#چونڈہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
نذیر احمد سب انسپکٹر ٹریفک کے پرانی شکار گاہ پر پھندے، شہری چالان اور نذرانے دینے پر مجبور
نذیر احمد سب انسپکٹر ٹریفک کے پرانی شکار گاہ پر پھندے، شہری چالان اور نذرانے دینے پر مجبور
ظفروال(تحصیل رپورٹر، رانا علی رضا) رشوت دو چابی لو کا فارمولا۔ٹریفک پولیس کے سب انسپکٹر ��ذیر نے چونڈہ روڈ نزد گرڈ اسٹیشن ظفروال میں اپنی پرانی شکارگاہ کو آباد کر لیا۔ٹریفک پولیس نذیر ایس آئی ہمراہ اپنے تین اہلکار وں نے ناکہ لگا کر عمر نامی ایک شہری کو روکا اور موٹر سائیکل سے چابی نکال لی۔عمر نے اپنا شناختی کارڈ اور ڈاکو منٹس چیک کروائے مگر پیسے کی حوس نذرانے کی طرف کھینچنے لگی۔ شہری چالان اور…
View On WordPress
#فوٹو سٹوڈیو#موٹر سائیکل#چونڈہ#چونڈہ روڈ نزد گرڈ اسٹیشن ظفروال#چالان#نذیر احمد سب انسپکٹر ٹریفک#نذرانے#وردی کا رعب#ٹریفک پولیس#اینٹی کرپشن#ایس آئی#ارباب اختیار#رشوت#سب انسپکٹر ٹریفک#شناختی کارڈ#ظفروال
0 notes
Text
مشقیں جوانوں کی جنگی صلاحیت بہتر بنانے میں مدد کرتی ہیں، آرمی چیف
مشقیں جوانوں کی جنگی صلاحیت بہتر بنانے میں مدد کرتی ہیں، آرمی چیف
راولپنڈی: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیالکوٹ میں چونڈہ کے قریب چوکی کا دورہ کیا، گوجرانوالہ کور کی وکٹری شیلڈ مشقوں کا مشاہدہ کیا اور کہا کہ مشقیں جوانوں کے اعتماد و ہم آہنگی اور جنگی صلاحیت بہتر بنانے میں مدد کرتی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیالکوٹ کے علاقے چونڈہ کے قریب چوکی کا دورہ کیا، ان کی آمد پر کور کمانڈر گوجرانوالہ لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر…
View On WordPress
0 notes
Text
مشقیں جوانوں کی جنگی صلاحیت بہتر بنانے میں مدد کرتی ہیں، آرمی چیف - اردو نیوز پیڈیا
مشقیں جوانوں کی جنگی صلاحیت بہتر بنانے میں مدد کرتی ہیں، آرمی چیف – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین راولپنڈی: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیالکوٹ میں چونڈہ کے قریب چوکی کا دورہ کیا، گوجرانوالہ کور کی وکٹری شیلڈ مشقوں کا مشاہدہ کیا اور کہا کہ مشقیں جوانوں کے اعتماد و ہم آہنگی اور جنگی صلاحیت بہتر بنانے میں مدد کرتی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیالکوٹ کے علاقے چونڈہ کے قریب چوکی کا دورہ کیا، ان کی آمد پر کور کمانڈر…
View On WordPress
0 notes
Text
یومِ دفاعِ پاکستان
یومِ دفاعِ پاکستان
ستمبر 1965ء کی جنگ کی وجہ مقبوضہ کشمیر کا تنازعہ تھی۔ اقوامِ متحدہ میں کشمیر میں استصواب رائے کا حق تسلیم کرنے کے باوجود بھارت ہمیشہ لیت ولعل سے کام لیتا رہا۔ اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ مودی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35-A کا خاتمہ کرکے کشمیر کو بھارت میں ضم کر لیا ہے جو کشمیر کی بین الاقوامی سطح پر متنازع حیثیت کے بالکل برعکس ہے۔ سات عشرے گزر چکے، وہ کون سا ظلم ہے جو بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں روا نہیں رکھا۔ حیرت تو اِس بات پر ہے کہ عالمی امن کے ٹھیکیداروں کے سامنے ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں لیکن اُن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یکم ستمبر کو حریت رَہنماء سیّد علی گیلانی خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اُن کے انتقال کے بعد بھی بھارتی فوج اتنی خوفزدہ تھی کہ اُن کے پاکستانی پرچم میں لپٹے جسدِخاکی کو زبردستی تحویل میں لینے کے بعد رات کے اندھیرے میں ہی تدفین کر دی گئی۔ جسدِخاکی کوزبردستی چھیننے پرفیض یاد آئے۔
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن، میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
کل یومِ دفاع ہے، وہ دن جب بھارت نے اپنی اندھی طاقت کے بَل پر لاہور کو فتح کرنے کی نیت سے رات کے اندھیرے میں تین اطراف سے حملہ کردیا۔ وہ دن جب افواجِ پاکستان نے اپنے سے پانچ گنا بڑی طاقت کو ناکوں چنے چبوائے۔ 6 سے 23 ستمبر 1965 کی 17 روزہ پاک بھارت جنگ میں افواجِ پاکستان کے جَری جوانوں نے عزم وہمت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔ اِس جنگ میں بھارت کے پاس 600 لڑاکا طیارے، 908 ٹینک، 755 توپیں اور 8 لاکھ 67 ہزار پیادہ فوج تھی۔ جبکہ پاکستان کے پاس 120 لڑاکا طیارے، 500 ٹینک، 550 توپیں اور صرف 2 لاکھ فوج۔ اپنے جدید آلاتِ حرب اور روس و امریکہ کی پُشت پناہی کے بَل پر بھارتی جرنیلوں کا خیال تھا کہ وہ صبح کا ناشتہ لاہور میں کریں گے اور شام کوجم خانہ کلب میں شراب کے جام لنڈھائیں گے۔اُن کا یہ پروگرام بھی تھا کہ اُسی دن بھارتی وزیرِاعظم لال بہادر شاستری کو مال روڈ پر گارڈ آف آنر پیش کیا جائے گا۔ وہ احمق نہیں جانتے تھے کہ ہتھیار نہیں جذبہ فتحِ مبیں کی خوشخبری دیتا ہے۔ پھر بھلا اُن جوانوں کو کون شکست دے سکتا تھا جن کا مطلوب ومقصود ہی شہادت ہو۔ بھارت نے اِس 17 روزہ جنگ میں لاہور پر 13 دنوں میں 11 حملے کیے اور ہر حملے کے بعد اپنے ”سورماؤں“ کی لاشیں چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریشہ دوانیوں کو
دیکھ کر پہلے آپریشن جبرالٹر اور بعد میں آپریشن گرینڈ سلام شروع کیا گیا۔آپریشن گرینڈ سلام کا مقصد اکھنور کی فتح تھی۔ اگر اکھنور فتح ہو جاتا تو بھارت کو کشمیر سے ملانے والے تمام راستے بند ہو جاتے۔ جب کشمیر کو بھارت سے کاٹنے کے لیے اکھنور کی جانب تیزی سے پیش قدمی جاری تھی تو اچانک اِسے روک کر آپریشن گرینڈ سلام کے خالق اختر حسین ملک کی جگہ میجر جنرل یحییٰ خاں کو آپریشن کی کمان دے دی گئی۔ کمان چھوڑنے کے بعد جنرل اختر ملک سیکرٹری اطلاعات سے ملے تو آبدیدہ ہو گئے اور کہا کہ میں اپنے بچوں کو کیا جواب دوں گا۔ کمان کی تبدیلی سے بھارت کو سنبھلنے کے لیے 36 گھنٹے مل گئے اور اکھنور کی فتح کا خواب ادھورا رہ گیا۔ جنگ کے بعد بھارتی جنرل گور بخش سنگھ نے اپنی کتاب میں لکھا ”��کھنور کی جانب پاکستانی پیش قدمی کا 36 گھنٹوں تک خود بخود رک جانا ہمارے لیے آسمانی مدد تھی“۔ آج تک اِس راز سے پردہ نہیں اُٹھایا جا سکا کہ اِس نازک مرحلے پر جنرل ایوب اور جنرل موسیٰ نے کمان کیوں تبدیل کی۔ یہ قصّہ ماضی کا ہے لیکن پھر بھی تاریخ کی درستی کے لیے نونہالانِ وطن کو اِس سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔
