#Pakistan Default
Explore tagged Tumblr posts
Text
کیا پاکستان ڈیفالٹ کی جانب بڑھ رہا ہے؟
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے بجٹ پر اعتراضات کے ساتھ ہی بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے ڈیفالٹ کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار متعدد بار یہ دعوی کر چکے ہیں کہ پاکستان اپنی تمام تر ادائگیاں وقت پر ممکن بنائے گا۔ لیکن بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق موڈیز کی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ اس امکان میں اضافہ ہو رہا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام مکمل نہیں کر پائے گا۔ معاشی امور کی ماہر ثنا توفیق کا کہنا ہے ڈیفالٹ کا خدشہ موجود تو ہے تاہم حکومت کے پاس فی الحال چند راستے موجود ہیں۔ وفاقی بجٹ پر آئی ایم ایف کے اعتراضات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’بجٹ کا جائزہ لیں تو ٹیکس اکھٹا کرنے کے لیے سارے ایسے اقدامات لے گئے جو پہلے ہی تھے، ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے پتا چلے کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے گا اور آئی ایم ایف کا یہی اعتراض ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اس وقت خدشہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ تاخیر کا شکار ہو گا جبکہ وقت کم ہے۔ کوئی درمیانی راستہ نکالنا پڑے گا جو اس لیے مشکل ہے کیونکہ وقت کم ہے۔‘
ثنا توفیق کے مطابق آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں ’یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بغیر فنانسنگ کہاں سے ہو گی اور اب تک حکومت کی جانب سے کوئی پلان بی نظر نہیں آ رہا۔‘ ’متبادل یہ ہے کہ واجب الادا قرضے کی ری سٹرکچرنگ قرضے ہو یا ری پروفائلنگ ہو۔ اس طریقے میں ایک سال کے شارٹ ٹرم قرضے کو کھینچ کر تین سال تک کے لیے لے جایا جاتا ہے اور وہ ایک بہتر راستہ ہے۔ اس سے سانس لینے کی جگہ ملتی ہے۔‘ ’دوسرا ذریعہ کرنٹ اکاوئنٹ ہے۔ اگر حکومت خسارے سے بچے، امپورٹ کو کم رکھا جائے اور ایکسپورٹ کو بڑھانے کی کوشش کی جائے تو وقت حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا ہونا موجودہ عالمی حالات میں ایک مسئلہ ہے۔‘ ثنا توفیق کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں حکومت اسی طرح معاشی میدان کنٹرول کرنے کی کوشش کرے گی۔ ’لیکن دوسری جانب اگر سیاسی حکومت کی جگہ نگران حکومت آتی ہے تو ان کے لیے ایک چیلنج ہو گا کہ وہ دو سے تین ماہ کیسے گزارتے ہیں، لگ رہا ہے کہ یہ سارا دباؤ نگران حکومت پر پڑنے والا ہے۔‘ ’اور یہ دیکھنا ہو گا کہ ��گران حکومت کے ساتھ کریڈیٹرز بات چیت کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر یہ معاملات مینیج نہیں ہو سکے، تو پھر بات ڈیفالٹ کی طرف جا سکتی ہے۔‘
زبیر اعظم بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
1 note
·
View note
Text
معاشی ترقی کا ہدف اور ڈیفالٹ ؟
ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان ممالک نے زیادہ تر ان شعبوں میں سرمایہ کاری کی اور ان شعبوں کو ترقی دینے کی بھرپور کوشش کی جن میں سرمایہ کاری کرنے کے زیادہ سے زیادہ فوائد تھے۔ ایک ڈالر صرف کر کے پانچ یا دس ڈالر سمیٹے جا سکتے تھے۔ منافع کے علاوہ افرادی قوت کی بھی زیادہ سے زیادہ کھپت ہو جاتی۔ اس طرح ملک بتدریج اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا رہا، کیونکہ ایسے ممالک نے ہی ترقی کی جن ممالک میں کرپشن اتنی دیدہ دلیری سے نہیں کی جاتی۔ نہ ہی کرپشن ہو یا ناجائز منافع خوری یا فراڈ کے دیگر طریقے مثلاً مال دکھایا کچھ اور آرڈر ملنے پر سپلائی ذرا گھٹیا مال کی کر دی۔ اس کے علاوہ زرعی پیداوار میں درجہ بندی کا فرق بھی ہوتا ہے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ رہا کہ یہاں پر بیرون ممالک کے سرمایہ کار مختلف طریقوں سے اپنی فزیبلٹی رپورٹس حاصل کر کے اس بات کا فیصلہ کر لیتے ہیں کہ یہاں پر کن شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے۔ چاہے وہ صنعتی ہوں یا زرعی کیوں نہ ہوں ، کیونکہ اس طرح زراعت پر مبنی صنعتی اشیا کی تیاری کا عمل شروع کیا جاتا ہے یوں وہ زیادہ سے زیادہ صرف ضروری سرمایہ کاری کر کے جو یقینا ڈالر کی صورت میں ہوتا ہے اور کسی بھی پروجیکٹ کو شروع کرنے اور چلانے کے بعد غیر ملکی سرمایہ کارکی سب سے اولین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وہ منافع کی شرح زیادہ سے زیادہ حتیٰ کہ 4 گنا یا 5 گنا اور بعض اوقات اس سے زائد بھی سمیٹ لیتا ہے ان تمام کو ڈالرز کی صورت میں اپنے ملک لے کر چلا جاتا ہے۔ البتہ انھیں پاکستان کی معاشی ترقی یہاں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع کی فراہمی سے دلچسپی نہیں ہوتی۔
البتہ سی پیک کے تحت جو منصوبے مکمل ہو رہے ہیں اس سے چونکہ یہاں کی صنعت و تجارت اور روزگارکے مواقع بڑھنے کی ضمانت دی جا رہی ہے، اسی لیے اس منصوبے کو گیم چینجر منصوبہ کہا جا رہا ہے جس کی مقررہ وقت میں تکمیل پاکستانی معیشت کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ دوسرے ملک کی معاشی صورتحال ��ے ساتھ سیاسی صورت حال نے ملک کے صنعتی شعبے، پیداواری شعبے، کاروباری شعبے حتیٰ کہ ایکسپورٹ پر بھی نہایت ہی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ صرف ڈالر کی کمی یا کمیابی یا پھر زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور آئی ایم ایف کے درشت رویے کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت ان درآمدات پر بھی پابندی عائد ��رتی رہی جو کہ بطور برآمدی میٹریلز استعمال ہو رہی تھیں۔ پھر اس ملک میں پہلے ہی مہنگائی کو بڑھانے میں مافیاز کا کردار اور اچانک کسی بھی ضرورت کی یا خوراکی اشیا کی کمیابی کی افواہیں اور پھر بڑے بڑے تجوریوں کے مالکان کا رویہ کہ کسی شے کی قلت کے خدشات کے پیش نظر صرف اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس کے دام بڑھ جائیں گے مارکیٹ سے تمام مال سمیٹ کر اپنے گوداموں میں بھر لیا جاتا ہے۔
قوم اس قسم کے مناظر دیکھ چکی ہے کہ کبھی چینی، کبھی آٹا، کبھی گھی، کبھی ادویات حتیٰ کہ ہارڈویئر اور سینیٹری کے آئٹمز بھی بعض اوقات ان کا خام مال کے عالمی ریٹس بڑھنے اور بندرگاہ پر پلاسٹک میٹریلز کی تیاری کے لیے درآمدی خام مال کے روکے جانے اور کئی وجوہات کی بنا پر ملک میں سینیٹری آئٹمز کی قیمتیں بڑھنا شروع ہو گئیں۔ اب اس طرح کے حالات جب پیدا کر دیے جائیں گے تو اس سے ظاہر ہے دیگر کئی امور شامل ہو کر ملکی ترقی کے شرح ہدف کو گرا دیں گی اور پاکستان میں یہی کچھ ہوا ہے کہ بتایا جا رہا ہے کہ ملکی معاشی کی شرح کا ہدف 5 فیصد طے کیا گیا تھا لیکن ہدف نصف فیصد سے بھی کم حاصل ہوا ہے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ ملکی سرمایہ کار اور بڑے بزنس مین اس طرف متوجہ ہو جائیں اور ملک میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں۔ سرمایہ کار چاہے ملک کا ہو یا بیرون ملک کا وہ ملکی سیاسی معاشی اور دیگر مستقبل کے بارے میں خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے سرمایہ کاری سے اجتناب کرتا ہے۔
