنے آئے جن کا نام قانت خلیل اللہ ہے۔ وہ ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں اور کچھ اہم اداروں سے منسلک رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اندرونی قرضے فوری طور پر ختم ہو سکتے ہیں جس سے سود کا بوجھ ختم ہو جائے گا۔ قانت صاحب نے دی نیوز میں اس سلسلے میں تین آرٹیکل بھی لکھے جبکہ وہ مختلف فورمز پر جا کر اپنی تجویز بھی سب کے سامنے رکھ رہے ہیں۔
میں نے وزیراعظم شہباز شریف صاحب سے بھی درخواست کی تھی کہ اپنی معاشی ٹیم کو کہیں کہ قانت صاحب کو سنیں اور اگر اُن کی تجویز میں کوئی وزن ہے تو اُس پر سنجیدگی سے غور کر کے پاکستان کو سود کے اس سنگین خطرے اور گناہ کبیرہ سے بچائیں۔ ابھی تک تو قانت صاحب سے حکومت کی طرف سے تو کوئی رابطہ نہیں کیا گیا لیکن میں نے اُن سے درخواست کی کہ مجھے اردو زبان میں قرضوں اور سود کے اس بوجھ کو ختم کرنے کیلئے اپنی تجویز لکھ کر بھیجیں تاکہ میں اُسے اپنے کالم میں شائع کر سکوں۔ ان کی تجویزدرج ذیل ہے: ’’جدید بینکنگ نظام میں دو قسم کی کرنسی یا پیسے ہوتے ہیں: بینک نوٹ (جو مرکزی بینک جاری کرتا ہے) اور بینک ڈپازٹ، جو کمرشل بینکوں کے قرضے ہوتے ہیں۔ عمومی نقطہ نظر سے، بینک ڈپازٹس نقد رقم رکھنے کے برابر ہیں۔ بینک جب قرضے جاری کرتے ہیں، نئے روپے تخلیق کرتے ہیں، کیونکہ اسی وقت بینک اکاؤنٹس میں نمبر (بینک ڈپازٹس) ظاہر ہوتے ہیں۔
بینک آف انگلینڈ کے الفاظ میں: ’’جب ایک بینک قرض دیتا ہے، اسی لمحے، نیا پیسہ تخلیق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، کسی کو گھر خریدنے کیلئے قرض دینے والے کو بینک ہزاروں پاؤنڈ مالیت کے نوٹ نہیں دیتا۔ اس کے بجائے، وہ ان کے بینک اکاؤنٹ میں قرض کے برابر بینک ڈپازٹ کریڈٹ کرتا ہے۔‘‘ (بینک آف انگلینڈ سہ ماہی بلیٹن، 2014 Q1) زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کیلئے، تجارتی بینکس زیادہ قرضے جاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فریکشنل ریزرو سسٹم کے تحت صرف 6-5 فیصد مرکزی بینک کی ریزرو کرنسی کے ساتھ، بینک قرضے جاری کر سکتے ہیں اور تقریباً بیس گنا تک بینک ڈپازٹ میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ تاہم، ان کے پیسہ کی توسیع سے ہونیوالی افراط زر یا مہنگائی کو مرکزی بینک بلند شرح سود کی پالیسی کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ قرض لینے کی سرگرمی کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ تاہم جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، پاکستان میں بلند شرح سود پالیسی مؤثر نہیں ہے کیونکہ تجارتی بینکوں کی سب سے بڑی قرض دار حکومت پاکستان خود ہی ہے، جو قرضے واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پیسے کی تخلیق کے قانونی اختیارات کے باوجود، پاکستان کی ریاست نجی بینکوں سے بڑے پیمانے پہ اور قرضے لے رہی ہے تاکہ پرانے قرضوں پر سود ادا کر سکے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے؛ حکومت سود کی ادائیگی کیلئے قرض لیتی ہے، جس سے حکومت کا قرض بڑھتا ہے، اور سود کی ادائیگی کے نتیجے میں بینک ڈیپازٹس میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہم پیسے کی فراہمی میں اضافے کی وجہ سے افراط زر کا سامنا کر رہے ہیں، اور ہمارے بچوں پر حکومتی قرض کا بوجھ مسلسل بڑھتا چلا جائے گا۔ پاکستان کے سنگین معاشی مسائل کا حل مکمل ریزرو بینکنگ کا نفاذ ہے۔ اس نظام کی تائید بیسویں صدی کے بڑے ماہرین معاشیات ، جن میں ملٹن فریڈ مین اور فشر نمایاں ہیں، نے کی ہے اور اس کے نفاذ کو نہایت ہی قابل عمل اور آسان بتایا ہے۔ یہ منظم مالیاتی نظام بھاری سرکاری قرضوں کے بوجھ اور ان پر سود کے اخراجات کو ختم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ منصوبہ مالیاتی استحکام کو یقینی بنانے، افراط زر کو کنٹرول کرنے اور اقتصادی خوشحالی کو فروغ دینے کے مقاصد کو حاصل کر سکتا ہے۔ فریکشنل ریزرو سسٹم، جو پیسے کی فراہمی میں اتار چڑھاؤ اور اقتصادی عدم استحکام کا ذمہ دار ہے، اس کو مکمل ریزرو سسٹم سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ نیا تجویز کردہ نظام درج ذیل بنیادی اصولوں پر کام کرے گا:
۱۔ تجارتی بینکس قرض جاری کرنے اور انویسٹمنٹ کرنے کے عمل میں نیا پیسہ /کرنسی تخلیق نہیں کرسکیں گے۔ ۲۔ پیسہ تخلیق کرنے کی صلاحیت ایک خود مختار ادارے جیسے اسٹیٹ بینک کو منتقل کی جائے گی جو جی ڈی پی میں اضافے کے برابر نیا پیسہ تخلیق کر یگا تاکہ مہنگائی یا افراط زر نہ ہو۔ ۳۔ نیا تخلیق کردہ پیسہ غریب طبقے کی بنیادی ضروریات اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے استعمال کیا جائے گا تاکہ اشیا کی طلب کے ساتھ سپلائی میں بھی موثر اضافہ ہو۔
سو فیصد (100%) ریزرو سسٹم میں، بینکوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ اپنے تمام ڈپازٹس کیلئے 5 فیصد کی جگہ 100 فیصد تک مرکزی بینک کی ریزرو کرنسی رکھیں۔ نتیجتاً، بینک کے قرضوں سے نیا پیسہ تخلیق کرنے کا عمل بند ہو جائے گا، اس کے بجائے، بینکوں کو قرضے جاری کرنے کیلئے پہلے سرمایہ حاصل کرنے کی ضرورت ہو گی، اس سے پیسے کی فراہمی میں بڑے پیمانے پر اتار چڑھاؤ کو روکا جاسکے گا۔ مزید یہ کہ بینکوں کو مرکزی بینک کی ریزرو کرنسی کو حاصل کرنے کیلئے حکومتی بانڈز اور ٹریژری بلز اسٹیٹ بینک کے حوالے کرنا ہوں گے، اور کیونکہ 100 فیصد ریزرو کرنسی کی مقدار بینکوں کے پاس تقریباً 60 فیصد حکومتی بانڈز سے زیادہ ہے اسلئے اس سے بینکوں کے علاوہ دوسرے اداروں اور لوگوں کے ہاتھوں میں حکومتی بانڈز اور قرضہ بھی ادا کر دیئے جائیں گے اور اس طرح پاکستان کا پورا داخلی قرض ختم ہو سکے گا۔ یہ نیا نظام اسلام کے مقاصد اور مالیاتی اصولوں کے عین مطابق ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ موجودہ نظام کے مقابلے میں جہاں 90 فیصد سے زیادہ کرنسی، تجارتی بینکس قرض دیتے وقت تخلیق کر رہے ہیں اور کرنسی اور قرض ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، اس نئے نظام میں پیسہ قرض کے بغیر تخلیق کیا جائیگا اور یہ حقیقی اشیا کی پیداوار کے تناسب سے ہو گا۔ مزید یہ کہ موجودہ بینکنگ سسٹم کے برعکس، ڈیپازٹ ہولڈرز کو انویسٹمنٹ اور نفع نقصان میں شرکت کے بغیر کوئی منافع نہیں ملے گا، ان کو اپنی رقم بینکوں کو ٹرانسفر کرنا ہو گی جو اس رقم کو مختلف کاروباری اداروں میں انویسٹ کر کے منافع کمائیں گے اور تقسیم کریں گے۔ روپے کی قدر اس نظام میں مستحکم رہے گی کیونکہ تجارتی بینک قرض کے ساتھ روپے کی سپلائی نہیں بڑھا رہے ہوں گے۔ اس نئے نظام میں حکومت کا 6 ہزار ارب کا سودی خرچ ختم ہو جائے گا اور اسکے پاس ٹیکس کے علاوہ تقریباً 2 ہزار ارب کی نئی تخلیق کردہ کرنسی ہو گی، اسلئے حکومت کو اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کیلئے بینکوں سے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، جس سے افراط زر کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی ختم ہو جائے گی۔
حکومت اپنی مالیاتی پالیسیوں کو مؤثر طریقے سے نافذ کر سکے گی، اور سود کی ادائیگی کیلئے رکھی گئی رقم، سماجی اور اقتصادی ترقی کے منصوبوں میں استعمال ہو سکے گی۔ مجموعی طور پر، 100%ریزرو بینکنگ ایک جدید اور پائیدار حل پیش کرتی ہے جو پاکستان کے سنگین اقتصادی مسائل کو حل کر سکتی ہے، مالیاتی استحکام کو یقینی بنا سکتی ہے، اور پاکستان اور اس کے عوام کیلئے ایک خوشحال مستقبل کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔‘‘
��نصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
انٹر بینک میں ڈالر کا راج اوپن مارکیٹ میں روپے نے درگت بنا دی
(اشرف خان)معاشی استحکام کیلئے حکومتی اقدامات کا اثر یا کچھ اور ؟ انٹر بینک میں ڈالر کی قدر میں معمولی اضافہ ہو جبکہ اوپن مارکیٹ میں روپے نے ڈالرسمیت دیگر کرنسیوں کی درگت بنا ڈالی ۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق انٹر بینک میں ڈالر 2 پیسے مہنگا ہونے کے بعد 277.64 روپے سے بڑھ کر 277.66روپے پر بند ہوا ، دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر 10 پیسے سستا ہوکر 279.35 روپے کا ہوگیا ،یورو 38 پیسے کمی سے 304.30…
0 notes
Text
آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر علاقائی خبریں تاریخ : 15 ؍ اکتوبر 2024 ء وقت : صبح 09.00 سے 09.10 بجے
پہلے خاص خبروں کی سر خیاں ...
٭ دمن گنگا - ایکدرے-گوداوری ندی جوڑ منصوبہ اور آشٹی آبپاشی منصوبے کو ریاستی حکو مت کی منظوری
٭ مراٹھواڑےکو قحط سے پاک کرنے کے لیے 80؍ ہزار کروڑ روپئے کے اخراجات پر مشتمل منصوبے
روبہ عمل لائے جائیں گے -وزیر اعلیٰ کا اعلان
٭ اُدگیر سے دیگلور اور آدم پور موڑ سے سگ روڑی موڑ راستے کے تعمیر کاموں کو مرکزی حکو مت کی منظوری
اور
٭ دیوالی کے موقعے پربس کرایوں میں اضافے کی تجویز واپس لینے کا ایس ٹی کارپوریشن کا فیصلہ
اب خبریں تفصیل سے...