آمدم بَر سر مطلب 6 ستمبر کی صبح لاہور میں ناشتہ کرنے اور جم خانہ میں شراب پینے کے شوقین جب حملہ آور ہوئے تو اُن کا سامنا عزم وہمت کے پیکر میجر عزیزبھٹی سے ہوا جو اُس وقت لاہور کے سیکٹر انچارج تھے۔ میجر عزیزبھٹی 5 روز تک دشمن کے سامنے سدِ سکندری بن کے کھڑے رہے اور دشمن کو ایک انچ بھی آگے بڑھنے نہیں دیا۔ پانچویں روز وہ اپنا مطلوب ومقصود پا گئے کہ ایک مومن کی معراج شہادت۔ قوم میجر عزیز بھٹی شہید (نشانِ حیدر) کو کبھی بھلا نہیں پائے گی۔ صرف لاہور ہی نہیں، بھارت نے بیک وقت کئی محاذ کھولے جن میں چونڈہ بھی ایک تھاجہاں جنگِ عظیم دوم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ لڑی گئی۔ چونڈہ سیکٹر کو بھارتی ٹینکوں اور سورماؤں کا قبرستان بنا دیا۔چونڈہ کے محاذ پر 150 بھارتی ٹینک تباہ ہوئے۔
صرف افواجِ پاکستان ہی نہیں پوری قوم بھی دفاعِ وطن کے لیے یک جان ہو چکی تھی۔ لوگ فوجی جوانوں کو اشیائے خورونوش پہنچانے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے رہے تھے۔ خواتین اپنے زیور جنگ فنڈ میں جمع کروا رہی تھیں۔ محاذِ جنگ پر زخمی ہو جانے والے جوانوں کے لیے ہسپتالوں میں خون کے عطیات دینے والوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ بے خوفی کا یہ عالم تھا کہ لوگ فوجیوں کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے ڈنڈے لے کر محاذوں پر پہنچ گئے۔ جب ہمارے شاہیں لاہور کی فضاؤں میں دشمن کے جہازوں کو شکار کرنے کے لیے اُڑے تو لاہوریے چھتوں پرچڑھ کر ”بو کاٹا، بوکاٹا کے نعرے لگاتے رہے۔ حیرت ہے کہ اِس دوران کوئی چوری ہوئی، ڈاکہ پڑا نہ قتل ہوا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے صرف جرّی جوان ہی نہیں، پوری قوم جذبہئ شوقِ شہادت سے سرشار ہو۔
اِس 17 روزہ جنگ میں پاک فضائیہ نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ پاک فضائیہ کے سکوارڈن لیڈر ایم ایم عالم کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اُنہوں نے محض 30 سیکنڈ میں بھارت کے 4 ہنٹر طیارے مار گرائے اور اگلے 30 سیکنڈ میں 5 واں طیارہ بھی زمیں بوس کر دیا۔ ایک منٹ میں 5 ہنٹر طیاروں کو مار گرانے کا یہ ایسا عالمی ریکارڈ ہے جسے آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ایم ایم عالم نے جنگِ ستمبر میں کل 9 طیارے گرائے۔ جنگِ ستمبر کے موقع پر پاک فضائیہ نے ارضِ وطن کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے نہ صرف جانوں کی قربانیاں دیں بلکہ دشمن کی فضائیہ کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ 6 ستمبر کو ہی پاک فضائیہ نے بھارت کے فضائی اڈوں پٹھان کوٹ، اعظم پور اور ہلواڑہ پر بھرپور حملے کیے۔ صرف پٹھان کوٹ میں پاک فضائیہ نے بھارت کے 10 طیارے تباہ کیے اور بہت سے طیاروں کو نقصان پہنچایا۔ 17 روزہ جنگ میں زمین پر تباہ ہونے والے بھارتی طیاروں کی تعداد 43 تھی جبکہ 35 طیاروں کو فضامیں مار گرایا گیا اور 32 بھارتی طیارے پاکستانی طیارہ شکن توپوں کا نشانہ بنے۔۔ آزاد ذرائع کے مطابق پاک فضائیہ کے 20 اور بھارتی فضائیہ کے 110 طیارے تباہ ہوئے۔
اِس جنگ میں پاک بحریہ بھی پیچھے نہ رہی۔ پاکستان کے پاس اُس وقت صرف ایک آبدوز تھی۔ غازی نامی اِس آبدوز نے وہ کارنامہ سرانجام دیا جسے تاریخِ دفاع کا روشن چہرہ کہا جا سکتا ہے۔ 7 ستمبر کو غازی آبدوز نے بھارت کے ساحلی اڈے ”دوارکا“ کو تباہ کیا۔ دوارکا میں بھارتی بحریہ کا ریڈار اسٹیشن اور فضائی اڈہ بھی تھا جسے ساڑھے 4 منٹ کی مسلسل گولہ باری کرکے تباہ کر دیا گیا۔ دوارکا میں موجود ایک سیمنٹ فیکٹری بھی گولہ باری کی زد میں آکر راکھ کا ڈھیر بن گئی۔ دوارکا کی تباہی کے بعد بھارت کی بحری طاقت نیست ونابود ہوگئی۔ پاک بحریہ نے بھارت کے کئی تجارتی بحری بیڑوں کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا۔ جنگِ ستمبر میں جرّی جوانوں نے دشمن پر ایسی دھاک بٹھائی کہ بھارتی وزیرِاعظم لال بہادر شاستری ”شانتی شانتی“ کی دُہائیاں دینے لگا۔ 24 ستمبر کو جنگ بندی ہوئی اور پھر روس میں معروف ”معاہدہ تاشقند“ ہوا جو ایوب خاں کے زوال کا باعث بنا۔
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : 315458908831110, xfbml : true, version : "v2.12" ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/ur_PK/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, "script", "facebook-jssdk")); Source link
0 notes
Text
کیا بات ہے سیالکوٹ کی
بین الاقوامی شہرت یافتہ شہر سیالکوٹ ملک کے شمال مشرق میں پاک، بھارت کنٹرول لائن پر واقع ہے یہاں کئی بزرگان دین کے مزارات موجود ہیں جنہوں نے اس خطے میں لاکھوں انسانوں کو کلمۂ توحید پڑھایا۔ بتایا جاتا ہے کہ سیالکوٹ کی بنیاد 5 ہزار سال پہلے راجہ سالبان نامی حکمران نے رکھی تھی جس کی بناء پر اس کا نام سل کوٹ رکھا گیا تھا ہزاروں سال پرانا تاریخی شہر علامہ اقبالؒ، فیض احمد فیض ''پاکستان کا مطلب کیا‘‘ نعرے کے خالق پروفیسر اصغر سودائی کی جنم بھومی ہے۔ سیالکوٹ کو ایکسپورٹ سٹی بھی کہا جاتا ہے یہ کراچی، لاہور کے بعد ملک کا سب سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والا شہر ہے ایک اندازے کیمطابق سیالکوٹ کی سالانہ برآمدات اڑھائی ارب ڈالرز سے زیادہ ہیں اور سب سے زیادہ ٹیکسز اور ریونیو دینے والے شہروں میں سیالکوٹ تیسرے یا چوتھے نمبر پر ہے یہاں سٹیٹ بینک کی شاخ بھی قائم ہے۔