یہ وقت ہے بزنس مین کی حوصلہ افزائی کا کیونکہ ملکی کاروبار یا صنعتی اشیا کی پیداوار میں اضافہ ہو گا، صنعتی پہیہ چلے گا رواں دواں ہو گا تو پھر زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ملک کی قومی آمدنی میں اضافہ ہو گا جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ پہلے سے کمی ہوئی ہے لہٰذا کاروباری لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا ان کی تسلی، تشفی کے بعد ہی ملک میں سرمایہ کاری کا عمل تیز ہو گا۔ جب صنعتی پہیہ تیز رفتاری سے چلے گا جب ہی جا کر معاشی ترقی کے ہدف کے قریب یا بعض اوقات ہدف سے زیادہ کا بھی حصول ممکن ہے۔ جلد ہی نئے مالی سال کا آغاز ہونے والا ہے، اس میں بج�� کے علاوہ جس امر پر زیادہ گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہو گی وہ یہ ہے کہ افواہ سازی، بعض اوقات مافیاز اور دیگر عناصر جان بوجھ کر مختلف اقسام کی افواہیں پھیلا دیتے ہیں۔ جس سے ملک کی معاشی ترقی کے اپنے منزل تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ کئی سال سے اور خاص طور پر سری لنکا کے ڈیفالٹ ہونے کے بعد اور گزشتہ 6 ماہ سے یہ بات سب سے زیادہ سنائی دی جاتی رہی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا۔ کئی معاشی ماہرین بھی یہ بات بلا جھجک کہہ رہے تھے۔
قارئین کرام کو معلوم ہے کہ اپنے کسی بھی معاشی جائزے والے کالم میں اس بات کا کبھی خدشہ ظاہر نہیں کیا کہ ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ معیشت کے اعشاریے ایسا کچھ ظاہر نہیں کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں چیئرمین فاریکس ایکسچینج ایسوسی ایشن ملک بوستان نے کہا ہے کہ روز کہا جا رہا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا دور دور تک امکان نہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ملک میں 10 ارب ڈالرز زرمبادلہ موجود ہے اور 28 ماہ میں پہلی بار کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس طرح کی افواہوں سے روپے پر اعتماد میں روز بروز کمی آتی رہتی ہے، لوگ ڈالر، سونے اور پلاٹ وغیرہ کو محفوظ سمجھ کر اس میں اپنا پیسہ لگا کر اپنے سرمائے کو جامد و ساکت کر دیتے ہیں اور یہی بات معیشت کے لیے خطرناک ہے کیونکہ اس طرح معاشی ترقی کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ملک کے معاشی حکام اور معاشی پالیسی سازوں کے مدنظر یہ ہونا چاہیے کہ اپنی کرنسی اپنا روپیہ مضبوط ہو، حکومت سرمایہ کاروں، صنعت کاروں، کارخانہ داروں، کاروباری افراد، تاجروں کو اعتماد میں لے اور ملک میں کاروباری ماحول کے لیے مدد و تعاون فراہم کرے۔ چھوٹے تاجروں کو مراعات دے اور ٹیکس چوروں کو نہ چھوڑے اور ان کو بھی جو چوری کے راستے کو ان کے لیے آراستہ کرتے ہیں۔ رواں مالی سال تو آیندہ بیس روز کے بعد ماضی بن جائے گا، لیکن آیندہ مالی سال ان کوتاہیوں، غلطیوں سے اجتناب کیا جائے تاکہ معاشی ترقی کا ہدف حاصل ہو سکے۔
محمد ابراہیم خلیل
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
معیشت کا گلا گھونٹ دیا گیا
بین الاقوامی کریڈٹ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ مزید کم کر دی ہے۔ موڈیز نے گزشتہ چار ماہ کے دوران پاکستان کی ریٹنگ میں دوسری مرتبہ کمی کی ہے۔ آئی ایم ایف کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہ نت نئی شرائط رکھ رہا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے امریکی نائب وزیر خزانہ سے ورچوئل رابطہ کر کے انھیں تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا اور آئی ایم ایف کو قائل کرنے کے لیے مدد کی درخواست کی تھی۔ حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایکسچینج ریٹ شرح سود بیرونی فنانسنگ کے اہداف اور بجلی بلوں پر فی یونٹ ڈیبٹ سروسنگ سرچارجز عائد کرنے کے معاملات پر اختلافات برقرار ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ وزارت خزانہ نے بیرونی فنانسنگ کا ہدف 5 ارب ڈالر مقرر کیا تھا جسے آئی ایم ایف نے بڑھا کر 7 ارب ڈالر کرنے کی درخواست کی ہے۔ آئی ایم ایف نے اس سال کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف 8.2 ارب ڈالر مقرر کر رکھا ہے حالانکہ موجودہ مالی سال کے سات ماہ کے دوران یہ خسارہ صرف 3.7 ارب ڈالر رہا ہے۔ حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ اگر آئی ایم ایف اپنے موقف میں نرمی پیدا کرے تو وہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک ارب ڈالر تک بھی لا سکتی ہے کیونکہ حکومت کو امید ہے کہ جون تک وہ سات ارب ڈالر اکھٹے کر لے گی اور جون تک زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 10 ارب ڈالر تک بڑھ جائیں گے۔
لیکن آئی ایم ایف ابھی تک بیرونی فنانسنگ کے معاملے میں پاکستان کی بات نہیں مان رہا۔ حالانکہ اسے یقین دلایا گیا ہے کہ پاکستان کو 2 ارب ڈالر سعودی عرب اور ایک ارب ڈالر متحدہ عرب امارات سے مل جائیں گے۔ حکومت پاکستان کو امید ہے کہ سرکاری اثاثوں کی فروخت کی مد میں بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے مزید 2 ارب ڈالر مل سکتے ہیں۔ پاکستان کو چین کی طرف سے 70 کروڑ ڈالر مل چکے ہیں۔ ایک ارب 30 کروڑ مزید تین قسطوں میں ملنے والے ہیں حکومت پاکستان ��ے ذرایع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے دباؤ پر روپے کا ایکسچینج ریٹ مارکیٹ فورسز پر چھوڑ دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اتنا بڑا اضافہ ہوا ہے جس کی پاکستان کی پوری تاریخ میں کوئی مثال نہیں۔ حالانکہ ابھی پچھلے ماہ ڈالر کی قدر 230 روپے تک تھی لیکن آئی ایم ایف اب بھی کہہ رہا ہے کہ حکومت ڈالر شرح مبادلہ میں مداخلت کر رہی ہے۔ عالمی ادارہ چاہتا ہے کہ روپے کی شرح مبادلہ ڈالر کو گرے مارکیٹ کے برابر کیا جائے جو کہ درست بات نہیں ہے۔
اندازہ لگائیں ہماری مجبوری اور بے بسی کا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں شامل ذرایع کے بقول عالمی ادارے کو بڑا سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن اسے سمجھ ہی نہیں آرہی۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں تنزلی اور بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اگلے مہینوں کے دوران مہنگائی اپنی انتہائی بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گی۔ وزارت خزانہ ذرایع کے مطابق پاکستان کے حوالے سے آئی ایم ایف کا رویہ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے امریکی نائب وزیر خزانہ کے ساتھ ورچوئل اجلاس میں انھیں یقین دلایا ہے کہ پاکستان نے ماضی میں آئی ایم ایف کے پروگرام مکمل کیے ہیں اور آیندہ بھی کامیابی سے مکمل کرے گا۔ اس بات چیت میں امریکی نائب وزیر خزانہ نے حکومت پاکستان کی مالیاتی اور اقتصادی پالسیوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔ یہ ہے پاکستانی تاریخ کی بد ترین معاشی صورتحال کی درد ناک داستان۔ حالیہ شرح سود میں تین فیصد اضافہ اور ڈالر کا بلند ترین سطح تک پہنچنا معیشت کا گلا گھونٹ دے گا۔
زمرد نقوی
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Note
Do you think being a poc yourself influences your writing in any way or do you prefer to just keep everything neutral?
Idk if it influences my writing… CONSCIOUSLY it doesn’t but maybe subconsciously it does but idk how?? Honestly idk!
And I TRY to keep things as neutral as possible but I do make mistakes sometimes but I try not to.