ریاستی کابینہ نے دمن گنگا -ایکدرے-گودا وری ندی جوڑ منصوبے کی منظوری دیدی ہے ۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کی صدارت میں کل منعقدہ میٹنگ میں یہ فیصلہ کیاگیا ۔ اِس موقعے پر رکن پارلیمان اشوک چو ہان نے کہا کہ مراٹھواڑےمیں پانی کی قلت دور کرنے کے مقصد کو پورا کرنے میں یہ منصوبہ نہایت کارگر ثابت ہو گا ۔ ساتھ ہی آشٹی آبپاشی منصوبہ اور ویجاپور کے قریب شنی دیو گائوں میں پُشتے کے تعمیری کام کو بھی کل ہوئے ریاستی کابینی اجلاس میں منظوری دی گئی ۔
مراٹھی زبان سے متعلق عوامی بیداری کے لیے 15؍ روزہ پروگرام کا اہتمام کرنے ‘ اننا صاحیب جائوڑے مراٹھواڑہ تر قیاتی کارپوریشن اور اُمید کے لیے محقق گروہ تشکیل دینے کی بھی منظوری دی گئی ہے ۔ اِس کے علا وہ ریاستی اِسکِل یو نیور سٹی کا نام بدل کر پدم وِبھو شن رتن ٹا ٹا مہاراشٹر اسٹیٹ اِسکِل یو نیور سٹی کرنے کو بھی کل ہوئے ریاستی کابینی اجلاس میں منظوری دی گئی ۔
***** ***** *****
مراٹھواڑے کو قحط سے پاک کرنے کے لیے 80؍ ہزار کروڑ روپئے کے اخرجات پر مشتمل منصوبے روبہ عمل لائیں جائیں گے ۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے یہ بات کہی ہے ۔ وہ کل جالنہ ضلعے میں گھن سائونگی تعلقے کے کمبھار پمپڑ گائوں میں منعقدہ کاشتکاروں کےجلسے میں بول رہے تھے ۔ اپنی مخاطبت میں انھوں نے مزید کہا کہ مراٹھواڑے کے لیےتمامضروری کام کیے جا ئیں گے ۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ندی جوڑ منصوبے کے ذریعے سمندر میں جا ملنے والے پانی کو موڑ کر عوام کے لیے مہیا کیا جائے گا ۔ انھوں نے کہا کہ حکو مت کسانوں کو بے سہارا نہیں چھوڑے گی ۔ انھوں نے بتا یا کہ کاشتکاروں کو 12؍ ہزار روپئے دینے والی مہاراشٹر کی عظیم اتحاد کی حکو مت ملک بھر میں پہلی ریاستی حکو مت ہے ۔
اِس موقعے پر مرکزی مملیکتی وزیر پر تاپ رائو جا دھو ‘ رکن پارلیمان سندپان بھومرے ‘ وزیر صنعت اُدئے سامنت ‘ سڈ کو کارپوریشن کے چیئر مین سنجئے شر ساٹ اور سابق وزیر ارجن کھوتکر سمیت کئی معزز شخصیات موجود تھیں ۔
بلیو سفائر کمپنی کے فوڈ پرو سیسنگ کے دوسرے یونٹ کا سنگ بنیاد بھی کل وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کےہاتھوں رکھا گیا ۔
***** ***** *****
وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کہا ہے کہ راشٹر وادی کانگریس پارٹی کے رہنما بابا صدیقی کے قتل کا معاملہ فاسٹ ٹریک عدالت میں چلا ��ا جائے گا ۔ انھوں نے کہا کہ وہ تمام مجرموں کو پھانسی کی سزا دینے کا مطالبہ کریں گے ۔
اِسی دوران بابا صدیقی قتل معاملے میں زیر حراست 2؍ ملزمان میں سے دھرم راج کشیپ کی بلو غت ثابت ہو گئی ہے ۔ لہذا اُسے آئندہ 21؍ تاریخ تک پولس کی حراست میں رکھا جائے گا ۔ اِس معاملے میں ایک اور ملزم پر وین لون کر کو ممبئی پولس نے کل پونا سے گرفتار کیا ۔
***** ***** *****
وزیر اعلیٰ میرا اسکول خوبصورت اسکول مہم کے دوسرے مرحلے میں نما یاں کار کر دگی کا مظاہرہ کرنے والے اسکولوں کو کل وزیر اعلیٰ کےہاتھوں سر ٹیفکیٹ ‘ ستائش نامہ اور چیک عطا کیے گئے ۔ اِن اسکولوں میں جالنہ ضلعے کے جئو کھیڈا خورد میں واقع دشرتھ با با ثانوی و اعلیٰ ثانوی اسکول کو ریاستی سطح پر تیسرا مقام حاصل ہوا ہے ۔
***** ***** *****
قومی شاہراہ نمبر63؍ پر اُدگیر سے دیگلور اور آدم پور موڑ سے سگ روڑی موڑراستے کے تعمیری کام کو منظوری دیدی گئی ہے ۔ شاہراہوں کے مرکزی وزیر نتن گڈ کری نےکل سوشل میڈیا پیغام کے ذریعے یہ بات بتائی ۔ انھوں نے بتا یا کہ مذکورہ راستوں کے تعمیری کام کے لیے 809؍ کروڑ 77؍ لاکھ روپئے کے اخراجات پیش آئیں گے ۔وزیر موصوف نے مزید بتا یا کہ ان راستوں کے سبب اُدگیر ‘ مکرم آباد اور دیگر شہروں کی کاروباری سر گر میوں میںتیزی آئے گی۔
***** ***** *****
ریاستی ٹرانسپوٹ کارپوریشن ایس ٹی نے دیوالی کے پیش نظر بس کےکرایوں میں اضا فے کی تجویز کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ خیال رہے کہ آئندہ 25؍ اکتوبر سے 25؍ نومبر کے دوران ایس ٹی بس کرایوں میں اضافے کی تجویز زیر غور تھی ۔اِس بارے میں ایک اطلاع نا مہ بھی جاری کیاگیا تھا جسے ایس ٹی کارپوریشن نے کل منسوخ کر دیا۔