سیالکوٹ کی انڈسٹری سے نہ صرف قومی معیشت میں قابل قدر اضافہ ہوتا ہے بلکہ ان صنعتوں سے لاکھوں مزدوروں کا روزگار بھی وابستہ ہے۔ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے زیرانتظام کئی پراجیکٹ مکمل ہو چکے ہیں۔ سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئر پورٹ دنیا بھر میں پرائیویٹ سیکٹر کا واحد ایئر پورٹ ہے جہاں سے دنیا بھر کیلئے پروازیں ج��ری ہیں ۔ جذبۂ خدمت سے سرشار سیالکوٹ کے صنعتکاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت سڑکوں اور دیگر فلاحی منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کیے جن سے سیالکوٹ کے عوام کیساتھ دیگر اضلاع گجرات جہلم، گوجرانوالہ اور نارووال کے عوام بھی مستفید ہو رہے ہیں۔ دفاع وطن کیلئے بھی سیالکوٹ کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی سب بڑی ٹینکوں کی لڑائی سیالکوٹ میں چونڈہ کے مقام پر لڑی گئی تھی جب بھارت نے ستمبر 1965ء کی جنگ کے دوران رات کی تاریکی میں سیالکوٹ کی سرحد پر 500 ٹینکوں کیساتھ حملہ کر دیا۔
پاک فوج کے بہادر شیر جوانوں اور غیور عوام نے قوت ایمانی اور بہادری کے ایسے مظاہرے کیے جس کی دنیا میں مثال ملنا مشکل ہے ہمارے شیر جوانوں نے اپنے جسموں کیساتھ بم باندھے اور بھارتی ٹینکوں کیساتھ ٹکرا گئے اور آن کی آن میں سینکڑوں بھارتی ٹینکوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ۔ سیالکوٹ کی دھرتی پر لڑی جانے والی 17 دنوں کی یہ جنگ بھارت کی کو ہمیشہ یاد رہے گی کہ جس میں ایک نوزائیدہ ملک نے اپنے سے 10 گُنا طاقتور ملک کو ناکوں چنے چبوا دئیے تھے۔ اس جنگ میں پاک فوج اور عوام کی جرأت وبہادری کے اعتراف میں سیالکوٹ کو ہلالِ استقلال کے اعزاز سے نواز گیا تھا۔
چودھری عبدالقیوم
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
Text
#پاکستان کے #چوتھے #آرمی #چیف
#جرنل #موسی کی #مکمل #تاریخ
ایک#محب #وطن #عظیم #شخصیت
پاکستان آرمی کے سابق کمانڈر انچیف جنرل محمد موسی خان ہزارہ 20 اکتوبر 1908ء کو کوئیٹہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سردار یزدان بخش خان المعروف یزدان خان نے 1890ء میں امیر جابر عبدالرحمان خان کی ہزارہ نسل کشی کی پالیسی سے بچنے کے لئے اس وقت کی برٹش بلوچستان میں مہاجرت اختیار کی تھی۔ وہ ہزارہ پائینر میں نائب صوبیدار کے عہدہ پر تھے، جہاں سے وہ ایک داخلی چپقلیش کی بنا پر قبل از وقت ریٹائر ہوئے تھے۔ موسی خان ہزارہ نے میٹرک تک تعلیم سنڈیمن ہائی سکول میں حاصل کی۔ سردار یزدان خان کے تعلقات ہزارہ پائینر کے بانی جنرل جیکب سے بہت اچھے تھے، انہی کی سفارش پر نوجوان موسی خان نےسپاہی کی حیثیت 18 روپے ماہوار تنخواہ پر 1926ء میں ہزارہ پائنر میں شمولیت اختیار کی۔ ہزارہ پائنر بنیادی طور پر انجئیرنگ کور کا حصہ تھا جس کے ذمے مواصلات یعنی روڈ، ریلوے ٹریکس کی تعمیر و دیکھ بھال تھا۔ اس وقت ہزارہ پائنر ژوب میں تعینات تھا۔ نوجوان موسی خان کیلئے یہ سخت امتحان کا دور تھا کیونکہ اسے سخت ترین جسمانی مشقت جیسے بیلچہ،کدال، جبل کا کام کرکے پہاڑ کاٹنا پڑ رہا تھا۔ بقول ان کے اس وقت ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے تھے اور کام کے دوران خون رس رہا تھا لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔
1927ء میں ان کی شادی ان کی کزن خانم گل شاہ سے ہوئی۔ بالآخر 6 سال کی طویل محنت، مشقت اور انتظار کے بعد 1932ء میں موسی خان ھزارہ پہلے 40 مقامی انڈیئنز کے ساتھ برٹش آرمی آفیسرز رینک میں شامل ہوگئے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل مقامی لوگ صرف صوبیدار میجر کے عہدہ (نان کمیشنڈ آفیسر) تک ترقی کے حق دار تھے۔ ڈیرہ دھون ملٹری ایکیڈمی میں انکی تربیت ہوئی جہاں سے وہ 1935ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ 1941ء – 1938ء میں وہ دوسری عالمی جنگ کے دوران برما اور شمالی افریقی محاذ پر تعینات رہے۔ شمالی افریقہ کے محاذ پر اعلی عسکری صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے پر وہ “آرڈر آف دی برٹش ایمپائر” سے بھی نوازے گئے جو بہت کم ہندوس��انیوں کے حصے میں آئے۔ محمد موسی خان ہزارہ کی ترقی کے مدارج:
1937ء لیفٹینینٹ1941ء کیپٹن 1942ء میجر 1947ء لیفٹینینٹ کرنل 1948ء برگیڈیئر 1951ء میجر جنرل اور کمانڈر مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش)
1957 لیفٹینینٹ جنرل کے عہدے پر ترقی اور چیف آف اسٹاف مقرر
27 اکتوبر 1958ء کو فُل جرنل کے عہدے پر ترقی اور، پاکستان مسلح افواج کے کمانڈرانچیف مقرر ہوئے۔ اس طرح 1926ء میں ایک عام سپاہی کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز ہزارہ پائینر سے کرنے والے محمد موسی خان ہزارہ اپنی انتھک محنت، لگن اور استقامت سے 32 سال بعد دنیا کی پانچویں بڑی فوج کے سپاہ سالار کے اعلی ترین عہدے پر فائز ہوگئے۔
امپیریل ڈیفنس کالج لندن سیمت دنیا کی بہترین عسکری درسگاہوں سے فارغ التحصیل جنرل محمد موسی خان ہزارہ ایک خالص پیشہ ور آرمی سربراہ کی حیثیت سے اپنی فوج کی پیشہ ورانہ تربیت اور جنگی صلاحیتوں کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ جدید آلات حرب و ضرب کی خریداری پر خاصی توجہ دی جس کا ذکر انہوں نے تفصیل سے اپنی کتابوں “جوان ٹو جنرل” اور “مائی ورژن” میں کیا ھے۔ وہ خاص طور لیڈرشپ کوالٹی پر زیادہ زور دیتے تھے۔ بقول ان کے چاہے کوئی 10 سپاہیوں کی کمانڈ کررہے ہو یا پوری فوج کی ان میں قائدانہ صلاحیت اس حد تک ضروری ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں”۔ انکی یہ کاوشیں 1965ء کی پاک – بھارت جنگ کے دوران کام آئی جب پاکستانی افواج نے پانچ گنا بڑی حملہ آور بھارتی افواج کا مشرقی و مغربی پاکستان کی بری، بحری اور فضا میں ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ لاہور، سیالکوٹ اور چونڈہ میں دونوں ملکوں کی تاریخ کی بڑی لڑائیاں لڑی گئیں۔ خاص طور پراس میں چونڈہ کا محاذ اس وجہ زیادہ مشہور ہوا جہاں دونوں ملکوں کی طرف دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی ل��ی گئی جس میں بھارت کی طرف سے 225 ٹینک اور ڈیڑھ لاکھ آرمی کا مقابلہ پاکستان کے 150 ٹینک اور پچاس ہزار آرمی کررہی تھی۔ اس مشہور جنگ کے بارے میں خود جنرل موسی خان نے ایک محفل کے دوران بتایا کہ “وہ قیامت کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن اس دن چونڈہ کا محاذ ایک قیامت کا منظر پیش کررہا تھا۔ زمین میں سینکڑوں ٹینکیں گولے داغ رہے تھے جبکہ فضا سے جنگی جہاز آگ برسا رہے تھے۔ بقول ان کے اس وقت وہ ایک ہیلی کاپٹر سے اس ہولناک مناظر کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی فوج کی کمان بھی سنبھال رہے تھے”۔ یہ بات مشہورھے کہ بھارتی جنرل نے 6 ستمبر کی رات حملہ کرتے ہوئے دعوا کیا تھا کہ وہ ناشتہ لاہور جیم خانہ میں کریں گے جو ہمیشہ کیلئے شرمندہ تعبیر رہا۔ اسی لیے جنرل محمد موسی خان ہزارہ کو 1965ء کی جنگ کا ہیرو کہتے ہیں۔ وہ 8 سال اس منصب جلیلہ پر فائز رہ کر 17 ستمبر 1966ء کو ریٹائر ہونے کے بعد گورنر مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) مقرر ہوئے اور مارچ 1969ء تک وہ اس عہدے پر رہے۔ائز رہ کر 17 ستمبر 1966ء کو ریٹائر ہونے کے بعد گورنر مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) مقرر ہوئے اور مارچ 1969ء تک وہ اس عہدے پر رہے۔ ان کے بعد مرحوم کو کئی دفعہ سفارت کی پیشکش بھی ہوئیں لیکن انہوں نے قبول نہیں کی۔
6 جولائی 1985ء کے المناک سانحے کے دوران انھوں نے ہزارہ قوم اور جنرل ضیاء کی مارشل لائی حکومت کے درمیان تاریخی کردار ادا کیا جس کی بناء پر دسمبر 1985ء میں گورنر بلوچستان مقرر ہوئے۔ وہ 12 مارچ 1992ء یعنی اپنی وفات تک اس عہدے پر فائز رہے جس کے دوران انھوں نے گڈ گورننس کی بہترین مثال قائم کی۔
جنرل محمد موسی خان ہزارہ کئی اعزازات سے بھی نوازے گئے جن میں ہلال امتیاز ملیٹری، ہلال جرات ملیٹری، ہلال قائداعظم سولئین، ہلال پاکستان سولئین شامل ہیں۔ وہ ہاکی کے بھی بہترین کھلاڑی تھے۔ ان کے نام سے آل پاکستان جنرل موسی خان ٹورنامینٹ کافی سالوں تک منعقد ہوتی رہی۔ خانم گل شاہ سے ان کے 6 بچے ہوئے۔ اسماعیل موسی (بچپن میں انتقال ہوا) ابراہیم موسی گالف کے اچھے کھلاڑی تھے (جوانی میں انتقال ھوا) حسن موسی اسکواش کے اچھے کھلاڑی اور ورلڈ سکواش فیڈریشن کے نائب صدر تھے ( کراچی میں مذہبی دہشتگردی کا نشانہ بنے)، عذرا موسی جنکی شادی ائرمارشل شربت علی چنگیزی سے ہوئی، مریم موسی جن کی شادی ڈاکٹر آغا انصار حسین سے ہوئی، اور زینب موسی جن کی شادی ونگ کمانڈر سکندرعلی سے ہوئی۔
جنرل محمد موسی خان ہزارہ اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے مالک سادہ مزاج، پاکیزہ سیرت، اورکرپشن سے پاک انسان تھے۔ بلوچستان گورنرشپ کے دوران اکثر بغیر باڈی گارڈ کوئٹہ شہر اور مضافات خاص طور ہزارہ قبرستان، اپنی مرحومہ بیگم کی قبر پر فاتحہ پڑھنے آیا کرتے تھے۔ لوگوں سے بڑی محبت سے ملتے۔ یقیناً وہ اپنے طرز کے ان گنے چنے حکمرانوں میں تھے جن کو پاکستان اور پاکستانی عوام سے محبت تھی۔ اقدار و روایات کے امین تھے۔ مرحوم برگیڈئر خادم حسین خان چنگیزی نے ایک دفعہ بتایا کہ “آرمی چیف بننے کے بعد جب جنرل موسی خان ہزارہ پہلی بار کوئٹہ آئے تو دیگر ہزارہ لوگوں کے علاوہ ان کے والد سردار یزدان خان (مرحوم) بھی ویلر چیئر پر آئے ہوئے تھے حالانکہ جنرل موسی خان نے ان کی پیرینہ سالی کے باعث ان کو نہ لانے کی تاکید کی تھی۔ جب انہیں اپنے والد کے آنے کا پتہ چلا تو تمام پروٹوکول کو نظرانداز کرتے ہوئے فوراً ان کے پاس پہنچے ادب سے جھک کر انکے ہاتھ کا بوسہ لیا، خیریت دریافت کی اور پھر استقبالیہ کی طرف چلے گئے۔ ان کے اس عمل سے حاضرین عش عش کر اٹھے اور مان گئے کہ موسی خان ہزارہ واقعی میں اس منصب جلیلہ کے لائق ہیں۔ ان کا ایک اور واقعہ بھی مشہور ھے گورنرشپ کے دوران ایک دن وہ ہدہ کی طرف نکل گئے۔ وہاں ایک بزرگ بلوچ کو دیکھا جو اکیلا گارے سے اپنے گھر کی چھت کی لیپائی کچھ اسطرح کررہا تھا کہ پہلے نیچے اتر کر بالٹی میں گھارا ڈالتا اور پھرچھت پر چڑھ کر بذریعہ رسی اوپر کھینچ لیتا اور لیپائی کرتا۔ جنرل موسی خان ہزارہ نے اپنے ڈرائیور حاجی نصراللہ کو گاڑی ایک کونے میں لگانے کو کہا اور خود اس بزرگ کی طرف چلے گئے۔ استسفار پر بزرگ نے بتایا کہ ان کا کوئی بیٹا نہیں اس لئے انہیں اکیلے یہ کام کرنا پڑ رہا ہے۔ اس پر گورنر موسی خان نے کہا “گھارا میں ڈالتا ھوں آپ اوپر اپنی لیپائی کریں اور آخر میں اپنا کارڈ بھی دیتے گئے”۔ کہتے ہیں کئی دنوں بعد اس بزرگ نے وہ کارڈ کسی پڑھے لکھے کو دکھایا تو سن کر یقین ہی نہیں ہوا کہ وہ مدد کرنے والا شخص کوئی اور نہیں خود گورنر بلوچستان جنرل محمد موسی خان ہزارہ تھے۔ بعد میں وہ کارڈ لیکر گورنر ہاوس گیا اور حسب ضرورت امداد بھی ملی۔ اتفاق جنرل اسٹور کے سجاد علی بتاتے تھے کہ موسی خان ہزارہ کے دور میں گورنر ہاؤس کے بندے ایک پیکیٹ مصالہ کی بھی رسید ضرور لے کر جاتے۔ مرحوم ہرسال کروڑوں روپے قومی خزانے میں واپس کراتے۔ یہ روایت عرصے سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے سے مفقود ہے۔
مزید طوالت سے بچنے کیلئے ایک آخری نکتے کا ذکر کرکے مضمون کا اختتام کرتے ہیں اور وہ ان کے جسد خاکی کی ایران منتقلی ہے۔ میرے خیال میں برصغیر پاک و ہند کے شیعہ و سنی دونوں کے ایک طبقے میں یہ ایک طرح رواج سا پڑگیا تھا کہ وہ عقیدتی بنیادوں پر مذہبی شہروں جیسے بقیع، نجف، کربلا، بغداد وغیرہ میں مدفون ہونا چاہتے تھے۔ چونکہ صدر صدام حسین کے دور کے عراق میں ایسا ممکن نہ تھا سو جنرل موسی خان ہزارہ نے مشہد میں روضہ امام رضا سے متصل قبرستان میں مدفون ہونے کو ایک متبادل آپشن کے طورپر چنا ورنہ قرائین بتاتے ہیں کہ ان کی پہلی ترجیح نجف اشرف ہی تھی جوکہ ان کا ذاتی اور عقیدتی فیصلہ تھا۔ حب الوطنی یا غیر حب الوطنی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ جنرل مرحوم اپنے عمل سے ثابت کرچکے تھے کہ وہ ایک نایاب ہیرا تھے الللہ پاک انھیں جنت میں اعلی مقام دے.
0 notes
Video
youtube
CITY 5 NEWS HD| DAILY NEWS UPDATE | چونڈہ کے معروف خواجہ سرا ارم کے ساتھ...