#I still find the term ‘poc’ so othering#like when I grew up in Pakistan I was just… a person#now I’m in the UK and suddenly I have this label 😂😂😂#IDK#don’t hate on me for saying that… if I said something wrong then just tell me#but yeah#anon#it’s like white people get to be the ‘normal default’ people and the rest of us need a label??#IDK MAYBE IM WRONF SKDJSKSKS#but it’s like we’re all sooooo different and diverse from different parts of the world with different cultures different EVERYTHING#and all of us are lumped in together as ‘poc’
10 notes
·
View notes
Text
عوام کب کا ڈیفالٹ کر چکے
گزشتہ دنوں سابق وزیر اعظم شہباز شریف کا ایک بیان نظر سے گزرا کہ ’’ ہم نے بہت مشکل سے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچا لیا۔‘‘ ہمارے ملک میں اشرافیہ ہی ڈیفالٹ کا مزہ نہیں چکھ پائِی لیکن ایک عام آدمی توکب کا ڈیفالٹ کر چکا۔ اس ملک کا کرپٹ بیوروکریٹ، سیاستدان اور اشرافیہ کیا جانے کہ اس وقت بازار میں آٹے اور دال کا کیا بھائو ہے کیونکہ انھوں نے کبھی خود توخریداری کی نہیں ہوتی بلکہ روزمرہ کی اشیاء ضرورت بھی ان کے گھروں میں مفت پہنچ جاتی ہے۔ ان کی لگژری گاڑیوں میں پٹرول اور ڈیزل سرکارکے کھاتے سے مفت مل جاتا ہے انھیں کیا معلوم کہ پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو ہر چیزکی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں۔ انھیں کیا معلوم کہ بے شمار بچوں کے والدین ان کی فیسیں ادا کرنے کے لیے اپنے زیورات اور گھر کی دیگر اشیا ء بیچ رہے ہیں جب کہ دوسری جانب یہ اربوں کھربوں میں کھیلنے والی اشرافیہ، جن کے بچے ملک میں اور بیرون ملک بھی مہنگے ترین اسکولوں میں، ملک سے لوٹی ہوئی رقم سے عیاشیاں کر رہے ہیں۔
یہ اشرافیہ میڈیا کے ذریعہ ملنے والی کسی خودکشی کی خبر سن کر شاید صرف افسوس کے چند الفاظ ادا کر دیتے ہوں گے لیکن انھیں اس بات کا کوئی احساس نہیں ہو سکتا کہ خودکشی کرنے والا باپ یا ماں صرف اس لیے پھندے سے لٹک گئے کہ وہ اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا نہیں کر پائے، کیونکہ ہر شخص کسی دوسرے سے مانگنے کی ہمت نہیں رکھتا اور بالآخر اس کا نتیجہ اس کی خودکشی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اشرافیہ، اپنے پرتعیش محلوں اور اپنی بڑی بڑی گاڑیوں سے باہر آکر دیکھے کہ ڈیفالٹ کسے کہتے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد ایک تنخواہ دارطبقہ اپنی ساری تنخواہ بجلی کے بلوں میں ادا کر دیتا ہے تو سوچیں پھر گھر کے دیگر معاملات کس طرح چلا رہا ہو گا ؟ اور ظلم تو یہ ہے کہ کوئی سننے والا بھی نہیں ہے۔ جن حکمرانوں کی یہ ذمے داری ہے وہ ایک عام آدمی کے پاس سے اپنی بڑی بڑی بلٹ پروف گاڑیوں میں، گارڈز کی فوج کے ہمراہ دھول اڑاتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔
ایک ایک وقت میں ہزاروں روپے کا کھانا کھانے والے لوگو، آئو اور دیکھو کہ رفاہی اداروں کے دستر خوانوں پر دن بدن رش بڑھتا جا رہا ہے اور یہاں آج کل صرف بے گھر لوگ ہی کھانا کھانے نہیں آتے بلکہ وہ سفید پوش نوکری پیشہ افراد بھی ان فٹ پاتھوں پر موجود دستر خوانوں پر منہ چھپا چھپا کر کھانا کھانے آتے ہیں جو اپنی قلیل تنخواہ میں روزانہ باہرکھانا کھانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ ان دسترخوانوں کے پاس سے گذرتے ہوئے ان کی طرف نظر نہ ڈالوں کہ کہیں ایسے دستر خوان پر کھانا کھاتے کسی شخص سے نگاہ نہ مل جائے اور اس کی عزت نفس نہ مجروح ہو۔ ہوشربا مہنگائی کا اندازہ صرف اس سے لگا لیں کہ چینی 165 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔ ملک میں پچھلے چند سالوں میں اشیا خورو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں، جب کہ تنخواہوں میں اضافہ اس مہنگائی کی مناسبت سے کبھی بھی نہ ہو پایا۔ ملک میں تین اشیا کی قیمتوں میں گزشتہ تین سال کے دوران بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ادارہ شماریات کے مطابق چینی کی خوردہ قیمت اگست 2018 میں ساٹھ روپے تھی جو بڑھ کر 165 روپے ہو چکی ہے بلکہ کئی مقامات پر دکاندار اپنی من مانگی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ اگست 2018 میں آٹے کے قیمت 37 روپے کلو تھی جو ان دنوں 170 روپے کلو تک جا پہنچی ہے۔ اسی طرح گھی وخوردنی تیل کے پانچ لیٹر کی قیمت اگست 2018 میں 900 روپے یعنی 180 روپے کلو تھی وہ اگست 2023 کے اختتام تک 2500 روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور معاشی ماہر ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اگر گزشتہ تین سال میں مجموعی طور پر اشیائے خورونوش کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ہونے والا اضافہ اوسطاً چالیس فیصد ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اگر صرف آٹے، گھی اور چینی کی قیمتوں میں ہونیوالے اضافے کو لیا جائے تو یہ تقریباً 50 فیصد تک ہے، جب کہ سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں ورکرزکی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
کراچی وہ شہر ہے جہاں پورے پاکستان سے لوگ تلاش معاش کے لیے آتے ہیں جن میں زیادہ تعداد مزدوروں کی ہے جسے پورے مہینے کام کر کے بمشکل اٹھارہ سے بیس ہزار روپے ملتے ہیں جب کہ اس ملک کا کرپٹ سیاستدان، بیوروکریٹ اور ’’اشرافیہ ‘‘ ایک دن میں ہی اٹھارہ ہزار روپے سے زیادہ کا پٹرول اپنی بڑی بڑی لگژری گاڑیوں میں پھونک دیتے ہیں اور اپنی پوری فیملی یا دوستوں کے ساتھ ملک کر ایک دن میں اتنی رقم سے کہیں زیادہ کا کھانا کھا جاتے ہیں۔ ایک عام آدمی جو ماہانہ پندرہ سے بیس ہزار روپے کما پاتا ہے اسے اس کا بڑا حصہ اپنی فیملی کے اخراجات کے لیے گھر بجھوانا پڑتا ہے۔ اسی تنخواہ میں اسے اپنے لیے دو وقت روٹی کا بھی بندوبست کرنا پڑتا ہے اور اسی قلیل رقم سے اسے اپنی لیے صرف اتنی سی رہائش کا بندوبست کرنا پڑتا ہے جہاں جب وہ رات کو تھکن سے چور ہو کر پہنچے تو چند گھنٹے کی نیند کر سکے، لیکن اب ایسا کرنا ایک مزدورکے لیے ممکن نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ راتوں میں کراچی کے فٹ پاتھوں اور پارکس میں سونے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ ایک مزدور کے لیے اب اپنے لیے ایک کمرے کی عیاشی بھی کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔
جب کہ دوسری جانب تمام تر سیاستدان ایک بار پھر اقتدارکی ہوس میں صبح شام اسی غم میں کڑے جا رہے ہیں کہ الیکشن کب اورکیسے ہوں اور کس طرح وہ ’’ اسٹیبلشمنٹ ‘‘ کی مدد سے حکومتی ایوانوں میں براجمان ہو سکیں۔ میں ان تمام سیاستدانوں سے مخاطب ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچا لیا۔ مودبانہ عرض ہے کہ ملک ایک عام آدمی سے ہوتا ہے، جو کب کا ڈیفالٹ کرچکا۔ کارل مارکس نے کہا تھا کہ ’’ وہ جنھوں نے سردی اور گرمی صرف کھڑکیوں دیکھی ہو اور بھوک صرف کتابوں میں پڑھی ہو، عام آدمی کی قیادت نہیں کر سکتے۔‘‘ تو نہ اس ملک میں کبھی عام آدمی کو قیادت ملے گی اور نہ ہی اس ملک کے عوام کی تقدیر بدلے گی۔
امتیاز بانڈے
بشکریہ ایکپسریس نیوز
0 notes
Note
there was Chinese interest in the Out Of Asia theory, in both the Republic, Chiang Republic and People’s Republic periods before the Out Of Africa theory became commonly accepted. Was the 1954 Yeti expedition done just from the Nepalese-Indian side or were the American agents and “anthropologists” given access on the Sino-Tibetan side of the Himalayan border?
During the early part of this century, it was absolutely believed for a long time that the deserts of Western China were the most likely place of human origins, as seen in this migration map from 1944, made from the best available knowledge of the time:
Remember, the oldest fossil remains at this point were in China, where Homo erectus was discovered (originally known by his initial place of discovery in Chungkotien Cave, nicknamed "Peking Man"). The discovery of Australopithecus and Homo habilis in Olduvai Gorge and South Africa, which place human origins in Africa, were not until the 50s and 60s, so it seemed entirely reasonable that Homo sapiens evolved in Western China.
The idea that China's desert regions were the origin of modern humans and culture is seen a lot in pop culture from 1900-1950, mainly because there were tremendous explorations in the region, especially Aurel Stein's expedition of 1908, who ventured into the Taklamakan Desert to find the Dunhuang Caves and Khara-Khoto, a city destroyed completely by Genghis Khan and vanished in the desert.
If you've ever heard of Roy Chapman Andrews and his famous expeditions in the 1920s, it's worth noting that he ventured into the Gobi Desert looking for human remains....not dinosaurs, and the discovery of dinosaur eggs was an unexpected surprise.
For that reason, there was a short lived Silk Road Mania that seemed to be a smaller scale predecessor to the pop culture dominating Egyptomania of the 1920s. It's bizarre to read adventure and fantasy fiction of the 1910s-1920s that features mentions of Silk Road peoples like the Kyrgyz, Sogdians, Tajik, Uigurians, and Tuvans. The best example I can think of would be the Khlit the Kossack stories of Harold Lamb (who also wrote a biography of Tamerlane), which together with Tarzan and Tros of Samothrace, formed the core inspiration for Robert E. Howard's Conan the Barbarian.