***** ***** *****
***** ***** ***** ***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر سے نشر کی جا رہی ہیں
***** ***** ***** ***** ***** *****
معروف مزاحیہ ادا کار اتُل پر چورے کل ممبئی میںچل بسے ۔ وہ 57؍ برس کے تھے ۔ کچھ عرصہ قبل ہی وہ کینسر جیسے مہلک مرض کو شکست دے کر صحت یاب ہو ئے تھے لیکن کچھ دن قبل دوبارہ تکلیف محسوس ہونے پر اُنھیں ہسپتال میں شریک کیاگیا تھا ۔ دوران علاج ہی کل اُن کا انتقال ہو گیا۔ خیال رہےکہ اتُل پر چورے چھوٹے اور بڑے دونوں پردوں پر اپنی اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں ۔ انھوں نے ہندی اور مراٹھی کی 40؍ سے زیادہ فلم��ں میں کام کیا تھا ۔اُن کے انتقال پر ہندی اور مراٹھی فلمی دنیا میں غم کا ماحو ل ہے ۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے اتُل پر چورے کی موت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے ۔ اتل پر چورے کی آخری رسو مات آج ممبئی میں ادا کی جا ئیں گی ۔
***** ***** *****
محکمہ توانائی نے پر لی ویجناتھ میں اسپورٹس کامپلیکس قائم کرنے کے لیے محکمہ کھیل کو جلال پور علاقے میں 5؍ ہیکٹر اراضی مُفت دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ کل اِس خصوص میں سرکاری حکم نا مہ جاری کیاگیا ۔ نگراں وزیر دھننجئے مُنڈے نے مذکورہ اراضی کو محکمہ کھیل کے نام منتقل کر کے اسپورٹس کامپلیکس قائم کرنے کی کارروائی شروع کرنے کی ہدایت دیدی ہے ۔
***** ***** *****
ونچت بہو جن آ گھاڑی کے صدر ایڈو کیٹ پر کاش امبیڈکر نے کہا ہے کہ اگر ہم منتخب ہوتے ہیں تب بھی ہم الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی مخالفت کریں گے ۔ وہ کل چھترپتی سنبھا جی نگر میں صحافیوں سے اظہار خیال کر رہے تھے ۔ اِس موقعے پر انھوں نے کانگریس اور بی جے پی دنوں سیاسی جماعتوں پر نکتہ چینی کی ۔
***** ***** *****
جالنہ شہر کے چندن جھیرا علاقے میں 9؍ سالہ بچی کے ساتھ کی گئی زیادتی کی مذمت میں شہر یان کی جانب سے کل راستہ روکو آندو لن کیا گیا ۔ اِس کی وجہ سے جالنہ - چھتر پتی سنبھا جی نگر راستے پر آمد و رفت بند ہوگئی تھی ۔
اِسی دوران مذکورہ سانحہ کے سلسلے میں کارروائی کرتے ہوئے پولس نے 6؍ مشکوک افراد کو گرفتار کیاہے ۔ متاثرہ بچی چھتر پتی سنبھا جی نگر کے گھاٹی ہسپتال میںزیر علاج ہے ۔
***** ***** *****
ناندیڑ ضلع کلکٹر دفتر پر کل کاشتکار احتجاجی مورچہ نکا لا گیا تھا ۔ یہ مورچہ چھتر پتی سنبھا جی مہاراج کی قیادت میں نکا لا گیا تھا ۔ مورچے میں شامل کاشتکاروں نے سویا بین کو فی کوئنٹل ساڑھے آٹھ ہزار روپئے کا بھائو اور کپاس کو 11؍ ہزار روپئے فی کوئنٹل کا بھائودینے کا مطالبہ کیا ۔ اِس کے علا وہ موسلا دھار بارش کی وجہ سے ہوئے نقصانا ت کی بھر پائی جلد از جلد ادا کرنے اور کاشتکاروں کے قرض صد فیصد معاف کرنے وغیرہ مطالبات بھی کاشتکاروں نے اِس موقعے پر کیے ۔
***** ***** *****
اَگلی پھُلے- شاہو- امبیڈ کر عالمی ادبی کانفرنس کے صدر نشین عہدے پر بزرگ ادیب رُشی کیش کامبڑے کا انتخاب کیاگیا ہے ۔
یہکانفرنس آئندہ سال5؍ جنوری 2025ء کے روز بینگ کاک میں منعقد کی جائے گی ۔ خیال رہے کہ اِس کانفرنس کا نظم تھائی لینڈ کی پٹا یا اِنڈین ایسو سی ایشن نامی تنظیم سے وابسطہ بھارتی افراد کی جانب سےکیا جائے گا ۔
***** ***** *****
وزیر اعلیٰ تیرتھ درشن یو جنا کے تحت لاتور ضلع سے کل تقریباً 800؍ بزرگ شہر یان ایو دھیا کے لیے روانہ ہوئے ۔ ضلع کلکٹر ورشا ٹھا کُر گھو گے نے اِس جاترا کو ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کیا ۔ اِس موقعے پر نگراں وزیر گیرش مہا جن کی جانب سے بھیجا گیا پیغام مسافروں کو پڑ ھ کر سنا یاگیا ۔
***** ***** *****
پر بھنی ضلع کلکٹر دفتر میں کل 4؍ آدھار اندراج مراکز کا آغاز کیا گیا ۔ ضلع کلکٹر رگھو ناتھ گائوڈے نے اِن مراکز کاافتتاح کیا ۔ یہ مراکز ضلع کلکٹر دفتر کی زیر نگرانی کام کریں گے ۔
***** ***** *****
آخر میں اہم خبروں کی سر خیاں ایک مرتبہ پھر سن لیجیے ...