0 notes
Photo
ڈاکٹر ملک مدثر کو تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال پسرور کاDMS ایڈمن تعینات کردیا گیا۔ نمائندہ جی این سی چونڈہ پسرور محمد ریاض) ڈاکٹر ملک مدثر کو تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال پسرور کاDMS ایڈمن تعینات کردیا گیا۔
0 notes
Text
شرم و بے حیائی سب کوپیچھے چھوڑ دینے والا واقعہ، پولیس بھی شامل
سیالکوٹ (جی سی این رپورٹ) : سیالکوٹ میں دو لڑکوں نے آپس میں شادی کر لی۔ تفصیلات کے مطابق سیالکوٹ کے قصبہ چونڈہ میں شہریوں نے نو عمر لڑکوں کی آپس میں شادی کروادی ۔ نو عمر لڑکوں میں سے ایک لڑکے کو سرخ جوڑے میں ملبوس تو دوسرے کو گلے میں مالا پہنائی گئی۔ یہی نہیں بلکہ شادی کروانے والوں نے دونوں پر نوٹ بھی نچھاور کیے۔شہریوں نے بعد ازاں دونوں کو گدھے پر بٹھا کر بازاروں میں ان کی شادی کا پرچار بھی کیا۔ بازار میں خریداری کے لیے آئے افراد اس جوڑے اور شادی کی تقریب کو دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ملتان میں بھی لڑکوں کی آپس میں شادی کا ایک شرمناک واقعہ سامنے آیا تھا جہاں آر پی اور ملتان کی طرف سے تشکیل دی جانے والی ایس پی گلگشت شاہد نیاز، ڈی ایس پی جاوید طاہر مجید اور چار ایس ایچ اوز پر مشتمل ٹیم نے تھانہ الپہ کے علاقہ میں ایک کاسمیٹکس بنانے والی فیکرٹری کے فارم ہاؤس پر چھاپہ مار کر ایک لڑکے کی لڑکے سے شادی کی تقریب میں شریک غیر فطری فعل کے عادی درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا۔گرفتار ہونے والوں میں بعض خواجہ سرا، بعض عیاش مرد، اشتہاری، منشیات فروش اور شہر کے بدنام اوبا ش حضرات سمیت کئی سرکار اہلکار بھی شامل تھے۔جب کہ خوبرو لڑکے مجاہد کو پولیس نے دلہن کے روپ میں اسٹیج پر بیٹھے ہوئے گرفتار کیا۔ اس کا خاوند عامر علی ڈھلوں جو کہ ریڈ سے چند لمحے قبل بہاولپور سے آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے فارم ہاؤس کی طرف آنے والے راستے پر کھڑا تھا جو پولیس کو دیکھتے ہی فرار ہو گیا تھا۔گرفتاری کے بعد دلہن لکا روپ دھارے مجاہد کا کہنا تھا کہ شادی تو ہماری ایک دن پہلے ہوئی تھی آج تو ہمارا ولیمہ ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ ہمیں ولیمہ منعقد کرنے کی جے ٹی ٹی اہلکار نے بھاری قیمت لے کر اجازت دی تھی اور ہمیں یقین دہانی کروائی کہ وہ ہمیں ہر قسم کا تحفظ فراہم کرے گا۔ دلہن مجاہد کی یہ بات اس وقت درست ثابت ہوئی جب پولیس نے اسی اجتماع سے پولیس کا وائرلیس سیٹ ہاتھ میں پکڑے کونے میں بیٹھے اہلکار فخرکو دیکھا جو کہ سول ڈریس میں تھا،جس کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ ولیمہ کی اس تقریب میں شرکت کے لیے نہ صرف ملتان بلکہ دیگر اضلاع سے بھی درجنوں کی تعداد میں قیمتی گاڑیوں پر سوار افراد پہنچے تھے۔ Read the full article
0 notes
Photo
12 ستمبر تاریخ کے آئینے میں 1398ء افغانستان کے فرغانہ کے امیر تیمور لنگ نے اپنے 92 کمانڈروں کے ساتھ اٹک میں دریائے سندھ پار کر کے ہندوستان پر حملہ کیا۔ 1609ء ہنری ہڈسن نے ہڈسن ندی کی دریافت کی۔ 1624ء لندن میں دنیا کی پہلی آبدوز کا تجربہ کیا۔ 1683ء جنگ ویانا کا دوسرا اور فیصلہ کن دن، عثمانیوں کو شکست ہوئی۔ 1786ء لارڈ چارلس کارنوالس نے ہندوستان کے تیسرے گورنر جنرل اور کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالا۔ ( وہ 12 ستمبر 1786ء تا 28 اکتوبر 1793ء اور دوسری بار 30 جولائی 1805 تا 5 اکتوبر 1805ء اس عہدے پر رہے) 1846ء سوئٹزرلینڈ وفاقی ملک بنا۔ 1857ء وسطی امریکہ میں کیپ رومین کے ساحل پر زبردست طوفان میں 423 افراد ہلاک ہوئے۔ 1890ء ہرارے، روڈیسیا، کا قیام 1910ء دنیا کی اولین خاتون پولیس افسر ایلس اسٹینس ویلس نے لاس اینجلس میں اپنا عہدہ سنبھالا۔ 1934ء لتھوانیا، استونیا اور لاتیویا نے بالسٹک معاہدہ پر دستخط کئے۔ 1935ء امریکی شہری ہاورڈ ہیوز نے اپنے ڈیزائن کئے ہوئے طیارہ کو 21،567 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنا پہلا ریکارڈ بنایا۔ 1940ء فرانس میں 17 ہزار برس پرانی پینٹنگ سے آراستہ لیس کواکس گپھا کو دریافت کیا گیا۔ 1947ء بھارتی حکمرانوں اور کشمیر کے مہاراجہ کے درمیان الحاقِ کشمیر پر خفیہ سازش تیار ہوئی۔ 1948ء محمد علی جناح کی وفات کے اگلے ہی دن، ریاست حیدرآباد پر بھارتی فوج نے یلغار کر دی اور حیدرآباد کو بھارت میں زبردستی انضمام کرایا۔ 1956ء چوہدری محمد علی وزارت عظمیٰ پاکستان سے مستعفی ہو گئے اور حسین شہید سہروردی نے وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ حسین شہید سہروردی حسین شہید سہروردی 8 ستمبر 1893ءکو بنگال کے شہر مدنا پور میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل وہ سیاست میں ایک نمایاں مقام حاصل کرچکے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 1949ءمیں انہوں نے جناح عوامی لیگ کی بنیاد ڈالی جو بعد میں عوامی لیگ کے نام سے معروف ہوئی۔ 1950ءکی دہائی میں شروع شروع میں وہ قائد حزب اختلاف کے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1956ءمیں جب پاکستان کا آئین منظور ہوا تو وہ ان چند افراد میں شامل تھے جنہوں نے بعض اصولوں کی بنیاد پر اس آئین پر دستخط نہیں کیے تھے لیکن بعد ازاں وہ اسی آئین کے تحت 12ستمبر 1956ء کو ملک کے وزیر اعظم مقرر کیے گئے اور انہوں نے اس آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا۔ 1958ءمیں جب ایوب خان نے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تو سہروردی تن تنہا حزب اختلاف کی آواز بن گئے۔ حکومت نے ایبڈو کے کالے قانون کے تحت انہیں سیاسی طور پر نااہل قرار دینے کا مقدمہ چلایا مگر انہوں نے عدالت میں اپنے اوپر لگائے گئے ہر الزام کا بھرپور دفاع کیا اور حکومت کو اپنی فصاحت‘ بلاغت اور ذہانت و قابلیت سے زچ کیے رکھا۔ حکومت نے سہروردی کو ایبڈو کے قانون کے تحت سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دے دیا لیکن سہروردی نے اس چیلنج کو قبول کیا اور سیاسی طور پر مسلسل متحرک رہے۔ انہوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان‘ دونوں صوبوں کے طوفانی دورے کیے اور عوام کو مارشل لاءحکام کے عزائم سے آگاہ کیا۔ انہوں نے ایوب آمریت کے خلاف یہ جنگ تن تنہا لڑی۔ انہیں اس کا دکھ نہیں تھا کہ حکومت ان پر حملے کرکے ان سے ایبڈو کی پابندیاں منوانا چاہتی ہے بلکہ وہ دل گرفتہ اس بات سے تھے کہ سیاست دانوں کی اکثریت نے سیاسی جنگ میں ان کا ساتھ دینے سے پہلو تہی کرلیا تھا۔ 1963ءکے اوائل میں ان پر دل کا دورہ پڑا۔ وہ علاج کروانے کے لیے یورپ گئے اور پھر آرام کرنے کی غرض سے بیروت کے ایک ہوٹل میں مقیم تھے۔ 