The most interesting example of this would be A. Merritt's Dwellers in the Mirage, which featured a lost city in Xinjiang that was the home of the Nordic race, who worshipped their original religion, the kraken-like squid devil god Khalkru. It was widely believed in this era that Nordics emerged from Central Asia originally, and while it's easy to write this off as turn of the century racialist claptrap pseudohistory (along with Hyperborea legends), in this case, it is actually true: a branch of the Indo-European family lived in West China, and 5,000 year old redheaded mummies have been found in the region. As usual, A. Merritt was right on the money with his archeology, more so than other 1920s authors. After all, his "Moon Pool" was set around the just discovered ruins of Nan Madol, the Venice of Micronesia.
Jack Williamson's still chilling Darker Than You Think in 1948 was also set in the Silk Road/Central Asian region, as the place the race of shapeshifters emerged from, Homo magi, who await the coming of their evil messiah, the Night King, who will give them power over the human race.
H. Rider Haggard set "Ayesha: the Return of She" (1905) in Xinjiang, among a lost Greek colony in Central Asia (no doubt based on Alexandria on the Indus, a Greek colony in modern Pakistan that was the furthest bastion of Greek Culture). This was also two years after the Younghusband Thibetan Expedition of 1903, where the British invaded Tibet. At the time, the Qing Dynasty was completely declining and lost control of the frontier regions, and the power vacuum was filled by religious authority by default (this is something you also saw in Xinjiang, where for example, the leader of the city was the Imam of Kashgar).
This is one of the many British invasions they have attempted to cram down the memory hole, but if you ever see a Himalayan art piece that was "obtained in 1903-1904" ....well, you know where it came from.
Incidentally, there's one really funny recent conspiracy theory about paleontology, fossils, and China that I find incredibly interesting: the idea that dinosaurs having feathers is a lie and a sinister plot spread by the Communist Chinese (who else?) to make American youth into sissy fancylads, like Jessie "the Body" Ventura. How? By lying to us and making up that the manly and vigorous Tyrannosaurus, a beast with off the charts heterosexuality and a model for boys everywhere, might have been feathered like a debutante's dress. What next - lipstick on a Great White Shark? The long term goal is to make Americans effeminate C. Nelson Reilly types unable to defend against invasion. This is a theory that is getting steam among the kind of people who used to read Soldier of Fortune magazine, and among abusive stepfathers the world over.
...okay, are you done laughing? Yeah, this is obvious crackpottery and transparent sexual pathology, on the level of the John Birch Society in the 60s saying the Beatles were a Communist mind control plot. Mostly because animals just look how they look, and if it turned out that the ferocious Tyrannosaurus had feathers and looked like a fancylad Jessie Ventura to you, well, that's your problem and mental baggage, really.
I was left scratching my head over this one. But there is (kind of) something to this, and that is that a huge chunk of recent dinosaur discoveries have been in China. I don't think it has anything to do with a Communist plot to turn American boys into fancylads, but more to do with a major push in internal public investment in sciences in that country, and an explosion of Chinese dinosaur discoveries. If you want to see a great undervisited dinosaur museum, go to the Zigong Dinosaur Museum in Sichuan.
Pop quiz: what living scientist has named more dinosaur discoveries? It's not Bakker or Horner. The greatest living paleontologist, Xu Xing, which is why a lot of recently found dinosaurs are named things like Shangtungasaurus.
251 notes
·
View notes
Text
AI-infused search engines from Google, Microsoft, and Perplexity have been surfacing deeply racist and widely debunked research promoting race science and the idea that white people are genetically superior to nonwhite people.
Patrik Hermansson, a researcher with UK-based anti-racism group Hope Not Hate, was in the middle of a months-long investigation into the resurgent race science movement when he needed to find out more information about a debunked dataset that claims IQ scores can be used to prove the superiority of the white race.
He was investigating the Human Diversity Foundation, a race science company funded by Andrew Conru, the US tech billionaire who founded Adult Friend Finder. The group, founded in 2022, was the successor to the Pioneer Fund, a group founded by US Nazi sympathizers in 1937 with the aim of promoting “race betterment” and “race realism.”
Hermansson logged in to Google and began looking up results for the IQs of different nations. When he typed in “Pakistan IQ,” rather than getting a typical list of links, Hermansson was presented with Google’s AI-powered Overviews tool, which, confusingly to him, was on by default. It gave him a definitive answer of 80.
When he typed in “Sierra Leone IQ,” Google’s AI tool was even more specific: 45.07. The result for “Kenya IQ” was equally exact: 75.2.
Hermansson immediately recognized the numbers being fed back to him. They were being taken directly from the very study he was trying to debunk, published by one of the leaders of the movement that he was working to expose.
The results Google was serving up came from a dataset published by Richard Lynn, a University of Ulster professor who died in 2023 and was president of the Pioneer Fund for two decades.
“His influence was massive. He was the superstar and the guiding light of that movement up until his death. Almost to the very end of his life, he was a core leader of it,” Hermansson says.
A WIRED investigation confirmed Hermanssons’s findings and discovered that other AI-infused search engines—Microsoft’s Copilot and Perplexity—are also referencing Lynn’s work when queried about IQ scores in various countries. While Lynn’s flawed research has long been used by far-right extremists, white supremacists, and proponents of eugenics as evidence that the white race is superior genetically and intellectually from nonwhite races, experts now worry that its promotion through AI could help radicalize others.
“Unquestioning use of these ‘statistics’ is deeply problematic,” Rebecca Sear, director of the Center for Culture and Evolution at Brunel University London, tells WIRED. “Use of these data therefore not only spreads disinformation but also helps the political project of scientific racism—the misuse of science to promote the idea that racial hierarchies and inequalities are natural and inevitable.”
To back up her claim, Sear pointed out that Lynn’s research was cited by the white supremacist who committed the mass shooting in Buffalo, New York, in 2022.
Google’s AI Overviews were launched earlier this year as part of the company’s effort to revamp its all-powerful search tool for an online world being reshaped by artificial intelligence. For some search queries, the tool, which is only available in certain countries right now, gives an AI-generated summary of its findings. The tool pulls the information from the internet and gives users the answers to queries without needing to click on a link.
The AI Overview answer does not always immediately say where the information is coming from, but after complaints from people about how it showed no articles, Google now puts the title for one of the links to the right of the AI summary. AI Overviews have already run into a number of issues since launching in May, forcing Google to admit it had botched the heavily-hyped rollout. AI Overviews is turned on by default for search results, and can’t be removed without restoring to installing third-party extensions. (“I haven't enabled it, but it was enabled,” Hermansson, the researcher, tells WIRED. “I don't know how that happened.”)
In the case of the IQ results, Google referred to a variety of sources, including posts on X, Facebook, and a number of obscure listicle websites, including World Population Review. In nearly all of these cases, when you click through to the source, the trail leads back to Lynn’s infamous dataset. (In some cases, while the exact numbers Lynn published are referenced, the websites do not cite Lynn as the source.)
When querying Google’s Gemini AI chatbot directly using the same terms, it provided a much more nuanced response. “It's important to approach discussions about national IQ scores with caution,” read text that the chatbot generated in response to the query “Pakistan IQ.” The text continued: “IQ tests are designed primarily for Western cultures and can be biased against individuals from different backgrounds.”
Google tells WIRED that its systems weren’t working as intended in this case and that it is looking at ways it can improve.
“We have guardrails and policies in place to protect against low quality responses, and when we find Overviews that don’t align with our policies, we quickly take action against them,” Ned Adriance, a Google spokesperson, tells WIRED. “These Overviews violated our policies and have been removed. Our goal is for AI Overviews to provide links to high quality content so that people can click through to learn more, but for some queries there may not be a lot of high quality web content available.”
While WIRED’s tests suggest AI Overviews have now been switched off for queries about national IQs, the results still amplify the incorrect figures from Lynn’s work in what’s called a “featured snippet,” which displays some of the text from a website before the link.
Google did not respond to a question about this update.
But it’s not just Google promoting these dangerous theories. When WIRED put the same query to other AI-powered online search services, we found similar results.
Perplexity, an AI search company that has been found to make things up out of thin air, responded to a query about “Pakistan IQ” by stating that “the average IQ in Pakistan has been reported to vary significantly depending on the source.”
It then lists a number of sources, including a Reddit thread that relied on Lynn’s research and the same World Population Review site that Google’s AI Overview referenced. When asked for Sierra Leone’s IQ, the Perplexity directly cited Lynn’s figure: “Sierra Leone's average IQ is reported to be 45.07, ranking it among the lowest globally.”
Perplexity did not respond to a request for comment.
Microsoft’s Copilot chatbot, which is integrated into its Bing search engine, generated confident text—“The average IQ in Pakistan is reported to be around 80”—citing a website called IQ International, which does not reference its sources. When asked for “Sierra Leone IQ,” Copilot’s response said it was 91. The source linked in the results was a website called Brainstats.com, which references Lynn’s work. Copilot also referenced Brainstats.com work when queried about IQ in Kenya
“Copilot answers questions by distilling information from multiple web sources into a single response,” Caitlin Roulston, a Microsoft spokesperson, tells WIRED. “Copilot provides linked citations so the user can further explore and research as they would with traditional search.”
Google added that part of the problem it faces in generating AI Overviews is that, for some very specific queries, there’s an absence of high quality information on the web—and there’s little doubt that Lynn’s work is not of high quality.