٭ دمن گنگا - ایکدرے-گوداوری ندی جوڑ منصوبہ اور آشٹی آبپاشی منصوبے کو ریاستی حکو مت کی منظوری
٭ مراٹھواڑےکو قحط سے پاک کرنے کے لیے 80؍ ہزار کروڑ روپئے کے اخراجات پر مشتمل منصوبے
روبہ عمل لائے جائیں گے -وزیر اعلیٰ کا اعلان
٭ اُدگیر سے دیگلور اور آدم پور موڑ سے سگ روڑی موڑ راستے کے تعمیر کاموں کو مرکزی حکو مت کی منظوری
اور
٭ دیوالی کے موقعے پربس کرایوں میں اضافے کی تجویز واپس لینے کا ایس ٹی کارپوریشن کا فیصلہ
علاقائی خبریں ختم ہوئیں
آپ یہ خبر نامہ ہمارے یو ٹیوب چینل AIR چھتر پتی سنبھا جی نگر پر دوبارہ کسی بھی وقت سن سکتے ہیں۔
٭٭٭
0 notes
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر حکومت پنجاب ننکانہ صاحب فون نمبر056-9201028
ہینڈ آوٹ نمبر423
ننکانہ صاحب:27( ) ستمبر 2024۔۔۔۔۔۔وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کی خصوصی ہدایت پر ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ناجائز تجاوزات کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن جاری ہے۔تفصیلات کے مطابق ڈپٹی کمشنر ننکانہ صاحب محمد تسلیم اختر راو نے ناجائز تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن کا جائزہ لینے کے لیے موڑ کھنڈا سمیت دیگر علاقوں کا دورہ کیا۔سی او ضلع کونسل عامر اختر بٹ ، سی او میونسپل کمیٹی ، پولیس ، ریونیو سمیت دیگر اداروں کے افسران بھی ڈپٹی کمشنر کے ہمراہ۔تھے۔اس موقع پر ڈپٹی کمشنر ننکانہ صاحب محمد تسلیم اختر راو نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ��نکانہ سٹی ، موڑ کھنڈا ، منڈی فیض آباد کا 90 فیصد علاقہ ناجائز قابضین سے واگزار کروا لیا گیا ہے ، دوران آپریشن بل بورڈ ، تھڑوں سمیت دیگر پکی تجاوزات کو گرایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ تحصیل شاہکوٹ ، تحصیل سانگلہ ہل سمیت دیگر شہروں میں ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز آج سے کیا جا رہا ہے ، ناجائز تجاوزات کے خاتمے کے لیے آپریشن کی خود نگرانی کر رہا ہوں۔ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ تمام ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز ، اسسٹنٹ کمشنرز سمیت دیگر متعلقہ افسران ناجائز تجاوزات کے خاتمے کے لیے آپریشن ٹیموں کی مسلسل نگرانی کر رہے ہیں ، تاجر حضرات ناجائز تجاوزات کو خود ہٹا لیں ، آپریشن کے دوران کسی کے ساتھ رعایت نہیں برتی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ضلع ننکانہ کو ناجائز تجاوزات سے پاک کرنا میرا مشن ہے ، وزیر اعلی پنجاب کے ویڑن کے مطابق عوامی گزرگاہوں کو ہر صورت ناجائز تجاوزات سے پاک کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ضلع بھر میں ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن کو کسی صورت موخر نہیں کیا جائے گا ، ناجائز قابضین سے اسٹیٹ لینڈ کو واگزار کروانے کے لیے تمام تر وسائل کو بروئے کار لایا جائے گا۔ڈپٹی کمشنر ننکانہ صاحب محمد تسلیم اختر راو نے ناجائز تجاوزات کے خاتمے کے لیے آپریشن میں حصہ لینے والے افسران و ملازمین کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ ناجائز تجاوزات کے خاتمے کے لیے کسی قسم کا دباو برداشت نہ کیا جائے تمام مقامات پر بلاتفریق آپریشن جاری رکھا جائے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریڑھی بانوں کے لیے ضلع کے تمام شہروں میں ریڑھی بازاروں کے لیے جگہ مختص کر رہے ہیں ، ریڑھی بان متعلقہ اداروں کو جگہ کے حصول کے لیے فوری درخواستیں جمع کروا دیں ، درخواست جمع نہ کروانے والے ریڑھی بانوں کو جگہ آلاٹ نہیں کی جائے گی۔
0 notes
Text
بینکوں کو 4093 ارب روپے فراہم کر دیئے اسٹیٹ بینک
(ویب ڈیسک)اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بینکوں کو آخر کار 4093 ارب روپے فراہم کر دیئے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے کہا گیا ہے کہ روایتی بینکوں کو 7 روز کے مارکیٹ آپریشن میں 4041 ارب روپے دیے ہیں، یہ 7 دن کی فنڈنگ 17.56فیصد سالانہ شرحِ سود پر کی ہے،روایتی بینکوں کو 28 روز کے مارکیٹ آپریشن میں 26 ارب روپے دیئے گئے ہیں، یہ 28 دن کی فنڈنگ 17.59 فیصد سالانہ شرحِ سود پر کی گئی۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق اسلامی…
0 notes
Text
اسٹیٹ بینک کا شرح سود 2.5 فیصد کم کرکے 15 فیصد کرنے کا اعلان
اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی جاری کردی۔شرح سود 250 بیسس پوائنٹس کم کرکے 15 فیصد کرنے کا اعلان کر دیا۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ زری پالیسی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا، جس نے بنیادی پالیسی ریٹ 250 بیسس پوائنٹس کم کرکے 15 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو 5 نومبر 2024 سے نافذ العمل ہوگا۔ کمیٹی نے نوٹ کیا کہ مہنگائی توقع سے زیادہ تیزی سے نیچے آئی ہے اور اکتوبر میں اپنے درمیانی مدت…
0 notes
Text