5 دسمبر 1963ءکو نصف شب کے قریب ان کی حالت اچانک خراب ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ انہیں کوئی طبی امداد پہنچائی جاسکتی وہ حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوٹل ہی میں دم توڑ گئے۔ سہروردی کی میت وطن واپس لائی گئی جہاں 8 دسمبر 1963ءکو انہیں شیر بنگال مولوی فضل الحق کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ 1959ء سوویت یونین نے چاند پر لونک دوم راکٹ بھیجا۔ 1965ء پاک بھارت جنگ میں افواج پاکستان نے چونڈہ (پسرور) کے محاذ پر ٹینکوں کا بڑا حملہ پسپا کر دیا دشمن کے ایک سو ستاسی ٹینک تباہ کر دیئے۔ 1966ء بھارتی تیراک مہر سین نے تیراکی کا ریکارڈ قائم کیا۔ 1968ء البانیہ خود کو وارسا معاہدہ سے الگ ہو گیا۔ 1974ء ایتھوپیا کے حکمراں ہیل سیلاسی کا فوج کے ہاتھوں تختہ پلٹا گیا۔ 1980ء ترکی میں فوجی حکومت نافذ ہوئی۔ 1984ء ایتھوپیا میں شوشلسٹ ری پبلک قائم ہوئی۔ 1990ء مشرقی اور مغربی جرمنی اور دوسری عالمی جنگ کے اتحادی ملکوں نے جرمنی کے اقتدار اعلیٰ اور اس کے بین الاقوامی درجہ کی بحالی کے لئے معاہدہ پر دستخط کئے۔ 1992ء مارک لی اور ان کی بیوی جان ڈیوس پہلے خلائی مسافر جوڑا بنے۔ 1999ء انڈونیشیا نے اقوام متحدہ کی امن بردار فوج کو تشدد کو روکنے میں مدد کے لئے مشرقی تیمور میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ 2002ء امریکہ نے اقوام متحدہ کی تعلیم، سائنس اور ثقافت سے متعلق تنظیم (یونیسکو) میں 17 سال بعد واپسی کرنے کا اعلان کیا۔ 2005ء اسرائیل نے غازہ پٹی سے سبھی فوجیوں کو ہٹانے کا کام شروع کیا۔ *ولادت* 1897ء آئرین جولیٹ کیوری، نوبل انعام یافتہ فرانسیسی کیمیا دان اور طبیعیات دان (وفات: 1956ء) 1913ء جیسی اوونز، امریکی کھلاڑی (وفات: 1980ء) 1914ء رئیس امروہوی پاکستانی شاعر اور ماہرِ نفسیات ( 12 ستمبر 1914ء اردو کے نامور شاعر اور ادیب رئیس امروہوی کی تاریخ پیدائش ہے۔ رئیس امروہوی کا اصل نام سید محمد مہدی تھا اور وہ امروہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد علامہ سید شفیق حسن ایلیا بھی ایک خوش گو شاعر اور عالم انسان تھے۔ رئیس امروہوی کی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا۔ قیام پاکستان سے قبل وہ امروہہ اور مراد آباد سے نکلنے والے کئی رسالوں سے وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور روزنامہ جنگ کراچی سے بطور قطعہ نگار اور کالم نگار وابستہ ہوگئے، اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی تا عمر جاری رہی۔ رئیس امروہوی کے شعری مجموعوں میں الف، پس غبار، حکایت نے، لالہ صحرا�� ملبوس بہار، آثار اور قطعات کے چار مجموعے شامل ہیں جبکہ نفسیات اور مابعدالطبیعات کے موضوعات پر ان کی نثری تصانیف کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہے۔ 22 ستمبر 1988ء کو رئیس امروہوی ایک نامعلوم قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔رئیس امروہوی کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ 1924ء ممتاز شیریں اردو نقاد، افسانہ نگار بمقام ہندو پور، برطانوی ہندوستانں ٭ اردو کی نامور نقاد‘ افسانہ نگار اور مترجم محترمہ ممتاز شیریں 12 ستمبر 1924ء کو ہندو پور (آندھراپردیش) میں پیدا ہوئی تھیں۔ ممتاز شیریں کے افسانوی مجموعوں میں اپنی نگریا‘ حدیث دیگراں اور میگھ ملہار شامل ہیں جب کہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے معیار اور منٹو نہ نوری نہ ناری کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ انہوں نے 1947ء کے فسادات کے موضوع پر لکھے گئے اردو کے نمائندہ افسانوں کا ایک انتخاب ظلمت نیم روز کے نام سے اور جان اسٹین بک کے مشہور دی پرل کا اردو ترجمہ درشہوار کے نام سے کیا تھا۔ وہ اردو کا معروف ادبی جریدہ نیا دور بھی شائع کرتی رہی تھیں۔ محترمہ ممتاز شیریں نے 11 مارچ 1973ء کو اسلام آباد میں وفات پائی اور اسلام آبادکے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئیں۔ 1948ء میکس واکر، آسٹریلوی کرکٹر اور ماہر تعمیرات 1949ء صابر ظفر، شاعر بمقام کہوٹہ، راولپنڈی 1956ء برائن روبساون، اسکاٹسی گلوکار، گیت نگار اور گٹارساز 1981ء جینیفر ہڈسن، امریکی گلوکارہ و اداکارہ *وفات 1965ء میجر راجہ عزیز بھٹی شہید (نشان حیدر)6 -اگست 1923ء کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد راجہ عبداللہ بھٹی اپنی ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یہ گھرانہ واپس لادیاں گجرات چلا آیا جو ان کا آبائی گائوں تھا۔ راجہ عزیز بھٹی قیام پاکستان کے بعد 21 جنوری 1948ء کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شامل ہوئے۔ 1950ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے ریگولر کورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں انہیں شہید ملت خان لیاقت علی خان نے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ شمشیر اعزازی اور نارمن گولڈ میڈل کے اعزاز سے نوازا پھر انہوں نے پنجاب رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور 1956ء میں ترقی کرتے کرتے میجر بن گئے۔ 6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کررہے تھے۔ اس کمپنی کے دو پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھے۔ میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کنارے پر متعین پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ان حالات میں جب کہ دشمن تابڑ توڑ حملے کررہا تھا اور اسے توپ خانے اور ٹینکوں کی پوری پوری امداد حاصل تھی۔ میجر عزیز بھٹی اور ان کے جوانوں نے آہنی عزم کے ساتھ لڑائی جاری رکھی اور اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے۔ 9 اور 10 ستمبر کی درمیانی رات کو دشمن نے اس سارے سیکٹر میں بھرپور حملے کے لیے اپنی ایک پوری بٹالین جھونک دی۔ میجر عزیز بھٹی کو اس صورتحال میں نہر کے اپنی طرف کے کنارے پر لوٹ آنے کا حکم دیا گیا مگر جب وہ لڑ بھڑ کر راستہ بناتے ہوئے نہر کے کنارے پہنچے تو دشمن اس مقام پر قبضہ کرچکا تھا تو انہوں نے ایک انتہائی سنگین حملے کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کو اس علاقے سے نکال باہر کیا اور پھر اس وقت تک دشمن کی زد میں کھڑے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ گئیں۔انہوں نے نہر کے اس کنارے پر کمپنی کو نئے سرے سے دفاع کے لیے منظم کیا۔ دشمن اپنے چھوٹے ہتھیاروں‘ ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ آگ برسا رہا تھا مگر راجہ عزیز بھٹی نہ صرف اس کے شدید دبائو کا سامنا کرتے رہے بلکہ اس کے حملے کا تابڑ توڑ جواب بھی دیتے رہے۔ اسی دوران دشمن کے ایک ٹینک کا گولہ ان پر آن لگا جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ اس دن 12 ستمبر 1965ء کی تاریخ تھی۔ 26 ستمبر 1965ء کو صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان نے پاک فوج کے 94 افسروں اور فوجیوں کو جنگ ستمبر میں بہادری کے نمایاں کارنامے انجام دینے پر مختلف تمغوں اور اعزازات سے نوازا۔ ان اعزازات میں سب سے بڑا تمغہ نشان حیدر تھا جو میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کو عطا کیا گیاتھا۔ راجہ عزیز بھٹی شہید یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے تیسرے سپوت تھے۔ 12 ستمبر 1986ء کو قائداعظم محمد علی جناح کے ڈرائیور اور پاکستان کے ممتاز فلمی اداکار محمد حنیف آزاد کراچی میں وفات پاگئے۔ محمد حنیف آزاد کا اصل نام محمد حنیف قریشی تھا اور وہ 16 اکتوبر 1916ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ 1935ء سے 1940ء تک انہوں نے قائداعظم کے ڈرائیور کے فرائض انجام دیئے۔ ان کے اس زمانے کے واقعات سعادت حسن منٹو نے میرا صاحب کے نام سے تحریر کئے تھے جو ان کے خاکوں کے مجموعے گنجے فرشتے میں شامل ہے۔ محمد حنیف آزاد نے جن فلموں میں کام کیا تھا ان میں پنّا، حق دار، ہیر رانجھا، انار کلی، سچائی، کندن، دو آنسو، دوپٹہ، گلنار اور قاتل کے نام سرفہرست تھے۔ 1981ء یوگینیو مونٹیل، نوبل انعام یافتہ اطالوی شاعر، مضمون نگار اور مترجم (پیدائش: 1896ء) 2009ء نارمن بورلاگ، نوبل انعام یافتہ زرعی سائنسدان (پیدائش: 1914ء) پاکستان کے مشہور کریکٹر ایکٹر کمال ایرانی کی تاریخ پیدائش 5 اگست 1932ءہے۔ کمال ایرانی کا اصل نام سید کمال الدین صفوی تھا اور وہ کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ سے اپنی فلمی زندگی کا آغاز کیا اور مجموعی طور پر 244 فلموں میں کام کیا۔ کمال ایرانی کی یادگار فلموں میں جاگ اٹھا انسان، جھک گیا آسمان، زرقا، مٹھی بھر چاول اور امرائوجان ادا کے نام سرفہرست ہیں۔ ان کی آخری فلم سندھی زبان میں بننے والی فلم ’’میران جمالی‘‘ تھی جو ان کی وفات کے چند ماہ بعد 9 مارچ 1990ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ 12 ستمبر 1989ء کو کمال ایرانی وفات پاگئے۔
0 notes
Text
چونڈہ کی لڑائی، جس نے بھارتی شکست پرمہر تصدیق ثبت کردی - اردو نیوز پیڈیا
چونڈہ کی لڑائی، جس نے بھارتی شکست پرمہر تصدیق ثبت کردی – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین چونڈہ کا محاذ اس لحاظ سے بہت منفرد اہمیت کا حامل ہے کہ چھپن سال گزرنے کے بعد بھی اس میدان جنگ کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ یہ وہ محاذ ہے۔ جہاں1965 ء میں دنیا کی دوسری بڑی ٹینکوں کی جنگ لڑی گئی۔ آج بھی قصبہ چونڈہ کے جوان ان ہی میدانوں میں سیر کرتے ہوئے اپنے بزرگوں سے جنگ کی ولولہ انگیز داستانیں سن کر اپنے خون کو گرماتے ہیں جہاں بھارتی اور پاکستانی افواج آٹھ روز تک ایک دوسرے سے…
View On WordPress
0 notes
Text
میرا شہر سیالکوٹ
سیالکوٹ، صوبہ پنجاب کا ایک اہم شہر ہے جو دریائے چناب کے کنارے واقع ہے۔ یہ شہر لاہور سے 125 کلومیٹر اور مقبوضہ جموں سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ پاکستان کا ایک اہم صنعتی شہر ہے جو کہ کافی مقدار میں برآمدی اشیا جیسا کہ سرجیکل، کھیلوں کا سامان، چمڑے کی مصنوعات اور کپڑا پیدا کرتا ہے۔ سیالکوٹ سے برآمدات کئی سو ملین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں۔ سیالکوٹ کو شہر اقبال بھی کہا جاتا ہے، عظیم مسلمان فلسفی شاعر، قانون دان اور مفکر علامہ محمد اقبالؒ بتاریخ 9 نومبر1877 سیالکوٹ ہی میں پیدا ہوئے۔ براعظم پاک وہندو کے قدیم ترین شہروں میں سیالکوٹ بھی شامل ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ شہر سات ہزار برس قبل آباد ہوا۔ جب یونانی فاتح ، سکندر اعظم ہندوستان وارد ہوا، تو اس نے 327 قبل مسیح میں سیالکوٹ پہ حملہ کیا۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ تب تک ساکلہ (سیالکوٹ) علاقے کا اہم شہر بن چکا تھا۔ سیالکوٹیوں نے یونانی فوج کا زبردست مقابلہ کیا۔ سکندر اعظم راجا پورس کے ہاتھیوں کی مدد ہی شہر پہ قابض ہو سکا۔ سخت مقابلہ کرنے پر اسے سیالکوٹ کے شہریوں پہ اتنا زیادہ غصّہ تھا کہ اس شہر کو ہی ملیامیٹ کر ڈالا۔ یہ شہر بعد ازاں نئے سرے سے آباد ہوا۔ 1185ء میں شہاب الدین غوری نے اسے فتح کر کے اپنی اسلامی سلطنت میں شامل کر لیا۔
جب مغلیہ سلطنت کو زوال آیا، تو شہر پر مختلف افراد کی حکومت رہی۔ چالیس سال تک سکھوں کے قبضے میں بھی رہا۔ پھر انگریز آ پہنچے۔ جنگ آزادی 1857ء میں سیالکوٹیوں نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ ماہ جولائی میں وہاں تعینات مسلم سپاہ اور عوام آزادی کا اعلان کر کے دہلی کی سمت مارچ کرنے لگے ۔راستے میں دریائے راوی کے تریموں گھاٹ پر جنرل جان نکلسن کی فوج نے بہت سوں کو شہید کر دیا۔ بعد ازاں باشندگان ِسیالکوٹ نے تحریک آزادی پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1965ء کی جنگ میں خطہ زبردست لڑائی کا مرکز رہا۔ چونڈہ کی لڑائی کو عالمی شہرت ملی۔
دوران جنگ اہل سیالکوٹ نے بے مثال جرأت و دلیری کا مظاہرہ کیا اسی لیے حکومت نے شہریوں کو ’’ہلال استقلال‘‘ سے نوازا۔ سیالکوٹ میں شعبہ صنعت و تجارت کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ مغلیہ دور میں یہاں کے ہنرمند عمدہ تلواریں و خنجر بناتے تھے۔ ہندوستان بھر میں ’’سیالکوٹی اینٹوں‘‘ نے شہرت پائی جن سے کئی قلعے و عمارات تعمیر ہوئیں۔ آج کل سامان سپورٹس کے علاوہ سیالکوٹ میں آلات ِسرجری، فرنیچر، برتن ، ٹائر ٹیوب وغیرہ بھی بنتے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ کے بعد سیالکوٹ ایک بڑا صنعتی مرکز ہے۔ شہر میں بیشتر خوشحال و تعلیم یافتہ لوگ بھی آباد ہیں۔ معیار زندگی بلند ہے۔ یہ ایک پر امن شہر ہے۔
0 notes
Video
instagram
ہمیں کون انصاف دے گا ورثاء کی دوہائی ۔۔۔۔ https://youtu.be/PfTPwXcfawA چونڈہ /زمین کے تنازع پرفائرنگ22سالہ نوجوان قتل چونڈہ .. پسرورکےنواح خانپورسیداں میں زمیں کے تنازع پرفائرنگ, چونڈہ .. فائرنگ سے 22سالہ نوجوان تنویربھٹی موقع پرہی جان بحق , محمد قدیر ۔محمد سلیمان ۔محمد شبیر شدید زخمی مقتول کے 3بھائیوں سمیت 4افرادزخمی چونڈہ .. ڈی ایس پی پسروراورتھانہ پھلورہ پولیس کی بھاری نفری موقع پرموجود چونڈہ .. پولیس نےمقتول کی نعش کو پوسٹمارٹم کے لیے ہسپتال منقتل کردیا یے https://www.instagram.com/p/B3ssaWOH20q/?igshid=x2cuwaos63uh
0 notes
Video
youtube
| DAILY NEWS UPDATE | CITY 5 NEWS HDپنجاب سکول سسٹم چونڈہ میں جہ��ں اینو...