“The science underlying Lynn’s database of ‘national IQs’ is of such poor quality that it is difficult to believe the database is anything but fraudulent,” Sear said. “Lynn has never described his methodology for selecting samples into the database; many nations have IQs estimated from absurdly small and unrepresentative samples.”
Sear points to Lynn’s estimation of the IQ of Angola being based on information from just 19 people and that of Eritrea being based on samples of children living in orphanages.
“The problem with it is that the data Lynn used to generate this dataset is just bullshit, and it's bullshit in multiple dimensions,” Rutherford said, pointing out that the Somali figure in Lynn’s dataset is based on one sample of refugees aged between 8 and 18 who were tested in a Kenyan refugee camp. He adds that the Botswana score is based on a single sample of 104 Tswana-speaking high school students aged between 7 and 20 who were tested in English.
Critics of the use of national IQ tests to promote the idea of racial superiority point out not only that the quality of the samples being collected is weak, but also that the tests themselves are typically designed for Western audiences, and so are biased before they are even administered.
“There is evidence that Lynn systematically biased the database by preferentially including samples with low IQs, while excluding those with higher IQs, for African nations,” Sears added, a conclusion backed up by a preprint study from 2020.
Lynn published various versions of his national IQ dataset over the course of decades, the most recent of which, called “The Intelligence of Nations,” was published in 2019. Over the years, Lynn’s flawed work has been used by far-right and racist groups as evidence to back up claims of white superiority. The data has also been turned into a color-coded map of the world, showing sub-Saharan African countries with purportedly low IQ colored red compared to the Western nations, which are colored blue.
“This is a data visualization that you see all over [X, formerly known as Twitter], all over social media—and if you spend a lot of time in racist hangouts on the web, you just see this as an argument by racists who say, ‘Look at the data. Look at the map,’” Rutherford says.
But the blame, Rutherford believes, does not lie with the AI systems alone, but also with a scientific community that has been uncritically citing Lynn’s work for years.
“It's actually not surprising [that AI systems are quoting it] because Lynn's work in IQ has been accepted pretty unquestioningly from a huge area of academia, and if you look at the number of times his national IQ databases have been cited in academic works, it's in the hundreds,” Rutherford said. “So the fault isn't with AI. The fault is with academia.”
32 notes
·
View notes
Text
Excerpt from this story from EcoWatch:
According to a new analysis by the International Institute for Environment and Development (IIED), more than $100 billion of developing countries’ debt could be made available to spend on nature restoration, protecting ecosystems like rainforests and��coral reefs and climate change adaptation.
The research is part of IIED’s “hidden handbrakes” campaign, designed to reveal and explain unseen obstacles to climate action.
“Many of the countries most threatened by rising temperatures have huge debt burdens, and are forever paying interest to wealthier nations that have contributed much more to the climate crisis,” said Laura Kelly, IIED’s director of research group Shaping Sustainable Markets, in a press release from IIED.
Kelly explained that enormous amounts of money are going to fund big polluters in a way that is fundamentally unfair.
“Money that could help restore damaged ecosystems and protect vulnerable communities from floods or drought is instead flowing to banks and polluters in the rich world,” Kelly said. “The IMF and World Bank should recognise that the current way of lending just doesn’t work for people or the planet. Our broken financial system must move on from colonialist, 20th-century thinking if it’s going to serve everyone fairly.”
IIED, a nonprofit based in the United Kingdom, looked at the likelihood of debt-for-nature exchanges in some of the 49 developing countries most vulnerable to defaulting on external debts, according to available data.
Estimates from the World Bank and International Monetary Fund (IMF) were used as the basis for the analysis, reported Reuters. The figures showed that the countries owed a total of $431 billion to the IMF, wealthier nations and hedge and pension funds.
Countries that could benefit from the debt-for-nature exchanges included Sri Lanka, Pakistan and The Gambia, which Kelly said was at “huge risk” of rising sea levels and needed to invest in wetland preservation and flood prevention.
When an agreement is reached between a nation and its creditors, part of the debt owed can be forgiven in exchange for reaching “specific, measurable and traceable” results in nature or climate projects, IIED said.
24 notes
·
View notes
Text
A bookworm and her finance bro older brother.
Meet the Sharma siblings, Rahul and Rima. I wanted to make some more ethnically diverse sims for my game. Ethnic wise, these two were inspired based upon South Asia, specifically India and Pakistan. Below are their download links if you're interested in adding them in game. Feel free to change them to fit your sim style, or use them as townie’s for your saves or to populate worlds.
Also, credits and much love to all the CC creators whose custom content was used 💞.
Download Rima here.
Rima is an aspiring journalist and self-proclaimed author pursuing a degree in Communications. While socializing isn't really her thing and she can be a bit clumsy, she has a creative heart of gold. Although she hasn't had any real life romances, she definitely has a few book-tok lovers somewhere on her bookshelf...
Download Rahul here.
Rahul is a typical finance bro. He spent his years at university investing his parents money, arguing over stocks and drafting up business plans. Graduating with honors in business, he plans to become a CEO of a mega-corporation somewhere in Bridgeport. Though he'll always make time to be there for his little sister.
Sidenote: Only their everyday looks have Custom Content. Every other outfit used packs and base game.
They may appear slightly different in your game due to my personal gshade preset, lightning mod, default eyes and skin and slider. My slider settings are set to 2 for facial and 1 for body, below are some links of my sliders and skin I used on the siblings.
My sliders are all from OneEuroMutt found here.
My default eyes are from here by Brntwaffles.
My default skin is made by @nectar-cellar found here. Though for these specific sims I used a skin by Brntwaffles called Fresh Blue found here.
#Simdownload#Sim download#TS3 sim download#Mysims#Sims 3 sim#TS3#Sims 3 cas#Female sims#Sims 3 screenshots#sims 3 simblr#Male sims
14 notes
·
View notes
Text
We must understand the journey [...]. [T]he kings and queens of Europe [...] said that those Black or Brown or Indigenous [...], they could be exploited. [...] In the case of the UK, [...] [i]t was the profits of slavery, slave products which built the universities, that financed the inventions, the canals, the banks like Barclays Bank, the Bank of England [...] to send wealth back to the North. [...]. So [...] what it does is it creates the world as we know it, and then [...] the anti-colonial struggles of the forties, fifties and sixties begin to challenge it. [...] So no longer did you need guns and rifles and gunboats. You could control economies by the power of [...] trade rules [...]. And we see that today with unsustainable debt repayments, [...] corporations taking profits out of the Global South and bringing it back to the banks and corporations in the Global North. So in reality, this logic of racialized capitalism, colonialism, imperialism, is still apparent today. And it's the same logic. [...] [T]here has been an attempt, and it's been largely led by international institutions such as the World Bank and the IMF, to create a narrative that over the last 30, 40 years, that somehow because of development or globalization, we've seen a reduction in poverty and inequality in the Global South. This is the classic trickle-down. [...]
It's the fact that this is all legal. This is legally done.
We've created both a global tax system, a global trade system, and then a punitive system managed by institutions like the IMF and the World Bank and the WTO, which punishes countries if they challenge that logic, and if they, for example, decide to prioritize their own people. [...]
---
So in Pakistan, as we know, 33 million people have been displaced by a climate flood -- when they are responsible for less than 1% of global emissions. [...] But Pakistan, for every 100 that the Government raises in tax revenue, it pays 83 of those [...] back out in debt repayments.
And what you've seen increasingly is country after country being trapped in this cycle of needing to beg for more debt-creating loans to pay the last debt-creating loans, and each of those loans coming with conditions.
Recently, Sri Lanka was unable to pay its debt. There have been huge protests on the streets of Sri Lanka, by movements, as people were unable to afford food, even kerosene to cook with [...]. People were unable to get to the hospital. The government was telling people to eat less, not to eat three meals a day. [There was] a huge uprising of people and the government that was in power fled; the new government, which was imposed in Sri Lanka, went to the IMF and said, we want to negotiate restructuring our loan, because once you default on your loan, the way our economic system is set up, you will be punished. Because every bank, every corporation, wants their debt repayments. So people are forced to go back to the IMF.
And the IMF told Sri Lanka, we will give you another loan, if you do three things: you cut your public expenditure -- so the very money that you need on public services -- second, you weaken your labor laws -- [they] don't want unions being strong in [Sri Lanka] -- and thirdly, you have to privatize what's left of your utility. Which were operating for the interests of the Sri Lankan people. They want them now to be put onto the open market and, like many countries in the Global South, the main drivers of our economy, are actually not in the hands of either our governments or our peoples, they are still controlled by the same Western multinationals.
---
Now, if we had a picture, if we could show two maps, we could show a map of the colonial world and the influence of the different countries of Europe on the different parts of the world, and the commodities that were drawn from those countries, to feed back to supply chains, to feed consumption and the industrial processes in the Global North.
But if you did the same map right now, you'd see the exact same commodities flowing from the Global South to the Global North, because countries were forced to and [told,] you will provide and produce this commodity because we want it, not because it's needed by your people [...]. It’s because you will grow cotton, you will grow coffee, you’ll export oil [...].