دسمبر 2023 میں کرنٹ اکاؤنٹ 39 کروڑ 70 لاکھ ڈالر سرپلس رہا
دسمبر 2023 میں کرنٹ اکاونٹ 39 کروڑ 70 لاکھ ڈالر سر پلس رہا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد شمار کے مطابق دسمبر 2022 میں 36 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا، گزشتہ مالی سال 6 ماہ کے مقابلے رواں مالی سال 6 ماہ میں کرنٹ اکاونٹ خسارے میں 77 فیصد کمی ہوئی۔ رواں مالی سال 6 ماہ میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ 83 کروڑ 11 لاکھ ڈالر رہ گیا۔ گزشتہ مالی سال پہلے 6 ماہ میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ 3 ارب 62 کروڑ 90…
View On WordPress
0 notes
Text
غزہ پر مسلم امہ کی خاموشی اور ایردوان
صدر ایردوان گزشتہ چند دنوں سے قومی اسمبلی اور آق پارٹی کے قزل جا حمام کے سالانہ کنونشن سے خطاب کرنے کے دوران عالمِ اسلام اور خاص طور پر اسلامی رہنمائوں کی جانب سے غزہ اور رفح میں اسرائیل کے فلسطینیوں کے قتلِ عام اور نسل کشی پر خاموشی اختیار کئے جانے پر اپنے شدید ردِ عمل ظاہر کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ غزہ اور رفح کی تباہ کاری کے بعد اب عالمِ اسلام کس چیز کا منتظر ہے ؟ عالمِ اسلام کب تک اپنے فلسطینی بھائیوں کے حقوق غصب ہوتے دیکھتا رہیگا؟ رفح اور غزہ کی تباہ کاری پر ہم اللہ کو کیا جواب دینگے؟ دنیا میں کوئی بھی ریاست اس وقت تک محفوظ نہیں رہ سکتی جب تک اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی پاسداری نہیں کرتا۔ اسرائیل نے جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے محاورے پر عمل درآمد کرتے ہوئے مغربی ممالک کے علاوہ عالمِ اسلام اور ��رکیہ کو بھی اس لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کرتے ہوئے دنیا میں اپنی من مانی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے لیکن خدا کی قسم ترکیہ اکیلا بھی رہ گیا تو وہ کسی بھی صورت فلسطین کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ ترکیہ اور عالمِ اسلام کے رہنمائوں کے درمیان یہی فرق ہے جو کسی بھی صورت اسرائیل کو ہضم نہیں ہو پاتا۔ انہوں نے کہا کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں اسرائیل کو جب بھی موقع ملا وہ ترکیہ کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرے گا۔
اسرائیل کی یہ بربریت صرف غزہ تک محدود نہیں رہے گی۔ اسے خون پینے کی عادت پڑ گئی ہے اور جسے خون پینے کی ایک بار لت پڑ جائے وہ ہمیشہ نئے شکار کی تلاش میں رہتا ہے۔ اسلئے برملا کہہ رہا ہوں اسرائیل پوری انسانیت اور عالمی امن کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ اسرائیل اور اس کے حامی سمجھتے ہیں کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے بعد اس نسل کشی کو فراموش کر دیا جائے گا، ایسا ممکن نہیں۔ صدر ایردوان نے گزشتہ ہفتے اپنے تمام خطابات میں امریکہ اور متعدد یورپی ممالک کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی اور قتلِ عام میں امریکہ اور متعدد یورپی ممالک کے بھی ہاتھ رنگے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اسپین، آئرلینڈ اور ناروے کی جانب سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے سے اس مایوس کن صورتِ حال کے باوجود کچھ امیدیں بھی پیدا ہو رہی ہیں۔ اب تک اقوام متحدہ میں 147 ممالک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، اقوام متحدہ کے 193 ممبران میں سے 3/4 سےزائد ممالک فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر قبول کر چکے ہیں۔ اسلئے میں ہمیشہ کہتا چلا آیا ہوں’’دنیا پانچ سے عظیم تر ہے‘‘۔
ایردوان نے کہا کہ مہذب مغربی ممالک کے ماہرین تعلیم، پروفیسرز اور لیکچررز صہیونی لابی کے تمام تر دباؤ اور ظلم و جبر کے باوجود غزہ اور رفح میں نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں حالانکہ یہ سب اس مقصد کیلئے بھاری قیمت بھی چکا رہے ہیں، ان کی آزادی اظہار رائے کو سلب کر لیا گیا ہے۔ مہذب مغربی دنیا کے رہنما مظاہروں اور اجتماعات پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود امریکہ اور یورپ کے’’اصل مہذب عوام‘‘ غزہ کی آواز بن رہے ہیں اور ان کی جانب سے برپا کردہ انقلاب صہیونیت سے پاک دنیا کو جنم دے گا۔ صدر ایردوان نےامریکہ کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ امریکہ ہی کی پشت پناہی اور ہر قسم کے اسلحہ و بارود کی فراہمی کے نتیجے میں اسرائیل اس جدید دنیا میں Vampire اسٹیٹ کا روپ اختیار کر چکا ہے۔ اس ویمپائر اسٹیٹ کی بربریت کو براہ راست دیکھا جا رہا ہے۔ اپنے آپ کو ہمیشہ مہذب دنیا کا چیمپئن کہلوانے والے یورپی ممالک کے رہنمائوں کی غزہ اور رفح کی نسل کشی اور قتلِ عام پر خاموشی بڑی معنی خیز ہے۔ ان تمام رہنمائوں کے سامنے ہسپتالوں، اسکولوں، مساجد کو نشانہ بنایا گیا اور یہ رہنما خاموش رہے۔ غزہ میں صحافیوں، ڈاکٹروں، امدادی کارکنوں کو ہلاک کیا گیا اور یہ رہنما ٹس سے مس نہ ہوئے۔