پنجاب سکول سسٹم چونڈہ میں جہاں اینول کی تقریب کا شاندار انعقاد کیا گیا پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت و نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا پنجاب سکول سسٹم چونڈہ کے ڈریکٹر حافظ میاں عظیم حیدر میاں جمیلمہمان خصوصی پروفیسر صدیق صاحب پنجاب کالج چونڈہ پروفیسر عثمان علی نے مدلل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بہترین تعلیم کے ساتھ بچوں کے والدین سے گزارش ہے کہ استازہ کے ساتھ مل کر بچوں کی بہترین تربیت بھی کی جائے تاکہ وہ اس معاشرے کا بہترین حصہ بن سکیں اس کے بعد سکول کے ہونہار بچوں نے مختلف نغمے اور ٹیبلو کے ساتھ ساتھ لاہور سے آنے والی ٹیم نے فنی ٹیبلو پیش کیے سلانہ امتحانات میں بہتر کارکردگی پانے والے بچوں میں گولڈ میڈل اور شیلڈز کی صورت میں انعامات تقسیم کیے گئے اس موقع پر چونڈہ کے معروف بزنس مین محترم جناب ظفر اقبال بٹ صاحب پروفیسر رضوان پروفیسر علی رضا ڈاکٹر تنویر الاسلام علی سلہری آف امریکا اور سماجی سیاسی شخصیات سمیت عوامی پریس کلب چونڈہ کے صحافیوں اور طالب علم کہ والدین کی کثیر تعداد نے شرکت کی مزید جانتے ہیں اپنے ڈویژنل بیروچیف گوجرانوالہ عصمت اللہ بٹ سے
0 notes
Photo
سول ہسپتال چونڈہ سے لوگوں کو جعلی میڈیکل رپورٹ بنواکردینے والا مرکزی ملزم گرفتار (نمائندہ جی این سی چونڈہ پسرور محمد ریاض) تفصیلات کے مطابق سول ہسپتال چونڈہ میں تقریباً 18 سالوں سے غیر قانونی ڈیوٹی دینے والا ذوالفقار عرف حیدری جو لوگوں کو …
0 notes
Text
65کی جنگ میں دشمن نے کتنے ٹینکوں کے ساتھ سیالکوٹ پر چڑھائی کی، پاک فوج کے جوانوں نے اس حملے کو کیسے ناکام بنایا؟
ستمبر1965ء کی جنگ کا سبب بھی ’’ مقبوضہ کشمیر تنازعہ‘‘ بنا۔ تقسیم ہند کے بعد سے ہی بھارت نے بین الاقوامی برادری کے سامنے کشمیر سے متعلق کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کی اور مسلسل ایسے اقدامات کیے جو کشمیر کی بین الاقوامی سطح پر متنازعہ حیثیت کے بالکل برعکس تھے۔ ایک طرف بھارت کا بین الاقوامی برادری کے سامنے کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے نندا کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد کی صورت وفاقی ڈھانچے میں ��امل کرکے بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینا اور پھر رن آف کچھ میں پاکستانی علاقے پربھارت کا حملہ، یہ تمام عوامل ایسے تھے جن کے باعث پاکستان کا جوابی رد عمل ہر صورت لازمی تھا۔ جارحیت کا ارتکاب رن آف کچھ میں پاکستان سے پنجہ آزمائی کے دوران منہ کی کھانے کے بعد بھارت نے فیصلہ کیا کہ پاکستان سے اس شکست کا بدلہ لیا جائے گا۔ 6ستمبر 1965ء کے روز بھارت نے رات کی تاریکی میں میجر جنرل نرنجن پرشاد کی قیادت میں پچیسویں ڈویژن ٹینکوں اور توپ خانے کی مدد سے لاہور پر 3 اطراف سے حملہ کر دیا۔ دشمن یہ سوچ کر پاکستان پر حملہ آور ہوا تھا کہ لاہور پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملانے کے لیے پہلے پہل اس کے لاہور کی جانب بڑھتے قدم روکنے تھے، جس کے لیے ستلج رینجرز کے نوجوانوں نے نہ صرف جان کے نذرانے پیش کیے بلکہ بی آر بی نہر کا پل تباہ کرکے دشمن کا لاہور میں پہنچنا ناممکن بنادیا گیا، اس تمام تر صورتحال کو یقینی بنانا کسی طور معجزے سے کم نہ تھا۔ چونڈہ، بھارتی ٹینکوں کا قبرستان تاریخ نویس ستمبر کی پاک بھارت جنگ کو دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ قرار دیتے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چُور بھارت نے پاک فوج کی توجہ لاہور محاذ سے ہٹانے کے لئے600 ٹینکوں اور ایک لاکھ فوج کے ساتھ سیالکوٹ میں چارواہ،باجرہ گڑھی اورنکھنال کے مقام پر حملہ کردیا۔ لیکن پاک فوج کے جوان اپنے جسموں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے اور چونڈہ کے محاذ کو دشمن کے ٹینکوں کا قبرستان بنادیا، سینکڑوں ٹینک ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ چونڈہ کے مقام پر پاک فوج کی قیادت جنرل ٹکا خان کررہے تھے، جنھوں نےہمت وبہادری اور شجاعت کے ذریعے نہ صرف سیالکوٹ کو بچایا بلکہ بھارتی کمانڈروں کی جانب سے پاکستان کی لائف لائن جی ٹی روڈ کو کاٹنے کی خواہش بھی ناکام بنا دی۔ پاک فضائیہ کا لازوال کردار دوسری جانب ملکی دفاع کے لیے پاک فضائیہ کا جذبہ بھی کسی طور کم نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ اس نے اس جنگ میں لازوال کردار ادا کیا ۔ پاک فضائیہ نے6ستمبرکو بھارت کے فضائی اڈوں پٹھان کوٹ، آدم پور اور ہلواڑہ پر بھر پور انداز میں حملے کئے۔ پٹھان کوٹ میں پاک فضائیہ نے بھارت کے دس طیارے تباہ کیے اور متعدد کو نقصان پہنچایا۔ 1965ء کی 17روزہ جنگ میں پاکستان نے مجموعی طور پر 35طیاروں کو فضااور 43کو زمین پر تباہ کیا جبکہ 32بھارتی طیاروں کو طیارہ شکن گنوں نے نشانہ بنایا۔ اس طرح مجمو عی طورپر بھارت کے 110طیارے تباہ ہو ئے اور پاکستان کے صرف 19طیارے اپنے ملک کے دفاع میں کام آئے۔ سمندری حدود کی حفاظت جنگ کے آغاز کے دوسرے دن 7ستمبر کو اپنے ساحل کے دفاع کے لیے پاک بحریہ کے جنگی جہاز حفاظتی گشت پر مامور تھے کہ اس دوران نیول ہیڈکوارٹرز کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا، جس میں ہدایت کی گئی کہ جتنی تیزی سے ممکن ہو جنوبی دوارکا سے مغرب میں 120میل کی طرف بڑھیں اور شام 6بجے تک پوزیشن سنبھال لیں۔دوارکا میں بھارتی بحریہ کا ریڈاراسٹیشن اورفضائی اڈہ تھا۔ پاک بحریہ نے دفاعی جنگ لڑنے کے بجائے جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا۔ ساڑھے چار منٹ تک مسلسل بمباری کرکے50،50راؤنڈز فائر کیے، مطلوبہ ہدف تباہ کیا اور دشمن کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا۔ اس کے علاوہ رن وے کو بھی مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا، جب کہ انفرااسٹرکچر اور سیمنٹ فیکٹری کو بھی راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ جنگ ستمبر میں دشمن کے مقابلے میں چھوٹے مگر غیور اور متحد ملک نے دشمن کے جنگی حملوں کا اس پامردی اور جانثاری سے مقابلہ کیا کہ اس کے سارے عزائم خاک میں مل گئے۔ اس جنگ میں جنگی سازو سامان کی کم تعداد کے باوجود پاکستانی افواج اور قوم نے اپنے جوش، ولولے اور جذبہ شہادت سے ثابت کیا کہ وہ اپنی مقدس سرزمین کے چپے چپے کا دفاع کرنے کی ہر ممکن صلاحیت رکھتی ہیں اور انشاءاللہ آئندہ بھی ہمیشہ رکھیں گی۔ Read the full article
0 notes