---
All text above are words of Asad Rehman. As interviewed by Kamea Chayne. Transcript published as “Asad Rehman: The End of Imperialism in a Radical Green New Deal (Ep378).” An episode of the podcast Green Dreamer. 25 October 2022. [Bold emphasis and some paragraph breaks/contractions added by me.]
52 notes
·
View notes
Text
Today is World Wildlife Day, which means it's time for another of Grover's Educational Rambles!
WWD was established by the UN to "celebrate all the world's wild animals and plants and the contribution that they make to our lives and the health of the planet."
Usually I'd take the chance to rave about one of the 4660 odd species of rodent in the world, but this date was chosen because it's the birthday of CITES, the Convention on International Trade in Endangered Species of Wild Fauna and Flora, which is celebrating its 50th today!
"Grove." you say "Those are all definitely words but what do they mean, and why do I care about this?"
Well I would love to go over the Instagram word limit telling you all about that. (Sorry Ally!)
CITES is basically a global, legally binding system that defines the restrictions on the trade of plants and animals under threat. In 2023 it's obvious to us that something like this should exist, think of rhinos for example. But back in the 60's when the conversations that would eventually lead to CITES were happening, attitudes to conservation were very different.
Each country has their own native species protection laws, for example Australia varies state-to-state but in most of the country you can't collect or sell native bones at all without specific permits. Each country also has their own biosecurity protocols, for example in Australia we can export rats, but can't import them (not a bad thing, we lack several devastating diseases here that would make the rescue near impossible to run!)
But what about the conservation angle? What is it that makes selling a cowhide rug different to selling a tiger pelt? THAT'S what CITES is for. Parties (think countries, all but a handful) signed with CITES are legally bound to write policies around and enforce CITES regulations. There are three appendices covering species at different levels of risk.
Appendix 1 handles animals threatened with extinction, and prohibits trade except in exceptional circumstances. So for example, a Zoo maintains a red panda population in which it has a breeding and conservation program. One dies of old age, and it's deemed of no harm and noncommercial scientific interest for the national museum to prepare and display it as taxidermy. The Zoo has CITES paperwork to keep the animals, and paperwork is generated that must stay with the specimen permanently once it's in the museum.
Appendix 2 handles animals not threatened by extinction specifically but who need careful management to keep them from becoming so by unregulated trade. For example, you see a hippo skull for sale. You check if it has its CITES paperwork, so you can own it legally and be sure that it was legally obtained. The seller dodges your questions and turns out to be an illegal poacher, you report them to the authorities, huzzah the system works!
Appendix 3 covers species that are protected in at least one country, which has asked other CITES Parties for assistance in controlling the trade. An example of this would be things like a specific species of goat, Capra hircus aegagrus, in which domestic specimens are non-CITES and free to sell and own, wild populations in their endemic location in Pakistan are protected by the CITES system, to prevent people from capturing them for their own use as livestock.
Basically, it's comprehensive and conservation focused, and is the framework that allows animal based trade and lifestyles to exist while protecting those that need it. It's not without criticism, for example being a negative list means that a species isn't protected until it's listed, rather than having a positive list, where species are protected by default until decided otherwise, but given that there are an estimated 6.5 million land species and 2.2 million in the ocean, I really do understand why it's done this way.
Happy birthday CITES, cheers to 50 years of defining trade restrictions based on conservation needs. We're grateful you exist!
- #Grover
37 notes
·
View notes
Text
’ہمیں اپنی معاشی حقیقت تسلیم کرنے کی ضرورت ہے‘
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ملک ڈیفالٹ نہیں ہو رہا، وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار نے واضح کیا ہے کہ حکومت بیرونی قرضوں کے معاملے پر مذاکرات کررہی ہے۔ اس سے ہمیں ان کے اس دلیرانہ دعوے پر حیرت ہوتی ہے کہ ملک قرضوں کی ادائیگیاں بروقت کرے گا۔ توقعات کے مطابق اسحٰق ڈار کی بجٹ تقریر کھوکھلے دعووں سے بھرپور تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس وقت جب ملک کو تاریخ کے بدترین بحران کا سام��ا ہے، ایسے میں انہوں نے عوام دوست یا مقبول بجٹ پیش کیا۔ تاہم بجٹ میں آنے والے معاشی بحران کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا۔ بجٹ پیش کرنے کے بعد ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار نے آئی ایم ایف کے سخت موقف کو جغرافیائی سیاست سے منسوب کیا۔ وہ ابھی تک یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے آئی ایم ایف ان پر اعتماد کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔ زیادہ تر اقتصادی ماہرین اتفاق کرتے ہیں کہ اس عوامی بجٹ میں سخت اصلاحاتی اقدامات نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے قرضے واپس لوٹانا مزید مشکل ہو جائے گا۔ یہ بجٹ ایک ایسی حکومت نے پیش کیا ہے جس کی آئینی مدت صرف 2 ماہ رہ گئی ہے لیکن اسحٰق ڈار اب بھی خوابوں کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ ووڈو اکنامکس پر ان کا یقین غیرمتزلزل ہے، اور ان کے اسی یقین نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
معروف ماہرِ معیشت اور پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر عاطف میاں نے پاکستان کی صورتحال کا سری لنکا اور گھانا سے موازنہ کیا ہے۔ یہ دونوں ایسے ممالک ہیں جو ڈیفالٹ ہو چکے ہیں۔ اس پر اسحٰق ڈار نے کافی سخت ردعمل دیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرض لوٹانے کی تاریخ کو ری شیڈول کرنے سے آخر کیا حاصل ہو گا۔ ہم ابھی باضابطہ طور پر ڈیفالٹ نہیں ہوئے لیکن ہم اس کے بہت قریب ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم آنے والی مشکلات سے نبردآزاما ہونے کے لیے تیار ہیں۔ جب کوئی حقیقت تسلیم کرنے سے انکاری ہوتا ہے تب زیادہ دشوار صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ ہمارے پاس ایسے بہت سے ممالک کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اس سے بھی بدتر مالیاتی حالات کا سامنا کیا لیکن پہلے اپنی مالی حالات کی حقیقت کو تسلیم کر کے اور پھر اپنی گرتی ہوئی معیشت کے حوالے سے سخت اصلاحاتی اقدامات کر کے، وہ اپنی مشکلات کو موقع میں بدلنے میں کامیاب ہوئے۔ مثال کے طور پر بھارت نے 1991ء میں اسی طرح کی صورت حال کا سامنا کیا تھا جب ملک میں زرِمبادلہ کے ذخائر ایک ارب 20 کروڑ ڈالرز سے بھی کم رہ گئے تھے اور بیرونی ادائیگیوں کے وعدوں کی وجہ سے ڈیفالٹ ہونے سے صرف چند ہفتوں کی دوری پر تھا۔