غزہ کی سڑکوں پر شہداء کی لاشیں کتے کھاتے رہے اور اسرائیلی دہشت گرد مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر خواتین کی بےحرمتی کرتے رہے، ہسپتال کےلان میں اجتماعی قبریں برآمد ہوتی رہیں لیکن یہ رہنما خوابِ خرگوش ہی کے مزے لیتے رہے۔ صدر ایردوان نے عالمِ اسلام کے رہنمائوں کو بھی نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسلامی دنیا اپنے فلسطینی بھائیوں کے حقوق، قوانین، جانوں اور عزتوں کا تحفظ کب کرے گی؟ انہوں نے کہا کہ مٹھی بھر دہشت گرد اسلامی جغرافیہ کے مرکز اور قلب میں مسلمانوں کی نسل کشی کا ارتکاب کر رہے ہیں اور عالمِ اسلام خاموش ہے۔ ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ صدر ایردوان نے کہا کہ ترک ہونے کے ناتے میں دنیا بھر کے ہر اس شخص کو یکجہتی کے پیغامات بھیج رہا ہوں جس کے دل میں فلسطین اور غزہ بستا ہے۔ ہم نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف دائر نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کا فیصلہ کیا۔ ہم نے تمام دستاویزات اور معلومات یکجا کرتے ہوئے عدلیہ کو پیش کر دی ہیں لیکن اسرائیلی انتظامیہ، مغربی ممالک اور صہیونی لابی عدالت اور ججوں کو کھلم کھلا دھمکیاں دے کر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ عالمی عدالت کو کسی دبائو میں نہیں آنا چاہئے۔
ڈاکٹر فر قان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
پاکستان سے ترکی کا سفر کرنے والے سیاحوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے کیونکہ مغربی ایشیائی ملک تاریخی مقامات، ریزورٹس اور مختلف تفریحی مقامات کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والے شہریوں کو ترکی کا سفر کرنے سے پہلے وزٹ ویزا کے لیے درخواست دینا لازمی ہے۔ پاکستان میں درخواست دہندگان کو ترکی کے وزٹ ویزا کے لیے اناطولیہ ویزا ایپلیکیشن سینٹرز میں درخواست جمع کروانے کی ضرورت ہے۔ درخواست دہندگان کو ویزا کے لیے درخواست دیتے وقت تمام متعلقہ دستاویزات بشمول بینک اسٹیٹمنٹ، ہیلتھ انشورنس، تصاویر، فنگر پرنٹس، ٹکٹ کی تفصیلات، ہوٹل کی بکنگ اور دیگر جمع کرانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے اعلان کردہ گزشتہ روز کی شرح تبادلہ کے مطابق پاکستانی شہریوں کو ویزا فیس صرف پاکستانی روپے میں نقد ادا کرنا ہوگی۔ پاکستان سے سنگل انٹری ترکی وزٹ ویزا کے لیے سفارت خانے کی فیس 60 ڈالر ہے جبکہ پاکستان سے ملٹی پل انٹری وزٹ ویزا کے لیے یہ فیس 190 ڈالر ہوگی۔ 22 اکتوبر تک اوپن مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر 277 اعشاریہ 65 روپے کے برابر ہے۔ لہذا سنگل انٹری ویزا کے لیے ایمبیسی کی فیس روپے میں 16659 روپے اور ملٹی پل انٹری ویزا کے لیے 52753 روپے ہوگی۔ سفارت خانے کی فیس کے علاوہ، اناطولیہ ویزا ایپلیکیشن سینٹر خدمات کی فیس وصول کرتا ہے اس پر منحصر ہے کہ آپ نے ویزا کی درخواست کے لیے کس زمرے کا انتخاب کیا ہے۔ یہ عام درخواست کے لیے 65 ڈالر یا 18047 روپے اوروی آئی پی درخواست کے لیے 80 ڈالر یا 22212 روپے وصول کرتا ہے۔
0 notes
Text
معیشت کی بحالی کیلئے آخری موقع
گزشتہ دنوں میری کراچی اور اسلام آباد میں ملکی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں زیادہ تر نے معیشت کی بحالی کیلئے سخت اقدامات کئے جانے کو آخری موقع (Lifeline) قرار دیا۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس اب وقت نہیں کہ وہ ان اقدامات کو مزید موخر کرسکے۔ میں بھی ان سے اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستانی معیشت اب اس ڈگر پر آگئی ہے جہاں ہمیں سیاسی سمجھوتوں کے بجائے ملکی مفاد میں سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ گزشتہ دنوں کراچی میں ملک کے ممتاز صنعتکاروں اور بزنس مینوں کی ایک ’’گریٹ ڈیبیٹ‘‘ اور اسلام آباد میں ’’لیڈرز اِن اسلام آباد بزنس سمٹ‘‘ میں چیئرمین ��ینیٹ یوسف رضا گیلانی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین، معاشی ماہرین اور میں نے ملکی معیشت پر اہم تجاویز دیں جس میں معیشت کی بہتری کیلئے اسٹیٹ بینک کے 22 فیصد ڈسکائونٹ ریٹ اور حکومتی اخراجات میں کمی، درآمدات میں اضافہ، ٹیکس نیٹ میں توسیع، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں PIA، واپڈا، ریلویز، ڈسکوز جو 500 ارب روپے سالانہ کا نقصان کر رہے ہیں، کی فوری نجکاری، صنعتی سیکٹر کو مقابلاتی اور سستی توانائی کی فراہمی شامل ہے۔