آئی ایم ایف نے اپنا قرض پروگرام معطل کر دیا اور عالمی بینک نے بھی تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ڈیفالٹ ہونے سے بچنے کے لیے حکومت نے متعدد اقدامات لیے جیسے اپنے سونے کے ذخائر کا بڑا حصہ بینک آف انگلیند اور یونین بینک آف سویٹزرلینڈ کو بطور ضمانت دیا ہو گا تاکہ قرضے کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے زرِمبادلہ حاصل کیا جاسکے۔ 1991ء میں بھارتی وزیرِ خزانہ من موہن سنگھ کی جانب سے کی جانے والی بجٹ تقریر یادگار ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم نے جس طویل اور دشوار سفر کا آغاز کیا ہے اس میں آگے والی مشکلات کو میں کم نہیں کر سکتا۔ لیکن جیسا وکٹر ہوگو نے ایک بار کہا تھا ’زمین پر موجود کوئی بھی طاقت اس خیال کو نہیں روک سکتی جس کا وقت آچکا ہوتا ہے‘۔ ایک جانب وہ آنے والے چیلنجز سے خبردار کر رہے تھے جبکہ دوسری جانب وہ پُراعتماد تھے کہ سخت لیکن ضروری اصلاحات کر کے وہ بھارتی معیشت کی صورتحال کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد بھارت نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اس وقت کی بھارتی حکومت کی جانب سے لیے جانے والے اصلاحاتی اقدامات کی وجہ سے بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن کر ابھرا۔ حکومتیں تبدیل ہونے کے باوجود پالیسیوں پر عمل درآمد کو جاری رکھا گیا اور اسی نے بھارت کی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ہم بھی حالیہ بحران کو ایک موقع میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا۔ بدقسمتی سے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے اور معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے جن سخت اصلاحاتی اقدامات کی ضرورت ہے وہ اقدامات لینے کے حوالے سے نہ ہی حکومت پر عزم ہے اور نہ اس میں ایسے اقدامات لینے کی صلاحیت موجود ہے۔ بھارت نے ملک کو بحران سے باہر نکالنے کے لیے ماہرِ معیشت کی خدمات حاصل کیں جبکہ ہمارے ملک میں معیشت کا پہیہ ایک اکاؤنٹنٹ کے ہاتھ میں ہے جن کی واحد سند یہ ہے کہ ان کا تعلق ایک طاقتور حکمران جماعت سے ہے۔ ملک کو بگڑتی معیشت اور تیزی سے بڑھتی ہوئی افراطِ زر کے ذریعے جمود کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ بڑھتی ہوئی بےروزگاری کی وجہ سے سنگین معاشی اور سماجی مسائل نے جنم لیا ہے۔ سیاسی وجوہات کی بنا ہر سخت فیصلے لینے سے گریز کیا جارہا ہے، جس سے ملک کا مستقبل داؤ پر لگ رہا ہے۔ اسحٰق ڈار کا یہ دعویٰ کہ ملک ڈیفالٹ نہیں ہورہا، اس کھیل کی جانب اشارہ کرتا ہے جو معاشی انتظام کے نام پر کھیلا جارہا ہے۔
اسحٰق ڈار شاید معیشت کی موجودہ صورت حال کے پوری طرح ذمہ دار نہ ہوں، لیکن بحران کو حل کرنے میں ان کی نااہلی نے معاشی بحران کو مزید سنگین بنانے میں حصہ ضرور ڈالا ہے۔ عاطف میاں نے خبردار کیا ہے کہ ’پاکستان کی معیشت بحران سے تباہی کی طرف جارہی ہے جبکہ ملکی نظام بے قابو ہوتا جارہا ہے‘۔ عاطف میاں جنہیں آئی ایم ایف نے دنیا کے 25 ٹاپ نوجوان ماہرِ معیشت میں شامل کیا ہے، وہ اپنے حالیہ ٹوئٹس میں پی ڈی ایم حکومت کی بدانتظامی کو کچھ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ’اس حکومت نے کسی منصوبہ بندی کے بغیر مرکزی بینک کے گورنر کو تبدیل کر دیا، اپنے ہی تعینات کردہ وزیرِ خزانہ کے خلا�� ہو گئے اور آخر میں وزیرِاعظم کے قریبی رشتہ دار کو ان کی جگہ عہدے پر تعینات کر دیا۔۔۔ اہلیت جائے بھاڑ میں‘۔ ملک میں جاری سیاسی افراتفری اور اقتدار کے کھیل نے معاشی عدم استحکام میں اضافہ کیا ہے، اس صورت حال میں ایسا بجٹ دینے کی منطق سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس کے علاوہ بجٹ میں طے کیے جانے والے ریونیو اہداف کے حوالے سے بھی سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔
بہت سے ماہرِ معیشت اتفاق کرتے ہیں کہ یہ اہداف حقیقت کے منافی ہیں۔ ہمارے وزیرِخزانہ اعدادوشمار کے ساتھ کھیلنے کے پرانے کھلاڑی ہیں، یہ رویہ ملک کو مزید گہرے بحران میں دھکیل دے گا۔ ملک کو اس وقت ب��ان بازی کی نہیں بلکہ دلیرانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہیں ہوتے تو ان کے پاس اس حوالے سے پلان بی بھی موجود ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت میں بھی کسی کو اس خفیہ پلان کے حوالے سے علم نہیں ہے۔ اگر وزیرِ خزانہ کو یہ گمان ہے کہ وہ دوست ممالک سے پیسے حاصل کر سکتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ کوئی بھی ملک مفت میں پیسے دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو یہ عارضی طور پر معیشت کو سہارا دے گا لیکن معیشت کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی ساختی مسائل کا حل ثابت نہیں ہو گا۔ موجودہ صورتحال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بلخصوص وزیرِخزانہ کو پتا نہیں ہے کہ ملک کس جانب جارہا ہے۔ لوگوں کا نظام پر سے بھروسہ اُٹھ گیا ہے اور بھروسہ کھوکھلے وعدوں سے بحال بھی نہیں جاسکتا۔ وقت تیزی سے ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔
زاہد حسین یہ مضمون 14 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
پاکستان سری لنکا سے بدتر ہو چکا ؟
پاکستان کی معیشت کے حالات سری لنکا سے بھی بُرے ہو چکے لیکن ہماری لڑائیاں اور ہماری سیاست ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ امریکی جریدے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان مہنگائی میں سری لنکا سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نہ صرف پاکستان میں مہنگائی کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہے بلکہ پاکستان کی کرنسی سری لنکا سے کمزور اور غذائی اشیاء بھی اُس ملک سے مہنگی ہیں جو ڈیفالٹ کر چکا اور جس کی مثالیں دے دے کر ہمارے حکمراں بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستان کو سری لنکا نہیں بننے دیں گے اور یہ کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 1964 کے بعد سب سے زیادہ ہے یعنی مہنگائی نے 58 سالہ ریکارڈ توڑ دیا۔ یعنی پاکستان کے معاشی حالات ڈیفالٹ سے پہلے ہی اتنے بُرے ہو چکے ہیں کہ ہم نے سری لنکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یاد رہے کہ ابھی تک آئی ایم ایف سے ڈیل نہیں ہو سکی۔ یہ ڈیل کب ہو گی اس بارے میں بھی کسی کو کوئی خبر نہیں۔ حکومت کئی بار کہہ چکی کہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط مکمل کر چکی لیکن ڈیل پھر بھی نہیں ہو رہی اور نئی سے نئی شرائط سامنے آ رہی ہیں۔
اب تو یہ کہا جا رہا ہے کہ اگلے سال کے بجٹ کی تیاری پر آئی ایم ایف کی نظر ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اگلا بجٹ اُس کی شرائط کے مطابق ہو۔ گویا آئی ایم ایف ڈیل کے متعلق صورتحال اب بھی گو مگو کی ہے اور اگر پاکستان خدانخواستہ ڈیفالٹ کر جاتا ہے تو پھر اندازہ لگا لیں کہ ہمارے حالات کس قدر تشویش ناک ہو سکتے ہیں۔ مہنگائی جو پہلے ہی بہت زیادہ بڑھ چکی اور ��وام کا حال بہت خراب ہو چکا، ڈیفالٹ کی صورت میں یہاں حالات کیسے ہو سکتے ہیں سوچ کر ہی بندہ خوفزدہ ہو جاتا ہے پی ڈی ایم جو بڑے دعوئوں کے ساتھ عمران خان کی حکومت ختم کر کے اقتدار میں آئی تھی وہ معیشت کو سنبھالنے میں مکمل ناکام ہو چکی اور مہنگائی تحریک انصاف کے دورسے بہت زیادہ بڑھ چکی۔ خیال تھا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر حکومت اور تحریک انصاف کے بیچ شروع ہونے والے مذاکرات سے کچھ بہتر نتیجہ نکلے گا لیکن افسوس ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔ حکمراں جلد الیکشن کرانے پر تیار نہیں تو تحریک انصاف ستمبر اکتوبر تک انتظار کرنے پرراضی نہیں۔
یہ سیاسی کشمکش دراصل اقتدار کی جنگ ہے اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ عوام اور پاکستان کے نام پر سیاست کرنے والوں کو معیشت کی کوئی فکر نہیں۔ ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ معیشت پر سب مل کر میثاق کر لیں، اس پر سیاست سے باز رہیں لیکن معیشت کیلئے یہ دونوں فریق کبھی ا کٹھے نہیں بیٹھے۔ بیٹھے ہیں تو الیکشن کی تاریخ کیلئے یعنی ایک فریق اقتدار سے کسی بھی حالت میں چمٹا رہنا چاہتا ہے تو دوسرا اُسے باہرنکالنے کے در پے ہے اور جلد از جلد خود اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کا خواہاں ہے۔ حکومتی اتحاد اور خصوصاً ن لیگ کی کوشش ہے کہ آئندہ سال کا بجٹ پیش کر کے عوام کیلئے کچھ نہ کچھ ریلیف کا اعلان کیا جائے۔ تحریک انصاف نہیں چاہتی کہ موجودہ حکومت آئندہ سال کا بجٹ پیش کرے۔ عمران خان اور اُن کے ساتھیوں کو خطرہ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ حکومت آئندہ الیکشن کی خاطر اپنے ووٹروں کو خوش کرنے کے لئے کوئی ایسا بجٹ پیش کر دے جو آئی ایم ایف کی شرائط کے خلاف ہو اور جس کی وجہ سے آئندہ آنے والی حکومت کیلئے مشکلات ہی مشکلات ہوں۔
تحریک انصاف کو امید ہے کہ آئندہ اُ ن کی حکومت ہو گی اسی لئے وہ مطالبہ کر رہی ہے کہ آئی ایم ایف کے مشورے سے بجٹ تیار کیا جائے۔ تحریک انصاف کو شاید ڈر ہے کہ پی ڈی ایم اُس کے ساتھ وہ کچھ نہ کر دے جو اپنی حکومت کے خاتمہ سے چند ہفتہ قبل عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوے عوام کو خوش کرنے کیلئے پٹرول اور ڈیزل سستا کر کے کیا تھا۔ اگر پی ڈی ایم اور ن لیگ وہی کرتے ہیں جو گزشتہ سال تحریک انصاف نے کیا تھا تو یہ دراصل پاکستان پر بڑا ظلم ہو گا، عوام سے زیادتی ہو گی۔ ایک دوسرے سے بدلہ لینے کا سوچنے کی بجائے میری حکومت اور تحریک انصاف سے درخواست ہے کہ آئندہ سال کے بجٹ کو دونوں فریق مل کر پاکستان کیلئے، ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے اور معیشت کو ٹھوس بنیادیں فراہم کرنےکیلئے تیار کریں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
بڑی تباہی کی چھوٹی چھوٹی داستانیں
مہنگائی کا آدم خور بوتل سے باہر نکل کر عوام کو نگل رہا ہے۔ غریب خودکشیاں کر رہے ہیں، مائیں بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھتی ہیں تو انہیں زہر کھلا کر ابدی نیند سلا رہی ہیں۔ عوام آٹے کے ایک تھیلے کیلئے پاؤں تلے روندے جارہے ہیں۔ حکمرانوں کی آنیوں جانیوں پر مزید لاکھوں ڈالر لٹائے جارہے ہیں۔ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے۔ ڈالر قومی خزانے سے منہ موڑ گیا اورہمارے حکمراں ہیں کہ ان کی شاہ خرچیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں عوام پس رہے ہیں کوئی اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کو تیار نہیں، اُلٹا عوام کی ہی منجی ٹھونکی جارہی ہے۔ اپنے لوگ روٹی کو ترس رہے ہیں اور افغانی، آٹا مافیا کے گٹھ جوڑ سے ایک ہی دن میں پاکستان سے چھ لاکھ ٹن گندم بارڈر پار لے گئے لیکن کسی نے بارڈر سیکورٹی، کسٹم حکام اور اسمگلروں کا گریبان نہیں پکڑا کہ آخر اپنے لوگوں کو بھوکا مار کر افغانیوں کا پیٹ کیو ں بھرا جارہا ہے؟ یہ افغانی ہمیں بھوک سے بھی ماررہے ہیں اور دہشت گردی سے بھی اور آنکھیں بھی ہمیں ہی دکھا رہے ہیں۔ پشاور میں ایک روٹی 30 روپے کی ہو گئی، خیبر پختونخوا حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ گندم پر سیاست کی جارہی ہے۔ خیبرپختونخوا میں سیاسی سرپرستی میں نجی گودام گندم کی بوریوں سے بھرے پڑے ہیں اور لوگ آٹے کی خاطر سڑکوں پر خوار ہو رہے ہیں۔ یہی صورت حال بلوچستان کی ہے۔ بھوک گھروں کے ساتھ ساتھ صوبوں کے درمیان نفرتیں پیدا کر رہی ہے۔ اگرچہ مہنگائی کا تمام ملبہ وفاق میں اتحادی حکومت پر ڈالا جارہا ہے۔ یقیناً وفاقی حکومت قصور وار ہو گی لیکن اٹھارہویں ترمیم کے بعد خوراک، تعلیم ، صحت کے معاملات صوبوں کے اختیار میں ہیں۔ انکے پاس وسائل بھی ہیں اور فیصلے کی قوت بھی اور وہ حالات کے مطابق اپنے عوام کو بہتر ریلیف دینے کی پوزیشن میں بھی ہیں لیکن یہاں صرف سیاست کھیلی جارہی ہے۔
کرپشن کی ہوش ربا داستانیں ایسی ہیں کہ ہم لکھتے جائیں، آپ پڑھتے جائیں، شرماتے جائیں۔ کہاں سے شروع کریں کہاں ختم، کوئی ایک ہو تو اس کا گریبان پکڑیں اور پوچھیں کہ آخر ان کا پیٹ کنواں ہے یا سمندر؟ باپ کا مال سمجھ کر قوم کا پیسہ لوٹ کر کھا رہے ہو اور ڈکار بھی نہیں لیتے۔ یہاں تو پوری کی پوری گنگا ہی میلی ہے۔ ان بدعنوانوں نے تو ہمیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔ آج گھر گھر مہنگائی کا ماتم ہے۔ لوگ اگلوں پچھلوں کو بددعائیں بھی دیتے ہیں اور آئندہ انہی کو ووٹ دینے کا پختہ ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ نونی ہوں، انصافی ہوں یا پپلیے سب کا کاں چٹا ہے۔ کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ آخر ہمیں اس دلدل میں کس نے اور کیوں دھکیلا، ان کے معدے اتنے طاقت ور ہیں کہ اربوں کھربوں کے منصوبے نگل گئے۔ سڑکیں کھا گئے، پل ڈکار گئے، بجلی پانی کے منصوبوں کو ایک ہی گھونٹ میں پی گئے۔ ان بد عنوانوں کو کبھی بدہضمی ہوتی ہے نہ ہی کوئی ہیضے سے مرتا ہے۔ یہ پہلے لوٹتے ہیں، ہمیں مقروض کرتے ہیں، پھر بھکاری بن کر آئی ایم ایف کے پاس مزید قرضے لینے پہنچ جاتے ہیں اور قومی اثاثے گروی رکھ کر واپس آتے ہیں۔ سعودی عرب جاتے ہیں تو اللہ ، رسول ﷺ کے نام پر ہاتھ پھیلاتے ہیں اور دعوے دار ہیں کہ ہم دنیا کی پہلی واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہیں، اس کے تحفظ کے لئے مزید کچھ دے دیں۔ چین جاتے ہیں تو سی پیک کے نام پر جھولی پھیلاتے ہیں۔ یواے ای کے حکمرانوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے مزدوروں نے آپ کے ملک کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ماضی کی لوٹ مار ایک طرف، دیوالیہ ہوتے ملک کی موجودہ پارلیمنٹ کا حال ملاحظہ فرمائیے کہ جہاں ہماری تقدیر کے فیصلوں کے نام پر قانون سازی کی جاتی ہے کہ گزشتہ سال جولائی میں پارلیمنٹ کے ایک گھوسٹ مشترکہ اجلاس کی آڑ میں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے بابوؤں سے اردلیوں تک نے سیشن الاؤنس اور ٹی اے ڈی اے کے نام پر کروڑوں روپے ڈکار لئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ ہوا کچھ یوں کہ مشترکہ سیشن کے اختتام پر اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کے بجائے آئندہ ماہ تک ملتوی کر دیا اور اس کے بعد تاریخ میں لگاتار توسیع کرتے رہے۔ سیکرٹریٹ افسروں اور ملازمین نے پہلے چھ ماہ میں اس مد میں کروڑوں روپے وصول کئے۔ لیکن جب معاملات بگڑے تو اے جی پی آر نے مزید بلوں اور الاؤنسز کی ادائیگی روک کر انکوائری شروع کر دی جبکہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سینیٹ ملازمین کو یہ کہہ کر اس سیشن کا الاؤنس دینے سے انکار کر دیا کہ جب مشترکہ اجلاس ہوا ہی نہیں تو الاؤنس کیوں دوں؟ پڑھتے جائیے شرماتے جائیے عرفان اطہر قاضی بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
"Bloomberg didn’t specify whether Spotify would default current subscribers to this plan so that their monthly costs wouldn’t change or if users would have to take steps to sign up for what would be marketed as a new plan. It also didn't mention if the basic plan would have additional drawbacks."
Spotify buying Findaway—then changing the ToS in order to steal wholesale from authors—certainly takes on a bit of a different tinge now, doesn't it.
The greed is endless. They'll continue chewing from both ends even as they choke.
3 notes
·
View notes
Text
5/25/23
Putin announced Russia would be sending nuclear weapons to Belarus. It would maintain control of them but they would be housed there. Yevgeny Prigozhin, leader of the Wagner mercenary group, announced they were withdrawing from Bakhmut following Russia's victory, and added 20K of his troops died in the battle.
Floridian Governor deSantis announced his candidacy for the 2024 presidential election. People have been talking about him running for president for so long, I hadn't realized he hadn't actually officially launched his campaign yet.
The announcement was streamed live on twitter but there were many technical difficulties, which people like to point out as Musk's failures after his takeover of the company. Musk has been vocalizing for a bit that he wants to step back from twitter to return focus on Tesla and SpaceX, and last month he announced a new CEO, Linda Yaccarino, head of advertising and partnerships at NBC.
I'm trying very hard to keep on top of the Pakistani elections but the situation keeps changing regularly. You may remember there's a big hubbub regarding former Pakistani Prime Minister, Imran Khan, who was ousted a year ago after a no-confidence vote. My general sense is the existing powers that be are trying everything to keep him from running again, from throwing antiterrorism or bribery charges at him. In the past week the government has considered banning his party altogether after there were clashes with police when they tried to arrest Khan or just protest in general. Thousands of members of his party have already been arrested and many high-profile leaders have resigned. It's a very tense situation. The backdrop to all this is Pakistan is running out of money and is on the edge of a default, trying to convince the IMF to bail it out.
US jobless claims rose slightly to 229K last week, and unemployment fell to 3.4% in April. GDP was 1.3% annualized rate in Q1.
The Supreme Court handed down a ruling limiting the EPA's ability to regulate wetlands under the terms of the Clean Water Act.
Richard Barnett, the man who was pictured putting his feet up on Pelosi's desk during the January 6th riot, was sentenced to 4.5 years.
I apologize, yesterday I forgot to mention the fire that killed 19 students was in Guyana. It's also come to light the student's phone was confiscated because she was texting her older boyfriend, who is now expected to be charged for statutory rape since she was under 16, so the entire situation is awful and terrible.
1) Politico, Guardian, WSJ 2) Miami Herald 3) NYT, Barrons 4) WSJ, Al Jazeera 5) Reuters 6) USA Today 7) Washington Post
15 notes
·
View notes