دوست ممالک بھی اب مالی امداد کے بجائے پاکستان میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں لیکن اس کیلئے ملک میں امن و امان کی بہتر صورتحال اور سیاسی استحکام اشد ضروری ہے جو موجودہ حالات میں نظر نہیں آرہا۔ بینکوں کی 24 فیصد شرح سود پر کوئی سرمایہ کار نئی صنعت لگانے کو تیار نہیں بلکہ موجودہ صورت حال میں بینکوں کے نجی شعبے کے قرضوں میں 80 فیصد کمی آئی ہے جس سے معاشی گروتھ متاثر ہوئی ہے۔ حکومت کے زیادہ شرح سود پر قرضے لینے کی وجہ سے ہمیں 8500 ارب روپے کے بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ڈسکائونٹ ریٹ میں کمی لاکر ہم بجٹ خسارے میں 2500 ارب روپے کی کمی لاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ معیشت کی دستاویزی سے ہم 3000 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل کر سکتے ہیں۔ صرف رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ریٹیل کے شعبوں میں 2000 ارب روپے کی ٹیکس کی چوری ہے۔ حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی اور ریونیو یعنی آمدنی میں اضافہ کرنا ہو گا۔ روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے کے نقصانات ہم بھگت چکے ہیں لہٰذا ہمیں روپے کی قدر اور ڈالر ریٹ کو مارکیٹ میکنزم کے حساب سے طلب اور سپلائی کے مطابق رکھنا ہو گا۔
افراط زر یعنی مہنگائی 17.3 فیصد ہو چکی ہے جو مئی 2023 ء میں 38 فیصد کی بلند ترین شرح تک پہنچ چکی تھی اور اسے بتدریج کم کر کے سنگل ڈیجٹ پر لانا ہو گا تاکہ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں کمی لائی جاسکے۔ گوکہ آئی ایم ایف کے نئے پروگرام میں رہتے ہوئے ان اقدامات پر عمل کرنا انتہائی مشکل ہے تاہم ان سے آئندہ 2 سال میں ملکی معیشت میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ہمیں اپنے توانائی اور ٹیکس کے شعبوں میں ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات کرنا ہونگی۔ پرانے IPPs معاہدوں کی تجدید ملک میں توانائی کی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے مقابلاتی آفر (Bidding) پر کی جائے تاکہ بجلی نہ خریدنے کی صورت میں حکومت کو کیپسٹی سرچارج کی ناقابل برداشت ادائیگی نہ کرنا پڑے جس کے باعث پاکستان کے گردشی قرضے بڑھ کر ریکارڈ 5500 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ ہمیں ٹیکس نظام میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔ زراعت کا شعبہ جس کا معیشت میں حصہ 20 فیصد ہے، بمشکل 1.5 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے جبکہ ٹریڈر جس کا ملکی جی ڈی پی میں 18 فیصد حصہ ہے، بمشکل ایک فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے، یہی حال رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا ہے جبکہ صنعتی سیکٹر، جس کا ملکی معیشت میں حصہ 20 فیصد ہے، پر ٹیکسوں کا 65 فیصد بوجھ ہے۔
اسی طرح سروس سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ 60 فیصد ہے لیکن یہ سیکٹر صرف 28 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے لہٰذا ہمیں ملکی معیشت کے ہر سیکٹر سے اس کے حصے کے مطابق ٹیکسوں کی وصولی یقینی بنانا ہو گی جس کیلئے حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنا ہو گی۔ پاکستان کی جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح 9 فیصد ہے جسے بڑھاکر ہمیں خطے کے دیگر ممالک کی طرح 18 فیصد تک لے جانا ہو گا جو آئی ایم ایف کی شرائط میں بھی شامل ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری میں کمی کی وجہ خطے میں سب سے زیادہ توانائی کے نرخ، بینکوں کے شرح سود اور ٹیکس ریٹ ہیں جو سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ مہنگی بجلی اور گیس کے نرخ کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹس غیر مقابلاتی ہورہی ہیں لہٰذا حکومت کو سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے ان تینوں رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا۔ پاکستان کے زراعت اور IT سیکٹرز میں بے پناہ پوٹینشل موجود ہے جنہیں فروغ دیکر ہم فوری طور پر ایکسپورٹس میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ہمیں ایران اور خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر کیساتھ باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہو گا۔
مجھے خوشی ہے کہ آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کی 1.1 ارب ڈالر کی آخری قسط پاکستان کو موصول ہو گئی ہے جس نے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کیا ہے۔ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے 6 سے 8 ارب ڈالر کے 3 سال یا زیادہ مدت کے قرض پروگرام کی درخواست کی ہے جس پر مذاکرات کیلئے آئی ایم ایف کا مشن دو ہفتے کے دورے پر پاکستان آئے گا۔ آئی ایم ایف نے پنشن پر ٹیکس کا نفاذ اور پنشن ادائیگی کی مدت میں کمی پر زور دیا ہے۔ اسکے علاوہ حکومت کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کیلئے بھی سخت فیصلے کرنا ہونگے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کے پاس اب مزید وقت نہیں کہ وہ ملکی معیشت کی بحالی کیلئے ایڈہاک فیصلے کرے۔ حکومت کے پاس یہ آخری موقع ہے کہ وہ مذکورہ اصلاحات پر عملدرآمد کرکے ملک کو معاشی خوشحالی کی راہ پر گامزن کرے۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes